ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب19%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214978 / ڈاؤنلوڈ: 4958
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

پانچواں سبق:

دينى حكومت كے منكرين

''دينى حكومت'' ايك سياسى نظريہ ہے ، جو مختلف سياسى و حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كوتسليم كرنے سے وجود ميں آتا ہے _ دينى حكومت وہ حكومت ہے جو دين كے ساتھ سازگار ہوتى ہے اور كوشش كرتى ہے كہ دين كے پيغام پر لبيك كہے جو انتظامى امور ، اجتماعى و سماجى روابط اور ديگر حكومتى امور ميں دين كى باتوں پركان دھرے اور معاشرتى امور كو دينى تعليمات كى روشنى ميں منظم كرے _يہ تمام بحث گذر چكى ہے _

دين اور حكومت كى تركيب اور دينى حكومت كے قيام كے ماضى ميں بھى مخالفين رہے ہيں اور آج بھى موجود ہيں _ اس مخالفت سے ہمارى مراد دين اور حكومت كى تركيب كا نظرياتى انكار ہے اور دينى حكومت كے خلاف سياسى جنگ اور عملى مخالفت ہمارى بحث سے خارج ہے_ دينى حكومت كے منكرين وہ افراد ہيں جو نظريہ'' تركيب دين و حكومت ''اور مختلف سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كو منفى نگاہ سے ديكھتے ہيں اور اس كاانكار كرتے ہيں_ اس انكار كى مختلف ادلّہ ہيں اختلاف ادلّہ كے اعتبار سے دينى حكومت كے مخالفين و منكرين كى ايك مجموعى تقسيم بندى كى جاسكتى ہے _

دينى حكومت كے مخالفين تين گروہوں ميں تقسيم ہوتے ہيں_

۴۱

۱_ وہ مسلمان جو معتقد ہيں كہ اسلام صرف انسان كى معنوى اور اخلاقى ہدايت كيلئے آيا ہے اور فقط انسان كو آداب عبوديت سيكھاتا ہے ان افراد كے بقول اسلام نے سياسى امور ميں كسى قسم كى مداخلت نہيں كى ہے _ دين اور سياست دو الگ الگ چيزيں ہيں اور دينى اہداف سياست ميں دين كى دخالت كے ساتھ مطابقت نہيں ركھتے _

دينى حكومت كے مخالفين كايہ گروہ سياسى امور ميں دين كى حكمرانى كا كلى طور پر انكار نہيں كرتا بلكہ اس كا اصرار يہ ہے كہ اسلامى و دينى تعليمات ميں سياسى پہلو مفقود ہے _ يہ افراد اس بات كو تسليم كرتے ہيں كہ اگر دينى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت دى گئي ہوتى اور دين نے مختلف سياسى شعبوں اور حكومتى امور ميں عملى طور پر راہنمائي كى ہوتى تو دينى حكومت كى تشكيل ميں كوئي ركاوٹ نہ ہوتى _ بنابريں دينى حكومت كے قائلين كے ساتھ ان كاجھگڑا فقہى و كلامى ہے _ نزاع يہ ہے كہ كيا دينى تعليمات ميں ايسے دلائل اور شواہد موجود ہيں جوہميں دينى حكومت كى تشكيل اور دين و سياست كى تركيب كى دعوت ديتے ہيں ؟

۲_ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے ، جو تاريخى تجربات اور دينى حكومتوں كے قيام كے منفى نتائج كى وجہ سے دين اور سياست كى جدائي كے قائل ہيں _ ان كى نظر ميں دينى حكومت كى تشكيل كے بعض تاريخى تجربات كچھ زيادہ خوشگوار نہيں تھے _ اس كى واضح مثال قرون وسطى ميں يورپ ميں قائم كليسا كى حكومت ہے كہ جس كے نتائج بہت تلخ تھے _

اس نظريہ كے قائلين كى نظر ميں دين و سياست كى تركيب دين كے چہرہ كو بگاڑ ديتى ہے اور اس سے لوگوں كا دين كو قبول كرنا خطرے ميں پڑجاتاہے_ لہذا بہتر ہے كہ دين كو سياست سے جدا ركھا جائے_ چاہے سياست اور حكومت كے سلسلہ ميں دينى تعليمات موجود ہى كيوں نہ ہوں _ بنابريں اس گروہ كے بقول بحث

۴۲

اس ميں نہيں ہے كہ دين سياسى پہلو كا حامل نہيں ہے بلكہ يہ افراد سياست اور حكومت ميں دينى تعليمات كى دخالت ميں مصلحت نہيں سمجھتے _ ان كا عقيدہ ہے كہ اگر چہ دين سياسى جہات كا حامل ہى كيوں نہ ہو تب بھى دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج كى وجہ سے اس قسم كى دينى تعليمات سے ہاتھ كھينچ لينا چاہيے اور سياست كو خالصة ً لوگوں پر چھوڑ ديناچاہيے _

۳_ دينى حكومت كے مخالفين كا تيسرا گروہ وہ ہے جو امور سياست ميں دين كى مداخلت كاكلى طور پرمخالف ہے _ يہ افراد سياسى اور حكومتى امور ميں دين كى حكمرانى كو تسليم نہيں كرتے _ ان كى نظر ميں بات يہ نہيں ہے كہ كيا حكومتى امور او رمعاشرتى نظام كے متعلق دين كے پاس تعليمات ہيں يا نہيں ؟ بلكہ ان كى نظر ميں دين كو اجتماعى اور سياسى امو رسے الگ رہنا چاہيے اگر چہ اجتماعى اور سياسى امور كے متعلق اس كے پاس بہت سے اصول اور تعليمات ہى كيوں نہ ہوں _ اس نظريہ كى بنياد پر اگر دين، سياسى امور ميں اپنے لئے حكمرانى كا قائل ہو اور اس نے دينى حكومت تشكيل دينے كا كہا ہو ،اور مختلف سياسى امور ميں اپنى تعليمات پيش بھى كى ہوں ليكن عملى طور پر سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم نہيں كيا جا سكتا كيونكہ سياست او رمعاشرتى نظام مكمل طو ر پر انسانى اور عقلى امر ہے او ردين اس ميں مداخلت كى صلاحيت نہيں ركھتا اور اس ميں دين كو دخيل كرنے كا واضح مطلب، انسانى علم و دانش اور تدبر وعقل سے چشم پوشى كرنا ہے_يہ افراد در حقيقت سيكو لر حكومت كى حمايت كرتے ہے اور مكمل طور پر سيكولرازم كے وفادار ہيں _

سياست سے اسلام كى جدائي

جيسا كہ اشارہ ہو چكا ہے : دينى حكومت كے مخالفين كا پہلا گروہ يہ اعتقاد ركھتا ہے كہ اسلام نے اپنى تعليمات ميں مسلمانوں كو دينى حكومت كى تشكيل كى ترغيب نہيں دلائي _ان كا زور اس بات پر ہے كہ

۴۳

آنحضرت (ص) مدينہ ميں كئي سال رہے ليكن كيا آپ (ص) نے وہاں حكومت تشكيل دى ؟اگر مان بھى ليا جائے كہ حكومت قائم كى تھى سوال يہ ہے كہ كيا اس حكومت كے قيام كا سرچشمہ فرمان الہى اور دعوت دينى تھى ؟ يا نہيں بلكہ اس كا سرچشمہ صرف عوام تھے ،اور تشكيل حكومت كے سلسلہ ميں اسلامى تعليمات خاموش تھيں ؟

تاريخى حقيقت يہ ہے كہ ہجرت مدينہ كے بعد آنحضرت (ص) نے اطراف مدينہ كے قبائل كو اسلام كى دعوت دى تھى اورايك اتحاد تشكيل ديا كہ جس كا مركز مدينة النبى تھا_

اس سے مسلمانوں نے ہميشہ يہى سمجھا كہ آنحضرت (ص) نے مدينہ ميں حكومت بنائي تھي_ نبوت اور ہدايت وراہنمائي كے ساتھ ساتھ مسلمانوں كے سياسى امور كى باگ ڈور بھى آپ (ص) كے ہاتھ ميں تھى آپ (ص) كے اس اقدام كا سرچشمہ وحى اور الہى تعليمات تھيں او رآنحضرت (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ فرمان الہى تھا:

''( النبى اولى بالمؤمنين من انفسهم ) ''

نبى تمام مومنين سے ان كے نفس كى نسبت زيادہ اولى ہے_ (سورہ احزاب آيت۶)

''( انّا انزلنااليك الكتاب بالحق لتحكم بين الناس بمااريك الله ) ''

ہم نے آپ پر برحق كتاب نازل كى ہے تاكہ آپ لو گوں كے در ميان حكم خدا كے مطابق فيصلہ كريں_(سورہ نساء آيت ۱۰۵)

ان دو آيات ميں الله تعالى نے مسلمانوں پر آنحضرت (ص) كو ولايت عطا فرمائي ہے اور آپ (ص) كو حكم دياہے كہ قرآن نے آپ كو جو سيكھاياہے اس كے مطابق لوگوں كے در ميان فيصلہ كريں_ اسى طرح دوسرى آيات ميں مسلمانوں كو حكم دياہے كہ وہ آپ (ص) كى اطاعت كريں_

''( اطيعواالله واطيعواالرسول ) ''

خدا اور رسول كى اطاعت كرو (سورہ نساء آيت۵۹)

۴۴

( ''فلا و ربّك لا يؤمنون حتى يحكّموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوافى انفسهم حرجامّما قضيتَ و يسلّمواتسليماً'' )

پس آپ(ص) كے پروردگار كى قسم يہ كبھى بھى صاحب ايمان نہيں بن سكتے جب تك آپ كو اپنے باہمى اختلاف ميں منصف نہ بنائيں اور پھر جب آپ فيصلہ كرديں تو اپنے دل ميں كسى تنگى كا احساس نہ كريں_ اور آپ كے فيصلہ كے سامنے سرا پا تسليم ہوجا ہيں_(سورہ نساء آيت ۶۵)

اس مشہور و معروف تفسير كى بنياد پر صدر اسلام ميں مسلمانوں كے دينى حكومت كے تشكيل دينے كا سرچشمہ دين اور اس كى تعليمات تھيں اور يہ اقدام مكمل طور پر دينى اور مشروع تھا اور در حقيقت يہ دين كے پيغام پر لبيك تھا_ ليكن آخرى عشروں ميںبعض سنى اور بہت كم شيعہ مصنفين نے اس معروف تفسير اور نظريہ كى مخالفت كى ہے_(۱)

مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى اس سياسى حاكميت كى يہ افراد كچھ اور تفسير كرتے ہيں_ بعض تو سرے سے ہى اس كے منكر ہيں اور اس بات پر مصر ہيں كہ آنحضرت (ص) صرف دينى رہبر و قائد تھے اور انہوں نے حكومتى و سياسى امور كبھى بھى اپنے ہاتھ ميں نہيں لئے تھے_ جبكہ اس كے مقابلہ ميں بعض افراد معتقد ہيں كہ آنحضرت (ص) سياسى ولايت بھى ركھتے تھے ليكن يہ ولايت خدا كى طرف سے عطا نہيں ہوئي تھى بلكہ اس كا سرچشمہ رائے عامہ تھي_ اورلوگوںنے ہى حكومت آپ كے سپرد كى تھي_ پس دين نے اپنى تعليمات ميں تشكيل حكومت كى دعوت نہيں دى ہے اور رسولخدا (ص) كى حكومت خالصةًايك تاريخى اور اتفاقى واقعہ تھا لہذا اسے ايك دينى دستور كے طور پر نہيں ليا جاسكتا_

ہم اس كتاب كے دوسرے باب ميں جو اسلام كے سياسى تفكر كى بحث پر مشتمل ہے مذكورہ نظريوں كے

____________________

۱) اس بحث كا آغاز ۱۹۲۵ عيسوى ميں مصرى مصنف على عبدالرزاق كى كتاب '' الاسلام و اصول الحكم'' كے چھپنے كے بعد ہوا_

۴۵

بارے ميں تفصيلى گفتگو كريں گے اور دينى حكومت كے مخالف اس گروہ كى ادلہ كا جواب ديں گے_

دينى حكومت كا تاريخى تجربہ :

پہلے اشارہ كر چكے ہيں كہ دينى حكومت كے مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كى تشكيل كے منفى اور تلخ نتائج پر مصر ہے اور يہ افراد اپنے انكار كى بنياد انہى منفى نتائج كو قرار ديتے ہيں_ ان كى ادلّہ كا محور دينى حكومت كے قيام كے تاريخى تجربات كا تنقيدى جائزہ ہے_

ان افراد كے جواب كے طور پر ہم چند نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

۱_ انسانى تاريخ مختلف قسم كى دينى حكومتوں كى گواہ ہے_ ان ميں سے بعض اپنى تاريخى آزمائشےوں ميں كامياب نہ ہوسكيں ليكن بعض انبيائ اور اوليا الہى كى حق اور عدل و انصاف پر مبنى حكومتيں دينى حكومت كى تاريخ كا سنہرى ورق ہيں_ مدينہ ميں آنحضرت (ص) كى دس سالہ قيادت و رہبرى اور حضرت امير المؤمنين كى تقريباً پانچ سالہ حكومت، دينى حكومت كى بہترين مثاليں ہيں_ جن كى جزئيات اور درخشاں دور تاريخ كے ہر محقق اور مورّخ كے سامنے ہے_ اس دور ميں عدل ، تقوى اور فضيلت كى حكمرانى كے روح پرور جلوے ايسے خوشگوار اور مسرت انگيز ہيں كہ نہ صرف مسلمانوں كيلئے بلكہ پورى انسانيت كيلئے قابل فخر و مباہات ہيں_ بنابريں كلى طور پر تمام دينى حكومتوں كو يكسر رد نہيں كيا جاسكتا _ بلكہ علمى انصاف كا تقاضا يہ ہے كہ ہر تاريخى تجربہ كا باريك بينى سے جائزہ ليا جائے_

۲_ دينى حكومت كے بھى مراتب اور درجات ہيں_ عالم اسلام اور عيسائيت كى بعض دينى حكومتيں اگر چہ بہت اعلى اور مطلوب حد تك نہيں تھيں ليكن اپنے دور كى غير دينى حكومتوں سے بہت بہتر تھيں_ عالم اسلام كى

۴۶

ابتدائي سو سالہ اسلامى حكومتيں '' اگر چہ ہمارے نزديك ان ميں سے اكثر حكومتيں غاصب تھيں اور اسلامى اصولوں پر استوار نہيں تھيں'' اس كے باوجود دينى حكومت كے كچھ مراتب كا پاس ضرور ركھتى تھي_ لہذا يہ ادعا كيا جاسكتا ہے كہ يہ حكومتيں اپنے دور كى غير دينى حكومتوں كى نسبت بہت سے بہتر نكات كى حامل تھيں_مفتوحہ علاقوں كے رہنے والوں سے مسلمان فاتحين كے سلوك كو بطور نمونہ پيش كيا جاسكتا ہے كہ جس نے ان كے اسلام لانے ميں اہم كردار ادا كيا_ اس لحاظ سے كشور كشائي كے خواہشمند سلاطين اور دوسرى فاتح حكومتوں كا ان سے مقائسہ نہيں كيا جاسكتا_

۳_ اس حقيقت سے انكار نہيں كيا جاسكتا كہ بہت سے اعلى حقائق ، گرانقدرمفاہيم اور بلند و بالا اہداف سے غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے _ كيا نبوت كے جھوٹے دعوے نہيں كئے گئے ؟ كيا آبادكارى اور تعمير و ترقى كے بہانے استعمارى حكومتوں نے كمزور ممالك كو تاراج نہيں كيا؟ موجودہ دور ميں جمہوريت اور آزادى كى علمبردار مغربى حكومتوں نے حقوق بشر اور آزادى كے بہانے عظيم جرائم كا ارتكاب نہيں كيا؟ اور فلسطين جيسى مظلوم قوموں كے حق ميں تجاوز نہيں كيا؟

ان غلط استفادوں اور تحريفات كا كيا كيا جائے؟ كيا نبوت ، امامت ، دين ، آزادى اور حقوق بشر كو ترك كرديا جائے؟ صرف اس دليل كى بنياد پر كہ بعض افراد نے بعض موارد ميں ان گرانقدر اور مقدس امور سے غلط استفادہ كيا ہے؟ بلكہ معقول اور منطقى بات يہ ہے كہ ہوشيارى ، دقت ، آگاہى اور طاقت سے غلط كاريوں اور سوء استفادہ كى روك تھام كى جائے_

دينى حكومت بھى ان مشكلات سے دوچار ہے _ دين كے تقدس اوردينى حكومت سے غلط فائدہ اٹھانے اور دين كى حقيقت اور روح كو پس پشت ڈال دينے كا امكان ہميشہ موجود ہے_ دينى حكومتوں كو راہ راست

۴۷

سے بھٹكنے اور دينى تعليمات سے ہٹنے كا خطرہ ہميشہ موجود رہتا ہے لہذا صاحبان دين كى علمى آگاہى اور نظارت كى ضرورت مزيد بڑھ جاتى ہے_ ليكن كسى صورت ميں بھى يہ بات عقلى و منطقى نہيں ہے كہ ان خطرات كى وجہ سے دين كى اصل حاكميت اور سماج و سياست ميں اس كے كردار سے منہ موڑليا جائے_صاحبان دين كو ہميشہ اس كى طرف متوجہ رہنا چاہيے كہ حقيقى اسلام كا نفاد اور دين مقدس كى گرانقدر تعليمات كى بنياد پر اجتماعى امور كى تدبير لوگوں كيلئے كس قدر شيريں ، گوارا اور پر ثمر ہے_

۴۸

خلاصہ

۱) دين اور سياست كى تركيب كے مخالفين تين قسم كے ہيں_

الف : دينى حكومت كے مخالفين كا ايك گروہ وہ مسلمان ہيں جن كا عقيدہ يہ ہے كہ اسلام نے دينى حكومت كے قيام كى دعوت نہيں دى اور سياست كے متعلق اس كے پاس كوئي خاص اصول اور تعليمات نہيں ہيں_

ب: مخالفين كا دوسرا گروہ دينى حكومت كے انكار كى بنياد ماضى ميں قائم دينى حكومتوں كے تلخ اور ناخوشگوار نتائج كو قرار ديتا ہے_

ج : تيسرا گروہ سرے سے اجتماعى اور سياسى امور ميں دين كى حاكميت كو تسليم ہى نہيںكرتا_

۲) تاريخى حقيقت يہ ہے كہ آنحضرت (ص) نے دينى حكومت قائم كى تھى اور ان كى سياسى فرمانروائي كا سرچشمہ وحى الہى تھى _

۳) طول تاريخ ميں تمام دينى حكومتيں منفى نہيں تھيں بلكہ ان ميں سے بعض قابل فخر اور درخشاں دور كى حامل تھيں_

۴)مقدس امور سے غلط استفادہ كا امكان صرف دين اور دينى حكومت ميں منحصر نہيں ہے بلكہ دوسرے مقدس الفاظ و مفاہيم سے بھى غلط استفادہ كيا جاسكتا ہے_

۴۹

سوالات :

۱) دين و سياست كى تركيب كے مخالفين كى مختصر تقسيم بندى كيجئے_

۲) جو افراد دينى حكومت كے انكار كى وجہ تاريخ كے تلخ تجربات كو قرار ديتے ہيں وہ كيا كہتے ہيں؟

۳) رسولخد ا (ص) كى سياسى ولايت كا سرچشمہ كيا ہے؟

۴) دينى حكومت كے منكرين كے دوسرے گروہ كو ہم نے كيا جواب ديا ہے؟

۵۰

چھٹا سبق:

سيكولرازم اور دينى حكومت كا انكار

گذشتہ سبق ميں اشارہ كرچكے ہيں كہ دينى حكومت كے منكرين كا تيسرا گروہ اجتماعى اور سياسى امور ميں سرے سے ہى دينى حاكميت كى مخالفت كرتا ہے اور سيكولر حكومت كى حمايت كرتا ہے_ اگر چہ اس نظريہ كے قائلين خود كو سيكولر نہيں كہتے ليكن حقيقت ميں سيكولرازم كے بنيادى ترين اصول كے موافق اور سازگار ہيںكيونكہ يہ اجتماعى اور سياسى امور ميں دين سے بے نيازى كے قائل ہيں ان افراد كى ادلّہ كى تحقيق سے پہلے بہتر ہے سيكولرازم اور اس كے نظريات كى مختصر وضاحت كردى جائے_

سيكولرازم كى تعريف:

سيكولرازم(۱) وہ نظريہ ہے جو يورپ ميں عہد '' رنسانس'' كے بعد اقتصادى ، ثقافتى اور سماجى تحولات كے نتيجہ ميں معرض وجود ميں آيا_ اس كا اہم ترين نتيجہ اور اثر سياست سے دين كى عليحد گى كا نظريہ ہے_ سيكولرازم كا فارسى ميں دنيوى ، عرفى اور زمينى جيسے الفاظ سے ترجمہ كيا گيا ہے_ اور عربى ميں اس كيلئے '' العلمانيہ '' اور

____________________

۱) Secularism

۵۱

''العَلَمانية ''كے الفاظ استعمال كئے جاتے ہيں_ جنہوں نے سيكولرازم كيلئے لفظ ''العلمانيہ'' كا انتخاب كيا ہے_ انہوں نے اس كو '' علم '' سے مشتق جانا ہے _ اور اسے علم كى طرف دعوت دينے والا نظريہ قرار ديا ہے اور جنہوں نے اس كيلئے ''العَلمانية'' كے لفظ كا انتخاب كيا ہے _ انہوں نے اسے عالَم ( دنيا ، كائنات) سے مشتق سمجھاہے اور سكولرازم كو آخرت كى بجائے دنيا پر ستى والا نظريہ قرار ديا ہے كہ وحى الہى سے مدد لينے كى بجائے انسان كى دنيوى طاقت مثلا عقل و علم سے مدد لى جائے_

فارسى اور عربى كے اس جيسے ديگر الفاظ اور خود لفظ (سيكولر) اس اصطلاح كے تمام اور ہمہ گير مفہوم كو ادا نہيں كرسكتے _ طول زمان كے ساتھ ساتھ بہت سى تاريخى اصطلاحوں كى طرح لفظ سيكولرازم اور سيكولر بھى مختلف اور متعدد معانى ميں استعمال ہوتے رہے ہيں اور تاريخى تحولات كے ساتھ ساتھ ان كے معانى بدلتے رہے ہيں_ابتدا ميں سيكولر اور لائيك(۱) كى اصطلاحيں غير مذہبى و غير دينى معانى و مفاہيم كيلئے استعمال ہوتى تھيں_قرون وسطى ميں يورپ ميں بہت سى موقوفہ اراضى ( وقف شدہ زمين) تھيں جو مذہبى افراد اور راہبان كليسا كے زير نظر تھيں جبكہ غير موقوفہ اراضى غير مذہبى يعنى سيكولر افراد كے زير نظر تھيں اس لحاظ سے سيكولر غير مذہبى اور غير پادرى افراد كو كہا جاتا تھا_

____________________

۱) آج بہت سى حكو متوں كو لائيك اور سيكولر كہا جاتاہے _ قابل غور ہے كہ سيكولر اور لائيك كے درميان كوئي بنيادى فرق نہيں ہے_ اور دونوں اصطلاحيں ايك ہى مخصوص نظريہ پر دلالت كرتيں ہيں _ وہى نظريہ جو سياست ميں دين كى مداخلت كو قبول نہيں كرتا _ اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ پروٹسٹنٹ t Protestan (دين مسيحيت كے ماننے والوں كا ايك فرقہ) علاقوں ميں سيكولرازم اور سيكولر كى اصطلاحيں رائج ہوئيں_ ليكن كيتھولك ممالك مثلا فرانس و غيرہ ميں لائيك اور لائيسيتہ ( Laicite ) كى اصطلاح مشہور ہوئي _ و گرنہ لائيك اور سيكولر ميں معنى كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں ہے_

۵۲

زمانہ كے گزرنے كے ساتھ ساتھ لفظ سيكولر اور لائيك ايك مخصوص معنى ميں استعمال ہونے لگے_ حتى كہ بعض موارد ميں اس سے دين اور صاحبان دين سے دشمنى كى بو آتى ہے _ ليكن اكثر موارد ميں انہيں غير مذہبيت يا كليسا اور مذہبى لوگوں كے تحت نظر نہ ہونے كيلئے استعمال كيا جاتا تھا نہ كہ دين دشمنى كے معنى ميں_ مثلا سيكولر مدارس ان سكولوں كو كہتے ہيں جن ميں دينى تعليم كى بجائے رياضى يا دوسرے علوم كى تعليم دى جاتى ہے اور ان كے اساتذہ مذہبى افراد اور پادرى نہيں ہوتے _

آہستہ آہستہ يہ فكر اور نظريہ رائج ہونے لگا كہ نہ صرف بعض تعليمات اور معارف ، دين اور كليسا كے اثر و نفوذ سے خارج ہيں بلكہ انسانى زندگى كے كئے شعبے دين اور كليسا كے دائرہ كار سے خارج ہيں_

يوں سيكولرازم اور لائيك نے ايك نئي فكرى شكل اختيار كر لى اور سيكولرازم نے كائنات اورانسان كو ايك نيا نظريہ ديايہ نيا نظريہ بہت سے موارد ميں دين كى حاكميت اور اس كى تعليمات كى قدر و قيمت كا منكر ہے_

سيكولر حضرات ابتداء ميں علم اور ايمان كى عليحد گى پر اصرار كرتے تھے_ اس طرح انہوں نے تمام انسانى علوم حتى كہ فلسفى اور ماورائے طبيعت موضوعات كو بھى دينى حاكميت اور دينى تعليمات كے دائرے سے خارج كرديا_البتہ ان لوگوںكى يہ حركت اور فكر كليسا كى سخت گيرى كا نتيجہ اور رد عمل تھا كہ جنہوں نے علم و معرفت كو عيسائيوں كى مقدس كتب كى خو د ساختہ تفسيروں ميں محدود كرديا تھا اور دانشوروں كى تحقيقات اور علمى رائے كى آزادى كو سلب كرليا تھا_ مسيحى كليساؤں نے قرون وسطى كے تمام علمى ، ادبى اور ثقافتى شعبوں ميں مقدس كتب اور اپنى اجارہ دارى قائم كر ركھى تھي_ اس وجہ سے سيكولر حضرات رد عمل كے طور پر'' سيكولر علوم اور وہ علوم جو دين اور كليسا كى دسترس سے خارج تھے'' كے دفاع كيلئے اٹھ كھڑے ہوئے_

علم طبيعيا سے علم فلسفہ ميں بھى يہى بات سرايت كر گئي اور سيكولر فلسفہ كى بنياد پڑي_ پھر آہستہ آہستہ سياسى

۵۳

اور سماجى و اجتماعى امور بھى اس ميں داخل ہوگئے اور علم و فلسفہ كى طرح سياسى ميدان ميں بھى سيكولرازم كى راہ ہموار ہوگئي _ سيكولر افراد كے ہاں سياست سے دين كى جدائي كا نظريہ اور سياسى امور ميں دين اور كليساكى حاكميت كى نفى كا نظريہ شدت اختيار كر گيا لہذا سيكولرازم نہ صرف سياست سے دين كى عليحد گى كا حامى ہے بلكہ علم سے بھى دين كى جدائي كا دفاع كرتا ہے_ بنيادى طور پر سيكولرازم اس كا خواہاں ہے كہ ان تمام امور كو سيكولر اور غير دينى ہوجانا چاہيے جو دين كے بغير قائم رہ سكتے ہيں_ پس سيكولرازم ، سيكولر علم ، سيكولر فلسفہ ، سيكولر قانون اور سيكولر حكومت كا حامى ہے_

سيكولر ازم كى بنياد ايك ايسى چيز پر ہے جسے'' سيكولر عقلانيت''(۱) كہتے ہيں _ اس مخصوص عقلانيت(۲) نے موجودہ مغربى معاشرہ كى تشكيل ميں بہت بڑا كردار ادا كيا ہے_ '' سيكولر عقلانيت '' نے ايك طرف حاكميت دين كى حدودكے متعلق نئے نظريات پيش كئے ہيں تو دوسرى طرف انسانى عقل اور علم كى اہميت پر زور ديا ہے_ سيكولرازم صرف انسان كى انفرادى زندگى اور اس كے خدا كے ساتھ تعلق ميں دين كى حاكميت كا قائل ہے جبكہ انسان كى علمى اور اجتماعى زندگى ميں دين كى حكمرانى كو تسليم نہيں كرتا_ بلكہ ان امور ميں انسانى علم اورعقل كى فرمانروائي پر زور ديتا ہے'' سيكولر عقلانيت'' كے نزديك انسانى علم و عقل ہر قسم كے سرچشمہ معرفت سے مستقل اور بے نياز ہے لہذا اسے اپنے استقلال اور بے نيازى پر باقى رہنا چاہيے _ انسانى عقل اور علم ، دين اور ہر قسم كے سرچشمہ معرفت سے بے نياز اور مستقل رہتے ہوئے انسانى زندگى كى پيچيدگيوں كو حل كرنے كى صلاحيت ركھتے ہيں_ اس طرح سيكولرازم نے سيكولر عقلانيت اور انسانى عقل و علم كے بارے ميں اس خاص

____________________

۱) Secular Rationality

۲) Rationality

۵۴

نظريہ كى بناء پر آہستہ آہستہ مختلف علمى امور سے دين كى حاكميت كو ختم كيااور علمى زندگى اورموجودہ مغربى معاشرہ كے مختلف شعبوں ميں خود انسان اور عقل پر زيادہ زور دينے لگا _ (۱)

دين اور سيكولرازم

سيكولرازم عقل اورا نسانى علم كو وحى اور دينى تعليمات سے بے نياز سمجھتا ہے اور ان تمام امور ميں دين كى طرف رجوع كرنے كى نفى كرتا ہے جن تك انسانى عقل اور علم كى رسائي ہے _ سيكولرازم كى نظر ميں صرف ان امور ميں دين كى حاكميت قبول ہے جن تك انسانى عقل اور علم كى رسائي نہيں ہوتى _دين كے ساتھ سيكولرازم كے اس رويہ كو كيا الحاد اور دين دشمنى كا نام ديا جاسكتا ہے؟

حقيقت يہ ہے كہ حاكميت دين كى حدود سے متعلق سيكولرازم كى تفسير اس تفسير سے بالكل مختلف ہے جو صاحبان دين كرتے ہيں_ صاحبان دين كے نزديك دين كى مشہور، رائج اور قابل قبول تشريح يہ ہے كہ دين كى حاكميت صرف انسان كى خلوت اور خدا كے ساتھ اس كے انفرادى رابطے تك منحصر نہيں ہے بلكہ ايك انسان كا دوسرے انسان سے تعلق ، اور انسان كا كائنات اور فطرت سے تعلق سب دينى ہدايت كے تابع ہيںاور اجتماعى زندگى كے مختلف شعبوں ميں دين نے اپنى تعليمات پيش كى ہيں_ دين كے بارے ميں اس رائج فكر كے ساتھ ''سيكولر عقلانيت'' اتنا فرق نہيں ركھتى كہ ہم سيكولرازم كو ملحد اور دشمن دين سمجھيں _ سيكولرازم كا انسانى عقل و علم كے وحى اور دينى تعليمات سے جدا اور بے نياز ہونے پر اصرار ايمان اور دين كے ساتھ تضاد نہيں ركھتا _ سيكولرازم يقيناً دين كى حاكميت كو محدود كرتا ہے اور وہ امور جو عقل انسانى اور علم بشرى كى دسترس ميں ہيں انہيں ايمان اور دين كى فرمانروائي سے خارج سمجھتا ہے_ اس قسم كے موارد ميںانسانى علم و فہم سے حاصل شدہ

____________________

۱) سيكولرازم كے متعلق مزيد تفصيل كيلئے احمد واعظى كى كتاب حكومت دينى (نشر مرصاد ۱۳۷۸قم ) كى دوسرى فصل كا مطالعہ فرمائيں_

۵۵

ظن و گمان كودينى تعليمات سے حاصل ہونے والے يقين و اعتقاد پر ترجيح ديتاہے اور اس كو شش ميں رہتا ہے كہ دينى اعتقادات كو عقل و علم اور انسانى منطق كى كسوٹى پر پركھے ليكن اس كے باوجود سيكولرازم كو ملحد اور دشمن دين نہيں كہا جاسكتا_

ہمارى نظر ميں سيكولر ہونے كى بنياد'' سيكولر عقلانيت'' كے قبول كرنے پر منحصر ہے يعنى ہر شخص جو خود پر بھروسہ كرتا ہے، انسانى علم و عقل كے مستقل ہونے كا عقيدہ ركھتا ہے ، دين كى حاكميت كو انسان كے عالم غيب كے ساتھ رابطہ ميں منحصر سمجھتا ہے اور جو امور انسانى عقل و علم كى دسترس ميں ہيں، ان ميں دين كى مداخلت كو ممنوع قرار ديتا ہے وہ ايك سيكولر انسان ہے_ چاہے وہ حقيقتاً خدا اور كسى خاص دين كا معتقد ہو يا بالكل منكر دين اور ملحد ہو _

مختصر يہ كہ سيكولرازم صرف ان امور ميں دين كے نفوذ كا قائل ہے جو انسانى عقل كى دسترس سے خارج ہوں _ يہ وہ انفرادى امور ہيں جو انسان اور خدا كے تعلق كے ساتھ مربوط ہيں_ يہ ہر فرد كا حق ہے كہ وہ اس ذاتى تعلق كو ردّ يا قبول كرنے كا فيصلہ كرے _ اس لحاظ سے اس رابطے و تعلق كے انكار يا اقرار پر سيكولرازم زور نہيں ديتا_ اور دينى امور ميں سہل انگارى كا معتقد ہے اور يہ سہل انگارى الحاد يا بے دينى نہيں ہے_ البتہ سيكولر شخص كى دين دارى ايك مخصوص ديندارى ہے جو عقل كى محوريت پر استوار ہے اور دين كى حاكميت كو بہت محدود قرار ديتى ہے_

گذشتہ مطالب كو ديكھتے ہوئے سيكولرازم كا بنيادى نكتہ '' سيكولر عقلانيت'' كو تسليم كرنا ہے_ يہ عقلانيت جو خود پر بھروسہ كرنے اورا نسانى عقل و علم كو وحى اور دينى تعليمات سے بے نياز سمجھتى ہے بہت سے امور ميں دينى مداخلت كيلئے كسى گنجائشے كى قائل نہيں ہے _ دين اور انسان كى علمى طاقت كے متعلق يہ فكر متعدد نتائج كى حامل

۵۶

ہے اور بہت سے امور كو سيكولر اور غير دينى كرديتى ہے _ علم ، فلسفہ ، قانون ، اخلاق اور سياست تمام كے تمام غير دينى اور سيكولر ہو جاتے ہيں_ بنابريں سياست سے دين كى جدائي بھى سيكولرازم كے نتائج و ثمرات ميں سے ايك نتيجہ ہے، نہ كہ صرف يہى اس كا نتيجہ ہے _ لہذا'' سياست سے دين كى جدائي'' سيكولرازم كى دقيق اور مكمل تعريف نہيں ہے_ كيونكہ اس صورت ميں سيكولرازم كى بنياد يعنى سيكولر عقلانيت كے ذريعہ تعريف كى بجائے اس كے ايك نتيجے كے ذريعہ تعريف ہوجائے گى اسى طرح الحاد اور بے دينى كے ساتھ بھى اس كى تعريف كرنا صحيح نہيں ہے كيونكہ ممكن ہے كوئي خدا پر ايمان ركھتا ہو ليكن سيكولر عقلانيت كو تسليم كرتے ہوئے عملى طور پر سيكولرازم كا حامى ہو_

سيكولرازم كے مفہوم كى اجمالى وضاحت اور دين دارى كے ساتھ اس كى نسبت كے بعد دينى حكومت كى نفى پر اور سياست اور معاشرتى نظام ميں دين كى مداخلت كے انكار پر سيكولرازم كى بعض ادلہ ذكر كرنے كى بارى ہے اور آنے والے سبق ميں ہم ان كى دو اصلى دليلوں پر بحث كريں گے_

۵۷

خلاصہ :

۱) دينى حكومت كے مخالفين كا تيسرا گروہ سيكولرازم كى فكر كو قبول كرتا ہے_

۲) '' سيكولرازم '' ايك خاص علمى نظريہ ہے جو '' رنسانس'' كے بعد منظر عام پرآيا_

۳) '' سيكولرازم '' كے تحت اللفظى تراجم اس كے مفہوم كى صحيح عكاسى نہيں كرتے _

۴)''سيكولر'' اور '' لائيك'' دو مترادف اصطلاحيں ہيں_

۵)لفظ '' سيكولر'' كا معنى وقت كے ساتھ ساتھ بدلتارہاہے_

۶) سيكولراز م كى بنياد'' سيكولر عقلانيت ''كے قبول كرنے پر ہے_سيكولر عقلانيت خود پر بھروسہ كرنے اور دين اور دينى تعليمات سے عقل و علم كى بے نيازى كى قائل ہے_

۷) '' سيكولرازم ''بہت سے شعبوں ميں دين كى حاكميت سے انكار كرتا ہے_

۸) سياست سے دين كى جدائي كے ساتھ سيكولرازم كى تعريف كرنا صحيح نہيں ہے_كيونكہ يہ تو اس كا ايك نتيجہ ہے جيسا كہ علم اور فلسفہ سے دين كى جدائي بھى اس كے نتائج ميں سے ہے_

۹) سيكولرازم كا معنى دين دشمنى اور الحاد نہيں ہے_ بلكہ يہ دين كى حاكميت كو محدود كرنا چاہتا ہے_

۱۰) موحد اور ملحد دونوں سيكولر ہوسكتے ہيں، كيونكہ دين دارى اور الحاد ميں سے كوئي بھى اسكى بنياد نہيں ہے بلكہ اس كى بنياد سيكولر عقلانيت كے قبول كرنے پر ہے_

۵۸

سوالات :

۱) لفظ '' سيكولرازم'' كا اردو اور عربى ميںترجمہ كيجئے؟

۲)لفظ ''سيكولر'' اور لفظ'' لائيك'' ميں كيا فرق ہے؟

۳)ابتدا ميں لفظ'' سيكولر ''كن معانى ميں استعمال ہوتا تھا؟

۴)''سيكولر عقلانيت ''سے كيا مراد ہے ؟

۵)سيكولرازم اور دين دارى ميں كيا نسبت ہے؟

۶)دين كى حاكميت كے متعلق سيكولر ازم كا كيا عقيدہ ہے؟

۷) كيا سياست سے دين كى جدائي كے ساتھ سيكولرازم كى تعريف كرنا صحيح ہے؟

۵۹

ساتواں سبق:

دينى حكومت كى مخالفت ميں سيكولرازم كى ادلہ -۱-

پہلى دليل:

سياست ميں دين كى عدم مداخلت پر سيكولرازم نے جو استدلال كئے ہيں ان ميں سے ايك وہ ہے جسے ''مشكل نفاذ شريعت ''كے نام سے ياد كيا جاتاہے _يہ استدلال جو دو اساسى مقدموں پر مشتمل ہے، شريعت كے نفاذ كے ممكن نہ ہونے پر استوار ہے _ دينى حكومت كے قائلين اپنے استدلال اور ادلّہ ميں اس نكتہ پر اصرار كرتے ہيں كہ اسلامى شريعت ميں كچھ ايسے احكام اور قوانين ہيں جن كا اجرا ضرورى ہے _ دوسرى طرف يہ احكام حكومت كى پشت پناہى كے بغير قابل اجرا نہيں ہيں _ لہذا مختلف اجتماعى امور ميں شريعت كے نفاذ كيلئے دينى حكومت كا قيام ضرورى ہے _ سيكولرازم دينى حكومت كى تشكيل كى نفى كيلئے اس نكتہ پر اصرار كرتا ہے كہ اجتماعى اور سماجى امور ميں شريعت كا نفاذ مشكل ہے اور معاشرہ ميں فقہ اور شريعت كو نافذ نہيں كيا جاسكتا_ اس طرح وہ اپنے زعم ناقص ميں دينى حكومت كى تشكيل پر سواليہ نشان لگاتے ہيں_ كيونكہ دينى حكومت كے قيام كى اساس اور بنياد معاشرے ميں دين اور شريعت كے نفاذ كے علاوہ كچھ بھى نہيں ہے_

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

٢)۔ تعصب

ہم نے دیکھا کہ سیف کے زمانے میں موجود اسلامی مراکز خاندانی اور قبائلی تعصب کی وجہ سے پے در پے تباہ و برباد ہو گئے اور ہر طرف فتنہ و فساد اور انتہائی خون ریزی کا بازار گرم ہو ا بالاخر یہی امر بنی امیہ کی حکمرانی کی نابودی اور بنی عباس کی خلافت کے بر سر کار آنے کا باعث ہوا ۔ان تمام فتنوں اور بغاوتوں کے بارے میں اس وقت کے شاعروں نے فخر و مباہات اور خود ستائی پر مبنی ولولہ انگیز رزمی قطعات اور قصیدے کہے ہیں ،جو یادگار کے طور پر موجود ہیں اور آج بھی ہم اس زمانے کے شعراء و ادب کے مجموعوں کو ان رزمی قصیدوں سے پر پاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ معلوم ہو ا کہ انہی خاندانی تعصبات کی وجہ سے بعض افراد نے اپنے خاندان کی فضیلت ،منقبت اور بالادستی پر مبنی تاریخی قصے اور احادیث جعل کی ہیں اور انھیں اپنے خاندانی فخر و مباہات کی سند کے طور پر دشمن کو نیچا دکھا نے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ لیکن اس میدان میں بھی سیف کا کوئی ہم پلہ نہیں ملتا کیوں کہ وہ اپنی کتابوں '' فتوح '' اور ''جمل'' میں شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کرنے میں کامیاب ہو اہے ،جنھوں نے اپنے رزمی قصیدوں میں قبیلہ مضر کے فخر و مباہات پر عام طور سے اور خاندان تمیم کے بارے میں خصوصی طور سے داد سخن دی ہے ۔اس کے علاوہ سیف نے اپنے خاندان تمیم کے بہت سے ایسے شجاع و بہادر نیز اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعل کئے ہیں جن کو اسلامی جنگوں میں فاتح سپہ سالار کی حیثیت سے دکھایا ہے ۔اس کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے احادیث کے بے شمار راوی جعل کئے ہیں

۱۲۱

٣)۔من گڑھت

اس کے علاوہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں اپنے افسانوں کے بہادر وں کی شجاعت کے جوہر دکھانے کے لئے قصہ اور کہانیاں گڑھی ہیں ،جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ۔اور اس نے ایسے جنگی میدانوں کانام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔اس کے علاوہ ان جنگوں میں قتل کئے گئے افراد کی تعداد لاکھوں بیان کی گئی ہے جب کہ اس زمانے میں پورے علاقے میں تمام جانداروں کی بھی اتنی تعداد نہیں تھی کہ اتنے انسان قتل یا گرفتار کئے جاتے ۔ سیف نے ان افسانوی بہادروں کی زبانی فخرو مباہات اور رزمی قصیدے بیان کئے ہیں اور دشمنوں کی ہجو گوئی کی ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان کے سور مائوں کے نام خلفائے وقت کی طرف سے ترقی کے حکم نامے جعل کئے ہیں اور مذکورہ فاتح سپہ سالاروں کے فتح شدہ فرضی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جنگی معاہدے بھی درج کئے ہیں جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ،رونما نہ ہوئے واقعات کو جعل کرنے اور قبیلہ نزار کی فضیلتیں بیان کرنے کے لئے اس شخص کی حرص اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خاندان تمیم کی فضیلتوں کو پھیلانے کے لئے اس نے ملائکہ اور جنات سے بھی خدمات حاصل کرنے میں گریز نہیں کی ہے ۔سیف قبیلہ مضر ،خاندان تمیم خاص کر سیف کے اپنے خاندان بنی عمرو کے فخرو مباہات کی سند جعل کرنے کے لئے ہر قسم کے دھوکہ اور چالبازیوں کو بروئے کار لاتا ہے !

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا ہے کہ سیف کے افسانوں کے سورمائوں کے لئے کچھ معاونین کی ضرورت تھی اس لئے اس نے غیر مضریوں پرمشتمل کچھ معاون بھی جعل کئے ہیں اور ان کے لئے معمولی درجے کے عہدے مقرر کئے ہیں ۔اس طرح اس نے تاریخ اسلام میں بہت سے اصحاب تابعین اور حدیث کے راوی جعل کئے ہیں ،جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ سب سیف بن عمر کے تخیلات کی تخلیق ہیں ۔

۱۲۲

٤)۔حقائق کو الٹا کرکے دکھا نا

ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف نے بعض ایسے افسانے جعل کئے ہیں ،جن میں تاریخ کے صحیح واقعات کو تحریف کرکے ایسے افراد سے نسبت دی ہے کہ یہ واقعات کسی بھی صورت میں ان سے مربوط نہ تھے ۔مثال کے طور پر قبیلہ مضر کے علاوہ کسی اور خاندان کے کسی سور ما کو نصیب ہوئی فتحیابی کو کسی ایسے سپہ سالار کے نام درج کیا ہے جو خاندان مضر سے تعلق رکھتا تھا چاہے اس مضری سورما کا کوئی وجود نہ بھی ہو اور وہ محض سیف کے ذہن کی تخلیق ہو!اسی طرح اگر قبیلہ مضر کے کسی سردار سے کوئی نامناسب اور ناگوار واقعہ رونما ہو اہو تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی غیر مضری شخص سے نسبت دے دیتا ہے اور سیف کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ غیر مضری فرد حقیقی ہو یا اس کا جعل کردہ اور فرضی۔بہر حال اس کا مقصد یہ ہے کہ مضری فردسے بد نما داغ صاف کرکے اسے کسی غیر مضری شخص کے دامن پر لگایا جائے۔

٥)۔پردہ پوشی

سیف نے قبیلہ مضر کے بعض ایسے سرداروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی حقائق میں تحریف کی ہے ،جو ناقابل معافی جرم وخطاکے مرتکب ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے خلیفہ عثمان کے معاملہ میں عائشہ،طلحہ و زبیرکے اقدامات کے بارے میں دیکھا جو عثمان کے قتل پر تمام ہوئے ۔یا ان ہی تین اشخاص یعنی عائشہ ،طلحہ وزبیرکے امام علی کے خلاف اقدامات جو جنگ جمل کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔چونکہ یہ سب قبیلہ نزار و مضر سے تعلق رکھتے تھے،اس لئے سیف نے کوشش کی کہ اس عیب سے ان تمام افراد کے دامن کو پاک کرے ۔لہٰذا اس نے ''عبداللہ ابن سبا''کے حیرت انگیز افسانہ کو جعل کرکے تمام فتنوں ،بغاوتوں اور برے کاموں کو ابن سبا اور سبائیوں کے سرتھوپ دیا۔سیف نے جس ابن سباکا منصوبہ مرتب کیاہے ،وہ یہودی ہے اور اس نے یمن سے اٹھکر مسلمانوں کے مختلف شہروں میں فتنہ اور بغاوتیں بر پاکی ہیں ۔سیف،عبداللہ اور اس کے پیرئوں کو سبائی کہتا ہے اور اس خیالی گروہ کو یمنی بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یمنی روئے زمین پر فتنہ گر اور بدترین لوگ ہیں ۔اس طرح بدترین اعمال کے عاملوں ،جو در حقیقت قبیلہ نزار ومضر سے تعلق رکھتے تھے ،کی مضحکہ خیزطور پر پردہ پوشی کرتا ہے ۔لیکن قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر افراد ،جیسے عمار یاسر ،ابن عدیس اور مالک اشتر وغیرہ ،جو سب قحطانی تھے ،کو سیف نہ فقط بری نہیں کرتابلکہ ان حوادث میں ان کی مداخلت کو محکم تر کرکے ان پر اپنے افسانے کے ہیرو عبداللہ ابن سبا کی پیروی ،ہم فکری اور مشارکت کا الزام لگاتا ہے وہ اس طرح قبیلۂ مضر کی ان رسوائیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔

۱۲۳

٦)۔کمزور کو طاقتور پر فدا کرنا

لیکن قبیلہ مضر کے کسی سردار اوراسی قبیلہ کے کسی معمولی شخص کے در میان اگر کوئی ٹکرائو یااختلاف پیدا ہوتا ہے ،تو سیف اس خاندان کے معمولی فرد کو خا ندان کی عظمت پر قربان کردیتا ہے سیف کا مقصد خاندان مضر کی عظمت و بزرگی ،زرو زور کے خدائوں کے فخرو مباہات ،نامور پہلوانوں سپہ سالاروں کی شجاعت وبہادری کی ترویج و تبلیغ ہے اور اس راہ میں وہ کوئی کسراٹھا نہیں رکھتا۔اس کی مثال کے لئے سیف کا خالد بن سعید اموی مضری کو خلیفہ اول ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر سر کوب اور بد نام کرنا اورمالک بن نویرہ پر صرف اس لئے ناروا تہمتیں لگانا کہ خالد بن ولید نزاری کی حیثیت محفوظ رہے،کافی ہے۔

لیکن اگر کسی مضری اور یمانی کے در میان کوئی ٹکرائو یا حادثہ پیش آیا ہو اور سیف نے اسے سبائیوں کے افسانہ میں ذکر نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے قصہ اور افسانہ جعل کرکے اس میں حتیٰ الامکان یمنی کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور مضری شخص کے مرتبہ و منزلت کو اونچا کرکے پیش کرتا ہے ۔اس سلسلے میں مضری خلیفہ عثمان کے ذریعہ ابوموسیٰ اشعری یمنی کو معزول کرنے کا مسئلہ قابل توجہ ہے۔

٧)۔حدیث سازی کا تلخ نتیجہ

ان تمام امورکے نتیجہ میں اسلام کی ایک ایسی تاریخ مرتب ہوئی ہے جو بالکل جھوٹ اور افسانوں سے بھری ہے ۔اس طرح تاریخ اسلام میں ،اصحاب ،تابعین ،راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شعراء پر مشتمل ایسے اشخاص مشہور ہوئے ہیں ،جن میں سے ایک کابھی وجود سیف کے افسانوں سے باہر ہر گزپایا نہیں جاتا۔اس کے با وجود سیف سے نقل کرکے ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے حالات لکھے گئے ہیں اور انھیں تاریخ کی معتبر کتابوں اور دیگر دسیوں کتابوں میں مختلف موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں ان میں سے ستر کے قریب نمونوں کا ذکر کیا ہے ۔

۱۲۴

٨)۔ سیف کی احادیث پھیلنے کے اسباب

ہم نے سیف کی احادیث کے پھیلنے کے اسباب کے بارے میں کہا کہ اس کی حیرت انگیز روایات اور افسانوں کے پھیلنے اور علماء و دانشوروں کی طرف سے ان کو اہمیت دینے کے اسباب درج ذیل ہیں :

١۔ سیف نے اپنی داستانوں اور افسانوں کو ایسے جعل کیا ہے کہ ہر زمانے کے حکمرانوں ، ارباب اقتدار اور دولتمندوں کے مفادات اور مصلحتوں کا تحفظ کر سکیں ۔جیسا کہ ہم نے علاء خضری کی داستان میں دیکھا کہ دار ین کی جنگ میں وہ اپنے پیادہ و سوار سپاہیوں کے ہمراہ سمندر کے پانی سے ایسے گزر ا جیسے وہ صحرا کی نرم ریت پر چل رہا تھا جب کہ اس سمندر ی فاصلہ کو کشتی سے طے کرنے کے لئے ایک شب و روز کا زمانہ درکار تھا اس کے علاوہ اس جنگ میں جتنی بھی کرامتیں اس نے دکھائیں وہ سب علاء کی جانب سے خلیفہ اول کی فرمانبرداری و اطاعت کے نتیجہ میں تھیں چوں کہ جب یہی علاء دوسرے خلیفہ کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو شکست سے دو چار ہوتا ہے اور ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔اس لئے اگر علاء سے کوئی کارنامہ دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف خلیفہ اول کی اطاعت کے نتیجہ میں تھا ،نہ یہ کہ علاء کسی ذاتی فضل و شرف کا مالک تھا کیوں کہ ہم نے دیکھا کہ دوسری بار خلیفہ دوم کی نافرمانی کے نتیجہ میں اس کے فضل و شرف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اس قسم کے افسانے وقت کی سیاست کے مطابق اور خلافت کی مصلحتوں اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جعل کئے گئے ہیں ۔اسی لئے یہ افسانے ہر زمانہ میں حکمراں طبقہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے مورد تائید وحمایت قرار پائیں گے۔

٢۔اس نے اپنے افسانوں کو عوام پسند،ہر دل عزیز اور ہر زمانے کے متناسب جعل کیاہے۔ اسلاف کی پوجا کرنے والے اس افسانوں میں اپنے اجداد کی بے مثال عظمتیں اور شجاعتیں پاتے ہیں ۔ثقافت وادب کے شیدائی منتخب اور دلچسپ اشعار اور نثر میں بہترین اور دلپسند عبارتیں پاتے ہیں ۔تاریخ کے متوالوں کو بھی ایک قسم کے تاریخی اسناد،جیسے خطوط،عہد نامے،دستاویز اور تاریخ کے بارے میں جزئیات ملتے ہیں اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والوں کو بھی سیف کے افسانوں میں اپنا حصہ ہاتھ آتاہے تاکہ اپنی شب باشی کی محفلوں میں اس کے شیرین قصوں اور داستانوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔

مختصر یہ کہ حکام اور اہل اقتدار ،جو کچھ اپنی سیاست کے مطابق چاہتے ہیں سیف کے افسانوں میں پاتے ہیں ۔اس کے علاوہ عام لوگ بھی اپنی چاہت کے مطابق مطالب سے محروم نہیں رہتے ۔علماء اور ادب کے شیدائی بھی اپنی مرضی کے مطابق بحث و مباحثے میں کام آنے والی چیزوں سے مستفید ہوتے ہیں ۔

۱۲۵

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف کو دوسروں پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ اس نے دوسروں کی نسبت اپنے شخصی مفاد کو کامیابی کے ساتھ تمام طبقوں کی خواہشات کے مطابق ہماہنگ کیا ہے اس نے مختلف طبقات کی خواہشات کو پورا کرنے کے باوجود عام طور پر قبیلۂ مضر کو اور خاص طور پر خاندان تمیم کو ہمیشہ کے لئے با افتخار بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ اپنے خاندان کے دشمنوں جیسے ،یمنیوں اور سبائیوں کو ذلیل وخوار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

٩)۔ سیف کے مقاصد

مذکورہ بالاتمام چیزوں کا سیف کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ ہوتاہے۔لیکن تاریخی حواد ث کی تاریخوں میں تحریف کرنے کا کیا سبب تھا؟اور کس چیز نے سیف کو اس بات پر مجبور کیا کہ تاریخی اشخاص کے نام بدل دے ،مثال کے طور پر عبد الرحمن ابن ملجم کے بجائے خالد بن ملجم بتائے؟یا کون سی چیز اس کا باعث بنی کہ وہ یہ داستان گڑھے کہ عمر اپنی بیوی سے یہ کہیں کہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھائے!اور ان کی بیوی کا اپنے شوہر کی تجویز پر اطاعت نہ کرنے کاسبب اس کانامناسب لباس ہو؟اور اسی طرح کی دوسری مثالیں ؟یہ وہ مسائل ہیں جن سے سیف کے وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے جن سے ہم واقف ہیں ،مگر یہ کہ اس پر زندیق ہونے کا الزام صحیح ثابت ہو اور اگریہ الزام اس پر صحیح ثابت ہوجائے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان تمام جھوٹ اور افسانوں کے گڑھنے کا اس کا اصلی مقصد اسلامی تاریخ کے حقائق میں تبدیلی لانے،تحریف کرنے اور انھیں مسخ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔اور اس میں سیف اس قدر کامیاب ہوا ہے کہ یہ کامیابی اس کے علاوہ کسی اور زندیق کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔

بہر حال ،خواہ سیف کے زندیقی ہونے اور اسلام کے ساتھ اس کی دشمنی کے سبب یا جھوٹ اور افسانے گڑھنے میں اس کی غفلت اور حماقت کی وجہ سے ،جو بھی ہو ،اس نے تاریخ اسلام کو خاص کر ارتداد اور فتوح کی جنگوں میں اور ان کے بعد حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے تک کے تاریخی حوادث میں زبردست تحریف کی ہے۔

۱۲۶

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ سیف نے جعل کیا ہے وہ اسلام ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب ان کی جنگوں اور فتحیابیوں کی باقاعدہ اور معتبر تاریخ محسوب ہوتاہے۔جھوٹ اور افسانوں پر مشتمل اس قسم کی تاریخ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ اور ہزار ہا انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد پھیلا ہے۔جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ملتیں اور قومیں تھیں جو ظالم اور جابر حکام کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کے سپاہیوں کی صف میں شامل ہوکر گروہ گروہ دین اسلام قبول کرتی تھیں ۔حقیقت میں اسلام اسی طرح پھیلاہے نہ کہ تلوار کے ذریعہ جیسا کہ سیف کا دعویٰ ہے۔

١٠)۔ ہماری ذمہ داری :

یہ وہ تاریخ ہے جسے سیف نے تاریخ اسلام کے طور پر تدوین کیا ہے اور یہ عوام الناس میں محترم قرار پاکر تسلیم کی گئی ہے اور جو کچھ دوسروں نے حقیقی واقعات پر مشتمل تاریخ اسلام لکھی ہے ،سیف کے افسانوں کی وجہ سے ماند پڑگئی ہے اور سرد مہری وعدم توجہ کا شکار ہوکر فراموش کردی گئی ہے۔اس طرح ہر نسل نے جو کچھ سیف کے افسانوں سے حاصل کیا،اسے اپنے بعد والی نسل کے لئے صحیح تاریخی سند کے طور پر وراثت میں چھوڑا اور اس کے تحفظ کی تاکید کی ہے۔اسی طرح صدیاں گزرگئیں ۔

گزشتہ بارہ صدیوں سے یہی حالت جاری ہے۔اور ہماری تدوین شدہ تاریخ ،خصوصاً فتوح ،ارتداد اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ کی یہی ناگفتہ بہ حالت ہے ۔لیکن کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور اپنے آپ کو اس زندیق کے فتنوں کے پھندوں سے آزاد کریں ؟ کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟اگر ہمیں ایسا موقع ملا اور اس بات کی اجازت ملی کہ تاریخ کی بڑی کتابوں اور معارف اسلامی کے دیگر منابع کے بارے میں تعصب اور فکری جمود سے اوپر اٹھ کر بحث وتحقیق کریں تاکہ اسلام کے حقائق سے آشنا ہو سکیں تو ایسی بحث کے مقدمہ کے طور پر سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سچے اور حقیقی اصحاب کی شناخت اور پہچان ضروری ہو گی اور اس سلسلے میں پہلے سیف کے جعلی اصحاب کو پہچاننے کی ضرورت ہے ایسے صحابی جنھیں اس نے سپہ سالار اور احادیث کے راویوں کی شکل میں جعل کیا ہے اور اپنی احادیث کی تائید کے لئے اپنی روایتوں میں بے شمار راوی جعل کئے ہیں اور شعراء ،خطباء حتٰی جن و انس سے بھی مدد حاصل کی ہے جب کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔

۱۲۷

اس کتاب کے اگلے حصوں میں ہم سیف کے افسانوں کے ایسے سورمائوں کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں خدا شاہد ہے کہ ہم نے جو یہ کام اور راستہ اختیار کیا ہے اس میں اسلام کی خدمت اور خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد کارفرما نہیں ہے ۔

ہم اس کتاب کو اس کے تمام مطالب اور مباحث کے ساتھ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں اپنی راہنمائی اور علمی تنقید کے ذریعہ ہماری مدد اور تعاون فرمائیں ۔

خد ا ئے تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق و حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی و دستگیر ی فرمائے !اور اپنی پسندیدہ راہ کی طرف راہنمائی فرمائے !

گزشتہ بحث کا ایک جائزہ اور

آئندہ پر ایک نظر

گزشتہ فصلوں میں ہم نے زیر نظر مباحث کی بنیاد کے طور پر چند کلی مسائل بیان کئے اور اس طرح زندیقیت اور زندیقیوں کا تعارف کرایا اور خاندانی تعصبات کی بنیاد پر حدیث اور تاریخ اسلام پر پڑنے والے برے اثرات سے واقف ہوئے ۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف بن عمر ایک زبر دست متعصب اور خطر ناک زندیقی تھا ۔اس میں زندیقیت اور تعصب دو ایسے عامل موجود تھے جو حدیث جعل کرنے کے لئے اسے بڑی شدت سے آمادہ کرتے تھے ۔اور یہی قوی دو عامل اسے تاریخ اسلام میں ہر قسم کے جعل ،تحریف ،جھوٹ اور افسانہ سازی میں مدد دیتے تھے جس کے نتیجہ میں اس نے اپنے تخیلات کی طاقت سے بہت سے راوی ،شاعر اور اصحاب کو اپنی احادیث اور افسانوں کے کردار کے طور پر جعل کرکے انھیں اسلام کی تاریخ و لغت میں داخل کر دیا ہے اس کتاب کی تالیف کا مقصد سیف کے جعل کئے ہوئے افراد کے ایک گروہ کا تعارف کرانا ہے جنھیں اس نے تاریخ اسلام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے پیش کیا ہے

سیف نے اپنے جعلی اور افسانوی اصحاب میں سے اہم اور نامور افراد کو خاندان تمیم سے مربوط ثابت کیا ہے ،جو اس کا اپنا خاندان ہے اور باقی اصحاب کو دوسرے مختلف قبیلوں سے مربوط دکھایا ہے اب ہم ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ فصل میں بحث و تحقیق کریں گے ۔ہم اس بحث کا آغاز خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے کرتے ہیں ،جن کا سرغنہ اور سب سے پہلا شخص '' قعقا ع بن عمرو'' ہے ۔

۱۲۸

تیسرا حصہ :

١۔ قعقاع بن عمر و تمیمی

٭ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں

٭ ابوبکر کے زمانے میں

٭ حیرہ کی جنگوں میں

٭ حیرہ کی جنگوں کے بعد

٭ مصیخ و فراض کی جنگوں میں

٭ خالد کے شام کی طرف جاتے ہوئے

٭ شام کی جنگوں کے دوران

٭ عمر کے زمانہ میں

٭ عراق کی جنگوں میں

٭ ایران کی جنگوں میں

٭ د وبارہ شام میں

٭ نہاوند کی جنگوں میں

٭ عثمان کے زمانے میں

٭ حضرت علی ـکے زمانے میں

٭ بحث کا خلاصہ

٭ احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

۱۲۹

قعقاع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

لم نجد له ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے قعقاع کا نام سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا۔

(مؤلف)

اسلامی تاریخ اور لغت کی دسیوں معروف و مشہور کتابوں میں '' قعقاع بن عمر و'' کا نام اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی حیثیت سے اس کی زندگی کے حالات درج کئے گئے ہیں ابو عمر کی تالیف کتاب '' استیعاب'' ١ ان کتابوں میں سے ہے جو آج کل ہماری دست رس میں ہیں ۔اس مؤلف نے قعقاع کی زندگی کے حالات خصوصیت سے لکھے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' قعقاع ،عاصم کا بھائی اور عمر و تمیمی کا بیٹا ہے ۔ان دونوں بھائیوں نے جنگ قادسیہ میں جس میں ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم فرخ زاد تھا بے مثال اور قابل تحسین شجاعت اور بہادر ی کا مظاہرہ کیا ہے اور شائشتہ و قابل احترام مرتبہ و منزلت کے مالک بن گئے ''

'' استیعاب ''کے مولف کے بعد ابن عساکر '' تاریخ شہر دمشق '' ٢میں قعقاع بن عمرو کے بارے میں یوں ر قم طراز ہے :

'' قعقاع ،رسول خدا کا صحابی تھا !وہ ایک قابل ذکر بہادر اور نامور عربی شاعر تھا ۔اس نے ''جنگ یرموک ''اور ''فتح دمشق '' میں شرکت کی ہے ۔اس نے عراق اور ایران کی اکثر جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے ہیں اور قابل ذکر و نمایاں جنگیں لڑی ہیں ''

قعقاع کے بارے میں دوسری صدی ہجری کی ابتداء سے آج تک یوں بیان کیا گیا ہے :

'' قعقاع ،اسلامی جنگوں میں ہمیشہ ایک دادرس و فریاد رس بہادر کی حیثیت سے رہا ہے ٣ وہ خانقین ،ہمدان اور حلوان کا فاتح ہے '' ٤

ان خصوصیت کا مالک قعقاع کون ہے ؟

۱۳۰

قعقاع کا شجرۂ نسب

سیف نے قعقاع کا خیالی شجرۂ نسب ذکر کیا ہے :

''قعقاع عمرو ابن مالک کا بیٹا ١ ہے ۔اس کی کنیت ابن حنظلہ ہے ٢ ۔اس کے ماموں خاندان بارق ٣ سے تھے ۔اور اس کی بیوی ہنیدہ ،عامر ہلالیہ کی بیٹی تھی جو خاندان ہلال نخع سے تعلق رکھتا تھا '' ٤

قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی

طبری اور ابن عساکر ،دونوں کا قول ہے کہ سیف نے یوں بیان کیا ہے :

'' ْقعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔'' ١

ابن حجر شعری نے سیف کا نقل کیا ہوا قعقاع کا قول حسب ذیل ذکر کیا ہے :

'' میں تہامہ کی ترقی و درخشندگی کو دیکھ رہا تھا ،جس دن خالد بن ولید ایک نفیس گھوڑ ے

پر سوار ہو کر سواروں کی قیادت کر رہا تھا ،میں سیف اللہ کی فوج میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار تھا اور آزادانہ طور پر سب سے پہلے اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھارہا تھا ''

۱۳۱

قعقاع سے منقول ایک حدیث :

ابن حجر '' اصابہ '' میں قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے خود قعقاع کی زبانی یوں نقل کرتا ہے :

''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم نے جہاد کے لئے کیا آمادہ کیا ہے ؟ میں نے جواب میں کہا: خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت اور اپنا گھوڑا ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:سب کچھ یہی ہے ''

ابن حجر ،سیف سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی زبانی مزید نقل کرتا ہے :

''میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت وہاں پر موجود تھا ۔جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور بعض لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: انصار سعد کو خلیفہ منتخب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدے اور وصیت کو کچل کے رکھ دیں ۔ مہاجرین یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے.... ''(۱)

ابن حجر مزید لکھتا ہے :

'' ابن مسکن نے کہا ہے کہ سیف بن عمر ضعیف ہے ،یعنی اس کی یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے ''

____________________

۱)۔ عبداللہ ابن سباج١،بحث سقیفہ میں اس جعلی حدیث پر تحقیق کی گئی ہے ۔

۱۳۲

علم رجال کے عالم و دانشور رازی نے بھی اس داستان کو خلاصہ کے طور قعقاع کی زندگی کے حالات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

''سیف کی روایتوں کو دیگر لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ،لہٰذا یہ حدیث خود بخود مردود ہے اور ہم نے اسے صرف قعقاع کو پہچاننے کے لئے نقل کیا ہے '' ٢

ابن عبد البر نے قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں رازی کی پیروی کی ہے اور جو کچھ اس نے اس کے بارے میں لکھا ہے اور سیف کے بارے میں نظریہ پیش کیا ہے سب کو اپنی کتاب

کتاب میں درج کیا ہے ۔

سند کی تحقیقات

قعقاع کے شجرہ ٔنسب کو سیف ،صعب بن عطیہ کی زبانی ،اس کے باپ بلال ابن ابی بلال سے روایت کرتا ہے ۔سیف کی روایتوں میں نو مواقع پر صعب کا نام ذکر ہو ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سات اصحاب کی زندگی کے حالات ان روایتوں سے حاصل کئے گئے ہیں ۔(۱)

اس کی کنیت ،جو ابن الحنظلیہ بتائی گئی ہے اور یہ کہ قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہے یہ سب سیف کی روایتیں ہیں اور اس کی روایتوں کی سند میں محمد بن عبداللہ بن سواد بن نویرہ کا نام ذکر ہوا ہے ۔طبری کی کتاب '' تاریخ طبری '' میں سیف کی روایتوں میں سے ٢١٦روایتوں کی سند میں عبداللہ کا نام آیا ہے ۔

سیف کی روایت میں مذکورہ محمد بن عبداللہ سے منقول قعقاع کی بیوی کانام مہلب بنت عقبہ اسدی بیان ہوا ہے ۔تاریخ طبری میں سیف کی ٧٦ روایات کی سند میں مہلب کا نام ذکر ہوا ہے ۔

لیکن قعقاع کے شعر کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہو ا ہے کہ سیف نے کسی راوی سے نقل کیا

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد ٢ میں عفیف بن المنذر اور دیگر چھ تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات۔

۱۳۳

ہے تاکہ ہم اس کے راوی کے بارے میں بحث کریں ۔

اسی طرح جنگی آمادگی کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی اس کی حدیث اور سقیفہ کے دن اس کا مسجد میں موجود ہونا ،یہ دونوں چیزیں سیف کے افسانہ کے ہیرو '' قعقاع '' سے نقل ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند نہیں ہے ۔

ہم نے حدیث ،تاریخ ،انساب اور ادب کی تمام کتابوں میں جستجو کی تاکہ مذکورہ راویوں کا کہیں کوئی سراغ ملے ،لیکن ہماری تلاش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا چوں کہ ان کے نام یعنی صعب ،محمد ،مہلب اور خود قعقاع سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے لہٰذا حدیث شناسی کے قاعدے اور قانون کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب کے سب سیف کے ذہنی تخیل کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

تحقیقات کا نتیجہ : جو کچھ اب تک قعقاع کے بارے میں ہم نے بیان کیا وہ صرف سیف کی روایت تھی ،کسی اور نے اس کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ اور مقائسہ کرتے ۔سیف ان مطالب کا تنہا ترجمان ہے ۔اس طرح اس کے مطالب کے واسطے روایتوں کی سند بھی اس کے ذہن کی تخلیق معلوم ہوتی ہے ۔

سیف کی حدیث کا نتیجہ

اول ۔ سیف اپنے مطالب کا مطالعہ کرنے والے کو اس طرح آمادہ کرتا ہے کہ ایک مطیع اور فرمانبردار کی طرح آنکھ بند کرکے مست و مدہوشی کے عالم میں ایک نغمہ سننے والے کی طرح اس کی باتوں میں محو ہو جائے ۔

دوم ۔ قعقاع کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا اور جو مطالب آئندہ آئیں گے اس سے معلوم ہوگا کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک ایسا صحابی جعل کیا ہے جو بزرگوار اور جلیل القدر ہے اور یہ بزرگوار ،خاندان تمیم کی عظمت کا نمونہ ہے ۔یہ ایک خوش ذوق شاعر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کا راوی ہے کہ اس کے بارے میں اصحاب کی زندگی کے حالات اور احادیث کے راویوں کی شناخت کے ذیل میں گفتگو ہوگی ۔

۱۳۴

قعقاع ،ابوبکر کے زمانے میں

لایهزم جیش فیهم مثل هٰذ ا

جس فوج میں ایسا بہادر قعقاع موجود ہو وہ فوج ہر گز شکست سے دو چار نہیں ہوگی

( ابو بکر کا بیان بقول سیف!)

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں

طبری ١١ ھ کے حوادث میں قبیلۂ ہوازن کے ارتداد کی بحث کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جب علقمہ بن علاثہ ٔ کلبی مرتد ہو ا،تو ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو حکم دیا کہ اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالے یا گرفتار کرے ،قعقاع نے ابوبکر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قبیلۂ ہوازن پر حملہ کیا علقمہ جنگل کے راستہ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے خاندان کے افراد قعقاع کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔قعقاع نے انھیں ابوبکر کے خدمت میں بھیجا ۔علقمہ کے خاندان نے ابوبکر کے سامنے اسلام کا اظہار کیا اور اپنے خاندان کے سردار کے عقائد کی تاثیر سے انکار کیا تو ان کی توبہ قبول کر لی گئی اور ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا '' ١

یہ داستان کہاں تک پہنچی ؟

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور ابو الفرج اور ابن حجر نے علقمہ کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں طبری سے نقل کیا ہے ۔اور ابن اثیر نے اسے خلاصہ کرکے طبری سے روایت کرتے ہوئے اپنی کتاب کامل میں درج کیا ہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے فرق

یہ داستان مذکورہ صورت میں سیف بن عمر نے نقل کی ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔اس سلسلے میں مدائنی لکھتا ہے :

''ابو بکر نے خالد بن ولید کو علقمہ کے خلاف کاروائی کرنے پر مامور کیا ۔علقمہ خالد کے چنگل سے بھاگ کر ابو بکر کی خدمت میں پہنچا اور اسلام قبول کیا ۔ابو بکر نے اسے معاف کرکے امان دے دی''٢

مذکورہ داستان کے پیش نظر سیف نے خالد بن ولید کے کام کو قعقاع بن عمر و تمیمی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے تاکہ یہ سعادت اس کے اپنے قبیلہ تمیم کو نصیب ہو جائے ۔اس کے بعد طبری نے سیف کی جعلی داستان کو نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر لوگوں نے بھی جھوٹ کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

موازنہ کا نتیجہ

علقمہ کی داستان ایک حقیقت ہے یہ داستان پوری کی پوری سیف کے تخیلات کی ایجاد نہیں ہے ۔بلکہ موضوع یہ ہے کہ سیف بن عمر نے خالد بن ولید کے کار نامے کو قعقاع بن عمر و تمیمی سے نسبت دے دی ہے ۔

سند کی جانچ پڑتال

اس داستان کی سند میں '' سہل بن یوسف سلمی '' اور ''عبداللہ بن سعید ثابت انصاری'' جیسے راویوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ۔تاریخ طبری میں سیف نے سہل سے ٣٧احادیث اور عبداللہ سے ١٦ احادیث روایت کی ہیں ۔چوں کہ ہم نے ان دو راویوں کا نام کتب طبقات وغیرہ میں کہیں نہیں پایا، لہٰذاہم ان دو راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔

۱۳۶

اس داستان کا نتیجہ

١۔ خلیفہ کے حکم سے قعقاع بن عمرو کا ہوازن کی جنگ میں شرکت کرنا اور علقمہ کے خاندان کا اس کے ہاتھوں اسیر ہونا ،قعقاع بن عمر و تمیمی کے لئے ایک فضیلت ہے ۔

٢۔ سیف نے اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حقائق میں تصرف کرکے ایک سچے واقعہ کی بنیاد پر ایک الگ اور جھوٹی داستان گڑھ لی ہے اور اس سے قبیلہ تمیم کے حق میں استفادہ کیا ہے جب کہ نہ قعقاع کا کوئی وجود ہے اور نہ اس کی جعلی داستان کی کوئی حقیقت ہے ۔یہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور افکار کی تخلیق ہے ۔

لیکن اس داستان کے علاوہ جو علقمہ کے نام سے مشہور ہے یا قوت حموی نے لغت ''بزاخہ '' جو سر زمین نجد میں ایک پانی کا سر چشمہ تھا اور ارتداد کی جنگیں اسی کے اطراف میں لڑی گئی ہیں کی وضاحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''مسحلان(۱) اس روز میدان جنگ سے فرار کرکے اپنی جان بچانے میں

____________________

۱)۔ سیف کے کہنے کے مطابق دشمن کے لشکر کے معروف افراد مسحلان کہلائے جاتے تھے سیف اپنے تخیلات کی مخلوق کے سرداروں کے نام اکثر و بیشتر الف و نون پر ختم کرتا تھا مثلا قماذیان ابن ہر مزان اور ابن الحیسمان و مسحلان وغیرہ ملاحظہ ہو کتاب طبری چاپ یوروپ ( ٢٨٠١١)اور ( ٢٤٠١)

۱۳۷

کامیاب ہوا اس دن اس نے میدان کار زار میں گرد و غبار آسمان پر اڑتے دیکھا اور خالد میدان جنگ میں دشمنوں کی فوج کو تہس نہس کر رہا تھا اور دشمنوں کو وحشی کتوں کی طرح چیر پھاڑ کر زمین پر چھوڑ دیتا اور آگے بڑھ جاتا تھا''

حموی کی یہ عادت ہے کہ جن جگہوں کا وہ نام لیتا ہے ان کے بارے میں سیف کے اشعار کو کسی راوی کا اشارہ کئے بغیر گواہ کے طور پر ذکر کرتا ہے اس قسم کی چیزیں ہمیں بعد میں بھی نظر آئیں گی

ہم نہیں جانتے ان اشعار میں سیف کیا کہنا چاہتا ہے !کیا ان شعار کے ذریعہ قعقاع کو ''بزاخہ''میں خالد کی جنگوں میں براہ راست شریک قرار دینا چاہتا ہے اور اسی لئے یہ اشعار کہے ہیں یا اس جنگ میں قعقاع کی شرکت کے بغیر اس کی توصیف کرنا چاہتا ہے۔ہماری نظر کے مطابق یہ امر بعید دکھائی دیتا ہے ۔بہر حال جنگ ''بزاخہ ''کا ذکر کرنے والوں نے قعقاع کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے ۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ،اس کے علاوہ ہم نے ارتداد کی جنگوں میں کہیں قعقاع کا نام نہیں پایا ۔لیکن ان کے علاوہ تاریخ کی اکثر مشہور کتابوں میں سیف ابن عمر سے مطالب نقل کئے گئے ہیں اور قعقاع اور اس کی شجاعت اور فتوحات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ان تحریفات کاپہلا حصہ ،عراق میں مسلمانوں کی جنگوں سے مربوط ہے جس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :

۱۳۸

قعقاع،عراق کی جنگ میں :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے : ١

''جب خالد بن ولید ،یمامہ کی جنگ سے واپس آیا ابوبکر نے اسے حکم دیا کہ اپنے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو جائے اور اس ضمن میں یہ بھی حکم دیا کہ اپنے لشکر کے سپاہیوں سے کہہ دے کہ جو بھی اس فوجی مہم میں شرکت کرنا نہیں چاہتا وہ اپنے گھرجا سکتا ہے ۔جوں ہی خلیفہ کا حکم لشکر میں اعلان کیا گیا خالد کی فوج تتر بتر ہو گئی اور گنے چنے چند افراد کے علاوہ باقی سب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ۔اس طرح خالد نے مجبور ہو کر خلیفہ سے نئی فوج کی مدد طلب کی ۔ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو خالد کے فوجی کیمپ کی طرف روانہ کیا ان حالات پر نظر رکھنے والے افراد نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ خالد نے اپنی فوج کے تتر بتر ہونے پر آپ سے نئی فوج کی درخواست کی ہے اور آپ صرف ایک آدمی کو اس کی مدد کے لئے بھیج رہے ہیں ؟! ابو بکر نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا : جس فوج میں ایسا پہلوان موجود ہو وہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی۔''

اس کے بعد طبری نے عراق کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں قعقاع کی شجاعتوں اور بہادریوں کا ذکر کیا ہے ۔ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو آخر تک بیان کیا ہے لیکن اس کاکوئی راوی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ اس کا راوی صرف سیف ہے ۔طبری نے یہ حدیث سیف سے لی ہے اور دسروں نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے نے بھی اپنی کتاب معجم البلدان میں سیف کی احادیث میں ذکر شدہ اماکن کی نشاندہی کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے ۔

طبری نے سیف بن عمر کی روایت سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے پہلی جنگ جو عراق میں مسلمانوں اور مشرقین کے درمیان واقع ہوئی '' ابلہ''(۱) کی جنگ تھی ۔

____________________

۱)۔ ''ابلہ '' خلیج فارس کے نزدیک دریائے دجلہ کے کنارے پر ایک شہر تھا جو بصرہ تک پھیلا ہوا تھا یہ شہر اس زمانہ میں فوجی اہمیت کے لحاظ سے ایرانیوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل تھا اور ملک کی ایک عظیم فوجی جھاونی محسوب ہوتا تھا۔

۱۳۹

ابلہ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے:

'' ابو بکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عراق کی جنگ کو ہند اور سندھ کی سرحد سے شروع کرے '' اس کے بعد سیف کہتا ہے : '' ابلہ '' ان دنوں ہند اور سندھ کی سرحد تھی اس کے بعد ''ابلہ'' کی فتح کی داستان یوں بیان کرتا ہے :

ایرانی فوج کا سپہ سالارہرمز '' ابلہ'' میں خالد کو قتل کرنے کی سازش تیار کرتا ہے اس لئے اپنے سپاہیوں سے کہتا ہے کہ جب وہ خالد کے ساتھ دست بدست جنگ شروع کرے تو بھر پور حملہ کرکے خالد کا کام تمام کردیں اس لئے ہرمز ،خالد کو دست بدست جنگ کی دعوت دیتا ہے اور خالد بھی ہرمز سے لڑنے کے لئے پیدل آگے بڑھتا ہے جب دونوں سپہ سالار آمنے سامنے آکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہرمز کے سپاہی اچانک خالد پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دست بدست جنگ کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چالبازی سے خالد کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن قعقاع بن عمرو جو حالات اور دشمن کی تمام نقل و حرکت پر پوری طرح نظریں جمائے ہوئے تھا خالد کو کسی قسم کا گزند پہنچنے سے پہلے اکیلا میدان میں کود پڑتا ہے اور دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرکے انھیں تہس نہس کرکے ان کی چالبازی کو ناکام بنا دیتا ہے اور اس گیرو دار کے دوران ہرمز خالد کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے ۔ ایرانی اپنے سپہ سالار کو قتل ہوتے دیکھ کر میدان جنگ سے بھاگ جاتے ہیں اس طرح شکست سے دو چار ہوتے ہیں اور قعقاع بن عمرو فاتح کی حیثیت سے سر بلند ی کے ساتھ میدان جنگ سے واپس لوٹتا ہے ''

یہ داستان کہاں تک پہنچی ہے ؟

اس روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور دیگر لوگوں نے ،جیسے ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلکان نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔

طبری ابلہ کی فتح اور جنگی غنائم کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :

'' ابلہ کی فتح کے بارے میں یہ داستان اس کے برخلاف ہے جو صحیح روایتوں میں بیان ہوئی ہے ''

اس کی وضاحت ہم مناسب جگہ پر کریں گے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416