ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214981 / ڈاؤنلوڈ: 4958
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف نے جو داستان فتح ابلہ کے بارے میں جعل کی ہے وہ پوری کی پوری اس کے بر خلاف ہے جو آگاہ افراد اور مؤرخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے اس کے علاوہ صحیح کتابوں میں درج شدہ چیزوں کے خلاف بھی ہے ،کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں ١٤ھ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔ہم بعد میں مناسب جگہ پر اس کی وضاحت کریں گے ۔

طبری ١٤ھ کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے جہاں شہر بصرہ کی بنا کا ذکر کرتے ہوئے ،فتح ابلہ کے بارے میں دئے گئے اپنے وعدہ پر عمل کرتا ہے اور ابلہ کی جنگ کی حقیقت

اور اس کی فتح کا ذکر کرتا ہے ۔جس میں سیف کی بیان کردہ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں

پائی جاتی ہے ۔ ٢

سند کی پڑتال

سیف کی اس داستان کے دو راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں پہلے معلوم ہوا کہ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ مقطع بن ہیثم بکائی ہے ،اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی تین روایتوں میں آیا ہے ۔ایک اور راوی حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی دوروایتوں میں آیاہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سیف نے حنظلہ کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ''اپنے جعلی صحابی '' زیاد بن حنظلہ کا ایک بیٹا بھی جعل کیا ہے ۔لہٰذا جعلی صحابی زیاد اور اس کا بیٹا حنظلہ سیف کے تخیلات کے جعلی راوی ہیں ۔

اس طرح عبد الرحمن احمری بھی ایک راوی ہے جس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی سات روایتوں میں ذکر ہو ا ہے ۔

بہر حال ہم نے بحث و تحقیق کی کہ ان راویوں کے ناموں کو طبقات ،راویوں کی سوانح حیات حتی حدیث کی کتابوں میں کہیں پا سکیں لیکن ان میں سے کسی ایک کانام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں پایا ۔ لہٰذا ہم نے موخر الذکر تین راویوں یعنی مقطع ،جنظلہ اور عبدالرحمن کو بھی محمد و مہلب کی طرح سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

۱۴۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے سپاہیوں کے تتربتر ہونے کی وجہ سے ابوبکر سے مدد طلب کی اور خلیفہ نے قعقاع بن عمر وتمیمی کی مختصر ،لیکن با معنی تعریف کرکے قعقاع کو اکیلے ہی خالد کی مدد کے لئے بھیجا۔اس قصہ کو صرف سیف نے جعل کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں کہی ہے۔

سیف نے شہر آبلہ کی فتح کو ١٢ ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانے میں خالد بن ولید مضری سے نسبت دی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شہر ابلہ کی فتح عمر کے زمانے میں ١٤ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ہم اس تحریف کے سبب کو بعد میں بیان کریں گے۔

سیف وہ تنہا قصہ گو ہے جوخالد بن ولید کو ایرانی فوج کے سپہ سالار جس کانام سیف نے ہرمز رکھا ہے کے مقابلے میں پیدل دست بدست جنگ کے لئے میدان کارزار کی طرف روانہ کرتاہے نیز ایرانیوں کی چالبازی کی حیرت انگیز داستان بیان کرتاہے اور اپنے ہم قبیلہ قعقاع بن عمرو وتمیمی کو ہر مشکل حل کرنے والے کے طور پر ظاہر کرتاہے اور اسے ایک دانا،ہوشیار ،جنگی ماہر،ناقابل شکست پہلوان،لشکر شکن بہادر اور خلفاء واصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی منظور نظر شخصیت کی حیثیت سے پہچنواتاہے اور اسے قحطانی یمنیوں کے مقابلے میں فخرو مباہات کی ایک قطعی دلیل وسند کے طور پر پیش کرتاہے۔

اس کے بعد ،سیف اپنی داستان کو ایسے راویوں کے ذریعہ نقل کرتاہے کہ وہ سب کے سب اس کے اپنے تخیلات کی مخلوق اور گڑھے ہوئے ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

۱۴۲

سیف کی حدیث کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے فتح ابلہ کی داستان کو گڑھ کر کیا ثابت اور کیا حاصل کیاہے:

١۔سیف ،داستان کے مقدمہ کو ایسے مرتب کرتاہے تاکہ خلیفہ ابوبکر کی زبانی قعقاع بن عمرو تمیمی کی تعریف وستائش کرائے اور اسے ایک عظیم ،شجاع اور بہادر کی حیثیت سے پیش کرے۔

٢۔قعقاع کے ناقابل شکست پہلوان ہونے کی خلیفہ کی پیشینگوئی اور خلیفہ سے یہ کہلوانا کہ جس فوج میں قعقاع موجود ہو وہ ہرگز شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔

٣۔عراق کے ایک شہر کوخاندان مضر کے ایک پہلوان خالد کے ہاتھوں فتح کرانا تاکہ خاندان مضر کے فضائل میں ایک اور فضیلت کااضافہ ہوجائے۔

٤۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع کے ذریعہ خالد بن ولید کو ایرانیوں کی سازش اور چالبازی سے نجات دلاکر اس کی فضیلت بیان کرنا۔

٥۔اپنے خود ساختہ راویوں میں تین جعلی راویوں ،یعنی مقطع ،حنظلہ اور عبد الرحمان کااضافہ کرنا۔انشاء اللہ آنے والی بحثوں میں اس موضوع پر مزید وضاحت کریں گے۔

۱۴۳

قعقاع ،حیرہ کی جنگوں میں

و بلغت قتلاهم فی ''الیس '' سبعین الفا

'' الیس'' کی جنگ میں قتل ہوئے ایرانی سپاہیوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی۔

( سیف بن عمر)

مذار اور ثنی کی جنگ

طبری نے فتح ''ابلہ'' کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد سیف سے یہ روایت نقل کی ہے : ١

''ہرمزنے'' ابلہ کی جنگ سے پہلے ایران کے بادشاہ سے مدد طلب کی ۔بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرکے ''قارن بن قریانس'' کی کمانڈ میں ایک فوج اس کی مدد کے لئے روانہ کی۔

جب'' ہرمز '' مارا گیا اور اس کی فوج تتر بتر ہوئی ،اس وقت قارن اپنی فوج کے ہمراہ ''المذار '' پہنچا تھا ۔قارن نے ہرمز کی منتشر اور بھاگی ہوئی فوج کو دریائے ''الثنی'' کے کنارے پر جمع کیا اور لشکر اسلام سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھا ۔دونوں سپاہیوں کے درمیان کھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔

سر انجام '' قارن '' اس جنگ میں مارا گیا اور اس کی فوج منتشر ہو گئی ۔اس جنگ میں دریا میں غرق ہوئے افراد کے علاوہ ایرانی فوج کے تیس ہزار سپاہی کام آئے ۔اس طرح ایرانیوں کو زبردست شکست کا سامنا ہوا''

۱۴۴

ولجہ کی جنگ

سیف نے جنگ ''ولجہ '' کے بارے میں یوں بیان کیا ہے :

''جب ''المذار ''(۱) اور ''الثنی'' میں ایرانیوں کی شکست کی خبر ایران کے بادشاہ کو پہنچی تو اس نے ''اندرزگر'' کو کہا کہ اس علاقہ کے عرب سپاہیوں اور ایرانی کسانوں کو جمع کرکے نئی فوج تشکیل دے اور خالد بن ولید سے جنگ کرنے کے لئے جائے اس کے علاوہ ''بہمن جادویہ '' کو بھی اس کی مدد کے لئے بھیجا ۔جب یہ خبر خالد کو پہنچی تو وہ فوری طور پر ''ولجہ'' پہنچا اور ایرانی فوج سے بنرد آزما ہوا ۔یہ جنگ ''الثنی'' کی جنگ سے شدید تر تھی اس نے اس جنگ میں ایرانی سپاہیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ''اندرزگر '' میدان جنگ سے بھاگ گیا اور فرار کے دوران پیاس کی شدت سے مرگیا''

سیف کہتا ہے :

'' خالد نے اس جنگ میں ایک ایسے ایرانی سپاہی سے جنگ کی جو تنہا ایک ہزار سپاہیوں کا مقابلہ کر سکتا تھا ۔اس ایرانی پہلوان کو خالد نے قتل کر ڈالا!اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ٹیک لگا کر اسی جگہ ،یعنی میدان جنگ میں اپنے لئے کھانا منگوایا ۔یہ جنگ ١٢ھ کے ماہ صفر میں واقع ہوئی کہا گیا ہے کہ ''ولجہ'' خشکی کے راستے ''کسکر '' کے نزدیک ہے ''

____________________

۱)۔ حموی لکھتا ہے : ''قصبہ ''المذار'' ''میسان'' کے علاقہ میں واقع ہے یہ قصبہ ''واسط'' اور ''بصرہ'' کے درمیان ہے ۔بصرہ سے وہاں تک چاردن کا سفر ہے ۔یہاں پر عبداللہ بن علی بن ابیطالب کی قبر ہے ۔یہاں کے لوگ شیعہ ،احمق اور حیوان صفت تھے عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے بصرہ کے فتح کرنے کے بعد اس جگہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

۱۴۵

یہ مطلب حموی کے شیعوں کی نسبت تعصب کا ایک نمونہ ہے ۔

'' الیس'' کی جنگ

سیف نے ''الیس '' کی جنگ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''عرب عیسائی اور دیگر عرب سپاہی '' ولجہ'' کی جنگ میں اپنے مقتولین کی تعداد کو لے کر سخت غصہ میں آگئے تھے ۔اس شکست کی وجہ سے انھوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار ایرانیوں سے کیا نتیجہ کے طور پر '' جابان'' اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے نکلا اور ''الیس '' میں ان سے ملحق ہوا ۔دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اس دوران ایران سے مزید مدد آنے کی امید میں ''جابان'' کے سپاہیوں کی مزاحمت میں جب شدت پیدا ہوئی تو خالد نے غصہ میں آکر قسم کھائی کہ اگر ان پر غلبہ پائے تو ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور دریائے ''الیس '' کو ان کے خون سے جاری کردے گا ۔سر انجام جب خالد نے ان پر فتح پائی تو حکم دیا کہ تما اسیروں کو ایک جگہ جمع کریں اور کسی ایک کو قتل نہ کریں ۔خالد کے سپاہی فراریوں کو پکڑ نے اور اسیر وں کو جمع کرنے کے لئے ہر طرف دوڑ پڑے ۔سوار وں نے اسیروں کو گروہ گروہ کی صورت میں جمع کرکے خالد کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے بعد خالد نے حکم دیا کہ کچھ مرد معین کئے جائیں اور اسیروں کو دریامیں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کریں تاکہ خون کا دریا جاری ہو جائے ۔ ایک دن اور ایک رات گزری دوسرا اور تیسرا دن بھی یوں ہی گزرا ۔اسیروں کو لا کر دریا میں سر تن سے جد اکرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔لیکن پھر بھی خون کا دریا جاری نہیں ہو ا اس موقع پر قعقاع اور اس کے جیسے بعض پہلوانوں نے خالد سے کہا : جب سے آدم کے بیٹے کا خون زمین پر گر کر جم گیا تھا تب سے اس خون کا زمین پر جاری ہونا بند ہو گیا ہے ۔اب اگر آپ انسانی خون کا دریا جاری کرکے اپنی قسم پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس خون پر پانی جاری کر دیجئے تاکہ خون نہ جمنے پائے ۔اس واقعہ سے پہلے بند باندھ کر دریا کا پانی روک دیا گیاتھا ۔لہٰذا مجبورا ًبند کو ہٹادیا گیا پانی خون پر جاری ہوا اور اس طرح خونی دریا وجود میں آگیا ۔اس خونی دریا کے ذریعہ پن چکیاں چلیں جس کے ذریعہ خالد کے اٹھارہ ہزار سے زائد سپاہیوں کے لئے حسب ضرورت آٹا مہیا کیا گیا تین دن ورات یہ پن چکیاں خون کے دریا سے چلتی رہیں ۔اس لئے اس دریا کو دریائے خون کہا گیا''

۱۴۶

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خونی دریا ستر ہزار انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا ،تاکہ ایک ہٹ دھرم سپہ سالار ،خالد مضری کی قسم پوری ہو جائے !!

حیرہ کی دوسری جنگیں

اس کے بعد طبری حیرہ کے اطراف میں خالد کی کمانڈمیں واقع ہوئی بعض بڑی جنگوں کے بارے میں نقل کرتے ہوئے سیف کی بات کو یوں تمام کرتا ہے : ٢

اور سیف نے لکھا ہے کہ قعقاع نے حیرہ کی جنگوں کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

''خدائے تعالیٰ دریائے فرات کے کنارے پر قتل شدہ اور نجف میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہمارے افراد پر اپنی رحمت نازل کرے ''

'' ہم نے سرزمین ''کاظمین '' میں '' ہرمزان '' کو شکست دے دی اور دریائے ثنی کے کنارے پر ''قارن '' کے سینگ اپنے چپو سے توڑ دئے ۔جس دن ہم حیرہ کے محلوں کے سامنے اترے ان پر شکست طاری ہو گئی ۔اس دن ہم نے ان کو شہر بدر کر دیا اور ان کے تخت و تاج ہمارے ڈر سے متزلزل ہو گئے ۔ہم نے اس دن جان لیوا تیروں کو ان کی طرف چھوڑا اور رات ہوتے ہی انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔یہ سب اس دن واقع ہو ا جب وہ دعویٰ کرتے تھے کہ : ہم وہ جواں مرد ہیں جو عربوں کی زرخیز زمین پر قابض ہیں ''

سیف کاا ن اشعار کو بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ قعقاع بن عمرو تمیمی ،خالد بن ولید کے ہمراہ علاقہ ''حیرہ'' کے میدان جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری پر ناز کرتا ہے ،اور فخر کرتا ہے کہ اس نے ''کاظمین '' کی جنگ میں ''ہرمز '' سے ''الثنی'' میں ''قارن'' سے اور حیرہ میں عرب کے عیسائیوں اور کسریٰ کے محلوں کے محافظوں سے جنگ کی ہے اور عربوں کی زرخیز زمینوں کو ان کے تسلط سے آزاد کیا ہے ۔

۱۴۷

یہ روایتیں کہاں تک پہنچی ہیں ؟

یہ وہ مطالب تھے جن کی روایت طبری نے علاقہ ''حیرہ'' میں خالد بن ولید کی جنگوں کے سلسلے میں سیف بن عمر سے نقل کی ہے اور طبری کے بعد ابن اثیر اور ابن خلدون نے ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔اس کے علاوہ ابن کثیر نے بھی طبری اور براہ راست سیف بن عمر سے نقل کرکے اس کی اپنی تاریخ میں تشریح کی ہے ۔

حموی نے بھی الثنی کے بارے میں اپنی معلومات کو براہ راست سیف سے لیا ہے ۔وہ لغت ''الثنی'' کی تشریح میں لکھتا ہے :

'' الثنی کی جنگ ایک مشہور جنگ ہے جو خالد بن ولید اور ایرانیوں کے درمیان بصرہ کے نزدیک واقع ہوئی اور یہی جنگ تھی جس میں قعقاع بن عمر و نے درج ذیل

شعر کہا ہے :

سقی الله قتلی بالفرات مقیمه تا

وبالثنی قرنی قارن بالجوارف

اس کے علاوہ سیف سے ''الولجہ'' کے بارے میں نقل کرتے ہوئے تشریح کرتا ہے :

''ولجہ سر زمین کسکر اور صحرا کے کنارے پر واقع ہے خالد بن ولید نے ایرانی فوج کو وہاں پر شکست دی تھی یہ مطلب کتاب '' فتوح'' میں ١٢ھ کے حوادث میں درج ہو ا ہے اور قعقاع بن عمر و نے اس جنگ میں کہا:

''میں نے شجاعت اور بہادری میں اس قوم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جس قوم کو میں نے صحرائے ولجہ میں دیکھا ۔میں نے اس قوم کے مانند کسی کو نہیں دیکھا جس نے اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہو اور ان کے مامور پہلونوں کو ہلاک کر دیا ہو''

یہ مطالب تھے جن میں حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھا ہے اور عبد المؤمن نے ''ثنی '' اور ''ولجہ'' کی تشریح میں اس سے نقل کرکے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں درج کیا ہے ۔

۱۴۸

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ

بلاذری '' المذار '' کے بارے میں لکھتا ہے :

'' مثنی بن حارثہ نے ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ''المذار '' کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دے دی ۔عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے ''المذار '' پر حملہ کیا اور وہاں کے سرحدبان نے اس کا مقابلہ کیا اس جنگ کے نتیجہ میں خدا نے سرحدبان کی فوج کو شکست دے دی اور وہ سب کے سب دریا میں غرق ہو گئے اور عتبہ نے سرحدبان کا سر تن سے جدا کیا'' ٣

ولجہ اور الثنی کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کی کوئی روایت نہیں پائی کہ اس کا سیف کی روایت سے موازنہ کرتے:

''الیس ''کے بارے میں بلاذری لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید اپنی فوج کو '' الیس '' کی طرف لے گیا اور ایرنیوں کا سردار ''جابان '' چوں کہ خالد کے اندیشہ سے آگاہ ہوا ،اس لئے خود خالد کے پاس حاضر ہوا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ ا لیس کے باشندے ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ میں مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے'' ٤

خون کے دریا کا قصہ

دریائے خون کا قصہ اور خالد بن ولید کی قسم کے بارے میں ابن درید نے اپنی کتاب اشتقاق میں یوں لکھا ہے :

''منذر اعظم جس دن خاندان بکر بن وائل کے افراد کو بے رحمی سے اور دردناک طریقہ سے قتل کر رہا تھا اور انھیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر ان کا سر تن سے جدا کرتا تھا ،اس نے قسم کھائی تھی کہ اس خاندان کے اتنے افراد کو قتل کرے گا کہ ان کا خون بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچ جائے !لیکن بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود خون پہاڑ کے نصف راستہ تک بھی نہیں پہنچا اس امر نے منذر کو سخت غضبناک کر دیا آخر حارث بن مالک نے منذر سے کہا : آپ سلامت رہیں !اگر آپ زمین پر موجود تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے جب بھی ہرگز خون پہاڑ کے دامن تک نہیں پہنچے گا۔ خون پر پانی ڈالنے کا حکم دیجئے تاکہ خون آلود پانی پہاڑ کے دامن

۱۴۹

تک بہنچ جائے ۔

حارث کی راہنمائی مؤثر ثابت ہوئی اور پانی ڈالنے کے بعد خون آلود پانی بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچا اور منذر کی قسم پوری ہو گئی ۔اس پر حارث کو '' وصاف '' کا لقب ملا'' ٥

سیف زمانہ جاہلیت کی اس بھونڈی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو پسند کرتا ہے اور اسی کے مانند ایک داستان کو قبیلۂ مضر کے فخر ومباہات کی سند کے طور پر جعل کرنے کے لئے موزوں سمجھتاہے لہذاخالد بن ولید مضری کواس داستان کاکلیدی رول اداکرنے کے لئے مناسب سمجھتا ہے اور منذر اعظم کے ہاتھوں خاندان بکر بن وائل کے بے گناہ افراد کے قتل عام کی داستان کو بنیاد بنا کر ''الیس''میں ستر ہزار اسیر انسانوں کا قتل عام کرکے خون کا دریا بہانے کی ایک داستان جعل کرتا ہے تاکہ اس لحاظ سے بھی مضر ونزار کے خاندان منذر اعظم سے پیچھے نہ رہیں !!

سند کی جانچ پڑتال :

سیف نے عبدالرحمان بن سیاہ محمد بن عبداللہ اور مہلب کو جنگ''الیس ''کے راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ زیاد بن سر جس احمری بھی اس کا ایک راوی ہے سیف کے اس راوی سے ٥٣احادیث تاریخ طبری میں ذکر ہوئی ہیں چوں کہ ہم نے اس زیاد کا نام بھی سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے جعلی راوی کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے بعض دیگر مجہول اور غیر معروف اشخاص کا نام بھی بعنوان راوی ْْْْذکر کیا ہے اور بعض مشتر ک ناموں کو بھی راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے جن کی تحقیقات

کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۱۵۰

تحقیقات کا نتیجہ :

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''الثنی'' اور ''الولجہ '' کی جنگوں کی روایت کی ہے اور طبری نے ''الثنی ''اور ''الولجہ '' کی جنگوں کے مطالب اسی سے لئے ہیں اور طبری کے بعد والے تمام مؤرخین نے ان مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

یا قوت حموی نے سیف کی داستان کا ایک مختصر حصہ الثنی کی تشریح میں مصادر کا ذکر کئے بغیر اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں درج کیا ہے لیکن الولجہ کی تشریح میں سیف کی کتاب '' فتوح'' کا اشارہ کرتے ہوئے اس داستان کا ایک حصہ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لگتا ہے ابن خاضیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف ابن عمر کی کتاب ''فتوح '' کا ایک حصہ حموی کے پاس تھا انشاء اللہ مناسب موقع پر ہم اس کی وضاحت کریں گے ۔

''المذار ''اور ''الیس'' نامی جگہوں کی تاریخی حقیقت سے انکار نہیں ہے لیکن سیف نے ان دو جگہوں کے فتح کئے جانے کے طریقہ میں تحریف کی ہے جس شخص نے سب سے پہلے ''المذار '' میں جنگ کرکے فتح حاصل کی وہ '' المثنی '' تھا اور دوسری بار ''المذار'' ''عتبہ بن غزوان'' کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس نے وہاں پر سر حد بان کا سر تن سے جد ا کیا تھا ۔

ہم نے ''الیس'' کی جنگ میں دیکھا کہ خالد نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ اس شرط پر صلح کا معاہدہ کیا کہ وہاں کے باشندے مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے اور ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں گے لیکن سیف نے اس صلح کو ایک خونین تباہ کن اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی جنگ میں تبدیل کرکے اس میں تحریف کی ہے اور صرف اس جنگ میں ستر ہزار اسیروں کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے دکھایا ہے تاکہ انسانی خون کا دریا بہے اور تین دن و رات تک اس خونی دریا سے پن چکیاں چلیں تاکہ ١٨ہزار سے زائد اسلامی فوج کے لئے آٹا مہیا ہو سکے ۔

سیف کا ایسا افسانہ گڑھنے سے کیا مقصد تھا ؟ کیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خاندان مضر کے فخر و مباہات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرے ؟ یا اس کے علاوہ اور بھی کوئی مقصد تھا تاکہ اس کے ذریعہ دوسروں کو یہ سمجھائے کہ اسلام تلوار کی دھار سے خون کے دریا بہا کر پھیلا ہے، ملتوں کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے اور اپنے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں نہیں پھیلا جب کہ حقیقت یہی ہے ۔

۱۵۱

سیف کی حدیث کا نتیجہ

١۔ '' قارن بن قریانس''نام کے ایک سپہ سالار کو جعل کرنا ۔

٢۔'' الثنی '' اور '' الولجہ'' نام کی جگہیں جعل کرنا تاکہ مقامات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں یہ جگہیں درج ہو جائیں ۔

٣۔ مہلب ، ابو عثمان بن زید زیاد بن سرجس اور عبد الرحمن بن سیاہ نام کے چار اصحاب جعل کرکے اسلام کے راویوں میں ان کا اضافہ کرنا ۔انشا اللہ ہم اسی کتاب میں ان کی تفصیلات بیان کریں گے۔

٤۔ ادبی آثار کو زینت بخشنے والے ایک قصیدہ کی تخلیق ۔

٥۔ ایک ہزار سوار کی طاقت کے برابر ایک ایرانی پہلوان کا خالد کے ہاتھوں قتل ہونا اور خالدکا اس کی لاش سے ٹیک لگا کر میدان جنگ میں کھانا کھانا تاکہ اس افسانے کے حیرت انگیز منظر کے بارے میں سن کر اپنے اسلاف و اجداد کے فضائل ومناقب سننے کا شوق رکھنے والوں کو خوش کر سکے ۔

٦۔ اسیر ہونے والے تمام انسانوں کا مسلسل چند دن ورات تک سر تن سے جدا کرکے قتل عام کرنا ۔

٧۔ خون کے دریا سے تین دن ورات تک چلنے والی پن چکیوں کے ذریعہ اسلام کے ١٨ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لئے گندم پیس کر آٹا تیار کرنا۔

٨۔''الثنیٰ'' کے میدان میں تیس ہزار اور ''الیس''میں ستر ہزار اور سب ملاکر غرق ہوئے افراد کے علاوہ اسلامی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام ہونا۔

٩۔قعقاع جیسے ناقابل شکست پہلوان کی کرامت دکھانا کہ اگر وہ اور اس جیسے افراد نہ ہوتے اور مداخلت نہ کرتے تو سیف کے کہنے کے مطابق خدابہتر جانتا ہے کہ خالد انسانوں کے سر تن سے جد ا کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رکھتا !! حقیقت میں یہ وہی چیز ہے جس کو سننے کے لئے اسلام کے دشمنوں کے کان منتظر رہتے ہیں ، اور وہ یہ سننے کی تمنا رکھتے ہیں کہ اسلام اپنے دشمنوں سے جنگ کے دوران بے رحمی سے قتل عام کرنے کے بعد پھیلا ہے تاکہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کو تلوار کے سایہ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور ملتوں کا اپنی مرضی سے اسلام کی طرف مائل ہونا اسلام کے پھیلنے کا سبب نہیں بنا ہے کیا اس غیر معمولی افسانہ ساز سیف نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اسلام کے دشمنوں کی اور اپنی دیرینہ آرزوکو پورا نہیں کیا ہے ؟

۱۵۲

قعقاع ،حیرہ کے حوادث کے بعد

مفخرة تضاف الی مفاخر بطل تمیم القعقاع

سقعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ

(مولف)

صلح '' بانقیا'' کی داستان

طبری نے ''حیرہ کے بعد کے حوادث ''کے عنوان کے تحت سیف سے حسب ذیل روایت نقل کی ہے:

''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں نے خالد ابن ولید کے ساتھ ایک صلح کے تحت معاہدہ کیا کہ مسلمان اس شرط پر ان سے جنگ نہ کریں گے کہ وہ دربار کسریٰ کو اد اکئے جانے والے خراج کے علاوہ خالد کو دس ہزار دینار ادا کریں گے۔خالد نے مذکورہ باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور قعقاع بن عمرو تمیمی اور چند دیگر افراد کو اس پر گواہ قرار دیا''۔

اس کے بعد طبری نے یوں لکھاہے:

''جب خالد ''حیرہ''سے فارغ ہوا توعراقی علاقوں سے ہرمز دگرد تک سرحد بانوں نے بھی ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کی طرح ،دربار کسریٰ کو ادا کئے جانے والے خراج کے علاوہ بیس لاکھ درہم اور سیف کی ایک دوسری روایت کے مطابق دس لاکھ درہم خالد کو ادا کرنا قبول کئے ۔خالد نے اس پر ایک معاہدہ نامہ لکھا اور قعقاع وچند دیگر اشخاص کو گواہ قرار دیا ۔

اس کے بعد سیف کہتاہے :

''خالد بن ولید اسلامی فوج کاسپہ سالار تھا ۔اس نے دیگر شخصیتوں کو مختلف عہدوں پر فائز کرنے کے ضمن میں قعقاع بن عمرو کو سرحدوں کی حکمرانی اور کمانڈسونپی ۔خالد نے خراج دینے والوں کے لئے لکھی گئی رسید میں قعقاع کو گواہ کے طور پر مقرر کیا''

۱۵۳

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

ان تمام روایتوں کو طبری نے سیف کے حوالے سے ذکر کیاہے ،اس کے بعد ابن اثیر ،ابن کثیر ،اور ابن خلدون جیسے مؤرخوں نے ان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔اسی طرح کتاب ''الوثائق السیاسة''کے مؤلف نے مذکورہ تین عہد ناموں کو اسلامی سیاسی اسناد کے طور پر اپنی مذکورہ کتاب میں درج کیاہے ۔ ١

لیکن سیف کے علاوہ دیگر تاریخ دانوں نے ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کے صلح نامہ کو ہزار درہم کی بنیاد پر لکھاہے،نہ کہ دس ہزار دینار!اور قعقاع کے نام اور اس کی گواہی کا ذکر تک نہیں کیاہے۔اس کے علاوہ عراقی علاقوں سے ہر مزدگرد تک کی سرزمینوں کے بارے میں صلح کانام ونشان تک نہیں ملتا،بلکہ اس کے برعکس لکھا گیاہے ۔

'' ''حیرہ''،''الیس''اور ''بانقیا''کے علاوہ کسی اور شہر کے باشندوں سے کوئی معاہدہ نہیں ہواہے ۔اسی طرح سرحدوں پر سرداروں کو معین کرنے یاخراج دینے والوں کو بری کئے جانے پر قعقاع کی گواہی کا کوئی ذکر نہیں ملتا ''٢

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

''ابوبکر نے خالد بن ولید کو عراق کے جنوبی علاقوں کا مأمور مقرر کیا اور عیاض بن غنم کو شمالی علاقوں کی ماموریت دی۔خالد نے اپنی مأموریت میں عراق کے جنوبی علاقوں کو وسعت بخشی۔لیکن عیاض ایرانیوں کے محاصرہ میں آگیا اور مجبور ہوکر خالد سے مدد کی درخواست کی ۔خالد نے حیرہ میں قعقاع کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود عیاض کی مدد کے لئے عراق کے شمال کی طرف روانہ ہوا ۔دوسری طرف ایرانیوں اور قبائل ربیعہ کے عربوں نے مسلمانو ں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ''حصید''کے مقام پر اپنی فوج کی لام بندی کی تھی۔ اس علاقہ کے مسلمانوں نے ان سے نجات پانے کے لئے قعقاع سے مدد کی درخواست کی اور قعقاع نے ان کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی ۔جب خالد واپس''حیرہ''پہنچا تو اس نے قعقاع کو ''حصید''میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں اور جزیرہ کے عربوں سے لڑنے کے لئے روانہ کیا۔قعقاع نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی ۔یہ جنگ دشمنوں کی شکست پر تمام ہوئی ۔ ''روز مہر''نام کا ایرانی سپہ سالار ماراگیااور ''روز بہ''بھی عصمة بن عبد اللہ کے ہاتھوں قتل ہوا''

۱۵۴

طبری اور سیف سے نقل کرنے والے مؤرخین

طبری نے ان مطالب کو سیف سے نقل کرکے لکھا ہے ۔اس کے بعد ''ابن اثیر،ابن کثیر'' اور ابن خلدون نے ان روایتوں کو طبری کے حوالے سے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔

ہم نے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' میں طبری اور اس کی تاریخ کے بارے میں عالم اسلام کے مذکورہ تین عظیم مورخوں کے نظریات بالترتیب حسب ذیل ذکر کئے ہیں :

١۔ ابن اثیر اپنی بات یوں شروع کرتا ہے :

'' جو کچھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ سے متعلق ہے ،ہم نے اسے کچھ گھٹائے بغیر نقل کیا ہے ''

٢۔ ابو الفدایوں کہتا ہے :

'' ہم نے ابن اثیر کی بات کو نقل کیا ہے اور اس کی تاریخ کوخلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے''

٣۔ ابن خلدون لکھتا ہے :

'' خلافت اسلامیہ سے متعلق مطالب اور جو کچھ ارتداد کی جنگوں اور فتوحات سے مربوط ہے مختصر طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ''

٤۔لیکن ابن کثیر ،اکثر اپنی روایتوں کے مآخذ یا مآخذ کے بارے میں کہ طبری ہے کا صراحتا ذکر کرتا ہے یا بعض مواقع پر براہ راست سیف کا نام لیتا ہے اور اسے اپنی داستان کی سند کے طور پر پیش کرتا ہے ۔

حموی ،سیف کی اس داستان پر اعتبار کرتا ہے اور ''حصید '' کا نام لیتے ہوئے لکھتا ہے :

'' حصید '' کوفہ و شام کے درمیان ایک صحراہے ،یہاں پر ١٣ھ میں قعقاع بن عمر و نے ایرانی فوجوں اور ربیعہ وتغلب کے عربوں کے ساتھ گھمسان کی جنگ کی اور ایرانی فوج کے دو سردار ''روزمہر '' اور ''روزبہ'' مارے گئے اور قعقاع نے اس جنگ میں رزم نامہ اس طرح کہا ہے :

'' اسماء(۱) کو خبر دو کہ اس کا شوہر ایرانی سردار'' روزمہر '' کے بارے میں اس دن

____________________

۱)۔عربوں میں رسم تھی کہ جنگوں میں رزم نامہ پڑھتے ہوئے اپنی بہن یا بیوی کا نام لیتے تھے اور اپنے افتخارات بیان کرتے تھے ۔

۱۵۵

اپنی آرزو کو پہنچا ،جب ہم ہندی تلواروں کو نیام سے نکال کر ان کی فوج پر حملہ آور ہوکر ان کے سر تن سے جدا کر رہے تھے ''

یہ سب کچھ سیف نے کہا ہے اور طبری نے اس سے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بعد میں طبری سے نقل کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عیاض ،خالد کے ساتھ عراق کی ماموریت پر تھا بلکہ اس کے بر خلاف اس کا ابوعبید کے ساتھ شام میں ہونا ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف ''حصید'' نامی مقام اور وہاں پر جنگ کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نام ونشان تک نہیں پایا۔

سند کی پڑتال

سیف نے مذکورہ حدیث ،محمد مہلب اور زیاد سے روایت کی ہے ۔ان کے بارے میں پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ تینوں راوی سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ غصن بن قاسم نام کے ایک اور راوی سے بھی روایت کی ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے ١٣،احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

اسی طرح ابن ابی مکنف نام کے ایک اور شخص کا نام بھی لیا ہے ۔

موخّر الذکر دونوں راویوں کے نام بھی ہم نے طبقات اور راویوں کی فہرست میں کہیں نہیں پائے ۔

آخر میں سیف نے اس داستان کے بانچویں راوی کے طور پر بنی کنانہ کے ایک شخص کو پیش کیا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اپنے خیال میں اس شخص کا نام کیا رکھا تھا تاکہ ہم اس کی بھی تلاش کرتے !۔

اس اصول کے تحت ہمیں حق پہنچتا ہے کہ مذکورہ بالا راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کریں ۔

۱۵۶

اس حدیث کے نتائج

١۔تین فوجی معاہدوں اور ایک صلح نامہ کو سیاسی اسناد کے طور پر پیش کرنا۔

٢۔ ''حصید'' نام کی ایک جگہ کو تخلیق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٣۔ ایسے اشعار کی تخلیق کرنا جو ادبیات کی کتابوں درج ہو جائیں ۔

٤۔خاندان تمیم کے سورما ،قعقاع بن عمرو کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا ۔

یہ سب اپنی جگہ پر لیکن وہ کون سا سبب تھا جس نے سیف کو یہ کام انجام دینے پر مجبور کیا کہ ابو عبیدہ کے ہمراہ شام میں جنگ میں مصروف '' عیاض'' کو خالد کے ساتھ عراق پہنچادے ؟!اگر زندیقی ہونے کے سبب یا کسی اور چیز نے اسے ایسا کرنے پر مشتعل نہیں کیا کہ وہ اسلام کی تاریخ میں تحریف کرے ،تو اور کیا سبب ہو سکتا ہے ؟!

۱۵۷

قعقاع ،مصیخ اور فراض میں

وبلغ قتلاهم فی المعرکة والطلب مائة الف

''جنگ فراض میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی''

(سیف)

مصیخ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

'' ایرانی اور مختلف عرب قبیلوں نے ''حصید '' میں شکست کھانے کے بعد '' احنافس'' سے پسپائی اختیار کرکے ''حوران '' و ''قلت'' کے درمیان واقع ایک جگہ '' مصیخ'' میں اپنی منتشر فوج کو پھر سے منظم کیا جب اس فوج کے ''مصیخ '' میں دوبارہ منظم ہونے کی خبر خالد کو ملی ،تو اس نے قعقاع ،ابی لیلیٰ بن فدکی ا عبد بن فدکی اور عروہ بن بارقی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ذہن نشین کرایا کہ فلاں شب فلاں وقت پر اپنی فوج کو لے کر '' مصیخ '' کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پر اس جگہ حاضر ہوئے انھوں نے تین جانب سے دشمن پر شب خون مارا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیئے ۔ لوگوں نے اس قتل عام کے مناظر کی بھیڑ بکریوں کی لاشوں پر لاشیں گرنے سے تشبیہ دی ہے !!''

وہ مزید لکھتا ہے :

'' دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں عبد الغزی نمری اور ولید بن جریر بھی موجود تھے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی گواہی کے طور پر ابوبکر کا خط بھی ان کے پاس موجود تھا یہ دونوں بھی اس جنگ میں قتل کئے گئے ۔ان کے مارے جانے کی خبر ابوبکر کو پہنچی اور خاص کر یہ خبر کہ عبد الغزی نے اس شب تین جانب سے ہونے والے حملہ کو دیکھ کر فریاد بلند کی تھی کہ : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا تو پاک و منزہ ہے !'' چوں کہ یہ دونوں بے گناہ مارے گئے تھے اس لئے ابوبکر نے ان کی اولاد کو ان کا خون بہا ادا کیا ۔ عمر نے ان کے مارے جانے اور اسی طرح مالک بن نویرہ کے قتل کے بارے میں خالد پر اعتراض کیا اور اس سے ناراض ہو گئے اور ابوبکر ،عمر کی تسلی کے لئے یہی کہتے تھے '' جو بھی فوج کے درمیان رہے گا اس کا یہی انجام ہوگا!''

۱۵۸

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

حموی نے سیف کی روایت کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا ہے اور '' مصیخ'' کے بارے میں سیف کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے اور اسے ایک واقعی جگہ کے طور پرپیش کیاہے اور لکھتاہے :

'' مصیخ '' حوران اور قلت'' کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں پر خالد بن ولید اور خاندان تغلب کے درمیان جنگ ہوئی تھی ''

اسی کے بعد لکھتا ہے :

'' قعقاع نے اس جنگ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

'' مصیخ کی جنگ میں خاندان تغلب کے کارناموں کے بارے میں ہم سے پوچھو !کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں ؟ جب ہم نے ان پر شب خون مارا تو اس کے نتیجہ میں ان کا صرف نام ہی باقی رہا ۔ ''ایاد''اور ''نمور''(۱) کے قبیلے بھی خاندان تغلب کے دوش بدوش تھے اور وہ بھی ان باتوں کو جوان کے وجود کو لرزہ بر اندام کئے دے رہی تھیں سن رہے تھے''

آپ ان مطالب کو صرف سیف کے افسانوں میں پاسکتے ہیں ۔دیگر لوگوں نے ''مصیخ '' اور اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ تک نہیں کیاہے ۔کیوں کہ وہ حقیقت لکھنے کی فکر میں تھے نہ کہ افسانہ سازی میں ۔

سند کی پڑتال:

''مصیخ بنی البرشائ'' کے بارے میں سیف کی حدیث ''حیرہ'' کے واقعات کے بعد اور ان ہی حوادث کا سلسلہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی سند بھی وہی ہے جو ''حیرہ'' کے بارے میں بیان ہوئی ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ تاریخ دانوں نے اس قصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے تاکہ ہم ان کے اور سیف کے بیان کے درمیان موازنہ و بحث کریں ،بلکہ یہ تنہا سیف ہے جس نے یہ روایت جعل کی ہے ،اور انشاء اللہ ہم جلد ہی اس کے جھوٹ اور افسانہ نویسی کے سبب پر بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱)۔ سیف نے ایسا خیال کیا ہے کہ ایاد ،نموراور تغلب کے قبیلوں نے ایک دوسرے کے دوش بدوش جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۱۵۹

داستان مصیخ کے نتائج :

١۔ '' مصیخ بنی البرشائ'' نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا جاسکے ۔

٢۔ عبد ابن فدکی اور اس کے بھائی ابو لیلیٰ نام کے دو صحابی جعل کرنے کے علاوہ '' نمری'' نام کے ایک اور صحابی کو جعل کرنا جسے ابوبکر نے عبداللہ نام دیا ہے تاکہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے افسانوں کے مطابق درج ہوں ۔

٣۔ افسانوی سورما قعقاع کے اشعار بیان کرنا۔

٤۔ ایک خونیں اور رونگٹے کھڑے کرنے والی جنگ کی تخلیق کرنا تاکہ میدان میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی کشتوں کے پشتے لگتے دکھائے جائیں جس سے ایک طرف اپنے اسلاف کے افسانے سننے کے شوقین اور دوسری طرف اسلام کے دشمنوں کے دل شاد کئے جائیں اور اس قسم کی چیزیں سیف کے افسانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں !

فراض کی جنگ

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

''واقع مصیخ کے بعد تغلب کے بھگوڑ ے''دارالثنی''اور ''زمیل''میں جمع ہوئے اور خالد بن ولید نے قعقاع کے ہمراہ ان پر وہی مصیبت توڑی جو مصیخ میں رو نما ہوچکی تھی۔''

اس کے بعد لکھتاہے:

''خالد ،شام اور عراق کی سرحد پر واقع ''فراض ''کی طرف روانہ ہوا ۔سیف کہتاہے :رومی مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایرانی سرحد بانوں سے اسلحہ اور مدد حاصل کی اور مختلف عرب قبیلوں ،جیسے تغلب ،ایاد اور نمر سے بھی مدد طلب کی اس طرح ایک عظیم فوج جمع کر کے خالد بن ولید کے ساتھ ایک لمبی مدت تک خونیں جنگ لڑی ۔ سرانجام اس جنگ میں رومیوں نے شکست کھائی اور سب کے سب میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔خالد نے حکم دیا کہ بھاگنے والوں کے سر تن سے جدا کئے جائیں ۔ خالد کے سوار ،فراریوں کو گروہ گروہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کرکے ان کا سر تن سے جدا کرتے تھے ۔اس طرح مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔''

۱۶۰

اس کے بعد طبری لکھتا ہے:

''خالدکی اس فوج کشی کے دوران متعدد جنگیں لڑی گئیں اور بہت سے رزمیہ قصیدے لکھے گئے اس کے بعد خالد ''حیرہ'' کی طرف واپس ہو ااور قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کو حکم دیا تاکہ فوج کے ساتھ چلے اور باقی فوجیوں کی کمانڈ شجرہ بن اعزکے ہاتھ میں دی اور یہ افواہ پھیلائی کہ باقی فوجیوں کے ہمراہ پیچھے پیچھے خود بھی آرہا ہے ۔اس طرح ماہ ذی قعدہ کے پانچ دن بچے تھے کہ وہ چھپکے سے فوج سے خارج ہوا اور حج انجام دینے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہو ا۔ جب وہ حج سے واپس آیا تو اس وقت ابھی باقی فوجی حیرہ نہیں پہنچے تھے ۔خالد کے اس اچانک سفر کی خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی خلیفہ کو یہ خبر سخت ناگوار گزری ۔انھوں نے غضبناک ہو کر تنبیہ کے طور پر خالد کو عراق کے بجائے اسے شام کی ماموریت دے دی ''

حموی اس روایت پر اعتبار کرتے ہوئے ''فراض ''کے بارے میں لکھتاہے:

''جو کچھ سیف کی کتاب''فتوح''میں آیاہے،اس کے مطابق ،خالد بن ولید نے ''فراض''جو شام ، عراق اور جزیرہ کی مشترک سرحد پر فرات کی مشرق میں واقع ہے اور رومیوں ،عرب اور ایرانیوں نے وہاں پر اجتماع کیاتھا میں قبیلہ بنی غالب پر اچانک حملہ کیا اور گھمسان کی جنگ کی''۔سیف کہتاہے:اس جنگ میں ایک لاکھ انسان مارے گئے ۔اس کے بعد خالد ١٢ ھ میں جب ماہ ذی الحجہ کے دس دن باقی بچے تھے سفر حج سے واپس بحیرہ پہنچا ۔قعقاع نے اس واقعہ کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''میں نے سرزمین ''فراض ''میں ایرانیوں اور رومیوں کے اجتماع کو دیکھا کہ ایام کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کی سلامتی خطرے میں پڑگئی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جمعیت کو تتر بتر کرکے رکھ دیا اور اس کے بعد قبیلۂ بنی رزام پر شب خون مارا۔ابھی اسلام کے سپاہی جابجا نہیں ہوئے تھے کہ دشمن سر کٹی بھیڑوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔''

سند کی پڑتال

فراض کی روایت بیان کرنے والے بھی سیف کے دو راوی محمدومہلب ہیں اور پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ سیف کے جعلی راوی ہیں ۔اس کے علاوہ سیف کا ایک اور راوی ظفر بن دہی ہے کہ انشا ء اللہ اس کی آئندہ وضاحت کریں گے ۔ان کے علاوہ اس نے بنی سعد سے ایک شخص کوراوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف کے خیال میں اس کا کیا نام تھا تاکہ ہم اس کی تحقیقات کرتے۔

۱۶۱

بحث کا نتیجہ:

سیف کے جعلی صحابی ابی مفزرکے سلسلے میں بحث کے دوران ''الثنی''اور ''زمیل''کی جنگ کے بارے میں بھی انشاء اللہ تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن ''فراض'' کی جنگ میں خالد کے اچانک حملہ کرکے شب خون مارنے اور ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام کرنے ،قعقاع کی خو دستائی اور رجز خوانی وغیرہ اور خالد کے چوری چھپے حج پر جانے کے بارے میں صرف سیف نے روایت اور افسانہ سازی کی ہے ۔طبری پہلا مشہور مورخ ہے جس نے سیف کے افسانوں کو نقل کرکے لوگوں کی نگاہ میں اپنی معتبر تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔اور ان افسانوں کو دوسر ے تاریخ دانوں نے طبری سے نقل کیا ہے ۔اس میں صرف یہ فرق ہے کہ طبر ی نے اپنی عادت کے مطابق اپنی تاریخ میں اشعار اور رجز خوانیوں کوثبت نہیں کیا ہے اگر چہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان جنگوں میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے گئے ہیں ۔

لیکن مشہور جغرافیا نویس ،حموی نے قعقاع کی رجز خوانیوں میں سے ایک حصہ سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کیا ہے اور ایک حصے کو ''الفراض ''کے ذکر کے ذیل میں اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے ۔

لیکن یہ بات قابل غورہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اس طرح ظاہر کیا کہ وہ اپنی فوج میں موجود ہے ،لیکن چوری چھپے اس وقت حج کے لئے نکل جاتا ہے جب کے ماہ ذیقعدہ کے ابھی پانچ دن باقی تھے اور حموی کے قو ل کے مطابق ذی الحجہ کے ١٠دن باقی تھے جب وہ واپس آکر اپنی فوج سے ملحق ہو تا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ سپہ سالار کی ٢٥ دن فوج کی غیر حاضری کو سپاہی کس طرح نہ سمجھ سکے ؟!اس مدت میں فوج کے لئے نماز کی امامت کے فرائض کس نے انجام دئے(۱) ؟! اس کی غیر حاضری سے فوج کے افسر تک کیسے آگاہ نہ ہوسکے؟! اور اس سے بھی بڑھ کر ،خالد نے اس زمانے میں ''حیرہ ''سے مکہ تک کا سفر نوہی دنوں میں کس طرح طے کیا ؟!یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں غور وفکر پر مجبور کرتے ہیں اور اس امرکاسبب بنتے ہیں کہ ان مسائل پر بیشتر بحث وتحقیق کریں ۔انشاء اللہ ہم بعد میں اس سلسلے میں مزید بحث وتحقیق کریں گے کہ سیف نے کیوں ان حالات میں خالد بن ولید کے لئے اس طرح کے حج کی داستان جعل کی ہے۔

____________________

(۱)۔اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ ،بہر صورت اسلامی فوج کی نماز پنجگانہ کی امامت فوج کاسردار کرتاتھا۔

۱۶۲

جنگ فراض کی داستان کے نتائج:

١۔ میدان کارزار میں مضری خاندان کے سپہ سالار خالد بن ولید اور تمیمی خاندان کے سورما قعقاع کے کمالات وافتخارات دکھانا۔

٢۔حج کی لمبی مسافت کو طے کرنے میں خالد بن ولید کی کرامت کااظہار کرنا۔

٣۔شجرہ نامی ایک شخص کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر جعل کرنا۔

٤۔جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کی داستان گڑھ کر اسلام کے دشمنوں کو شاد کرنا۔

٥۔اسلامی ادبیات میں اشعار کا اضافہ کرکے اپنے اسلاف کی کرامتیں سننے کے شوقین لوگوں کو افسانوی اشعار سے خوش کرنا۔

۱۶۳

قعقاع ،خالد کے ساتھ شام جاتے ہوئے

و فیهم صحابة ورواة مختلفون

اس داستان کی سند میں بہت سے افسانوی اصحاب اور راوی نظر آتے ہیں !

(مؤلف)

خالدکی شام کی جانب روانگی کی داستان

مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمرو عاص نے شام میں دشمن کی فوج کی کثرت دیکھ کر ابوبکر کو ایک خط لکھا اور انھیں حالات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے مدد طلب کی ۔ابوبکر نے مجلس میں حاضر مسلمانوں سے صلاح و مشورہ کیا۔ان میں سے عمر بن خطاب نے یوں کہا:''اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین !خالد کو حکم دیجئے کہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوجائے اور عمر وعاص کی مدد کرے ''۔ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور خالد کے نام ایک خط لکھا ۔جب ابوبکر کاخط خالد کوپہنچا تو اس نے کہا:''یہ عمر کاکام ہے ،چونکہ وہ میرے ساتھ حسد کرتے ہیں اس لئے نہیں چاہتے کہ پورا عراق میرے ہاتھ فتح ہو بلکہ چاہتے ہیں کہ میں عمر وعاص اور اس کے ساتھیوں کی مدد کروں اور ان میں شامل ہوجاؤں ۔اگر انھوں نے کوئی کامیابی حاصل کی تو میں بھی اس میں شریک رہوں ،یا ان میں سے کسی کی کمانڈ میں کام کروں تاکہ اگر کوئی کامیابی حاصل ہو تو میرے بجائے اس کو فضیلت ملے '' ١

۱۶۴

ایک دوسری روایت میں ہے:

''یہ اعسیر(۱) بن ام شملہ کاکام ہے،اسے یہ پسند نہیں ہے کہ پورا عراق میرے ہاتھوں فتح ہو .....تا آخر ''

سیف یہ نہیں چاہتاتھا کہ خلیفہ عمر اور خالد جیسے سورما کہ دونوں قبیلہ مضر کے بزرگ ہیں کے درمیان بد گمانی دشمنی کی خبر لوگوں میں پھیلے ۔اور یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ خالد کو عراق کی فتح سے محروم رکھے ۔اس لئے اس مسئلہ کے بنیادی علاج کی فکر میں پڑا ہے اور خالد بن ولید کے ہاتھوں عراق کے مختلف شہروں کی فتحیابی کے سلسلے میں مذکورہ داستانیں جعل کی ہیں ۔ہم نے ان داستانوں کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔اسی طرح خالد کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے سلسلہ میں سیف نے یہ داستان جعل کی کہ :خالد کے شب خون کے نتیجہ میں مصیخ بنی البرشاء میں دو مسلمانوں کا قتل ہونا ،عمر کا ان کے قتل کی وجہ سے خالد پر غضبناک ہونا ،خالد کے مخفی طور پر حج پر جانے کے سلسلے میں خلیفہ ابوبکر کا اس پر ناراض ہونا،خالد کو شام بھیجے جانے کے وجوہات تھے اور وہ عراق کو فتح کرنے سے محروم رہے۔

جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے کہ :

''عمر ،خالد بن ولید کے بارے میں ابوبکر کے پاس مسلسل شکایت کرتے تھے۔لیکن ابوبکر ان کی باتوں پر اعتناء نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے:''میں اس تلوار کو دوبارہ نیام میں نہیں ڈالوں گا جسے خدا نے نیام سے باہر کھینچا ہے!''۔ ٢

____________________

(۱)اعیسر ،اعسر کا اسم تصغیر ہے ،عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہو۔

۱۶۵

اس کے بعد خالد کے نام ابو بکر کے خط کا ایک اور روایت میں ذکر کرتا ہے کہ یہ سب جعلی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں ہے اس پوری مقدمہ سازی کے بعد ایک روایت میں کہتا ہے :٣

''خالد عمر کے بارے میں بد گمان تھا اور کہتا تھا: یہ ان ہی کا کام ہے ۔وہ حسد کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ عراق میرے ہاتھوں فتح ہو اور یہ افتخار مجھے ملے اس کے باوجود خدا نے عراق کی سرحدوں کو میرے ہاتھوں توڑدیا اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو میری وجہ سے حوصلہ اور جرأت بخشی ''

باالآخر چھٹی روایت میں کہتا ہے :

''لیکن (خالد) یہ نہیں جانتا تھا کہ عمر کا کوئی قصور نہیں تھا ،یہاں تک کہ قعقاع نے اس سے کہا : عمر کے بارے میں بد ظن نہ ہو خدا کی قسم ابوبکر نے جھوٹ نہیں بولا ہے ۔ اور ظاہر داری نہیں کی ہے ''خالد نے قعقاع سے کہا:'' تم نے سچ کہا !لعنت ہو غصہ و بدگمانی پر ۔خدا کی قسم اے قعقاع !تم نے مجھے خوش بینی پر آمادہ کیا اور عمر کے بارے میں مجھے خوش بین بنا دیا '' قعقاع نے خالد کے جواب میں کہا:'' خدا کا شکر ہے جس نے تمھیں سکون بخشا اور تم میں خیر و نیکی کو باقی رکھا اور شر و بدگمانی کو تم سے دور کیا !!''

اس روایت سے سیف کی زبانی خالد کی جنگوں میں فتحیابیوں ،غنائم وغیرہ کے بارے میں جھوٹ اور افسانوں کے اسرار فاش ہوتے ہیں ۔سیف نے ان سب داستانوں اور افسانوں کو اس لئے گڑھا ہے تاکہ سرانجام خالد کی زبانی یہ کہلوائے کہ:

'' خدا نے میرے ذریعہ عراق کی سرحدوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ،وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے کی جرأت وہمت بخشی ''

سیف کے بقول خالد بن ولید کے بعد یہ سب فضل وافتخار خاندان تمیم کے بے مثال سورما ''قعقاع ''اور اس کے تمیمی بھائیوں تک پہنچتے ہیں اور سر انجام قعقاع کی وجہ سے عمر کی نسبت خالد کی بد گمانیاں دور ہو جاتی ہیں ۔

اسی طرح ہم نے خون کے دریا کی داستان میں دیکھا کہ کس طرح یہ فضل وشرف ان دوناقابل شکست سور مائوں کے درمیا ن تقسیم ہوتے ہیں ۔

سیف نے خالد بن ولید کے لئے عراق کی طرح شام میں بھی قابل توجہ افتخارات کے افسانے گڑھے ہیں ،انشاء اللہ ان کا ہم آگے ذکر کریں گے ۔

۱۶۶

سند کی پڑتال :

خالد کی عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں سیف کی حدیث کے راوی وہی ہیں جنھیں داستان ''الفراض''میں نقل کیا گیا ہے ۔جن کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ سب راوی جعلی اور سیف کے خیالات کی تخلیق تھے۔

اس جانچ کا خلاصہ :

طبری نے اپنی تاریخ میں ١٢ ہجری کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے خالد کے ہمراہ قعقاع کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کا ذکر کیا ہے اور حموی نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں سیف کے ذکر کردہ مقامات کا نام لیا ہے ، اس کے بعد طبری سے ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ان تمام مطالب کو نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ،جن کا ہم نے ذکر کیا جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ صحابہ کی تاریخ کے بارے میں مذکورہ مورخین نے صرف طبری سے نقل کیا ہے اور طبری کی معتبر تاریخی سند سیف ابن عمر تمیمی کی کتابیں ''فتوح '' اور ''جمل '' ہیں ہم نے اس مطلب کو '' سبائیوں کے افسانے کا سرچشمہ '' کے عنوان سے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبائ'' میں واضح طورسے بیان کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتیں :

بلاذری نے اپنی معتبر کتاب '' فتوح البلدان'' میں عراق میں خالد کی فتوحات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، لیکن اس نے وہاں پر قعقاع اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ،اور اس کے علاوہ متعدد جنگوں جیسے الثنی ،الولجہ اور حصید وغیرہ اور کئی شہروں کو فتح کئے جانے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔

طبری نے بھی سیف کے علاوہ ابن اسحاق کے ذریعہ خالد کی جنگوں کا ذکر کیا ہے اور اس میں تقریبا بلاذری کی طرح قعقاع اور دیگر مطالب کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا ۔

دینوری نے بھی اپنی کتاب '' اخبار الطوال '' میں عراق میں خالد کی جنگوں کے بارے میں کچھ مطالب درج کئے ہیں اس میں بھی قعقاع اور دیگر افسانوں کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے وہ صرف سیف ابن عمر تمیمی کے یہاں پایا جاتا ہے اور وہ ان تمام افسانوں اور جھوٹ کا سر چشمہ ہے ۔٤

۱۶۷

خالد شام جاتے ہوئے

سیف خالد ابن ولید کے سفر شام کے بارے میں لکھتا ہے :

''خالد نے عراق کے علاقہ '' سماوہ'' کے ایک گائوں کی طرف حرکت کی اور وہاں سے قصوان میں واقع '' مصیخ بہراء '' پر حملہ کیا اور مصیخ ایک بستی ہے '' نمر'' کے باشندے مئے نوشی میں مصروف تھے اور ان کا ساقی یہ شعر پڑھ رہا تھا :'' اے ساقی مجھے صبح کی شراب پلا دے اس سے قبل کہ ابوبکر کی سپاہ پہنچ جائے '' کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس طرح اس کا سرتن سے جدا کیا گیا کہ شراب کا جام جو اس کے ہاتھ میں تھا خون سے بھر گیا''

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ایک اور روایت پیش کی ہے :

'' خالد نے ولید بہراء کے اسیروں کو اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا وہاں پر اسے اطلاع ملی کہ غسانیان نے ''مرج راہط '' میں فوج کشی کی ہے لہٰذا وہ ان کی طرف بڑھ گیا اور ''مرج الصفر '' کے مقام پر ان سے رو برو ہوا ان کا سردار '' حارث ابن الایہم '' تھا خالد نے ان سے سخت جنگ کی اور اس کو اور اس کے خاندان کو نابود کرکے رکھ دیا اس کے بعد چند دن وہاں پر قیام کیا اور جنگی غنائم کا پانچواں حصہ وہیں سے ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا اس کے بعد قنات بصری کی طرف بڑھا یہ شام کے ابتدائی شہروں میں سے ایک شہر تھا جو خالد کے ہاتھوں فتح ہوا اور خالد نے اس شہر میں پڑائو ڈال دیا پھر خالد قنات بصری سے نو ہزار سپاہیوں کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لئے '' واقوصہ'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر رومیوں سے جنگ کی ''طبری کی روایت کا خاتمہ ۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی :

ابن اثیر نے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں اور اپنی تاریخ میں انھیں درج کیا ہے :

ابن عساکر نے قعقاع کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے :

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے '' واقوصہ'' کی جانب بڑھنے کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں '' :

۱۶۸

قعقاع کے رزمیہ اشعار

'' ہم نے خشک اور تپتے صحرائوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ طے کیا اور ''سومی'' کے بعد ''فرافر''کی طرف آگے بڑھے ۔وہیں پر ''بہرائ'' کی جنگ کا آغاز کیا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہمارے سفید اور زرد اونٹ ہمیں حملہ کے لئے ان غیر عرب اجنبیوں کی طرف لے گئے جو بھاگ رہے تھے ۔میں نے شہر بصری سے کہا : اپنی آنکھیں کھول دے اس نے خود کو اندھا بنا لیا کیوں کہ ''مرج ا لصفر ''کے مقام پر'' ایہم'' اور ''حارث غسانی' ' کی سرکردگی میں بعض گروہ خونخوار درندوں کی طرح جمع ہو گئے تھے۔ ہم نے ''مرج الصفر '' میں جنگ کی اور خاندان غسان کی ناک کاٹ کے رکھ دی اور انھیں شکست فاش سے دو چار کیا !اس دن ان لوگوں کے علاوہ جو ہماری تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھرے پڑے تھے بقیہ تمام غسانی بھاگ گئے ۔وہاں سے ہم پھر بصری کی طرف لوٹے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس نے بھی جو کچھ ہم سے پوشیدہ تھا ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ہم نے بصری کے دروازے کھول دیئے اس کے بعد وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکر '' یرموک'' کے قبائل کی طرف بڑھے ''

اس رجز کو ابن عساکر نے سیف کی روایت کے آخر مین درج کیا ہے جب کہ طبری نے اپنی عادت کے مطابق کہ وہ اکثر اشعار و رجز کو حذف کردیتا ہے اس رجز کا ذکر نہیں کیا ہے اور سیف کی روایت سے اسے حذف کر دیا ہے ۔

حموی بھی مصیخ کی معرفی میں سیف کی حدیث کو سند قرار دے کر لکھتا ہے :

' 'مصیخ بہرائ''شام کی سرحد پر ایک اور بستی ہے۔ خا لد بن ولید نے شام جاتے ہوئے ''سومی '' کے بعد وہاں پر پڑائوڈالا ۔چونکہ خالد نے مصیخ کے لوگوں کو مستی کی حالت میں پایا اوریہی مستی ان کے لئے موت کا سبب بنی ۔جب خالد نے اپنے سپاہیوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا،ان کے بزرگ و سردار نے یہ حالت دیکھ کر چیختے ہوئے کہا : ''اے ساقی !صبح کی شراب پلا!اس سے قبل کہ ابوبکر کی فوج پہنچ جائے ،شائد ہماری موت نزدیک ہو اور ہم کچھ نہ جانتے ہوں ''

کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس کاسر تن سے جدا کیا گیا اور خون و شراب باہم مل گئے۔ان کا کام تمام کرنے کے بعد ان کے اموال پر غنیمت کے طور پر قبضہ کیا گیا ۔غنائم کے پانچویں حصہ کو ابوبکر کے لئے مدینہ بھیج د یا گیا۔

۱۶۹

اس کے بعد خالد یرموک کی جانب بڑھا ۔قعقاع بن عمرو نے مصیخ بہراء کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر حموی نے مذکورہ بالا اشعار کے شروع کے تین شعر ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے یرموک کے موضوع کے بارے میں بھی سیف کی اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے لکھاہے:

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں اس طرح کہاہے: ...''

اور یہاں پر وہ مذکورہ اشعار کادوسرا حصہ ذکر کرتاہے۔

عبد المؤمن نے یرموک اور مصیخ کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع''میں حموی کی روایت سے استناد کیاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

جو کچھ خالد کی فتوحات کے بارے میں ذکر کیا گیاوہ سیف ابن عمر کی تحریر ہے۔ لیکن دوسروں کی تحریروں میں ایک تو ''مصیخ بہرائ''کا کہیں ذکر نہیں آیاہے۔دوسرے فتح بصری کے بارے میں تمام مورخین اس بات پر متفق القول ہیں کہ خالد کے وہاں پہنچنے سے پہلے ابو عبیدہ جراح ،یزید بن ابوسفیان ،اور شرجیل بن حسنہ کی سربراہی میں اسلامی فوج وہاں پر پہنچ چکی تھی ۔خالد اور اس کی فوج وہاں پہنچنے کے بعد ان سے ملحق ہوئی ۔اس لحاظ سے بصری صرف خالد اور اس کی سپاہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہواہے۔ ٥

سند کی پڑتال:

سیف ،خالد کے عراق سے شام کی جانب جانے کے بارے میں محمد ومہلب سے روایت کرتا ہے کہ یہ دونوں راوی اس کے جعلی اصحاب ہیں ۔اسی طرح عبیداللہ بن محفز بن ثعلبہ سے بھی روایت کی ہے کہ اس نے قبیلہ بکر بن وائل کے کسی ایک فردسے روایت کی ہے ۔لیکن عبید خود ان افراد میں سے ہے جو مجہول ہیں اور وہ سیف کے ذہن کی مخلوق ہے ۔طبری نے سیف کی چھ روایتیں اس سے نقل کی ہیں ۔لیکن بکر بن وائل کے قبیلہ کاوہ فرد معلوم نہیں کون ہے کہ ہم راویوں کی فہرست میں اس کو تلاش کرتے !!

۱۷۰

تحقیق کانتیجہ :

ابن عساکر قعقاع کے حالات کے بارے میں شروع سے آخر تک صرف سیف کی ایک حدیث کو نقل کرتا ہے اور خاص کرتاکید کرتا ہے کہ یہ سیف کی روایت ہے۔

طبری نے خالد کے شام کی طرف سفر کے بارے میں سیف کی حدیث کو نقل کیاہے لیکن اپنی

عادت کے مطابق اس کے رجز کوحذف کردیا ہے ۔

حموی نے اس روایت کے ایک حصہ کو مصیخ کے ذکر میں اور دوسرے حصہ کو یرموک کی تشریح میں کسی راوی کانام لئے بغیر ذکر کیا ہے اور یہی امر سبب بن جاتاہے کہ ایک محقق اس پر شک وشبہ کرے کہ ممکن ہے قعقاع کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ بھی کہیں آیا ہو ۔اسی طرح یہ شبہ مصیخ کے بارے میں بھی دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ (محقق) نہیں جانتا کہ مصیخ سیف کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔

سیف کی حدیث کے نتائج :

١۔ خالد بن ولید کے لئے شجاعتیں اور افتخارات درج کرانا۔

٢۔ مصیخ نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ یہ نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو جائے ۔

٣۔قعقاع کے اشعار سے ادبیات عرب کو مزین کرنا ۔

٤۔شام میں پہلی فتح کو خالد بن ولید اور اس کے عراقی سپاہیوں کے نام درج کرانا کیوں کہ عراق سیف ابن عمر کا وطن ہے ۔

۱۷۱

قعقاع ،شام کی جنگوں میں

کم من اب لی قد و رثت فعاله

کتنے ایسے میرے اسلاف و اجداد ہیں جن سے میں نے نیکی اور شجاعت وراثت میں پائی ہے

(سیف کا افسانوی سورما ،قعقاع)

جنگ یرموک کی داستان

طبری ١٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''یرموک کی جنگ میں خالد بن ولید نے گھوڑسواروں کی فوج کے ایک دستہ کی کمان قعقاع بن عمر و کو سونپی اور اسے دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیا قعقاع نے خود کو جنگ کے لئے آمادہ کیا اور حسب ذیل رجز پڑھے :

'' کاش !جنگجو اور شجاع سپاہیوں کو تہس نہس کرنے سے پہلے تجھے سواروں کے درمیان دیکھتا ،تجھے میدان جنگ میں دیکھ کر تیرا مقابلہ کرتا''

اس کے بعد طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کی تفصیلات درج کرتے ہوئے رومیوں کی جنگی تیاریوں کی عجیب طرز سے توصیف کی ہے:

''رومیوں نے اپنے سپاہیوں کی اس طرح تقسیم بندی کی تھی : اسّی (٨٠)ہزار فوجی ایک دوسرے سے سٹی ہوئی قطاروں کی صورت میں خود کو ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھے !چالیس ہزار فدائی جنگجوئوں نے خود کو زنجیروں سے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھا تھا !چالیس ہزار سپاہیوں نے بھی خود کو دستاروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا! اس کے علاوہ اسی(٨٠) ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل فوج تھی ،غرض دشمن نے ایک عظیم اور حیرت انگیز فوج کو منظم اور آمادہ رکھا تھا ''

۱۷۲

خالد نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ دشمن کی پیدل فوج پر حملہ کیا اور انھیں ایسے تہس نہس کرکے رکھ دیا کہ دشمن کی فوج ایک دیوار کے مانند دھڑام سے گر گئی ۔ رومی فوج اپنی خندق کی طرف دوڑ پڑی اور برگ خزاں کے مانند گروہ گروہ واقوصہ کی خندق میں ڈھیر ہو کر نابود ہوتی گئی اس طرح واقوصہ میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے سپاہیوں کی ایک عظیم قتل گاہ وجود میں آگئی ۔کافی تھا کہ ان میں سے ایک سپاہی کو قتل کیا جاتا اور وہ اپنے ساتھ دس سپاہیوں کو لیکر خندق میں جا گرتا تھا ،اس طرح دشمن کے ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی مارے گئے !!''

ابن عساکر اس روایت کے آخر میں ،جسے اس نے واقوصہ کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ،نیز قعقاع کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے دو نوں کے آخر میں درج ذیل اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : قعقاع بن عمرو تمیمی نے یرموک کی جنگ میں یہ شعر کہے تھے ۔

''کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم یرموک کی جنگ میں اسی طرح فتحیاب ہوئے جس طرح عراق کی جنگوں میں کامیاب ہوئے تھے ؟ہم نے شہر یرموک سے پہلے شہر بصری کو فتح کیا جسے ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح ایسے نئے نئے شہروں کو بھی فتح کیا جنھیں آج تک کسی نے فتح نہیں کیا تھا ۔ ہم نے شہر مرج الصفر کو اپنے سواروں اور پیدل فوج کے ذریعہ فتح کیا ۔جو بھی ہمارے سامنے آجاتا تھا اسے ہم ننگی تلوار سے قتل کر ڈالتے تھے اور جنگی غنائم لے کر لوٹتے تھے ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے رومیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا میدان جنگ میں ہمارے لئے ان کی قدر کبوتر کے فضلہ سے بھی حقیر تھی ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے ان کی فوج کا قتل عام کیا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے یہ ان کا المناک اور درد ناک انجام تھا''

ابن کثیر نے سیف کی اس روایت کو قعقاع کے اشعار کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں ایک جگہ ذکر کیا ہے ۔

ابن اثیر نے صرف اصل روایت کو نقل کیا ہے لیکن مذکورہ اشعار درج نہیں کئے ہیں ۔

حموی نے لغت '' واقوصہ'' میں روایت کے ایک حصہ کو درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے:

'' واقوصہ شام میں سر زمین حوران میں ایک صحرا ہے ۔وہاں پر ابوبکر کے زمانہ میں اسلامی فوج نے پڑائو ڈال کررومیوں سے جنگ کی ہے اور قعقاع بن عمرو نے اس جنگ میں یہ شعر کہے ہیں :..

یہاں پر مذکورا بالا اشعار میں سے پہلا شعر اور پھر پانچویں سے ساتویں شعر تک درج کیا ہے ۔

۱۷۳

سیف کی روایت کی حیثیت :

سیف نے یرموک کی فتح کو ١٣ھ میں بصری کی فتح کے بعد نقل کیا ہے ۔

لیکن ابن اسحاق اور دیگر مورخین نے '' اجنادین ''کی فتح کو '' بصری'' کی فتح کے بعد ذکر کیا ہے اور یرموک کی فتح کو ١٥ھ میں بیان کیا ہے اور اسے اس علاقہ کے شہروں کی آخری فتح جانتے ہیں دوسری جانب ''واقوصہ'' کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔اس سلسلے میں صرف بلاذری لکھتا ہے کہ:

''رومیوں نے جنگ '' اجنادین '' کے بعد ''یاقوصہ'' میں ایک بڑی فوج جمع کی اور مسلمانوں نے وہاں پر رومیوں سے جنگ کی اور انھیں پسپا ہونے پر مجبور کیا''

لگتا ہے سیف نے لفظ'' یاقوصہ '' کو اس لئے ''واقوصہ'' میں تبدیل کیا ہے تاکہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے مادئہ وقص یعنی گردن توڑنا سے استفادہ کرے اور اپنے فرضی میدان جنگ میں خالد بن ولید کی پیدل فوج کے شدید حملہ کے ذریعہ دشمن کی گردن توڑنے کو ثابت کرے۔

سند کی پڑتال :

سیف نے اس حدیث کے راوی کے طور پرمحمد بن عبداللہ کا نام لیا ہے ،جس کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ ابو عثمان یزید بن اسیدعسانی کو راوی کے طورپر پیش کیا ہے ۔لیکن اس کے بارے میں ہم نے نہ تاریخ طبری میں اور نہ تاریخ ابن عساکر میں کوئی روایت پائی ،اس کے علاوہ چوں کہ ہم نے اس کانام راویوں کی فہرست اور طبقات روایت میں بھی کہیں نہیں پایا ،اس لئے اسے بھی سیف کا جعلی راوی جانتے ہیں ۔اور معلوم ہوا کہ یہ شخص بھی اس کے دیگر راویوں اور ناقابل شکست جعلی سورمائوں کی طرح حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا ۔

۱۷۴

حدیث کی پڑتال کا نتیجہ

سیف کے کہنے کے مطابق ،یرموک میں جنگ کے لئے آمادہ ہوکر حملہ کرنے والے اور رجزو رزم نامے پڑھنے والے بزرگ اصحاب،ناقابل شکست پہلوان اور اسلام کے سچے سپاہی ،خاندان تمیم کے دوسورماؤں ،یعنی قعقاع بن عمرو اور ابو مفزر کے علاوہ اور کون ہوسکتے ہیں ؟

''واقوصہ''کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار انسان قتل عام کئے جاتے ہیں ،سیف نے کمانڈر انچیف،خالد بن ولید اور اس کی پیدل فوج کے برق رفتار حملے کے نتیجے میں صرف واقوصہ کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار جوانوں کو خاک وخون میں لوٹتے دکھایاہے۔اس طرح اتنے انسانوں کاخون بہاکر چند لمحوں کے لئے اپنی نہ بجھنے والی پیاس کو تسکین دی ہے،جب کہ دیگر مؤرخین نے اس قسم کی کوئی بات بیان نہیں کی ہے۔انہی میں سے بلاذری بھی ہے جس نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یرموک میں قتل ہوئے کل افراد کی تعداد ستر ہزار بتائی ہے۔اس کے علاوہ جاننا چاہئے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے یرموک کی جنگ کو ١٣ ھ میں ذکر کیاہے۔

سیف کے افسانوی سورما قعقاع کی جنگوں اور فتوحات کے یہ وہ چند نمونے تھے جنھیں اس نے ابو بکر کے دور میں روایت کیاہے۔عمر کے دور میں شام میں قعقاع کی جنگ وفتوحات کے نمونوں کاجائزہ ہم آنے والی فصل میں پیش کریں گے۔

۱۷۵

قعقاع ،عمر کے زمانے میں

قتل فیه من الروم ثمانون الفاً

''جنگ فحل میں اسّی ہزار رومی قتل کئے گئے ''

فتح دمشق کی داستان:

شہر دمشق کی فتح کے بارے میں سیف لکھتاہے:

''شہر دمشق کے محافظین کے سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہواتھا۔محافظین نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیاتھا۔اور کھانے پینے میں مشغول ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرکے شہر کی اہم چوکیوں کی حفاظت سے غافل ہوگئے ۔اس امر سے خالد بن ولید کے علاوہ کوئی مسلمان آگاہ نہیں ہوا، چونکہ وہ ہوشیار تھا اور اس سے اس شہر کے باشندوں اور محافظوں سے متعلق کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی!

رات ہوتے ہی خالد،قلعہ کے ساکنوں کی مستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی کے ہمراہ پہلے سے بنائی گئی رسیوں کی سیڑھیاں لے کر قلعہ کے نزدیک پہنچا ۔ انھوں نے رسی کی سیڑھیاں دشمن کے قلعہ کی دیوار کے کنگروں پر پھینکیں دو رسیاں کنگروں میں اٹک گئیں ۔ قعقاع اور مذعور سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئے پھر انھوں نے باقی سیڑھیوں کی رسیاں کنگروں سے محکم باندھ لیں اور دیگر لوگ بھی قلعہ کی دیوارسے اوپر چڑھ گئے ۔اس کے بعد بے خبر ومست محافظین پر حملہ کرکے ماردھاڑ شروع کی۔اورآسانی کے ساتھ ان پر غلبہ پالیا۔اس کے بعد اسلام کے سپاہیوں کے لئے قلعہ کادروازہ کھولدیا...''

ابن عساکر نے اس پوری داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فتح دمشق کی مناسبت سے یہ شعر کہے ہیں :

سلیمان کے دوشہروں (دمشق وتدمر)کے نزدیک ہم نے کئی مہینوں تک استقامت کی اور اپنی تلواروں پر ناز کرنے والے رومیوں سے جنگ کرتے رہے۔جب ہم نے دمشق کے عراقی دروازے کو اپنے قبضے میں لے کر کھول دیا تو ان کے تمام سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔جب پورے شہر پر ہمارا قبضہ ہوگیاتو میں نے حکم دیا کہ ان کے سر تن سے جدا کردئے جائیں اور ان کے گلے پھاڑدئے جائیں ۔ جب انھوں نے شہر دمشق اور تدمر میں ہمارے پنجے مستحکم ہوتے دیکھے توخوف ووحشت سے انگشت بدندان رہ گئے''۔

۱۷۶

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کے آخر میں اشعار حذف کئے ہیں ۔اسی لئے مذکورہ اشعار کو بھی اپنی روایت میں درج نہیں کیاہے۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی

فتح دمشق کی داستان کو طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کیاہے اور دوسروں جیسے،ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسی طرح طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس روایت کو اس طرح شروع کرتاہے:

''سیف کہتاہے .....''

اس کے بعد داستان کو آخر تک لکھتاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

بلاذری نے فتح دمشق کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے:

''خالدبن ولید نے ''دیرخالد ''کے باشندوں سے یہ شرط رکھی کہ اگر اسے ایک سیڑھی دیدیں ، جس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ کی دیوار پر چڑھ سکے تو ان کے خراج میں تخفیف کردے گا۔کہ آخر کار ابو عبید نے خالد کے مطالبہ کو پورا کیا''۔

سند کی پڑتال

فتح دمشق کی داستان کو سیف نے صرف ایک جگہ اور ایک روایت میں تین راویوں ،ابو عثمان ،خالد اور عبادہ سے نقل کیاہے۔ابو عثمان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکاہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی اور اس کے ذہن کے تخلیق ہے۔

لیکن خالد وعبادہ جن سے طبری اور ابن عساکرنے سیف کے ذریعہ سولہ روایتیں نقلی کی ہیں کے بارے میں ہم فہرست اور طبقات رجال میں کوئی سراغ نہ پاسکے۔

۱۷۷

فحل کی جنگ

طبری اور ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اس طرح روایت کی ہے:

''دمشق کو فتح کرنے کے بعد ابوعبیدہ''فحل''کی طرف روانہ ہوا۔رومیوں نے اسلامی فوج سے لڑنے اور ان کی پیشقدمی کو روکنے کے لئے اسّی ہزار فوج آمادہ کر رکھی تھی اور گھات لگاکر اچانک اسلامی فوج پر حملہ کیا۔مسلمانوں نے شجاعت اور دلیری کے ساتھ رومیوں کے اس اچانک حملہ کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس طرح ایک گھمسان جنگ چھڑگئی ۔یہ جنگ ایک دن اور ایک رات جاری رہی۔مسلمانوں نے رومیوں کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور سر انجام یہ جنگ مسلمانوں کی فتحیابی اور رومیوں کی ہزیمت پر ختم ہوئی۔

رومیوں نے پہلے سے ہی ایک خندق کھود کر اس میں پانی بھر دیاتھا تا کہ اسلامی فوج کی پیشقدمی کو روک سکیں ۔لیکن شکست کھاکر پیچھے ہٹتے ہوئے رومی خود اس خندق میں گر کر دلدل میں پھنس گئے ۔ایسے پھنسنے والوں کاحال معلوم ہی ہے کہ کیا ہوگا!اس طرح اس جنگ میں اسّی ہزار رومی ہلاک ہوگئے مگر یہ کہ کوئی فرار ہونے میں کامیاب ہواہو !

ابن عساکر نے اس داستان کے آخر میں یہ اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فحل کی فتحیابی کے سلسلے میں اس طرح شعر کہے ہیں :

''کتنے ایسے میرے اسلاف ہیں ،کہ ان کے نیک کام مجھے وراثت میں ملے ہیں ۔میرے اجداد ایسے ہیں جن کی عظمت وبزرگواری سمندر کے مانندہے۔انھوں نے بھی فضائل کو اپنے اجداد سے وراثت میں پایاتھا اور بصیرت وبلند نظریات کی بناپر ان فضائل کو چار چاند لگائے تھے ۔میں نے بھی اپنی ذمہ داری کے مطابق ان مفاخر وفضائل کو بڑھاوادیا اور انھیں نقصان پہنچنے نہیں دیا۔میری اولاد بھی اگر میرے بعد زندہ رہے تو وہ بھی ان فضائل و مفاخر کے بانی ہوں گے ''

۱۷۸

''فوج کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے رہے ہیں ،وہ بادشاہوں کی طرح حملہ کرتے ہیں ، ان کے پیچھے بہادر فوج ہے ۔ہم میدان کارزار کے بہادر ہیں ،جس وقت سرحد کے محافظ سستی دکھاتے ہیں ،ہم ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان پر فتح پاتے ہیں ''

فحل کی جنگ میں جب میرا گھوڑا کرو فر کے ساتھ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اور بلائیں چاروں طرف سے گھیرنے لگیں تو لوگ میری سر بلندی اور بہادر ی کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔اگر میری جگہ پر کوئی اور ان بلائوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا تو بے چارہ اور ذلیل ہو کے رہ جاتا اور ایسے کام کو اپنے ذمہ لینے پر شرمندہ ہو جاتا !''

عربی گھوڑے فحل کے میدان کارزار میں گردو غبار کو آسمان پر اڑاتے ہوئے دشمن کی فوج کو کچلے دے رہے تھے ،سر انجام ان کے گھوڑوں نے اپنے ہی سرداروں کو دلدل میں گرادیا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہے ۔اس کے بعد ہم نے سر نیزوں سے دشمن پر حملہ کیا ۔ ہم نے ان کی فوج کو دلدل میں نابود کرکے رکھ دیا اس دن تمام نگاہیں مجھ پر متمرکز تھیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے روایت کی ہے کہ قعقاع نے جنگ فحل میں یہ شعر کہے ہیں :

''فحل کی جنگ میں ہم اتنے مشکلات سے دو چار ہوئے کہ جس کے خوف سے پہلوان اپنے اسلحہ کو گھر میں ہی بھول جاتے تھے ۔میں اس دن اپنے مشہور گھوڑے پر پوری طاقت سے سوار ہوکر اپنے بہادر فوجیوں کے ساتھ دشمن پر تیر باران کرتا تھا ۔ بالاخر ہم نے مقاومت کرنے والے دشمن کے فوجیوں کو تلوار کے وار سے منتشر کرکے بھگا دیا''

''ہم ہی ہیں جنھوں نے عراق کو اپنے گھوڑوں سے عبور کیا اور شام میں اپنی تلواروں کے سائے میں جنگ لڑی اور عراق اور اس کی جنگوں کے بعد بہت سے نصرانیوں کو نابود کرکے رکھ دیا ''

حموی نے سیف کی اس روایت پر استناد کرکے لغت ''فحل'' کے بارے میں لکھا ہے :

''جس سال مسلمانوں کے ہاتھوں دمشق فتح ہوا ،اسی سال فحل میں مسلمانوں اور اسّی(٨٠) ہزار رومی فوج کے درمیان جنگ ہوئی اور قعقاع بن عمرو تمیمی نے اس جنگ کے بارے میں یوں کہا ہے ...:

اس کے بعد روایت کی سند کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ کئے بغیر چار شعر ذکر کئے ہیں ۔

۱۷۹

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

طبری نے ''فحل'' کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے ،اور معمول کے مطابق اس سے مربوط رجز و شعر کو حذف کیا ہے ۔

ابن عساکر نے بھی فحل کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس سے مربوط اشعار بھی ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے اس داستان کا تھوڑ ا سا حصہ لغت '' فحل '' کے سلسلے میں سند کے بغیر ذکر کیا ہے لیکن اس داستان سے مربوط مطالب ،ان مطالب سے مختلف ہیں جو دیگر مورخین نے اس سلسلے میں درج کئے ہیں مثال کے طور پر بلاذری نے اس معرکہ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد دس ہزار بتائی ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی مورخ نے شام کی جنگوں میں خاندان تمیم کے سورمائوں کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر لکھتا ہے :

''مورخین کا اتفاق ہے کہ شام کی فتوحات میں قبائل اسد ،تمیم اور ربیعہ میں سے کسی نے شرکت نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنی لشکر گاہ یعنی عراق کے حالات کے مطابق وہیں پر ایرانیوں سے بر سر پیکار تھے '' ١

سند کی پڑتال :

سیف نے داستان فحل ،ابو عثمان یزید سے روایت کی ہے جب کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیف کا جعل کردہ راوی ہے ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416