ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215013 / ڈاؤنلوڈ: 4958
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

سیف نے ''عبداللہ ابن سبا''کو جعل کرکے اسے سبائی ،صنعائی اور یمنی کہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ''عبداللہ ابن سبا''نے اسلامی ممالک کے تمام مراکز ،جیسے :شام،مصر،کوفہ اور بصرہ وغیرہ کا سفر کرکے ہر جگہ پر لوگوں کو وہاں کے گورنروں کے خلاف شورش اور بغاوت پر اکسایا اور آخر کار اپنے حامیوں اور پیرئووں کے ہمراہ مدینہ پہنچا اور خلیفہ عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور اس کے بعد انھیں قتل کر ڈالا ۔کچھ مدت کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب کی حکومت کے دوران جنگ جمل میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ ظاہر ہوا ۔جو جنگ خاندان مضر کے ایک معروف شخصیت کی حکمت عملی اور فہم و فراست کے نتیجہ میں صلح کے نزدیک پہنچ چکی تھی ،سبائیوں کی سازشوں اور براہ راست مداخلت سے ایک خونریز جنگ میں تبدیل ہوگئی ،جب کہ خاندان مضر کے سردار حضرت علی ،عائشہ ،طلحہ اور زبیر اس جنگ سے نہ راضی تھے اور نہ مطلع!!

سیف نے ''عبداللہ ابن سبا ''کا افسانہ اس لئے گڑھا ہے تا کہ یہ ثابت کرے کہ مضریوں کے پست اغراض کے سبب پیش آنے والی تمام دہشت گردیاں ،خون ریزیاں ،اختلافات اور برادر کشیاں اصل میں یمنیوں کی حرکتوں کانتیجہ ہیں اور قبیلہ مضر کے سردار اور بزرگ افراد جیسے ام المومنین عائشہ ،طلحہ ،زبیر،معاویہ،مروان اور ان ہی جیسے دسیوں افراد کا دامن ان رسوائیوں سے پاک و منزہ ہے،اور ان میں ایک فرد بھی اپنی پوری زندگی میں معمولی سی لغزش و خطا کا مرتکب بھی نہیں ہوا ہے اور یہ لوگ اتنے پاک و بے قصور ہیں جیسا یعقوب کے بیٹے کو پھاڑ کھانے والا بھیڑیا!

اس کے بر عکس خاندان مضر کے علاوہ دیگر نمایاں شخصیات،جنہوں نے ان تاریخی واقعات میں شرکت کی ہے،جیسے عمار یاسر و عبد الرحمٰن عدیس کہ دونوں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور قحطانی تھے ،یا مالک اشتر جو تابعین میں سے اور قحطانی تھے اور ان کے علاوہ دیگر قحطانیوں کو نہ صرف سیف نے تہمتوں سے بری نہیں رکھا ہے بلکہ انھیں تخریب کاریوں میں ملوث ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور انھیں ''عبداللہ ابن سبا''یہودی کا پیرو اور آلہ کار ثابت کرتا ہے ۔اس طرح سیف نے قبیلہ مضر کے سرداروں سے سرزد ہونے والے نا پسند اور مذموم واقعات کو اپنے افسانوں کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کی ہے ۔

۱۰۱

چہارم۔سیف کی تحریفات کی اقسام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر قبیلہ مضر کے کسی معروف اور مالدار شخص اور اسی قبیلہ کے کسی معمولی فرد کے درمیان کوئی اختلاف یا ٹکرائو پیدا ہوتا تو سیف اس قبیلہ کی معمولی فرد کو قبیلہ کی مجد و عظمت کے لئے قربان کرکے اسے پائمال کردیتا ہے ۔قبیلہ مضر کی مجد و عظمت کے تحفظ کے لئے سیف ہر قیمت پر دل و جان سے کوشش کرتا نظر آتا ہے اور اس سلسلے میں سیف سے پہلے قبیلہ مضر کے حکمراں اور صاحب قدر ت افراد کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے بعد اس قبیلہ کے سورمائوں ،شہسواروں اور سپہ سالاروں کے فخر و مباہات اور احترام کے تحفظ میں کسی قسم کی کسر باقی نہیں رکھتا ۔اس کا نمونہ خالد بن سعید اموی ( خاندان مضر کی ایک معمولی فرد ) اور خلیفہ وقت ابوبکر بن قحافہ ( قبیلہ مضر کا ایک با اقتداراور زبر دست حاکم ) کی داستان میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔ چوں کہ خالد مضری نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کرکے اس کے خلاف بغاوت کی ہے اس لئے سیف اس کی بھر پور مذمت اور سر زنش کرتا ہے اور اسے بدنام کرتا ہے اگر چہ خالد قبیلہ مضر کا ایک معروف شخص ہے لیکن خلیفہ کے مقابلہ میں ایک معمولی فرد ہے ۔ ١١

پنجم۔بعض اوقات سیف اس طرح بھی حقائق کی تحریف کرتا ہے کہ اگر ایک یمنی اور مضری کے درمیان کوئی واقعہ پیش آئے اور سیف نے اس کا عبداللہ ابن سبا کے افسانہ کے ذریعہ علاج نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے ایک افسانہ گڑھ لیتا ہے ۔اور اپنے مخصوص انداز سے یا جس طرح بھی ممکن ہو سکے اس قضیہ میں یمنی کی قدر ومنزلت کو پائمال کرکے مضری شخص کے مقام ومنزلت کو بلند کرکے پیش کرتاہے ۔اس کا نمونہ وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان مضری کے ذریعہ ابو موسیٰ اشعری یمانی کو معزول کرنے کے واقعہ میں مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔سیف نے اس داستان میں حتیٰ الامکان یہ کوشش کی ہے کہ ابو موسیٰ اشعری کے مقام ومنزلت کو گھٹا کر پیش کرے اور اس کی سابقہ خدمات سے چشم پوشی کرے اور اس کے مقابلہ میں مضری خلیفہ کی منزلت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور اس کا دفاع کرے۔ ١٢

۱۰۲

آخر میں سیف بن عمر تمیمی کے افسانوی اور جعلی کارناموں کو درج ذیل صورت میں خلاصہ کیا جاسکتاہے :

١۔ اس نے بالکل جھوٹ اور بہتان پر مشتمل اپنے افسانوں کو تاریخ اسلام کے طور پر مرتب کیاہے۔

٢۔ اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،تابعین ،حدیث نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شاعروں کے نام سے اسلام کی ایسے نام نہاد معروف اورمعتبر شخصیات جعل کی ہیں کہ حقیقت میں سیف کے افسانوں سے باہر ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا،کیونکہ ان کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔

٣۔ سیف کے گڑھے ہوئے افسانے ،اشخاص اور مقامات ایک خاص صورت وسبب کے تحت اسلامی مآخذ میں درج کئے گئے ہیں اور یہی اسلامی تاریخ اور اس کے حقائق کے اپنی اصلی راہ سے منحرف ہونے کاسبب بنے ہیں ۔اگلی فصل اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔

سیف سے حدیث نقل کرنے والے

مآخذ کی فہرست

وضع سیف تاریخاً کله اختلاق

سیف نے اسلام کی ایسی تاریخ گڑھی ہے جو سراسر جھوٹی ہے۔

(مؤلف)

سیف کی احادیث میں اس قدر واضح طور پر جھوٹ ،افسانہ سازی اور تحریفات کے باوجود (اور خود سیف بھی ان صفات سے مشہور تھا)اس کی جعلی احادیث نے اسلامی کتابوں میں خاصی جگہ پائی ہے اور نام نہاد معتبر اسلامی اسناد میں یہ احادیث درج ہوئی ہیں ۔ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ بڑے علماء نے بھی اس کے افسانوں اور جعلی احادیث کو اپنی کتابوں میں تفصیل سے درج کیاہے ۔ہم اس فصل میں اس تلخ اور حیرت انگیز حقیقت کی نشاندہی کرنے کے لئے سیف کی احادیث نقل کرنے والے علماء اور ان کی کتابوں کی فہرست قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :

۱۰۳

الف ۔وہ علماء جنھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی سوانح حیات لکھی ہیں اور سیف کے جعلی اصحاب کو بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے واقعی اصحاب کی فہرست میں درج کیاہے:

١۔البغوی وفات ٣١٧ ھ کتاب:معجم الصحابہ

٢۔ ابن قانع وفات ٣٥١ ھ کتاب : معجم الصحابہ

٣۔ابو علی ابن السکن وفات ٣٥٣ ھ کتاب:حروف الصحابہ

٤۔ ابن شاہین وفات ٣٨٥ ھ کتاب:معجم

٥۔ ابن مندہ وفات ٣٩٥ ھ کتاب:اسماء الصحابہ

٦۔ ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:فی معرفة الصحابہ

٧۔ ابن عبدالبر وفات ٤٦٣ ھ کتاب:استیعاب فی معرفة الاصحاب

٨۔ عبد الرحمن بن مندہ وفات ٤٧٠ ھ کتاب:التاریخ

٩۔ ابن فتحون وفات ٥١٩ ھ کتاب:التذییل علی الاستیعاب

١٠۔ابو موسیٰ وفات ٥٨١ ھ کتاب:علیٰ اسماء الاصحاب

١١۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:اسد الغابة فی معرفةالصحابہ

١٢۔الذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:تجرید اسماء الصحابہ

١٣۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:الاصابہ فی تمییز الصحابہ

۱۰۴

ب۔ درج ذیل علماء نے بھی حقیقی سپہ سالاروں اور ملک فتح کرنے والوں کے ساتھ ساتھ سیف کے افسانوی سور ماؤں کی زندگی کے حالات بھی قلم بند کئے ہیں :

١٤۔ابو زکریا وفات ٣٣٤ ھ کتاب:طبقات اھل موصل

١٥۔ابو الشیخ وفات ٣٦٩ ھ کتاب:تاریخ اصبہان

١٦۔حمزة بن یوسف وفات ٤٢٧ ھ کتاب:تاریخ جرجان

١٧۔ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:تاریخ اصبہان

١٨۔ابوبکر خطیب وفات ٤٦٣ ھ کتاب:تاریخ بغداد

١٩۔ابن عساکر وفات ٥٧١ ھ کتاب:تاریخ مدینہ دمشق

٢٠۔ابن بدران وفات ١٣٤٦ ھ کتاب:تہذیب تاریخ دمشق

ج۔سیف کے جعل کئے گئے شعراء کا درج ذیل کتاب میں تعارف کیا گیاہے:

٢١۔ مرزبانی وفات ٣٨٤ ھ کتاب:معجم الشعرائ

د۔ سیف کے جعلی سور ماؤں کے نام ان کتابوں میں بھی درج کئے گئے ہیں جو اسامی کے تلفظ میں غلطی کو دور کرنے کے لئے تالیف کی گئی ہیں ،جیسے:

٢٢۔دار قطنی وفات ٣٨٥ ھ کتاب:المختلف

٢٣۔ابو بکر خطیب وفات ٤٦٣ ھ کتاب:الموضح

٢٤۔ابن ماکولا وفات ٤٨٧ ھ کتاب:الاکمال

٢٥۔رشاطی وفات ٥٤٢ ھ کتاب:المؤتلف

٢٦۔ابن الدباغ وفات ٥٤٦ ھ کتاب:مشتبہ الاسماء

ھ۔سیف کی بعض ذہنی مخلوقات اور جعلی افراد کا شجرہ ٔنسب (جو خود سیف کی تخلیق ہے)درج ذیل کتابوں میں درج کیا گیاہے:

٢٧۔ابن حزم وفات ٤٥٦ ھ کتاب:الجمہرة فی النسب

٢٨۔سمعانی وفات ٥٦٢ ھ کتاب:الانساب

٢٩۔مقدسی وفات ٦٢٠ ھ کتاب:الاستبصار

٣٠۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:اللباب

۱۰۵

و۔سیف کے بعض جعلی راویوں کی سوانح حیات درج ذیل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے:

٣١۔رازی وفات ٣٢٧ ھ کتاب:الجرح والتعدیل

٣٢۔ذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:میزان الاعتدال

٣٣۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:لسان المیزان

ز۔سیف کے جعلی مقامات اور فرضی جگہوں کی تفصیلات درج ذیل کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں :

٣٤۔ابن الفقیہ وفات ٣٤٠ ھ کتاب:البلدان

٣٥۔حموی وفات ٦٢٦ ھ کتاب:معجم البلدان

٣٦۔حموی وفات ٦٢٦ ھ کتاب:المشترک لفظاً والمفترق صقعاً

٣٧۔عبد المؤمن وفات ٧٣٩ ھ کتاب:مراصد الاطلاع

٣٨۔حمیری ١ وفات ٩٠٠ ھ کتاب:الروض المعطار

ح۔جن کتابوں میں مخصوص طور سے اسلامی جنگوں کاذکر ہواہے،ان میں بھی سیف کی بعض جعلی روایتیں ذکر کی گئی ہیں ،جیسے درج ذیل کتابیں :

٣٩۔ابو مخنف وفات ١٥٧ ھ کتاب:کتاب:الجمل

٤٠۔نصر بن مزاحم وفات ٢١٢ ھ کتاب:الصفین

٤١۔شیخ مفید وفات ٤١٣ ھ کتاب:الجمل

٤٢۔ابن ابی بکر وفات ٨٤١ ھ کتاب:مقتل عثمان

____________________

١)۔ ابو عبد اللہ ، محمد بن عبد اللہ ملقب بہ حمیری کتاب ''الروض المطار فی اخبار الاقطار'' کامؤلف ہے۔اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں شیخ الاسلام کے کتاب خانہ میں موجود ہے۔اور مؤلف نے اس کا مطالعہ کیاہے۔

۱۰۶

ط۔سیف کی ''فتوح ''نامی کتاب، جو سرتاپا افسانہ ہے،کو درج ذیل معتبر اور وزنی تاریخی

کتابوں میں حقیقی سند کے طور پر درج کیاگیاہے:

٤٣۔ابن خیاط وفات ٢٤٠ ھ کتاب:تاریخ خلیفہ

٤٤۔بلاذری وفات ٢٧٩ ھ کتاب:فتوح البلدان

٤٥۔طبری وفات ٣١٠ ھ کتاب:تاریخ طبری

٤٦۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:تاریخ ابن اثیر

٤٧۔ذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:تاریخ ذھبی

٤٨۔ابن کثیر وفات ٧٧١ ھ کتاب:تاریخ ابن کثیر

٤٩۔ابن خلدون وفات ٨٠٨ ھ کتاب:تاریخ ابن خلدون

٥٠۔سیوطی وفات ٩١١ ھ کتاب:الخلفائ

ی۔مخصوص مواقع کے بارے میں جعل کئے گئے سیف کے افسانوں نے خصوصی موضوعات سے مربوط تألیف کی گئی درج ذیل کتابوں میں بھی راہ پائی ہے:

٥١۔ابن کلبی وفات ٢٠٤ ھ کتاب:انساب الخیل

٥٢۔ابن اعرابی وفات ٢٣١ ھ کتاب:اسماء الخیل

٥٣۔العسکری وفات ٣٩٥ ھ کتاب:الاوائل

٥٤۔غندجانی وفات ٤٢٨ ھ کتاب:اسماء خیل العرب

٥٥۔ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:دلائل النبوة

٥٦۔بلقینی وفات ٨٠٥ ھ کتاب:امر الخیل

٥٧۔قلقشندی وفات ٨٢١ ھ کتاب:نہایة الارب

۱۰۷

ک۔عربی زبان کی ادبی کتابوں میں بھی کافی مقدار میں ان افسانوں کو شامل کیا گیاہے،جیسے:

٥٨۔اصبہانی وفات ٣٥٦ ھ کتاب:الاغانی

٥٩۔ابن بدرون وفات ٥٦٠ ھ کتاب:ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح

ل۔لغت کی کتابیں بھی سیف کے افسانوں سے محروم نہیں رہی ہیں ،جیسے:

٦٠۔ابن منظور وفات ٧١١ ھ کتاب:لسان العرب

٦١۔زبیدی وفات ١٢٠٥ ھ کتاب:تاج العروس

م۔بہر حال جہاں کہیں بھی نظر ڈالیں اس مکار لومڑی کے نشان نظر آئیں گے،حتیٰ حدیث کی کتابوں میں بھی،جیسے:

٦٢۔ترمذی وفات ٢٧٩ ھ کتاب:صحیح ترمذی

٦٣۔النجیرمی وفات ٤٥١ ھ کتاب:اصل مسموعات

٦٤۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:فتح الباری

٦٥۔متقی ھندی وفات ٩٧٥ ھ کتاب:کنز العمال

ن۔اس کے بعد قدرتی بات ہے کہ بعض اوقات سیف کا نام جھوٹ بولنے والوں اور روایت جعل کرنے والوں کے عنوان سے ایسی کتابوں میں آئے جو اس قسم کے اشخاص کی شناخت کے لئے تالیف کی گئی ہیں ،جیسے:

٦٦۔عقیلی وفات ٣٢٢ ھ کتاب:الضعفائ

٦٧۔ابن جوزی وفات ٥٩٧ھ کتاب:الموضوعات

٦٨۔سیوطی وفات ٩١١ ھ کتاب:اللئالی المصنوعة

اس کے علاوہ متقدمین ،متاخرین ،مستشرقین اور مغربی اسلام شناسوں کی ہزاروں کتابیں سیف کے جعلیات سے بھری ہیں ۔

۱۰۸

احادیث سیف کی اشاعت کے اسباب

وضع سیف قصصاً تسایر مصالح السلطة فی کل عصر

سیف نے اپنے افسانوں کو ہر عہد کے حکام ظلم و جور کی مصلحتوں اور مفاد کے مطابق جعل کیا ہے۔

ہم نے گزشتہ فصل میں اسلامی اسناد و مأخذ کے ایک حصہ کی نشاندہی کی جس میں سیف کے افسانوں نے راہ پائی ہے ۔لیکن ان مأخذکے بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان تمام کتابوں اور رسائل کی فہرست بیان کریں جو کسی نہ کسی طرح سیف کے افسانوں سے متاثر ہوئے ہیں ،کیونکہ یہ ایک مشکل اور تقریباًناممکن کام ہے ،اور جو کچھ ہم نے اس سلسلہ میں بیان کیا ہے وہ سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ کے مانند ہے ،بلکہ اس کامقصد یہ ہے کہ مختلف اسلامی مآخذ میں سیف کی جعلی احادیث اور انسانوں کی وسعت کا نمونہ پیش کیاجائے جو علماء واہل تحقیق کی حیرت کا باعث ہواہے۔

اب سیف کی احادیث اور افسانوں کی اشاعت (اسے دروغ گو اور زندیق جاننے کے باوجود )اور علماء ودانشوروں کے اس پر اعتماد کرنے کے اسباب کاخلاصہ ذیل میں بیان کیاجاتاہے:

١۔خود سر حکام کے موافق ہونا

پہلا سبب یہ تھا کہ سیف نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس کے قصے اور افسانے ہر زمانے کے حکمراں طبقہ کے مفادات اور مصلحتوں کے موافق اور ہم آہنگ ہوں ۔حکمراں طبقہ کی طاقت وقدرت، مصلحتوں اور مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں سیف کی خاص توجہ کی بہترین اور واضح دلیل جنگ دارین میں علاء حضرمی کی داستان ہے۔اس واقعہ کے بارے میں سیف کی داستان سے قطع نظر اصل قضیہ یہ ہے:

۱۰۹

''جنگی سپاہیوں کا ایک گروہ علاء کے خوف سے قلعۂ دارین میں پناہ لیتا ہے۔اس قلعہ میں پناہ لینے والے سپاہیوں اور علاء کے درمیان پانی ہے جس کی وجہ سے علاء کے لئے قلعۂ دارین تک پہنچنے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔کرازالنکری نام کا ایک شخص علاء اور اس کے سپاہیوں کی اس سے عبور کرنے میں راہنمائی کرتاہے اور اس طرح دارین کا قلعہ علاء کے ہاتھوں فتح ہوتاہے'' ١

حقیقت میں پورا قضیہ یہی ہے جو چند سطروں میں خلاصہ ہوا۔لیکن سیف اپنی عادت کے مطابق اصل قضیہ میں تصرف وتبدیلی ایجاد کرکے اسے یوں نقل کرتاہے:

''میں نے جنگ دارین میں علاء کودیکھا کہ گھوڑے پر سوار ہوکے دریامیں اترا(یا چار ہزارسپاہیوں کے ساتھ دریا میں اترا)جب کہ نہ کسی اونٹ اور نہ کسی گھوڑے کے سم تک تر ہوئے ۔اس کے بعد وہ بحرین کی طرف بڑھا۔جب دہناء کے شورہ زار میں پہنچا ،تو علاء نے اس سرزمین پر خدا سے دعا مانگی،جس کے نتیجہ میں اس سرزمین سے پانی ابلنے لگا....وہاں سے آگے بڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ قافلہ کے ایک شخص کی کوئی چیز وہاں پر رہ گئی ہے۔اس لئے وہ شخص اس چیز کو اٹھانے کے لئے واپس لوٹا ، اس شخص نے اس جگہ پر اپنی چیز تو پالی لیکن وہاں پر پانی کا کوئی نام ونشاں موجود نہ تھا۔'' ٢

ابوہریرہ نے چھوٹی داستانوں کے بارے میں اپنے طریقہ کار کے مطابق علاء کے قصہ کو بھی نقل کیاہے۔چونکہ لوگوں میں اپنے اسلاف اور اجداد کی کرامتیں سننے کا بڑا شوق ہوتاہے ،اس لئے سیف کو اس میں کامیابی ہوتی تھی اور اس کی بیان کی ہوئی داستانیں اور روایتیں فوراً سینہ بہ سینہ نقل ہوکر پھیل جا تی تھیں ،ابوہریرہ کی نقل کی گئی یہ داستانیں مختلف طریقوں سے سیف کے زمانے تک رائج اور زبان زد خاص و عام تھیں اور جب غیر معمولی ذہن والے سیف کا زمانہ آیا تو اس نے مندرجہ بالا داستان کی خالی جگہوں کو پر کیا اور اس میں شاخ و برگ کا اضافہ کرکے اس کے لئے ایک سند بھی جعل کی اور اسے حسب ذیل صورت میں بیان کیا:

۱۱۰

'' علاء جب اپنے سپاہیوں کے ساتھ دہناء پہنچا تو وہاں پر اسے ایک صحرا اور اس میں دور دور تک ریت کے ٹیلے نظر آئے اور پانی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ،وہ اس صحرا میں کافی آگے تک بڑھا ،اس کے تمام اونٹ بار سمیت بھاگ گئے اس کے پاس نہ کوئی اونٹ باقی رہا نہ زاد راہ اور نہ پانی اس حالت میں سبوں کو اپنی ہلاک کا یقین پیدا ہو گیا اور ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے علاء اس غم و تشویش میں مبتلا لوگوں کی سرزنش اور ملامت کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ مجموعی طور پر ایک ایسی دعا کرنے پر مجبور کیا جس کا متن خود سیف نے نقل کیا تھا ۔اس دعا کے نتیجہ میں اچانک ان کے سامنے پانی ظاہر ہوا اور اس پانی پر پڑی سورج کی کرنوں کے انعکاس کا مشاہدہ کرکے سب تعجب میں پڑ گئے !اس کے بعد سب پانی کی طرف بڑھتے ہیں اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور نہاتے دھوتے ہیں اسی وقت ان کے بھاگے ہوئے اونٹ بھی واپس آجاتے ہیں وہ اونٹوں کو بھی پانی پلا کر آگے بڑھتے ہیں اس تالاب سے کچھ دور پہنچنے کے بعد ،ابو ہریرہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ تالاب کے کنارے بھولے ہوئے برتن لے آنے کے لئے تالاب کی طرب لوٹتا ہے ۔وہاں پر وہ اس برتن کو تو پاجاتا ہے لیکن اس تالاب کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا ''

خلیفہ کے سپاہیوں کا پانی پر چلنا:

اس کے بعد سیف اس قصہ میں کچھ اور اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :

''خلیفہ کے سپاہی بحرین کی طرف بڑھتے ہوئے ارادہ کرتے ہیں کہ دارین جائیں ۔ان کے اور دارین کے در میان ایک سمندر تھااور اس کو پار کرنے کے لئے کشتی کے ذریعہ ایک دن رات کافاصلہ تھا۔اس سمندر کے کنارے علاء نے اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:''خدائے تعالیٰ نے خشکی میں اپنی آیات کو تم لوگوں پر واضح کیا ۔اب جرات مندی کے ساتھ سمندر میں اتر کر دشمن کی طرف دوڑو اور دلیری سے سمندر کو پار کرو!''وہ سب سوار و پیادہ سمندر میں اترے اور گھوڑے ،اونٹ،اور خچر پر سوار سپاہیوں نے دعا پڑھی (جسے سیف نے نقل کیا ہے)وہ سمندر سے ایسے گزرے جیسے کوئی صحرا کی ریت پر قدم رکھ کر آگے بڑھتا ہے جب کہ گھوڑے اور اونٹوں کے سم مشکل سے تر ہوئے تھے ۔اس طرح وہ مرتدوں کے پاس پہنچے اور ان سے جنگ کرکے فتح پائی اس کے بعد اپنی جگہ کی طرف واپس لوٹے اور سمندر سے اسی طرح گزرے جیسے پہلے گزرے تھے۔''

۱۱۱

سیف کے ایک افسانوی سورما عفیف ابن منذر تمیمی اس سلسلے میں کچھ شعر کہے جنہیں سیف نے نقل کیا ہے ،اس کے بعد وہ کہتا ہے :

''مسلمانوں کے ہمراہ ایک راہب تھا ۔یہ سب کرامتیں ،خارق العادہ واقعات ،اور ہوا میں فرشتوں کی دعا سن کر وہ مسلمان ہوگیا''۔

سیف نے فرشتوں کی دعا بھی نقل کیا ہے ،اوراس کے بعد لکھتا ہے :

''علاء نے اس لشکر کشی کی رپورٹ ایک خط کے ذریعہ خلیفہ اول ابوبکر کو بھیجی ۔ابوبکر نے علاء کا خط وصول کرنے کے بعد منبر پر چڑھ کر مسلمانوں کے در میان یہ داستان بیان کی ۔''

سیف اپنے زمانے تک سینہ بہ سینہ پھیلے ہوئے ابو ہریرہ کے بیان کردہ اس مختصر قصہ کو پسند کرتا ہے اور اسے ہر طرح سے سند وشاہد اور دلیل و برہان کے ذریعہ محکم بناکر کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رکھتے ہوئے اس زمانے کے لوگوں کے لئے نقل کرتا ہے ۔چونکہ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ عظمت و کرامت حضرمی شخص ،اہل یمن اور سبائی کے بارے میں بیان کرے ،اس لئے ایک اور افسانہ گڑھ کر اس شخص (علاء )سے مربوط کرامت کی نفی کرتا ہے اور اس سلسلے میں یوں لکھتا ہے:

''علاء حضرمی اور سعد وقاص کے در میان مقابلہ اور رقابت تھی ۔اتفاق سے مختلف جنگوں میں علاء کی سرگرمیاں اور کارروائیاں سعد سے زیادہ تھیں ۔لیکن سعد نے عمر کے زمانے میں قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں پر فتح پائی اور اس نے علاء کے لائے ہوئے جنگی غنائم کے مقابلے میں بہت زیادہ غنائم خلیفہ کو بھیجے تھے ۔لہٰذاعلاء نے اس جنگ میں سر توڑ کوشش کی تا کہ ایرانیوں سے زیادہ غنائم حاصل کرے اور سعد سے پیچھے نہ رہے ۔اس غرض سے اس نے خلیفہ سے کوئی حکم حاصل کئے بغیر سمندری راستہ سے ایرانیوں پر حملہ کیا ،جب کہ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ اگر جنگوں میں اسے خدا نے سعد کے مقابلے میں کوئی فضیلت و برتری عطا کی تھی تو وہ خلیفہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے سبب تھی اور مرتدوں سے جنگ میں فتحیابی بھی خلیفہ اول ابو بکر کے حکم کی پیروی کے سبب تھی نہ یہ کہ وہ کسی شخصی فضیلت و کرامت کا مالک تھا،جب کہ خلیفہ دوم عمر نے اسے سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کرنے سے منع کیا تھا...''

۱۱۲

سیف اس کے بعد مزید لکھتا ہے:

''جب علاء نے سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کیا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوگئیں تو ایرانی اس کے اور اس کی کشتیوں کے درمیان حائل ہوگئے اور مسلمانوں کے لشکر نے شکست کھائی اور یہ شکست علاء کی طرف سے خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کا نتیجہ تھی ۔اگر خدائے تعالیٰ کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو وہ سب کے سب اس جنگ میں مارے جاتے ۔لیکن عنایت خداوندی نے اس طرح ظہور کیا کہ اس بدون اجازت حملہ کی خبر خلیفہ کو پہنچتی ہے اور خلیفہ کے دل میں یہ بات گزرتی ہے کہ علاء اس نا فرمانی کی وجہ سے شکست کھائے گا ،لہٰذا فورا اسے معزول کرکے اس کی جگہ پر دوسرے سپہ سالار کا انتخاب کرتا ہے اور اس کی مدد کے لئے تازہ دم فوج روانہ کرتا ہے ۔اس طرح خلیفہ کی فہم و فراست کے سبب خدائے تعالیٰ لشکر اسلام کو ہلاکت سے نجات دیتا ہے !''

سیف کی اس جعلی داستان کے مطابق جو کچھ ابو ہریرہ نے جنگ دارین میں علاء کی نسبت عظمت و کرامت کے طور پر بیان کیا تھا،وہ اس خلیفہ کی اطاعت و فر مانبرداری کا نتیجہ تھا،ورنہ ہم نے دیکھا کہ یہی بزرگ صحابی خلیفہ کی نافرمانی کرتا ہے تو کس طرح مصیبت اور بد بختی میں گرفتار ہوتا ہے ۔ خدائے تعالیٰ نے یہ سب نعمتیں خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے سبب علاء اور اس کی فوج کوعطا فرمائی تھیں اور نافرمانی کے سبب اس طرح شکست سے دوچار کیا تھا۔

یہ داستان اور اس جیسی دوسری داستان ،سیف نے ہر زمانے میں وقت کے حکمرانوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے جعل کی ہیں ۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ سیف کے افسانوں کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب یہی تھا تا کہ دوسروں کی صحیح روایتیں فراموشی کی نذر ہوجائیں ۔

۱۱۳

٢۔عوام پسند ہونا

سیف کی باتوں کو شہرت ملنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے داستانوں اور افسانوں کو مختلف زمانے کے لوگوں کی دلچسپی اور پسند کے مطابق جعل کیا ہے ۔چونکہ عوام الناس پجاریوں کی طرح اپنے نیک اسلاف اور اجداد کی پوجا کرتے ہیں اور ان کی کرامتوں اور کمالات کو سننے کے والہانہ طور سے منتظر رہتے ہیں ،اس لئے سیف نے ایسی روایتیں جعل کی ہیں جو ایسے لوگوں کی تمنائوں کو بہترین صورت میں پورا کرتی ہیں ۔سیف کی روایتوں میں اس حد تک ملتاہے کہ نامور اسلاف اور اجداد کے مقابل قدرت کے لازوال قوانین بھی مطیع و فر مانبردار ہیں اور ان کے حکم کے ما تحت ہیں ،ملائکہ اور جنات ہمیشہ ان کے مددگار تھے اور ان کے حکم کی تعمیل کے لئے تیارکھڑے رہتے تھے ،حیوانات ان سے گفتگو کرتے تھے اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ۔خلاصہ یہ کہ جنگ کے میدانوں میں ان کی بہادری بے مثال ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ فاتح و سرفراز ہوتے تھے۔

دوسری طرف ثقافت وادب کے شیدائیوں کو سیف کی روایتوں میں بہترین قصیدے ،بے نظیر تقریریں ،خوشنما رزم نامے اور شیرین خودستائیوں کے علاوہ بہترین اور دلچسپ عبارتوں میں جنگی عہدنامے ،صلح ودوستی کے معاہدے اور وقت کے حکمرانوں کے فصیح و بلیغ فرمان اور حکم نامے ملتے ہیں ۔

۱۱۴

اسی طرح تاریخ کے دل دادہ اور تاریخ نگار بھی اپنے مقدور کے مطابق دیگر منابع کی نسبت سیف کی روایتوں سے بیشتر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔تاریخ کے متوالے مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف نے ہر تاریخ نویس کی نسبت واقعات اور تاریخی حوادث کی بیشتر اور مکمل وضاحت کی ہے۔اس نے ہر حادثہ کے جزئیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور تاریخ کے نوادر اور عجائبات بیان کرنے میں کسی معمولی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کیاہے۔کیونکہ سیف خبر سازی میں ماہر اور افسانہ گڑھنے میں کمال رکھتاتھا۔مثال کے طور پر آپ افسانہ نویسوں کے علاوہ کسی تاریخ دان کاسراغ نہیں بتاسکتے ،جس نے سیف بن عمر تمیمی کی طرح کسی سوار کے دریائے دجلہ سے عبور کرتے وقت اس کے گھوڑے کی دم کی حرکت کے بارے میں بھی وضاحت سے تعریفیں بیان کی ہوں !(۱)

مختصر یہ کہ تاریخی حوادث وواقعات کے دل دادہ لوگوں کو جو کچھ سیف سے ملتا ہے وہ نہ صرف دیگر تاریخ دانوں اور حقائق نویسوں سے انھیں نہیں ملتا بلکہ انھیں ان چیزوں کاکہیں اور سراغ ملنا بھی ناممکن ہے۔

٣۔ آسائش پرستوں کی مرضی کے ہم آہنگ ہونا

معاشرے کے سرمایہ داروں ،خود سروں ،طاقت ور لوگوں اور آرام وآسائش کے دلداہ افراد کو سیف کی روایتوں اور افسانوں سے بہت فائدہ پہنچتاہے ۔چونکہ سیف کی دلچسپ داستانیں اور اس کے پر کشش افسانے اس قسم کے لوگوں کی شب باشی ،عیش وعشرت اور تفریحی محفلوں کو خوشحال اور پر رونق بناتے ہیں ۔

جس زمانے میں ''عنترة ابن شداد ''،''ابی زید سروجی''اور''الف لیلہ''جیسے افسانے سنانے میں قصہ خوانوں کا بازار گرم تھا اور ان افسانوں سے امیر اور بڑے لوگوں ،سرمایہ دار اور با اثر شخصیتوں کو وقت گزاری میں مشغول رکھا جاتا تھا،تو اہل فکر نے بھی یہ سوچا کہ اپنے نظریات کو داستانوں اور افسانوں کے روپ میں پیش کریں تا کہ انھیں عام لوگ پڑھیں اور ہاتھوں ہاتھ ان کی تبلیغ کریں ۔اسی

____________________

۱)۔عاصم کے حالات میں اس کاتفصیل سے تذکرہ آیاہے۔

۱۱۵

بناء پر ''اخوان الصفا''(۱) نام کے ایک گروہ نے اپنے افکار ونظریات کو پمفلٹوں کی صورت میں شائع کرکے لوگوں میں تقسیم کئے اور ابن طفیل نے اپنے نظریات کو''حی بن یقطان''(۲) کی داستان

کے روپ میں زبان زد خاص وعام کردیا اور اسی طرح ابن مقفع نے اپنا مقصد کتاب ''کلیلہ ودمنہ ''کے ترجمہ سے حاصل کیا۔اس کے بعد سیف بن عمر آیا اور اس نے ''فتوح ''اور ''جمل ''نامی اپنی دو کتابیں تالیف کرکے ان سب پر سبقت حاصل کی اور اپنے افکار ونظریات کو افسانوں کی شکل دے کر مؤثق اور قابل اعتماد روایتوں ،تاریخ اور صحیح سیرت کے طور پر رائج کیا۔اس طرح اپنی آرزؤں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہا۔

خلاصہ یہ کہ حکمران ،اہل قدرت وطاقت اور سرمایہ دار طبقہ سب سیف کی احادیث میں اپنی مرضی کے مطابق مواد پاتے ہیں اور عام لوگوں کی خواہش بھی سیف پوری کرتاہے۔اس کے علاوہ سیف کی احادیث میں علماء اور ثقافت وادب کے شیدائی بھی اپنی بحث وگفتگو کے لئے ضروری چیزیں پاتے ہیں ۔اس طرح تاریخ ،قصہ اور افسانوں کے دل دادہ افراد کی چاہت بھی ان سے پوری ہوتی ہے۔بہر حال سیف نے تقریبا بارہ صدیوں تک ان طبقات کو اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہا وہاں

ہانکا ہے اور حسب دلخواہ انھیں مواد فراہم کرتا رہا ہے ۔بالاخر اس کے بیانات اور افسانے زبان زد خاص و عام ہوکر نسل بہ نسل پھیلتے گئے اور لوگ اس کے خود ساختہ افکار و نظریات کو روایاتوں اور صحیح واقعات کی صورت میں پوری قوت کے ساتھ شائع کرتے تھے اور دوسروں کی صحیح اور معتبر احادیث کو فراموش کرتے تھے اس طرح بعض صحیح احادیث و واقعات مفقود ہو گئے ہیں ۔

____________________

۱)۔فرقہ اسماعیلیہ کے دانشوروں کے ایک گروہ نے تقریباً ٣٧٣ھ (٩٨٣ع) میں ''اخوان الصفا''نام کی ایک انجمن تشکیل دی، جس کا مرکز بصرہ میں تھا۔اس گروہ نے اپنے افکار و نظریات کے تحت مختلف موضوعات جیسے :حساب وھندسہ،موسیقی،منطق،نجوم،اور وقت کے دیگر علوم وفنون سے متعلق ٥١ رسالے تالیف کئے اور مبدأ سے معاد تک اپنے عقائد کے ایک حصے کو ان میں بیان کیا۔ان رسالوں کا ترجمہ ١٨٦١ع میں لندن میں کیا گیا۔اور اس کا اصل عربی متن ١٨٨٣ع میں لایپزیک،مصر اور ہندوستان میں دوبارہ طبع ہوا کشف الظنون ٩٢١ ۔دائرة المعارف ٥٢٧١،٥٢٩۔الذریعہ ٣٨٣١، ٧٦٤،٢٣٥٧،٩٨و١٠۔اعیان الشیعہ ج١٠ طبع اول ملاحظہ ہو ۔

۲)۔کتاب ''حی بن یقطان ابن طفیل ابوبکر اشبیلی وفات٥٨١ھ کی تالیف ہے۔یہ ایک داستان ہے جس کاہیرو ''حی بن یقطان''ہے۔ ابن سینا نے اس اسلوب میں دو رسالے لکھے ہیں ان میں سے ایک رسالہ ایک اخلاقی داستان پر مشتمل تھا۔الذریعہ ١٢٨٧۔١٢٩ملاحظہ ہو

۱۱۶

٤۔ خاندانی تعصبات کے ہم آہنگ ہونا

مذکورہ مطالب کے علاوہ سیف کی غیر معمولی ذہانت کا اس وقت پوری طرح اندازہ ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے بڑی مہارت سے اپنے مقاصد اور عزائم کو ہر طبقہ اور خاندان کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق رکھا ہے ۔وہ اپنی احادیث میں لوگوں کی خواہشات کی رعایت کے ساتھ ساتھ ہر حدیث کی سند کا افتخار عام طور پر مضر قبیلہ اور خاص طور پر خاندان تمیم کو بخشتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ان کے دشمنوں ،یعنی یمانیوں کو ذلیل و خوار اور پست بنا کر پیش کرتا ہے اور یہ مطلب محققین اور علمی کاوش گروں پر بالکل واضح ہے ۔

٥۔ زندیقیوں کے ہم آہنگ ہونا

آخر میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ سیف کی احادیث میں اس کے جھوٹ اور تحریفات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم چند ایسے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں جو کسی بھی صورت میں اس کے ان مقاصد سے جن کا ہمیں علم ہے مطابقت نہیں رکھتے جب کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ سیف نے جو جھوٹ بھی بولا ہے یا کسی موضوع کی تحریف کی ہے اس کے پیچھے کسی خاص مقصد کو تحقق بخشنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ اس بات کودیکھتے ہوئے سیف کا تاریخی حوادث کے سالوں کو تغییر دینے کا کیا مقصد تھا؟ ٣ مثال کے طور پر جنگ یرموک ١٥ ھ میں واقع ہوئی ہے ،سیف نے اس کا واقع ہونا ١٣ ھ

۱۱۷

میں کیوں لکھا ہے ؟ شہر دمشق ١٥ھ میں فتح ہوا ہے لیکن سیف نے اسے ١٦ھ میں کیوں لکھا ہے ۔(۱)

سیف نے تاریخی شخصیتوں کے نام کیوں بدل دئے ہیں ؟جیسے امیر المومنین حضرت علی کا قاتل عبدالرحمن ابن ملجم تھا ،لیکن سیف نے خالد بن ملجم ذکر کیا ہے ٤ عبد المسیح بن عمرو نے خالد بن ولید سے جو صلح کی ہے ،اسے عمرو بن عبدالمسیح سے نسبت دی ہے !!(۲)

یاسیف کو کس چیز نے درج ذیل حدیث جعل کرنے پر مجبور کیا ہے ؟

''خلیفہ عمر نے اپنی بیوی ام کلثو م امام علی کی بیٹی سے خواہش کی کہ اس کے مہمانوں کیساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھے ۔ام کلثوم نے اس کے جواب میں کہا : اگر تم چاہتے ہو کہ میں مردوں میں ظاہر ہو جائوں تو میرے لئے ایسا لباس نہیں

خرید تے !! '' ٥

کیا یہ مناسب ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ عمر اپنی بیوی سے نامحرم مردوں کے ساتھ پیٹھ کر کھانا کھانے کا تقاضا کرے؟ اور عمرکی بیوی کے لئے اپنے شوہر کی درخواست مستردکرنے کا سبب مردوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے اس کا نامناسب لباس ہو؟!

یہ افسانے اور اس کے مانند دیگر افسانے سیف کو اس کے ان مقاصد تک ہر گز نہیں پہنچاتے جن کا ہمیں علم ہے مگر یہ کہ جو نسبت اسے زندیق ہونے کی دی گئی ہے صحیح ہو! ٦ اور اگر سیف کے زندیق ہونے کی بات صحیح ہو تو اس کی آڑمیں اس نے اپنے جعلی افسانوں کے ذریعہ تاریخ اسلام کو منحرف اور مسخ کرکے رکھ دیا ہے ،اور اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقائق کو تحریف کرنے میں سیف کا مقصد اسلام سے اس کے عناد اور دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا بہرصورت وہ تاریخ اسلام کو

____________________

۱)۔'' عبداللہ ابن سبا '' ج١فصل ''تحریف سالہا ی حوادث'' ملاحظہ ہو

۲)۔ ملاحظہ ہو کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' ج٢ فصل تحریف اسماء

۱۱۸

منحرف کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس سلسلے میں اس کے مانند کوئی اور نظر نہیں آتا خواہ سیف کا یہ کام اس کے زندیق ہونے کی وجہ سے ہو یا اس کی لاپروائی اور جھوٹ کی عادت کی وجہ سے ،بہر صورت وہ تاریخ اسلام کو خاص کر اسلامی فتوحات ،ارتدادکے خلاف جنگوں اور تاریخی واقعات کو امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خلافت کے زمانے تک تحریف کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

جو تاریخ سیف نے تالیف کی ہے وہ اصحاب اور ان کے فتوحات کی سرکاری تاریخ کی حیثیت سے درج ہوئی ہے اور اس تاریخ کے سرکاری حیثیت پانے کا مسلمانوں وغیرہ کیلئے یہ نتیجہ نکلا کہ سب نے قبول کیا ہے کہ مسلمانوں نے ارتداد کی جنگوں اور فتوحات میں ہزاروں انسانوں کا قتل عام کیا ہے ،اور انسانی معاشرہ میں خون کی ندیاں بہا کر ایسا رعب وو حشت اور اضطراب برپا کیا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔نتیجہ کے طور پر اسلام تلوار اور خون کی ہولی کے ذریعہ پھیلا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ملتیں خود جابر اور ظالم حکام کے خلاف بغاوت کرکے مسلمان سپاہیوں سے جاملتی تھیں ۔اسلام اس طرح پھیلا ہے ،نہ کہ تلوار سے جیسا کہ سیف نے ثابت کیاہے ۔

گزشتہ حصوں کا خلاصہ

اما آن لنا ان نبحث عن الحقیقة

کیا اب وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟

١) زندیقیت

ہم نے دیکھا کہ علماء اور دانشوروں نے سیف کی یوں تعریف کی ہے :

''یہ حدیث جعل کرنے والا ،اور اس پر زندیق ہونے کا الزام ہے ''

۱۱۹

ہم نے دیکھا کہ سیف کا وطن عراق ،اس کے زمانے میں زندیقیوں کی سرگرمیوں اور ان کے نشو ونما کا مرکز تھا ۔اس لحاظ سے عراق تمام دیگر علاقوں کی نسبت ممتاز و مشخص ہے ۔ اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف کے ہم عصر زندیقی ،مسلمانوں کے افکار و عقائد کو کمزور اور متزلزل کرنے اور ان کے اتحاد و یکجہتی کی بنیاد یں کھوکھلی کرنے میں کس قدر مصروف تھے اور اس سلسلے میں کیا کچھ نہ کیا ۔ ان میں ایسے افراد بھی پید اہوئے جنھوں نے احادیث جعل کرکے لوگوں کے افکار و عقیدہ میں شبہہ ڈال دیا ۔ ان ہی میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے قتل ہوتے وقت اعتراف کیا تھا کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے ہمیں معلوم نہیں وہ احادیث کہاں گئیں اور ان کا انجام کیا ہوا اور ان احادیث نے خلفاء کی مورد تائید سرکاری کتابوں میں سے کن کن میں نفوذ کیا ہے ۔

لیکن جب ہم نے خود سیف کی جعل کردہ احادیث کی سنجیدگی سے تحقیق کی اور ان کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس نے بھی بڑی مہارت سے ہزاروں کی تعداد میں احادیث جعل کی ہیں اور ان کے درمیان ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پرہیزگار اور باتقویٰ اصحاب کو نکما، ذلیل اور کمینہ بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے برعکس اسلام کا لبادہ پہنے ہوئے منافقوں اور کذّابوں کو با تقویٰ ، پرہیزگار اور دیندار کی حیثیت سے پہچنوایا ہے ۔ اس طرح توہمات پر مبنی افسانے جعل کرکے تاریخ اسلام کو الٹا دکھاکر مسلمانوں کے عقائد پر حیرت انگیز حد تک برے اثر ات ڈالے ہیں اور غیر مسلموں کے افکار پر اسلام کی نسبت منفی اثرات ڈالنے میں کامبیاب ہوا ہے ۔اس سلسلے میں سیف اپنے ہم عصر تمام زندیقیوں کا ہم فکر اور شریک تھا ۔وہ صرف ایک لحاظ سے اپنے تمام ہم فکروں پر سبقت رکھتا تھا اور وہ یہ کہ اس نے اپنی جعل کی ہوئی اکثر حدیثوں میں وقت کے حکام اور صاحب قدر ت اشخاص کی براہ راست تعریف اور ستائش کی ہے اور ان کے مخالفوں کی مذمت اور بد گوئی کی ہے ۔ اس طرح حکام وقت سے اپنے جھوٹ اور افسانوں کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرکے ان حدیثوں کی اشاعت کے لئے زمین فراہم کی ہے ۔اسی طرح اس کے زمانے میں موجود خاندانی تعصب اور اس کا اپنا شدید خاندانی تعصب جو اس میں اپنے خاندان نزار کے لئے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ خلفائے راشدین کی ابتداء سے اموی حکمرانوں کے زمانے اور بنی عباسیوں کی سلطنت تک سب کے سب اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس کے افسانوں کی اشاعت میں انتہائی مؤثر رہا ہے ۔

۱۲۰

٢)۔ تعصب

ہم نے دیکھا کہ سیف کے زمانے میں موجود اسلامی مراکز خاندانی اور قبائلی تعصب کی وجہ سے پے در پے تباہ و برباد ہو گئے اور ہر طرف فتنہ و فساد اور انتہائی خون ریزی کا بازار گرم ہو ا بالاخر یہی امر بنی امیہ کی حکمرانی کی نابودی اور بنی عباس کی خلافت کے بر سر کار آنے کا باعث ہوا ۔ان تمام فتنوں اور بغاوتوں کے بارے میں اس وقت کے شاعروں نے فخر و مباہات اور خود ستائی پر مبنی ولولہ انگیز رزمی قطعات اور قصیدے کہے ہیں ،جو یادگار کے طور پر موجود ہیں اور آج بھی ہم اس زمانے کے شعراء و ادب کے مجموعوں کو ان رزمی قصیدوں سے پر پاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ معلوم ہو ا کہ انہی خاندانی تعصبات کی وجہ سے بعض افراد نے اپنے خاندان کی فضیلت ،منقبت اور بالادستی پر مبنی تاریخی قصے اور احادیث جعل کی ہیں اور انھیں اپنے خاندانی فخر و مباہات کی سند کے طور پر دشمن کو نیچا دکھا نے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ لیکن اس میدان میں بھی سیف کا کوئی ہم پلہ نہیں ملتا کیوں کہ وہ اپنی کتابوں '' فتوح '' اور ''جمل'' میں شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کرنے میں کامیاب ہو اہے ،جنھوں نے اپنے رزمی قصیدوں میں قبیلہ مضر کے فخر و مباہات پر عام طور سے اور خاندان تمیم کے بارے میں خصوصی طور سے داد سخن دی ہے ۔اس کے علاوہ سیف نے اپنے خاندان تمیم کے بہت سے ایسے شجاع و بہادر نیز اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعل کئے ہیں جن کو اسلامی جنگوں میں فاتح سپہ سالار کی حیثیت سے دکھایا ہے ۔اس کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے احادیث کے بے شمار راوی جعل کئے ہیں

۱۲۱

٣)۔من گڑھت

اس کے علاوہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں اپنے افسانوں کے بہادر وں کی شجاعت کے جوہر دکھانے کے لئے قصہ اور کہانیاں گڑھی ہیں ،جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ۔اور اس نے ایسے جنگی میدانوں کانام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔اس کے علاوہ ان جنگوں میں قتل کئے گئے افراد کی تعداد لاکھوں بیان کی گئی ہے جب کہ اس زمانے میں پورے علاقے میں تمام جانداروں کی بھی اتنی تعداد نہیں تھی کہ اتنے انسان قتل یا گرفتار کئے جاتے ۔ سیف نے ان افسانوی بہادروں کی زبانی فخرو مباہات اور رزمی قصیدے بیان کئے ہیں اور دشمنوں کی ہجو گوئی کی ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان کے سور مائوں کے نام خلفائے وقت کی طرف سے ترقی کے حکم نامے جعل کئے ہیں اور مذکورہ فاتح سپہ سالاروں کے فتح شدہ فرضی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جنگی معاہدے بھی درج کئے ہیں جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ،رونما نہ ہوئے واقعات کو جعل کرنے اور قبیلہ نزار کی فضیلتیں بیان کرنے کے لئے اس شخص کی حرص اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خاندان تمیم کی فضیلتوں کو پھیلانے کے لئے اس نے ملائکہ اور جنات سے بھی خدمات حاصل کرنے میں گریز نہیں کی ہے ۔سیف قبیلہ مضر ،خاندان تمیم خاص کر سیف کے اپنے خاندان بنی عمرو کے فخرو مباہات کی سند جعل کرنے کے لئے ہر قسم کے دھوکہ اور چالبازیوں کو بروئے کار لاتا ہے !

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا ہے کہ سیف کے افسانوں کے سورمائوں کے لئے کچھ معاونین کی ضرورت تھی اس لئے اس نے غیر مضریوں پرمشتمل کچھ معاون بھی جعل کئے ہیں اور ان کے لئے معمولی درجے کے عہدے مقرر کئے ہیں ۔اس طرح اس نے تاریخ اسلام میں بہت سے اصحاب تابعین اور حدیث کے راوی جعل کئے ہیں ،جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ سب سیف بن عمر کے تخیلات کی تخلیق ہیں ۔

۱۲۲

٤)۔حقائق کو الٹا کرکے دکھا نا

ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف نے بعض ایسے افسانے جعل کئے ہیں ،جن میں تاریخ کے صحیح واقعات کو تحریف کرکے ایسے افراد سے نسبت دی ہے کہ یہ واقعات کسی بھی صورت میں ان سے مربوط نہ تھے ۔مثال کے طور پر قبیلہ مضر کے علاوہ کسی اور خاندان کے کسی سور ما کو نصیب ہوئی فتحیابی کو کسی ایسے سپہ سالار کے نام درج کیا ہے جو خاندان مضر سے تعلق رکھتا تھا چاہے اس مضری سورما کا کوئی وجود نہ بھی ہو اور وہ محض سیف کے ذہن کی تخلیق ہو!اسی طرح اگر قبیلہ مضر کے کسی سردار سے کوئی نامناسب اور ناگوار واقعہ رونما ہو اہو تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی غیر مضری شخص سے نسبت دے دیتا ہے اور سیف کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ غیر مضری فرد حقیقی ہو یا اس کا جعل کردہ اور فرضی۔بہر حال اس کا مقصد یہ ہے کہ مضری فردسے بد نما داغ صاف کرکے اسے کسی غیر مضری شخص کے دامن پر لگایا جائے۔

٥)۔پردہ پوشی

سیف نے قبیلہ مضر کے بعض ایسے سرداروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی حقائق میں تحریف کی ہے ،جو ناقابل معافی جرم وخطاکے مرتکب ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے خلیفہ عثمان کے معاملہ میں عائشہ،طلحہ و زبیرکے اقدامات کے بارے میں دیکھا جو عثمان کے قتل پر تمام ہوئے ۔یا ان ہی تین اشخاص یعنی عائشہ ،طلحہ وزبیرکے امام علی کے خلاف اقدامات جو جنگ جمل کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔چونکہ یہ سب قبیلہ نزار و مضر سے تعلق رکھتے تھے،اس لئے سیف نے کوشش کی کہ اس عیب سے ان تمام افراد کے دامن کو پاک کرے ۔لہٰذا اس نے ''عبداللہ ابن سبا''کے حیرت انگیز افسانہ کو جعل کرکے تمام فتنوں ،بغاوتوں اور برے کاموں کو ابن سبا اور سبائیوں کے سرتھوپ دیا۔سیف نے جس ابن سباکا منصوبہ مرتب کیاہے ،وہ یہودی ہے اور اس نے یمن سے اٹھکر مسلمانوں کے مختلف شہروں میں فتنہ اور بغاوتیں بر پاکی ہیں ۔سیف،عبداللہ اور اس کے پیرئوں کو سبائی کہتا ہے اور اس خیالی گروہ کو یمنی بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یمنی روئے زمین پر فتنہ گر اور بدترین لوگ ہیں ۔اس طرح بدترین اعمال کے عاملوں ،جو در حقیقت قبیلہ نزار ومضر سے تعلق رکھتے تھے ،کی مضحکہ خیزطور پر پردہ پوشی کرتا ہے ۔لیکن قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر افراد ،جیسے عمار یاسر ،ابن عدیس اور مالک اشتر وغیرہ ،جو سب قحطانی تھے ،کو سیف نہ فقط بری نہیں کرتابلکہ ان حوادث میں ان کی مداخلت کو محکم تر کرکے ان پر اپنے افسانے کے ہیرو عبداللہ ابن سبا کی پیروی ،ہم فکری اور مشارکت کا الزام لگاتا ہے وہ اس طرح قبیلۂ مضر کی ان رسوائیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔

۱۲۳

٦)۔کمزور کو طاقتور پر فدا کرنا

لیکن قبیلہ مضر کے کسی سردار اوراسی قبیلہ کے کسی معمولی شخص کے در میان اگر کوئی ٹکرائو یااختلاف پیدا ہوتا ہے ،تو سیف اس خاندان کے معمولی فرد کو خا ندان کی عظمت پر قربان کردیتا ہے سیف کا مقصد خاندان مضر کی عظمت و بزرگی ،زرو زور کے خدائوں کے فخرو مباہات ،نامور پہلوانوں سپہ سالاروں کی شجاعت وبہادری کی ترویج و تبلیغ ہے اور اس راہ میں وہ کوئی کسراٹھا نہیں رکھتا۔اس کی مثال کے لئے سیف کا خالد بن سعید اموی مضری کو خلیفہ اول ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر سر کوب اور بد نام کرنا اورمالک بن نویرہ پر صرف اس لئے ناروا تہمتیں لگانا کہ خالد بن ولید نزاری کی حیثیت محفوظ رہے،کافی ہے۔

لیکن اگر کسی مضری اور یمانی کے در میان کوئی ٹکرائو یا حادثہ پیش آیا ہو اور سیف نے اسے سبائیوں کے افسانہ میں ذکر نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے قصہ اور افسانہ جعل کرکے اس میں حتیٰ الامکان یمنی کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور مضری شخص کے مرتبہ و منزلت کو اونچا کرکے پیش کرتا ہے ۔اس سلسلے میں مضری خلیفہ عثمان کے ذریعہ ابوموسیٰ اشعری یمنی کو معزول کرنے کا مسئلہ قابل توجہ ہے۔

٧)۔حدیث سازی کا تلخ نتیجہ

ان تمام امورکے نتیجہ میں اسلام کی ایک ایسی تاریخ مرتب ہوئی ہے جو بالکل جھوٹ اور افسانوں سے بھری ہے ۔اس طرح تاریخ اسلام میں ،اصحاب ،تابعین ،راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شعراء پر مشتمل ایسے اشخاص مشہور ہوئے ہیں ،جن میں سے ایک کابھی وجود سیف کے افسانوں سے باہر ہر گزپایا نہیں جاتا۔اس کے با وجود سیف سے نقل کرکے ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے حالات لکھے گئے ہیں اور انھیں تاریخ کی معتبر کتابوں اور دیگر دسیوں کتابوں میں مختلف موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں ان میں سے ستر کے قریب نمونوں کا ذکر کیا ہے ۔

۱۲۴

٨)۔ سیف کی احادیث پھیلنے کے اسباب

ہم نے سیف کی احادیث کے پھیلنے کے اسباب کے بارے میں کہا کہ اس کی حیرت انگیز روایات اور افسانوں کے پھیلنے اور علماء و دانشوروں کی طرف سے ان کو اہمیت دینے کے اسباب درج ذیل ہیں :

١۔ سیف نے اپنی داستانوں اور افسانوں کو ایسے جعل کیا ہے کہ ہر زمانے کے حکمرانوں ، ارباب اقتدار اور دولتمندوں کے مفادات اور مصلحتوں کا تحفظ کر سکیں ۔جیسا کہ ہم نے علاء خضری کی داستان میں دیکھا کہ دار ین کی جنگ میں وہ اپنے پیادہ و سوار سپاہیوں کے ہمراہ سمندر کے پانی سے ایسے گزر ا جیسے وہ صحرا کی نرم ریت پر چل رہا تھا جب کہ اس سمندر ی فاصلہ کو کشتی سے طے کرنے کے لئے ایک شب و روز کا زمانہ درکار تھا اس کے علاوہ اس جنگ میں جتنی بھی کرامتیں اس نے دکھائیں وہ سب علاء کی جانب سے خلیفہ اول کی فرمانبرداری و اطاعت کے نتیجہ میں تھیں چوں کہ جب یہی علاء دوسرے خلیفہ کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو شکست سے دو چار ہوتا ہے اور ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔اس لئے اگر علاء سے کوئی کارنامہ دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف خلیفہ اول کی اطاعت کے نتیجہ میں تھا ،نہ یہ کہ علاء کسی ذاتی فضل و شرف کا مالک تھا کیوں کہ ہم نے دیکھا کہ دوسری بار خلیفہ دوم کی نافرمانی کے نتیجہ میں اس کے فضل و شرف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اس قسم کے افسانے وقت کی سیاست کے مطابق اور خلافت کی مصلحتوں اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جعل کئے گئے ہیں ۔اسی لئے یہ افسانے ہر زمانہ میں حکمراں طبقہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے مورد تائید وحمایت قرار پائیں گے۔

٢۔اس نے اپنے افسانوں کو عوام پسند،ہر دل عزیز اور ہر زمانے کے متناسب جعل کیاہے۔ اسلاف کی پوجا کرنے والے اس افسانوں میں اپنے اجداد کی بے مثال عظمتیں اور شجاعتیں پاتے ہیں ۔ثقافت وادب کے شیدائی منتخب اور دلچسپ اشعار اور نثر میں بہترین اور دلپسند عبارتیں پاتے ہیں ۔تاریخ کے متوالوں کو بھی ایک قسم کے تاریخی اسناد،جیسے خطوط،عہد نامے،دستاویز اور تاریخ کے بارے میں جزئیات ملتے ہیں اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والوں کو بھی سیف کے افسانوں میں اپنا حصہ ہاتھ آتاہے تاکہ اپنی شب باشی کی محفلوں میں اس کے شیرین قصوں اور داستانوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔

مختصر یہ کہ حکام اور اہل اقتدار ،جو کچھ اپنی سیاست کے مطابق چاہتے ہیں سیف کے افسانوں میں پاتے ہیں ۔اس کے علاوہ عام لوگ بھی اپنی چاہت کے مطابق مطالب سے محروم نہیں رہتے ۔علماء اور ادب کے شیدائی بھی اپنی مرضی کے مطابق بحث و مباحثے میں کام آنے والی چیزوں سے مستفید ہوتے ہیں ۔

۱۲۵

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف کو دوسروں پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ اس نے دوسروں کی نسبت اپنے شخصی مفاد کو کامیابی کے ساتھ تمام طبقوں کی خواہشات کے مطابق ہماہنگ کیا ہے اس نے مختلف طبقات کی خواہشات کو پورا کرنے کے باوجود عام طور پر قبیلۂ مضر کو اور خاص طور پر خاندان تمیم کو ہمیشہ کے لئے با افتخار بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ اپنے خاندان کے دشمنوں جیسے ،یمنیوں اور سبائیوں کو ذلیل وخوار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

٩)۔ سیف کے مقاصد

مذکورہ بالاتمام چیزوں کا سیف کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ ہوتاہے۔لیکن تاریخی حواد ث کی تاریخوں میں تحریف کرنے کا کیا سبب تھا؟اور کس چیز نے سیف کو اس بات پر مجبور کیا کہ تاریخی اشخاص کے نام بدل دے ،مثال کے طور پر عبد الرحمن ابن ملجم کے بجائے خالد بن ملجم بتائے؟یا کون سی چیز اس کا باعث بنی کہ وہ یہ داستان گڑھے کہ عمر اپنی بیوی سے یہ کہیں کہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھائے!اور ان کی بیوی کا اپنے شوہر کی تجویز پر اطاعت نہ کرنے کاسبب اس کانامناسب لباس ہو؟اور اسی طرح کی دوسری مثالیں ؟یہ وہ مسائل ہیں جن سے سیف کے وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے جن سے ہم واقف ہیں ،مگر یہ کہ اس پر زندیق ہونے کا الزام صحیح ثابت ہو اور اگریہ الزام اس پر صحیح ثابت ہوجائے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان تمام جھوٹ اور افسانوں کے گڑھنے کا اس کا اصلی مقصد اسلامی تاریخ کے حقائق میں تبدیلی لانے،تحریف کرنے اور انھیں مسخ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔اور اس میں سیف اس قدر کامیاب ہوا ہے کہ یہ کامیابی اس کے علاوہ کسی اور زندیق کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔

بہر حال ،خواہ سیف کے زندیقی ہونے اور اسلام کے ساتھ اس کی دشمنی کے سبب یا جھوٹ اور افسانے گڑھنے میں اس کی غفلت اور حماقت کی وجہ سے ،جو بھی ہو ،اس نے تاریخ اسلام کو خاص کر ارتداد اور فتوح کی جنگوں میں اور ان کے بعد حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے تک کے تاریخی حوادث میں زبردست تحریف کی ہے۔

۱۲۶

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ سیف نے جعل کیا ہے وہ اسلام ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب ان کی جنگوں اور فتحیابیوں کی باقاعدہ اور معتبر تاریخ محسوب ہوتاہے۔جھوٹ اور افسانوں پر مشتمل اس قسم کی تاریخ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ اور ہزار ہا انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد پھیلا ہے۔جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ملتیں اور قومیں تھیں جو ظالم اور جابر حکام کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کے سپاہیوں کی صف میں شامل ہوکر گروہ گروہ دین اسلام قبول کرتی تھیں ۔حقیقت میں اسلام اسی طرح پھیلاہے نہ کہ تلوار کے ذریعہ جیسا کہ سیف کا دعویٰ ہے۔

١٠)۔ ہماری ذمہ داری :

یہ وہ تاریخ ہے جسے سیف نے تاریخ اسلام کے طور پر تدوین کیا ہے اور یہ عوام الناس میں محترم قرار پاکر تسلیم کی گئی ہے اور جو کچھ دوسروں نے حقیقی واقعات پر مشتمل تاریخ اسلام لکھی ہے ،سیف کے افسانوں کی وجہ سے ماند پڑگئی ہے اور سرد مہری وعدم توجہ کا شکار ہوکر فراموش کردی گئی ہے۔اس طرح ہر نسل نے جو کچھ سیف کے افسانوں سے حاصل کیا،اسے اپنے بعد والی نسل کے لئے صحیح تاریخی سند کے طور پر وراثت میں چھوڑا اور اس کے تحفظ کی تاکید کی ہے۔اسی طرح صدیاں گزرگئیں ۔

گزشتہ بارہ صدیوں سے یہی حالت جاری ہے۔اور ہماری تدوین شدہ تاریخ ،خصوصاً فتوح ،ارتداد اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ کی یہی ناگفتہ بہ حالت ہے ۔لیکن کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور اپنے آپ کو اس زندیق کے فتنوں کے پھندوں سے آزاد کریں ؟ کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟اگر ہمیں ایسا موقع ملا اور اس بات کی اجازت ملی کہ تاریخ کی بڑی کتابوں اور معارف اسلامی کے دیگر منابع کے بارے میں تعصب اور فکری جمود سے اوپر اٹھ کر بحث وتحقیق کریں تاکہ اسلام کے حقائق سے آشنا ہو سکیں تو ایسی بحث کے مقدمہ کے طور پر سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سچے اور حقیقی اصحاب کی شناخت اور پہچان ضروری ہو گی اور اس سلسلے میں پہلے سیف کے جعلی اصحاب کو پہچاننے کی ضرورت ہے ایسے صحابی جنھیں اس نے سپہ سالار اور احادیث کے راویوں کی شکل میں جعل کیا ہے اور اپنی احادیث کی تائید کے لئے اپنی روایتوں میں بے شمار راوی جعل کئے ہیں اور شعراء ،خطباء حتٰی جن و انس سے بھی مدد حاصل کی ہے جب کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔

۱۲۷

اس کتاب کے اگلے حصوں میں ہم سیف کے افسانوں کے ایسے سورمائوں کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں خدا شاہد ہے کہ ہم نے جو یہ کام اور راستہ اختیار کیا ہے اس میں اسلام کی خدمت اور خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد کارفرما نہیں ہے ۔

ہم اس کتاب کو اس کے تمام مطالب اور مباحث کے ساتھ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں اپنی راہنمائی اور علمی تنقید کے ذریعہ ہماری مدد اور تعاون فرمائیں ۔

خد ا ئے تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق و حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی و دستگیر ی فرمائے !اور اپنی پسندیدہ راہ کی طرف راہنمائی فرمائے !

گزشتہ بحث کا ایک جائزہ اور

آئندہ پر ایک نظر

گزشتہ فصلوں میں ہم نے زیر نظر مباحث کی بنیاد کے طور پر چند کلی مسائل بیان کئے اور اس طرح زندیقیت اور زندیقیوں کا تعارف کرایا اور خاندانی تعصبات کی بنیاد پر حدیث اور تاریخ اسلام پر پڑنے والے برے اثرات سے واقف ہوئے ۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف بن عمر ایک زبر دست متعصب اور خطر ناک زندیقی تھا ۔اس میں زندیقیت اور تعصب دو ایسے عامل موجود تھے جو حدیث جعل کرنے کے لئے اسے بڑی شدت سے آمادہ کرتے تھے ۔اور یہی قوی دو عامل اسے تاریخ اسلام میں ہر قسم کے جعل ،تحریف ،جھوٹ اور افسانہ سازی میں مدد دیتے تھے جس کے نتیجہ میں اس نے اپنے تخیلات کی طاقت سے بہت سے راوی ،شاعر اور اصحاب کو اپنی احادیث اور افسانوں کے کردار کے طور پر جعل کرکے انھیں اسلام کی تاریخ و لغت میں داخل کر دیا ہے اس کتاب کی تالیف کا مقصد سیف کے جعل کئے ہوئے افراد کے ایک گروہ کا تعارف کرانا ہے جنھیں اس نے تاریخ اسلام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے پیش کیا ہے

سیف نے اپنے جعلی اور افسانوی اصحاب میں سے اہم اور نامور افراد کو خاندان تمیم سے مربوط ثابت کیا ہے ،جو اس کا اپنا خاندان ہے اور باقی اصحاب کو دوسرے مختلف قبیلوں سے مربوط دکھایا ہے اب ہم ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ فصل میں بحث و تحقیق کریں گے ۔ہم اس بحث کا آغاز خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے کرتے ہیں ،جن کا سرغنہ اور سب سے پہلا شخص '' قعقا ع بن عمرو'' ہے ۔

۱۲۸

تیسرا حصہ :

١۔ قعقاع بن عمر و تمیمی

٭ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں

٭ ابوبکر کے زمانے میں

٭ حیرہ کی جنگوں میں

٭ حیرہ کی جنگوں کے بعد

٭ مصیخ و فراض کی جنگوں میں

٭ خالد کے شام کی طرف جاتے ہوئے

٭ شام کی جنگوں کے دوران

٭ عمر کے زمانہ میں

٭ عراق کی جنگوں میں

٭ ایران کی جنگوں میں

٭ د وبارہ شام میں

٭ نہاوند کی جنگوں میں

٭ عثمان کے زمانے میں

٭ حضرت علی ـکے زمانے میں

٭ بحث کا خلاصہ

٭ احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

۱۲۹

قعقاع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

لم نجد له ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے قعقاع کا نام سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا۔

(مؤلف)

اسلامی تاریخ اور لغت کی دسیوں معروف و مشہور کتابوں میں '' قعقاع بن عمر و'' کا نام اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی حیثیت سے اس کی زندگی کے حالات درج کئے گئے ہیں ابو عمر کی تالیف کتاب '' استیعاب'' ١ ان کتابوں میں سے ہے جو آج کل ہماری دست رس میں ہیں ۔اس مؤلف نے قعقاع کی زندگی کے حالات خصوصیت سے لکھے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' قعقاع ،عاصم کا بھائی اور عمر و تمیمی کا بیٹا ہے ۔ان دونوں بھائیوں نے جنگ قادسیہ میں جس میں ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم فرخ زاد تھا بے مثال اور قابل تحسین شجاعت اور بہادر ی کا مظاہرہ کیا ہے اور شائشتہ و قابل احترام مرتبہ و منزلت کے مالک بن گئے ''

'' استیعاب ''کے مولف کے بعد ابن عساکر '' تاریخ شہر دمشق '' ٢میں قعقاع بن عمرو کے بارے میں یوں ر قم طراز ہے :

'' قعقاع ،رسول خدا کا صحابی تھا !وہ ایک قابل ذکر بہادر اور نامور عربی شاعر تھا ۔اس نے ''جنگ یرموک ''اور ''فتح دمشق '' میں شرکت کی ہے ۔اس نے عراق اور ایران کی اکثر جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے ہیں اور قابل ذکر و نمایاں جنگیں لڑی ہیں ''

قعقاع کے بارے میں دوسری صدی ہجری کی ابتداء سے آج تک یوں بیان کیا گیا ہے :

'' قعقاع ،اسلامی جنگوں میں ہمیشہ ایک دادرس و فریاد رس بہادر کی حیثیت سے رہا ہے ٣ وہ خانقین ،ہمدان اور حلوان کا فاتح ہے '' ٤

ان خصوصیت کا مالک قعقاع کون ہے ؟

۱۳۰

قعقاع کا شجرۂ نسب

سیف نے قعقاع کا خیالی شجرۂ نسب ذکر کیا ہے :

''قعقاع عمرو ابن مالک کا بیٹا ١ ہے ۔اس کی کنیت ابن حنظلہ ہے ٢ ۔اس کے ماموں خاندان بارق ٣ سے تھے ۔اور اس کی بیوی ہنیدہ ،عامر ہلالیہ کی بیٹی تھی جو خاندان ہلال نخع سے تعلق رکھتا تھا '' ٤

قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی

طبری اور ابن عساکر ،دونوں کا قول ہے کہ سیف نے یوں بیان کیا ہے :

'' ْقعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔'' ١

ابن حجر شعری نے سیف کا نقل کیا ہوا قعقاع کا قول حسب ذیل ذکر کیا ہے :

'' میں تہامہ کی ترقی و درخشندگی کو دیکھ رہا تھا ،جس دن خالد بن ولید ایک نفیس گھوڑ ے

پر سوار ہو کر سواروں کی قیادت کر رہا تھا ،میں سیف اللہ کی فوج میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار تھا اور آزادانہ طور پر سب سے پہلے اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھارہا تھا ''

۱۳۱

قعقاع سے منقول ایک حدیث :

ابن حجر '' اصابہ '' میں قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے خود قعقاع کی زبانی یوں نقل کرتا ہے :

''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم نے جہاد کے لئے کیا آمادہ کیا ہے ؟ میں نے جواب میں کہا: خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت اور اپنا گھوڑا ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:سب کچھ یہی ہے ''

ابن حجر ،سیف سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی زبانی مزید نقل کرتا ہے :

''میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت وہاں پر موجود تھا ۔جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور بعض لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: انصار سعد کو خلیفہ منتخب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدے اور وصیت کو کچل کے رکھ دیں ۔ مہاجرین یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے.... ''(۱)

ابن حجر مزید لکھتا ہے :

'' ابن مسکن نے کہا ہے کہ سیف بن عمر ضعیف ہے ،یعنی اس کی یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے ''

____________________

۱)۔ عبداللہ ابن سباج١،بحث سقیفہ میں اس جعلی حدیث پر تحقیق کی گئی ہے ۔

۱۳۲

علم رجال کے عالم و دانشور رازی نے بھی اس داستان کو خلاصہ کے طور قعقاع کی زندگی کے حالات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

''سیف کی روایتوں کو دیگر لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ،لہٰذا یہ حدیث خود بخود مردود ہے اور ہم نے اسے صرف قعقاع کو پہچاننے کے لئے نقل کیا ہے '' ٢

ابن عبد البر نے قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں رازی کی پیروی کی ہے اور جو کچھ اس نے اس کے بارے میں لکھا ہے اور سیف کے بارے میں نظریہ پیش کیا ہے سب کو اپنی کتاب

کتاب میں درج کیا ہے ۔

سند کی تحقیقات

قعقاع کے شجرہ ٔنسب کو سیف ،صعب بن عطیہ کی زبانی ،اس کے باپ بلال ابن ابی بلال سے روایت کرتا ہے ۔سیف کی روایتوں میں نو مواقع پر صعب کا نام ذکر ہو ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سات اصحاب کی زندگی کے حالات ان روایتوں سے حاصل کئے گئے ہیں ۔(۱)

اس کی کنیت ،جو ابن الحنظلیہ بتائی گئی ہے اور یہ کہ قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہے یہ سب سیف کی روایتیں ہیں اور اس کی روایتوں کی سند میں محمد بن عبداللہ بن سواد بن نویرہ کا نام ذکر ہوا ہے ۔طبری کی کتاب '' تاریخ طبری '' میں سیف کی روایتوں میں سے ٢١٦روایتوں کی سند میں عبداللہ کا نام آیا ہے ۔

سیف کی روایت میں مذکورہ محمد بن عبداللہ سے منقول قعقاع کی بیوی کانام مہلب بنت عقبہ اسدی بیان ہوا ہے ۔تاریخ طبری میں سیف کی ٧٦ روایات کی سند میں مہلب کا نام ذکر ہوا ہے ۔

لیکن قعقاع کے شعر کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہو ا ہے کہ سیف نے کسی راوی سے نقل کیا

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد ٢ میں عفیف بن المنذر اور دیگر چھ تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات۔

۱۳۳

ہے تاکہ ہم اس کے راوی کے بارے میں بحث کریں ۔

اسی طرح جنگی آمادگی کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی اس کی حدیث اور سقیفہ کے دن اس کا مسجد میں موجود ہونا ،یہ دونوں چیزیں سیف کے افسانہ کے ہیرو '' قعقاع '' سے نقل ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند نہیں ہے ۔

ہم نے حدیث ،تاریخ ،انساب اور ادب کی تمام کتابوں میں جستجو کی تاکہ مذکورہ راویوں کا کہیں کوئی سراغ ملے ،لیکن ہماری تلاش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا چوں کہ ان کے نام یعنی صعب ،محمد ،مہلب اور خود قعقاع سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے لہٰذا حدیث شناسی کے قاعدے اور قانون کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب کے سب سیف کے ذہنی تخیل کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

تحقیقات کا نتیجہ : جو کچھ اب تک قعقاع کے بارے میں ہم نے بیان کیا وہ صرف سیف کی روایت تھی ،کسی اور نے اس کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ اور مقائسہ کرتے ۔سیف ان مطالب کا تنہا ترجمان ہے ۔اس طرح اس کے مطالب کے واسطے روایتوں کی سند بھی اس کے ذہن کی تخلیق معلوم ہوتی ہے ۔

سیف کی حدیث کا نتیجہ

اول ۔ سیف اپنے مطالب کا مطالعہ کرنے والے کو اس طرح آمادہ کرتا ہے کہ ایک مطیع اور فرمانبردار کی طرح آنکھ بند کرکے مست و مدہوشی کے عالم میں ایک نغمہ سننے والے کی طرح اس کی باتوں میں محو ہو جائے ۔

دوم ۔ قعقاع کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا اور جو مطالب آئندہ آئیں گے اس سے معلوم ہوگا کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک ایسا صحابی جعل کیا ہے جو بزرگوار اور جلیل القدر ہے اور یہ بزرگوار ،خاندان تمیم کی عظمت کا نمونہ ہے ۔یہ ایک خوش ذوق شاعر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کا راوی ہے کہ اس کے بارے میں اصحاب کی زندگی کے حالات اور احادیث کے راویوں کی شناخت کے ذیل میں گفتگو ہوگی ۔

۱۳۴

قعقاع ،ابوبکر کے زمانے میں

لایهزم جیش فیهم مثل هٰذ ا

جس فوج میں ایسا بہادر قعقاع موجود ہو وہ فوج ہر گز شکست سے دو چار نہیں ہوگی

( ابو بکر کا بیان بقول سیف!)

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں

طبری ١١ ھ کے حوادث میں قبیلۂ ہوازن کے ارتداد کی بحث کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جب علقمہ بن علاثہ ٔ کلبی مرتد ہو ا،تو ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو حکم دیا کہ اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالے یا گرفتار کرے ،قعقاع نے ابوبکر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قبیلۂ ہوازن پر حملہ کیا علقمہ جنگل کے راستہ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے خاندان کے افراد قعقاع کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔قعقاع نے انھیں ابوبکر کے خدمت میں بھیجا ۔علقمہ کے خاندان نے ابوبکر کے سامنے اسلام کا اظہار کیا اور اپنے خاندان کے سردار کے عقائد کی تاثیر سے انکار کیا تو ان کی توبہ قبول کر لی گئی اور ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا '' ١

یہ داستان کہاں تک پہنچی ؟

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور ابو الفرج اور ابن حجر نے علقمہ کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں طبری سے نقل کیا ہے ۔اور ابن اثیر نے اسے خلاصہ کرکے طبری سے روایت کرتے ہوئے اپنی کتاب کامل میں درج کیا ہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے فرق

یہ داستان مذکورہ صورت میں سیف بن عمر نے نقل کی ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔اس سلسلے میں مدائنی لکھتا ہے :

''ابو بکر نے خالد بن ولید کو علقمہ کے خلاف کاروائی کرنے پر مامور کیا ۔علقمہ خالد کے چنگل سے بھاگ کر ابو بکر کی خدمت میں پہنچا اور اسلام قبول کیا ۔ابو بکر نے اسے معاف کرکے امان دے دی''٢

مذکورہ داستان کے پیش نظر سیف نے خالد بن ولید کے کام کو قعقاع بن عمر و تمیمی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے تاکہ یہ سعادت اس کے اپنے قبیلہ تمیم کو نصیب ہو جائے ۔اس کے بعد طبری نے سیف کی جعلی داستان کو نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر لوگوں نے بھی جھوٹ کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

موازنہ کا نتیجہ

علقمہ کی داستان ایک حقیقت ہے یہ داستان پوری کی پوری سیف کے تخیلات کی ایجاد نہیں ہے ۔بلکہ موضوع یہ ہے کہ سیف بن عمر نے خالد بن ولید کے کار نامے کو قعقاع بن عمر و تمیمی سے نسبت دے دی ہے ۔

سند کی جانچ پڑتال

اس داستان کی سند میں '' سہل بن یوسف سلمی '' اور ''عبداللہ بن سعید ثابت انصاری'' جیسے راویوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ۔تاریخ طبری میں سیف نے سہل سے ٣٧احادیث اور عبداللہ سے ١٦ احادیث روایت کی ہیں ۔چوں کہ ہم نے ان دو راویوں کا نام کتب طبقات وغیرہ میں کہیں نہیں پایا، لہٰذاہم ان دو راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔

۱۳۶

اس داستان کا نتیجہ

١۔ خلیفہ کے حکم سے قعقاع بن عمرو کا ہوازن کی جنگ میں شرکت کرنا اور علقمہ کے خاندان کا اس کے ہاتھوں اسیر ہونا ،قعقاع بن عمر و تمیمی کے لئے ایک فضیلت ہے ۔

٢۔ سیف نے اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حقائق میں تصرف کرکے ایک سچے واقعہ کی بنیاد پر ایک الگ اور جھوٹی داستان گڑھ لی ہے اور اس سے قبیلہ تمیم کے حق میں استفادہ کیا ہے جب کہ نہ قعقاع کا کوئی وجود ہے اور نہ اس کی جعلی داستان کی کوئی حقیقت ہے ۔یہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور افکار کی تخلیق ہے ۔

لیکن اس داستان کے علاوہ جو علقمہ کے نام سے مشہور ہے یا قوت حموی نے لغت ''بزاخہ '' جو سر زمین نجد میں ایک پانی کا سر چشمہ تھا اور ارتداد کی جنگیں اسی کے اطراف میں لڑی گئی ہیں کی وضاحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''مسحلان(۱) اس روز میدان جنگ سے فرار کرکے اپنی جان بچانے میں

____________________

۱)۔ سیف کے کہنے کے مطابق دشمن کے لشکر کے معروف افراد مسحلان کہلائے جاتے تھے سیف اپنے تخیلات کی مخلوق کے سرداروں کے نام اکثر و بیشتر الف و نون پر ختم کرتا تھا مثلا قماذیان ابن ہر مزان اور ابن الحیسمان و مسحلان وغیرہ ملاحظہ ہو کتاب طبری چاپ یوروپ ( ٢٨٠١١)اور ( ٢٤٠١)

۱۳۷

کامیاب ہوا اس دن اس نے میدان کار زار میں گرد و غبار آسمان پر اڑتے دیکھا اور خالد میدان جنگ میں دشمنوں کی فوج کو تہس نہس کر رہا تھا اور دشمنوں کو وحشی کتوں کی طرح چیر پھاڑ کر زمین پر چھوڑ دیتا اور آگے بڑھ جاتا تھا''

حموی کی یہ عادت ہے کہ جن جگہوں کا وہ نام لیتا ہے ان کے بارے میں سیف کے اشعار کو کسی راوی کا اشارہ کئے بغیر گواہ کے طور پر ذکر کرتا ہے اس قسم کی چیزیں ہمیں بعد میں بھی نظر آئیں گی

ہم نہیں جانتے ان اشعار میں سیف کیا کہنا چاہتا ہے !کیا ان شعار کے ذریعہ قعقاع کو ''بزاخہ''میں خالد کی جنگوں میں براہ راست شریک قرار دینا چاہتا ہے اور اسی لئے یہ اشعار کہے ہیں یا اس جنگ میں قعقاع کی شرکت کے بغیر اس کی توصیف کرنا چاہتا ہے۔ہماری نظر کے مطابق یہ امر بعید دکھائی دیتا ہے ۔بہر حال جنگ ''بزاخہ ''کا ذکر کرنے والوں نے قعقاع کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے ۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ،اس کے علاوہ ہم نے ارتداد کی جنگوں میں کہیں قعقاع کا نام نہیں پایا ۔لیکن ان کے علاوہ تاریخ کی اکثر مشہور کتابوں میں سیف ابن عمر سے مطالب نقل کئے گئے ہیں اور قعقاع اور اس کی شجاعت اور فتوحات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ان تحریفات کاپہلا حصہ ،عراق میں مسلمانوں کی جنگوں سے مربوط ہے جس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :

۱۳۸

قعقاع،عراق کی جنگ میں :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے : ١

''جب خالد بن ولید ،یمامہ کی جنگ سے واپس آیا ابوبکر نے اسے حکم دیا کہ اپنے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو جائے اور اس ضمن میں یہ بھی حکم دیا کہ اپنے لشکر کے سپاہیوں سے کہہ دے کہ جو بھی اس فوجی مہم میں شرکت کرنا نہیں چاہتا وہ اپنے گھرجا سکتا ہے ۔جوں ہی خلیفہ کا حکم لشکر میں اعلان کیا گیا خالد کی فوج تتر بتر ہو گئی اور گنے چنے چند افراد کے علاوہ باقی سب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ۔اس طرح خالد نے مجبور ہو کر خلیفہ سے نئی فوج کی مدد طلب کی ۔ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو خالد کے فوجی کیمپ کی طرف روانہ کیا ان حالات پر نظر رکھنے والے افراد نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ خالد نے اپنی فوج کے تتر بتر ہونے پر آپ سے نئی فوج کی درخواست کی ہے اور آپ صرف ایک آدمی کو اس کی مدد کے لئے بھیج رہے ہیں ؟! ابو بکر نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا : جس فوج میں ایسا پہلوان موجود ہو وہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی۔''

اس کے بعد طبری نے عراق کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں قعقاع کی شجاعتوں اور بہادریوں کا ذکر کیا ہے ۔ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو آخر تک بیان کیا ہے لیکن اس کاکوئی راوی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ اس کا راوی صرف سیف ہے ۔طبری نے یہ حدیث سیف سے لی ہے اور دسروں نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے نے بھی اپنی کتاب معجم البلدان میں سیف کی احادیث میں ذکر شدہ اماکن کی نشاندہی کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے ۔

طبری نے سیف بن عمر کی روایت سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے پہلی جنگ جو عراق میں مسلمانوں اور مشرقین کے درمیان واقع ہوئی '' ابلہ''(۱) کی جنگ تھی ۔

____________________

۱)۔ ''ابلہ '' خلیج فارس کے نزدیک دریائے دجلہ کے کنارے پر ایک شہر تھا جو بصرہ تک پھیلا ہوا تھا یہ شہر اس زمانہ میں فوجی اہمیت کے لحاظ سے ایرانیوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل تھا اور ملک کی ایک عظیم فوجی جھاونی محسوب ہوتا تھا۔

۱۳۹

ابلہ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے:

'' ابو بکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عراق کی جنگ کو ہند اور سندھ کی سرحد سے شروع کرے '' اس کے بعد سیف کہتا ہے : '' ابلہ '' ان دنوں ہند اور سندھ کی سرحد تھی اس کے بعد ''ابلہ'' کی فتح کی داستان یوں بیان کرتا ہے :

ایرانی فوج کا سپہ سالارہرمز '' ابلہ'' میں خالد کو قتل کرنے کی سازش تیار کرتا ہے اس لئے اپنے سپاہیوں سے کہتا ہے کہ جب وہ خالد کے ساتھ دست بدست جنگ شروع کرے تو بھر پور حملہ کرکے خالد کا کام تمام کردیں اس لئے ہرمز ،خالد کو دست بدست جنگ کی دعوت دیتا ہے اور خالد بھی ہرمز سے لڑنے کے لئے پیدل آگے بڑھتا ہے جب دونوں سپہ سالار آمنے سامنے آکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہرمز کے سپاہی اچانک خالد پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دست بدست جنگ کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چالبازی سے خالد کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن قعقاع بن عمرو جو حالات اور دشمن کی تمام نقل و حرکت پر پوری طرح نظریں جمائے ہوئے تھا خالد کو کسی قسم کا گزند پہنچنے سے پہلے اکیلا میدان میں کود پڑتا ہے اور دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرکے انھیں تہس نہس کرکے ان کی چالبازی کو ناکام بنا دیتا ہے اور اس گیرو دار کے دوران ہرمز خالد کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے ۔ ایرانی اپنے سپہ سالار کو قتل ہوتے دیکھ کر میدان جنگ سے بھاگ جاتے ہیں اس طرح شکست سے دو چار ہوتے ہیں اور قعقاع بن عمرو فاتح کی حیثیت سے سر بلند ی کے ساتھ میدان جنگ سے واپس لوٹتا ہے ''

یہ داستان کہاں تک پہنچی ہے ؟

اس روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور دیگر لوگوں نے ،جیسے ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلکان نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔

طبری ابلہ کی فتح اور جنگی غنائم کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :

'' ابلہ کی فتح کے بارے میں یہ داستان اس کے برخلاف ہے جو صحیح روایتوں میں بیان ہوئی ہے ''

اس کی وضاحت ہم مناسب جگہ پر کریں گے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416