ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب19%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215513 / ڈاؤنلوڈ: 4975
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

پیغمبر انسانوں کی اس سفر میں مدد دیتے ہیں، ان کی راہنمائی کرتے ہیں_ اگر ہم پیغمبروں کے کلام اور ان کی راہنمائی کی اطاعت کریں تو آخرت کے سفر کے راستے کو سلامتی اور کامیابی سے طے کرلیں گے اور اپنے مقصد تک پہونچ جائیں گے''_

اس کے سننے کے بعد دوبارہ میرے دل میں وہ خطرہ یاد آیا جو مجھے راستے میں پیش آیا تھا داؤدی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہ کہ یہ سفر ہم نے اس راہنما کی راہنمائی اور مدد سے سلامتی کے ساتھ طے کیا ہے اور ہم اپنے مقصد تک پہنچ گئے ہیں_ جناب داؤدی نے ہماری طرح اپنے اوپر کمبل اوڑھ رکھا تھا میری طرف شکریہ کی نگاہ کی اور کہا کہ

''یقینا ہم مقصد تک پہنچ جائیں گے بشرطیکہ ہم پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کریں اور آخرت کے سفر کے لوازمات اور اسباب مہیا کریں''_

اس کے بعد ایک نگاہ لڑکوں پر ڈالی اور پوچھا: ''لڑکو کیا جانتے ہو کہ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے زاد راہ اور توشہ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

''پیغمبروں نے فرمایا ہے کہ آخرت کے سفر کا زاد راہ ایمان و تقوی اور عمل ہے، ہر انسان کی سعادت اس کے عمل اور رفتار سے وابستہ ہے، انسان جو بھی اس دنیا میں بوئے گا اسے آخرت میں کائے گا اگر اس دنیا میں خوبی کرے گا تو آخرت میں خوبی دیکھے گا اور بدی کرے گا تو آخرت میں بدی دیکھے گا_

ہر ایک انسان کا سعادتمند ہونا یا شقی ہونا، بلند و بالا یا پست و ذلیل ہونا اس کے کاموں اور اعمال سے وابستہ ہے، جو انسان پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کرتا ہے آخرت کے سفر کو سلامتی کے

۱۰۱

ساتھ طے کرے گا اور بلندترین مقام و سعادت کو پالے گا''_

جناب داؤدی کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو انھوں نے اپنی نگاہ ستاروں سے پر آسمان کی طرف اٹھائی اور کافی دیر تک چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتے رہے تھوڑی دیر بعد لمبی سانس لی اور کہا:

''لڑکو تم تھک گئے ہو ہوجاؤ میں اور تمھارے باپ باری باری جاگتے اور پہرہ دیتے ہیں گے، تم میں سے جو بھی چاہے باری باری پہرہ دے سکتا ہے_ اللہ کی یاد کے ساتھ ہوجاؤ اور صبح جلدی بیدار ہوجانا کہ کل ایک بہت عمدہ پروگرام سامنے ہے''_

۱۰۲

سوالات

غور سے مندرجہ ذیل سوالات کو پڑھو، بحث کرو اور یاد کرلو

۱) ___ باقر نے یہ کیوں کہا کہ کوہ پیمائی کے لئے ایک راہنما انتخاب کرو، آخر کون سی مشکلات کا سامنا تھا؟

۲)___ کس نے کہا تھا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ اس نے اپنے اس مطلب کے لئے کیا دلیل دی تھی؟ اس کی دلیل درست تھی؟ اور اس میں کیا نقص تھا؟

۳)___ باقر نے اسے کس طرح سمجھایا کہ راہنما کی ضرورت ہے اسے اس مطلب کے سمجھانے کے لئے کون سے سوالات کئے؟

۴)___ کیا اس نے باقر کی گفتگو کے بعد راہنما کی ضرورت کو قبول کرلیا تھا؟ واقعا اس نے کس وقت اسے قبول کیا تھا؟ خود اسی درس سے اس کی دلیل بیان کرو_

۵)___ کس نے لڑکوں کی راہنمائی اور راہبری کو قبول کیا؟ اس نے چلنے کے لئے کون سے دستورات دیئے؟ کون سے وسائل کا ذکر کیا کہ انھیں ساتھ لے آئیں اس نے خود اپنے ساتھ کن چیزوں کے لے آنے کا وعدہ کیا تھا؟

۶)___ جب صبح کی نماز پڑھ چکے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لئے تیار ہوگئے تو راہنما نے کون سے دستورات کی یادآوری کی؟ وہ کون سے دستور تھے؟ تمھاری نگاہ میں اس دستورات میں سے کس کو اہمیت دی گئی تھی؟

۷)___ جب کبھی راستہ سخت اور دشوار آجاتا تو راہنما لڑکوں کو کیا ہدایت دیتا؟

۸)___ ہادی نے کیسے قبول کرلیا کہ راہنما اور راہبر کا وجود ضروری اور لازمی ہوتا ہے؟

۱۰۳

۹)___ جناب داؤدی کی نگاہ میں مہم ترین اور پر اسرارترین سفر کون سا تھا؟

۱۰)___ جناب داؤدی نے اس مہم اور اسرار آمیز سفر کے بارے میں لڑکوں سے کون سے سوالات کئے تھے؟

۱۱)___ باقر کے باپ نے جناب داؤدی کے سوالات کا کیا جواب دیا تھا؟ پیغمبر جو آخرت کے سفر کے راہنما ہیں کون سی ذمہ داری ان کے ذمّے ہوا کرتی ہے؟ کس صورت میں ہم سلامتی اور کامیابی کے ساتھ مقصد تک پہنچ سکتے ہیں؟

۱۲)___ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے کون سا توشہ اور زادہ راہ بیان کیا ہے ہر انسان کا بلند مقام یا پست مقام پر جانے کو کس سے مربوط جانا ہے؟

۱۳)___ جب تمام لڑکے سوگئے تو جناب داؤدی نے رہبری کا کون سا وظیفہ انجام دیا؟

۱۴)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ لڑکوں کے کل کا بہترین پروگرام کیا تھا؟

۱۰۴

پیغمبر یا آخرت کے سفر کے راہنما

انسان کی روح اور جان بہت سے مخفی راز رکھتی ہے_ کیا انسان اپنی روح و جان کے رموز سے پوری طرح واقف ہے؟ انسان کے سامنے بہت زیادہ ایسے سفر کہ جو اسرار آمیز ہیں موجود ہیں_ کیا انسان ایسے سفروں اور زندگی سے پوری اطلاع رکھتا ہے؟ کیا آخرت کے زاد راہ سے جو ضروری ہیں آگاہ ہے؟ کیا انسان، ارتقاء اور سعادت تک پہونچنے کے راستوں کو پہچانتا ہے؟ کیا راستوں کی دشواریوں اور ایسے موڑوں سے کہ جن سے انسان گرسکتا ہے خبردار ہے؟

ان سوالوں کا جواب کون سے افراد دے سکتے ہیں؟ کون سے حضرات سیدھے راستے اور کج راستے واقف ہیں؟ کون سے حضرات انسان کا راستہ بتلا سکتے ہیں ؟ کون سے حضرات انسانوں کو ان راستوں کی راہنمائی اور مدد دے سکتے ہیں؟ خدا کے فرستادہ پیغمبر ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں پس انسان ہمیشہ پیغمبروں اور راہنماؤں کے وجود کا محتاج رہا ہے اور رہے گا_

خداوند عالم کہ جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور ان کی ضروریات کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اور انھیں ارتقاء کی راہ تک پہونچا دیا ہے_ انسان کو یعنی موجودات عالم میں سے

۱۰۵

کامل ترین اور اہم ترین موجود کو زندگی کے پر خطر آخرت کے سفر کے لئے رہبر اور راہنما کے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ اسے ا رتقاء و ہدایت اور تمام قسم کی مدد کے لئے راہنما چنا اور انھیں مبعوث کیا ہے صرف ذات الہی ہے کہ جو انسان کے جسم اور روح کے رموز اور اسرار اور اس کے گذشتہ اور آئندہ سے آگاہ ہے اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی سے پوری طرح واقف ہے_

کون اللہ تعالی سے زیادہ اور بہتر انسان کی خلقت کے رموز سے آگاہ ہے؟ کون سی ذات سوائے اللہ کے انسان کی سعادت اور ارتقاء کا آئین اس کے اختیار میں دے سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جس خدائے مہربان نے انسان کو پیدا کیا ہے اسے اس قسم کے دشوار راستے کے طے کرنے کے لئے بغیر رہبر، آئین اور راہنما کے چھوڑ دیا ہو؟ نہیں اور ہرگز نہیں اللہ تعالی نے انسان کو اس مشکل اور پیچیدہ سفر کے طے کرنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑ رکھا بلکہ اس کے لئے راہنما اور راہبر بھیجا ہے_

پیغمبروں کو اللہ تعالی نے انسانوں میں سے چنا ہے اور ضروری علوم انھیں بتایا ہے تا کہ وہ لوگوں کی مدد کریں اور انھیں ارتقاء کی منزلوں تک پہونچنے کے لئے ہدایات فرمائیں_ پیغمبر صحیح راستے اور غیر صحیح راستے کو پہچانتے ہیں اور وہ ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوا کرتے ہیں، اللہ تعالی کا پیغام لیتے ہیں اور اسے بغیر زیادتی و کمی کے لوگوں تک پہونچاتے ہیں پیغمبر چنے ہوئے لائق انسان ہوتے ہیں کہ دین کا آئین انھیں دیا جاتا ہے اور اپنی گفتار و کردار سے لوگوں کے لئے نمونہ ہوا کرتے ہیں_ جب سے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس نے اس کرہ ارض پر زندگی شروع کی ہے تب سے ہمیشہ اس کے لئے پیغمبر موجود رہے ہیں_

پیغمبر لوگوں کی طرح ہوتے تھے اور انھیں جیسی زندگی بسر کرتے تھے اور لوگوں

۱۰۶

کو دین سے مطلع کرتے تھے، لوگوں کے اخلاق و ایمان اور فکر کی پرورش اور رشد کے لئے کوشش کرتے تھے، لوگوں کو خدا اور آخرت کی طرف جو ہمیشہ رہنے والا ہے متوجہ کرتے تھے_

خداپرستی، خیرخواہی، خوبی اور پاکیزگی کی طرف ان کی روح میں جذبہ اجاگر کرتے تھے، شرک و کفر اور مادہ پرستی سے مقابلہ کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ ظلم و تجاوزگری سے جنگ کرتے تھے، پیغمبر لوگوں کو اچھے اخلاق اورنیک کاموں کی طرف دعوت دیتے تھے اور برے اخلاق ، پلید و ناپسندیدہ کردار سے روکتے تھے، سعی و کوشش، پیغمبروں اور ان کے ماننے والوں کی راہنمائی سے بشر کے لئے ارتقاء کی منزل تک پہونچنا ممکن ہوا ہے_

سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہیں اور دو کے درمیان بہت سے پیغمبر آئے ہیں کہ جن کو پیغمبر اسلام(ص) نے ایک حدیث کی روسے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بتلایا ہے_ پیغمبر قبیلوں، دیہاتوں، شہروں او رملکوں میں بھیجے جاتے تھے اور وہ لوگوں کی راہنمائی، تعلیم و تربیت میں مشغول رہتے تھے_

کبھی ایک زمانہ میں کئی ایک پیغمبر مختلف مراکز میں تبلیغ کرتے تھے، پیغمبروں کی رسالت اور ذمہ داری کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوا کرتا تھا بعض پیغمبر صرف قبیلہ یا دیہات یا ایک شہر یا کئی شہروں اور دیہاتوں کے لئے مبعوث ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض کی ماموریت کا دائرہ وسیع ہوتا یہاں تک کہ بعض کے لئے عالمی ماموریت ہوا کرتی تھی_

پیغمبروں کا ایک گروہ کتاب آسمانی رکھتا تھا لیکن بہت سے پیغمبر آسمانی کتب نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے، آسمانی تمام

۱۰۷

کی تمام کتابیں اب موجود نہیں رہیں ایک سو چار آسمانی کتابیں تھیں_ بعض پیغمبر صاحب شریعت ہوا کرتے تھے لیکن بعض دوسرے پیغمبر شریعت نہیں لائے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی ترویج کیا کرتے تھے_

حضرت نوح (ع) ، حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسی (ع) و حضرت عیسی (ع) اور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم ممتاز و بزرگ پیغمبروں میں سے تھے ان پانچ پیغمبروں کو اولوالعزم پیغمبر کہا جاتا ہے کہ ان میں ہر ایک صاحب شریعت تھا_

ہم مسلمان اللہ تعالی کے تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، اور سبھی کو اللہ تعالی کا بھیجا ہوا پیغمبر مانتے ہیں، ان کی محنت اور کوشش کا شکریہ ادا کرتے ہیں_ ہمارا وظیفہ ہے کہ حضرت موسی (ع) اور حضرت عیسی (ع) کے پیروکاروں کو کہ جنھیں یہودی اور عیسائی کہا جاتا ہے اور زردشتیوں سے بھی نیکی اور مہربانی سے پیش آئیں اور اسلام کی روسے جوان کے اجتماعی حقق ہیں ان کا احترام کریں_

۱۰۸

سوالات

فکر کیجئے، بحث کیجئے اور صحیح جواب تلاش کیجئے

۱)___ انسانوں کا پیغمبروں اور راہنماؤں کے محتاج ہونے کی علت کیا ہے؟

۲)___ انسانوں کے رہبر اور راہنما انسان کی پر خطر زندگی اور آخرت کے سفر کے لئے کون سے حضرات ہونے چائیں؟

۳)___کون زیادہ اور بہتر طور پر انسان کی خلقت کے راز سے آگاہ ہے اور کیوں؟

۴)___ پیغمبروں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ضروری معلومات کو پیغمبروں کے لئے کون فراہم کرتا ہے اور پیغمبروں کی ذمہ داریوں کون معین کرتا ہے؟

۵)___ کون سے ہدف کے لئے پیغمبروں کی دعوت اور کوشش ہوا کرتی تھی،

۶)___ پیغمبر اسلام(ص) نے پیغمبروں کی تعداد کتنی بتلائی ہے، آسمانی کتابوں کی تعداد کتنی ہے؟

۷)___ کیا پیغمبروں کی ماموریت کا دائر اور حدود ایک جیسے تھے اور کس طرح تھے؟

۸)___ اولوالعزم پیغمبر کون تھے، ان کی خصوصیت کیا تھی؟

۹)___ دوسرے پیغمبروں کے پیروکاروں کے متعلق ہمارا وظیفہ کیا ہے؟

۱۰)___ ہم مسلمانوں کا دوسرے پیغمبروں کے متعلق کیا عقیدہ ہے، ہم کیوں ان کا احترام کرتے ہیں؟

۱۰۹

پیغمبروں کی انسان کو ضرورت

انسان کا ہر فرد اس دنیا میں راستے کو ڈھونڈتا اور سعادت مندی طلب کرتا ہے پیاسا پانی کی طلب میں ادھر ادھر دوڑتا ہے کبھی ایک خوبصورت چمک کہ جو میدان میں نظر آتی ہے پانی سمجھ کر اس کی طرف جلدی سے دوڑتا ہے لیکن جب اس کے نزدیک پہونچتا ہے تو پانی نہیں پاتا اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑتا رہا تھا_

ایک مہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیا وی زندگی کے علاوہ ایک اور زندگی بھی ہے، آج کے دن کے علاوہ ایک اور دن بھی آنے والا ہے، انسان اس جہاں کے علاوہ ایک اور ابدی دنیا (آخرت) میں بھی جانے والا ہے اور اس جہاں میں ہمیشہ کے لئے زندگی بسر کرے گا، کل آخرت میں اس دنیاوی جہان میں جو بویا ہوگا کاٹے گا_ انسان آخرت میں یا سعادت مند اور نجات پانے والا ہوگا یا شقی و بدبخت ہوگا_ انسان کے آخرت میں سعادت و شقاوت کا سرچشمہ اس دنیا کے اعمال ہیں اور یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے_

آج کون سا بیج بویا جائے تا کہ کل اس کا اچھا محصول حاصل کیا جائے؟ کون سا عمل انجام دیا جائے تا کہ آخرت میں سعادت مند ہوجائے؟ کس راستہ پر چلا جائے تا کہ آخرت میں اللہ تعالی کی عمدہ نعمتوں تک رسائی حاصل ہوسکے؟ کون سے برنامہ پر عمل کرے؟ کس طرح صحیح راستے کو غلط راستے سے پہچانے؟ کون راہنما ہو؟

انسان کا عمل اور کردار سعادت و کمال یا شقاوت و بدبختی کا موجب ہوا کرتا ہے

۱۱۰

لہذا انسان اپنے اعمال اور زندگی کے لئے ایک دقیق و جامع پروگرام کا محتاج ہے، ایسا پروگرام کہ جس میں انسان کی دنیاوی مصالح اور اخروی مصالح کی رعایت کی گئی ہو جس میں انسان کے جسم کا بھی لحاظ کیا گیا ہو اور اس کی روح و جان کا بھی لحاظ کیا گیا ہو_ زندگی کے اصول کو ایسا بنایا گیا ہو کہ اس کی زندگی اور آخرت پر اس کی روح کے لئے اس طرح پروگرام مرتب کیا گیا ہو کہ اسے حقیقی ارتقاء اور سعادت کے راستے پر ڈال دے تا کہ امن و قرب اور رضوان کی منزل تک فائز ہوسکے_

چند ایک سوال

کیا انسان اپنی عقل اور تدبیر سے اس قسم کا دقیق اور کامل آئین اپنے لئے منظم کرسکتا ہے؟ کیا وہ اپنی نفسانی اور آخرت کی ضروریات سے پوری طرح آگاہ ہے؟ کیا وہ اپنی اور جہان کی خلقت کے اسرار و رموز سے مطلع ہے؟ کیا انسان، روح کا جسم ہے کس طرح کا ارتباط ہے اور دنیاوی زندگی کس طرح اخروی زندگی سے مربوط ہے، سے مطلع ہے؟ کیا انسان تشخیص دے سکتا ہے کہ کون سے امور موجب ہلاکت و سقوط اور کون سے امور انسان کے نفس کو تاریک، سیاہ و آلودہ اور کثیف کردیتے ہیں؟ کیا انسان تنہا سعادت کے راستے کو غیر سعادت کے راستے سے تمیز دے سکتا ہے؟ ایسا نہیں کرسکتا، ہرگز نہیں کرسکتا اور اس قسم کی وسیع اطلاع نہیں رکھتا_

انسان اپنی کوتاہ عمر اور محدود فکر کے ذریعہ اپنی اخروی اور نفسانی سعادت اور ارتقاء کا آئین منظم نہیں کرسکتا_ پس کون شخص ایسا کرسکتا ہے؟

۱۱۱

سوائے ذات خدا کے ایسا اور کوئی نہیں کرسکتا وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام جہان کو پیدا کیا ہے اور اس کے اسرار و رموز سے پوری طرح آشنا و آگاہ ہے اور سعادت و شقاوت کے اسباب وعوامل کو اچھی طرح جانتا ہے_ وہ ذات ہے جو انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو منظم و مدوّن کرسکتی ہے اپنے بہترین بندوں کو اس قسم کا برنامہ دے کر انسانوں تک پہونچاتی ہے تا کہ انسان خدا کے نزدیک کوئی عذر نہ پیش کرسکے_

زندگی کے آئین اور اصول کا نام دین ہے کہ جسے خدا پیغمبروں کے ذریعے جو راہنما اور راہ شناس ہیں انسانوں تک پہونچاتا ہے، پیغمبر ممتاز اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں کہ جو اللہ تعالی سے خاص ربط رکھتے ہیں، انسان کو جاودانی زندگی دینے والا آئین خدا سے لیتے ہیں اور انسانوں تک اسے پہونچاتے ہیں_ پیغمبر انسان کی اس فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور خدا دوستی موجود ہے کون اجاگر کرتے ہیں اور اس کے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اور س تک پہونچنے کے راستے کو طے کرنے میں مدد دیتے ہیں تاکہ انسان اپنے خالق و خدا کو بہتر پہچانے اور اس سے آشنا ہو_ اچھے اور برے اخلاق کی شناخت میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، تذکیہ نفوس، دین کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور معاشرہ کی دیکھ بھال میں کوشش کرتے ہیں، انھیں کامل عزت اور عظمت تک پہونچاتے ہیں_

ان انسانوں کو خوشخبری ہو جو پیغمبروں کے نقش قدم پر چلتے اور اپنی دنیا کو آزادی سے سنوارتے ہیں اور آخرت میں بھی کمال سعادت و خوشنودی اور اللہ تعالی کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں اور پیغمبروں کے جوار میں با عزت سکونت اختیار کرتے ہیں_

قرآن کی آیت:

انا ارسلناک بالحق بشیرا و نذیراً و ان من امّة الّا خلافیها نذیر

۱۱۲

''ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو''_(۱)

____________________

سورہ فاطر آیت نمبر ۲۴

۱۱۳

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ اس دنیا کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں کس طرح ملے گا؟

۲)___ آخرت میں انسان کی دو حالتیں ہوں گی وہ دو حالتیں کیا ہیں؟

۳)___ انسان کی زندگی کے آئین میں کن چیزوں کا لحاظ کیا جانا چاہیئے؟

۴)___ کیا انسان اپنی زندگی کے لئے ایک جامع اور کامل قانون خود بنا سکتا ہے؟

۵)___ انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو کون منظم کرتا ہے اور اسے کس کے ذریعہ پہونچاتا ہے؟

۶)___ خدا کے پیغمبر پر انسان کی ہدایت کے لئے کون سی ذمہ داری ہے؟

۷)___ دین کیا چیز ہے، دین کا فائدہ انسان کی دنیا اور آخرت میں کیا ہوتا ہے؟

۱۱۴

پیغمبری میں عصمت ، شرط ہے

خداوند عالم نے پیغمبروں کو چنا ہے اور انھیں بھیجا ہے تا کہ وہ ان قوانین کو لوگوں تک پہونچائیں جو دینی زندگی کا موجب ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی سرپرستی و راہنمائی کریں، ارتقاء کے سیدھے راستے اور اللہ تعالی تک پہونچنے کے لئے جو صرف ایک ہی سیدھا راستہ ہے، لوگوں کو بتلائیں، ان کی ہدایت کریں اور انھیں مقصد تک پہونچائیں، سعادت آور آسمانی آئین پر عمل کرنے اور دنیوی و اخروی راہ کو طے کرنے میں قول و فعل سے لوگوں کی مدد کریں، اللہ تعالیی کے قوانی کو جاری کر کے ایک اجتماعی نظام وجود میں لائیں اور اس کے ذریعہ انسانی کمالات کی پرورش کریں اور رشد کے لئے زمین ہموار کریں_

پیغمبروں کی ذمہ داریوں کو تین حصول میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱)___ قوانین الہی کو وحی کے ذریعہ حاصل کریں_

۲)___ اللہ تعالی سے حاصل شدہ قوانین اور آئین کو بغیر کسی اضافہ و کمی کے لوگوں تک پہونچائیں_

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۵

سوالات

اس کے بعد اب ان سوالات میں خوب غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی انسان کو پیغام الہی کے لینے کے لئے معین کرے اور وہ اس میں خطا کا مرتکب ہو؟ خطا کرنے والا انسان کسی طرح اللہ تعالی کے واضح پیغام کو بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پوری طرح لوگوں تک پہونچا سکتا ہے؟

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے چنے اور وہ اللہ تعالی کے پیغام پہونچانے میں خطا مرتکب ہوجائے؟ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے انتخاب کرے اور وہ آسمانی آئین و احکام میں تحریف کردے؟ کیا اس صورت میں اللہ تعالی کی غرض پیغمبر کے بھیجنے میں حاصل ہوجائے گی؟ کیا اللہ کا دین اور پیغام لوگوں تک صحیح پہونچ جائے گا؟

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۶

ہرگز نہیں خداوند عالم ایسے افراد کو جو غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں پیغام الہی کے لینے اور لوگوں تک پہونچانے کے لئے ہرگز انتخاب نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہونچائے اور حق قبول کرنے والے لوگوں کو مقصد تک پہونچائے اس غرض کے حصول کے لئے اللہ تعالی ایسے افراد کا انتخاب کرے گا جو معصوم ہوں یعنی:

۱)___ قوانین اور دین الہی کے لینے میں غلطی نہ کریں_

۲)___ اللہ تعالی کے قوانین اور آئین کو لوگوں تک بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پہونچائیں اور کسی قسم کی خطا و تحریف اور نافرمانی کو جائز نہ سمجھیں_

۳)___ دین کے واضح احکام پر عملکرانے میں لوگوں کی عملی و قولی مدد کریں اور خود پورے طور پر اس پر عمل کریں اور لوگوں کو اس پر عمل کرائیں _

خداوند عالم کے پیغمبر قوی اور ملکوتی ارادے کے مالک اور روحانی بصیرت رکھن والے افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے کامل پیغام پر ایمان رکھتے ہیں، وفادار ہوتے ہیں اور جو کچھ پہونچاتے اور کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں ایسے افراد اپنی بصیرت اور ہنرمندی کے لحاظ سے تمام انسانوں کے لئے کامل نمونہ ہوتے ہیں لوگ ان کی رفتار و گفتار کی پیروی کرتے ہیں_

''عصمت'' یعنی وہ عظیم طاقت وبصارت جو پیغمبر کے وجود سے مختص ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی ذمہ داری کے بجالانے میں اس کی مدد کرتی ہے اورانھیں خطا سے محفوظ رکھتی ہے_

قرآن کی آیت:

( و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله ) (نساء آیہ ۴۳)

'' ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ لوگ اس کی حکم الہی سے اطاعت کریں''

۱۱۷

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبروں کی وہ ذمہ داری جو تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے اسے بیان کیجئے_

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے انسان کو اپنے پیغام لینے کے لئے انتخاب کرے جو خطا کا مرتکب ہوسکے، کیوں؟ وضاحت کیجئے _

۳)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے کو پیغمبری کے لئے چنے کہ جو اللہ تعالی کے پیغام کو ناقص اور تحریف شدہ لوگوں تک پہونچائے، کیوں؟ وضاحت کیجئے

۴)___ کیا ممکن ہے خداوند عالم ایسے شخص کو پیغمبری کے لئے منتخب کرے کہ جو اللہ تعالی کے احکام اور دستور پر عمل کرانے میں غلطی کرے ، کیوں؟ وضاحت کیجئے_

۵)___ خداوند عالم جسے پیغمبری کے لئے منتخب کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے، معصوم کی تین صفات کو بیان کیجئے_

۶)___ عصمت سے کیا مراد ہے؟

۷)___ پیغمبر کن لوگوں کو حقیقی سعادت اور مقصد تک پہونچاتے ہیں؟

۸)___ معاشرہ میں فضائل انسانی کس طرح رشد اور پرورش پاسکتے ہیں؟

۱۱۸

پیغمبروں کا ایک برنامہ اور پروگرام اللہ تعالی پر ایمان کا لانا ہے

پیغمبر اسلام(ص) نے صبح کی نماز مسجد میں پڑھی نماز کے بعد لوگوں کی طرف منھ کیا تا کہ ان کی احوال پرسی کریں اور ان کے حالات کو جانیں لوگوں کی صف میں ایک نوجوان کو آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد، بدن لاغر اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں نمازیوں کی صف میں بیٹھا ہوا تھا اور کبھی بے اختیار اپنی پلکوں کو بند کرتا اور اونگھ رہا تھا ایسا ظاہر کر رہا تھا کہ گویا ساری رات نہیں سویا اور عبادت و نماز میں مشغول رہا ہے_ پیغمبر اسلام(ص) نے اسے آواز دی اور پوچھا کہ ''تو نے صبح کیسے کی؟ '' جواب دیا: ''یا رسول اللہ (ص) یقین اور خدائے وحدہ پر ایمان کی حالت میں''

''ہر ایک چیز کی کوئی نہ کوئی علامت اور نشانی ہوا کرتی ہے تیرے ایمان اور یقین کی کیا علامت ہے؟ '' یا رسول اللہ (ص) ایمان اور یقین آخرت کے عذاب سے خوف و ہراس کا موجب ہوا ہے، خوراک اور خواب کو کم کردیا ہے دنیاوی امور میں بے رغبت ہوگیا ہوں گویا اپنی آنکھوں سے قیامت برپا ہونے کو دیکھ رہا ہوں اوردیکھ رہا ہوں کہ لوگ حساب و کتاب کے لئے محشور ہوگئے ہیں اور میں بھی ان میں موجود ہوں گویا بہشت والوں کو بہشتی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا

۱۱۹

دیکھ رہا ہوں کہ بہشتی بہترین مسند پر بیٹھے شرین گفتگ میں مشغول ہیں_

یا رسول اللہ (ص) جہنمیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ عذاب میں گریہ و نالہ اور استغاثہ کر رہے ہیں گویا ابھی دوزخ کی آگ اور عذاب کی آواز سن رہا ہوں''

پیغمبر اسلام (ص) نے اصحاب کی طرف جو حیرت سے اس جوان کی گفتگو سن رہے تھے متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ:

'' یہ جوان ایسا اللہ کا بندہ ہے کہ خداوند عالم نے ایمان کے وسیلہ سے اس کے دل کو روشن اور نورانی کردیا ہے''

آپ نے اس کے بعد اس جوان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ ''اے جوان تو نے بہت عمدہ حالت پیدا کی ہوئی ہے اور اس حالت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا''_

یا رسول اللہ (ص) شہادت کی تمنا اور آرزو رکھتا ہوں دعا کیجیئے کہ راہ خدا میں شہید ہوجاؤں''_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے لئے شہادت کی دعا کی تھوڑی مدت گذری تھی کہ ایک جنگ واقع ہوئی اس جوان نے مشتاقانہ طور سے فوجی لباس پہنا، اسلام کے پاسداروں اور جہاد کرنے والوں کے ساتھ اس جنگ کی طرف روانہ ہوگیا، بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر حملہ آور ہوا اور شمشیر سے پے در پے دشمن پر حملہ کرنے لگا اور بالآخر اپنی قدیم امید تک پہونچا اور میدان جنگ میں راہ خدا میں شہید ہوگیا_

خداوند عالم اور فرشتوں کا درود و سلام ہو اس پر، تمام شہیدوں اور غیور اسلام پہ قران ہونے والوں پر_

تمام پیغمبروں کو امر کیاگیا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالی پر ایمان لے آنے کی دعوت دیں، یقین کے درجہ تک پہونچائیں، واضح و روشن خدائی پیغام اور سعادت بخش آئین کو ان کے اختیار میں قرار دیں اور اللہ تعالی کے تقرّب کے راستے

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف نے جو داستان فتح ابلہ کے بارے میں جعل کی ہے وہ پوری کی پوری اس کے بر خلاف ہے جو آگاہ افراد اور مؤرخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے اس کے علاوہ صحیح کتابوں میں درج شدہ چیزوں کے خلاف بھی ہے ،کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں ١٤ھ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔ہم بعد میں مناسب جگہ پر اس کی وضاحت کریں گے ۔

طبری ١٤ھ کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے جہاں شہر بصرہ کی بنا کا ذکر کرتے ہوئے ،فتح ابلہ کے بارے میں دئے گئے اپنے وعدہ پر عمل کرتا ہے اور ابلہ کی جنگ کی حقیقت

اور اس کی فتح کا ذکر کرتا ہے ۔جس میں سیف کی بیان کردہ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں

پائی جاتی ہے ۔ ٢

سند کی پڑتال

سیف کی اس داستان کے دو راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں پہلے معلوم ہوا کہ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ مقطع بن ہیثم بکائی ہے ،اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی تین روایتوں میں آیا ہے ۔ایک اور راوی حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی دوروایتوں میں آیاہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سیف نے حنظلہ کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ''اپنے جعلی صحابی '' زیاد بن حنظلہ کا ایک بیٹا بھی جعل کیا ہے ۔لہٰذا جعلی صحابی زیاد اور اس کا بیٹا حنظلہ سیف کے تخیلات کے جعلی راوی ہیں ۔

اس طرح عبد الرحمن احمری بھی ایک راوی ہے جس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی سات روایتوں میں ذکر ہو ا ہے ۔

بہر حال ہم نے بحث و تحقیق کی کہ ان راویوں کے ناموں کو طبقات ،راویوں کی سوانح حیات حتی حدیث کی کتابوں میں کہیں پا سکیں لیکن ان میں سے کسی ایک کانام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں پایا ۔ لہٰذا ہم نے موخر الذکر تین راویوں یعنی مقطع ،جنظلہ اور عبدالرحمن کو بھی محمد و مہلب کی طرح سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

۱۴۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے سپاہیوں کے تتربتر ہونے کی وجہ سے ابوبکر سے مدد طلب کی اور خلیفہ نے قعقاع بن عمر وتمیمی کی مختصر ،لیکن با معنی تعریف کرکے قعقاع کو اکیلے ہی خالد کی مدد کے لئے بھیجا۔اس قصہ کو صرف سیف نے جعل کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں کہی ہے۔

سیف نے شہر آبلہ کی فتح کو ١٢ ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانے میں خالد بن ولید مضری سے نسبت دی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شہر ابلہ کی فتح عمر کے زمانے میں ١٤ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ہم اس تحریف کے سبب کو بعد میں بیان کریں گے۔

سیف وہ تنہا قصہ گو ہے جوخالد بن ولید کو ایرانی فوج کے سپہ سالار جس کانام سیف نے ہرمز رکھا ہے کے مقابلے میں پیدل دست بدست جنگ کے لئے میدان کارزار کی طرف روانہ کرتاہے نیز ایرانیوں کی چالبازی کی حیرت انگیز داستان بیان کرتاہے اور اپنے ہم قبیلہ قعقاع بن عمرو وتمیمی کو ہر مشکل حل کرنے والے کے طور پر ظاہر کرتاہے اور اسے ایک دانا،ہوشیار ،جنگی ماہر،ناقابل شکست پہلوان،لشکر شکن بہادر اور خلفاء واصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی منظور نظر شخصیت کی حیثیت سے پہچنواتاہے اور اسے قحطانی یمنیوں کے مقابلے میں فخرو مباہات کی ایک قطعی دلیل وسند کے طور پر پیش کرتاہے۔

اس کے بعد ،سیف اپنی داستان کو ایسے راویوں کے ذریعہ نقل کرتاہے کہ وہ سب کے سب اس کے اپنے تخیلات کی مخلوق اور گڑھے ہوئے ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

۱۴۲

سیف کی حدیث کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے فتح ابلہ کی داستان کو گڑھ کر کیا ثابت اور کیا حاصل کیاہے:

١۔سیف ،داستان کے مقدمہ کو ایسے مرتب کرتاہے تاکہ خلیفہ ابوبکر کی زبانی قعقاع بن عمرو تمیمی کی تعریف وستائش کرائے اور اسے ایک عظیم ،شجاع اور بہادر کی حیثیت سے پیش کرے۔

٢۔قعقاع کے ناقابل شکست پہلوان ہونے کی خلیفہ کی پیشینگوئی اور خلیفہ سے یہ کہلوانا کہ جس فوج میں قعقاع موجود ہو وہ ہرگز شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔

٣۔عراق کے ایک شہر کوخاندان مضر کے ایک پہلوان خالد کے ہاتھوں فتح کرانا تاکہ خاندان مضر کے فضائل میں ایک اور فضیلت کااضافہ ہوجائے۔

٤۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع کے ذریعہ خالد بن ولید کو ایرانیوں کی سازش اور چالبازی سے نجات دلاکر اس کی فضیلت بیان کرنا۔

٥۔اپنے خود ساختہ راویوں میں تین جعلی راویوں ،یعنی مقطع ،حنظلہ اور عبد الرحمان کااضافہ کرنا۔انشاء اللہ آنے والی بحثوں میں اس موضوع پر مزید وضاحت کریں گے۔

۱۴۳

قعقاع ،حیرہ کی جنگوں میں

و بلغت قتلاهم فی ''الیس '' سبعین الفا

'' الیس'' کی جنگ میں قتل ہوئے ایرانی سپاہیوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی۔

( سیف بن عمر)

مذار اور ثنی کی جنگ

طبری نے فتح ''ابلہ'' کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد سیف سے یہ روایت نقل کی ہے : ١

''ہرمزنے'' ابلہ کی جنگ سے پہلے ایران کے بادشاہ سے مدد طلب کی ۔بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرکے ''قارن بن قریانس'' کی کمانڈ میں ایک فوج اس کی مدد کے لئے روانہ کی۔

جب'' ہرمز '' مارا گیا اور اس کی فوج تتر بتر ہوئی ،اس وقت قارن اپنی فوج کے ہمراہ ''المذار '' پہنچا تھا ۔قارن نے ہرمز کی منتشر اور بھاگی ہوئی فوج کو دریائے ''الثنی'' کے کنارے پر جمع کیا اور لشکر اسلام سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھا ۔دونوں سپاہیوں کے درمیان کھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔

سر انجام '' قارن '' اس جنگ میں مارا گیا اور اس کی فوج منتشر ہو گئی ۔اس جنگ میں دریا میں غرق ہوئے افراد کے علاوہ ایرانی فوج کے تیس ہزار سپاہی کام آئے ۔اس طرح ایرانیوں کو زبردست شکست کا سامنا ہوا''

۱۴۴

ولجہ کی جنگ

سیف نے جنگ ''ولجہ '' کے بارے میں یوں بیان کیا ہے :

''جب ''المذار ''(۱) اور ''الثنی'' میں ایرانیوں کی شکست کی خبر ایران کے بادشاہ کو پہنچی تو اس نے ''اندرزگر'' کو کہا کہ اس علاقہ کے عرب سپاہیوں اور ایرانی کسانوں کو جمع کرکے نئی فوج تشکیل دے اور خالد بن ولید سے جنگ کرنے کے لئے جائے اس کے علاوہ ''بہمن جادویہ '' کو بھی اس کی مدد کے لئے بھیجا ۔جب یہ خبر خالد کو پہنچی تو وہ فوری طور پر ''ولجہ'' پہنچا اور ایرانی فوج سے بنرد آزما ہوا ۔یہ جنگ ''الثنی'' کی جنگ سے شدید تر تھی اس نے اس جنگ میں ایرانی سپاہیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ''اندرزگر '' میدان جنگ سے بھاگ گیا اور فرار کے دوران پیاس کی شدت سے مرگیا''

سیف کہتا ہے :

'' خالد نے اس جنگ میں ایک ایسے ایرانی سپاہی سے جنگ کی جو تنہا ایک ہزار سپاہیوں کا مقابلہ کر سکتا تھا ۔اس ایرانی پہلوان کو خالد نے قتل کر ڈالا!اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ٹیک لگا کر اسی جگہ ،یعنی میدان جنگ میں اپنے لئے کھانا منگوایا ۔یہ جنگ ١٢ھ کے ماہ صفر میں واقع ہوئی کہا گیا ہے کہ ''ولجہ'' خشکی کے راستے ''کسکر '' کے نزدیک ہے ''

____________________

۱)۔ حموی لکھتا ہے : ''قصبہ ''المذار'' ''میسان'' کے علاقہ میں واقع ہے یہ قصبہ ''واسط'' اور ''بصرہ'' کے درمیان ہے ۔بصرہ سے وہاں تک چاردن کا سفر ہے ۔یہاں پر عبداللہ بن علی بن ابیطالب کی قبر ہے ۔یہاں کے لوگ شیعہ ،احمق اور حیوان صفت تھے عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے بصرہ کے فتح کرنے کے بعد اس جگہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

۱۴۵

یہ مطلب حموی کے شیعوں کی نسبت تعصب کا ایک نمونہ ہے ۔

'' الیس'' کی جنگ

سیف نے ''الیس '' کی جنگ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''عرب عیسائی اور دیگر عرب سپاہی '' ولجہ'' کی جنگ میں اپنے مقتولین کی تعداد کو لے کر سخت غصہ میں آگئے تھے ۔اس شکست کی وجہ سے انھوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار ایرانیوں سے کیا نتیجہ کے طور پر '' جابان'' اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے نکلا اور ''الیس '' میں ان سے ملحق ہوا ۔دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اس دوران ایران سے مزید مدد آنے کی امید میں ''جابان'' کے سپاہیوں کی مزاحمت میں جب شدت پیدا ہوئی تو خالد نے غصہ میں آکر قسم کھائی کہ اگر ان پر غلبہ پائے تو ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور دریائے ''الیس '' کو ان کے خون سے جاری کردے گا ۔سر انجام جب خالد نے ان پر فتح پائی تو حکم دیا کہ تما اسیروں کو ایک جگہ جمع کریں اور کسی ایک کو قتل نہ کریں ۔خالد کے سپاہی فراریوں کو پکڑ نے اور اسیر وں کو جمع کرنے کے لئے ہر طرف دوڑ پڑے ۔سوار وں نے اسیروں کو گروہ گروہ کی صورت میں جمع کرکے خالد کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے بعد خالد نے حکم دیا کہ کچھ مرد معین کئے جائیں اور اسیروں کو دریامیں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کریں تاکہ خون کا دریا جاری ہو جائے ۔ ایک دن اور ایک رات گزری دوسرا اور تیسرا دن بھی یوں ہی گزرا ۔اسیروں کو لا کر دریا میں سر تن سے جد اکرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔لیکن پھر بھی خون کا دریا جاری نہیں ہو ا اس موقع پر قعقاع اور اس کے جیسے بعض پہلوانوں نے خالد سے کہا : جب سے آدم کے بیٹے کا خون زمین پر گر کر جم گیا تھا تب سے اس خون کا زمین پر جاری ہونا بند ہو گیا ہے ۔اب اگر آپ انسانی خون کا دریا جاری کرکے اپنی قسم پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس خون پر پانی جاری کر دیجئے تاکہ خون نہ جمنے پائے ۔اس واقعہ سے پہلے بند باندھ کر دریا کا پانی روک دیا گیاتھا ۔لہٰذا مجبورا ًبند کو ہٹادیا گیا پانی خون پر جاری ہوا اور اس طرح خونی دریا وجود میں آگیا ۔اس خونی دریا کے ذریعہ پن چکیاں چلیں جس کے ذریعہ خالد کے اٹھارہ ہزار سے زائد سپاہیوں کے لئے حسب ضرورت آٹا مہیا کیا گیا تین دن ورات یہ پن چکیاں خون کے دریا سے چلتی رہیں ۔اس لئے اس دریا کو دریائے خون کہا گیا''

۱۴۶

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خونی دریا ستر ہزار انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا ،تاکہ ایک ہٹ دھرم سپہ سالار ،خالد مضری کی قسم پوری ہو جائے !!

حیرہ کی دوسری جنگیں

اس کے بعد طبری حیرہ کے اطراف میں خالد کی کمانڈمیں واقع ہوئی بعض بڑی جنگوں کے بارے میں نقل کرتے ہوئے سیف کی بات کو یوں تمام کرتا ہے : ٢

اور سیف نے لکھا ہے کہ قعقاع نے حیرہ کی جنگوں کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

''خدائے تعالیٰ دریائے فرات کے کنارے پر قتل شدہ اور نجف میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہمارے افراد پر اپنی رحمت نازل کرے ''

'' ہم نے سرزمین ''کاظمین '' میں '' ہرمزان '' کو شکست دے دی اور دریائے ثنی کے کنارے پر ''قارن '' کے سینگ اپنے چپو سے توڑ دئے ۔جس دن ہم حیرہ کے محلوں کے سامنے اترے ان پر شکست طاری ہو گئی ۔اس دن ہم نے ان کو شہر بدر کر دیا اور ان کے تخت و تاج ہمارے ڈر سے متزلزل ہو گئے ۔ہم نے اس دن جان لیوا تیروں کو ان کی طرف چھوڑا اور رات ہوتے ہی انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔یہ سب اس دن واقع ہو ا جب وہ دعویٰ کرتے تھے کہ : ہم وہ جواں مرد ہیں جو عربوں کی زرخیز زمین پر قابض ہیں ''

سیف کاا ن اشعار کو بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ قعقاع بن عمرو تمیمی ،خالد بن ولید کے ہمراہ علاقہ ''حیرہ'' کے میدان جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری پر ناز کرتا ہے ،اور فخر کرتا ہے کہ اس نے ''کاظمین '' کی جنگ میں ''ہرمز '' سے ''الثنی'' میں ''قارن'' سے اور حیرہ میں عرب کے عیسائیوں اور کسریٰ کے محلوں کے محافظوں سے جنگ کی ہے اور عربوں کی زرخیز زمینوں کو ان کے تسلط سے آزاد کیا ہے ۔

۱۴۷

یہ روایتیں کہاں تک پہنچی ہیں ؟

یہ وہ مطالب تھے جن کی روایت طبری نے علاقہ ''حیرہ'' میں خالد بن ولید کی جنگوں کے سلسلے میں سیف بن عمر سے نقل کی ہے اور طبری کے بعد ابن اثیر اور ابن خلدون نے ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔اس کے علاوہ ابن کثیر نے بھی طبری اور براہ راست سیف بن عمر سے نقل کرکے اس کی اپنی تاریخ میں تشریح کی ہے ۔

حموی نے بھی الثنی کے بارے میں اپنی معلومات کو براہ راست سیف سے لیا ہے ۔وہ لغت ''الثنی'' کی تشریح میں لکھتا ہے :

'' الثنی کی جنگ ایک مشہور جنگ ہے جو خالد بن ولید اور ایرانیوں کے درمیان بصرہ کے نزدیک واقع ہوئی اور یہی جنگ تھی جس میں قعقاع بن عمر و نے درج ذیل

شعر کہا ہے :

سقی الله قتلی بالفرات مقیمه تا

وبالثنی قرنی قارن بالجوارف

اس کے علاوہ سیف سے ''الولجہ'' کے بارے میں نقل کرتے ہوئے تشریح کرتا ہے :

''ولجہ سر زمین کسکر اور صحرا کے کنارے پر واقع ہے خالد بن ولید نے ایرانی فوج کو وہاں پر شکست دی تھی یہ مطلب کتاب '' فتوح'' میں ١٢ھ کے حوادث میں درج ہو ا ہے اور قعقاع بن عمر و نے اس جنگ میں کہا:

''میں نے شجاعت اور بہادری میں اس قوم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جس قوم کو میں نے صحرائے ولجہ میں دیکھا ۔میں نے اس قوم کے مانند کسی کو نہیں دیکھا جس نے اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہو اور ان کے مامور پہلونوں کو ہلاک کر دیا ہو''

یہ مطالب تھے جن میں حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھا ہے اور عبد المؤمن نے ''ثنی '' اور ''ولجہ'' کی تشریح میں اس سے نقل کرکے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں درج کیا ہے ۔

۱۴۸

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ

بلاذری '' المذار '' کے بارے میں لکھتا ہے :

'' مثنی بن حارثہ نے ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ''المذار '' کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دے دی ۔عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے ''المذار '' پر حملہ کیا اور وہاں کے سرحدبان نے اس کا مقابلہ کیا اس جنگ کے نتیجہ میں خدا نے سرحدبان کی فوج کو شکست دے دی اور وہ سب کے سب دریا میں غرق ہو گئے اور عتبہ نے سرحدبان کا سر تن سے جدا کیا'' ٣

ولجہ اور الثنی کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کی کوئی روایت نہیں پائی کہ اس کا سیف کی روایت سے موازنہ کرتے:

''الیس ''کے بارے میں بلاذری لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید اپنی فوج کو '' الیس '' کی طرف لے گیا اور ایرنیوں کا سردار ''جابان '' چوں کہ خالد کے اندیشہ سے آگاہ ہوا ،اس لئے خود خالد کے پاس حاضر ہوا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ ا لیس کے باشندے ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ میں مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے'' ٤

خون کے دریا کا قصہ

دریائے خون کا قصہ اور خالد بن ولید کی قسم کے بارے میں ابن درید نے اپنی کتاب اشتقاق میں یوں لکھا ہے :

''منذر اعظم جس دن خاندان بکر بن وائل کے افراد کو بے رحمی سے اور دردناک طریقہ سے قتل کر رہا تھا اور انھیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر ان کا سر تن سے جدا کرتا تھا ،اس نے قسم کھائی تھی کہ اس خاندان کے اتنے افراد کو قتل کرے گا کہ ان کا خون بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچ جائے !لیکن بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود خون پہاڑ کے نصف راستہ تک بھی نہیں پہنچا اس امر نے منذر کو سخت غضبناک کر دیا آخر حارث بن مالک نے منذر سے کہا : آپ سلامت رہیں !اگر آپ زمین پر موجود تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے جب بھی ہرگز خون پہاڑ کے دامن تک نہیں پہنچے گا۔ خون پر پانی ڈالنے کا حکم دیجئے تاکہ خون آلود پانی پہاڑ کے دامن

۱۴۹

تک بہنچ جائے ۔

حارث کی راہنمائی مؤثر ثابت ہوئی اور پانی ڈالنے کے بعد خون آلود پانی بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچا اور منذر کی قسم پوری ہو گئی ۔اس پر حارث کو '' وصاف '' کا لقب ملا'' ٥

سیف زمانہ جاہلیت کی اس بھونڈی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو پسند کرتا ہے اور اسی کے مانند ایک داستان کو قبیلۂ مضر کے فخر ومباہات کی سند کے طور پر جعل کرنے کے لئے موزوں سمجھتاہے لہذاخالد بن ولید مضری کواس داستان کاکلیدی رول اداکرنے کے لئے مناسب سمجھتا ہے اور منذر اعظم کے ہاتھوں خاندان بکر بن وائل کے بے گناہ افراد کے قتل عام کی داستان کو بنیاد بنا کر ''الیس''میں ستر ہزار اسیر انسانوں کا قتل عام کرکے خون کا دریا بہانے کی ایک داستان جعل کرتا ہے تاکہ اس لحاظ سے بھی مضر ونزار کے خاندان منذر اعظم سے پیچھے نہ رہیں !!

سند کی جانچ پڑتال :

سیف نے عبدالرحمان بن سیاہ محمد بن عبداللہ اور مہلب کو جنگ''الیس ''کے راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ زیاد بن سر جس احمری بھی اس کا ایک راوی ہے سیف کے اس راوی سے ٥٣احادیث تاریخ طبری میں ذکر ہوئی ہیں چوں کہ ہم نے اس زیاد کا نام بھی سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے جعلی راوی کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے بعض دیگر مجہول اور غیر معروف اشخاص کا نام بھی بعنوان راوی ْْْْذکر کیا ہے اور بعض مشتر ک ناموں کو بھی راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے جن کی تحقیقات

کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۱۵۰

تحقیقات کا نتیجہ :

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''الثنی'' اور ''الولجہ '' کی جنگوں کی روایت کی ہے اور طبری نے ''الثنی ''اور ''الولجہ '' کی جنگوں کے مطالب اسی سے لئے ہیں اور طبری کے بعد والے تمام مؤرخین نے ان مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

یا قوت حموی نے سیف کی داستان کا ایک مختصر حصہ الثنی کی تشریح میں مصادر کا ذکر کئے بغیر اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں درج کیا ہے لیکن الولجہ کی تشریح میں سیف کی کتاب '' فتوح'' کا اشارہ کرتے ہوئے اس داستان کا ایک حصہ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لگتا ہے ابن خاضیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف ابن عمر کی کتاب ''فتوح '' کا ایک حصہ حموی کے پاس تھا انشاء اللہ مناسب موقع پر ہم اس کی وضاحت کریں گے ۔

''المذار ''اور ''الیس'' نامی جگہوں کی تاریخی حقیقت سے انکار نہیں ہے لیکن سیف نے ان دو جگہوں کے فتح کئے جانے کے طریقہ میں تحریف کی ہے جس شخص نے سب سے پہلے ''المذار '' میں جنگ کرکے فتح حاصل کی وہ '' المثنی '' تھا اور دوسری بار ''المذار'' ''عتبہ بن غزوان'' کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس نے وہاں پر سر حد بان کا سر تن سے جد ا کیا تھا ۔

ہم نے ''الیس'' کی جنگ میں دیکھا کہ خالد نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ اس شرط پر صلح کا معاہدہ کیا کہ وہاں کے باشندے مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے اور ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں گے لیکن سیف نے اس صلح کو ایک خونین تباہ کن اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی جنگ میں تبدیل کرکے اس میں تحریف کی ہے اور صرف اس جنگ میں ستر ہزار اسیروں کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے دکھایا ہے تاکہ انسانی خون کا دریا بہے اور تین دن و رات تک اس خونی دریا سے پن چکیاں چلیں تاکہ ١٨ہزار سے زائد اسلامی فوج کے لئے آٹا مہیا ہو سکے ۔

سیف کا ایسا افسانہ گڑھنے سے کیا مقصد تھا ؟ کیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خاندان مضر کے فخر و مباہات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرے ؟ یا اس کے علاوہ اور بھی کوئی مقصد تھا تاکہ اس کے ذریعہ دوسروں کو یہ سمجھائے کہ اسلام تلوار کی دھار سے خون کے دریا بہا کر پھیلا ہے، ملتوں کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے اور اپنے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں نہیں پھیلا جب کہ حقیقت یہی ہے ۔

۱۵۱

سیف کی حدیث کا نتیجہ

١۔ '' قارن بن قریانس''نام کے ایک سپہ سالار کو جعل کرنا ۔

٢۔'' الثنی '' اور '' الولجہ'' نام کی جگہیں جعل کرنا تاکہ مقامات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں یہ جگہیں درج ہو جائیں ۔

٣۔ مہلب ، ابو عثمان بن زید زیاد بن سرجس اور عبد الرحمن بن سیاہ نام کے چار اصحاب جعل کرکے اسلام کے راویوں میں ان کا اضافہ کرنا ۔انشا اللہ ہم اسی کتاب میں ان کی تفصیلات بیان کریں گے۔

٤۔ ادبی آثار کو زینت بخشنے والے ایک قصیدہ کی تخلیق ۔

٥۔ ایک ہزار سوار کی طاقت کے برابر ایک ایرانی پہلوان کا خالد کے ہاتھوں قتل ہونا اور خالدکا اس کی لاش سے ٹیک لگا کر میدان جنگ میں کھانا کھانا تاکہ اس افسانے کے حیرت انگیز منظر کے بارے میں سن کر اپنے اسلاف و اجداد کے فضائل ومناقب سننے کا شوق رکھنے والوں کو خوش کر سکے ۔

٦۔ اسیر ہونے والے تمام انسانوں کا مسلسل چند دن ورات تک سر تن سے جدا کرکے قتل عام کرنا ۔

٧۔ خون کے دریا سے تین دن ورات تک چلنے والی پن چکیوں کے ذریعہ اسلام کے ١٨ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لئے گندم پیس کر آٹا تیار کرنا۔

٨۔''الثنیٰ'' کے میدان میں تیس ہزار اور ''الیس''میں ستر ہزار اور سب ملاکر غرق ہوئے افراد کے علاوہ اسلامی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام ہونا۔

٩۔قعقاع جیسے ناقابل شکست پہلوان کی کرامت دکھانا کہ اگر وہ اور اس جیسے افراد نہ ہوتے اور مداخلت نہ کرتے تو سیف کے کہنے کے مطابق خدابہتر جانتا ہے کہ خالد انسانوں کے سر تن سے جد ا کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رکھتا !! حقیقت میں یہ وہی چیز ہے جس کو سننے کے لئے اسلام کے دشمنوں کے کان منتظر رہتے ہیں ، اور وہ یہ سننے کی تمنا رکھتے ہیں کہ اسلام اپنے دشمنوں سے جنگ کے دوران بے رحمی سے قتل عام کرنے کے بعد پھیلا ہے تاکہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کو تلوار کے سایہ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور ملتوں کا اپنی مرضی سے اسلام کی طرف مائل ہونا اسلام کے پھیلنے کا سبب نہیں بنا ہے کیا اس غیر معمولی افسانہ ساز سیف نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اسلام کے دشمنوں کی اور اپنی دیرینہ آرزوکو پورا نہیں کیا ہے ؟

۱۵۲

قعقاع ،حیرہ کے حوادث کے بعد

مفخرة تضاف الی مفاخر بطل تمیم القعقاع

سقعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ

(مولف)

صلح '' بانقیا'' کی داستان

طبری نے ''حیرہ کے بعد کے حوادث ''کے عنوان کے تحت سیف سے حسب ذیل روایت نقل کی ہے:

''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں نے خالد ابن ولید کے ساتھ ایک صلح کے تحت معاہدہ کیا کہ مسلمان اس شرط پر ان سے جنگ نہ کریں گے کہ وہ دربار کسریٰ کو اد اکئے جانے والے خراج کے علاوہ خالد کو دس ہزار دینار ادا کریں گے۔خالد نے مذکورہ باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور قعقاع بن عمرو تمیمی اور چند دیگر افراد کو اس پر گواہ قرار دیا''۔

اس کے بعد طبری نے یوں لکھاہے:

''جب خالد ''حیرہ''سے فارغ ہوا توعراقی علاقوں سے ہرمز دگرد تک سرحد بانوں نے بھی ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کی طرح ،دربار کسریٰ کو ادا کئے جانے والے خراج کے علاوہ بیس لاکھ درہم اور سیف کی ایک دوسری روایت کے مطابق دس لاکھ درہم خالد کو ادا کرنا قبول کئے ۔خالد نے اس پر ایک معاہدہ نامہ لکھا اور قعقاع وچند دیگر اشخاص کو گواہ قرار دیا ۔

اس کے بعد سیف کہتاہے :

''خالد بن ولید اسلامی فوج کاسپہ سالار تھا ۔اس نے دیگر شخصیتوں کو مختلف عہدوں پر فائز کرنے کے ضمن میں قعقاع بن عمرو کو سرحدوں کی حکمرانی اور کمانڈسونپی ۔خالد نے خراج دینے والوں کے لئے لکھی گئی رسید میں قعقاع کو گواہ کے طور پر مقرر کیا''

۱۵۳

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

ان تمام روایتوں کو طبری نے سیف کے حوالے سے ذکر کیاہے ،اس کے بعد ابن اثیر ،ابن کثیر ،اور ابن خلدون جیسے مؤرخوں نے ان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔اسی طرح کتاب ''الوثائق السیاسة''کے مؤلف نے مذکورہ تین عہد ناموں کو اسلامی سیاسی اسناد کے طور پر اپنی مذکورہ کتاب میں درج کیاہے ۔ ١

لیکن سیف کے علاوہ دیگر تاریخ دانوں نے ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کے صلح نامہ کو ہزار درہم کی بنیاد پر لکھاہے،نہ کہ دس ہزار دینار!اور قعقاع کے نام اور اس کی گواہی کا ذکر تک نہیں کیاہے۔اس کے علاوہ عراقی علاقوں سے ہر مزدگرد تک کی سرزمینوں کے بارے میں صلح کانام ونشان تک نہیں ملتا،بلکہ اس کے برعکس لکھا گیاہے ۔

'' ''حیرہ''،''الیس''اور ''بانقیا''کے علاوہ کسی اور شہر کے باشندوں سے کوئی معاہدہ نہیں ہواہے ۔اسی طرح سرحدوں پر سرداروں کو معین کرنے یاخراج دینے والوں کو بری کئے جانے پر قعقاع کی گواہی کا کوئی ذکر نہیں ملتا ''٢

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

''ابوبکر نے خالد بن ولید کو عراق کے جنوبی علاقوں کا مأمور مقرر کیا اور عیاض بن غنم کو شمالی علاقوں کی ماموریت دی۔خالد نے اپنی مأموریت میں عراق کے جنوبی علاقوں کو وسعت بخشی۔لیکن عیاض ایرانیوں کے محاصرہ میں آگیا اور مجبور ہوکر خالد سے مدد کی درخواست کی ۔خالد نے حیرہ میں قعقاع کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود عیاض کی مدد کے لئے عراق کے شمال کی طرف روانہ ہوا ۔دوسری طرف ایرانیوں اور قبائل ربیعہ کے عربوں نے مسلمانو ں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ''حصید''کے مقام پر اپنی فوج کی لام بندی کی تھی۔ اس علاقہ کے مسلمانوں نے ان سے نجات پانے کے لئے قعقاع سے مدد کی درخواست کی اور قعقاع نے ان کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی ۔جب خالد واپس''حیرہ''پہنچا تو اس نے قعقاع کو ''حصید''میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں اور جزیرہ کے عربوں سے لڑنے کے لئے روانہ کیا۔قعقاع نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی ۔یہ جنگ دشمنوں کی شکست پر تمام ہوئی ۔ ''روز مہر''نام کا ایرانی سپہ سالار ماراگیااور ''روز بہ''بھی عصمة بن عبد اللہ کے ہاتھوں قتل ہوا''

۱۵۴

طبری اور سیف سے نقل کرنے والے مؤرخین

طبری نے ان مطالب کو سیف سے نقل کرکے لکھا ہے ۔اس کے بعد ''ابن اثیر،ابن کثیر'' اور ابن خلدون نے ان روایتوں کو طبری کے حوالے سے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔

ہم نے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' میں طبری اور اس کی تاریخ کے بارے میں عالم اسلام کے مذکورہ تین عظیم مورخوں کے نظریات بالترتیب حسب ذیل ذکر کئے ہیں :

١۔ ابن اثیر اپنی بات یوں شروع کرتا ہے :

'' جو کچھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ سے متعلق ہے ،ہم نے اسے کچھ گھٹائے بغیر نقل کیا ہے ''

٢۔ ابو الفدایوں کہتا ہے :

'' ہم نے ابن اثیر کی بات کو نقل کیا ہے اور اس کی تاریخ کوخلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے''

٣۔ ابن خلدون لکھتا ہے :

'' خلافت اسلامیہ سے متعلق مطالب اور جو کچھ ارتداد کی جنگوں اور فتوحات سے مربوط ہے مختصر طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ''

٤۔لیکن ابن کثیر ،اکثر اپنی روایتوں کے مآخذ یا مآخذ کے بارے میں کہ طبری ہے کا صراحتا ذکر کرتا ہے یا بعض مواقع پر براہ راست سیف کا نام لیتا ہے اور اسے اپنی داستان کی سند کے طور پر پیش کرتا ہے ۔

حموی ،سیف کی اس داستان پر اعتبار کرتا ہے اور ''حصید '' کا نام لیتے ہوئے لکھتا ہے :

'' حصید '' کوفہ و شام کے درمیان ایک صحراہے ،یہاں پر ١٣ھ میں قعقاع بن عمر و نے ایرانی فوجوں اور ربیعہ وتغلب کے عربوں کے ساتھ گھمسان کی جنگ کی اور ایرانی فوج کے دو سردار ''روزمہر '' اور ''روزبہ'' مارے گئے اور قعقاع نے اس جنگ میں رزم نامہ اس طرح کہا ہے :

'' اسماء(۱) کو خبر دو کہ اس کا شوہر ایرانی سردار'' روزمہر '' کے بارے میں اس دن

____________________

۱)۔عربوں میں رسم تھی کہ جنگوں میں رزم نامہ پڑھتے ہوئے اپنی بہن یا بیوی کا نام لیتے تھے اور اپنے افتخارات بیان کرتے تھے ۔

۱۵۵

اپنی آرزو کو پہنچا ،جب ہم ہندی تلواروں کو نیام سے نکال کر ان کی فوج پر حملہ آور ہوکر ان کے سر تن سے جدا کر رہے تھے ''

یہ سب کچھ سیف نے کہا ہے اور طبری نے اس سے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بعد میں طبری سے نقل کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عیاض ،خالد کے ساتھ عراق کی ماموریت پر تھا بلکہ اس کے بر خلاف اس کا ابوعبید کے ساتھ شام میں ہونا ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف ''حصید'' نامی مقام اور وہاں پر جنگ کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نام ونشان تک نہیں پایا۔

سند کی پڑتال

سیف نے مذکورہ حدیث ،محمد مہلب اور زیاد سے روایت کی ہے ۔ان کے بارے میں پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ تینوں راوی سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ غصن بن قاسم نام کے ایک اور راوی سے بھی روایت کی ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے ١٣،احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

اسی طرح ابن ابی مکنف نام کے ایک اور شخص کا نام بھی لیا ہے ۔

موخّر الذکر دونوں راویوں کے نام بھی ہم نے طبقات اور راویوں کی فہرست میں کہیں نہیں پائے ۔

آخر میں سیف نے اس داستان کے بانچویں راوی کے طور پر بنی کنانہ کے ایک شخص کو پیش کیا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اپنے خیال میں اس شخص کا نام کیا رکھا تھا تاکہ ہم اس کی بھی تلاش کرتے !۔

اس اصول کے تحت ہمیں حق پہنچتا ہے کہ مذکورہ بالا راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کریں ۔

۱۵۶

اس حدیث کے نتائج

١۔تین فوجی معاہدوں اور ایک صلح نامہ کو سیاسی اسناد کے طور پر پیش کرنا۔

٢۔ ''حصید'' نام کی ایک جگہ کو تخلیق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٣۔ ایسے اشعار کی تخلیق کرنا جو ادبیات کی کتابوں درج ہو جائیں ۔

٤۔خاندان تمیم کے سورما ،قعقاع بن عمرو کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا ۔

یہ سب اپنی جگہ پر لیکن وہ کون سا سبب تھا جس نے سیف کو یہ کام انجام دینے پر مجبور کیا کہ ابو عبیدہ کے ہمراہ شام میں جنگ میں مصروف '' عیاض'' کو خالد کے ساتھ عراق پہنچادے ؟!اگر زندیقی ہونے کے سبب یا کسی اور چیز نے اسے ایسا کرنے پر مشتعل نہیں کیا کہ وہ اسلام کی تاریخ میں تحریف کرے ،تو اور کیا سبب ہو سکتا ہے ؟!

۱۵۷

قعقاع ،مصیخ اور فراض میں

وبلغ قتلاهم فی المعرکة والطلب مائة الف

''جنگ فراض میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی''

(سیف)

مصیخ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

'' ایرانی اور مختلف عرب قبیلوں نے ''حصید '' میں شکست کھانے کے بعد '' احنافس'' سے پسپائی اختیار کرکے ''حوران '' و ''قلت'' کے درمیان واقع ایک جگہ '' مصیخ'' میں اپنی منتشر فوج کو پھر سے منظم کیا جب اس فوج کے ''مصیخ '' میں دوبارہ منظم ہونے کی خبر خالد کو ملی ،تو اس نے قعقاع ،ابی لیلیٰ بن فدکی ا عبد بن فدکی اور عروہ بن بارقی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ذہن نشین کرایا کہ فلاں شب فلاں وقت پر اپنی فوج کو لے کر '' مصیخ '' کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پر اس جگہ حاضر ہوئے انھوں نے تین جانب سے دشمن پر شب خون مارا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیئے ۔ لوگوں نے اس قتل عام کے مناظر کی بھیڑ بکریوں کی لاشوں پر لاشیں گرنے سے تشبیہ دی ہے !!''

وہ مزید لکھتا ہے :

'' دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں عبد الغزی نمری اور ولید بن جریر بھی موجود تھے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی گواہی کے طور پر ابوبکر کا خط بھی ان کے پاس موجود تھا یہ دونوں بھی اس جنگ میں قتل کئے گئے ۔ان کے مارے جانے کی خبر ابوبکر کو پہنچی اور خاص کر یہ خبر کہ عبد الغزی نے اس شب تین جانب سے ہونے والے حملہ کو دیکھ کر فریاد بلند کی تھی کہ : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا تو پاک و منزہ ہے !'' چوں کہ یہ دونوں بے گناہ مارے گئے تھے اس لئے ابوبکر نے ان کی اولاد کو ان کا خون بہا ادا کیا ۔ عمر نے ان کے مارے جانے اور اسی طرح مالک بن نویرہ کے قتل کے بارے میں خالد پر اعتراض کیا اور اس سے ناراض ہو گئے اور ابوبکر ،عمر کی تسلی کے لئے یہی کہتے تھے '' جو بھی فوج کے درمیان رہے گا اس کا یہی انجام ہوگا!''

۱۵۸

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

حموی نے سیف کی روایت کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا ہے اور '' مصیخ'' کے بارے میں سیف کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے اور اسے ایک واقعی جگہ کے طور پرپیش کیاہے اور لکھتاہے :

'' مصیخ '' حوران اور قلت'' کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں پر خالد بن ولید اور خاندان تغلب کے درمیان جنگ ہوئی تھی ''

اسی کے بعد لکھتا ہے :

'' قعقاع نے اس جنگ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

'' مصیخ کی جنگ میں خاندان تغلب کے کارناموں کے بارے میں ہم سے پوچھو !کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں ؟ جب ہم نے ان پر شب خون مارا تو اس کے نتیجہ میں ان کا صرف نام ہی باقی رہا ۔ ''ایاد''اور ''نمور''(۱) کے قبیلے بھی خاندان تغلب کے دوش بدوش تھے اور وہ بھی ان باتوں کو جوان کے وجود کو لرزہ بر اندام کئے دے رہی تھیں سن رہے تھے''

آپ ان مطالب کو صرف سیف کے افسانوں میں پاسکتے ہیں ۔دیگر لوگوں نے ''مصیخ '' اور اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ تک نہیں کیاہے ۔کیوں کہ وہ حقیقت لکھنے کی فکر میں تھے نہ کہ افسانہ سازی میں ۔

سند کی پڑتال:

''مصیخ بنی البرشائ'' کے بارے میں سیف کی حدیث ''حیرہ'' کے واقعات کے بعد اور ان ہی حوادث کا سلسلہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی سند بھی وہی ہے جو ''حیرہ'' کے بارے میں بیان ہوئی ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ تاریخ دانوں نے اس قصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے تاکہ ہم ان کے اور سیف کے بیان کے درمیان موازنہ و بحث کریں ،بلکہ یہ تنہا سیف ہے جس نے یہ روایت جعل کی ہے ،اور انشاء اللہ ہم جلد ہی اس کے جھوٹ اور افسانہ نویسی کے سبب پر بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱)۔ سیف نے ایسا خیال کیا ہے کہ ایاد ،نموراور تغلب کے قبیلوں نے ایک دوسرے کے دوش بدوش جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۱۵۹

داستان مصیخ کے نتائج :

١۔ '' مصیخ بنی البرشائ'' نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا جاسکے ۔

٢۔ عبد ابن فدکی اور اس کے بھائی ابو لیلیٰ نام کے دو صحابی جعل کرنے کے علاوہ '' نمری'' نام کے ایک اور صحابی کو جعل کرنا جسے ابوبکر نے عبداللہ نام دیا ہے تاکہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے افسانوں کے مطابق درج ہوں ۔

٣۔ افسانوی سورما قعقاع کے اشعار بیان کرنا۔

٤۔ ایک خونیں اور رونگٹے کھڑے کرنے والی جنگ کی تخلیق کرنا تاکہ میدان میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی کشتوں کے پشتے لگتے دکھائے جائیں جس سے ایک طرف اپنے اسلاف کے افسانے سننے کے شوقین اور دوسری طرف اسلام کے دشمنوں کے دل شاد کئے جائیں اور اس قسم کی چیزیں سیف کے افسانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں !

فراض کی جنگ

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

''واقع مصیخ کے بعد تغلب کے بھگوڑ ے''دارالثنی''اور ''زمیل''میں جمع ہوئے اور خالد بن ولید نے قعقاع کے ہمراہ ان پر وہی مصیبت توڑی جو مصیخ میں رو نما ہوچکی تھی۔''

اس کے بعد لکھتاہے:

''خالد ،شام اور عراق کی سرحد پر واقع ''فراض ''کی طرف روانہ ہوا ۔سیف کہتاہے :رومی مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایرانی سرحد بانوں سے اسلحہ اور مدد حاصل کی اور مختلف عرب قبیلوں ،جیسے تغلب ،ایاد اور نمر سے بھی مدد طلب کی اس طرح ایک عظیم فوج جمع کر کے خالد بن ولید کے ساتھ ایک لمبی مدت تک خونیں جنگ لڑی ۔ سرانجام اس جنگ میں رومیوں نے شکست کھائی اور سب کے سب میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔خالد نے حکم دیا کہ بھاگنے والوں کے سر تن سے جدا کئے جائیں ۔ خالد کے سوار ،فراریوں کو گروہ گروہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کرکے ان کا سر تن سے جدا کرتے تھے ۔اس طرح مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔''

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416