ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214992 / ڈاؤنلوڈ: 4958
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح ونظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیش کش : معاونت فرہنگی، ادارہ ترجمہ

کمپوزنگ: محمد جواد یعقوبی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہ السلام

طبع اول: ١٤٢٦ھ ٢٠٠٦ئ

تعداد: ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

ISBN:۹۶۴-۵۲۹-۰۴۸-۱ www.ah ٭ -u ٭ -bayt.org

Info@ah ٭ -u ٭ -bayt.org

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ سید مرتضیٰ عسکری کی گرانقدر کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

پہلا حصہ :

* جیمس رابسن کا مختصر تعارف

* شہرۂ آفاق مستشرق ،ڈاکٹر جیمس رابسن کا نظریہ

* مقدمۂ مؤلف

۷

جیمس رابسن کا مختصر تعارف:

پیدائش: ١٨٩٠ ء

تعلیمی قابلیت:ادبیات عربی وا لٰہیات میں پی،ایچ ، ڈی گلاسکویونیورسٹی میں عربی زبان کے تحقیقی شعبے کے صدر، گلاسکویونیورسٹی کی انجمن شرق شناسی کے سیکریٹری ، منچسٹریونیورسٹی کے عربی شعبے کے پروفیسر،کیمبرج،ملبورن ، اڈمبورن ، سینٹ انڈرسن اور لندن یونیوسٹیوں کے ڈاکٹریٹ کلاسوں کے ممتحن۔

تألیفات: ''اسلامی تمدن کا دوسرے ادیان سے موازنہ''

''علم حدیث پر مقدمہ'' ،''مشکاة المصابیح'' کا چار جلدوں میں ترجمہ و حاشیہ کے علاوہ آپ بہت سے مقالات اور آثار کے مؤلف ہیں ۔(۱)

____________________

١)۔کتاب '' who is who '' طبع سال ١٩٧٤ئ

۸

کتاب ''عبداللّٰہ ابن سبا '' اور کتاب '' خمسون و مائة صحابی مختلق '' کے بارے میں شہرۂ آفاق مستشرق

ڈاکٹر جیمس رابسن کا نظریہ

مولف کے نام ڈاکٹر جیمس کے خط کا ترجمہ

جناب محترم سید مرتضیٰ عسکری صاحب

گزشتہ اگست کے وسط میں آپ کی تالیف کردہ دو کتابیں '' عبداللہ ابن سبا و اساطیر اخریٰ'' اور '' خمسون و مائة صحابی مختلق''موصول ہوئیں ۔میں نے انہی دنوں آپ کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ میں ایک ضعیف العمر شخص ہوں اور صحت مند بھی نہیں ہوں ۔اس لئے مجھے ان کتابوں کے مطالعہ کے لئے کافی وقت کی ضرورت ہے ۔ان کتابوں کے مطالعہ پر توقع سے زیادہ وقت صرف ہو ا ۔میں نے کتابوں کو انتہائی دلچسپی سے دو بار پڑھ لیا۔ جی تو یہ چاہتا تھا کہ اس سلسلے میں ایک مفصل شرح لکھوں ، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس وقت اس خط کے ذریعہ ان دو کتابوں کے بارے میں آپ کی تحقیقی روش اور عالمانہ دقت و باریک بینی کی ستائش کروں ۔ اس پیری میں اطمینان کے ساتھ امید نہیں ہے کہ مستقل میں ایک مفصل شرح لکھ سکوں ،کیوں کہ ممکن ہے میرا بڑھاپا اس مختصر خط کے لکھنے میں بھی رکاوٹ کا سبب بنے ۔اس لئے اس خط کے لکھنے میں مزید تأخیر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔

پہلی کتاب میں '' عبداللہ ابن سبا اور سبائیوں کی داستان'' کے بارے میں کی گئی تحقیق اور جزئیات مجھے بہت پسند آئے ،کیوں کہ اس میں مشرق و مغرب کے قدیم و جدید مولفین اور ان کے استناد شدہ مأخذ کے بارے میں قابل قدر بحث کرکے موضوع کی بخوبی تشریح کی گئی ہے ۔ صفحہ ٥٧پر دیا گیا خاکہ انتہائی مفید ہے یہ خاکہ ''سیف '' کی روایات اور احادیث کے اصلی منابع کی بخوبی نشاندہی کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اس کے بعد کے مصنفوں نے کس طرح ان منابع میں سے کسی ایک یاسب پر استناد کیا ہے۔

۹

اس کے بعدبعض ایسے علماء کی فہرست درج کی گئی ہے کہ جنھوں نے ابو دائود وفات ٢٧٥ ھ (کتاب میں غلطی سے ٣١٦ھ لکھا گیا ہے) سے ابن حجر وفات ٨٥٢ھ کے زمانہ تک سیف کی روایتوں کی حیثیت کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے ۔ان سب لوگوں نے سیف کی تنقید کی ہے اور اس کے بارے میں ''ضعیف''، ''اس کی روایتیں متروک ہیں '' ،''ناچیز ''،''جھوٹا ''، ''احتمالاً وہ زندیق ہے '' ،جیسے جملے استعمال کئے ہیں ۔یہ سب علماء سیف کی روایتوں کے ،ناقابل اعتماد، حتیٰ جعلی ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں .یہ ایک قوی اور مطمئن کردینے والی بحث ہے حدیث کے راویوں کے بارے میں علماء کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہوئے ، میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا ہوں کہ سب کے سب ایک راوی کی تقویت یا تضعیف پر اتفاق نظر نہیں رکھتے.لیکن سیف کے بارے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔اور یہ امر انسان کو تعجب اور حیرت میں ڈالتا ہے کہ اس کے باوجود اس طرح بعد والے مؤلفین نے آسانی کے ساتھ اس (سیف) کی روایتوں کو قبول کیا ہے ؟ ! !

میں یہاں پرطبری کے بارے میں کچھ اظہار نظر کرنا چاہتا ہوں ،جس نے سیف کی روایتوں کو نقل کرنے میں کسی قسم کی تردید نہیں کی ہے۔عصر جدید کی تاریخ نویسی کے اسلوب کے مطابق تاریخ طبری ایک تاریخی اثر شمار نہین ہوتا،کیونکہ ، ایسا لگتا ہے کہ اس کا اصل مقصد اس کی دست رس میں آنے والی تمام روایتوں کو تحریر میں لانا تھا،بجائے اس کے کہ ان کی قدر و قیمت اور اعتبار کے بارے میں وہ کسی قسم کا اظہار نظر بھی کرے۔لہٰذا ایک انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی بعض روایتیں اس کی اپنی ہی نقل کردہ دوسری روایتوں سے زیادہ ضعیف ہیں .شائد اس کو آج کل کے زمانے میں ناقابل قبول اسلوب کے استعمال کی بناپر معذور قرار دے دیں .کم از کم اس نے دوسروں کو بہت سی معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔آپ جیسے باریک بین دانشور اور علماء ،جعلی روایتوں کے درمیان سے صحیح (ومعتبر) روایتوں کی تشخیص دے سکتے ہیں

۱۰

سیف کی ذکر کردہ روایتوں کے بارے میں آپ کی تحقیق (و بحث) کا طرز انتہائی دلچسپ اور مؤثر ہے.آپ نے پہلے سیف کی روایتوں کو بیان کیا ہے اور اس کے بعد ان روایتوں کا ذکر کیا ہے جو دوسروں سے نقل ہوئی ہیں ۔پھر ان دو قسم کی روایتوں کی آپس میں تطبیق اور موازنہ کیا ہے۔ ان روایات اوران کی بیان شدہ اسناد کے بارے میں اس دقیق اور صحیح موازنہ نے واضح کردیا ہے کہ سیف نے زیادہ تر نامعلوم (مجہول الہویہ) راویوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔اس سے خود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے مؤلفین نے ان راویوں میں سے کسی ایک کا نام کیوں ذکر نہیں کیاہے ؟اور اس طرح انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ سیف نے خود ان راویوں کو جعل کیا ہے ۔(سیف کے بارے میں ) یہ واقعی (قوی) الزام ایک قابل قبول منطقی نتیجہ ہے ، جو سیف (کی روایتوں ) کا دوسروں

(کی روایتوں ) سے موازنہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بحث و گفتگو کے ضمن میں بیان ہوا ہے کہ سیف نے معجزنما اتفاقات بیان کئے ہیں ، جنھیں قبول نہیں کیا جاسکتا،جیسے : صحراؤں کی ریت کا مسلمانوں کے لئے پانی میں تبدیل ہوجانا یا سمندر کا ریگستانوں میں تبدیل ہوجانا یا گائے کے ریوڑ کا گفتگو کرنا اور مسلمانوں کے لشکر کو اپنی مخفی گاہ کے بارے میں خبر دینا اور اسی طرح کے دوسرے مطالب ۔سیف کے زمانے میں ایسی (جعلی) داستانوں کو تاریخی واقعات کے طور پر دوسروں کے لئے نقل کردینا ممکن تھا،لیکن آج کل تحقیق و تجسس کرنے والے محققین کے لئے ایسی داستانیں ناقابل قبول ہیں ۔بعض اطمینان بخش بحث وگفتگو بھی (اس کتاب میں ) زیر غور قرار پائی ہے جو ''ابن سبأاور سبائیوں ''کے بارہ میں سیف کی روایات کو مکمل طور سے (جعلی اور) غیر قابل اطمینان ثابت کرتی ہے، یقین نہیں آتا۔

۱۱

مؤلف نے اس کتاب میں اشارہ کیا ہے کہ بعض مستشرقین کی اطلاعات سیف کی روایتوں پر مبنی ہیں .مثال کے طور پر مسلمانوں کی ابتدائی جنگوں میں بہت سے لوگوں کے قتل ہونے کی خبر اور یہ اعتقاد کہ ابن سبأ نام کا ایک گمنام یہودی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے اعتقادات میں نفوذ پیدا کرکے لوگوں کو عثمان کے خلاف شورش پر اکسانے کا اصلی محرّک ہوا اور وہی عثمان کے قتل کاسبب بھی بنا ، (اسی طرح) وہ علی اور طلحہ و زبیر کے درمیان جنگ کے شعلے بڑھکانے میں بھی کامیاب ہوا ۔بعض امور میں ممکن ہے یہ صحیح ہو،لیکن تمام مواقع پر ہرگز یہ حقیقت نہیں ہوسکتی۔یہ (بات) عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں دائرة المعارف اسلامی کے طبع اول اور دوم میں شائع ہوئے چند مقالات میں واضح طور پر ذکر ہوئی ہے۔سیف نے قبیلہ تمیم سے سور ماؤں کو جعل کرنے میں کافی وقت صرف کیا ہے ،یہ قبیلہ سیف کا خاندان تھا،لیکن سر و یلیم مویر بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ مرتدوں کی جنگوں کے دوران کس طرح قبیلہ تمیم نے خلیفہ ٔاول کے لشکر کے سامنے ہتھیار ڈالدئے تھے۔یہاں پر سرٹامس آرنالڈ کے بیان کی طرف بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے جو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہین کہ اسلام کے ابتدائی فتوحات زیادہ تر دینی عقائد کے پھلاؤ کے بجائے اسلامی حکومت کو وسعت دینے کے لئے تھے۔

۱۲

دوسری کتاب (خمسون و مائة صحابی مختلق) میں اس نکتہ کی طرف توجہ دی گئی ہے کہ سیف کا وجود دوسری صدی ہجری کی پہلی چوتھائی میں تھا اور وہ قبائل ''مضر'' میں ''تمیم'' نامی ایک قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اور کوفہ کا رہنے والاتھا ، یہ مطلب انسان کو سیف کی داستانیں گھڑنے میں اس کے خوہشات اور اسباب وعوامل کا مطالعہ کرنے میں مدد کردیتا ہے.اس کتاب میں ''زنادقہ ''اور ''مانی''کے پیرؤں کے بارے میں بھی بحث ہوئی ہے،چونکہ اُس معاشرے میں خاندانی تعصب کا سلسلہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ سے عباسیوں تک جاری رہاہے اور اس تعصب کی وجہ سے سیف شمالی قبائل کی تعریفیں کرتا ہے اور ان سے بہادر اور شعراء جعل کرتاہے، جنہوں نے اس قبیلہ کے سور ماؤں کے بارے میں شعر کہے ہیں ، اس نے قبیلہ ''تمیم''سے پیغمبر کے کچھ اصحاب جعل کئے ہیں اور غزوات اور جنگوں کی داستانیں گڑھی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اور اپنے جعلی سورماؤں کی بہادری جتلا نے کے لئے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے اور بہت سے افراد اسیر بنانے کا ذکر کیا ہے ۔ جو اشعار اس نے اپنے سور ماؤں سے منسوب کئے ہیں وہ قبائل ''مضر ''پھر قبیلہ ''تمیم'' اور '' بنی عمرو''کی ستائش و مدح سے مربوط ہیں ،کہ سیف اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے(۱) ۔سیف نے قبیلہ'' مضر '' کے بعض لوگوں کو ان جنگوں کے اصلی ہیرو کے عنوان سے پیش کیا ہے ،جن کے حقیقی رہبر دوسرے قبیلوں کے بہادر تھے۔ بعض موارد میں (سیف نے ) اس وقت کے معاشرے میں موجود افراد کو بہادروں کے طور پر پیش کیا ہے اور بعض دیگر موارد میں کچھ اور (جعلی) رہبر وں کا نام لیا ہے جو اس کے (اپنے ) تخیل کی ایجاد ہیں ۔ یہ موضوع بھی مورد بحث قرار پایا ہے کہ سیف کی جھوٹی روایات کا( مقصد ) ایک طرف عام لوگوں (مسلمانوں ) کے افکار میں تشویش پیدا کرکے ان کے اعتقادات میں تبدیلیاں لانا تھا اور دوسری طرف (مسلمانوں کے لئے ) غیر مسلمین میں ایک غلط تصور ایجاد کرنا تھا ۔سیف سند جعل کرنے اور جھوٹی خبر یں گڑھنے میں ایسی مہارت رکھتا تھا کہ اس کی جعلی روایتیں (بعض افراد کے نزدیک ) ایک حقیقی تاریخ کے عنوان سے مورد قبول قرار پائی ہیں ۔

یہ سیف کی خطائوں کا یک خلاصہ ہے ،جس کی وجہ سے وہ مجرم قرار پایا ہے ۔''مؤلف'' نے کتاب کے اصلی حصہ میں ٢٣اشخاص (جعلی اصحاب ) کے بارے میں مفصل بحث کی ہے اور سیف کی روایتوں کے چند نمونے پیش کرکے واضح طور پرثابت کیا ہے کہ سیف کی رواتیں کس طرح بنیادی منابع اور موثق اسناد کے ساتھ زبردست تضاد رکھتی ہیں ۔ روایت جعل کرنے میں ہی نہیں بلکہ

____________________

۱ ۔سیف کا نسب قبیلہ تمیم کے ایک خاندان ''بنی عمرو'' تک پہنچتاہے ۔

۱۳

ایسے راویوں کے نام ذکر کرنے میں بھی یہ فرق صاف نظر آتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔

یہ کتاب انتہائی دقت و مہارت کے ساتھ لکھی گئی ہے اور اس میں سیف (کی روایتوں ) کے قابل اعتماد ہونے کے خلاف انتہائی اطمینان بخش بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض معروف مولفین نے بھی سیف کی روایتوں کو اپنی تالیفات میں نقل کیا ہے ،اس کے علاوہ سیف کی دو کتابیں (فتوح و جمل) پر بھی بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کے مطالب اور اس کے بعد والے مولفین کی تالیفات (جنھوں نے ان مطالب پر تکیہ کیا ہے) بھروسہ کے قابل نہیں ہیں ۔

یہ (کتاب )ایک انتہائی محکم اور فیصلہ کن تحقیق ہے ،جو بڑی دقت ،دور اندیشی ،اور تنقید کی عالی کیفیت پر انجام پائی ہے ۔مجھے اس بات پر انتہائی خوشی ہے کہ ان بحثوں کے مطالعہ کے لئے کافی وقت نکال سکا ۔یہ بحثیں میرے لئے مکمل طور پر قابل قبول اور اطمینان بخش ہیں ،اور مطمئن ہوں کہ جو لوگ ان کتابوں کا کھلے ذہن سے مطالعہ کریں گے وہ ان میں موجودتنقید ی توانائی کی ستائش کریں گے ۔

کتابیں ارسال کرنے پر آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں اور معذرت چاہتا ہوں کہ پیری اور دیگر ناتوانیوں کی وجہ سے جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی ۔

آپ کا عقیدت مند

جیمس رابسن

پتہ : جیمس رابسن ۔ ۱۷ووڈ لینڈزڈرایو ۔گلاسکو ، Q.E۹,۴G انگلستا ن

۱۴

مقدمہ مؤلف

بسم اللّٰه الرَّحمٰن الرَّحیم

اسلام کی چودھویں صدی اختتام کو پہنچنے والی ہے ،زمانے کے اس قدر طولانی فاصلہ نے اسلام کی صحیح شکل پہچاننے کے کام کو انتہائی دشوار بنا دیا ہے ۔حقیر نے گزشتہ چالیس برسوں سے زیادہ عرصہ کے دوران معرفت کی اس راہ میں حتی المقدور تلاش و کوشش کی ہے تاکہ شائد اسلام کو اس کی اصلی صورت میں پایا جائے جس صورت میں وہ چودہ سو سال پہلے تھا چوں کہ اسلام کو پہچاننے کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا اور نہ ہے کہ اس سلسلے میں قرآن مجید ،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی طرف رجوع کیا جائے ۔لہٰذا ہم ابتدا میں قرآن کی درج ذیل آیۂ شریفہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ہیں :

( هُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰابَ مِنْهُ آیٰت مُحْکَمٰت هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ أُخَرُ مُتَشٰبِهٰت فَأَمّا الَّذینَ فِی قُلُوبِهِمْ زَیْغ فَیَتَّبِعُونَ مٰا تَشٰبَهَ مِنْهُ ابْتِغٰائَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغٰائَ تَأویلِه وَمٰا یَعْلَمُ تَأوِیلَهُ اِلَّا اللَّهُ وَ الرّٰاسِخُونَ فِی العِلْمِ ) (۱)

____________________

۱)۔ آل عمران ٧

۱۵

''وہ جس نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں کچھ آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں (وہ حصہ جو واضح وروشن نہیں ہے )۔اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ان ہی متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تا کہ فتنہ بر پاکریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا کواور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں ''۔

قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتاہے،قرآن مجید میں بعض آیات متشابہ ہیں جو فتنہ انگیزوں کے لئے بہانہ ہیں اور ان کی تاویل خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔دوسری طرف خدائے تعالیٰ قرآن مجید کی تاویل کے طریقہ کو درج ذیل آیت میں معین فرماتاہے :

( ''وَأَنْزَلْنٰا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مٰانُزِّلَ اِلَیْهِمْ '' ) (۱)

''اور ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بھی ذکر(قرآن)کونازل کیاہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے نازل کیاگیاہے اسے ان سے بیان اور ان پر واضح کردیں ''

خدائے تعالیٰ اس آیہ شریفہ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرماتاہے :ہم نے ذکر قرآن مجید کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیاتاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ سب کچھ لوگوں سے بیان کردیں جو قرآن مجید میں ان کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔لہٰذا قرآن مجید کی تفسیر جس کی بعض آیات متشابہ ہیں فقط پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ ہونی چاہئے اور قرآن مجید کی تفسیر کو سیکھنے کا طریقہ ہمیشہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث اور بعض اوقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ہے ،کیونکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی کبھی اپنے عمل وکردار سے قرآن مجید کی تفسیر فرماتے تھے ،جیسے :یومیہ نماز کے بارے میں قرآن مجید نے حکم فرمایاہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو سکھایا ،پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یومیہ نماز اُن آیات کی تفسیر ہے جو قرآن مجید

____________________

۱)۔نحل٤٤

۱۶

میں نماز کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ۔(۱) اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح سیرت جس کا مجموعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت ہے کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنّت تک دست رسی کا راستہ بھی اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب پر منحصر ہے.ان دوراستوں کے علاوہ سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچنا محال ہے.ان دو اسناد کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتاہے:

( وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنٰفِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفٰاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ) (۲)

''اور تمہارے اطراف کے علاقہ کے لوگوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں .تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں ۔''

ان منافقین کو جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں مدینہ میں تھے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔وہ سب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں(۳) میں سے تھے ۔حقیر نے ان صحابیوں میں سے مؤمن و منافق کی پہچان کرنے کی غرض سے ان کی زندگی کے سلسلے میں تحقیق شروع کی ہے ، خواہ وہ

____________________

۱)۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مشہور و معروف حدیث جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:صَلُّوا کَمٰا رَئَیتُمُونی أُصَلِّی (جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ، اس طرح نماز پڑھو۔

۲)۔توبہ ١٠١

۳)۔ صحابی کے بارے میں جمہور کی تعریف ملاحظہ ہو:الصّحابی من لقٰی النّبی مومناً به و مات علی الاسلام، فیدخل فی من لقیه من طالت مجالسته له او قصرت، و من روی عنه اولم یرو، و من غزامعه اولم یغز، ومن رء اه رویة ولو لم یره لعارض کالعمی (و انه لم یبق بمکة ولا الطائف احد فی سنه عشر الا اسلم و شهد مع النبی حجة الوداع، و انه لم یبق فی الاوس والخزرج احد فی آخر عهد النبی الادخل فی الاسلام و ما مات النبی و واحد منهم یظهر الکفر) ملاحظہ ہو ابن حجر کی کتاب ''الاصابہ فی معرفة الصحابہ'' جلد اول کا مقدمہ ص١٣ اور ١٦۔

۱۷

تفسیر قرآن ، اسلامی احکام اور دیگر علوم اور معارف اسلامی کے سلسلے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث ، فرمائشات اور سیرت بیان کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں !

چونکہ اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی زندگی کے بارے میں معرفت حاصل کرنا حقیقت میں اسلام کی معرفت ہے،اس لئے ہم نے ان دونوں کی زندگی پر تحقیقات شروع کی۔ ان کی نجی زندگی ، باہمی میل ملاپ، تازہ مسلمانوں سے سلوک ، غیر مسلم اقوام سے تعلقات ، فتوحات اور ان کے ذریعہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام سے روایتیں نقل کرنے کے موضوعات کو مورد بحث و تحقیقات قرار دیا اور دسیوں سال کے مطالعہ اور تحقیق کے نتیجہ میں میرے سامنے حیرت انگیز مطالب واضح ہوئے ۔معلوم ہواکہ سیرت ،تاریخ اور حدیث کی روایتوں میں اس قدر غلط بیانی اور خلط ملط کی گئی ہے جس کی کوئی حد نہیں ۔ قاتل کو مقتول، ظالم کو مظلوم، رات کو دن اور دن کو رات دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ مقدس اور پارسا ترین صحابی ، جیسے ،ابوذر،عمار ،حجر ابن عدی کا بدکار ،احمق ، ساز شی اور تخریب کار کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں معاویہ ، مروان بن حکم ،ابوسفیان اور زیاد جیسے افراد کو پاک دامن، بے گناہ اور خدا پرست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث و سیرت کے بارے میں اس قدر جھوٹی اور بیہودہ حدیثیں اور افسانے گھڑے گئے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے صحیح اسلام کا اندازہ لگانا ناممکن بن گیا ہے۔یہی جعلی اور جھوٹی احادیث ، اسلام کے چہرے پر بدنما داغ بن گئی ہیں ۔ملاحظہ ہو ایک مثال:

۱۸

حضرت عائشہ سے ایک روایت:

تیمم سے مربوط آیت کی شان نزول کے بارے میں صحیح بخاری ، صحیح مسلم، سنن نسائی ، موطاء مالک ، مسند احمد، ابوعوانہ ، تفسیر طبری اور دیگر موثق و معتبر کتابوں میں ام المؤمنین عائشہ سے اس طرح روایت ہوئی ہے:

عائشہ نے کہا:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسافرتوں میں سے ایک سفر میں ہم مدینہ سے باہر آئے اور مقام ''بیدائ'' یا ''ذات الجیش''پہنچے۔(حموی نے دونوں مقام کی تشریح میں کہا ہے کہ یہ مدینہ کے نزدیک ایک جگہ ہے ، جہاں پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوۂ بنی المصطلق سے واپسی پر عائشہ کے گلے کے ہار کو ڈھونڈنے کے لئے اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤڈالا تھا)عائشہ نے کہا:

وہاں پر میرے گلے کا ہار گرکر گم ہوگیا تھا۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی تلاش کے لئے وہاں رُکے اور لشکر نے بھی پڑاؤڈالا۔ اس سر زمین پر پانی نہ تھا اور لوگوں کے پاس بھی پانی نہیں تھا ۔ صبح ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میری آغوش میں سر رکھے سوئے ہوئے تھے !!ابوبکر آئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام لشکر کو تم نے یہاں پر اسیر کر رکھا ہے، نہ لوگوں کے پاس پانی ہے اور نہ یہاں پر پانی ملنے کا امکان ہے...ابوبکر نے جی بھر کے مجھ سے تلخ کلامی کی، اور جو منہ میں آیا مجھے کہا اور اپنے ہاتھ اور انگلیوں سے میرے پہلو میں چٹکی لیتے تھے،میری آغوش میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سرتھا، اس لئے میں ہل نہیں سکتی تھی۔!!

اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیند سے بیدار ہوئے،پانی موجود نہیں تھا.خدائے تعالیٰ نے آیۂ تیمم نازل فرمایا۔اسید بن حضیر انصاری نے کہا: یہ آپ خاندان ابوبکر کی پہلی خیر و برکت نہیں ہے جو ہمیں نصیب ہورہی ہے.یعنی اس سے پہلے بھی ، خاندان ابوبکر ، کی خیر و برکت ہمیں نصیب ہوتی رہی ہے.میرے والد ، ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم ! مجھے معلوم نہیں تھا میری بیٹی ! کہ تم کس قدر خیر و برکت سے مالامال ہو! اس وقت جو تم یہاں پر مسلمانون کے رُکنے کا سبب بنی تو خدائے تعالیٰ نے تیری وجہ سے ان پر کس قدر برکت نازل کی اور ان کے کام میں آسانی عنایت فرمائی !

صحیح بخاری کی روایت اور دوسروں کی روایتوں کے مطابق، عائشہ نے کہا: آخر کار جب میرے اونٹ کو اپنی جگہ سے اٹھایا گیا ، تومیرے گلے کا ہار اس کے نیچے مل گیا۔

ہم نے اس حدیث پر کتاب ''احادیث عائشہ'' میں تفصیل سے بحث و تحقیق کی ہے، اس لئے یہاں پر اس کے صرف ایک حصہ پر بحث کرتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو مؤلف کی کتاب ''احادیث شیعہ ''حصہ دوم فصل ''المسابقة والتیمم والافک''۔

۱۹

عائشہ کی روایت پر تحقیق:

اولاً ، کہاگیا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوہ ٔبنی مصطلق سے واپسی پر رونما ہوا ہے،

یعنی جنگ ِاحزاب جوجنگ خندق کے نام سے مشہور ہے کے بعد یہ جنگ (غزوہ بنی المصطلق )

٦ ھ میں واقع ہوئی ہے ۔اس غزوہ میں مہاجر وانصار کے درمیان کنویں سے پانی کھینچنے کے مسئلہ پر اختلاف رونما ہوا اور نزدیک تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں ،اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشکر کوبے موقع کوچ کرنے کاحکم دیا تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اصحاب کے درمیان اس احتمالی ٹکراؤ کو روک سکیں ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سفر میں کسی جگہ پڑاؤ نہیں ڈالتے تھے ،مگر یہ کہ نماز کے وقت،اور نمازادا کرنے کے وقت سے زیادہ نہیں رکتے تھے اس طرح رات گئے تک سفر کرتے تھے اور جب رات کے آخری حصہ میں کہیں رکتے تھے تو اصحاب تھکاوٹ سے نڈھال ہوکر سوجاتے تھے ۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لشکر کی اس غزوہ سے واپسی کے دوران ایسی حالت تھی کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ممکن نہیں تھا کہ بلا سوچے سمجھے صرف عائشہ کے گلے کے ہار کے لئے ،کہیں رات بھر کے لئے عائشہ کی روایت میں بیان شدہ صورت میں پڑاؤ ڈالتے ۔

اس کے علاوہ دوسری ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جن میں اس آیت کی شان نزول ،ام المؤمنین کی بیان کردہ شأن نزول کے برخلاف ہے ۔ہم یہاں پر ان روایتوں کے بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سلسلے میں صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں :

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی : پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں کہ جن پر لوگ چڑھتے ہیں، گھر بنائے، پھر اس کے تمام ثمرات کو کھائے اور نرمی کے ساتھ اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرلے۔ اس کے شکم سے رنگا رنگ قسم کا شربت نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس چیز میں روشن علامت اور نشانی ہے اس گروہ کے لئے جو غور و فکر کرتا ہے۔( ۱ )

۴۔( و الله خلق کل دابة من ماء فمنهم من یمشی علیٰ بطنه و منهم من یمشی علیٰ رجلین و منهم من یمشی علیٰ أَربع یخلق الله ما یشاء ان الله علیٰ کل شیئٍ قدیر )

خدا وند عالم نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے خلق فرمایا: ان میں سے بعض پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض اپنے دو پیروںپراور کچھ چار پیروں سے چلتے ہیں۔ خدا جو چاہے پیدا کرسکتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔( ۲ )

۵۔( وما من دابة فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیه الا اُمَم امثالکم ما فرطنا فی الکتاب من شیئٍ ثم الیٰ ربهم یحشرون )

اورکوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں اور کوئی اپنے دو پروں کے سہارے اڑنے والا پرندہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بھی تمہاری جیسی ایک امت ہے۔ اس کتاب میں کوئی چیز فروگز اشت نہیںہوئی ہے ۔ پھر سارے کے سارے اپنے پروردگار کی طرف محشور کئے جائیں گے۔( ۳ )

کلمات کی تشریح

۱۔ فرث :جو چیز معدہ کے اندر ہوتی ہے ۔

۲۔ حیوانات کو خدا کا وحی کرنا: جس سے ان کی زندگی اور امور کی درستگی وابستہ ہے اس کے انجام کے لئے الہام اور ہدایت غریزی کرنا اور کبھی زیادہ دقت اور ہوشمندی کے ساتھ ہوتی ہے، حیوانات کا فعل تقریبا ویسا ہی ہے جیسے کہ ایک تسخیر شدہ صنف انجام دیتی ہے ۔

۳۔ یعرشون:عرش کے ''مادہ'' سے ہے جس کے معنی چھت اور چھپر کے ہیںیعنی چھتوں کی بلندی کے اوپر بھی جہاں لوگ جاتے ہیں نیزگھر بنائو۔

۴۔ ذللاً: استوار اور ہموار

____________________

(۱)نحل۶۸۔۶۹(۲)نور۴۵(۳)انعام۳۸.

۱۶۱

بحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے ان موجودات کے لئے جنہیں آسمان کے نیچے محدود فضا میں زیور تخلیق سے آراستہ کیا ہے ایسی موجودات جو موت، زندگی اور حیوانی نفس کی مالک ہیں لیکن عقل سے بے بہرہ ہیں فضا میں ہوںیا زمین میں ؛ اس کے اندر ہوںیا دریائوں کی تہوںمیں ؛ خدا وند عالم نے ان کی ہر ایک صنف اور نوع کے لئے ایک نظام بنایا ہے جو ان کی فطری تخلیق اور حیوانی زندگی سے تناسب رکھتا ہے؛ اور ہر نوع کو ایک ایسے غریزہ کے ذریعہ جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے الہام فرمایا ہے کہ زندگی میں اس نظام کے تحت حرکت کریں؛ وہ خود ہی اس طرح کی مخلوقات کی ہدایت کا طریقہ اور کیفیت جیسے شہد کی مکھی کی زندگی کے متعلق حکایت کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے : تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ: پہاڑوں، درختوں اور گھروں کی بلندیوں میں جہاں لوگ بلندی پر جاتے ہیں، گھربنائے، پھرہر طرح کے پھلوںسے کھائیاور اپنے پروردگار کی سیدھی راہ کو طے کرے اس کے شکم سے رنگ برنگ کا شربت نکلتاہے جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے یقینا اس میں روشن نشانیاں ہیں صاحبان عقل و ہوش کیلئے۔

معلو م ہو اکہ شہد کی مکھی اپنی مہارت اور چالاکی سے جو کام انجام دیتی ہے اور اسے حکیمانہ انداز اورصحیح طور سے بجالاتی ہے وہ ہمارے رب کے الہام کی وجہ سے ہے، یہ بیان اس طرح کے جانداروں کی ہدایت کا ایک نمونہ ہے جو اسی سورہ کی : ۸۔۵ آیات میں چوپایوں کی صنف ، ان کی حکمت آفرینش اور نظام زندگی اور وہ نفع جو ان میں پایا جاتا ہے ان سب کے بارے میں آیا ہے ؛ اور اوحیٰ ربک کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ جس پروردگار نے شہد کی مکھی کو ہدایت کی کہ معین شدہ نظام کے تحت جو اس کی فطرت کے موافق ہے زندگی گز ارے وہی ہمارا خدا ہے جس نے ہمارے لئے بھی ہماری فطرت سے ہم آہنگ نظام بنایا ہے ایسی فطرت کہ ہمیں حکیمانہ اور متقن انداز میں جس پر پیدا کیا۔

چوتھے۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان اور جن کی تعلیم.

سورہ ٔ اعلی کی آیات( خلق فسوی و قدر فهدی ) میں انسان اور جن خدا وند عالم کے کلام کے مصداق ہیں۔

پہلے ۔ انسان: خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا اور اس کے لئے نظام حیات معین فرمایا: نیز اس کی ذات میں نفسانی خواہشات ودیعت فرمائیں کہ دل کی خواہشکے اعتبار سے رفتار کرے نیز اسے امتیاز اور تمیز دینے والی عقل عطا کی تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنا نفع اور نقصان پہچانے اور اسے ہدایت پذیری کے لئے دو طرح سے آمادہ کرے ۔

۱۶۲

۱۔ زبان سے گفتگو کے ذریعہ، اس لئے کہ بات کرنے اور ایک دوسرے سے تفاہم کا طریقہ خود خدا نے انسان کو الہام فرمایا ہے :( خلق الانسان، علمه البیان ) انسان کو خلق کیا اور اسے بات کرنے کا طریقہ سکھایا۔( ۱ )

۲۔ پڑھنے ، لکھنے اور افکار منتقل کرنے کے ذریعہ ایک انسان سے دوسرے انسان تک اور ایک نسل سے دوسری نسل تک جیسا کہ ارشاد ہوا:

( اقرأ و ربّک الأکرم٭ الذی علّم بالقلم٭ علم الانسان ما لم یعلم )

پڑھو کہ تمہار ارب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم دیا، جو کچھ انسان نہیں جانتا تھا اسے سکھایا۔( ۲ )

خداوند متعال نے اسی کے بعد انسان کے لئے اس کی انسانی فطرت کے مطابق نظام زندگی اور قانون حیات معین فرمایا ہے :

جیسا کہ ارشاد ہوا:

( فَأَقِم وجهک للدین حنیفاً فطرة َالله التی فطر الناس علیها )

اپنے رخ کو پروردگار کے محکم اور ثابت آئین(دین اسلام ) کی طرف رکھو اور باطل سے کنارہ کش رہو کہ یہ دین خدا کی وہ فطرت جس پر خدا نے لوگوں کو خلق کیاہے ۔( ۳ )

خدا وند عالم نے پیغمبروں پر وحی نازل کر کے انسانوںکو اس دین کی طرف جو اس کی فطرت سے سازگار اور تناسب رکھتا ہے ہدایت کی؛ جیسا کہ فرمایا:

۱۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبین من بعده... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعد دیگر انبیاء کی طرف وحی کی ہے( ۴ )

۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی به نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین )

____________________

(۱)رحمن۳۔۴

(۲)علق۳۔۴

(۳)روم۳۰

(۴)نسائ۱۶۳

۱۶۳

تمہارے لئے اس دین کی تشریع کی کہ جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو تم پر وحی نازل کی اورہم نے ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو جس کی وصیت کی یہ ہے کہ دین قائم کرو...۔( ۱ )

خدا وند عالم نے اس دین کو جسے پیغمبروں پر نازل کیا ہے اس کا اسلام نام رکھا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( ان الدین عند الله الاسلام ) خدا کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔( ۲ )

دوسرے ۔ جن: خدا نے جن کو پیدا کیا اور انسان ہی کی طرح ان کی زندگی بھی بنائی کیونکہ ان کی سرشت میں بھی نفسانی خواہشات کا وجود ہے کہ نفسانی خواہشات کے مطابق رفتار کرتے ہیںاور عقل کے ذریعہ اپنے نفع اور نقصان کو درک کرتے ہیں ، مانندابلیس جو کہ جنوں میں سے تھا، اس کے بارے میں ہمیں آگاہ کیا ہے اور فرمایاہے:

( و اِذ قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس کان من الجن ففسق عن امر ربه... )

جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کا سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا ،وہ جنوں میں سے تھا اورحکم پروردگار سے خارج ہو گیا؛ خدا وند عالم نے سورۂ اعراف میں ابلیس کی داستان بسط و تفصیل سے بیان کی ہے ۔( ۳ )

( ولقد خلقناکم ثم صورناکم ثم قلنا للملائکة اسجدوا لآدم فسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین٭ قال ما منعک الا تسجد اذ امرتک قال انا خیر منه خلقتنی من نار و خلقته من طین٭ قال فاهبط منها فما یکون لک ان تتکبر فیها فاخرج انک من الصاغرین٭ قال انظرنی الیٰ یوم یبعثون٭ قال انک من المنظرین٭ قال فبما أغویتنی لأقعدن لهم صراطک المستقیم٭ ثم لآتینهم من بین ایدیهم و من خلفهم و عن أیمانهم و عن شمائلهم و لا تجد اکثرهم شاکرین٭ قال اخرج منها مذئوما مدحورا لمن تبعک منهم لأملئن جهنم منکم اجمعین )

اورہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر شکل و صورت بنائی، اس کے بعد فرشتوں سے کہا: ''آدم کا سجدہ کرو'' تو ان سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوںمیں سے نہیں تھا؛ خدا وند عالم نے اس سے فرمایا: جب میں نے حکم دیا تو کس چیز نے تجھے سجدہ کرنے سے روک دیا؟ کہا: میں اس سے بہتر ہوں ؛ تونے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے خلق کیا ہے فرمایا: تو اس جگہ سے نیچے اتر جاتجھے حق نہیں ہے کہ اس جگہ تکبر سے کام لے نکل جا ؛اس لئے کہ تو پست اور فرومایہ شخص ہے ! ابلیس نے کہا: مجھے روز قیامت تک کی مہلت

____________________

(۱)شوری۱۳(۲)ال عمران۱۹(۳)کہف۵۰

۱۶۴

دیدے، فرمایا مہلت دی گئی! تو بولا:اب جو تونے مجھے گمراہ کر دیا ہے میں تیرے راستہ میں ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھوں گا پھر آگے سے ، پیچھے سے ،دائیں سے، بائیں سے، ان کا پیچھا کروں گااور تو ان میں سے اکثر کوشکر گز ار نہیں پائے گا۔

فرمایا:اس منزل سے ننگ و خواری کے ساتھ نکل جا، قسم ہے کہ جو بھی ان میں سے تیری پیروی کرے گا جہنم کو تم لوگوں سے بھردوں گا۔( ۱ )

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا وند عزیز و جبار کی سرکش اور طاغی جنیمخلوق میں دیگر موجودات سے کہیں زیادہ قوی ہوائے نفس پائی جاتی ہے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں تمام جنات میں ہوای نفس کے وجود کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے : کہ جنات ہوائے نفس کی پیروی میں اس درجہ آگے بڑھ گئے کہ فرشتوں کی باتیں چرانے کے لئے گھات میں لگ گئے۔ اور اس رویہ سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ خاتم الانبیاء مبعوث ہوئے اور خدا وند عالم نے جلادینے والے شہاب کا انہیں نشانہ بنایا، روایت ہے کہ وہ لوگ فرشتوں کی باتیں سنکر کاہنوں کے پاس آکر بتاتے تھے اور بربنائے ظلم و ستم اور انحراف و گمراہی آدمیوں کی اذیت اور آزار کے لئے جھوٹ کا بھی اضافہ کردیتے تھے۔

خدا وند عالم نے سورۂ جن میں اس رفتار کی بھی خبر دی ہے اور فرمایا ہے:( فزادوهم رهقاً ) یعنی جناتوں نے آدمیوں کی گمراہی میں اضافہ کر دیا. اور یہ کہ جنات خواہشات نفس کی پیروی کرنے میں آدمیوںکی طرح ہیں اور ان کے درمیان مسلمان اور غیر مسلمان سبھی پائے جاتے ہیں اس کی بھی خبر دی ہے ۔

سورۂ احقاف میں مذکور ہے : جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن کی تلاوت کررہے تھے توجنات کے ایک گروہ نے حاضر ہوکراسے سنا اور اپنی قوم کی طرف واپس آکر انہیں ڈرایا اور کہا: خدا وند عالم نے موسیٰ کے بعد قرآن نامی کتاب بھیجی ہے اور ان سے ایمان لانے کی درخواست کی ،اسی طرح سورۂ جن میں معاد کے سلسلے میں بعض جنات کا بعض آدمیوں سے نظریہ یکساںملتا ہے کہ ان کا خدا کے بارے میں یہ خیا ل ہے کہ : خدا کبھی کسی کو قیامت کے دن مبعوث نہیں کرے گا۔

گز شتہ مطالب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جنوں میں بھی انسانوں کی طرح عقلی سوجھ بوجھ اور کامل ادراک پایا جاتا ہے اور وہ لوگ انسانوں کی باتیں سمجھتے ہیں اور اسے سیکھنے میں گفتگو کرنے میں بھی انسان کے ساتھ

____________________

(۱)اعراف۱۱۔۱۸

۱۶۵

شریک ہیں، یہ موضوع سورۂ نمل کی ۱۷ میں اور ۳۹ویں آیت میں سلیمان کی ان سے گفتگو کے سلسلہ میں محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح یہ دونوں صنف نفسانی حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہیںجس طرح رفتار وعمل کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں؛ خدا وند عالم نے سورۂ سبا میں فرمایا:

( یعملون له ما یشاء من محاریب و تماثیل و جفان کالجواب و قدور راسیات )

جنات جناب سلیمان کے لئے جو چاہتے تھے انجام دیتے تھے اور محراب، مجسمے، بڑے بڑے کھانے کے برتن اور دیگیںبناتے تھے۔( ۱ )

اور سورہ ٔ انبیاء میں فرماتا ہے :

( ومن الشیاطین من یغوصون له و یعملون عملا دون ذلک )

بعض شیاطین ( جنات )جناب سلیمان کے لئے غوطہ لگاتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کام کرتے تھے۔( ۲ )

خدا وند عالم نے ان دو گروہ جن و انس کی اسلام کی طرف ہدایت اوررہنمائی کے لئے انبیاء بھیجے بشارت، انذار اور تعلیم دینے میں دونوں کومساوی رکھاتاکہ خدائے واحد و یکتا پر ایمان لائیں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دیں اس کے اور پیغمبروں، فرشتوں، قیامت، مشاہد اور مواقف پر ایمان لائیں۔

اسلامی احکام ، جو کچھ اجتماعی آداب سے متعلق ہیں جیسے : ناتواںکی مدد کرنا ، ضرورتمندوں اور مومنین کی نصرت کرنا اور دوسروں کو اذیت دینا اور ان کے مانند دوسری باتیں ،ان میں دونوں گروہ مشترک ہیں ،لیکن عبادات جیسے : نماز،روزہ، حج اور ان کے مانند جنوں سے مربوط دیگر احکام ضروری ہے کہ وہ جنوں کے حالات سے موافقت اور تناسب رکھتے ہوںجس طرح آدمی ایک دوسرے کی نسبت احکام میں اختلاف رکھتے ہیں جیسے مرد و عورت کے مخصوص احکام یا مریض و سالم ، مسافر اور غیر مسافر وغیرہ کے احکام۔

مباحث کا نتیجہ

خدا وند عالم نے فرشتوںکو خلق کیا تاکہ اس کی ''ربوبیت'' اور ''الوہیت'' کے محافظ و پاسدارہوں جیسا کہ

____________________

(۱)سبا۱۳

(۲)انبیائ۸۲

۱۶۶

خود ہی گز شتہ آیات میں نیز ان آیات میں جس میں فرشتوں( ۱ ) کا ذکر ہوا ہے اس کے بارے میں خبر دی ہے اسی غرض کے پیش نظر انہیں تمام لوگوں سے پہلے زیور تخلیق سے آراستہ کیا؛ وہ اس وقت حاملان عرش( ۲ ) تھے جب عرش الٰہی پانی پرتھا، جیسا کہ سورۂ ہود میں فرمایا ہے:

( وهوالذی خلق السمٰوات والارض فی ستة ایام وکان عرشه علٰی المائ... ) ( ۳ )

اوروہ خدا وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو چھ دن میں خلق کیاجب کہ اس کاعرش پانی پر ٹھہرا ہوا تھا۔

اور نیز خدا وند عالم نے آسمان کو اس کے داخلی اور خارجی اشیاء سمیت خلق کیا: جن فرشتوں کو ہم جانتے ہیں اورجن کو ہم نہیں جانتے اور جو کچھ آسمانوںکے نیچے ہے جیسے کہکشائیں ،ستارے ، چاند اور سورج وغیرہ کہ جن کو ہم جانتے ہیں اور ان میں سے بہت سی چیزوں کو ہم نہیں جانتے اور زمین جو کچھ اس کے اوپر اور جو کچھ اس کے اندر ہے جیسے پانی ، نباتات ، جمادات ، ( معادن ) وغیرہ جو کہ زندگی کیلئے مفید ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے جیسے گیس وغیرہ جو ہم پہچانتے ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو نہیں پہچانتے یہ تمام چیزیںوہی ہیںجوان تینوں انسان، حیوان اور جن کی ضروریات زندگی میں شامل ہیں حیوانوں کو جن و انس سے پہلے اس لئے پیداکیا کہ انسان اور جن اس کی احتیاج رکھتے ہیں اور جنات کو انسان سے پہلے پیدا کیا جیسا کہ خود ہی حضرت آدم کی خلقت سے متعلق داستان میں ارشاد فرماتا ہے :

حضرت آدم کی خلقت کے بعدتمام ملائکہ کو ''کہ ابلیس بھی انہیں میں سے تھا ''حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کریں پھر انسان کو تمام اصناف مخلوقات کے بعد پیدا کیا۔

یہ خدا وند عالم کی چہار گانہ اصناف مخلوقات کی داستان تھی کہ جس کا قرآن کریم کی آیات اور روایات سے بمقتضائے ترتیب ہم نے استنباط کیا، لیکن ان کی ہدایت کی قسمیں اس ترتیب سے ہیں:

جب خدا ''رب العالمین'' نے فرشتوں، جن و انس کو عقل و ادراک بخشا تو ان کی ہدایت بھی دو

طرح سے قرار دی، تعلیم بالواسطہ، تعلیم بلا واسطہ جیسا کہ فرشتوں کی زبانی حضرت آدم کی تخلیق کے بارے میں حکایت کرتا ہے( سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا ) تو پاک و پاکیزہ ہے ہم تو تیرے دئے ہوئے علم کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ہیں؛ اور صنف انسان کے بارے میں فرمایا: ( علم آدم الاسمائ

____________________

(۱)معجم المفہرس قرآن، میں مادہ''ملک''ملاحظہ ہو۔(۲)عرش سے مراد وہ جگہ و مقام ہے جہاں پر الوہیت اور ربوبیت سے مربوط امور پر مامور خدا کے فرشتہ رہا کرتے تھے کہ جو، پانی کے اوپر زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے رہتے تھے ۔(۳)ھود۷

۱۶۷

کلہا).خدا نے تمام اسماء ( اسرارخلقت ) آدم کو تعلیم دئے اور فرمایا:( علم الانسان ما لم یعلم ) جو انسان نہیں جانتا تھا اسے تعلیم دی۔ اور جنوںکی داستان میں جو کہ خود انہیں کی بیان کردہ ہے اس طرح ہے کہ ان لوگوں نے قرآن سیکھا اور اس سے ہدایت یافتہ ہو گئے ایسااس وقت ہوا جب رسول خدا سے قرآن کریم کی تلاوت سنی ۔

چونکہ خدا وند سبحان نے صنف حیوان اور زمین پر چلنے والوں کو تھوڑا سا شعور و ادراک بخشا ہے لہٰذا ان میں سے ہر ایک کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہے اور چونکہ ان کے علاوہ تمام مخلوقات جیسے ستارے، سیارے، جمادات، حتی کہ ایٹم ( e Atom ) وغیرہ کہ ان کوشمہ بھربھی حیات اور ادراک نہیں دیا ہے لہٰذاان کی ہدایت ، ہدایت تسخیری ہے، جیسا کہ تفصیل سے قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔

انسان کی ہدایت کے لئے جو نظام خدا نے بنایا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے اور ہم انشاء اللہ آئندہ بحثوں میں اس کی تحقیق کریں گے۔

۱۶۸

۵

دین اور اسلام

الف۔ دین کے معنی

ب۔ اسلام اور مسلمان

ج۔ مومن اور منافق

د۔ اسلام تمام آسمانی شریعتوں کا نام ہے

ھ۔ شرائع میں تحریف اور تبدیلی اور ان کے اسماء میں تغیر:

۱۔یہود و نصاریٰ نے کتاب خدا اور اس کے دین میں تحریف کی

۲۔ یہود و نصاریٰ نے دین کانام بھی بدل ڈالا

۳۔ تحریف کا سر چشمہ

و۔ انسان کی فطرت سے احکام اسلامی کا سازگار ہونا

ز۔ انسان اور نفس امارہ بالسوء ( برائی پر ابھارنے والا نفس)

ح۔ شریعت اسلام میں جن و انس شریک ہیں

الف۔ دین

لفظ''دین'' اسلامی شریعت میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے :

۱ ۔جزا، کیونکہ ، یوم الدین قرآن میں جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد روز جزا ہے ، اسی طرح سورۂ فاتحہ( الحمد) میں مالک یوم الدین( ۱ ) آیا ہے یعنی روز جزا کا مالک۔

۲۔ شریعت جس میں اطاعت و تسلیم پائی جاتی ہو، شریعت اسلامی میں زیادہ تر دین کا استعمال اسی معنی میں ہوتا ہے ، جیسے خدا وند عالم کا یوسف اور ان کے بھائیوں کے بارے میں قول:( ماکان لیأخذ أخاه فی دین الملک ) ( یوسف) بادشاہی قانون و شریعت کے مطابق اپنے بھائی کو گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔( ۲ ) اور سورۂ بقرہ میں فرمایا:( ان اللہ اصطفیٰ لکم الدین)

خدا وند سبحان نے اطاعت اور تسلیم کے ساتھ تمہارے لئے شریعت کا انتخاب کیا ہے ۔( ۳ )

____________________

(۱) فاتحہ۴(۲)یوسف۷۶(۳)بقرہ۱۳۲

۱۶۹

ب۔ اسلام اور مسلمان

اسلام ؛ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کے احکام ا و رشریعتوں کے سامنے سر جھکانا۔

خدا وند سبحان نے فرمایا:

( ان الدین عند الله الاسلام ) ( ۱ )

یعنی خدا کے نزدیک دین اسلام ہے ۔ اور مسلمان وہ شخص ہے جو خد اور اس کے دین کے سامنے سراپاسر تسلیم خم کر دے۔

اس اعتبارسے حضرت آدم کے زمانے میں اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا اور اس کی شریعت کے مطابق رفتار کرنا ہے اور اس زمانے میں مسلمان وہ تھا جو خدا اور آدم پر نازل شدہ شریعت کے سامنیسراپا تسلیم تھا؛ یہ سراپا تسلیم ہونا حضرت آدم کے سامنے تسلیم ہونے کو بھی شامل ہے جو کہ خدا کے برگزیدہ اور اپنے زمانے کی شریعت کے بھی حامل تھے۔

اسلام؛ نوح کے زمانے میں بھی خد ا کے سامنے تسلیم ہونا ، ان کی شریعت کا پاس رکھنا ، حضرت نوح کی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی کے عنوان سے پیروی کرنا اور گز شتہ شریعت آدم پر ایمان لانا تھا۔ اور مسلمان وہ تھا جو تمام بتائی گئی باتوں پر ایمان رکھتا تھا، حضرت ابراہیم کے زمانے میں بھی اسلام خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونے ہی کے معنی میں تھا اور حضرت نوح کی شریعت پر عمل کرنے اور حضرت ابراہیم کی بعنوان بنی مرسل پیروی کرنے نیز آدم تک گز شتہ انبیاء و مرسلین پر ایمان لانا ہی تھا۔

اور حضرت موسی اور حضرت عیسیٰ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔

نیز حضرت محمد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں بھی وہی اسلام کا گزشتہ مفہوم ہے اور

____________________

(۱)آل عمران۱۹

۱۷۰

اس کی حد زبان سے اقرار شہادتین ''اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ'' تھا۔

اس زبانی اقرار کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ضروریات دین خواہ عقائد ہوںیا احکام یا گز شتہ انبیاء کی نبوتیں کہ جن کا ذکرقرآن کریم میں ہوا ہے ان میں سے کسی کاا نکار نہ ہو، یعنی جو چیز تمام مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ ہے اور اسے اسلام میں شمار کرتے ہیںاس کا انکارنہیں کرنا چاہئے جیسے نماز، روزہ اور حج کا وجوب یا شراب نوشی، سود کھانا،محرموں سے شادی بیاہ کرنا وغیرہ کی حرمت یا اس جیسی اور چیزیں کہ جن کے حکم سے تمام مسلمان واقف ہیں،ان کا کبھی انکار نہیں کرنا چاہئے۔

ج۔ مومن اور منافق

اول : مومن

مومن وہ ہے جو شہادتین زبان پر جاری کرے نیز اسلام کے عقائد پر قلبی ایمان بھی رکھتا ہو۔

اور اس کے احکام پر عمل کرے اور اگر اسلام کے خلاف کوئی عمل اس سے سرزد ہو جائے تو اسے گناہ سمجھے اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و انابت اور تضرع و زاری کرتے ہوئے اپنے اوپر طلب بخشش و مغفرت کو واجب سمجھے۔

مومن اور مسلم کے درمیان فرق قیامت کے دن واضح ہوگا لیکن دنیا میں دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کے احکام میں شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ خدا وند منان نے سورۂ حجرات میں ارشاد فرمایا:

( قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا و لما یدخل الاِیْمان فی قلوبکم... )

صحرا نشینوں نے کہا: ہم ایمان لائے ہیں ، تو ان سے کہو: تم لوگ ایمان نہیں لائے ہو بلکہ کہو اسلام لائے ہیں اور ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے( ۱ )

دوسرے ۔ منافق

الف۔ نفاق لغت میں : نفاق لغت میں باہر جانے کو کہتے ہیں، نافق الیربوع، یعنی چوہا

اپنے ٹھکانے یعنی بل کے مخفی دروازہ پر سرمار کر سوراخ سے باہر نکل گیا، یہ اس لئے ہے کہ ایک قسم کاچوہا جس کے دونوں ہاتھ چھوٹے اور پائوں لمبے ہوتے ہیں وہ اپنے بل میں ہمیشہ دودروازے رکھتا ہے ایک داخل ہونے کا آشکار دروازہ جو کسی پر پوشیدہ نہیں ہوتا؛ایک نکلنے کا مخفی اور پوشیدہ دروازہ ،وہ باہر نکلنے والے دروازہ کو اس طرح مہارت اور چالاکی سے پوشیدہ رکھتا ہے کہ جیسے ہی داخل ہونے والے دروازہ سے دشمن آئے؛

____________________

(۱)حجرات۱۴

۱۷۱

آہٹ ملتے ہی مخفی دروازے پر سرمار کر اس سے نکل کر فرار کر جائے تواس وقت کہتے ہیں: ''نافق الیربوع''۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں نفاق: اسلامی اصطلاح میں نفاق، ظاہر ی عمل اور باطنی کفر ہے ۔ نافق الرجل نفاقاًیعنی اسلام کا اظہار کرکے اس پر عمل کیا اور اپنے کفر کو پنہاں اور پوشیدہ رکھا، لہٰذا وہ منافق ہے خدا وند عالم سورۂ منافقون میں فرماتا ہے :

( اذا جاء ک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله و الله یعلم انک لرسوله و الله یشهد ان المنافقین لکاٰذبون٭ اتخذوا أَیمانهم جنة... )

جب منافقین تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم شہادت و گواہی دیتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں،خدا وند عالم جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہو، لیکن خدا گواہی دیتا ہے کہ منافقین ( اپنے دعوے میں ) جھوٹے ہیں، انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے۔

یعنی ان لوگوں نے اپنی قسموں کو اس طرح اپنے چھپانے کا پردہ بنا رکھا ہے اور اپنے نفاق کو اپنی جھوٹی قسموں سے پوشیدہ رکھتے ہیں اور خدا وند عالم ان کے گفتار کی نادرستگی (جھوٹے دعوے )کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ظاہر کرتا ہے ۔( ۱ )

سورۂ نساء میں ارشاد ہوا:

( ان المنافقین یخادعون الله و هو خادعهم و اذا قاموا الیٰ الصلٰوة قاموا کسالیٰ یرآء ون الناس... )

منافقین خدا سے دھوکہ بازی کرتے ہیں، جبکہ وہ خود ہی ان کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے ہے اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی اور کسالت سے اٹھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ریا کرتے ہیں۔( ۲ )

____________________

(۱)منافقون۱۔۲

(۲)نسائ۱۴۲

۱۷۲

د۔ اسلام تمام شریعتوںکا نام ہے

اسلام کا نام قرآن کریم میں گز شتہ امتوں کے بارے میں بھی ذکر ہوا ہے ، خدا وند عالم سورۂ یونس میں فرماتا ہے:

نوح نے اپنی قوم سے کہا:

( فأِن تولیتم فما سئلتکم من اجر ان اجری اِ لَّاعلیٰ الله و أمرت ان اکون من المسلمین )

اگر میری دعوت سے روگردانی کروگے تومیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا؛ میرا اجر تو خدا پر ہے ، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمان رہوں۔( ۱ )

ابراہیم کے بارے میں فرمایا:

( ماکان ابراهیم یهودیاً ولا نصرانیاً ولکن کان حنیفاً مسلماً و ما کان من المشرکین )

ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ خالص موحد ( توحید پرست) اور مسلمان تھے وہ کبھی مشرکوں میں سے نہیں تھے۔( ۲ )

۲۔( ووصیٰ بها ابراهیم بنیه و یعقوب یا بنیَّ ان الله اصطفیٰ لکم الدین فلا تموتن الا و انتم مسلمون )

ابرہیم و یعقوب نے اپنے فرزندوںکو اسلام کی وصیت کی اور کہا: اے میرے بیٹو! خدا وند عالم نے تمہارے لئے دین کا انتخاب کیا ہے اور تم دنیا سے جائو تو اسلام کے آئین کے ساتھ۔( ۳ )

۳۔( ما جعل علیکم فی الدین من حرجٍ ملة ابیکم ابراهیم هو سما کم المسلمین من قبل )

____________________

(۱) بقرہ۱۳۲

(۲) حج۷۸

(۳) ذاریات۳۵۔۳۶

۱۷۳

خدا وند عالم نے اس دین میں جو کہ تمہارے باپ کا دین ہے کسی قسم کی سختی اور حرج نہیں قرار دیا ہے اس نے تمہیں پہلے بھی مسلمان کے نام سے یاد کیا ہے۔( ۱ )

سورۂ ذاریات میں قوم لوط کے بارے میں فرمایا:

( فأَخرجنا من کان فیها من المؤمنین ٭ فما وجدنا فیها غیر بیت من المسلمین )

ہم نے اس شہر میں موجود مومنین کو باہر کیا،لیکن اس میں ایک مسلمان گھرانے کے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں پایا۔( ۲ )

جناب موسیٰ کے بارے میں فرماتا ہے : انہوں نے اپنی قوم سے کہا:

( یا قوم ان کنتم آمنتم بالله فعلیه توکلوا ان کنتم مسلمین ) ( ۳ )

اے میری قوم! اگر تم لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر توکل اور بھرو سہ کرو اگر مسلمان ہو۔

اورسورۂ اعراف میں فرعونی ساحروں کی حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( ربنا افرغ علینا صبراً و توفنا مسلمین )

خدا وندا! ہمیں صبرو استقامت عطا کر اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں موت دینا۔( ۴ )

فرعون کی داستان سے متعلق سورۂ یونس میں فرماتا ہے :

( حتی اذا ادرکه الغرق قال آمنت انه لا الٰه الا الذی آمنت به بنو اسرائیل ٭ و انا من المسلمین )

جب ڈوبنے لگا توکہا: میں ایمان لایا کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔( ۵ )

سلیمان نبی کا ملکہ ٔسبا کے نام خطلکھنے کے بارے میں سورۂ نمل میں ذکر ہوا ۔

( انه من سلیمان و انه بسم الله الرحمن الرحیم٭ الا تعلو علی و أْتونی مسلمین )

یہ سلیمان کا خط ہے جو اس طرح ہے : خدا وند رحمان و رحیم کے نام سے، میری یہ نسبت فوقیت اور برتری کا تصور نہ کرو اور میری طرف مسلمان ہو کر آجائو۔( ۶ )

نیز اس سورہ میں فرماتا ہے :

____________________

(۱) حج۷۸(۲) ذاریات۳۵۔۳۶(۳) یونس۸۴(۴) اعراف۱۲۶(۵)یونس۹۰.(۶)نمل۳۰۔۳۱.

۱۷۴

( یا ایها الملاء ایکم یأ تینی بعرشها قبل ان یأتونی مسلمین )

اے گروہ!(اشراف سلطنت) تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس حاضرکرے گا ان کے میرے پاس مسلمان ہو کر آنے سے پہلے۔( ۱ )

سورۂ مائدہ میں عیسیٰ کے حواریوں کے بارے میں فرماتا ہے :

( واذا اوحیت الیٰ الحواریین ان آمنوا بی و برسولی قالوا آمنا و اشهد بأَِنا مسلمون )

جب میں نے حواریوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائو تو انہوں نے کہا: ہم ایمان لائے لہٰذا تو گواہی دے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۲ )

سورۂ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے :

( فلمّا احس عیسیٰ منهم الکفرقال من انصاری الیٰ الله قال الحواریون نحن انصار الله آمنا بالله واشهد بأِنا مسلمون )

جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان میں کفر محسوس کیا تو کہا: خدا کے واسطے میرے انصار کون لوگ ہیں؟

حواریوں نے کہا: ہم خدا کے انصار ہیں؛ ہم خدا پر ایمان لائے، آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلمان ہیں۔( ۳ )

یہ اصطلاح گز شتہ امتوں سے متعلق قرآن کریم میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوسرے اسلامی مدارک میں بھی ان کے واقعات کے ذکر کے وقت آئی ہے مثال کے طور پر ابن سعد نے اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے نوح کے کشتی سے باہر آنے کاذکر کرنے کے بعد کہا : '' نوح کے آباء و اجداد حضرت آدم تک سب کے سب دین اسلام کے پابند تھے اس کے بعد روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ جناب آدم ونوح کے درمیان دس قرن کا فاصلہ تھا اس طولانی فاصلے میں سب کے سب اسلام پر تھے؛ اور اس نے ابن عباس کی روایت کے ذیل میں ذکرکیاہے کہ آپ نے ان لوگوں کے بارے میں جو کشتی سے باہر آئے اور ایک شہر میں سکونت اختیار کی کہا ہے: ان کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ افراد تک پہنچ گئی تھی اور سارے کے سارے دین اسلام کے پابند تھے۔( ۴ )

____________________

(۱)نمل۳۸.(۲)مائدہ۱۱۱.(۳)ال عمران۵۲.(۴)طبقات ابن سعد طبع یورپ، ج۱،ص۱۸، ابن کثیر نے اپنی تاریخ ج۱، ص ۱۰۱ پر یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے کہ عشرہ قرون کلھم علیٰ الاسلام.

۱۷۵

ھ۔ گز شتہ شریعتوں اور ان کے اسماء میں تحریف

گز شتہ امتوں نے جس طرح رب العالمین کی اصل شریعت میں تحریف کر دی اسی طرح ان کے اسماء بھی تبدیل کر دئے ہیں ، اس لئے کہ بعض ادیان کا اسلام کے علاوہ نام پر نام رکھنا جیسے یہودیت و نصرانیت و غیرہ بھی ایک تحریف ہے جو دین کے نام میں ایک تحریف شمار کی جاتی ہے جس کی وضاحت اس طرح ہے:

الف۔ یہود کی نام گز اری

یہود یروشلم کے مغربی جنوب میں واقع صہیون نامی پہاڑ کے دامن میں شہر یہوداسے منسوب نام ہے کہ جو جناب داؤد کی حکومت کا پایۂ تخت تھا، انہوں نے اس تابوت کیلئے ایک خاص عمارت تعمیر کی، جس میں توریت اور بنی اسرائیل کی تمام میراث تھی بنی اسرائیل کے بادشاہ وہیں دفن ہوئے ہیں۔( ۱ )

ب۔ نصاریٰ کی وجہ تسمیہ

جلیل نامی علاقے میں جہاں حضرت عیسیٰ نے اپنا عہد طفولیت گز ارا ہے ایک ناصرہ نامی شہر ہے اسی سے نصرانی منسوب ہیں، حضرت عیسی اپنے زمانے میں ''عیسائے ناصری'' سے مشہور تھے ان کے شاگرد بھی اسی وجہ سے ناصری مشہور ہوگئے۔( ۲ )

مسیحیت بھی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام سے منسوب ہے حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو ۱ ۴ ء سے مسیحی کہا جانے لگا اور اس لقب سے ان کی اہانت اور مذمت کا ارادہ کرتے تھے۔

____________________

(۱)قاموس کتاب مقدس مادہ ''یہود'' یہودا'' صیہون۔

(۲)قاموس کتاب مقدس، مادہ ناصرہ و ناصری

۱۷۶

ج۔ شریعت کی تحریف

ہم اس وجہ سے کہ ''الوہیت'' اور ''ربوبیت'' کی معرفت اور شناخت؛ دین کے احکام اور عقائد کی شناخت اور معرفت کی بنیادواساس ہے لہٰذایہود و نصاریٰ کے ذریعہ شریعت حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ کی تحریف کی کیفیت کے بیان میں ہوا ہے یہاں پرہم صرف ان کے ذریعہ عقیدۂ ''الوہیت''اور ''ربوبیت''میں تحریف کے ذکرپر اکتفا کر تے ہیں۔

الف۔ شریعت موسیٰ میں یہود کے ذریعہ تحریف

جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ توریت کے رسالہ ٔ پیدائش ( سفر تکوین ) سے دوسرے باب کا خلاصہ ہے اور تیسرا باب پورا جوکہ اصل عبرانی ، کلدانی اور یونانی زبان سے فارسی زبان میں ۱۹۳۲ئ میں ترجمہ ہو کر دار السلطنت لندن میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ہے۔

پروردگار خالق نے عدن میں ایک باغ خلق کیا اور اس کے اندر چار نہریں جاری کیں فرات اور جیحون بھی انہیں میں سے ہیں اور اس باغ میں درخت لگائے؛ اور ان کے درمیان زندگی کا درخت اور اچھے برے میں تمیز کرنے والا درخت لگایا اور آدم کو وہان جگہ دی، پروردگار خالق نے آدم سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ان درختوں میں سے جو چاہو کھائو، لیکن خوب و بد کے درمیان فرق کرنے والے درخت سے کچھ نہیں کھانا، ا س لئے کہ جس دن اس سے کھا لوگے سختی کے ساتھ مر جا ؤ گے اس کے بعد آدم پرنیندکا غلبہ ہوااور ان کی ایک پسلی سے ان کی بیوی حوا کو پیدا کیا،آدم و حوا دونوں ہی عریان و برہنہ تھے اس سے شرمسار نہیں ہوئے ۔

تیسرا باب

سانپ تمام جنگلی جانوروںمیں جسے خدا نے بنایا تھا سب سے زیادہ ہوشیار اور چالاک تھااس نے عورت سے کہا: کیا حقیقت میں خدا نے کہا ہے کہ باغ کے سارے درختوں سے نہ کھائو ، عورت نے سانپ سے کہا: ہم باغ کے درختوں کے میوے کھاتے ہیں لیکن اس درخت کے میوہ سے استفادہ نہیں کرتے جو باغ کے وسط میں واقع ہے خدا نے کہا ہے اس سے نہ کھانا اور اسے لمس نہ کرنا کہیں مر نہ جائو، سانپ نے عورت سے کہا یقینا نہیں مروگے بلکہ خدا یہ جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی؛ اور خدا کی طرح نیک و بد کے عارف بن جائو گے جب اس عورت نے دیکھا کہ یہ درخت کھانے کے اعتبار سے بہت اچھا اور دیکھنے کے لحاظ سے دلچسپ؛ اور جاذب نظر اور دانش افزا ہے تواس نے اس کا پھل توڑ کر خود بھی کھایا اور اپنے شوہر کو بھی کھلا دیا اس وقت ان دونوں کی نگاہیںکھل گئیں تو خود کو برہنہ دیکھا تو انجیر کے پتوں کو سل کراپنے لئے لباس بنایا اس وقت خدا کی آواز سنی جو اس وقت باغ میں نسیم نہار کے جھونکے کے وقت ٹہل رہا تھا آدم اور ان کی بیوی نے اپنے آپ کوباغ کے درمیان خداسے پوشیدہ کر لیا،خدا نے آدم کو آواز دی اور کہا کہاں ہو؟

۱۷۷

بولے جب تیری آواز باغ میں سنی توڈر گئے چونکہ ہم عریاں ہیں اس لئے خود کو پوشیدہ کر لیا، اس نے کہا : کس نے تمہیں آگاہ کیا کہ عریاں ہو؟ کیا میں نے جس درخت سے منع کیا تھا تم نے کھا لیا؟آدم نے کہا اس عورت نے جس کو تونے میرا ساتھی بنایا ہے مجھے کھانے کو دیا تو خدا نے اس عورت سے کہا کیا یہ کام تو نے کیا ہے ؟عورت نے جواب دیا سانپ نے مجھے دھوکہ دیا اور میں نے کھا لیا پھر خدا نے سانپ سے کہا چونکہ تونے ایسا کام کیاہے لہٰذا تو تمام چوپایوں اور تمام جنگلی جانوروں سے زیادہ ملعون ہے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی پوری زندگی مٹی کھاتا رہے گا، تیرے اور عورت کے درمیان عداوت و دشمنی نیز تیر ی ذریت اور اس کی ذریت کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عداوت پیدا کر دوں گا وہ تیرا سر کچلے گی اور تو اس کی ایڑی میں ڈسے گااور اس عورت سے کہا تیرے حمل کے در دو الم کو زیادہ بڑھادوں گا کہ درد و الم کے ساتھ بچے جنے گی اور اپنے شوہر کے اشتیاق میں رہے گی اور وہ تجھ پر حکمرانی کرے گا اور آدم سے کہا چونکہ تونے اپنی بیوی کی بات مانی ہے اور اس درخت سے کھایا جس سے کہ منع کیا گیا تھالہٰذا تیری وجہ سے زمین ملعون گئی، لہٰذا اپنی پوری عمراس سے رنج و الم اٹھائے گا ،یہ زمین کانٹے ، خس و خاشاک بھی تیرے لئے اگائے گی اور جنگل و بیانوں کی سبزیاں کھائے گا اور گاڑھی کمائی کی روٹی نصیب ہوگی ۔ یہاں تک کہ اس مٹی کی طرف لوٹ آئو جس سے بنائے گئے ہوچونکہ تم خاک ہو لہٰذا خاک کی طرف بازگشت کروگے ،آدم نے اپنی بیوی کا نام حوارکھا اس لئے کہ وہ تمام زندوںکی ماں ہیں خدا نے آدم اوران کی بیوی کا لباس کھال سے بنایا اور انہیں پہنایا،خدا نے کہایہ انسان تو ہم میں سے کسی ایک کی طرح نیک و بد کا عارف ہو گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ دست درازی کرے اور درخت حیات سے بھی لیکر کھالے اور ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہے لہٰذا خدا نے اسے باغ عدن سے باہر کر دیا تاکہ زمین کا کام انجام دے کہ جس سے اس کی تخلیق ہوئی تھی ،پھر آدم کو باہر کر کے باغ عدن کے مشرقی سمت میں مقرب فرشتوں کو جگہ دی اورآتش بارتلوار رکھ دی جو ہر طرف گردش کرتی تھی تاکہ درخت حیات کے راستے محفوظ رہیں ۔

۱۷۸

ان دو باب کے مطالب کا تجزیہ

مذکورہ بیان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ : پروردگار خالق نے اپنی مخلوق آدم سے جھوٹ کہا، اس لئے کہ ان سے فرمایا: خیر و شر میں فرق کرنے والے درخت سے کھائو گے تو مر جائو گے؛ اور سانپ نے حوا کو حقیقت امر اور خالق کے جھوٹ سے آگاہ کیا، ان دونوں نے کھایا اور آنکھیں کھل گئیں اور اپنی عریانیت دیکھ لی اور جب باغ میں سیر کرتے ہوئے اپنے خالق پروردگار کی آواز سنی تو چھپ گئے،چونکہ خدا ان کی جگہ سے واقف نہیں تھا اس لئے آدم کو آوا زدی کہ کہاں ہو؟ آدم نے بھی عریانیت کے سبب اپنے چھپنے کو خدا سے بتایا اور خدا نے اس معنی کو درک کرنے کے متعلق آدم سے دریافت کرتے ہوئے کہا: کیا تم نے اس درخت سے کھا لیا ہے ؟ آدم نے حقیقت واقعہ سے با خبر کر دیا تو خداوند خالق نے آدم و حوا اور سانپ پر غیظ و غضب کا اظہار کیا اور انہیں زمین پر بھیج دیا اور ان کے کرتوت کی بنا پر انہیں سزا دی اور پروردگار خالق نے جب یہ دیکھا کہ یہ مخلوق اس کی طرح خیر و شر سے آشنا ہو گئی ہے اوراسے خوف محسوس ہوا کہ کہیں حیات کے درخت سے کچھ کھانہ لے کہ ہمیشہ زندہ رہے ، تو اس نے باغِ عدن سے نکال دیا اور زندگی کے درخت کے راستے میں محافظ اور نگہبان قرار دیا وہ بھی کر ّوبیوں(مقرب فرشتے) کو تاکہ انسان کو اس درخت سے نزدیک نہ ہونے دیں۔

سچ ہے کہ یہ خالق پروردگار کس درجہ ضعیف و ناتواں ہے ؟!( خدا اس بات سے پاک و پاکیزہ ہے کہ جس کی اس کی طرف نسبت دیتے ہیں)۔ یعنی اس خدا کا تصور پیش کرتے ہیں جو یہ خوف رکھتاہے کہ کہیں اس کی مخلوق اس کے جیسی نہ ہو جائے اسی لئے وہ تمام اسباب و ذرائع کہ جو مخلوقات کو اس کے مرتبہ تک پہونچنے سے باز رکھے بروئے کار لاتا ہے اور کتنا جھوٹااور دھوکہ باز ہے کہ اپنی مخلوق کے خلاف کام کرتا ہے اور اس سے جھوٹ بولتا ہے ، وہ بھی ایسا جھوٹ جو بعد میں فاش ہو جاتا ہے !

اور کتنا ظالم ہے کہ سانپ کو صرف اس لئے کہ اس نے حوا سے حقیقت بیان کر دی ہے سزا دیتاہے اور ہم نہیں سمجھ سکے کہ اس بات سے اس کی کیا مراد تھی کہ اس نے کہا :'' یہ انسان ہم ہی میں سے ایک کی طرح ہو گیا ہے '' آیا اس سے مرا دیہ ہے کہ یکتا اور واحد خالق پروردگار کے علاوہ بھی دوسرے خدائوںکا وجود تھا کہ''مِنَّا'' جمع کی ضمیر استعمال کی ہے ؟!

آخر کلام میں ہم کہیں گے ، اس شناخت او ر معرفت کا اثر اس شخص پر جو توریت کی صحت و درستگی کا قائل ہے کیا ہوگا؟! جب وہ توریت میں پڑھے گا: خدا وند خالق ہستی جھوٹ بولتا ہے اور دھوکہ دھڑی کرتا ہے اور اس انسان کے خوف سے ، اسے کمال تک پہنچنے سے روکتا ہے تووہ کیا سوچے گا؟!

۱۷۹

یقینا خدا وند عالم اس بات سے بہت ہی منزہ؛ پاک و پاکیزہ نیز بلند و بالا ہے جو ظالمین اس کی طرف نسبت دیتے ہیں ۔

ب۔ نصاریٰ کی تحریف

جو کچھ ہم نے اب تک بیان کیا ہے یہود و نصاریٰ کے درمیان مشترک چیزیں تھیں لیکن نصاریٰ دوسری خصوصیات بھی رکھتے ہیں اور وہ: عقیدۂ الوہیت اور ''ربوبیت'' میں تحریف ہے جس کا بیان یہ ہے :

نصاریٰ کے نزدیک تثلیث( تین خدا کا نظریہ)

نصاریٰ کہتے ہیں: مسیح خدا کے فرزند ہیں اور خدا ان کا باپ ہے اور یہ دونوں روح القدس کے ساتھ ایک شۓ ہیں کہ وہی خدا ہے ، لہٰذا خدا وند یکتا تین عدد ہے : باپ ، بیٹااور روح القدس اور یہ تینوں، خدا،عیسیٰ اور روح القدس ایک ہی ہیں کہ وہی خد اہے تین افراد ایک ہیں اور ایک، تین عدد ہے۔

خدا وند عالم سورۂ مائدہ میں فرماتا ہے :

( لقد کفر الذین قالوا ان الله هو المسیح بن مریم و قال المسیح یا بنی اسرائیل اعبدوا الله ربی و ربکم انه من یشرک بالله فقد حرم الله علیه الجنة و مأواه النار و ما للظالمین من انصار٭ لقد کفر الذین قالوا ان الله ثالث ثلاثة وما من الٰه الا الٰه واحد٭ ما المسیح بن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل و اُمه صدیقة کانا یأکلان الطعام انظر کیف نبین لهم الآیات ثم انظر أنی یؤفکون )

جن لوگوںنے یہ کہا: خدا وہی مریم کے فرزند مسیح ہیں، یقینا وہ کافر ہوگئے، ( جبکہ خود) مسیح نے کہا: اے بنی اسرائیل !واحد اور ایک خدا کی عبادت اور پرستش کرو جو ہمارا اور تمہارا پروردگارہے اس لئے کہ جو کسی کو خدا کا شریک قرار دے گاتو خدا وند عالم نے اس پربہشت حرام کی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ؛ اور ستمگروں کا کوئی نا صر و مدد گار نہیں ہے، جن لوگوں نے کہا: خدا وند تین خدائوں میں سے ایک ہے یقینا وہ بھی کافر ہیں خدائے واحد کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے...، حضرت مسیح جناب مریم کے فرزند صرف اس کے رسول ہیں کہ ان سے پہلے بھی دیگر رسول آ چکے ہیں؛

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416