ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215418 / ڈاؤنلوڈ: 4970
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اس کے بعد طبری لکھتا ہے:

''خالدکی اس فوج کشی کے دوران متعدد جنگیں لڑی گئیں اور بہت سے رزمیہ قصیدے لکھے گئے اس کے بعد خالد ''حیرہ'' کی طرف واپس ہو ااور قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کو حکم دیا تاکہ فوج کے ساتھ چلے اور باقی فوجیوں کی کمانڈ شجرہ بن اعزکے ہاتھ میں دی اور یہ افواہ پھیلائی کہ باقی فوجیوں کے ہمراہ پیچھے پیچھے خود بھی آرہا ہے ۔اس طرح ماہ ذی قعدہ کے پانچ دن بچے تھے کہ وہ چھپکے سے فوج سے خارج ہوا اور حج انجام دینے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہو ا۔ جب وہ حج سے واپس آیا تو اس وقت ابھی باقی فوجی حیرہ نہیں پہنچے تھے ۔خالد کے اس اچانک سفر کی خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی خلیفہ کو یہ خبر سخت ناگوار گزری ۔انھوں نے غضبناک ہو کر تنبیہ کے طور پر خالد کو عراق کے بجائے اسے شام کی ماموریت دے دی ''

حموی اس روایت پر اعتبار کرتے ہوئے ''فراض ''کے بارے میں لکھتاہے:

''جو کچھ سیف کی کتاب''فتوح''میں آیاہے،اس کے مطابق ،خالد بن ولید نے ''فراض''جو شام ، عراق اور جزیرہ کی مشترک سرحد پر فرات کی مشرق میں واقع ہے اور رومیوں ،عرب اور ایرانیوں نے وہاں پر اجتماع کیاتھا میں قبیلہ بنی غالب پر اچانک حملہ کیا اور گھمسان کی جنگ کی''۔سیف کہتاہے:اس جنگ میں ایک لاکھ انسان مارے گئے ۔اس کے بعد خالد ١٢ ھ میں جب ماہ ذی الحجہ کے دس دن باقی بچے تھے سفر حج سے واپس بحیرہ پہنچا ۔قعقاع نے اس واقعہ کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''میں نے سرزمین ''فراض ''میں ایرانیوں اور رومیوں کے اجتماع کو دیکھا کہ ایام کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کی سلامتی خطرے میں پڑگئی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جمعیت کو تتر بتر کرکے رکھ دیا اور اس کے بعد قبیلۂ بنی رزام پر شب خون مارا۔ابھی اسلام کے سپاہی جابجا نہیں ہوئے تھے کہ دشمن سر کٹی بھیڑوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔''

سند کی پڑتال

فراض کی روایت بیان کرنے والے بھی سیف کے دو راوی محمدومہلب ہیں اور پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ سیف کے جعلی راوی ہیں ۔اس کے علاوہ سیف کا ایک اور راوی ظفر بن دہی ہے کہ انشا ء اللہ اس کی آئندہ وضاحت کریں گے ۔ان کے علاوہ اس نے بنی سعد سے ایک شخص کوراوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف کے خیال میں اس کا کیا نام تھا تاکہ ہم اس کی تحقیقات کرتے۔

۱۶۱

بحث کا نتیجہ:

سیف کے جعلی صحابی ابی مفزرکے سلسلے میں بحث کے دوران ''الثنی''اور ''زمیل''کی جنگ کے بارے میں بھی انشاء اللہ تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن ''فراض'' کی جنگ میں خالد کے اچانک حملہ کرکے شب خون مارنے اور ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام کرنے ،قعقاع کی خو دستائی اور رجز خوانی وغیرہ اور خالد کے چوری چھپے حج پر جانے کے بارے میں صرف سیف نے روایت اور افسانہ سازی کی ہے ۔طبری پہلا مشہور مورخ ہے جس نے سیف کے افسانوں کو نقل کرکے لوگوں کی نگاہ میں اپنی معتبر تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔اور ان افسانوں کو دوسر ے تاریخ دانوں نے طبری سے نقل کیا ہے ۔اس میں صرف یہ فرق ہے کہ طبر ی نے اپنی عادت کے مطابق اپنی تاریخ میں اشعار اور رجز خوانیوں کوثبت نہیں کیا ہے اگر چہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان جنگوں میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے گئے ہیں ۔

لیکن مشہور جغرافیا نویس ،حموی نے قعقاع کی رجز خوانیوں میں سے ایک حصہ سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کیا ہے اور ایک حصے کو ''الفراض ''کے ذکر کے ذیل میں اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے ۔

لیکن یہ بات قابل غورہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اس طرح ظاہر کیا کہ وہ اپنی فوج میں موجود ہے ،لیکن چوری چھپے اس وقت حج کے لئے نکل جاتا ہے جب کے ماہ ذیقعدہ کے ابھی پانچ دن باقی تھے اور حموی کے قو ل کے مطابق ذی الحجہ کے ١٠دن باقی تھے جب وہ واپس آکر اپنی فوج سے ملحق ہو تا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ سپہ سالار کی ٢٥ دن فوج کی غیر حاضری کو سپاہی کس طرح نہ سمجھ سکے ؟!اس مدت میں فوج کے لئے نماز کی امامت کے فرائض کس نے انجام دئے(۱) ؟! اس کی غیر حاضری سے فوج کے افسر تک کیسے آگاہ نہ ہوسکے؟! اور اس سے بھی بڑھ کر ،خالد نے اس زمانے میں ''حیرہ ''سے مکہ تک کا سفر نوہی دنوں میں کس طرح طے کیا ؟!یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں غور وفکر پر مجبور کرتے ہیں اور اس امرکاسبب بنتے ہیں کہ ان مسائل پر بیشتر بحث وتحقیق کریں ۔انشاء اللہ ہم بعد میں اس سلسلے میں مزید بحث وتحقیق کریں گے کہ سیف نے کیوں ان حالات میں خالد بن ولید کے لئے اس طرح کے حج کی داستان جعل کی ہے۔

____________________

(۱)۔اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ ،بہر صورت اسلامی فوج کی نماز پنجگانہ کی امامت فوج کاسردار کرتاتھا۔

۱۶۲

جنگ فراض کی داستان کے نتائج:

١۔ میدان کارزار میں مضری خاندان کے سپہ سالار خالد بن ولید اور تمیمی خاندان کے سورما قعقاع کے کمالات وافتخارات دکھانا۔

٢۔حج کی لمبی مسافت کو طے کرنے میں خالد بن ولید کی کرامت کااظہار کرنا۔

٣۔شجرہ نامی ایک شخص کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر جعل کرنا۔

٤۔جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کی داستان گڑھ کر اسلام کے دشمنوں کو شاد کرنا۔

٥۔اسلامی ادبیات میں اشعار کا اضافہ کرکے اپنے اسلاف کی کرامتیں سننے کے شوقین لوگوں کو افسانوی اشعار سے خوش کرنا۔

۱۶۳

قعقاع ،خالد کے ساتھ شام جاتے ہوئے

و فیهم صحابة ورواة مختلفون

اس داستان کی سند میں بہت سے افسانوی اصحاب اور راوی نظر آتے ہیں !

(مؤلف)

خالدکی شام کی جانب روانگی کی داستان

مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمرو عاص نے شام میں دشمن کی فوج کی کثرت دیکھ کر ابوبکر کو ایک خط لکھا اور انھیں حالات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے مدد طلب کی ۔ابوبکر نے مجلس میں حاضر مسلمانوں سے صلاح و مشورہ کیا۔ان میں سے عمر بن خطاب نے یوں کہا:''اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین !خالد کو حکم دیجئے کہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوجائے اور عمر وعاص کی مدد کرے ''۔ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور خالد کے نام ایک خط لکھا ۔جب ابوبکر کاخط خالد کوپہنچا تو اس نے کہا:''یہ عمر کاکام ہے ،چونکہ وہ میرے ساتھ حسد کرتے ہیں اس لئے نہیں چاہتے کہ پورا عراق میرے ہاتھ فتح ہو بلکہ چاہتے ہیں کہ میں عمر وعاص اور اس کے ساتھیوں کی مدد کروں اور ان میں شامل ہوجاؤں ۔اگر انھوں نے کوئی کامیابی حاصل کی تو میں بھی اس میں شریک رہوں ،یا ان میں سے کسی کی کمانڈ میں کام کروں تاکہ اگر کوئی کامیابی حاصل ہو تو میرے بجائے اس کو فضیلت ملے '' ١

۱۶۴

ایک دوسری روایت میں ہے:

''یہ اعسیر(۱) بن ام شملہ کاکام ہے،اسے یہ پسند نہیں ہے کہ پورا عراق میرے ہاتھوں فتح ہو .....تا آخر ''

سیف یہ نہیں چاہتاتھا کہ خلیفہ عمر اور خالد جیسے سورما کہ دونوں قبیلہ مضر کے بزرگ ہیں کے درمیان بد گمانی دشمنی کی خبر لوگوں میں پھیلے ۔اور یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ خالد کو عراق کی فتح سے محروم رکھے ۔اس لئے اس مسئلہ کے بنیادی علاج کی فکر میں پڑا ہے اور خالد بن ولید کے ہاتھوں عراق کے مختلف شہروں کی فتحیابی کے سلسلے میں مذکورہ داستانیں جعل کی ہیں ۔ہم نے ان داستانوں کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔اسی طرح خالد کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے سلسلہ میں سیف نے یہ داستان جعل کی کہ :خالد کے شب خون کے نتیجہ میں مصیخ بنی البرشاء میں دو مسلمانوں کا قتل ہونا ،عمر کا ان کے قتل کی وجہ سے خالد پر غضبناک ہونا ،خالد کے مخفی طور پر حج پر جانے کے سلسلے میں خلیفہ ابوبکر کا اس پر ناراض ہونا،خالد کو شام بھیجے جانے کے وجوہات تھے اور وہ عراق کو فتح کرنے سے محروم رہے۔

جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے کہ :

''عمر ،خالد بن ولید کے بارے میں ابوبکر کے پاس مسلسل شکایت کرتے تھے۔لیکن ابوبکر ان کی باتوں پر اعتناء نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے:''میں اس تلوار کو دوبارہ نیام میں نہیں ڈالوں گا جسے خدا نے نیام سے باہر کھینچا ہے!''۔ ٢

____________________

(۱)اعیسر ،اعسر کا اسم تصغیر ہے ،عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہو۔

۱۶۵

اس کے بعد خالد کے نام ابو بکر کے خط کا ایک اور روایت میں ذکر کرتا ہے کہ یہ سب جعلی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں ہے اس پوری مقدمہ سازی کے بعد ایک روایت میں کہتا ہے :٣

''خالد عمر کے بارے میں بد گمان تھا اور کہتا تھا: یہ ان ہی کا کام ہے ۔وہ حسد کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ عراق میرے ہاتھوں فتح ہو اور یہ افتخار مجھے ملے اس کے باوجود خدا نے عراق کی سرحدوں کو میرے ہاتھوں توڑدیا اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو میری وجہ سے حوصلہ اور جرأت بخشی ''

باالآخر چھٹی روایت میں کہتا ہے :

''لیکن (خالد) یہ نہیں جانتا تھا کہ عمر کا کوئی قصور نہیں تھا ،یہاں تک کہ قعقاع نے اس سے کہا : عمر کے بارے میں بد ظن نہ ہو خدا کی قسم ابوبکر نے جھوٹ نہیں بولا ہے ۔ اور ظاہر داری نہیں کی ہے ''خالد نے قعقاع سے کہا:'' تم نے سچ کہا !لعنت ہو غصہ و بدگمانی پر ۔خدا کی قسم اے قعقاع !تم نے مجھے خوش بینی پر آمادہ کیا اور عمر کے بارے میں مجھے خوش بین بنا دیا '' قعقاع نے خالد کے جواب میں کہا:'' خدا کا شکر ہے جس نے تمھیں سکون بخشا اور تم میں خیر و نیکی کو باقی رکھا اور شر و بدگمانی کو تم سے دور کیا !!''

اس روایت سے سیف کی زبانی خالد کی جنگوں میں فتحیابیوں ،غنائم وغیرہ کے بارے میں جھوٹ اور افسانوں کے اسرار فاش ہوتے ہیں ۔سیف نے ان سب داستانوں اور افسانوں کو اس لئے گڑھا ہے تاکہ سرانجام خالد کی زبانی یہ کہلوائے کہ:

'' خدا نے میرے ذریعہ عراق کی سرحدوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ،وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے کی جرأت وہمت بخشی ''

سیف کے بقول خالد بن ولید کے بعد یہ سب فضل وافتخار خاندان تمیم کے بے مثال سورما ''قعقاع ''اور اس کے تمیمی بھائیوں تک پہنچتے ہیں اور سر انجام قعقاع کی وجہ سے عمر کی نسبت خالد کی بد گمانیاں دور ہو جاتی ہیں ۔

اسی طرح ہم نے خون کے دریا کی داستان میں دیکھا کہ کس طرح یہ فضل وشرف ان دوناقابل شکست سور مائوں کے درمیا ن تقسیم ہوتے ہیں ۔

سیف نے خالد بن ولید کے لئے عراق کی طرح شام میں بھی قابل توجہ افتخارات کے افسانے گڑھے ہیں ،انشاء اللہ ان کا ہم آگے ذکر کریں گے ۔

۱۶۶

سند کی پڑتال :

خالد کی عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں سیف کی حدیث کے راوی وہی ہیں جنھیں داستان ''الفراض''میں نقل کیا گیا ہے ۔جن کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ سب راوی جعلی اور سیف کے خیالات کی تخلیق تھے۔

اس جانچ کا خلاصہ :

طبری نے اپنی تاریخ میں ١٢ ہجری کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے خالد کے ہمراہ قعقاع کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کا ذکر کیا ہے اور حموی نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں سیف کے ذکر کردہ مقامات کا نام لیا ہے ، اس کے بعد طبری سے ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ان تمام مطالب کو نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ،جن کا ہم نے ذکر کیا جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ صحابہ کی تاریخ کے بارے میں مذکورہ مورخین نے صرف طبری سے نقل کیا ہے اور طبری کی معتبر تاریخی سند سیف ابن عمر تمیمی کی کتابیں ''فتوح '' اور ''جمل '' ہیں ہم نے اس مطلب کو '' سبائیوں کے افسانے کا سرچشمہ '' کے عنوان سے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبائ'' میں واضح طورسے بیان کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتیں :

بلاذری نے اپنی معتبر کتاب '' فتوح البلدان'' میں عراق میں خالد کی فتوحات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، لیکن اس نے وہاں پر قعقاع اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ،اور اس کے علاوہ متعدد جنگوں جیسے الثنی ،الولجہ اور حصید وغیرہ اور کئی شہروں کو فتح کئے جانے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔

طبری نے بھی سیف کے علاوہ ابن اسحاق کے ذریعہ خالد کی جنگوں کا ذکر کیا ہے اور اس میں تقریبا بلاذری کی طرح قعقاع اور دیگر مطالب کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا ۔

دینوری نے بھی اپنی کتاب '' اخبار الطوال '' میں عراق میں خالد کی جنگوں کے بارے میں کچھ مطالب درج کئے ہیں اس میں بھی قعقاع اور دیگر افسانوں کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے وہ صرف سیف ابن عمر تمیمی کے یہاں پایا جاتا ہے اور وہ ان تمام افسانوں اور جھوٹ کا سر چشمہ ہے ۔٤

۱۶۷

خالد شام جاتے ہوئے

سیف خالد ابن ولید کے سفر شام کے بارے میں لکھتا ہے :

''خالد نے عراق کے علاقہ '' سماوہ'' کے ایک گائوں کی طرف حرکت کی اور وہاں سے قصوان میں واقع '' مصیخ بہراء '' پر حملہ کیا اور مصیخ ایک بستی ہے '' نمر'' کے باشندے مئے نوشی میں مصروف تھے اور ان کا ساقی یہ شعر پڑھ رہا تھا :'' اے ساقی مجھے صبح کی شراب پلا دے اس سے قبل کہ ابوبکر کی سپاہ پہنچ جائے '' کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس طرح اس کا سرتن سے جدا کیا گیا کہ شراب کا جام جو اس کے ہاتھ میں تھا خون سے بھر گیا''

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ایک اور روایت پیش کی ہے :

'' خالد نے ولید بہراء کے اسیروں کو اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا وہاں پر اسے اطلاع ملی کہ غسانیان نے ''مرج راہط '' میں فوج کشی کی ہے لہٰذا وہ ان کی طرف بڑھ گیا اور ''مرج الصفر '' کے مقام پر ان سے رو برو ہوا ان کا سردار '' حارث ابن الایہم '' تھا خالد نے ان سے سخت جنگ کی اور اس کو اور اس کے خاندان کو نابود کرکے رکھ دیا اس کے بعد چند دن وہاں پر قیام کیا اور جنگی غنائم کا پانچواں حصہ وہیں سے ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا اس کے بعد قنات بصری کی طرف بڑھا یہ شام کے ابتدائی شہروں میں سے ایک شہر تھا جو خالد کے ہاتھوں فتح ہوا اور خالد نے اس شہر میں پڑائو ڈال دیا پھر خالد قنات بصری سے نو ہزار سپاہیوں کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لئے '' واقوصہ'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر رومیوں سے جنگ کی ''طبری کی روایت کا خاتمہ ۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی :

ابن اثیر نے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں اور اپنی تاریخ میں انھیں درج کیا ہے :

ابن عساکر نے قعقاع کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے :

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے '' واقوصہ'' کی جانب بڑھنے کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں '' :

۱۶۸

قعقاع کے رزمیہ اشعار

'' ہم نے خشک اور تپتے صحرائوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ طے کیا اور ''سومی'' کے بعد ''فرافر''کی طرف آگے بڑھے ۔وہیں پر ''بہرائ'' کی جنگ کا آغاز کیا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہمارے سفید اور زرد اونٹ ہمیں حملہ کے لئے ان غیر عرب اجنبیوں کی طرف لے گئے جو بھاگ رہے تھے ۔میں نے شہر بصری سے کہا : اپنی آنکھیں کھول دے اس نے خود کو اندھا بنا لیا کیوں کہ ''مرج ا لصفر ''کے مقام پر'' ایہم'' اور ''حارث غسانی' ' کی سرکردگی میں بعض گروہ خونخوار درندوں کی طرح جمع ہو گئے تھے۔ ہم نے ''مرج الصفر '' میں جنگ کی اور خاندان غسان کی ناک کاٹ کے رکھ دی اور انھیں شکست فاش سے دو چار کیا !اس دن ان لوگوں کے علاوہ جو ہماری تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھرے پڑے تھے بقیہ تمام غسانی بھاگ گئے ۔وہاں سے ہم پھر بصری کی طرف لوٹے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس نے بھی جو کچھ ہم سے پوشیدہ تھا ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ہم نے بصری کے دروازے کھول دیئے اس کے بعد وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکر '' یرموک'' کے قبائل کی طرف بڑھے ''

اس رجز کو ابن عساکر نے سیف کی روایت کے آخر مین درج کیا ہے جب کہ طبری نے اپنی عادت کے مطابق کہ وہ اکثر اشعار و رجز کو حذف کردیتا ہے اس رجز کا ذکر نہیں کیا ہے اور سیف کی روایت سے اسے حذف کر دیا ہے ۔

حموی بھی مصیخ کی معرفی میں سیف کی حدیث کو سند قرار دے کر لکھتا ہے :

' 'مصیخ بہرائ''شام کی سرحد پر ایک اور بستی ہے۔ خا لد بن ولید نے شام جاتے ہوئے ''سومی '' کے بعد وہاں پر پڑائوڈالا ۔چونکہ خالد نے مصیخ کے لوگوں کو مستی کی حالت میں پایا اوریہی مستی ان کے لئے موت کا سبب بنی ۔جب خالد نے اپنے سپاہیوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا،ان کے بزرگ و سردار نے یہ حالت دیکھ کر چیختے ہوئے کہا : ''اے ساقی !صبح کی شراب پلا!اس سے قبل کہ ابوبکر کی فوج پہنچ جائے ،شائد ہماری موت نزدیک ہو اور ہم کچھ نہ جانتے ہوں ''

کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس کاسر تن سے جدا کیا گیا اور خون و شراب باہم مل گئے۔ان کا کام تمام کرنے کے بعد ان کے اموال پر غنیمت کے طور پر قبضہ کیا گیا ۔غنائم کے پانچویں حصہ کو ابوبکر کے لئے مدینہ بھیج د یا گیا۔

۱۶۹

اس کے بعد خالد یرموک کی جانب بڑھا ۔قعقاع بن عمرو نے مصیخ بہراء کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر حموی نے مذکورہ بالا اشعار کے شروع کے تین شعر ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے یرموک کے موضوع کے بارے میں بھی سیف کی اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے لکھاہے:

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں اس طرح کہاہے: ...''

اور یہاں پر وہ مذکورہ اشعار کادوسرا حصہ ذکر کرتاہے۔

عبد المؤمن نے یرموک اور مصیخ کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع''میں حموی کی روایت سے استناد کیاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

جو کچھ خالد کی فتوحات کے بارے میں ذکر کیا گیاوہ سیف ابن عمر کی تحریر ہے۔ لیکن دوسروں کی تحریروں میں ایک تو ''مصیخ بہرائ''کا کہیں ذکر نہیں آیاہے۔دوسرے فتح بصری کے بارے میں تمام مورخین اس بات پر متفق القول ہیں کہ خالد کے وہاں پہنچنے سے پہلے ابو عبیدہ جراح ،یزید بن ابوسفیان ،اور شرجیل بن حسنہ کی سربراہی میں اسلامی فوج وہاں پر پہنچ چکی تھی ۔خالد اور اس کی فوج وہاں پہنچنے کے بعد ان سے ملحق ہوئی ۔اس لحاظ سے بصری صرف خالد اور اس کی سپاہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہواہے۔ ٥

سند کی پڑتال:

سیف ،خالد کے عراق سے شام کی جانب جانے کے بارے میں محمد ومہلب سے روایت کرتا ہے کہ یہ دونوں راوی اس کے جعلی اصحاب ہیں ۔اسی طرح عبیداللہ بن محفز بن ثعلبہ سے بھی روایت کی ہے کہ اس نے قبیلہ بکر بن وائل کے کسی ایک فردسے روایت کی ہے ۔لیکن عبید خود ان افراد میں سے ہے جو مجہول ہیں اور وہ سیف کے ذہن کی مخلوق ہے ۔طبری نے سیف کی چھ روایتیں اس سے نقل کی ہیں ۔لیکن بکر بن وائل کے قبیلہ کاوہ فرد معلوم نہیں کون ہے کہ ہم راویوں کی فہرست میں اس کو تلاش کرتے !!

۱۷۰

تحقیق کانتیجہ :

ابن عساکر قعقاع کے حالات کے بارے میں شروع سے آخر تک صرف سیف کی ایک حدیث کو نقل کرتا ہے اور خاص کرتاکید کرتا ہے کہ یہ سیف کی روایت ہے۔

طبری نے خالد کے شام کی طرف سفر کے بارے میں سیف کی حدیث کو نقل کیاہے لیکن اپنی

عادت کے مطابق اس کے رجز کوحذف کردیا ہے ۔

حموی نے اس روایت کے ایک حصہ کو مصیخ کے ذکر میں اور دوسرے حصہ کو یرموک کی تشریح میں کسی راوی کانام لئے بغیر ذکر کیا ہے اور یہی امر سبب بن جاتاہے کہ ایک محقق اس پر شک وشبہ کرے کہ ممکن ہے قعقاع کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ بھی کہیں آیا ہو ۔اسی طرح یہ شبہ مصیخ کے بارے میں بھی دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ (محقق) نہیں جانتا کہ مصیخ سیف کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔

سیف کی حدیث کے نتائج :

١۔ خالد بن ولید کے لئے شجاعتیں اور افتخارات درج کرانا۔

٢۔ مصیخ نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ یہ نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو جائے ۔

٣۔قعقاع کے اشعار سے ادبیات عرب کو مزین کرنا ۔

٤۔شام میں پہلی فتح کو خالد بن ولید اور اس کے عراقی سپاہیوں کے نام درج کرانا کیوں کہ عراق سیف ابن عمر کا وطن ہے ۔

۱۷۱

قعقاع ،شام کی جنگوں میں

کم من اب لی قد و رثت فعاله

کتنے ایسے میرے اسلاف و اجداد ہیں جن سے میں نے نیکی اور شجاعت وراثت میں پائی ہے

(سیف کا افسانوی سورما ،قعقاع)

جنگ یرموک کی داستان

طبری ١٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''یرموک کی جنگ میں خالد بن ولید نے گھوڑسواروں کی فوج کے ایک دستہ کی کمان قعقاع بن عمر و کو سونپی اور اسے دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیا قعقاع نے خود کو جنگ کے لئے آمادہ کیا اور حسب ذیل رجز پڑھے :

'' کاش !جنگجو اور شجاع سپاہیوں کو تہس نہس کرنے سے پہلے تجھے سواروں کے درمیان دیکھتا ،تجھے میدان جنگ میں دیکھ کر تیرا مقابلہ کرتا''

اس کے بعد طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کی تفصیلات درج کرتے ہوئے رومیوں کی جنگی تیاریوں کی عجیب طرز سے توصیف کی ہے:

''رومیوں نے اپنے سپاہیوں کی اس طرح تقسیم بندی کی تھی : اسّی (٨٠)ہزار فوجی ایک دوسرے سے سٹی ہوئی قطاروں کی صورت میں خود کو ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھے !چالیس ہزار فدائی جنگجوئوں نے خود کو زنجیروں سے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھا تھا !چالیس ہزار سپاہیوں نے بھی خود کو دستاروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا! اس کے علاوہ اسی(٨٠) ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل فوج تھی ،غرض دشمن نے ایک عظیم اور حیرت انگیز فوج کو منظم اور آمادہ رکھا تھا ''

۱۷۲

خالد نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ دشمن کی پیدل فوج پر حملہ کیا اور انھیں ایسے تہس نہس کرکے رکھ دیا کہ دشمن کی فوج ایک دیوار کے مانند دھڑام سے گر گئی ۔ رومی فوج اپنی خندق کی طرف دوڑ پڑی اور برگ خزاں کے مانند گروہ گروہ واقوصہ کی خندق میں ڈھیر ہو کر نابود ہوتی گئی اس طرح واقوصہ میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے سپاہیوں کی ایک عظیم قتل گاہ وجود میں آگئی ۔کافی تھا کہ ان میں سے ایک سپاہی کو قتل کیا جاتا اور وہ اپنے ساتھ دس سپاہیوں کو لیکر خندق میں جا گرتا تھا ،اس طرح دشمن کے ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی مارے گئے !!''

ابن عساکر اس روایت کے آخر میں ،جسے اس نے واقوصہ کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ،نیز قعقاع کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے دو نوں کے آخر میں درج ذیل اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : قعقاع بن عمرو تمیمی نے یرموک کی جنگ میں یہ شعر کہے تھے ۔

''کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم یرموک کی جنگ میں اسی طرح فتحیاب ہوئے جس طرح عراق کی جنگوں میں کامیاب ہوئے تھے ؟ہم نے شہر یرموک سے پہلے شہر بصری کو فتح کیا جسے ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح ایسے نئے نئے شہروں کو بھی فتح کیا جنھیں آج تک کسی نے فتح نہیں کیا تھا ۔ ہم نے شہر مرج الصفر کو اپنے سواروں اور پیدل فوج کے ذریعہ فتح کیا ۔جو بھی ہمارے سامنے آجاتا تھا اسے ہم ننگی تلوار سے قتل کر ڈالتے تھے اور جنگی غنائم لے کر لوٹتے تھے ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے رومیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا میدان جنگ میں ہمارے لئے ان کی قدر کبوتر کے فضلہ سے بھی حقیر تھی ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے ان کی فوج کا قتل عام کیا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے یہ ان کا المناک اور درد ناک انجام تھا''

ابن کثیر نے سیف کی اس روایت کو قعقاع کے اشعار کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں ایک جگہ ذکر کیا ہے ۔

ابن اثیر نے صرف اصل روایت کو نقل کیا ہے لیکن مذکورہ اشعار درج نہیں کئے ہیں ۔

حموی نے لغت '' واقوصہ'' میں روایت کے ایک حصہ کو درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے:

'' واقوصہ شام میں سر زمین حوران میں ایک صحرا ہے ۔وہاں پر ابوبکر کے زمانہ میں اسلامی فوج نے پڑائو ڈال کررومیوں سے جنگ کی ہے اور قعقاع بن عمرو نے اس جنگ میں یہ شعر کہے ہیں :..

یہاں پر مذکورا بالا اشعار میں سے پہلا شعر اور پھر پانچویں سے ساتویں شعر تک درج کیا ہے ۔

۱۷۳

سیف کی روایت کی حیثیت :

سیف نے یرموک کی فتح کو ١٣ھ میں بصری کی فتح کے بعد نقل کیا ہے ۔

لیکن ابن اسحاق اور دیگر مورخین نے '' اجنادین ''کی فتح کو '' بصری'' کی فتح کے بعد ذکر کیا ہے اور یرموک کی فتح کو ١٥ھ میں بیان کیا ہے اور اسے اس علاقہ کے شہروں کی آخری فتح جانتے ہیں دوسری جانب ''واقوصہ'' کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔اس سلسلے میں صرف بلاذری لکھتا ہے کہ:

''رومیوں نے جنگ '' اجنادین '' کے بعد ''یاقوصہ'' میں ایک بڑی فوج جمع کی اور مسلمانوں نے وہاں پر رومیوں سے جنگ کی اور انھیں پسپا ہونے پر مجبور کیا''

لگتا ہے سیف نے لفظ'' یاقوصہ '' کو اس لئے ''واقوصہ'' میں تبدیل کیا ہے تاکہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے مادئہ وقص یعنی گردن توڑنا سے استفادہ کرے اور اپنے فرضی میدان جنگ میں خالد بن ولید کی پیدل فوج کے شدید حملہ کے ذریعہ دشمن کی گردن توڑنے کو ثابت کرے۔

سند کی پڑتال :

سیف نے اس حدیث کے راوی کے طور پرمحمد بن عبداللہ کا نام لیا ہے ،جس کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ ابو عثمان یزید بن اسیدعسانی کو راوی کے طورپر پیش کیا ہے ۔لیکن اس کے بارے میں ہم نے نہ تاریخ طبری میں اور نہ تاریخ ابن عساکر میں کوئی روایت پائی ،اس کے علاوہ چوں کہ ہم نے اس کانام راویوں کی فہرست اور طبقات روایت میں بھی کہیں نہیں پایا ،اس لئے اسے بھی سیف کا جعلی راوی جانتے ہیں ۔اور معلوم ہوا کہ یہ شخص بھی اس کے دیگر راویوں اور ناقابل شکست جعلی سورمائوں کی طرح حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا ۔

۱۷۴

حدیث کی پڑتال کا نتیجہ

سیف کے کہنے کے مطابق ،یرموک میں جنگ کے لئے آمادہ ہوکر حملہ کرنے والے اور رجزو رزم نامے پڑھنے والے بزرگ اصحاب،ناقابل شکست پہلوان اور اسلام کے سچے سپاہی ،خاندان تمیم کے دوسورماؤں ،یعنی قعقاع بن عمرو اور ابو مفزر کے علاوہ اور کون ہوسکتے ہیں ؟

''واقوصہ''کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار انسان قتل عام کئے جاتے ہیں ،سیف نے کمانڈر انچیف،خالد بن ولید اور اس کی پیدل فوج کے برق رفتار حملے کے نتیجے میں صرف واقوصہ کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار جوانوں کو خاک وخون میں لوٹتے دکھایاہے۔اس طرح اتنے انسانوں کاخون بہاکر چند لمحوں کے لئے اپنی نہ بجھنے والی پیاس کو تسکین دی ہے،جب کہ دیگر مؤرخین نے اس قسم کی کوئی بات بیان نہیں کی ہے۔انہی میں سے بلاذری بھی ہے جس نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یرموک میں قتل ہوئے کل افراد کی تعداد ستر ہزار بتائی ہے۔اس کے علاوہ جاننا چاہئے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے یرموک کی جنگ کو ١٣ ھ میں ذکر کیاہے۔

سیف کے افسانوی سورما قعقاع کی جنگوں اور فتوحات کے یہ وہ چند نمونے تھے جنھیں اس نے ابو بکر کے دور میں روایت کیاہے۔عمر کے دور میں شام میں قعقاع کی جنگ وفتوحات کے نمونوں کاجائزہ ہم آنے والی فصل میں پیش کریں گے۔

۱۷۵

قعقاع ،عمر کے زمانے میں

قتل فیه من الروم ثمانون الفاً

''جنگ فحل میں اسّی ہزار رومی قتل کئے گئے ''

فتح دمشق کی داستان:

شہر دمشق کی فتح کے بارے میں سیف لکھتاہے:

''شہر دمشق کے محافظین کے سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہواتھا۔محافظین نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیاتھا۔اور کھانے پینے میں مشغول ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرکے شہر کی اہم چوکیوں کی حفاظت سے غافل ہوگئے ۔اس امر سے خالد بن ولید کے علاوہ کوئی مسلمان آگاہ نہیں ہوا، چونکہ وہ ہوشیار تھا اور اس سے اس شہر کے باشندوں اور محافظوں سے متعلق کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی!

رات ہوتے ہی خالد،قلعہ کے ساکنوں کی مستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی کے ہمراہ پہلے سے بنائی گئی رسیوں کی سیڑھیاں لے کر قلعہ کے نزدیک پہنچا ۔ انھوں نے رسی کی سیڑھیاں دشمن کے قلعہ کی دیوار کے کنگروں پر پھینکیں دو رسیاں کنگروں میں اٹک گئیں ۔ قعقاع اور مذعور سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئے پھر انھوں نے باقی سیڑھیوں کی رسیاں کنگروں سے محکم باندھ لیں اور دیگر لوگ بھی قلعہ کی دیوارسے اوپر چڑھ گئے ۔اس کے بعد بے خبر ومست محافظین پر حملہ کرکے ماردھاڑ شروع کی۔اورآسانی کے ساتھ ان پر غلبہ پالیا۔اس کے بعد اسلام کے سپاہیوں کے لئے قلعہ کادروازہ کھولدیا...''

ابن عساکر نے اس پوری داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فتح دمشق کی مناسبت سے یہ شعر کہے ہیں :

سلیمان کے دوشہروں (دمشق وتدمر)کے نزدیک ہم نے کئی مہینوں تک استقامت کی اور اپنی تلواروں پر ناز کرنے والے رومیوں سے جنگ کرتے رہے۔جب ہم نے دمشق کے عراقی دروازے کو اپنے قبضے میں لے کر کھول دیا تو ان کے تمام سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔جب پورے شہر پر ہمارا قبضہ ہوگیاتو میں نے حکم دیا کہ ان کے سر تن سے جدا کردئے جائیں اور ان کے گلے پھاڑدئے جائیں ۔ جب انھوں نے شہر دمشق اور تدمر میں ہمارے پنجے مستحکم ہوتے دیکھے توخوف ووحشت سے انگشت بدندان رہ گئے''۔

۱۷۶

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کے آخر میں اشعار حذف کئے ہیں ۔اسی لئے مذکورہ اشعار کو بھی اپنی روایت میں درج نہیں کیاہے۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی

فتح دمشق کی داستان کو طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کیاہے اور دوسروں جیسے،ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسی طرح طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس روایت کو اس طرح شروع کرتاہے:

''سیف کہتاہے .....''

اس کے بعد داستان کو آخر تک لکھتاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

بلاذری نے فتح دمشق کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے:

''خالدبن ولید نے ''دیرخالد ''کے باشندوں سے یہ شرط رکھی کہ اگر اسے ایک سیڑھی دیدیں ، جس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ کی دیوار پر چڑھ سکے تو ان کے خراج میں تخفیف کردے گا۔کہ آخر کار ابو عبید نے خالد کے مطالبہ کو پورا کیا''۔

سند کی پڑتال

فتح دمشق کی داستان کو سیف نے صرف ایک جگہ اور ایک روایت میں تین راویوں ،ابو عثمان ،خالد اور عبادہ سے نقل کیاہے۔ابو عثمان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکاہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی اور اس کے ذہن کے تخلیق ہے۔

لیکن خالد وعبادہ جن سے طبری اور ابن عساکرنے سیف کے ذریعہ سولہ روایتیں نقلی کی ہیں کے بارے میں ہم فہرست اور طبقات رجال میں کوئی سراغ نہ پاسکے۔

۱۷۷

فحل کی جنگ

طبری اور ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اس طرح روایت کی ہے:

''دمشق کو فتح کرنے کے بعد ابوعبیدہ''فحل''کی طرف روانہ ہوا۔رومیوں نے اسلامی فوج سے لڑنے اور ان کی پیشقدمی کو روکنے کے لئے اسّی ہزار فوج آمادہ کر رکھی تھی اور گھات لگاکر اچانک اسلامی فوج پر حملہ کیا۔مسلمانوں نے شجاعت اور دلیری کے ساتھ رومیوں کے اس اچانک حملہ کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس طرح ایک گھمسان جنگ چھڑگئی ۔یہ جنگ ایک دن اور ایک رات جاری رہی۔مسلمانوں نے رومیوں کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور سر انجام یہ جنگ مسلمانوں کی فتحیابی اور رومیوں کی ہزیمت پر ختم ہوئی۔

رومیوں نے پہلے سے ہی ایک خندق کھود کر اس میں پانی بھر دیاتھا تا کہ اسلامی فوج کی پیشقدمی کو روک سکیں ۔لیکن شکست کھاکر پیچھے ہٹتے ہوئے رومی خود اس خندق میں گر کر دلدل میں پھنس گئے ۔ایسے پھنسنے والوں کاحال معلوم ہی ہے کہ کیا ہوگا!اس طرح اس جنگ میں اسّی ہزار رومی ہلاک ہوگئے مگر یہ کہ کوئی فرار ہونے میں کامیاب ہواہو !

ابن عساکر نے اس داستان کے آخر میں یہ اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فحل کی فتحیابی کے سلسلے میں اس طرح شعر کہے ہیں :

''کتنے ایسے میرے اسلاف ہیں ،کہ ان کے نیک کام مجھے وراثت میں ملے ہیں ۔میرے اجداد ایسے ہیں جن کی عظمت وبزرگواری سمندر کے مانندہے۔انھوں نے بھی فضائل کو اپنے اجداد سے وراثت میں پایاتھا اور بصیرت وبلند نظریات کی بناپر ان فضائل کو چار چاند لگائے تھے ۔میں نے بھی اپنی ذمہ داری کے مطابق ان مفاخر وفضائل کو بڑھاوادیا اور انھیں نقصان پہنچنے نہیں دیا۔میری اولاد بھی اگر میرے بعد زندہ رہے تو وہ بھی ان فضائل و مفاخر کے بانی ہوں گے ''

۱۷۸

''فوج کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے رہے ہیں ،وہ بادشاہوں کی طرح حملہ کرتے ہیں ، ان کے پیچھے بہادر فوج ہے ۔ہم میدان کارزار کے بہادر ہیں ،جس وقت سرحد کے محافظ سستی دکھاتے ہیں ،ہم ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان پر فتح پاتے ہیں ''

فحل کی جنگ میں جب میرا گھوڑا کرو فر کے ساتھ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اور بلائیں چاروں طرف سے گھیرنے لگیں تو لوگ میری سر بلندی اور بہادر ی کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔اگر میری جگہ پر کوئی اور ان بلائوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا تو بے چارہ اور ذلیل ہو کے رہ جاتا اور ایسے کام کو اپنے ذمہ لینے پر شرمندہ ہو جاتا !''

عربی گھوڑے فحل کے میدان کارزار میں گردو غبار کو آسمان پر اڑاتے ہوئے دشمن کی فوج کو کچلے دے رہے تھے ،سر انجام ان کے گھوڑوں نے اپنے ہی سرداروں کو دلدل میں گرادیا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہے ۔اس کے بعد ہم نے سر نیزوں سے دشمن پر حملہ کیا ۔ ہم نے ان کی فوج کو دلدل میں نابود کرکے رکھ دیا اس دن تمام نگاہیں مجھ پر متمرکز تھیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے روایت کی ہے کہ قعقاع نے جنگ فحل میں یہ شعر کہے ہیں :

''فحل کی جنگ میں ہم اتنے مشکلات سے دو چار ہوئے کہ جس کے خوف سے پہلوان اپنے اسلحہ کو گھر میں ہی بھول جاتے تھے ۔میں اس دن اپنے مشہور گھوڑے پر پوری طاقت سے سوار ہوکر اپنے بہادر فوجیوں کے ساتھ دشمن پر تیر باران کرتا تھا ۔ بالاخر ہم نے مقاومت کرنے والے دشمن کے فوجیوں کو تلوار کے وار سے منتشر کرکے بھگا دیا''

''ہم ہی ہیں جنھوں نے عراق کو اپنے گھوڑوں سے عبور کیا اور شام میں اپنی تلواروں کے سائے میں جنگ لڑی اور عراق اور اس کی جنگوں کے بعد بہت سے نصرانیوں کو نابود کرکے رکھ دیا ''

حموی نے سیف کی اس روایت پر استناد کرکے لغت ''فحل'' کے بارے میں لکھا ہے :

''جس سال مسلمانوں کے ہاتھوں دمشق فتح ہوا ،اسی سال فحل میں مسلمانوں اور اسّی(٨٠) ہزار رومی فوج کے درمیان جنگ ہوئی اور قعقاع بن عمرو تمیمی نے اس جنگ کے بارے میں یوں کہا ہے ...:

اس کے بعد روایت کی سند کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ کئے بغیر چار شعر ذکر کئے ہیں ۔

۱۷۹

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

طبری نے ''فحل'' کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے ،اور معمول کے مطابق اس سے مربوط رجز و شعر کو حذف کیا ہے ۔

ابن عساکر نے بھی فحل کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس سے مربوط اشعار بھی ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے اس داستان کا تھوڑ ا سا حصہ لغت '' فحل '' کے سلسلے میں سند کے بغیر ذکر کیا ہے لیکن اس داستان سے مربوط مطالب ،ان مطالب سے مختلف ہیں جو دیگر مورخین نے اس سلسلے میں درج کئے ہیں مثال کے طور پر بلاذری نے اس معرکہ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد دس ہزار بتائی ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی مورخ نے شام کی جنگوں میں خاندان تمیم کے سورمائوں کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر لکھتا ہے :

''مورخین کا اتفاق ہے کہ شام کی فتوحات میں قبائل اسد ،تمیم اور ربیعہ میں سے کسی نے شرکت نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنی لشکر گاہ یعنی عراق کے حالات کے مطابق وہیں پر ایرانیوں سے بر سر پیکار تھے '' ١

سند کی پڑتال :

سیف نے داستان فحل ،ابو عثمان یزید سے روایت کی ہے جب کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیف کا جعل کردہ راوی ہے ۔

۱۸۰

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

فتح دمشق میں ''دیرخالد ''کے باشندے ،خالد بن ولید کو ایک سیڑھی دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ پر چڑھ سکے ۔جبکہ سیف کہتاہے کہ قعقاع اور اس کے ساتھی رسیوں سے سیڑھیاں بنائیں اور ان کے ذریعہ قلعہ کے برج پر چڑھے۔

سیف کہتاہے کہ جنگ فحل مین اسّی ہزار دشمن کے سپاہی مارے گئے ،جب کہ دوسرے مورخین اس جنگ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد تقریباً دس ہزار بتاتے ہیں ۔

سیف نے فحل کی جنگ اور اس میں دشمن کی شکست کو فتح دمشق کے بعد ذکر کیا ہے ،جبکہ دوسرے مؤرخین کاکہنا ہے کہ یہ جنگ فتح دمشق سے پہلے واقع ہوئی ہے۔

سیف نے اپنے افسانوی سورما،قعقاع بن عمرو سے فتح فحل کے بارے میں اشعار نقل کئے ہیں ۔طبری نے اپنی روش کے مطابق انھیں اپنی روایتوں میں حذف کیا ہے ، جب کہ ابن عساکر نے طبری کے برعکس ان تمام اشعار کو درج کیاہے ۔اورحموی نے لغت''فحل''کے بارے میں ،جیسا کہ ذکر ہوا،سیف کی روایتوں اور اشعار کے ایک مختصر حصہ کو درج کرنے پر اکتفاء کی ہے۔

طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس کے بعد والے مؤرخین ،جیسے ،ابن اثیر،ابن کثیراور ابن خلدون نے مذکورہ داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس سلسلے میں داستان کے مصدر یعنی طبری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں لکھتاہے:

''امام ابوجعفر ،فتح دمشق کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے یوں روایت کرتے ہیں :......''

۱۸۱

سیف کی حدیث کے نتائج:

١۔قلعہ دمشق پر چڑھ کر قلعہ کو تسخیر کرنے میں خاندان تمیم کے افسانوی اور ناقابل شکست سورما قعقاع بن عمرو کی شجاعت و بہادری دکھانا۔

٢۔جنگ فحل میں واقعی مارے گئے افراد کے علاوہ ستر ہزار انسانوں کا قتل عام دکھانا۔

٣۔ قعقاع سے منسوب رزمی اشعار کو نشر کرنا ،جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ خاندان تمیم کے بہادر میدان کارزار کے بادشاہ ہیں ،وہ ایک دوسرے سے بہتر ناقابل شکست اور نامور ہیں ،قدرت اور جوانمردی انھیں اپنے اسلاف سے وراثت میں ملی ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی یعنی قعقاع کو یہ بہادری اپنے اجداد سے وراثت میں ملی ہے اور اس کے بعد اس کی اولاد بھی اس بہادری کے بانی ہیں ۔وہ (قعقاع) جنگوں میں فتح و کامرانی کا مرکز ی کردار تھا اور وہ تنہا سورما ہے کہ جس کی طرف میدان کا رزار میں نگاہیں متمرکز رہتی ہیں !

تحقیقات کا خلاصہ :

قعقاع وہی ناقابل شکست سورما ہے جس نے یرموک کی جنگ کا محاذ کھولا اور اس جنگ میں عراق کی جنگوں کی طرح فتح و کامرانیاں حاصل کیں ۔ قعقاع نے یرموک ،دمشق اور فحل کی جنگوں میں شرکت کی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں رزمیہ اشعار کہے ہیں !

ان جنگوں کا نتیجہ ایک لاکھ دس ہزار انسانوں کا قتل عام ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں کئے گئے اور اس سے قبل والے مقتولین میں ان کا اضافہ ہوا ہے ۔

یہ سب مطالب سیف کے افسانوں کا نتیجہ ہیں اور وہ تنہا قصہ گو اور افسانہ سازہے جو اس طرح کی بیہودگیوں کا خالق ہے ۔

یہ وہ مطالب تھے جو ہم نے سیف کی روایتوں میں شام کے مختلف نقاط میں قعقاع کی افسانوی جنگوں کی صورت میں پائے ۔سیف کے مطابق شام کی فتوحات کے بعد قعقاع دو بارہ عراق لوٹا ہے اور چند دیگر جنگوں میں شرکت کرکے فتوحات حاصل کی ہیں جن کا ہم اگلی فصل میں جائزہ لیں گے ۔

۱۸۲

قعقاع ،عراق کی جنگوں میں

ازعجهم عمداً بها ازعاجا

اطعن طعنا صائبا ثجاجا

'' دشمن کی صفوں کو اپنے پے د رپے حملوں سے تہس نہس کرتا ہوں اور ان پر ایسا نیزہ مارتا ہو ں جو صحیح نشانہ پر لگے اور خون بہائے''

قعقاع کی شام سے واپسی

ابن عساکر اور طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی شام سے واپسی کا سبب یوں بیان کیا ہے :

'' خلیفہ عمر نے ابو عبید ہ کو ایک خط لکھا تاکہ وہ شام میں مامور عراقی سپاہیوں کو سعد و قاص کی مدد کے لئے واپس عراق بھیج دے ۔ابو عبیدہ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عراقی سپاہیوں کو قعقاع کی سرکردگی میں ان کے وطن عراق کی طرف

لوٹنے کا حکم دیا''٢

اب ہم سعد بن وقاص کی کمانڈ میں عراق کی جنگوں میں قعقاع کی جنگی کاروائیوں کی تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں :

۱۸۳

جنگ قادسیہ میں

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ قادسیہ کے تین روز کے واقعات کی یوں تشریح کی ہے :

١۔روز ارماث : ارماث کے واقعات پر قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کے بارے میں گفتگو کرتے وقت وضاحت کریں گے؛

٢۔''روز اغواث'':اس سلسلے میں طبری نے پہلے ابو عبیدہ کے نام خلیفہ کے خط اور قعقاع کی سرپرستی میں عراقی فوجیوں کو اپنے وطن روا نہ کرنے کا مسئلہ بیان کیا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :

''قعقاع فوری طور پر شام سے عراق کی طرف روانہ ہوا اور یکے بعد دیگرے پڑائو کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن میدان جنگ قادسیہ کے نزدیک پہنچا ۔وہاں پر ایک ہزار افراد پر مشتمل اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے حکم دیا کہ اس طرح میدان کارزار میں داخل ہوں کہ پہلا گروہ آگے بڑھے اور دوسرا گروہ تب قدم آگے بڑھائے،جب پہلا گروہ نظروں سے غائب ہو چکا ہو اسی طرح تیسرا اور چوتھا گروہ آگے بڑھے اور خود قعقاع پہلے گروہ کے آگے آگے مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوا ان پر درود بھیج کر انھیں خوشخبری دی کہ مدد پہنچ رہی ہے اور انھیں دشمن سے لڑنے کی ہمت دلائی اور شدید جنگ کے لئے آمادہ کیا اور کہا : جو کچھ میں انجام دوں ،تم لوگ بھی اسی پر عمل کرنا '' اس کے بعد میدان جنگ کی طرف روانہ ہو ا اور مقابلہ کے لئے اپنا مقابل طلب کیا''

قعقاع جب اس ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت سے آگے بڑھا تو دوسرے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے ۔اسلام کے دلاور سپاہی قعقاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کودکھاتے ہوئے کہتے تھے : یہ وہی بہادر شخص ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے کہ : جس فوج میں یہ بہادر ہوگا وہ کبھی شکست سے دو چار نہیں ہوگی!''

۱۸۴

قعقاع نے جب میدان جنگ میں مقابلہ کے لئے اپنا مقابل طلب کیا تو ایرانی فوج میں سے ''ذوالحاجب '' نامی ایک پہلوان آگے بڑھا ۔یہ وہی پہلوان تھا جس نے جسر کی جنگ میں ابو عبیدکو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا قعقاع نے ابو عبید کے قاتل کو پہچان کر بلند آواز میں اس سے مخاطب ہو کر کہا :'' اب میں تجھے اپنے دوستوں ابو عبید وغیرہ جو جسر کی جنگ میں مارے گئے کے انتقام میں قتل کر ڈالوں گا'' اس کے بعد ایک زور دار حملہ کیا اور تلوار کی ایک ضرب سے ہی ذوالحاجب کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد ایرانی فوج کا بیرزان نامی دوسرا پہلوان مقابلہ کے لئے میدان میں آیا ،قعقاع نے اس کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

دوسری طرف قعقاع کے سوار فوجی ،رات گئے تک اپنے سردار کے حکم کے مطابق دس دس افراد کی ٹولیوں میں مشخص فاصلہ اور وقت کی رعایت کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں کی فوج میں پہنچا رہے تھے ہر ٹولی کے پہنچنے کے وقت قعقاع خبر دیتے ہوئے اور فوج کے حوصلے بلند کرنے کے لئے نعرۂ تکبیر بلند کرتا تھا اس کے نتیجہ میں اسلامی فوج کی ہمت بڑھتی تھی اور دشمن کی فوج کی بنیادیں متزلزل ہو تی جاتی تھیں ۔

قعقاع نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے پکار کر کہا '' اے مسلمانوں ! دشمن کو اپنی تیز تلواروں کے ذریعہ خبر دے دو کہ یہ ان کے لئے موت کا پیغام ہے ''

قادسیہ کی جنگ میں اغواث کے دن ہی اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف سعد وقاص نے شجاع ترین سپاہیوں کے لئے خلیفہ عمر کی طرف سے بھیجے گئے تحفوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو عطا کیا قعقاع نے اس سلسلے میں درج ذیل شعر کہے ہیں ۔

'' عربی گھوڑے ہمارے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتے ،اغواث کے دن شام کو قادسیہ کے نزدیک اس شب جب ہم نے دشمن پر حملہ کیا ہمارے نیزے پرندوں کی طرح دشمن کی طرف پرواز کر رہے تھے ...''

۱۸۵

اغواث کے دن قبیلہ تمیم کی پیدل فوج دس دس افراد کی ٹولیوں میں اونٹوں کے ہمراہ جنھیں انھوں نے سرتاپا ڈھانپ رکھا تھا اور ان کی خوفناک اور بھیانک صورت بنا رکھی تھی اپنے قبیلہ کے سواروں کی حفاظت میں خصم کے سپاہیوں پر تا پڑتوڑ حملے کر رہی تھی ۔قعقاع نے حکم دیا تھا کہ ان اونٹوں کے ذریعہ دشمن کی سوارفوج کی صفوں پر حملہ آور ہوں تاکہ دشمن کے گھوڑے مسلمانوں کے سر تا پاڈھانپے گئے اونٹوں کو ہاتھی سمجھ کر ڈر کے مارے بھاگ جائیں اور دشمن کی فوج میں بھگدڑ مچ جائے بالاخر ایسا ہی ہوا اور دشمن کی فوج پر کاری ضرب لگ گئی ۔اغواث کے دن قعقاع کی اس فوجی حکمت عملی کے نتیجہ میں ایرانی فوج کو جس قدر جانی نقصان اٹھانا پڑا وہ ارماث کے دن کی شکست اور جانی نقصان سے کہیں شدید اور سنگین تھا جو مشرکین سے مسلمانوں کو اٹھانا پڑا تھا۔

اغواث کے دن جنگ کے دوران قعقاع جہاں کہیں بھی مشرکین کے سواروں کو پاتا تھا ،ان پر حملہ کرکے انھیں بری طرح شکست دیتا تھا اور ہر حملہ میں ان کے نامور سپاہیوں کے ایک گروہ کو موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ قعقاع نے اس روز دشمن کی فوج پر تیس ایسے حملے کئے کہ ہر حملہ میں ان کے کسی نہ کسی پہلوان اور دلاور کو موت کے گھاٹ اتارتا تھا تیسویں حملہ مین اس نے '' بزرگ مہر '' کو قتل کر ڈالا اس سلسلے میں قعقاع نے یہ شعر کہے ہیں :

''میں ان کو اپنے حملوں سے اذیت پہنچاتاہوں ،ان پر نیزے پرساتا ہوں اور ان نیزوں کو صحیح نشانوں پر مارتا ہوں ۔اس طرح اپنے لئے بہشت میں بہترین جگہ کی امید رکھتا ہوں ۔میں اپنی تلوار کی جان لیوا ضرب ان پر لگاتا تھا ،وہ تلوار جو سورج کی کرنوں کی طرح چمکتی تھی ۔اغواث کے دن میں نے پراکندہ اور فراری ایرانیوں کو اپنے نیزوں کا نشان بنا دیا ۔جب تک میرے اور میرے ساتھیوں کے بدن میں جان ہے ہم جنگ کو جاری رکھیں گے ''

٣۔روز عماس : طبری نے سیف بن عمرو سے نقل کرتے ہوئے '' روز عماس '' کے بارے میں تفصیل سے یوں لکھا ہے:

''قعقاع بن عمرو نے اپنے افراد کو رات کی تاریکی میں منتشر حالت میں اسی جگہ بھیجا ،جہاں پر اغواث کی شب کو جمع ہوئے تھے اور ان کے ساتھ طے کیا کہ اس بار سو سو افراد پر مشتمل دستہ کی صورت میں صبح سویرے روز اغواث کے مانند اسلامی فوج کے ساتھ جاکر ملحق ہوں ،تاکہ اس طرح اسلامی فوج کی امید یں اور حوصلے بڑھ جائیں قعقاع کی اس فوجی حکمت عملی سے دشمن کی فوج کا ایک شخص بھی آگاہ نہ ہوا۔

۱۸۶

فوجی کمان کے صدر مقام پر قعقاع بذات خود حاضر تھا ۔پو پھٹتے ہی اپنی فوج کے پہلے دستہ کی آمد کا منتظر افق کی طرف آنکھیں گاڑے ہوئے تھا کہ اچانک اس کے سوار وں کی گرد دور سے اڑتی ہوئی نظر آئی ۔قعقاع نے تازہ دم امدادی فوج کی آمد کی خبر دینے کے لئے تکبیر کی آواز بلند کی ،اسلامی فوج نے اس تکبیر کو سن کر جواب میں تکبیر کہی اور ان کے حوصلے بلند ہوگئے

سعد وقاص نے جب دیکھا کہ دشمن کے جنگی ہاتھی مسلمانوں کی فوج کی صفوں میں شگاف پیدا کر رہے ہیں اور عنقریب اسلامی فوج کا شیرازہ بکھرنے والا ہے تو اس نے خاندان تمیم کے دو نامور پہلوانوں ،قعقاع اور اس کے بھائی عاصم کو حکم دیا کہ وہ کوئی چارہ تلاش کریں اور سفید ہاتھی کہ دوسرے ہاتھی جس کے پیچھے پیچھے حرکت کر رہے تھے کو موت کے گھاٹ اتار دیں ۔دونوں بھائی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دو چھوٹے ،مضبوط ١ لیکن نرم اور لچک دار نیزے اٹھاکر چند ساتھیوں کے ہمراہ انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے لشکر سے جدا ہو کر آگے بڑھے اور بالآخر اس راہنماسفید ہاتھی کے نزدیک پہنچے جب سفید ہاتھی مکمل طور پر ان کے سامنے پہنچا اور ان دو پہلوانوں کے حملے کی زد میں آگیا ،تو دونوں بھائی بجلی کی طرح اس سفید ہاتھی پر ٹوٹ پڑے اور بڑی مہارت اور پوری طاقت کے ساتھ اس کی دونوں آنکھوں میں نیزے بھونک دئے اور اسے اندھا کر دیا ۔ہاتھی نے درد کے مارے تڑپتے ہوئے غصہ کی حالت میں اپنی سونڈ کو بلند کیا کہ قعقاع نے انتہائی مہارت اور چابکدستی سے تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کو کاٹ کر رکھ دیا ۔ہاتھی دھڑام سے زمین پر گر گیا اور اس کا سارا کروفر ختم ہو گیا ۔

قعقاع نے اس فتحیابی پر یہ شعر کہے ہیں :

''میرے خاندان ،فرزندان یعمر نے جنگ و پیکار میں میری حوصلہ افزائی کی وہ اس ہمت افزائی میں کیا خوب نیزوں کو میدان کارزار میں لہرا تے تھے ،جس دن آزاد کردہ لوگوں کی حمایت میں اٹھ کر جنگ قادسیہ کے لئے آگے بڑھے تھے۔میرے خاندان نے جنگ کی ذمہ داری سے کبھی پہلو تہی نہیں کی ہے ۔جب میں دشمن سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہوجائوں تو ان کی فو ج کو جہاں کہیں بھی ہو تہس نہس کرکے رکھدوں گا۔میں جنگوں میں مشکلات کو مول لیتا ہوں اور عمارتوں کے برابر عظیم الجثہ ہاتھیوں کو جب حملہ آور حالت میں دیکھتا ہوں تو اپنے نیزے کو ان کی آنکھوں میں بھونک دیتا ہوں ۔''

۱۸۷

ابن عساکر نے سیف سے نقل کیا ہے کہ ام المومنین عائشہ نے کہا ہے :

''قعقاع پہلا پہلوان ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں مسلمانوں کو عملی طور پر سکھایا کہ کس طرح ہاتھی کی سونڈ کو کاٹ دینا چاہئے ۔ اس کے بعد مسلمان ہاتھیوں پر جان لیوا تیروں کی بارش کرتے تھے ،جو صرف ہاتھیوں پر لگتے تھے اس کے بعد ان کی سونڈکاٹ کر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے ...!''

ابن حجر نے بھی قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے ام المونین عائشہ کی زبانی مختصر طور پر اسی داستان کو نقل کیا ہے ۔

اسلامی ثقافت پر سیف کی روایتوں کے اثرات :

حموی ،سیف کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے لغت ''اغواث'' کے بارے میں لکھتا ہے :

''مجھے معلوم نہیں ارماث ،اغواث اور عماس ہر ایک کسی جگہ کے نام ہیں یا لفظ رمث،غوث اور عمس سے لئے گئے ہیں ۔بہرحال قعقاع بن عمرو نے اپنے اشعار میں روز اغواث کے بارے میں اشارہ کیا ہے ۔اور وہ پہلا دن تھا،جس دن قعقاع نے شام سے واپسی پر قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے۔''

لفظ عماس کے بارے میں لکھتا ہے :

''عماس عین پر کسرہ کے ساتھ جنگ قادسیہ کا تیسرا دن ہے ۔مجھے معلوم نہیں کہ ''عماس''کسی جگہ کا نام ہے یالفظ ''عمس ''سے لیا گیا ہے جو ''معس''کا مقلوب ہے۔

روز اغواث جو سیف کے خیالات کی تخلیق ہے نے بہت شہرت حاصل کی ہے ،اس حد تک کہ ابن عبدون نے اپنے اشعار میں اس دن کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور ابن بدرون نے اس کے قصیدہ کی تشریح کی ہے اس میں روز اغواث کے بارے میں سیف کی تمام روایت کو نقل کیا ہے۔ ٢

قلقشندی وفات ٨٢١ھ نے روز ''اغواث ''کو اسلام کے معروف دنوں کے طور پر ذکر کیا ہے ۔ ٣

زبیدی وفات١٢٠٠ھ نے ''تاج العروس ''میں لفظ ''اغواث ''کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے :

''روز اغواث ،جنگ قادسیہ کا دوسرا دن تھا ،اور قعقاع بن عمرو نے اس روز درج ذیل شعر کہے ہیں :

''عربی گھوڑے ہمارے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتے تھے...''تاآخر

۱۸۸

لیلةالھریر

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ٤

''جب عماس کا دن تمام ہو ااور رات آئی تو جنگجوئو ں نے تھوڑی دیر کے لئے لڑائی روک لی ۔پھر رات بھر دونوں لشکر دوبارہ جنگ میں مصروف ہوگئے ۔شب کے سناٹے میں تلواروں کی جھنکار جنگجوئوں کے بگل کی آواز سے مل کر ایک عجیب اور مرموز آواز پیدا کررہی تھی اسی لئے اسے ''لیلة الھریر''کا نام دیا گیاہے۔یعنی وہ شب جس میں کتے کے رونے کی آواز آتی ہو۔''

طبری نے سیف سے روایت کی ہے:

''ایرانیوں نے مسلمانوں کے محاذ پر اندھا دھند اور جان لیوا تیر اندازی کی ، جس کے نتیجہ میں خالد بن یعمر تمیمی مارا گیا۔قعقاع نے جب یہ حال دیکھا تو جذبات میں آکر سعد وقاص سے اجازت لئے بغیر دشمن کے تیر اندازوں پر ٹوٹ پڑا۔ وہ خالد کے سوگ میں یوں رجز پڑھ رہا تھا:

''خدا ،ابن یعمر کے مزار کو سیراب کرے ۔جب مسافر بار باندھ رہے ہیں وہ اپنی جگہ پر باقی ہے ۔خدا صبح کی بارش سے اس زمین کو ہمیشہ سیراب کرے جہاں پرخالد کی قبر ہے۔میں نے قسم کھائی ہے کہ میری تلوار ہمیشہ دشمنوں کے خون سے رنگین رہے اور ان کو قتل کرے ۔اگر لوگ یہاں سے چلے جائیں ،پھر بھی خالد یہیں پر رہے گا۔''

سپہ سالار ،سعد نے جب قعقاع کی بغیر اجازت جنگ کا مشاہدہ کیا،تو ہاتھ اٹھاکر دعا کی:خداوندا!اسے اس نافرمانی کے لئے بخش دے اور اس کی مدد فرما!اس وقت میں اسے اجازت دیتا ہوں ۔اس کے بعد اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ قعقاع کی مدد کے لئے فوری طور پر آگے بڑھیں ۔

اس رات پو پھٹنے تک جنگ کا بازار اتنا گرم رہا کہ اس کے شعلے بھڑک رہے تھے ، سعد وقاص نے فتحیابی کی نوید پر مشتمل جو پہلی آواز سنی وہ قعقاع کی درج ذیل آواز تھی:

''ہم نے ایک ،چار اور پانچ کے گروہ کو نابود کردیا ۔ان میں ان مردوں کوبھی شمار کیا،جو گھوڑوں پر زہریلے نر سانپوں کی طرح سوار تھے۔چونکہ ہم نے ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردیا ،لہٰذا خدا کا شکر ادا کیا۔''

۱۸۹

جنگجوئوں نے اس رات آنکھ نہ جھپکائی بلکہ پو پھٹنے تک دشمنوں سے جنگ کرتے رہے۔ اس تھکاوٹ اور بے خوابی کے عالم میں قعقاع لشکر کے درمیان گھوم گھوم کر لوگوں سے کہہ رہا تھا : '' ایک گھنٹہ صبر کرو کہ استقامت کے سائے میں کامیابی مضمرہے'' قعقاع کی اس گفتگو کو سن کر بعض فوجی افسر اس سے ہم آہنگ ہو کر جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرنے کے لئے دشمن کی فوج کے سپہ سالار رستم کی طرف حملہ آور ہوئے اور ایک گھمسان جنگ کے بعد پو پھٹتے ہی اپنے آپ کو اس کے نزدیک پہنچا دیا دوسری طرف بقیہ تمام قبائل کے سردار وں نے جب قعقاع کے فیصلہ کن حملہ کا مشاہدہ کیا تو اپنے افراد کو بھی ڈٹ کر لڑنے کے لئے آمادہ کیا ۔اسی دوران ہوا کا ایک طوفان آیا اور ایک ہولناک بگولے نے ایرانی فوج کے سپہ سالار کا تخت نیچے گرا دیا ۔اسی حالت میں قعقاع اور اس کے ساتھی اس کے پاس پہنچے اور اس کا کام تمام کردیا ۔رستم کے قتل ہونے سے دشمن کی فوج کا شیرازہ بکھر گیا اور مشرکین بھاگنے پر مجبور ہو گئے اور مسلمان فتحیاب ہوگئے ۔

سعد وقاص نے قعقاع اور دیگر سپاہیوں کو حکم دیا کہ فراریوں کا پیچھا کریں ۔فراری جب دریا پر بنے پل سے گزرے تو انھوں نے پل کو اٹھا دیا تاکہ مسلمانوں کی پیش قدمی روک سکیں ''

''اطلال '' گھوڑے کی گفتگو

'' بکیر ،اطلال نامی ایک گھوڑے پر سوار دشمنوں کا پیچھا کر رہا تھا ۔دریائے قادسیہ کے کنارے اپنے گھوڑے سے بلند آواز میں بولا : اطلال چھلانگ مارااطلال نے اپنے سوار کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے آپ کو سمیٹا اور بولا سورۂ بقرہ کی قسم میں چھلانگ مارتا ہوں !یہ کہتے ہوئے اطلال نے چھلانگ لگائی اور دریا کے اس پار زمین پر اترا ۔اس کے بعد دوسرے سواروں نے بھی اپنے گوڑے دریا میں ڈال دیئے اور اس کو پار کرتے ہوئے فراری دشمنوں کا پیچھا کیا ،جسے بھی پاتے تھے اسے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتے تھے ،حتی نجف کی بلندیوں تک پہنچ گئے اور اس کے بعد واپس لوٹے ''

۱۹۰

بکیر کے گھوڑے ،اطلال کی گفتگو اور دریاکے اوپر سے چھلانگ لگانے کے لئے اس گھوڑے کی سورہ بقرہ کی قسم کھانے کے بارے میں سیف کے افسانہ نے تعجب انگیز حد تک شہرت پائی ہے اور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں سیف کی روایت میں کچھ بڑھا گھٹا کر اسے نقل کیا ہے اگر چہ اس افسانہ کے سر چشمہ ،یعنی سیف بن عمر کا کوئی اشارہ نہیں کیا ہے منجملہ ابن کلبی اطلال کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''اطلال ،بکیر بن عبداللہ الشداخ اللیثی کے گھوڑے کا نام ہے کہ یہ شخص قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کے ہمراہ موجود تھا ''

مزید لکھتا ہے :

'' خدا بہتر جانتا ہے ،جب ایرانیوں نے دریائے قادسیہ کے پل کو مسلمانوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے اٹھا دیا تھا ۔بکیر دریا کے کنارے پہنچ کر اپنے گھوڑے اطلال سے مخاطب ہوکر بلند آواز میں بولا : اطلال چھلانگ لگا !اطلال نے خود کو سمیٹا اور چھلانگ لگائی ۔خدا نے اس دن مشرکین کو شکست دے دی کہا جاتا ہے کہ ان دنوں دریائے قادسیہ کی چوڑائی چالیس ہاتھ تھی ۔مشرکین نے جب دریا کی اس چوڑائی سے بکیر کے گھوڑے کو چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا تو وہ تعجب سے کہنے لگے کہ یہ الٰہی امر ہے ''

اس کے علاوہ ابن الا عرابی نے اپنی کتاب ''انساب الخیل ''میں ،غند جانی نے اپنی کتاب ''اسماء الخیل العرب''میں اور بلقینی نے اپنی کتاب ''امرالخیل ''میں اس داستان کی طرف اشارہ کیاہے۔

اسی طرح لغت کی کتابوں میں بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔لفظ ''طلل '' کے بارے میں ابن منظور کی کتاب ''لسان العرب ''میں یوں ذکر آیا ہے:

''لوگ کہتے ہیں کہ جب قادسیہ کی جنگ میں ایرانی فرار کررہے تھے ،اطلال نے گفتگو کی ہے ۔داستان اس طرح ہے کہ جب مسلمان فراریوں کاپیچھا کرتے ہوئے اس دریا کے کنارے پر پہنچے جس کاپل ایرانیوں نے اٹھادیا تھا ،تو سوار نے اپنے گھوڑے سے مخاطب ہوکر کہا:''اطلال ،چھلانگ لگا !''گھوڑے نے جواب میں کہا : سورۂ بقرہ کی قسم میں چھلانگ لگا تا ہوں !''

۱۹۱

فیروز آبادی نے اپنی لغت میں لکھا ہے :

''کہتے ہیں کہ اطلال نے قادسیہ کی جنگ میں دریا کے کنارے اپنے سوار سے گفتگو کی ہے ۔جب سوار نے اس سے مخاطب ہوکر کہا :''اطلال چھلانگ مار''تو اطلال اس کے جواب میں بولا:''سورۂ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگادی ۔''

زبیدی نے بھی تاج العروس میں یہی مطالب درج کئے ہیں ۔

یہ وہ مطالب تھے جوسیف بن عمر نے جنگ ِقادسیہ کے تین دنوں کے بارے میں بیان کئے ہیں ۔''لیلةالحریر ''کے بارے میں بلاذری کی ''فتوح البلدان ''میں اس نام کا صرف اشارہ ہوا ہے لیکن جس چیز کو سیف نے تفصیل سے بیان کیا ہے وہ اس میں نہیں پائی جاتی۔

بکیر اور اس کے اطلال نامی گھوڑے کی حقیقت سے کسی کو انکارنہیں ہے اور بکیر کانام ''فتح موقنان''میں آیا ہے ۔لیکن اطلال کی گفتگو اور سورہ بقرہ کی قسم کھانے کی فقط سیف نے روایت کی ہے ، کسی اور نے ٥اس سلسلے میں کچھ نہیں لکھاہے۔

سند ِروایت کی پڑتال :

قعقاع کی شام سے عراق کی طرف واپسی اور اس کے عراق کی دوسری جنگوں میں شرکت کے موضوع کے بارے میں سیف کی روایات کی سند میں ابو عثمان یزید،زیادبن سرجس،محمداورغصن جیسے راوی ملتے ہیں ۔اور پہلے یہ ثابت ہوچکاہے کہ یہ سب راوی سیف کے خیالات کی تخلیق اور جعلی ہیں اوران کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ سیف نے عمر بن ریان کواس حدیث کے راوی کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ۔ اس کانام تاریخ طبری میں پانچ حدیثوں کے راوی کے طور پر آیاہے۔

۱۹۲

اس راوی کی حسب ذیل صورت میں معرفی کی گئی ہے :

''یہ وہ شخص ہے جس سے سیف بن عمرنے روایت کی ہے اور یہ ایک مجہول شخص ہے ، اور بس۔''

اسی طرح سیف نے جن راویوں سے صرف ایک حدیث روایت کرنے پر اکتفاکی ہے ، ان کو ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کتاب ،فہرست یا طبقات میں نہیں پایا۔ایسے راویوں میں حمید بن ابی شجار ،قبیلہ طی کا ابن محراق نام کا ایک شخص !اور عصمد الوائلی سے جخدب ،جرعب قابل ذکر ہیں حتی ہم یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ سیف نے ابن محراق یاقبیلہ طی کے اس شخص کا اپنے خیال میں کیا نام رکھا ہے ۔

لگتا ہے کہ سیف بن عمر نے ایسے افسانوں اور راویوں کو نقل کرکے لوگوں کامضحکہ اڑایا ہے اور کبھی کوئی سنجیدہ بات نہیں کی ہے ۔خاص کر جب وہ اپنی حدیث کے راویوں کی حیثیت سے قبیلہ ٔ طی کے ابن محراق وغیرہ جیسے افراد کاذکر کرتا ہے ۔کیااس کے زندیقی ہونے کے علاوہ کوئی اور سبب ہو سکتا ہے جو سیف کو ایسے افسانے تخلیق کرنے اور ایسے عجیب وغریب ناموں کے ذریعہ اپنی روایتوں کو مستند بنانے کے لئے آمادہ کرے ؟!

یہ روایت کہاں تک پہنچی اور بحث کانتیجہ :

سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ کے لئے تین دن مخصوص کرکے ان کو الگ الگ نام سے یاد کیا ہے ۔یہ تنہا راوی ہے جس نے قعقاع کی سرپرستی میں عراقی سپاہیوں کی اپنے وطن کی طرف واپسی کاذکر کیا ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی شخص نے ایسی چیزیں نہیں لکھی ہیں ۔ایسے میں امام مؤرخین ابن جریر طبری آکر ان تمام مطالب کو سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کرتا ہے اور ابن اثیر نے بھی ان سب روایتوں کو ایک جگہ جمع کرکے طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی خاص روش کے تحت سند کا ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ۔ابن کثیر نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کرکے اس کا ایک حصہ خلاصہ کے طور پر درج کیا ہے اور اس کی ابتدا ء میں یوں لکھتا ہے :

۱۹۳

'' ابن جریر طبری خدا اس پر رحمت نازل کرے اس طرح لکھاہے :.... اس کے بعد سیف کی روایت نقل کرتے ہوئے ٩بار سیف بن عمر کا نام لیتا ہے ۔ابن خلدون نے بھی اس داستان کو نقل کرتے ہوئے بات کو اس طرح شروع کیا ہے : سیف کہتا ہے :....تاآخر''

میر خواندنے بھی '' روضة الصفا '' میں ان افسانوں کو درج کیا ہے ،لیکن اپنی خاص روش کے مطابق سند کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں یہ افسانے تخلیق کئے ہیں ٦ جن افسانوں کا ہم نے اس سلسلے میں اب تک ذکر کیا ان کا وہ تنہا راوی ہے اور دوسرے مورخین نے اس سے نقل کرکے ان مطالب کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور ہم نے اس امر کو مختلف مراحل میں ثابت بھی کیا ہے ۔

قابل توجہ بات ہے کہ سیف نے اپنی داستان کو گڑھتے وقت یہ کوشش کی ہے کہ ایک داستان دوسری داستان کی تائید کرے اور ایک مطلب دوسرے موضوع کا گواہ بنے اس سلسلے میں قعقاع اور اس کی شجاعت اور کارناموں کے بارے میں گڑھا ہوا افسانہ بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے ، جس میں جگہ جگہ پرسیف کا اس بات پر اصرار نظر آتا ہے کہ ابوبکر کی قعقاع کے بارے میں کی گئی ستائش کی لوگوں کی زبانی تائید کرائی جائے مثلاوہ کہتا ہے :

'' لوگ قعقاع کی تعریف اور ستائش میں ایک دوسرے کو اشارہ کرکے یہ کہتے تھے کہ '' یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے : جس فوج میں اس جیسا دلاور اور پہلوان موجود ہو وہ ہر گز شکست سے دو چار نہیں ہوگی !''

اس طرح سیف اپنی سابقہ بات جو اس نے ابوبکر کی زبانی قعقاع کی تعریف میں گڑھی ہے پر تاکید کرتے ہوئے اسے ایک ناقابل انکار حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے

۱۹۴

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ قادسیہ کی جنگ میں بکیر کے گھوڑے اطلال کی گفتگو کو اس قدر شہرت بخشی گئی کہ اس موضوع کو اہم کتابوں میں درج کرکے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے بجائے اس کے کہ اس مطلب پر ایک علمی تحقیق کی جائے اور اس تخلیق کے سر چشمہ کو علم و عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے ،اس متبذل افسانہ کو کتابوں میں درج کیا گیا ہے اور اسی طرح واضح خرافات کو تاریخ کے حقیقی واقعات کے طور پر پیش کیا گیاہے ۔لوگوں میں اس افسانہ کی مقبولیت اور شہرت کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس افسانہ کو اس طرح گڑھ لیا گیا ہے تاکہ عوام کو پسند ہو اور اپنے اسلاف و اجداد کی کرامتیں اور غیر معمولی قصے سننے کے شائقین کی مرضی کے مطابق ہو ۔چوں کہ جس قدر افسانہ سنسنی خیز ہو اسی قدر اس کی شہرت بھی زیادہ ہوتی ہے ؟!

ساس داستان کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے اس داستان کو گڑھ کر کیا مقصد پایا ہے اور اس افسانہ سرائی سے کون سے نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ اپنے ہم قبیلہ قعقاع تمیمی کے لئے ایسی شجاعتیں اور بہادریاں خلق کی ہیں کہ افسانوں کی تاریخ ،حتی اسلام کے واقعی پہلوانوں میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی ۔

٢۔ فوج کی ہمت افزائی کے لئے میدان کا رزار میں سپاہیوں کو بھیجتے وقت دودن کے اندر دوبار مختلف دستوں میں مساوی طور پر بانٹنے کے سلسلے میں قعقاع کی فوجی حکمت عملی کی دقیق تشریح کرنا

٣۔سرگروہ ہاتھی کی سونڈ کو کاٹ دینا ،جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے دشمن پر فتح پائی ۔خاص کر اس دعویٰ کے بارے میں ام المومنین عائشہ کی تاکید اور گواہی بیان کرنا۔

٤۔ ارماث ،اغواث اور عماس کے نام سے تین سنسنی خیز تاریخی دنوں کی تخلیق ۔

٥۔رجز اور رزمینہ قصائد کی تخلیق کرکے قدیمی ادب کو مزین کرنا ۔

٦۔آخر میں بکیر کے گھوڑے اطلال کی معجزہ نما گفتگو ،خاص کر اس کا فصیح عربی میں بات کرنا اور سورہ بقرہ کی قسم کھانا!۔

۱۹۵

جنگ کے بعد کے حوادث

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

''ایرانیوں کی شکست اور ان کے فرار کے بعد تیس سے زیادہ فوجی دستے فرار کی شرمندگی کو اختیار نہ کرتے ہوئے سرداروں کے ہمراہ اپنی جگہ پر ڈٹے رہے ۔لہٰذا تیس سے زیادہ اسلامی سپہ سالار ان کے مقابلے میں آئے اور از سر نو جنگ شروع ہوگئی ۔اس معرکہ میں خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع نے اپنے ہم پلہ ایرانی پہلوان قارن کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس کے قتل ہونے پر ایرانیوں کے باقی ماندہ فوجی دستے یا قتل ہوئے یا میدان جنگ سے فرار کر گئے ۔اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے فراریوں کا پیچھا کرنے کا حکم دیا اور قعقاع ابن عمرو کو اس کی ذمہ داری سونپی''

اس کے علاوہ روایت کرتا ہے کہ جریر بن عبداللہ بجلی نے اس دن یہ شعر کہے ہیں :

'' میں جریر ہوں اور ابو عمر و میری کنیت ہے ۔خدا نے جنگ میں ہماری مدد فرمائی جب کہ سعد اپنے محل میں بیٹھاتھا''

جریر کی یہ باتیں سعدوقاص تک پہنچیں تو سعد نے جواب میں کہا :

''مجھے خاندان بجیلہ کے جنگجوئوں سے کوئی توقع نہیں ہے خدا سے ان کے لئے قیامت کے دن بدلہ چاہتاہوں ۔ان کے گھوڑے ایسے گھوڑوں کے مقابلے میں آئے کہ سواروں کے درمیان مڈبھیڑ ہوگئی ۔اگر دو تمیمی سورما قعقاع بن عمرو اور حمال نہ ہوتے تو بجیلیوں کو ہزیمت اٹھاناپڑتی کیوں کہ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے نیزوں اور تلواروں سے دشمنوں کی چمڑی اتار ی اور تمھارے گروہ کا دفاع کیا اگر ان دو پہلوانوں کا دفاع نہ ہوتا تو تم اس وقت ایسے گروہوں کو اپنے سامنے دیکھتے جو تمھارے گروہ کو مکھی کی طرح بے بس کرکے رکھ دیتے ''

۱۹۶

مندرجہ بالا اشعار کو سیف نے اسی صورت میں ذکر کیا ہے جب کہ طبری نے ابن اسحاق سے نقل کرتے ہوئے پہلے دو شعر کے بعد یوں بیان کیا ہے :

'' ان کے میدان جنگ میں ایسے ہاتھی آئے جو عظیم الجثہ ہونے کے لحاظ سے بڑی کشتیوں کے مانند تھے ''

اس کے بعد تین شعر جن کا سیف نے اضافہ کیا ہے اس میں نظر نہیں آتے ۔معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنی روایت میں تیسرا شعر جس میں بجیلہ قحطانی کی تعریف و تمجید ہوئی ہے کو حذف کیا ہے اس کی جگہ پر ایسے تین شعر گڑھ لئے ہیں جن میں قعقاع تمیمی اور حمل اسدی مضری کی تعریف و تمجید اور بجیلۂ قحطانی یمانی کی مذمت کی گئی ہے ۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ سیف ابن عمر تمیمی نہ فقط اسلام کے لئے افسانوی تاریخ جعل کرتا ہے بلکہ دوسروں کے اشعار اور قصیدوں میں بھی قبیلہ مضر کے حق میں تصرف کرتا ہے ۔

بے شوہر یمانی عورتیں :

سیف نے روایت کی ہے :

''قادسیہ کی جنگ میں قبائل عرب میں سے کوئی بھی قبیلہ بے سر پرست عورتوں کے لحاظ سے بجیلہ اور نخع قبیلوں کے برابر نہ تھا ۔اس کا یہ سبب تھا کہ خالد بن ولید نے عراق میں اپنی جنگوں کے دوران اس علاقہ کے باشندوں کی اجتماعی نابودی اور قتل عام کے سبب عراق کو مسلمانوں کی رہائش کے لئے آمادہ کیا تھا ۔اسی اطمینان اور امید کی وجہ سے دو یمانی قبیلے اپنے خاندان کے تمام افراد کے ساتھ قادسیہ کی جنگ میں شریک ہوئے تھے ۔اس جنگ میں ان دو قبیلوں کے ایک ہزار سات سو مرد کام آئے جس کے نتیجہ میں خاندان نخع میں سات سو اور خاندان بجیلہ میں ایک ہزار عورتیں اپنے شوہروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں ''

مہاجرین نے بزرگواری کا ثبوت دیتے ہوئے ان بیوہ عورتوں کو اپنی حمایت و سرپرستی فراہم کی اور ان کے ساتھ شادی کی ۔

۱۹۷

یہ شادیاں جنگ کے دوران اور اسی طرح دشمن پر فتح پانے کے بعد انجام پائیں ان ایک ہزار سات سو بیوہ عورتوں میں سے عامر ہلالیہ نخع کی بیٹی اروی کے علاوہ ایک بھی عورت بے سرپرست نہ رہی ۔جنگ قادسیہ کے بعد اس عورت سے بھی بکیر بن عبد اللہ (وہی سورما جس سے اس کے گھوڑے نے گفتگو کی تھی)،عتبہ بن فرقد اللیثی اور سماک بن خرشہ انصاری نے خواست گاری کی ۔ اروی ان نامور عرب پہلوانوں کی خواست گاری کے جواب میں کسی ایک کے انتخاب کرنے میں شش وپنج میں پڑی مجبور ہوکر اس نے اپنی بہن ھنیدہ قعقاع کی بیوی سے مدد کی درخواست کی اور اس سلسلے میں اس کے شوہر سے اظہار نظر کوکہا۔ہنیدہ نے یہ بات اپنے شوہر سے بیان کی۔قعقاع نے جواب میں کہا:میں شعر کی زبان میں ان کی توصیف کروں گا،تم اسے اپنی بہن کے پاس پہنچادینا تاکہ اس کے لئے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا آسان ہوجائے۔اس کے بعد اس نے یہ شعر کہا:

''اگر تم درہم ودینار کی طلبگار ہو تو مرد انصاری سماک یا فرقدکو اپنے شوہر کے طور پر انتخاب کرنا اور اگر نیزہ باز ،شجاع ودلیر شہسوار کو پسند کرتی ہوتو بکیر کا انتخاب کرنا۔ان میں سے ہر ایک صاحب کمال وفضیلت ہے ۔میں نے ان کے آئندہ کی خبر دیدی ،تم اپنے حال کو بہتر جانتی ہو!''

ابن حجر سیف بن عمر سے روایت کرتا ہے کہ:

''عمر نے سعد وقاص کولکھا:جنگ قادسیہ کے نامور ترین شہسوار کانام مجھے بتاؤ'' ۔سعد نے خلیفہ کا خط حاصل کرنے کے بعد جواب میں لکھا :''میں قعقاع بن عمرو جیسا سورما کسی کو نہیں پاتا،وہ ایسا بہادر ہے جس نے ایک ہی دن میں تیس بار دشمن پر حملہ کیا اور ہر حملہ میں دشمن کے ایک پہلوان کو موت کے گھاٹ اتارا''

قادسیہ کی جنگ کے ان تمام افسانوں کو سیف نے گڑھا ہے۔اس جنگ کے بارے میں اس کی روایتیں دوسروں کی روایتوں کے بر عکس ہیں ۔کیونکہ طبری نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں ابن اسحاق سے بھی روایت کی ہے۔

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں اور دینوری نے اپنی کتاب ''اخبار الطوال''میں ١ جنگ قادسیہ کی تشریح کی ہے۔لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے یہ افسانے دکھائی نہیں دیتے ۔

۱۹۸

سند کی پڑتال:

قادسیہ کی جنگ میں فتحیابی کے بعد کے واقعات کے بارے میں سیف کے راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں ہم نے بارہا کہاہے کہ یہ سیف کے تخیلات کے جعل کردہ راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔اس کے علاوہ چند دیگر مجہول راویوں کانام بھی لیاہے۔

سند کی پڑتال کا نتیجہ:

سیف نے سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے اشعار میں تصرف کرکے ان میں بڑھا گھٹا کر قبیلۂ بجیلہ ٔقحطانی کی مذمت اور قبیلہ مضر کے سرداروں کی مدح وستائش کی ہے۔اسی طرح ایک اور افسانہ جعل کرکے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتوں کو خاندان مضر کے مردوں سے شادی کا افتخار بخش کر انھیں بے سرپرستی اور مفلوک الحالی سے نجات دلائی ہے۔اور اپنے ادبی ذوق سے استفادہ کرتے ہوئے اس داستان کے مطالب کی تائید میں اشعار بھی کہے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے ایک ایسی روایت بھی جعل کی ہے جس میں خلیفہ عمر جنگ قادسیہ کے بہترین اور شجاع ترین شہسوار کو پہچنوانے کا حکم دیتاہے اور سعد وقاص کا جواب ایسا ہے جس میں اس نے سیف کے افسانوی اور جعلی پہلوان قعقاع کی تائید کی ہے۔اس تائید کی سند کے طور پر یہ واقعہ بیان کیاہے کہ قعقاع نے ایک ہی دن میں تیس حملے کئے اور ہر حملہ میں دشمن کے کسی نہ کسی پہلوان کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان میں کا آخری پہلوان ''بزرگ مہر''تھا۔

سیف اپنی روایتوں کو ایسے جعل کرتاہے کہ اس کی روایتیں ایک دوسری کی تائید کرسکیں ۔

۱۹۹

اس داستان کانتیجہ:

سیف اپنے اس جعلی افسانہ میں درج ذیل مقاصد اور نتائج حاصل کرتاہے:

١۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع بن عمرو کے ہاتھوں ایرانی سپہ سالار اور پہلوان قارن کو قتل کرکے قعقاع کے افتخارات اور فضائل میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا۔

٢۔ایک ہزار سات سو قحطانی بیوہ عورتوں کو سیف کے زعم میں جن کے شوہر نااہلی اور جنگی حکمت عملی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میدان جنگ میں ،مارے گئے تھے خاندان مضر کے مردوں کے ساتھ شادی کراکے انھیں فضیلت بخشنا۔

٣۔آخر میں اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے ذریعہ قعقاع بن عمرو تمیمی کو جنگ قادسیہ کے بے مثال پہلوان کی حیثیت سے خلیفہ وقت عمر کی خدمت میں ذکر کرنا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416