ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215583 / ڈاؤنلوڈ: 4976
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

 صرف دوسروں کے لیے دعا کریتیں ہیں۔” اس عظیم ماں نے جواب دیا “يَا بُنَيَّ الْجَارَ ثُمَ‏ الدَّارَ.” بیٹے دعا میں ہمارا ہمسایہ ہم پر مقدم ہوتا ہے” زہرا(ع) جیسی ماں حسن(ع) کی پرورش کرنے والی تھیں یہ روایت آپ سے مروی ہے۔

 “إِنَّ رَجُلًا أَتَى الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي أَعِنِّي عَلَى قَضَاءِ حَاجَةٍ فَانْتَعَلَ وَ قَامَ مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى الْحُسَيْنِ ص وَ هُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ أَيْنَ كُنْتَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ تَسْتَعِينُهُ عَلَى حَاجَتِكَ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَذُكِرَ أَنَّهُ مُعْتَكِفٌ فَقَالَ لَهُ أَمَا إِنَّهُ لَوْ أَعَانَكَ كَانَ خَيْراً لَهُ مِنِ‏ اعْتِكَافِهِ‏ شَهْراً.”

“ ایک شخص کو کوئی ضرورت پیش آئی تو اس نے آپ کو وسیلہ بنایا آپ اس کی خاطر چلے گئے۔ راستے میں دیکھا کہ حضرت امام حسین(ع) نماز پڑھ رہے ہیں آپ نے اس مرد سے پوچھا کہ تم نے حسین(ع) سے اس بارے میں رابطہ کیوں نہیں کیا اس شخص نے جواب دیا کہ امام حسین(ع) اس وقت مسجد میں اعتکاف میں تھے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ تمہاری ضرورت پوری کرتے تو ایک مہینے کے اعتکاف سے بہتر تھا۔

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نسب کے اعتبار سے تمام لوگوں کے سردار تھے حسب اور دیگر فضائل انسانی کے بارے میں آپ سے ہی سنتے ہیں۔

جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت پائی تو آپ (ع) نے فرمایا “ ہم اہل بیت حزب اﷲ ہیں جس کی زیادہ دفعہ معرفت کرادی گئی ہے“فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ‏” بے شک حزب اﷲ ، اﷲ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔” ( سورہ مائدہ آیت 56 ) ہم عترت رسول(ص) ہیں کہ حضور اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کی رو سے ہمیں قرآن کے ہم پلہ اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے۔

“إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ‏ كِتَابَ‏ اللَّهِ‏ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ”

“ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی مگر یہ

۶۱

 کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں”

 ہم ہی قرآن کی  تنزیل و تاویل کے عالم ہیں ہمیں قرآن میں معصوم اور مطہر کے نام سے پکارا گیا ہے۔

“ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً”

“ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن میں ان کو یہ حکم دیا گیا ہے۔

حضرت امام حسن(ع) کا صلح کرنا

حضرت امام حسن علیہ السلام کے اقدامات میں سے مسلمانوں اور اسلام کے لئے مفید اقدام معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ہے آپ کا یہ اقدام ان لوگوں کے نزدیک جو اسلام اور تاریخ سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں مورد شک قرار پاتا ہے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح قیام کیوں نہیں کیا۔

جو بات سب سے پہلے ذہن میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین(ع) کا قیام حضرت امام حسن(ع) کے صلح کے بیس سال بعد واقع ہوا ہے امام حسین علیہ السلام دس سال تک حضرت امام حسن علیہ السلام کےساتھ رہے اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے بعد دس سال امام کا مںصب بھی تھا، اختیار بھی تھا لیکن ان دس سالوں میں قیام نہیں کیا۔ امامت کے ان دس سالوں کے بعد آپ نے قیام کیا۔ کیا امام حسین(ع) کے اس تاخیر پر کسی کو اعتراض ہے؟ قطعی نہیں! اگر اس منزل پر کوئی اعتراض ہے تو صرف امام حسن علیہ السلام پر نہیں بلکہ دونوں اماموں پر ہو جاتا ہے یہ بات خود اس کی دلیل ہے کہ قیام کرنا اور تحریک چلانے کے لیے موقع و محل درکار ہے اور ان بیس سالوں میں اس قسم کا کوئی موقع و محل موجود نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ امیر معاویہ موجودہ اصطلاح میں ایک ماہر سیاستدان تھا۔ اور ہر ممکن ذریعے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جھوٹ ، فریب ، ظلم و قتل و غارت گری، پارٹی بازی ،

۶۲

 یا رشوت دے کر جو بھی ذریعہ اختیار کرنا پڑے اختیار کرتا تھا۔ اور ان ہی ذرائع کے وجہ سے اس کی حکومت قائم رہی جس کا ذکر تمام سنی و شیعہ کتب تاریخ میں موجود ہے۔ امیر معاویہ نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف سے تیس سال حکومت کی۔ ابن ابی الحدید کے کہنے کے مطابق حضرت عمر اپنے گورنروں کے ساتھ غیر معمولی حد تک سخت گیر تھے یعنی جب ابوہریرہ کےبارے میں سنا کہ دس ہزار درہم اس کے ذاتی جمع ہیں تو انہیں فورا اپنے دربارمیں بلایا اور کوڑے مارے یہاں تک کہ اس پیٹھ پر زخم پڑ گئے۔ اسے عہدے سے معزول کرنے کے علاوہ اس کا مال بھی ضبط کیا۔ جب خالد بن ولید کے  بارے میں سنا کہ اشعث بن قیس کو دس ہزار درہم ہدیہ دیا ہے تو حکم دیا اسے حمص میں ہی جہاں کے وہ گورنر تھے اس کے عمامے سے گلے میں باندھ کر ذلیل کر کے مسجد میں لے جایا جائے اور اس کے بعد اسے معزول کیا جائے۔ ایسا ہی کچھ  ابو موسی اشعری، قدامہ بن نطعون اور حارث بن وہب کے ساتھ ہوا مگر معاویہ کے معاملے میں آپ بھی خاموش رہے اور دیکھتے رہے کہ عالی شان محل ہے خود وہ اور اس کے احباب ریشم کا لباس پہننے ہیں۔ ، کفار کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اسراف میں تو مشہور ہوئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بدھ کے دن جمعہ کی نماز پڑھا کر اپنے وفاداروں کو آزمادیا گیا۔ امیر شام ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے رسول(ص) کے صحابہ کو اپنے گرد جمع کیا ابو ہریرہ ، ابو موسی اشعری جیسے لوگوں کو جعلی حدیثیں گڑھنے کے لیے خریدا ہوا تھا عمر ابن عاص جیسے شخص کو خریدا ہوا تھا جس نے نیزے پر قرآن کو بلند کیا۔ ثالث کی پیشکش اور ابو موسی کا فریب دینا تو تاریخ میں مسلم ہے معاویہ فوجی انتظام کا ماہر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) کا ایک آدمی ایک دفعہ شام چلا گیا  معاویہ نے کہا کہ جاکر ان کی اونٹی کو چرائے ایسا ہی کیا گیا لیکن تلاش کے بعد جب اس شخص نے اونٹنی کو کسی کے پاس

۶۳

دیکھ کر دعویٰ دائر کیا تو مدعا علیہ نے چالیس گواہ پیش کئے یہ اونٹ اسی کا ہے جب کہ مدعی کا دعوی اونٹنی پر تھا۔ گواہی کے مطابق اونٹنی کو اونٹ قرار دے کر مدعا علیہ کو دیا گیا مگر معاویہ نے مدعی کو بلا کر ایک اونٹنی اور بہت رقم دے کر کہا میری طرف سے جا کر علی ابن ابی طالب(ع) کو کہو کہ ان گواہوں جیسے لاکھوں افراد کو تمہارے ساتھ جنگ پر بھیجوں گا جو اونٹ اور اونٹنی میں فرق نہیں جانتے ۔”

حضرت امام حسن(ع) کے حامی

جن لوگوں نے حضرت امام حسن(ع) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ایسے لوگ تھے جنہوں نے جنگ جمل، صفین اور نہروان وغیرہ میں شرکت کی تھی تھکے ہوئے اور نا امید تھے ایسے افراد تھے جن کے درمیان خوارج اور ان کے طرف دار ان کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے انہوں نے حضرت امام حسن(ع) کی بیعت اس لئے کی ہوئی تھی کہ اگر معاویہ پر امام فتح پائیں تو یہ آپ (ع) کو ہٹا کر خود حکومت کریں لیکن ان کے درمیان اہلیت رکھنے والے افراد بہت کم تھے لہذا معاویہ رقم عہدوں اور انعام کا لالچ دے کر بڑے بڑے سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا اور یہ سردار راتوں رات معاویہ کی صفوں میں چلےگئے اور لشکر بغیرسرداروں کے رہ گیا اگر ایسے وقت میں امام حسن(ع) صلح نہ کرتے تو بڑی خونریزی کے بعد معاویہ امام(ع) کو آپ کے حامیوں کے ہاتھ قتل کراتا اور شام میں سوگ کی مجلس قائم کرتا۔

حضرت امام حسن(ع) کی صلح

امیرالمومنین (ع) کا ثالثی قبول کرنا اور حضرت امام حسن(ع) حضرت امام حسین(ع) کا قیام تینوں کی بنیاد اور سرچشمہ ایک ہے۔ حسن(ع) نے صلح کی اور حسین(ع) نے صبر کیا اس حد تک کہ معاویہ اس کا اقتدار اور اس کے حامیوں کا وجود مٹ گیا، حضرت امام حسین(ع) کے فرمان کے

۶۴

کے مطابق جب معاویہ مر گیا تو عوام کا دل بنی امیہ کے بغض اور اہل بیت(ع) کی محبت سے بھر چکا تھا۔ معاویہ کے مرتے ہی اس کی سیاست بھی ختم ہوئی اور حکومت ایک عیاش احمق اور مغرور شخص کے ہاتھوں میں آئی وہ بد بخت اس منزل پر پہنچا ہوا تھا کہ کمال قساوت قلبی کے ساتھ حسین(ع) کو شہید کیا ان کے اہل بیت(ع) کو شہروں میں پھرایا حسین(ع) کے قتل کی خوشی میں ایک محفل منعقد کی اور اپنے ان اشعار کو سنایا۔ گویا اس طرح لوگوں کے ہاتھ میں چراغ دیکر کہتا ہو کہ بنی امیہ کے ظلم وجور کو اچھی طرح دیکھو ان کے اسلام کو پہچانو اس کے کفر آمیز اشعار  یہ ہے۔

لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوا           جَزَعَ الْخَزْرَجِ مِنْ وَقْعِ الْأَسَلِ‏

لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً               ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

بنی ہاشم نے ایک ڈھونگ رچایا ہوا تھا نہ تو ان پر کوئی وحی آئی اور نہ کوئی نبوت ملی تھی ہم نے اپنے بدر کے کشتگان کا بدلہ لیا ور برابری کی کاش اس وقت میرے بدر کے بزرگ زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ ہم نے ان کا بدلہ کس طرح لیا۔

اس مجلس میں علی(ع) کے لہجے میں بولنے والی زینب(ع) بھی موجود تھیں۔ جو کچھ انہیں کہنا چاہئے تھا کہا۔ جامع مسجد میں امام سجاد(ع) کو منبر پر جانے کی اجازت ملی جنہوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا۔

۶۵

یزید نے اپنی حکومت کے دوسرے سال“ جنگ حرہ” کا آغاز کیا اور مدینہ کے عوام کا قتل عام کیا۔ اور خانہ خدا کو آگ لگا دی اور معاویہ کے مرتے ہی امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اسلام کی بقاء آپ(ع) کے اسی قیام کی مرہون منت ہے۔ لیکن یہ فراموش نہ کیا جائے کہ امام حسن(ع) کی صلح اور صبر دونوں امام کے قیام کے لئے میدان فراہم کرنا تھا۔ حسین(ع) کا قیام مکمل طور پر حسن(ع) کی صلح سے مربوط ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے شاید اس مرحلے کے لئے فرمایا تھا کہ حسن(ع) و حسین(ع) چاہے بیٹھے ہوئے ہوں یا قیام کریں دونوں حالتوں میں امام واجب الاطاعت ہیں۔ یعنی اگر قیام کریں تو ان کی پیروی کریں۔ اور اگر قیام نہ کریں تو بھی ان کی پیروی کریں۔

اپنی وفات کے وقت حضرت امام حسن علیہ السلام نے جنادہ کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ جنادہ کہتا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر میں نے کسی نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا ۔ “ اے جنادہ موت کے آنے سے پہلے ہر وقت موت کے لیے تیار رہو، موت کے سفر، اپنی قبر اور قیامت کے لیے زادہ راہ تیار کرو۔ جنادہ! دنیا کے لیے اس قدر کوشش کرو جیسے تم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے تیاری اس طرح کر جیسے کل ہی تم نے مرنا ہے۔ اگر قوم و قبیلہ کے بغیر عزت اور اقتدار کے بغیر ہیبت چاہتے ہو تو معصیت الہی کے ذلیل لباس کو اتار پھینکو اور اﷲ کی اطاعت کے معزز لباس کو پہنو۔”

۶۶

حضرت امام حسین علیہ السلام

آپ کانام نامی حسین(ع) ہے اس نام کو پرودگار عالم نے آپ کے لیے پسند فرمایا۔ آپ کی مشہور کنیت “ ابو عبداﷲ” ہے۔ آپ کے مشہور القاب سید الشہداء اور “ المظلوم” اور “ الشہید” ہیں۔ آپ کی مدت عمر تقریبا 56 سال ہے۔ آپ نے 4 ہجری کو شعبان کی تیسری تاریخ میں ولادت پائی اور 61ہجری میں دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال کی تھی تو آپ کے نانا حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت پائی اور زندگی کے تیس سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی (ع) کے زیر سایہ گزارے اور والد ماجد کی شہادت کے بعد دس سال تک اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام  کی معیت میں زندگی گزاری اس کے بعد آپ کی امامت کی مدت بھی دس سال ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ان فضائل کے علاوہ جو حسب و نسب کے اعتبار سے تمام اہل بیت(ع) کو حاصل ہیں کچھ امتیازی فضائل کے بھی حامل ہیں۔ سب سے پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ آپ کے صلب سے ہی ائمہ معصومین(ع) کا سلسلہ جاری رہا۔ اس بارے حضور اکرم(ص) سے احادیث موجود ہیں۔ جو اس امیتاز کی تصریح کرتی ہیں۔ حضرت سلمان فارسی(رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین (ع) حضور اکرم(ص) کی گود میں ہیں آپ (ص) نے انہیں پیار کرتے ہوئے فرمایا ۔

“ أَنْتَ‏ السَّيِّدُ ابْنُ السَّيِّدِ أَبُو السَّادَةِ أَنْتَ الْإِمَامُ ابْنُ الْإِمَامِ أَبُو الْأَئِمَّةِ الْحُجة أَبُو الْحُجَجِ تِسْعَةً مِنْ صُلْبِكَ وَ تَاسِعُهُمْ قَائِمُهُمْ.”

۶۷

“ تم سرداروں کے سردار  ہو اور سرداروں کے باپ ہو تم امام(ع) کے فرزند ہو اور خود بھی امام(ع) ہو بلکہ اماموں کے باپ ہو تم حجت خدا ہو اور خدائی حجتوں کے باپ ہو اور نو حجت تمہارےصلب سے ہی ہوں گے جس میں سے نواں “ قائم آل محمد(ص)” ہوگا۔

دوسرا امتیاز

یہ ہے کہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام کو ہمیشہ کی زندگی ملی اور اسلام کا دوام آپ کی شہادت کا مرہون منت ہے۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کے اہل بیت(ع) اسیر نہ ہوئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا ۔ اسی وجہ سے حضور اکرم(ص) نے فرمایا تھا۔حسين منی و انا من الحسين ” “ حسین (ع) مجھ سے ہیں اور میں حسین(ع) سے ہوں” اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسی امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب آپ سے بیعت طلب کی گئی تو فرمایا “لو بايعت يزيد فعلی الاسلام السلام ” اگر میں یزید کی بیعت کروں تو اسلام پر فاتحہ پڑھی جانی چاہئیے یعنی اس کا نام نشان مٹ جائے گا۔

اس قسم کے بیانات خود رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات میں بھی موجود ہیں۔

تیسرا امتیاز

حضرت امام حسین (ع) کا یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت جاگزین ہے جیسے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا ۔“إِنَّ لِلْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي‏ قُلُوبِ‏ الْناس لَا تَبْرُدُ أَبَداً” بے شک دلوں میں حسین(ع) کی محبت کے شعلے بھڑک رہے ہیں جو کبھی بجھنے والے نہیں۔ ”

۶۸

چوتھا امتیاز

حضرت ابو عبداﷲ کا یہ ہے کہ خداوند عالم نے آپ کی تربت میں شفا رکھی ہے اور آپ کے ھرم مطہر میں دعا کی قبولیت متواتر اور قطعی روایات سے ثابت ہے۔

پانچواں امتیاز

آپ کے عظیم امتیازات میں سے ہے کہ آپ نے عشق و محبت ، فداکاری ، جان نثاری اور اﷲ کی راہ میں قربانی کے مفاہیم کو عملی طور پر معنی بخشے۔

“اللَّهُمَّ أَنْتَ‏ ثِقَتِي‏ فِي كُلِّ كُرْبَةٍ وَ أَنْتَ رَجَائِي‏فِي كُلِّ شِدَّةٍ وَ أَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِي ثِقَةٌ وَ عُدَّةٌ كَمْ مِنْ كَرْبٍ يَضْعُفُ عَنْهُ الْفُؤَادُ وَ تَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ وَ يَخْذُلُ عَنْهُ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ يَشْمَتُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَعْنِينِي فِيهِ الْأُمُورُ أَنْزَلْتُهُ بِكَ وَ شَكَوْتُهُ إِلَيْكَ رَاغِباً فِيهِ عَمَّنْ سِوَاكَ فَفَرَّجْتَهُ وَ كَشَفْتَهُ وَ كَفَيْتَنِيهِ فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ وَ صَاحِبُ كُلِّ حَاجَةٍ وَ مُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَة”

“ میرے پروردگار تو میرے ہر رنج و غم میں میری پناہ گاہ ہے اور مایوسی کے وقت تو ہی امید ہے اور جو کچھ بھی میرے لئے پیش آتا ہے اس میں میرا مددگار اور میری پناہ ہے۔ کتنے سارے غم ایسے ہیں جو دلوں کو کمزور کرتے ہیں راہ چارہ کو مسدود کرتے ہیں۔ دوستوں کو غمگین اور دشمنوں کو خوشحال کرتے ہیں سب تیرے سامنے پیش کرتا ہوں اور ان کی شکایت بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں صرف اس لیے کہ میں تیری طرف ہی رغبت رکھتا ہوں اور تیرے غیر کی طرف نہیں ۔تو نے وہ غم بر طرف کردیئے تو تمام نعمتوں اور خوبیوں کا مالک ہے اور آرزؤں کی منتہا تیری ہی ذات ہے۔”

آپ نے اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کیا مال ، جان ، عیال ، دوست و احباب ، اولاد ، یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کو بھی قربان کیا اور صحرائے کربلا میں اپنے قتل ہونے کی جگہ یوں فرماتے ہیں۔

۶۹

             تركت‏ الخلق‏ طريّا في هواكا                      و أيتمت العيال لكى أراكا

             و لو قطّعتنى في الحبّ إربا                      لما حنّ الفؤاد إلى سواكا

“ میرے پروردگار ! تیری راہ میں ، میں نے تمام مخلوق سے رشتہ توڑا ہے تجھ سے ملاقات کرنے کے لیے میں نے اپنے تمام متعلقین سے آنکھیں چرالیں ہیں۔ میرے پروردگار اگر تیری راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاؤں تو بھی ہرگز تیرے غیرے کی طرف مائل نہیں ہوں گا۔”

یہ سیرالی اﷲ پر ایمان کی حقیقت ہے۔ اﷲ پر یقین و عرفان کی حقیقت بندگی اور فنا فی اﷲ کی حقیقت ، یہی تقوی اور ماسوی اﷲ سے نہ موڑنے کی حقیقت ہے اپنے امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی ایسا ہی تھا۔ آپ کے خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت اسلام کو شدید خطرہ لاحق تھا جس دن آپ نے مدینہ سے کوچ کیا یوں فرمایا۔

“إِنِّي‏ لَمْ‏ أَخْرُجْ‏ بَطِراً وَ لَا أَشِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ أَطْلُبُ الصَّلَاحَ فِي أُمَّةِ جَدِّي”

“ میں نے قیام اس لئے نہیں کیا کہ میں اﷲ کی زمین پر فساد پھیلاؤں یا ظلم کروں بلکہ میرا قیام اس لئے ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور پدر بزرگوار کی سیرت پر چلوں  اور اپنے نانا کی امت میں جو مفاسد رواج پاگئے ہیں ان کی اصلاح کروں۔” کربلا معلیٰ میں پہنچ کر جب کہ تمام صحابہ شہادت کے لیے تیار اور کمر بستہ تھے آپ نے یوں خطاب فرمایا۔

۷۰

 “ألا ترون‏ أنّ‏ الحقّ‏ لا يعمل به، و أنّ الباطل لا ينتهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء اللَّه محقّا، فإنّي لا أرى الموت إلّا سعادة، و لا الحياة مع الظّالمين إلّا برما ”

“ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے نہیں روکا جارہا ہے ایسے حالات میں تو مومن موت کی تمنا ہی کرسکتا ہے بے شک اس طرح مرنے کو میں سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمون کے ساتھ زندہ رہتا سوائے بد بختی کے اوپر کچھ نہیں۔”

امام علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات بہت سارے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت اسلام شدید خطرے سے دوچار فضا اور وقت کا تقاضا بھی قیام وتحریک کا تھا۔ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ یزید کے خلاف آپ کا قیام کرنا ایک الہی فریضہ تھا۔

حضرت امام حسین (ع) کے قیام کے اسباب پر تحقیق کرنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر بطور اجمال آپ کے قیام کے اسباب پر روشنی ڈالتے نفس اور دشمن پر غلبہ پانے کی حقیقت اور شجاعت کی حقیقت بھی وہی ہے جسے حسین(ع) نے سکھایا اور زمانے کی گردشوں میں گم نہ ہونے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ جوانمردی اور مردانگی کی حقیقت، سخاوت کی حقیقت ، رحمدل اور مہربانی کے معنی، خدا، اس کے دین اور اس کی مخلوق کے سامنے انکساری برتنے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ حکم کا مفہوم سکھایا ۔ اور فصاحت و بلاغت کے معنی اپنے کرداد اور گفتار سے سمجھا دیئے۔ یہی سیاست کی حقیقت ہے اور عدالت کا مفہوم ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ کی حقیقت ہے۔ خلاصہ یہ کہ تمام انسانی فضائل کی حقیقت عملا یکجا کر کے بتادی۔ اس لئے تو حضور اکرم(ص) کا ارشاد “:إنّ‏ الحسين‏ مصباح‏ الهدى‏ و سفينة النجاة ” حسین(ع) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔” کا مطلب معلوم ہوجاتا ہے۔ اور اگر حضور اکرم(ص)

۷۱

نے یہ فرمایا ہے کہ

“ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى أَحَبِ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى‏ الْحُسَيْنِ‏”

“ جو کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ آسمان و زمین کے پسندیدہ تر شخص کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ حسین(ع) کو دیکھے۔ ” تو بھی اس کا مطلب یہی ہے۔

آپ نے فرمایا “من لحق بي استشهد و من‏ تخلّف‏ عنّى‏ لم يبلغ الفتح ابدا”

جو کوئی میرا ساتھ دیدے اور میرے ساتھ آئے گا تو شہادت پائے گا جو روگر دانی کرتے ہوئے اس خونین قیام میں شرکت نہیں کرے گا تو کبھی بھی نجات نہیں پاسکے گا۔” “ شب ترویہ” میں آپ کے خطبے میں ہم پڑھتے ہیں آپ(ع) نے فرمایا۔

“مَنْ‏ كَانَ‏ بَاذِلًا فِينَا مُهْجَتَهُ، فَلْيَرْحَلْ  معنا غدا فَإِنِّا رَاحِلون غداً، إِنْ شَاءَ اللَّهُ.”

“ جو کوئی ہمارے ساتھ خون دینا چاہتا ہے ہمارے ساتھ کل چلے انشاء اﷲ ہمیں کل روانہ ہونا ہے۔”

آپ کے ان ارشادات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کو خطرہ لاحق ہو اور تحریک چلانا اسلام کے لئے فائدہ مند ہو، چاہے قیام و تحریک کی صورت میں شہادت کا یقین بھی ہو تو ہر ایک کا فریضہ قرار پاتا ہے کہ قیام کرے اور حضرت اس دوسری موج کے لئے اور دائمی موج کی ضرورت ہے تاکہ یہ دوسری زندہ اور متحرک رہے اور یہ تیسری موج عزاداری ، نوحہ سرائی، گریہ، سینہ زنی اور زیارت حسین(ع) کی موج ہوسکتی ہے۔ علاوہ اس کے کہ عزاداری انسان میں فداکاری ، ایثار و قربانی اور شہادت کی روش اور شہید پروری کا جذبہ ابھارتی ہے۔ اور اگر رہبر اعلیٰ قابلیتوں کا مالک ہو تو ان مجالس سے کافی حد تک لوگوں کے انسانی جذبے کو ابھار سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عمومی تعلیمات کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ تہذیب نفس کے مرحلے خصوصا صبر، استقامت ، شجاعت اور پستی قبول نہ کرنے کا

۷۲

 جذبہ اس کے براہ راست اثرات ہیں۔

ایسی مجالس کا ایک اور پہلو اسلام کے عظیم قوانین میں سے دو عظیم قوانین کا احیاء کرنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔

حسین(ع) پر روانا مجالس عزاء کا انعقاد ، ماتمی دستوں کی تشکیل ، نزدیک یا دور سے زیارت کرنا، پانی کی سبیلوں کی تعمیر اور امام بارگاہوں کی تعمیر کرنا، ولایت کے مکتب کو زندہ رکھنا ہے۔ خون حسین(ع) کو زندہ رکھنا ہے، انقلاب کی روح کو زندہ رکھنا ہے تاکہ انجام کار آخری رہبر حضرت بقیہ اﷲ عجل اﷲ تعالی فرجہ کے ذریعے عالمی انقلاب کا سامان فراہم ہوسکے۔ اگرچہ عزاداری کے برپا کرنے کا ثواب، زیارت کا  ثواب، مجالس کے انعقاد پر ثواب مستحق ہے مگر ان سب کی اصل اور بنیاد اس لیے ہے کہ اس قسم ی مجالس کامیابی کا رمز اور شیعت کی بقاء ، مکتب ولایت کو زندہ رکھنے اور انجام کار لوگوں کو حسین(ع) کے پرچم تلے لے آنا ہے اور تمام کوحسین(ع) اور اس کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ بقول جوش۔

انسان کو بیدار تو ہونے لینے دو                    ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین(ع)

ہوئے ہم چند اسباب کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں۔

ثقیفہ بنی ساعدہ کی کار روائی کے بعد “ حسبنا کتاب اﷲ ” کے نعرے نے زور پکڑا اور رسول اکرم(ص) کی احادیث کی جمع آوری پر پابندی لگ گئی یہاں تک کہ حضرت ابوبکر نے حضور اکرم(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں انہیں عوام کے سامنے لاکر جلادیا اب اگر تائید قرآن سے حاصل کی جاتی تو ثقیفہ کی کار روائی ملغی ہوجاتی لہذا کہا گیا۔ 

“ نهينا عن‏ التّعمّق والتکال فی القرآن”

ہمیں قرآن میں غور و فکر اور دقت

۷۳

 کرنے کی زحمت سے منع کیا گیا ہے اس خیال و فکر کو ترویج دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ فکر اور روش امت کو کس قدرفکر ، کامل اور بے ہمت بنائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور مصیبت طبقاتی گروہوں کی صورت میں ظاہر ہوتی جس کے بارے میں امیرالمومنین (ع) خطبہ شققیہ میں فرماتے ہیں۔

“و قام معه بنو أبيه يخضمون‏ مال اللّه خضم الإبل نبتة الربيع”

“ بنی امیہ نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو اس طرح ختم کیا جس طرح بہار کے سبزے کو اونٹ ختم کرتے ہیں۔ ” اس کے ساتھ ایک اور مصیبت جعلی روایات و احادیث کی بھر مار کی صورت میں شروع ہوئی۔ علماء نما درباری افراد اس طریقے سے اسلام کے ستونوں کو ڈھانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان تمام روایات میں سے ایک روایت نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں ایک روایت یوں گھڑی گئی۔

“اذا نزلت سوره انجم فقراها رسول اﷲ للمشرکين فاذا قرا افرايتم اللات ولعزی ومنات الثالثه الاخری القی الشيطان فی فمه و قال تلک القرانيق العلی شفاعتهن لترجی فالمشرکون سروا بذالک  فسجد رسول اﷲ و سجد المشرکون معه”

ترجمہ :۔“  جس وقت سورہ نجم نازل ہوئی تو حضور اکرم (ص) نے مشرکوں کو سنایا لیکن جب آیتافرايتم اللات ولعزی پڑھنے لگے تو شیطان نے آپ کے منہ سے یہ جملے بھی کہلوا دئے کہ وہ عالی شیر، بت، قیامت کے دن تینوں شفاعت کریں گے یہ سن کر مشرک بڑے خوش ہوئے اور جب حضور (ص) نے سجدہ کیا تو مشرکوں نے بھی خوش ہو کر سجدہ کیا۔”

بدیہی ہے کہ اس قسم کی روایات اسلام قرآن اور پیغمبر(ص) کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتیں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایک رعب اور خوف مسلط رہا خصوصا

۷۴

 معاویہ کے دور کہ ادھر کسی نے آہ کھینچی اور قتل ہوا ان تمام عوامل اور اسباب نے ایک ایسا موقع فراہم کیا کہ یزید ایک شخص عوام پرحاکم ہوتے ہوئے منبر سےیہ کہدے کہ

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

“ تو کوئی وحی آئی اور نہ خبر آئی بلکہ بنی ہاشم نے حکومت حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔” تو کیا ایسے حالات کے پیش نظر امام حسین(ع) کے لئے وظیفہ شرعی نہ بنتا تھا کہ ایسے شخص کے خلاف قیام کریں۔

بہر حال حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے حضرت ابو عبداﷲ کی زیارت اور عزاداری کے بارے میں بہت سفارش کی ہے اور اس کے عظیم ثواب گنائے ہیں ایسی روایات میں سے ایک ہم وسائل الشیعہ میں سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد تھوڑی سی ترضیح بھی کرتے ہیں

“عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِفُضَيْلٍ تَجْلِسُونَ وَ تُحَدِّثُونَ قَالَ نَعَمْ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ إِنَّ تِلْكَ‏ الْمَجَالِسَ‏ أُحِبُّهَا فَأَحْيُوا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ مَنْ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَيْنِهِ مِثْلُ جَنَاحِ الذُّبَابِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ لَوْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ.”

“ فضیل بن یسار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آپ(ع)  نے فرمایا کیا تم مجلس عزا برپا کر کے ہمارے مصائب کو یاد کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ فرمایا خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ولایت کو زندہ کرتے ہیں اے فضیل جو کوئی ہمارا تذکرہ کرتا ہے یا جس کے سامنے ہمارا تذکرہ ہوتا ہے اور گریہ کرتا ہے اتنے آنسو نکلیں کہ مکھی کے پر کو بگھونے کے بقدر ہوں تو بھی خداوند عالم اس کے گناہوں کے بخش دے گا۔ چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر

۷۵

 کیوں نہ ہوں۔”

حضرت ابا عبداﷲ (ع) کا قیام کوئی فوجی قیام نہیں تھا بلکہ ایک عاطفی اور تبلیغی تھا حسین علیہ السلام صرف یزید اور اس کے ایجنٹون کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ یزیدیت کے ساتھ بنی امیہ اور بنی مروان کی شخصیت کو نابود کرنا چاہتے تھے ۔ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے خلاف بیدار کریں۔ اور عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکائے اور اس سے متنفر کریں۔ اسی لئے آپ مدینہ سے مخفی طور پر چلے گئے۔ جس وقت لوگ حج کے لیے گروہ در گروہ ہو کر مکہ آرہے تھے تو آپ مکہ سے بھی نکل گئے اور عاشورے کے دن بعض اوقات اسلحہ کے بغیر ہی میدان جنگ میں جاتے ہیں اور بڑی مہربانی کے لہجے میں تبلیغ کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کے انسانی جذبات کو ابھارتے ہیں کبھی قرآن لے کر جاتے ہیں اور انہیں قرآن کی قسم دیتے ہیں۔ کبھی اپنے شیرخوار بچے کو ان کے سامنے لے جاتے ہیں جنہیں انہوں نے آپ کے ہاتھوں پر شہید کیا ۔ انجام کار آپ نے کربلا میں کچھ ایسی لہریں پیدا کیں کہ عاشورا کی عصر کے وقت دشمن کی فوجوں میں ہلچل مچ گئی اور حسین(ع) شہید ہوگئے ہلچل کی اس موج کے ساتھ اہل بیت(ع) کی اسیری کی دوسری موج نے بھی حرکت کی۔ اہل بیت(ع) کے اسیروں نے کوفہ و شام کے بازاروں میں تقریروں کے ذریعے انقلاب کی موجیں پیدا کیں بلکہ تمام اسلامی ممالک میں بنی امیہ کی حکومت کے خلاف نفرت کا سیلاب امڈا پڑا ۔ حسین(ع) کی شہادت سے 20 سال قبل کوئی ایک بھی انقلاب واقع نہیں ہوا تھا۔ مگر آپ کی شہادت کے 20 سال بعد بیس سے زیادہ انقلاب رونما ہوئے۔ واقعہ کربلا کے دو سال بعد بنی امیہ کی حکومت چھن گئی اور بیسویں سال بنی مروان کی حکومت عباسیوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔

۷۶

حضرت امام سجاد علیہ السلام

آپ کا اسم مبارک علی(ع) مشہور لقب زین العابدین (ع) اور سجاد(ع) ہے آپ کی مشہور کنیت ابو محمد(ع) اورابو الحسن(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک بھی آپ کے پدر گرامی کی طرح ستاون سال ہے۔ آپ نے پندرہ جمادی الاول 38 ہجری کو امیر المومنین (ع) کی شہادت سے دو سال قبل ولادت پائی۔ تیئس سال تک پدر بزرگوار کے زیر سایہ زندگی گزاری۔ آپ کے مدت امامت 34 سال ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کے والد بزرگوار امام حسین(ع) تھے اور والدہ ماجدہ ایران بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں جیسے خداوند عالم نے معجزانہ طور پر حضرت امام حسین(ع) تک پہنچایا تھا۔ اس معظمہ کی شرافت یہ ہے کہ نو ائمہ کرام(ع) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام حسین(ع) نو ائمہ (ع) کے والد ماجد ہیں۔ اور انسانی فضائل کے اعتبار سے امام زین العابدین علیہ السلام اگرچہ تمام اہل بیت کرام(ع) کے ساتھ تمام فضائل میں برابر کے شامل ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں رکھتے ۔ لیکن آپ خصوصیت کے ساتھ اپنے افکار کو و کردار میں اپنے دادا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مکمل مشابہت رکھتے تھے۔

امام سجاد علیہ السلام کے ایمان کی منزل

امیرالمومنین علیہ السلام دعائے صباح میں فرماتے ہیں۔

“يا من‏ دلّ‏ على ذاته بذاته”

۷۷

“ اے وہ جو خود اپنی ہستی کے وجود کی دلیل ہے۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں۔

“بِكَ عَرَّفْتَک وَ دَلَلْتَنِي‏ عَلَيْكَ‏ و دعوتنی اليک و لولا انت لم ادر ما انت”

“ تیرے ذریعے ہی تجھے پہچانا تو نے میری اپنی طرف رہنمائی کی اور دعوت دی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آپ کو نہ پہچان سکتا ۔”

آپ کی دعاؤں میں ایسے کلمات ملتے ہیں جو انسان کو ایمان کی بلندی تک پہچاتے ہیں یہ ایسی منزل ہے جسے“ ایمان شہودی” کہا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔

“کو کشف لی الغطاء مازددت يقينا”

“ اگر میرے لئے آفاق کے سارے ہٹادیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔”

آپ(ع) کا علم

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا “ جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو خدا کی قسم میں قیامت تک ہونے والے تمام واقعات کو جانتا ہوں۔” حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں فرماتے ہیں۔ “ اگر مجھے لوگوں کے بارے میں غلو کرنے کا خوف نہ ہوتا تو قیامت تک ہونے والے تمام واقعات بتا دیتا۔”

آپ کا تقوی

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا۔

“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ‏ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ‏شَعِيرَةٍ  مَا فَعَلْتُهُ”

۷۸

“ خدا کی قسم اگر مجھے ساتوں اقالیم اور جو کچھ ان کے آسمانوں کے نیچے ہے دیا جائے کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “ جو” کا جھلکا چھین کر اس پر ظلم کروں تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں ارشاد فرماتے ہیں۔

             ؟؟؟؟ الا له و انت تطهر حبه          هذا لعمری فی الفعال بديع

             لو کنت تطهير حبه اطقه                       ان الحب لمن يحب مطيع

“ خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے تم اس کی محبت کا دعوی کرتے ہو۔ میری جان کی قسم یہ بڑی عجیب بات ہے اگر تم واقعی خدا سے محبت کرتے ہو تو اس کی اطاعت کرو کیونکہ محبت کرنے والا ہمیشہ محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔”

ان اشعار میں امام فرماتے ہیں کہ میں چونکہ اﷲ سے محبت کرتا ہوں اس لیے اس کی نافرمانی مجھ سے محال ہے۔

آپ(ع) کی عبادت

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کیہا گا ہے کہ آپ دن کو فقراء کے لئے باغات اور نہریں بنانے میں مشغول رہتے اور ساری راتیں جاگ کر عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت سجاد(ع) بھی اس طرح فقراء کی قربت میں مشغول تھے۔ کتنے سارے باغات اور نہریں آپ نے فقراء کے لئے بنائیں آپ کی عبادت اور سجدوں کی کثرت کی یہ حالت تھی کہ آپ کو زین العابدین(ع) اور سجاد(ع) کا لقب ملا۔

۷۹

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ قیامت کے دن کہا جائے گا زین العابدین(ع)  کہاں ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ میرا فرزند جواب دیتا ہے اور سامنے آجاتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کثرت سے عبادت کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوجھ گئے ہیں۔ چہرے کا رنگ زرد پڑگیا ہے اور گال زخمی ہیں اور سجدہ کی جگہ پیشانی پر زخم ہوگیا ہے۔

آپ کی مہربانی و سخاوت

تاریخ میں مرقوم ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے کارناموں میں سے ایک یہ تھا کہ آپ مخفی طور پر راتوں کو فقراء میں کھانا ، کپڑے ، لکڑی اور دوسری ضروریات تقسیم کرتے تھے ۔جب کہ ان فقراء کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون ان کی ضروریات کو فراہم کرتا ہے اور مورخین حضرت امام سجاد(ع) کے بارے میں بھی ایسا ہی لکھتے ہیں۔

راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام جعفر صادق(ع) کے حضور میں تھے کہ حضرت امام علی ابن ابی طالب(ع) کے مناقب کے بارے میں بات ہوئی تو کہا گیا کہ کسی کو یہ قدرت نہیں کہ آپ جیسا کام کرسکے اور حضرت علی بن الحسین(ع) کے علاوہ اور کوئی ایسے کاموں میں ان کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے اور راتوں کو کبھی کبھی ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اہل سنت کی روایات میں ہے جب آپ کی شہادت ہوئی تو پتہ چلا کہ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے۔

آپ کا زہد

جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک کامل زاہد تھے اور سوائے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

قعقاع ،ایران کی جنگوں میں

اعجزت الاخوات ان یلدن مثلک یا قعقاع ! (بارق۔قعقاع کاماموں )

(سیف کا بیان)

بہر سیر کی فتح

طبری ،سیف سے نقل کرتے ہوئے فتح بہر سیر کی داستان کو حسب ذیل صورت میں بیان کرتاہے:

''ابو مفزر تمیمی نے ایران کے بادشاہ کے مأمور اور ایلچی سے ایک ایسی بات کہی جو ایرانیوں کے فرار کاسبب بنی''۔

اس قصہ کی تفصیل ابو مفزر تمیمی جو سیف کے جعلی اصحاب میں سے ایک ہے کی

زندگی کے حالات پر بحث کے دوران بیان ہوگی۔

حمیری ''روض المعطار ''میں جب مدائن کی تشریح کرنے پر پہنچتا ہے تو اس شہر کو تسخیر کئے جانے کے سلسلہ میں سیف کی روایت بیان کرتے ہوئے اس کے آخر میں لکھتاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :ہم نے بہر سیر کو شجع وقافیہ سے مزین اس حق بات کے ذریعہ فتح کیا جو ہماری زبان پر جاری ہوئی ۔ہمارے خوف سے ان کے دل ہل گئے اور وہ ہماری ننگی اورتیز تلواروں کے سامنے آنے سے ڈرگئے''۔

۲۰۱

مدائن کی فتح

سیف روایت کرتاہے کہ:

''قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام خرساء (خموشان)اور اس کے بھائی عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام اہوال (وحشت)تھا''۔

ان دو دستوں کے دریائے دجلہ سے عبور کی تفصیلات ہم عاصم سیف کے افسانوی صحابی کی سوانح حیات پر بحث کے دوران بیان کریں گے۔

بہر حال سیف اپنی ایک روایت کے ضمن میں کہتاہے:

''دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے دوران سپاہیوں میں غرقدہ نام کے ایک شخص کے علاوہ کوئی شخص غرق نہیں ہوا۔غرقدہ دریا کو عبور کرتے ہوئے اچانک گھوڑے کی پیٹھ سے پھسل کر پانی مین جاگرا۔قعقاع بن عمرو متوجہ ہوا،اس نے ہاتھ بڑھایااور غرقدہ کا ہاتھ پکڑ کر دریائے دجلہ پار کرکے اسے ساحل تک پہنچادیا۔غرقدہ چونکہ ایک قوی پہلوان تھا اور قعقاع کی والدہ بھی خاندان بارق سے تعلق رکھتی تھی ،اس لئے غرقدہ نے قعقاع کی والدہ کی طرف اشارہ کرکے اس لشکر شکن پہلوان سے خطاب کرکے کہا:اے قعقاع! میری بہنیں پھر کبھی تجھ جیسا پہلوان پیدا نہیں کرسکتیں ''

سپاہیوں کے مدائن میں داخل ہونے کے سلسلے میں سیف لکھتاہے :

''سب سے پہلا فوجی دستہ جو شہر مدائن میں داخل ہوا،اہوال فوجی دستہ تھا جس کی کمانڈ عاصم بن عمرو کررہاتھا۔اس کے بعد خرساء فوجی دستہ مدائن میں داخل ہوا ۔ سپاہیوں نے اس شہر کی گلی کو چوں میں کسی فوجی کو نہیں پایا،کیونکہ سبوں نے سفید محل میں پناہ لے رکھی تھی۔اسلامی فوجیوں نے سفیدمحل کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور انھیں ہتھیار ڈالنے کوکہا۔انھوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دئے اور جزیہ دینا قبول کیا''۔

۲۰۲

بادشاہوں کا اسلحہ ،غنیمت میں

سیف نے حسب ذیل روایت کی ہے:

''مدائن کے فتح ہونے کے دن ،قعقاع شہر سے باہر نکلا اور تلاش و جستجو میں مشغول ہوا، اسی دوران اس کی ایک ایرانی سے مڈبھیڑ ہوئی جو دو چوپایوں کے اوپر ایک بھاری بوجھ لے کرجا رہا تھا ۔اور لوگ چاروں طرف سے اس کی حفاظت کر رہے تھے قعقاع نے اس شخص پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور ان دونوں چوپایوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا جب ان پر لدے ہوئے سامان کی جستجو کی تو ان میں سے ایک کے اندر کسریٰ ،ہرمز ،قباد ،فیروز ،ہراکلیوس ،ترکمنستان کے بادشاہ خاقان ،ہندوستان کے بادشاہ داہر ،بہرام سیاوش اور نعمان جیسے بادشاہوں کی تلواریں موجود تھیں دوسرے صندوق میں کسریٰ کی زرہ ،کلاہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کی حفاظتی سپر اور ہراکلیوس ، خاقان اور داہر کی زرہ سیاوش کی زرہ اور نعمان کی زرہ جو جنگ میں ان سے غنیمت کے طور پر لی گئی تھی موجود تھیں ۔اس کے علاوہ بہرام چوبین اور نعمان کے وہ اسلحہ بھی اس میں موجود تھے جو ان سے اس وقت غنیمت میں لئے گئے تھے جب وہ کسریٰ کی بغاوت کرکے اس سے جدا ہوئے تھے ۔

قعقاع نے یہ سب غنائم یکہ و تنہا اپنے قبضہ میں لینے کے بعد انھیں سپہ سالار اعظم سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا سعد نے تجویز کی کہ ان میں سے ایک تلوار قعقاع اپنے لئے انتخاب کرے ۔قعقاع نے ہر اکلیوس کی تلوار کا انتخاب کیا اس کے علاوہ سعد نے بہرام چو بین کی زرہ بھی اسے بخش دی اور کسریٰ و نعمان کی تلواروں کو جن کے بارے میں عربوں میں کافی شہرت تھی خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا کہ مسلمان اسے دیکھ لیں اور باقی غنائم خرساء فوجی دستہ کے سپاہیوں کو بخش دئے ''

یہ سب روایتیں افسانہ سازی کے بہادر اور ماہر سیف بن عمر تمیمی کی ہیں ۔اس داستان کی ، دریائے دجلہ سے سپاہیوں کے عبور کرتے وقت ،عاصم بن عمر و کی سوانح حیات بیان کرتے وقت اور فتح بہرسیر کے واقعہ کے بارے میں ابو مفزر اسود بن قطبہ کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت مزید وضاحت کی جائے گی ۔

۲۰۳

سند کی پڑتال:

سیف نے اس داستان کو اپنے دو جعلی راوی محمد اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ حقیقت مین ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

ا ن کے علاوہ عصمة بن حارث کو بھی راوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ بھی سیف بن عمر کے جعلی روایوں میں سے ایک ہے اور اس کی زندگی کے حالات مناسب جگہ پر بیان کئے جائیں گے ۔

مزید بر آں نضر بن السری نام کا ایک اور راوی سیف نے پیش کیا ہے کہ اس کے ذریعہ طبری میں چوبیس روایات نقل ہوئی ہیں ۔دو اور راوی رفیل اور ابن رفیل ہیں جن سے طبری نے سیف سے بیس روایتیں نقل کی ہیں ۔

ان سب راویوں کو بھی ہم نے سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا ۔

دلچسب بات یہ ہے کہ سیف کے مندرجہ بالا جعلی راویوں کے علاوہ اس داستان کے چند دیگر راوی ایک شخص !قبیلہ ٔحارث کا ایک شخص کے عنوان سے بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ان دوافراد کے نام کیا تھے تاکہ ہم انھیں راویوں کی فہرست میں تلاش کریں !!

جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سیف کی باتیں سنجیدہ اور بھاری بھرکم ہونے کے بجائے بیشتر لچر اور مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے راویوں کو ایک شخص ،یا قبیلہ حارث کا ایک شخص یا ابن رفیل وغیرہ کے عنوان سے ذکر کرتا ہے ۔

ستم ظریفی کی حد ہے کہ ان واضح جھوٹ ،بہتان اور افسانوں پر مشتمل داستان کو سیف نے گڑھاہے اور امام المورخین طبری نے انھیں بے چوں وچرا نقل کرکے اپنی گراں قدر اور معتبر کتاب میں درج کیا ہے اور دوسرے تاریخ دانوں نے بھی اس کے بعد انہی مطالب کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲۰۴

اس داستان کی تحقیق اور اس کے فوائد :

جو کچھ اس بحث و تحقیق سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ سیف نے دو تمیمی بھائیوں کی کمانڈ میں ''خاموش '' و ''وحشت'' نامی دو افسانوی فوجی دستے مشخص کئے ہیں اور ایک روایت کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ دریائے دجلہ کو پار کرکے مدائن میں داخل ہونے والے فوجیوں میں یہ دو دستے پیش پیش تھے اور یہ افتخار صرف خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو سورمائوں یعنی قعقاع ابن عمرو تمیمی و عاصم ابن عمر و تمیمی کو حاصل ہوا ہے ۔اس کے علاوہ اس بے مثال پہلوان بارقی جو آسانی کے ساتھ کسی کی تعریف نہیں کرتا تھا کی زبانی یہ کہلوایا ہے کہ : '' اے قعقاع !دنیا کی عورتیں کبھی تم جیسا سورما جنم نہیں دے سکتیں !''

یہاں پر بھی قعقاع تمیمی ہی ہے جو فرار کرنے والے سپاہیوں کا پیچھا کرکے غنائم کے محافظین کو قتل کر ڈالتا ہے اور اس قدر غنائم پر قبضہ کرتا ہے ۔ان غنائم میں ایرانی بادشاہوں : کسریٰ ،ہرمز ،قباد ، فیروز اور بہرام چوبین کے علاوہ ہندوستان کے بادشاہ داہر ،روم کے بادشاہ ہراکلیوس اور عرب قحطانی یمانی سلطان نعمان کے اسلحے اور جنگی ساز وسامان شامل تھا ۔اس افتخار سے بڑھ کر مضر خاندان کے عظیم پہلوان اور ناقابل شکست سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے لئے کون سا فخر ہو سکتا ہے کہ اس نے تمام دنیا کے بادشاہوں سے باج لے کر خاندان تمیم کے سرپر فضیلت کا تاج رکھ دیا ہے !!

شاباش ہو سیف پر !جس نے خاندانی تعصب کی بنیاد پر تمام اصولوں کو پائمال کرتے ہوئے خاندان تمیم کے پیروں تلے ایک لڑکھڑاتی سیڑھی قرار دے کر اسے بلند سے بلند لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے چاہے اس کا یہ کام کسی ملت یا اسلام کی تاریخ کے نابود ہونے کا سبب کیوں نہ بن جائے !!

۲۰۵

جلولا ء کی فتح

طبری نے سیف سے روایت کی ہے :

''خلیفہ عمر نے سپہ سالار اعظم سعد و قاص کو حکم دیا کہ ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے ہاشم کو جلولاء بھیج دے اور قعقاع بن عمرو تمیمی کو اس کے ماتحت ہر اول دستہ کے سردار کی حیثیت سے مقرر کرے ۔خدا کی طرف سے ایرانیوں کو شکست اور مسلمانوں کی فتحیابی کے بعد عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں کی حکومت قعقاع کے سپرد کی جائے ۔

جب ہاشم ،جلولاء پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ ایرانیوں نے اپنے چاروں طرف ایک خندق کھودی ہے اور خود اس میں مخفی ہو گئے ہیں خندق کے اطراف میں تیز دھار والے لوہے کے ٹکڑے اور جنگی سازوسامان کے ٹوٹے پھوٹے آلات پھیلا کے رکھے گئے تھے تاکہ اپنی پناہ گاہ میں داخل ہونے سے اسلامی فوج کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر سکیں انھوں نے اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف ایسی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں کہ اسلامی فوج کے لئے کسی صورت میں اس کے اندر داخل ہونا ممکن نہیں تھا اس کے برعکس ایرانی جب چاہتے ان تما م رکاوٹوں کے باوجود آسانی کے ساتھ اس پناہ گاہ میں رفت و آمد کر سکتے تھے ۔

مسلمان اس معرکہ میں اسّی (٨٠) دن تک مشرکین پر حملہ کرتے رہے لیکن تقریبا تین ماہ کی اس مدت کے دوران کوئی خاص پیش قدمی نہ کر سکے ۔

ان حالات کے پیش نظر قعقاع ،وہ معروف شہسوار اور ناقابل شکست پہلوان اس تنہا راستہ پر قبضہ کرنے کے لئے مناسب فرصت کی تلاش میں تھا ،جسے مشرکین نے اپنے فوجیوں کی رفت و آمد کے لئے بنا رکھا تھا جب اسے مناسب موقع ملا تو اس نے یکہ و تنہا اس جگہ پر حملہ کیا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور پکار کر کہا : اے مسلمانو!تمھارا سپہ سالار اس وقت دشمن کے مورچے کے اندر ہے حملہ کرو!'' قعقاع نے اس لئے یہ جھوٹ بولا تاکہ اسلامی فوج کے حوصلے بلند ہو جائیں اور وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں ۔

قعقاع کی یہ چال کامیاب ہوئی اور اسلامی فوج نے اجتماعی طور پر مشرکین پر حملہ کردیا اس یورش کے دوران انھیں یہ یقین تھا کہ ان کا سپہ سالار ہاشم دشمن کے مورچوں کے اندر گھس گیا ہے ،لیکن اس کے بر عکس قعقاع ابن عمر وتمیمی کو پایا جس نے دشمنوں کی گزرگاہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔

۲۰۶

اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور ایرانی جان کے لالے پڑ نے کی وجہ سے اندھا دھند بھاکتے ہوئے خود اسی جال میں پھنس کر ہلاک ہو گئے جسے انھوں نے اپنے دشمن کے لئے رکاوٹ کے طور پر بچھا رکھا تھا ۔ اس طرح ان کے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور لاشوں سے زمین بھر گئی ۔اسی لئے اس جگہ کی جنگ کو ''جنگ جلولاء ''(۱) کہتے ہیں !!

قعقاع نے فراریوں کا خانقین تک پیچھا کیا بعض کو قتل کیا اور بعض کو اسیر بنایا ۔ ایرانی فوج کے سردار مہران کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کے بعد قعقاع قصر شرین کی طرف بڑھا اور حلوان سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر پہنچا ۔حلوان کا سرحد بان قعقاع کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے مقابلے میں آیا ،لیکن اس جنگ کے نتیجہ میں قعقاع کے ہاتھوں مارا گیا اور مسلمانوں نے حلوان پر بھی قبضہ کر لیا۔

سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے مدائن سے کوفہ واپس آنے تک قعقاع بن عمر و ،تسخیر شدہ سرحدی علاقوں اور ان کے اطراف کا حاکم رہا جب وہ سعد وقاص سے ملنے کے لئے کوفہ کی طرف روانہ ہوا تو قباد خراسانی کو سرحد بان کی حیثیت سے مقرر کیا ۔

حموی ،جلولاء کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''ایک دریا ہے جو بعقوبہ تک پھیلا ہوا ہے اس کے دونوں کناروں پر اس علاقہ کے باشندوں کے گھر بنے ہیں ۔وہاں پر ١٦ھ میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ایک گھمسان اور مشہور جنگ واقع ہوئی ہے کہ اس میں ایرانیوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی ۔میدان جنگ لاشوں سے بھر گیا اور زمین ان لاشوں سے ڈھک گئی تھی ،اسی سبب سے اسے '' جلولاء و قیعہ '' کے نام سے یاد کیا گیا ہے جیسے کہ سیف کہتا ہے : خدائے تعالیٰ نے جنگ جلولاء میں مشرکین کے ایک لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا اور ان کی لاشوں سے زمین بھر گئی ،اسی لئے اسے جنگ جلولاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ قعقاع ابن عمر ونے جنگ جلولاء میں شعر کہے :

____________________

۱)۔ جللہ ۔یعنی ایسا پردہ اس پر رکھا گیا جس نے اسے پوری طرح ڈھانپ لیا سیف کا کہنا ہے کہ اس زمین کو خون نے پوری طرح ڈھانپ لیا تھا ،اس لئے اسے '' جلولاء '' کہا گیا ۔یعنی خون سے ڈھکی ہوئی زمین۔

۲۰۷

'' ہم نے جلولاء میں ''اثابر'' اور ''مہران'' کو موت کے گھاٹ اتار دیا جب ان کے لئے راستے بند ہوگئے اس وقت ہماری فوجوں نے ایرانیوں کو محاصرے میں لے لیا اور ایرانی نسل نابود ہو کر رہ گئی :

اس جنگ کے بارے میں کہے گئے اشعار بہت زیادہ ہیں :

حموی نے حلوان کی تشریح کرتے ہوئے اس کے بارے میں لکھا ہے :

'' یہ جگہ ١٩ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئی ''

جب کہ سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اسے ١٦ھ لکھا ہے ۔اور قعقاع بن عمر وتمیمی نے حلوان کی فتح کے بارے میں شعر کہے ہیں :

'' کیا تمھیں یاد ہے کہ ہم اور تم نے کسریٰ کے گھروں میں پڑائو ڈالا ؟ ہم نے حلوان کی جنگ میں تمھاری مدد و حمایت کی اور بالاخر ہم سب وہاں ایک ساتھ اترے ۔اور عورتوں اور کنیزوں کے کسریٰ کے اوپر نالہ و شیون کرنے کے بعد ہم نے حلوان میں فتح پائی ''

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

طبری نے فتح جلولاء اور فتح حلوان کے بارے میں اپنی کتاب میں سیف بن عمر تمیمی کی روایت کے علاوہ کسی اور کی روایت کے بارے مین کوئی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ یہ داستانیں دینوری اور بلاذری کی کتابوں میں درج کئے گئے واقعات کے بر عکس ہیں ۔دینوری اور بلاذری نے لکھا ہے :

''جلو لاء میں مسلمانوں کا حملہ ایک ہی دن شروع ہوا اور اس دن شام تک جنگ جاری رہی۔افق پر سرخی نمودار ہوتے ہی مسلما نوں کی کا میابی کے آثار نظر آنے لگے اور دشمن بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور شام ہوتے ہی جنگ ختم ہوئی ۔دشمن کے چھوٹے بڑے خیموں پر مسلما نوں نے قبضہ کرلیا۔''

۲۰۸

جب کہ سیف کہتا ہے:

''مسلما نوں کا حملہ او ر ان کی پیش قدمی اسّی دن تک جاری رہی۔''

وہ مزید کہتا ہے :

''سر حدی علاقوں کے ایک حصہ کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کو دیدی گئی ۔''

جب کہ بلا ذری اور دینوری نے لکھا ہے :

''جرید بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی نے چار ہزار سپاہیوں کی سر کردگی میں جلولاء کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسی نے حلوان کو بھی فتح کیا ہے ۔''

نہ کہ بقول سیف قعقاع بن عمرو تمیمی نے !!

سند کی جانچ :

سیف نے اس داستان کو بھی محمد اور مھلب سے نقل کیا ہے جب کہ یہ دونوں اس کے جعلی راوی ہیں ۔

اسی طرح سیف نے اس روایت کے راوی کے طور پر عبداللہ محفز کا ذکر کیا ہے جس نے اپنے باپ سے رو ایت کی ہے ۔عبداللہ محفز سے مجموعی طور پر چھہ احادیث تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ درج ہوئی ہیں ۔

سیف کی نظر میں اس روایت کا ایک اور راوی مستنیر بن یزید ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے اٹھارہ روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

اس کے علاوہ بطان بن بشیر ہے ،جس سے سیف کی تاریخ طبری میں صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے اور حماد بن فلان !!البرجمی ہے جس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ۔اس سے سیف کے ذریعہ طبری میں دو روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔

ہم نے سیف کے مذکورہ بالا راویوں کو راویوں کا فہرست اور طبقات میں بہت تلاش کیا لیکن ان کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں پایا ۔صرف سیف کے یہا ں ان کا سراغ ملتا ہے چونکہ گزشتہ تجربے کی روشنی میں جا ن گئے ہیں کہ سیف اشخاص کو جعل کرنے میں ماہر ہے ،اس لئے ہم سمجھ گئے کہ یہ راوی بھی اس کے تخیلات کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔

۲۰۹

اس کے علاوہ ہم نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ سیف کی روایتیں سنجیدہ ہونے کے بجائے مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے لئے کسی راوی کو حماد بن فلان !!کے نام سے ذکر کرتا ہے جس نے جناب فلاں سے روایت کی ہے !!

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایات سے موازنہ:

ہم نے مشاہدہ کیا کہ طبری نے سیف سے جلولاء کی جنگ ،اس کی وجہ تسمیہ اور اس جنگ میں مقتولین کی تعداد کے بارے میں مطالب ذکر کئے ہیں جو سب کے سب اس کے بر عکس ہیں جن کا دوسروں نے ذکر کیا ہے ۔

حموی نے داستان سیف کے ایک حصہ کو سیف کے قعقاع سے نسبت دئے گئے اشعار کو جلولاء کی تشریح میں اپنے مطالب کی دلیل کے طور پر درج کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ جلولاء اور حلوان کے بارے میں سیف کی کتاب میں بہت سے اشعار موجود ہیں ۔

لیکن طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان تمام اشعار میں سے ایک شعر بھی اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے ۔ وہ سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق وایران کے سر حدی علاقوں کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کے ہاتھ میں ہونا بیان کرتا ہے اور حلوان کا فاتح بھی اسی کو ٹھہرا تا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے کی حکومت جریر بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی کے ہاتھ میں تھی اور یہی جریر یمانی ہے جس نے حلوان کو کرمانشاہ تک فتح کیا ہے ،نہ کہ قعقاع نے !

اور یہ نکتہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں مکرر کہا ہے کہ طبری نے اس داستان کو براہ راست سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر مورخین ،جیسے ابن کثیر ،ابن اثیر ،ابن خلدون اور میر خواند،سبوں نے طبری سے نقل کرکے اسے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۲۱۰

اس حدیث کے نتائج :

١۔ناقابل تسخیر مورچہ پر قبضہ کرنے کی صورت میں قعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا۔

٢۔ خاندان تمیم کے افسانوی سورما قعقاع کے ہاتھوں ایرانی سپہ سالار مہر ان کا قتل ہونا۔

٣۔ حلوان کی فتح اور اس کے سرحدبان کا قتل ہونا۔

٤۔ تسخیر شدہ سرحدی علاقوں پر خاندان تمیم کے ناقابل شکست بہادر قعقاع کی حکومت جتلا کر خاندان تمیم کے سر پر فضیلت کا تاج رکھنا۔

٥۔ اور آخر کار جنگ جلولاء میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کا مسلمانوں کی دوسری جنگوں

میں کئے گئے انسانی قتل عام میں اضافہ کرکے ان لوگوں کے لئے ایک اور سند فراہم کرنا ،جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے ۔

یہاں تک ہم نے قعقاع کی ایران میں فتوحات کے سلسلے میں سیف کی روایات کا جائزہ لیا اگلی فصل میں ہم ان دیگر فتوحات کے بارے میں تحقیق کریں گے جن کو سیف نے ایران کی فتح کے بعد دوبارہ شام میں اس افسانوی سورما قعقاع کے لئے جعل کیا ہے۔

۲۱۱

قعقاع دوبارہ شام میں

یدعون قعقاعا لکل کریهة

فیجیب قعقاع دعاء الهاتف

ہر خطر ناک حادثہ میں قعقاع سے مددکی درخواست کی جاتی ہے اور وہ بھی فریاد رس بن کر تیزی سے دوڑتا ہے ۔

حمص کی فتح :

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے :

'' ابو عبید ہ جراح خلیفہ عمر کی طرف سے شام میں مامور تھا ،اس نے خلیفہ سے مدد طلب کی خلیفہ نے سعد وقاص کو لکھا کہ ابو عبیدہ دشمن کے محاصرہ میں ہے میرے اس خط کے ملتے ہی قعقاع بن عمر و کو ایک لشکر کے ہمراہ اس کی مدد کے لئے روانہ کرو کیوں کہ ابوعبیدہ کو دشمن نے گھیرلیا ہے ۔

قعقاع خلیفہ کا حکم ملتے ہی حکم کی تعمیل میں اسی روز چار ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوا ،جوں ہی مشرکین کو پتا چلا کہ ابوعبیدہ کے لئے فوجی کمک پہنچ رہی ہے انھوں نے محاصرہ کھول دیا اور منتشر ہوگئے ۔اس طرح خدا ئے تعالیٰ نے قعقاع کے وجود کی برکت سے شہر حمص کو ابوعبیدہ کے ہاتھوں فتح کیا ۔

قعقاع اپنے سپاہیوں کی قیادت میں فتح حمص کے واقعہ کے تین دن بعد ابو عبیدہ سے ملحق ہوا ۔ ابوعبیدہ نے فتح حمص کے موضوع اور تین دن گزرنے کے بعد قعقاع اور اس کی فوج کے اس سے ملحق ہونے کے بارے میں خلیفہ عمر کو رپورٹ دی اور جنگی غنائم کی تقسیم کے سلسلے میں دریافت کیا ،عمر نے ابو عبیدہ کو لکھا کہ جنگی غنائم میں قعقاع اور اس کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ شریک قرار دے ،کیوں کہ وہ تیری مدد کے لئے آئے ہیں اور انہی کے سبب دشمن نے تم پر سے محاصرہ اٹھالیا تھا ۔اور اپنے خط کے آخر میں حسب ذیل اضافہ کیا:

'' خدا ئے تعالیٰ کو فیوں کو نیک جزاء دے کیوں کہ وہ اپنے وطن کا خیال رکھتے ہیں اور دوسرے شہر یوں کی مدد بھی کرتے ہیں ''

۲۱۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

ابن عساکر نے قعقاع کی زندگی کے حالات میں حمص کی داستان کو سیف سے نقل کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

'' قعقاع بن عمرو حمص کی جنگ کے بارے میں اپنے شعر میں یوں تشریح کرتا ہے ''

''قعقاع کو ہر سختی اور مشکل سے مقابلہ کرنے کے لئے طلب کرتے ہیں اور وہ بھی مدد طلب کرنے والوں کی طرف فریاد رس کی حیثیت سے دوڑ تا ہے ۔

ہم دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے حمص کی طرف اس طرح دوڑپڑے جیسے کوئی کسی بے چارہ کی مدد کرنے کے لئے فریاد رس کی حیثیت سے بڑھتا ہے ۔

جب ہم دشمن کے نردیک پہنچے تو خدائے تعالیٰ نے ہماری ہیبت سے ان کو شکست دے دی اور وہ فرار کر گئے ۔

میں نے صحرائوں اور درّوں میں دشمن پر پے در پے تیر اندازی کی ،حتیٰ حمص کو اپنے تیروں ،نیزوں اور زور و غلبہ سے اپنے قبضہ میں لے لیا ''

ابن حجر نے ''الاصابہ '' میں اس قصیدہ کے پہلے شعر کو قعقاع کے حالات میں سیف کی روایت سے نقل کیا ہے ۔لیکن طبری نے اپنی روش کے مطابق اسے حذف کیا ہے اور صرف سیف سے روایت کرکے واقعات کی تشریح پر اکتفا کی ہے ۔

حموی نے حمص کی جنگ کے بارے میں سیف کی حدیث سے بالکل چشم پوشی کی ہے اور اس کی داستان اور اشعار کو اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے ۔حموی کے علاوہ جن لوگوں نے بھی حمص کی فتح کے بارے میں ذکر کیا ہے صرف سیف بن عمر کی روایت کا حوالہ دیا ہے کیوں کہ ہم اس سے پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ تمام مورخین اس بات پرمتفق ہیں کہ فتوحات شام میں خاندان تمیم میں سے کسی ایک فرد نے بھی شرکت نہیں کی ہے ۔

بہر حال جیسا کہ بیان ہوا ،اس داستان کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دوسرے(۱) مورخوں نے جو طبری کے بعد آئے ہیں اپنے مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

____________________

۱) ۔طبری کے بعد دوسرے مورخین سے خاص طور پر ہمارا مقصود ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون ہے ۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد والے واقعات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کے بارے میں انھوں نے تاریخ طبری سے ہی استناد کیا ہے ہم نے فہرست مصادر میں ان کی کتابوں کے صفحات کے نمبر بھی حوالہ کے طور پر درج کئے ہیں ۔

۲۱۳

سند کی پڑتال :

سیف نے اس داستان کی سند کے طور پر محمد اور مہلب کا نام لیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے تخیلات کی پیداوار ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

اس جانچ کا نتیجہ :

فتح حمص کے بارے میں سیف کی روایت اور اس کا دوسروں کی روایت سے موازنہ کرنے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ سیف بن عمر تنہا وہ شخص ہے جس نے حمص کی داستان کی دوبارہ روایت کی ہے اور اس سلسلے میں اتفاقات و واقعات بیان کئے ہیں جب کہ ابن اسحاق اور بلاذری نے ایسی کوئی چیز درج نہیں کی ہے ۔

اس روایت کا نتیجہ

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے اس داستان کو گڑھ کے کیا ثابت کیا ہے اور کیا پایا ہے :

١۔قعقاع بن عمرو تمیمی اور اس کے ہم وطن کوفیوں کے لئے فضیلت فراہم کرنا۔کیونکہ صرف قعقاع اور اس کے کوفی لشکر کی آمد کی خبر نے ہی دشمن کی بنیادوں کو متزلزل کردیااور اسی ہیبت نے دشمن کو منتشر کرکے مسلمانوں کو فتح عطا کی ۔

٢۔خلیفہ عمر کا بیان اور اس کی یہ گواہی کہ:''خدا کوفیوں کو نیک جزا دے ،کیونکہ وہ اپنے وطن کاخیال رکھتے ،ہیں اور دوسرے شہر یوں کی مدد بھی کرتے ہیں ''۔خلیفہ عمر ابن خطاب جیسی شخصیت کی طرف سے اس قسم کی گواہی اور تائید اس غیر معمولی جھوٹے افسانہ ساز سیف بن عمر کے اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کی راہ میں انتہائی بیش قیمت اور گراں قدر ہے۔

٣۔قعقاع کی رجز خوانی اور رزمیہ شاعری ،خود اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اسے ہمیشہ مشکل اور بڑے کاموں کے لئے بلایاجاتا تھا،کیونکہ وہ مشکل کشا اور ہر میدان کا رزار کا بے مثال فاتح ہے۔اور وہ بھی اپنی بہادری کی بناء پر ہمیشہ اس قسم کے مسائل ومشکلات کو حل کرتارہاہے۔اس کے ثبوت کے لئے خلیفہ کابیان بھی جو یہ کہتے ہیں :یہ کوفی ہیں جو اپنے وطن کی بہتر صورت میں حفاظت کرتے ہیں اور مشکلات وسختیوں میں دوسرے شہریوں کی مدد بھی کرتے ہیں ۔

۲۱۴

قعقاع ،نہاوند کی جنگ میں

قتل من الفرس ما طبق ارض المعرکة

نہاوند کی جنگ میں اتنے ایرانی مارے گئے کہ ان کی لاشوں سے زمین بھر گئی اور ان کے خون سے زمین پھسلنی بن گئی ۔

(سیف بن عمر)

جنگ نہاوند کی داستان:

قعقاع ،کوفی سپاہیوں کے ہمراہ دوبارہ عراق لوٹتاہے،لیکن کب،کیسے اور کیوں ؟۔ہم نے اس سلسلہ میں نہ طبری سے اور نہ سیف کے دیگر راویوں سے کہ اس مطلب کے جوابگو ہوں کچھ نہیں پایا اور یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اس سلسلے میں کیا خیال بندی کی ہے۔

بہر حال ،نہاوند کی جنگ کے بارے میں طبری،سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''نہاوند کی جنگ ١٨ ھ میں واقع ہوئی ۔ایرانیوں نے نہاوند کے قلعہ میں پناہ لے لی تھی،اپنی ضرورت اور مصلحت کے بغیر اس سے باہر نہیں نکلتے تھے کبھی کبھی جنگ کے لئے باہر نکلتے تھے ۔مسلمانوں نے اس قلعہ کو اپنے محاصرہ میں لے لیا اور یہ محاصرہ طولانی مدّت تک جاری رہا ۔مسلمانوں کے لشکر کا سپہ سالار اعظم نعمان بن مقرن تھا۔نعمان نے قعقاع بن عمرو کو مأمور کیا کہ کسی صورت سے ایرانیوں کو قلعہ سے باہر نکال کر میدان کارزار میں کھینچ لائے۔قعقاع بن عمرو (خاندان تمیم کا افسانوی پہلوان ) ہراول دستہ کے سوار فوجیوں کا سردار تھا۔اس نے ایک تدبیر سوچی اور میدان کارزار میں داخل ہوا۔اس نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ قلعہ پر حملہ کیا،ایرانی مقابلہ کے لئے آگے بڑھے ،قعقاع نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا ۔اسی طرح جنگ وگریز کی حالت میں وہ پیچھے ہٹتا گیا ۔ایرانیوں نے یہ خیال کیا کہ مسلمان ہزیمت اٹھارہے ہیں ،اس لئے ان کا کام تمام کرنے کی غرض سے قلعہ اور مورچوں سے باہر آگئے اور دور تک مسلمان سپاہیوں کا پیچھا کیا ۔جب قلعہ کے محافظوں کے علاوہ تمام ایرانی قلعہ سے باہر آگئے تو مسلمان اسی چیز کا انتظار کررہے تھے ،اس لئے فرصت کو غنیمت سمجھ کر مسلمان سپہ سالار نے واقعی حملہ کا حکم دیا اور گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔اس معرکہ میں اتنے ایرانی مارے گئے کہ زمین پر کشتوں کے پشتے لگ گئے اور ان کے خون سے زمین اتنی پھسلنی بن گئی کہ سوار اور پیادہ اس پر پھسل جاتے تھے ۔

۲۱۵

شام ہونے سے پہلے ہی مشرکین بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف بھاگنے لگے۔ان میں ایسی بھگدڑمچ گئی کہ راہ وچاہ میں فرق نہیں سمجھ سکے۔اسی سبب سے قلعہ اور پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے کے بجائے دشمن کے لئے کھودی گئی اپنی ہی خندق جس میں انھوں نے دشمن کے لئے آگ لگا رکھی تھی کی طرف بھاگے اور ان خوفناک آگ کے شعلوں میں گرتے گئے۔اس خندق میں گرتا ہوا ہر سپاہی فارسی زبان میں چیخ کر کہتاتھا ''وائے خرد!!''۔اسی لئے وہ سرزمین ''وائے خرد!''کے نام سے مشہور ہوگئی اور آج تک اسی نام سے معروف ہے۔ جن ایرانی سپاہیوں نے اس دہکتی ہوئی آگ میں گر کر جان دی ان کی تعداد ایک لاکھ تک بلکہ اس سے زیادہ تک پہنچ گئی ۔مقتولین کی یہ تعدادان بے شمار کشتو ں کے علاوہ تھی جو میدان کار زار میں کام آئے تھے ۔بہت کم ایسے لوگ تھے جو اس معرکہ سے زندہ بچ کر نکلے ۔فرار کرنے والوں میں ایرانی فوج کا کمانڈ ر فیروزان بھی تھا جو بڑی چالاکی سے اس معرکہ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا تھا اور ہمدان کی طرف بھاگ گیا تھا قعقاع بن عمرو نے فیروزان کا پیچھا کیا اور درۂ ہمدان میں اس کے نزدیک پہنچ گیا ۔

اس وقت وہ گزرگاہ ایسے چوپایوں سے کھچا کھچ بھری تھی جن کی پیٹھ پر شہد لدا ہوا تھا ۔ان چوپائوں کی کثرت کی وجہ سے اس تنگ گزرگاہ سے فیروزان کے لئے گزرنا مشکل ہو گیا ۔اس لئے وہ مجبور ہو کر گھوڑے سے اترا اور بڑی تیز ی کے ساتھ پہاڑ پر چڑھنے لگا ۔اسی اثنا میں اس کا پیچھا کرنے والا قعقاع بھی وہاں پہنچ گیا اور اس نے پہاڑ کی طرف بھاگتے ہوئے فیروزان کا پیچھا کیا ۔آخر کار پہاڑکی بلندی پر اس پر قابو پا لیا اور وہیں پر اسے قتل کر ڈالا ۔اسی سبب سے اس دن کے بعد اس گزر گاہ کا نام '' گزر گاہ عسل'' (یعنی شہد کی گزرگاہ) پڑ ا ۔اس امر کے پیش نظر کہ اس گزر گاہ پر شہد کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ کامیابی حاصل ہوئی تھی اس لئے اسلام کے سپاہیوں نے وہاں پر یہ جملہ کہا :'' خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' ۔

دوسری طرف ایرانی فوج کے فراری سپاہی دوڑتے بھاگتے ہمدان پہنچ گئے ۔ان کا پیچھا کرنے والے مسلمانوں نے ہمدان کا محاصرہ کیا اور اس کے اطراف کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔ہمدان کے باشندوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کہ اسلامی فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتے ،اس لئے مجبور ہو کر امان چاہی اور ان کی درخواست منظور کرکے انھیں امان دے دی گئی۔

۲۱۶

جب ہمدان کے زوال اور تسخیر ہونے کی خبر ماہان کے باشندوں کو پہنچی ،اور انھیں اطلاع ملی کہ نعیم بن مقر ن اور قعقاع بن عمر و نے ہمدان کو فتح کر لیا ہے تو ماہان کے باشندوں نے بھی ہمدان کے باشندوں کی طرح امان کی درخواست کی اور انھیں بھی امان دے دی گئی ۔ماہان کے باشندوں کے امان نامے کے آخر میں قعقاع بن عمرو تمیمی نے تائید کی اور گواہ کے طور پر دستخط کئے ۔اس فتح ،یعنی فتح نہاوند کو '' فتح الفتوح '' کا نام دیا گیا ہے ۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

نہاوند کی فتح کے سلسلہ میں طبری کی سیف سے کی گئی روایت کا یہ ایک خلاصہ ہے طبری کے بعد آنے والے مورخین(۱) نے ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے

لیکن حموی نے فتح نہاوند کی اس داستان کو '' نہاوند '' ''وائے خرد !''اور ''ماہان ''کی لفظوں کی تشریح کے ضمن میں پراگندہ حالت میں درج کیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ نہاوند کے بارے میں لکھتاہے

مسلمانوں نے نہاوند کی فتح کا نام '' فتح الفتوح '' رکھا ہے اس مناسبت سے قعقاع بن عمرو نے یہ شعر کہے ہیں :

'' جو بلا سبب کسی خاندان کی بدگوئی کرے خدا اسے ایسی بلا میں مبتلا کرے ،جس کے

____________________

۱)۔ دیگر مورخین سے ہمارا مقصود خاص کر ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون ہے ہم نے مناسب جگہوں پر ان کے عین متن جوان کے تمام مطالب کو طبری کی کتاب سے نقل کرنے کی دلیل ہے کو درج کیا ہے ،ہم مصادر کتاب درج کرتے ہوئے ان کتابوں کے صفحات کا نمبر بھی الگ الگ درج کریں گے تاکہ خواہشمند حضرات اور محققین کے لئے ان کی طرف رجوع کرنا آسان ہو جائے ۔

۲۱۷

عذاب سے اس کے سر کے بال سفید ہو جائیں ،پس تم بھی اپنی شماتت کی زبان مجھ سے دور رکھو ،کہ میں دشمن کے مقابلے میں اپنی شرافت کا دفاع کرتا ہوں کیوں کہ جب ہم نہاوند کے پانی میں داخل ہوئے تو اس سے سیراب ہو کر نکلے جب کہ دشمن بے بسی کے عالم میں اپنی جگہ پر پیاسے ہی کھڑے تھے''

وہ مزید کہتا ہے :

'' نہاوند سے پوچھ لو کہ ہمارے حملے کیسے تھے ؟ جب ہم اس کے درودیوار سے دشمنوں پر بلائیں اور مصیبتیں برسا رہے تھے !''

جب عجم پر منحوس ترین راتیں گزر رہی تھیں ،ہم نے نہاوند کے تمام مقامات پراپنے گھوڑے ٹھہرائے تھے اور تمام علاقوں میں پھیل گئے تھے ،ہم ان کے لئے موت کا تلخ پیغام تھے ۔حقیقت میں نہاوند کا دن انتہائی سخت دنوں میں سے تھا جو ان پر گزرا۔ ہم نے دہکتے آگ کے شعلوں والی خندق کو ان کے سوار اور پیدل سپاہیوں کی لاشوں سے بھر دیا اور پہاڑوں کی صاف اور کھلی گزر گاہوں نے بھی فراری فیروزان کے لئے راہ تنگ کردی تھی اور اس کے لئے بھاکنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی تھی''

وہ لفظ '' وائے خرد!'' کے بارے میں لکھتا ہے :

نہاوند کے نزدیک ''وائے خرد '' نام کی ایک خندق ہے کہ ایرانی فوج شکست کھا کر اس میں گرتے ہوئے فریا د بلند کرتے تھے '' وائے خرد'' اور اسی سبب اس جگہ کا نام ''وائے خرد '' پڑا ہے اس مطلب کو کتاب ''فتوح'' کے مولف سیف بن عمر تمیمی نے لکھا ہے... اور قعقاع بن عمرو نے اس کے بارے میں یوں کہا ہے :

'' جب ''وائے خرد !'' میں وہ سر کے بل گر گئے ،تو صبح کے وقت گدھ اور لاش خور ان کی ملاقات کے لئے آئے ۔ہم نے ان کے اتنے لوگوں کو قتل کیا کہ جس خندق میں انھوں نے آگ سلگائی تھی ،وہ لاشوں سے بھر گئی''

۲۱۸

پھر چند دیگر اشعار کے ضمن میں اس طرح کہا ہے :

''میں نے نہاوند کی جنگ میں کسی خوف و ہراس کے بغیر شرکت کی ۔ اس دن تمام عرب قبیلوں نے جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھائے ،شام کے وقت جب فیروزان ہماری ننگی تلواروں کی ہیبت سے اپنی جان بچانے کے لئے پہاڑ کی طرف بھاگ گیا تو ہمارے ایک شجاع اور جوان مرد جنگجو نے اس کا پیچھا کیا اور چوپایوں کے نزدیک اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔دشمنوں کی لاشیں ''وائے خرد '' میں پڑی ہیں تاکہ وحشی بھیڑیے ان کی ملاقات کے لئے آئیں اور ان کے مہمان بنیں ''

وہ ہامان کے بارے میں لکھتا ہے :

عرب اسے لفظ جمع کی شکل میں ''وماہات''کہتے ہیں ...اور قعقاع بن عمرو نے ماہان کے بارے میں یوں کہا ہے:

'' ہم نے ماہات میں اس وقت ایرانیوں کی ناک رگڑ کے رکھ دی جب ان کے فرزندوں کو جو شیر کے بچے کہلاتے تھے موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کے گھروں کو مسمار کرکے رکھ دیا ،اسی روز جب میں ان سے لڑنے کے لئے نکلا تھا اور جو بھی میرے مقابلے میں آئے گا اس کا یہی انجام ہوگا''

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں سیف نے درج کیا ہے اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،کیوں کہ :

١۔ بلاذری اور دینوری نے روایت کی ہے کہ ایرانی فوج کا سپہ سالار شاہ ذوالحاجب تھا نہ فیروزان۔

٢۔دینوری نے ایرانیوں کو پناہ گاہ سے باہر لانے کا طریقہ یوں بیان کیا ہے :

'' عمر بن معد یکرب نے اسلامی فوج کے سپہ سالار نعمان بن مقرن کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ خلیفہ عمر کی وفات کا اعلان کریں اور اپنے پورے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف پیچھے ہٹیں اور اس طرح ایرانیوں کو فریب دیں ۔نعمان نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس کوعملی جامہ پہنایا۔ ایرانیوں نے جب فریب میں آکر اس خبر کو نوید کے طور پر ایک دوسرے تک پہنچایا اور وہ مسلمانوں کا پیچھا کرنے کے لئے باہر نکلے تو مسلمانوں نے اچانک مڑکر ان پر حملہ کر دیا ...''

۲۱۹

٣۔ طبری نے لکھا ہے کہ سیف ابن عمر نے نہاوند کی فتح کی تاریخ ١٨ھ روایت کی ہے جب کہ دیگر مورخین اسے ٢١ھ درج کیا ہے ۔

٤۔ بلاذری نے ایرانی سپہ سالار اعظم مردان شاہ کے قتل ہونے کے طریقہ کے بارے میں یوں لکھا ہے :

'' وہ اس خچر سے نیچے گر گیا ،جس پر سوار تھا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اسی کے سبب وہ مرگیا''

٥۔بلاذری نے کہا ہے کہ :

'' ہمدان ،جریر بجلی قحطانی کے ذریعہ فتح ہوا ہے نہ قعقاع بن عمر وتمیمی کے ہاتھوں ''

٦۔اس موضوع ''خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' کے بارے میں کتاب ''معجم البدان '' میں بعلبک کی تشریح میں درج ہے کہ : مشہور یہ ہے کہ یہ جملہ معاویہ ابن ابو سفیان سے مربوط ہے ،جب اس نے مالک اشترہمدانی کو فریب سے شہد میں ملائے ہوئے زہر کے ذریعہ قتل کرایا۔

ابن کثیر بھی کہتا ہے کہ ،معاویہ اور عمر و عاص دونوں نے یہ جملہ ' ' خدا کے پاس شہد کی فوج بھی ہے '' اس وقت کہا جب مالک اشتر شہد میں ملائے ہوئے زہر کے سبب قتل ہوئے ۔

طبری بھی کہتا ہے کہ ،عمرو عاص نے شہد میں ملائے ہوئے زہر کے سبب مالک اشتر کے قتل ہونے کے بعد یہ جملہ کہا۔(۱)

____________________

الف )۔ ملاحظہ ہو تاریخ ابن کثیر ج٨ص٢١٢،تاریخ طبری ٣٢٤٢١

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416