ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215581 / ڈاؤنلوڈ: 4976
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

 صرف دوسروں کے لیے دعا کریتیں ہیں۔” اس عظیم ماں نے جواب دیا “يَا بُنَيَّ الْجَارَ ثُمَ‏ الدَّارَ.” بیٹے دعا میں ہمارا ہمسایہ ہم پر مقدم ہوتا ہے” زہرا(ع) جیسی ماں حسن(ع) کی پرورش کرنے والی تھیں یہ روایت آپ سے مروی ہے۔

 “إِنَّ رَجُلًا أَتَى الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي أَعِنِّي عَلَى قَضَاءِ حَاجَةٍ فَانْتَعَلَ وَ قَامَ مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى الْحُسَيْنِ ص وَ هُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ أَيْنَ كُنْتَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ تَسْتَعِينُهُ عَلَى حَاجَتِكَ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَذُكِرَ أَنَّهُ مُعْتَكِفٌ فَقَالَ لَهُ أَمَا إِنَّهُ لَوْ أَعَانَكَ كَانَ خَيْراً لَهُ مِنِ‏ اعْتِكَافِهِ‏ شَهْراً.”

“ ایک شخص کو کوئی ضرورت پیش آئی تو اس نے آپ کو وسیلہ بنایا آپ اس کی خاطر چلے گئے۔ راستے میں دیکھا کہ حضرت امام حسین(ع) نماز پڑھ رہے ہیں آپ نے اس مرد سے پوچھا کہ تم نے حسین(ع) سے اس بارے میں رابطہ کیوں نہیں کیا اس شخص نے جواب دیا کہ امام حسین(ع) اس وقت مسجد میں اعتکاف میں تھے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ تمہاری ضرورت پوری کرتے تو ایک مہینے کے اعتکاف سے بہتر تھا۔

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نسب کے اعتبار سے تمام لوگوں کے سردار تھے حسب اور دیگر فضائل انسانی کے بارے میں آپ سے ہی سنتے ہیں۔

جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت پائی تو آپ (ع) نے فرمایا “ ہم اہل بیت حزب اﷲ ہیں جس کی زیادہ دفعہ معرفت کرادی گئی ہے“فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ‏” بے شک حزب اﷲ ، اﷲ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔” ( سورہ مائدہ آیت 56 ) ہم عترت رسول(ص) ہیں کہ حضور اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کی رو سے ہمیں قرآن کے ہم پلہ اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے۔

“إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ‏ كِتَابَ‏ اللَّهِ‏ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ”

“ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی مگر یہ

۶۱

 کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں”

 ہم ہی قرآن کی  تنزیل و تاویل کے عالم ہیں ہمیں قرآن میں معصوم اور مطہر کے نام سے پکارا گیا ہے۔

“ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً”

“ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن میں ان کو یہ حکم دیا گیا ہے۔

حضرت امام حسن(ع) کا صلح کرنا

حضرت امام حسن علیہ السلام کے اقدامات میں سے مسلمانوں اور اسلام کے لئے مفید اقدام معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ہے آپ کا یہ اقدام ان لوگوں کے نزدیک جو اسلام اور تاریخ سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں مورد شک قرار پاتا ہے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح قیام کیوں نہیں کیا۔

جو بات سب سے پہلے ذہن میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین(ع) کا قیام حضرت امام حسن(ع) کے صلح کے بیس سال بعد واقع ہوا ہے امام حسین علیہ السلام دس سال تک حضرت امام حسن علیہ السلام کےساتھ رہے اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے بعد دس سال امام کا مںصب بھی تھا، اختیار بھی تھا لیکن ان دس سالوں میں قیام نہیں کیا۔ امامت کے ان دس سالوں کے بعد آپ نے قیام کیا۔ کیا امام حسین(ع) کے اس تاخیر پر کسی کو اعتراض ہے؟ قطعی نہیں! اگر اس منزل پر کوئی اعتراض ہے تو صرف امام حسن علیہ السلام پر نہیں بلکہ دونوں اماموں پر ہو جاتا ہے یہ بات خود اس کی دلیل ہے کہ قیام کرنا اور تحریک چلانے کے لیے موقع و محل درکار ہے اور ان بیس سالوں میں اس قسم کا کوئی موقع و محل موجود نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ امیر معاویہ موجودہ اصطلاح میں ایک ماہر سیاستدان تھا۔ اور ہر ممکن ذریعے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جھوٹ ، فریب ، ظلم و قتل و غارت گری، پارٹی بازی ،

۶۲

 یا رشوت دے کر جو بھی ذریعہ اختیار کرنا پڑے اختیار کرتا تھا۔ اور ان ہی ذرائع کے وجہ سے اس کی حکومت قائم رہی جس کا ذکر تمام سنی و شیعہ کتب تاریخ میں موجود ہے۔ امیر معاویہ نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف سے تیس سال حکومت کی۔ ابن ابی الحدید کے کہنے کے مطابق حضرت عمر اپنے گورنروں کے ساتھ غیر معمولی حد تک سخت گیر تھے یعنی جب ابوہریرہ کےبارے میں سنا کہ دس ہزار درہم اس کے ذاتی جمع ہیں تو انہیں فورا اپنے دربارمیں بلایا اور کوڑے مارے یہاں تک کہ اس پیٹھ پر زخم پڑ گئے۔ اسے عہدے سے معزول کرنے کے علاوہ اس کا مال بھی ضبط کیا۔ جب خالد بن ولید کے  بارے میں سنا کہ اشعث بن قیس کو دس ہزار درہم ہدیہ دیا ہے تو حکم دیا اسے حمص میں ہی جہاں کے وہ گورنر تھے اس کے عمامے سے گلے میں باندھ کر ذلیل کر کے مسجد میں لے جایا جائے اور اس کے بعد اسے معزول کیا جائے۔ ایسا ہی کچھ  ابو موسی اشعری، قدامہ بن نطعون اور حارث بن وہب کے ساتھ ہوا مگر معاویہ کے معاملے میں آپ بھی خاموش رہے اور دیکھتے رہے کہ عالی شان محل ہے خود وہ اور اس کے احباب ریشم کا لباس پہننے ہیں۔ ، کفار کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اسراف میں تو مشہور ہوئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بدھ کے دن جمعہ کی نماز پڑھا کر اپنے وفاداروں کو آزمادیا گیا۔ امیر شام ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے رسول(ص) کے صحابہ کو اپنے گرد جمع کیا ابو ہریرہ ، ابو موسی اشعری جیسے لوگوں کو جعلی حدیثیں گڑھنے کے لیے خریدا ہوا تھا عمر ابن عاص جیسے شخص کو خریدا ہوا تھا جس نے نیزے پر قرآن کو بلند کیا۔ ثالث کی پیشکش اور ابو موسی کا فریب دینا تو تاریخ میں مسلم ہے معاویہ فوجی انتظام کا ماہر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) کا ایک آدمی ایک دفعہ شام چلا گیا  معاویہ نے کہا کہ جاکر ان کی اونٹی کو چرائے ایسا ہی کیا گیا لیکن تلاش کے بعد جب اس شخص نے اونٹنی کو کسی کے پاس

۶۳

دیکھ کر دعویٰ دائر کیا تو مدعا علیہ نے چالیس گواہ پیش کئے یہ اونٹ اسی کا ہے جب کہ مدعی کا دعوی اونٹنی پر تھا۔ گواہی کے مطابق اونٹنی کو اونٹ قرار دے کر مدعا علیہ کو دیا گیا مگر معاویہ نے مدعی کو بلا کر ایک اونٹنی اور بہت رقم دے کر کہا میری طرف سے جا کر علی ابن ابی طالب(ع) کو کہو کہ ان گواہوں جیسے لاکھوں افراد کو تمہارے ساتھ جنگ پر بھیجوں گا جو اونٹ اور اونٹنی میں فرق نہیں جانتے ۔”

حضرت امام حسن(ع) کے حامی

جن لوگوں نے حضرت امام حسن(ع) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ایسے لوگ تھے جنہوں نے جنگ جمل، صفین اور نہروان وغیرہ میں شرکت کی تھی تھکے ہوئے اور نا امید تھے ایسے افراد تھے جن کے درمیان خوارج اور ان کے طرف دار ان کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے انہوں نے حضرت امام حسن(ع) کی بیعت اس لئے کی ہوئی تھی کہ اگر معاویہ پر امام فتح پائیں تو یہ آپ (ع) کو ہٹا کر خود حکومت کریں لیکن ان کے درمیان اہلیت رکھنے والے افراد بہت کم تھے لہذا معاویہ رقم عہدوں اور انعام کا لالچ دے کر بڑے بڑے سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا اور یہ سردار راتوں رات معاویہ کی صفوں میں چلےگئے اور لشکر بغیرسرداروں کے رہ گیا اگر ایسے وقت میں امام حسن(ع) صلح نہ کرتے تو بڑی خونریزی کے بعد معاویہ امام(ع) کو آپ کے حامیوں کے ہاتھ قتل کراتا اور شام میں سوگ کی مجلس قائم کرتا۔

حضرت امام حسن(ع) کی صلح

امیرالمومنین (ع) کا ثالثی قبول کرنا اور حضرت امام حسن(ع) حضرت امام حسین(ع) کا قیام تینوں کی بنیاد اور سرچشمہ ایک ہے۔ حسن(ع) نے صلح کی اور حسین(ع) نے صبر کیا اس حد تک کہ معاویہ اس کا اقتدار اور اس کے حامیوں کا وجود مٹ گیا، حضرت امام حسین(ع) کے فرمان کے

۶۴

کے مطابق جب معاویہ مر گیا تو عوام کا دل بنی امیہ کے بغض اور اہل بیت(ع) کی محبت سے بھر چکا تھا۔ معاویہ کے مرتے ہی اس کی سیاست بھی ختم ہوئی اور حکومت ایک عیاش احمق اور مغرور شخص کے ہاتھوں میں آئی وہ بد بخت اس منزل پر پہنچا ہوا تھا کہ کمال قساوت قلبی کے ساتھ حسین(ع) کو شہید کیا ان کے اہل بیت(ع) کو شہروں میں پھرایا حسین(ع) کے قتل کی خوشی میں ایک محفل منعقد کی اور اپنے ان اشعار کو سنایا۔ گویا اس طرح لوگوں کے ہاتھ میں چراغ دیکر کہتا ہو کہ بنی امیہ کے ظلم وجور کو اچھی طرح دیکھو ان کے اسلام کو پہچانو اس کے کفر آمیز اشعار  یہ ہے۔

لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوا           جَزَعَ الْخَزْرَجِ مِنْ وَقْعِ الْأَسَلِ‏

لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً               ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

بنی ہاشم نے ایک ڈھونگ رچایا ہوا تھا نہ تو ان پر کوئی وحی آئی اور نہ کوئی نبوت ملی تھی ہم نے اپنے بدر کے کشتگان کا بدلہ لیا ور برابری کی کاش اس وقت میرے بدر کے بزرگ زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ ہم نے ان کا بدلہ کس طرح لیا۔

اس مجلس میں علی(ع) کے لہجے میں بولنے والی زینب(ع) بھی موجود تھیں۔ جو کچھ انہیں کہنا چاہئے تھا کہا۔ جامع مسجد میں امام سجاد(ع) کو منبر پر جانے کی اجازت ملی جنہوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا۔

۶۵

یزید نے اپنی حکومت کے دوسرے سال“ جنگ حرہ” کا آغاز کیا اور مدینہ کے عوام کا قتل عام کیا۔ اور خانہ خدا کو آگ لگا دی اور معاویہ کے مرتے ہی امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اسلام کی بقاء آپ(ع) کے اسی قیام کی مرہون منت ہے۔ لیکن یہ فراموش نہ کیا جائے کہ امام حسن(ع) کی صلح اور صبر دونوں امام کے قیام کے لئے میدان فراہم کرنا تھا۔ حسین(ع) کا قیام مکمل طور پر حسن(ع) کی صلح سے مربوط ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے شاید اس مرحلے کے لئے فرمایا تھا کہ حسن(ع) و حسین(ع) چاہے بیٹھے ہوئے ہوں یا قیام کریں دونوں حالتوں میں امام واجب الاطاعت ہیں۔ یعنی اگر قیام کریں تو ان کی پیروی کریں۔ اور اگر قیام نہ کریں تو بھی ان کی پیروی کریں۔

اپنی وفات کے وقت حضرت امام حسن علیہ السلام نے جنادہ کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ جنادہ کہتا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر میں نے کسی نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا ۔ “ اے جنادہ موت کے آنے سے پہلے ہر وقت موت کے لیے تیار رہو، موت کے سفر، اپنی قبر اور قیامت کے لیے زادہ راہ تیار کرو۔ جنادہ! دنیا کے لیے اس قدر کوشش کرو جیسے تم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے تیاری اس طرح کر جیسے کل ہی تم نے مرنا ہے۔ اگر قوم و قبیلہ کے بغیر عزت اور اقتدار کے بغیر ہیبت چاہتے ہو تو معصیت الہی کے ذلیل لباس کو اتار پھینکو اور اﷲ کی اطاعت کے معزز لباس کو پہنو۔”

۶۶

حضرت امام حسین علیہ السلام

آپ کانام نامی حسین(ع) ہے اس نام کو پرودگار عالم نے آپ کے لیے پسند فرمایا۔ آپ کی مشہور کنیت “ ابو عبداﷲ” ہے۔ آپ کے مشہور القاب سید الشہداء اور “ المظلوم” اور “ الشہید” ہیں۔ آپ کی مدت عمر تقریبا 56 سال ہے۔ آپ نے 4 ہجری کو شعبان کی تیسری تاریخ میں ولادت پائی اور 61ہجری میں دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال کی تھی تو آپ کے نانا حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت پائی اور زندگی کے تیس سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی (ع) کے زیر سایہ گزارے اور والد ماجد کی شہادت کے بعد دس سال تک اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام  کی معیت میں زندگی گزاری اس کے بعد آپ کی امامت کی مدت بھی دس سال ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ان فضائل کے علاوہ جو حسب و نسب کے اعتبار سے تمام اہل بیت(ع) کو حاصل ہیں کچھ امتیازی فضائل کے بھی حامل ہیں۔ سب سے پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ آپ کے صلب سے ہی ائمہ معصومین(ع) کا سلسلہ جاری رہا۔ اس بارے حضور اکرم(ص) سے احادیث موجود ہیں۔ جو اس امیتاز کی تصریح کرتی ہیں۔ حضرت سلمان فارسی(رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین (ع) حضور اکرم(ص) کی گود میں ہیں آپ (ص) نے انہیں پیار کرتے ہوئے فرمایا ۔

“ أَنْتَ‏ السَّيِّدُ ابْنُ السَّيِّدِ أَبُو السَّادَةِ أَنْتَ الْإِمَامُ ابْنُ الْإِمَامِ أَبُو الْأَئِمَّةِ الْحُجة أَبُو الْحُجَجِ تِسْعَةً مِنْ صُلْبِكَ وَ تَاسِعُهُمْ قَائِمُهُمْ.”

۶۷

“ تم سرداروں کے سردار  ہو اور سرداروں کے باپ ہو تم امام(ع) کے فرزند ہو اور خود بھی امام(ع) ہو بلکہ اماموں کے باپ ہو تم حجت خدا ہو اور خدائی حجتوں کے باپ ہو اور نو حجت تمہارےصلب سے ہی ہوں گے جس میں سے نواں “ قائم آل محمد(ص)” ہوگا۔

دوسرا امتیاز

یہ ہے کہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام کو ہمیشہ کی زندگی ملی اور اسلام کا دوام آپ کی شہادت کا مرہون منت ہے۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کے اہل بیت(ع) اسیر نہ ہوئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا ۔ اسی وجہ سے حضور اکرم(ص) نے فرمایا تھا۔حسين منی و انا من الحسين ” “ حسین (ع) مجھ سے ہیں اور میں حسین(ع) سے ہوں” اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسی امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب آپ سے بیعت طلب کی گئی تو فرمایا “لو بايعت يزيد فعلی الاسلام السلام ” اگر میں یزید کی بیعت کروں تو اسلام پر فاتحہ پڑھی جانی چاہئیے یعنی اس کا نام نشان مٹ جائے گا۔

اس قسم کے بیانات خود رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات میں بھی موجود ہیں۔

تیسرا امتیاز

حضرت امام حسین (ع) کا یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت جاگزین ہے جیسے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا ۔“إِنَّ لِلْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي‏ قُلُوبِ‏ الْناس لَا تَبْرُدُ أَبَداً” بے شک دلوں میں حسین(ع) کی محبت کے شعلے بھڑک رہے ہیں جو کبھی بجھنے والے نہیں۔ ”

۶۸

چوتھا امتیاز

حضرت ابو عبداﷲ کا یہ ہے کہ خداوند عالم نے آپ کی تربت میں شفا رکھی ہے اور آپ کے ھرم مطہر میں دعا کی قبولیت متواتر اور قطعی روایات سے ثابت ہے۔

پانچواں امتیاز

آپ کے عظیم امتیازات میں سے ہے کہ آپ نے عشق و محبت ، فداکاری ، جان نثاری اور اﷲ کی راہ میں قربانی کے مفاہیم کو عملی طور پر معنی بخشے۔

“اللَّهُمَّ أَنْتَ‏ ثِقَتِي‏ فِي كُلِّ كُرْبَةٍ وَ أَنْتَ رَجَائِي‏فِي كُلِّ شِدَّةٍ وَ أَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِي ثِقَةٌ وَ عُدَّةٌ كَمْ مِنْ كَرْبٍ يَضْعُفُ عَنْهُ الْفُؤَادُ وَ تَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ وَ يَخْذُلُ عَنْهُ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ يَشْمَتُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَعْنِينِي فِيهِ الْأُمُورُ أَنْزَلْتُهُ بِكَ وَ شَكَوْتُهُ إِلَيْكَ رَاغِباً فِيهِ عَمَّنْ سِوَاكَ فَفَرَّجْتَهُ وَ كَشَفْتَهُ وَ كَفَيْتَنِيهِ فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ وَ صَاحِبُ كُلِّ حَاجَةٍ وَ مُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَة”

“ میرے پروردگار تو میرے ہر رنج و غم میں میری پناہ گاہ ہے اور مایوسی کے وقت تو ہی امید ہے اور جو کچھ بھی میرے لئے پیش آتا ہے اس میں میرا مددگار اور میری پناہ ہے۔ کتنے سارے غم ایسے ہیں جو دلوں کو کمزور کرتے ہیں راہ چارہ کو مسدود کرتے ہیں۔ دوستوں کو غمگین اور دشمنوں کو خوشحال کرتے ہیں سب تیرے سامنے پیش کرتا ہوں اور ان کی شکایت بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں صرف اس لیے کہ میں تیری طرف ہی رغبت رکھتا ہوں اور تیرے غیر کی طرف نہیں ۔تو نے وہ غم بر طرف کردیئے تو تمام نعمتوں اور خوبیوں کا مالک ہے اور آرزؤں کی منتہا تیری ہی ذات ہے۔”

آپ نے اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کیا مال ، جان ، عیال ، دوست و احباب ، اولاد ، یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کو بھی قربان کیا اور صحرائے کربلا میں اپنے قتل ہونے کی جگہ یوں فرماتے ہیں۔

۶۹

             تركت‏ الخلق‏ طريّا في هواكا                      و أيتمت العيال لكى أراكا

             و لو قطّعتنى في الحبّ إربا                      لما حنّ الفؤاد إلى سواكا

“ میرے پروردگار ! تیری راہ میں ، میں نے تمام مخلوق سے رشتہ توڑا ہے تجھ سے ملاقات کرنے کے لیے میں نے اپنے تمام متعلقین سے آنکھیں چرالیں ہیں۔ میرے پروردگار اگر تیری راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاؤں تو بھی ہرگز تیرے غیرے کی طرف مائل نہیں ہوں گا۔”

یہ سیرالی اﷲ پر ایمان کی حقیقت ہے۔ اﷲ پر یقین و عرفان کی حقیقت بندگی اور فنا فی اﷲ کی حقیقت ، یہی تقوی اور ماسوی اﷲ سے نہ موڑنے کی حقیقت ہے اپنے امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی ایسا ہی تھا۔ آپ کے خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت اسلام کو شدید خطرہ لاحق تھا جس دن آپ نے مدینہ سے کوچ کیا یوں فرمایا۔

“إِنِّي‏ لَمْ‏ أَخْرُجْ‏ بَطِراً وَ لَا أَشِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ أَطْلُبُ الصَّلَاحَ فِي أُمَّةِ جَدِّي”

“ میں نے قیام اس لئے نہیں کیا کہ میں اﷲ کی زمین پر فساد پھیلاؤں یا ظلم کروں بلکہ میرا قیام اس لئے ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور پدر بزرگوار کی سیرت پر چلوں  اور اپنے نانا کی امت میں جو مفاسد رواج پاگئے ہیں ان کی اصلاح کروں۔” کربلا معلیٰ میں پہنچ کر جب کہ تمام صحابہ شہادت کے لیے تیار اور کمر بستہ تھے آپ نے یوں خطاب فرمایا۔

۷۰

 “ألا ترون‏ أنّ‏ الحقّ‏ لا يعمل به، و أنّ الباطل لا ينتهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء اللَّه محقّا، فإنّي لا أرى الموت إلّا سعادة، و لا الحياة مع الظّالمين إلّا برما ”

“ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے نہیں روکا جارہا ہے ایسے حالات میں تو مومن موت کی تمنا ہی کرسکتا ہے بے شک اس طرح مرنے کو میں سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمون کے ساتھ زندہ رہتا سوائے بد بختی کے اوپر کچھ نہیں۔”

امام علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات بہت سارے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت اسلام شدید خطرے سے دوچار فضا اور وقت کا تقاضا بھی قیام وتحریک کا تھا۔ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ یزید کے خلاف آپ کا قیام کرنا ایک الہی فریضہ تھا۔

حضرت امام حسین (ع) کے قیام کے اسباب پر تحقیق کرنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر بطور اجمال آپ کے قیام کے اسباب پر روشنی ڈالتے نفس اور دشمن پر غلبہ پانے کی حقیقت اور شجاعت کی حقیقت بھی وہی ہے جسے حسین(ع) نے سکھایا اور زمانے کی گردشوں میں گم نہ ہونے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ جوانمردی اور مردانگی کی حقیقت، سخاوت کی حقیقت ، رحمدل اور مہربانی کے معنی، خدا، اس کے دین اور اس کی مخلوق کے سامنے انکساری برتنے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ حکم کا مفہوم سکھایا ۔ اور فصاحت و بلاغت کے معنی اپنے کرداد اور گفتار سے سمجھا دیئے۔ یہی سیاست کی حقیقت ہے اور عدالت کا مفہوم ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ کی حقیقت ہے۔ خلاصہ یہ کہ تمام انسانی فضائل کی حقیقت عملا یکجا کر کے بتادی۔ اس لئے تو حضور اکرم(ص) کا ارشاد “:إنّ‏ الحسين‏ مصباح‏ الهدى‏ و سفينة النجاة ” حسین(ع) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔” کا مطلب معلوم ہوجاتا ہے۔ اور اگر حضور اکرم(ص)

۷۱

نے یہ فرمایا ہے کہ

“ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى أَحَبِ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى‏ الْحُسَيْنِ‏”

“ جو کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ آسمان و زمین کے پسندیدہ تر شخص کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ حسین(ع) کو دیکھے۔ ” تو بھی اس کا مطلب یہی ہے۔

آپ نے فرمایا “من لحق بي استشهد و من‏ تخلّف‏ عنّى‏ لم يبلغ الفتح ابدا”

جو کوئی میرا ساتھ دیدے اور میرے ساتھ آئے گا تو شہادت پائے گا جو روگر دانی کرتے ہوئے اس خونین قیام میں شرکت نہیں کرے گا تو کبھی بھی نجات نہیں پاسکے گا۔” “ شب ترویہ” میں آپ کے خطبے میں ہم پڑھتے ہیں آپ(ع) نے فرمایا۔

“مَنْ‏ كَانَ‏ بَاذِلًا فِينَا مُهْجَتَهُ، فَلْيَرْحَلْ  معنا غدا فَإِنِّا رَاحِلون غداً، إِنْ شَاءَ اللَّهُ.”

“ جو کوئی ہمارے ساتھ خون دینا چاہتا ہے ہمارے ساتھ کل چلے انشاء اﷲ ہمیں کل روانہ ہونا ہے۔”

آپ کے ان ارشادات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کو خطرہ لاحق ہو اور تحریک چلانا اسلام کے لئے فائدہ مند ہو، چاہے قیام و تحریک کی صورت میں شہادت کا یقین بھی ہو تو ہر ایک کا فریضہ قرار پاتا ہے کہ قیام کرے اور حضرت اس دوسری موج کے لئے اور دائمی موج کی ضرورت ہے تاکہ یہ دوسری زندہ اور متحرک رہے اور یہ تیسری موج عزاداری ، نوحہ سرائی، گریہ، سینہ زنی اور زیارت حسین(ع) کی موج ہوسکتی ہے۔ علاوہ اس کے کہ عزاداری انسان میں فداکاری ، ایثار و قربانی اور شہادت کی روش اور شہید پروری کا جذبہ ابھارتی ہے۔ اور اگر رہبر اعلیٰ قابلیتوں کا مالک ہو تو ان مجالس سے کافی حد تک لوگوں کے انسانی جذبے کو ابھار سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عمومی تعلیمات کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ تہذیب نفس کے مرحلے خصوصا صبر، استقامت ، شجاعت اور پستی قبول نہ کرنے کا

۷۲

 جذبہ اس کے براہ راست اثرات ہیں۔

ایسی مجالس کا ایک اور پہلو اسلام کے عظیم قوانین میں سے دو عظیم قوانین کا احیاء کرنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔

حسین(ع) پر روانا مجالس عزاء کا انعقاد ، ماتمی دستوں کی تشکیل ، نزدیک یا دور سے زیارت کرنا، پانی کی سبیلوں کی تعمیر اور امام بارگاہوں کی تعمیر کرنا، ولایت کے مکتب کو زندہ رکھنا ہے۔ خون حسین(ع) کو زندہ رکھنا ہے، انقلاب کی روح کو زندہ رکھنا ہے تاکہ انجام کار آخری رہبر حضرت بقیہ اﷲ عجل اﷲ تعالی فرجہ کے ذریعے عالمی انقلاب کا سامان فراہم ہوسکے۔ اگرچہ عزاداری کے برپا کرنے کا ثواب، زیارت کا  ثواب، مجالس کے انعقاد پر ثواب مستحق ہے مگر ان سب کی اصل اور بنیاد اس لیے ہے کہ اس قسم ی مجالس کامیابی کا رمز اور شیعت کی بقاء ، مکتب ولایت کو زندہ رکھنے اور انجام کار لوگوں کو حسین(ع) کے پرچم تلے لے آنا ہے اور تمام کوحسین(ع) اور اس کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ بقول جوش۔

انسان کو بیدار تو ہونے لینے دو                    ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین(ع)

ہوئے ہم چند اسباب کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں۔

ثقیفہ بنی ساعدہ کی کار روائی کے بعد “ حسبنا کتاب اﷲ ” کے نعرے نے زور پکڑا اور رسول اکرم(ص) کی احادیث کی جمع آوری پر پابندی لگ گئی یہاں تک کہ حضرت ابوبکر نے حضور اکرم(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں انہیں عوام کے سامنے لاکر جلادیا اب اگر تائید قرآن سے حاصل کی جاتی تو ثقیفہ کی کار روائی ملغی ہوجاتی لہذا کہا گیا۔ 

“ نهينا عن‏ التّعمّق والتکال فی القرآن”

ہمیں قرآن میں غور و فکر اور دقت

۷۳

 کرنے کی زحمت سے منع کیا گیا ہے اس خیال و فکر کو ترویج دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ فکر اور روش امت کو کس قدرفکر ، کامل اور بے ہمت بنائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور مصیبت طبقاتی گروہوں کی صورت میں ظاہر ہوتی جس کے بارے میں امیرالمومنین (ع) خطبہ شققیہ میں فرماتے ہیں۔

“و قام معه بنو أبيه يخضمون‏ مال اللّه خضم الإبل نبتة الربيع”

“ بنی امیہ نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو اس طرح ختم کیا جس طرح بہار کے سبزے کو اونٹ ختم کرتے ہیں۔ ” اس کے ساتھ ایک اور مصیبت جعلی روایات و احادیث کی بھر مار کی صورت میں شروع ہوئی۔ علماء نما درباری افراد اس طریقے سے اسلام کے ستونوں کو ڈھانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان تمام روایات میں سے ایک روایت نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں ایک روایت یوں گھڑی گئی۔

“اذا نزلت سوره انجم فقراها رسول اﷲ للمشرکين فاذا قرا افرايتم اللات ولعزی ومنات الثالثه الاخری القی الشيطان فی فمه و قال تلک القرانيق العلی شفاعتهن لترجی فالمشرکون سروا بذالک  فسجد رسول اﷲ و سجد المشرکون معه”

ترجمہ :۔“  جس وقت سورہ نجم نازل ہوئی تو حضور اکرم (ص) نے مشرکوں کو سنایا لیکن جب آیتافرايتم اللات ولعزی پڑھنے لگے تو شیطان نے آپ کے منہ سے یہ جملے بھی کہلوا دئے کہ وہ عالی شیر، بت، قیامت کے دن تینوں شفاعت کریں گے یہ سن کر مشرک بڑے خوش ہوئے اور جب حضور (ص) نے سجدہ کیا تو مشرکوں نے بھی خوش ہو کر سجدہ کیا۔”

بدیہی ہے کہ اس قسم کی روایات اسلام قرآن اور پیغمبر(ص) کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتیں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایک رعب اور خوف مسلط رہا خصوصا

۷۴

 معاویہ کے دور کہ ادھر کسی نے آہ کھینچی اور قتل ہوا ان تمام عوامل اور اسباب نے ایک ایسا موقع فراہم کیا کہ یزید ایک شخص عوام پرحاکم ہوتے ہوئے منبر سےیہ کہدے کہ

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

“ تو کوئی وحی آئی اور نہ خبر آئی بلکہ بنی ہاشم نے حکومت حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔” تو کیا ایسے حالات کے پیش نظر امام حسین(ع) کے لئے وظیفہ شرعی نہ بنتا تھا کہ ایسے شخص کے خلاف قیام کریں۔

بہر حال حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے حضرت ابو عبداﷲ کی زیارت اور عزاداری کے بارے میں بہت سفارش کی ہے اور اس کے عظیم ثواب گنائے ہیں ایسی روایات میں سے ایک ہم وسائل الشیعہ میں سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد تھوڑی سی ترضیح بھی کرتے ہیں

“عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِفُضَيْلٍ تَجْلِسُونَ وَ تُحَدِّثُونَ قَالَ نَعَمْ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ إِنَّ تِلْكَ‏ الْمَجَالِسَ‏ أُحِبُّهَا فَأَحْيُوا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ مَنْ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَيْنِهِ مِثْلُ جَنَاحِ الذُّبَابِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ لَوْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ.”

“ فضیل بن یسار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آپ(ع)  نے فرمایا کیا تم مجلس عزا برپا کر کے ہمارے مصائب کو یاد کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ فرمایا خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ولایت کو زندہ کرتے ہیں اے فضیل جو کوئی ہمارا تذکرہ کرتا ہے یا جس کے سامنے ہمارا تذکرہ ہوتا ہے اور گریہ کرتا ہے اتنے آنسو نکلیں کہ مکھی کے پر کو بگھونے کے بقدر ہوں تو بھی خداوند عالم اس کے گناہوں کے بخش دے گا۔ چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر

۷۵

 کیوں نہ ہوں۔”

حضرت ابا عبداﷲ (ع) کا قیام کوئی فوجی قیام نہیں تھا بلکہ ایک عاطفی اور تبلیغی تھا حسین علیہ السلام صرف یزید اور اس کے ایجنٹون کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ یزیدیت کے ساتھ بنی امیہ اور بنی مروان کی شخصیت کو نابود کرنا چاہتے تھے ۔ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے خلاف بیدار کریں۔ اور عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکائے اور اس سے متنفر کریں۔ اسی لئے آپ مدینہ سے مخفی طور پر چلے گئے۔ جس وقت لوگ حج کے لیے گروہ در گروہ ہو کر مکہ آرہے تھے تو آپ مکہ سے بھی نکل گئے اور عاشورے کے دن بعض اوقات اسلحہ کے بغیر ہی میدان جنگ میں جاتے ہیں اور بڑی مہربانی کے لہجے میں تبلیغ کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کے انسانی جذبات کو ابھارتے ہیں کبھی قرآن لے کر جاتے ہیں اور انہیں قرآن کی قسم دیتے ہیں۔ کبھی اپنے شیرخوار بچے کو ان کے سامنے لے جاتے ہیں جنہیں انہوں نے آپ کے ہاتھوں پر شہید کیا ۔ انجام کار آپ نے کربلا میں کچھ ایسی لہریں پیدا کیں کہ عاشورا کی عصر کے وقت دشمن کی فوجوں میں ہلچل مچ گئی اور حسین(ع) شہید ہوگئے ہلچل کی اس موج کے ساتھ اہل بیت(ع) کی اسیری کی دوسری موج نے بھی حرکت کی۔ اہل بیت(ع) کے اسیروں نے کوفہ و شام کے بازاروں میں تقریروں کے ذریعے انقلاب کی موجیں پیدا کیں بلکہ تمام اسلامی ممالک میں بنی امیہ کی حکومت کے خلاف نفرت کا سیلاب امڈا پڑا ۔ حسین(ع) کی شہادت سے 20 سال قبل کوئی ایک بھی انقلاب واقع نہیں ہوا تھا۔ مگر آپ کی شہادت کے 20 سال بعد بیس سے زیادہ انقلاب رونما ہوئے۔ واقعہ کربلا کے دو سال بعد بنی امیہ کی حکومت چھن گئی اور بیسویں سال بنی مروان کی حکومت عباسیوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔

۷۶

حضرت امام سجاد علیہ السلام

آپ کا اسم مبارک علی(ع) مشہور لقب زین العابدین (ع) اور سجاد(ع) ہے آپ کی مشہور کنیت ابو محمد(ع) اورابو الحسن(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک بھی آپ کے پدر گرامی کی طرح ستاون سال ہے۔ آپ نے پندرہ جمادی الاول 38 ہجری کو امیر المومنین (ع) کی شہادت سے دو سال قبل ولادت پائی۔ تیئس سال تک پدر بزرگوار کے زیر سایہ زندگی گزاری۔ آپ کے مدت امامت 34 سال ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کے والد بزرگوار امام حسین(ع) تھے اور والدہ ماجدہ ایران بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں جیسے خداوند عالم نے معجزانہ طور پر حضرت امام حسین(ع) تک پہنچایا تھا۔ اس معظمہ کی شرافت یہ ہے کہ نو ائمہ کرام(ع) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام حسین(ع) نو ائمہ (ع) کے والد ماجد ہیں۔ اور انسانی فضائل کے اعتبار سے امام زین العابدین علیہ السلام اگرچہ تمام اہل بیت کرام(ع) کے ساتھ تمام فضائل میں برابر کے شامل ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں رکھتے ۔ لیکن آپ خصوصیت کے ساتھ اپنے افکار کو و کردار میں اپنے دادا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مکمل مشابہت رکھتے تھے۔

امام سجاد علیہ السلام کے ایمان کی منزل

امیرالمومنین علیہ السلام دعائے صباح میں فرماتے ہیں۔

“يا من‏ دلّ‏ على ذاته بذاته”

۷۷

“ اے وہ جو خود اپنی ہستی کے وجود کی دلیل ہے۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں۔

“بِكَ عَرَّفْتَک وَ دَلَلْتَنِي‏ عَلَيْكَ‏ و دعوتنی اليک و لولا انت لم ادر ما انت”

“ تیرے ذریعے ہی تجھے پہچانا تو نے میری اپنی طرف رہنمائی کی اور دعوت دی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آپ کو نہ پہچان سکتا ۔”

آپ کی دعاؤں میں ایسے کلمات ملتے ہیں جو انسان کو ایمان کی بلندی تک پہچاتے ہیں یہ ایسی منزل ہے جسے“ ایمان شہودی” کہا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔

“کو کشف لی الغطاء مازددت يقينا”

“ اگر میرے لئے آفاق کے سارے ہٹادیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔”

آپ(ع) کا علم

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا “ جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو خدا کی قسم میں قیامت تک ہونے والے تمام واقعات کو جانتا ہوں۔” حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں فرماتے ہیں۔ “ اگر مجھے لوگوں کے بارے میں غلو کرنے کا خوف نہ ہوتا تو قیامت تک ہونے والے تمام واقعات بتا دیتا۔”

آپ کا تقوی

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا۔

“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ‏ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ‏شَعِيرَةٍ  مَا فَعَلْتُهُ”

۷۸

“ خدا کی قسم اگر مجھے ساتوں اقالیم اور جو کچھ ان کے آسمانوں کے نیچے ہے دیا جائے کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “ جو” کا جھلکا چھین کر اس پر ظلم کروں تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں ارشاد فرماتے ہیں۔

             ؟؟؟؟ الا له و انت تطهر حبه          هذا لعمری فی الفعال بديع

             لو کنت تطهير حبه اطقه                       ان الحب لمن يحب مطيع

“ خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے تم اس کی محبت کا دعوی کرتے ہو۔ میری جان کی قسم یہ بڑی عجیب بات ہے اگر تم واقعی خدا سے محبت کرتے ہو تو اس کی اطاعت کرو کیونکہ محبت کرنے والا ہمیشہ محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔”

ان اشعار میں امام فرماتے ہیں کہ میں چونکہ اﷲ سے محبت کرتا ہوں اس لیے اس کی نافرمانی مجھ سے محال ہے۔

آپ(ع) کی عبادت

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کیہا گا ہے کہ آپ دن کو فقراء کے لئے باغات اور نہریں بنانے میں مشغول رہتے اور ساری راتیں جاگ کر عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت سجاد(ع) بھی اس طرح فقراء کی قربت میں مشغول تھے۔ کتنے سارے باغات اور نہریں آپ نے فقراء کے لئے بنائیں آپ کی عبادت اور سجدوں کی کثرت کی یہ حالت تھی کہ آپ کو زین العابدین(ع) اور سجاد(ع) کا لقب ملا۔

۷۹

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ قیامت کے دن کہا جائے گا زین العابدین(ع)  کہاں ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ میرا فرزند جواب دیتا ہے اور سامنے آجاتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کثرت سے عبادت کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوجھ گئے ہیں۔ چہرے کا رنگ زرد پڑگیا ہے اور گال زخمی ہیں اور سجدہ کی جگہ پیشانی پر زخم ہوگیا ہے۔

آپ کی مہربانی و سخاوت

تاریخ میں مرقوم ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے کارناموں میں سے ایک یہ تھا کہ آپ مخفی طور پر راتوں کو فقراء میں کھانا ، کپڑے ، لکڑی اور دوسری ضروریات تقسیم کرتے تھے ۔جب کہ ان فقراء کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون ان کی ضروریات کو فراہم کرتا ہے اور مورخین حضرت امام سجاد(ع) کے بارے میں بھی ایسا ہی لکھتے ہیں۔

راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام جعفر صادق(ع) کے حضور میں تھے کہ حضرت امام علی ابن ابی طالب(ع) کے مناقب کے بارے میں بات ہوئی تو کہا گیا کہ کسی کو یہ قدرت نہیں کہ آپ جیسا کام کرسکے اور حضرت علی بن الحسین(ع) کے علاوہ اور کوئی ایسے کاموں میں ان کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے اور راتوں کو کبھی کبھی ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اہل سنت کی روایات میں ہے جب آپ کی شہادت ہوئی تو پتہ چلا کہ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے۔

آپ کا زہد

جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک کامل زاہد تھے اور سوائے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اس کے بعد طبری لکھتا ہے:

''خالدکی اس فوج کشی کے دوران متعدد جنگیں لڑی گئیں اور بہت سے رزمیہ قصیدے لکھے گئے اس کے بعد خالد ''حیرہ'' کی طرف واپس ہو ااور قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کو حکم دیا تاکہ فوج کے ساتھ چلے اور باقی فوجیوں کی کمانڈ شجرہ بن اعزکے ہاتھ میں دی اور یہ افواہ پھیلائی کہ باقی فوجیوں کے ہمراہ پیچھے پیچھے خود بھی آرہا ہے ۔اس طرح ماہ ذی قعدہ کے پانچ دن بچے تھے کہ وہ چھپکے سے فوج سے خارج ہوا اور حج انجام دینے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہو ا۔ جب وہ حج سے واپس آیا تو اس وقت ابھی باقی فوجی حیرہ نہیں پہنچے تھے ۔خالد کے اس اچانک سفر کی خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی خلیفہ کو یہ خبر سخت ناگوار گزری ۔انھوں نے غضبناک ہو کر تنبیہ کے طور پر خالد کو عراق کے بجائے اسے شام کی ماموریت دے دی ''

حموی اس روایت پر اعتبار کرتے ہوئے ''فراض ''کے بارے میں لکھتاہے:

''جو کچھ سیف کی کتاب''فتوح''میں آیاہے،اس کے مطابق ،خالد بن ولید نے ''فراض''جو شام ، عراق اور جزیرہ کی مشترک سرحد پر فرات کی مشرق میں واقع ہے اور رومیوں ،عرب اور ایرانیوں نے وہاں پر اجتماع کیاتھا میں قبیلہ بنی غالب پر اچانک حملہ کیا اور گھمسان کی جنگ کی''۔سیف کہتاہے:اس جنگ میں ایک لاکھ انسان مارے گئے ۔اس کے بعد خالد ١٢ ھ میں جب ماہ ذی الحجہ کے دس دن باقی بچے تھے سفر حج سے واپس بحیرہ پہنچا ۔قعقاع نے اس واقعہ کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''میں نے سرزمین ''فراض ''میں ایرانیوں اور رومیوں کے اجتماع کو دیکھا کہ ایام کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کی سلامتی خطرے میں پڑگئی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جمعیت کو تتر بتر کرکے رکھ دیا اور اس کے بعد قبیلۂ بنی رزام پر شب خون مارا۔ابھی اسلام کے سپاہی جابجا نہیں ہوئے تھے کہ دشمن سر کٹی بھیڑوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔''

سند کی پڑتال

فراض کی روایت بیان کرنے والے بھی سیف کے دو راوی محمدومہلب ہیں اور پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ سیف کے جعلی راوی ہیں ۔اس کے علاوہ سیف کا ایک اور راوی ظفر بن دہی ہے کہ انشا ء اللہ اس کی آئندہ وضاحت کریں گے ۔ان کے علاوہ اس نے بنی سعد سے ایک شخص کوراوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف کے خیال میں اس کا کیا نام تھا تاکہ ہم اس کی تحقیقات کرتے۔

۱۶۱

بحث کا نتیجہ:

سیف کے جعلی صحابی ابی مفزرکے سلسلے میں بحث کے دوران ''الثنی''اور ''زمیل''کی جنگ کے بارے میں بھی انشاء اللہ تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن ''فراض'' کی جنگ میں خالد کے اچانک حملہ کرکے شب خون مارنے اور ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام کرنے ،قعقاع کی خو دستائی اور رجز خوانی وغیرہ اور خالد کے چوری چھپے حج پر جانے کے بارے میں صرف سیف نے روایت اور افسانہ سازی کی ہے ۔طبری پہلا مشہور مورخ ہے جس نے سیف کے افسانوں کو نقل کرکے لوگوں کی نگاہ میں اپنی معتبر تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔اور ان افسانوں کو دوسر ے تاریخ دانوں نے طبری سے نقل کیا ہے ۔اس میں صرف یہ فرق ہے کہ طبر ی نے اپنی عادت کے مطابق اپنی تاریخ میں اشعار اور رجز خوانیوں کوثبت نہیں کیا ہے اگر چہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان جنگوں میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے گئے ہیں ۔

لیکن مشہور جغرافیا نویس ،حموی نے قعقاع کی رجز خوانیوں میں سے ایک حصہ سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کیا ہے اور ایک حصے کو ''الفراض ''کے ذکر کے ذیل میں اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے ۔

لیکن یہ بات قابل غورہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اس طرح ظاہر کیا کہ وہ اپنی فوج میں موجود ہے ،لیکن چوری چھپے اس وقت حج کے لئے نکل جاتا ہے جب کے ماہ ذیقعدہ کے ابھی پانچ دن باقی تھے اور حموی کے قو ل کے مطابق ذی الحجہ کے ١٠دن باقی تھے جب وہ واپس آکر اپنی فوج سے ملحق ہو تا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ سپہ سالار کی ٢٥ دن فوج کی غیر حاضری کو سپاہی کس طرح نہ سمجھ سکے ؟!اس مدت میں فوج کے لئے نماز کی امامت کے فرائض کس نے انجام دئے(۱) ؟! اس کی غیر حاضری سے فوج کے افسر تک کیسے آگاہ نہ ہوسکے؟! اور اس سے بھی بڑھ کر ،خالد نے اس زمانے میں ''حیرہ ''سے مکہ تک کا سفر نوہی دنوں میں کس طرح طے کیا ؟!یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں غور وفکر پر مجبور کرتے ہیں اور اس امرکاسبب بنتے ہیں کہ ان مسائل پر بیشتر بحث وتحقیق کریں ۔انشاء اللہ ہم بعد میں اس سلسلے میں مزید بحث وتحقیق کریں گے کہ سیف نے کیوں ان حالات میں خالد بن ولید کے لئے اس طرح کے حج کی داستان جعل کی ہے۔

____________________

(۱)۔اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ ،بہر صورت اسلامی فوج کی نماز پنجگانہ کی امامت فوج کاسردار کرتاتھا۔

۱۶۲

جنگ فراض کی داستان کے نتائج:

١۔ میدان کارزار میں مضری خاندان کے سپہ سالار خالد بن ولید اور تمیمی خاندان کے سورما قعقاع کے کمالات وافتخارات دکھانا۔

٢۔حج کی لمبی مسافت کو طے کرنے میں خالد بن ولید کی کرامت کااظہار کرنا۔

٣۔شجرہ نامی ایک شخص کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر جعل کرنا۔

٤۔جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کی داستان گڑھ کر اسلام کے دشمنوں کو شاد کرنا۔

٥۔اسلامی ادبیات میں اشعار کا اضافہ کرکے اپنے اسلاف کی کرامتیں سننے کے شوقین لوگوں کو افسانوی اشعار سے خوش کرنا۔

۱۶۳

قعقاع ،خالد کے ساتھ شام جاتے ہوئے

و فیهم صحابة ورواة مختلفون

اس داستان کی سند میں بہت سے افسانوی اصحاب اور راوی نظر آتے ہیں !

(مؤلف)

خالدکی شام کی جانب روانگی کی داستان

مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمرو عاص نے شام میں دشمن کی فوج کی کثرت دیکھ کر ابوبکر کو ایک خط لکھا اور انھیں حالات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے مدد طلب کی ۔ابوبکر نے مجلس میں حاضر مسلمانوں سے صلاح و مشورہ کیا۔ان میں سے عمر بن خطاب نے یوں کہا:''اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین !خالد کو حکم دیجئے کہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوجائے اور عمر وعاص کی مدد کرے ''۔ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور خالد کے نام ایک خط لکھا ۔جب ابوبکر کاخط خالد کوپہنچا تو اس نے کہا:''یہ عمر کاکام ہے ،چونکہ وہ میرے ساتھ حسد کرتے ہیں اس لئے نہیں چاہتے کہ پورا عراق میرے ہاتھ فتح ہو بلکہ چاہتے ہیں کہ میں عمر وعاص اور اس کے ساتھیوں کی مدد کروں اور ان میں شامل ہوجاؤں ۔اگر انھوں نے کوئی کامیابی حاصل کی تو میں بھی اس میں شریک رہوں ،یا ان میں سے کسی کی کمانڈ میں کام کروں تاکہ اگر کوئی کامیابی حاصل ہو تو میرے بجائے اس کو فضیلت ملے '' ١

۱۶۴

ایک دوسری روایت میں ہے:

''یہ اعسیر(۱) بن ام شملہ کاکام ہے،اسے یہ پسند نہیں ہے کہ پورا عراق میرے ہاتھوں فتح ہو .....تا آخر ''

سیف یہ نہیں چاہتاتھا کہ خلیفہ عمر اور خالد جیسے سورما کہ دونوں قبیلہ مضر کے بزرگ ہیں کے درمیان بد گمانی دشمنی کی خبر لوگوں میں پھیلے ۔اور یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ خالد کو عراق کی فتح سے محروم رکھے ۔اس لئے اس مسئلہ کے بنیادی علاج کی فکر میں پڑا ہے اور خالد بن ولید کے ہاتھوں عراق کے مختلف شہروں کی فتحیابی کے سلسلے میں مذکورہ داستانیں جعل کی ہیں ۔ہم نے ان داستانوں کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔اسی طرح خالد کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے سلسلہ میں سیف نے یہ داستان جعل کی کہ :خالد کے شب خون کے نتیجہ میں مصیخ بنی البرشاء میں دو مسلمانوں کا قتل ہونا ،عمر کا ان کے قتل کی وجہ سے خالد پر غضبناک ہونا ،خالد کے مخفی طور پر حج پر جانے کے سلسلے میں خلیفہ ابوبکر کا اس پر ناراض ہونا،خالد کو شام بھیجے جانے کے وجوہات تھے اور وہ عراق کو فتح کرنے سے محروم رہے۔

جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے کہ :

''عمر ،خالد بن ولید کے بارے میں ابوبکر کے پاس مسلسل شکایت کرتے تھے۔لیکن ابوبکر ان کی باتوں پر اعتناء نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے:''میں اس تلوار کو دوبارہ نیام میں نہیں ڈالوں گا جسے خدا نے نیام سے باہر کھینچا ہے!''۔ ٢

____________________

(۱)اعیسر ،اعسر کا اسم تصغیر ہے ،عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہو۔

۱۶۵

اس کے بعد خالد کے نام ابو بکر کے خط کا ایک اور روایت میں ذکر کرتا ہے کہ یہ سب جعلی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں ہے اس پوری مقدمہ سازی کے بعد ایک روایت میں کہتا ہے :٣

''خالد عمر کے بارے میں بد گمان تھا اور کہتا تھا: یہ ان ہی کا کام ہے ۔وہ حسد کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ عراق میرے ہاتھوں فتح ہو اور یہ افتخار مجھے ملے اس کے باوجود خدا نے عراق کی سرحدوں کو میرے ہاتھوں توڑدیا اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو میری وجہ سے حوصلہ اور جرأت بخشی ''

باالآخر چھٹی روایت میں کہتا ہے :

''لیکن (خالد) یہ نہیں جانتا تھا کہ عمر کا کوئی قصور نہیں تھا ،یہاں تک کہ قعقاع نے اس سے کہا : عمر کے بارے میں بد ظن نہ ہو خدا کی قسم ابوبکر نے جھوٹ نہیں بولا ہے ۔ اور ظاہر داری نہیں کی ہے ''خالد نے قعقاع سے کہا:'' تم نے سچ کہا !لعنت ہو غصہ و بدگمانی پر ۔خدا کی قسم اے قعقاع !تم نے مجھے خوش بینی پر آمادہ کیا اور عمر کے بارے میں مجھے خوش بین بنا دیا '' قعقاع نے خالد کے جواب میں کہا:'' خدا کا شکر ہے جس نے تمھیں سکون بخشا اور تم میں خیر و نیکی کو باقی رکھا اور شر و بدگمانی کو تم سے دور کیا !!''

اس روایت سے سیف کی زبانی خالد کی جنگوں میں فتحیابیوں ،غنائم وغیرہ کے بارے میں جھوٹ اور افسانوں کے اسرار فاش ہوتے ہیں ۔سیف نے ان سب داستانوں اور افسانوں کو اس لئے گڑھا ہے تاکہ سرانجام خالد کی زبانی یہ کہلوائے کہ:

'' خدا نے میرے ذریعہ عراق کی سرحدوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ،وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے کی جرأت وہمت بخشی ''

سیف کے بقول خالد بن ولید کے بعد یہ سب فضل وافتخار خاندان تمیم کے بے مثال سورما ''قعقاع ''اور اس کے تمیمی بھائیوں تک پہنچتے ہیں اور سر انجام قعقاع کی وجہ سے عمر کی نسبت خالد کی بد گمانیاں دور ہو جاتی ہیں ۔

اسی طرح ہم نے خون کے دریا کی داستان میں دیکھا کہ کس طرح یہ فضل وشرف ان دوناقابل شکست سور مائوں کے درمیا ن تقسیم ہوتے ہیں ۔

سیف نے خالد بن ولید کے لئے عراق کی طرح شام میں بھی قابل توجہ افتخارات کے افسانے گڑھے ہیں ،انشاء اللہ ان کا ہم آگے ذکر کریں گے ۔

۱۶۶

سند کی پڑتال :

خالد کی عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں سیف کی حدیث کے راوی وہی ہیں جنھیں داستان ''الفراض''میں نقل کیا گیا ہے ۔جن کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ سب راوی جعلی اور سیف کے خیالات کی تخلیق تھے۔

اس جانچ کا خلاصہ :

طبری نے اپنی تاریخ میں ١٢ ہجری کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے خالد کے ہمراہ قعقاع کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کا ذکر کیا ہے اور حموی نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں سیف کے ذکر کردہ مقامات کا نام لیا ہے ، اس کے بعد طبری سے ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ان تمام مطالب کو نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ،جن کا ہم نے ذکر کیا جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ صحابہ کی تاریخ کے بارے میں مذکورہ مورخین نے صرف طبری سے نقل کیا ہے اور طبری کی معتبر تاریخی سند سیف ابن عمر تمیمی کی کتابیں ''فتوح '' اور ''جمل '' ہیں ہم نے اس مطلب کو '' سبائیوں کے افسانے کا سرچشمہ '' کے عنوان سے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبائ'' میں واضح طورسے بیان کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتیں :

بلاذری نے اپنی معتبر کتاب '' فتوح البلدان'' میں عراق میں خالد کی فتوحات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، لیکن اس نے وہاں پر قعقاع اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ،اور اس کے علاوہ متعدد جنگوں جیسے الثنی ،الولجہ اور حصید وغیرہ اور کئی شہروں کو فتح کئے جانے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔

طبری نے بھی سیف کے علاوہ ابن اسحاق کے ذریعہ خالد کی جنگوں کا ذکر کیا ہے اور اس میں تقریبا بلاذری کی طرح قعقاع اور دیگر مطالب کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا ۔

دینوری نے بھی اپنی کتاب '' اخبار الطوال '' میں عراق میں خالد کی جنگوں کے بارے میں کچھ مطالب درج کئے ہیں اس میں بھی قعقاع اور دیگر افسانوں کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے وہ صرف سیف ابن عمر تمیمی کے یہاں پایا جاتا ہے اور وہ ان تمام افسانوں اور جھوٹ کا سر چشمہ ہے ۔٤

۱۶۷

خالد شام جاتے ہوئے

سیف خالد ابن ولید کے سفر شام کے بارے میں لکھتا ہے :

''خالد نے عراق کے علاقہ '' سماوہ'' کے ایک گائوں کی طرف حرکت کی اور وہاں سے قصوان میں واقع '' مصیخ بہراء '' پر حملہ کیا اور مصیخ ایک بستی ہے '' نمر'' کے باشندے مئے نوشی میں مصروف تھے اور ان کا ساقی یہ شعر پڑھ رہا تھا :'' اے ساقی مجھے صبح کی شراب پلا دے اس سے قبل کہ ابوبکر کی سپاہ پہنچ جائے '' کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس طرح اس کا سرتن سے جدا کیا گیا کہ شراب کا جام جو اس کے ہاتھ میں تھا خون سے بھر گیا''

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ایک اور روایت پیش کی ہے :

'' خالد نے ولید بہراء کے اسیروں کو اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا وہاں پر اسے اطلاع ملی کہ غسانیان نے ''مرج راہط '' میں فوج کشی کی ہے لہٰذا وہ ان کی طرف بڑھ گیا اور ''مرج الصفر '' کے مقام پر ان سے رو برو ہوا ان کا سردار '' حارث ابن الایہم '' تھا خالد نے ان سے سخت جنگ کی اور اس کو اور اس کے خاندان کو نابود کرکے رکھ دیا اس کے بعد چند دن وہاں پر قیام کیا اور جنگی غنائم کا پانچواں حصہ وہیں سے ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا اس کے بعد قنات بصری کی طرف بڑھا یہ شام کے ابتدائی شہروں میں سے ایک شہر تھا جو خالد کے ہاتھوں فتح ہوا اور خالد نے اس شہر میں پڑائو ڈال دیا پھر خالد قنات بصری سے نو ہزار سپاہیوں کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لئے '' واقوصہ'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر رومیوں سے جنگ کی ''طبری کی روایت کا خاتمہ ۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی :

ابن اثیر نے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں اور اپنی تاریخ میں انھیں درج کیا ہے :

ابن عساکر نے قعقاع کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے :

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے '' واقوصہ'' کی جانب بڑھنے کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں '' :

۱۶۸

قعقاع کے رزمیہ اشعار

'' ہم نے خشک اور تپتے صحرائوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ طے کیا اور ''سومی'' کے بعد ''فرافر''کی طرف آگے بڑھے ۔وہیں پر ''بہرائ'' کی جنگ کا آغاز کیا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہمارے سفید اور زرد اونٹ ہمیں حملہ کے لئے ان غیر عرب اجنبیوں کی طرف لے گئے جو بھاگ رہے تھے ۔میں نے شہر بصری سے کہا : اپنی آنکھیں کھول دے اس نے خود کو اندھا بنا لیا کیوں کہ ''مرج ا لصفر ''کے مقام پر'' ایہم'' اور ''حارث غسانی' ' کی سرکردگی میں بعض گروہ خونخوار درندوں کی طرح جمع ہو گئے تھے۔ ہم نے ''مرج الصفر '' میں جنگ کی اور خاندان غسان کی ناک کاٹ کے رکھ دی اور انھیں شکست فاش سے دو چار کیا !اس دن ان لوگوں کے علاوہ جو ہماری تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھرے پڑے تھے بقیہ تمام غسانی بھاگ گئے ۔وہاں سے ہم پھر بصری کی طرف لوٹے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس نے بھی جو کچھ ہم سے پوشیدہ تھا ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ہم نے بصری کے دروازے کھول دیئے اس کے بعد وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکر '' یرموک'' کے قبائل کی طرف بڑھے ''

اس رجز کو ابن عساکر نے سیف کی روایت کے آخر مین درج کیا ہے جب کہ طبری نے اپنی عادت کے مطابق کہ وہ اکثر اشعار و رجز کو حذف کردیتا ہے اس رجز کا ذکر نہیں کیا ہے اور سیف کی روایت سے اسے حذف کر دیا ہے ۔

حموی بھی مصیخ کی معرفی میں سیف کی حدیث کو سند قرار دے کر لکھتا ہے :

' 'مصیخ بہرائ''شام کی سرحد پر ایک اور بستی ہے۔ خا لد بن ولید نے شام جاتے ہوئے ''سومی '' کے بعد وہاں پر پڑائوڈالا ۔چونکہ خالد نے مصیخ کے لوگوں کو مستی کی حالت میں پایا اوریہی مستی ان کے لئے موت کا سبب بنی ۔جب خالد نے اپنے سپاہیوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا،ان کے بزرگ و سردار نے یہ حالت دیکھ کر چیختے ہوئے کہا : ''اے ساقی !صبح کی شراب پلا!اس سے قبل کہ ابوبکر کی فوج پہنچ جائے ،شائد ہماری موت نزدیک ہو اور ہم کچھ نہ جانتے ہوں ''

کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس کاسر تن سے جدا کیا گیا اور خون و شراب باہم مل گئے۔ان کا کام تمام کرنے کے بعد ان کے اموال پر غنیمت کے طور پر قبضہ کیا گیا ۔غنائم کے پانچویں حصہ کو ابوبکر کے لئے مدینہ بھیج د یا گیا۔

۱۶۹

اس کے بعد خالد یرموک کی جانب بڑھا ۔قعقاع بن عمرو نے مصیخ بہراء کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر حموی نے مذکورہ بالا اشعار کے شروع کے تین شعر ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے یرموک کے موضوع کے بارے میں بھی سیف کی اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے لکھاہے:

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں اس طرح کہاہے: ...''

اور یہاں پر وہ مذکورہ اشعار کادوسرا حصہ ذکر کرتاہے۔

عبد المؤمن نے یرموک اور مصیخ کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع''میں حموی کی روایت سے استناد کیاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

جو کچھ خالد کی فتوحات کے بارے میں ذکر کیا گیاوہ سیف ابن عمر کی تحریر ہے۔ لیکن دوسروں کی تحریروں میں ایک تو ''مصیخ بہرائ''کا کہیں ذکر نہیں آیاہے۔دوسرے فتح بصری کے بارے میں تمام مورخین اس بات پر متفق القول ہیں کہ خالد کے وہاں پہنچنے سے پہلے ابو عبیدہ جراح ،یزید بن ابوسفیان ،اور شرجیل بن حسنہ کی سربراہی میں اسلامی فوج وہاں پر پہنچ چکی تھی ۔خالد اور اس کی فوج وہاں پہنچنے کے بعد ان سے ملحق ہوئی ۔اس لحاظ سے بصری صرف خالد اور اس کی سپاہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہواہے۔ ٥

سند کی پڑتال:

سیف ،خالد کے عراق سے شام کی جانب جانے کے بارے میں محمد ومہلب سے روایت کرتا ہے کہ یہ دونوں راوی اس کے جعلی اصحاب ہیں ۔اسی طرح عبیداللہ بن محفز بن ثعلبہ سے بھی روایت کی ہے کہ اس نے قبیلہ بکر بن وائل کے کسی ایک فردسے روایت کی ہے ۔لیکن عبید خود ان افراد میں سے ہے جو مجہول ہیں اور وہ سیف کے ذہن کی مخلوق ہے ۔طبری نے سیف کی چھ روایتیں اس سے نقل کی ہیں ۔لیکن بکر بن وائل کے قبیلہ کاوہ فرد معلوم نہیں کون ہے کہ ہم راویوں کی فہرست میں اس کو تلاش کرتے !!

۱۷۰

تحقیق کانتیجہ :

ابن عساکر قعقاع کے حالات کے بارے میں شروع سے آخر تک صرف سیف کی ایک حدیث کو نقل کرتا ہے اور خاص کرتاکید کرتا ہے کہ یہ سیف کی روایت ہے۔

طبری نے خالد کے شام کی طرف سفر کے بارے میں سیف کی حدیث کو نقل کیاہے لیکن اپنی

عادت کے مطابق اس کے رجز کوحذف کردیا ہے ۔

حموی نے اس روایت کے ایک حصہ کو مصیخ کے ذکر میں اور دوسرے حصہ کو یرموک کی تشریح میں کسی راوی کانام لئے بغیر ذکر کیا ہے اور یہی امر سبب بن جاتاہے کہ ایک محقق اس پر شک وشبہ کرے کہ ممکن ہے قعقاع کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ بھی کہیں آیا ہو ۔اسی طرح یہ شبہ مصیخ کے بارے میں بھی دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ (محقق) نہیں جانتا کہ مصیخ سیف کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔

سیف کی حدیث کے نتائج :

١۔ خالد بن ولید کے لئے شجاعتیں اور افتخارات درج کرانا۔

٢۔ مصیخ نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ یہ نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو جائے ۔

٣۔قعقاع کے اشعار سے ادبیات عرب کو مزین کرنا ۔

٤۔شام میں پہلی فتح کو خالد بن ولید اور اس کے عراقی سپاہیوں کے نام درج کرانا کیوں کہ عراق سیف ابن عمر کا وطن ہے ۔

۱۷۱

قعقاع ،شام کی جنگوں میں

کم من اب لی قد و رثت فعاله

کتنے ایسے میرے اسلاف و اجداد ہیں جن سے میں نے نیکی اور شجاعت وراثت میں پائی ہے

(سیف کا افسانوی سورما ،قعقاع)

جنگ یرموک کی داستان

طبری ١٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''یرموک کی جنگ میں خالد بن ولید نے گھوڑسواروں کی فوج کے ایک دستہ کی کمان قعقاع بن عمر و کو سونپی اور اسے دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیا قعقاع نے خود کو جنگ کے لئے آمادہ کیا اور حسب ذیل رجز پڑھے :

'' کاش !جنگجو اور شجاع سپاہیوں کو تہس نہس کرنے سے پہلے تجھے سواروں کے درمیان دیکھتا ،تجھے میدان جنگ میں دیکھ کر تیرا مقابلہ کرتا''

اس کے بعد طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کی تفصیلات درج کرتے ہوئے رومیوں کی جنگی تیاریوں کی عجیب طرز سے توصیف کی ہے:

''رومیوں نے اپنے سپاہیوں کی اس طرح تقسیم بندی کی تھی : اسّی (٨٠)ہزار فوجی ایک دوسرے سے سٹی ہوئی قطاروں کی صورت میں خود کو ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھے !چالیس ہزار فدائی جنگجوئوں نے خود کو زنجیروں سے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھا تھا !چالیس ہزار سپاہیوں نے بھی خود کو دستاروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا! اس کے علاوہ اسی(٨٠) ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل فوج تھی ،غرض دشمن نے ایک عظیم اور حیرت انگیز فوج کو منظم اور آمادہ رکھا تھا ''

۱۷۲

خالد نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ دشمن کی پیدل فوج پر حملہ کیا اور انھیں ایسے تہس نہس کرکے رکھ دیا کہ دشمن کی فوج ایک دیوار کے مانند دھڑام سے گر گئی ۔ رومی فوج اپنی خندق کی طرف دوڑ پڑی اور برگ خزاں کے مانند گروہ گروہ واقوصہ کی خندق میں ڈھیر ہو کر نابود ہوتی گئی اس طرح واقوصہ میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے سپاہیوں کی ایک عظیم قتل گاہ وجود میں آگئی ۔کافی تھا کہ ان میں سے ایک سپاہی کو قتل کیا جاتا اور وہ اپنے ساتھ دس سپاہیوں کو لیکر خندق میں جا گرتا تھا ،اس طرح دشمن کے ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی مارے گئے !!''

ابن عساکر اس روایت کے آخر میں ،جسے اس نے واقوصہ کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ،نیز قعقاع کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے دو نوں کے آخر میں درج ذیل اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : قعقاع بن عمرو تمیمی نے یرموک کی جنگ میں یہ شعر کہے تھے ۔

''کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم یرموک کی جنگ میں اسی طرح فتحیاب ہوئے جس طرح عراق کی جنگوں میں کامیاب ہوئے تھے ؟ہم نے شہر یرموک سے پہلے شہر بصری کو فتح کیا جسے ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح ایسے نئے نئے شہروں کو بھی فتح کیا جنھیں آج تک کسی نے فتح نہیں کیا تھا ۔ ہم نے شہر مرج الصفر کو اپنے سواروں اور پیدل فوج کے ذریعہ فتح کیا ۔جو بھی ہمارے سامنے آجاتا تھا اسے ہم ننگی تلوار سے قتل کر ڈالتے تھے اور جنگی غنائم لے کر لوٹتے تھے ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے رومیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا میدان جنگ میں ہمارے لئے ان کی قدر کبوتر کے فضلہ سے بھی حقیر تھی ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے ان کی فوج کا قتل عام کیا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے یہ ان کا المناک اور درد ناک انجام تھا''

ابن کثیر نے سیف کی اس روایت کو قعقاع کے اشعار کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں ایک جگہ ذکر کیا ہے ۔

ابن اثیر نے صرف اصل روایت کو نقل کیا ہے لیکن مذکورہ اشعار درج نہیں کئے ہیں ۔

حموی نے لغت '' واقوصہ'' میں روایت کے ایک حصہ کو درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے:

'' واقوصہ شام میں سر زمین حوران میں ایک صحرا ہے ۔وہاں پر ابوبکر کے زمانہ میں اسلامی فوج نے پڑائو ڈال کررومیوں سے جنگ کی ہے اور قعقاع بن عمرو نے اس جنگ میں یہ شعر کہے ہیں :..

یہاں پر مذکورا بالا اشعار میں سے پہلا شعر اور پھر پانچویں سے ساتویں شعر تک درج کیا ہے ۔

۱۷۳

سیف کی روایت کی حیثیت :

سیف نے یرموک کی فتح کو ١٣ھ میں بصری کی فتح کے بعد نقل کیا ہے ۔

لیکن ابن اسحاق اور دیگر مورخین نے '' اجنادین ''کی فتح کو '' بصری'' کی فتح کے بعد ذکر کیا ہے اور یرموک کی فتح کو ١٥ھ میں بیان کیا ہے اور اسے اس علاقہ کے شہروں کی آخری فتح جانتے ہیں دوسری جانب ''واقوصہ'' کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔اس سلسلے میں صرف بلاذری لکھتا ہے کہ:

''رومیوں نے جنگ '' اجنادین '' کے بعد ''یاقوصہ'' میں ایک بڑی فوج جمع کی اور مسلمانوں نے وہاں پر رومیوں سے جنگ کی اور انھیں پسپا ہونے پر مجبور کیا''

لگتا ہے سیف نے لفظ'' یاقوصہ '' کو اس لئے ''واقوصہ'' میں تبدیل کیا ہے تاکہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے مادئہ وقص یعنی گردن توڑنا سے استفادہ کرے اور اپنے فرضی میدان جنگ میں خالد بن ولید کی پیدل فوج کے شدید حملہ کے ذریعہ دشمن کی گردن توڑنے کو ثابت کرے۔

سند کی پڑتال :

سیف نے اس حدیث کے راوی کے طور پرمحمد بن عبداللہ کا نام لیا ہے ،جس کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ ابو عثمان یزید بن اسیدعسانی کو راوی کے طورپر پیش کیا ہے ۔لیکن اس کے بارے میں ہم نے نہ تاریخ طبری میں اور نہ تاریخ ابن عساکر میں کوئی روایت پائی ،اس کے علاوہ چوں کہ ہم نے اس کانام راویوں کی فہرست اور طبقات روایت میں بھی کہیں نہیں پایا ،اس لئے اسے بھی سیف کا جعلی راوی جانتے ہیں ۔اور معلوم ہوا کہ یہ شخص بھی اس کے دیگر راویوں اور ناقابل شکست جعلی سورمائوں کی طرح حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا ۔

۱۷۴

حدیث کی پڑتال کا نتیجہ

سیف کے کہنے کے مطابق ،یرموک میں جنگ کے لئے آمادہ ہوکر حملہ کرنے والے اور رجزو رزم نامے پڑھنے والے بزرگ اصحاب،ناقابل شکست پہلوان اور اسلام کے سچے سپاہی ،خاندان تمیم کے دوسورماؤں ،یعنی قعقاع بن عمرو اور ابو مفزر کے علاوہ اور کون ہوسکتے ہیں ؟

''واقوصہ''کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار انسان قتل عام کئے جاتے ہیں ،سیف نے کمانڈر انچیف،خالد بن ولید اور اس کی پیدل فوج کے برق رفتار حملے کے نتیجے میں صرف واقوصہ کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار جوانوں کو خاک وخون میں لوٹتے دکھایاہے۔اس طرح اتنے انسانوں کاخون بہاکر چند لمحوں کے لئے اپنی نہ بجھنے والی پیاس کو تسکین دی ہے،جب کہ دیگر مؤرخین نے اس قسم کی کوئی بات بیان نہیں کی ہے۔انہی میں سے بلاذری بھی ہے جس نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یرموک میں قتل ہوئے کل افراد کی تعداد ستر ہزار بتائی ہے۔اس کے علاوہ جاننا چاہئے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے یرموک کی جنگ کو ١٣ ھ میں ذکر کیاہے۔

سیف کے افسانوی سورما قعقاع کی جنگوں اور فتوحات کے یہ وہ چند نمونے تھے جنھیں اس نے ابو بکر کے دور میں روایت کیاہے۔عمر کے دور میں شام میں قعقاع کی جنگ وفتوحات کے نمونوں کاجائزہ ہم آنے والی فصل میں پیش کریں گے۔

۱۷۵

قعقاع ،عمر کے زمانے میں

قتل فیه من الروم ثمانون الفاً

''جنگ فحل میں اسّی ہزار رومی قتل کئے گئے ''

فتح دمشق کی داستان:

شہر دمشق کی فتح کے بارے میں سیف لکھتاہے:

''شہر دمشق کے محافظین کے سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہواتھا۔محافظین نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیاتھا۔اور کھانے پینے میں مشغول ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرکے شہر کی اہم چوکیوں کی حفاظت سے غافل ہوگئے ۔اس امر سے خالد بن ولید کے علاوہ کوئی مسلمان آگاہ نہیں ہوا، چونکہ وہ ہوشیار تھا اور اس سے اس شہر کے باشندوں اور محافظوں سے متعلق کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی!

رات ہوتے ہی خالد،قلعہ کے ساکنوں کی مستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی کے ہمراہ پہلے سے بنائی گئی رسیوں کی سیڑھیاں لے کر قلعہ کے نزدیک پہنچا ۔ انھوں نے رسی کی سیڑھیاں دشمن کے قلعہ کی دیوار کے کنگروں پر پھینکیں دو رسیاں کنگروں میں اٹک گئیں ۔ قعقاع اور مذعور سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئے پھر انھوں نے باقی سیڑھیوں کی رسیاں کنگروں سے محکم باندھ لیں اور دیگر لوگ بھی قلعہ کی دیوارسے اوپر چڑھ گئے ۔اس کے بعد بے خبر ومست محافظین پر حملہ کرکے ماردھاڑ شروع کی۔اورآسانی کے ساتھ ان پر غلبہ پالیا۔اس کے بعد اسلام کے سپاہیوں کے لئے قلعہ کادروازہ کھولدیا...''

ابن عساکر نے اس پوری داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فتح دمشق کی مناسبت سے یہ شعر کہے ہیں :

سلیمان کے دوشہروں (دمشق وتدمر)کے نزدیک ہم نے کئی مہینوں تک استقامت کی اور اپنی تلواروں پر ناز کرنے والے رومیوں سے جنگ کرتے رہے۔جب ہم نے دمشق کے عراقی دروازے کو اپنے قبضے میں لے کر کھول دیا تو ان کے تمام سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔جب پورے شہر پر ہمارا قبضہ ہوگیاتو میں نے حکم دیا کہ ان کے سر تن سے جدا کردئے جائیں اور ان کے گلے پھاڑدئے جائیں ۔ جب انھوں نے شہر دمشق اور تدمر میں ہمارے پنجے مستحکم ہوتے دیکھے توخوف ووحشت سے انگشت بدندان رہ گئے''۔

۱۷۶

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کے آخر میں اشعار حذف کئے ہیں ۔اسی لئے مذکورہ اشعار کو بھی اپنی روایت میں درج نہیں کیاہے۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی

فتح دمشق کی داستان کو طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کیاہے اور دوسروں جیسے،ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسی طرح طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس روایت کو اس طرح شروع کرتاہے:

''سیف کہتاہے .....''

اس کے بعد داستان کو آخر تک لکھتاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

بلاذری نے فتح دمشق کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے:

''خالدبن ولید نے ''دیرخالد ''کے باشندوں سے یہ شرط رکھی کہ اگر اسے ایک سیڑھی دیدیں ، جس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ کی دیوار پر چڑھ سکے تو ان کے خراج میں تخفیف کردے گا۔کہ آخر کار ابو عبید نے خالد کے مطالبہ کو پورا کیا''۔

سند کی پڑتال

فتح دمشق کی داستان کو سیف نے صرف ایک جگہ اور ایک روایت میں تین راویوں ،ابو عثمان ،خالد اور عبادہ سے نقل کیاہے۔ابو عثمان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکاہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی اور اس کے ذہن کے تخلیق ہے۔

لیکن خالد وعبادہ جن سے طبری اور ابن عساکرنے سیف کے ذریعہ سولہ روایتیں نقلی کی ہیں کے بارے میں ہم فہرست اور طبقات رجال میں کوئی سراغ نہ پاسکے۔

۱۷۷

فحل کی جنگ

طبری اور ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اس طرح روایت کی ہے:

''دمشق کو فتح کرنے کے بعد ابوعبیدہ''فحل''کی طرف روانہ ہوا۔رومیوں نے اسلامی فوج سے لڑنے اور ان کی پیشقدمی کو روکنے کے لئے اسّی ہزار فوج آمادہ کر رکھی تھی اور گھات لگاکر اچانک اسلامی فوج پر حملہ کیا۔مسلمانوں نے شجاعت اور دلیری کے ساتھ رومیوں کے اس اچانک حملہ کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس طرح ایک گھمسان جنگ چھڑگئی ۔یہ جنگ ایک دن اور ایک رات جاری رہی۔مسلمانوں نے رومیوں کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور سر انجام یہ جنگ مسلمانوں کی فتحیابی اور رومیوں کی ہزیمت پر ختم ہوئی۔

رومیوں نے پہلے سے ہی ایک خندق کھود کر اس میں پانی بھر دیاتھا تا کہ اسلامی فوج کی پیشقدمی کو روک سکیں ۔لیکن شکست کھاکر پیچھے ہٹتے ہوئے رومی خود اس خندق میں گر کر دلدل میں پھنس گئے ۔ایسے پھنسنے والوں کاحال معلوم ہی ہے کہ کیا ہوگا!اس طرح اس جنگ میں اسّی ہزار رومی ہلاک ہوگئے مگر یہ کہ کوئی فرار ہونے میں کامیاب ہواہو !

ابن عساکر نے اس داستان کے آخر میں یہ اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فحل کی فتحیابی کے سلسلے میں اس طرح شعر کہے ہیں :

''کتنے ایسے میرے اسلاف ہیں ،کہ ان کے نیک کام مجھے وراثت میں ملے ہیں ۔میرے اجداد ایسے ہیں جن کی عظمت وبزرگواری سمندر کے مانندہے۔انھوں نے بھی فضائل کو اپنے اجداد سے وراثت میں پایاتھا اور بصیرت وبلند نظریات کی بناپر ان فضائل کو چار چاند لگائے تھے ۔میں نے بھی اپنی ذمہ داری کے مطابق ان مفاخر وفضائل کو بڑھاوادیا اور انھیں نقصان پہنچنے نہیں دیا۔میری اولاد بھی اگر میرے بعد زندہ رہے تو وہ بھی ان فضائل و مفاخر کے بانی ہوں گے ''

۱۷۸

''فوج کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے رہے ہیں ،وہ بادشاہوں کی طرح حملہ کرتے ہیں ، ان کے پیچھے بہادر فوج ہے ۔ہم میدان کارزار کے بہادر ہیں ،جس وقت سرحد کے محافظ سستی دکھاتے ہیں ،ہم ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان پر فتح پاتے ہیں ''

فحل کی جنگ میں جب میرا گھوڑا کرو فر کے ساتھ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اور بلائیں چاروں طرف سے گھیرنے لگیں تو لوگ میری سر بلندی اور بہادر ی کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔اگر میری جگہ پر کوئی اور ان بلائوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا تو بے چارہ اور ذلیل ہو کے رہ جاتا اور ایسے کام کو اپنے ذمہ لینے پر شرمندہ ہو جاتا !''

عربی گھوڑے فحل کے میدان کارزار میں گردو غبار کو آسمان پر اڑاتے ہوئے دشمن کی فوج کو کچلے دے رہے تھے ،سر انجام ان کے گھوڑوں نے اپنے ہی سرداروں کو دلدل میں گرادیا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہے ۔اس کے بعد ہم نے سر نیزوں سے دشمن پر حملہ کیا ۔ ہم نے ان کی فوج کو دلدل میں نابود کرکے رکھ دیا اس دن تمام نگاہیں مجھ پر متمرکز تھیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے روایت کی ہے کہ قعقاع نے جنگ فحل میں یہ شعر کہے ہیں :

''فحل کی جنگ میں ہم اتنے مشکلات سے دو چار ہوئے کہ جس کے خوف سے پہلوان اپنے اسلحہ کو گھر میں ہی بھول جاتے تھے ۔میں اس دن اپنے مشہور گھوڑے پر پوری طاقت سے سوار ہوکر اپنے بہادر فوجیوں کے ساتھ دشمن پر تیر باران کرتا تھا ۔ بالاخر ہم نے مقاومت کرنے والے دشمن کے فوجیوں کو تلوار کے وار سے منتشر کرکے بھگا دیا''

''ہم ہی ہیں جنھوں نے عراق کو اپنے گھوڑوں سے عبور کیا اور شام میں اپنی تلواروں کے سائے میں جنگ لڑی اور عراق اور اس کی جنگوں کے بعد بہت سے نصرانیوں کو نابود کرکے رکھ دیا ''

حموی نے سیف کی اس روایت پر استناد کرکے لغت ''فحل'' کے بارے میں لکھا ہے :

''جس سال مسلمانوں کے ہاتھوں دمشق فتح ہوا ،اسی سال فحل میں مسلمانوں اور اسّی(٨٠) ہزار رومی فوج کے درمیان جنگ ہوئی اور قعقاع بن عمرو تمیمی نے اس جنگ کے بارے میں یوں کہا ہے ...:

اس کے بعد روایت کی سند کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ کئے بغیر چار شعر ذکر کئے ہیں ۔

۱۷۹

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

طبری نے ''فحل'' کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے ،اور معمول کے مطابق اس سے مربوط رجز و شعر کو حذف کیا ہے ۔

ابن عساکر نے بھی فحل کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس سے مربوط اشعار بھی ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے اس داستان کا تھوڑ ا سا حصہ لغت '' فحل '' کے سلسلے میں سند کے بغیر ذکر کیا ہے لیکن اس داستان سے مربوط مطالب ،ان مطالب سے مختلف ہیں جو دیگر مورخین نے اس سلسلے میں درج کئے ہیں مثال کے طور پر بلاذری نے اس معرکہ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد دس ہزار بتائی ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی مورخ نے شام کی جنگوں میں خاندان تمیم کے سورمائوں کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر لکھتا ہے :

''مورخین کا اتفاق ہے کہ شام کی فتوحات میں قبائل اسد ،تمیم اور ربیعہ میں سے کسی نے شرکت نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنی لشکر گاہ یعنی عراق کے حالات کے مطابق وہیں پر ایرانیوں سے بر سر پیکار تھے '' ١

سند کی پڑتال :

سیف نے داستان فحل ،ابو عثمان یزید سے روایت کی ہے جب کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیف کا جعل کردہ راوی ہے ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416