ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215126 / ڈاؤنلوڈ: 4963
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

فتح دمشق میں ''دیرخالد ''کے باشندے ،خالد بن ولید کو ایک سیڑھی دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ پر چڑھ سکے ۔جبکہ سیف کہتاہے کہ قعقاع اور اس کے ساتھی رسیوں سے سیڑھیاں بنائیں اور ان کے ذریعہ قلعہ کے برج پر چڑھے۔

سیف کہتاہے کہ جنگ فحل مین اسّی ہزار دشمن کے سپاہی مارے گئے ،جب کہ دوسرے مورخین اس جنگ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد تقریباً دس ہزار بتاتے ہیں ۔

سیف نے فحل کی جنگ اور اس میں دشمن کی شکست کو فتح دمشق کے بعد ذکر کیا ہے ،جبکہ دوسرے مؤرخین کاکہنا ہے کہ یہ جنگ فتح دمشق سے پہلے واقع ہوئی ہے۔

سیف نے اپنے افسانوی سورما،قعقاع بن عمرو سے فتح فحل کے بارے میں اشعار نقل کئے ہیں ۔طبری نے اپنی روش کے مطابق انھیں اپنی روایتوں میں حذف کیا ہے ، جب کہ ابن عساکر نے طبری کے برعکس ان تمام اشعار کو درج کیاہے ۔اورحموی نے لغت''فحل''کے بارے میں ،جیسا کہ ذکر ہوا،سیف کی روایتوں اور اشعار کے ایک مختصر حصہ کو درج کرنے پر اکتفاء کی ہے۔

طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس کے بعد والے مؤرخین ،جیسے ،ابن اثیر،ابن کثیراور ابن خلدون نے مذکورہ داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس سلسلے میں داستان کے مصدر یعنی طبری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں لکھتاہے:

''امام ابوجعفر ،فتح دمشق کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے یوں روایت کرتے ہیں :......''

۱۸۱

سیف کی حدیث کے نتائج:

١۔قلعہ دمشق پر چڑھ کر قلعہ کو تسخیر کرنے میں خاندان تمیم کے افسانوی اور ناقابل شکست سورما قعقاع بن عمرو کی شجاعت و بہادری دکھانا۔

٢۔جنگ فحل میں واقعی مارے گئے افراد کے علاوہ ستر ہزار انسانوں کا قتل عام دکھانا۔

٣۔ قعقاع سے منسوب رزمی اشعار کو نشر کرنا ،جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ خاندان تمیم کے بہادر میدان کارزار کے بادشاہ ہیں ،وہ ایک دوسرے سے بہتر ناقابل شکست اور نامور ہیں ،قدرت اور جوانمردی انھیں اپنے اسلاف سے وراثت میں ملی ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی یعنی قعقاع کو یہ بہادری اپنے اجداد سے وراثت میں ملی ہے اور اس کے بعد اس کی اولاد بھی اس بہادری کے بانی ہیں ۔وہ (قعقاع) جنگوں میں فتح و کامرانی کا مرکز ی کردار تھا اور وہ تنہا سورما ہے کہ جس کی طرف میدان کا رزار میں نگاہیں متمرکز رہتی ہیں !

تحقیقات کا خلاصہ :

قعقاع وہی ناقابل شکست سورما ہے جس نے یرموک کی جنگ کا محاذ کھولا اور اس جنگ میں عراق کی جنگوں کی طرح فتح و کامرانیاں حاصل کیں ۔ قعقاع نے یرموک ،دمشق اور فحل کی جنگوں میں شرکت کی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں رزمیہ اشعار کہے ہیں !

ان جنگوں کا نتیجہ ایک لاکھ دس ہزار انسانوں کا قتل عام ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں کئے گئے اور اس سے قبل والے مقتولین میں ان کا اضافہ ہوا ہے ۔

یہ سب مطالب سیف کے افسانوں کا نتیجہ ہیں اور وہ تنہا قصہ گو اور افسانہ سازہے جو اس طرح کی بیہودگیوں کا خالق ہے ۔

یہ وہ مطالب تھے جو ہم نے سیف کی روایتوں میں شام کے مختلف نقاط میں قعقاع کی افسانوی جنگوں کی صورت میں پائے ۔سیف کے مطابق شام کی فتوحات کے بعد قعقاع دو بارہ عراق لوٹا ہے اور چند دیگر جنگوں میں شرکت کرکے فتوحات حاصل کی ہیں جن کا ہم اگلی فصل میں جائزہ لیں گے ۔

۱۸۲

قعقاع ،عراق کی جنگوں میں

ازعجهم عمداً بها ازعاجا

اطعن طعنا صائبا ثجاجا

'' دشمن کی صفوں کو اپنے پے د رپے حملوں سے تہس نہس کرتا ہوں اور ان پر ایسا نیزہ مارتا ہو ں جو صحیح نشانہ پر لگے اور خون بہائے''

قعقاع کی شام سے واپسی

ابن عساکر اور طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی شام سے واپسی کا سبب یوں بیان کیا ہے :

'' خلیفہ عمر نے ابو عبید ہ کو ایک خط لکھا تاکہ وہ شام میں مامور عراقی سپاہیوں کو سعد و قاص کی مدد کے لئے واپس عراق بھیج دے ۔ابو عبیدہ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عراقی سپاہیوں کو قعقاع کی سرکردگی میں ان کے وطن عراق کی طرف

لوٹنے کا حکم دیا''٢

اب ہم سعد بن وقاص کی کمانڈ میں عراق کی جنگوں میں قعقاع کی جنگی کاروائیوں کی تفصیلات پر نظر ڈالتے ہیں :

۱۸۳

جنگ قادسیہ میں

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ قادسیہ کے تین روز کے واقعات کی یوں تشریح کی ہے :

١۔روز ارماث : ارماث کے واقعات پر قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کے بارے میں گفتگو کرتے وقت وضاحت کریں گے؛

٢۔''روز اغواث'':اس سلسلے میں طبری نے پہلے ابو عبیدہ کے نام خلیفہ کے خط اور قعقاع کی سرپرستی میں عراقی فوجیوں کو اپنے وطن روا نہ کرنے کا مسئلہ بیان کیا ہے اور اس کے بعد لکھتا ہے :

''قعقاع فوری طور پر شام سے عراق کی طرف روانہ ہوا اور یکے بعد دیگرے پڑائو کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن میدان جنگ قادسیہ کے نزدیک پہنچا ۔وہاں پر ایک ہزار افراد پر مشتمل اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے حکم دیا کہ اس طرح میدان کارزار میں داخل ہوں کہ پہلا گروہ آگے بڑھے اور دوسرا گروہ تب قدم آگے بڑھائے،جب پہلا گروہ نظروں سے غائب ہو چکا ہو اسی طرح تیسرا اور چوتھا گروہ آگے بڑھے اور خود قعقاع پہلے گروہ کے آگے آگے مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوا ان پر درود بھیج کر انھیں خوشخبری دی کہ مدد پہنچ رہی ہے اور انھیں دشمن سے لڑنے کی ہمت دلائی اور شدید جنگ کے لئے آمادہ کیا اور کہا : جو کچھ میں انجام دوں ،تم لوگ بھی اسی پر عمل کرنا '' اس کے بعد میدان جنگ کی طرف روانہ ہو ا اور مقابلہ کے لئے اپنا مقابل طلب کیا''

قعقاع جب اس ٹھاٹ باٹ اور شان و شوکت سے آگے بڑھا تو دوسرے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے ۔اسلام کے دلاور سپاہی قعقاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کودکھاتے ہوئے کہتے تھے : یہ وہی بہادر شخص ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے کہ : جس فوج میں یہ بہادر ہوگا وہ کبھی شکست سے دو چار نہیں ہوگی!''

۱۸۴

قعقاع نے جب میدان جنگ میں مقابلہ کے لئے اپنا مقابل طلب کیا تو ایرانی فوج میں سے ''ذوالحاجب '' نامی ایک پہلوان آگے بڑھا ۔یہ وہی پہلوان تھا جس نے جسر کی جنگ میں ابو عبیدکو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا قعقاع نے ابو عبید کے قاتل کو پہچان کر بلند آواز میں اس سے مخاطب ہو کر کہا :'' اب میں تجھے اپنے دوستوں ابو عبید وغیرہ جو جسر کی جنگ میں مارے گئے کے انتقام میں قتل کر ڈالوں گا'' اس کے بعد ایک زور دار حملہ کیا اور تلوار کی ایک ضرب سے ہی ذوالحاجب کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد ایرانی فوج کا بیرزان نامی دوسرا پہلوان مقابلہ کے لئے میدان میں آیا ،قعقاع نے اس کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

دوسری طرف قعقاع کے سوار فوجی ،رات گئے تک اپنے سردار کے حکم کے مطابق دس دس افراد کی ٹولیوں میں مشخص فاصلہ اور وقت کی رعایت کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں کی فوج میں پہنچا رہے تھے ہر ٹولی کے پہنچنے کے وقت قعقاع خبر دیتے ہوئے اور فوج کے حوصلے بلند کرنے کے لئے نعرۂ تکبیر بلند کرتا تھا اس کے نتیجہ میں اسلامی فوج کی ہمت بڑھتی تھی اور دشمن کی فوج کی بنیادیں متزلزل ہو تی جاتی تھیں ۔

قعقاع نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے پکار کر کہا '' اے مسلمانوں ! دشمن کو اپنی تیز تلواروں کے ذریعہ خبر دے دو کہ یہ ان کے لئے موت کا پیغام ہے ''

قادسیہ کی جنگ میں اغواث کے دن ہی اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف سعد وقاص نے شجاع ترین سپاہیوں کے لئے خلیفہ عمر کی طرف سے بھیجے گئے تحفوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو عطا کیا قعقاع نے اس سلسلے میں درج ذیل شعر کہے ہیں ۔

'' عربی گھوڑے ہمارے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتے ،اغواث کے دن شام کو قادسیہ کے نزدیک اس شب جب ہم نے دشمن پر حملہ کیا ہمارے نیزے پرندوں کی طرح دشمن کی طرف پرواز کر رہے تھے ...''

۱۸۵

اغواث کے دن قبیلہ تمیم کی پیدل فوج دس دس افراد کی ٹولیوں میں اونٹوں کے ہمراہ جنھیں انھوں نے سرتاپا ڈھانپ رکھا تھا اور ان کی خوفناک اور بھیانک صورت بنا رکھی تھی اپنے قبیلہ کے سواروں کی حفاظت میں خصم کے سپاہیوں پر تا پڑتوڑ حملے کر رہی تھی ۔قعقاع نے حکم دیا تھا کہ ان اونٹوں کے ذریعہ دشمن کی سوارفوج کی صفوں پر حملہ آور ہوں تاکہ دشمن کے گھوڑے مسلمانوں کے سر تا پاڈھانپے گئے اونٹوں کو ہاتھی سمجھ کر ڈر کے مارے بھاگ جائیں اور دشمن کی فوج میں بھگدڑ مچ جائے بالاخر ایسا ہی ہوا اور دشمن کی فوج پر کاری ضرب لگ گئی ۔اغواث کے دن قعقاع کی اس فوجی حکمت عملی کے نتیجہ میں ایرانی فوج کو جس قدر جانی نقصان اٹھانا پڑا وہ ارماث کے دن کی شکست اور جانی نقصان سے کہیں شدید اور سنگین تھا جو مشرکین سے مسلمانوں کو اٹھانا پڑا تھا۔

اغواث کے دن جنگ کے دوران قعقاع جہاں کہیں بھی مشرکین کے سواروں کو پاتا تھا ،ان پر حملہ کرکے انھیں بری طرح شکست دیتا تھا اور ہر حملہ میں ان کے نامور سپاہیوں کے ایک گروہ کو موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ قعقاع نے اس روز دشمن کی فوج پر تیس ایسے حملے کئے کہ ہر حملہ میں ان کے کسی نہ کسی پہلوان اور دلاور کو موت کے گھاٹ اتارتا تھا تیسویں حملہ مین اس نے '' بزرگ مہر '' کو قتل کر ڈالا اس سلسلے میں قعقاع نے یہ شعر کہے ہیں :

''میں ان کو اپنے حملوں سے اذیت پہنچاتاہوں ،ان پر نیزے پرساتا ہوں اور ان نیزوں کو صحیح نشانوں پر مارتا ہوں ۔اس طرح اپنے لئے بہشت میں بہترین جگہ کی امید رکھتا ہوں ۔میں اپنی تلوار کی جان لیوا ضرب ان پر لگاتا تھا ،وہ تلوار جو سورج کی کرنوں کی طرح چمکتی تھی ۔اغواث کے دن میں نے پراکندہ اور فراری ایرانیوں کو اپنے نیزوں کا نشان بنا دیا ۔جب تک میرے اور میرے ساتھیوں کے بدن میں جان ہے ہم جنگ کو جاری رکھیں گے ''

٣۔روز عماس : طبری نے سیف بن عمرو سے نقل کرتے ہوئے '' روز عماس '' کے بارے میں تفصیل سے یوں لکھا ہے:

''قعقاع بن عمرو نے اپنے افراد کو رات کی تاریکی میں منتشر حالت میں اسی جگہ بھیجا ،جہاں پر اغواث کی شب کو جمع ہوئے تھے اور ان کے ساتھ طے کیا کہ اس بار سو سو افراد پر مشتمل دستہ کی صورت میں صبح سویرے روز اغواث کے مانند اسلامی فوج کے ساتھ جاکر ملحق ہوں ،تاکہ اس طرح اسلامی فوج کی امید یں اور حوصلے بڑھ جائیں قعقاع کی اس فوجی حکمت عملی سے دشمن کی فوج کا ایک شخص بھی آگاہ نہ ہوا۔

۱۸۶

فوجی کمان کے صدر مقام پر قعقاع بذات خود حاضر تھا ۔پو پھٹتے ہی اپنی فوج کے پہلے دستہ کی آمد کا منتظر افق کی طرف آنکھیں گاڑے ہوئے تھا کہ اچانک اس کے سوار وں کی گرد دور سے اڑتی ہوئی نظر آئی ۔قعقاع نے تازہ دم امدادی فوج کی آمد کی خبر دینے کے لئے تکبیر کی آواز بلند کی ،اسلامی فوج نے اس تکبیر کو سن کر جواب میں تکبیر کہی اور ان کے حوصلے بلند ہوگئے

سعد وقاص نے جب دیکھا کہ دشمن کے جنگی ہاتھی مسلمانوں کی فوج کی صفوں میں شگاف پیدا کر رہے ہیں اور عنقریب اسلامی فوج کا شیرازہ بکھرنے والا ہے تو اس نے خاندان تمیم کے دو نامور پہلوانوں ،قعقاع اور اس کے بھائی عاصم کو حکم دیا کہ وہ کوئی چارہ تلاش کریں اور سفید ہاتھی کہ دوسرے ہاتھی جس کے پیچھے پیچھے حرکت کر رہے تھے کو موت کے گھاٹ اتار دیں ۔دونوں بھائی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دو چھوٹے ،مضبوط ١ لیکن نرم اور لچک دار نیزے اٹھاکر چند ساتھیوں کے ہمراہ انتہائی احتیاط کے ساتھ اپنے لشکر سے جدا ہو کر آگے بڑھے اور بالآخر اس راہنماسفید ہاتھی کے نزدیک پہنچے جب سفید ہاتھی مکمل طور پر ان کے سامنے پہنچا اور ان دو پہلوانوں کے حملے کی زد میں آگیا ،تو دونوں بھائی بجلی کی طرح اس سفید ہاتھی پر ٹوٹ پڑے اور بڑی مہارت اور پوری طاقت کے ساتھ اس کی دونوں آنکھوں میں نیزے بھونک دئے اور اسے اندھا کر دیا ۔ہاتھی نے درد کے مارے تڑپتے ہوئے غصہ کی حالت میں اپنی سونڈ کو بلند کیا کہ قعقاع نے انتہائی مہارت اور چابکدستی سے تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کو کاٹ کر رکھ دیا ۔ہاتھی دھڑام سے زمین پر گر گیا اور اس کا سارا کروفر ختم ہو گیا ۔

قعقاع نے اس فتحیابی پر یہ شعر کہے ہیں :

''میرے خاندان ،فرزندان یعمر نے جنگ و پیکار میں میری حوصلہ افزائی کی وہ اس ہمت افزائی میں کیا خوب نیزوں کو میدان کارزار میں لہرا تے تھے ،جس دن آزاد کردہ لوگوں کی حمایت میں اٹھ کر جنگ قادسیہ کے لئے آگے بڑھے تھے۔میرے خاندان نے جنگ کی ذمہ داری سے کبھی پہلو تہی نہیں کی ہے ۔جب میں دشمن سے جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہوجائوں تو ان کی فو ج کو جہاں کہیں بھی ہو تہس نہس کرکے رکھدوں گا۔میں جنگوں میں مشکلات کو مول لیتا ہوں اور عمارتوں کے برابر عظیم الجثہ ہاتھیوں کو جب حملہ آور حالت میں دیکھتا ہوں تو اپنے نیزے کو ان کی آنکھوں میں بھونک دیتا ہوں ۔''

۱۸۷

ابن عساکر نے سیف سے نقل کیا ہے کہ ام المومنین عائشہ نے کہا ہے :

''قعقاع پہلا پہلوان ہے جس نے قادسیہ کی جنگ میں مسلمانوں کو عملی طور پر سکھایا کہ کس طرح ہاتھی کی سونڈ کو کاٹ دینا چاہئے ۔ اس کے بعد مسلمان ہاتھیوں پر جان لیوا تیروں کی بارش کرتے تھے ،جو صرف ہاتھیوں پر لگتے تھے اس کے بعد ان کی سونڈکاٹ کر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے ...!''

ابن حجر نے بھی قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے ام المونین عائشہ کی زبانی مختصر طور پر اسی داستان کو نقل کیا ہے ۔

اسلامی ثقافت پر سیف کی روایتوں کے اثرات :

حموی ،سیف کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے لغت ''اغواث'' کے بارے میں لکھتا ہے :

''مجھے معلوم نہیں ارماث ،اغواث اور عماس ہر ایک کسی جگہ کے نام ہیں یا لفظ رمث،غوث اور عمس سے لئے گئے ہیں ۔بہرحال قعقاع بن عمرو نے اپنے اشعار میں روز اغواث کے بارے میں اشارہ کیا ہے ۔اور وہ پہلا دن تھا،جس دن قعقاع نے شام سے واپسی پر قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے۔''

لفظ عماس کے بارے میں لکھتا ہے :

''عماس عین پر کسرہ کے ساتھ جنگ قادسیہ کا تیسرا دن ہے ۔مجھے معلوم نہیں کہ ''عماس''کسی جگہ کا نام ہے یالفظ ''عمس ''سے لیا گیا ہے جو ''معس''کا مقلوب ہے۔

روز اغواث جو سیف کے خیالات کی تخلیق ہے نے بہت شہرت حاصل کی ہے ،اس حد تک کہ ابن عبدون نے اپنے اشعار میں اس دن کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور ابن بدرون نے اس کے قصیدہ کی تشریح کی ہے اس میں روز اغواث کے بارے میں سیف کی تمام روایت کو نقل کیا ہے۔ ٢

قلقشندی وفات ٨٢١ھ نے روز ''اغواث ''کو اسلام کے معروف دنوں کے طور پر ذکر کیا ہے ۔ ٣

زبیدی وفات١٢٠٠ھ نے ''تاج العروس ''میں لفظ ''اغواث ''کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے :

''روز اغواث ،جنگ قادسیہ کا دوسرا دن تھا ،اور قعقاع بن عمرو نے اس روز درج ذیل شعر کہے ہیں :

''عربی گھوڑے ہمارے علاوہ کسی کو نہیں پہچانتے تھے...''تاآخر

۱۸۸

لیلةالھریر

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ٤

''جب عماس کا دن تمام ہو ااور رات آئی تو جنگجوئو ں نے تھوڑی دیر کے لئے لڑائی روک لی ۔پھر رات بھر دونوں لشکر دوبارہ جنگ میں مصروف ہوگئے ۔شب کے سناٹے میں تلواروں کی جھنکار جنگجوئوں کے بگل کی آواز سے مل کر ایک عجیب اور مرموز آواز پیدا کررہی تھی اسی لئے اسے ''لیلة الھریر''کا نام دیا گیاہے۔یعنی وہ شب جس میں کتے کے رونے کی آواز آتی ہو۔''

طبری نے سیف سے روایت کی ہے:

''ایرانیوں نے مسلمانوں کے محاذ پر اندھا دھند اور جان لیوا تیر اندازی کی ، جس کے نتیجہ میں خالد بن یعمر تمیمی مارا گیا۔قعقاع نے جب یہ حال دیکھا تو جذبات میں آکر سعد وقاص سے اجازت لئے بغیر دشمن کے تیر اندازوں پر ٹوٹ پڑا۔ وہ خالد کے سوگ میں یوں رجز پڑھ رہا تھا:

''خدا ،ابن یعمر کے مزار کو سیراب کرے ۔جب مسافر بار باندھ رہے ہیں وہ اپنی جگہ پر باقی ہے ۔خدا صبح کی بارش سے اس زمین کو ہمیشہ سیراب کرے جہاں پرخالد کی قبر ہے۔میں نے قسم کھائی ہے کہ میری تلوار ہمیشہ دشمنوں کے خون سے رنگین رہے اور ان کو قتل کرے ۔اگر لوگ یہاں سے چلے جائیں ،پھر بھی خالد یہیں پر رہے گا۔''

سپہ سالار ،سعد نے جب قعقاع کی بغیر اجازت جنگ کا مشاہدہ کیا،تو ہاتھ اٹھاکر دعا کی:خداوندا!اسے اس نافرمانی کے لئے بخش دے اور اس کی مدد فرما!اس وقت میں اسے اجازت دیتا ہوں ۔اس کے بعد اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ قعقاع کی مدد کے لئے فوری طور پر آگے بڑھیں ۔

اس رات پو پھٹنے تک جنگ کا بازار اتنا گرم رہا کہ اس کے شعلے بھڑک رہے تھے ، سعد وقاص نے فتحیابی کی نوید پر مشتمل جو پہلی آواز سنی وہ قعقاع کی درج ذیل آواز تھی:

''ہم نے ایک ،چار اور پانچ کے گروہ کو نابود کردیا ۔ان میں ان مردوں کوبھی شمار کیا،جو گھوڑوں پر زہریلے نر سانپوں کی طرح سوار تھے۔چونکہ ہم نے ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردیا ،لہٰذا خدا کا شکر ادا کیا۔''

۱۸۹

جنگجوئوں نے اس رات آنکھ نہ جھپکائی بلکہ پو پھٹنے تک دشمنوں سے جنگ کرتے رہے۔ اس تھکاوٹ اور بے خوابی کے عالم میں قعقاع لشکر کے درمیان گھوم گھوم کر لوگوں سے کہہ رہا تھا : '' ایک گھنٹہ صبر کرو کہ استقامت کے سائے میں کامیابی مضمرہے'' قعقاع کی اس گفتگو کو سن کر بعض فوجی افسر اس سے ہم آہنگ ہو کر جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرنے کے لئے دشمن کی فوج کے سپہ سالار رستم کی طرف حملہ آور ہوئے اور ایک گھمسان جنگ کے بعد پو پھٹتے ہی اپنے آپ کو اس کے نزدیک پہنچا دیا دوسری طرف بقیہ تمام قبائل کے سردار وں نے جب قعقاع کے فیصلہ کن حملہ کا مشاہدہ کیا تو اپنے افراد کو بھی ڈٹ کر لڑنے کے لئے آمادہ کیا ۔اسی دوران ہوا کا ایک طوفان آیا اور ایک ہولناک بگولے نے ایرانی فوج کے سپہ سالار کا تخت نیچے گرا دیا ۔اسی حالت میں قعقاع اور اس کے ساتھی اس کے پاس پہنچے اور اس کا کام تمام کردیا ۔رستم کے قتل ہونے سے دشمن کی فوج کا شیرازہ بکھر گیا اور مشرکین بھاگنے پر مجبور ہو گئے اور مسلمان فتحیاب ہوگئے ۔

سعد وقاص نے قعقاع اور دیگر سپاہیوں کو حکم دیا کہ فراریوں کا پیچھا کریں ۔فراری جب دریا پر بنے پل سے گزرے تو انھوں نے پل کو اٹھا دیا تاکہ مسلمانوں کی پیش قدمی روک سکیں ''

''اطلال '' گھوڑے کی گفتگو

'' بکیر ،اطلال نامی ایک گھوڑے پر سوار دشمنوں کا پیچھا کر رہا تھا ۔دریائے قادسیہ کے کنارے اپنے گھوڑے سے بلند آواز میں بولا : اطلال چھلانگ مارااطلال نے اپنے سوار کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے آپ کو سمیٹا اور بولا سورۂ بقرہ کی قسم میں چھلانگ مارتا ہوں !یہ کہتے ہوئے اطلال نے چھلانگ لگائی اور دریا کے اس پار زمین پر اترا ۔اس کے بعد دوسرے سواروں نے بھی اپنے گوڑے دریا میں ڈال دیئے اور اس کو پار کرتے ہوئے فراری دشمنوں کا پیچھا کیا ،جسے بھی پاتے تھے اسے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتے تھے ،حتی نجف کی بلندیوں تک پہنچ گئے اور اس کے بعد واپس لوٹے ''

۱۹۰

بکیر کے گھوڑے ،اطلال کی گفتگو اور دریاکے اوپر سے چھلانگ لگانے کے لئے اس گھوڑے کی سورہ بقرہ کی قسم کھانے کے بارے میں سیف کے افسانہ نے تعجب انگیز حد تک شہرت پائی ہے اور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں سیف کی روایت میں کچھ بڑھا گھٹا کر اسے نقل کیا ہے اگر چہ اس افسانہ کے سر چشمہ ،یعنی سیف بن عمر کا کوئی اشارہ نہیں کیا ہے منجملہ ابن کلبی اطلال کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''اطلال ،بکیر بن عبداللہ الشداخ اللیثی کے گھوڑے کا نام ہے کہ یہ شخص قادسیہ کی جنگ میں سعد وقاص کے ہمراہ موجود تھا ''

مزید لکھتا ہے :

'' خدا بہتر جانتا ہے ،جب ایرانیوں نے دریائے قادسیہ کے پل کو مسلمانوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے اٹھا دیا تھا ۔بکیر دریا کے کنارے پہنچ کر اپنے گھوڑے اطلال سے مخاطب ہوکر بلند آواز میں بولا : اطلال چھلانگ لگا !اطلال نے خود کو سمیٹا اور چھلانگ لگائی ۔خدا نے اس دن مشرکین کو شکست دے دی کہا جاتا ہے کہ ان دنوں دریائے قادسیہ کی چوڑائی چالیس ہاتھ تھی ۔مشرکین نے جب دریا کی اس چوڑائی سے بکیر کے گھوڑے کو چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا تو وہ تعجب سے کہنے لگے کہ یہ الٰہی امر ہے ''

اس کے علاوہ ابن الا عرابی نے اپنی کتاب ''انساب الخیل ''میں ،غند جانی نے اپنی کتاب ''اسماء الخیل العرب''میں اور بلقینی نے اپنی کتاب ''امرالخیل ''میں اس داستان کی طرف اشارہ کیاہے۔

اسی طرح لغت کی کتابوں میں بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔لفظ ''طلل '' کے بارے میں ابن منظور کی کتاب ''لسان العرب ''میں یوں ذکر آیا ہے:

''لوگ کہتے ہیں کہ جب قادسیہ کی جنگ میں ایرانی فرار کررہے تھے ،اطلال نے گفتگو کی ہے ۔داستان اس طرح ہے کہ جب مسلمان فراریوں کاپیچھا کرتے ہوئے اس دریا کے کنارے پر پہنچے جس کاپل ایرانیوں نے اٹھادیا تھا ،تو سوار نے اپنے گھوڑے سے مخاطب ہوکر کہا:''اطلال ،چھلانگ لگا !''گھوڑے نے جواب میں کہا : سورۂ بقرہ کی قسم میں چھلانگ لگا تا ہوں !''

۱۹۱

فیروز آبادی نے اپنی لغت میں لکھا ہے :

''کہتے ہیں کہ اطلال نے قادسیہ کی جنگ میں دریا کے کنارے اپنے سوار سے گفتگو کی ہے ۔جب سوار نے اس سے مخاطب ہوکر کہا :''اطلال چھلانگ مار''تو اطلال اس کے جواب میں بولا:''سورۂ بقرہ کی قسم میں نے چھلانگ لگادی ۔''

زبیدی نے بھی تاج العروس میں یہی مطالب درج کئے ہیں ۔

یہ وہ مطالب تھے جوسیف بن عمر نے جنگ ِقادسیہ کے تین دنوں کے بارے میں بیان کئے ہیں ۔''لیلةالحریر ''کے بارے میں بلاذری کی ''فتوح البلدان ''میں اس نام کا صرف اشارہ ہوا ہے لیکن جس چیز کو سیف نے تفصیل سے بیان کیا ہے وہ اس میں نہیں پائی جاتی۔

بکیر اور اس کے اطلال نامی گھوڑے کی حقیقت سے کسی کو انکارنہیں ہے اور بکیر کانام ''فتح موقنان''میں آیا ہے ۔لیکن اطلال کی گفتگو اور سورہ بقرہ کی قسم کھانے کی فقط سیف نے روایت کی ہے ، کسی اور نے ٥اس سلسلے میں کچھ نہیں لکھاہے۔

سند ِروایت کی پڑتال :

قعقاع کی شام سے عراق کی طرف واپسی اور اس کے عراق کی دوسری جنگوں میں شرکت کے موضوع کے بارے میں سیف کی روایات کی سند میں ابو عثمان یزید،زیادبن سرجس،محمداورغصن جیسے راوی ملتے ہیں ۔اور پہلے یہ ثابت ہوچکاہے کہ یہ سب راوی سیف کے خیالات کی تخلیق اور جعلی ہیں اوران کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

اس کے علاوہ سیف نے عمر بن ریان کواس حدیث کے راوی کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ۔ اس کانام تاریخ طبری میں پانچ حدیثوں کے راوی کے طور پر آیاہے۔

۱۹۲

اس راوی کی حسب ذیل صورت میں معرفی کی گئی ہے :

''یہ وہ شخص ہے جس سے سیف بن عمرنے روایت کی ہے اور یہ ایک مجہول شخص ہے ، اور بس۔''

اسی طرح سیف نے جن راویوں سے صرف ایک حدیث روایت کرنے پر اکتفاکی ہے ، ان کو ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کتاب ،فہرست یا طبقات میں نہیں پایا۔ایسے راویوں میں حمید بن ابی شجار ،قبیلہ طی کا ابن محراق نام کا ایک شخص !اور عصمد الوائلی سے جخدب ،جرعب قابل ذکر ہیں حتی ہم یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ سیف نے ابن محراق یاقبیلہ طی کے اس شخص کا اپنے خیال میں کیا نام رکھا ہے ۔

لگتا ہے کہ سیف بن عمر نے ایسے افسانوں اور راویوں کو نقل کرکے لوگوں کامضحکہ اڑایا ہے اور کبھی کوئی سنجیدہ بات نہیں کی ہے ۔خاص کر جب وہ اپنی حدیث کے راویوں کی حیثیت سے قبیلہ ٔ طی کے ابن محراق وغیرہ جیسے افراد کاذکر کرتا ہے ۔کیااس کے زندیقی ہونے کے علاوہ کوئی اور سبب ہو سکتا ہے جو سیف کو ایسے افسانے تخلیق کرنے اور ایسے عجیب وغریب ناموں کے ذریعہ اپنی روایتوں کو مستند بنانے کے لئے آمادہ کرے ؟!

یہ روایت کہاں تک پہنچی اور بحث کانتیجہ :

سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ کے لئے تین دن مخصوص کرکے ان کو الگ الگ نام سے یاد کیا ہے ۔یہ تنہا راوی ہے جس نے قعقاع کی سرپرستی میں عراقی سپاہیوں کی اپنے وطن کی طرف واپسی کاذکر کیا ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی شخص نے ایسی چیزیں نہیں لکھی ہیں ۔ایسے میں امام مؤرخین ابن جریر طبری آکر ان تمام مطالب کو سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کرتا ہے اور ابن اثیر نے بھی ان سب روایتوں کو ایک جگہ جمع کرکے طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی خاص روش کے تحت سند کا ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ۔ابن کثیر نے بھی اس داستان کو طبری سے نقل کرکے اس کا ایک حصہ خلاصہ کے طور پر درج کیا ہے اور اس کی ابتدا ء میں یوں لکھتا ہے :

۱۹۳

'' ابن جریر طبری خدا اس پر رحمت نازل کرے اس طرح لکھاہے :.... اس کے بعد سیف کی روایت نقل کرتے ہوئے ٩بار سیف بن عمر کا نام لیتا ہے ۔ابن خلدون نے بھی اس داستان کو نقل کرتے ہوئے بات کو اس طرح شروع کیا ہے : سیف کہتا ہے :....تاآخر''

میر خواندنے بھی '' روضة الصفا '' میں ان افسانوں کو درج کیا ہے ،لیکن اپنی خاص روش کے مطابق سند کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

سیف تنہا شخص ہے جس نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں یہ افسانے تخلیق کئے ہیں ٦ جن افسانوں کا ہم نے اس سلسلے میں اب تک ذکر کیا ان کا وہ تنہا راوی ہے اور دوسرے مورخین نے اس سے نقل کرکے ان مطالب کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور ہم نے اس امر کو مختلف مراحل میں ثابت بھی کیا ہے ۔

قابل توجہ بات ہے کہ سیف نے اپنی داستان کو گڑھتے وقت یہ کوشش کی ہے کہ ایک داستان دوسری داستان کی تائید کرے اور ایک مطلب دوسرے موضوع کا گواہ بنے اس سلسلے میں قعقاع اور اس کی شجاعت اور کارناموں کے بارے میں گڑھا ہوا افسانہ بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے ، جس میں جگہ جگہ پرسیف کا اس بات پر اصرار نظر آتا ہے کہ ابوبکر کی قعقاع کے بارے میں کی گئی ستائش کی لوگوں کی زبانی تائید کرائی جائے مثلاوہ کہتا ہے :

'' لوگ قعقاع کی تعریف اور ستائش میں ایک دوسرے کو اشارہ کرکے یہ کہتے تھے کہ '' یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے : جس فوج میں اس جیسا دلاور اور پہلوان موجود ہو وہ ہر گز شکست سے دو چار نہیں ہوگی !''

اس طرح سیف اپنی سابقہ بات جو اس نے ابوبکر کی زبانی قعقاع کی تعریف میں گڑھی ہے پر تاکید کرتے ہوئے اسے ایک ناقابل انکار حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے

۱۹۴

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ قادسیہ کی جنگ میں بکیر کے گھوڑے اطلال کی گفتگو کو اس قدر شہرت بخشی گئی کہ اس موضوع کو اہم کتابوں میں درج کرکے اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے بجائے اس کے کہ اس مطلب پر ایک علمی تحقیق کی جائے اور اس تخلیق کے سر چشمہ کو علم و عقل کی کسوٹی پر پرکھا جائے ،اس متبذل افسانہ کو کتابوں میں درج کیا گیا ہے اور اسی طرح واضح خرافات کو تاریخ کے حقیقی واقعات کے طور پر پیش کیا گیاہے ۔لوگوں میں اس افسانہ کی مقبولیت اور شہرت کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس افسانہ کو اس طرح گڑھ لیا گیا ہے تاکہ عوام کو پسند ہو اور اپنے اسلاف و اجداد کی کرامتیں اور غیر معمولی قصے سننے کے شائقین کی مرضی کے مطابق ہو ۔چوں کہ جس قدر افسانہ سنسنی خیز ہو اسی قدر اس کی شہرت بھی زیادہ ہوتی ہے ؟!

ساس داستان کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے اس داستان کو گڑھ کر کیا مقصد پایا ہے اور اس افسانہ سرائی سے کون سے نتائج حاصل کئے ہیں :

١۔ اپنے ہم قبیلہ قعقاع تمیمی کے لئے ایسی شجاعتیں اور بہادریاں خلق کی ہیں کہ افسانوں کی تاریخ ،حتی اسلام کے واقعی پہلوانوں میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی ۔

٢۔ فوج کی ہمت افزائی کے لئے میدان کا رزار میں سپاہیوں کو بھیجتے وقت دودن کے اندر دوبار مختلف دستوں میں مساوی طور پر بانٹنے کے سلسلے میں قعقاع کی فوجی حکمت عملی کی دقیق تشریح کرنا

٣۔سرگروہ ہاتھی کی سونڈ کو کاٹ دینا ،جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے دشمن پر فتح پائی ۔خاص کر اس دعویٰ کے بارے میں ام المومنین عائشہ کی تاکید اور گواہی بیان کرنا۔

٤۔ ارماث ،اغواث اور عماس کے نام سے تین سنسنی خیز تاریخی دنوں کی تخلیق ۔

٥۔رجز اور رزمینہ قصائد کی تخلیق کرکے قدیمی ادب کو مزین کرنا ۔

٦۔آخر میں بکیر کے گھوڑے اطلال کی معجزہ نما گفتگو ،خاص کر اس کا فصیح عربی میں بات کرنا اور سورہ بقرہ کی قسم کھانا!۔

۱۹۵

جنگ کے بعد کے حوادث

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

''ایرانیوں کی شکست اور ان کے فرار کے بعد تیس سے زیادہ فوجی دستے فرار کی شرمندگی کو اختیار نہ کرتے ہوئے سرداروں کے ہمراہ اپنی جگہ پر ڈٹے رہے ۔لہٰذا تیس سے زیادہ اسلامی سپہ سالار ان کے مقابلے میں آئے اور از سر نو جنگ شروع ہوگئی ۔اس معرکہ میں خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع نے اپنے ہم پلہ ایرانی پہلوان قارن کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اس کے قتل ہونے پر ایرانیوں کے باقی ماندہ فوجی دستے یا قتل ہوئے یا میدان جنگ سے فرار کر گئے ۔اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے فراریوں کا پیچھا کرنے کا حکم دیا اور قعقاع ابن عمرو کو اس کی ذمہ داری سونپی''

اس کے علاوہ روایت کرتا ہے کہ جریر بن عبداللہ بجلی نے اس دن یہ شعر کہے ہیں :

'' میں جریر ہوں اور ابو عمر و میری کنیت ہے ۔خدا نے جنگ میں ہماری مدد فرمائی جب کہ سعد اپنے محل میں بیٹھاتھا''

جریر کی یہ باتیں سعدوقاص تک پہنچیں تو سعد نے جواب میں کہا :

''مجھے خاندان بجیلہ کے جنگجوئوں سے کوئی توقع نہیں ہے خدا سے ان کے لئے قیامت کے دن بدلہ چاہتاہوں ۔ان کے گھوڑے ایسے گھوڑوں کے مقابلے میں آئے کہ سواروں کے درمیان مڈبھیڑ ہوگئی ۔اگر دو تمیمی سورما قعقاع بن عمرو اور حمال نہ ہوتے تو بجیلیوں کو ہزیمت اٹھاناپڑتی کیوں کہ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے نیزوں اور تلواروں سے دشمنوں کی چمڑی اتار ی اور تمھارے گروہ کا دفاع کیا اگر ان دو پہلوانوں کا دفاع نہ ہوتا تو تم اس وقت ایسے گروہوں کو اپنے سامنے دیکھتے جو تمھارے گروہ کو مکھی کی طرح بے بس کرکے رکھ دیتے ''

۱۹۶

مندرجہ بالا اشعار کو سیف نے اسی صورت میں ذکر کیا ہے جب کہ طبری نے ابن اسحاق سے نقل کرتے ہوئے پہلے دو شعر کے بعد یوں بیان کیا ہے :

'' ان کے میدان جنگ میں ایسے ہاتھی آئے جو عظیم الجثہ ہونے کے لحاظ سے بڑی کشتیوں کے مانند تھے ''

اس کے بعد تین شعر جن کا سیف نے اضافہ کیا ہے اس میں نظر نہیں آتے ۔معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنی روایت میں تیسرا شعر جس میں بجیلہ قحطانی کی تعریف و تمجید ہوئی ہے کو حذف کیا ہے اس کی جگہ پر ایسے تین شعر گڑھ لئے ہیں جن میں قعقاع تمیمی اور حمل اسدی مضری کی تعریف و تمجید اور بجیلۂ قحطانی یمانی کی مذمت کی گئی ہے ۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ سیف ابن عمر تمیمی نہ فقط اسلام کے لئے افسانوی تاریخ جعل کرتا ہے بلکہ دوسروں کے اشعار اور قصیدوں میں بھی قبیلہ مضر کے حق میں تصرف کرتا ہے ۔

بے شوہر یمانی عورتیں :

سیف نے روایت کی ہے :

''قادسیہ کی جنگ میں قبائل عرب میں سے کوئی بھی قبیلہ بے سر پرست عورتوں کے لحاظ سے بجیلہ اور نخع قبیلوں کے برابر نہ تھا ۔اس کا یہ سبب تھا کہ خالد بن ولید نے عراق میں اپنی جنگوں کے دوران اس علاقہ کے باشندوں کی اجتماعی نابودی اور قتل عام کے سبب عراق کو مسلمانوں کی رہائش کے لئے آمادہ کیا تھا ۔اسی اطمینان اور امید کی وجہ سے دو یمانی قبیلے اپنے خاندان کے تمام افراد کے ساتھ قادسیہ کی جنگ میں شریک ہوئے تھے ۔اس جنگ میں ان دو قبیلوں کے ایک ہزار سات سو مرد کام آئے جس کے نتیجہ میں خاندان نخع میں سات سو اور خاندان بجیلہ میں ایک ہزار عورتیں اپنے شوہروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں ''

مہاجرین نے بزرگواری کا ثبوت دیتے ہوئے ان بیوہ عورتوں کو اپنی حمایت و سرپرستی فراہم کی اور ان کے ساتھ شادی کی ۔

۱۹۷

یہ شادیاں جنگ کے دوران اور اسی طرح دشمن پر فتح پانے کے بعد انجام پائیں ان ایک ہزار سات سو بیوہ عورتوں میں سے عامر ہلالیہ نخع کی بیٹی اروی کے علاوہ ایک بھی عورت بے سرپرست نہ رہی ۔جنگ قادسیہ کے بعد اس عورت سے بھی بکیر بن عبد اللہ (وہی سورما جس سے اس کے گھوڑے نے گفتگو کی تھی)،عتبہ بن فرقد اللیثی اور سماک بن خرشہ انصاری نے خواست گاری کی ۔ اروی ان نامور عرب پہلوانوں کی خواست گاری کے جواب میں کسی ایک کے انتخاب کرنے میں شش وپنج میں پڑی مجبور ہوکر اس نے اپنی بہن ھنیدہ قعقاع کی بیوی سے مدد کی درخواست کی اور اس سلسلے میں اس کے شوہر سے اظہار نظر کوکہا۔ہنیدہ نے یہ بات اپنے شوہر سے بیان کی۔قعقاع نے جواب میں کہا:میں شعر کی زبان میں ان کی توصیف کروں گا،تم اسے اپنی بہن کے پاس پہنچادینا تاکہ اس کے لئے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا آسان ہوجائے۔اس کے بعد اس نے یہ شعر کہا:

''اگر تم درہم ودینار کی طلبگار ہو تو مرد انصاری سماک یا فرقدکو اپنے شوہر کے طور پر انتخاب کرنا اور اگر نیزہ باز ،شجاع ودلیر شہسوار کو پسند کرتی ہوتو بکیر کا انتخاب کرنا۔ان میں سے ہر ایک صاحب کمال وفضیلت ہے ۔میں نے ان کے آئندہ کی خبر دیدی ،تم اپنے حال کو بہتر جانتی ہو!''

ابن حجر سیف بن عمر سے روایت کرتا ہے کہ:

''عمر نے سعد وقاص کولکھا:جنگ قادسیہ کے نامور ترین شہسوار کانام مجھے بتاؤ'' ۔سعد نے خلیفہ کا خط حاصل کرنے کے بعد جواب میں لکھا :''میں قعقاع بن عمرو جیسا سورما کسی کو نہیں پاتا،وہ ایسا بہادر ہے جس نے ایک ہی دن میں تیس بار دشمن پر حملہ کیا اور ہر حملہ میں دشمن کے ایک پہلوان کو موت کے گھاٹ اتارا''

قادسیہ کی جنگ کے ان تمام افسانوں کو سیف نے گڑھا ہے۔اس جنگ کے بارے میں اس کی روایتیں دوسروں کی روایتوں کے بر عکس ہیں ۔کیونکہ طبری نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں ابن اسحاق سے بھی روایت کی ہے۔

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں اور دینوری نے اپنی کتاب ''اخبار الطوال''میں ١ جنگ قادسیہ کی تشریح کی ہے۔لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے یہ افسانے دکھائی نہیں دیتے ۔

۱۹۸

سند کی پڑتال:

قادسیہ کی جنگ میں فتحیابی کے بعد کے واقعات کے بارے میں سیف کے راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں ہم نے بارہا کہاہے کہ یہ سیف کے تخیلات کے جعل کردہ راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔اس کے علاوہ چند دیگر مجہول راویوں کانام بھی لیاہے۔

سند کی پڑتال کا نتیجہ:

سیف نے سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے اشعار میں تصرف کرکے ان میں بڑھا گھٹا کر قبیلۂ بجیلہ ٔقحطانی کی مذمت اور قبیلہ مضر کے سرداروں کی مدح وستائش کی ہے۔اسی طرح ایک اور افسانہ جعل کرکے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتوں کو خاندان مضر کے مردوں سے شادی کا افتخار بخش کر انھیں بے سرپرستی اور مفلوک الحالی سے نجات دلائی ہے۔اور اپنے ادبی ذوق سے استفادہ کرتے ہوئے اس داستان کے مطالب کی تائید میں اشعار بھی کہے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے ایک ایسی روایت بھی جعل کی ہے جس میں خلیفہ عمر جنگ قادسیہ کے بہترین اور شجاع ترین شہسوار کو پہچنوانے کا حکم دیتاہے اور سعد وقاص کا جواب ایسا ہے جس میں اس نے سیف کے افسانوی اور جعلی پہلوان قعقاع کی تائید کی ہے۔اس تائید کی سند کے طور پر یہ واقعہ بیان کیاہے کہ قعقاع نے ایک ہی دن میں تیس حملے کئے اور ہر حملہ میں دشمن کے کسی نہ کسی پہلوان کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان میں کا آخری پہلوان ''بزرگ مہر''تھا۔

سیف اپنی روایتوں کو ایسے جعل کرتاہے کہ اس کی روایتیں ایک دوسری کی تائید کرسکیں ۔

۱۹۹

اس داستان کانتیجہ:

سیف اپنے اس جعلی افسانہ میں درج ذیل مقاصد اور نتائج حاصل کرتاہے:

١۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع بن عمرو کے ہاتھوں ایرانی سپہ سالار اور پہلوان قارن کو قتل کرکے قعقاع کے افتخارات اور فضائل میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا۔

٢۔ایک ہزار سات سو قحطانی بیوہ عورتوں کو سیف کے زعم میں جن کے شوہر نااہلی اور جنگی حکمت عملی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میدان جنگ میں ،مارے گئے تھے خاندان مضر کے مردوں کے ساتھ شادی کراکے انھیں فضیلت بخشنا۔

٣۔آخر میں اسلامی فوج کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے ذریعہ قعقاع بن عمرو تمیمی کو جنگ قادسیہ کے بے مثال پہلوان کی حیثیت سے خلیفہ وقت عمر کی خدمت میں ذکر کرنا۔

۲۰۰

قعقاع ،ایران کی جنگوں میں

اعجزت الاخوات ان یلدن مثلک یا قعقاع ! (بارق۔قعقاع کاماموں )

(سیف کا بیان)

بہر سیر کی فتح

طبری ،سیف سے نقل کرتے ہوئے فتح بہر سیر کی داستان کو حسب ذیل صورت میں بیان کرتاہے:

''ابو مفزر تمیمی نے ایران کے بادشاہ کے مأمور اور ایلچی سے ایک ایسی بات کہی جو ایرانیوں کے فرار کاسبب بنی''۔

اس قصہ کی تفصیل ابو مفزر تمیمی جو سیف کے جعلی اصحاب میں سے ایک ہے کی

زندگی کے حالات پر بحث کے دوران بیان ہوگی۔

حمیری ''روض المعطار ''میں جب مدائن کی تشریح کرنے پر پہنچتا ہے تو اس شہر کو تسخیر کئے جانے کے سلسلہ میں سیف کی روایت بیان کرتے ہوئے اس کے آخر میں لکھتاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :ہم نے بہر سیر کو شجع وقافیہ سے مزین اس حق بات کے ذریعہ فتح کیا جو ہماری زبان پر جاری ہوئی ۔ہمارے خوف سے ان کے دل ہل گئے اور وہ ہماری ننگی اورتیز تلواروں کے سامنے آنے سے ڈرگئے''۔

۲۰۱

مدائن کی فتح

سیف روایت کرتاہے کہ:

''قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام خرساء (خموشان)اور اس کے بھائی عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام اہوال (وحشت)تھا''۔

ان دو دستوں کے دریائے دجلہ سے عبور کی تفصیلات ہم عاصم سیف کے افسانوی صحابی کی سوانح حیات پر بحث کے دوران بیان کریں گے۔

بہر حال سیف اپنی ایک روایت کے ضمن میں کہتاہے:

''دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے دوران سپاہیوں میں غرقدہ نام کے ایک شخص کے علاوہ کوئی شخص غرق نہیں ہوا۔غرقدہ دریا کو عبور کرتے ہوئے اچانک گھوڑے کی پیٹھ سے پھسل کر پانی مین جاگرا۔قعقاع بن عمرو متوجہ ہوا،اس نے ہاتھ بڑھایااور غرقدہ کا ہاتھ پکڑ کر دریائے دجلہ پار کرکے اسے ساحل تک پہنچادیا۔غرقدہ چونکہ ایک قوی پہلوان تھا اور قعقاع کی والدہ بھی خاندان بارق سے تعلق رکھتی تھی ،اس لئے غرقدہ نے قعقاع کی والدہ کی طرف اشارہ کرکے اس لشکر شکن پہلوان سے خطاب کرکے کہا:اے قعقاع! میری بہنیں پھر کبھی تجھ جیسا پہلوان پیدا نہیں کرسکتیں ''

سپاہیوں کے مدائن میں داخل ہونے کے سلسلے میں سیف لکھتاہے :

''سب سے پہلا فوجی دستہ جو شہر مدائن میں داخل ہوا،اہوال فوجی دستہ تھا جس کی کمانڈ عاصم بن عمرو کررہاتھا۔اس کے بعد خرساء فوجی دستہ مدائن میں داخل ہوا ۔ سپاہیوں نے اس شہر کی گلی کو چوں میں کسی فوجی کو نہیں پایا،کیونکہ سبوں نے سفید محل میں پناہ لے رکھی تھی۔اسلامی فوجیوں نے سفیدمحل کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور انھیں ہتھیار ڈالنے کوکہا۔انھوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دئے اور جزیہ دینا قبول کیا''۔

۲۰۲

بادشاہوں کا اسلحہ ،غنیمت میں

سیف نے حسب ذیل روایت کی ہے:

''مدائن کے فتح ہونے کے دن ،قعقاع شہر سے باہر نکلا اور تلاش و جستجو میں مشغول ہوا، اسی دوران اس کی ایک ایرانی سے مڈبھیڑ ہوئی جو دو چوپایوں کے اوپر ایک بھاری بوجھ لے کرجا رہا تھا ۔اور لوگ چاروں طرف سے اس کی حفاظت کر رہے تھے قعقاع نے اس شخص پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور ان دونوں چوپایوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا جب ان پر لدے ہوئے سامان کی جستجو کی تو ان میں سے ایک کے اندر کسریٰ ،ہرمز ،قباد ،فیروز ،ہراکلیوس ،ترکمنستان کے بادشاہ خاقان ،ہندوستان کے بادشاہ داہر ،بہرام سیاوش اور نعمان جیسے بادشاہوں کی تلواریں موجود تھیں دوسرے صندوق میں کسریٰ کی زرہ ،کلاہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کی حفاظتی سپر اور ہراکلیوس ، خاقان اور داہر کی زرہ سیاوش کی زرہ اور نعمان کی زرہ جو جنگ میں ان سے غنیمت کے طور پر لی گئی تھی موجود تھیں ۔اس کے علاوہ بہرام چوبین اور نعمان کے وہ اسلحہ بھی اس میں موجود تھے جو ان سے اس وقت غنیمت میں لئے گئے تھے جب وہ کسریٰ کی بغاوت کرکے اس سے جدا ہوئے تھے ۔

قعقاع نے یہ سب غنائم یکہ و تنہا اپنے قبضہ میں لینے کے بعد انھیں سپہ سالار اعظم سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا سعد نے تجویز کی کہ ان میں سے ایک تلوار قعقاع اپنے لئے انتخاب کرے ۔قعقاع نے ہر اکلیوس کی تلوار کا انتخاب کیا اس کے علاوہ سعد نے بہرام چو بین کی زرہ بھی اسے بخش دی اور کسریٰ و نعمان کی تلواروں کو جن کے بارے میں عربوں میں کافی شہرت تھی خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا کہ مسلمان اسے دیکھ لیں اور باقی غنائم خرساء فوجی دستہ کے سپاہیوں کو بخش دئے ''

یہ سب روایتیں افسانہ سازی کے بہادر اور ماہر سیف بن عمر تمیمی کی ہیں ۔اس داستان کی ، دریائے دجلہ سے سپاہیوں کے عبور کرتے وقت ،عاصم بن عمر و کی سوانح حیات بیان کرتے وقت اور فتح بہرسیر کے واقعہ کے بارے میں ابو مفزر اسود بن قطبہ کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت مزید وضاحت کی جائے گی ۔

۲۰۳

سند کی پڑتال:

سیف نے اس داستان کو اپنے دو جعلی راوی محمد اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ حقیقت مین ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

ا ن کے علاوہ عصمة بن حارث کو بھی راوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ بھی سیف بن عمر کے جعلی روایوں میں سے ایک ہے اور اس کی زندگی کے حالات مناسب جگہ پر بیان کئے جائیں گے ۔

مزید بر آں نضر بن السری نام کا ایک اور راوی سیف نے پیش کیا ہے کہ اس کے ذریعہ طبری میں چوبیس روایات نقل ہوئی ہیں ۔دو اور راوی رفیل اور ابن رفیل ہیں جن سے طبری نے سیف سے بیس روایتیں نقل کی ہیں ۔

ان سب راویوں کو بھی ہم نے سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا ۔

دلچسب بات یہ ہے کہ سیف کے مندرجہ بالا جعلی راویوں کے علاوہ اس داستان کے چند دیگر راوی ایک شخص !قبیلہ ٔحارث کا ایک شخص کے عنوان سے بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان دوافراد کے نام کیا تھے تاکہ ہم انھیں راویوں کی فہرست میں تلاش کریں !!

جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سیف کی باتیں سنجیدہ اور بھاری بھرکم ہونے کے بجائے بیشتر لچر اور مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے راویوں کو ایک شخص ،یا قبیلہ حارث کا ایک شخص یا ابن رفیل وغیرہ کے عنوان سے ذکر کرتا ہے ۔

ستم ظریفی کی حد ہے کہ ان واضح جھوٹ ،بہتان اور افسانوں پر مشتمل داستان کو سیف نے گڑھاہے اور امام المورخین طبری نے انھیں بے چوں وچرا نقل کرکے اپنی گراں قدر اور معتبر کتاب میں درج کیا ہے اور دوسرے تاریخ دانوں نے بھی اس کے بعد انہی مطالب کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲۰۴

اس داستان کی تحقیق اور اس کے فوائد :

جو کچھ اس بحث و تحقیق سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ سیف نے دو تمیمی بھائیوں کی کمانڈ میں ''خاموش '' و ''وحشت'' نامی دو افسانوی فوجی دستے مشخص کئے ہیں اور ایک روایت کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ دریائے دجلہ کو پار کرکے مدائن میں داخل ہونے والے فوجیوں میں یہ دو دستے پیش پیش تھے اور یہ افتخار صرف خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو سورمائوں یعنی قعقاع ابن عمرو تمیمی و عاصم ابن عمر و تمیمی کو حاصل ہوا ہے ۔اس کے علاوہ اس بے مثال پہلوان بارقی جو آسانی کے ساتھ کسی کی تعریف نہیں کرتا تھا کی زبانی یہ کہلوایا ہے کہ : '' اے قعقاع !دنیا کی عورتیں کبھی تم جیسا سورما جنم نہیں دے سکتیں !''

یہاں پر بھی قعقاع تمیمی ہی ہے جو فرار کرنے والے سپاہیوں کا پیچھا کرکے غنائم کے محافظین کو قتل کر ڈالتا ہے اور اس قدر غنائم پر قبضہ کرتا ہے ۔ان غنائم میں ایرانی بادشاہوں : کسریٰ ،ہرمز ،قباد ، فیروز اور بہرام چوبین کے علاوہ ہندوستان کے بادشاہ داہر ،روم کے بادشاہ ہراکلیوس اور عرب قحطانی یمانی سلطان نعمان کے اسلحے اور جنگی ساز وسامان شامل تھا ۔اس افتخار سے بڑھ کر مضر خاندان کے عظیم پہلوان اور ناقابل شکست سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے لئے کون سا فخر ہو سکتا ہے کہ اس نے تمام دنیا کے بادشاہوں سے باج لے کر خاندان تمیم کے سرپر فضیلت کا تاج رکھ دیا ہے !!

شاباش ہو سیف پر !جس نے خاندانی تعصب کی بنیاد پر تمام اصولوں کو پائمال کرتے ہوئے خاندان تمیم کے پیروں تلے ایک لڑکھڑاتی سیڑھی قرار دے کر اسے بلند سے بلند لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے چاہے اس کا یہ کام کسی ملت یا اسلام کی تاریخ کے نابود ہونے کا سبب کیوں نہ بن جائے !!

۲۰۵

جلولا ء کی فتح

طبری نے سیف سے روایت کی ہے :

''خلیفہ عمر نے سپہ سالار اعظم سعد و قاص کو حکم دیا کہ ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے ہاشم کو جلولاء بھیج دے اور قعقاع بن عمرو تمیمی کو اس کے ماتحت ہر اول دستہ کے سردار کی حیثیت سے مقرر کرے ۔خدا کی طرف سے ایرانیوں کو شکست اور مسلمانوں کی فتحیابی کے بعد عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں کی حکومت قعقاع کے سپرد کی جائے ۔

جب ہاشم ،جلولاء پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ ایرانیوں نے اپنے چاروں طرف ایک خندق کھودی ہے اور خود اس میں مخفی ہو گئے ہیں خندق کے اطراف میں تیز دھار والے لوہے کے ٹکڑے اور جنگی سازوسامان کے ٹوٹے پھوٹے آلات پھیلا کے رکھے گئے تھے تاکہ اپنی پناہ گاہ میں داخل ہونے سے اسلامی فوج کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر سکیں انھوں نے اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف ایسی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں کہ اسلامی فوج کے لئے کسی صورت میں اس کے اندر داخل ہونا ممکن نہیں تھا اس کے برعکس ایرانی جب چاہتے ان تما م رکاوٹوں کے باوجود آسانی کے ساتھ اس پناہ گاہ میں رفت و آمد کر سکتے تھے ۔

مسلمان اس معرکہ میں اسّی (٨٠) دن تک مشرکین پر حملہ کرتے رہے لیکن تقریبا تین ماہ کی اس مدت کے دوران کوئی خاص پیش قدمی نہ کر سکے ۔

ان حالات کے پیش نظر قعقاع ،وہ معروف شہسوار اور ناقابل شکست پہلوان اس تنہا راستہ پر قبضہ کرنے کے لئے مناسب فرصت کی تلاش میں تھا ،جسے مشرکین نے اپنے فوجیوں کی رفت و آمد کے لئے بنا رکھا تھا جب اسے مناسب موقع ملا تو اس نے یکہ و تنہا اس جگہ پر حملہ کیا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور پکار کر کہا : اے مسلمانو!تمھارا سپہ سالار اس وقت دشمن کے مورچے کے اندر ہے حملہ کرو!'' قعقاع نے اس لئے یہ جھوٹ بولا تاکہ اسلامی فوج کے حوصلے بلند ہو جائیں اور وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں ۔

قعقاع کی یہ چال کامیاب ہوئی اور اسلامی فوج نے اجتماعی طور پر مشرکین پر حملہ کردیا اس یورش کے دوران انھیں یہ یقین تھا کہ ان کا سپہ سالار ہاشم دشمن کے مورچوں کے اندر گھس گیا ہے ،لیکن اس کے بر عکس قعقاع ابن عمر وتمیمی کو پایا جس نے دشمنوں کی گزرگاہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔

۲۰۶

اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور ایرانی جان کے لالے پڑ نے کی وجہ سے اندھا دھند بھاکتے ہوئے خود اسی جال میں پھنس کر ہلاک ہو گئے جسے انھوں نے اپنے دشمن کے لئے رکاوٹ کے طور پر بچھا رکھا تھا ۔ اس طرح ان کے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور لاشوں سے زمین بھر گئی ۔اسی لئے اس جگہ کی جنگ کو ''جنگ جلولاء ''(۱) کہتے ہیں !!

قعقاع نے فراریوں کا خانقین تک پیچھا کیا بعض کو قتل کیا اور بعض کو اسیر بنایا ۔ ایرانی فوج کے سردار مہران کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کے بعد قعقاع قصر شرین کی طرف بڑھا اور حلوان سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر پہنچا ۔حلوان کا سرحد بان قعقاع کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے مقابلے میں آیا ،لیکن اس جنگ کے نتیجہ میں قعقاع کے ہاتھوں مارا گیا اور مسلمانوں نے حلوان پر بھی قبضہ کر لیا۔

سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے مدائن سے کوفہ واپس آنے تک قعقاع بن عمر و ،تسخیر شدہ سرحدی علاقوں اور ان کے اطراف کا حاکم رہا جب وہ سعد وقاص سے ملنے کے لئے کوفہ کی طرف روانہ ہوا تو قباد خراسانی کو سرحد بان کی حیثیت سے مقرر کیا ۔

حموی ،جلولاء کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''ایک دریا ہے جو بعقوبہ تک پھیلا ہوا ہے اس کے دونوں کناروں پر اس علاقہ کے باشندوں کے گھر بنے ہیں ۔وہاں پر ١٦ھ میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ایک گھمسان اور مشہور جنگ واقع ہوئی ہے کہ اس میں ایرانیوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی ۔میدان جنگ لاشوں سے بھر گیا اور زمین ان لاشوں سے ڈھک گئی تھی ،اسی سبب سے اسے '' جلولاء و قیعہ '' کے نام سے یاد کیا گیا ہے جیسے کہ سیف کہتا ہے : خدائے تعالیٰ نے جنگ جلولاء میں مشرکین کے ایک لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا اور ان کی لاشوں سے زمین بھر گئی ،اسی لئے اسے جنگ جلولاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ قعقاع ابن عمر ونے جنگ جلولاء میں شعر کہے :

____________________

۱)۔ جللہ ۔یعنی ایسا پردہ اس پر رکھا گیا جس نے اسے پوری طرح ڈھانپ لیا سیف کا کہنا ہے کہ اس زمین کو خون نے پوری طرح ڈھانپ لیا تھا ،اس لئے اسے '' جلولاء '' کہا گیا ۔یعنی خون سے ڈھکی ہوئی زمین۔

۲۰۷

'' ہم نے جلولاء میں ''اثابر'' اور ''مہران'' کو موت کے گھاٹ اتار دیا جب ان کے لئے راستے بند ہوگئے اس وقت ہماری فوجوں نے ایرانیوں کو محاصرے میں لے لیا اور ایرانی نسل نابود ہو کر رہ گئی :

اس جنگ کے بارے میں کہے گئے اشعار بہت زیادہ ہیں :

حموی نے حلوان کی تشریح کرتے ہوئے اس کے بارے میں لکھا ہے :

'' یہ جگہ ١٩ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئی ''

جب کہ سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اسے ١٦ھ لکھا ہے ۔اور قعقاع بن عمر وتمیمی نے حلوان کی فتح کے بارے میں شعر کہے ہیں :

'' کیا تمھیں یاد ہے کہ ہم اور تم نے کسریٰ کے گھروں میں پڑائو ڈالا ؟ ہم نے حلوان کی جنگ میں تمھاری مدد و حمایت کی اور بالاخر ہم سب وہاں ایک ساتھ اترے ۔اور عورتوں اور کنیزوں کے کسریٰ کے اوپر نالہ و شیون کرنے کے بعد ہم نے حلوان میں فتح پائی ''

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

طبری نے فتح جلولاء اور فتح حلوان کے بارے میں اپنی کتاب میں سیف بن عمر تمیمی کی روایت کے علاوہ کسی اور کی روایت کے بارے مین کوئی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ یہ داستانیں دینوری اور بلاذری کی کتابوں میں درج کئے گئے واقعات کے بر عکس ہیں ۔دینوری اور بلاذری نے لکھا ہے :

''جلو لاء میں مسلمانوں کا حملہ ایک ہی دن شروع ہوا اور اس دن شام تک جنگ جاری رہی۔افق پر سرخی نمودار ہوتے ہی مسلما نوں کی کا میابی کے آثار نظر آنے لگے اور دشمن بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور شام ہوتے ہی جنگ ختم ہوئی ۔دشمن کے چھوٹے بڑے خیموں پر مسلما نوں نے قبضہ کرلیا۔''

۲۰۸

جب کہ سیف کہتا ہے:

''مسلما نوں کا حملہ او ر ان کی پیش قدمی اسّی دن تک جاری رہی۔''

وہ مزید کہتا ہے :

''سر حدی علاقوں کے ایک حصہ کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کو دیدی گئی ۔''

جب کہ بلا ذری اور دینوری نے لکھا ہے :

''جرید بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی نے چار ہزار سپاہیوں کی سر کردگی میں جلولاء کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسی نے حلوان کو بھی فتح کیا ہے ۔''

نہ کہ بقول سیف قعقاع بن عمرو تمیمی نے !!

سند کی جانچ :

سیف نے اس داستان کو بھی محمد اور مھلب سے نقل کیا ہے جب کہ یہ دونوں اس کے جعلی راوی ہیں ۔

اسی طرح سیف نے اس روایت کے راوی کے طور پر عبداللہ محفز کا ذکر کیا ہے جس نے اپنے باپ سے رو ایت کی ہے ۔عبداللہ محفز سے مجموعی طور پر چھہ احادیث تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ درج ہوئی ہیں ۔

سیف کی نظر میں اس روایت کا ایک اور راوی مستنیر بن یزید ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے اٹھارہ روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

اس کے علاوہ بطان بن بشیر ہے ،جس سے سیف کی تاریخ طبری میں صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے اور حماد بن فلان !!البرجمی ہے جس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ۔اس سے سیف کے ذریعہ طبری میں دو روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

ہم نے سیف کے مذکورہ بالا راویوں کو راویوں کا فہرست اور طبقات میں بہت تلاش کیا لیکن ان کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں پایا ۔صرف سیف کے یہا ں ان کا سراغ ملتا ہے چونکہ گزشتہ تجربے کی روشنی میں جا ن گئے ہیں کہ سیف اشخاص کو جعل کرنے میں ماہر ہے ،اس لئے ہم سمجھ گئے کہ یہ راوی بھی اس کے تخیلات کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

۲۰۹

اس کے علاوہ ہم نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ سیف کی روایتیں سنجیدہ ہونے کے بجائے مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے لئے کسی راوی کو حماد بن فلان !!کے نام سے ذکر کرتا ہے جس نے جناب فلاں سے روایت کی ہے !!

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایات سے موازنہ:

ہم نے مشاہدہ کیا کہ طبری نے سیف سے جلولاء کی جنگ ،اس کی وجہ تسمیہ اور اس جنگ میں مقتولین کی تعداد کے بارے میں مطالب ذکر کئے ہیں جو سب کے سب اس کے بر عکس ہیں جن کا دوسروں نے ذکر کیا ہے ۔

حموی نے داستان سیف کے ایک حصہ کو سیف کے قعقاع سے نسبت دئے گئے اشعار کو جلولاء کی تشریح میں اپنے مطالب کی دلیل کے طور پر درج کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ جلولاء اور حلوان کے بارے میں سیف کی کتاب میں بہت سے اشعار موجود ہیں ۔

لیکن طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان تمام اشعار میں سے ایک شعر بھی اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے ۔ وہ سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق وایران کے سر حدی علاقوں کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کے ہاتھ میں ہونا بیان کرتا ہے اور حلوان کا فاتح بھی اسی کو ٹھہرا تا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے کی حکومت جریر بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی کے ہاتھ میں تھی اور یہی جریر یمانی ہے جس نے حلوان کو کرمانشاہ تک فتح کیا ہے ،نہ کہ قعقاع نے !

اور یہ نکتہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں مکرر کہا ہے کہ طبری نے اس داستان کو براہ راست سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر مورخین ،جیسے ابن کثیر ،ابن اثیر ،ابن خلدون اور میر خواند،سبوں نے طبری سے نقل کرکے اسے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۲۱۰

اس حدیث کے نتائج :

١۔ناقابل تسخیر مورچہ پر قبضہ کرنے کی صورت میں قعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا۔

٢۔ خاندان تمیم کے افسانوی سورما قعقاع کے ہاتھوں ایرانی سپہ سالار مہر ان کا قتل ہونا۔

٣۔ حلوان کی فتح اور اس کے سرحدبان کا قتل ہونا۔

٤۔ تسخیر شدہ سرحدی علاقوں پر خاندان تمیم کے ناقابل شکست بہادر قعقاع کی حکومت جتلا کر خاندان تمیم کے سر پر فضیلت کا تاج رکھنا۔

٥۔ اور آخر کار جنگ جلولاء میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کا مسلمانوں کی دوسری جنگوں

میں کئے گئے انسانی قتل عام میں اضافہ کرکے ان لوگوں کے لئے ایک اور سند فراہم کرنا ،جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے ۔

یہاں تک ہم نے قعقاع کی ایران میں فتوحات کے سلسلے میں سیف کی روایات کا جائزہ لیا اگلی فصل میں ہم ان دیگر فتوحات کے بارے میں تحقیق کریں گے جن کو سیف نے ایران کی فتح کے بعد دوبارہ شام میں اس افسانوی سورما قعقاع کے لئے جعل کیا ہے۔

۲۱۱

قعقاع دوبارہ شام میں

یدعون قعقاعا لکل کریهة

فیجیب قعقاع دعاء الهاتف

ہر خطر ناک حادثہ میں قعقاع سے مددکی درخواست کی جاتی ہے اور وہ بھی فریاد رس بن کر تیزی سے دوڑتا ہے ۔

حمص کی فتح :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے :

'' ابو عبید ہ جراح خلیفہ عمر کی طرف سے شام میں مامور تھا ،اس نے خلیفہ سے مدد طلب کی خلیفہ نے سعد وقاص کو لکھا کہ ابو عبیدہ دشمن کے محاصرہ میں ہے میرے اس خط کے ملتے ہی قعقاع بن عمر و کو ایک لشکر کے ہمراہ اس کی مدد کے لئے روانہ کرو کیوں کہ ابوعبیدہ کو دشمن نے گھیرلیا ہے ۔

قعقاع خلیفہ کا حکم ملتے ہی حکم کی تعمیل میں اسی روز چار ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوا ،جوں ہی مشرکین کو پتا چلا کہ ابوعبیدہ کے لئے فوجی کمک پہنچ رہی ہے انھوں نے محاصرہ کھول دیا اور منتشر ہوگئے ۔اس طرح خدا ئے تعالیٰ نے قعقاع کے وجود کی برکت سے شہر حمص کو ابوعبیدہ کے ہاتھوں فتح کیا ۔

قعقاع اپنے سپاہیوں کی قیادت میں فتح حمص کے واقعہ کے تین دن بعد ابو عبیدہ سے ملحق ہوا ۔ ابوعبیدہ نے فتح حمص کے موضوع اور تین دن گزرنے کے بعد قعقاع اور اس کی فوج کے اس سے ملحق ہونے کے بارے میں خلیفہ عمر کو رپورٹ دی اور جنگی غنائم کی تقسیم کے سلسلے میں دریافت کیا ،عمر نے ابو عبیدہ کو لکھا کہ جنگی غنائم میں قعقاع اور اس کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ شریک قرار دے ،کیوں کہ وہ تیری مدد کے لئے آئے ہیں اور انہی کے سبب دشمن نے تم پر سے محاصرہ اٹھالیا تھا ۔اور اپنے خط کے آخر میں حسب ذیل اضافہ کیا:

'' خدا ئے تعالیٰ کو فیوں کو نیک جزاء دے کیوں کہ وہ اپنے وطن کا خیال رکھتے ہیں اور دوسرے شہر یوں کی مدد بھی کرتے ہیں ''

۲۱۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

ابن عساکر نے قعقاع کی زندگی کے حالات میں حمص کی داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

'' قعقاع بن عمرو حمص کی جنگ کے بارے میں اپنے شعر میں یوں تشریح کرتا ہے ''

''قعقاع کو ہر سختی اور مشکل سے مقابلہ کرنے کے لئے طلب کرتے ہیں اور وہ بھی مدد طلب کرنے والوں کی طرف فریاد رس کی حیثیت سے دوڑ تا ہے ۔

ہم دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے حمص کی طرف اس طرح دوڑپڑے جیسے کوئی کسی بے چارہ کی مدد کرنے کے لئے فریاد رس کی حیثیت سے بڑھتا ہے ۔

جب ہم دشمن کے نردیک پہنچے تو خدائے تعالیٰ نے ہماری ہیبت سے ان کو شکست دے دی اور وہ فرار کر گئے ۔

میں نے صحرائوں اور درّوں میں دشمن پر پے در پے تیر اندازی کی ،حتیٰ حمص کو اپنے تیروں ،نیزوں اور زور و غلبہ سے اپنے قبضہ میں لے لیا ''

ابن حجر نے ''الاصابہ '' میں اس قصیدہ کے پہلے شعر کو قعقاع کے حالات میں سیف کی روایت سے نقل کیا ہے ۔لیکن طبری نے اپنی روش کے مطابق اسے حذف کیا ہے اور صرف سیف سے روایت کرکے واقعات کی تشریح پر اکتفا کی ہے ۔

حموی نے حمص کی جنگ کے بارے میں سیف کی حدیث سے بالکل چشم پوشی کی ہے اور اس کی داستان اور اشعار کو اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے ۔حموی کے علاوہ جن لوگوں نے بھی حمص کی فتح کے بارے میں ذکر کیا ہے صرف سیف بن عمر کی روایت کا حوالہ دیا ہے کیوں کہ ہم اس سے پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ تمام مورخین اس بات پرمتفق ہیں کہ فتوحات شام میں خاندان تمیم میں سے کسی ایک فرد نے بھی شرکت نہیں کی ہے ۔

بہر حال جیسا کہ بیان ہوا ،اس داستان کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دوسرے(۱) مورخوں نے جو طبری کے بعد آئے ہیں اپنے مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

____________________

۱) ۔طبری کے بعد دوسرے مورخین سے خاص طور پر ہمارا مقصود ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون ہے ۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد والے واقعات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے بارے میں انھوں نے تاریخ طبری سے ہی استناد کیا ہے ہم نے فہرست مصادر میں ان کی کتابوں کے صفحات کے نمبر بھی حوالہ کے طور پر درج کئے ہیں ۔

۲۱۳

سند کی پڑتال :

سیف نے اس داستان کی سند کے طور پر محمد اور مہلب کا نام لیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے تخیلات کی پیداوار ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

اس جانچ کا نتیجہ :

فتح حمص کے بارے میں سیف کی روایت اور اس کا دوسروں کی روایت سے موازنہ کرنے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ سیف بن عمر تنہا وہ شخص ہے جس نے حمص کی داستان کی دوبارہ روایت کی ہے اور اس سلسلے میں اتفاقات و واقعات بیان کئے ہیں جب کہ ابن اسحاق اور بلاذری نے ایسی کوئی چیز درج نہیں کی ہے ۔

اس روایت کا نتیجہ

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے اس داستان کو گڑھ کے کیا ثابت کیا ہے اور کیا پایا ہے :

١۔قعقاع بن عمرو تمیمی اور اس کے ہم وطن کوفیوں کے لئے فضیلت فراہم کرنا۔کیونکہ صرف قعقاع اور اس کے کوفی لشکر کی آمد کی خبر نے ہی دشمن کی بنیادوں کو متزلزل کردیااور اسی ہیبت نے دشمن کو منتشر کرکے مسلمانوں کو فتح عطا کی ۔

٢۔خلیفہ عمر کا بیان اور اس کی یہ گواہی کہ:''خدا کوفیوں کو نیک جزا دے ،کیونکہ وہ اپنے وطن کاخیال رکھتے ،ہیں اور دوسرے شہر یوں کی مدد بھی کرتے ہیں ''۔خلیفہ عمر ابن خطاب جیسی شخصیت کی طرف سے اس قسم کی گواہی اور تائید اس غیر معمولی جھوٹے افسانہ ساز سیف بن عمر کے اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کی راہ میں انتہائی بیش قیمت اور گراں قدر ہے۔

٣۔قعقاع کی رجز خوانی اور رزمیہ شاعری ،خود اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اسے ہمیشہ مشکل اور بڑے کاموں کے لئے بلایاجاتا تھا،کیونکہ وہ مشکل کشا اور ہر میدان کا رزار کا بے مثال فاتح ہے۔اور وہ بھی اپنی بہادری کی بناء پر ہمیشہ اس قسم کے مسائل ومشکلات کو حل کرتارہاہے۔اس کے ثبوت کے لئے خلیفہ کابیان بھی جو یہ کہتے ہیں :یہ کوفی ہیں جو اپنے وطن کی بہتر صورت میں حفاظت کرتے ہیں اور مشکلات وسختیوں میں دوسرے شہریوں کی مدد بھی کرتے ہیں ۔

۲۱۴

قعقاع ،نہاوند کی جنگ میں

قتل من الفرس ما طبق ارض المعرکة

نہاوند کی جنگ میں اتنے ایرانی مارے گئے کہ ان کی لاشوں سے زمین بھر گئی اور ان کے خون سے زمین پھسلنی بن گئی ۔

(سیف بن عمر)

جنگ نہاوند کی داستان:

قعقاع ،کوفی سپاہیوں کے ہمراہ دوبارہ عراق لوٹتاہے،لیکن کب،کیسے اور کیوں ؟۔ہم نے اس سلسلہ میں نہ طبری سے اور نہ سیف کے دیگر راویوں سے کہ اس مطلب کے جوابگو ہوں کچھ نہیں پایا اور یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس سلسلے میں کیا خیال بندی کی ہے۔

بہر حال ،نہاوند کی جنگ کے بارے میں طبری،سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''نہاوند کی جنگ ١٨ ھ میں واقع ہوئی ۔ایرانیوں نے نہاوند کے قلعہ میں پناہ لے لی تھی،اپنی ضرورت اور مصلحت کے بغیر اس سے باہر نہیں نکلتے تھے کبھی کبھی جنگ کے لئے باہر نکلتے تھے ۔مسلمانوں نے اس قلعہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا اور یہ محاصرہ طولانی مدّت تک جاری رہا ۔مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار اعظم نعمان بن مقرن تھا۔نعمان نے قعقاع بن عمرو کو مأمور کیا کہ کسی صورت سے ایرانیوں کو قلعہ سے باہر نکال کر میدان کارزار میں کھینچ لائے۔قعقاع بن عمرو (خاندان تمیم کا افسانوی پہلوان ) ہراول دستہ کے سوار فوجیوں کا سردار تھا۔اس نے ایک تدبیر سوچی اور میدان کارزار میں داخل ہوا۔اس نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ قلعہ پر حملہ کیا،ایرانی مقابلہ کے لئے آگے بڑھے ،قعقاع نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا ۔اسی طرح جنگ وگریز کی حالت میں وہ پیچھے ہٹتا گیا ۔ایرانیوں نے یہ خیال کیا کہ مسلمان ہزیمت اٹھارہے ہیں ،اس لئے ان کا کام تمام کرنے کی غرض سے قلعہ اور مورچوں سے باہر آگئے اور دور تک مسلمان سپاہیوں کا پیچھا کیا ۔جب قلعہ کے محافظوں کے علاوہ تمام ایرانی قلعہ سے باہر آگئے تو مسلمان اسی چیز کا انتظار کررہے تھے ،اس لئے فرصت کو غنیمت سمجھ کر مسلمان سپہ سالار نے واقعی حملہ کا حکم دیا اور گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔اس معرکہ میں اتنے ایرانی مارے گئے کہ زمین پر کشتوں کے پشتے لگ گئے اور ان کے خون سے زمین اتنی پھسلنی بن گئی کہ سوار اور پیادہ اس پر پھسل جاتے تھے ۔

۲۱۵

شام ہونے سے پہلے ہی مشرکین بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف بھاگنے لگے۔ان میں ایسی بھگدڑمچ گئی کہ راہ وچاہ میں فرق نہیں سمجھ سکے۔اسی سبب سے قلعہ اور پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے کے بجائے دشمن کے لئے کھودی گئی اپنی ہی خندق جس میں انھوں نے دشمن کے لئے آگ لگا رکھی تھی کی طرف بھاگے اور ان خوفناک آگ کے شعلوں میں گرتے گئے۔اس خندق میں گرتا ہوا ہر سپاہی فارسی زبان میں چیخ کر کہتاتھا ''وائے خرد!!''۔اسی لئے وہ سرزمین ''وائے خرد!''کے نام سے مشہور ہوگئی اور آج تک اسی نام سے معروف ہے۔ جن ایرانی سپاہیوں نے اس دہکتی ہوئی آگ میں گر کر جان دی ان کی تعداد ایک لاکھ تک بلکہ اس سے زیادہ تک پہنچ گئی ۔مقتولین کی یہ تعدادان بے شمار کشتو ں کے علاوہ تھی جو میدان کار زار میں کام آئے تھے ۔بہت کم ایسے لوگ تھے جو اس معرکہ سے زندہ بچ کر نکلے ۔فرار کرنے والوں میں ایرانی فوج کا کمانڈ ر فیروزان بھی تھا جو بڑی چالاکی سے اس معرکہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اور ہمدان کی طرف بھاگ گیا تھا قعقاع بن عمرو نے فیروزان کا پیچھا کیا اور درۂ ہمدان میں اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔

اس وقت وہ گزرگاہ ایسے چوپایوں سے کھچا کھچ بھری تھی جن کی پیٹھ پر شہد لدا ہوا تھا ۔ان چوپائوں کی کثرت کی وجہ سے اس تنگ گزرگاہ سے فیروزان کے لئے گزرنا مشکل ہو گیا ۔اس لئے وہ مجبور ہو کر گھوڑے سے اترا اور بڑی تیز ی کے ساتھ پہاڑ پر چڑھنے لگا ۔اسی اثنا میں اس کا پیچھا کرنے والا قعقاع بھی وہاں پہنچ گیا اور اس نے پہاڑ کی طرف بھاگتے ہوئے فیروزان کا پیچھا کیا ۔آخر کار پہاڑکی بلندی پر اس پر قابو پا لیا اور وہیں پر اسے قتل کر ڈالا ۔اسی سبب سے اس دن کے بعد اس گزر گاہ کا نام '' گزر گاہ عسل'' (یعنی شہد کی گزرگاہ) پڑ ا ۔اس امر کے پیش نظر کہ اس گزر گاہ پر شہد کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی اس لئے اسلام کے سپاہیوں نے وہاں پر یہ جملہ کہا :'' خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' ۔

دوسری طرف ایرانی فوج کے فراری سپاہی دوڑتے بھاگتے ہمدان پہنچ گئے ۔ان کا پیچھا کرنے والے مسلمانوں نے ہمدان کا محاصرہ کیا اور اس کے اطراف کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ہمدان کے باشندوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کہ اسلامی فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتے ،اس لئے مجبور ہو کر امان چاہی اور ان کی درخواست منظور کرکے انھیں امان دے دی گئی۔

۲۱۶

جب ہمدان کے زوال اور تسخیر ہونے کی خبر ماہان کے باشندوں کو پہنچی ،اور انھیں اطلاع ملی کہ نعیم بن مقر ن اور قعقاع بن عمر و نے ہمدان کو فتح کر لیا ہے تو ماہان کے باشندوں نے بھی ہمدان کے باشندوں کی طرح امان کی درخواست کی اور انھیں بھی امان دے دی گئی ۔ماہان کے باشندوں کے امان نامے کے آخر میں قعقاع بن عمرو تمیمی نے تائید کی اور گواہ کے طور پر دستخط کئے ۔اس فتح ،یعنی فتح نہاوند کو '' فتح الفتوح '' کا نام دیا گیا ہے ۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

نہاوند کی فتح کے سلسلہ میں طبری کی سیف سے کی گئی روایت کا یہ ایک خلاصہ ہے طبری کے بعد آنے والے مورخین(۱) نے ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے

لیکن حموی نے فتح نہاوند کی اس داستان کو '' نہاوند '' ''وائے خرد !''اور ''ماہان ''کی لفظوں کی تشریح کے ضمن میں پراگندہ حالت میں درج کیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ نہاوند کے بارے میں لکھتاہے

مسلمانوں نے نہاوند کی فتح کا نام '' فتح الفتوح '' رکھا ہے اس مناسبت سے قعقاع بن عمرو نے یہ شعر کہے ہیں :

'' جو بلا سبب کسی خاندان کی بدگوئی کرے خدا اسے ایسی بلا میں مبتلا کرے ،جس کے

____________________

۱)۔ دیگر مورخین سے ہمارا مقصود خاص کر ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون ہے ہم نے مناسب جگہوں پر ان کے عین متن جوان کے تمام مطالب کو طبری کی کتاب سے نقل کرنے کی دلیل ہے کو درج کیا ہے ،ہم مصادر کتاب درج کرتے ہوئے ان کتابوں کے صفحات کا نمبر بھی الگ الگ درج کریں گے تاکہ خواہشمند حضرات اور محققین کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا آسان ہو جائے ۔

۲۱۷

عذاب سے اس کے سر کے بال سفید ہو جائیں ،پس تم بھی اپنی شماتت کی زبان مجھ سے دور رکھو ،کہ میں دشمن کے مقابلے میں اپنی شرافت کا دفاع کرتا ہوں کیوں کہ جب ہم نہاوند کے پانی میں داخل ہوئے تو اس سے سیراب ہو کر نکلے جب کہ دشمن بے بسی کے عالم میں اپنی جگہ پر پیاسے ہی کھڑے تھے''

وہ مزید کہتا ہے :

'' نہاوند سے پوچھ لو کہ ہمارے حملے کیسے تھے ؟ جب ہم اس کے درودیوار سے دشمنوں پر بلائیں اور مصیبتیں برسا رہے تھے !''

جب عجم پر منحوس ترین راتیں گزر رہی تھیں ،ہم نے نہاوند کے تمام مقامات پراپنے گھوڑے ٹھہرائے تھے اور تمام علاقوں میں پھیل گئے تھے ،ہم ان کے لئے موت کا تلخ پیغام تھے ۔حقیقت میں نہاوند کا دن انتہائی سخت دنوں میں سے تھا جو ان پر گزرا۔ ہم نے دہکتے آگ کے شعلوں والی خندق کو ان کے سوار اور پیدل سپاہیوں کی لاشوں سے بھر دیا اور پہاڑوں کی صاف اور کھلی گزر گاہوں نے بھی فراری فیروزان کے لئے راہ تنگ کردی تھی اور اس کے لئے بھاکنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی تھی''

وہ لفظ '' وائے خرد!'' کے بارے میں لکھتا ہے :

نہاوند کے نزدیک ''وائے خرد '' نام کی ایک خندق ہے کہ ایرانی فوج شکست کھا کر اس میں گرتے ہوئے فریا د بلند کرتے تھے '' وائے خرد'' اور اسی سبب اس جگہ کا نام ''وائے خرد '' پڑا ہے اس مطلب کو کتاب ''فتوح'' کے مولف سیف بن عمر تمیمی نے لکھا ہے... اور قعقاع بن عمرو نے اس کے بارے میں یوں کہا ہے :

'' جب ''وائے خرد !'' میں وہ سر کے بل گر گئے ،تو صبح کے وقت گدھ اور لاش خور ان کی ملاقات کے لئے آئے ۔ہم نے ان کے اتنے لوگوں کو قتل کیا کہ جس خندق میں انھوں نے آگ سلگائی تھی ،وہ لاشوں سے بھر گئی''

۲۱۸

پھر چند دیگر اشعار کے ضمن میں اس طرح کہا ہے :

''میں نے نہاوند کی جنگ میں کسی خوف و ہراس کے بغیر شرکت کی ۔ اس دن تمام عرب قبیلوں نے جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھائے ،شام کے وقت جب فیروزان ہماری ننگی تلواروں کی ہیبت سے اپنی جان بچانے کے لئے پہاڑ کی طرف بھاگ گیا تو ہمارے ایک شجاع اور جوان مرد جنگجو نے اس کا پیچھا کیا اور چوپایوں کے نزدیک اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔دشمنوں کی لاشیں ''وائے خرد '' میں پڑی ہیں تاکہ وحشی بھیڑیے ان کی ملاقات کے لئے آئیں اور ان کے مہمان بنیں ''

وہ ہامان کے بارے میں لکھتا ہے :

عرب اسے لفظ جمع کی شکل میں ''وماہات''کہتے ہیں ...اور قعقاع بن عمرو نے ماہان کے بارے میں یوں کہا ہے:

'' ہم نے ماہات میں اس وقت ایرانیوں کی ناک رگڑ کے رکھ دی جب ان کے فرزندوں کو جو شیر کے بچے کہلاتے تھے موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کے گھروں کو مسمار کرکے رکھ دیا ،اسی روز جب میں ان سے لڑنے کے لئے نکلا تھا اور جو بھی میرے مقابلے میں آئے گا اس کا یہی انجام ہوگا''

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں سیف نے درج کیا ہے اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،کیوں کہ :

١۔ بلاذری اور دینوری نے روایت کی ہے کہ ایرانی فوج کا سپہ سالار شاہ ذوالحاجب تھا نہ فیروزان۔

٢۔دینوری نے ایرانیوں کو پناہ گاہ سے باہر لانے کا طریقہ یوں بیان کیا ہے :

'' عمر بن معد یکرب نے اسلامی فوج کے سپہ سالار نعمان بن مقرن کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ خلیفہ عمر کی وفات کا اعلان کریں اور اپنے پورے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف پیچھے ہٹیں اور اس طرح ایرانیوں کو فریب دیں ۔نعمان نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس کوعملی جامہ پہنایا۔ ایرانیوں نے جب فریب میں آکر اس خبر کو نوید کے طور پر ایک دوسرے تک پہنچایا اور وہ مسلمانوں کا پیچھا کرنے کے لئے باہر نکلے تو مسلمانوں نے اچانک مڑکر ان پر حملہ کر دیا ...''

۲۱۹

٣۔ طبری نے لکھا ہے کہ سیف ابن عمر نے نہاوند کی فتح کی تاریخ ١٨ھ روایت کی ہے جب کہ دیگر مورخین اسے ٢١ھ درج کیا ہے ۔

٤۔ بلاذری نے ایرانی سپہ سالار اعظم مردان شاہ کے قتل ہونے کے طریقہ کے بارے میں یوں لکھا ہے :

'' وہ اس خچر سے نیچے گر گیا ،جس پر سوار تھا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اسی کے سبب وہ مرگیا''

٥۔بلاذری نے کہا ہے کہ :

'' ہمدان ،جریر بجلی قحطانی کے ذریعہ فتح ہوا ہے نہ قعقاع بن عمر وتمیمی کے ہاتھوں ''

٦۔اس موضوع ''خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' کے بارے میں کتاب ''معجم البدان '' میں بعلبک کی تشریح میں درج ہے کہ : مشہور یہ ہے کہ یہ جملہ معاویہ ابن ابو سفیان سے مربوط ہے ،جب اس نے مالک اشترہمدانی کو فریب سے شہد میں ملائے ہوئے زہر کے ذریعہ قتل کرایا۔

ابن کثیر بھی کہتا ہے کہ ،معاویہ اور عمر و عاص دونوں نے یہ جملہ ' ' خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' اس وقت کہا جب مالک اشتر شہد میں ملائے ہوئے زہر کے سبب قتل ہوئے ۔

طبری بھی کہتا ہے کہ ،عمرو عاص نے شہد میں ملائے ہوئے زہر کے سبب مالک اشتر کے قتل ہونے کے بعد یہ جملہ کہا۔(۱)

____________________

الف )۔ ملاحظہ ہو تاریخ ابن کثیر ج٨ص٢١٢،تاریخ طبری ٣٢٤٢١

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416