ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215436 / ڈاؤنلوڈ: 4971
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف نے جو داستان فتح ابلہ کے بارے میں جعل کی ہے وہ پوری کی پوری اس کے بر خلاف ہے جو آگاہ افراد اور مؤرخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے اس کے علاوہ صحیح کتابوں میں درج شدہ چیزوں کے خلاف بھی ہے ،کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں ١٤ھ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔ہم بعد میں مناسب جگہ پر اس کی وضاحت کریں گے ۔

طبری ١٤ھ کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے جہاں شہر بصرہ کی بنا کا ذکر کرتے ہوئے ،فتح ابلہ کے بارے میں دئے گئے اپنے وعدہ پر عمل کرتا ہے اور ابلہ کی جنگ کی حقیقت

اور اس کی فتح کا ذکر کرتا ہے ۔جس میں سیف کی بیان کردہ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں

پائی جاتی ہے ۔ ٢

سند کی پڑتال

سیف کی اس داستان کے دو راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں پہلے معلوم ہوا کہ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ مقطع بن ہیثم بکائی ہے ،اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی تین روایتوں میں آیا ہے ۔ایک اور راوی حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی دوروایتوں میں آیاہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سیف نے حنظلہ کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ''اپنے جعلی صحابی '' زیاد بن حنظلہ کا ایک بیٹا بھی جعل کیا ہے ۔لہٰذا جعلی صحابی زیاد اور اس کا بیٹا حنظلہ سیف کے تخیلات کے جعلی راوی ہیں ۔

اس طرح عبد الرحمن احمری بھی ایک راوی ہے جس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی سات روایتوں میں ذکر ہو ا ہے ۔

بہر حال ہم نے بحث و تحقیق کی کہ ان راویوں کے ناموں کو طبقات ،راویوں کی سوانح حیات حتی حدیث کی کتابوں میں کہیں پا سکیں لیکن ان میں سے کسی ایک کانام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں پایا ۔ لہٰذا ہم نے موخر الذکر تین راویوں یعنی مقطع ،جنظلہ اور عبدالرحمن کو بھی محمد و مہلب کی طرح سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

۱۴۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے سپاہیوں کے تتربتر ہونے کی وجہ سے ابوبکر سے مدد طلب کی اور خلیفہ نے قعقاع بن عمر وتمیمی کی مختصر ،لیکن با معنی تعریف کرکے قعقاع کو اکیلے ہی خالد کی مدد کے لئے بھیجا۔اس قصہ کو صرف سیف نے جعل کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں کہی ہے۔

سیف نے شہر آبلہ کی فتح کو ١٢ ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانے میں خالد بن ولید مضری سے نسبت دی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شہر ابلہ کی فتح عمر کے زمانے میں ١٤ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ہم اس تحریف کے سبب کو بعد میں بیان کریں گے۔

سیف وہ تنہا قصہ گو ہے جوخالد بن ولید کو ایرانی فوج کے سپہ سالار جس کانام سیف نے ہرمز رکھا ہے کے مقابلے میں پیدل دست بدست جنگ کے لئے میدان کارزار کی طرف روانہ کرتاہے نیز ایرانیوں کی چالبازی کی حیرت انگیز داستان بیان کرتاہے اور اپنے ہم قبیلہ قعقاع بن عمرو وتمیمی کو ہر مشکل حل کرنے والے کے طور پر ظاہر کرتاہے اور اسے ایک دانا،ہوشیار ،جنگی ماہر،ناقابل شکست پہلوان،لشکر شکن بہادر اور خلفاء واصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی منظور نظر شخصیت کی حیثیت سے پہچنواتاہے اور اسے قحطانی یمنیوں کے مقابلے میں فخرو مباہات کی ایک قطعی دلیل وسند کے طور پر پیش کرتاہے۔

اس کے بعد ،سیف اپنی داستان کو ایسے راویوں کے ذریعہ نقل کرتاہے کہ وہ سب کے سب اس کے اپنے تخیلات کی مخلوق اور گڑھے ہوئے ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

۱۴۲

سیف کی حدیث کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے فتح ابلہ کی داستان کو گڑھ کر کیا ثابت اور کیا حاصل کیاہے:

١۔سیف ،داستان کے مقدمہ کو ایسے مرتب کرتاہے تاکہ خلیفہ ابوبکر کی زبانی قعقاع بن عمرو تمیمی کی تعریف وستائش کرائے اور اسے ایک عظیم ،شجاع اور بہادر کی حیثیت سے پیش کرے۔

٢۔قعقاع کے ناقابل شکست پہلوان ہونے کی خلیفہ کی پیشینگوئی اور خلیفہ سے یہ کہلوانا کہ جس فوج میں قعقاع موجود ہو وہ ہرگز شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔

٣۔عراق کے ایک شہر کوخاندان مضر کے ایک پہلوان خالد کے ہاتھوں فتح کرانا تاکہ خاندان مضر کے فضائل میں ایک اور فضیلت کااضافہ ہوجائے۔

٤۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع کے ذریعہ خالد بن ولید کو ایرانیوں کی سازش اور چالبازی سے نجات دلاکر اس کی فضیلت بیان کرنا۔

٥۔اپنے خود ساختہ راویوں میں تین جعلی راویوں ،یعنی مقطع ،حنظلہ اور عبد الرحمان کااضافہ کرنا۔انشاء اللہ آنے والی بحثوں میں اس موضوع پر مزید وضاحت کریں گے۔

۱۴۳

قعقاع ،حیرہ کی جنگوں میں

و بلغت قتلاهم فی ''الیس '' سبعین الفا

'' الیس'' کی جنگ میں قتل ہوئے ایرانی سپاہیوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی۔

( سیف بن عمر)

مذار اور ثنی کی جنگ

طبری نے فتح ''ابلہ'' کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد سیف سے یہ روایت نقل کی ہے : ١

''ہرمزنے'' ابلہ کی جنگ سے پہلے ایران کے بادشاہ سے مدد طلب کی ۔بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرکے ''قارن بن قریانس'' کی کمانڈ میں ایک فوج اس کی مدد کے لئے روانہ کی۔

جب'' ہرمز '' مارا گیا اور اس کی فوج تتر بتر ہوئی ،اس وقت قارن اپنی فوج کے ہمراہ ''المذار '' پہنچا تھا ۔قارن نے ہرمز کی منتشر اور بھاگی ہوئی فوج کو دریائے ''الثنی'' کے کنارے پر جمع کیا اور لشکر اسلام سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھا ۔دونوں سپاہیوں کے درمیان کھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔

سر انجام '' قارن '' اس جنگ میں مارا گیا اور اس کی فوج منتشر ہو گئی ۔اس جنگ میں دریا میں غرق ہوئے افراد کے علاوہ ایرانی فوج کے تیس ہزار سپاہی کام آئے ۔اس طرح ایرانیوں کو زبردست شکست کا سامنا ہوا''

۱۴۴

ولجہ کی جنگ

سیف نے جنگ ''ولجہ '' کے بارے میں یوں بیان کیا ہے :

''جب ''المذار ''(۱) اور ''الثنی'' میں ایرانیوں کی شکست کی خبر ایران کے بادشاہ کو پہنچی تو اس نے ''اندرزگر'' کو کہا کہ اس علاقہ کے عرب سپاہیوں اور ایرانی کسانوں کو جمع کرکے نئی فوج تشکیل دے اور خالد بن ولید سے جنگ کرنے کے لئے جائے اس کے علاوہ ''بہمن جادویہ '' کو بھی اس کی مدد کے لئے بھیجا ۔جب یہ خبر خالد کو پہنچی تو وہ فوری طور پر ''ولجہ'' پہنچا اور ایرانی فوج سے بنرد آزما ہوا ۔یہ جنگ ''الثنی'' کی جنگ سے شدید تر تھی اس نے اس جنگ میں ایرانی سپاہیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ''اندرزگر '' میدان جنگ سے بھاگ گیا اور فرار کے دوران پیاس کی شدت سے مرگیا''

سیف کہتا ہے :

'' خالد نے اس جنگ میں ایک ایسے ایرانی سپاہی سے جنگ کی جو تنہا ایک ہزار سپاہیوں کا مقابلہ کر سکتا تھا ۔اس ایرانی پہلوان کو خالد نے قتل کر ڈالا!اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ٹیک لگا کر اسی جگہ ،یعنی میدان جنگ میں اپنے لئے کھانا منگوایا ۔یہ جنگ ١٢ھ کے ماہ صفر میں واقع ہوئی کہا گیا ہے کہ ''ولجہ'' خشکی کے راستے ''کسکر '' کے نزدیک ہے ''

____________________

۱)۔ حموی لکھتا ہے : ''قصبہ ''المذار'' ''میسان'' کے علاقہ میں واقع ہے یہ قصبہ ''واسط'' اور ''بصرہ'' کے درمیان ہے ۔بصرہ سے وہاں تک چاردن کا سفر ہے ۔یہاں پر عبداللہ بن علی بن ابیطالب کی قبر ہے ۔یہاں کے لوگ شیعہ ،احمق اور حیوان صفت تھے عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے بصرہ کے فتح کرنے کے بعد اس جگہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

۱۴۵

یہ مطلب حموی کے شیعوں کی نسبت تعصب کا ایک نمونہ ہے ۔

'' الیس'' کی جنگ

سیف نے ''الیس '' کی جنگ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''عرب عیسائی اور دیگر عرب سپاہی '' ولجہ'' کی جنگ میں اپنے مقتولین کی تعداد کو لے کر سخت غصہ میں آگئے تھے ۔اس شکست کی وجہ سے انھوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار ایرانیوں سے کیا نتیجہ کے طور پر '' جابان'' اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے نکلا اور ''الیس '' میں ان سے ملحق ہوا ۔دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اس دوران ایران سے مزید مدد آنے کی امید میں ''جابان'' کے سپاہیوں کی مزاحمت میں جب شدت پیدا ہوئی تو خالد نے غصہ میں آکر قسم کھائی کہ اگر ان پر غلبہ پائے تو ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور دریائے ''الیس '' کو ان کے خون سے جاری کردے گا ۔سر انجام جب خالد نے ان پر فتح پائی تو حکم دیا کہ تما اسیروں کو ایک جگہ جمع کریں اور کسی ایک کو قتل نہ کریں ۔خالد کے سپاہی فراریوں کو پکڑ نے اور اسیر وں کو جمع کرنے کے لئے ہر طرف دوڑ پڑے ۔سوار وں نے اسیروں کو گروہ گروہ کی صورت میں جمع کرکے خالد کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے بعد خالد نے حکم دیا کہ کچھ مرد معین کئے جائیں اور اسیروں کو دریامیں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کریں تاکہ خون کا دریا جاری ہو جائے ۔ ایک دن اور ایک رات گزری دوسرا اور تیسرا دن بھی یوں ہی گزرا ۔اسیروں کو لا کر دریا میں سر تن سے جد اکرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔لیکن پھر بھی خون کا دریا جاری نہیں ہو ا اس موقع پر قعقاع اور اس کے جیسے بعض پہلوانوں نے خالد سے کہا : جب سے آدم کے بیٹے کا خون زمین پر گر کر جم گیا تھا تب سے اس خون کا زمین پر جاری ہونا بند ہو گیا ہے ۔اب اگر آپ انسانی خون کا دریا جاری کرکے اپنی قسم پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس خون پر پانی جاری کر دیجئے تاکہ خون نہ جمنے پائے ۔اس واقعہ سے پہلے بند باندھ کر دریا کا پانی روک دیا گیاتھا ۔لہٰذا مجبورا ًبند کو ہٹادیا گیا پانی خون پر جاری ہوا اور اس طرح خونی دریا وجود میں آگیا ۔اس خونی دریا کے ذریعہ پن چکیاں چلیں جس کے ذریعہ خالد کے اٹھارہ ہزار سے زائد سپاہیوں کے لئے حسب ضرورت آٹا مہیا کیا گیا تین دن ورات یہ پن چکیاں خون کے دریا سے چلتی رہیں ۔اس لئے اس دریا کو دریائے خون کہا گیا''

۱۴۶

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خونی دریا ستر ہزار انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا ،تاکہ ایک ہٹ دھرم سپہ سالار ،خالد مضری کی قسم پوری ہو جائے !!

حیرہ کی دوسری جنگیں

اس کے بعد طبری حیرہ کے اطراف میں خالد کی کمانڈمیں واقع ہوئی بعض بڑی جنگوں کے بارے میں نقل کرتے ہوئے سیف کی بات کو یوں تمام کرتا ہے : ٢

اور سیف نے لکھا ہے کہ قعقاع نے حیرہ کی جنگوں کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

''خدائے تعالیٰ دریائے فرات کے کنارے پر قتل شدہ اور نجف میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہمارے افراد پر اپنی رحمت نازل کرے ''

'' ہم نے سرزمین ''کاظمین '' میں '' ہرمزان '' کو شکست دے دی اور دریائے ثنی کے کنارے پر ''قارن '' کے سینگ اپنے چپو سے توڑ دئے ۔جس دن ہم حیرہ کے محلوں کے سامنے اترے ان پر شکست طاری ہو گئی ۔اس دن ہم نے ان کو شہر بدر کر دیا اور ان کے تخت و تاج ہمارے ڈر سے متزلزل ہو گئے ۔ہم نے اس دن جان لیوا تیروں کو ان کی طرف چھوڑا اور رات ہوتے ہی انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔یہ سب اس دن واقع ہو ا جب وہ دعویٰ کرتے تھے کہ : ہم وہ جواں مرد ہیں جو عربوں کی زرخیز زمین پر قابض ہیں ''

سیف کاا ن اشعار کو بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ قعقاع بن عمرو تمیمی ،خالد بن ولید کے ہمراہ علاقہ ''حیرہ'' کے میدان جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری پر ناز کرتا ہے ،اور فخر کرتا ہے کہ اس نے ''کاظمین '' کی جنگ میں ''ہرمز '' سے ''الثنی'' میں ''قارن'' سے اور حیرہ میں عرب کے عیسائیوں اور کسریٰ کے محلوں کے محافظوں سے جنگ کی ہے اور عربوں کی زرخیز زمینوں کو ان کے تسلط سے آزاد کیا ہے ۔

۱۴۷

یہ روایتیں کہاں تک پہنچی ہیں ؟

یہ وہ مطالب تھے جن کی روایت طبری نے علاقہ ''حیرہ'' میں خالد بن ولید کی جنگوں کے سلسلے میں سیف بن عمر سے نقل کی ہے اور طبری کے بعد ابن اثیر اور ابن خلدون نے ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔اس کے علاوہ ابن کثیر نے بھی طبری اور براہ راست سیف بن عمر سے نقل کرکے اس کی اپنی تاریخ میں تشریح کی ہے ۔

حموی نے بھی الثنی کے بارے میں اپنی معلومات کو براہ راست سیف سے لیا ہے ۔وہ لغت ''الثنی'' کی تشریح میں لکھتا ہے :

'' الثنی کی جنگ ایک مشہور جنگ ہے جو خالد بن ولید اور ایرانیوں کے درمیان بصرہ کے نزدیک واقع ہوئی اور یہی جنگ تھی جس میں قعقاع بن عمر و نے درج ذیل

شعر کہا ہے :

سقی الله قتلی بالفرات مقیمه تا

وبالثنی قرنی قارن بالجوارف

اس کے علاوہ سیف سے ''الولجہ'' کے بارے میں نقل کرتے ہوئے تشریح کرتا ہے :

''ولجہ سر زمین کسکر اور صحرا کے کنارے پر واقع ہے خالد بن ولید نے ایرانی فوج کو وہاں پر شکست دی تھی یہ مطلب کتاب '' فتوح'' میں ١٢ھ کے حوادث میں درج ہو ا ہے اور قعقاع بن عمر و نے اس جنگ میں کہا:

''میں نے شجاعت اور بہادری میں اس قوم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جس قوم کو میں نے صحرائے ولجہ میں دیکھا ۔میں نے اس قوم کے مانند کسی کو نہیں دیکھا جس نے اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہو اور ان کے مامور پہلونوں کو ہلاک کر دیا ہو''

یہ مطالب تھے جن میں حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھا ہے اور عبد المؤمن نے ''ثنی '' اور ''ولجہ'' کی تشریح میں اس سے نقل کرکے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں درج کیا ہے ۔

۱۴۸

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ

بلاذری '' المذار '' کے بارے میں لکھتا ہے :

'' مثنی بن حارثہ نے ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ''المذار '' کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دے دی ۔عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے ''المذار '' پر حملہ کیا اور وہاں کے سرحدبان نے اس کا مقابلہ کیا اس جنگ کے نتیجہ میں خدا نے سرحدبان کی فوج کو شکست دے دی اور وہ سب کے سب دریا میں غرق ہو گئے اور عتبہ نے سرحدبان کا سر تن سے جدا کیا'' ٣

ولجہ اور الثنی کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کی کوئی روایت نہیں پائی کہ اس کا سیف کی روایت سے موازنہ کرتے:

''الیس ''کے بارے میں بلاذری لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید اپنی فوج کو '' الیس '' کی طرف لے گیا اور ایرنیوں کا سردار ''جابان '' چوں کہ خالد کے اندیشہ سے آگاہ ہوا ،اس لئے خود خالد کے پاس حاضر ہوا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ ا لیس کے باشندے ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ میں مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے'' ٤

خون کے دریا کا قصہ

دریائے خون کا قصہ اور خالد بن ولید کی قسم کے بارے میں ابن درید نے اپنی کتاب اشتقاق میں یوں لکھا ہے :

''منذر اعظم جس دن خاندان بکر بن وائل کے افراد کو بے رحمی سے اور دردناک طریقہ سے قتل کر رہا تھا اور انھیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر ان کا سر تن سے جدا کرتا تھا ،اس نے قسم کھائی تھی کہ اس خاندان کے اتنے افراد کو قتل کرے گا کہ ان کا خون بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچ جائے !لیکن بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود خون پہاڑ کے نصف راستہ تک بھی نہیں پہنچا اس امر نے منذر کو سخت غضبناک کر دیا آخر حارث بن مالک نے منذر سے کہا : آپ سلامت رہیں !اگر آپ زمین پر موجود تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے جب بھی ہرگز خون پہاڑ کے دامن تک نہیں پہنچے گا۔ خون پر پانی ڈالنے کا حکم دیجئے تاکہ خون آلود پانی پہاڑ کے دامن

۱۴۹

تک بہنچ جائے ۔

حارث کی راہنمائی مؤثر ثابت ہوئی اور پانی ڈالنے کے بعد خون آلود پانی بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچا اور منذر کی قسم پوری ہو گئی ۔اس پر حارث کو '' وصاف '' کا لقب ملا'' ٥

سیف زمانہ جاہلیت کی اس بھونڈی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو پسند کرتا ہے اور اسی کے مانند ایک داستان کو قبیلۂ مضر کے فخر ومباہات کی سند کے طور پر جعل کرنے کے لئے موزوں سمجھتاہے لہذاخالد بن ولید مضری کواس داستان کاکلیدی رول اداکرنے کے لئے مناسب سمجھتا ہے اور منذر اعظم کے ہاتھوں خاندان بکر بن وائل کے بے گناہ افراد کے قتل عام کی داستان کو بنیاد بنا کر ''الیس''میں ستر ہزار اسیر انسانوں کا قتل عام کرکے خون کا دریا بہانے کی ایک داستان جعل کرتا ہے تاکہ اس لحاظ سے بھی مضر ونزار کے خاندان منذر اعظم سے پیچھے نہ رہیں !!

سند کی جانچ پڑتال :

سیف نے عبدالرحمان بن سیاہ محمد بن عبداللہ اور مہلب کو جنگ''الیس ''کے راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ زیاد بن سر جس احمری بھی اس کا ایک راوی ہے سیف کے اس راوی سے ٥٣احادیث تاریخ طبری میں ذکر ہوئی ہیں چوں کہ ہم نے اس زیاد کا نام بھی سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے جعلی راوی کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے بعض دیگر مجہول اور غیر معروف اشخاص کا نام بھی بعنوان راوی ْْْْذکر کیا ہے اور بعض مشتر ک ناموں کو بھی راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے جن کی تحقیقات

کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۱۵۰

تحقیقات کا نتیجہ :

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''الثنی'' اور ''الولجہ '' کی جنگوں کی روایت کی ہے اور طبری نے ''الثنی ''اور ''الولجہ '' کی جنگوں کے مطالب اسی سے لئے ہیں اور طبری کے بعد والے تمام مؤرخین نے ان مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

یا قوت حموی نے سیف کی داستان کا ایک مختصر حصہ الثنی کی تشریح میں مصادر کا ذکر کئے بغیر اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں درج کیا ہے لیکن الولجہ کی تشریح میں سیف کی کتاب '' فتوح'' کا اشارہ کرتے ہوئے اس داستان کا ایک حصہ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لگتا ہے ابن خاضیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف ابن عمر کی کتاب ''فتوح '' کا ایک حصہ حموی کے پاس تھا انشاء اللہ مناسب موقع پر ہم اس کی وضاحت کریں گے ۔

''المذار ''اور ''الیس'' نامی جگہوں کی تاریخی حقیقت سے انکار نہیں ہے لیکن سیف نے ان دو جگہوں کے فتح کئے جانے کے طریقہ میں تحریف کی ہے جس شخص نے سب سے پہلے ''المذار '' میں جنگ کرکے فتح حاصل کی وہ '' المثنی '' تھا اور دوسری بار ''المذار'' ''عتبہ بن غزوان'' کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس نے وہاں پر سر حد بان کا سر تن سے جد ا کیا تھا ۔

ہم نے ''الیس'' کی جنگ میں دیکھا کہ خالد نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ اس شرط پر صلح کا معاہدہ کیا کہ وہاں کے باشندے مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے اور ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں گے لیکن سیف نے اس صلح کو ایک خونین تباہ کن اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی جنگ میں تبدیل کرکے اس میں تحریف کی ہے اور صرف اس جنگ میں ستر ہزار اسیروں کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے دکھایا ہے تاکہ انسانی خون کا دریا بہے اور تین دن و رات تک اس خونی دریا سے پن چکیاں چلیں تاکہ ١٨ہزار سے زائد اسلامی فوج کے لئے آٹا مہیا ہو سکے ۔

سیف کا ایسا افسانہ گڑھنے سے کیا مقصد تھا ؟ کیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خاندان مضر کے فخر و مباہات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرے ؟ یا اس کے علاوہ اور بھی کوئی مقصد تھا تاکہ اس کے ذریعہ دوسروں کو یہ سمجھائے کہ اسلام تلوار کی دھار سے خون کے دریا بہا کر پھیلا ہے، ملتوں کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے اور اپنے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں نہیں پھیلا جب کہ حقیقت یہی ہے ۔

۱۵۱

سیف کی حدیث کا نتیجہ

١۔ '' قارن بن قریانس''نام کے ایک سپہ سالار کو جعل کرنا ۔

٢۔'' الثنی '' اور '' الولجہ'' نام کی جگہیں جعل کرنا تاکہ مقامات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں یہ جگہیں درج ہو جائیں ۔

٣۔ مہلب ، ابو عثمان بن زید زیاد بن سرجس اور عبد الرحمن بن سیاہ نام کے چار اصحاب جعل کرکے اسلام کے راویوں میں ان کا اضافہ کرنا ۔انشا اللہ ہم اسی کتاب میں ان کی تفصیلات بیان کریں گے۔

٤۔ ادبی آثار کو زینت بخشنے والے ایک قصیدہ کی تخلیق ۔

٥۔ ایک ہزار سوار کی طاقت کے برابر ایک ایرانی پہلوان کا خالد کے ہاتھوں قتل ہونا اور خالدکا اس کی لاش سے ٹیک لگا کر میدان جنگ میں کھانا کھانا تاکہ اس افسانے کے حیرت انگیز منظر کے بارے میں سن کر اپنے اسلاف و اجداد کے فضائل ومناقب سننے کا شوق رکھنے والوں کو خوش کر سکے ۔

٦۔ اسیر ہونے والے تمام انسانوں کا مسلسل چند دن ورات تک سر تن سے جدا کرکے قتل عام کرنا ۔

٧۔ خون کے دریا سے تین دن ورات تک چلنے والی پن چکیوں کے ذریعہ اسلام کے ١٨ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لئے گندم پیس کر آٹا تیار کرنا۔

٨۔''الثنیٰ'' کے میدان میں تیس ہزار اور ''الیس''میں ستر ہزار اور سب ملاکر غرق ہوئے افراد کے علاوہ اسلامی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام ہونا۔

٩۔قعقاع جیسے ناقابل شکست پہلوان کی کرامت دکھانا کہ اگر وہ اور اس جیسے افراد نہ ہوتے اور مداخلت نہ کرتے تو سیف کے کہنے کے مطابق خدابہتر جانتا ہے کہ خالد انسانوں کے سر تن سے جد ا کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رکھتا !! حقیقت میں یہ وہی چیز ہے جس کو سننے کے لئے اسلام کے دشمنوں کے کان منتظر رہتے ہیں ، اور وہ یہ سننے کی تمنا رکھتے ہیں کہ اسلام اپنے دشمنوں سے جنگ کے دوران بے رحمی سے قتل عام کرنے کے بعد پھیلا ہے تاکہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کو تلوار کے سایہ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور ملتوں کا اپنی مرضی سے اسلام کی طرف مائل ہونا اسلام کے پھیلنے کا سبب نہیں بنا ہے کیا اس غیر معمولی افسانہ ساز سیف نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اسلام کے دشمنوں کی اور اپنی دیرینہ آرزوکو پورا نہیں کیا ہے ؟

۱۵۲

قعقاع ،حیرہ کے حوادث کے بعد

مفخرة تضاف الی مفاخر بطل تمیم القعقاع

سقعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ

(مولف)

صلح '' بانقیا'' کی داستان

طبری نے ''حیرہ کے بعد کے حوادث ''کے عنوان کے تحت سیف سے حسب ذیل روایت نقل کی ہے:

''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں نے خالد ابن ولید کے ساتھ ایک صلح کے تحت معاہدہ کیا کہ مسلمان اس شرط پر ان سے جنگ نہ کریں گے کہ وہ دربار کسریٰ کو اد اکئے جانے والے خراج کے علاوہ خالد کو دس ہزار دینار ادا کریں گے۔خالد نے مذکورہ باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور قعقاع بن عمرو تمیمی اور چند دیگر افراد کو اس پر گواہ قرار دیا''۔

اس کے بعد طبری نے یوں لکھاہے:

''جب خالد ''حیرہ''سے فارغ ہوا توعراقی علاقوں سے ہرمز دگرد تک سرحد بانوں نے بھی ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کی طرح ،دربار کسریٰ کو ادا کئے جانے والے خراج کے علاوہ بیس لاکھ درہم اور سیف کی ایک دوسری روایت کے مطابق دس لاکھ درہم خالد کو ادا کرنا قبول کئے ۔خالد نے اس پر ایک معاہدہ نامہ لکھا اور قعقاع وچند دیگر اشخاص کو گواہ قرار دیا ۔

اس کے بعد سیف کہتاہے :

''خالد بن ولید اسلامی فوج کاسپہ سالار تھا ۔اس نے دیگر شخصیتوں کو مختلف عہدوں پر فائز کرنے کے ضمن میں قعقاع بن عمرو کو سرحدوں کی حکمرانی اور کمانڈسونپی ۔خالد نے خراج دینے والوں کے لئے لکھی گئی رسید میں قعقاع کو گواہ کے طور پر مقرر کیا''

۱۵۳

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

ان تمام روایتوں کو طبری نے سیف کے حوالے سے ذکر کیاہے ،اس کے بعد ابن اثیر ،ابن کثیر ،اور ابن خلدون جیسے مؤرخوں نے ان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔اسی طرح کتاب ''الوثائق السیاسة''کے مؤلف نے مذکورہ تین عہد ناموں کو اسلامی سیاسی اسناد کے طور پر اپنی مذکورہ کتاب میں درج کیاہے ۔ ١

لیکن سیف کے علاوہ دیگر تاریخ دانوں نے ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کے صلح نامہ کو ہزار درہم کی بنیاد پر لکھاہے،نہ کہ دس ہزار دینار!اور قعقاع کے نام اور اس کی گواہی کا ذکر تک نہیں کیاہے۔اس کے علاوہ عراقی علاقوں سے ہر مزدگرد تک کی سرزمینوں کے بارے میں صلح کانام ونشان تک نہیں ملتا،بلکہ اس کے برعکس لکھا گیاہے ۔

'' ''حیرہ''،''الیس''اور ''بانقیا''کے علاوہ کسی اور شہر کے باشندوں سے کوئی معاہدہ نہیں ہواہے ۔اسی طرح سرحدوں پر سرداروں کو معین کرنے یاخراج دینے والوں کو بری کئے جانے پر قعقاع کی گواہی کا کوئی ذکر نہیں ملتا ''٢

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

''ابوبکر نے خالد بن ولید کو عراق کے جنوبی علاقوں کا مأمور مقرر کیا اور عیاض بن غنم کو شمالی علاقوں کی ماموریت دی۔خالد نے اپنی مأموریت میں عراق کے جنوبی علاقوں کو وسعت بخشی۔لیکن عیاض ایرانیوں کے محاصرہ میں آگیا اور مجبور ہوکر خالد سے مدد کی درخواست کی ۔خالد نے حیرہ میں قعقاع کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود عیاض کی مدد کے لئے عراق کے شمال کی طرف روانہ ہوا ۔دوسری طرف ایرانیوں اور قبائل ربیعہ کے عربوں نے مسلمانو ں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ''حصید''کے مقام پر اپنی فوج کی لام بندی کی تھی۔ اس علاقہ کے مسلمانوں نے ان سے نجات پانے کے لئے قعقاع سے مدد کی درخواست کی اور قعقاع نے ان کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی ۔جب خالد واپس''حیرہ''پہنچا تو اس نے قعقاع کو ''حصید''میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں اور جزیرہ کے عربوں سے لڑنے کے لئے روانہ کیا۔قعقاع نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی ۔یہ جنگ دشمنوں کی شکست پر تمام ہوئی ۔ ''روز مہر''نام کا ایرانی سپہ سالار ماراگیااور ''روز بہ''بھی عصمة بن عبد اللہ کے ہاتھوں قتل ہوا''

۱۵۴

طبری اور سیف سے نقل کرنے والے مؤرخین

طبری نے ان مطالب کو سیف سے نقل کرکے لکھا ہے ۔اس کے بعد ''ابن اثیر،ابن کثیر'' اور ابن خلدون نے ان روایتوں کو طبری کے حوالے سے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔

ہم نے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' میں طبری اور اس کی تاریخ کے بارے میں عالم اسلام کے مذکورہ تین عظیم مورخوں کے نظریات بالترتیب حسب ذیل ذکر کئے ہیں :

١۔ ابن اثیر اپنی بات یوں شروع کرتا ہے :

'' جو کچھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ سے متعلق ہے ،ہم نے اسے کچھ گھٹائے بغیر نقل کیا ہے ''

٢۔ ابو الفدایوں کہتا ہے :

'' ہم نے ابن اثیر کی بات کو نقل کیا ہے اور اس کی تاریخ کوخلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے''

٣۔ ابن خلدون لکھتا ہے :

'' خلافت اسلامیہ سے متعلق مطالب اور جو کچھ ارتداد کی جنگوں اور فتوحات سے مربوط ہے مختصر طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ''

٤۔لیکن ابن کثیر ،اکثر اپنی روایتوں کے مآخذ یا مآخذ کے بارے میں کہ طبری ہے کا صراحتا ذکر کرتا ہے یا بعض مواقع پر براہ راست سیف کا نام لیتا ہے اور اسے اپنی داستان کی سند کے طور پر پیش کرتا ہے ۔

حموی ،سیف کی اس داستان پر اعتبار کرتا ہے اور ''حصید '' کا نام لیتے ہوئے لکھتا ہے :

'' حصید '' کوفہ و شام کے درمیان ایک صحراہے ،یہاں پر ١٣ھ میں قعقاع بن عمر و نے ایرانی فوجوں اور ربیعہ وتغلب کے عربوں کے ساتھ گھمسان کی جنگ کی اور ایرانی فوج کے دو سردار ''روزمہر '' اور ''روزبہ'' مارے گئے اور قعقاع نے اس جنگ میں رزم نامہ اس طرح کہا ہے :

'' اسماء(۱) کو خبر دو کہ اس کا شوہر ایرانی سردار'' روزمہر '' کے بارے میں اس دن

____________________

۱)۔عربوں میں رسم تھی کہ جنگوں میں رزم نامہ پڑھتے ہوئے اپنی بہن یا بیوی کا نام لیتے تھے اور اپنے افتخارات بیان کرتے تھے ۔

۱۵۵

اپنی آرزو کو پہنچا ،جب ہم ہندی تلواروں کو نیام سے نکال کر ان کی فوج پر حملہ آور ہوکر ان کے سر تن سے جدا کر رہے تھے ''

یہ سب کچھ سیف نے کہا ہے اور طبری نے اس سے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بعد میں طبری سے نقل کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عیاض ،خالد کے ساتھ عراق کی ماموریت پر تھا بلکہ اس کے بر خلاف اس کا ابوعبید کے ساتھ شام میں ہونا ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف ''حصید'' نامی مقام اور وہاں پر جنگ کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نام ونشان تک نہیں پایا۔

سند کی پڑتال

سیف نے مذکورہ حدیث ،محمد مہلب اور زیاد سے روایت کی ہے ۔ان کے بارے میں پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ تینوں راوی سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ غصن بن قاسم نام کے ایک اور راوی سے بھی روایت کی ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے ١٣،احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

اسی طرح ابن ابی مکنف نام کے ایک اور شخص کا نام بھی لیا ہے ۔

موخّر الذکر دونوں راویوں کے نام بھی ہم نے طبقات اور راویوں کی فہرست میں کہیں نہیں پائے ۔

آخر میں سیف نے اس داستان کے بانچویں راوی کے طور پر بنی کنانہ کے ایک شخص کو پیش کیا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اپنے خیال میں اس شخص کا نام کیا رکھا تھا تاکہ ہم اس کی بھی تلاش کرتے !۔

اس اصول کے تحت ہمیں حق پہنچتا ہے کہ مذکورہ بالا راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کریں ۔

۱۵۶

اس حدیث کے نتائج

١۔تین فوجی معاہدوں اور ایک صلح نامہ کو سیاسی اسناد کے طور پر پیش کرنا۔

٢۔ ''حصید'' نام کی ایک جگہ کو تخلیق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٣۔ ایسے اشعار کی تخلیق کرنا جو ادبیات کی کتابوں درج ہو جائیں ۔

٤۔خاندان تمیم کے سورما ،قعقاع بن عمرو کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا ۔

یہ سب اپنی جگہ پر لیکن وہ کون سا سبب تھا جس نے سیف کو یہ کام انجام دینے پر مجبور کیا کہ ابو عبیدہ کے ہمراہ شام میں جنگ میں مصروف '' عیاض'' کو خالد کے ساتھ عراق پہنچادے ؟!اگر زندیقی ہونے کے سبب یا کسی اور چیز نے اسے ایسا کرنے پر مشتعل نہیں کیا کہ وہ اسلام کی تاریخ میں تحریف کرے ،تو اور کیا سبب ہو سکتا ہے ؟!

۱۵۷

قعقاع ،مصیخ اور فراض میں

وبلغ قتلاهم فی المعرکة والطلب مائة الف

''جنگ فراض میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی''

(سیف)

مصیخ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

'' ایرانی اور مختلف عرب قبیلوں نے ''حصید '' میں شکست کھانے کے بعد '' احنافس'' سے پسپائی اختیار کرکے ''حوران '' و ''قلت'' کے درمیان واقع ایک جگہ '' مصیخ'' میں اپنی منتشر فوج کو پھر سے منظم کیا جب اس فوج کے ''مصیخ '' میں دوبارہ منظم ہونے کی خبر خالد کو ملی ،تو اس نے قعقاع ،ابی لیلیٰ بن فدکی ا عبد بن فدکی اور عروہ بن بارقی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ذہن نشین کرایا کہ فلاں شب فلاں وقت پر اپنی فوج کو لے کر '' مصیخ '' کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پر اس جگہ حاضر ہوئے انھوں نے تین جانب سے دشمن پر شب خون مارا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیئے ۔ لوگوں نے اس قتل عام کے مناظر کی بھیڑ بکریوں کی لاشوں پر لاشیں گرنے سے تشبیہ دی ہے !!''

وہ مزید لکھتا ہے :

'' دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں عبد الغزی نمری اور ولید بن جریر بھی موجود تھے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی گواہی کے طور پر ابوبکر کا خط بھی ان کے پاس موجود تھا یہ دونوں بھی اس جنگ میں قتل کئے گئے ۔ان کے مارے جانے کی خبر ابوبکر کو پہنچی اور خاص کر یہ خبر کہ عبد الغزی نے اس شب تین جانب سے ہونے والے حملہ کو دیکھ کر فریاد بلند کی تھی کہ : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا تو پاک و منزہ ہے !'' چوں کہ یہ دونوں بے گناہ مارے گئے تھے اس لئے ابوبکر نے ان کی اولاد کو ان کا خون بہا ادا کیا ۔ عمر نے ان کے مارے جانے اور اسی طرح مالک بن نویرہ کے قتل کے بارے میں خالد پر اعتراض کیا اور اس سے ناراض ہو گئے اور ابوبکر ،عمر کی تسلی کے لئے یہی کہتے تھے '' جو بھی فوج کے درمیان رہے گا اس کا یہی انجام ہوگا!''

۱۵۸

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

حموی نے سیف کی روایت کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا ہے اور '' مصیخ'' کے بارے میں سیف کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے اور اسے ایک واقعی جگہ کے طور پرپیش کیاہے اور لکھتاہے :

'' مصیخ '' حوران اور قلت'' کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں پر خالد بن ولید اور خاندان تغلب کے درمیان جنگ ہوئی تھی ''

اسی کے بعد لکھتا ہے :

'' قعقاع نے اس جنگ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

'' مصیخ کی جنگ میں خاندان تغلب کے کارناموں کے بارے میں ہم سے پوچھو !کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں ؟ جب ہم نے ان پر شب خون مارا تو اس کے نتیجہ میں ان کا صرف نام ہی باقی رہا ۔ ''ایاد''اور ''نمور''(۱) کے قبیلے بھی خاندان تغلب کے دوش بدوش تھے اور وہ بھی ان باتوں کو جوان کے وجود کو لرزہ بر اندام کئے دے رہی تھیں سن رہے تھے''

آپ ان مطالب کو صرف سیف کے افسانوں میں پاسکتے ہیں ۔دیگر لوگوں نے ''مصیخ '' اور اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ تک نہیں کیاہے ۔کیوں کہ وہ حقیقت لکھنے کی فکر میں تھے نہ کہ افسانہ سازی میں ۔

سند کی پڑتال:

''مصیخ بنی البرشائ'' کے بارے میں سیف کی حدیث ''حیرہ'' کے واقعات کے بعد اور ان ہی حوادث کا سلسلہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی سند بھی وہی ہے جو ''حیرہ'' کے بارے میں بیان ہوئی ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ تاریخ دانوں نے اس قصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے تاکہ ہم ان کے اور سیف کے بیان کے درمیان موازنہ و بحث کریں ،بلکہ یہ تنہا سیف ہے جس نے یہ روایت جعل کی ہے ،اور انشاء اللہ ہم جلد ہی اس کے جھوٹ اور افسانہ نویسی کے سبب پر بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱)۔ سیف نے ایسا خیال کیا ہے کہ ایاد ،نموراور تغلب کے قبیلوں نے ایک دوسرے کے دوش بدوش جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۱۵۹

داستان مصیخ کے نتائج :

١۔ '' مصیخ بنی البرشائ'' نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا جاسکے ۔

٢۔ عبد ابن فدکی اور اس کے بھائی ابو لیلیٰ نام کے دو صحابی جعل کرنے کے علاوہ '' نمری'' نام کے ایک اور صحابی کو جعل کرنا جسے ابوبکر نے عبداللہ نام دیا ہے تاکہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے افسانوں کے مطابق درج ہوں ۔

٣۔ افسانوی سورما قعقاع کے اشعار بیان کرنا۔

٤۔ ایک خونیں اور رونگٹے کھڑے کرنے والی جنگ کی تخلیق کرنا تاکہ میدان میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی کشتوں کے پشتے لگتے دکھائے جائیں جس سے ایک طرف اپنے اسلاف کے افسانے سننے کے شوقین اور دوسری طرف اسلام کے دشمنوں کے دل شاد کئے جائیں اور اس قسم کی چیزیں سیف کے افسانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں !

فراض کی جنگ

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

''واقع مصیخ کے بعد تغلب کے بھگوڑ ے''دارالثنی''اور ''زمیل''میں جمع ہوئے اور خالد بن ولید نے قعقاع کے ہمراہ ان پر وہی مصیبت توڑی جو مصیخ میں رو نما ہوچکی تھی۔''

اس کے بعد لکھتاہے:

''خالد ،شام اور عراق کی سرحد پر واقع ''فراض ''کی طرف روانہ ہوا ۔سیف کہتاہے :رومی مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایرانی سرحد بانوں سے اسلحہ اور مدد حاصل کی اور مختلف عرب قبیلوں ،جیسے تغلب ،ایاد اور نمر سے بھی مدد طلب کی اس طرح ایک عظیم فوج جمع کر کے خالد بن ولید کے ساتھ ایک لمبی مدت تک خونیں جنگ لڑی ۔ سرانجام اس جنگ میں رومیوں نے شکست کھائی اور سب کے سب میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔خالد نے حکم دیا کہ بھاگنے والوں کے سر تن سے جدا کئے جائیں ۔ خالد کے سوار ،فراریوں کو گروہ گروہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کرکے ان کا سر تن سے جدا کرتے تھے ۔اس طرح مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔''

۱۶۰

پہلا سبق

پیغمبر کا خلیفہ اور جانشین کون ہوسکتا ہے

ہوائی جہاز پر مسافر سوار ہوچکے تھے لیکن ابھی ہوائی جہاز کا پائلٹ نہیں آیا تھا اور وہ آبھی نہیں سکا تھا کسی آدمی کو اس کی جگہ لایا جائے گا کہ جو مسافر وں کو ان کی منزل تک پہنچادے کیا انہیں مسافروں میں سے کسی ایک کوا ہوائی جہاز میں کسی کام کرنے والے کو کسی راہ گیر کو آیا اسے جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت اور آگاہی نہ رکھتا ہو ہوئای جہا زجلانے کے لئے اس پائلٹ کی جگہ بھیج دیا جائے گا؟ کیا اس پر مسافر اعتماد کرسکیں گے اور کیا وہ ہوائی جہاز اڑاسکے گا کون آدمی ایک پائلٹ کا جانشین ہوسکتا ہے؟ یقینا وہ آدمی جو ہوائی جہاز چلانے میں مہارت رکھتا ہو اور اس فن میں کافی معلومات اور آگاہی رکھتا ہو اور خود پائلٹ ہو اس مثال کو دیکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے

۱۶۱

ہیں کہ کو آدمی پیغمبر(ص) کا جانشین او رخلیفہ ہوسکتا ہے؟

پیغمبر(ص) کا جانشین کیسا ہونا چاہیئے

آیا وہ آدمی جو لوگوں کی ہدایت اہليّت اور اس کے متعلق کامل علم نہ رکھتا ہو وہ پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے آیا وہ آدمی جو دین اسلام کے قوانین نہ جانتا ہو اور ان میں غلطیاں کرتا اور گناہ کرتا ہو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین اور خلیفہ ہوسکتا ہے اور اس منصب کے لائق ہوسکتا ہے_

کون بہتر جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی جانشینی کے لئے کون لائق اور سزاوار ہے خدا بہتر جانتا ہے یا لوگ یقینا خدا بہتر جانتا ہے لہذا خدا ہی پیغمبر اسلام(ص) کی جانشینی کے لئے کسی لائق انسان کو معین کرتا ہے اور پیغمبر(ص) کو حک۴م دیتا ہے کہ علم الہی کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھی آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھی اللہ کے حکم پر علم الہی کو جو اس کو دیا گیا ہے اسے بھی آگاہ کرے پیغمبر(ص) بھی اللہ کے حکم پر عمل کرتا ہے اور اس کا اپنی جانشینی کے لئے اعلان کرتا ہے پیغمبر(ص) کے جانشین کوامام کہا جاتا ہے_

۱۶۲

دوسرا سبق

پیغمبر کا جانشین امام معصوم ہوتا ہے

پیغمبر اللہ کے حکم سے ایک ایسے انسان کو جو امین اور معصوم ہوتا ہے اپنی جانشینی کے لئے چنتا ہے تا کہ وہ اس کا خلیفہ ہو اور اس کے کاموں کو انجام دے امام ایک امین اور معصوم انسان ہوتا ہے کہ جسے خدا لوگوں کی رہبری کے لئے انتخاب کرتا ہے اور اللہ کے فرمان اور حکم سے پیغمبر اسے لوگوں کو بتلاتا اور اعلان کرتا ہے تا کہ وہ اپنے کردار اور گفتار سے لوگوں کی اللہ تعالی کی طرف راہنمائی او رہدایت کرے اور لوگ اپنی زندگی میں اسے اپنے لئے نمونہ قرار دیں اور اس کی پیروی کریں پیغمبر(ص) اللہ تعالی کے حکم سے اپنے علم اور آگاہی کو اس کے اختیار میں قرار دیتا ہے تا کہ لوگوں کی راہنمائی اور رہبری کرسکے امام دین کے قانون اور دستور کو جانتا ہے یعنی خدا اور پیغمبر اسے اس کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر وہ

۱۶۳

اسے لوگوں تک پہنچاتا ہے امام پیغمبر کی طرح دین کا کامل نمونہ ہوتا ہے اور دین کے پورے احکا اور دستور پر عمل کرتا ہے_

امام پیغمبر(ص) کی طرح نگاہ کی نجاست اور قباحت کو دیکھتا ہے اور اسی علم و آگاہی کی وجہ سے ہرگز گناہ نہیں کرتا بلکہ گناہ سے دور رہتا ہے امام پیغمبر کی طرح نگاہ اور غلطی نہیں کرتا لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کے اقوال اور اعمال کی پیروی کرتے ہیں_

بارہ امام (ع) تمام کے تمام معصوم ہیں یعنی گناہ نہیں کرتے کامل طور پر امین اور صحیح انسان ہیں دین اسلام کے احکام اور قوانین کو ٹھیک اور کامل لوگوں تک پہنچاتے ہیں یعنی اس میں غلطی اور نسیان نہیں کرتے_

سوالات

۱)___کون آدمی پیغمبر کا جانشین ہوسکتا ہے؟

۲)___ کیا گناہ اور خطا کار آدمی مسلمانوں کا امام ہوسکتا ہے اور کیوں؟

۳)___ دین کا کامل نمونہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟

۴)___ امام گناہوں سے کیوں دور رہتا ہے؟

۵)___ علم اور آگاہی امام کو کون د یتا ہے؟

۶)___ معصوم ہونے سے کیا مراد ہے؟

۷)___ امام پر اللہ کی کیا ذمہ اری عائد ہوتی ہے؟

۱۶۴

تیسرا سبق

عید غدیر

پیغمبر اسلام(ص) اپنی زندگی کے آخری سال حج بجالانے کے لئے تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ بھی اس سال حج میں شریک ہوں اس کی بناپر مسلمانوں نے جو بھی حج کے لئے آسکتے تھے پیغمبر کے اس فرمان کو قبول کیا اور تھوڑی مدت میں مسلمانوں کی کافی تعداد مکہ کی طرف روانہ ہوگئی وہاں حج کی باعظمت عبادت میں شرکت کی اور حج کے پورے اعمال پیغمبر اکرم(ص) سے یاد کئے_

جب حج اور خانہ کعبہ کی زیارت کے اعمال ختم ہوگئے تو قافلے واپس لوٹنے کے لئے تیاری کر کے چل پڑے پیغمبر اسلام(ص) نے بھی قافلوں کے ساتھ مدینہ کی طرف حرکت کی اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز نے میدانوں کی خاموشی کو توڑ دیا تھا موسم بہت گرم تھا اور صحرا آگ برسا

۱۶۵

رہا تھا کہ راستے میں پیغمبر اسلام(ص) پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور یہ پیغام اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کے لئے آیا_

اے پیغمبر(ص) وہ پیغام جو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی طرف اتارا جاچکا ہے لوگوں تک پہنچا دیجئے اگر اسم میں کوتاہی کی تو آپ(ص) نے کار رسالت ہی انجام نہیں ی_ اللہ آپ(ص) کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا اور کافر اپنے مقصد تک نہیں پہنچیں گے پیغمبر اسلام(ص) وہیں پر فوراً اتر گئے تا کہ اللہ تعالی کے اس حکم پر عمل کریں مسلمانوں کی ایک تعداد کو آواز دی اور فرمایا کہ جتنے قافلے آگے جاچکے ہیں ان کی خبر کرو کہ وہ واپس لوٹ آئیں اور وہ قافلے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ابھی یہاں نہیں پہنچے انہیں کہو کہ جلد وہ یہاں پہنچ جائیں یہ لوگ تیز رفتار اونٹوں پر سوار ہوئے اور تیزی سے ان قافلوں کو جو آگے چلے گئے تھے جا ملے اور انہیں آواز دی ٹھہرو ٹھہرو، واپس لوٹ آؤ، قافلے والوں نے اونٹوں کی مہاریں کھینچیں اور اونٹوں کی گھنٹیاں خاموش ہوگئیں برابر پوچھ رہے تھے کیوں ٹھہریں، کیا خبر ہے، اس گرمی کے عالم میں کیوں رکیں؟ اور واپس لوٹ آئیں''

اونٹ سوار کہتے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے لوٹ آؤ غدیر کے نزدیک میرے پاس اکھٹے ہوجاؤ قافلے واپس لوٹ آئے غدیر کے قریب اپنے سامان کو اتارا اور جو قافلے ابھی تک نہیں پہنچے تھے وہ بھی پہنچ گئے اس طرح ہزاروں مسلمان جو حج سے واپس آرہے تھے اٹھارہ ذی الحجہ کو جمع ہوگئے ظہر کی نماز انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ پڑھی

۱۶۶

اس کھے بعد اونٹوں کے پالانوں سے منبر بنایا گیا پیغمبر اسلام(ص) اس منبر پر گئے تا کہ اللہ تعالی کے فرمان کو انجام دیں او روہ اہم پیغام لوگوں تک پہنچادیں تمام لوگ چپ اور منتظر بیٹھے تھے کہ پیغمبر اسلام(ص) کا پیغام سنیں اور دیکھیں کہ وہ اہم پیغام کیا ہے؟

پیغمبر اسلام(ص) نے چند مفید کلمات کے بعد آسمانی آواز میں جو سب تک پہنچ رہی تھی لوگوں سے پوچھا لوگو تمہارا پیشوا اور حاکم کون ہے؟ تمہارا رہبر اور صاحب اختیار کون ہے؟ کیا میں تمہارا رہبر اور پیشوا نہیں ہوں کیا میں تمہارا رہبر اور صاحب اختیار نہیں ہوں سب نے کہا یا رسول اللہ: آپ ہمارے رہبر اور صاحب اختیار ہیں آپ(ص) ہمارے پیشوا ہیں اس کے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو آواز دی اور اپنے پہلو میں بیٹھایا اور ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں بلند کیا اور لوگوں کو دکھلایا اور بلند آواز میں فرمایا کہ ''جس کا میں پیشوا اور صاحب اختیار ہوں میرے بعد علی ''علیہ السلام'' اس کے پیشوا اور صاحب اختیار ہیں_ اے لوگو اے مسلمانو میرے بعد تمہارے علی (ع) پیشوا اور رہبر ہیں اس کے بعد اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا پروردگار علی (ع) کے دوستوں سے دوستی رکھ اور علی (ع) کے دشمنوں سے دشمن رکھ، پروردگار علی (ع) کے دوستوں سے دوستی رکھ اور علی (ع) کے بدخواہوں کو ذلیل و خوار کر ''

اس کے بعد آپ(ص) منبر سے نیچے اترے اپنی پیشانی سے پسینے کو صاف کیا اور ایک آہ بھری اور تھوڑی دیر آرام سے ٹھہرے

۱۶۷

اور اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ میرے بھائی اور جانشین علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کریں او راس منصب الہی کی انھیں مبارک باد دیں وہ پیشوا اور امیرالمومنین ہیں_

مسلمان گروہ در گروہ آئے اور حضرت علی (ع) سے ہاتھ ملا کر ان کو مومنین کے منصب رہبری کی مبارک باد دی اور آپ کو امیرالمومنین (ع) کہہ کر پکارا اس لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام اٹھارہ ذی الحجہ کو رہبری اور امامت کے لئے چند گئے رہبری اور امامت کا مقام دین اسلام کا جزء ہے رہبر اور امام کے معيّن کردینے سے دین اسلام کامل طور جاودانی ہوگیا ہے ہم ہر سال اس مبارک دن کو عید مناتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور پیشوائی پر خوش ہوتے ہیں اور حضرت علی علیہ السلام کو مسلمانوں کا رہبر اور امام سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی گفتار اور کردار کی پیروی کریں_

سوالات

۱)___ بیعت کا کیا مطلب ہے مسلمانوں نے حضرت علی (ع) کی کیوں بیعت کی تھی اور کیوں آپ(ع) کو مبارک باد دی تھی؟

۲)__ _ ہمارے پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) کو لوگوں کے لئے امام معین کرنے سے پہلے ان سے کیا پوچھا تھا اور ان سوالوں کا حضرت علی (ع) کے تعارف اور تعيّن سے کیا تعلق تھا؟

۱۶۸

۳)___ وہ اہم پیغام کیا تھا کہ جس کے پہنچانے کے لئے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا؟

۴)___ پیغمبر اسلام(ص) نے اللہ کی وحی سننے کے بعد کیا کیا اور مسلمانوں سے کیا فرمایا؟

۵)___ پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) کا لوگوں سے کس طرح تعارف کرایا اور آپ(ع) کے حق میں کیا فرمایا ؟

۶)___ غدیر کی عید کون سے دن ہوتی ہے اس عید کے جشن میں ہم کیا کرتے ہیں اور کس چیز کی کوشش کرتے ہیں اس سال غدیر کی عید کس موسم میں آئے گی اور کس مہینے میں_ یاد رکھئے گا اس دن جشن بنائیں اور اپنے دوستوں کو اس جشن میں دعوت دیں_

۱۶۹

چوتھا سبق

شیعہ

حضرت علی علیہ السلام پہلے مسلمان ہیں اور بعد پیغمبر اسلام(ص) سب سے افضل ہیں پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو اچھی طرح سنتے تھے اور پیغمبر(ص) کے احکامات کے کامل مطیع تھے ہر جگہ پیغمبر(ص) کی مدد اور اعانت کرتے تھے دینداری میں کوشش اور جہاد کرتے تھے_

پیغمبر کے زمانے میں ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کا دوست تھا حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ اسلام کی پیش رفت میں کوشش اور جہاد کرتا تھا یہ گروہ تمام حالات میں حضرت علی علیہ السلام کی گفتار، رفتار اور اخلاق میں پیروی کیا کرتا تھا یہ حضرت علی علیہ السلام کی طرح پیغمبر اسلام(ص) کی اطاعت کرتا تھا پیغمبر اسلام(ص) حضرت علی علیہ السلام اور اس ممتاز گروہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اے علی (ع) آپ(ع) اور

۱۷۰

آپ (ع) کے شیعہ روئے زمین پر بہترین انسان ہین اور جب حضرت علی (ع) کو اپنے دوستوں کے ساتھ دیکھتے تو ان کی طرف اشارہ کر کے فرماتے کہ یہ نوجوان اور اس کے شیعہ نجات پائے ہوئے ہیں پیغمبر اکرم(ص) اس ممتاز گروہ کہ جو مکمل ایمان لے آیا تھا شیعہ کے نام سے پکارتے تھے اسی دن سے جو مسلمان رفتار، گفتار اور کردار میں ممتاز تھے اور دینداری میں حضرت علی علیہ السلام کی پیروی کرتے تھے شیعہ کہلاتے تھے یعنی پیروکار_

پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد مسلمانوں کا وہ ممتاز گروہ جو واقعی ایمان لایاتھا اور پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کا مطیع تھا انہوں نے مکمل طور پر پیغمبر کے فرمان پر عمل کیا اور حضرت علی علیہ السلام کو پیشوائی اور رہبری اور امامت کے لئے قبول کیا اور ان کی مدد اور حمایت کی البتہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کو قبول نہ کیا اور حضرت ابوبکر کو پیغمبر اسلام(ص) کا جانشین شمار کیا اور اس کے بعد حضرت عمر کو دوسرا اور حضرت عثمان کو تیسرا خلیفہ اور حضرت علی علیہ السلام کو چوتھا خلیفہ جانا اس گروہ کو اہلسنّت کہا جاتا ہے یہ دونوں گروہ مسلمان ہیں خدا اور پیغمبر اکرم(ص) اور قرآن کو قبول کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے محیت اور مہربانی کرتے ہیں اور قرآن کی تعلیم اور پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد یکے بعد دیگرے بارہ امام اور رہبر ہیں پہلے امام حضرت علی علیہ السلام ہیں اور بارہویں امام حضرت مہدی علیہ السلام ہیں

۱۷۱

کیونکہ پیغمبر اسلام(ص) کے حکم کے مطابق آپ کے خلیفہ اورجانشین بارہ ہوں گے_

مذہب شیعہ کو جعفری مذہب بھی کہاجاتا ہے_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ شیعہ کہا کیا مطلب ہے شیعہ اسلام اور دین داری میں کسکی پیروی کرتے ہیں؟

۲)___ مسلمانوں کے کس ممتاز گروہ کا نام شیعہ ہے اور پیغمبر(ص) نے ان کے م تعلق کیا فرمایا ہے؟

۳)__ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کے بعد کن لوگوں نے پیغمبر(ص) کی تعلیمات پر عمل کیا اور کس طرح؟

۴)___ مسلمانوں کے دوسرے گروہ کو کیا کہاجاتا ہے وہ پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد کس کو ان کا جانشین مانتے ہیں؟

۵)___ یہ دونوں گروہ آپس میں کیسے تعلقات رکھتے ہیں اور کن مسائل کی شناخت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں

۶)___ ہمارا عقیدہ پیغمبر(ص) کے جانشینوں کے متعلق کیا ہے؟ ایران کا رسمی مذہب کو ن سا ہے_

اس قسم کے دوسرے سوال بنایئےور ان کے جواب دوستوں سے پوچھئے_

۱۷۲

پانچواں سبق

آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام

امام رضا علیہ السلام ایک سواڑ تالیس ہجری گیارہ ذیعقدہ مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ کے والد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تھے اور آپ(ع) کا نام علی (ع) ہے اور رضا کے لقب سے معروف ہوئے اور آپ(ع) کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ تھا_

حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم اور پیغمبر اسلام(ص) کی وصیت کے مطابق اپنے بعد آپ کو لوگوں کا امام معيّن کیا اور اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام رضا علیہ السلام کا علم دوسرے اماموں کی طرح آسمانی اور الہی تھا اسی لئے تمام لوگوں کے علم پر آپ(ع) کے علم کو برتری حاصل تھی طالبان علم اور علماء اور دانشمند آپ(ع) سے علم حاصل کرنے کے لئے آپ (ع) کی خدمت میں آتے اور علوم سے بہرہ مند ہوتے تھے

۱۷۳

عیسائی اور یہودی اور دوسرے ادیان کے علماء آپ (ع) کے پاس آتے اور امام علیہ السلام ان سے گفتگو اور بحث و مباحثہ کیا کرتے اور ان مشکل سوالوں کا جواب دیا کرتے تھے اور ان کی راہنمائی اور ہدایت فرمایا کرتے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ (ع) نے کسی کے سوالوں کا جواب نہ دیا ہو یا جواب صحیح نہ دیا ہو آپ (ع) کو اللہ تعالی کے دیئے ہوئے کثیر علم وجہ سے عالم آل محمد(ص) کہا جاتا تھا آپ کے بہت سے قیمتی ارشادات ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ہیں_

امام رضا علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں مامون مسلمانوں کا حاکم اور خلیفہ تھا اور چونکہ وہ لوگوں کو امام رضا علیہ السلام سے دور رکھنا چاہتا تھا امام کو جو مدینہ منورہ میں زندگی بسر کرتے تھے شہر طوس میں بلوایا اور امام علیہ السلام کے سامنے ولی عہد اور خلاقت کے عہدے کی پیش کش کی لیکن امام رضا علیہ السلام نے جو مامون کے مکر و فریب اور منافقت سے آگاہ تھے مامون کی اس پیش کش کو قبول نہ کیا مامون نے بہت زیادہ اصرار کیا امام رضا علیہ السلام چاہتے تھے کہ ولی عہدی کو قبول نہ کریں لیکن مامون کے بہت زیادہ اصرار کے بعد آپ (ع) نے بظاہر ولی عہدی کو قبول کرلیا لیکن شرطر لگادی کہ آپ (ع) حکومت کے کسی کام میں دخل نہیں دیں گے بالآخر مامون نے جو امام کی شخصیت سے سخت خائف تھا اور آپ (ع) کی صلاحیتوں کی وجہ سے خطرے کا احساس رکھتا تھا آپ کو زہر دے کر شہید کردیا_

۱۷۴

حضرت امام رضا علیہ السلام نے صفر کی آخری تاریخ کو ۲۰۳ ھ میں طوس میں شہادت پائی اور آپ (ع) کے جسم مبارک کو اسی شہر کے نزدیک کہ جو آج مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے_ دفن کردیا گیا آپ (ع) کی قبر مبارک آج کے دور میں سارے مسلمانوں کے لئے زیارت گاہ ہے_

۱۷۵

چھٹا سبق

اسراف کیوں؟

امام رضا علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک آدھا کھایا ہوا پھل زمین پر پڑا ہے آپ (ع) کے خادموں میں سے کسی نے پھل کا کچھ حصّہ کھایا تھا اور باقی کو زمین پر پھینک دیا تھا حضرت امام رضا علیہ السلام اس سے ناراض ہوئے اور اس کے خادم کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ کیوں اسراف کرتے ہو؟ اللہ کی نعمت کے ساتھ کیوں بے پروا ہی کرتے ہو کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ اسراف کرنے والے انسان کو دوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے انسان کودوست نہیں رکھتا کیا تم نہیں جانتے خدا اسراف کرنے والے کو سخت سزا دے گا اگر تمہیں کسی چیز کی حاجت نہیں تو اسے ضائع نہ کرو اور فضول خرچ نہ کرو بلکہ وہ ان کو دے دو جو اس کے محتاج ہیں_

امام رضا علیہ السلام کے فرمان سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ خدا

۱۷۶

کیوں اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا___؟

____ اور کیوں اسراف نہ کرنا برا ناپسندیدہ فعل ہے___؟

ان دو سوالوں کے جواب دینے کے لئے یہ سوچئے کہ ایک سیب کو تیار ہونے کے لئے کتنی قوت اورتوانائی خرچ ہوتی ہے اور کتنے کام انجام پاتے ہیں تب جاکر ایک سیب بنتا ہے مثلا سوچئے کہ سیب کے پودے کوپڑھنے کے لئے سورج کی کتنی توانائی ضروری ہے کتنی مقدار میں پانی، ہوا معدنی اجزاء خرچ ہوں گے اور کتنے لوگ محنت کریں گے تب جاکر سیب کا ایک دانہ آپ کے ہاتھ تک پہنچے گا سوچئے اس قدر کام او رتوانائی کی قیمتی ہے___؟ جب سیب کا کچھ حصّہ پھینک دیتے ہیں یا کسی اور اللہ کی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو بیجا خرچ کرتے ہیں تو در حقیقت اس تمام توانائی اور محنت کو ضائع کرتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک دوسرے انسان کو بھی خدا کی نعمتوں سے محروم کرتے ہیں اور اس کے حق کو ضائع کرتے ہیں کیا اسراف کرنا اللہ کی نعمتوں کی حرمت کی منافی نہیں___؟

کیا اسراف کرنا اللہ کی ناشکری نہیں ہے___؟

کیوں اللہ کی نعمتوں کو معمولی شمار کرتے ہیں اور ان کو بیجا خرچ کرتے ہیں___؟

کیا آپ راضی ہیں کہ ایک بچّہ بھوکا سوئے اور آپ اپنی غذا سے تھوڑی مقدار ضائع کردیں یا نیم میوہ کو بغیر کھائے گندگی میں ڈال دیں___؟

۱۷۷

کیا آپ راضی ہیں کہ بچّہ جس کے پاس کاغذ اور قلم ہے تحصیل علم سے محروم رہے اور آپ اپنی کاپیاں اور کاغذ بلا وجہ پھاڑ ڈالیں یا انھیں لکھے بغیر ہی ضائع کردیں___؟

کیا یہ درست ہے کہ آپ ضرورت سے زیادہ بجلی صرف کریں اور دوسرے بقدر ضرورت بجلی اور روشنی نہ رکھتے ہوں حالانکہ خدا نے پانی سورج مٹی ہوا اور دوسری نعمتیں تمام انسانوں کے لئے پیدا کی ہیں اور ہر انسان کو حق پہنچتا ہے کہ اللہ کی ان نعمتوں سے استفادہ کرے____؟

اب جب کہ آپ سمجھ چکے ہیں کہ اسراف کرنا گناہ ہے اور بہت برا اور ناپسندیدہ کام ہے تو اس کے بعد اسراف مت کیجئے اب جب کہ آپ جان چکے ہیں کہ خداوند عالم اسراف کرنے والوں کودوست نہیں رکھتا اور سخت سزا دیتا ہے تو اس کے بعد کسی چیز کو فضول اور بیجا خرچ نہ کریں، کسی چیز کو ضائع نہ کریں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کریں اس طریقے سے وہ روپیہ جو فضول اور بے فائدہ چیزوں پر خرچ کرتے ہیں بچا کر اپنے دوستوں کے لئے تحفے خرید سکتے ہیں یا اپنے ہمسایوں اور واقف کاروں کی اس سے مدد کرسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں خدا آپ کے اس کام سے خوش ہوگا اور آپ کو اچھی جزاء عنایت کرے گا اور لوگ بھی آپ کو زیادہ دوست رکھیں گے اور آپ کی زیادہ مدد کریں گے

۱۷۸

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ امام رضا (ع) اور دوسرے ائمہ کا علم کیسا ہوتا ہے اور کیوں تمام لوگوں کے علم پر برتری رکھتا ہے؟

۲)___ عالم آل محمد(ص) کسے کہا جاتا تھا اور کیوں ؟

۳)___ امام رضا (ع) خلفاء عباسی کے کس خلیفہ کے ہم عصر تھے؟

۴)___ مامون نے کیوں امام رضا (ع) کو طوس بلوایا اور امام (ع) سے کیا پیش کش کی؟

۵)___ امام رضا (ع) نے ولی عہدی کو کس شرط پر قبول کیا اور کیوں؟

۶)___ ماموں نے امام (ع) کو کیوں شہید کیا؟

۷)___ امام رضا (ع) کی شہادت کس سال او رکس دن ہوئی؟

۸)___ اسراف سے کیا مراد ہے امام رضا (ع) نے اسراف کے متعلق کیا فرمایا؟

۹)___ اسراف کیوں نہ کریں اعتدال برتنے سے کون سے کام انجام دے سکتے ہیں؟

۱۷۹

ساتواں سبق

نویں امام ''حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

ہمارے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام حضرت امام رضا علیہ السلام کے فرزند ہیں آپ (ع) ایک سوپچا نوے ۱۹۵ ہجری ماہ رمضان میں مدینہ منورہ میں متولد ہوئے آپ (ع) کے والد حضرت امام رضا علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اور پیغمبر اسلام (ص) کی وصیت کے تحت آپ (ع) کو اپنے بعد لوگوں کا امام معيّن فرمایا اس سے لوگوں کو آگاہ کیا امام محمد تقی علیہ السلام امام جواد کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ (ع) بچپن ہی سے اللہ تعالی کے ساتھ خصوصی ربط رکھتے تھے اور اسی سن میں لوگوں کی دینی مشکلات کو حل کرتے تھے اور ان کی راہنمائی اور رہبری فرماتے تھے بہت بڑے بڑے علماء آپ (ع) کی خدمت میں آتے اور بہت سخت اور مشکل دینی اور عملی مسائل آپ (ع) سے پوچھتے امام جواد علیہ السلام ان کے تمام مشکل

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416