ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214917 / ڈاؤنلوڈ: 4955
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف نے جو داستان فتح ابلہ کے بارے میں جعل کی ہے وہ پوری کی پوری اس کے بر خلاف ہے جو آگاہ افراد اور مؤرخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے اس کے علاوہ صحیح کتابوں میں درج شدہ چیزوں کے خلاف بھی ہے ،کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں ١٤ھ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔ہم بعد میں مناسب جگہ پر اس کی وضاحت کریں گے ۔

طبری ١٤ھ کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے جہاں شہر بصرہ کی بنا کا ذکر کرتے ہوئے ،فتح ابلہ کے بارے میں دئے گئے اپنے وعدہ پر عمل کرتا ہے اور ابلہ کی جنگ کی حقیقت

اور اس کی فتح کا ذکر کرتا ہے ۔جس میں سیف کی بیان کردہ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں

پائی جاتی ہے ۔ ٢

سند کی پڑتال

سیف کی اس داستان کے دو راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں پہلے معلوم ہوا کہ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ مقطع بن ہیثم بکائی ہے ،اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی تین روایتوں میں آیا ہے ۔ایک اور راوی حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی دوروایتوں میں آیاہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سیف نے حنظلہ کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ''اپنے جعلی صحابی '' زیاد بن حنظلہ کا ایک بیٹا بھی جعل کیا ہے ۔لہٰذا جعلی صحابی زیاد اور اس کا بیٹا حنظلہ سیف کے تخیلات کے جعلی راوی ہیں ۔

اس طرح عبد الرحمن احمری بھی ایک راوی ہے جس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی سات روایتوں میں ذکر ہو ا ہے ۔

بہر حال ہم نے بحث و تحقیق کی کہ ان راویوں کے ناموں کو طبقات ،راویوں کی سوانح حیات حتی حدیث کی کتابوں میں کہیں پا سکیں لیکن ان میں سے کسی ایک کانام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں پایا ۔ لہٰذا ہم نے موخر الذکر تین راویوں یعنی مقطع ،جنظلہ اور عبدالرحمن کو بھی محمد و مہلب کی طرح سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

۱۴۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے سپاہیوں کے تتربتر ہونے کی وجہ سے ابوبکر سے مدد طلب کی اور خلیفہ نے قعقاع بن عمر وتمیمی کی مختصر ،لیکن با معنی تعریف کرکے قعقاع کو اکیلے ہی خالد کی مدد کے لئے بھیجا۔اس قصہ کو صرف سیف نے جعل کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں کہی ہے۔

سیف نے شہر آبلہ کی فتح کو ١٢ ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانے میں خالد بن ولید مضری سے نسبت دی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شہر ابلہ کی فتح عمر کے زمانے میں ١٤ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ہم اس تحریف کے سبب کو بعد میں بیان کریں گے۔

سیف وہ تنہا قصہ گو ہے جوخالد بن ولید کو ایرانی فوج کے سپہ سالار جس کانام سیف نے ہرمز رکھا ہے کے مقابلے میں پیدل دست بدست جنگ کے لئے میدان کارزار کی طرف روانہ کرتاہے نیز ایرانیوں کی چالبازی کی حیرت انگیز داستان بیان کرتاہے اور اپنے ہم قبیلہ قعقاع بن عمرو وتمیمی کو ہر مشکل حل کرنے والے کے طور پر ظاہر کرتاہے اور اسے ایک دانا،ہوشیار ،جنگی ماہر،ناقابل شکست پہلوان،لشکر شکن بہادر اور خلفاء واصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی منظور نظر شخصیت کی حیثیت سے پہچنواتاہے اور اسے قحطانی یمنیوں کے مقابلے میں فخرو مباہات کی ایک قطعی دلیل وسند کے طور پر پیش کرتاہے۔

اس کے بعد ،سیف اپنی داستان کو ایسے راویوں کے ذریعہ نقل کرتاہے کہ وہ سب کے سب اس کے اپنے تخیلات کی مخلوق اور گڑھے ہوئے ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

۱۴۲

سیف کی حدیث کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے فتح ابلہ کی داستان کو گڑھ کر کیا ثابت اور کیا حاصل کیاہے:

١۔سیف ،داستان کے مقدمہ کو ایسے مرتب کرتاہے تاکہ خلیفہ ابوبکر کی زبانی قعقاع بن عمرو تمیمی کی تعریف وستائش کرائے اور اسے ایک عظیم ،شجاع اور بہادر کی حیثیت سے پیش کرے۔

٢۔قعقاع کے ناقابل شکست پہلوان ہونے کی خلیفہ کی پیشینگوئی اور خلیفہ سے یہ کہلوانا کہ جس فوج میں قعقاع موجود ہو وہ ہرگز شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔

٣۔عراق کے ایک شہر کوخاندان مضر کے ایک پہلوان خالد کے ہاتھوں فتح کرانا تاکہ خاندان مضر کے فضائل میں ایک اور فضیلت کااضافہ ہوجائے۔

٤۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع کے ذریعہ خالد بن ولید کو ایرانیوں کی سازش اور چالبازی سے نجات دلاکر اس کی فضیلت بیان کرنا۔

٥۔اپنے خود ساختہ راویوں میں تین جعلی راویوں ،یعنی مقطع ،حنظلہ اور عبد الرحمان کااضافہ کرنا۔انشاء اللہ آنے والی بحثوں میں اس موضوع پر مزید وضاحت کریں گے۔

۱۴۳

قعقاع ،حیرہ کی جنگوں میں

و بلغت قتلاهم فی ''الیس '' سبعین الفا

'' الیس'' کی جنگ میں قتل ہوئے ایرانی سپاہیوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی۔

( سیف بن عمر)

مذار اور ثنی کی جنگ

طبری نے فتح ''ابلہ'' کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد سیف سے یہ روایت نقل کی ہے : ١

''ہرمزنے'' ابلہ کی جنگ سے پہلے ایران کے بادشاہ سے مدد طلب کی ۔بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرکے ''قارن بن قریانس'' کی کمانڈ میں ایک فوج اس کی مدد کے لئے روانہ کی۔

جب'' ہرمز '' مارا گیا اور اس کی فوج تتر بتر ہوئی ،اس وقت قارن اپنی فوج کے ہمراہ ''المذار '' پہنچا تھا ۔قارن نے ہرمز کی منتشر اور بھاگی ہوئی فوج کو دریائے ''الثنی'' کے کنارے پر جمع کیا اور لشکر اسلام سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھا ۔دونوں سپاہیوں کے درمیان کھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔

سر انجام '' قارن '' اس جنگ میں مارا گیا اور اس کی فوج منتشر ہو گئی ۔اس جنگ میں دریا میں غرق ہوئے افراد کے علاوہ ایرانی فوج کے تیس ہزار سپاہی کام آئے ۔اس طرح ایرانیوں کو زبردست شکست کا سامنا ہوا''

۱۴۴

ولجہ کی جنگ

سیف نے جنگ ''ولجہ '' کے بارے میں یوں بیان کیا ہے :

''جب ''المذار ''(۱) اور ''الثنی'' میں ایرانیوں کی شکست کی خبر ایران کے بادشاہ کو پہنچی تو اس نے ''اندرزگر'' کو کہا کہ اس علاقہ کے عرب سپاہیوں اور ایرانی کسانوں کو جمع کرکے نئی فوج تشکیل دے اور خالد بن ولید سے جنگ کرنے کے لئے جائے اس کے علاوہ ''بہمن جادویہ '' کو بھی اس کی مدد کے لئے بھیجا ۔جب یہ خبر خالد کو پہنچی تو وہ فوری طور پر ''ولجہ'' پہنچا اور ایرانی فوج سے بنرد آزما ہوا ۔یہ جنگ ''الثنی'' کی جنگ سے شدید تر تھی اس نے اس جنگ میں ایرانی سپاہیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ''اندرزگر '' میدان جنگ سے بھاگ گیا اور فرار کے دوران پیاس کی شدت سے مرگیا''

سیف کہتا ہے :

'' خالد نے اس جنگ میں ایک ایسے ایرانی سپاہی سے جنگ کی جو تنہا ایک ہزار سپاہیوں کا مقابلہ کر سکتا تھا ۔اس ایرانی پہلوان کو خالد نے قتل کر ڈالا!اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ٹیک لگا کر اسی جگہ ،یعنی میدان جنگ میں اپنے لئے کھانا منگوایا ۔یہ جنگ ١٢ھ کے ماہ صفر میں واقع ہوئی کہا گیا ہے کہ ''ولجہ'' خشکی کے راستے ''کسکر '' کے نزدیک ہے ''

____________________

۱)۔ حموی لکھتا ہے : ''قصبہ ''المذار'' ''میسان'' کے علاقہ میں واقع ہے یہ قصبہ ''واسط'' اور ''بصرہ'' کے درمیان ہے ۔بصرہ سے وہاں تک چاردن کا سفر ہے ۔یہاں پر عبداللہ بن علی بن ابیطالب کی قبر ہے ۔یہاں کے لوگ شیعہ ،احمق اور حیوان صفت تھے عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے بصرہ کے فتح کرنے کے بعد اس جگہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

۱۴۵

یہ مطلب حموی کے شیعوں کی نسبت تعصب کا ایک نمونہ ہے ۔

'' الیس'' کی جنگ

سیف نے ''الیس '' کی جنگ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''عرب عیسائی اور دیگر عرب سپاہی '' ولجہ'' کی جنگ میں اپنے مقتولین کی تعداد کو لے کر سخت غصہ میں آگئے تھے ۔اس شکست کی وجہ سے انھوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار ایرانیوں سے کیا نتیجہ کے طور پر '' جابان'' اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے نکلا اور ''الیس '' میں ان سے ملحق ہوا ۔دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اس دوران ایران سے مزید مدد آنے کی امید میں ''جابان'' کے سپاہیوں کی مزاحمت میں جب شدت پیدا ہوئی تو خالد نے غصہ میں آکر قسم کھائی کہ اگر ان پر غلبہ پائے تو ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور دریائے ''الیس '' کو ان کے خون سے جاری کردے گا ۔سر انجام جب خالد نے ان پر فتح پائی تو حکم دیا کہ تما اسیروں کو ایک جگہ جمع کریں اور کسی ایک کو قتل نہ کریں ۔خالد کے سپاہی فراریوں کو پکڑ نے اور اسیر وں کو جمع کرنے کے لئے ہر طرف دوڑ پڑے ۔سوار وں نے اسیروں کو گروہ گروہ کی صورت میں جمع کرکے خالد کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے بعد خالد نے حکم دیا کہ کچھ مرد معین کئے جائیں اور اسیروں کو دریامیں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کریں تاکہ خون کا دریا جاری ہو جائے ۔ ایک دن اور ایک رات گزری دوسرا اور تیسرا دن بھی یوں ہی گزرا ۔اسیروں کو لا کر دریا میں سر تن سے جد اکرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔لیکن پھر بھی خون کا دریا جاری نہیں ہو ا اس موقع پر قعقاع اور اس کے جیسے بعض پہلوانوں نے خالد سے کہا : جب سے آدم کے بیٹے کا خون زمین پر گر کر جم گیا تھا تب سے اس خون کا زمین پر جاری ہونا بند ہو گیا ہے ۔اب اگر آپ انسانی خون کا دریا جاری کرکے اپنی قسم پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس خون پر پانی جاری کر دیجئے تاکہ خون نہ جمنے پائے ۔اس واقعہ سے پہلے بند باندھ کر دریا کا پانی روک دیا گیاتھا ۔لہٰذا مجبورا ًبند کو ہٹادیا گیا پانی خون پر جاری ہوا اور اس طرح خونی دریا وجود میں آگیا ۔اس خونی دریا کے ذریعہ پن چکیاں چلیں جس کے ذریعہ خالد کے اٹھارہ ہزار سے زائد سپاہیوں کے لئے حسب ضرورت آٹا مہیا کیا گیا تین دن ورات یہ پن چکیاں خون کے دریا سے چلتی رہیں ۔اس لئے اس دریا کو دریائے خون کہا گیا''

۱۴۶

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خونی دریا ستر ہزار انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا ،تاکہ ایک ہٹ دھرم سپہ سالار ،خالد مضری کی قسم پوری ہو جائے !!

حیرہ کی دوسری جنگیں

اس کے بعد طبری حیرہ کے اطراف میں خالد کی کمانڈمیں واقع ہوئی بعض بڑی جنگوں کے بارے میں نقل کرتے ہوئے سیف کی بات کو یوں تمام کرتا ہے : ٢

اور سیف نے لکھا ہے کہ قعقاع نے حیرہ کی جنگوں کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

''خدائے تعالیٰ دریائے فرات کے کنارے پر قتل شدہ اور نجف میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہمارے افراد پر اپنی رحمت نازل کرے ''

'' ہم نے سرزمین ''کاظمین '' میں '' ہرمزان '' کو شکست دے دی اور دریائے ثنی کے کنارے پر ''قارن '' کے سینگ اپنے چپو سے توڑ دئے ۔جس دن ہم حیرہ کے محلوں کے سامنے اترے ان پر شکست طاری ہو گئی ۔اس دن ہم نے ان کو شہر بدر کر دیا اور ان کے تخت و تاج ہمارے ڈر سے متزلزل ہو گئے ۔ہم نے اس دن جان لیوا تیروں کو ان کی طرف چھوڑا اور رات ہوتے ہی انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔یہ سب اس دن واقع ہو ا جب وہ دعویٰ کرتے تھے کہ : ہم وہ جواں مرد ہیں جو عربوں کی زرخیز زمین پر قابض ہیں ''

سیف کاا ن اشعار کو بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ قعقاع بن عمرو تمیمی ،خالد بن ولید کے ہمراہ علاقہ ''حیرہ'' کے میدان جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری پر ناز کرتا ہے ،اور فخر کرتا ہے کہ اس نے ''کاظمین '' کی جنگ میں ''ہرمز '' سے ''الثنی'' میں ''قارن'' سے اور حیرہ میں عرب کے عیسائیوں اور کسریٰ کے محلوں کے محافظوں سے جنگ کی ہے اور عربوں کی زرخیز زمینوں کو ان کے تسلط سے آزاد کیا ہے ۔

۱۴۷

یہ روایتیں کہاں تک پہنچی ہیں ؟

یہ وہ مطالب تھے جن کی روایت طبری نے علاقہ ''حیرہ'' میں خالد بن ولید کی جنگوں کے سلسلے میں سیف بن عمر سے نقل کی ہے اور طبری کے بعد ابن اثیر اور ابن خلدون نے ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔اس کے علاوہ ابن کثیر نے بھی طبری اور براہ راست سیف بن عمر سے نقل کرکے اس کی اپنی تاریخ میں تشریح کی ہے ۔

حموی نے بھی الثنی کے بارے میں اپنی معلومات کو براہ راست سیف سے لیا ہے ۔وہ لغت ''الثنی'' کی تشریح میں لکھتا ہے :

'' الثنی کی جنگ ایک مشہور جنگ ہے جو خالد بن ولید اور ایرانیوں کے درمیان بصرہ کے نزدیک واقع ہوئی اور یہی جنگ تھی جس میں قعقاع بن عمر و نے درج ذیل

شعر کہا ہے :

سقی الله قتلی بالفرات مقیمه تا

وبالثنی قرنی قارن بالجوارف

اس کے علاوہ سیف سے ''الولجہ'' کے بارے میں نقل کرتے ہوئے تشریح کرتا ہے :

''ولجہ سر زمین کسکر اور صحرا کے کنارے پر واقع ہے خالد بن ولید نے ایرانی فوج کو وہاں پر شکست دی تھی یہ مطلب کتاب '' فتوح'' میں ١٢ھ کے حوادث میں درج ہو ا ہے اور قعقاع بن عمر و نے اس جنگ میں کہا:

''میں نے شجاعت اور بہادری میں اس قوم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جس قوم کو میں نے صحرائے ولجہ میں دیکھا ۔میں نے اس قوم کے مانند کسی کو نہیں دیکھا جس نے اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہو اور ان کے مامور پہلونوں کو ہلاک کر دیا ہو''

یہ مطالب تھے جن میں حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھا ہے اور عبد المؤمن نے ''ثنی '' اور ''ولجہ'' کی تشریح میں اس سے نقل کرکے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں درج کیا ہے ۔

۱۴۸

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ

بلاذری '' المذار '' کے بارے میں لکھتا ہے :

'' مثنی بن حارثہ نے ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ''المذار '' کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دے دی ۔عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے ''المذار '' پر حملہ کیا اور وہاں کے سرحدبان نے اس کا مقابلہ کیا اس جنگ کے نتیجہ میں خدا نے سرحدبان کی فوج کو شکست دے دی اور وہ سب کے سب دریا میں غرق ہو گئے اور عتبہ نے سرحدبان کا سر تن سے جدا کیا'' ٣

ولجہ اور الثنی کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کی کوئی روایت نہیں پائی کہ اس کا سیف کی روایت سے موازنہ کرتے:

''الیس ''کے بارے میں بلاذری لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید اپنی فوج کو '' الیس '' کی طرف لے گیا اور ایرنیوں کا سردار ''جابان '' چوں کہ خالد کے اندیشہ سے آگاہ ہوا ،اس لئے خود خالد کے پاس حاضر ہوا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ ا لیس کے باشندے ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ میں مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے'' ٤

خون کے دریا کا قصہ

دریائے خون کا قصہ اور خالد بن ولید کی قسم کے بارے میں ابن درید نے اپنی کتاب اشتقاق میں یوں لکھا ہے :

''منذر اعظم جس دن خاندان بکر بن وائل کے افراد کو بے رحمی سے اور دردناک طریقہ سے قتل کر رہا تھا اور انھیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر ان کا سر تن سے جدا کرتا تھا ،اس نے قسم کھائی تھی کہ اس خاندان کے اتنے افراد کو قتل کرے گا کہ ان کا خون بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچ جائے !لیکن بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود خون پہاڑ کے نصف راستہ تک بھی نہیں پہنچا اس امر نے منذر کو سخت غضبناک کر دیا آخر حارث بن مالک نے منذر سے کہا : آپ سلامت رہیں !اگر آپ زمین پر موجود تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے جب بھی ہرگز خون پہاڑ کے دامن تک نہیں پہنچے گا۔ خون پر پانی ڈالنے کا حکم دیجئے تاکہ خون آلود پانی پہاڑ کے دامن

۱۴۹

تک بہنچ جائے ۔

حارث کی راہنمائی مؤثر ثابت ہوئی اور پانی ڈالنے کے بعد خون آلود پانی بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچا اور منذر کی قسم پوری ہو گئی ۔اس پر حارث کو '' وصاف '' کا لقب ملا'' ٥

سیف زمانہ جاہلیت کی اس بھونڈی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو پسند کرتا ہے اور اسی کے مانند ایک داستان کو قبیلۂ مضر کے فخر ومباہات کی سند کے طور پر جعل کرنے کے لئے موزوں سمجھتاہے لہذاخالد بن ولید مضری کواس داستان کاکلیدی رول اداکرنے کے لئے مناسب سمجھتا ہے اور منذر اعظم کے ہاتھوں خاندان بکر بن وائل کے بے گناہ افراد کے قتل عام کی داستان کو بنیاد بنا کر ''الیس''میں ستر ہزار اسیر انسانوں کا قتل عام کرکے خون کا دریا بہانے کی ایک داستان جعل کرتا ہے تاکہ اس لحاظ سے بھی مضر ونزار کے خاندان منذر اعظم سے پیچھے نہ رہیں !!

سند کی جانچ پڑتال :

سیف نے عبدالرحمان بن سیاہ محمد بن عبداللہ اور مہلب کو جنگ''الیس ''کے راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ زیاد بن سر جس احمری بھی اس کا ایک راوی ہے سیف کے اس راوی سے ٥٣احادیث تاریخ طبری میں ذکر ہوئی ہیں چوں کہ ہم نے اس زیاد کا نام بھی سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے جعلی راوی کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے بعض دیگر مجہول اور غیر معروف اشخاص کا نام بھی بعنوان راوی ْْْْذکر کیا ہے اور بعض مشتر ک ناموں کو بھی راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے جن کی تحقیقات

کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۱۵۰

تحقیقات کا نتیجہ :

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''الثنی'' اور ''الولجہ '' کی جنگوں کی روایت کی ہے اور طبری نے ''الثنی ''اور ''الولجہ '' کی جنگوں کے مطالب اسی سے لئے ہیں اور طبری کے بعد والے تمام مؤرخین نے ان مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

یا قوت حموی نے سیف کی داستان کا ایک مختصر حصہ الثنی کی تشریح میں مصادر کا ذکر کئے بغیر اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں درج کیا ہے لیکن الولجہ کی تشریح میں سیف کی کتاب '' فتوح'' کا اشارہ کرتے ہوئے اس داستان کا ایک حصہ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لگتا ہے ابن خاضیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف ابن عمر کی کتاب ''فتوح '' کا ایک حصہ حموی کے پاس تھا انشاء اللہ مناسب موقع پر ہم اس کی وضاحت کریں گے ۔

''المذار ''اور ''الیس'' نامی جگہوں کی تاریخی حقیقت سے انکار نہیں ہے لیکن سیف نے ان دو جگہوں کے فتح کئے جانے کے طریقہ میں تحریف کی ہے جس شخص نے سب سے پہلے ''المذار '' میں جنگ کرکے فتح حاصل کی وہ '' المثنی '' تھا اور دوسری بار ''المذار'' ''عتبہ بن غزوان'' کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس نے وہاں پر سر حد بان کا سر تن سے جد ا کیا تھا ۔

ہم نے ''الیس'' کی جنگ میں دیکھا کہ خالد نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ اس شرط پر صلح کا معاہدہ کیا کہ وہاں کے باشندے مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے اور ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں گے لیکن سیف نے اس صلح کو ایک خونین تباہ کن اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی جنگ میں تبدیل کرکے اس میں تحریف کی ہے اور صرف اس جنگ میں ستر ہزار اسیروں کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے دکھایا ہے تاکہ انسانی خون کا دریا بہے اور تین دن و رات تک اس خونی دریا سے پن چکیاں چلیں تاکہ ١٨ہزار سے زائد اسلامی فوج کے لئے آٹا مہیا ہو سکے ۔

سیف کا ایسا افسانہ گڑھنے سے کیا مقصد تھا ؟ کیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خاندان مضر کے فخر و مباہات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرے ؟ یا اس کے علاوہ اور بھی کوئی مقصد تھا تاکہ اس کے ذریعہ دوسروں کو یہ سمجھائے کہ اسلام تلوار کی دھار سے خون کے دریا بہا کر پھیلا ہے، ملتوں کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے اور اپنے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں نہیں پھیلا جب کہ حقیقت یہی ہے ۔

۱۵۱

سیف کی حدیث کا نتیجہ

١۔ '' قارن بن قریانس''نام کے ایک سپہ سالار کو جعل کرنا ۔

٢۔'' الثنی '' اور '' الولجہ'' نام کی جگہیں جعل کرنا تاکہ مقامات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں یہ جگہیں درج ہو جائیں ۔

٣۔ مہلب ، ابو عثمان بن زید زیاد بن سرجس اور عبد الرحمن بن سیاہ نام کے چار اصحاب جعل کرکے اسلام کے راویوں میں ان کا اضافہ کرنا ۔انشا اللہ ہم اسی کتاب میں ان کی تفصیلات بیان کریں گے۔

٤۔ ادبی آثار کو زینت بخشنے والے ایک قصیدہ کی تخلیق ۔

٥۔ ایک ہزار سوار کی طاقت کے برابر ایک ایرانی پہلوان کا خالد کے ہاتھوں قتل ہونا اور خالدکا اس کی لاش سے ٹیک لگا کر میدان جنگ میں کھانا کھانا تاکہ اس افسانے کے حیرت انگیز منظر کے بارے میں سن کر اپنے اسلاف و اجداد کے فضائل ومناقب سننے کا شوق رکھنے والوں کو خوش کر سکے ۔

٦۔ اسیر ہونے والے تمام انسانوں کا مسلسل چند دن ورات تک سر تن سے جدا کرکے قتل عام کرنا ۔

٧۔ خون کے دریا سے تین دن ورات تک چلنے والی پن چکیوں کے ذریعہ اسلام کے ١٨ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لئے گندم پیس کر آٹا تیار کرنا۔

٨۔''الثنیٰ'' کے میدان میں تیس ہزار اور ''الیس''میں ستر ہزار اور سب ملاکر غرق ہوئے افراد کے علاوہ اسلامی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام ہونا۔

٩۔قعقاع جیسے ناقابل شکست پہلوان کی کرامت دکھانا کہ اگر وہ اور اس جیسے افراد نہ ہوتے اور مداخلت نہ کرتے تو سیف کے کہنے کے مطابق خدابہتر جانتا ہے کہ خالد انسانوں کے سر تن سے جد ا کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رکھتا !! حقیقت میں یہ وہی چیز ہے جس کو سننے کے لئے اسلام کے دشمنوں کے کان منتظر رہتے ہیں ، اور وہ یہ سننے کی تمنا رکھتے ہیں کہ اسلام اپنے دشمنوں سے جنگ کے دوران بے رحمی سے قتل عام کرنے کے بعد پھیلا ہے تاکہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کو تلوار کے سایہ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور ملتوں کا اپنی مرضی سے اسلام کی طرف مائل ہونا اسلام کے پھیلنے کا سبب نہیں بنا ہے کیا اس غیر معمولی افسانہ ساز سیف نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اسلام کے دشمنوں کی اور اپنی دیرینہ آرزوکو پورا نہیں کیا ہے ؟

۱۵۲

قعقاع ،حیرہ کے حوادث کے بعد

مفخرة تضاف الی مفاخر بطل تمیم القعقاع

سقعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ

(مولف)

صلح '' بانقیا'' کی داستان

طبری نے ''حیرہ کے بعد کے حوادث ''کے عنوان کے تحت سیف سے حسب ذیل روایت نقل کی ہے:

''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں نے خالد ابن ولید کے ساتھ ایک صلح کے تحت معاہدہ کیا کہ مسلمان اس شرط پر ان سے جنگ نہ کریں گے کہ وہ دربار کسریٰ کو اد اکئے جانے والے خراج کے علاوہ خالد کو دس ہزار دینار ادا کریں گے۔خالد نے مذکورہ باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور قعقاع بن عمرو تمیمی اور چند دیگر افراد کو اس پر گواہ قرار دیا''۔

اس کے بعد طبری نے یوں لکھاہے:

''جب خالد ''حیرہ''سے فارغ ہوا توعراقی علاقوں سے ہرمز دگرد تک سرحد بانوں نے بھی ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کی طرح ،دربار کسریٰ کو ادا کئے جانے والے خراج کے علاوہ بیس لاکھ درہم اور سیف کی ایک دوسری روایت کے مطابق دس لاکھ درہم خالد کو ادا کرنا قبول کئے ۔خالد نے اس پر ایک معاہدہ نامہ لکھا اور قعقاع وچند دیگر اشخاص کو گواہ قرار دیا ۔

اس کے بعد سیف کہتاہے :

''خالد بن ولید اسلامی فوج کاسپہ سالار تھا ۔اس نے دیگر شخصیتوں کو مختلف عہدوں پر فائز کرنے کے ضمن میں قعقاع بن عمرو کو سرحدوں کی حکمرانی اور کمانڈسونپی ۔خالد نے خراج دینے والوں کے لئے لکھی گئی رسید میں قعقاع کو گواہ کے طور پر مقرر کیا''

۱۵۳

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

ان تمام روایتوں کو طبری نے سیف کے حوالے سے ذکر کیاہے ،اس کے بعد ابن اثیر ،ابن کثیر ،اور ابن خلدون جیسے مؤرخوں نے ان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔اسی طرح کتاب ''الوثائق السیاسة''کے مؤلف نے مذکورہ تین عہد ناموں کو اسلامی سیاسی اسناد کے طور پر اپنی مذکورہ کتاب میں درج کیاہے ۔ ١

لیکن سیف کے علاوہ دیگر تاریخ دانوں نے ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کے صلح نامہ کو ہزار درہم کی بنیاد پر لکھاہے،نہ کہ دس ہزار دینار!اور قعقاع کے نام اور اس کی گواہی کا ذکر تک نہیں کیاہے۔اس کے علاوہ عراقی علاقوں سے ہر مزدگرد تک کی سرزمینوں کے بارے میں صلح کانام ونشان تک نہیں ملتا،بلکہ اس کے برعکس لکھا گیاہے ۔

'' ''حیرہ''،''الیس''اور ''بانقیا''کے علاوہ کسی اور شہر کے باشندوں سے کوئی معاہدہ نہیں ہواہے ۔اسی طرح سرحدوں پر سرداروں کو معین کرنے یاخراج دینے والوں کو بری کئے جانے پر قعقاع کی گواہی کا کوئی ذکر نہیں ملتا ''٢

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

''ابوبکر نے خالد بن ولید کو عراق کے جنوبی علاقوں کا مأمور مقرر کیا اور عیاض بن غنم کو شمالی علاقوں کی ماموریت دی۔خالد نے اپنی مأموریت میں عراق کے جنوبی علاقوں کو وسعت بخشی۔لیکن عیاض ایرانیوں کے محاصرہ میں آگیا اور مجبور ہوکر خالد سے مدد کی درخواست کی ۔خالد نے حیرہ میں قعقاع کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود عیاض کی مدد کے لئے عراق کے شمال کی طرف روانہ ہوا ۔دوسری طرف ایرانیوں اور قبائل ربیعہ کے عربوں نے مسلمانو ں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ''حصید''کے مقام پر اپنی فوج کی لام بندی کی تھی۔ اس علاقہ کے مسلمانوں نے ان سے نجات پانے کے لئے قعقاع سے مدد کی درخواست کی اور قعقاع نے ان کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی ۔جب خالد واپس''حیرہ''پہنچا تو اس نے قعقاع کو ''حصید''میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں اور جزیرہ کے عربوں سے لڑنے کے لئے روانہ کیا۔قعقاع نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی ۔یہ جنگ دشمنوں کی شکست پر تمام ہوئی ۔ ''روز مہر''نام کا ایرانی سپہ سالار ماراگیااور ''روز بہ''بھی عصمة بن عبد اللہ کے ہاتھوں قتل ہوا''

۱۵۴

طبری اور سیف سے نقل کرنے والے مؤرخین

طبری نے ان مطالب کو سیف سے نقل کرکے لکھا ہے ۔اس کے بعد ''ابن اثیر،ابن کثیر'' اور ابن خلدون نے ان روایتوں کو طبری کے حوالے سے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔

ہم نے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' میں طبری اور اس کی تاریخ کے بارے میں عالم اسلام کے مذکورہ تین عظیم مورخوں کے نظریات بالترتیب حسب ذیل ذکر کئے ہیں :

١۔ ابن اثیر اپنی بات یوں شروع کرتا ہے :

'' جو کچھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ سے متعلق ہے ،ہم نے اسے کچھ گھٹائے بغیر نقل کیا ہے ''

٢۔ ابو الفدایوں کہتا ہے :

'' ہم نے ابن اثیر کی بات کو نقل کیا ہے اور اس کی تاریخ کوخلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے''

٣۔ ابن خلدون لکھتا ہے :

'' خلافت اسلامیہ سے متعلق مطالب اور جو کچھ ارتداد کی جنگوں اور فتوحات سے مربوط ہے مختصر طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ''

٤۔لیکن ابن کثیر ،اکثر اپنی روایتوں کے مآخذ یا مآخذ کے بارے میں کہ طبری ہے کا صراحتا ذکر کرتا ہے یا بعض مواقع پر براہ راست سیف کا نام لیتا ہے اور اسے اپنی داستان کی سند کے طور پر پیش کرتا ہے ۔

حموی ،سیف کی اس داستان پر اعتبار کرتا ہے اور ''حصید '' کا نام لیتے ہوئے لکھتا ہے :

'' حصید '' کوفہ و شام کے درمیان ایک صحراہے ،یہاں پر ١٣ھ میں قعقاع بن عمر و نے ایرانی فوجوں اور ربیعہ وتغلب کے عربوں کے ساتھ گھمسان کی جنگ کی اور ایرانی فوج کے دو سردار ''روزمہر '' اور ''روزبہ'' مارے گئے اور قعقاع نے اس جنگ میں رزم نامہ اس طرح کہا ہے :

'' اسماء(۱) کو خبر دو کہ اس کا شوہر ایرانی سردار'' روزمہر '' کے بارے میں اس دن

____________________

۱)۔عربوں میں رسم تھی کہ جنگوں میں رزم نامہ پڑھتے ہوئے اپنی بہن یا بیوی کا نام لیتے تھے اور اپنے افتخارات بیان کرتے تھے ۔

۱۵۵

اپنی آرزو کو پہنچا ،جب ہم ہندی تلواروں کو نیام سے نکال کر ان کی فوج پر حملہ آور ہوکر ان کے سر تن سے جدا کر رہے تھے ''

یہ سب کچھ سیف نے کہا ہے اور طبری نے اس سے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بعد میں طبری سے نقل کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عیاض ،خالد کے ساتھ عراق کی ماموریت پر تھا بلکہ اس کے بر خلاف اس کا ابوعبید کے ساتھ شام میں ہونا ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف ''حصید'' نامی مقام اور وہاں پر جنگ کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نام ونشان تک نہیں پایا۔

سند کی پڑتال

سیف نے مذکورہ حدیث ،محمد مہلب اور زیاد سے روایت کی ہے ۔ان کے بارے میں پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ تینوں راوی سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ غصن بن قاسم نام کے ایک اور راوی سے بھی روایت کی ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے ١٣،احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

اسی طرح ابن ابی مکنف نام کے ایک اور شخص کا نام بھی لیا ہے ۔

موخّر الذکر دونوں راویوں کے نام بھی ہم نے طبقات اور راویوں کی فہرست میں کہیں نہیں پائے ۔

آخر میں سیف نے اس داستان کے بانچویں راوی کے طور پر بنی کنانہ کے ایک شخص کو پیش کیا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اپنے خیال میں اس شخص کا نام کیا رکھا تھا تاکہ ہم اس کی بھی تلاش کرتے !۔

اس اصول کے تحت ہمیں حق پہنچتا ہے کہ مذکورہ بالا راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کریں ۔

۱۵۶

اس حدیث کے نتائج

١۔تین فوجی معاہدوں اور ایک صلح نامہ کو سیاسی اسناد کے طور پر پیش کرنا۔

٢۔ ''حصید'' نام کی ایک جگہ کو تخلیق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٣۔ ایسے اشعار کی تخلیق کرنا جو ادبیات کی کتابوں درج ہو جائیں ۔

٤۔خاندان تمیم کے سورما ،قعقاع بن عمرو کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا ۔

یہ سب اپنی جگہ پر لیکن وہ کون سا سبب تھا جس نے سیف کو یہ کام انجام دینے پر مجبور کیا کہ ابو عبیدہ کے ہمراہ شام میں جنگ میں مصروف '' عیاض'' کو خالد کے ساتھ عراق پہنچادے ؟!اگر زندیقی ہونے کے سبب یا کسی اور چیز نے اسے ایسا کرنے پر مشتعل نہیں کیا کہ وہ اسلام کی تاریخ میں تحریف کرے ،تو اور کیا سبب ہو سکتا ہے ؟!

۱۵۷

قعقاع ،مصیخ اور فراض میں

وبلغ قتلاهم فی المعرکة والطلب مائة الف

''جنگ فراض میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی''

(سیف)

مصیخ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

'' ایرانی اور مختلف عرب قبیلوں نے ''حصید '' میں شکست کھانے کے بعد '' احنافس'' سے پسپائی اختیار کرکے ''حوران '' و ''قلت'' کے درمیان واقع ایک جگہ '' مصیخ'' میں اپنی منتشر فوج کو پھر سے منظم کیا جب اس فوج کے ''مصیخ '' میں دوبارہ منظم ہونے کی خبر خالد کو ملی ،تو اس نے قعقاع ،ابی لیلیٰ بن فدکی ا عبد بن فدکی اور عروہ بن بارقی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ذہن نشین کرایا کہ فلاں شب فلاں وقت پر اپنی فوج کو لے کر '' مصیخ '' کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پر اس جگہ حاضر ہوئے انھوں نے تین جانب سے دشمن پر شب خون مارا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیئے ۔ لوگوں نے اس قتل عام کے مناظر کی بھیڑ بکریوں کی لاشوں پر لاشیں گرنے سے تشبیہ دی ہے !!''

وہ مزید لکھتا ہے :

'' دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں عبد الغزی نمری اور ولید بن جریر بھی موجود تھے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی گواہی کے طور پر ابوبکر کا خط بھی ان کے پاس موجود تھا یہ دونوں بھی اس جنگ میں قتل کئے گئے ۔ان کے مارے جانے کی خبر ابوبکر کو پہنچی اور خاص کر یہ خبر کہ عبد الغزی نے اس شب تین جانب سے ہونے والے حملہ کو دیکھ کر فریاد بلند کی تھی کہ : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا تو پاک و منزہ ہے !'' چوں کہ یہ دونوں بے گناہ مارے گئے تھے اس لئے ابوبکر نے ان کی اولاد کو ان کا خون بہا ادا کیا ۔ عمر نے ان کے مارے جانے اور اسی طرح مالک بن نویرہ کے قتل کے بارے میں خالد پر اعتراض کیا اور اس سے ناراض ہو گئے اور ابوبکر ،عمر کی تسلی کے لئے یہی کہتے تھے '' جو بھی فوج کے درمیان رہے گا اس کا یہی انجام ہوگا!''

۱۵۸

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

حموی نے سیف کی روایت کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا ہے اور '' مصیخ'' کے بارے میں سیف کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے اور اسے ایک واقعی جگہ کے طور پرپیش کیاہے اور لکھتاہے :

'' مصیخ '' حوران اور قلت'' کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں پر خالد بن ولید اور خاندان تغلب کے درمیان جنگ ہوئی تھی ''

اسی کے بعد لکھتا ہے :

'' قعقاع نے اس جنگ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

'' مصیخ کی جنگ میں خاندان تغلب کے کارناموں کے بارے میں ہم سے پوچھو !کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں ؟ جب ہم نے ان پر شب خون مارا تو اس کے نتیجہ میں ان کا صرف نام ہی باقی رہا ۔ ''ایاد''اور ''نمور''(۱) کے قبیلے بھی خاندان تغلب کے دوش بدوش تھے اور وہ بھی ان باتوں کو جوان کے وجود کو لرزہ بر اندام کئے دے رہی تھیں سن رہے تھے''

آپ ان مطالب کو صرف سیف کے افسانوں میں پاسکتے ہیں ۔دیگر لوگوں نے ''مصیخ '' اور اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ تک نہیں کیاہے ۔کیوں کہ وہ حقیقت لکھنے کی فکر میں تھے نہ کہ افسانہ سازی میں ۔

سند کی پڑتال:

''مصیخ بنی البرشائ'' کے بارے میں سیف کی حدیث ''حیرہ'' کے واقعات کے بعد اور ان ہی حوادث کا سلسلہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی سند بھی وہی ہے جو ''حیرہ'' کے بارے میں بیان ہوئی ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ تاریخ دانوں نے اس قصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے تاکہ ہم ان کے اور سیف کے بیان کے درمیان موازنہ و بحث کریں ،بلکہ یہ تنہا سیف ہے جس نے یہ روایت جعل کی ہے ،اور انشاء اللہ ہم جلد ہی اس کے جھوٹ اور افسانہ نویسی کے سبب پر بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱)۔ سیف نے ایسا خیال کیا ہے کہ ایاد ،نموراور تغلب کے قبیلوں نے ایک دوسرے کے دوش بدوش جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۱۵۹

داستان مصیخ کے نتائج :

١۔ '' مصیخ بنی البرشائ'' نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا جاسکے ۔

٢۔ عبد ابن فدکی اور اس کے بھائی ابو لیلیٰ نام کے دو صحابی جعل کرنے کے علاوہ '' نمری'' نام کے ایک اور صحابی کو جعل کرنا جسے ابوبکر نے عبداللہ نام دیا ہے تاکہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے افسانوں کے مطابق درج ہوں ۔

٣۔ افسانوی سورما قعقاع کے اشعار بیان کرنا۔

٤۔ ایک خونیں اور رونگٹے کھڑے کرنے والی جنگ کی تخلیق کرنا تاکہ میدان میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی کشتوں کے پشتے لگتے دکھائے جائیں جس سے ایک طرف اپنے اسلاف کے افسانے سننے کے شوقین اور دوسری طرف اسلام کے دشمنوں کے دل شاد کئے جائیں اور اس قسم کی چیزیں سیف کے افسانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں !

فراض کی جنگ

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

''واقع مصیخ کے بعد تغلب کے بھگوڑ ے''دارالثنی''اور ''زمیل''میں جمع ہوئے اور خالد بن ولید نے قعقاع کے ہمراہ ان پر وہی مصیبت توڑی جو مصیخ میں رو نما ہوچکی تھی۔''

اس کے بعد لکھتاہے:

''خالد ،شام اور عراق کی سرحد پر واقع ''فراض ''کی طرف روانہ ہوا ۔سیف کہتاہے :رومی مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایرانی سرحد بانوں سے اسلحہ اور مدد حاصل کی اور مختلف عرب قبیلوں ،جیسے تغلب ،ایاد اور نمر سے بھی مدد طلب کی اس طرح ایک عظیم فوج جمع کر کے خالد بن ولید کے ساتھ ایک لمبی مدت تک خونیں جنگ لڑی ۔ سرانجام اس جنگ میں رومیوں نے شکست کھائی اور سب کے سب میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔خالد نے حکم دیا کہ بھاگنے والوں کے سر تن سے جدا کئے جائیں ۔ خالد کے سوار ،فراریوں کو گروہ گروہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کرکے ان کا سر تن سے جدا کرتے تھے ۔اس طرح مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔''

۱۶۰

پھر حضرت علی ـ ان افراد کے تبلیغاتی ہتھکنڈوں کو قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: وہ لوگ لوگوں کی توجہ اور دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے لوگوں کو گناہان کبیرہ اور ان کے برے انجام سے محفوظ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے ا نجام دینے کی تشویق کرتے ہیں اور جرائم و معاصی کے ارتکاب کو لوگوں کی نظر میں آسان اور بے اہمیت بنادیتے ہیں۔

یہ لوگ حقیقت میں ان حرمت شکنیوں کے ذریعہ لوگوں میں دینی غیرت اور خدا ترسی کے جذبہ کو کمزور کردیتے ہیں۔

حضرت علی ـ فرماتے ہیں: یہ لوگ بحث و گفتگو میں ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ ہم شبہات کے مواقع پر توقف کرتے ہیں اور مشکوک و مشتبہ احکام اور باتیں کہنے سے پرہیز کرتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ دین و شریعت کے احکام و موازین سے بے خبر اور شبہات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔

باتوں میں اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ ہم خلاف دین احکام اور بدعتوں سے الگ رہتے ہیں، حالانکہ بدعتوں ہی کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں چنانچہ دین کے بارے میں وہ جو بات اپنی رائے سے کہتے ہیں، وہ بدعت ہے۔

ایسے انسان اگر چہ صورت میں انسان ہیں لیکن ان کا قلب و روح جانوروں کا قلب و روح ہے، کیونکہ یہ نہ تو باب ہدایت کو پہچانتے ہیں کہ اس کا اتباع کر کے ہدایت یافتہ ہو جائیں، اور نہ ضلالت و گمراہی کے دروازے کو پہچانتے ہیں کہ اس سے الگ رہیں، یہ افراد در حقیقت زندوں کے درمیان چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔

۱۶۱

پھر حضرت علی ـ لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: حق و باطل واضح ہو جانے اور ہر ایک کو پہچاننے کے بعد آخر تم لوگ کدھر جارہے ہو اور تمھیں کس سمت موڑا جارہا ہے؟ جبکہ حق کے عَلَم قائم ہیں اور اس کی آیات اور نشانیاں واضح ہیں، منارے نصب کئے جاچکے ہیں اور تمھیں بھٹکایاجارہا ہے اور تم بھٹکے جارہے ہو، دیکھو تمھارے درمیان تمھارے نبی کی عترت (اہلبیت) موجود ہے، یہ سب حق کے زمامدار، دین کے عَلَم اور صداقت کی زبان ہیں، انھیں قرآن کریم کی بہترین منزل پر جگہ دو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے اونٹ چشمہ پر وارد ہوتے ہیں۔

تمھیں اہلبیت رسول کے انوار ہدایت سے روشنی حاصل کرنا چاہئے، تو پھر کیوں اپنے کو علوم اہلبیت سے محروم کئے ہو اور حیران و سرگرداں کیوں ہو؟

قرآن کریم حضرت علی ـ کے بیان سے بھی زیادہ سخت بیان کے ساتھ ان عالم نما جاہلوں کا نام لیتا ہے اور لوگوں کو ان کی فریب کاریوں سے ڈارتے ہوئے فرماتا ہے:''وَ کَذٰلِکَ جَعَلنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِینَ الاِنسِ وَ الجِنِّ یُوحِی بَعضُهُم اِلٰی بَعضٍ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُوراً وَ لَو شَائَ رَبُّکَ مَافَعَلُوهُ فَذَرْهُم وَ مَایَفتَرُونَ'' 1 اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انس و جن کے شیاطین کو ان کا دشمن قرار دیا ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دھوکہ دینے کے لئے مہمل باتوں کے اشارے کرتے ہیں اور اگر خدا چاہ لیتا تو یہ ایسا نہ کرسکتے ، لہذا اب آپ انھیں ان کے افترا کے حال پر چھوڑ دیں۔

انبیاء کے دشمن اور ہدایت الٰہی کے مخالف اگر چہ ظاہری صورت میں انسان ہیں، لیکن چونکہ ان کی تمام کارستانیاں اور کوششیں، دوسروں کو گمراہ کرنے، شبہوں اور وسوسوں میں ڈالنے، لوگوں کے دینی اعتقادات کو کمزور کرنے اور ہدایت الٰہی کا مقابلہ کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتیں، لہذا قرآن ان کو شیاطین انس کہتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی سے روکتا ہے۔

(1) سورۂ انعام، آیت 112 ۔

۱۶۲

قرآن کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کا برتاؤ

جو لوگ خدا پر ایمان اوراس کے لوازم کے اعتبار سے ذرا سا بھی قوی نہیں ہیں اور شائستہ و بائستہ طور سے ایمان ان کے قلب و روح میں رسوخ نہیں کئے ہے، وہ لوگ نفسانی خواہشات اور خدا کی خواہش نیز دینی اقدار کے درمیان تعارض کے موقع پر خوشروئی کا اظہار نہیں کرتے اور روحی اعتبار سے چاہتے ہیں کہ دینی احکام و اقدار کی اپنی نفسانی خواہشات کی جہت میں من مانی طور پر تفسیر و توجیہ کریں۔ اور اگر دین و قرآن کی تفسیر ان کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتی ہے تو اس گروہ کو بہت اچھا لگتا ہے، کیونکہ ایک طرف اپنی نفسانی خواہشات کو بھی حاصل کرلیتے ہیں اور دوسری طرف بظاہر اسلام کے دائرہ سے خارج بھی نہیں ہوتے اور اسلامی معاشرہ میں مسلمان ہونے کی خصوصیات اور مراعات سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں۔

اسی طرح واضح سی بات ہے کہ جن لوگوں کی روح و جان میں ا یمان و تقویٰ راسخ نہیں ہے اور الٰہی احکام نیز دینی اقدار کے ذرا سا بھی پابند نہیں ہیں وہ بھی دین و قرآن سے حاصل کردہ ایسے من پسند مطالب کا استقبال کرتے ہیں اور جو لوگ دین و قرآن اور دینی اقدار کی تفسیر و توجیہ ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق کرتے ہیں وہ ان کی پیروی کرتے ہیں، انھیں اپنا نمونہ قرار دیتے ہیں اور ان کی تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ نیز فطری طور پر ایسے لوگ دینی علماء کے اس گروہ سے اچھا سلوک نہیں رکھتے جو کہ قرآن و احکام کی تفسیر و توجیہ حق کے مطابق کرتے ہیں اور لوگوں کے ذوق و شوق اور پسند کے موافق نہیں کرتے ہیں۔

۱۶۳

بہت افسوس ہے کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دینی متون و کتب کی مختلف قرآئتوں کے بہانے سے اس بات کے درپے ہیں کہ اپنے نفسانی میلانات و خواہشات پر دینی رنگ چڑھائیں اور اپنے دنیوی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے دین خدا اور قرآن کریم کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ مذکورہ حالت کی پیشین گوئی کے ساتھ اپنے زمانہ اور آخری زمانہ میں قرآن کی غربت و مہجوریت کے متعلق شکوہ کرتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں:

''اِلَی اللّٰهِ اَشْکُو مِن مَعشَرٍ یَعِیشُونَ جُهَّالًا وَ یَمُوتُونَ ضُلاَّلاً وَ لَیسَ فِیهِم سِلْعَة أَبْوَرُ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِهِ وَ لاسِلْعَة أَنفَقُ بَیْعاًوَ لا أَغْلَیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِهِ'' 1

میں خداوند متعال کی بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں ایسے گروہ کی جو زندہ رہتے ہیں تو جہالت کے ساتھ اور مرجاتے ہیں تو ضلالت کے ساتھ، ان کے نزدیک کوئی متاع،

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 17 ۔

۱۶۴

کتابِ خدا سے زیادہ بے قیمت نہیں ہے جبکہ اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس کی برحق تفسیر کی جائے، اور کوئی متاع اس کتاب سے زیادہ قیمتی اور فائدہ مند نہیں ہے جبکہ اس کے مفاہیم میں تحریف کردی جائے اور اسے اس کے مواضع سے ہٹا دیا جائے۔

اسی طرح امیر المومنین حضرت علی ـ آخری زمانہ کے لوگوں کے درمیان قرآن اور معارف دین کی حیثیت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ إنّهُ سَیَأتِی عَلَیکُمْ مِن بَعدِی زَمَان لَیسَ فِیهِ شَیئ أَخْفَیٰ مِنَ الْحَقِّ وَ لا أَظْهَرَ مِنَ الْبَاطِلِ وَ لااَکْثَرَ مِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ وَ لَیسَ عِندَ أَهلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَة اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاوَتِهِ وَ لا أَنفَقَ مِنهُ اِذَا حُرِّفَ عَن مَوَاضِعِهِ وَ لا فِی الْبِلادِ شَیئ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعرُوفِ وَ لا أَعرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ فَقَد نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُهُ وَ تَنَاسَاهُ حَفَظَتُهُ فَالْکِتَابُ یَومَئِذٍ وَ اَهلُهُ طَرِیدَانِ مَنفِیَّانِ وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِی طَرِیقٍ وَاحِد ٍ لا یُؤوِیهِمَا مُؤوٍ فَالْکِتَابُ وَ اَهلُهُ فِی ذَالِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیهِم وَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَا مَعَهُمْ لإنّ الضَّلالَةَ لاتُوَافِقُ الْهُدَیٰ وَ اِنِ اجْتَمَعَا فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلٰی الْفُرْقَةِ وَافْتَرَقُوْا عَلیٰ الْجَمَاعَةِ کَأَنَّهُم أَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ ِمَامَهُمْ''1

''یقینا میرے بعد تمھارے سامنے وہ زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی شے حق

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 147 ۔

۱۶۵

سے زیادہ پوشیدہ اور باطل سے زیادہ نمایاں نہ ہوگی، سب سے زیادہ رواج خدا اور رسول پر افتراء کا ہوگا اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ بے قیمت کوئی متاع نہ ہوگی اگر اس کی واقعی تلاوت کی جائے اور اس سے زیادہ کوئی فائدہ مند بضاعت نہ ہوگی اگر اس کے مفاہیم کو ان کی جگہ سے ہٹا دیا جائے، شہروں میں ''منکَر'' سے زیادہ معروف اور ''معروف'' سے زیادہ منکَرکچھ نہ ہوگا، حاملان کتاب کتاب کو چھوڑ دیں گے اور حافظان قرآن قرآن کو بھلادیں گے، کتاب اور اس کے واقعی اہل، شہر بدر کردیئے جائیں گے اور دونوں ایک ہی راستہ پر اس طرح چلیں گے کہ کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا، کتاب اور اہل کتاب اس دور میں لوگوں کے درمیان رہیں گے لیکن واقعاً نہ رہیں گے، انھیں کے ساتھ رہیں گے لیکن حقیقتاً الگ رہیں گے، اس لئے کہ گمراہی، ہدایت کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے چاہے دونوں ایک ہی مقام پر رہیں، لوگوں نے افتراق پر اتحاد اوراتحاد پر افتراق کرلیا ہے جیسے یہی قرآن کے امام اور پیشوا ہیں اور قرآن ان کا امام و پیشوا نہیں ہے''۔

نہایت ضروری ہے کہ ہمارا معاشرہ آئندہ کے افراد اور دینی حالات کے متعلق قرآن اور نہج البلاغہ کی ان پیشین گوئیوں کو قابل توجہ قرار دے اور اپنے معاشرہ پر غالب و حاکم ثقافتی اور فکری حالت کو بھی ملاحظہ کریں اور اس کا ان پیشین گوئیوں سے مقائسہ کریں تاکہ خدانخواستہ اگر معاشرہ کا دینی ماحول غلط سمت میں دیکھیں تو خطرہ کا احساس کریںاور معاشرہ کے دینی ماحول کی اصلاح کریں، ہر زمانہ کے لوگوں کو چاہئے کہ ولی فقیہ اور دینی علماء کی پیروی کے ذریعہ اپنے عقیدتی حدود اور دینی اقدار کی حفاظت و حراست کا انتظام کریں اور قرآن کو نمونہ قرار دیکر اپنے کو آخری زمانہ کے فتنوں سے محفوظ رکھیں اور ان پیشین گوئیوں کا مصداق قرار پانے سے ڈریں اور پرہیز کریں۔

۱۶۶

بہرحال امیر المومنین حضرت علی ـ ایسی پیشین گوئی فرماتے ہیں کہ: ''ایک زمانہ میرے بعد آنے والا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی چیز حق سے زیادہ مخفی اور کوئی چیز باطل سے زیادہ مشہو رنہ ہوگی، اس زمانہ میں خدا اور رسول خدا پر افتراء سب سے زیادہ امور میں سے ہوگا جو کہ عالم نما جاہل اور دنیا پرست منافقین اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انجام دیں گے۔

لوگوں کو حضرت علی ـ کی تنبیہ

جو بات اس خطبہ میں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور ایک سخت تنبیہ لوگوں کے لئے سمجھی جاتی ہے یہ ہے کہ آئندہ تمام لوگوں کے ماحول اور روحی کیفیت کی تصویر کشی ہے۔ جو کچھ اب تک قرآن کریم کی آیات اور حضرت علی ـ کے کلام سے اس کتاب میں زیر بحث و گفتگو قرار دیا گیا ہے اگرچہ وہ تمام لوگوں سے خطاب ہے، لیکن ان میں زیادہ تر روئے سخن معاشرہ کے خواص اور ان لوگوں کی طرف ہے جو معاشرہ کے کلچر اور ماحول کو تحت تاثیر قرار دینے والے ہیں۔

اس خطبہ میں حضرت علی ـ معاشرہ کے بعض خواص پر غالب و حاکم روح کی توضیح کے بعد، کہ وہ لوگ اپنے د نیوی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ افترا اور جھوٹ کی نسبت خدا اور پیغمبر کی طرف دیتے ہیں اور دین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں، تمام لوگوں پر غالب و حاکم مکتب فکر اور ماحول کے متعلق اس طرح پیشینگوئی فرماتے ہیں: اس زمانہ کے لوگ بھی ایسے ہیں کہ اگر قرآن اور کتاب خدا کی صحیح اور برحق تفسیر و توضیح کی جائے تو وہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ گھٹیا اور بے قیمت چیز ہے، اور اگر ان کے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر کی جائے تو ان کی نظر میں وہ سب سے زیادہ رائج اور پر رونق چیز ہے۔

۱۶۷

اس زمانہ میں دینی تعلیمات اور الٰہی اقدار لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ ناپسند اور برے سمجھے جائیں گے اور مخالف دین چیزیں سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب سمجھی جائیں گی۔

باخبر لوگوں پر یہ بات پوشید ہ نہیں ہے کہ قرآن کے دشمن اور سامراجی طاقتیں آج اس بات کے درپے ہیں کہ ایسے مکتب فکر اور ماحول کو ہمارے معاشرہ پر حاکم کریں۔

وہ لوگ ثقافتی اور فکری حملہ کی سازش کر کے دینی مقدسات پر حملہ اور مخالف دین چیزوں کی تبلیغ کے ساتھ چاہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے اسی ماحول کو ہمارے معاشرہ پر غالب و حاکم کردیں کہ جس کی امیر المومنین حضرت علی ـ نے پیشین گوئی کی ہے اور لوگوں کو اس میں مبتلا ہونے سے ڈرایاہے۔

حضرت علی ـ اس کے آگے ارشاد فرماتے ہیں: ''اس زمانہ میں کلام خدا سے آشنا افراد سے بے اعتنائی کے علاوہ، اور حافظان قرآن سے، کہ جن کا فریضہ دینی اقدار کی حفاظت و پاسداری ہے، انجام فریضہ میں غفلت و فراموشی کے علاوہ کوئی تحرک نہیں دیکھا جائے گا۔

اس زمانہ میں قرآن اور اس کے سچے پیرو اور علمائے دین اگرچہ لوگوں کے درمیان ہوں گے لیکن درحقیقت ان سے جدا ہوں گے اور لوگ بھی ان سے دور ہوں گے اس لئے کہ وہ ان کو گوشہ نشین اور کنارہ کش کر کے ان کی پیروی نہیں کریں گے۔ وہ حضرات اگرچہ لوگوں کے درمیان ہی زندگی بسر کریں گے لیکن لوگوں کے دل ان کے ساتھ نہ ہوں گے کیونکہ جو راستہ لوگ اختیار کریں گے گمراہی ہوگی اور وہ راہ قرآن کے ساتھ، جو کہ راہ ہدایت ہے، جمع نہیں ہوسکتا۔

۱۶۸

آخر میں حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''فَاجْتَمَعَ الْقَومُ عَلٰی الْفُرقَةِ وَ افْتَرَقُوا عَلیٰ الْجَمَاعَةِ کَأَنَّهُم أَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ ِمَامَهُمْ''

لوگ اس زمانہ میں افتراق و اختلاف پر اجتماع کریں گے۔ گویا اس بات پر توافق کرلیں گے کہ قرآن اور حقیقی مفسرین سے موافقت نہ کریں، اور اس حال میں کہ گویا خود کو قرآن کا رہبر سمجھیں گے اور قرآن کی تفسیر و توجیہ اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کریں گے، عالم نما جاہلوں کی پیروی کر کے، حقیقی مفسرین، دینی علماء اور سچے مسلمانوں سے جدا ہو جائیں گے اور ان سے فاصلہ اختیار کرلیں گے،بجائے اس کے کہ فکر و عمل میں قرآن کو اپنا امام، رہبر اور راہنما قرار دیں، قرآن کو پیچھے چھوڑ کر اس کی امامت و رہبری سے روگردانی کریں گے او ردین و قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کریں گے۔

اس وقت دین و قرآن کے دشمنوں نے مسلمان قوم کو ان کی دینی شخصیت سے کھوکھلا کرنے کے لئے اپنی تمام قوتیں صرف کردی ہیں اور اس کوشش میںہیں کہ ان کے دینی عقائد کمزور کر کے ان کی شخصیت، آزادی اور استقلال کو چھین لیں۔

ان حالات کی اہمیت اور حساسیت کے پیش نظر بہت ضروری ہے کہ ملت مسلمان خصوصاً دینی علماء خطرہ کو سمجھیں اور ہوش میں آجائیں اور ا پنے کو ہرگز اسلام و قرآن کے دشمنوں کے خطرے سے محفوظ نہ سمجھیں۔

اس درمیان، جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا، اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے عالمی دشمن اور کفر اپنے سامراجی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے، لوگوں کے دینی مکتب فکر کے مقابلہ اورثقافتی حملہ میں، فوجی حملہ کے برخلاف، اسلام اور امت اسلامی سے اپنی دشمنی کو علانیہ طور پر ظاہر نہیں کرتے۔

اس حملہ میں وہ لوگ ایسے انسانوں کو اپنا آلۂ کار بناتے ہیں جو ظاہر میں مسلمان ہیں اور اسلامی معاشرہ میں زندگی گزارتے ہیں، جو ایک طرف اجتماعی اور ثقافتی عہدوں اور حیثیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور دوسری طرف دینی معارف کے سلسلہ میں کچھ مطالعہ رکھتے ہیں اگر چہ وہ بہت کم او رناقص ہوتا ہے، یہ افراد شعوری یا لاشعوری طور پر بیگانہ طاقتوں کا آلۂ کار بن کر دینی معارف کو تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔

۱۶۹

قرآن کریم کی بہت سی آیات اور ائمۂ معصومین (ع) کی روایات میں ان افراد کی مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان کی باتیں سننے سے پرہیز کریں اس لئے کہ یہ افراد دنیوی اوراخروی سعادت کے حصول سے باز رہنے اور گمراہی کا سبب ہوجاتے ہیں۔

معارف دین کی تحریف کرنے میں عالم نما جاہلوں کا سبب، حضرت علی کی نظر میں

جیسا کہ ہم نے اس کے پہلے بیان کیا، قرآن کریم اسلامی معاشرہ میں ایسے انسانوں کی کارستانیوں کا نام ''فتنہ'' رکھتا ہے اور جو لوگ قرآن اور دین کے معارف و حقائق میں تحریف کرنے کے درپے ہوتے ہیں انھیں ایسا فتنہ پرداز سمجھتا ہے جو دینی معارف میں تحریف کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے میں شیطان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایسے لوگ باوجودیکہ حق کو جانتے ہیں اور ان اوہام اور جہالتوں سے جو کہ دوسروں سے عاریت میں لئے ہیں، واقف ہیں، تو پھر کیوں اپنی فریب کاریوں کی توجیہ کر کے دوسروں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟

دوسری لفظوں میں جو افراد دینی معارف میں تحریف کرتے ہیں اور حقائق دین میں تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں، وہ نفسیاتی اور روحی اعتبار سے کون سی مشکل رکھتے ہیں کہ جس کے حل کرنے کے لئے دین خدا سے کھلواڑ کر بیٹھتے ہیں؟ حقیقت میں ''دین میں فتنہ'' جو کہ معارف دین میں تحریف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، وہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟

امیر المومنین حضرت علی ـ اس سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:''إنّمَا بَدْئُ وُقُوْعِ الْفِتَنِ اَهْوَائ تُتَّبَعُ وَ اَحْکَام تُبْتَدَعُ'' 1 جو بات روحی اعتبار سے انسان

(1) نہج البلاغہ ، خطبہ 50 ۔

۱۷۰

کے اندر ایسے انحراف کا سبب بنتی ہے اور فتنہ کی جڑ سمجھی جاتی ہے اس سے مراد ''نفسانی خواہشات'' ہیں جو فتنے دین میں پیدا کئے جاتے ہیں ان کا سرچشمہ نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض و میلانات ہیں۔

جو لوگ دینی معارف میں تحریف کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں وہ ایسے افراد ہیں جو خداوند متعال کے مقابل تسلیم و بندگی کی روح نہیں رکھتے یا شیطانی وسوسوں کے زیرا ثر، تسلیم و بندگی کی روح کھو بیٹھے ہیں۔

تسلیم و بندگی کی روح اس بات کی مقتضی ہے کہ انسان خدا اور اس کے احکام کے مقابل سراپا تسلیم ہو اور قول و فعل میں شریعت اور دینی اقدار و تعلیمات کا پابند ہو۔ اس روح کا پایا جانا اس وجہ سے لازم ہے کہ ممکن ہے دین و شریعت کے بہت سے احکام انسان کی نفسانی خواہشات کے موافق نہ ہوں او رانسان رغبت اور چاہت کے ساتھ نہ ان کو قبول کرے اور نہ ان پر عمل کرے۔

لوگ ایسے موقع پر ہمیشہ دو راہے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ناگزیر انھیں ایک راستہ انتخاب کرنا پڑتا ہے، یا خدا اور شریعت کی خواہش کو منتخب کریں اور خواہش نفس کی مخالفت کریں، یا اپنے نفس کی خواہش کو خدا کی خواہش اور دینی اقدار پر مقدم کریں۔ ایسے افراد کم نہیں ہیں کہ اس عظیم امتحان میں جن کے اوپر نفسانی خواہشات غالب آجاتی ہیں اور جو شیطان کے وسوسہ اور بہکاوے سے نفسانی خواہشات و میلانات کو خدا اور دینی تعلیمات پر مقدم کرتے ہیں۔

انہیں کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں کہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں ہم اپنے کو دینی اعتقادات و تعلیمات کا پابند نہیں رکھتے، البتہ ہم دینی تعلیمات کی تحریف اور مخالفت کے درپے بھی نہیں ہیں۔

۱۷۱

دین کے ساتھ اس طرح کا سلوک اگر چہ معصیت ہے لیکن اس کو ''دین میں فتنہ'' نہیں سمجھا جاتا اور ایسا جذبہ فتنہ کی جڑ نہیں ہے، اس لئے کہ کوئی شخص اس صورت میں فریب کاری کے ذریعہ گمراہی کی طرف کھینچ کر نہیں لایا گیا ہے۔

خدا اور احکام الٰہی کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کا فقدان اس وقت ''دین میں فتنہ'' کے پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے جبکہ اس روح سے عاری افراد جھوٹی توجیہیں کر کے دین کی تفسیر اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کرنے لگیں۔

ایسے افراد خصوصاً اگر اجتماعی حیثیت کے اعتبار سے ایسے مرتبہ پر ہوں کہ ایک گروہ ممکن ہے ان کی باتیں سنتا ہو تو دوسروں سے زیادہ شیطان ایسے لوگوں کی طمع کرتا ہے، اس لئے کہ یہ اشخاص ایسی خواہشات رکھتے ہیں کہ ایک طرف دین و شریعت نے انسان کو ان سے منع کیا ہے اور دوسری طرف ان امور کو چھوڑ نا اور ان کو نظر انداز کرنا ان افراد کے لئے روح بندگی کمزور ہونے کے سبب بہت سخت ہے، اور دوسری طرف یہ افراد ایسی قوتوں کے مالک ہیں جن سے استفادہ کر کے حق کو خود ان پر مشتبہ کیا جاسکتا ہے۔ شیطان اس سنہری موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرتا ہے اور ایسے افراد کے دل و جان میں گھس کر ان کو فتنہ اور گمراہی کی سمت موڑ کر ان کی تشویق و ترغیب کرتا ہے۔

شیطان اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان افراد کی نفسانی خواہشات کو ان کی نگاہوں کے سامنے مجسم کر کے پیش کرتا ہے اور ان سے استفادہ کے شوق کی آگ کو ان کے دل میں بھڑکا دیتا ہے۔ دوسری طرف ا ن کے دل میں ایسے وسوسے ڈالتا ہے کہ جو کچھ علمائے دین نے دینی فرائض و تعلیمات کے عنوان سے بیان کیا ہے، کہاں سے معلوم ہوا کہ وہ وہی ہے جسے خدا اور دین نے ہم سے چاہا ہے؟

۱۷۲

ایسے افراد جب دیکھتے ہیں کہ قرآن، علوم اہلبیت اور علماء دین کے بیانات کے ہوتے ہوئے وہ اپنی نفسانی خواہشات تک نہیں پہنچ سکتے تو ایک نیا راستہ نکالتے ہیں تاکہ اپنی خواہشات کو بھی پورا کرلیں اور ظاہری طور پر دائرۂ اسلام سے خارج بھی نہ ہوں نیز دینی معاشرہ کی اجتماعی حیثیتوں اور خصوصیتوں کے بھی حامل رہیں۔ اس بنا پر جو چیز اندر سے ان کو انحراف و گمراہی کی طرف کھینچ لاتی ہے وہ تسلیم و بندگی کا جذبہ نہ رکھنا اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنا ہے۔

امیر المومنین حضرت علی ـ اس سوال کے جواب میں کہ کون سا عامل اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ افراد اسلامی معاشرہ میں ''دین میں فتنہ'' برپا کرتے ہیں، ارشاد فرماتے ہیں کہ ان تمام فتنوں کی جڑ جو کہ دین میں واقع ہوتے ہیں نفسانی خواہشات ہیں کہ مذکورہ اشخاص ان سے صرف نظر نہیں کرسکتے اور ان کو حاصل کرنے کے لئے دینی احکام و تعلیمات کے مقابل نیا راستہ ایجاد کر کے فتنہ پھیلاتے ہیں۔

لیکن جو نیا راستہ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے پیدا کرتے ہیں وہ کیا ہے؟

حضرت علی ـ فرماتے ہیں کہ: ''وہ لوگ نئے نئے احکام اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق گڑھ کر ایجاد کرلیتے ہیں اور ان کی نسبت اسلام کی طرف دیتے ہیں اور خود ساختہ اور بے بنیاد تفسیروں او رتوجیہوں کے ذریعہ حقائق دین کی تحریف کرتے ہیں اور قرآن و آیات الٰہی کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں۔ نتیجہ میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو دین اور قرآن کریم کی حقیقت کے موافق نہیں ہے اور لوگوں کو قرآن اور دینی تعلیمات کے خلاف دوسری سمت موڑ دیتے ہیں۔

۱۷۳

البتہ واضح ہے کہ یہ افراد اس طرح عمل کرتے ہیں کہ لوگ ان کے شیطانی مقاصد سے باخبر نہ ہوں، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس صورت میں لوگ ان کی پیروی نہ کریں گے۔

اسی بنا پر حضرت علی ـ ان تمام فتنوں اور دین میں ایجاد کی جانے والی بدعتوں کی جڑ، تسلیم و بندگی کا فقدان اور خواہش نفس کو قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے خواص کو ہوا و ہوس کی پیروی سے منع کرتے ہیں نیز اس بات سے باخبر کرتے ہیں کہ کہیں آیۂ(أَرَأَیتَ مَنِ اتَّخَذَ الٰهَهُ هَوٰاهُ) 1 (کیا تم نے اس کو دیکھا ہے جس نے اپنا خدا اپنی خواہش کو بنالیا ہے؟) کا مصداق نہ ٹھہر جائیں۔

البتہ جو لوگ شیطان کا سب سے بڑا آلۂ کار بن کر آج دینی معارف میں تحریف کا کام انجام دے رہے ہیں وہ شاید ابتدا میں ایسا ارادہ نہ رکھتے ہوں۔

کتنے ہی افراد ایسے تھے جو کہ ابتدا میں سچے مسلمانوں کا جزء اور قرآن و معارف دین کے سچے مبلغ شمار کئے جاتے تھے، لیکن بیچ راستے میں سمت کو بدل کر مخالفین اسلام کے گروہ سے مل گئے اور خدا کی ولایت سے خارج ہو کر شیطان کی ولایت و سرپرستی کو قبول کرلیا۔

(1) سورۂ فرقان، آیت 43 ۔

۱۷۴

اسی طرح ایسے انسان بھی بہت زیادہ ہیں جو کہ برسوں ضلالت و گمراہی میں رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے بعد توبہ کر کے دامن اسلام میں واپس آگئے اور باقی عمر اپنے مکروہ و ناپسند ماضی کی تلافی میں صرف کردی۔

بہرحال پوری زندگی میں انسانوں کے افکار و نظریات کی یہ تبدیلی ایک ایسا امر ہے جو انسانوں کی زندگی میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے، لیکن جس بات کی طرف توجہ دینا ضرور ی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی نظر میں کوئی بھی گناہ، دین میں فتنہ سے بڑا اور اس سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ لوگ حق کو پہچاننے اور دین کے احکام و معارف سے آشنا ہونے کے بعد بھی یہ کوشش کریں کہ لوگوں کو ان کی آشنائی اوران پر عمل کرنے سے روکیں۔

بہر صورت ہم جس بات کی طرف آخر میں تمام لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں اور خداوندمتعال سے دعا کرتے ہیں کہ اس کی توفیق عطا فرمائے، وہ امیر المومنین حضرت علی ـ کا یہ گرانقدر ارشاد ہے:

''حَاسِبُوُا أَنْفُسَکُم قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا'' 1 تم لوگ خود اپنے عقائد، افکار اور اعمال کا محاسبہ کرو اور اپنا فیصلہ ضمیر و وجدان سے کرو اور قبل اس کے کہ خدا سے توبہ و انابت کا وقت ہاتھ سے نکل جائے، قرآن اور دین حق کے سائے میں واپس آجاؤ، اور خود کو شیطان اورنفس امارہ کے جال سے چھڑا لو، اور سخت انجام اور بری عاقبت سے ڈرو۔

(1) بحار الانوار، ج 8، ص 145 ۔

۱۷۵

ہم اپنے اس بیان کا خاتمہ قرآن کریم کی اس تنبیہ پر کر رہے ہیں:

''ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِینَ أسَائُ وا السُّوأیٰ أَن کَذَّبُوا بِاٰیَاتِ اللّٰهِ وَ کَانُوا بِهَا یَستَهزِئُ ونَ'' 1

اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انھوںنے خدا کی نشانیوں کو جھٹلا دیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے۔

ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو راہ حق کی ہدایت کرے۔

والسلام علی من اتبع الهدیٰ

(1) سورۂ روم، آیت 10 ۔

۱۷۶

فہرست

حرف اول 2

مقدمہ 5

پہلی فصل 8

دینی معاشرہ میںقرآن کا مرتبہ 8

انسان کے اختیار میں صرف قرآن آسمانی کتاب ہے 8

قرآن کا بولنا 10

پیغمبر اور قرآن کی توضیح و تفسیر 13

دو نکتوں کی یاد دہانی 16

زندگی میں قرآن کا اثر 17

قرآن، کلی طور پر راہنمائی کرتا ہے 19

قرآن کی کلی راہنمائی کا ایک نمونہ 21

اسلامی حکومت کی تشکیل میں عطائے الٰہی کی جھلک 23

اجتماعی مشکلات کا حل قرآن کی پیروی میں ہے 24

قرآن کی ہدایات کے مطابق اجتماعی امور کا نظم و نسق 27

اجتماعی زندگی میںمقصد کا اثر 28

بے نیازی، قرآن کی پیروی میں 34

قرآن سب سے بڑی بیماری کی دوا 36

بعض بلاؤں کی حکمت 41

قرآن کریم کی ظاہری اور حقیقی تعظیم 48

قرآن، حقیقی نور 51

۱۷۷

قرآنی چراغ اور آئینے 55

قیامت کے دن پیروان قرآن کی کامیابی 59

تنبیہ و آگاہی 62

قرآن کی تاثیر اور کامیابی کا راز 64

حضرت ابراہیم ، قرآن کریم میں تسلیم و بندگی کا نمونہ 67

دوسری فصل 72

قرآن کی تفہیم و تفسیر 72

اصلی مشکل 72

حضرت علی ـ کی وصیت قرآن کے متعلق 76

تفسیر بالرائے 78

حضرت علی ـ کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں 82

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے 84

دینی پلورال ازم1 یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار 88

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت 95

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے 97

تفسیر قرآن یعنی تفصیل احکام، نبی ا ور ائمۂ معصومین سے مخصوص ہے 101

علوم اہلبیت کا سمجھنا قرآن سمجھنے کا مقدمہ 103

قرآن کی تفسیر قرآن سے 104

قرآن فہمی میں عقلائی اصول و قواعد کی رعایت 106

مفسرین کی فہم کا ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہونا 107

کلامی قرائن پر توجہ کی ضرورت 108

۱۷۸

قرآن کریم اور کلامی محاسن 109

تیسری فصل 111

قرآن اور ثقافتی حملہ 111

حق و باطل کا تضایف1 111

دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ 117

تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ 121

متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میںایک دوسری سازش 122

قرآن میں متشابہات کی حکمت 124

حق و باطل کو مخلوط کرنا، گمراہوں کا دوسرا اسلحہ 131

مختلف قرائتیں، قرآن سے مقابلہ کا ایک حربہ 133

دینی ثقافت کے مخالفین کا مقصد قرآن کی روشنی میں 135

''دین میں فتنہ'' کے مقابلہ میں قرآن کا موقف 140

1۔ فوجی فتنہ 141

2۔ ثقافتی فتنہ 142

ثقافتی حملہ کے متعلق قرآن کی تنبیہ 143

شرک نئے بھیس میں 145

''دین میں فتنہ'' واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی 147

پیغمبر کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی 149

1۔ مالی فتنہ 150

2۔ اعتقادی فتنہ 151

3۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ 154

۱۷۹

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا 156

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی ـ کی نظر میں 158

قرآن کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کا برتاؤ 163

لوگوں کو حضرت علی ـ کی تنبیہ 167

معارف دین کی تحریف کرنے میں عالم نما جاہلوں کا سبب، حضرت علی کی نظر میں 170

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416