ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215503 / ڈاؤنلوڈ: 4975
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف نے جو داستان فتح ابلہ کے بارے میں جعل کی ہے وہ پوری کی پوری اس کے بر خلاف ہے جو آگاہ افراد اور مؤرخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے اس کے علاوہ صحیح کتابوں میں درج شدہ چیزوں کے خلاف بھی ہے ،کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں ١٤ھ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔ہم بعد میں مناسب جگہ پر اس کی وضاحت کریں گے ۔

طبری ١٤ھ کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے جہاں شہر بصرہ کی بنا کا ذکر کرتے ہوئے ،فتح ابلہ کے بارے میں دئے گئے اپنے وعدہ پر عمل کرتا ہے اور ابلہ کی جنگ کی حقیقت

اور اس کی فتح کا ذکر کرتا ہے ۔جس میں سیف کی بیان کردہ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں

پائی جاتی ہے ۔ ٢

سند کی پڑتال

سیف کی اس داستان کے دو راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں پہلے معلوم ہوا کہ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ مقطع بن ہیثم بکائی ہے ،اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی تین روایتوں میں آیا ہے ۔ایک اور راوی حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی دوروایتوں میں آیاہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سیف نے حنظلہ کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ''اپنے جعلی صحابی '' زیاد بن حنظلہ کا ایک بیٹا بھی جعل کیا ہے ۔لہٰذا جعلی صحابی زیاد اور اس کا بیٹا حنظلہ سیف کے تخیلات کے جعلی راوی ہیں ۔

اس طرح عبد الرحمن احمری بھی ایک راوی ہے جس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی سات روایتوں میں ذکر ہو ا ہے ۔

بہر حال ہم نے بحث و تحقیق کی کہ ان راویوں کے ناموں کو طبقات ،راویوں کی سوانح حیات حتی حدیث کی کتابوں میں کہیں پا سکیں لیکن ان میں سے کسی ایک کانام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں پایا ۔ لہٰذا ہم نے موخر الذکر تین راویوں یعنی مقطع ،جنظلہ اور عبدالرحمن کو بھی محمد و مہلب کی طرح سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

۱۴۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے سپاہیوں کے تتربتر ہونے کی وجہ سے ابوبکر سے مدد طلب کی اور خلیفہ نے قعقاع بن عمر وتمیمی کی مختصر ،لیکن با معنی تعریف کرکے قعقاع کو اکیلے ہی خالد کی مدد کے لئے بھیجا۔اس قصہ کو صرف سیف نے جعل کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں کہی ہے۔

سیف نے شہر آبلہ کی فتح کو ١٢ ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانے میں خالد بن ولید مضری سے نسبت دی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شہر ابلہ کی فتح عمر کے زمانے میں ١٤ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ہم اس تحریف کے سبب کو بعد میں بیان کریں گے۔

سیف وہ تنہا قصہ گو ہے جوخالد بن ولید کو ایرانی فوج کے سپہ سالار جس کانام سیف نے ہرمز رکھا ہے کے مقابلے میں پیدل دست بدست جنگ کے لئے میدان کارزار کی طرف روانہ کرتاہے نیز ایرانیوں کی چالبازی کی حیرت انگیز داستان بیان کرتاہے اور اپنے ہم قبیلہ قعقاع بن عمرو وتمیمی کو ہر مشکل حل کرنے والے کے طور پر ظاہر کرتاہے اور اسے ایک دانا،ہوشیار ،جنگی ماہر،ناقابل شکست پہلوان،لشکر شکن بہادر اور خلفاء واصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی منظور نظر شخصیت کی حیثیت سے پہچنواتاہے اور اسے قحطانی یمنیوں کے مقابلے میں فخرو مباہات کی ایک قطعی دلیل وسند کے طور پر پیش کرتاہے۔

اس کے بعد ،سیف اپنی داستان کو ایسے راویوں کے ذریعہ نقل کرتاہے کہ وہ سب کے سب اس کے اپنے تخیلات کی مخلوق اور گڑھے ہوئے ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

۱۴۲

سیف کی حدیث کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے فتح ابلہ کی داستان کو گڑھ کر کیا ثابت اور کیا حاصل کیاہے:

١۔سیف ،داستان کے مقدمہ کو ایسے مرتب کرتاہے تاکہ خلیفہ ابوبکر کی زبانی قعقاع بن عمرو تمیمی کی تعریف وستائش کرائے اور اسے ایک عظیم ،شجاع اور بہادر کی حیثیت سے پیش کرے۔

٢۔قعقاع کے ناقابل شکست پہلوان ہونے کی خلیفہ کی پیشینگوئی اور خلیفہ سے یہ کہلوانا کہ جس فوج میں قعقاع موجود ہو وہ ہرگز شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔

٣۔عراق کے ایک شہر کوخاندان مضر کے ایک پہلوان خالد کے ہاتھوں فتح کرانا تاکہ خاندان مضر کے فضائل میں ایک اور فضیلت کااضافہ ہوجائے۔

٤۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع کے ذریعہ خالد بن ولید کو ایرانیوں کی سازش اور چالبازی سے نجات دلاکر اس کی فضیلت بیان کرنا۔

٥۔اپنے خود ساختہ راویوں میں تین جعلی راویوں ،یعنی مقطع ،حنظلہ اور عبد الرحمان کااضافہ کرنا۔انشاء اللہ آنے والی بحثوں میں اس موضوع پر مزید وضاحت کریں گے۔

۱۴۳

قعقاع ،حیرہ کی جنگوں میں

و بلغت قتلاهم فی ''الیس '' سبعین الفا

'' الیس'' کی جنگ میں قتل ہوئے ایرانی سپاہیوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی۔

( سیف بن عمر)

مذار اور ثنی کی جنگ

طبری نے فتح ''ابلہ'' کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد سیف سے یہ روایت نقل کی ہے : ١

''ہرمزنے'' ابلہ کی جنگ سے پہلے ایران کے بادشاہ سے مدد طلب کی ۔بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرکے ''قارن بن قریانس'' کی کمانڈ میں ایک فوج اس کی مدد کے لئے روانہ کی۔

جب'' ہرمز '' مارا گیا اور اس کی فوج تتر بتر ہوئی ،اس وقت قارن اپنی فوج کے ہمراہ ''المذار '' پہنچا تھا ۔قارن نے ہرمز کی منتشر اور بھاگی ہوئی فوج کو دریائے ''الثنی'' کے کنارے پر جمع کیا اور لشکر اسلام سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھا ۔دونوں سپاہیوں کے درمیان کھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔

سر انجام '' قارن '' اس جنگ میں مارا گیا اور اس کی فوج منتشر ہو گئی ۔اس جنگ میں دریا میں غرق ہوئے افراد کے علاوہ ایرانی فوج کے تیس ہزار سپاہی کام آئے ۔اس طرح ایرانیوں کو زبردست شکست کا سامنا ہوا''

۱۴۴

ولجہ کی جنگ

سیف نے جنگ ''ولجہ '' کے بارے میں یوں بیان کیا ہے :

''جب ''المذار ''(۱) اور ''الثنی'' میں ایرانیوں کی شکست کی خبر ایران کے بادشاہ کو پہنچی تو اس نے ''اندرزگر'' کو کہا کہ اس علاقہ کے عرب سپاہیوں اور ایرانی کسانوں کو جمع کرکے نئی فوج تشکیل دے اور خالد بن ولید سے جنگ کرنے کے لئے جائے اس کے علاوہ ''بہمن جادویہ '' کو بھی اس کی مدد کے لئے بھیجا ۔جب یہ خبر خالد کو پہنچی تو وہ فوری طور پر ''ولجہ'' پہنچا اور ایرانی فوج سے بنرد آزما ہوا ۔یہ جنگ ''الثنی'' کی جنگ سے شدید تر تھی اس نے اس جنگ میں ایرانی سپاہیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ''اندرزگر '' میدان جنگ سے بھاگ گیا اور فرار کے دوران پیاس کی شدت سے مرگیا''

سیف کہتا ہے :

'' خالد نے اس جنگ میں ایک ایسے ایرانی سپاہی سے جنگ کی جو تنہا ایک ہزار سپاہیوں کا مقابلہ کر سکتا تھا ۔اس ایرانی پہلوان کو خالد نے قتل کر ڈالا!اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ٹیک لگا کر اسی جگہ ،یعنی میدان جنگ میں اپنے لئے کھانا منگوایا ۔یہ جنگ ١٢ھ کے ماہ صفر میں واقع ہوئی کہا گیا ہے کہ ''ولجہ'' خشکی کے راستے ''کسکر '' کے نزدیک ہے ''

____________________

۱)۔ حموی لکھتا ہے : ''قصبہ ''المذار'' ''میسان'' کے علاقہ میں واقع ہے یہ قصبہ ''واسط'' اور ''بصرہ'' کے درمیان ہے ۔بصرہ سے وہاں تک چاردن کا سفر ہے ۔یہاں پر عبداللہ بن علی بن ابیطالب کی قبر ہے ۔یہاں کے لوگ شیعہ ،احمق اور حیوان صفت تھے عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے بصرہ کے فتح کرنے کے بعد اس جگہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

۱۴۵

یہ مطلب حموی کے شیعوں کی نسبت تعصب کا ایک نمونہ ہے ۔

'' الیس'' کی جنگ

سیف نے ''الیس '' کی جنگ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''عرب عیسائی اور دیگر عرب سپاہی '' ولجہ'' کی جنگ میں اپنے مقتولین کی تعداد کو لے کر سخت غصہ میں آگئے تھے ۔اس شکست کی وجہ سے انھوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار ایرانیوں سے کیا نتیجہ کے طور پر '' جابان'' اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے نکلا اور ''الیس '' میں ان سے ملحق ہوا ۔دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اس دوران ایران سے مزید مدد آنے کی امید میں ''جابان'' کے سپاہیوں کی مزاحمت میں جب شدت پیدا ہوئی تو خالد نے غصہ میں آکر قسم کھائی کہ اگر ان پر غلبہ پائے تو ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور دریائے ''الیس '' کو ان کے خون سے جاری کردے گا ۔سر انجام جب خالد نے ان پر فتح پائی تو حکم دیا کہ تما اسیروں کو ایک جگہ جمع کریں اور کسی ایک کو قتل نہ کریں ۔خالد کے سپاہی فراریوں کو پکڑ نے اور اسیر وں کو جمع کرنے کے لئے ہر طرف دوڑ پڑے ۔سوار وں نے اسیروں کو گروہ گروہ کی صورت میں جمع کرکے خالد کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے بعد خالد نے حکم دیا کہ کچھ مرد معین کئے جائیں اور اسیروں کو دریامیں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کریں تاکہ خون کا دریا جاری ہو جائے ۔ ایک دن اور ایک رات گزری دوسرا اور تیسرا دن بھی یوں ہی گزرا ۔اسیروں کو لا کر دریا میں سر تن سے جد اکرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔لیکن پھر بھی خون کا دریا جاری نہیں ہو ا اس موقع پر قعقاع اور اس کے جیسے بعض پہلوانوں نے خالد سے کہا : جب سے آدم کے بیٹے کا خون زمین پر گر کر جم گیا تھا تب سے اس خون کا زمین پر جاری ہونا بند ہو گیا ہے ۔اب اگر آپ انسانی خون کا دریا جاری کرکے اپنی قسم پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس خون پر پانی جاری کر دیجئے تاکہ خون نہ جمنے پائے ۔اس واقعہ سے پہلے بند باندھ کر دریا کا پانی روک دیا گیاتھا ۔لہٰذا مجبورا ًبند کو ہٹادیا گیا پانی خون پر جاری ہوا اور اس طرح خونی دریا وجود میں آگیا ۔اس خونی دریا کے ذریعہ پن چکیاں چلیں جس کے ذریعہ خالد کے اٹھارہ ہزار سے زائد سپاہیوں کے لئے حسب ضرورت آٹا مہیا کیا گیا تین دن ورات یہ پن چکیاں خون کے دریا سے چلتی رہیں ۔اس لئے اس دریا کو دریائے خون کہا گیا''

۱۴۶

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خونی دریا ستر ہزار انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا ،تاکہ ایک ہٹ دھرم سپہ سالار ،خالد مضری کی قسم پوری ہو جائے !!

حیرہ کی دوسری جنگیں

اس کے بعد طبری حیرہ کے اطراف میں خالد کی کمانڈمیں واقع ہوئی بعض بڑی جنگوں کے بارے میں نقل کرتے ہوئے سیف کی بات کو یوں تمام کرتا ہے : ٢

اور سیف نے لکھا ہے کہ قعقاع نے حیرہ کی جنگوں کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

''خدائے تعالیٰ دریائے فرات کے کنارے پر قتل شدہ اور نجف میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہمارے افراد پر اپنی رحمت نازل کرے ''

'' ہم نے سرزمین ''کاظمین '' میں '' ہرمزان '' کو شکست دے دی اور دریائے ثنی کے کنارے پر ''قارن '' کے سینگ اپنے چپو سے توڑ دئے ۔جس دن ہم حیرہ کے محلوں کے سامنے اترے ان پر شکست طاری ہو گئی ۔اس دن ہم نے ان کو شہر بدر کر دیا اور ان کے تخت و تاج ہمارے ڈر سے متزلزل ہو گئے ۔ہم نے اس دن جان لیوا تیروں کو ان کی طرف چھوڑا اور رات ہوتے ہی انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔یہ سب اس دن واقع ہو ا جب وہ دعویٰ کرتے تھے کہ : ہم وہ جواں مرد ہیں جو عربوں کی زرخیز زمین پر قابض ہیں ''

سیف کاا ن اشعار کو بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ قعقاع بن عمرو تمیمی ،خالد بن ولید کے ہمراہ علاقہ ''حیرہ'' کے میدان جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری پر ناز کرتا ہے ،اور فخر کرتا ہے کہ اس نے ''کاظمین '' کی جنگ میں ''ہرمز '' سے ''الثنی'' میں ''قارن'' سے اور حیرہ میں عرب کے عیسائیوں اور کسریٰ کے محلوں کے محافظوں سے جنگ کی ہے اور عربوں کی زرخیز زمینوں کو ان کے تسلط سے آزاد کیا ہے ۔

۱۴۷

یہ روایتیں کہاں تک پہنچی ہیں ؟

یہ وہ مطالب تھے جن کی روایت طبری نے علاقہ ''حیرہ'' میں خالد بن ولید کی جنگوں کے سلسلے میں سیف بن عمر سے نقل کی ہے اور طبری کے بعد ابن اثیر اور ابن خلدون نے ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔اس کے علاوہ ابن کثیر نے بھی طبری اور براہ راست سیف بن عمر سے نقل کرکے اس کی اپنی تاریخ میں تشریح کی ہے ۔

حموی نے بھی الثنی کے بارے میں اپنی معلومات کو براہ راست سیف سے لیا ہے ۔وہ لغت ''الثنی'' کی تشریح میں لکھتا ہے :

'' الثنی کی جنگ ایک مشہور جنگ ہے جو خالد بن ولید اور ایرانیوں کے درمیان بصرہ کے نزدیک واقع ہوئی اور یہی جنگ تھی جس میں قعقاع بن عمر و نے درج ذیل

شعر کہا ہے :

سقی الله قتلی بالفرات مقیمه تا

وبالثنی قرنی قارن بالجوارف

اس کے علاوہ سیف سے ''الولجہ'' کے بارے میں نقل کرتے ہوئے تشریح کرتا ہے :

''ولجہ سر زمین کسکر اور صحرا کے کنارے پر واقع ہے خالد بن ولید نے ایرانی فوج کو وہاں پر شکست دی تھی یہ مطلب کتاب '' فتوح'' میں ١٢ھ کے حوادث میں درج ہو ا ہے اور قعقاع بن عمر و نے اس جنگ میں کہا:

''میں نے شجاعت اور بہادری میں اس قوم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جس قوم کو میں نے صحرائے ولجہ میں دیکھا ۔میں نے اس قوم کے مانند کسی کو نہیں دیکھا جس نے اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہو اور ان کے مامور پہلونوں کو ہلاک کر دیا ہو''

یہ مطالب تھے جن میں حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھا ہے اور عبد المؤمن نے ''ثنی '' اور ''ولجہ'' کی تشریح میں اس سے نقل کرکے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں درج کیا ہے ۔

۱۴۸

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ

بلاذری '' المذار '' کے بارے میں لکھتا ہے :

'' مثنی بن حارثہ نے ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ''المذار '' کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دے دی ۔عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے ''المذار '' پر حملہ کیا اور وہاں کے سرحدبان نے اس کا مقابلہ کیا اس جنگ کے نتیجہ میں خدا نے سرحدبان کی فوج کو شکست دے دی اور وہ سب کے سب دریا میں غرق ہو گئے اور عتبہ نے سرحدبان کا سر تن سے جدا کیا'' ٣

ولجہ اور الثنی کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کی کوئی روایت نہیں پائی کہ اس کا سیف کی روایت سے موازنہ کرتے:

''الیس ''کے بارے میں بلاذری لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید اپنی فوج کو '' الیس '' کی طرف لے گیا اور ایرنیوں کا سردار ''جابان '' چوں کہ خالد کے اندیشہ سے آگاہ ہوا ،اس لئے خود خالد کے پاس حاضر ہوا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ ا لیس کے باشندے ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ میں مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے'' ٤

خون کے دریا کا قصہ

دریائے خون کا قصہ اور خالد بن ولید کی قسم کے بارے میں ابن درید نے اپنی کتاب اشتقاق میں یوں لکھا ہے :

''منذر اعظم جس دن خاندان بکر بن وائل کے افراد کو بے رحمی سے اور دردناک طریقہ سے قتل کر رہا تھا اور انھیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر ان کا سر تن سے جدا کرتا تھا ،اس نے قسم کھائی تھی کہ اس خاندان کے اتنے افراد کو قتل کرے گا کہ ان کا خون بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچ جائے !لیکن بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود خون پہاڑ کے نصف راستہ تک بھی نہیں پہنچا اس امر نے منذر کو سخت غضبناک کر دیا آخر حارث بن مالک نے منذر سے کہا : آپ سلامت رہیں !اگر آپ زمین پر موجود تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے جب بھی ہرگز خون پہاڑ کے دامن تک نہیں پہنچے گا۔ خون پر پانی ڈالنے کا حکم دیجئے تاکہ خون آلود پانی پہاڑ کے دامن

۱۴۹

تک بہنچ جائے ۔

حارث کی راہنمائی مؤثر ثابت ہوئی اور پانی ڈالنے کے بعد خون آلود پانی بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچا اور منذر کی قسم پوری ہو گئی ۔اس پر حارث کو '' وصاف '' کا لقب ملا'' ٥

سیف زمانہ جاہلیت کی اس بھونڈی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو پسند کرتا ہے اور اسی کے مانند ایک داستان کو قبیلۂ مضر کے فخر ومباہات کی سند کے طور پر جعل کرنے کے لئے موزوں سمجھتاہے لہذاخالد بن ولید مضری کواس داستان کاکلیدی رول اداکرنے کے لئے مناسب سمجھتا ہے اور منذر اعظم کے ہاتھوں خاندان بکر بن وائل کے بے گناہ افراد کے قتل عام کی داستان کو بنیاد بنا کر ''الیس''میں ستر ہزار اسیر انسانوں کا قتل عام کرکے خون کا دریا بہانے کی ایک داستان جعل کرتا ہے تاکہ اس لحاظ سے بھی مضر ونزار کے خاندان منذر اعظم سے پیچھے نہ رہیں !!

سند کی جانچ پڑتال :

سیف نے عبدالرحمان بن سیاہ محمد بن عبداللہ اور مہلب کو جنگ''الیس ''کے راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ زیاد بن سر جس احمری بھی اس کا ایک راوی ہے سیف کے اس راوی سے ٥٣احادیث تاریخ طبری میں ذکر ہوئی ہیں چوں کہ ہم نے اس زیاد کا نام بھی سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے جعلی راوی کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے بعض دیگر مجہول اور غیر معروف اشخاص کا نام بھی بعنوان راوی ْْْْذکر کیا ہے اور بعض مشتر ک ناموں کو بھی راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے جن کی تحقیقات

کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۱۵۰

تحقیقات کا نتیجہ :

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''الثنی'' اور ''الولجہ '' کی جنگوں کی روایت کی ہے اور طبری نے ''الثنی ''اور ''الولجہ '' کی جنگوں کے مطالب اسی سے لئے ہیں اور طبری کے بعد والے تمام مؤرخین نے ان مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

یا قوت حموی نے سیف کی داستان کا ایک مختصر حصہ الثنی کی تشریح میں مصادر کا ذکر کئے بغیر اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں درج کیا ہے لیکن الولجہ کی تشریح میں سیف کی کتاب '' فتوح'' کا اشارہ کرتے ہوئے اس داستان کا ایک حصہ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لگتا ہے ابن خاضیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف ابن عمر کی کتاب ''فتوح '' کا ایک حصہ حموی کے پاس تھا انشاء اللہ مناسب موقع پر ہم اس کی وضاحت کریں گے ۔

''المذار ''اور ''الیس'' نامی جگہوں کی تاریخی حقیقت سے انکار نہیں ہے لیکن سیف نے ان دو جگہوں کے فتح کئے جانے کے طریقہ میں تحریف کی ہے جس شخص نے سب سے پہلے ''المذار '' میں جنگ کرکے فتح حاصل کی وہ '' المثنی '' تھا اور دوسری بار ''المذار'' ''عتبہ بن غزوان'' کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس نے وہاں پر سر حد بان کا سر تن سے جد ا کیا تھا ۔

ہم نے ''الیس'' کی جنگ میں دیکھا کہ خالد نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ اس شرط پر صلح کا معاہدہ کیا کہ وہاں کے باشندے مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے اور ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں گے لیکن سیف نے اس صلح کو ایک خونین تباہ کن اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی جنگ میں تبدیل کرکے اس میں تحریف کی ہے اور صرف اس جنگ میں ستر ہزار اسیروں کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے دکھایا ہے تاکہ انسانی خون کا دریا بہے اور تین دن و رات تک اس خونی دریا سے پن چکیاں چلیں تاکہ ١٨ہزار سے زائد اسلامی فوج کے لئے آٹا مہیا ہو سکے ۔

سیف کا ایسا افسانہ گڑھنے سے کیا مقصد تھا ؟ کیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خاندان مضر کے فخر و مباہات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرے ؟ یا اس کے علاوہ اور بھی کوئی مقصد تھا تاکہ اس کے ذریعہ دوسروں کو یہ سمجھائے کہ اسلام تلوار کی دھار سے خون کے دریا بہا کر پھیلا ہے، ملتوں کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے اور اپنے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں نہیں پھیلا جب کہ حقیقت یہی ہے ۔

۱۵۱

سیف کی حدیث کا نتیجہ

١۔ '' قارن بن قریانس''نام کے ایک سپہ سالار کو جعل کرنا ۔

٢۔'' الثنی '' اور '' الولجہ'' نام کی جگہیں جعل کرنا تاکہ مقامات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں یہ جگہیں درج ہو جائیں ۔

٣۔ مہلب ، ابو عثمان بن زید زیاد بن سرجس اور عبد الرحمن بن سیاہ نام کے چار اصحاب جعل کرکے اسلام کے راویوں میں ان کا اضافہ کرنا ۔انشا اللہ ہم اسی کتاب میں ان کی تفصیلات بیان کریں گے۔

٤۔ ادبی آثار کو زینت بخشنے والے ایک قصیدہ کی تخلیق ۔

٥۔ ایک ہزار سوار کی طاقت کے برابر ایک ایرانی پہلوان کا خالد کے ہاتھوں قتل ہونا اور خالدکا اس کی لاش سے ٹیک لگا کر میدان جنگ میں کھانا کھانا تاکہ اس افسانے کے حیرت انگیز منظر کے بارے میں سن کر اپنے اسلاف و اجداد کے فضائل ومناقب سننے کا شوق رکھنے والوں کو خوش کر سکے ۔

٦۔ اسیر ہونے والے تمام انسانوں کا مسلسل چند دن ورات تک سر تن سے جدا کرکے قتل عام کرنا ۔

٧۔ خون کے دریا سے تین دن ورات تک چلنے والی پن چکیوں کے ذریعہ اسلام کے ١٨ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لئے گندم پیس کر آٹا تیار کرنا۔

٨۔''الثنیٰ'' کے میدان میں تیس ہزار اور ''الیس''میں ستر ہزار اور سب ملاکر غرق ہوئے افراد کے علاوہ اسلامی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام ہونا۔

٩۔قعقاع جیسے ناقابل شکست پہلوان کی کرامت دکھانا کہ اگر وہ اور اس جیسے افراد نہ ہوتے اور مداخلت نہ کرتے تو سیف کے کہنے کے مطابق خدابہتر جانتا ہے کہ خالد انسانوں کے سر تن سے جد ا کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رکھتا !! حقیقت میں یہ وہی چیز ہے جس کو سننے کے لئے اسلام کے دشمنوں کے کان منتظر رہتے ہیں ، اور وہ یہ سننے کی تمنا رکھتے ہیں کہ اسلام اپنے دشمنوں سے جنگ کے دوران بے رحمی سے قتل عام کرنے کے بعد پھیلا ہے تاکہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کو تلوار کے سایہ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور ملتوں کا اپنی مرضی سے اسلام کی طرف مائل ہونا اسلام کے پھیلنے کا سبب نہیں بنا ہے کیا اس غیر معمولی افسانہ ساز سیف نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اسلام کے دشمنوں کی اور اپنی دیرینہ آرزوکو پورا نہیں کیا ہے ؟

۱۵۲

قعقاع ،حیرہ کے حوادث کے بعد

مفخرة تضاف الی مفاخر بطل تمیم القعقاع

سقعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ

(مولف)

صلح '' بانقیا'' کی داستان

طبری نے ''حیرہ کے بعد کے حوادث ''کے عنوان کے تحت سیف سے حسب ذیل روایت نقل کی ہے:

''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں نے خالد ابن ولید کے ساتھ ایک صلح کے تحت معاہدہ کیا کہ مسلمان اس شرط پر ان سے جنگ نہ کریں گے کہ وہ دربار کسریٰ کو اد اکئے جانے والے خراج کے علاوہ خالد کو دس ہزار دینار ادا کریں گے۔خالد نے مذکورہ باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور قعقاع بن عمرو تمیمی اور چند دیگر افراد کو اس پر گواہ قرار دیا''۔

اس کے بعد طبری نے یوں لکھاہے:

''جب خالد ''حیرہ''سے فارغ ہوا توعراقی علاقوں سے ہرمز دگرد تک سرحد بانوں نے بھی ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کی طرح ،دربار کسریٰ کو ادا کئے جانے والے خراج کے علاوہ بیس لاکھ درہم اور سیف کی ایک دوسری روایت کے مطابق دس لاکھ درہم خالد کو ادا کرنا قبول کئے ۔خالد نے اس پر ایک معاہدہ نامہ لکھا اور قعقاع وچند دیگر اشخاص کو گواہ قرار دیا ۔

اس کے بعد سیف کہتاہے :

''خالد بن ولید اسلامی فوج کاسپہ سالار تھا ۔اس نے دیگر شخصیتوں کو مختلف عہدوں پر فائز کرنے کے ضمن میں قعقاع بن عمرو کو سرحدوں کی حکمرانی اور کمانڈسونپی ۔خالد نے خراج دینے والوں کے لئے لکھی گئی رسید میں قعقاع کو گواہ کے طور پر مقرر کیا''

۱۵۳

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

ان تمام روایتوں کو طبری نے سیف کے حوالے سے ذکر کیاہے ،اس کے بعد ابن اثیر ،ابن کثیر ،اور ابن خلدون جیسے مؤرخوں نے ان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔اسی طرح کتاب ''الوثائق السیاسة''کے مؤلف نے مذکورہ تین عہد ناموں کو اسلامی سیاسی اسناد کے طور پر اپنی مذکورہ کتاب میں درج کیاہے ۔ ١

لیکن سیف کے علاوہ دیگر تاریخ دانوں نے ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کے صلح نامہ کو ہزار درہم کی بنیاد پر لکھاہے،نہ کہ دس ہزار دینار!اور قعقاع کے نام اور اس کی گواہی کا ذکر تک نہیں کیاہے۔اس کے علاوہ عراقی علاقوں سے ہر مزدگرد تک کی سرزمینوں کے بارے میں صلح کانام ونشان تک نہیں ملتا،بلکہ اس کے برعکس لکھا گیاہے ۔

'' ''حیرہ''،''الیس''اور ''بانقیا''کے علاوہ کسی اور شہر کے باشندوں سے کوئی معاہدہ نہیں ہواہے ۔اسی طرح سرحدوں پر سرداروں کو معین کرنے یاخراج دینے والوں کو بری کئے جانے پر قعقاع کی گواہی کا کوئی ذکر نہیں ملتا ''٢

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

''ابوبکر نے خالد بن ولید کو عراق کے جنوبی علاقوں کا مأمور مقرر کیا اور عیاض بن غنم کو شمالی علاقوں کی ماموریت دی۔خالد نے اپنی مأموریت میں عراق کے جنوبی علاقوں کو وسعت بخشی۔لیکن عیاض ایرانیوں کے محاصرہ میں آگیا اور مجبور ہوکر خالد سے مدد کی درخواست کی ۔خالد نے حیرہ میں قعقاع کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود عیاض کی مدد کے لئے عراق کے شمال کی طرف روانہ ہوا ۔دوسری طرف ایرانیوں اور قبائل ربیعہ کے عربوں نے مسلمانو ں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ''حصید''کے مقام پر اپنی فوج کی لام بندی کی تھی۔ اس علاقہ کے مسلمانوں نے ان سے نجات پانے کے لئے قعقاع سے مدد کی درخواست کی اور قعقاع نے ان کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی ۔جب خالد واپس''حیرہ''پہنچا تو اس نے قعقاع کو ''حصید''میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں اور جزیرہ کے عربوں سے لڑنے کے لئے روانہ کیا۔قعقاع نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی ۔یہ جنگ دشمنوں کی شکست پر تمام ہوئی ۔ ''روز مہر''نام کا ایرانی سپہ سالار ماراگیااور ''روز بہ''بھی عصمة بن عبد اللہ کے ہاتھوں قتل ہوا''

۱۵۴

طبری اور سیف سے نقل کرنے والے مؤرخین

طبری نے ان مطالب کو سیف سے نقل کرکے لکھا ہے ۔اس کے بعد ''ابن اثیر،ابن کثیر'' اور ابن خلدون نے ان روایتوں کو طبری کے حوالے سے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔

ہم نے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' میں طبری اور اس کی تاریخ کے بارے میں عالم اسلام کے مذکورہ تین عظیم مورخوں کے نظریات بالترتیب حسب ذیل ذکر کئے ہیں :

١۔ ابن اثیر اپنی بات یوں شروع کرتا ہے :

'' جو کچھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ سے متعلق ہے ،ہم نے اسے کچھ گھٹائے بغیر نقل کیا ہے ''

٢۔ ابو الفدایوں کہتا ہے :

'' ہم نے ابن اثیر کی بات کو نقل کیا ہے اور اس کی تاریخ کوخلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے''

٣۔ ابن خلدون لکھتا ہے :

'' خلافت اسلامیہ سے متعلق مطالب اور جو کچھ ارتداد کی جنگوں اور فتوحات سے مربوط ہے مختصر طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ''

٤۔لیکن ابن کثیر ،اکثر اپنی روایتوں کے مآخذ یا مآخذ کے بارے میں کہ طبری ہے کا صراحتا ذکر کرتا ہے یا بعض مواقع پر براہ راست سیف کا نام لیتا ہے اور اسے اپنی داستان کی سند کے طور پر پیش کرتا ہے ۔

حموی ،سیف کی اس داستان پر اعتبار کرتا ہے اور ''حصید '' کا نام لیتے ہوئے لکھتا ہے :

'' حصید '' کوفہ و شام کے درمیان ایک صحراہے ،یہاں پر ١٣ھ میں قعقاع بن عمر و نے ایرانی فوجوں اور ربیعہ وتغلب کے عربوں کے ساتھ گھمسان کی جنگ کی اور ایرانی فوج کے دو سردار ''روزمہر '' اور ''روزبہ'' مارے گئے اور قعقاع نے اس جنگ میں رزم نامہ اس طرح کہا ہے :

'' اسماء(۱) کو خبر دو کہ اس کا شوہر ایرانی سردار'' روزمہر '' کے بارے میں اس دن

____________________

۱)۔عربوں میں رسم تھی کہ جنگوں میں رزم نامہ پڑھتے ہوئے اپنی بہن یا بیوی کا نام لیتے تھے اور اپنے افتخارات بیان کرتے تھے ۔

۱۵۵

اپنی آرزو کو پہنچا ،جب ہم ہندی تلواروں کو نیام سے نکال کر ان کی فوج پر حملہ آور ہوکر ان کے سر تن سے جدا کر رہے تھے ''

یہ سب کچھ سیف نے کہا ہے اور طبری نے اس سے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بعد میں طبری سے نقل کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عیاض ،خالد کے ساتھ عراق کی ماموریت پر تھا بلکہ اس کے بر خلاف اس کا ابوعبید کے ساتھ شام میں ہونا ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف ''حصید'' نامی مقام اور وہاں پر جنگ کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نام ونشان تک نہیں پایا۔

سند کی پڑتال

سیف نے مذکورہ حدیث ،محمد مہلب اور زیاد سے روایت کی ہے ۔ان کے بارے میں پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ تینوں راوی سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ غصن بن قاسم نام کے ایک اور راوی سے بھی روایت کی ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے ١٣،احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

اسی طرح ابن ابی مکنف نام کے ایک اور شخص کا نام بھی لیا ہے ۔

موخّر الذکر دونوں راویوں کے نام بھی ہم نے طبقات اور راویوں کی فہرست میں کہیں نہیں پائے ۔

آخر میں سیف نے اس داستان کے بانچویں راوی کے طور پر بنی کنانہ کے ایک شخص کو پیش کیا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اپنے خیال میں اس شخص کا نام کیا رکھا تھا تاکہ ہم اس کی بھی تلاش کرتے !۔

اس اصول کے تحت ہمیں حق پہنچتا ہے کہ مذکورہ بالا راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کریں ۔

۱۵۶

اس حدیث کے نتائج

١۔تین فوجی معاہدوں اور ایک صلح نامہ کو سیاسی اسناد کے طور پر پیش کرنا۔

٢۔ ''حصید'' نام کی ایک جگہ کو تخلیق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٣۔ ایسے اشعار کی تخلیق کرنا جو ادبیات کی کتابوں درج ہو جائیں ۔

٤۔خاندان تمیم کے سورما ،قعقاع بن عمرو کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا ۔

یہ سب اپنی جگہ پر لیکن وہ کون سا سبب تھا جس نے سیف کو یہ کام انجام دینے پر مجبور کیا کہ ابو عبیدہ کے ہمراہ شام میں جنگ میں مصروف '' عیاض'' کو خالد کے ساتھ عراق پہنچادے ؟!اگر زندیقی ہونے کے سبب یا کسی اور چیز نے اسے ایسا کرنے پر مشتعل نہیں کیا کہ وہ اسلام کی تاریخ میں تحریف کرے ،تو اور کیا سبب ہو سکتا ہے ؟!

۱۵۷

قعقاع ،مصیخ اور فراض میں

وبلغ قتلاهم فی المعرکة والطلب مائة الف

''جنگ فراض میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی''

(سیف)

مصیخ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

'' ایرانی اور مختلف عرب قبیلوں نے ''حصید '' میں شکست کھانے کے بعد '' احنافس'' سے پسپائی اختیار کرکے ''حوران '' و ''قلت'' کے درمیان واقع ایک جگہ '' مصیخ'' میں اپنی منتشر فوج کو پھر سے منظم کیا جب اس فوج کے ''مصیخ '' میں دوبارہ منظم ہونے کی خبر خالد کو ملی ،تو اس نے قعقاع ،ابی لیلیٰ بن فدکی ا عبد بن فدکی اور عروہ بن بارقی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ذہن نشین کرایا کہ فلاں شب فلاں وقت پر اپنی فوج کو لے کر '' مصیخ '' کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پر اس جگہ حاضر ہوئے انھوں نے تین جانب سے دشمن پر شب خون مارا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیئے ۔ لوگوں نے اس قتل عام کے مناظر کی بھیڑ بکریوں کی لاشوں پر لاشیں گرنے سے تشبیہ دی ہے !!''

وہ مزید لکھتا ہے :

'' دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں عبد الغزی نمری اور ولید بن جریر بھی موجود تھے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی گواہی کے طور پر ابوبکر کا خط بھی ان کے پاس موجود تھا یہ دونوں بھی اس جنگ میں قتل کئے گئے ۔ان کے مارے جانے کی خبر ابوبکر کو پہنچی اور خاص کر یہ خبر کہ عبد الغزی نے اس شب تین جانب سے ہونے والے حملہ کو دیکھ کر فریاد بلند کی تھی کہ : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا تو پاک و منزہ ہے !'' چوں کہ یہ دونوں بے گناہ مارے گئے تھے اس لئے ابوبکر نے ان کی اولاد کو ان کا خون بہا ادا کیا ۔ عمر نے ان کے مارے جانے اور اسی طرح مالک بن نویرہ کے قتل کے بارے میں خالد پر اعتراض کیا اور اس سے ناراض ہو گئے اور ابوبکر ،عمر کی تسلی کے لئے یہی کہتے تھے '' جو بھی فوج کے درمیان رہے گا اس کا یہی انجام ہوگا!''

۱۵۸

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

حموی نے سیف کی روایت کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا ہے اور '' مصیخ'' کے بارے میں سیف کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے اور اسے ایک واقعی جگہ کے طور پرپیش کیاہے اور لکھتاہے :

'' مصیخ '' حوران اور قلت'' کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں پر خالد بن ولید اور خاندان تغلب کے درمیان جنگ ہوئی تھی ''

اسی کے بعد لکھتا ہے :

'' قعقاع نے اس جنگ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

'' مصیخ کی جنگ میں خاندان تغلب کے کارناموں کے بارے میں ہم سے پوچھو !کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں ؟ جب ہم نے ان پر شب خون مارا تو اس کے نتیجہ میں ان کا صرف نام ہی باقی رہا ۔ ''ایاد''اور ''نمور''(۱) کے قبیلے بھی خاندان تغلب کے دوش بدوش تھے اور وہ بھی ان باتوں کو جوان کے وجود کو لرزہ بر اندام کئے دے رہی تھیں سن رہے تھے''

آپ ان مطالب کو صرف سیف کے افسانوں میں پاسکتے ہیں ۔دیگر لوگوں نے ''مصیخ '' اور اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ تک نہیں کیاہے ۔کیوں کہ وہ حقیقت لکھنے کی فکر میں تھے نہ کہ افسانہ سازی میں ۔

سند کی پڑتال:

''مصیخ بنی البرشائ'' کے بارے میں سیف کی حدیث ''حیرہ'' کے واقعات کے بعد اور ان ہی حوادث کا سلسلہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی سند بھی وہی ہے جو ''حیرہ'' کے بارے میں بیان ہوئی ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ تاریخ دانوں نے اس قصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے تاکہ ہم ان کے اور سیف کے بیان کے درمیان موازنہ و بحث کریں ،بلکہ یہ تنہا سیف ہے جس نے یہ روایت جعل کی ہے ،اور انشاء اللہ ہم جلد ہی اس کے جھوٹ اور افسانہ نویسی کے سبب پر بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱)۔ سیف نے ایسا خیال کیا ہے کہ ایاد ،نموراور تغلب کے قبیلوں نے ایک دوسرے کے دوش بدوش جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۱۵۹

داستان مصیخ کے نتائج :

١۔ '' مصیخ بنی البرشائ'' نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا جاسکے ۔

٢۔ عبد ابن فدکی اور اس کے بھائی ابو لیلیٰ نام کے دو صحابی جعل کرنے کے علاوہ '' نمری'' نام کے ایک اور صحابی کو جعل کرنا جسے ابوبکر نے عبداللہ نام دیا ہے تاکہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے افسانوں کے مطابق درج ہوں ۔

٣۔ افسانوی سورما قعقاع کے اشعار بیان کرنا۔

٤۔ ایک خونیں اور رونگٹے کھڑے کرنے والی جنگ کی تخلیق کرنا تاکہ میدان میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی کشتوں کے پشتے لگتے دکھائے جائیں جس سے ایک طرف اپنے اسلاف کے افسانے سننے کے شوقین اور دوسری طرف اسلام کے دشمنوں کے دل شاد کئے جائیں اور اس قسم کی چیزیں سیف کے افسانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں !

فراض کی جنگ

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

''واقع مصیخ کے بعد تغلب کے بھگوڑ ے''دارالثنی''اور ''زمیل''میں جمع ہوئے اور خالد بن ولید نے قعقاع کے ہمراہ ان پر وہی مصیبت توڑی جو مصیخ میں رو نما ہوچکی تھی۔''

اس کے بعد لکھتاہے:

''خالد ،شام اور عراق کی سرحد پر واقع ''فراض ''کی طرف روانہ ہوا ۔سیف کہتاہے :رومی مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایرانی سرحد بانوں سے اسلحہ اور مدد حاصل کی اور مختلف عرب قبیلوں ،جیسے تغلب ،ایاد اور نمر سے بھی مدد طلب کی اس طرح ایک عظیم فوج جمع کر کے خالد بن ولید کے ساتھ ایک لمبی مدت تک خونیں جنگ لڑی ۔ سرانجام اس جنگ میں رومیوں نے شکست کھائی اور سب کے سب میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔خالد نے حکم دیا کہ بھاگنے والوں کے سر تن سے جدا کئے جائیں ۔ خالد کے سوار ،فراریوں کو گروہ گروہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کرکے ان کا سر تن سے جدا کرتے تھے ۔اس طرح مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔''

۱۶۰

5.بخاری اور مسلم نے پنجشنبہ کی مصیبت کے نام جو واقعہ مشہور ہے اس کا تذکرہ کیا ہے پنچشنبہ اپنی زندگی کے آخری پنجشنبہ کو جب پیغمبر(ص) نے چاہا تھا کہ ایسی تحریر و حوالے کر دیں کہ آپ کی امت قیامت تک گمراہی سے محفوظ ہوجائے پیغمبر(ص) کے اس ارادے کو رد کر دیا گیا تھا دونوں محدثین یعنی بخاری اور مسلم نے اس واقعہ کو تو لکھا ہے لیکن اس جسور کا نام گول کر گئے ہیں جس نے نبی(ص) کو رد کیا تھا اسی طرح رد کرنے والے کا یہ جملہ نہیں لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) ہذیان بک رہے ہیں.(1) لیکن جب کسی مجبوری کے تحت رد کرنے والے کا نام بتانا ہی پڑتا ہے تو پھر بڑی ذہانت سے عمر کی زبان سے نکلے ہوئے جملے میں تحریف کر دی اور یہ لکھا کہ قول پیغمبر(ص) کو رد کرنے والے تو عمر ہی تھے اور انہوں نے یہ کہہ کے پیغمبر(ص) کی تردید کردی کہ نبی(ص) پر درد کا غلبہ ہے.(2)

6. اس جھوٹی عمر ابن عاص کی یہ حدیث بھی آپ کی نظروں سے گذر چکی ہے جس میں حضور(ص) نے فرمایا کہ آل ابوطالب میرے اولیا نہیں ہیں بلکہ میرا ولی اللہ اور صالح المومنین ہے(3) اس حدیث کو مسلم اور بخاری دونوں نے لکھا ہے.

7. اس جھوٹی اور نا معقول حدیث کو بھی بخاری اور مسلم نے لکھنا بہت ضروری سمجھا ہے جو ابھی گذر چکی ہےکہ مسلمانوں نے ابوسفیان سے معاملہ کر لیا اور وہ نبی کے پاس اپنی گذارشات لے کے آیا تھا حالانکہ وہ مورخین کے اجماع کے صریحا خلاف ہے مورخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ نیی(ص) نے ابوسفیان کے اسلام لانے کے پہلے ام حبیبہ سے عقد کیا تھا.

نمونے کے طور پر چند حدیثیں دونوں حضرات کی کتاب سے پیش کی گئی ہیں تاکہ ثابت ہوسکے کہ یہ لوگ دشمنان اہل بیت(ع) کو حدیثوں کے اندر کتنا اوپر اٹھاتے ہیں اور اہل بیت(ع) کی کتنی تخفیف

......................................

1.صحیح بخاری، ج3، ص111. کتاب الجہاد والسیر، صحیح مسلم، ج3، ص1259.

2.صحیح بخاری، ج5، ص2146، صحیح مسلم، ج3، ص1259.

3.پہلے سوال کے جواب میں ان کے مصادر کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، ج2، ص59.

۱۶۱

اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جمہور اہل سنت کی صحاح خصوصا اصح الکتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رجحان فکر اہل بیت کے خلاف ہے اور ترجیحات اہل بیت(ع) کی ضد میں ہیں.

مسلم اور بخاری کی اہمیت کا سبب

شاید مسلم اور بخاری کی اہل سنت کے نزدیک خصوصیت خاصہ کی وجہ بھی یہی ہے لاشعوری طور پر سہی اہل سنت مسلم اور بخاری کی طرف اسی وجہ سے زیادہ متوجہ ہیں اور ان کتابوں کی تعظیم و احترام میں کوتاہی حرام سمجھتے ہیں سابقہ سوالوں کے تیسرے سوال کے جواب میں عرض کیا جا چکا ہے اہل سنت حضرات اہل بیت(ع) سے انحراف کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں اور جہاں اہل بیت(ع) کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے وہاں ان کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں ورنہ حدیث کی ہزاروں کتابوں میں مسلم اور بخاری کو خاص ترجیح دینا کوئی معنی نہیں رکھتا.

امام احمد کی تعظیم ان کی مسند سے بے توجہی

میرے مندرجہ بالا دعوے کی روشن دلیل اہل سنت کے امام احمد بن حنبل کے بارے میں متضاد نظریہ ہے امام احمد کی شخصیت اہل سنت کے یہاں بہت اہمیت رکھتی ہے اصول میں ان کو مقدم سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ انہوں نے اپنے نظریہ کی وجہ سے تازیانے کھائے ہیں علی بن مدینی کہتے ہیں خدا نے اس دین کی تائید ود آدمیوں کے ذریعہ کی ہے ایک یوم ردہ کے ذریعہ ابوبکر سے اور دوسرے یوم محنت کے ذریعہ احمد سے(1) ابوعبید کہتے ہیں علم از افراد پر منتہی ہوتا ہے جس میں امام احمد سب سے بڑے فقیہ ہیں(2) شافعی کہتے ہیں میں جب بغداد سے نکلا تھا اور تو بغداد شہر میں امام احمد سے افضل اعلم اور افقہ کوئی نہیں تھا(3) امام احمد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ حنابلہ کے امام ہیں آپ جانتے ہیں کہ حنابلہ اپنے فرعی مسائل میں کتنے سخت ہیں اور ان کا مذہب اصول ستہ کے پہلے بھی موجود تھا چاہے وہ امام

.........................................

1.2.3.تذکرة الحفاظ، ج1، ص432 احمد بن حنبل کے ترجمے میں.

۱۶۲

بخاری ہوں یاان کے بعد آنے والے، ( تو آپ نے دیکھا کہ امام احمد کی اہل سنت کے نزدیک کیا حیثیت ہے اب تاریخ کا ایک عجوبہ ملاحظہ کریں) مترجم غفرلہ.

انہیں امام احمد نے حدیث کی ایک جامع کتاب لکھی گئی مقصد یہ تھا کہ امت اپنے اصول و فروع کے مسائل میں ان کی کتاب کو مرجع قرار دے چنانچہ ابو موسی علی ابن عمر مدینی اپنی سند سے لکھتے ہیں کہ مجھ سے احمد بن حنبل نے کہا میں نے اپنی اس کتاب میں سات سو پچاس سے زیادہ احادیث پیغمبر(ص) جمع کر دی ہیں اور جو بھی رکھا ہے بہت ٹھوک بجا کے رکھا ہے مسلمانوں کے درمیان ہر مختلف فیہ مسئلہ کا جواب اس کتاب میں حدیث پیغمبر(ص) سے دیا گیا ہے پس تم لوگوں کے لئے اس کتاب کو مرجع قرار دیا اور یہ سمجھ لو کہ اس کتاب کے باہر جو کچھ ہے وہ بہر حال حجت نہیں ہے.(1)

عبداللہ بن احمد بن حنبل اپنی سند سے کہتے ہیں میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ وضع کتاب کو کیوں مکروہ سمجھتے ہیں جب کہ آپ نے خود ایک مسند لکھی ہے کہنے لگے میں نے اس کتاب کو امام قرار دیا ہے کہ جب بھی لوگ سنت پیغمبر(ص) میں اختلاف کریں( فیصلہ کے لئے) اسی کتاب کی طرف رجوع کریں.(2)

ابوموسی جن کا تذکرہ ابھی گذر چکا ہے کہتے ہیں امام صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہیں حدیث لی مگر صرف ان افراد سے جن کی صداقت اور دیانت ان کے نزدیک ثابت تھی پس جس کی امانت مخدوش تھی امام صاحب نے ان سے کوئی حدیث نہیں لی پھر اپنی اسی بات کا ثبوت بھی دیا ہے(3) یہی وجہ ہے کہ سبکی کہتے ہیں احمد بن حنبل کی مسند امت کی اصولی کتاب ہے،(4) اور سیوطی کہتے ہیں مسند احمد میں جو کچھ ہے وہ مقبول ہے.

........................................

1.خصائص مسند احمد، ص13. التقید، ص161، المعقد الارشد،ج1، ص366، حنبل بن اسحاق بن حنبل کے ترجمے میں.

2.خصائص مسند احمد، ص14، التقید، ص161.

3.خصائص مسند احمد، ص14.15.

4.طبقات الثافعیتہ الکبری، ج2، ص21، احمد بن حنبل کی سوانح حیات کے ضمن میں.

۱۶۳

بلکہ جو ضعیف ہے وہ بھی حسن کے قریب ہے(1) ان تمام باتوں کے باوجود احمد بن حنبل کی مسند کا نام صحاح ستہ کی فہرست میں نہیں ہے چہ جائیکہ اس کتاب کو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے مقارن قرار دیا جائے اور ان سے افضل سمجھا جائے بلکہ ہمارے اکثر بھائی تو اس حدیث کو محض اس لئے معمولی بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے رجحانات کے خلاف ہے تو کہتے ہیں یہ حدیث سواء مسند احمد ابن حنبل کے کہیں نہیں پائی جاتی ( یعنی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے) مترجم غفرلہ.

آخر کیوں مسند احمد اتنی غیر اہم کیوں ہوگئی مسند اتنی نا قابل توجہ کیوں ہوگئی آئیے میں آپ کو بتائوں امام صاحب نے ایک بڑی سیاسی غلطی کر دی ہے اس کتاب میں انہوں نے علی اور اہل بیت پیغمبر(ص) کے بہت سارے فضائل نقل کر ڈالے ہیں جب کہ دوسری کتابوں نے اس سے اجتناب کیا ہے اگر برادران اہل سنت اس کتاب کو بھی صحاح میں شمار کرتے یا صحاح سے مقدم مانتے تو اس نظریہ کا نتیجہ ان کے لئے پریشان کن ہوتا اور اس عمل کے نتیجہ سے جو پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ان سے چھٹکار مشکل ہوجاتا.

اب و کتاب احمد کو اصول ستہ سے مقدم بھی سمجھتے ہیں اس کتاب میں مندرجہ حدیثوں کے قبول کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اس کے اندر خامیاں ہیں کہ وہ مقام عمل میں اس کی حدیثوں پر بھروسہ نہیں کرتے جب تک ان

حدیثوں کو علم تنقید سے نہیں گذارتے اور ان اصول ضوابط پر پیش نہیں کرتے، یہ تو صحیح ہے کہ اہل سنت مسند احمد کو اصول ستہ سے مقدم جانتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی مسند میں جو حدیثیں ہیں ان کو قبول کرنے کا دعوی بھی کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کتاب میں سلبیات نہیں ہیں اس لئے اس کی ان حدیثوں کو جو منفی پہلو رکھتی ہیں اس وقت تک قبول نہیں کیا جاسکتا جب تک انہیں حجیت کے اصول و ضوابط پر پیش نہ کر دیا جائے ایسے اصول و ضوابط جو صاحبان عقل کے نزدیک شرعی طور پر قابل قبول ہیں، برادران اہل سنت کو بھی اس بات کو

........................................

1.کشف الحخفاء للعجلونی، ج1، ص9 کنز العمال، ج1، ص10.

۱۶۴

سمجھنا چاہئے کہ مسند احمد کی تعریف میں اتنے پر جوش الفاظ استعمال کرنے کا فائدہ کیا ہے، آپ کسی کتاب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں اس کی مرکزیت ثابت کرنے کے لئے حسین ترین الفاظ سے اس کے گرد پھول اگا دیں تقدس کی جالی اور تعظیم کے خوبصورت غلاف سے اس کو مزین کردیں مگر اس کا فائدہ کیا ہوگا؟

آپ نے تو مسلم اور بخاری کو کتاب باری کے بعد اصح الکتب قرار دیا آپ کے دہلوی صاحب نے فیصلہ کر دیا کہ جو بخاری اور مسلم کے مندرجات کو کمتر سمجھتا ہے وہ بدعتی اور غیر سبیل مومنین کا راہی ہے، اور بہت سی وہ باتیں بھی لکھی گئیں اور کہی گئیں جو آپ کی تقلید اور شخصیت پرستی کا تقاضہ ہیں لیکن اس سے فائد کیا ہوا اس بوقلمونی کا نتیجہ قرآن مجید کی اس آیت کو پڑھ کے معلوم کر لیں حس میں ارشاد ہوتا ہے، “ جیسے چمکتا ہوا سراب جس کو پیاسا دور سے پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے قریب پہونچتا ہے تو وہاں کچھ نہیں ملتا البتہ اللہ کو اپنے پاتا ہے اور اللہ اس کا پورا پورا حساب کر دیتا ہے اللہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے.(1) میرا خیال ہے کہ اس طویل گفتگو کے بعد آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ برادران اہل سنت کے اضطراب کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس حدیث کے قبول کرنے کا کوئی معیار نہیں، نہ عقلی اصول ان کے پاس ہیں نہ شرعی دلیلیں، جو قیامت میں خدائے تعالی کے سامنے عذر بنا کے پیش کی جاسکیں.جس دن دوست دوست کو کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی.(2)

پس چہ باید کرد

اب تک کے معروضات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اہل سنت کو چاہئے پہلے اپنے اصول جرح و تعدیل کو ٹھیک کریں یعنی نقد و جرح اور رد و قبول احادیث کے لئے ایک اصول بنائیں جو شرع و عقل کے مطابق اور تمام امور میں تمام لوگوں کے نزدیک قابل قبول ہو پھر تھوڑی ہمت سے کام لے کے اور تھوڑی شجاعت کا

.................................

1.سورہ النور، آیت39.

2.سورة الدخان، آیت 41.

۱۶۵

مظاہرہ کر کے اسی اصول پر تمام حدیثوں کو جانچ لیں اور تعصبات و جذبات کو دل سے نکال کے جو حدیثیں اس اصول کے مطابق ہوں اس کو قبول کریں ورنہ رد کردیں.

شیعوں کی سلامت روی

اس معاملے میں الحمد للہ شیعہ سلامت روی کے قائل ہیں دلیلوں کو لازم سمجھتے ہیں اور اپنی دلیلوں پرقائم بھی رہتے ہیں ان کی دلیلیں بندگی یا اجتہاد کا نتیجہ نہیں ہوتیں اور نہ وہ اپنے دین میں تقلید ہی کے قائل ہیں وہ اس طرح کی حدیثوں پر نہ عمل کرتے ہیں نہ قبول کرتے ہیں جو حدیثیں اصول جرح و تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں اور جب تک ان کی حجیت معین نہیں ہوجاتی تسلیم نہیں کرتے.

اصول جرح و تعدیل میں بھی وہ صرف اس میزان کو تسلیم کرتے ہیں جو شرع اورعقل کے مطابق ہو اور دین و شریعت کی بنیاد پر ہو اس حیثیت سے کہ جرج و تعدیل میں حق و حقیقت کا لحاظ رکھا جائے اور جرج و تعدیل کے ذریعہ حق تک پہنچا جائے پس ان کے یہاں تعصب اور جذبات کی جرح و تعدیل میں کوئی گنجائش نہیں ہے.

اسی طرح حدیثوں کی بھی صرف ان کتابوں پر اعتماد کرتّے ہیں جن کے مولفین کی دینی اور عرفانی حیثیت تسلیم شدہ ہوتی ہے اور جن کا تورع نا قابل انکار ہوتا ہے اور کوئی بھی نا ائز تنقید ان کے وثوق کو ساقط نہیں کرتی.

پھر بھی وہ اپنی کتابوں کی تمام حدیثوں کو مقطوع الصحت نہیں مانتے حالانکہ ان کے علماء نے ان حدیثوں پر عمل بھی کیا ہے ان کی تصحیح بھی کی ہے لیکن پھر بھی شیعہ پہلے ان حدیثوں کی اسانید پر توجہ دیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ اپنے موضوع پر دلالت کرتی ہے یانہیں نیز ان ضوابط کے تقاضے پورے کرتی ہے یا نہیں جن پر ہر متجہد اعتماد کرتا ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کی تحقیق کے لئے الحمد للہ ان کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ کھلا ہا ہے اور تقلید خارج از دین ہے تقلید صرف وہ کرسکتا ہے جو عامی محض ہےاور ان امور پر نظر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا.

۱۶۶

یہ اہل بیت اطہار(ع) کا احسان ہے کہ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کے ذہن کی تربیت و تادیب ہی اسی انداز سے کی ہخ ان کے اذہان علمی استدلال کے راستوں پر سوچتے ہیں اور اسی علمی استدلا ک اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں ہمارے ائمہ(ع) نے اس طریقہ استدلال کو ہمارے یہاں متعارف کرایا ہے اور ہمار علمی ماجول دینی آب و ہوا میں اسی طریقہ استدلال کا حامل رہا ہے، اس اللہ کی حمد جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اگر وہ ہدایت نہیں دیتا تو ہم ہدایت نہیں پاسکتے تھے.(1) ہم اس کے شکر گذار ہیں وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین وکیل اور بہترین دوست ہے اور بہترین مددگار ہے.

مطلب الثانی

آپ نے اپنے اس سوال میں کہا: شیعوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل بیت کی حدیثوں پر اعتماد کریں جب کہ اہل سنت کے لئے یہ ضروری نہیں ہے یعنی شیعوں کی کتابوں پر اعتماد کرنا اس لئے کہ وہ براہ راست پیغمبر(ص) سے اسانید کے واسطے سے روایت لیتے ہیں اور یہ ان کے لئے کافی ہے کیونکہ وہ ائمہ(ع) کی عصمت کے قائل نہیں ہیں.

میں کہتا ہوں کہ آپ کی باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کی کتابوں پر اعتماد نہ کرنا قابل تعریف عمل سمجھتے ہیں.

پیغمبر(ص) کی حدیثوں کو سمجھنے سے اہل بیت(ع) کی حدیثوں سے اعراض صحیح نہیں ہے.

1.یہ بات تو بہر حال قابل تعریف ہے کہ اہل سنت احادیث نبی کو کافی سمجھتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ائمہ ہدی علیہم السلام کی حدیثوں سے رو گردانی کر کے وہ کوئی بہت قابل تعریف کام

...........................................

1.سورہ اعراف، آیت43.

۱۶۷

کر رہے ہیں اس لئے کہ اگر احدیث نبوی(ص) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے تو پھر احادیث نبوی ہی کی طرف جوع کرنا چاہیئے، چاہے اسناد اور طریقے مختلف ہوں یعنی اہل سنت کے اسناد اور طریقے اگر حجیت کے شرائط کو پورا کرتے ہیں تو ان کے ذریعہ حدیث نبوی کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اسی طرح ائمہ اہل بیت(ع) کی حدیثیں بھی جو نبی تک منتہی ہوتی ہیں اور جن کی اسناد میں ائمہ ہدی علیہم السلام راوی ہیں ان کے ذریعہ نبی(ص) کی طرف رجوع کرنا واجب ہے.

بعض احادیث نبوی کو کافی سمجھ کے دوسری احدیث نبوی کی طرف توجہ نہیں دینا بے مطلب بات ہے ورنہ شیعہ بھی ایساکرتے یعنی جو حدیثیں ائمہ اہل بیت(ع) سے شیعوں تک پہنچی ہیں صرف انہیں کو کافی سمجھ کے اہل سنت کے طریقوں سے جو حدیثیں پہنچی ہیں انہیں چھوڑ دیتے لیکن شیعہ ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ ان حدیثوں کو بھی قابل توجہ سمجھتے ہیں جو اگرچہ اہل سنت کے طریقوں سے مروی ہیں لیکن حجیت اور دلالت کے معیار پر پوری اترتی ہیں، میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اہل سنت حضرات صرف مرویات نبوی(ص) کے کافی ہونے کا دعوی کس طرح کرتے ہیں اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں جب احادیث نبوی(ص) میں انہیں مسائل کا جواب نہیں ملتا تو یہی حضرات دوسرے راویوں کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور احکام حاصل کرنے کے لئے قیاس، استحسان، اور اہل شہرت کے عمل کی طرف رجوع کرتے ہیں اس لئے کہ ان احکام کے سلسلے میں ان کے پاس حدیث نبوی(ص) موجود نہیں ہوتی.

ایک طرف تو یہ حضرات حدیث نبوی(ص) کے کافی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے بڑے عالم ابوالمعالی جوینی یہ لکھتے ہیں کہ اہل تحقیق کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قیاس کا منکر ہے اس کو علماء امت شمار نہیں کرنا چاہئے نہ وہ حامل شریعت ہوسکتا ہے اس لئے کہ ایسے لوگ خواہ مخواہ کا عناد رکھنے والے اور ان چیزوں میں ہٹ دھرمی کرنے والے ہیں جس کی حقانیت اور فیض تواتر سے ثابت ہوچکا ہے شریعت کا بڑا حصہ اجتہاد سے ثابت ہوا ہے ورنہ نصوص کی مقدار تو شریعت کے دسویں حصہ کو بھی کافی نہیں ہے( یعنی نصوص ہمارے پاس بہت کم موجود ہیں اگر صرف نصوص پر اکتفا کی

۱۶۸

جائے تو احکام شرعی کا دسواں حصہ بھی نہیں معلوم ہوگا(1) اس لئے قیاس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے قیاس کا مخالف امت کا عالم نہیں ہوسکتا) مترجم غفرلہ

ائمہ اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنے کے فائدے

ائمہ اہل بیت(ع) کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنے سے اہل سنت کو بہت سے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں.

1. بہت سے اپنے مسائل میں جن میں ائمہ اہل بیت(ع) کے طریقوں سے حدیث موجود ہے لیکن اہل سنت کے

طریقوں سے حدیث نبوی(ص) موجود نہیں ہے اگر اہل سنت یہ طے کر لیں کہ طریق ائمہ سے جو حدیث حاصل ہوتی ہے ان مذکورہ مسائل میں انہیں حدیثوں پر عمل کیا جاسکتا ہے تو پھر قیاس وغیرہ کا محتاج ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی اس لئے کہ اہل سنت کے طریقے سے نہ سہی ائمہ اہل بیت(ع) کے طریقے سے ہی نص تو ان کے پاس بہر حال موجود ہوگی.

2. یہ بھی ہوتا ہے کچھ مسائل کے بارے میں طریق اہل سنت سے بھی حدیث موجود ہے اور طرق ائمہ اہل بیت(ع) سے بھی لیکن طریق اہل بیت(ع) سے جو حدیث ہے وہ اہل سنت کے حدیث کی تشریح اور تفسیر کرتی ہے

اور اس کخ ذرقعہ مقام تفسیر میں جو اختلاف موجود ہے اس کو رفع کیا جاسکتا ہے چونکہ دو حدیثوں میں جمع کی صورت نکالی جاسکتی ہے اور طرق ائمہ سے وارد حدیث طریق اہل سنت سے حاصل شدہ حدیث رفع کرتی ہے جیسا کہ اکثر ہوتا ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے تو اہل سنت اس نقطہ نظر سے ائمہ اہل بیت(ع) سے بھی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں.

.........................................

1.سیر اعلام النبلاء، ج13، ص105، دائود بن علی کے ترجمے میں.

۱۶۹

3. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث طریق اہل سنت سے اور اس کے متعارض دوسری حدیث طریق اہل بیت(ع) سے وارد ہوتی ہے دونوں حدیثیں ایک دوسرے کے متعارض اور متنافی ہیں دونوں میں جمع کی کوئی صورت نہیں ہے نہ ان میں سے ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہے کہ دونوں حدیثوں میں راجح حدیث کو لے لیا جائے جب ترجیحی پہلو نہیں نکلتا ہے تو توقف کرنا طے ہے ایسی صورت میں توقف کا فائدہ حاصل ہوتی ہیں تو وہ لوگ توقف کرتے ہیں اور دونوں میں جمع کی صورت نہیں پیدا ہونے کی وجہ سے دونوں کو ساقط کر دیتے ہیں.

حاصل گفتگو یہ ہے کہ صرف اس لئے کہ اہل سنت کی کتابوں میں صرف احادیث نبوی(ص) کو اپنے طریقوں پر جمع کر دیا ہے اہل بیت(ع) کے طریقوں سے وارد حدیثوں کو چھوڑ دینا اور ان سے روگردانی کرنا قابل تعریف ہے نہ فائدہ مند اس لئے حق کا بعض حصہ بعض دوسرے حصے کے لئے کفایت نہیں کرتا.

( بلکہ ہٹ دھرمی اور تعصب سے دامن بچا کے ہم جب بھی غیر جانبدارانہ نظر ڈالتے ہیں تو عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اہل بیت(ع) کی احادیث کو غیروں پر مقدم کرنا بہت ضروری اور عقل کا تقاضہ ہے.) مترجم غفرلہ.

عقل تقاضہ کرتی ہے کہ طریق اہل بیت(ع) کی حدیثوں کو دوسروں پر مقدم رکھا جائے

ایک نظر اسلام کے قرن اولی کی تاریخ پر ڈالیے اور دیکھیے کہ احادیث نبوی(ص) کو کن آفتوں اور حادثوں سے گذرنا پڑا ہے پھر آپ کی سمجھ میں یہ بات آجائے گی کہ اہل بیت اطہار(ع) کے واسطوں سے حاصل شدہ حدیثوں کو مقدم رکھنا کیوں ضروری ہے؟

۱۷۰

جب آپ دیکھیں گے کہ تاریخ حدیث نبوی(ص) سے کیا بدسلوکی کرتی ہے اور حدیث نبوی(ص) کو تدوین سے پہلے ہی سیرت نبی کو مٹانے اور حق کو ضائع کرنے کی کتنی منظم سازشیں کی گئی ہیں.

حدیث نبوی(ص) کے بارے میں امیرالمومنین(ع) کا خطبہ

امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ مولا یہ نئی نئی حدیثوں اور لوگوں کے پاس موجود حدیثوں میں اتنا واضح اختلاف کیسے ہوا؟

آپ نے فرمایا، لوگوں کے پاس حق بھی ہے اور باطل بھی، صدق بھی ہے اور کذب بھی، ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ہے، عام بھی ہے اور خاص بھی، محکم بھی ہے اور متشابہ بھی، محفوظ بھی ہے موہوم بھی، پیغمبر(ص) پر تو آپ کی زندگی میں جھوٹ باندھا گیا یہاں تک کہ آپ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو مجھ پر جان بوحھ کے جھوٹ باندھے اس کی بیٹھک کو آگ سے بھر دیا جائے گا تمہارے پاس حدیث پہچانے والے چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں پانچواں نہیں.

1.وہ مرد منافق جو ایمان کا اظہار کرتا ہے اسلام میں بناوٹ کرتا ہے اور رنجیدہ نہیں ہوتا نہ کوئی حرج محسوس کرتا ہے پیغمبر(ص) پر عمدا جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہ جھوٹا اور منافق ہے تو اس سے نہ حدیث قبول کریں اور نہ اس کی تصدیق کریں لیکن تو یہ کہتے ہیں وہ پیغمبر(ص) کا صحابی ہے اس نے پیغمبر(ص) سے براہ راست سنا ہے اور حدیثیں حاصل کی ہیں نتیجہ میں لوگ اس سے اسی کے لفظوں میں حدیث لیتے ہیں حالانکہ خدا نے تو تمہیں منافقین کے بارے میں خبردار کر دیا ہے اور اچھی طرح منافقین کو پہچنوا دیا ہے یہ منافقین نبی(ص) کے بعد بھی باقی رہے اور انہوں نے گمراہ اماموں کے دربار میں کذب و افتراء کا بازاز گرم کیا، بہتان اور جھوٹ کے ذریعہ جہنم کی طرف دعوت دینے والے اماموں سے ملے ایسے ہی لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا اور لوگوں کی گردنوں پر حاکم بنا دیا اور ان کے ذریعہ دنیا حاصل کی لوگ تو بادشاہ اور دنیا کے ساتھ رہتے ہی ہیں مگر صرف وہ لوگ جنہیں اللہ بخشنے کی توفیق دے چار میں سے ایک کا تعارف تو ہوگیا.

۱۷۱

2.دوسرا وہ جس نے حدیث نبی(ص) سے سنی ضرور لیکن اس کو یاد نہیں رکھ سکا نتیجہ میں وہم کا شکار ہوگیا وہ عمدا جھوٹ تو نہیں بولتا لیکن اپنے وہم کو حدیث سمجھ کے اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسی کی روایت کرتا اور اسی پر عمل کرتا ہے اور یہ کہا ہے کہ میں نے ہر بات رسول اللہ(ص) سے سنی ہے، پس اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو وہم ہوا ہے تو اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے وہ خود بھی اگر یہ جان جائے کہ اس کی روایتیں وہم کا نتیجہ ہیں تو انہیں چھوڑ دے گا.

3.تیسرا وہ ہے جس نے نبی(ص) کو کسی چیز کے بارے میں امر کرتے ہوئے سنا لیکن آپ نے جب اس کام کی نہی کی تو وہ موجود نہی تھا اس لئے نہیں سن سکا یا کسی چیز کی نہی سنا اور اس کے بارے میں جب نبی(ص) نے امر کیا تو نہیں سن سکا اب وہ اوامر و نواہی کے بارے میں نہیں جانتا اس کو منسوخ یاد ہے ناسخ نہیں معلوم اور اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے منسوخ ہے تو اس کو چھوڑ دے گا اور مسلمانوں کو بھی اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس منسوخ حدیثیں ہیں تو لوگ اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے.

4.چوتھا آدمی وہ ہے جو پیغمبر(ص) پر اور خدائے پیغمبر(ص) پر جھوٹ نہیں باندھتا بلکہ خوف خدا اور تعظیم پیغمبر(ص) کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن ہے اس کو وہم نہیں ہوتا بلکہ اس نے نبی(ص) سے جیسا سنا ویسا یاد رکھا اس میں نہ زیادتی کی نہ ہی کمی اس کے پاس ناسخ محفوظ ہے اسی پر عمل کرتا ہے اور منسوخ بھی محفوظ ہے جس سے وہ پرہیز کرتا ہے خاص اور عام کو پہچانتا ہے اور ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے محکم اور متشابہ کو پہچانتا ہے.

کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کلام پیغمبر(ص) کے دو رخ ہوتے تھے کلام خاص اور کلام عام سننے والا سن تو لیتا تھا لیکن اس کو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا خدا اور خدا کے رسول(ص) نے اس کلام سے کیا مراد لیا ہے وہ حدیث کو لیتا تھا اور چونکہ معنی سے واقف نہیں تھا اس لئے غیر معنی کی طرف توجیہ کر دیتا تھا اس کو یہ نہیں معلوم کہ اس حدیث کا مقصد کیا ہے اور حدیث کی حدوں سے خارج ہے پیغمبر(ص) کا ہر صحابی آپ سے سوال بھی نہیں کرتا تھا اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا بلکہ اصحاب پیغمبر(ص) تو چاہتے تھے کہ

۱۷۲

کوئی اعرابی یا مسافر آکے پیغمبر(ص) سے مسئلہ پوچھے تو وہ جواب سن کے فائدہ اٹھا لیں لیکن میرے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ آتا تھا میں پیغمبر(ص) سے بخ تکلف ہو کے پوچھتا تھا اور اس کو یاد رکھتا تھا وہ مجھے اب تک یاد ہے یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں حدیثوں کا اختلاف پایا جاتاہے نیز کمزور حدیثیں روایت کرنے کی بھی یہی وجہ ہے.

پوچھنے والے کا انداز سوال بتا رہاہے کہ بدعتی حدیثیں اور خبروں میں اختلاف اتنا جاری و سار ہوگیا تھا ہ لوگ مقام حیرت و شک میں تھے اور حق کی تمیز کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے یہاں تک کہ سائل نے امیرالمومنین(ع) سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی اور امیر المومنین(ع) کے جواب دینے کا انداز یہ بتا رہا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ حدیثوں میں آلودگی ہو چکی ہے اور حدیث نبوی کو وہم و گمان ور کذب و افترا سے خلط ملط کر کے بیان کیا جارہا ہے عام مسلمان اس اختلاط سے غافل تھے ان کے پاس جو حدیثیں بھی پہونچی تھیں ان پر وہ آنکھ بند کر کے عمل کرتے تھے اور اندھا اعتماد کرتے تھے محض اس لئے کہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حدیثیں صحابی کے ذریعہ آرہی ہیں اور حدیث کے معاملے میں صحابی رسول (ص) پر افترا نہیں کرسکتا ان کے گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ صحابی جھوٹا اور منافق بھی ہوسکتا ہے وہ تو صحابی کو صحابی کی حیثیت سے جانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ صحابی جھوٹ نہیں بول سکتا نہ اس کو وہم ہوسکتا ہے اور ناسخ و منسوخ سے بھی خوب واقف ہے.

حدیث شریف آفتوں کی زد پر کیوں؟

ہر صاحب نظر کو یہ سوال کرنے کا حق ہے کہ آخر حدیث نبی(ص) ہی پر اتنی آفتیں کیوں آتی ہیں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ حدیث نبوی(ص) حکام وقت کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے ہر مسلمان حکومت نے اس پر سختی سے پابندیاں عائد کیں اور ان کی تالیف و تدوین سے روکنے کی بھرپور کوشش کی اصحاب پیغمبر(ص) کو حدیث کی نشر و اشاعت کا بہت کم موقع دیا گیا اور اگر حدیث پیغمبر(ص) کو نشر و اشاعت کی اجازت دی بھی گئی تو سخت پابندیوں کے دائرے میں دی گئی صرف

۱۷۳

ایسی حیدثیں عام کرنے کی کوشش کی گئی جو بظارہ حکام وقت اور حکومت سے متعارض نہیں ہیں یہ بات میں سابقہ سوالوں کے ساتویں سوال کے جواب میں عرض کرچکا ہوں.

محض اس خوف سے کہ سیرت نبوی(ص) اور حدیث رسول عوام تک پہونچ جائے گی اکابر اصحاب کو مدینہ کے باہر جانے سے روکا جاتا رہا اور کبھی اجازت دی بھی گئی تو حکومت کی سخت نگرانی میں جس کی وجہ سے اصحاب پیغمبر(ص) آزادی کے ساتھ حدیث پیغمبر(ص) کی نشر و اشاعت نہیں کرسکے یا تو اس لئے کہ حکومت ان کے اوپر بے تحاشہ ظلم کرتی تھی یا وہ اس بات سے خوف زدہ تھے کہ اگر حدیثوں کی اشاعت کی جائے گی تو وہ ان کے عتاب کا شکار ہو جائیں گے نتیجہ یہ ہوا کہ حدیثیں جمود کا شکار ہوگئیں اور خصوصا عمر کے دور میں حدیثیں کچھ زیادہ ہی اس آفت کا شکار ہوئیں.

اس لئے کہ عمر نے اصحاب پیغمبر(ص) کو مدینہ سے باہر دوسرے شہروں میں جانے سے سختی سے روک دیا تھا اور ان کے ارکان حکومت میں منافقین مولفتہ القلوب (سست عقیدہ) اور فتح مکہ والے مسلمانوں کی کثرت تھی جو حکومت کے کرتا دھرتا تھے اور اس طرف امیرالمومنین(ع) نے اپنے کلام میں اشارہ فرمایا ہے جو گذشتہ صفحات میں پیش کیا گیا اور میں نے اس کلام کی طرف آپ کے ان سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب بھی اشارہ کیا تھا.

یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے حدیثوں میں ملاوٹ ہوئی اور لوگ حق اور باطل کو سمجھنے سے قاصر رہے مسلمانوں کے معاملات خراب ہوئے اب مسلم عوام ہر اس حدیث پر عمل کرتے تھے جو ان تک پہونچتی تھیں اور اس حدیث کو سچا کہہ کر پیش کیا جاتا تھا اس لئے وہ حقیقت حال سے غافل اور حکومت انہیں غافل رکھنا بھی چاہتی تھی خاص خاص افراد کو اس بات کا ادراک تھا بھی تو وہ حیران تھے کہ کس کو مانیں اور کس کو چھوڑیں یہاں تک کہ ایسے لوگ امیرالمومنین(ع) سے سوال کرنے پر مجبور ہوتے تھے.

تاریخ کا عجوبہ ہے یہ بات کہ یہ کچھ وفات پیغمبر(ص) کے فورا بعد صرف تین دہائیوں میں ہوتا

۱۷۴

رہا لیکن کسی صحابی نے اس کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی ایسی بات نہیں تھی کہ صحابہ موجود نہیں تھے ان تین دہائیوں میں صحابہ کی وافر تعداد موجود تھی اور اکثر صحابہ متورع پاک دامن اور صاحب کردار تھے لیکن حکومت خوف زدہ اور دار و رسن سے دہشت زدہ تھے جب عثمان کے آخری دور میں حکومت کی پکڑ کمزور ہوئی تو انھیں حق بیان کرنے کی کچھ آزادی ملی خصوصا مولائے کائنات کے دور میں تو حکومت نے ان کا خوب ساتھ دیا اور انہوں نے بھی اپنے عقیدے ایمان اور احادیث پیغمبر(ص) کی کھل کے نشر و اشاعت کی اپنے سوال کا جواب دیکھیں.

امیرالمومنین(ع) کے دور میں اعلان حق اور تصحیح حدیث کی کوششوں کی ابتداء

امیرالمومنین(ع) کے دور میں اعلاء کلمہ حق اور مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت کو سدھارنے کی کوشش شروع ہوئی اور بہت حد تک کامیابی بھی ہوئی مگر کاش یہ الت برقرار رہتی تاکہ امیر المومنین(ع) اہل بیت اطہار(ع) بہتر محتاط صحابہ اور تابعین جو نیکیوں میں ان کی پیروی کرنے والے اور مقدس صحابہ سے حدیثیں لینے والے تھے مسلسل اپنی کوششیں جاری رکھتے تو اسلام کی کچھ اور ہی شکل ہوتی اور حقیقی اسلام ان کے ہاتھ میں ہوتا اس لئے کہ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی صداقت گفتار میں مشہور تھے اس کے علاوہ عوام پر خاصہ اثر بھی رکھتے تھے اور عوام کو حق کی طرف متوجہ کرنے اور حق کو یاد دلانے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے انھوں نے حق کا بار اٹھایا تھا اس باتیں غور سے سنی تھیں اور اس کے ذریعہ حدیثیں بیان کرتے تھے اور اسی کی طرف دعوت دیتے تھے سختیوں کو جھیل کے طویل مدت تک حق کی ترویج کررہے تھے حکومت کے ظلم و سرکشی میں اعانت کرنے کے لئے انہوں نے حق کا ناحق استعمال نہیں کیا تھا عوام الناس بھی ان کے تقدس، خلوص اور بے غرضی سے متاثر تھے.

جوزجانی نے اپنے کلام میں اسی طرح کے شیعیان اہل بیت(ع) کی طرف اشارہ کیا ہے حالانکہ جو

۱۷۵

ز جانی اور نواصب کوئی بھی ان کے مذہب سے راضی نہیں ہے پھر بھی ان کی دیانت داری اور تقدس و خلوص کا اعتراف کرتے ہوئے جوزجانی نے یہ عبارت لکھی ہے اہل کوفہ میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جس کا مذہب قابل تعریف نہیں تھا وہ لوگ اہل کوفہ کے محدثین کے راس و رئیس جیسے ابو الاسحق، منصور، زبید بن حارث یامی، اعمش اور ان کے معاصر محض صداقت گفتار کی وجہ سے انہیں برداشت کرتے تھے.

امیرکائنات(ع) کی شہادت اور اہل بیت اطہار(ع) کے ہاتھ سے حکومت نکل جانے کی وجہ سے تصحیح و اعلان حق کی کوشش سرتاج ہوگئی( دم توڑ گئی)

میں کہتا ہوں کاش اس طرج کے لوگوں کی کوششیں کچھدنوں تک اور جاری رہتیں اور تصحیح کا عمل بیان حق کےساتھ اسی طرج چلتا رہتا تو آج تاریخ اس دور پر فخر کرتی لیکن افسوس کہ اہل بیت(ع) کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی اور غضب یہ ہوا کہ معاویہ جیسے مکار اور دنیا پرست انسان کے ہاتھ میں حکومت چلی گئی جس کے بارے میں مولائخ کائنات نے فرمایا ہے اس کاگمراہ کن ہونا ظاہر ہے اس کی بے حیائی سب کے سامنے ہے اپنی مجلس میں صاحب کرم اور با عظمت انسان کو عیب دار بناتا ہے اور صاحب حکمت کو اپنے پاس بیٹھا کے اس کی عقل کو ضبط کر کے بیوقوف بنا دیتا ہے وہی معاویہ مملکت اسلامیہ کا بلا شرکت غیرہ حاکم ہوتا ہے اور مقام نخیلہ میں حکومت حاصل کرنے کے بعد پہلے خطبہ میں ڈیگیں مارتا ہوا انتہائی بے حیائی سے اعلان کرتا ہے اور اپنی حکومت کی پالیسی کا اظہار کرتا ہے مسلمانوں کا حاکم ہے لیکن اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان ان لفظوں سے کرتا ہے ابھی تو کوفہ میں داخل بھی نہیں ہوا ہے مقام نخلیہ میں اس کے خطبے کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں کہتا ہے سنو! لوگو! میں نے تم سے اس لئے قتال نہیں کیا کہ تم روزے رکھو نمازیں پڑھو حج کرو اور زکوة نکالو یہ سب تو تم کرتے ہی ہو یہ میں جانتا ہوں میری جنگ صرف اس لئے تھی کہ میں تم پر حکومت حاصل کروں اللہ نے میرا مقصد مجھے دیا اگر چہ تم لوگوں کو ناگوار ہے.

۱۷۶

سنت نبوی(ص) میں تحریف کرنے اور اس کے ضائع کرنے کا نیا دور شروع ہوتا ہے

سنت نبوی(ص) ایک بار پھر تحریف کا نشانہ بنتی ہے معاویہ کوفہ میں اپنی پالیسی واضح کر کے نام کا واپس آتا ہے اور سنت نبوی(ص) کو بدلنے اور اس کو ضائع کرنے کا نیا دور شروع ہوتا ہے شام والوں میں وہ خطبہ دیتا ہے اے لوگو پیغمبر(ص) نے مجھ سے کہا تھا کہ میرے بعد تم خلافت حاصل کرو گے تو تم اس مقدس سرزمین کو اختیار کر لو کیونکہ اس سر زمین میں ابدال( بزرگ علماء) سو رہے ہیں تو میں نے تمہیں اور تمہاری سرزمین کو اپنے لئے منتخب کیا ہے پس تم ابوتراب پر لعنت کرو پس لوگوں نے ان پر لعنت کی، دوسرے دن اس نے ایک مضمون لکھا پھر اہل شام کو جمع کرکے ان سامنے پڑھا اس میں لکھا تھا یہ وہ مکتوب ہے جسے امیرالمومنین معاویہ نے لکھا ہے معاویہ جو اس خدا کی وحی کا دوست ہے جس نے محمد(ص) کو نبی مبعوث کیا محمد(ص) نا خواندہ تھے نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ لکھ سکتے تھے تو خدا نے ان کی اہل سے ان کے لئے ایک وزیر منتخب کیا جو امانت دار لکھنے والا تھا لہذا وحی جو محمد(ص) پر نازل ہوتی تھی میں لکھا کرتا تھا محمد(ص) یہ نہیں جانتے تھے کہ میں نے کیا لکھ دیا ہے میرے اور خدا کے درمیان اس معاملے میں کوئی نہیں تھا.

شام میں جو لوگ اس وقت حاضر تھے سب نے کہا آپ نے سچ فرمایا: اے امیرالمومنین!(1)

حدیث نبوی(ص) کو دوبارہ نشر و اشاعت سے روکا گیا

معاویہ کے اس تاریک دور میں عہد صحابہ کو پس پشت ڈال دیا گیا اور صاحبان ایمان کی سرگرمیاں آہستہ آہستہ ختم نہیں ہوئیں بلکہ اچانک رک گئیں اسلامی ثقافت کی تصحیح کی طرف ان کے بڑھتے قدم

..............................................

1.شرح نہج البلاغہ، ج4، ص72.

۱۷۷

رک گئے آوازیں دھیمی پڑ گئیں اور بہت سے حقائق مخفی ہوگئے معاویہ اپنے اسلاف کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے سنت نبوی کی بھی روک تھام شروع کردی اس نے کہا اے لوگو! پیغمبر(ص) سے کم روایتیں بیان کرو اگر حدیث ہی بیان کرنا چاہتے ہو تو صرف وہ حدیثیں بیان کرو جو عمر کے عہد میں بیان کی جا چکی ہیں(1) بلکہ معاویہ کے در میں فتنوں کا دریا اپنی طغیانی کے نقطہ کمال تک پہونچ گیا اور سر کشی کی انتہا ہوگئی.

آپ کے ان سوالوں میں چوتھے سوال کے جواب میں میں نے اس سلسلے میں بہت کچھ عرض کیا ہے جہاں میں نے لکھا ہے کہ صحابہ امیرالمومنین(ع) کی نصرت کرتے رہے اور آپ کی شہادت کے بعد عہد اموی میں اس نصرت کی وجہ سے سزائیں بھی جھیلتے رہے.

موضوع ( من گھڑھٹ) حدیثوں کا سیلاب

یوں لگائی نقب اسلام کی دیواروں میں

مال چوری کا بکا شام کی بازاروں میں

(پیام)

پھر تو عہد اموی میں موضوع حدیث کی ایک باڑھ سی آگئی اور حکومت نے فضائل امیرالمومنین(ع) اور فضائل اہل بیت(ع) کی حدیثوں پر سختی سے روک تھام لگا دی.

میں کہتا ہوں ان سوالوں کے چوتھے نمبر کے سوال کے جواب میں موضوع حدیثوں کے بارے میں عرض کیا ہے وہیں پر یہ بھی عرض کیا ہے کہ امام ابو جعفر باقر(ع) کے ساتھ ہی مدائنی اور نفطویہ نے اس سلسلے میں کیا افادات کئے ہیں.

..............................

1.کنز العمال، ج10، ص291، حدیث29473؛ المعجم الکبیر، ج19، ص370.

۱۷۸

موضوع( جعلی) حدیثوں کے انتشار کے بعد سنت نبوی(ص) کی تدوین ہوتی ہے

تاریخ شاہد ہے کہ سنت نبوی(ص) کی تدوین عمر بن عبد العزیز کے دور ہی میں ہوئی ان کے پہلے کے بادشاہوں نے سنت کو جامد اور معطل کرنے کی کوشش کی ہے مدون کرنے کی کوشش نہیں کی ہے عمر بن عبدالعزیز کا دور موضوع حدیثوں کی اشاعت کے بہت بعد کا دور تھا ظاہر ہے کہ مولائے کائنات(ع) کی ظاہری حکومت کے پہلے بھی کافی حدیثیں گڑھی گئیں اور آپ کی حکومت کے بعد بھی بہت زیادہ حدیثیں بنائی گئیں جب ان موضوع اور جعلی حدیثوں کو دیانت دار افراد کئی مرتبہ روایت کرچکے اور لوگ ان کے حق ہونے کا یقین کرچکے بلکہ عقیدہ بنا چکے اس لئے کہ ان کا شیوع اور ان کی روایت اس کثرت سے ہوئی کہ لوگ ان کو حق ماننے پر مجبور تھے جیسا کہ امام باقر(ع) اور علامہ مدائنی نے ذکر کیا ہے تو بہت بعد میں عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا اور حکومت نے اپنی نگرانی میں سنت نبوی کی تدوین شروع کی تو نتیجہ ظاہر ہے.

فطری طور پر نتیجہ یہ نکلا

آپ خود ہی فیصلہ کر لبں کہ اس تدوین کے نتیجے میں امت کو کیا ملنا چائے کیا حقیقی سنت نبوی(ص) سے مسلمان بہرہ یاب ہوسکتا ہے عمر بن عبدالعزیز کے پہلے سنت نبی(ص) کے متعلق کتنے حقائق گذشتہ حکومتوں میں ضائع ہوچکے ہیں یا حکومت کے ہاتھوں عمدا ضائع کئے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ پر راویوں نے حسن نیت کی بنیاد پر کتنی محرف حدیثوں کو حدیث بنا کے پیش کر دیا ہے یا گمراہ کن سازشوں اور منافقین کی کارستانیوں کے ہمراہ میں کتنی تحریف شدہ حدیثیں دین میں داخل ہوچکی ہیں اس کا حساب کس کے پاس ہے، موضوع حدیثوں کے معارض کتنی حقیقی حدیثیں ہیں جن کے ذریعہ امت میں شبہ و شک کی بھر مار ہوگئی ہے اور کتنی حدیثیں وہ ہیں جو تحریف سے محفوظ ہیں اس کا جواب

۱۷۹

کون دے گا مسلمان کیسے پہچانے گا کہ ان حدیثوں میں حق کون ہے اور باطل موضوع کون ہے اور اصل کون اور لوگوں کے سامنے جب سائل آئیں گے تو وہ کس طرح عمل کریں گے اس لئے کہ عوام تو اس بات کے محتاج ہیں کہ انہیں دین کی تعلیم دی جائے اور احکام دین کی معرفت کرائی جائے پھر کس حدیث پر عمل کرنے سے عوام کو روکا جائے گا اور کس پر عمل کرنے کی ہدایت کی جائے گی؟

یہی حال ان واقعات کا ہے جو نبی(ص) کے بعد واقع ہوئے ظاہر ہے کہ نبی(ص) کے بعد جو حالات سامنے آئے ان کے بارے میں عوام الناس کے لئے سنت نبوی(ص) میں کوئی حدیث دستیاب نہیں تھی پھر وہ کس طرف رجوع کریں گے اور کس ہدایت پر عمل کریں گے.

یہ سارے مسائل تو نبی(ص) کے فوار بعد پید ہوئے تھے ابھی نبی(ص) کو گذرے ہوئے تیس سال بھی نہیں ہوئے تھے(پھر آج جب کہ چودہ سو سال ہوچکے ہیں ظاہر ہے کہ اس وقت حدیث نبوی سے حق تلاش کرنا تقریبا نا ممکن ہے) مترجم غفرلہ.

سنت نبوی(ص) کی تدوین کے بعد بہت ساری مشکلات

لیکن سنت نبوی(ص) کی تدوین کے بعد ایسا نہیں ہے کہ سیرت مقدسہ مشکلات سے آزاد ہوگئی بلکہ ہوا یہ کہ مشکلوں میں کچھ اضافہ ہی ہوا اور اس کثرت سے مسائل پیدا ہوئے کہ میں اس موضوع کو چاہے جتنا وسعت دوں ان مسائل کو پیش کرنے سے قاصر ہوں.

حدیث کی کتابیں لکھنے والوں نے بہت سی حدیثوں کی روایت تو کی لیکن اپنی کتابوں میں انہیں شامل کرنا ممنوع سمجھا ہے

1.حاملان حدیث نے بہت سی حدیثوں کو جن کی انہوں نے خود روایت کی ہے اپنی کتابوں میں تدوین کے وقت داخل نہیں کیا.

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416