ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215129 / ڈاؤنلوڈ: 4963
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بِجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ >(۱)

لیکن کوفہ کا حاکم ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

یا ایک اور شخص ،” مروان حکم “(۲) جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ طائف جلا وطن کیا تھا ، بعد میں ایک حاکم واقع ہونے کی وجہ سے عزت وا حترام کا مستحق بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

قریش کے بزرگوں اور حکمراں ، فرماں روا اور امراء طبقے کے ایسے لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کی عزت و احترام محفوظ رہے اورہم ان کی شخصیت کی حرمت کے محافظ بنیں ، لیکن اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متقی و پرہیزگار تہی دست صحابی ” ابو ذر غفاری“ یا باتقویٰ اور خدا ترس صحابی ” سمیہ “ نامی کنیز کے بیٹے ”عمار یاسر “ یا ” عبدا لرحمان بن عدیس بلوی “ نامی نیک و پارسا صحابی جو اصحاب بیعت شجرہ میں سے تھے اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :

لَقَد رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَافِی قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً >(۳)

یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابی جیسے ، ” صوحان عبدی “ کے بیٹے زید اور ”صعصعہ“ اور ان جیسے دسیوں صحابی اور تابعین جو ریاست و حکومت کے عہدہ دار نہ تھے اور قریش کے سرداروں میں سے بھی نہ تھے ، انھیں اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان کی ملامت اور طعنہ زنی کی جائے اور یمن کے صنعا سے ایک یہودی کو خلق کرکے اس خیالی اور جعلی شخص کو فرضی طور پر ان مقدس اشخاص میں قرار دیگر صاحبان قدرت اور حکومت سے ان کو ٹکرایا جائے اور

____________________

۱۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ، ایسا نہ ہو کہ ایسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ کہ جس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ( حجرات /۶۰)

۲۔ اسی کتاب کی فصل ” پیدائش افسانہ شیبہ “ اور دیگر فصلو ں میں اس کے حالات کے بارے میں دی گئی تشریح کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔ یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلو ں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انھی ں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ( فتح / ۱۸)

۲۱

اس طرح سیف کی جعلی روایتیں شہرت پاکر رائج ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین اور تحقیق نہیں ہوتی ہے ۔

اس قسم کی داستانوں اور افسانوں (جنھیں جعل کرنے والوں نے صاحبان قدرت و حکومت کے دفاع اور ان کے مخالفوں کی سرکوبی کےلئے گڑھ لیا ہے) کی اشاعت ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض افسانے اس حد تک مسلم تاریخی حقائق میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ہے اور بعض دانشورحضرات اس کے تحفظ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔

جبکہ یہ اس حالت میں ہے کہ جسے انہوں نے دین کا نام دیا ہے وہ حکمراں طبقے اور ان سے مربوط افراد کی عزت و احترام کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

لیکن اصحاب و تابعین سے مربوط وہ لوگ جو مجبور ہوکر قدرت و حکومت سے دور رہ کر کمزور واقع ہوئے ہیں ، ان دانشوروں کی نظروں میں قابل اہمیت و موردتوجہ قرار نہیں پائے ہیں ، کیونکہ انہوں نے صاحبان قدرت و دولت کی پیروی نہیں کی ہے بلکہان کے موافق نہیں تھے ۔

یہاں پر میں ایک بار پھر خداوند عالم کو شاہد قرار دیکر کہتا ہوں کہ جس چیز نے مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے کی ترغیب دی، وہ یہ ہے کہ مجھے بچپنے ہی سے اسلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران کے اصحاب کے متعلق جاننے و پہچاننے کی دلچسپی تھی اور میں نے اپنی اکثر زندگی اسی راہ میں گزاری ہے ، تب جاکر اس زمانے کے وقائع اور روئدادوں کو پہچاننے اور ان کی طرف بڑھنے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو شائع کیا ہے اور اس امید میں بیٹھا ہوں کہ محققین اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس چھان بین کو دقیق اور مضبوط تر صورت میں انجام دیں گے، میں اس کتاب کے قارئین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے تئیں میری محبت اور وفاداری ان سے کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں تظاہر کرتے ہیں ، البتہ اس سلسلہ میں اصحاب کے وہ افراد جن کا تاریخ میں اسلام کی نسبت نفاق اور دو رخی ثابت ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ میں احترام اور ان کی پرستش میں فرق کا قائل ہوں ، کیونکہ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ان دانشوروں نے اصحاب کی عزت و احترام کو تقدیس و ستائش کی اس حد تک آگے بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض افراد اپنے شائستہ اسلاف کی (خدا کی پنا ہو) غیر شعوری طور پر پرستش کرنے لگے ہیں ، خداوند ہمیں ، ان کو اور تمام مسلمانوں کو اس غلطی سے نجات دے ۔

۲۲

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر خدا کو دیکھا ہے اور اس دیدار کے دوران اگر ایک لمحہ(۱) کےلئے بھی مسلمان ہوگیا ہے ، وہ صحابی ہے اور ان کے اعتقاد کے مطابق صحابی فرشتہ جیسا ہے جس کی فطرت میں خواہشات اور غریزے کا دخل نہیں ہوتا ، لہذا وہ جب اس کے برعکس کچھ سنتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور اس طرز تفکر کی وجہ سے یہ لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں فی الحال ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

آخر کلام میں امید رکھتا ہوں کہ باریک بین اور تیز فہم حضرات ، اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں چھپے ہوئے میرے اس جملہ کو پڑھ لیں :

” جو لوگ تاریخ میں لکھی گئی چیزوں کو بوڑھی عورتوں کے خرافات اور بیہودگیوں کی نسبت تعصب کے مانند اعتقاد رکھتے ہیں ، وہ اس کتاب کو نہ پڑھیں “

اس کے علاوہ بھی چندتنقید یں ہوئی ہیں ، مثلاً اعتراض کیا گیا ہے کہ کیوں اس کتاب کا نام ” عبدا للہ بن سبا“ رکھا گیا ہے جبکہ اس میں ”عبدا للہ بن سبا “ کی بہ نسبت دوسری داستانیں زیادہ ہیں ؟

اس سوال کا ہم نے اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں جواب دیدیا ہے اور اس کے علاوہ کتاب کے سرورق پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ اور دیگر تاریخی داستانوں پر مشتمل ہے مزید ہم نے پہلی طباعت کے مقدمہ میں کہا ہے :

____________________

۱۔ کتاب الاصابہ، ( ۱/۱۰) الفصل الاول ” فی تعریف الصحابی “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۳

” قارئین کرام جلدی ہی سمجھ لیں گے کہ یہ کتاب صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کی داستان سے مربوط نہیں ہے بلکہ بحث کا دامن اس سے وسیع تر ہے “

ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے باوجود تنقید کرنے والوں کےلئے یہ مطلب کیونکر پوشیدہ رہ گیا ؟!

ضمناً ہم نے کتاب کے آخر میں مصر کے معاصر دانشور جناب ڈاکٹر احسان عباس کی عالمانہ تنقید اور ان کے سوالات درج کرنے کے بعد ان کا جواب لکھا ہے ۔

و مَا توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب

اس تحریر کو میں نے ذی الحجة ۱۳۸۷ ھ ء عید قربان کے دن منی کے خیمون میں مکمل کیا ہے خداوند عالم مسلمانوں کےلئے ایسی عیدیں باربار لائے اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احکام الہی کو انجام دینے میں تلاش و جستجو کریں تا کہ خداوندعالم ان کی حالت کو بدل دے ۔

اِن َّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (۱)

صدق الله العلیّ العظیم

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے رعد/ ۱۱

۲۴

مباحث پر ایک نظر

کتاب کی دوسری طباعت پر مصنف کا مقدمہ

میں نے حدیث اور تاریخ اسلام کی چھان بین اور تحقیق کے دوران حاصل شدہ نتیجہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور فیصلہ کرچکا ہوں کہ ہر حصے میں اپنی تحقیق کے نتائج کو براہ راست شائع کروں ، یہ چار حصے حسب ذیل ہیں :

اول : حدیث و تاریخ پر اثر ڈالنے والے تین بنیادی اسباب کی تحقیق۔

الف۔پوجا اور پرستش کی حد تک بزرگوں کی ستائش کا اثر

ب۔وقت کے حکام کا حدیث اور تاریخ پر اثر

ج۔حدیث اور تاریخ پر مذہبی تعصب کا اثر

اس بحث میں مذکورہ تین مؤثر کی وجہ سے حدیث اور تاریخ میں پیدا شدہ تحریف اور تبدیلیوں پر چھان بین ہوئی ہے لیکن آج تک اسے نشر کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے۔

دوم : ام المؤمنین عائشہ کی احادیث

یہ بحث دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ، اس کا پہلا حصہ حضرت عائشہ کی حالات زندگی سے متعلق ہے، جو عربی زبان میں ۳۱۴ صفحات پرمشتمل ۱۳۸۰ ء ھ میں تھران میں شائع ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ام المؤمنین کی احادیث کے تجزیہ و تحلیل پر مشتمل ہے یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے ۔

سوم : صحابہ کی احادیث

اس حصہ میں بعض اصحاب کی احادیث ، جن میں ابو ہریرہ کی احادیث اہم تھیں ، جمع کی گئی ہیں اور میں اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن جب میں نے آیت اللہ سید عبدا لحسین شرف الدین کی کتاب ” ابو ہریرہ“ دیکھی تو اسے اس سلسلے میں کافی سمجھ کر اپنی کتاب کو شائع کرنے سےمنصرف ہوگیا۔

چہارم : سیف کی احادیث:

اس حصہ میں سیف بن عمیر کی روایتوں کی چھان بین کی گئی ہے جن میں اس نے ۱۱ ھء سے ۳۷ ھ ء تک کے تاریخی وقائع نقل کئے ہیں ۔

۲۵

سیف نے پہلے سقیفہ ، پھر مرتدوں سے جنگ اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے دوران مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں لکھا ہے اور آخر میں اسلامی شہروں میں حضرت عثمان کی حکومت اور بنی امیہ کے خلاف بغاوتوں کو عثمان کے قتل تک کے واقعات کی وضاحت کی ہے پھر امیر المؤمنین کی بیعت اور جنگ جمل کی بات کی ہے ، اور ان وقائع میں بنی امیہ کی بدکرداریوں کی پردہ پوشی کرنے کےلئے عبد الله بن سبا اور سبائیوں کا افسانہ گڑھ لیا ہے ، اس طرح ان تمام وقائع کو بنی امیہ اور قریش کے تمام اشراف کے حق میں خاتمہ بخشتا ہے ۔

میں نے اس حصہ میں سیف کے چند افسانوں کو تاریخ کی ترتیب سے درج کرکے ” احادیث سیف“ کے عنوان سے طباعت کےلئے آمادہ کیا ،مرحوم شیخ راضی آل یاسین کو میر ی تصنیف کے بارے میں اطلاع ملی اور انہوں نے فرمایا کہ : سیف بن عمیر ناشناختہ ہے لہذا ” احادیث سیف “ کا عنوان جذابیت نہیں رکھتا ہے ، چونکہ سیف کا سب سے بڑا افسانہ ” عبد اللہ بن سبا “ اور سبائی ہے ، لہذا بہتر ہے اس کتاب کا نام ”’ عبدا للہ بن سبا “ رکھا جائے ، اس لئے اس کتاب کا نام بدل کر ” عبدا للہ ابن سبا “ رکھا اور اسے طباعت کے لئے پیش کیا ۔

اس کتاب کی طباعت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سیف کے افسانوں کے بہت سے سورما پیغمبر خدا کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں لہذا اس کتاب کی پہلی جلد کے آخر میں اس کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں اصحاب پیغمبر کے بارے میں حالات درج کئے گئے منابع اور کتابوں کی تحقیق کی، اور مطالعہ کرنے لگا اس تحقیق کے نتیجہ میں ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تالیف کی اور طباعت کے حوالے کی ۔ لہذا سیف کی احادیث کے بارے میں بحث تین حصوں میں انجام پائی :

۱ ۔ عبدا للہ بن سبا اور چند دیگر افسانے ۔

۲ ۔ عبدا لله بن سبا اورسبائیوں کا افسانہ۔

۳ ۔ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ۔

پہلے حصہ میں سیف کی پندرہ قسم کی روایتوں کی حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عثمان کی خلافت تک ان کے واقع ہونے کے سالوں کی ترتیب سے چھان بین کی گئی ہے ۔ یہ حصہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کی پہلی جلد پر مشتمل ہے ، جس میں درج ذیل دو موضوعات پر بحث کی گئی ہے:

۲۶

۱ ۔ اسامہ کا لشکر

۲ ۔ سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت

اس کتاب کی دوسری جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلام میں ارتداد ۔

۴ ۔ مالک بن نویرہ کی داستان۔

۵ ۔ علاء حضرمی کی داستان۔

۶ ۔ حواب کی سرزمین اور وہاں کے کتے۔

۷ ۔ نسلِ زیاد کی اصلاح۔

۸ ۔ مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان ۔

۹ ۔ ابو محجن کی شراب نوشی ۔

۱۰ ۔ سیف کے ایام ۔

۱۱ ۔ شوریٰ اور عثمان کی بیعت ۔

۱۲ ۔ ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان۔

۱۳ ۔ تاریخ کے سالوں میں سیف کی دخل اندازی۔

۱۴ ۔ سیف کے افسانوی شہر

۱۵ ۔ خاتمہ

کتاب کی اس جلد کو عربی متن کے ساتھ مطابقت کرنے کے بعد اس میں روایتوں کے مآخذ کی چھان بین اور جعلی اصحاب کو مشخص کرنے کے سلسلے میں چند اہم حصوں کا اضافہ کرکے طباعت کےلئے پیش کیا گیا ۔ خدائے تعالی سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی دوسری جلد اور کتاب ” ۱۵۰ جعلی اصحاب“ کو طبع کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

سید مرتضی عسکری

تہران جمعہ ۱۴/ ۴/ ۱۳۸۶ ھ

۲۷

آغاز بحث

پہلی طباعت کا مقدمہ

میں ۱۳۶۹ ھء میں حدیث و تاریخ کے بارے میں چند موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر تحقیق و مطالعہ کررہا تھا، منابع و مآخذ کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے حدیث اور تاریخ کی قدیمی ، مشہور اور معتبر ترین کتابوں میں موجود بعض روایتوں کے صحیح ہونے میں شک کیا، اس کے بعد میں نے شک وشبہہ پیدا کرنے والی راویتوں کو جمع کرکے انھیں دوسری روایتوں سے موازنہ کیا اس موازنہ نے مجھے ایک ایسی حقیقت کی راہنمائی کی جو فراموشی کی سپرد ہوچکی تھی اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر زمانے کے حوادث کی شکار ہوچکی تھی ۔

جب اس قسم کی روایتوں کی تعداد قابل توجہ حد تک بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کرگئی تو میں نے اخلاقی طور پر اس ذمہ داری کا احساس کیا کہ اس ناشناختہ حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھاؤں ۔

اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں لکھی گئی یادداشتوں کو چند فصلوں میں تقسیم کیا اور انھیں ”احادیث سیف “ کا نام دیا، میرے اس کام سے ” کتاب صلح حسن “ کے مؤلف جناب شیخ راضی یاسین طاب ثراہ آگاہ ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بحث کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا نام ” عبد اللہ بن سبا “ رکھوں ، اور میں نے بھی ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔

۲۸

میری تحقیق کا یہ کام سات سال تک یوں ہی پڑا رہا اور اس دوران گنے چنے چند دانشوروں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی اورآگاہ نہ ہو ا، جس چیز نے مجھے اس مدت کے دوران اس کتاب کی طباعت سے روکا ، وہ یہ تھا کہ میں اس امر سے ڈرتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ، کیونکہ احادیث اور روایات کا یہ مجموعہ ان واقعات کے بارے میں تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۳۷ ھ ء تک گزرے ہیں ،اس مدت کے بارے میں لکھی گئی تاریخ، عام مسلمانوں کےلئے امر واقعی کے طور پر ثبت ہوچکی تھی اور ان کے اعتقادات کے مطابق اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زمانے کے بارے میں لکھی گئی تاریخ ان کے دینی عقائد کا جزہے اور پسماندگان کو کسی قسم کے چون، چرا کے بغیر اسے قبول کرنا چاہئے ۔

یہ مباحث ، تاریخ کی بہت سی ایسی بنیادوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں ، جنھیں تاریخ دانوں نے بنیاد قرار دیگر ناقابل تغیر سمجھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ مباحث اسلام کی بہت سی تاریخی داستانو ں کو غلط ثابت کرتے ہیں اور بہت سے قابل اعتماد منابع و مآخذکے ضعیف ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔(۱)

قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ بحث ” عبد اللہ بن سبا“ اور اس کے افسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دامن کافی وسیع اور عمیق تر ہے ۔

____________________

۱۔اس لئے ” پیرزال “ کے مانند تاریخ میں لکھے گئے خرافات و توہمات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے حضرات کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔

۲۹

اس سبب اور چندد یگر اسباب کی بنا پر اس کتاب کو شائع کرنے کے سلسلے میں میرے دل میں خوف پیدا ہوا تھا ، لیکن جب میں نے اس موضوع کے ایک حصہ کو تاریخ پر تحقیقاتی کام انجام دینے والے دو عالیمقام دانشوروں کی تحریروں میں پایا تو میرے حوصلے بڑھ گئے اور میں نے ان مباحث کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ان مباحث میں قدیمی ترین تاریخی منابع و مآخذسے استفادہ کیا ہے اور پانچویں صدی کے بعد والے کسی شخص سے کوئی بات نقل نہیں کی ہے مگر یہ کہ پانچویں صدی کے بعد نقل کی گئی کسی بات کی بنیاد متقدمین سے مربوط ہو اور صرف اس کی شرح و تفصیل اس کے بعد والوں کسی نے کی ہو۔

ولله الحمد و منہ التوفیق

بغداد ۱۵ رمضان ۱۳۷۵ ھ

مرتضی عسکری

۳۰

پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ

افسانہ کی پیدائش

افسانہ کے روایوں کا سلسلہ

سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔

عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش

هٰذه هی اسطورة ابن سَبا بإیجاز

یہ افسانہ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔

ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں (اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ

یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور

سبائی کون ہیں ؟

ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں ؟

۳۱

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے

صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔

مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا)رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔

اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔

۳۲

اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔

کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔

اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں

۱ ۔ ابوذر

۲ ۔ عمار بن یاسر

۳ ۔ عبد الرحمان بن عدیس

۴ ۔ صعصعہ بن صوحان

۵ ۔ محمد بن ابی حذیفہ

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔

۷ ۔ مالک اشتر

۳۳

۱ابوذر

ان کا نام جندب بن جنادہ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔

اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔

ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:

مَا اظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر

آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے(۱)

____________________

۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۳۴

۲ عمار بن یاسر

ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔

عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے(۱) ۔

انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

۱۔”ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشه

۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۵

۳ محمد بن ابی حذیفہ

ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ،

۳۶

محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا(۱)

۴ عبد الرحمان بن عدیس بلوی

وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا(۲)

۵ محمد بن ابی بکر

ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ

____________________

۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔

۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کری ں ۔

۳۷

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔

حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا(۱)

۶ صعصعہ بن سوہان عبدی

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی(۲)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں ، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو

۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۳۸

۷ مالک اشتر

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے

تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم (بحر احمر) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے(۱) یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!

اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔

____________________

۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور

افسانہ عبدا للہ بن سبا کے راوی

اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں هذه القصة

دس صدیو ں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔

” مولف“

۳۹

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میں ا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں ! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اس کے بعد طبری لکھتا ہے:

''خالدکی اس فوج کشی کے دوران متعدد جنگیں لڑی گئیں اور بہت سے رزمیہ قصیدے لکھے گئے اس کے بعد خالد ''حیرہ'' کی طرف واپس ہو ااور قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کو حکم دیا تاکہ فوج کے ساتھ چلے اور باقی فوجیوں کی کمانڈ شجرہ بن اعزکے ہاتھ میں دی اور یہ افواہ پھیلائی کہ باقی فوجیوں کے ہمراہ پیچھے پیچھے خود بھی آرہا ہے ۔اس طرح ماہ ذی قعدہ کے پانچ دن بچے تھے کہ وہ چھپکے سے فوج سے خارج ہوا اور حج انجام دینے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہو ا۔ جب وہ حج سے واپس آیا تو اس وقت ابھی باقی فوجی حیرہ نہیں پہنچے تھے ۔خالد کے اس اچانک سفر کی خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی خلیفہ کو یہ خبر سخت ناگوار گزری ۔انھوں نے غضبناک ہو کر تنبیہ کے طور پر خالد کو عراق کے بجائے اسے شام کی ماموریت دے دی ''

حموی اس روایت پر اعتبار کرتے ہوئے ''فراض ''کے بارے میں لکھتاہے:

''جو کچھ سیف کی کتاب''فتوح''میں آیاہے،اس کے مطابق ،خالد بن ولید نے ''فراض''جو شام ، عراق اور جزیرہ کی مشترک سرحد پر فرات کی مشرق میں واقع ہے اور رومیوں ،عرب اور ایرانیوں نے وہاں پر اجتماع کیاتھا میں قبیلہ بنی غالب پر اچانک حملہ کیا اور گھمسان کی جنگ کی''۔سیف کہتاہے:اس جنگ میں ایک لاکھ انسان مارے گئے ۔اس کے بعد خالد ١٢ ھ میں جب ماہ ذی الحجہ کے دس دن باقی بچے تھے سفر حج سے واپس بحیرہ پہنچا ۔قعقاع نے اس واقعہ کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''میں نے سرزمین ''فراض ''میں ایرانیوں اور رومیوں کے اجتماع کو دیکھا کہ ایام کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کی سلامتی خطرے میں پڑگئی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جمعیت کو تتر بتر کرکے رکھ دیا اور اس کے بعد قبیلۂ بنی رزام پر شب خون مارا۔ابھی اسلام کے سپاہی جابجا نہیں ہوئے تھے کہ دشمن سر کٹی بھیڑوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔''

سند کی پڑتال

فراض کی روایت بیان کرنے والے بھی سیف کے دو راوی محمدومہلب ہیں اور پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ سیف کے جعلی راوی ہیں ۔اس کے علاوہ سیف کا ایک اور راوی ظفر بن دہی ہے کہ انشا ء اللہ اس کی آئندہ وضاحت کریں گے ۔ان کے علاوہ اس نے بنی سعد سے ایک شخص کوراوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف کے خیال میں اس کا کیا نام تھا تاکہ ہم اس کی تحقیقات کرتے۔

۱۶۱

بحث کا نتیجہ:

سیف کے جعلی صحابی ابی مفزرکے سلسلے میں بحث کے دوران ''الثنی''اور ''زمیل''کی جنگ کے بارے میں بھی انشاء اللہ تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن ''فراض'' کی جنگ میں خالد کے اچانک حملہ کرکے شب خون مارنے اور ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام کرنے ،قعقاع کی خو دستائی اور رجز خوانی وغیرہ اور خالد کے چوری چھپے حج پر جانے کے بارے میں صرف سیف نے روایت اور افسانہ سازی کی ہے ۔طبری پہلا مشہور مورخ ہے جس نے سیف کے افسانوں کو نقل کرکے لوگوں کی نگاہ میں اپنی معتبر تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔اور ان افسانوں کو دوسر ے تاریخ دانوں نے طبری سے نقل کیا ہے ۔اس میں صرف یہ فرق ہے کہ طبر ی نے اپنی عادت کے مطابق اپنی تاریخ میں اشعار اور رجز خوانیوں کوثبت نہیں کیا ہے اگر چہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان جنگوں میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے گئے ہیں ۔

لیکن مشہور جغرافیا نویس ،حموی نے قعقاع کی رجز خوانیوں میں سے ایک حصہ سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کیا ہے اور ایک حصے کو ''الفراض ''کے ذکر کے ذیل میں اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے ۔

لیکن یہ بات قابل غورہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اس طرح ظاہر کیا کہ وہ اپنی فوج میں موجود ہے ،لیکن چوری چھپے اس وقت حج کے لئے نکل جاتا ہے جب کے ماہ ذیقعدہ کے ابھی پانچ دن باقی تھے اور حموی کے قو ل کے مطابق ذی الحجہ کے ١٠دن باقی تھے جب وہ واپس آکر اپنی فوج سے ملحق ہو تا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ سپہ سالار کی ٢٥ دن فوج کی غیر حاضری کو سپاہی کس طرح نہ سمجھ سکے ؟!اس مدت میں فوج کے لئے نماز کی امامت کے فرائض کس نے انجام دئے(۱) ؟! اس کی غیر حاضری سے فوج کے افسر تک کیسے آگاہ نہ ہوسکے؟! اور اس سے بھی بڑھ کر ،خالد نے اس زمانے میں ''حیرہ ''سے مکہ تک کا سفر نوہی دنوں میں کس طرح طے کیا ؟!یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں غور وفکر پر مجبور کرتے ہیں اور اس امرکاسبب بنتے ہیں کہ ان مسائل پر بیشتر بحث وتحقیق کریں ۔انشاء اللہ ہم بعد میں اس سلسلے میں مزید بحث وتحقیق کریں گے کہ سیف نے کیوں ان حالات میں خالد بن ولید کے لئے اس طرح کے حج کی داستان جعل کی ہے۔

____________________

(۱)۔اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ ،بہر صورت اسلامی فوج کی نماز پنجگانہ کی امامت فوج کاسردار کرتاتھا۔

۱۶۲

جنگ فراض کی داستان کے نتائج:

١۔ میدان کارزار میں مضری خاندان کے سپہ سالار خالد بن ولید اور تمیمی خاندان کے سورما قعقاع کے کمالات وافتخارات دکھانا۔

٢۔حج کی لمبی مسافت کو طے کرنے میں خالد بن ولید کی کرامت کااظہار کرنا۔

٣۔شجرہ نامی ایک شخص کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر جعل کرنا۔

٤۔جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کی داستان گڑھ کر اسلام کے دشمنوں کو شاد کرنا۔

٥۔اسلامی ادبیات میں اشعار کا اضافہ کرکے اپنے اسلاف کی کرامتیں سننے کے شوقین لوگوں کو افسانوی اشعار سے خوش کرنا۔

۱۶۳

قعقاع ،خالد کے ساتھ شام جاتے ہوئے

و فیهم صحابة ورواة مختلفون

اس داستان کی سند میں بہت سے افسانوی اصحاب اور راوی نظر آتے ہیں !

(مؤلف)

خالدکی شام کی جانب روانگی کی داستان

مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمرو عاص نے شام میں دشمن کی فوج کی کثرت دیکھ کر ابوبکر کو ایک خط لکھا اور انھیں حالات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے مدد طلب کی ۔ابوبکر نے مجلس میں حاضر مسلمانوں سے صلاح و مشورہ کیا۔ان میں سے عمر بن خطاب نے یوں کہا:''اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین !خالد کو حکم دیجئے کہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوجائے اور عمر وعاص کی مدد کرے ''۔ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور خالد کے نام ایک خط لکھا ۔جب ابوبکر کاخط خالد کوپہنچا تو اس نے کہا:''یہ عمر کاکام ہے ،چونکہ وہ میرے ساتھ حسد کرتے ہیں اس لئے نہیں چاہتے کہ پورا عراق میرے ہاتھ فتح ہو بلکہ چاہتے ہیں کہ میں عمر وعاص اور اس کے ساتھیوں کی مدد کروں اور ان میں شامل ہوجاؤں ۔اگر انھوں نے کوئی کامیابی حاصل کی تو میں بھی اس میں شریک رہوں ،یا ان میں سے کسی کی کمانڈ میں کام کروں تاکہ اگر کوئی کامیابی حاصل ہو تو میرے بجائے اس کو فضیلت ملے '' ١

۱۶۴

ایک دوسری روایت میں ہے:

''یہ اعسیر(۱) بن ام شملہ کاکام ہے،اسے یہ پسند نہیں ہے کہ پورا عراق میرے ہاتھوں فتح ہو .....تا آخر ''

سیف یہ نہیں چاہتاتھا کہ خلیفہ عمر اور خالد جیسے سورما کہ دونوں قبیلہ مضر کے بزرگ ہیں کے درمیان بد گمانی دشمنی کی خبر لوگوں میں پھیلے ۔اور یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ خالد کو عراق کی فتح سے محروم رکھے ۔اس لئے اس مسئلہ کے بنیادی علاج کی فکر میں پڑا ہے اور خالد بن ولید کے ہاتھوں عراق کے مختلف شہروں کی فتحیابی کے سلسلے میں مذکورہ داستانیں جعل کی ہیں ۔ہم نے ان داستانوں کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔اسی طرح خالد کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے سلسلہ میں سیف نے یہ داستان جعل کی کہ :خالد کے شب خون کے نتیجہ میں مصیخ بنی البرشاء میں دو مسلمانوں کا قتل ہونا ،عمر کا ان کے قتل کی وجہ سے خالد پر غضبناک ہونا ،خالد کے مخفی طور پر حج پر جانے کے سلسلے میں خلیفہ ابوبکر کا اس پر ناراض ہونا،خالد کو شام بھیجے جانے کے وجوہات تھے اور وہ عراق کو فتح کرنے سے محروم رہے۔

جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے کہ :

''عمر ،خالد بن ولید کے بارے میں ابوبکر کے پاس مسلسل شکایت کرتے تھے۔لیکن ابوبکر ان کی باتوں پر اعتناء نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے:''میں اس تلوار کو دوبارہ نیام میں نہیں ڈالوں گا جسے خدا نے نیام سے باہر کھینچا ہے!''۔ ٢

____________________

(۱)اعیسر ،اعسر کا اسم تصغیر ہے ،عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہو۔

۱۶۵

اس کے بعد خالد کے نام ابو بکر کے خط کا ایک اور روایت میں ذکر کرتا ہے کہ یہ سب جعلی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں ہے اس پوری مقدمہ سازی کے بعد ایک روایت میں کہتا ہے :٣

''خالد عمر کے بارے میں بد گمان تھا اور کہتا تھا: یہ ان ہی کا کام ہے ۔وہ حسد کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ عراق میرے ہاتھوں فتح ہو اور یہ افتخار مجھے ملے اس کے باوجود خدا نے عراق کی سرحدوں کو میرے ہاتھوں توڑدیا اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو میری وجہ سے حوصلہ اور جرأت بخشی ''

باالآخر چھٹی روایت میں کہتا ہے :

''لیکن (خالد) یہ نہیں جانتا تھا کہ عمر کا کوئی قصور نہیں تھا ،یہاں تک کہ قعقاع نے اس سے کہا : عمر کے بارے میں بد ظن نہ ہو خدا کی قسم ابوبکر نے جھوٹ نہیں بولا ہے ۔ اور ظاہر داری نہیں کی ہے ''خالد نے قعقاع سے کہا:'' تم نے سچ کہا !لعنت ہو غصہ و بدگمانی پر ۔خدا کی قسم اے قعقاع !تم نے مجھے خوش بینی پر آمادہ کیا اور عمر کے بارے میں مجھے خوش بین بنا دیا '' قعقاع نے خالد کے جواب میں کہا:'' خدا کا شکر ہے جس نے تمھیں سکون بخشا اور تم میں خیر و نیکی کو باقی رکھا اور شر و بدگمانی کو تم سے دور کیا !!''

اس روایت سے سیف کی زبانی خالد کی جنگوں میں فتحیابیوں ،غنائم وغیرہ کے بارے میں جھوٹ اور افسانوں کے اسرار فاش ہوتے ہیں ۔سیف نے ان سب داستانوں اور افسانوں کو اس لئے گڑھا ہے تاکہ سرانجام خالد کی زبانی یہ کہلوائے کہ:

'' خدا نے میرے ذریعہ عراق کی سرحدوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ،وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے کی جرأت وہمت بخشی ''

سیف کے بقول خالد بن ولید کے بعد یہ سب فضل وافتخار خاندان تمیم کے بے مثال سورما ''قعقاع ''اور اس کے تمیمی بھائیوں تک پہنچتے ہیں اور سر انجام قعقاع کی وجہ سے عمر کی نسبت خالد کی بد گمانیاں دور ہو جاتی ہیں ۔

اسی طرح ہم نے خون کے دریا کی داستان میں دیکھا کہ کس طرح یہ فضل وشرف ان دوناقابل شکست سور مائوں کے درمیا ن تقسیم ہوتے ہیں ۔

سیف نے خالد بن ولید کے لئے عراق کی طرح شام میں بھی قابل توجہ افتخارات کے افسانے گڑھے ہیں ،انشاء اللہ ان کا ہم آگے ذکر کریں گے ۔

۱۶۶

سند کی پڑتال :

خالد کی عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں سیف کی حدیث کے راوی وہی ہیں جنھیں داستان ''الفراض''میں نقل کیا گیا ہے ۔جن کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ سب راوی جعلی اور سیف کے خیالات کی تخلیق تھے۔

اس جانچ کا خلاصہ :

طبری نے اپنی تاریخ میں ١٢ ہجری کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے خالد کے ہمراہ قعقاع کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کا ذکر کیا ہے اور حموی نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں سیف کے ذکر کردہ مقامات کا نام لیا ہے ، اس کے بعد طبری سے ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ان تمام مطالب کو نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ،جن کا ہم نے ذکر کیا جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ صحابہ کی تاریخ کے بارے میں مذکورہ مورخین نے صرف طبری سے نقل کیا ہے اور طبری کی معتبر تاریخی سند سیف ابن عمر تمیمی کی کتابیں ''فتوح '' اور ''جمل '' ہیں ہم نے اس مطلب کو '' سبائیوں کے افسانے کا سرچشمہ '' کے عنوان سے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبائ'' میں واضح طورسے بیان کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتیں :

بلاذری نے اپنی معتبر کتاب '' فتوح البلدان'' میں عراق میں خالد کی فتوحات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، لیکن اس نے وہاں پر قعقاع اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ،اور اس کے علاوہ متعدد جنگوں جیسے الثنی ،الولجہ اور حصید وغیرہ اور کئی شہروں کو فتح کئے جانے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔

طبری نے بھی سیف کے علاوہ ابن اسحاق کے ذریعہ خالد کی جنگوں کا ذکر کیا ہے اور اس میں تقریبا بلاذری کی طرح قعقاع اور دیگر مطالب کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا ۔

دینوری نے بھی اپنی کتاب '' اخبار الطوال '' میں عراق میں خالد کی جنگوں کے بارے میں کچھ مطالب درج کئے ہیں اس میں بھی قعقاع اور دیگر افسانوں کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے وہ صرف سیف ابن عمر تمیمی کے یہاں پایا جاتا ہے اور وہ ان تمام افسانوں اور جھوٹ کا سر چشمہ ہے ۔٤

۱۶۷

خالد شام جاتے ہوئے

سیف خالد ابن ولید کے سفر شام کے بارے میں لکھتا ہے :

''خالد نے عراق کے علاقہ '' سماوہ'' کے ایک گائوں کی طرف حرکت کی اور وہاں سے قصوان میں واقع '' مصیخ بہراء '' پر حملہ کیا اور مصیخ ایک بستی ہے '' نمر'' کے باشندے مئے نوشی میں مصروف تھے اور ان کا ساقی یہ شعر پڑھ رہا تھا :'' اے ساقی مجھے صبح کی شراب پلا دے اس سے قبل کہ ابوبکر کی سپاہ پہنچ جائے '' کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس طرح اس کا سرتن سے جدا کیا گیا کہ شراب کا جام جو اس کے ہاتھ میں تھا خون سے بھر گیا''

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ایک اور روایت پیش کی ہے :

'' خالد نے ولید بہراء کے اسیروں کو اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا وہاں پر اسے اطلاع ملی کہ غسانیان نے ''مرج راہط '' میں فوج کشی کی ہے لہٰذا وہ ان کی طرف بڑھ گیا اور ''مرج الصفر '' کے مقام پر ان سے رو برو ہوا ان کا سردار '' حارث ابن الایہم '' تھا خالد نے ان سے سخت جنگ کی اور اس کو اور اس کے خاندان کو نابود کرکے رکھ دیا اس کے بعد چند دن وہاں پر قیام کیا اور جنگی غنائم کا پانچواں حصہ وہیں سے ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا اس کے بعد قنات بصری کی طرف بڑھا یہ شام کے ابتدائی شہروں میں سے ایک شہر تھا جو خالد کے ہاتھوں فتح ہوا اور خالد نے اس شہر میں پڑائو ڈال دیا پھر خالد قنات بصری سے نو ہزار سپاہیوں کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لئے '' واقوصہ'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر رومیوں سے جنگ کی ''طبری کی روایت کا خاتمہ ۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی :

ابن اثیر نے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں اور اپنی تاریخ میں انھیں درج کیا ہے :

ابن عساکر نے قعقاع کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے :

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے '' واقوصہ'' کی جانب بڑھنے کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں '' :

۱۶۸

قعقاع کے رزمیہ اشعار

'' ہم نے خشک اور تپتے صحرائوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ طے کیا اور ''سومی'' کے بعد ''فرافر''کی طرف آگے بڑھے ۔وہیں پر ''بہرائ'' کی جنگ کا آغاز کیا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہمارے سفید اور زرد اونٹ ہمیں حملہ کے لئے ان غیر عرب اجنبیوں کی طرف لے گئے جو بھاگ رہے تھے ۔میں نے شہر بصری سے کہا : اپنی آنکھیں کھول دے اس نے خود کو اندھا بنا لیا کیوں کہ ''مرج ا لصفر ''کے مقام پر'' ایہم'' اور ''حارث غسانی' ' کی سرکردگی میں بعض گروہ خونخوار درندوں کی طرح جمع ہو گئے تھے۔ ہم نے ''مرج الصفر '' میں جنگ کی اور خاندان غسان کی ناک کاٹ کے رکھ دی اور انھیں شکست فاش سے دو چار کیا !اس دن ان لوگوں کے علاوہ جو ہماری تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھرے پڑے تھے بقیہ تمام غسانی بھاگ گئے ۔وہاں سے ہم پھر بصری کی طرف لوٹے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس نے بھی جو کچھ ہم سے پوشیدہ تھا ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ہم نے بصری کے دروازے کھول دیئے اس کے بعد وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکر '' یرموک'' کے قبائل کی طرف بڑھے ''

اس رجز کو ابن عساکر نے سیف کی روایت کے آخر مین درج کیا ہے جب کہ طبری نے اپنی عادت کے مطابق کہ وہ اکثر اشعار و رجز کو حذف کردیتا ہے اس رجز کا ذکر نہیں کیا ہے اور سیف کی روایت سے اسے حذف کر دیا ہے ۔

حموی بھی مصیخ کی معرفی میں سیف کی حدیث کو سند قرار دے کر لکھتا ہے :

' 'مصیخ بہرائ''شام کی سرحد پر ایک اور بستی ہے۔ خا لد بن ولید نے شام جاتے ہوئے ''سومی '' کے بعد وہاں پر پڑائوڈالا ۔چونکہ خالد نے مصیخ کے لوگوں کو مستی کی حالت میں پایا اوریہی مستی ان کے لئے موت کا سبب بنی ۔جب خالد نے اپنے سپاہیوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا،ان کے بزرگ و سردار نے یہ حالت دیکھ کر چیختے ہوئے کہا : ''اے ساقی !صبح کی شراب پلا!اس سے قبل کہ ابوبکر کی فوج پہنچ جائے ،شائد ہماری موت نزدیک ہو اور ہم کچھ نہ جانتے ہوں ''

کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس کاسر تن سے جدا کیا گیا اور خون و شراب باہم مل گئے۔ان کا کام تمام کرنے کے بعد ان کے اموال پر غنیمت کے طور پر قبضہ کیا گیا ۔غنائم کے پانچویں حصہ کو ابوبکر کے لئے مدینہ بھیج د یا گیا۔

۱۶۹

اس کے بعد خالد یرموک کی جانب بڑھا ۔قعقاع بن عمرو نے مصیخ بہراء کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر حموی نے مذکورہ بالا اشعار کے شروع کے تین شعر ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے یرموک کے موضوع کے بارے میں بھی سیف کی اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے لکھاہے:

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں اس طرح کہاہے: ...''

اور یہاں پر وہ مذکورہ اشعار کادوسرا حصہ ذکر کرتاہے۔

عبد المؤمن نے یرموک اور مصیخ کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع''میں حموی کی روایت سے استناد کیاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

جو کچھ خالد کی فتوحات کے بارے میں ذکر کیا گیاوہ سیف ابن عمر کی تحریر ہے۔ لیکن دوسروں کی تحریروں میں ایک تو ''مصیخ بہرائ''کا کہیں ذکر نہیں آیاہے۔دوسرے فتح بصری کے بارے میں تمام مورخین اس بات پر متفق القول ہیں کہ خالد کے وہاں پہنچنے سے پہلے ابو عبیدہ جراح ،یزید بن ابوسفیان ،اور شرجیل بن حسنہ کی سربراہی میں اسلامی فوج وہاں پر پہنچ چکی تھی ۔خالد اور اس کی فوج وہاں پہنچنے کے بعد ان سے ملحق ہوئی ۔اس لحاظ سے بصری صرف خالد اور اس کی سپاہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہواہے۔ ٥

سند کی پڑتال:

سیف ،خالد کے عراق سے شام کی جانب جانے کے بارے میں محمد ومہلب سے روایت کرتا ہے کہ یہ دونوں راوی اس کے جعلی اصحاب ہیں ۔اسی طرح عبیداللہ بن محفز بن ثعلبہ سے بھی روایت کی ہے کہ اس نے قبیلہ بکر بن وائل کے کسی ایک فردسے روایت کی ہے ۔لیکن عبید خود ان افراد میں سے ہے جو مجہول ہیں اور وہ سیف کے ذہن کی مخلوق ہے ۔طبری نے سیف کی چھ روایتیں اس سے نقل کی ہیں ۔لیکن بکر بن وائل کے قبیلہ کاوہ فرد معلوم نہیں کون ہے کہ ہم راویوں کی فہرست میں اس کو تلاش کرتے !!

۱۷۰

تحقیق کانتیجہ :

ابن عساکر قعقاع کے حالات کے بارے میں شروع سے آخر تک صرف سیف کی ایک حدیث کو نقل کرتا ہے اور خاص کرتاکید کرتا ہے کہ یہ سیف کی روایت ہے۔

طبری نے خالد کے شام کی طرف سفر کے بارے میں سیف کی حدیث کو نقل کیاہے لیکن اپنی

عادت کے مطابق اس کے رجز کوحذف کردیا ہے ۔

حموی نے اس روایت کے ایک حصہ کو مصیخ کے ذکر میں اور دوسرے حصہ کو یرموک کی تشریح میں کسی راوی کانام لئے بغیر ذکر کیا ہے اور یہی امر سبب بن جاتاہے کہ ایک محقق اس پر شک وشبہ کرے کہ ممکن ہے قعقاع کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ بھی کہیں آیا ہو ۔اسی طرح یہ شبہ مصیخ کے بارے میں بھی دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ (محقق) نہیں جانتا کہ مصیخ سیف کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔

سیف کی حدیث کے نتائج :

١۔ خالد بن ولید کے لئے شجاعتیں اور افتخارات درج کرانا۔

٢۔ مصیخ نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ یہ نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو جائے ۔

٣۔قعقاع کے اشعار سے ادبیات عرب کو مزین کرنا ۔

٤۔شام میں پہلی فتح کو خالد بن ولید اور اس کے عراقی سپاہیوں کے نام درج کرانا کیوں کہ عراق سیف ابن عمر کا وطن ہے ۔

۱۷۱

قعقاع ،شام کی جنگوں میں

کم من اب لی قد و رثت فعاله

کتنے ایسے میرے اسلاف و اجداد ہیں جن سے میں نے نیکی اور شجاعت وراثت میں پائی ہے

(سیف کا افسانوی سورما ،قعقاع)

جنگ یرموک کی داستان

طبری ١٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''یرموک کی جنگ میں خالد بن ولید نے گھوڑسواروں کی فوج کے ایک دستہ کی کمان قعقاع بن عمر و کو سونپی اور اسے دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیا قعقاع نے خود کو جنگ کے لئے آمادہ کیا اور حسب ذیل رجز پڑھے :

'' کاش !جنگجو اور شجاع سپاہیوں کو تہس نہس کرنے سے پہلے تجھے سواروں کے درمیان دیکھتا ،تجھے میدان جنگ میں دیکھ کر تیرا مقابلہ کرتا''

اس کے بعد طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کی تفصیلات درج کرتے ہوئے رومیوں کی جنگی تیاریوں کی عجیب طرز سے توصیف کی ہے:

''رومیوں نے اپنے سپاہیوں کی اس طرح تقسیم بندی کی تھی : اسّی (٨٠)ہزار فوجی ایک دوسرے سے سٹی ہوئی قطاروں کی صورت میں خود کو ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھے !چالیس ہزار فدائی جنگجوئوں نے خود کو زنجیروں سے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھا تھا !چالیس ہزار سپاہیوں نے بھی خود کو دستاروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا! اس کے علاوہ اسی(٨٠) ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل فوج تھی ،غرض دشمن نے ایک عظیم اور حیرت انگیز فوج کو منظم اور آمادہ رکھا تھا ''

۱۷۲

خالد نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ دشمن کی پیدل فوج پر حملہ کیا اور انھیں ایسے تہس نہس کرکے رکھ دیا کہ دشمن کی فوج ایک دیوار کے مانند دھڑام سے گر گئی ۔ رومی فوج اپنی خندق کی طرف دوڑ پڑی اور برگ خزاں کے مانند گروہ گروہ واقوصہ کی خندق میں ڈھیر ہو کر نابود ہوتی گئی اس طرح واقوصہ میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے سپاہیوں کی ایک عظیم قتل گاہ وجود میں آگئی ۔کافی تھا کہ ان میں سے ایک سپاہی کو قتل کیا جاتا اور وہ اپنے ساتھ دس سپاہیوں کو لیکر خندق میں جا گرتا تھا ،اس طرح دشمن کے ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی مارے گئے !!''

ابن عساکر اس روایت کے آخر میں ،جسے اس نے واقوصہ کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ،نیز قعقاع کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے دو نوں کے آخر میں درج ذیل اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : قعقاع بن عمرو تمیمی نے یرموک کی جنگ میں یہ شعر کہے تھے ۔

''کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم یرموک کی جنگ میں اسی طرح فتحیاب ہوئے جس طرح عراق کی جنگوں میں کامیاب ہوئے تھے ؟ہم نے شہر یرموک سے پہلے شہر بصری کو فتح کیا جسے ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح ایسے نئے نئے شہروں کو بھی فتح کیا جنھیں آج تک کسی نے فتح نہیں کیا تھا ۔ ہم نے شہر مرج الصفر کو اپنے سواروں اور پیدل فوج کے ذریعہ فتح کیا ۔جو بھی ہمارے سامنے آجاتا تھا اسے ہم ننگی تلوار سے قتل کر ڈالتے تھے اور جنگی غنائم لے کر لوٹتے تھے ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے رومیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا میدان جنگ میں ہمارے لئے ان کی قدر کبوتر کے فضلہ سے بھی حقیر تھی ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے ان کی فوج کا قتل عام کیا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے یہ ان کا المناک اور درد ناک انجام تھا''

ابن کثیر نے سیف کی اس روایت کو قعقاع کے اشعار کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں ایک جگہ ذکر کیا ہے ۔

ابن اثیر نے صرف اصل روایت کو نقل کیا ہے لیکن مذکورہ اشعار درج نہیں کئے ہیں ۔

حموی نے لغت '' واقوصہ'' میں روایت کے ایک حصہ کو درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے:

'' واقوصہ شام میں سر زمین حوران میں ایک صحرا ہے ۔وہاں پر ابوبکر کے زمانہ میں اسلامی فوج نے پڑائو ڈال کررومیوں سے جنگ کی ہے اور قعقاع بن عمرو نے اس جنگ میں یہ شعر کہے ہیں :..

یہاں پر مذکورا بالا اشعار میں سے پہلا شعر اور پھر پانچویں سے ساتویں شعر تک درج کیا ہے ۔

۱۷۳

سیف کی روایت کی حیثیت :

سیف نے یرموک کی فتح کو ١٣ھ میں بصری کی فتح کے بعد نقل کیا ہے ۔

لیکن ابن اسحاق اور دیگر مورخین نے '' اجنادین ''کی فتح کو '' بصری'' کی فتح کے بعد ذکر کیا ہے اور یرموک کی فتح کو ١٥ھ میں بیان کیا ہے اور اسے اس علاقہ کے شہروں کی آخری فتح جانتے ہیں دوسری جانب ''واقوصہ'' کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔اس سلسلے میں صرف بلاذری لکھتا ہے کہ:

''رومیوں نے جنگ '' اجنادین '' کے بعد ''یاقوصہ'' میں ایک بڑی فوج جمع کی اور مسلمانوں نے وہاں پر رومیوں سے جنگ کی اور انھیں پسپا ہونے پر مجبور کیا''

لگتا ہے سیف نے لفظ'' یاقوصہ '' کو اس لئے ''واقوصہ'' میں تبدیل کیا ہے تاکہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے مادئہ وقص یعنی گردن توڑنا سے استفادہ کرے اور اپنے فرضی میدان جنگ میں خالد بن ولید کی پیدل فوج کے شدید حملہ کے ذریعہ دشمن کی گردن توڑنے کو ثابت کرے۔

سند کی پڑتال :

سیف نے اس حدیث کے راوی کے طور پرمحمد بن عبداللہ کا نام لیا ہے ،جس کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ ابو عثمان یزید بن اسیدعسانی کو راوی کے طورپر پیش کیا ہے ۔لیکن اس کے بارے میں ہم نے نہ تاریخ طبری میں اور نہ تاریخ ابن عساکر میں کوئی روایت پائی ،اس کے علاوہ چوں کہ ہم نے اس کانام راویوں کی فہرست اور طبقات روایت میں بھی کہیں نہیں پایا ،اس لئے اسے بھی سیف کا جعلی راوی جانتے ہیں ۔اور معلوم ہوا کہ یہ شخص بھی اس کے دیگر راویوں اور ناقابل شکست جعلی سورمائوں کی طرح حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا ۔

۱۷۴

حدیث کی پڑتال کا نتیجہ

سیف کے کہنے کے مطابق ،یرموک میں جنگ کے لئے آمادہ ہوکر حملہ کرنے والے اور رجزو رزم نامے پڑھنے والے بزرگ اصحاب،ناقابل شکست پہلوان اور اسلام کے سچے سپاہی ،خاندان تمیم کے دوسورماؤں ،یعنی قعقاع بن عمرو اور ابو مفزر کے علاوہ اور کون ہوسکتے ہیں ؟

''واقوصہ''کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار انسان قتل عام کئے جاتے ہیں ،سیف نے کمانڈر انچیف،خالد بن ولید اور اس کی پیدل فوج کے برق رفتار حملے کے نتیجے میں صرف واقوصہ کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار جوانوں کو خاک وخون میں لوٹتے دکھایاہے۔اس طرح اتنے انسانوں کاخون بہاکر چند لمحوں کے لئے اپنی نہ بجھنے والی پیاس کو تسکین دی ہے،جب کہ دیگر مؤرخین نے اس قسم کی کوئی بات بیان نہیں کی ہے۔انہی میں سے بلاذری بھی ہے جس نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یرموک میں قتل ہوئے کل افراد کی تعداد ستر ہزار بتائی ہے۔اس کے علاوہ جاننا چاہئے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے یرموک کی جنگ کو ١٣ ھ میں ذکر کیاہے۔

سیف کے افسانوی سورما قعقاع کی جنگوں اور فتوحات کے یہ وہ چند نمونے تھے جنھیں اس نے ابو بکر کے دور میں روایت کیاہے۔عمر کے دور میں شام میں قعقاع کی جنگ وفتوحات کے نمونوں کاجائزہ ہم آنے والی فصل میں پیش کریں گے۔

۱۷۵

قعقاع ،عمر کے زمانے میں

قتل فیه من الروم ثمانون الفاً

''جنگ فحل میں اسّی ہزار رومی قتل کئے گئے ''

فتح دمشق کی داستان:

شہر دمشق کی فتح کے بارے میں سیف لکھتاہے:

''شہر دمشق کے محافظین کے سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہواتھا۔محافظین نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیاتھا۔اور کھانے پینے میں مشغول ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرکے شہر کی اہم چوکیوں کی حفاظت سے غافل ہوگئے ۔اس امر سے خالد بن ولید کے علاوہ کوئی مسلمان آگاہ نہیں ہوا، چونکہ وہ ہوشیار تھا اور اس سے اس شہر کے باشندوں اور محافظوں سے متعلق کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی!

رات ہوتے ہی خالد،قلعہ کے ساکنوں کی مستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی کے ہمراہ پہلے سے بنائی گئی رسیوں کی سیڑھیاں لے کر قلعہ کے نزدیک پہنچا ۔ انھوں نے رسی کی سیڑھیاں دشمن کے قلعہ کی دیوار کے کنگروں پر پھینکیں دو رسیاں کنگروں میں اٹک گئیں ۔ قعقاع اور مذعور سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئے پھر انھوں نے باقی سیڑھیوں کی رسیاں کنگروں سے محکم باندھ لیں اور دیگر لوگ بھی قلعہ کی دیوارسے اوپر چڑھ گئے ۔اس کے بعد بے خبر ومست محافظین پر حملہ کرکے ماردھاڑ شروع کی۔اورآسانی کے ساتھ ان پر غلبہ پالیا۔اس کے بعد اسلام کے سپاہیوں کے لئے قلعہ کادروازہ کھولدیا...''

ابن عساکر نے اس پوری داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فتح دمشق کی مناسبت سے یہ شعر کہے ہیں :

سلیمان کے دوشہروں (دمشق وتدمر)کے نزدیک ہم نے کئی مہینوں تک استقامت کی اور اپنی تلواروں پر ناز کرنے والے رومیوں سے جنگ کرتے رہے۔جب ہم نے دمشق کے عراقی دروازے کو اپنے قبضے میں لے کر کھول دیا تو ان کے تمام سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔جب پورے شہر پر ہمارا قبضہ ہوگیاتو میں نے حکم دیا کہ ان کے سر تن سے جدا کردئے جائیں اور ان کے گلے پھاڑدئے جائیں ۔ جب انھوں نے شہر دمشق اور تدمر میں ہمارے پنجے مستحکم ہوتے دیکھے توخوف ووحشت سے انگشت بدندان رہ گئے''۔

۱۷۶

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کے آخر میں اشعار حذف کئے ہیں ۔اسی لئے مذکورہ اشعار کو بھی اپنی روایت میں درج نہیں کیاہے۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی

فتح دمشق کی داستان کو طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کیاہے اور دوسروں جیسے،ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسی طرح طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس روایت کو اس طرح شروع کرتاہے:

''سیف کہتاہے .....''

اس کے بعد داستان کو آخر تک لکھتاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

بلاذری نے فتح دمشق کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے:

''خالدبن ولید نے ''دیرخالد ''کے باشندوں سے یہ شرط رکھی کہ اگر اسے ایک سیڑھی دیدیں ، جس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ کی دیوار پر چڑھ سکے تو ان کے خراج میں تخفیف کردے گا۔کہ آخر کار ابو عبید نے خالد کے مطالبہ کو پورا کیا''۔

سند کی پڑتال

فتح دمشق کی داستان کو سیف نے صرف ایک جگہ اور ایک روایت میں تین راویوں ،ابو عثمان ،خالد اور عبادہ سے نقل کیاہے۔ابو عثمان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکاہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی اور اس کے ذہن کے تخلیق ہے۔

لیکن خالد وعبادہ جن سے طبری اور ابن عساکرنے سیف کے ذریعہ سولہ روایتیں نقلی کی ہیں کے بارے میں ہم فہرست اور طبقات رجال میں کوئی سراغ نہ پاسکے۔

۱۷۷

فحل کی جنگ

طبری اور ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اس طرح روایت کی ہے:

''دمشق کو فتح کرنے کے بعد ابوعبیدہ''فحل''کی طرف روانہ ہوا۔رومیوں نے اسلامی فوج سے لڑنے اور ان کی پیشقدمی کو روکنے کے لئے اسّی ہزار فوج آمادہ کر رکھی تھی اور گھات لگاکر اچانک اسلامی فوج پر حملہ کیا۔مسلمانوں نے شجاعت اور دلیری کے ساتھ رومیوں کے اس اچانک حملہ کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس طرح ایک گھمسان جنگ چھڑگئی ۔یہ جنگ ایک دن اور ایک رات جاری رہی۔مسلمانوں نے رومیوں کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور سر انجام یہ جنگ مسلمانوں کی فتحیابی اور رومیوں کی ہزیمت پر ختم ہوئی۔

رومیوں نے پہلے سے ہی ایک خندق کھود کر اس میں پانی بھر دیاتھا تا کہ اسلامی فوج کی پیشقدمی کو روک سکیں ۔لیکن شکست کھاکر پیچھے ہٹتے ہوئے رومی خود اس خندق میں گر کر دلدل میں پھنس گئے ۔ایسے پھنسنے والوں کاحال معلوم ہی ہے کہ کیا ہوگا!اس طرح اس جنگ میں اسّی ہزار رومی ہلاک ہوگئے مگر یہ کہ کوئی فرار ہونے میں کامیاب ہواہو !

ابن عساکر نے اس داستان کے آخر میں یہ اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فحل کی فتحیابی کے سلسلے میں اس طرح شعر کہے ہیں :

''کتنے ایسے میرے اسلاف ہیں ،کہ ان کے نیک کام مجھے وراثت میں ملے ہیں ۔میرے اجداد ایسے ہیں جن کی عظمت وبزرگواری سمندر کے مانندہے۔انھوں نے بھی فضائل کو اپنے اجداد سے وراثت میں پایاتھا اور بصیرت وبلند نظریات کی بناپر ان فضائل کو چار چاند لگائے تھے ۔میں نے بھی اپنی ذمہ داری کے مطابق ان مفاخر وفضائل کو بڑھاوادیا اور انھیں نقصان پہنچنے نہیں دیا۔میری اولاد بھی اگر میرے بعد زندہ رہے تو وہ بھی ان فضائل و مفاخر کے بانی ہوں گے ''

۱۷۸

''فوج کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے رہے ہیں ،وہ بادشاہوں کی طرح حملہ کرتے ہیں ، ان کے پیچھے بہادر فوج ہے ۔ہم میدان کارزار کے بہادر ہیں ،جس وقت سرحد کے محافظ سستی دکھاتے ہیں ،ہم ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان پر فتح پاتے ہیں ''

فحل کی جنگ میں جب میرا گھوڑا کرو فر کے ساتھ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اور بلائیں چاروں طرف سے گھیرنے لگیں تو لوگ میری سر بلندی اور بہادر ی کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔اگر میری جگہ پر کوئی اور ان بلائوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا تو بے چارہ اور ذلیل ہو کے رہ جاتا اور ایسے کام کو اپنے ذمہ لینے پر شرمندہ ہو جاتا !''

عربی گھوڑے فحل کے میدان کارزار میں گردو غبار کو آسمان پر اڑاتے ہوئے دشمن کی فوج کو کچلے دے رہے تھے ،سر انجام ان کے گھوڑوں نے اپنے ہی سرداروں کو دلدل میں گرادیا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہے ۔اس کے بعد ہم نے سر نیزوں سے دشمن پر حملہ کیا ۔ ہم نے ان کی فوج کو دلدل میں نابود کرکے رکھ دیا اس دن تمام نگاہیں مجھ پر متمرکز تھیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے روایت کی ہے کہ قعقاع نے جنگ فحل میں یہ شعر کہے ہیں :

''فحل کی جنگ میں ہم اتنے مشکلات سے دو چار ہوئے کہ جس کے خوف سے پہلوان اپنے اسلحہ کو گھر میں ہی بھول جاتے تھے ۔میں اس دن اپنے مشہور گھوڑے پر پوری طاقت سے سوار ہوکر اپنے بہادر فوجیوں کے ساتھ دشمن پر تیر باران کرتا تھا ۔ بالاخر ہم نے مقاومت کرنے والے دشمن کے فوجیوں کو تلوار کے وار سے منتشر کرکے بھگا دیا''

''ہم ہی ہیں جنھوں نے عراق کو اپنے گھوڑوں سے عبور کیا اور شام میں اپنی تلواروں کے سائے میں جنگ لڑی اور عراق اور اس کی جنگوں کے بعد بہت سے نصرانیوں کو نابود کرکے رکھ دیا ''

حموی نے سیف کی اس روایت پر استناد کرکے لغت ''فحل'' کے بارے میں لکھا ہے :

''جس سال مسلمانوں کے ہاتھوں دمشق فتح ہوا ،اسی سال فحل میں مسلمانوں اور اسّی(٨٠) ہزار رومی فوج کے درمیان جنگ ہوئی اور قعقاع بن عمرو تمیمی نے اس جنگ کے بارے میں یوں کہا ہے ...:

اس کے بعد روایت کی سند کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ کئے بغیر چار شعر ذکر کئے ہیں ۔

۱۷۹

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

طبری نے ''فحل'' کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے ،اور معمول کے مطابق اس سے مربوط رجز و شعر کو حذف کیا ہے ۔

ابن عساکر نے بھی فحل کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس سے مربوط اشعار بھی ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے اس داستان کا تھوڑ ا سا حصہ لغت '' فحل '' کے سلسلے میں سند کے بغیر ذکر کیا ہے لیکن اس داستان سے مربوط مطالب ،ان مطالب سے مختلف ہیں جو دیگر مورخین نے اس سلسلے میں درج کئے ہیں مثال کے طور پر بلاذری نے اس معرکہ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد دس ہزار بتائی ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی مورخ نے شام کی جنگوں میں خاندان تمیم کے سورمائوں کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر لکھتا ہے :

''مورخین کا اتفاق ہے کہ شام کی فتوحات میں قبائل اسد ،تمیم اور ربیعہ میں سے کسی نے شرکت نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنی لشکر گاہ یعنی عراق کے حالات کے مطابق وہیں پر ایرانیوں سے بر سر پیکار تھے '' ١

سند کی پڑتال :

سیف نے داستان فحل ،ابو عثمان یزید سے روایت کی ہے جب کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیف کا جعل کردہ راوی ہے ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416