ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215628 / ڈاؤنلوڈ: 4981
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اولاد میں سے بھی بعض موجود تھے انھوں نے جب پانی دیکھا تو بڑی خوشیاں منائیں۔ جب آپ(ع) نے یہ محسوس کیا تو فرمایا ۔ “میرے بچو! اس باغ اور اس نہر کی وجہ سے خوشحال نہ ہونا۔ اور ساتھ ہی آپ نے قلم ودوات لانے کا حکم فرمایا ۔ حکم کی تعمیل ہوئی تو آپ نے نہر اور باغ دونوں فقراء کے لیے وقف کردیا۔

آپ(ع) کا در گزر

عفو کے اسلامی اور حقیقی معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے ذاتی حق سے دستبردار ہوجائے مگر اس طرح دشمن کو گستاخی کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس قسم کا عفو و درگزر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا اولین مقصد رہا ہے۔ ابن ملجم کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتیں قابل انکار نہیں ہیں اور اس طرح عورت کی کہاںی جو مشک کاندھے پر لیے امیرالمومنین (ع) کا گالیاں دے رہی تھی۔ آپ نے سن کر اس کی دلجوئی کی۔ اسی طرح معاویہ کی فوج نے پانی کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد علی(ع) کے لشکر کے لیے پانی بند کیا۔ لیکن جب حضرت امیرالمومنین (ع) کی فوجوں نے پانی کے گھاٹ پر دوبارہ قبضہ کیا تو معاویہ کے لشکر کے لیے پانی واگزار کردیا۔

جارج جرداق کا کہنا ہے کہ علی (ع) رحم کرنے والے ہیں اور جو رحم طلب کرتے ہیں انہیں معاف کرتے ہیں چاہیے وہ شخص عمرو بن عاص ہی کیوں نہ ہو جس نے جنگ کے دوران لباس کو اوپر اٹھا کر اپنے آپ کو ننگا کیا تھا۔

آپ(ع) کی انکساری

 ایک دفعہ حضرت امیرالمومنین(ع) انبار سے گزر رہے تھے وہاں کے لوگوں نے ساسانیوں کے رواج کے مطابق جو اپنے بادشاہوں کے آنے پر پہلے راستے پر عطر پاشی کرتے تھے اور بعد میں بادشاہوں کے آگے آگے دوڑتے تھے۔آپ(ع) کے سامنے

۴۱

بھی دوڑنے لگے تو فرمایا ہم تم سب اﷲ کے بندے ہیں اور ایسا کرنا تمہارے لیے ذلت کا باعث ہے انسان کو چاہیے کہ صرف خداوند عالم کے حضور خاکساری برتے۔

امیرالمومنین علیہ السلام غذا ، خوراک ، لباس ، گھر اور دیگر ضروریات میں تمام لوگوں سے زیادہ سادگی اختیار کرتے تھے۔ آپ(ع) اکثر فرماتے تھے۔

“أَ أَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي بِأَنْ يُقَالَ هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَا أُشَارِكُهُمْ فِي مَكَارِهِ‏ الدَّهْرِ”

“ کیا میں صرف اسی پر اکتفا کروں کہ لوگ امیرالمومنین (ع) کہیں اور میں ان کے مصائب میں شریک نہ ہوں۔”

امیرالمومنین (ع) جیسے مرد آزاد کے بارے میں اس پہلو سے بحث جائز نہیں۔ لیکن نہج البلاغہ میں جیسے اشارہ ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنے خداندان والوں سے فرمایا ہے کہ اگر میں چاہوں تو اپنے لئے بہترین غذا اور لباس مہیا کرسکتا ہوں لیکن۔

“هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ بِالْيَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ‏ لَهُ فِي الْقُرْصِوَ لَا عَهْدَ لَهُ بِالشِّبَعِ”

“ یہ بہت بعید ہے کہ میرا نفس مجھ پر غالب آئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ دور حجاز یا یمن کوئی ایسا شخص ہو جو بھوکا ہو یا پیٹ بھر کر طعام نہ کھایا ہو۔”

جارج جرادق نے کیا ہی خوب کہا ہے دنیا کے تمام سمندروں ، تالابوں کے پانی، جھیلوں کے پانی ،اوقیانوس کے پانی میں طوفان آسکتا ہے مگر جہاں طوفان نہیں آسکتا تو وہ علی (ع) کے وجود کا سمندر ہے۔ کوئی شخص اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں طوفان و ہلچل پیدا کرسکے۔ واقعا ایسا ہی ہے۔

کیا اچھا کھانے کی فطری خواہش علی(ع) میں ہلچل مچاسکتی ہے؟ حالانکہ یہ ایک ایسی فطری خواہش ہے جو افراد کو اپنی اولاد تک کو کھا جانے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی وہ جبلت ہے جسے فرائڈ کے شاگردوں نے دوسری تمام خواہشات کے سرچشمہ قرار دیا ہے ۔ بر خلاف فرائڈ کے کہ اس نے جنسی خواہش کو سرچشمہ سمجھا ہے مگر شاگردوں

۴۲

 نے رد کر کے کہا دوسری تمام جبلی خواہشات اس کھانے کی جبلت کی وجہ سے ہیں۔

حمزہ کہتا ہے ایک دفعہ شام کے وقت معاویہ کےہاں تھا اور اس نے اپنا مخصوص ڈنر میرے سامنے رکھا مگر غصے کی وجہ سے لقمہ میرے منہ میں اٹک گیا میں نے پوچھا معاویہ یہ غذا کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ایک خاص غذا ہے جو گندم کے نشاستہ ، حیوانات کے  مغز اور بادام کے روغن وغیرہ سے تیار کی گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا ایک رات دار الامارہ میں علی(ع) کی خدمت میں تھا افطار میں میرے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا دودھ تھا اور امیرالمومنین (ع) کی غذا جو کی خشک روٹی تھی جسے پانی میں بھگو کر کھا رہے تھے  اور یہ روٹی بھی ایسے فصل کی تھی جسے آپ(ع) نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کر کے حاصل کیا تھا اور جس وقت کنیز نے آکر دسترخوان اٹھانا چاہا تو میں نے کہا کہ اب امیرالمومنین(ع) ضعیف ہوچکے ہیں ان کی غذا میں خیال رکھیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ کا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سن کر خادمہ رونے لگی اور کہا امیرالمومنین (ع) اس بات پر راضی نہیں کہ ان کی روٹی میں تھوڑا سا زیتون کا تیل ملائیں تاکہ روٹی نرم ہوجائے۔ یہ سن کر امیرالمومنین(ع) نے فرمایا حمزہ! مسلمانوں کے حاکم کے  چاہئے کہ وہ غذا، لباس، اور مکان کی حیثیت سے تمام سے کمتر ہو تاکہ قیامت کے دن اس سے کم سے کم حساب لیا جائے۔  یہ سن کر معاویہ رونے لگے اور کہا۔

“ ایک ایسے شخص کا نام درمیان میں آیا جس کے فضائل اور مناقب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔”

اسی طرح اقتدار پرستی کی خواہش بھی دوسری خواہشات سے بڑھ کر ہے اور اقتدار کا طلب گار شخص اپنی تمام دوسری خواہشات کو اس پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اپنی ذات سے محبت کے بعد ایک عام انسان کے لیے جاہ طلبی کی جبلت ایک اہمیت رکھتی ہے کیا جاہ طلبی کی خواہش بھی علی(ع) میں ہلچل مچاسکی؟

۴۳

ابن عباس کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں چند سرکردہ لوگ آئے تاکہ میں انہیں علی(ع) کے پاس لے جاؤں میں آپ کے خیمے میں پہنچا تو آپ اپنی جوتی کی مرمت کررہے تھے میں نے اعتراض کیا تو آپ نے جوتا میرے سامنے پھینک کر کہا “ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں علی(ع) کی جان ہے یہ حکومت و اقتدار علی(ع) کے نزدیک اس جوتی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے کسی کا حق دلادوں یا اس اقتدار کے ذریعے کسی باطل کو مٹادوں۔”

طلحہ اور زبیر بہت اصرار کر کے بصرہ اور مصر کی گورنری حاصل کر کے آپ کا شکریہ ادا کرنے لگے تو آپ نے ان دونوں کا تقرر نامہ پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا میں تمہارے کندھوں پر اتنا عظیم بوجھ رکھ رہا ہوں مگر تم میرا شکریہ ادا کر رہے ہو۔

معلوم ہوتا ہے کہ تم سوء استفادہ کا ارادہ رکھتے ہو۔

عمرو بن عاص ، عمر بن سعد، معاویہ، طلحہ اور زبیر وغیرہ سب اسی جاہ طلبی کی خواہش میں غرق ہوگئے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اس دنیا اور اس کی حکومت کو ایک ٹڈی کے منہ میں پتہ یا پرانی جوتیوں سے کم قیمت یا بکری کی چھینک سے بے وقعت بتا دیا ہے۔

صعصعہ کہتا ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت آپ کی اس ہیبت کے باوجود ہمارے درمیان آپ ہماری طرح ہی رہتے تھے جہاں ہم کہتے بیٹھ جاتے ، جوکچھ کہتے اسے سنتے تھے اور جہاں کہیں آپ کو بلاتے تو آپ آجاتے تھے۔

حضور اکرم(ص) نے آپ کو اگر گرانقدر اور دین کا پشت پناہ قرار دیا ہے تو بالکل بجا فرمایا ہے۔ روایت ثقلین جسے شیعہ و سنی سب نے نقل کیا ہے سب کے نزدیک مسلم ہے۔ صاحب طبقات الانوار اہل سنت کی کتب سے پانچ سو دو کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے قرآن اور عترت کو دو گرانقدر چیزیں قرار دی ہیں۔

۴۴

   “ إِنِّي‏ تَارِكٌ‏ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي  وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.”

“ بے شک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔”

“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ء”( النحل : 89  )

“ ہم نے تم پر جو کتاب نازل کی ہے وہ ہر چیز کا بیان کرنے والی ہے اور فتنوں کے زمانے میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہوا ۔”

“إِذَا الْتَبَسَتْ‏ عَلَيْكُمُ‏ الْأُمُورُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ”

“ جب رات کی تاریکیوں کی طرح فتنے تمہاری طرف بڑھیں تو قرآن کا سہارا لو۔”

اور عترت کو قرآن کے ساتھ قرار دیا اور اس کے اکمال کو عترت کے ذریعے قرار دیا ہے۔

 “ ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي‏ وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً”

“ آج کے دن تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ”

بحث کے آخر میں عمرو عاص، یزید اور معاویہ کے اشعار یہاں درج کرتے ہیں معاویہ نے کہا ہے۔

             خير البريه بعد احمد حيدر              والناس ارضی والوصی سماء

حضرت احمد(ص) کے بعد بہترین مردم حیدر(ع) ہے دوسرے لوگ زمین اور وصی آسمان کی مانند ہے۔

عمرو عاص نے کہا ہے۔

کمليحه شهدت لها ضرا تها                 فاالحسن ماشهدت به الصنراء

۴۵

اس حسین عورت کی طرح جس کے حسن وجمال کا اعتراف اس کی سوتن کرے۔ فضیلت یہ ہی کافی ہے کہ اس کی سوتن اس کا اقرار کرتی ہے۔

ومناقب شهد العدو لفضلها         والفضل ما شهدت به الاعداء

اس میں فضیلت و مناقب وہی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیں۔

جارج جرداق اپنی کتاب “ ندائے عدالت انسانی” میں کسی مسیحی کے اشعار نقل کرتا ہے ۔ ان اشعار میں وہ مسیحی کہتا ہے  کہ اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے کہ تم نے علی(ع) کی تعریف کی ہے لہذا پوپ کی مدح بھی کرو تو میں جواب میں کہوں گا میں تو فضیلت و شرف کا دلدادہ ہوں اور میں نے علی(ع) کو فضیلت کا شرچشمہ پایا لہذا ان کی تعریف کی ہے۔

۴۶

حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام

(ام الائمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا )

آپ کا نام نامی فاطمہ(س) ہے اور آپ کے مشہور القاب آٹھ ہیں، صدیقہ ، راضیہ، مرضیہ، زہرا، بتول، عذرا، مبارکہ اور طاہرہ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ذکیہ اور محدثہ بھی ان معظمہ کے القاب ہیں اور آپ کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے۔

آپ (س) کی عمر مبارک تقریبا 18 سال ہے 20 جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اور ہجرت کے گیارہویں سال تین جمادی الثانی کو ثقیفہ بن ساعدہ کے کرتا دھرتا  لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی شخصیت کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں اس لیے جو کچھ بیان ہوگا آپ کی فضیلت کے سمندر میں سے ایک قطرہ لینے کے مترادف ہوگا۔

اسلامی شخصیت کا ادراک دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو حسب ونسب کے ذریعے اور دوسرے ذاتی فضائل کی بنیاد پر۔ لیکن اسلام نے نسب کے اعتبار سے جس شخصیت کو قبول کیا ہے وہ مختلف عوامل کی تاثیر کے تحت ہے۔ قانون وراثت ، شرعی احکام کے تحت ، غذا و ماحول کا اثر میاں بیوی کی تاثیر ، اولاد صالح وغیرہ کسی شخصیت میں اپنا نقش ثبت کرتے ہیں۔

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا قانون وراثت کی روسے رسول اکرم(ص) جیسا باپ جو

۴۷

انسانی کمالات کے تمام مراتب کو طے کرچکا ہے ۔ آپ (ص) کےجمال سے دنیا کی تمام تاریکیاں منور ہوچکی ہیں اور آپ(ص) کی صفات کے بارے میں انتہائی بات یہ کہی جاسکتی ہے۔

             بلغ العلی بکماله               کشف الدجی بجماله

             حسنت جميع خصاله           صلو عليه و آله

اور آپ(س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری(ع) ہیں۔ وہی خاتون ، اسلام جن کا مرہون منت ہے، مسلمانوں کی وہی مان جس نے تین سال تک جب مسلمان شعب ابی طالب(ع) میں محصور تھے تو ان کے اخراجات کا بندوبست کیا اور اپنے تمام اموال صرف کئے وہی ماں جس نے مکہ کے کمر شکن مصائب کا مقابلہ کیا اور رسول اکرم(ص) کے شانہ بشانہ اسلام کی مدد کی اور مدد و ںصرت کی اس راہ میں جسم اطہر پر پتھر بھی لگے۔ طعنے بھی سنے مگر جس قدر مصائب بڑھتے گئے اس معظمہ نے صبر و استقامت کا نمونہ بن کر برداشت کیا۔

اور غذا کی تاثیر کے تحت دیکھیں تو پتہ چلتا ہے مورخوں نے لکھا ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کو تخلیق کا ارادہ فرمایا تو رسول اکرم(ص) کو حکم ملا کہ چالیس روز تک غار حرا میں عبادت کریں اور حضرت خدیجہ سلام علیہا لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے گھر میں عبادت میں مشغول ہوئیں اور حضور اکرم (ص) غار حرا میں اس مدت کے بعد حضور اکرم (ص) کو حکم ملا کہ گھر واپس لوٹیں۔ عالم ملکوت سے ان کے لیے غذا لائی گئی جس کے بعد زہرا(س) کو نور حضرت خدیجہ(ع) کو منتقل ہوا۔ ماحول کے اثرات کی روسے علاوہ اس کے کہ حضرت زہرا(ع) کو ایک فداکار

۴۸

 خاتون کی گود نصیب تھی جو ثابت قدمی میں ایک نمونہ تھیں ساتھ ہی حضور اکرم(ص) جیسے باپ کی تربیت میں پروان چڑھیں۔ آپ جس ماحول میں زندگی گزار رہی تھیں وہ تلاطم سے پر تھا مکہ معظمہ اپنی تمام مصیبتوں اور ناگوار حادثوں کےساتھ آپ کی پرورش کا ماحول تھا۔ آپ نے شعب ابی طالب میں جس طرح زندگی گزاری اس کی تعریف میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے معاویہ کو یوں کہا۔ “تم لوگوں نے ہمیں تین سال تک سورج کے نیچے قید میں رکھا ۔ وہ بھی اس طرح کہ ہمارے بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے ، ہمارے بڑوں کی جلدیں اکھڑ گئیں تھیں او بچوں اور عورتوں کے گریہ و فریاد کی آواز سنی جاتی تھیں۔”

واضح رہے کہ جو بچہ ایسے ماحول اور معاشرے میں پل رہا ہو اور اس کی پرورش کرنے والی رسول اکرم(ص) جیسی ہستی ہوتو اس کے صبر و استقامت اور وسعت صدر (قلب ) زیادہ سے زیادہ ہی ہوگی۔

ناز پروردہ تنعم نہ برد راہ بہ دوست                عاشقی شیوہ رندان بلاکش باشد

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا بیوی، ہم نشین رفیق اور اولاد کی حیثیت سے فوق العادت ہستی ہیں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب (ع) جیسا شوہر جس کی شان مں قرآن کی تین سو سے زیادہ آیات موجود ہیں اور تاریخ نے اسلام کو انہی کی ذات کے مرہون منت سمجھا ہے۔

ایک ایسا شوہر ہے کہ خود اہلسنت کے اقرار کے مطابق مختلف مواقع میں حضرت عمر نے 72 سے زیادہ مرتبہلو لا علی ل ه ک العمر کہا ۔ خداوند عالم نے آپ کو حسن(ع) حسین(ع) اور زینب(س) و ام کلثوم(س) جیسی اولاد عطا کی جو اگر نہ ہوتے تو اسلام ہی نہ ہوتا۔ حضرت امام حسین(ع) کے کہنے کے مطابق “و علی الاسلام السلام ” اولاد کے اعتبار

۴۹

 سے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا “ ام الائمہ” ہیں اور حضرت قائم آل محمد(ص) ہمارے عالم خلقت کے نچوڑ میں ایک ودیعت کئے ہوئے سربستہ راز ہیں۔

اور انسانی فضائل کی روسے اس ہستی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے متعدد دفعہ فرمایا “ إنّ‏ اللّه‏ اصطفيك‏ و طهّرك و اصطفيك على نساء العالمين.”

بے شک خداوند عالم نے تمہیں منتخب کیا اور تمہیں پاکیزہ کیا اور تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ قرار دیا۔”

اگر حضرت زہرا(س) کی شان میں سورہ کوثر کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو بھی آپ کی عظمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا کہ آپ تمام جہان والوں کی نسبت خدا کے حضور برتری اور فضیلت کی حامل ہیں۔

“بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‏ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر فَصَلّ‏ِ لِرَبِّكَ وَ انحَْر إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْترَُ”

“ بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کی پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو بے شک تمہارا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔”

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ایمان کے اعتبار سے راضیہ اور مرضیہ ہیں۔

“يَأَيَّتهَُا النَّفْسُ الْمُطْمَئنَّةُ ارْجِعِى إِلىَ‏ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة فَادْخُلىِ فىِ عِبَادِى وَ ادْخُلىِ جَنَّتى‏”

“ اے نفس مطمینہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے پس تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔”

ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور کنیتیں بے سبب نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک راز کی حامل ہیں اگر آپ زہرا(س) ،

۵۰

 صدیقہ، ذکیہ، طاہرہ، محدثہ القاب کی اسم با مسمی نہ ہو تو یہ بڑی بے معنی بات ہوگی۔ اگر جبرئیل(ع) نہ آتے اس مطمینہ کے ساتھ بات نہ کرتے باوجود اس کے آپ کو محدثہ کہا جائے گا۔ تو یہ جھوٹ ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی محدثہ ہو اور اس کا ایمان شہود کی منزل تک نہ پہنچا ہو۔

علمی اعتبار سے آپ صحیفہ کی حامل ہیں

روایات کے مطابق کچھ کتابیں حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے پاس ہیں جن میں سے ایک صحف فاطمہ(س) ہے اسی کتاب پر ائمہ علیہم السلام نے فخر کیا ہے اور کہا ہے کہ علم ما کان وما یکون وما ہو کائن۔ اس میں موجود ہے یعنی جو کچھ ہوا ہو، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اس کا علم اس میں موجود ہے اور یہ صحیفہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کا لکھایا ہوا ہے اور حضرت امیرالمومنین (ع) کے دست مبارک کا لکھا ہوا ہے۔

حضرت زہرا(س) کا زہد

جس دن حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا علی(ع) کے گھر میں بیاہ کر آئیں تو امیر المومنین علیہ السلام نے “ش” ایک قسم کی گھاس کا فرش بجھایا ہوا تھا اور حضرت رسول اکرم(ص) نے آپ کو جو جہیز دیا تھا اس تمام کی قیمت 63 درہم تھی اور وہ جہیزیہ تھا۔ عباء، مقنعہ، پیراہن ، چٹائی، پردہ، لحاف ، کٹورہ ، پیالہ ، دستی چکی ، پانی کا مشکیزہ، گوسفند کا چمڑا ، تکیہ

حضور اکرم(ص) سے جب جہیز کے سامان کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا“ خداوند! اس جہیز میں برکت عطا فرما جس میں سے اکثر مٹی کا بنا ہوا ہے۔”

۵۱

حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا نے اپنے شوہر کے گھر کی طرف جاتے ہوئے وہ پیراہن ایک مسکین کو دیدیا اور اپنے پرانے پیراہن میں ہی شوہر کے گھر پہنچ گئیں۔ دوسرے دن حضرت پیغمبر اکرم(ص) بیٹی سے ملنے کے لیے آئے تو یہ تحفہ بیٹی کے لیے لے آئے تھے۔

“ علی فاطمه خدمته ما دون الباب و علی علی خدمته ما خلفه”گھر کے اندر کے کام فاطمہ(س) کے سرد ہیں اور گھر کے باہر کا کام علی(ع) کے ذمے ہیں۔” اس تحفے کو جناب زہرا سلام اﷲ علیہا نے بخوشی قبول کیا بلکہ بے حد خوشی کا اظہار کیا اور کہا “ ما يعلم الا الله ما داخلنی من السرور ”خداوند عالم کے علاوہ اور کوئی نہیں جان سکتا کہ اس تقسیم سے میں کس قدر خوش ہوئی ہوں۔”

حضرت زہرا(س) کی عبادت

روایات میں وارد ہے کہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا اس قدر عبادت کرتیں اور قیام میں رہتی تھیں کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے تھے ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ میری والدہ گرامی رات کے ابتدائی حصے سے صبح تک عبادت میں  مشغول رہتی تھیں اور جب بھی آپ نماز سے فارغ ہوتی تھیں تو ہمسایوں کے لیے دعا کرتی تھیں اور جب ہم آپ سے پوچھتے تھے کہ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتی تھیں بیٹے “الجار ثم الدار ” بیٹے پہلے ہمسائے پھر گھر۔ حضرت زہرا(س) کی تسبیح کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ “ میری داماد حضرت زہرا(س) کی تسبیح میرے نزدیک ایک ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔”

کہتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں حضرت زہرا(س) کی مدد کے لیے ایک خادم کی ضرورت تھی اور اس وقت کا رواج بھی تھا کہ خادم یا خادمہ گھر میں رکھے جاتے تھے جس

۵۲

 وقت حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا حضور اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو قبل اس کے کہ حضرت فاطمہ (س) کچھ عرض کرتیں رسول اکرم(ص) نے فرمایا “ میری جان زہرا(س) کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز سکھادوں جو دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو اور ساتھ ہی آپ نے مشہور تسبیح جسے “ تسبیح فاطمہ” کہتے ہیں آپ کو سکھا دی۔ یہ تسبیح سیکھ کر حضرت زہرا(س) خوشی خوشی گھر آئیں  اور حضرت علی (ع) سے فرمایا “ اپنے پدر بزرگوار سے دعا سیکھ کر میں نے دنیا کی بھلائی کا حصہ حاصل کیا ہے۔”

آپ کی سخاوت اور ایثار

تمام مفسرین شیعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک دفعہ حضرت زہرا(س) اور آپ کے گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کا وقت قریب ہوا تھا کہ ایک فقیر نے آکر آواز دی تمام گھر والوں نے اپنی اپنی روٹی اس کے حوالے کردی اور پانی سے روزہ افطار کر کے سوگئے دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا جب افطار کا وقت قریب آیا تو ایک یتیم نے آکر سوال کیا حضرت فاطمہ(س) آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں نے نیز آپ کی خادمہ نے بھی اپنی روٹی اٹھا کر یتیم کے حوالے کی اور اس دن بھی تمام گھر والے پانی سے افطار کر کے سوگئے تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا عین افطار کے وقت ایک قیدی آیا تو سب نے اپنا اپنا کھانا اے دے دیا عین اسی وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلىَ‏ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا إِنمََّا نُطْعِمُكمُ‏ْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكمُ‏ْ جَزَاءً وَ لَا شُكُورًا”

“ یہ لوگ اﷲ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو صرف اور صرف اﷲکی خوشنودی کی خاطر کھلاتے ہیں اور تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔”

بحث کے آخر میں ہم آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت زہرا(س) کے القاب کے بارے میں بہت ساری تاویلیں کی ہیں کہ ان تمام کا ذکر

۵۳

 یہاں ممکن نہیں بلکہ ان کے خلاصے کو طور پر ہم صرف آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں تھوڑی سی بحث کرتے ہیں۔

حضرت زہرا(س) کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے اور یہی کنیت جو آپ کے لیے باعث افتخار ہے خود حضور اکرم(ص)نے دی ہے۔ “ام ابیہا ” کے معنی “ اپنے باپ کی ماں” ہیں اس کنیت کے مختلف معانی ہیں لیکن بہترین معانی یہ ہیں جو رسول اکرم(ص)نے اس کنیت کو دیئے ہیں یعنی ” زہرا(س) دنیا کی علت غائی ہیں۔” ایسی بعض روایات و احادیث بھی منقول ہیں کہ حضرت زہرا(س) دنیا جہان کی علت غائی ہیں اور اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ عالم ہستی کے فیض کا واسطہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ہیں تو یہ بھی بے دلیل نہیں اور حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س)  کیوں کہا گیا ہے اس کے بھی اسرار ہیں اور روایات اس راز کو یوں بیان کرتی ہیں۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ مِنَ الشَّرِّ

1ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ آپ برائی سے جدا اور الگ ہیں یہ جملہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی عصمت پر دلیل ہے کیوںکہ آپ کا معصومہ ہونا ثابت ہے اور آیت تطہیر آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

“إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً”

“ اے اہل بیت رسول(ص) خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ تم اہل بیت کو ہر قسم کے رجس سے ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔”

إِنَّهَا سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ عَنِ الطَّمْثِ.

2ـ حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ عورتوں کی ماہانہ عادت سے پاک تھیں یہ آپ کی ظاہری طہارت کی طرف اشارہ ہے روایات سے ثابت ہے کہ آپ طاہرہ اور مطہرہ تھیں۔ طاہرہ یعنی ظاہری نجاسات سے پاک اور مطہرہ معنوی نجاسات سے پاک ۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةُ لِأَنَّها فُطِمت عَنْ الْخَلْقَ

۵۴

3ـ فاطمہ (س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا کہ آپ مخلوق سے جدا تھیں یہ تفسیر آپ کے عرفان کی منزل کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے دل میں سوائے خدا کے اور کسی کا تصور نہیں تھا اور ہر وقت آپ کا دل مشغول عبادت حق تھا۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ کنه مَعْرِفَتِهَا.

4ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ لوگ آپ کی معرفت سے قاصر ہیں یہ تفسیر آپ کے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ کو رسول اکرم(ص) نے “ ام ابیہا” کہا ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَة فَاطِمَة لِأَنَّهَا فُطِمَتْ شِيعَتُهَا عن النَّارِ

5ـ آپ کو فاطمہ نام اس لیے دیا گیا کہ قیامت کے دن اپنے شیعوں کو جہنم کی آگ سے نجات دلا دیں گی۔ یہ اشارہ آپ کی شفاعت کے حق کی طرف ہے۔

سُمِّيَتْ‏ فَاطِمَةَ فاطِمَة لِأَنَّ أَعْدَاؤهَا فطِمُوا عَنْ حُبِّهَا

6ـ آپ کو فاطمہ(س) ا سلیے کہا گیا کہ آپ کے دشمن کو آپ کی محبت سے الگ کیا گیا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس کے پاس محبت اہل بیت(ع) کی سعادت نہٰیں ہوگی اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

اس فاطمہ(س) کی توصیف کیسے کی جاسکتی ہے کہ جب حضرت زہرا(س) حضور اکرم(ص) کے ہاں جاتیں یا حضور اکرم (ص) حضرت زہرا(س) کے ہاں آتی تو آپ کے ہاتھ اور چہرے کے بوسے لیتے آپ کا استقبال کرتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور فرماتے تھے کہ “ مجھے فاطمہ(ع) سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔”

لیکن یہی زہرا(ع) اس قدر متواضع تھیں کہ جب امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ گھر میں کوئی مہمان آرہے ہیں تو فرماتی ہیں یہ گھر آپ کا ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔ باوجود اس کے کہ آپ ان لوگوں سے سخت بیزار تھیں لیکن آپ کے شوہر نے

۵۵

اجازت چاہی تو اجازت دی۔ ایک دفعہ ایک عورت آتی ہے اور ایک مسئلہ شرعی پوچھتی ہے مسئلہ پوچھ کر چلی گئی لیکن بھول کی بیماری میں مبتلا ہونے کہ وجہ سے کئی دفعہ یہاں تک دس بار واپس آئی تو آپ نے ہر بار اسے مسئلے کا جواب بتا دیا جب وہ عورت معذرت کرتی ہے تو آپ فرماتی ہیں۔ “ تمہارے ہر بار سوال کرنے سے خداوند عالم مجھے جزا دے رہا ہے تم بار بار پوچھنے کی معذرت مت کرو۔”

جس وقت حضرت زہرا(س) کو ان کے پدر بزرگوار نے خادمہ کی حیثیت سے فضہ دیا تو اپنے پدر گرامی کے حکم کے مطابق گھر کے کاموں کو تقسیم کیا۔ اس طرح ایک دن حضرت فضہ اور ایک دن آپ(ع) کام کرتی تھیں۔

یہ بات نہیں بھولنی چاہئے اور خصوصا خواتین یاد رکھیں کہ تمام اہل بیت(ع) ہماری زندگی کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے خاندان کو نمونہ عمل قرار دیں۔

“لَقَدْ كانَ لَكُمْ في‏ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ ”( سورہ الاحزاب آیت 21  )

“ بے شک رسول اﷲ(ص) ان لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں جو اﷲ اور روز جزا پر امید رکھتے ہیں۔”

اگر ہمیں دو جہاںوں کی سعادت مطلوب ہے تو چاہئے کہ رسول اکرم(ص) اور ان کے اہل بیت(ع) کی  پیروی کریں۔ مسلمان خواتین اسی وقت سعادت حاصل کرسکتی ہیں جب وہ عفت ، ایثار، جان نثاری، شوہر داری، خانہ داری اور اولاد کی تربیت مٰیں حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی پیروی اختیار کریں۔

صاحب وسائل شیعہ نے وسائل کے جلد دوم میں ایک واقعہ لکھا ہے جو حضرت زہرا(س) کے بارے میں ہے لہذا خصوصا خواتین کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک دفعہ

۵۶

حضرت فضہ نے جناب زہرا(س) کو مغموم پایا اور وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ فکر ہے جب میرا جنازہ ٹھایا جائے گا تو میرے بدن کا حجم نامحرم لوگوں کو نظر آئے گا۔ فضہ کہتے ہیں یہ سن کر میں نے ایک عماری کا نقشہ کھینچا اور کہا کہ عجم میں لوگوں کی یہ رسم ہے کہ معزز لوگوں کو اس میں رکھ کر لے جاتے ہیں۔ یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئی اور تاکید کے ساتھ وصیت کی کہ ان کے جنازے کے عماری میں رکھ کر اٹھایا جائے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بھی وصیت کی تھی کہ رات کے وقت تجہیز و تکفین و تدفین کی جائے۔

     زوجہ علی(ع) کی بنت رسالت ہیں فاطمہ(س)                اتری ہے جن کے گھر میں امامت ہیں فاطمہ(س)

     کاظم نہ پوچھ رتبہ سردار مومنات                             گر ہیں اذان رسول (ص)  اقامت ہیں فاطمہ (س)

                                                     سید کاظم عباس زیدی

۵۷

حضرت امام حسن علیہ السلام

آپ کا نام نامی حسن(ع) ہے اور یہ نام آپ کےلیے پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت امام حسن(ع) دنیا میں آئے تو حضور اکرم(ص) کے پاس خداوند عالم کی طرف سے جبرائیل امین(ع) نازل ہوئے اور کہا کہ چونکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی نسبت آپ کے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) کے ساتھ تھی۔ اس لیے علی(ع) کے بیٹے کا نام ہارون(ع) کے بیٹے کے نام پر رکھو جس کا نام حسن(ع) تھا۔ لہذا تم بھی اپنے اس نواسے کا نام حسن رکھو۔

“ روایت منزلت ” علمائے اسلام کے نزدیک ایک مشہور حدیث ہے اہلسنت و شیعہ کے متعدد ذرائع نے یہ حدیث رسول اکرم(ص) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے متعدد بار فرمایا “يا علی أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ‏ مِنْ مُوسَى إِلَّا إنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي” اے علی(ع) تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ” یعنی جس طرح موسی(ع) کی غیر حاضری میں وہ موسی(ع) کے خلیفہ تھے اسی طرح میری غیر موجودگی میں تم میرے خلیفہ ہو صرف یہ فرق ہے کہ موسی(ع) کے بعد نبوت کا سلسلہ تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

آپ کی مشہور کنیت ابو محمد (ع) اور مشہور لقب مجتبیٰ(ع) اور سبط اکبر ہیں آپ نے 47 سال کی عمر پائی۔ آپ کی ولادت 3 ہجری 15 رمضان المبارک کو ہوئی تھی۔ سات سال آپ نے اپنے نانا کے زیر سایہ گزارے اور 30 سال اپنے والد گرامی کے ساتھ گزارے اور آپ کی مدت امامت دس سال ہے۔ آپ ہر پہلو سے “حسن(ع)”

۵۸

 تھے رسول اکرم(ص) جیسا نانا، والدہ گارمی حضرت زہرا(ع)مرضیہ، والد گرامی علی ابن ابی طالب(ع)۔

اگر ہم بچے کی تربیت میں موثر عامل کے تمام قوانین جیسے قانون وراثت وغیرہ کا مطالعہ کریں گے تو مان باپ کے اثرات کا انکار نہیں کرسکتے۔ آپ کے نانا اتنی عبادت کرتے تھے کہ کثرت قیام سے پاؤں میں ورم آجاتا تھا۔ اور خداوند عالم کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی۔ “طه مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْءَانَ لِتَشْقَى ‏”“ ہمارے رسول(ص) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔” اسی ہستی کے زیر تربیت رہ کر نواسہ پلا بڑھا جس نے بیس سے زیادہ حج پا پیادہ کئے اور بعض سفروں میں آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔

ان کے والد گرامی حضرت امیرالمومنین علی(ع) رات کی تاریکی میں مصلے بچھاتے اور امام حسن (ع) کی تکبیروں اور خوف الہی سے گریہ و زاری کرنے کی آوازیں سنتے تھے تو اس فرزند کی تربیت اس انداز میں ہوئی کہ وضو کرتے وقت کانپ اٹھتے تھے اور مسجد میں داخل ہوتے وقت روتے ہوئے کہتے تھے

 “إِلَهِي‏ ضَيْفُكَ‏ بِبَابِكَ يَا مُحْسِنُ قَدْ أَتَاكَ الْمُسِي‏ءُ فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِيحِ مَا عِنْدِي بِجَمِيلِ مَا عِنْدَكَ يَا كَرِيمُ.”

“اے میرے معبود! تیرا مہمان دروازے پر ہے اے نیکی کرنے والے ! تیرے حضور گناہ گار پہنچا اپنی خوبی کے وسیلے اس کی برائیوں کو معاف فرما۔”

جس باپ نے تیس تک اسلام کے مصالح کی خاطر صبر کیا اور ایسے زندگی گزاری جیسے آنکھ میں خار اور گلے میں ہڈی انکی ہوتو اس کے بیٹے نے دس سال تک مصالح اسلام کی خاطر صبر کیا اور معاویہ کے ساتھ صلح کی اور والدہ گرامی زہرا(ع) مرضیہ تھیں جو اپنا متعلقین کا کھانا  پہلے فقیر کو خیرات میں دیتی ہیں اس کے بعد اپنا کھانا دوبارہ پکاتی ہیں تو ایک یتیم کی آواز سن کر غذا اس کے حوالے کرتی ہیں اور

۵۹

اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگتی ہیں جب کھانا تیار ہوتا ہے تو ایک اسیر کی آواز سن کر کھانا اس کے حوالے کرتی ہیں۔ اور خود کو اور گھر والوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے کچھ نہیں رہتا ہے تو پانی سے افطار کرتے ہیں۔

اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔

“وَ يُطْعِمُونَ‏ الطَّعامَ‏ عَلى‏ حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً”

“ یہ لوگ اپنی غذا کو جس کی خود انہیں بھی ضرورت ہے مسکین یتیم اور اسیر کو دے دیتے ہیں۔”اسی ایثار کو ان کا فرزند حسن(ع) میں پاتا ہے۔

ایک دن ایک سائل کے حضور آکر اپنے فقر کی شکایت کرنے لگا اور اس مضمون کے دو شعر کہے کہ۔

میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں میری حالت اس کی گواہ ہے صرف اس وقت میری آبرو محفوظ  ہے میں نے ہر چند چاہا کہ نہ بیچوں مگر آج آپ کو خریدار پایا میری آبرو کو خرید کر مجھے فقر سے نجات دیں۔ یہ سن کر آپ نے اخراجات کے ذمے دار سے فرمایا آج جو کچھ تمہارے سامنے موجود ہے اسے دے دو لہذا اس نے بارہ ہزار درہم جو موجود تھے۔ اس کے حوالے کئے اور اور اس روز گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ آپ نے دو شعر جواب میں یوں لکھ کر دیئے۔

“ تم نے جلدی میں ہم سے جلدی میں ہم سے کچھ چاہا جو کچھ موجود تھا دیا مگر یہ بہت کم تھا اسے لے لو اور اپنی آبرو کی حفاظت کرو گویا ہمیں دیکھا نہ ہو اور نہ ہمیں کچھ فروخت کیا ہو۔” آپ کی مادر گرامی اس منزلت کی تھیں کہ راتوں کو صبح تک نماز میں مشغول رہتیں ہیں اور ہر نماز کے بعد دوسروں کے لئے دعا کرتی رہتیں ہیں۔ آپ کے فرزند حسن(ع) آپ سے پوچھتے ہیں“ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتیں

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

٢)۔ تعصب

ہم نے دیکھا کہ سیف کے زمانے میں موجود اسلامی مراکز خاندانی اور قبائلی تعصب کی وجہ سے پے در پے تباہ و برباد ہو گئے اور ہر طرف فتنہ و فساد اور انتہائی خون ریزی کا بازار گرم ہو ا بالاخر یہی امر بنی امیہ کی حکمرانی کی نابودی اور بنی عباس کی خلافت کے بر سر کار آنے کا باعث ہوا ۔ان تمام فتنوں اور بغاوتوں کے بارے میں اس وقت کے شاعروں نے فخر و مباہات اور خود ستائی پر مبنی ولولہ انگیز رزمی قطعات اور قصیدے کہے ہیں ،جو یادگار کے طور پر موجود ہیں اور آج بھی ہم اس زمانے کے شعراء و ادب کے مجموعوں کو ان رزمی قصیدوں سے پر پاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ معلوم ہو ا کہ انہی خاندانی تعصبات کی وجہ سے بعض افراد نے اپنے خاندان کی فضیلت ،منقبت اور بالادستی پر مبنی تاریخی قصے اور احادیث جعل کی ہیں اور انھیں اپنے خاندانی فخر و مباہات کی سند کے طور پر دشمن کو نیچا دکھا نے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ لیکن اس میدان میں بھی سیف کا کوئی ہم پلہ نہیں ملتا کیوں کہ وہ اپنی کتابوں '' فتوح '' اور ''جمل'' میں شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کرنے میں کامیاب ہو اہے ،جنھوں نے اپنے رزمی قصیدوں میں قبیلہ مضر کے فخر و مباہات پر عام طور سے اور خاندان تمیم کے بارے میں خصوصی طور سے داد سخن دی ہے ۔اس کے علاوہ سیف نے اپنے خاندان تمیم کے بہت سے ایسے شجاع و بہادر نیز اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعل کئے ہیں جن کو اسلامی جنگوں میں فاتح سپہ سالار کی حیثیت سے دکھایا ہے ۔اس کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے احادیث کے بے شمار راوی جعل کئے ہیں

۱۲۱

٣)۔من گڑھت

اس کے علاوہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں اپنے افسانوں کے بہادر وں کی شجاعت کے جوہر دکھانے کے لئے قصہ اور کہانیاں گڑھی ہیں ،جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ۔اور اس نے ایسے جنگی میدانوں کانام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔اس کے علاوہ ان جنگوں میں قتل کئے گئے افراد کی تعداد لاکھوں بیان کی گئی ہے جب کہ اس زمانے میں پورے علاقے میں تمام جانداروں کی بھی اتنی تعداد نہیں تھی کہ اتنے انسان قتل یا گرفتار کئے جاتے ۔ سیف نے ان افسانوی بہادروں کی زبانی فخرو مباہات اور رزمی قصیدے بیان کئے ہیں اور دشمنوں کی ہجو گوئی کی ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان کے سور مائوں کے نام خلفائے وقت کی طرف سے ترقی کے حکم نامے جعل کئے ہیں اور مذکورہ فاتح سپہ سالاروں کے فتح شدہ فرضی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جنگی معاہدے بھی درج کئے ہیں جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ،رونما نہ ہوئے واقعات کو جعل کرنے اور قبیلہ نزار کی فضیلتیں بیان کرنے کے لئے اس شخص کی حرص اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خاندان تمیم کی فضیلتوں کو پھیلانے کے لئے اس نے ملائکہ اور جنات سے بھی خدمات حاصل کرنے میں گریز نہیں کی ہے ۔سیف قبیلہ مضر ،خاندان تمیم خاص کر سیف کے اپنے خاندان بنی عمرو کے فخرو مباہات کی سند جعل کرنے کے لئے ہر قسم کے دھوکہ اور چالبازیوں کو بروئے کار لاتا ہے !

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا ہے کہ سیف کے افسانوں کے سورمائوں کے لئے کچھ معاونین کی ضرورت تھی اس لئے اس نے غیر مضریوں پرمشتمل کچھ معاون بھی جعل کئے ہیں اور ان کے لئے معمولی درجے کے عہدے مقرر کئے ہیں ۔اس طرح اس نے تاریخ اسلام میں بہت سے اصحاب تابعین اور حدیث کے راوی جعل کئے ہیں ،جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ سب سیف بن عمر کے تخیلات کی تخلیق ہیں ۔

۱۲۲

٤)۔حقائق کو الٹا کرکے دکھا نا

ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف نے بعض ایسے افسانے جعل کئے ہیں ،جن میں تاریخ کے صحیح واقعات کو تحریف کرکے ایسے افراد سے نسبت دی ہے کہ یہ واقعات کسی بھی صورت میں ان سے مربوط نہ تھے ۔مثال کے طور پر قبیلہ مضر کے علاوہ کسی اور خاندان کے کسی سور ما کو نصیب ہوئی فتحیابی کو کسی ایسے سپہ سالار کے نام درج کیا ہے جو خاندان مضر سے تعلق رکھتا تھا چاہے اس مضری سورما کا کوئی وجود نہ بھی ہو اور وہ محض سیف کے ذہن کی تخلیق ہو!اسی طرح اگر قبیلہ مضر کے کسی سردار سے کوئی نامناسب اور ناگوار واقعہ رونما ہو اہو تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی غیر مضری شخص سے نسبت دے دیتا ہے اور سیف کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ غیر مضری فرد حقیقی ہو یا اس کا جعل کردہ اور فرضی۔بہر حال اس کا مقصد یہ ہے کہ مضری فردسے بد نما داغ صاف کرکے اسے کسی غیر مضری شخص کے دامن پر لگایا جائے۔

٥)۔پردہ پوشی

سیف نے قبیلہ مضر کے بعض ایسے سرداروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی حقائق میں تحریف کی ہے ،جو ناقابل معافی جرم وخطاکے مرتکب ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے خلیفہ عثمان کے معاملہ میں عائشہ،طلحہ و زبیرکے اقدامات کے بارے میں دیکھا جو عثمان کے قتل پر تمام ہوئے ۔یا ان ہی تین اشخاص یعنی عائشہ ،طلحہ وزبیرکے امام علی کے خلاف اقدامات جو جنگ جمل کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔چونکہ یہ سب قبیلہ نزار و مضر سے تعلق رکھتے تھے،اس لئے سیف نے کوشش کی کہ اس عیب سے ان تمام افراد کے دامن کو پاک کرے ۔لہٰذا اس نے ''عبداللہ ابن سبا''کے حیرت انگیز افسانہ کو جعل کرکے تمام فتنوں ،بغاوتوں اور برے کاموں کو ابن سبا اور سبائیوں کے سرتھوپ دیا۔سیف نے جس ابن سباکا منصوبہ مرتب کیاہے ،وہ یہودی ہے اور اس نے یمن سے اٹھکر مسلمانوں کے مختلف شہروں میں فتنہ اور بغاوتیں بر پاکی ہیں ۔سیف،عبداللہ اور اس کے پیرئوں کو سبائی کہتا ہے اور اس خیالی گروہ کو یمنی بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یمنی روئے زمین پر فتنہ گر اور بدترین لوگ ہیں ۔اس طرح بدترین اعمال کے عاملوں ،جو در حقیقت قبیلہ نزار ومضر سے تعلق رکھتے تھے ،کی مضحکہ خیزطور پر پردہ پوشی کرتا ہے ۔لیکن قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر افراد ،جیسے عمار یاسر ،ابن عدیس اور مالک اشتر وغیرہ ،جو سب قحطانی تھے ،کو سیف نہ فقط بری نہیں کرتابلکہ ان حوادث میں ان کی مداخلت کو محکم تر کرکے ان پر اپنے افسانے کے ہیرو عبداللہ ابن سبا کی پیروی ،ہم فکری اور مشارکت کا الزام لگاتا ہے وہ اس طرح قبیلۂ مضر کی ان رسوائیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔

۱۲۳

٦)۔کمزور کو طاقتور پر فدا کرنا

لیکن قبیلہ مضر کے کسی سردار اوراسی قبیلہ کے کسی معمولی شخص کے در میان اگر کوئی ٹکرائو یااختلاف پیدا ہوتا ہے ،تو سیف اس خاندان کے معمولی فرد کو خا ندان کی عظمت پر قربان کردیتا ہے سیف کا مقصد خاندان مضر کی عظمت و بزرگی ،زرو زور کے خدائوں کے فخرو مباہات ،نامور پہلوانوں سپہ سالاروں کی شجاعت وبہادری کی ترویج و تبلیغ ہے اور اس راہ میں وہ کوئی کسراٹھا نہیں رکھتا۔اس کی مثال کے لئے سیف کا خالد بن سعید اموی مضری کو خلیفہ اول ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر سر کوب اور بد نام کرنا اورمالک بن نویرہ پر صرف اس لئے ناروا تہمتیں لگانا کہ خالد بن ولید نزاری کی حیثیت محفوظ رہے،کافی ہے۔

لیکن اگر کسی مضری اور یمانی کے در میان کوئی ٹکرائو یا حادثہ پیش آیا ہو اور سیف نے اسے سبائیوں کے افسانہ میں ذکر نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے قصہ اور افسانہ جعل کرکے اس میں حتیٰ الامکان یمنی کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور مضری شخص کے مرتبہ و منزلت کو اونچا کرکے پیش کرتا ہے ۔اس سلسلے میں مضری خلیفہ عثمان کے ذریعہ ابوموسیٰ اشعری یمنی کو معزول کرنے کا مسئلہ قابل توجہ ہے۔

٧)۔حدیث سازی کا تلخ نتیجہ

ان تمام امورکے نتیجہ میں اسلام کی ایک ایسی تاریخ مرتب ہوئی ہے جو بالکل جھوٹ اور افسانوں سے بھری ہے ۔اس طرح تاریخ اسلام میں ،اصحاب ،تابعین ،راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شعراء پر مشتمل ایسے اشخاص مشہور ہوئے ہیں ،جن میں سے ایک کابھی وجود سیف کے افسانوں سے باہر ہر گزپایا نہیں جاتا۔اس کے با وجود سیف سے نقل کرکے ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے حالات لکھے گئے ہیں اور انھیں تاریخ کی معتبر کتابوں اور دیگر دسیوں کتابوں میں مختلف موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں ان میں سے ستر کے قریب نمونوں کا ذکر کیا ہے ۔

۱۲۴

٨)۔ سیف کی احادیث پھیلنے کے اسباب

ہم نے سیف کی احادیث کے پھیلنے کے اسباب کے بارے میں کہا کہ اس کی حیرت انگیز روایات اور افسانوں کے پھیلنے اور علماء و دانشوروں کی طرف سے ان کو اہمیت دینے کے اسباب درج ذیل ہیں :

١۔ سیف نے اپنی داستانوں اور افسانوں کو ایسے جعل کیا ہے کہ ہر زمانے کے حکمرانوں ، ارباب اقتدار اور دولتمندوں کے مفادات اور مصلحتوں کا تحفظ کر سکیں ۔جیسا کہ ہم نے علاء خضری کی داستان میں دیکھا کہ دار ین کی جنگ میں وہ اپنے پیادہ و سوار سپاہیوں کے ہمراہ سمندر کے پانی سے ایسے گزر ا جیسے وہ صحرا کی نرم ریت پر چل رہا تھا جب کہ اس سمندر ی فاصلہ کو کشتی سے طے کرنے کے لئے ایک شب و روز کا زمانہ درکار تھا اس کے علاوہ اس جنگ میں جتنی بھی کرامتیں اس نے دکھائیں وہ سب علاء کی جانب سے خلیفہ اول کی فرمانبرداری و اطاعت کے نتیجہ میں تھیں چوں کہ جب یہی علاء دوسرے خلیفہ کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو شکست سے دو چار ہوتا ہے اور ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔اس لئے اگر علاء سے کوئی کارنامہ دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف خلیفہ اول کی اطاعت کے نتیجہ میں تھا ،نہ یہ کہ علاء کسی ذاتی فضل و شرف کا مالک تھا کیوں کہ ہم نے دیکھا کہ دوسری بار خلیفہ دوم کی نافرمانی کے نتیجہ میں اس کے فضل و شرف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اس قسم کے افسانے وقت کی سیاست کے مطابق اور خلافت کی مصلحتوں اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جعل کئے گئے ہیں ۔اسی لئے یہ افسانے ہر زمانہ میں حکمراں طبقہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے مورد تائید وحمایت قرار پائیں گے۔

٢۔اس نے اپنے افسانوں کو عوام پسند،ہر دل عزیز اور ہر زمانے کے متناسب جعل کیاہے۔ اسلاف کی پوجا کرنے والے اس افسانوں میں اپنے اجداد کی بے مثال عظمتیں اور شجاعتیں پاتے ہیں ۔ثقافت وادب کے شیدائی منتخب اور دلچسپ اشعار اور نثر میں بہترین اور دلپسند عبارتیں پاتے ہیں ۔تاریخ کے متوالوں کو بھی ایک قسم کے تاریخی اسناد،جیسے خطوط،عہد نامے،دستاویز اور تاریخ کے بارے میں جزئیات ملتے ہیں اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والوں کو بھی سیف کے افسانوں میں اپنا حصہ ہاتھ آتاہے تاکہ اپنی شب باشی کی محفلوں میں اس کے شیرین قصوں اور داستانوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔

مختصر یہ کہ حکام اور اہل اقتدار ،جو کچھ اپنی سیاست کے مطابق چاہتے ہیں سیف کے افسانوں میں پاتے ہیں ۔اس کے علاوہ عام لوگ بھی اپنی چاہت کے مطابق مطالب سے محروم نہیں رہتے ۔علماء اور ادب کے شیدائی بھی اپنی مرضی کے مطابق بحث و مباحثے میں کام آنے والی چیزوں سے مستفید ہوتے ہیں ۔

۱۲۵

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف کو دوسروں پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ اس نے دوسروں کی نسبت اپنے شخصی مفاد کو کامیابی کے ساتھ تمام طبقوں کی خواہشات کے مطابق ہماہنگ کیا ہے اس نے مختلف طبقات کی خواہشات کو پورا کرنے کے باوجود عام طور پر قبیلۂ مضر کو اور خاص طور پر خاندان تمیم کو ہمیشہ کے لئے با افتخار بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ اپنے خاندان کے دشمنوں جیسے ،یمنیوں اور سبائیوں کو ذلیل وخوار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔

٩)۔ سیف کے مقاصد

مذکورہ بالاتمام چیزوں کا سیف کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ ہوتاہے۔لیکن تاریخی حواد ث کی تاریخوں میں تحریف کرنے کا کیا سبب تھا؟اور کس چیز نے سیف کو اس بات پر مجبور کیا کہ تاریخی اشخاص کے نام بدل دے ،مثال کے طور پر عبد الرحمن ابن ملجم کے بجائے خالد بن ملجم بتائے؟یا کون سی چیز اس کا باعث بنی کہ وہ یہ داستان گڑھے کہ عمر اپنی بیوی سے یہ کہیں کہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھائے!اور ان کی بیوی کا اپنے شوہر کی تجویز پر اطاعت نہ کرنے کاسبب اس کانامناسب لباس ہو؟اور اسی طرح کی دوسری مثالیں ؟یہ وہ مسائل ہیں جن سے سیف کے وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے جن سے ہم واقف ہیں ،مگر یہ کہ اس پر زندیق ہونے کا الزام صحیح ثابت ہو اور اگریہ الزام اس پر صحیح ثابت ہوجائے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان تمام جھوٹ اور افسانوں کے گڑھنے کا اس کا اصلی مقصد اسلامی تاریخ کے حقائق میں تبدیلی لانے،تحریف کرنے اور انھیں مسخ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔اور اس میں سیف اس قدر کامیاب ہوا ہے کہ یہ کامیابی اس کے علاوہ کسی اور زندیق کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔

بہر حال ،خواہ سیف کے زندیقی ہونے اور اسلام کے ساتھ اس کی دشمنی کے سبب یا جھوٹ اور افسانے گڑھنے میں اس کی غفلت اور حماقت کی وجہ سے ،جو بھی ہو ،اس نے تاریخ اسلام کو خاص کر ارتداد اور فتوح کی جنگوں میں اور ان کے بعد حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے تک کے تاریخی حوادث میں زبردست تحریف کی ہے۔

۱۲۶

ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ سیف نے جعل کیا ہے وہ اسلام ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب ان کی جنگوں اور فتحیابیوں کی باقاعدہ اور معتبر تاریخ محسوب ہوتاہے۔جھوٹ اور افسانوں پر مشتمل اس قسم کی تاریخ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ اور ہزار ہا انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد پھیلا ہے۔جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ملتیں اور قومیں تھیں جو ظالم اور جابر حکام کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کے سپاہیوں کی صف میں شامل ہوکر گروہ گروہ دین اسلام قبول کرتی تھیں ۔حقیقت میں اسلام اسی طرح پھیلاہے نہ کہ تلوار کے ذریعہ جیسا کہ سیف کا دعویٰ ہے۔

١٠)۔ ہماری ذمہ داری :

یہ وہ تاریخ ہے جسے سیف نے تاریخ اسلام کے طور پر تدوین کیا ہے اور یہ عوام الناس میں محترم قرار پاکر تسلیم کی گئی ہے اور جو کچھ دوسروں نے حقیقی واقعات پر مشتمل تاریخ اسلام لکھی ہے ،سیف کے افسانوں کی وجہ سے ماند پڑگئی ہے اور سرد مہری وعدم توجہ کا شکار ہوکر فراموش کردی گئی ہے۔اس طرح ہر نسل نے جو کچھ سیف کے افسانوں سے حاصل کیا،اسے اپنے بعد والی نسل کے لئے صحیح تاریخی سند کے طور پر وراثت میں چھوڑا اور اس کے تحفظ کی تاکید کی ہے۔اسی طرح صدیاں گزرگئیں ۔

گزشتہ بارہ صدیوں سے یہی حالت جاری ہے۔اور ہماری تدوین شدہ تاریخ ،خصوصاً فتوح ،ارتداد اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ کی یہی ناگفتہ بہ حالت ہے ۔لیکن کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور اپنے آپ کو اس زندیق کے فتنوں کے پھندوں سے آزاد کریں ؟ کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟اگر ہمیں ایسا موقع ملا اور اس بات کی اجازت ملی کہ تاریخ کی بڑی کتابوں اور معارف اسلامی کے دیگر منابع کے بارے میں تعصب اور فکری جمود سے اوپر اٹھ کر بحث وتحقیق کریں تاکہ اسلام کے حقائق سے آشنا ہو سکیں تو ایسی بحث کے مقدمہ کے طور پر سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سچے اور حقیقی اصحاب کی شناخت اور پہچان ضروری ہو گی اور اس سلسلے میں پہلے سیف کے جعلی اصحاب کو پہچاننے کی ضرورت ہے ایسے صحابی جنھیں اس نے سپہ سالار اور احادیث کے راویوں کی شکل میں جعل کیا ہے اور اپنی احادیث کی تائید کے لئے اپنی روایتوں میں بے شمار راوی جعل کئے ہیں اور شعراء ،خطباء حتٰی جن و انس سے بھی مدد حاصل کی ہے جب کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔

۱۲۷

اس کتاب کے اگلے حصوں میں ہم سیف کے افسانوں کے ایسے سورمائوں کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے جو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں خدا شاہد ہے کہ ہم نے جو یہ کام اور راستہ اختیار کیا ہے اس میں اسلام کی خدمت اور خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد کارفرما نہیں ہے ۔

ہم اس کتاب کو اس کے تمام مطالب اور مباحث کے ساتھ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں اپنی راہنمائی اور علمی تنقید کے ذریعہ ہماری مدد اور تعاون فرمائیں ۔

خد ا ئے تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق و حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی و دستگیر ی فرمائے !اور اپنی پسندیدہ راہ کی طرف راہنمائی فرمائے !

گزشتہ بحث کا ایک جائزہ اور

آئندہ پر ایک نظر

گزشتہ فصلوں میں ہم نے زیر نظر مباحث کی بنیاد کے طور پر چند کلی مسائل بیان کئے اور اس طرح زندیقیت اور زندیقیوں کا تعارف کرایا اور خاندانی تعصبات کی بنیاد پر حدیث اور تاریخ اسلام پر پڑنے والے برے اثرات سے واقف ہوئے ۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف بن عمر ایک زبر دست متعصب اور خطر ناک زندیقی تھا ۔اس میں زندیقیت اور تعصب دو ایسے عامل موجود تھے جو حدیث جعل کرنے کے لئے اسے بڑی شدت سے آمادہ کرتے تھے ۔اور یہی قوی دو عامل اسے تاریخ اسلام میں ہر قسم کے جعل ،تحریف ،جھوٹ اور افسانہ سازی میں مدد دیتے تھے جس کے نتیجہ میں اس نے اپنے تخیلات کی طاقت سے بہت سے راوی ،شاعر اور اصحاب کو اپنی احادیث اور افسانوں کے کردار کے طور پر جعل کرکے انھیں اسلام کی تاریخ و لغت میں داخل کر دیا ہے اس کتاب کی تالیف کا مقصد سیف کے جعل کئے ہوئے افراد کے ایک گروہ کا تعارف کرانا ہے جنھیں اس نے تاریخ اسلام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے پیش کیا ہے

سیف نے اپنے جعلی اور افسانوی اصحاب میں سے اہم اور نامور افراد کو خاندان تمیم سے مربوط ثابت کیا ہے ،جو اس کا اپنا خاندان ہے اور باقی اصحاب کو دوسرے مختلف قبیلوں سے مربوط دکھایا ہے اب ہم ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ فصل میں بحث و تحقیق کریں گے ۔ہم اس بحث کا آغاز خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے کرتے ہیں ،جن کا سرغنہ اور سب سے پہلا شخص '' قعقا ع بن عمرو'' ہے ۔

۱۲۸

تیسرا حصہ :

١۔ قعقاع بن عمر و تمیمی

٭ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں

٭ ابوبکر کے زمانے میں

٭ حیرہ کی جنگوں میں

٭ حیرہ کی جنگوں کے بعد

٭ مصیخ و فراض کی جنگوں میں

٭ خالد کے شام کی طرف جاتے ہوئے

٭ شام کی جنگوں کے دوران

٭ عمر کے زمانہ میں

٭ عراق کی جنگوں میں

٭ ایران کی جنگوں میں

٭ د وبارہ شام میں

٭ نہاوند کی جنگوں میں

٭ عثمان کے زمانے میں

٭ حضرت علی ـکے زمانے میں

٭ بحث کا خلاصہ

٭ احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

۱۲۹

قعقاع پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

لم نجد له ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے قعقاع کا نام سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا۔

(مؤلف)

اسلامی تاریخ اور لغت کی دسیوں معروف و مشہور کتابوں میں '' قعقاع بن عمر و'' کا نام اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی حیثیت سے اس کی زندگی کے حالات درج کئے گئے ہیں ابو عمر کی تالیف کتاب '' استیعاب'' ١ ان کتابوں میں سے ہے جو آج کل ہماری دست رس میں ہیں ۔اس مؤلف نے قعقاع کی زندگی کے حالات خصوصیت سے لکھے ہیں وہ لکھتا ہے :

'' قعقاع ،عاصم کا بھائی اور عمر و تمیمی کا بیٹا ہے ۔ان دونوں بھائیوں نے جنگ قادسیہ میں جس میں ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم فرخ زاد تھا بے مثال اور قابل تحسین شجاعت اور بہادر ی کا مظاہرہ کیا ہے اور شائشتہ و قابل احترام مرتبہ و منزلت کے مالک بن گئے ''

'' استیعاب ''کے مولف کے بعد ابن عساکر '' تاریخ شہر دمشق '' ٢میں قعقاع بن عمرو کے بارے میں یوں ر قم طراز ہے :

'' قعقاع ،رسول خدا کا صحابی تھا !وہ ایک قابل ذکر بہادر اور نامور عربی شاعر تھا ۔اس نے ''جنگ یرموک ''اور ''فتح دمشق '' میں شرکت کی ہے ۔اس نے عراق اور ایران کی اکثر جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے ہیں اور قابل ذکر و نمایاں جنگیں لڑی ہیں ''

قعقاع کے بارے میں دوسری صدی ہجری کی ابتداء سے آج تک یوں بیان کیا گیا ہے :

'' قعقاع ،اسلامی جنگوں میں ہمیشہ ایک دادرس و فریاد رس بہادر کی حیثیت سے رہا ہے ٣ وہ خانقین ،ہمدان اور حلوان کا فاتح ہے '' ٤

ان خصوصیت کا مالک قعقاع کون ہے ؟

۱۳۰

قعقاع کا شجرۂ نسب

سیف نے قعقاع کا خیالی شجرۂ نسب ذکر کیا ہے :

''قعقاع عمرو ابن مالک کا بیٹا ١ ہے ۔اس کی کنیت ابن حنظلہ ہے ٢ ۔اس کے ماموں خاندان بارق ٣ سے تھے ۔اور اس کی بیوی ہنیدہ ،عامر ہلالیہ کی بیٹی تھی جو خاندان ہلال نخع سے تعلق رکھتا تھا '' ٤

قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی

طبری اور ابن عساکر ،دونوں کا قول ہے کہ سیف نے یوں بیان کیا ہے :

'' ْقعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا ۔'' ١

ابن حجر شعری نے سیف کا نقل کیا ہوا قعقاع کا قول حسب ذیل ذکر کیا ہے :

'' میں تہامہ کی ترقی و درخشندگی کو دیکھ رہا تھا ،جس دن خالد بن ولید ایک نفیس گھوڑ ے

پر سوار ہو کر سواروں کی قیادت کر رہا تھا ،میں سیف اللہ کی فوج میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تلوار تھا اور آزادانہ طور پر سب سے پہلے اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھارہا تھا ''

۱۳۱

قعقاع سے منقول ایک حدیث :

ابن حجر '' اصابہ '' میں قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے خود قعقاع کی زبانی یوں نقل کرتا ہے :

''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم نے جہاد کے لئے کیا آمادہ کیا ہے ؟ میں نے جواب میں کہا: خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت اور اپنا گھوڑا ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:سب کچھ یہی ہے ''

ابن حجر ،سیف سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی زبانی مزید نقل کرتا ہے :

''میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت وہاں پر موجود تھا ۔جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور بعض لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: انصار سعد کو خلیفہ منتخب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کئے ہوئے معاہدے اور وصیت کو کچل کے رکھ دیں ۔ مہاجرین یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے.... ''(۱)

ابن حجر مزید لکھتا ہے :

'' ابن مسکن نے کہا ہے کہ سیف بن عمر ضعیف ہے ،یعنی اس کی یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے ''

____________________

۱)۔ عبداللہ ابن سباج١،بحث سقیفہ میں اس جعلی حدیث پر تحقیق کی گئی ہے ۔

۱۳۲

علم رجال کے عالم و دانشور رازی نے بھی اس داستان کو خلاصہ کے طور قعقاع کی زندگی کے حالات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :

''سیف کی روایتوں کو دیگر لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ،لہٰذا یہ حدیث خود بخود مردود ہے اور ہم نے اسے صرف قعقاع کو پہچاننے کے لئے نقل کیا ہے '' ٢

ابن عبد البر نے قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں رازی کی پیروی کی ہے اور جو کچھ اس نے اس کے بارے میں لکھا ہے اور سیف کے بارے میں نظریہ پیش کیا ہے سب کو اپنی کتاب

کتاب میں درج کیا ہے ۔

سند کی تحقیقات

قعقاع کے شجرہ ٔنسب کو سیف ،صعب بن عطیہ کی زبانی ،اس کے باپ بلال ابن ابی بلال سے روایت کرتا ہے ۔سیف کی روایتوں میں نو مواقع پر صعب کا نام ذکر ہو ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سات اصحاب کی زندگی کے حالات ان روایتوں سے حاصل کئے گئے ہیں ۔(۱)

اس کی کنیت ،جو ابن الحنظلیہ بتائی گئی ہے اور یہ کہ قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہے یہ سب سیف کی روایتیں ہیں اور اس کی روایتوں کی سند میں محمد بن عبداللہ بن سواد بن نویرہ کا نام ذکر ہوا ہے ۔طبری کی کتاب '' تاریخ طبری '' میں سیف کی روایتوں میں سے ٢١٦روایتوں کی سند میں عبداللہ کا نام آیا ہے ۔

سیف کی روایت میں مذکورہ محمد بن عبداللہ سے منقول قعقاع کی بیوی کانام مہلب بنت عقبہ اسدی بیان ہوا ہے ۔تاریخ طبری میں سیف کی ٧٦ روایات کی سند میں مہلب کا نام ذکر ہوا ہے ۔

لیکن قعقاع کے شعر کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہو ا ہے کہ سیف نے کسی راوی سے نقل کیا

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد ٢ میں عفیف بن المنذر اور دیگر چھ تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات۔

۱۳۳

ہے تاکہ ہم اس کے راوی کے بارے میں بحث کریں ۔

اسی طرح جنگی آمادگی کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی اس کی حدیث اور سقیفہ کے دن اس کا مسجد میں موجود ہونا ،یہ دونوں چیزیں سیف کے افسانہ کے ہیرو '' قعقاع '' سے نقل ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند نہیں ہے ۔

ہم نے حدیث ،تاریخ ،انساب اور ادب کی تمام کتابوں میں جستجو کی تاکہ مذکورہ راویوں کا کہیں کوئی سراغ ملے ،لیکن ہماری تلاش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا چوں کہ ان کے نام یعنی صعب ،محمد ،مہلب اور خود قعقاع سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے لہٰذا حدیث شناسی کے قاعدے اور قانون کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب کے سب سیف کے ذہنی تخیل کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

تحقیقات کا نتیجہ : جو کچھ اب تک قعقاع کے بارے میں ہم نے بیان کیا وہ صرف سیف کی روایت تھی ،کسی اور نے اس کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ اور مقائسہ کرتے ۔سیف ان مطالب کا تنہا ترجمان ہے ۔اس طرح اس کے مطالب کے واسطے روایتوں کی سند بھی اس کے ذہن کی تخلیق معلوم ہوتی ہے ۔

سیف کی حدیث کا نتیجہ

اول ۔ سیف اپنے مطالب کا مطالعہ کرنے والے کو اس طرح آمادہ کرتا ہے کہ ایک مطیع اور فرمانبردار کی طرح آنکھ بند کرکے مست و مدہوشی کے عالم میں ایک نغمہ سننے والے کی طرح اس کی باتوں میں محو ہو جائے ۔

دوم ۔ قعقاع کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا اور جو مطالب آئندہ آئیں گے اس سے معلوم ہوگا کہ سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ایک ایسا صحابی جعل کیا ہے جو بزرگوار اور جلیل القدر ہے اور یہ بزرگوار ،خاندان تمیم کی عظمت کا نمونہ ہے ۔یہ ایک خوش ذوق شاعر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کا راوی ہے کہ اس کے بارے میں اصحاب کی زندگی کے حالات اور احادیث کے راویوں کی شناخت کے ذیل میں گفتگو ہوگی ۔

۱۳۴

قعقاع ،ابوبکر کے زمانے میں

لایهزم جیش فیهم مثل هٰذ ا

جس فوج میں ایسا بہادر قعقاع موجود ہو وہ فوج ہر گز شکست سے دو چار نہیں ہوگی

( ابو بکر کا بیان بقول سیف!)

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں

طبری ١١ ھ کے حوادث میں قبیلۂ ہوازن کے ارتداد کی بحث کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جب علقمہ بن علاثہ ٔ کلبی مرتد ہو ا،تو ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو حکم دیا کہ اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالے یا گرفتار کرے ،قعقاع نے ابوبکر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے قبیلۂ ہوازن پر حملہ کیا علقمہ جنگل کے راستہ سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے خاندان کے افراد قعقاع کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ۔قعقاع نے انھیں ابوبکر کے خدمت میں بھیجا ۔علقمہ کے خاندان نے ابوبکر کے سامنے اسلام کا اظہار کیا اور اپنے خاندان کے سردار کے عقائد کی تاثیر سے انکار کیا تو ان کی توبہ قبول کر لی گئی اور ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا '' ١

یہ داستان کہاں تک پہنچی ؟

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور ابو الفرج اور ابن حجر نے علقمہ کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں طبری سے نقل کیا ہے ۔اور ابن اثیر نے اسے خلاصہ کرکے طبری سے روایت کرتے ہوئے اپنی کتاب کامل میں درج کیا ہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے فرق

یہ داستان مذکورہ صورت میں سیف بن عمر نے نقل کی ہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔اس سلسلے میں مدائنی لکھتا ہے :

''ابو بکر نے خالد بن ولید کو علقمہ کے خلاف کاروائی کرنے پر مامور کیا ۔علقمہ خالد کے چنگل سے بھاگ کر ابو بکر کی خدمت میں پہنچا اور اسلام قبول کیا ۔ابو بکر نے اسے معاف کرکے امان دے دی''٢

مذکورہ داستان کے پیش نظر سیف نے خالد بن ولید کے کام کو قعقاع بن عمر و تمیمی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے تاکہ یہ سعادت اس کے اپنے قبیلہ تمیم کو نصیب ہو جائے ۔اس کے بعد طبری نے سیف کی جعلی داستان کو نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر لوگوں نے بھی جھوٹ کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

موازنہ کا نتیجہ

علقمہ کی داستان ایک حقیقت ہے یہ داستان پوری کی پوری سیف کے تخیلات کی ایجاد نہیں ہے ۔بلکہ موضوع یہ ہے کہ سیف بن عمر نے خالد بن ولید کے کار نامے کو قعقاع بن عمر و تمیمی سے نسبت دے دی ہے ۔

سند کی جانچ پڑتال

اس داستان کی سند میں '' سہل بن یوسف سلمی '' اور ''عبداللہ بن سعید ثابت انصاری'' جیسے راویوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ۔تاریخ طبری میں سیف نے سہل سے ٣٧احادیث اور عبداللہ سے ١٦ احادیث روایت کی ہیں ۔چوں کہ ہم نے ان دو راویوں کا نام کتب طبقات وغیرہ میں کہیں نہیں پایا، لہٰذاہم ان دو راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔

۱۳۶

اس داستان کا نتیجہ

١۔ خلیفہ کے حکم سے قعقاع بن عمرو کا ہوازن کی جنگ میں شرکت کرنا اور علقمہ کے خاندان کا اس کے ہاتھوں اسیر ہونا ،قعقاع بن عمر و تمیمی کے لئے ایک فضیلت ہے ۔

٢۔ سیف نے اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حقائق میں تصرف کرکے ایک سچے واقعہ کی بنیاد پر ایک الگ اور جھوٹی داستان گڑھ لی ہے اور اس سے قبیلہ تمیم کے حق میں استفادہ کیا ہے جب کہ نہ قعقاع کا کوئی وجود ہے اور نہ اس کی جعلی داستان کی کوئی حقیقت ہے ۔یہ صرف سیف بن عمر تمیمی کے خیالات اور افکار کی تخلیق ہے ۔

لیکن اس داستان کے علاوہ جو علقمہ کے نام سے مشہور ہے یا قوت حموی نے لغت ''بزاخہ '' جو سر زمین نجد میں ایک پانی کا سر چشمہ تھا اور ارتداد کی جنگیں اسی کے اطراف میں لڑی گئی ہیں کی وضاحت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''مسحلان(۱) اس روز میدان جنگ سے فرار کرکے اپنی جان بچانے میں

____________________

۱)۔ سیف کے کہنے کے مطابق دشمن کے لشکر کے معروف افراد مسحلان کہلائے جاتے تھے سیف اپنے تخیلات کی مخلوق کے سرداروں کے نام اکثر و بیشتر الف و نون پر ختم کرتا تھا مثلا قماذیان ابن ہر مزان اور ابن الحیسمان و مسحلان وغیرہ ملاحظہ ہو کتاب طبری چاپ یوروپ ( ٢٨٠١١)اور ( ٢٤٠١)

۱۳۷

کامیاب ہوا اس دن اس نے میدان کار زار میں گرد و غبار آسمان پر اڑتے دیکھا اور خالد میدان جنگ میں دشمنوں کی فوج کو تہس نہس کر رہا تھا اور دشمنوں کو وحشی کتوں کی طرح چیر پھاڑ کر زمین پر چھوڑ دیتا اور آگے بڑھ جاتا تھا''

حموی کی یہ عادت ہے کہ جن جگہوں کا وہ نام لیتا ہے ان کے بارے میں سیف کے اشعار کو کسی راوی کا اشارہ کئے بغیر گواہ کے طور پر ذکر کرتا ہے اس قسم کی چیزیں ہمیں بعد میں بھی نظر آئیں گی

ہم نہیں جانتے ان اشعار میں سیف کیا کہنا چاہتا ہے !کیا ان شعار کے ذریعہ قعقاع کو ''بزاخہ''میں خالد کی جنگوں میں براہ راست شریک قرار دینا چاہتا ہے اور اسی لئے یہ اشعار کہے ہیں یا اس جنگ میں قعقاع کی شرکت کے بغیر اس کی توصیف کرنا چاہتا ہے۔ہماری نظر کے مطابق یہ امر بعید دکھائی دیتا ہے ۔بہر حال جنگ ''بزاخہ ''کا ذکر کرنے والوں نے قعقاع کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے ۔

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ،اس کے علاوہ ہم نے ارتداد کی جنگوں میں کہیں قعقاع کا نام نہیں پایا ۔لیکن ان کے علاوہ تاریخ کی اکثر مشہور کتابوں میں سیف ابن عمر سے مطالب نقل کئے گئے ہیں اور قعقاع اور اس کی شجاعت اور فتوحات کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ان تحریفات کاپہلا حصہ ،عراق میں مسلمانوں کی جنگوں سے مربوط ہے جس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں :

۱۳۸

قعقاع،عراق کی جنگ میں :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے : ١

''جب خالد بن ولید ،یمامہ کی جنگ سے واپس آیا ابوبکر نے اسے حکم دیا کہ اپنے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو جائے اور اس ضمن میں یہ بھی حکم دیا کہ اپنے لشکر کے سپاہیوں سے کہہ دے کہ جو بھی اس فوجی مہم میں شرکت کرنا نہیں چاہتا وہ اپنے گھرجا سکتا ہے ۔جوں ہی خلیفہ کا حکم لشکر میں اعلان کیا گیا خالد کی فوج تتر بتر ہو گئی اور گنے چنے چند افراد کے علاوہ باقی سب لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ۔اس طرح خالد نے مجبور ہو کر خلیفہ سے نئی فوج کی مدد طلب کی ۔ابوبکر نے قعقاع بن عمرو کو خالد کے فوجی کیمپ کی طرف روانہ کیا ان حالات پر نظر رکھنے والے افراد نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ خالد نے اپنی فوج کے تتر بتر ہونے پر آپ سے نئی فوج کی درخواست کی ہے اور آپ صرف ایک آدمی کو اس کی مدد کے لئے بھیج رہے ہیں ؟! ابو بکر نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں کہا : جس فوج میں ایسا پہلوان موجود ہو وہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی۔''

اس کے بعد طبری نے عراق کی جنگوں میں خالد بن ولید کی ہمراہی میں قعقاع کی شجاعتوں اور بہادریوں کا ذکر کیا ہے ۔ابن حجر نے بھی مذکورہ حدیث کو آخر تک بیان کیا ہے لیکن اس کاکوئی راوی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ اس کا راوی صرف سیف ہے ۔طبری نے یہ حدیث سیف سے لی ہے اور دسروں نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے نے بھی اپنی کتاب معجم البلدان میں سیف کی احادیث میں ذکر شدہ اماکن کی نشاندہی کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے ۔

طبری نے سیف بن عمر کی روایت سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے پہلی جنگ جو عراق میں مسلمانوں اور مشرقین کے درمیان واقع ہوئی '' ابلہ''(۱) کی جنگ تھی ۔

____________________

۱)۔ ''ابلہ '' خلیج فارس کے نزدیک دریائے دجلہ کے کنارے پر ایک شہر تھا جو بصرہ تک پھیلا ہوا تھا یہ شہر اس زمانہ میں فوجی اہمیت کے لحاظ سے ایرانیوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل تھا اور ملک کی ایک عظیم فوجی جھاونی محسوب ہوتا تھا۔

۱۳۹

ابلہ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے:

'' ابو بکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ عراق کی جنگ کو ہند اور سندھ کی سرحد سے شروع کرے '' اس کے بعد سیف کہتا ہے : '' ابلہ '' ان دنوں ہند اور سندھ کی سرحد تھی اس کے بعد ''ابلہ'' کی فتح کی داستان یوں بیان کرتا ہے :

ایرانی فوج کا سپہ سالارہرمز '' ابلہ'' میں خالد کو قتل کرنے کی سازش تیار کرتا ہے اس لئے اپنے سپاہیوں سے کہتا ہے کہ جب وہ خالد کے ساتھ دست بدست جنگ شروع کرے تو بھر پور حملہ کرکے خالد کا کام تمام کردیں اس لئے ہرمز ،خالد کو دست بدست جنگ کی دعوت دیتا ہے اور خالد بھی ہرمز سے لڑنے کے لئے پیدل آگے بڑھتا ہے جب دونوں سپہ سالار آمنے سامنے آکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہرمز کے سپاہی اچانک خالد پر حملہ آور ہوتے ہیں اور دست بدست جنگ کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چالبازی سے خالد کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن قعقاع بن عمرو جو حالات اور دشمن کی تمام نقل و حرکت پر پوری طرح نظریں جمائے ہوئے تھا خالد کو کسی قسم کا گزند پہنچنے سے پہلے اکیلا میدان میں کود پڑتا ہے اور دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرکے انھیں تہس نہس کرکے ان کی چالبازی کو ناکام بنا دیتا ہے اور اس گیرو دار کے دوران ہرمز خالد کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے ۔ ایرانی اپنے سپہ سالار کو قتل ہوتے دیکھ کر میدان جنگ سے بھاگ جاتے ہیں اس طرح شکست سے دو چار ہوتے ہیں اور قعقاع بن عمرو فاتح کی حیثیت سے سر بلند ی کے ساتھ میدان جنگ سے واپس لوٹتا ہے ''

یہ داستان کہاں تک پہنچی ہے ؟

اس روایت کو طبری نے سیف سے نقل کیا ہے اور دیگر لوگوں نے ،جیسے ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلکان نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔

طبری ابلہ کی فتح اور جنگی غنائم کی تفصیل بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :

'' ابلہ کی فتح کے بارے میں یہ داستان اس کے برخلاف ہے جو صحیح روایتوں میں بیان ہوئی ہے ''

اس کی وضاحت ہم مناسب جگہ پر کریں گے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416