ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215092 / ڈاؤنلوڈ: 4962
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح ونظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیش کش : معاونت فرہنگی، ادارہ ترجمہ

کمپوزنگ: محمد جواد یعقوبی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہ السلام

طبع اول: ١٤٢٦ھ ٢٠٠٦ئ

تعداد: ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

ISBN:۹۶۴-۵۲۹-۰۴۸-۱ www.ah ٭ -u ٭ -bayt.org

Info@ah ٭ -u ٭ -bayt.org

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ سید مرتضیٰ عسکری کی گرانقدر کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

پہلا حصہ :

* جیمس رابسن کا مختصر تعارف

* شہرۂ آفاق مستشرق ،ڈاکٹر جیمس رابسن کا نظریہ

* مقدمۂ مؤلف

۷

جیمس رابسن کا مختصر تعارف:

پیدائش: ١٨٩٠ ء

تعلیمی قابلیت:ادبیات عربی وا لٰہیات میں پی،ایچ ، ڈی گلاسکویونیورسٹی میں عربی زبان کے تحقیقی شعبے کے صدر، گلاسکویونیورسٹی کی انجمن شرق شناسی کے سیکریٹری ، منچسٹریونیورسٹی کے عربی شعبے کے پروفیسر،کیمبرج،ملبورن ، اڈمبورن ، سینٹ انڈرسن اور لندن یونیوسٹیوں کے ڈاکٹریٹ کلاسوں کے ممتحن۔

تألیفات: ''اسلامی تمدن کا دوسرے ادیان سے موازنہ''

''علم حدیث پر مقدمہ'' ،''مشکاة المصابیح'' کا چار جلدوں میں ترجمہ و حاشیہ کے علاوہ آپ بہت سے مقالات اور آثار کے مؤلف ہیں ۔(۱)

____________________

١)۔کتاب '' who is who '' طبع سال ١٩٧٤ئ

۸

کتاب ''عبداللّٰہ ابن سبا '' اور کتاب '' خمسون و مائة صحابی مختلق '' کے بارے میں شہرۂ آفاق مستشرق

ڈاکٹر جیمس رابسن کا نظریہ

مولف کے نام ڈاکٹر جیمس کے خط کا ترجمہ

جناب محترم سید مرتضیٰ عسکری صاحب

گزشتہ اگست کے وسط میں آپ کی تالیف کردہ دو کتابیں '' عبداللہ ابن سبا و اساطیر اخریٰ'' اور '' خمسون و مائة صحابی مختلق''موصول ہوئیں ۔میں نے انہی دنوں آپ کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ میں ایک ضعیف العمر شخص ہوں اور صحت مند بھی نہیں ہوں ۔اس لئے مجھے ان کتابوں کے مطالعہ کے لئے کافی وقت کی ضرورت ہے ۔ان کتابوں کے مطالعہ پر توقع سے زیادہ وقت صرف ہو ا ۔میں نے کتابوں کو انتہائی دلچسپی سے دو بار پڑھ لیا۔ جی تو یہ چاہتا تھا کہ اس سلسلے میں ایک مفصل شرح لکھوں ، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس وقت اس خط کے ذریعہ ان دو کتابوں کے بارے میں آپ کی تحقیقی روش اور عالمانہ دقت و باریک بینی کی ستائش کروں ۔ اس پیری میں اطمینان کے ساتھ امید نہیں ہے کہ مستقل میں ایک مفصل شرح لکھ سکوں ،کیوں کہ ممکن ہے میرا بڑھاپا اس مختصر خط کے لکھنے میں بھی رکاوٹ کا سبب بنے ۔اس لئے اس خط کے لکھنے میں مزید تأخیر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔

پہلی کتاب میں '' عبداللہ ابن سبا اور سبائیوں کی داستان'' کے بارے میں کی گئی تحقیق اور جزئیات مجھے بہت پسند آئے ،کیوں کہ اس میں مشرق و مغرب کے قدیم و جدید مولفین اور ان کے استناد شدہ مأخذ کے بارے میں قابل قدر بحث کرکے موضوع کی بخوبی تشریح کی گئی ہے ۔ صفحہ ٥٧پر دیا گیا خاکہ انتہائی مفید ہے یہ خاکہ ''سیف '' کی روایات اور احادیث کے اصلی منابع کی بخوبی نشاندہی کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اس کے بعد کے مصنفوں نے کس طرح ان منابع میں سے کسی ایک یاسب پر استناد کیا ہے۔

۹

اس کے بعدبعض ایسے علماء کی فہرست درج کی گئی ہے کہ جنھوں نے ابو دائود وفات ٢٧٥ ھ (کتاب میں غلطی سے ٣١٦ھ لکھا گیا ہے) سے ابن حجر وفات ٨٥٢ھ کے زمانہ تک سیف کی روایتوں کی حیثیت کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے ۔ان سب لوگوں نے سیف کی تنقید کی ہے اور اس کے بارے میں ''ضعیف''، ''اس کی روایتیں متروک ہیں '' ،''ناچیز ''،''جھوٹا ''، ''احتمالاً وہ زندیق ہے '' ،جیسے جملے استعمال کئے ہیں ۔یہ سب علماء سیف کی روایتوں کے ،ناقابل اعتماد، حتیٰ جعلی ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں .یہ ایک قوی اور مطمئن کردینے والی بحث ہے حدیث کے راویوں کے بارے میں علماء کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہوئے ، میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا ہوں کہ سب کے سب ایک راوی کی تقویت یا تضعیف پر اتفاق نظر نہیں رکھتے.لیکن سیف کے بارے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔اور یہ امر انسان کو تعجب اور حیرت میں ڈالتا ہے کہ اس کے باوجود اس طرح بعد والے مؤلفین نے آسانی کے ساتھ اس (سیف) کی روایتوں کو قبول کیا ہے ؟ ! !

میں یہاں پرطبری کے بارے میں کچھ اظہار نظر کرنا چاہتا ہوں ،جس نے سیف کی روایتوں کو نقل کرنے میں کسی قسم کی تردید نہیں کی ہے۔عصر جدید کی تاریخ نویسی کے اسلوب کے مطابق تاریخ طبری ایک تاریخی اثر شمار نہین ہوتا،کیونکہ ، ایسا لگتا ہے کہ اس کا اصل مقصد اس کی دست رس میں آنے والی تمام روایتوں کو تحریر میں لانا تھا،بجائے اس کے کہ ان کی قدر و قیمت اور اعتبار کے بارے میں وہ کسی قسم کا اظہار نظر بھی کرے۔لہٰذا ایک انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی بعض روایتیں اس کی اپنی ہی نقل کردہ دوسری روایتوں سے زیادہ ضعیف ہیں .شائد اس کو آج کل کے زمانے میں ناقابل قبول اسلوب کے استعمال کی بناپر معذور قرار دے دیں .کم از کم اس نے دوسروں کو بہت سی معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔آپ جیسے باریک بین دانشور اور علماء ،جعلی روایتوں کے درمیان سے صحیح (ومعتبر) روایتوں کی تشخیص دے سکتے ہیں

۱۰

سیف کی ذکر کردہ روایتوں کے بارے میں آپ کی تحقیق (و بحث) کا طرز انتہائی دلچسپ اور مؤثر ہے.آپ نے پہلے سیف کی روایتوں کو بیان کیا ہے اور اس کے بعد ان روایتوں کا ذکر کیا ہے جو دوسروں سے نقل ہوئی ہیں ۔پھر ان دو قسم کی روایتوں کی آپس میں تطبیق اور موازنہ کیا ہے۔ ان روایات اوران کی بیان شدہ اسناد کے بارے میں اس دقیق اور صحیح موازنہ نے واضح کردیا ہے کہ سیف نے زیادہ تر نامعلوم (مجہول الہویہ) راویوں سے روایتیں نقل کی ہیں ۔اس سے خود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے مؤلفین نے ان راویوں میں سے کسی ایک کا نام کیوں ذکر نہیں کیاہے ؟اور اس طرح انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ سیف نے خود ان راویوں کو جعل کیا ہے ۔(سیف کے بارے میں ) یہ واقعی (قوی) الزام ایک قابل قبول منطقی نتیجہ ہے ، جو سیف (کی روایتوں ) کا دوسروں

(کی روایتوں ) سے موازنہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بحث و گفتگو کے ضمن میں بیان ہوا ہے کہ سیف نے معجزنما اتفاقات بیان کئے ہیں ، جنھیں قبول نہیں کیا جاسکتا،جیسے : صحراؤں کی ریت کا مسلمانوں کے لئے پانی میں تبدیل ہوجانا یا سمندر کا ریگستانوں میں تبدیل ہوجانا یا گائے کے ریوڑ کا گفتگو کرنا اور مسلمانوں کے لشکر کو اپنی مخفی گاہ کے بارے میں خبر دینا اور اسی طرح کے دوسرے مطالب ۔سیف کے زمانے میں ایسی (جعلی) داستانوں کو تاریخی واقعات کے طور پر دوسروں کے لئے نقل کردینا ممکن تھا،لیکن آج کل تحقیق و تجسس کرنے والے محققین کے لئے ایسی داستانیں ناقابل قبول ہیں ۔بعض اطمینان بخش بحث وگفتگو بھی (اس کتاب میں ) زیر غور قرار پائی ہے جو ''ابن سبأاور سبائیوں ''کے بارہ میں سیف کی روایات کو مکمل طور سے (جعلی اور) غیر قابل اطمینان ثابت کرتی ہے، یقین نہیں آتا۔

۱۱

مؤلف نے اس کتاب میں اشارہ کیا ہے کہ بعض مستشرقین کی اطلاعات سیف کی روایتوں پر مبنی ہیں .مثال کے طور پر مسلمانوں کی ابتدائی جنگوں میں بہت سے لوگوں کے قتل ہونے کی خبر اور یہ اعتقاد کہ ابن سبأ نام کا ایک گمنام یہودی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے اعتقادات میں نفوذ پیدا کرکے لوگوں کو عثمان کے خلاف شورش پر اکسانے کا اصلی محرّک ہوا اور وہی عثمان کے قتل کاسبب بھی بنا ، (اسی طرح) وہ علی اور طلحہ و زبیر کے درمیان جنگ کے شعلے بڑھکانے میں بھی کامیاب ہوا ۔بعض امور میں ممکن ہے یہ صحیح ہو،لیکن تمام مواقع پر ہرگز یہ حقیقت نہیں ہوسکتی۔یہ (بات) عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں دائرة المعارف اسلامی کے طبع اول اور دوم میں شائع ہوئے چند مقالات میں واضح طور پر ذکر ہوئی ہے۔سیف نے قبیلہ تمیم سے سور ماؤں کو جعل کرنے میں کافی وقت صرف کیا ہے ،یہ قبیلہ سیف کا خاندان تھا،لیکن سر و یلیم مویر بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ مرتدوں کی جنگوں کے دوران کس طرح قبیلہ تمیم نے خلیفہ ٔاول کے لشکر کے سامنے ہتھیار ڈالدئے تھے۔یہاں پر سرٹامس آرنالڈ کے بیان کی طرف بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے جو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہین کہ اسلام کے ابتدائی فتوحات زیادہ تر دینی عقائد کے پھلاؤ کے بجائے اسلامی حکومت کو وسعت دینے کے لئے تھے۔

۱۲

دوسری کتاب (خمسون و مائة صحابی مختلق) میں اس نکتہ کی طرف توجہ دی گئی ہے کہ سیف کا وجود دوسری صدی ہجری کی پہلی چوتھائی میں تھا اور وہ قبائل ''مضر'' میں ''تمیم'' نامی ایک قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اور کوفہ کا رہنے والاتھا ، یہ مطلب انسان کو سیف کی داستانیں گھڑنے میں اس کے خوہشات اور اسباب وعوامل کا مطالعہ کرنے میں مدد کردیتا ہے.اس کتاب میں ''زنادقہ ''اور ''مانی''کے پیرؤں کے بارے میں بھی بحث ہوئی ہے،چونکہ اُس معاشرے میں خاندانی تعصب کا سلسلہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ سے عباسیوں تک جاری رہاہے اور اس تعصب کی وجہ سے سیف شمالی قبائل کی تعریفیں کرتا ہے اور ان سے بہادر اور شعراء جعل کرتاہے، جنہوں نے اس قبیلہ کے سور ماؤں کے بارے میں شعر کہے ہیں ، اس نے قبیلہ ''تمیم''سے پیغمبر کے کچھ اصحاب جعل کئے ہیں اور غزوات اور جنگوں کی داستانیں گڑھی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اور اپنے جعلی سورماؤں کی بہادری جتلا نے کے لئے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے اور بہت سے افراد اسیر بنانے کا ذکر کیا ہے ۔ جو اشعار اس نے اپنے سور ماؤں سے منسوب کئے ہیں وہ قبائل ''مضر ''پھر قبیلہ ''تمیم'' اور '' بنی عمرو''کی ستائش و مدح سے مربوط ہیں ،کہ سیف اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے(۱) ۔سیف نے قبیلہ'' مضر '' کے بعض لوگوں کو ان جنگوں کے اصلی ہیرو کے عنوان سے پیش کیا ہے ،جن کے حقیقی رہبر دوسرے قبیلوں کے بہادر تھے۔ بعض موارد میں (سیف نے ) اس وقت کے معاشرے میں موجود افراد کو بہادروں کے طور پر پیش کیا ہے اور بعض دیگر موارد میں کچھ اور (جعلی) رہبر وں کا نام لیا ہے جو اس کے (اپنے ) تخیل کی ایجاد ہیں ۔ یہ موضوع بھی مورد بحث قرار پایا ہے کہ سیف کی جھوٹی روایات کا( مقصد ) ایک طرف عام لوگوں (مسلمانوں ) کے افکار میں تشویش پیدا کرکے ان کے اعتقادات میں تبدیلیاں لانا تھا اور دوسری طرف (مسلمانوں کے لئے ) غیر مسلمین میں ایک غلط تصور ایجاد کرنا تھا ۔سیف سند جعل کرنے اور جھوٹی خبر یں گڑھنے میں ایسی مہارت رکھتا تھا کہ اس کی جعلی روایتیں (بعض افراد کے نزدیک ) ایک حقیقی تاریخ کے عنوان سے مورد قبول قرار پائی ہیں ۔

یہ سیف کی خطائوں کا یک خلاصہ ہے ،جس کی وجہ سے وہ مجرم قرار پایا ہے ۔''مؤلف'' نے کتاب کے اصلی حصہ میں ٢٣اشخاص (جعلی اصحاب ) کے بارے میں مفصل بحث کی ہے اور سیف کی روایتوں کے چند نمونے پیش کرکے واضح طور پرثابت کیا ہے کہ سیف کی رواتیں کس طرح بنیادی منابع اور موثق اسناد کے ساتھ زبردست تضاد رکھتی ہیں ۔ روایت جعل کرنے میں ہی نہیں بلکہ

____________________

۱ ۔سیف کا نسب قبیلہ تمیم کے ایک خاندان ''بنی عمرو'' تک پہنچتاہے ۔

۱۳

ایسے راویوں کے نام ذکر کرنے میں بھی یہ فرق صاف نظر آتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔

یہ کتاب انتہائی دقت و مہارت کے ساتھ لکھی گئی ہے اور اس میں سیف (کی روایتوں ) کے قابل اعتماد ہونے کے خلاف انتہائی اطمینان بخش بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض معروف مولفین نے بھی سیف کی روایتوں کو اپنی تالیفات میں نقل کیا ہے ،اس کے علاوہ سیف کی دو کتابیں (فتوح و جمل) پر بھی بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کے مطالب اور اس کے بعد والے مولفین کی تالیفات (جنھوں نے ان مطالب پر تکیہ کیا ہے) بھروسہ کے قابل نہیں ہیں ۔

یہ (کتاب )ایک انتہائی محکم اور فیصلہ کن تحقیق ہے ،جو بڑی دقت ،دور اندیشی ،اور تنقید کی عالی کیفیت پر انجام پائی ہے ۔مجھے اس بات پر انتہائی خوشی ہے کہ ان بحثوں کے مطالعہ کے لئے کافی وقت نکال سکا ۔یہ بحثیں میرے لئے مکمل طور پر قابل قبول اور اطمینان بخش ہیں ،اور مطمئن ہوں کہ جو لوگ ان کتابوں کا کھلے ذہن سے مطالعہ کریں گے وہ ان میں موجودتنقید ی توانائی کی ستائش کریں گے ۔

کتابیں ارسال کرنے پر آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں اور معذرت چاہتا ہوں کہ پیری اور دیگر ناتوانیوں کی وجہ سے جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی ۔

آپ کا عقیدت مند

جیمس رابسن

پتہ : جیمس رابسن ۔ ۱۷ووڈ لینڈزڈرایو ۔گلاسکو ، Q.E۹,۴G انگلستا ن

۱۴

مقدمہ مؤلف

بسم اللّٰه الرَّحمٰن الرَّحیم

اسلام کی چودھویں صدی اختتام کو پہنچنے والی ہے ،زمانے کے اس قدر طولانی فاصلہ نے اسلام کی صحیح شکل پہچاننے کے کام کو انتہائی دشوار بنا دیا ہے ۔حقیر نے گزشتہ چالیس برسوں سے زیادہ عرصہ کے دوران معرفت کی اس راہ میں حتی المقدور تلاش و کوشش کی ہے تاکہ شائد اسلام کو اس کی اصلی صورت میں پایا جائے جس صورت میں وہ چودہ سو سال پہلے تھا چوں کہ اسلام کو پہچاننے کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا اور نہ ہے کہ اس سلسلے میں قرآن مجید ،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کی طرف رجوع کیا جائے ۔لہٰذا ہم ابتدا میں قرآن کی درج ذیل آیۂ شریفہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ہیں :

( هُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰابَ مِنْهُ آیٰت مُحْکَمٰت هُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ أُخَرُ مُتَشٰبِهٰت فَأَمّا الَّذینَ فِی قُلُوبِهِمْ زَیْغ فَیَتَّبِعُونَ مٰا تَشٰبَهَ مِنْهُ ابْتِغٰائَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغٰائَ تَأویلِه وَمٰا یَعْلَمُ تَأوِیلَهُ اِلَّا اللَّهُ وَ الرّٰاسِخُونَ فِی العِلْمِ ) (۱)

____________________

۱)۔ آل عمران ٧

۱۵

''وہ جس نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں کچھ آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں (وہ حصہ جو واضح وروشن نہیں ہے )۔اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ان ہی متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تا کہ فتنہ بر پاکریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا کواور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں ''۔

قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتاہے،قرآن مجید میں بعض آیات متشابہ ہیں جو فتنہ انگیزوں کے لئے بہانہ ہیں اور ان کی تاویل خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔دوسری طرف خدائے تعالیٰ قرآن مجید کی تاویل کے طریقہ کو درج ذیل آیت میں معین فرماتاہے :

( ''وَأَنْزَلْنٰا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مٰانُزِّلَ اِلَیْهِمْ '' ) (۱)

''اور ہم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بھی ذکر(قرآن)کونازل کیاہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے نازل کیاگیاہے اسے ان سے بیان اور ان پر واضح کردیں ''

خدائے تعالیٰ اس آیہ شریفہ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرماتاہے :ہم نے ذکر قرآن مجید کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیاتاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ سب کچھ لوگوں سے بیان کردیں جو قرآن مجید میں ان کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔لہٰذا قرآن مجید کی تفسیر جس کی بعض آیات متشابہ ہیں فقط پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ ہونی چاہئے اور قرآن مجید کی تفسیر کو سیکھنے کا طریقہ ہمیشہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث اور بعض اوقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ہے ،کیونکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی کبھی اپنے عمل وکردار سے قرآن مجید کی تفسیر فرماتے تھے ،جیسے :یومیہ نماز کے بارے میں قرآن مجید نے حکم فرمایاہے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو سکھایا ،پس آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یومیہ نماز اُن آیات کی تفسیر ہے جو قرآن مجید

____________________

۱)۔نحل٤٤

۱۶

میں نماز کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ۔(۱) اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حدیث اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صحیح سیرت جس کا مجموعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنت ہے کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سنّت تک دست رسی کا راستہ بھی اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب پر منحصر ہے.ان دوراستوں کے علاوہ سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچنا محال ہے.ان دو اسناد کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتاہے:

( وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنٰفِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفٰاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ) (۲)

''اور تمہارے اطراف کے علاقہ کے لوگوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں .تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں ۔''

ان منافقین کو جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں مدینہ میں تھے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔وہ سب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں(۳) میں سے تھے ۔حقیر نے ان صحابیوں میں سے مؤمن و منافق کی پہچان کرنے کی غرض سے ان کی زندگی کے سلسلے میں تحقیق شروع کی ہے ، خواہ وہ

____________________

۱)۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مشہور و معروف حدیث جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:صَلُّوا کَمٰا رَئَیتُمُونی أُصَلِّی (جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ، اس طرح نماز پڑھو۔

۲)۔توبہ ١٠١

۳)۔ صحابی کے بارے میں جمہور کی تعریف ملاحظہ ہو:الصّحابی من لقٰی النّبی مومناً به و مات علی الاسلام، فیدخل فی من لقیه من طالت مجالسته له او قصرت، و من روی عنه اولم یرو، و من غزامعه اولم یغز، ومن رء اه رویة ولو لم یره لعارض کالعمی (و انه لم یبق بمکة ولا الطائف احد فی سنه عشر الا اسلم و شهد مع النبی حجة الوداع، و انه لم یبق فی الاوس والخزرج احد فی آخر عهد النبی الادخل فی الاسلام و ما مات النبی و واحد منهم یظهر الکفر) ملاحظہ ہو ابن حجر کی کتاب ''الاصابہ فی معرفة الصحابہ'' جلد اول کا مقدمہ ص١٣ اور ١٦۔

۱۷

تفسیر قرآن ، اسلامی احکام اور دیگر علوم اور معارف اسلامی کے سلسلے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث ، فرمائشات اور سیرت بیان کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں !

چونکہ اہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی زندگی کے بارے میں معرفت حاصل کرنا حقیقت میں اسلام کی معرفت ہے،اس لئے ہم نے ان دونوں کی زندگی پر تحقیقات شروع کی۔ ان کی نجی زندگی ، باہمی میل ملاپ، تازہ مسلمانوں سے سلوک ، غیر مسلم اقوام سے تعلقات ، فتوحات اور ان کے ذریعہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام سے روایتیں نقل کرنے کے موضوعات کو مورد بحث و تحقیقات قرار دیا اور دسیوں سال کے مطالعہ اور تحقیق کے نتیجہ میں میرے سامنے حیرت انگیز مطالب واضح ہوئے ۔معلوم ہواکہ سیرت ،تاریخ اور حدیث کی روایتوں میں اس قدر غلط بیانی اور خلط ملط کی گئی ہے جس کی کوئی حد نہیں ۔ قاتل کو مقتول، ظالم کو مظلوم، رات کو دن اور دن کو رات دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ مقدس اور پارسا ترین صحابی ، جیسے ،ابوذر،عمار ،حجر ابن عدی کا بدکار ،احمق ، ساز شی اور تخریب کار کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں معاویہ ، مروان بن حکم ،ابوسفیان اور زیاد جیسے افراد کو پاک دامن، بے گناہ اور خدا پرست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث و سیرت کے بارے میں اس قدر جھوٹی اور بیہودہ حدیثیں اور افسانے گھڑے گئے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے صحیح اسلام کا اندازہ لگانا ناممکن بن گیا ہے۔یہی جعلی اور جھوٹی احادیث ، اسلام کے چہرے پر بدنما داغ بن گئی ہیں ۔ملاحظہ ہو ایک مثال:

۱۸

حضرت عائشہ سے ایک روایت:

تیمم سے مربوط آیت کی شان نزول کے بارے میں صحیح بخاری ، صحیح مسلم، سنن نسائی ، موطاء مالک ، مسند احمد، ابوعوانہ ، تفسیر طبری اور دیگر موثق و معتبر کتابوں میں ام المؤمنین عائشہ سے اس طرح روایت ہوئی ہے:

عائشہ نے کہا:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسافرتوں میں سے ایک سفر میں ہم مدینہ سے باہر آئے اور مقام ''بیدائ'' یا ''ذات الجیش''پہنچے۔(حموی نے دونوں مقام کی تشریح میں کہا ہے کہ یہ مدینہ کے نزدیک ایک جگہ ہے ، جہاں پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غزوۂ بنی المصطلق سے واپسی پر عائشہ کے گلے کے ہار کو ڈھونڈنے کے لئے اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤڈالا تھا)عائشہ نے کہا:

وہاں پر میرے گلے کا ہار گرکر گم ہوگیا تھا۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی تلاش کے لئے وہاں رُکے اور لشکر نے بھی پڑاؤڈالا۔ اس سر زمین پر پانی نہ تھا اور لوگوں کے پاس بھی پانی نہیں تھا ۔ صبح ہوئی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میری آغوش میں سر رکھے سوئے ہوئے تھے !!ابوبکر آئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام لشکر کو تم نے یہاں پر اسیر کر رکھا ہے، نہ لوگوں کے پاس پانی ہے اور نہ یہاں پر پانی ملنے کا امکان ہے...ابوبکر نے جی بھر کے مجھ سے تلخ کلامی کی، اور جو منہ میں آیا مجھے کہا اور اپنے ہاتھ اور انگلیوں سے میرے پہلو میں چٹکی لیتے تھے،میری آغوش میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سرتھا، اس لئے میں ہل نہیں سکتی تھی۔!!

اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیند سے بیدار ہوئے،پانی موجود نہیں تھا.خدائے تعالیٰ نے آیۂ تیمم نازل فرمایا۔اسید بن حضیر انصاری نے کہا: یہ آپ خاندان ابوبکر کی پہلی خیر و برکت نہیں ہے جو ہمیں نصیب ہورہی ہے.یعنی اس سے پہلے بھی ، خاندان ابوبکر ، کی خیر و برکت ہمیں نصیب ہوتی رہی ہے.میرے والد ، ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم ! مجھے معلوم نہیں تھا میری بیٹی ! کہ تم کس قدر خیر و برکت سے مالامال ہو! اس وقت جو تم یہاں پر مسلمانون کے رُکنے کا سبب بنی تو خدائے تعالیٰ نے تیری وجہ سے ان پر کس قدر برکت نازل کی اور ان کے کام میں آسانی عنایت فرمائی !

صحیح بخاری کی روایت اور دوسروں کی روایتوں کے مطابق، عائشہ نے کہا: آخر کار جب میرے اونٹ کو اپنی جگہ سے اٹھایا گیا ، تومیرے گلے کا ہار اس کے نیچے مل گیا۔

ہم نے اس حدیث پر کتاب ''احادیث عائشہ'' میں تفصیل سے بحث و تحقیق کی ہے، اس لئے یہاں پر اس کے صرف ایک حصہ پر بحث کرتے ہیں ۔(۱)

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو مؤلف کی کتاب ''احادیث شیعہ ''حصہ دوم فصل ''المسابقة والتیمم والافک''۔

۱۹

عائشہ کی روایت پر تحقیق:

اولاً ، کہاگیا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غزوہ ٔبنی مصطلق سے واپسی پر رونما ہوا ہے،

یعنی جنگ ِاحزاب جوجنگ خندق کے نام سے مشہور ہے کے بعد یہ جنگ (غزوہ بنی المصطلق )

٦ ھ میں واقع ہوئی ہے ۔اس غزوہ میں مہاجر وانصار کے درمیان کنویں سے پانی کھینچنے کے مسئلہ پر اختلاف رونما ہوا اور نزدیک تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں ،اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشکر کوبے موقع کوچ کرنے کاحکم دیا تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اصحاب کے درمیان اس احتمالی ٹکراؤ کو روک سکیں ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سفر میں کسی جگہ پڑاؤ نہیں ڈالتے تھے ،مگر یہ کہ نماز کے وقت،اور نمازادا کرنے کے وقت سے زیادہ نہیں رکتے تھے اس طرح رات گئے تک سفر کرتے تھے اور جب رات کے آخری حصہ میں کہیں رکتے تھے تو اصحاب تھکاوٹ سے نڈھال ہوکر سوجاتے تھے ۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لشکر کی اس غزوہ سے واپسی کے دوران ایسی حالت تھی کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ممکن نہیں تھا کہ بلا سوچے سمجھے صرف عائشہ کے گلے کے ہار کے لئے ،کہیں رات بھر کے لئے عائشہ کی روایت میں بیان شدہ صورت میں پڑاؤ ڈالتے ۔

اس کے علاوہ دوسری ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جن میں اس آیت کی شان نزول ،ام المؤمنین کی بیان کردہ شأن نزول کے برخلاف ہے ۔ہم یہاں پر ان روایتوں کے بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سلسلے میں صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں :

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اس باغ سے جو چاہو کھائو، لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائوگے۔

اور آدم کے گوش گز ار کیا کہ شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے ہوشیار رہنا کہیں تمہیں وہ اس بہشت سے باہر نہ کر دے۔

حضرت آدم شیطان کے باربار خدا کی قسم کھانے اور اس کے یہ کہنے سے کہ میں تمہارا خیر خواہ اور ہمدرد ہوں اپنے اختیار سے حو اکے ساتھ شیطان کے وسوسے کا شکار ہو گئے اور خدا وند عالم کے فرمان کے مطابق اپنی اطمیان بخش اور مضبوط حالت سے نیچے آگئے اور وسوسہسے متاثرہوگئے؛ اس کی سزا بھی اطمینان بخش بہشت رحمت سے دنیائے زحمت میں قدم رکھنا تھا، ایسی دنیا جو کہ رنج و مشقت ، درد و تکلیف اور اس عالم جاوید کا پیش خیمہ ہے ،کہ جس میں بہشتی نعمتیں ہیں یا جہنمی عذاب۔

اس طرح سے انسان نے امانت کا با ر قبول کیا ایسی امانت جس کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دیتے ہوئے فرمایا:

( انا عرضنا الامانة علیٰ السمٰوات و الارض و الجبال فأَبین ان یحملنها و وأشفقن منها و حملها الانسان انه کان ظلوما جهولاً، لیعذب الله المنافقین و المنافقات و المشرکین و المشرکات و یتوب الله علیٰ المؤمنین و المؤمنات و کان الله غفوراً رحیماً ) ( ۱ )

ہم نے بارامانت (تعہد و تکلیف) کوآسمان، زمین اور پہاڑوںکے سامنے پیش کیاانہوں نے اس کا بار اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے خوفزدہ ہوئے ، لیکن انسان نے اسے اپنے دوش پر اٹھا لیا، وہ بہت جاہل اور ظالم تھا، ہدف یہ تھا کہ خد اوند عالم منافق اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دے اور با ایمان مردوں و عورتوں پر اپنی رحمت نازل کرے، خدا وند عالم ہمیشہ بخشنے والا اور رحیم ہے ۔

امانت سے اس آیت میں مراد(خداوند عالم بہتر جانتا ہے) الٰہی تکالیف اور وہ چیزیں ہیںجو انسان کو انسانیت کے زیور سے آراستہ کرتی ہیں۔

آسمان و زمین پر پیش کرنے سے مراد مخلوقات میں غیر مکلف افراد پر پیش کرنا ہے ، یہ پیشکش اور قبولیت انتخاب الٰہی کامقدمہ تھی تاکہ مخلص اور خالص افراد کو جدا کر دے ۔

اس لحاظ سے آدم کا گناہ بار امانت اٹھانے میں تھا، ایسی امانت جس کے آثار میں سے وسوسۂ شیطانی

____________________

(۱)احزاب ۷۲۔۷۳

۱۲۱

سے متاثر ہونا ہے ۔ یہ تمام پروگرام حضرت آدم کی آفرینش سے متعلق ایک مرحلہ میں تھے جو کہ ان کی آخری خاکی زندگی سے کسی طرح مشابہ نہیں ہیں نیز عالم تکوین و ایجاد میں تھے قبل اس کے کہ اس خاص بہشت سے ان کا معنوی ہبوط ہوا اور اس سے خارج ہو کر اس زمین مین تشریف لائے ۔

کیونکہ انبیاء اس عالم میں معصوم اور گناہ سے مبرا ہیںاور حضرت آدم اپنے اختیار اورانتخاب سے جس عالم کے لئے خلق کئے گے تھے اس میں تشریف لائے،اس اعتبار سے حضرت آدم کا عصیان اس معنوی امر سے تنزل ہے (خدا وند عالم بہتر جانتا ہے) ۔

۱۲۲

آیات کی شرح اور روایات میں ان کی تفسیر

پہلے۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول روایات:

۱۔ احمد بن حنبل، ابن سعد، ابو دائوداور ترمذی نے اپنی سندوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے: آپ نے فرمایا: خدا وند عالم نے آدم کو ایک مشت مٹی جوزمین کے تمام اطراف سے لی تھی خلق کیا؛ اسی وجہ سے بنی آدم زمین کے ہم رنگ ہیں بعض سرخ، بعض سفید، بعض سیاہ اور کچھ لوگ انہیں گروہوںمیں میانہ رنگ کے مالک ہیں...۔( ۱ )

۲۔ ابن سعد نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

جب حضرت آدم سے یہ خطا سرزد ہوئی تو ان کی شرمگاہ ظاہر ہو گئی جبکہ اس سے پہلے ان کے لئے نمایاںنہیں تھی۔( ۲ )

۳۔ شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ خصال میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے :

آدم و حوا کا قیام اس بہشت میں ان کے خارج ہونے تک دنیاوی دنوں کے لحاظ سے صرف سات گھنٹہ تھا یہاں تک کہ خدا وند عالم نے اسی دن بہشت سے نیچے بھیج دیا۔( ۳ )

____________________

(۱)سنن ترمذی ، ج ۱۱، ص ۱۶، سنن ابی داؤد ج ، ۴، ص ۲۲۲، حدیث ۴۶۹۳،مسند احمد ج ، ۴، ص ۴۰۰، طبقات ابن سعد ، طبع یورپ ، ج ۱، حصہ اول ص۵۔ ۶

(۲) طبقات ابن سعد ، ج ، ۱حصہ اول ، طبع یورپ ، ص ۱۰.

(۳)نقل از بحار الا نوار ج ۱۱، ص ۱۴۲.

۱۲۳

دوسرے۔ حضرت امام علی سے مروی روایات

الف:۔ فرشتوںکی خلقت کے بارے میں

کتاب بحار الانوار میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی ـ خدا وند عالم سے عرض کرتے ہیں:

....جن فرشتوں کو تونے خلق کیا اور انہیں اپنے آسمان میں جگہ دی ان میں کسی طرح کی کوتاہی اور سستی نہیں ہے؛ نیز ان کے یہاں نسیان وفراموشی کا گز ر نہیں ہے اور عصیان و نافرمانی ان کے اندر نہیں ہے وہ لوگ تیری مخلوقات کے با شعور اور دانا ترین افراد ہیں؛ وہ تجھ سے سب سے زیادہ خوف رکھتے اورتجھ سے نزدیک ترین اور تیری مخلوقات میں سب سے زیادہ اطاعت گزاراورفرمانبردارہیں؛ انہیں نیند نہیں آتی ، عقلی غلط فہمیاں ان کے یہاں نہیں پائی جاتی، جسموں میں سستی نہیں آتی، وہ لوگ باپ کے صلب اور ماں کے رحم سے وجود میں نہیں آئے ہیں نیز بے حیثیت پانی (منی) سے پیدا نہیںہوئے ہیں؛ تونے ان لوگوںکو جیسا ہونا چاہئے تھا خلق کیا ہے اور اپنے آسمانوں میں انہیں جگہ دی ہے اور اپنے نزدیک انہیں عزیز و مکرم بنایا ہے اور اپنی وحی پر امین قرار دیا آفات و بلیات سے دور اور محفوظ رکھ کر گناہوں سے پاک کیا اگرتونے انہیں قوت نہ دی ہوتی تو وہ قوی نہ ہوتے؛ اگر تونے انہیںثبات و استقلال نہ دیا ہوتا تو وہ ثابت و پائدار نہ ہوتے۔

اگر تیری رحمت ان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ اطاعت نہیں کرتے اورا گر تو نہ ہوتا تو وہ بھی نہوتے، وہ لوگ جو تجھ سے قرابت رکھتے ہیں اور تیری اطاعت کرتے اور تیرے نزدیک جو اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں اور ذرہ برابر بھی تیرے حکم کی مخالفت نہیں کرتے ان سب کے باوجود اگر نگاہوں سے تیرا پوشیدہ مرتبہ مشاہدہ کرتے ہیں تو اپنے اعمال کو معمولی سمجھ کراپنی ملامت و سرزنش کرتے ہیں اور راہ صداقت اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیری عبادت کا جو حق تھا ویسی ہم نے عبادت نہیں کی ؛اے خالق و معبود! تو پاک و منزہ ہے تیرا امتحان و انتخاب مخلوقات کے نزدیک کس قدر حسین وخوبصورت اور باعظمت ہے ۔( ۱ )

ب:۔آغاز آفرینش

خلقت کی پیدائش کے بارے میں حضرت امام علی ـ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:

____________________

(۱) بحار الانوار ج ۵۹ ، ص ۱۷۵، ۱۷۶.

۱۲۴

خدا وند عالم نے فضائوں کو خلق کیا، اس کی بلندی پر موجزن اور متلاطم پانی کی تخلیق کی، سرکش اور تھپیڑے کھاتا ہوا پانی؛ بلند موجوں کے ساتھ کہ جس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے پھر اسے تیز و تند اور سخت ہلا دینے والی ہوا کی پشت پر قرار دیاجس نے اپنے شدید جھونکوںسے (جس طرح دہی اور دودھ کو متھا جاتا ہے اس کو متھتے اور حرکت دیتے ہیں؛اور اس سے مکھن اور بالائی نکالتے ہیں اور اس کا جھاگ اوپر آجاتا ہے) ان جھاگوں کو پراکندہ کر دیا پھر وہ جھاگ کھلی فضا اور وسیع ہوا میں بلندی کی طرف چلے گئے تو خدا وند عالم نے ان سے سات آسمان خلق کئے اور اس کی نچلی سطح کو سیلاب سے عاری موج اور اس کے اوپری حصہ کو ایک محفوظ چھت قرار دیا، بغیر اس کے کہ کوئی ستون ہو اور وسائل و آلات سے مل کر ایک دوسرے سے متصل و مرتبط ہوں؛ آسمان دنیا کو ستاروں سے زینت بخشی پھر فوقانی آسمانوں کے درمیان جو کہ آسمان دنیا کے اوپر واقع ہے ،شگاف کیا پھر انہیں انواع و اقسام کے فرشتوں سے بھر دیا، ان میں سے بعض دائمی سجدہ کی حالت میں ہیںجو کبھی سجدے سے سر نہیںاٹھاتے تو بعض رکوع دائم کی حالت میں ہیں جو کبھی قیام نہیں کرتے، بعض بالکل سیدھے منظم صفوف کی صورت میں مستقیم اورثابت قدم ہیں اور حرکت نہیں کرتے؛ خدا کی تسبیح کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ کا احساس نہیں کرتے، انہیںخواب آنکھوں میں عقلوں کی غفلت ، جسموں میں سستی، فراموشی، بے توجہی اور بے اعتنائی لاحق نہیں ہوتی، بعض وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں تک پیغام رسانی کے لئے اس کی زبان اور حکم خداوندی پہنچانے کے لئے ہمیشہ رفت و آمد رکھتے ہیں، بعض اس کے بندوں کے محافظ اور بہشت کے دروازوں کے نگہبان ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کے قدم پست سر زمینوں پر ہیں اور سر آسمان سے بھی اوپر ہیں... وہ لوگ اپنے پروردگار؛ کی توہم و خیال کے ذریعہ تصویر کشی نہیں کرتے، خدا کی خلق کردہ مخلوقات کے اوصاف کو خدا کی طرف نسبت نہیں دیتے اسے مکان کے دائرہ میں محدود نہیں کرتے اور امثال و نظائر کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔

ج:۔ انسان کی خلقت

امام نے فرمایا: خدا نے پھر زمین کے سخت و نرم ، نمکین اور شیرین مختلف حصوں سے کچھ مٹی لی؛ پھر اسے پانی میں مخلوط کیا تاکہ خالص ہو جائے، پھر اسے دوبارہ گیلا کر کے جلادی اور صیقل کیا ، پھر اس سے شکل و صورت جس میں اعضا ء وجوارح والی خلق کی اور اسے خشک کیا پھر اسے استحکام بخشا تاکہ محکم و مضبوط ہو جائے روز معین و معلوم کے لئے۔

۱۲۵

پھر اس میں اپنی روح پھونکی، تو ایک ہوشیار انسان کی شکل میں ظاہر ہوا؛ اور حرکت کرتے ہوئے اپنے ،دل و دماغ؛ عقل و شعور اور دیگر اعضاء کا استعمال کرتاہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ قابل انتقال آلات سے استفادہ کرتاہے حق و باطل میں فرق قائم کرتاہے نیز چکھنے، سونگھنے اور دیکھنے والے حواس کا مالک ہے وہ رنگا رنگ سرشت اور طبیعت اور مختلف عناصر کاایک ایسا معجون ہے جن میں سے بعض ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان میں سے بعض متبائن اور ایک دوسرے سے علٰحدہ ہیں جیسے گرمی، سردی، خشکی، رطوبت، بدحالی اور خوش حالی۔( ۱ )

د:۔جن، شیطان اورابلیس کی خلقت

حضرت امام علی فرماتے ہیں: خدا وند عالم نے جن اور نسناس کے سات ہزار سال روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد جب چاہا کہ اپنے دست قدرت سے ایک مخلوق پیداکرے اور وہ مخلوق آدمی ہونا چاہے کہ جن کے لئے آسمان و زمین کی تقدیر و تدبیر کی گئی ہے تو آسمانوںکے طبقوں کا پردہ اٹھا کر فرشتوں سے فرمایا: میری (جن اور نسناس )مخلوقات کا زمین میں مشاہدہ کرو۔

جب ان لوگوں نے اہل زمین کی غیر عادلانہ رفتار اورظالمانہ اور سفاکانہ انداز دیکھے تو ان پرگراں گز را اور خدا کے لئے ناراض ہوئے اور اہل زمین پر افسوس کیا اور اپنے غیظ و غضب پر قابو نہ پا کر بول پڑے: پروردگارا! تو عزیز، قادر، جبار، عظیم و قہار عظیم الشان ہے اور یہ تیری ناتواں اور حقیر مخلوق ہے کہ جو تیرے قبضہ قدرت میں جابجا ہوکر،تیر ا ہی رزق کھاتی ہے اور تیری عفو و بخشش کے سہارے زندہ ہے اور اپنے سنگین گناہوں کے ذریعہ تیری نافرمانی کرتی ہے جبکہ تو نہ ان پر ناراض ہوتاہے اور نہ ہی ان پر اپنا غضب ڈھاتا ہے اور نہ ہی جو کچھ ان سے سنتا اور دیکھتاہے اس کاانتقام لیتا ہے ، یہ بات ہم پر بہت ہی گراں ہے اور ان تمام باتوںکو تیرے سلسلہ میں ہم عظیم شمار کرتے ہیں۔ جب خدا وند عالم نے فرشتوں کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: ''میں روئے زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں'' تاکہ میری مخلوق پر حجت اور میرا جانشین ہو، فرشتوںنے کہا: تو منزہ اور پاک ہے ''آیا زمین پر ایسے کوخلیفہ بنائے گا جو فساد و خونریزی کرے جبکہ ہم تیر ی تسبیح اور حمد بجالاتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے اور پاکیزگی کا گن گاتے ہیں۔'' اور کہا: اس جانشینی کو ہمارے درمیان

____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید : ج ۱، ص ۳۲.

۱۲۶

قرار دے کہ نہ تو ہم فساد کرتے ہیں اور نہ ہی خونریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

خداوند عالم نے فرمایا: میرے فرشتو! میں جن حقائق کو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ، میرا ارادہ ہے کہ ایک مخلوق اپنے دستِ قدرت سے بنائوں اور اس کی نسل و ذریت کو مرسل ،پیغمبراور صالح بندے اورہدایت یافتہ امام قرار دوں نیز ان کو اپنی مخلوقات کے درمیان اپنا زمینی جانشین بنائوں، تاکہ لوگوں کو گناہوں سے روکیں اور میرے عذاب سے ڈرائیں، میری اطاعت و بندگی کی ہدایت کریں اور میری راہ کو اپنائیں نیز انہیں آگہی بخش برہان اور اپنے عذر کی دلیل قرار دوں، نسناس( ۱ ) کو اپنی زمین سے دور کرکے ان کے ناپاک وجود سے اسے پاک کر دوں.اور طاغی و سرکش جنوںکو اپنی مخلوقات کے درمیان سے نکال کر انہیں ہوااور دور دراز جگہوں پر منتقل کر دوں تاکہ نسل آدم کے جوار سے دوررہیں اور ان سے انس و الفت حاصل نہ کریں اور ان کی معاشرت اختیار نہ کریں، لہٰذا جو شخص ہماری اس مخلوق کی نسل سے جس کو میں نے خود ہی انتخاب کیا ہے میری نافرمانی کرے گا اسے سر کشوں اور طاغیوں کے ٹھکانوں پر پہنچا دوں گااور کوئی اہمیت نہیں دوںگا۔ فرشتوں نے کہا: خدایا! جو مرضی ہو وہ انجام دے: ہم تیری تعلیم کردہ چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں جانتے ، تو دانا اور حکیم ہے( ۲ )

ھ۔ روح: حضرت امام علی نے روح کے بارے میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :

جبریل روح نہیں ہیں، جبرئیل فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے اور روح جبریل کے علاوہ ایک دوسری مخلوق ہے، اس لئے کہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( تنزل الملائکة بالروح من امره علیٰ من یشاء من عباده )

فرشتوں کو اپنے فرمان سے روح کے ساتھ اپنے جس بندہ پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔ لہٰذا روح فرشتوں کے علاوہ چیز ہے۔( ۳ )

نیز فرمایا:

( لیلة القدر خیر من الف شهر٭ تنزل الملائکة و الروح فیها بِأِذن ربهم ) ( ۴ )

شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے فرشتے اور روح اس شب میں اپنے پروردگار کے اذن سے نازل ہوتے ہیں۔ نیز فرماتا ہے :

____________________

(۱) نسناس کی حقیقت ہم پرواضح نہیں ہے ، بحار الانوار میں ایسا ہی مذکور ہے ۔

(۲)بحار الانوار ج۶۳ص۸۲۔۸۳، علل الشرائع سے منقول.

(۳)نحل۲(۴)قدر۳۔۴

۱۲۷

( یوم یقوم الروح و الملائکة صفاً ) ( ۱ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے۔

اور حضرت آدم کے بارے میں جبرائیل سمیت تمام فرشتوں سے فرمایا:

( انی خالق بشراً من الطین فأِذا سوّیته و نفخت فیه من روحی فقعوا له ساجدین )

میں مٹی سے ایک انسان بنائوں گا اور جب اسے منظم کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو اس کے سجدہ کے لئے سر جھکا دینا! تو جبریل نے تمام فرشتوں کے ہمراہ اس روح کا سجدہ( ۲ ) کیا۔

اور مریم کے بارے میں ارشاد ہوا:

( فأَرسلنا الیها روحنا فتمثّل لها بشراً سویاً ) ( ۳ )

ہم نے اپنی روح اس کی طرف بھیجی اور وہ ایک مکمل انسان کی شکل میں مریم پر ظاہر ہوا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا:

( نزل به الروح الامین٭ علیٰ قلبک )

تمہارے قلب پر اسے روح الامین نے نازل کیا ہے ۔

پھر فرمایا:

( لتکون من المنذرین، بلسانٍ عربیٍ مبین ) ( ۴ )

تاکہ واضح عربی زبان میں ڈرانے والے رہو۔

لہٰذا روح گوناگوں اور مختلف شکل و صورت میں ایک حقیقت ہے۔( ۵ )

امام کی گفتگو کا خاتمہ۔

اس بنا پر روح (خد ابہتر جانتا ہے) وہ چیز ہے جو آدم میں پھونکی گئی ، نیز وہ چیز ہے کہ جو مریم کی طرف بھیجی گئی نیز وہ چیز ہے جو حامل وحی فرشتہ اپنے ہمراہ پیغمبر کے پاس لاتا تھا ؛ اور کبھی اس فرشتہ کو جو وحی پیغمبر کا حامل ہوتا تھا اسے بھی روح الامین کہتے ہیں، اس طرح روح وہی روح القدس ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے حضرت عیسیٰ کی تائید کی تھی اور قیامت کے دن خود روح فرشتوں کے ہمراہ ایک صف میں کھڑی ہوگی۔

____________________

(۱)نبأ۳۸(۲)ص۷۱۔۷۲(۳)مریم۱۷(۴)شعرائ۱۹۴۔۱۹۵(۵)الغارات ثقفی تحقیق اسناد جلال الدین حسینی ارموی '' محدث ''جلد اول ص ۱۸۴۔۱۸۵

۱۲۸

یہ وہی روح ہے جس کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے :

( و یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی ) ( ۱ )

تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں توتم ان سے کہہ دو روح امر پروردگار ہے ۔

خدا وندا! ہم کو سمجھنے میں خطا سے اور گفتار میں لغز ش سے محفوظ رکھ۔

و۔ فرشتوں کے حضرت آدم کا سجدہ کرنے کے معنی

امام علی کی اس سلسلے میں گفتگو کا خلاصہ یہ ہے :

فرشتوں کا آدم کے لئے سجدہ؛ اطاعت اور بندگی کا سجدہ نہیں تھا فرشتوں نے اس سجدہ سے ، غیر اللہ، یعنی آدم کی عبادت اور بندگی نہیں کی ہے ، بلکہ حضرت آدم کی فضیلت اور ان کیلئے خداداد فضل و رحمت کا اعتراف کیا ہے ۔

امام علی کے کلام کی تشریح:

امام نے گز شتہ بیان میں فرشتوں کو چار گروہ میں تقسیم کیا ہے :

پہلا گروہ: عبادت کرنے والے ، بعض رکوع کی حالت میں ہیں، بعض سجدہ کی حالت میں ہیں تو بعض قیام کی حالت میں ہیں تو بعض تسبیح میں مشغول ہیں۔

دوسرا گروہ: پیغمبروں تک وحی پہنچانے میں وحی خداوندی کے امین ہیں اور رسولوں کے دہن میں گویا زبان؛ نیز بندوں کے امور سے متعلق کہ خداوند عالم ان کے ذریعہ خلق کا انتظام کرتا ہے رفت و آمد کرنے والے ہیں۔

تیسرا گروہ: بندوں کے محافظ و نگہبان، انسان کے جسم و جان میں ایک امانت اور ذخیرہ کی قوتوں کے مانند کہ جن کے ذریعہ خدا وند عالم بندوں کو ، ہلاکت اور مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے ، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہلاکت اور مفسدہ ؛امن و امان اور حفاظت و سلامتی سے زیادہ انسان کو پہنچے، ان میں سے بعض جنت کے خدام یعنی نگہبان اور خدمت گز ار بھی ہیں۔

چوتھا گروہ: حاملان عرش کا ہے : شاید یہی لوگ ہیںجو امور عالم کی تدبیر پر مامور کئے گئے ہیں جیسے بارش نازل کرنا ،نباتات اور اس جیسی چیزوںکا اگانا اور اس کے مانند ایسے امور جو پروردگار عالم کی ربوبیت

سے متعلق ہیں اور مخلوقات عالم کے لئے ان کی تدبیر کی گئی ہے ۔

____________________

(۱)اسرائ۸۵

۱۲۹

تیسرے۔ امام محمد باقرسے مروی روایات

امام باقر نے (ونفخت فیہ من روحی ) کے معنی میں ارشاد فرمایا:

یہ روح وہ روح ہے جسے خدا وند عالم نے خودہی انتخاب کیا، خود ہی اسے خلق کیا اور اسے اپنی طرف نسبت دی اور تمام ارواح پر فوقیت و برتری عطا کی ہے ۔( ۱ )

اور دوسری روایت میں آپ نے فرمایا ہے :

خدا وند عالم نے اس روح کو صرف اس لئے اپنی طرف نسبت دی ہے کہ اسے تمام ارواح پر برتری عطا کی ہے ،جس طرح اس نے گھروں میں سے ایک گھر کو اپنے لئے اختیار فرمایا:

میرا گھر! اور پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر سے کہا:میرا خلیل ( میرے دوست) یہ سب ،مخلوق ، مصنوع، محدَّث ، مربوب اور مدبَّر ہیں۔( ۲ )

یعنی ان کی خد اکی طرف اضافت اور نسبت تشریفی ہے ۔

دوسری روایت میں راوی کہتا ہے :

امام باقر سے میں نے سوال کیا: جو روح حضرت آدم اور حضرت عیسیٰ میں ہے وہ کیا ہے ؟

فرمایا: دو خلق شدہ روحیں ہیں خد اوند عالم نے انہیں اختیار کیاا ور منتخب کیا: حضرت آدم اور حضرت عیسی ـ کی روح کو۔( ۳ )

چوتھے۔ امام صادق سے مروی روایات

حضرت امام صادق نے خدا وند عالم کے حضرت آدمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حوا سے متعلق کلام( فبدت لھما سو ء اتھما) ''ان کی شرمگاہیں ہویدا ہو گئیں'' کے بارے میں فرمایا:

ان کی شرمگاہیں ناپیدا تھیں ظاہر ہو گئیں یعنی اس سے قبل اندر مخفی تھیں۔( ۴ )

امام نے حضرت آدم سے حضرت جبریل کی گفتگو کے بارے میں فرمایا:

____________________

(۱)بحار الانوار ، ج۴ ص ۱۲، بنا بر نقل معانی الاخبار اورتوحید صدوق(۲) بحار الانوار ج۴ ،ص۱۲، بحوالہ ٔ نقل از معانی الاخبارو توحید صدوق.(۳) بحار الانوار ج۴ ،ص ۱۳(۴) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۰، نقل از تفسیر قمی ص ۲۳۱

۱۳۰

جب حضرت آدم جنت سے باہر ہوئے تو ان کے پاس جبرئیل نے آکر کہا: اے آدم! کیا ایسا نہیں ہے کہ آ پ کو خدا وند عالم نے خود اپنے دست قدرت سے خلق کیا اورآپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو آپ کے سجدہ کا حکم دیا اور اپنی کنیز حوا کوآ پ کی زوجیت کے لئے منتخب کیا، بہشت میں جگہ دی اور اسے تمہارے لئے حلا ل اور جائز بنایا اور بالمشافہہ آپ کونہی کی : اس درخت سے نہ کھانا! لیکن آپ نے اس سے کھایا اور خدا کی نافرمانی کی، آدم نے کہا: اے جبرئیل! ابلیس نے میرے اطمینان کے لئے خدا کی قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خدا وند عالم کی کوئی مخلوق خدا کی جھوٹی قسم کھا سکتی ہے۔( ۱ )

امام نے حضرت آدم کی توبہ کے بارے میں فرمایا:

جب خدا وند عالم نے آدم کو معاف کرنا چاہا تو جبرئیل کو ان کی طرف بھیجا، جبرئیل نے ان سے کہا: آپپر سلام ہو اے اپنی مصیبت پر صابر آدم اور اپنی خطا سے توبہ کرنے والے !خدا وند عالم نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ ایسے مناسک آپ کو تعلیم دوں جن کے ذریعہآ پ کی توبہ قبول کرلے! جبرئیل نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بیت کی طرف روانہ ہو گئے اسی اثناء میں آسمان پر ایک بادل نمودار ہوا، جبرئیل نے ان سے کہا جہاں پر یہ بادل آپ پر سایہ فگن ہو جائے اپنے قدم سے خط کھیچ دیجئے ، پھر انہیںلیکر منیٰ چلے گئے اور مسجد منیٰ کی جگہ انہیں بتائی اور اس کے حدود پر خط کھینچا، محل بیت کو معین کرنے اور حدود حرم کی نشاندہی کرنے کے بعد عرفات لے گئے اور اس کی بلندی پر کھڑے ہوئے اور ان سے کہا: جب خورشید غروب ہو جائے تو سات بار اپنے گناہ کا اعتراف کیجئے آدم نے ایسا ہی کیا۔( ۲ )

پانچویں۔ امام رضا سے مروی روایات

امام رضا نے خدا وند عالم کے کلام ''خلقت بیدی'' کے معنی کے بارے میں فرمایا : یعنی اسے میں نے اپنی قوت اور قدرت سے خلق فرمایا:( ۳ )

آپ سے عصمت انبیاء سے متعلق مامون نے سوال کیا:

اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند! کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ کہتے ہیں انبیاء معصوم ہیں؟

____________________

(۱ ) بحار الانوار ج۱۱ ص ۱۶۷. (۲) تفسیر نور الثقلین ج۴ ص ۴۷۲ بہ نقل عیون اخبار الرضا (۳)بحار الانوار ج۱۱ص ۱۶۷

۱۳۱

امام نے فرمایا: ہاں، بولا! پھر جو خدا وند عالم نے فرمایا( فعصی آدم ربه فغویٰ ) اس کے معنی کیا ہیں؟

فرمایا: خدا وند عالم نے آدم سے فرمایا: ''تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو دل چاہے کھائو لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ ستمگروں میں سے ہو جائو گے'' اور گندم کے درخت کا انہیں تعارف کرایا۔ خدا وند عالم نے ان سے یہ نہیں فرمایاکہ: اس درخت اور جو بھی اس درخت کی جنس سے ہونہ کھانا لہٰذاآدم و حوا اس درخت سے نزدیک نہیں ہوئے یہ دونوں شیطان کے ورغلانے اور اس کے یہ کہنے پر کہ خداوندعالم نے تمہیں اس درخت سے نہیں روکا ہے بلکہ اس کے علاوہ کے قریب جانے سے منع کیا ہے ،تمہیں اسکے کھانے سے ا س لئے نہی کی ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جائو اوران لوگوں میں سے ہو جائو جو حیات جاودانی کے مالک ہیں اس کے بعد ان دونوں کے اطمینان کے لئے قسم کھائی کہ ''میں تمہارا خیر خوا ہ ہوں'' آدم و حوا نے اس سے پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ کوئی خدا وند عالم کی جھوٹی قسم کھائے گا، فریب کھا گئے اور خدا کی کھائی ہوئی قسم پر اعتماد کرتے ہوئے اس درخت سے کھا لیا؛ لیکن یہ کام حضرت آدم کی نبوت سے پہلے کاتھا( ۱ ) ، آغاز خلقت سے مربوط باقی روایتوں کو انشاء اللہ کتاب کے خاتمہ پر ملحقات کے ضمن میں عرض کریں گا۔

بحث کا خلاصہ

اس بحث کی پہلی فصل میں مذکورہ مخلوقات درج ذیل چار قسموں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ جو لوگ موت، زندگی، ارادہ اور کامل ادراک کے مالک ہیں اور ان کے پاس نفس امارہ بالسوء نہیں ہوتا وہ لوگ خدا کے سپاہی اورفرشتے ہیں۔

۲۔ جولوگ، موت ، زندگی، ارادہ؛ درک کرنے والا نفس اور نفس امارہ کے مالک ہیں یہ گروہ دو قسم کا ہے:

الف۔ جن کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے وہ حضرت آدم کی اولاد ؛تمام انسان ہیں.

ب۔ جن کی خلقت جھلسا دینے والی آگ سے ہوئی ہے وہ جنات ہیں.

۳۔ جو موت، زندگی اور ارادہ رکھتے ہیں لیکن درک کرنے والا نفس نہیں رکھتے اور غور و خوض کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ حیوانات ہیں۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱۱، ص ۱۶۴، بہ نقل عیون اخبار الرضا

۱۳۲

۴۔جو حیوانی زندگی نیز ادراک و ارادہ بھی نہیں رکھتے ، جیسے: نباتات ، پانی کی اقسام ، ماہ و خورشید اور ستارے۔

ہم ان تمام مخلوقات کی انواع و اصناف میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہر ایک کی زندگی میں ایک دقیق اور متقن نظام حیات پوشیدہ و مضمر پاتے ہیں جو ہر ایک کو اس کے کمال و جودی کے اعلیٰ درجہ تک پہنچاتا ہے ؛اب ہم سوال کرتے ہیں: جس نے ان انواع و اقسام اور رنگا رنگ مخلوقات کے لئے منظم نظام حیات بنایاوہ کون ہے ؟ اور اس کا نام کیا ہے ؟

یہ وہ بات ہے جس کے متعلق ہم خدا کی توفیق سے ربوبیت کی بحث میں تحقیق کے ساتھ بیان کریں گے ۔

۱۳۳

۴

ربوبیت کی بحثیں

۱۔ رب اور پروردگار

۲۔ رب العالمین کون ہے ؟

۳۔ مخلوقات کے بارے میں رب العالمین کی اقسام ہدایت

۱۔رب

اسلامی اصطلاحوں میں سب سے اہم ''رب'' کی اصطلاح ہے کہ اس کے روشن و واضح معنی کا ادراک ہمارے ئے آئندہ مباحث میں ضروری و لازم ہے ؛ جس طرح قرآن کریم کی بہت ساری آیات کا کلی طور پر سمجھنا نیز خدا وند عزیز کی خصوصی طور پر معرفت و شناخت اس لفظ کے صحیح سمجھنے اور واضح کرنے سے وابستہ ہے نیز پیغمبر، وحی ، امام، روز قیامت کی شناخت اور موحد کی مشرک سے پہچان اسی کے سمجھنے ہی پر موقوف ہیلہٰذا ہم ابتد ا میں اس کے لغوی معنی اس کے بعد اصطلاحی معنی کی تحقیق کریں گے :

الف۔ لغت عرب میں رب کے معنی

''رب'' زبان عربی میں مربی اور تدبیر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، نیز مالک اور صاحب اختیار کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔''رب البیت'' یعنی گھر کا مالک اور ''رب الضیعة؛ یعنی مدبر اموال ،پراپرٹی کا مالک اور ''رب الفرس'' یعنی گھوڑے کو تربیت کرنے والا یا اس کامالک۔

ب۔ اسلامی اصطلاح میں رب کے معنی

''رب'' اسلامی اصطلاح میں خدا وند عالم کے اسمائے حسنی میں شمار ہوتا ہے ، نیز رب نام ہے مخلوقات کے خالق اور مالک ، نظام حیات کے بانی اور اس کے مربی کا ،حیات کے ہر مرحلہ میں ، تاکہ ہر ایک اپنے کمال وجودی تک پہنچ سکے ۔( ۱ )

''رب'' قرآن کریم میں کہیں کہیں لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور ہم اس معنی کو قرینہ کی مدد سے جو دلالت کرتا ہے کہ اس سے مراد رب کے لغوی معنی ہیں سمجھتے ہیں، جیسے حضرت یوسف کی گفتگو اپنے قیدی

____________________

(۱)راغب اصفہانی نے کلمہ ''رب'' کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو خلط و ملط کردیا ہے اور ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا ہے ،کیونکہ مربی شۓ تمام مراحل کے طے کرنے میں درجہ ٔ کمال تک پہنچنے تک یہ معنی خاص طور پر اسلامی اصطلاح میں ہیں جبکہ راغب نے اس کو تمام معنی میں ذکر کیا ہے ۔

۱۳۴

ساتھیوں سے کہ ان سے فرمایا:

۱۔( أ أرباب متفرقون خیرأَم الله الواحد القهار ) ( ۱ )

آیا چند گانہ مالک بہتر ہیں یا خدا وند عالم واحد و قہار؟

۲۔( وقال للذی ظن انه ناجٍ منهما اذکرنی عند ربک ) ( ۲ )

جسکی رہائی اور آزاد ہونے کا گمان تھا اس سے کہا: میرا ذکر اپنے مالک کے پاس کرنا۔

جہاں پر''رب'' مطلق استعمال ہوا ہے اور کسی چیز کی طرف منسوب نہیں ہوا ہے وہاں مراد خداوندمتعال ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے :

( بلدة طیبة ورب غفور ) ( ۳ )

''پاک و پاکیزہ سر زمین اور غفور پروردگار''

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنا پر ''رب'' لغت عرب اور اسلامی اصطلاح میں مالک اور مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ اسلامی اصطلاح میں نظام حیات کے مؤسس اور بانی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جو زندگی کے تمام مراحل میں درجہ کمال( ۴ ) تک پہنچے کے لئے پرورش کرتا ہے اور اسی کے ساتھ مربی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس اضافہ کی صورت میں کامل مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اصطلاحی ''رب' ' کے دو معنی ہوئے یا اس کے معنی دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

راغب اصفہانی مادۂ ''قرئ'' کے ذیل میں فرماتے ہیں:

کوئی اسم بھی اگر ایک ساتھ دو معنی کے لئے وضع کیا جائے تو جب بھی تنہا استعمال ہوگا دونوں ہی معنی مراد ہوں گے ، جیسے ''مائدہ'' جو کہ کھانے اور دستر خوان دونوں ہی کے لئے ایک ساتھ وضع ہوا ہے لیکن تنہا تنہا بھی ہر ایک کو ''مائدہ'' کہتے ہیں۔

''رب'' کے معنی لغت عرب میں بھی اسی قسم کے ہیں، کبھی مالک تو کبھی مربی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اسلامی اصطلاح میں کبھی تربیت کرنے والے مالک اور کبھی ا س کے بعض حصہ کے معنی میں استعمال

____________________

(۱)یوسف ۳۹(۲) یوسف ۴۲.(۳)سبا۱۵

(۴) کلمۂ '' رب '' کلمہ ٔ '' صلاة '' کے مانند ہے کہ جو لغت عرب میں ہر طرح کے دعا کے معنی میں ہے اور شریعت اسلام میں مشہور اور رائج '' نماز '' کے معنی میں ہے

۱۳۵

ہوا ہے یعنی نظام زندگی کے بانی اور اس کا قانون بنانے والے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسے خداوندعالم کا کلام کہ فرمایا:

( اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله ) ( ۱ )

(یہود و نصاریٰ نے) اپنے دانشوروں اور راہبوںکو خدا کے مقابل قانون گز ار بنا لیا ۔

____________________

(۱)توبہ ۳۱

۱۳۶

۲۔ رب العالمین اور اقسام ہدایت

مقدمہ:

''رب العالمین'' کی بحث درج ذیل اقسام میں تقسیم ہوتی ہے۔

الف۔ ''رب العالمین'' کے معنی اور اس کی توضیح و تشریح۔

ب۔ اس کا خدا وند جلیل میں منحصر ہونا۔

ج۔ رب العالمین کی طرف سے ہدایت کی چہار گانہ انواع کا بیان درج ذیل ہے :

۱۔ فرشتوں کی ہدایت جو موت ، زندگی، عقل اور ارادہ رکھتے ہیں، لیکن نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت بلا واسطہ خدا وند عالم کی تعلیم سے ہوتی ہے ۔

۲۔ انسان و جن کی ہدایت جو موت، زندگی، عقل و ارادہ کے ساتھ ساتھ نفس امارہ بالسوء بھی رکھتے ہیں ان کی ہدایت پیغمبروں کی تعلیم اور انذار کے ذریعہ ہوتی ہے ۔

۳۔موت و زندگی کے حامل حیوانات جو عقل اور نفس امارہ بالسوء نہیں رکھتے ان کی ہدایت الہام غریزی کے تحت ہوتی ہے ۔

۴۔ بے جان اور بے ارادہ، موجودات کی ہدایت، تسخیر ی ہے ۔

الف:۔قرآن کریم میں رب العالمین کے معنی

خدا وند متعال نے فرمایا:

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔( سبح اسم ربک الاعلیٰ٭الذی خلق فسوی٭ و الذی قدر فهدی٭ و الذی اخرج المرعیٰ٭فجعله غثاء اَحوی )

خدا وند مہربان و رحیم کے نام سے

۱۳۷

اپنے بلند مرتبہ خدا کے نام کو منزہ شمار کرو جس خدا نے منظم طریقہ سے خلق کیا وہی جس نے اندازہ گیری کی اور ہدایت کی وہ جس نے چراگاہ کو وجود بخشا پھر اسے خشک اور سیاہ کردیا۔( ۱ )

۲۔( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدی )

ہمارا خدا وہی ہے جس نے ہر چیز کو زیور تخلیق سے آراستہ کیا اور اس کے بعد ہدایت فرمائی۔( ۲ )

۳۔( خلق کل شیء فقدره تقدیرا )

اس نے ساری چیزوں کو خلق کیا اور نہایت دقت و خوض کیساتھ اندازہ گیری کی۔( ۳ )

۴۔( وعلّم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علیٰ الملائکة فقال انبئونی باسماء هٰؤلاء ان کنتم صادقین٭ قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم )

اسرار آفرینش کے تمام اسما ء کا علم آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچے ہو تو ان کے اسماء مجھے بتائو!

فرشتوں نے کہا: تو پاک و پاکیزہ ہے! ہم تیری تعلیم کے علاوہ کچھ نہیں جانتے؛ تو دانا اور حکیم ہے۔( ۴ )

۵۔( شرع لکم من الدین ما وصیٰ به نوحاً و الذی اوحینا الیک و ما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیه... )

اس نے تمہارے لئے ایک آئین اور نظام کی تشریع کی جس کی نوح کو وصیت کی تھی اور جو کچھ تم پر وحی کی ہے اور ابراہیم موسیٰ، عیسیٰ کو جس کی سفارش کی ہے وہ یہ ہے کہ دین قائم کرو اور اس میں تفرقہ اندازی نہ کرو۔( ۵ )

۶۔( انا اوحینا الیک کما اوحینا الیٰ نوحٍ و النبیین من بعده و اوحینا الیٰ ابراهیم و اسماعیل و اسحق و یعقوب و الاسباط و عیسیٰ و اَیوب و یونس و هارون و سلیمان و آتینا داود زبوراً و رسلاً قد قصصنا هم علیک من قبل و رسلاً لم نقصصهم علیک وکلم الله موسیٰ

____________________

(۱)اعلیٰ ۱۔۵(۲)طہ۵۰(۳) فرقان ۲(۴)بقرہ۳۱۔۳۲(۵)شوریٰ۱۳

۱۳۸

تکلیماً ٭ رسلاً مبشرین و منذرین... )

ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی کی جس طرح نوح اور ان کے بعدکے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ، اسماعیل، اسحق، یعقوب، اسباط، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو ہم نے زبور دی ،کچھ رسول ہیں جن کی سر گز شت اس سے قبل ہم نے تمھارے لئے بیان کی ہے ؛ نیزکچھ رسول ایسے بھی جن کی داستان ہم نے بیان نہیں کی ہے ؛ خدا وند عالم نے موسیٰ سے بات کی ، یہ تمام رسول ڈرانے والے اور بشارت دینے والے تھے...( ۱ )

۷۔( نزل علیک الکتاب بالحق مصدقاً لما بین یدیه و انزل التوراة والأِنجیل من قبل هدیً للناس... )

اس نے تم پر کتاب ،حق کے ساتھ نازل کی، جو گز شتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ا س سے پہلے توریت اور انجیل لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی۔( ۲ )

۸۔( وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون )

میں نے جن و انس کوصرف اپنی بندگی اور عبادت کے لئے خلق کیا۔( ۳ )

۹۔( یا معشر الجن و الانس اَلم یأتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی و ینذرونکم لقاء یومکم هذا قالوا شهدنا علیٰ انفسنا و غرتهم الحیوٰة الدنیا و شهدوا علیٰ انفسهم انهم کانوا کافرین )

اے گروہ جن و انس! کیا تمہارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے کہ ہماری آیتوں کو تمہارے لئے بیان کرتے اور تمہیں ایسے دن کی ملاقات سے ڈراتے؟!

ان لوگوں نے کہا : (ہاں) ہم اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں؛ اور انہیں زندگانی دنیا نے دھوکہ دیا: اور اپنے نقصان میں گواہی دیتے ہیں اسلئے کہ وہ کافر تھے!( ۴ )

۱۰۔( و اذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن فلما حضروه قالوا انصتوا فلما قضی ولوا الیٰ قومهم منذرین٭قالوا یاقومنا انا سمعنا کتاباً انزل من بعد موسیٰ مصدقاً لما بین یدیه یهدی الیٰ الحق و الیٰ طریق مستقیم ٭یا قومنا اجیبوا داعی الله و آمنوا به یغفرلکم

____________________

(۱)نسائ۱۶۳۔۱۶۵(۲)آل عمران۳۔۴(۳)ذاریات ۵۶(۲)انعام۱۳۰

۱۳۹

من ذنوبکم و یجرکم من عذاب الیم٭و من لا یجب داعی الله فلیس بمعجزٍ فی الارض و لیس له من دونه أَولیاء اولئک فی ضلالٍ مبین ) ۔

اور جب ہم نے جن کے ایک گروہ کو تمہاری طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن مبین کو سنیں؛ جب سب ایک جگہ ہوئے تو ایک دوسرے سے کہنے لگے: خاموش ر ہو! اور جب تلاوت تمام ہوگئی تو اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے اور انہیں ڈرایا! اور کہا: اے میری قوم! ہم نے ایک ایسی کتاب کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے اور گز شتہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتی ہے اور راہ راست اور حق کی ہدایت کرتی ہے ؛ اے میری قوم !اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لائو تاکہ وہ تمہارے گناہوںکو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے!اورجو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جواب نہیں دے گا، وہ کبھی زمین میں عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتا اور اس کیلئے خدا کے علاوہ کوئی یا رو مددگاربھی نہیں ہے ، یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔( ۱ )

۱۱۔( قل اوحی الی انه استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجباً، یهدی الیٰ الرشد فامنا به ولن نشرک بربنا احدا٭ و انه تعالیٰ جد ربنا ما اتخذ صاحبةً و ولا ولداً٭ و انه کان یقول سفیهنا علیٰ الله شططاً٭ وانا ظننا ان لن تقول الانس و الجن علیٰ الله کذبا٭و انه کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا٭ و انهم ظنوا کما ظننتم ان لن یبعث الله احدا٭ و انا لمسنا السماء فوجدنا ها ملئت حرساً شدیداً و شهباً٭و انا کنا نقعد منها مقاعد للسمع فمن یستمع الآن یجد له شهاباً رصدا و انا لا ندری اشر ارید بمن فی الارض ام ارادبهم ربهم رشداً٭ وانا منا الصالحون و منا دون ذلک کنا طرائق قددا٭ و انا ظننا ان لن نعجز الله فی الارض و لن نعجزه هرباً٭ و انا لما سمعنا الهدی آمنا به فمن یومن بربه فلا یخاف بخساً ولا رهقا٭ وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاُولٰئک تحروا رشداً٭ و اما القاسطون فکانوا لجهنم حطباً٭ و ان لو استقاموا علیٰ الطریقة لاسقیناهم مائً غدقاً٭ لنفتنهم فیه و من یعرض عن ذکر ربه یسلکه عذاباً صعداً )

کہو!میری طرف وحی کی گئی ہے کہ کچھ جنوں نے میری باتوں پر توجہ دی اور بولے : ہم نے ایک عجیب

____________________

(۱)احقاف ۲۹۔۳۲

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416