ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215522 / ڈاؤنلوڈ: 4975
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

قینان کے بعد ان کے وصی مہلائیل اپنی قوم کے درمیان آئے اور انھیں خدا وند عالم کی اطاعت اور اپنے باپ کی وصیت کا اتباع کر نے کا حکم دیا۔

جب مہلائیل کی موت کا زمانہ قر یب آیا ، تو انھوں نے اپنے فر زند ( یرد) کو اپنا وصی اعلان کیا اورحضرت آدم کے جسد کی حفاظت کی وصیت کی پھر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۱ )

مرآة الزمان میں مذ کور ہے:

قینان نے موت کے وقت اپنے فرزندمہلائیل کو اپناوصی قرار دیا اور انھیںاُس نور کے بارے میںجو ان تک منتقل ہوا ہے آگاہ کیا. مہلائیل نے بھی باپ کی سیرت کو لوگوں کے ساتھ قا ئم رکھا۔( ۲ )

مہلائیل وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے گھر بنا یا، مسجدیں قائم کیں اور معدن ( کان) کا استخراج کیا:

تاریخ طبری میں مذ کور ہے کہ :

حضرت مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے درخت کاٹ کر(اس کی لکڑی سے فا ئدہ اٹھا یا اور) گھر بنایا اور معدن کے استخراج میں مشغول ہوئے. اور اپنے زمانے کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ عبادت کے لئے کسی مخصوص جگہ کا انتظام کر یں ،وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے روئے زمین پر شہروں کی بنیاد ڈالی؛ انھوں نے دو شہروں کی بنیا د ڈالی ہے ایک کوفہ کے اطراف میں با بل اور دوسرا شوش نامی شہر ہے۔( ۳ )

تاریخ کامل ابن اثیر میں مذکور ہے کہ :

مہلائیل وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے لوہے کا استخراج کیا اور اس سے صنعت کے آلا ت بنائے انھوں نے لو گوں کوزراعت اور کسانی کی تشو یق دلائی اور حکم دیا کہ درندہ جا نوروں کو مار کر اور ان کی کھال سے جسم چھپائیں. گا ئے، بھیڑ اور دیگر جنگلی حیوا نات کا سر کاٹ کر ان کے گو شت سے استفادہ کریں یعنی کھا ئیں۔( ۴ )

____________________

( ۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۰.(۲)مرآة الزمان،ص ۲۲۴ (۳)تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۶۸.(۴)الکا مل فی التاریخ،۱،ص ۲۲.

۶۱

مہلائیل ـ کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

اخبار الز مان میں مذکور ہے کہ :مہلائیل نے اپنے فرزند یو ارد( یرد ) کو اپنا جانشین بنایا اور حضرت آدم کے صحیفوں کی تعلیم دی اور زمین کے حصّوں اور اس بات کی کہ دنیا میں کیا ہو گا انھیں تعلیم دی؛ اور کتاب سر ملکوت کہ جسے مہلائیل فرشتے نے حضرت آدم کو تعلیم دی تھی اور جسے اوصیاء مہر شدہ اور لفافہ بند میراث پا تے تھے ان کے حوا لے کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)اخبار الزمان،ص۷۷.

۶۲

مہلائیل کے فرزند یوارد

* یوارد کا پیدا ہونا اور حضرت خا تم الا نبیا ئصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور کاان میں منتقل ہونا.

* ان کے باپ مہلائیل کی ان سے وصیت.

* یوارد کی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس پیغمبر )سے وصیت.

۶۳

یرد کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور ان میں نور کا منتقل ہو نا

مروج الذھب میں مذکور ہے:

یوارد،( ۱ ) مہلائیل کے فرزنددنیا میں تشریف لائے اور وہ نور جو ( ایک وصی سے دوسرے وصی تک)بعنوان ارث پہنچتا رہا ان تک منتقل ہوا ، عہد و پیمان ہوا اور حق اپنی جگہ ثابت اور بر قرار ہو گیا۔( ۲ )

مہلائیل کی اپنے فرزند یرد سے وصیت

کتاب مرآة الزمان میں مذکور ہے:

مہلائیل نے اپنے فر زند یر دسے وصیت کی اور انھیںسرِّمکنون(پو شیدہ راز ) اور حضرت خاتم محمدمصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے انتقال کے بارے میں خبر دی. یرد نے صالحین اور نیک افراد کی سیرت اپنائی۔

تاریخ یعقوبی میں مذ کور ہے:

مہلائیل کے بعد یرد ان کے جا نشین ہوئے.وہ ایک با ایمان اور خدا وند عزّوجل کے کامل عبادت گذار انسان تھے اورشب وروز میں بہت زیادہ نما زیں پڑھتے تھے۔

یرد کا زمانہ تھا کہ شیث کے فرزندو نے کئے ہوئے عہدوپیمان کو توڑڈ الا (اور شیث او ر دیگر افراد کی وصیت کے بر خلا ف، کوہ رحمت سے ) نیچے آکر قابیلیوں کی سرزمین پر ق دم رکھ د یا اور ان کے ساتھ گنا ہوں میں شر یک ہوگئے۔( ۳ )

یرد کی اپنے فرزند ادریس سے وصیت

جب یرد کی موت کا زمانہ قر یب آیاتوان کی اولاد اور اولاد کی اولاد یعنی اخنوخ،متوشلح، نوح اور لمک ان کے پاس جمع ہوگئے یرد نے ان پر درو د بھیجا اور ان کے لئے خدا سے بر کت کی دعا کی اس گھڑی اپنے فرزند اخنوخ ( ادریس ) کو حکم دیا کہ ہمیشہ غا ر گنج میں(کہ جس میں حضرت آدم کا جسد ہے ) نماز پڑھیں، پھر آنکھ بند ہوئی او ر دنیا سے رخصت ہوگئے۔( ۴ )

____________________

( ۱)عربی توریت کے نسخوں میں یرد کو '' یوارد '' لکھا گیا ہے اور مرآة الزمان کے ص ۲۲۴ میں ''یرد'' کو توریت میں موجود یوارد کی تقریب کے عنوان سے استعمال کیا گیا ہے.تاریخ یعقوبی کی پہلی جلد کے دسویں(۱۰) صفحہ میں یوارد کو مخفف کر کے یرد لکھا گیا ہے.مروج الذھب،ج۱، ص ۵۰ پر ''لور '' کو تحریف کر کے استعمال کیا گیا ہے لیکن اخبار الزمان ص ۷۷ اور تاریخ ابن اثیر،ج۱،ص ۲۲ اور طبری ،ج ۱،ص ۱۶۸ پر یوارد ہی مرقوم ہے.(۲)مروج الذھب ،مسعودی ،ج۱،ص۵۰.(۳)تاریخ یعقوبی،ج ۱، ص ۱۱ ، اخبار الزمان ،ص۷۷.(۴) تاریخ یعقوبی،ج۱ ، ص ۱۱.

۶۴

خدا کے پیغمبر ادریس (اخنوخ)

* قرآن کریم میں ادریس کا نام.

* ا دریس سیرت کی کتا بوں میں

* آسمانی صحیفوں کا ادریس پر نازل ہو نا.

* خدا وند عالم نے ادریس کو مہینوں اور ستاروں کے اسماء تعلیم دئیے.

* ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سوئی اور دھاگہ کا استعمال کیا اور کپڑا سلا.

* حضرت ادریس کے عہد میں شیث اور قابیل کے فرزندوں کے درمیان اختلاط

* ادریس کی ا پنے بیٹے متوشلح سے وصیت.

۶۵

۱۔قرآن کریم میں ادریس کا نام

خدا وند عالم سورۂ مریم میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِدْریسَ اِنَّه کَانَ صِدِّیقاًًناَبِیاً٭وَرَفَعْناَهُ مَکَاناًًعلیا ً )

اس کتاب میں ادریس کو یاد کروکہ وہ صدیق پیغمبر تھے.اور ہم نے ان کو بلند مقا م عطا کیا ہے۔( ۱ )

کلمات کی تشریح

الف۔ صدّیق:

اللہ اور اس کے پیغمبر وںکے تمام اوامر کی تصدیق کر نے والا.جیسا کہ سورہ ٔحدید میں فر ماتا ہے۔

( وَالَّذِینَ آمَنُوا بِا للّٰهِ وَرُسُله اُولئکَ هُمْ الصِّدِّ یقون... ) ( ۲ )

جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ہیںوہ لوگ صدیق ہیں۔

ایسی چیز کا امکان نہیں ہے مگر جب امر الٰہی کے قبول کرنے اور خواہشات نفسانی کے ترک کرنے میں انسان کا قول و فعل ایک ہو. اس لحا ظ سے صد یقین کا مر تبہ انبیا ء کے بعد ہے اور ہر نبی صدیق ہے لیکن بعض صد یقین انبیاء میں سے نہیں ہیں۔

ب۔ علیّاً :

علےّاً یہاں پر بلند و بالا مکان کے معنی میں ہے اور تو ریت میں مذ کورہے کہ اخنوخ خدا کے ہمراہ گئے لیکن دکھا ٰئی نہیں دئیے کیونکہ خدا نے ان کو اٹھا لیا تھا ۔

۲ ۔ ادریس سیرت کی کتابوں میں

ادریس کا عرصۂ وجود پر قدم رکھنا اور خا تم الا نبیا ءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ان میں منتقل ہو نا.

____________________

(۱) سورۂ مریم: آیت: ۵۶،۵۷.۲۔(۲) سورۂ حدید: آیت: ۱۹.

۶۶

تاریخ طبری میں مذ کو ر ہے۔

حضرت ادریس کے والد یرد اور ان کی ماں برکنا تھیں وہ اُس وقت پیدا ہوئے جب حضرت آدم کی عمر کے ۶۲۲ سال گذ ر چکے تھے. وہ اس اعتبار سے ادریس کہلا ئے کہ انھوں نے آدم اور شیث کے صحیفوں کا کافی مطالعہ کیا کرتے تھے ۔

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے پیغمبر حضرت ادریس ہیں. وہ نور محمدی کے حامل تھے اور یہ سب سے پہلے انسان ہیں جنھوں نے لباس سل کر زیب تن کیا تھا ۔

حدیث میں مذ کور ہے کہ انبیاء حضرات کا رزق یا کاشت کاری کے ذریعہ حاصل ہوتا تھا یا جانوروں کی رکھوا لی کے ذ ریعہ سوائے ادریس پیغمبر کے کہ وہ خیاط یعنی درزی تھے۔

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: کوفہ میں مسجد سہلہ حضرت ادریس کا گھر تھا جہاں آپ سلائی کرتے اور نماز پڑھتے تھے۔

جب ادریس ۶۵ سال کے ہوئے تو (ادانہ) نامی ایک عورت سے شادی کی اور اس سے متوشلح اور دیگر بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں پھر اس وقت شیث کی اولاد سے خدا کی عبادت کی درخواست کی اور یہ خواہش کی کہ شیطان کی پیروی نہ کریں. اور قابیلیوں سے برے اعمال ، زشت افعال اور گمراہی میں اختلاط نہ کریں، لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی اور ان میں سے بعض گروہ قابیلیوں سے مخلو ط ہوگئے ، محر مات اور گنا ہوں کا ارتکاب انکے درمیان حد سے زیادہ ہو گیا .جس قدر حضرت ادریس انھیں خیر کی طرف راہنمائی کرتے اور گنا ہوں سے روکتے وہ اتنا ہی سرپیچی کرتے اور برے کاموں سے دست بر دار نہیں ہوتے تھے. لہٰذا انھوں نے راہ خدا میں ان سے جنگ کی،کچھ کو قتل کیا اور قابیلیوں کی اولا د کے کچھ گروہ کو اسیر کر کے غلام بنالیا یہ تمام واقعات حضرت آدم کی زندگی میں رو نما ہو چکے تھے.

جب حضرت ادریس ۳۰۸ سال کے سن کو پہنچے تو حضرت آدم دنیا سے رحلت کر گئے.

ادریس نے ۳۶۵ سال کی عمر میں فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنے فرزند متوشلح کو اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور ان کو اور ان کے اہل وعیال کو یاد دہا نی کرائی کہ خدا وندعالم قا بیل کی اولاد اور جو ان کے ساتھ معا شرت رکھے گا اور ان کی طرف ما ئل ہو گا ان کو عذاب کرے گا ،لہٰذا اس اعتبار سے انھیں ان کی معاشرت اور اختلاط سے منع کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)تاریخ طبری،ج۱،ص۱۱۵، ۱۱۷

۶۷

اسی ہنگام میں ان کے وصی ( متوشلح) کا سن جو کہ نور محمدی کے حا مل تھے، ۳۰۰ سال ہو چکا تھااور ان کے آبا ء و اجداد یرد سے لے کر شیث تک سب کے سب زندہ و حیات تھے۔( ۱ )

حضرت ادریس پر آسمانی صحیفوں کا نزول اور ان کا سلا ئی کر نا

مروج الذ ھب میں مذ کور ہے:

یرد کے بعد آپ کے فر زند اخنوخ کہ وہی ادریس پیغمبر ہیں باپ کے جانشین ہوئے. صابئین( ۲ ) کا خیال یہ ہے کہ ادریس وہی ھرمس ہیں اور وہی ہیں جن کے بارے میں خدا وند عزو جل نے اپنی کتاب میں خبر دی ہے کہ انھیں بلند جگہ تک لے گیا ، ادریس وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خیا طی کی اور سلنے کے لئے سوئی کا استعمال کیا. ادریس پیغمبر پر ۳۰ صحیفے نازل ہوئے اور ان سے قبل حضرت آدم پر ۲۱ صحیفے اور شیث پر ۲۹ صحیفے نازل ہوئے ہیں کہ اس میں تسبیح وتہلیل کا تذ کرہ ہے۔( ۳)

خدا وند عالم نے حضرت ادریس کو بر جو اور ستاروں کے اسماء کی تعلیم دی

ادریس پیغمبر حضرت آدم کے زمانے میں پیدا ہوئے وہ پہلے آدمی ہیں جنھوںنے قا بیل کی اولاد اور پو توںکو اسیر کیااور ان میں سے بعض کو غلام بنا یا .آپ علم نجو م، آسمان کی کیفیت،بارہ برجوں اور کواکب و سےّارات کے بارے میں کا فی اطلا ع رکھتے تھے.خداوند عالم نے انھیں ان تمام چیزوں کی شناخت کے بارے میں الہا م فر مایا تھا ۔( ۴ )

ادریس کے زمانے میں شیث اور قابیل کے پوتوںکے درمیان اختلاط

تاریخ یعقوبی میں مذ کو ر ہے:

یردکے بعد ان کے فرزند اخنوخ اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور خدا وند سبحا ن کی عبا دت میں مشغول ہوگئے اخنو خ کے زمانے میں حضرت شیث کی اولاد اور اولاد کی اولاد ان کی عورتیں اور ان کے بچے( کوہ رحمت سے ) نیچے آ گئے اور قابیلیوں کے پاس چلے گئے اور ان سے خلط ملط ہوگئے. شیث کے پوتوں کا یہ کارنامہ حضرت اخنوخ کو گراںگذر ا،لہذا اپنے فرزند متوشلح اور پوتے لمک اور نوح کو بلا یا اور ان سے کہا:

____________________

(۱)تاریخ طبری ج۱ ، صفحہ ۱۱۷ اور ۱۱۸ ملاحظہ ہو.(۲)فرھنگ فارسی معین،ج۵،ص ۹۶۳ ملاحظہ ہو.(۳)مروج الذھب، مسعودی، ج۱،ص۵۰ (۴)۔مرآة الزمان ۔ص ۲۲۹.

۶۸

''میں جا نتا ہوں کہ خدا وند عالم اس امت کو سخت عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان پر رحم نہیں کرے گا ''.

اخنوخ وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے سب سے پہلے قلم ہا تھ میں لیا اور تحریر لکھی. انھوں نے اپنے فرزندوں کو وصیت کی کہ خدا کی خا لصا نہ انداز میں عبادت کریں اور صدق ویقین کا استعمال کریں۔

پھر اُس وقت خدا نے حضرت ادریس کو زمین سے آسمان پر اٹھا لیا( ۱ ) .

جو کچھ ذ کر ہوا اس کی بناء پر حضرت ادریس صدیق اور نبی تھے ، خدا نے انھیں کتاب و حکمت عنایت کی تھی اور انھوں نے اپنے زمانے کے لو گوں کو اللہ کی شریعت کی طرف راہنمائی کی تھی پھر خدا نے انھیں بلند مقام عطا کیا ان تمام چیزوں اور خوبیوں کے باوجود وہ اپنی قوم کی پیغمبری کے لئے خدا کی طرف سے مبعوث نہیں ہوئے اور خدا کی طرف سے کسی آیت اور معجزہ کے ذریعہ ان کے ڈرانے والے اور منذ ر نہیں تھے.

طبقات ابن سعد میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

حضرت آدم کے بعد سب سے پہلے نبی حضرت ادریس تھے کہ وہی اخنوخ یرد کے فرزند ہیں...اخنوخ کے فرزند کا نام متوشلح تھا جو کہ اپنے باپ کے وصی تھے، ان کے علاوہ دیگر اولاد بھی تھی متوشلح کے فرزند لمک ہیں جو اپنے باپ کے وصی تھے اور ان کے علاوہ بھی دیگر اولاد تھی لمک کے فرزند حضرت نوح تھے( ۲ )

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی ،ج۱،ص۱۱،طبع بیروت دار صادر؛تاریخ طبری۔ج۱،ص ۱۷۳، ۳۵۰ طبع یورپ؛

طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں؛

اخبار الزمان،ص،۷۷ ؛مروج الذھب،ج۱،ص۵۰، مرآة الزمان،ص ۲۲۹ ؛

ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی خبر تاریخ یعقوبی اور مرآة الزمان میں آئی ہے.

(۲)طبقات ابن سعد،طبع بیروت، ج۱ ،ص ۳۹ ، طبع یورپ، ج۱ ،ص ۱۶ادریس پیغمبر کے اخبار کے بیان میں.یوارد کی وصیت اپنے فرزند اخنوخ سےکتاب اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

یوارد نے اخنوخ کو وصیت کی اور ان تمام علوم کی انھیں تعلیم دی جو خود جا نتے تھے اور مصحف سّر انکے سپرد کیا.

۶۹

اخنوخ یا ادریس پیغمبر کے فرزند متوشلح

* ادریس نے اپنے فرزند متوشلحکو وصیت کی اور انھیں حضرت خا تم الا نبیاء صلّیٰ اللہ علیہ وآ لہ و سلم

کے نور سے جو ان میں منتقل ہوا تھا آپ نے آگاہ کیا.

* شہروں کا ان کے ذریعہ آباد ہو نا.

* سب سے پہلے انسان جو سواری پر سوار ہوئے.

۷۰

حضرت ادریس کا اپنے فرزند سے وصیت کرنااور خا تم الا نبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کانور

اخبار الز مان نامی کتاب میں مذ کور ہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کی کیو نکہ خدا وند سبحان نے انھیں وحی کی تھی کہ اپنے فرزند متوشلح کو وصیت کرو کہ میں بہت جلد ہی ان کی صلب سے ایک پیغمبر مبعو ث کروں گا جس کے افعال میری رضا یت اور تا ئید کے حا مل ہیں۔( ۱ )

مرآة الزّمان نامی کتاب میں مذ کورہے:

ادریس نے اپنے فرزند متوشلح سے وصیت کی اور چو نکہ ان کے ساتھ عہد وپیمان کیا لہٰذا وہ نور جو ان کی طرف منتقل ہوا تھا ( حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور ) اُس سے آگاہ کیا.متوشلح وہ پہلے آدمی ہیں جو اونٹ پر سوار ہوئے ۔( ۲ )

مروج الذھب نامی کتاب میں مذ کور ہے:

متوشلح اخنوخ کے فرزند اپنے باپ کے بعد ان کے جانشین ہوئے اور شہروں کے بسانے میں مشغول ہوگئے اور ان کی پیشانی میں ایک تابندہ نور درخشاں تھا( ۳ ) اور وہ حضرت ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور تھا۔( ۴ )

تاریخ طبری میں مذکور ہے:

اخنوخ نے اس(متوشلح) کو فر مان خدا وندی کے مطا بق اپنی جانشینی کے لئے انتخاب کیا اور دنیا سے رحلت کر نے سے قبل ان سے اور ان کے اہل وعیال سے لازم وصیت فر مائی اور انھیں آگا ہ کیا کہ خداوندعالم بہت جلد ہی قابیلیوں اور جو ان کے ساتھ ہیںیا ان کے دوستدار ہیں ان پر عذا ب نازل کرے گا. اور

____________________

(۱) اخبار الزمان، ص، ۷۹.(۲) مرآة الزمان ص ۲۲۹، میں انھیں '' متوشلح '' یا '' متو شلخ '' کہا گیا ہے.(۳) اخبار الزمان،ص ۷۹ ؛مرآة الزمان،ص ۲۲۹ میں کہا گیا ہے کہ وہ '' متوشلح '' ہیں یا '' متو شلخ '' مروج الذھب،ج۱،ص ۵۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱ ،ص ۱۷۳.(۴) مروج الذھب، ج۱، ص ۵۰.

۷۱

انھیں ان کے ساتھ خلط ملط ہو نے سے منع کیا۔( ۱ )

سب سے پہلے سوار

تاریخ طبری میںمذکور ہے:

وہ (متوشلح) سب سے پہلے آدمی ہیں جو مر کب پر سوار ہوئے وہ جہا د میں اپنے باپ کے پیرو تھے اور اپنے ایام حیا ت میں خدا وند رحمان کی اطا عت وعبادت میں اپنے آباء و اجداد کی راہ اختیا ر کئے تھے ۔( ۲ )

____________________

(۱) تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۳.( ۲) تاریخ طبری،ج۱،ص۱۷۳.

۷۲

متوشلح کے فرزند لمک

* لمک سے متوشلح کی وصیت

* شیث اور قا بیل کے فرزندوں کا ازدواج اور ان کی

نسلوں کا اختلا ط اور سر کش وبا غی اور تباہ نسل کا دنیا میں آنا.

* حضرت شیث کی نسل سے ۸ افراد کا تنہا رہ جانا.

* لمک کی نوح سے وصیت.

متوشلح کی اپنے فرزند لمک سے وصیت

تاریخ طبری اور اخبار الزمان میں مذ کور ہے:

جب متوشلح کی موت کا وقت قر یب آ یا ، تو اپنے بیٹے لمک (جا مع کے معنی میں ہے) کوجو نوح کے والد تھے وصیت کی اور ان سے عہد لیا اور حضرت ادریس پیغمبر کی مہر کردہ کتابیں اور صحیفے ان کے حو الے کئے اس طرح سے وصیت ان تک منتقل ہوئی۔( ۱ )

شیث اور قا بیل کے پو توں کاباہمی ازدواج اور اس شادی کے نتیجے میں ظا لم و جا بر، سرکش و باغی نسل کا دنیا میں آنا

مروج الذھب میں مذکور ہے :

لمک کے زمانے میں بہت سے واقعات اور نسلوں کے اختلا ط ظا ہر ہوئے ،( ۲) یعنی حضرت شیث اور قا بیل ملعو ن کی نسل کا اختلاط۔

تاریخ یعقوبی میں اختصا ر کے ساتھ مذ کورہے:

لمک اپنے باپ کے بعد خدا کی اطا عت اور عبادت میں مشغول ہوگئے.ان کے زمانے میں سرکشوں اور ستمگروں کی تعداد میں اضا فہ ہو گیا کیو نکہ شیث کے فرزندوں نے قا بیل کی لڑ کیوں سے ازدواج کر لیا تھا اور سرکش و ظالم لوگ ان سے پیدا ہوئے۔

____________________

(۱) اخبار الزمان،ص،۸۰؛ اور تاریخ طبری،ج۱،ص ۱۷۸، طبع یورپ.(۲) مروج الذھب،مسعودی،ج۱،ص ۵۰.

۷۳

شیث کی اولاد میں سے صرف ۸ افراد کا باقی رہنا اور لمک کی نوح سے وصیت

جب لمک کی موت کا زمانہ قریب آیا تو نوح ، حام، سام،یافث اور ان کی عو رتوں کو بلا یا یہ لوگ آٹھ

آدمی تھے جو شیث کی اولاد میں بازماند گان میں شمار ہوتے تھے اور شیث کی اولاد میں ان ۸ افراد کے علاوہ کوئی(سچے دین پر) باقی نہیں رہ گیا تھا۔اور باقی لوگ کوہ مقدس سے نیچے اتر آئے اور قابیل کی اولا دکے پاس چلے گئے اور ان سے آمیز ش و اختلاط پیدا کر لیا تھا. لمک نے ان آٹھ افراد پر درود بھیجا اور ان کے لئے خدا سے برکت طلب کی اور ان سے کہا:

اُس خدا وند متعال سے سوال کرتا ہوں جس نے آدم کو پیدا کیا کہ وہ ہمارے باپ آدم کی بر کت کو تم پر باقی رکھے اور سلطنت و قدرت تمہاری اولاد میں قرار دے..

اے نوح! میںمر جا ئوں گا اور اہل عذا ب میں سے تمہارے علاوہ کو ئی نجات نہیں پا ئے گا جب میں مر جا ؤں تو میرا جنا زہ غار گنج میں جہ حضرت آدم کا جنازہ ہے رکھ دینا اور جب خدا کی مرضی ہو کہ کشتی پر سوار ہو تو ہمارے باپ آدم کے جسد کو اٹھا کر اپنے ساتھ اسے لے کر پائینتی کی طرف جا ؤ اور کشتی کے اوپر ی کمرہ میں رکھدو اور تم اور تمہاری اولادکشتی کے مشرقی سمت میں اور تمہاری بیوی اور بہوویں مغر بی سمت میں جگہ لیں.جسد آدم کو تمہارے درمیان میں ہو نا چا ہئے ، نہ تم ان عورتوں تک دستر سی رکھو اور نہ وہ عورتیں تم تک رسائی رکھیں نہ ان کے ساتھ کھا ؤ اور نہ ہی پیو اور ان سے نزدیک نہ ہو یہاں تک کہ کشتی سے باہر آجاؤ... جب طوفان تھمے اور کشتی سے نیچے اترجاؤ تو حضرت آدم کے جسد پر نماز پڑ ھو۔اس کے بعد اپنے فرزندارشد سام سے وصیت کرو کہ جسد حضرت آدم کو اپنے ہمراہ لے جائے اور زمین کے بیچ میں رکھ دے اور کسی ایک فرزند کو مقرر کرو کہ اس کے پاس رہے۔

یہاں تک فرمایا کہ :

خدا وند عالم فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو اس ( سام )کا راہنما قرار دے گا تا کہ اس کا مونس وغمخوار رہے اور زمین کے درمیان میں اس کی راہنما ئی کرے۔( ۱ )

٭٭٭

ہم حضرت نوح سے پہلے کے اوصیاء وانبیاء کے حالات کو قرآن کریم اوراسلامی منابع کی رو سے اتنی ہی مقدار میں نقل کرنے پر اکتفاء کر تے ہیں، اب خدا کی تائید و مرضی سے ان کی سوانح توریت سے بیان کریں گے۔

____________________

(۱)تاریخ یعقوبی،ج،۱،ص۱۲،۱۳،طبع بیروت ۱۳۷۹ ھ.

۷۴

( ۴ )

پیغمبروں کے اوصیاء کی تاریخ توریت کی روشنی میں

توریت کی نقل کے مطابق حضرت نوح کے زمانے تک اوصیاء کی کچھ سر گذ شت

سفر تکوین اصحا ح پنجم میں مذکور ہے:

یہ کتاب میلاد آدم ہے جس دن خدا وند عالم نے آدم کو اپنے ہاتھ (دست قدرت) سے خلق فر مایا انھیں نر ینہ اور مادینہ پیدا کیا اور انھیں بر کت دی اور اسی روز تخلیق ان کا نام آدم رکھاحضرت آدم ایک سو تیس سال کے تھے کہ ان کی شکل وصورت کا ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام (شیث) رکھاآدم نے شیث کے پیدا ہونے کے بعد دنیا میں آٹھ سو سال زند گی گذاری اور اس مدت میں لڑکوں اور لڑکیوں کے باپ ہوئے (کثیر اولا دہوئی) حضرت آدم کی پوری مدت عمر نو سو تیس سال تھی اور آپ نے اسی عمر میں رحلت کی ہے.

شیث ایک سو پانچ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (انوش ) پیدا ہوئے شیث انوش کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سات سال زندہ رہے. اور اتنی مدت میں لڑ کوں اور لڑ کیوں کے مالک ہوئے شیث کی پوری مدت عمر ۹۱۲ سال تھی تب انتقال ہوا۔

انوش بھی نوّے سال کے تھے کہ ان کے فرزند (قینان) پیدا ہوئے انوش قینان کی پیدائش کے بعد آٹھ سوپندرہ سال زندہ رہے اور صاحب اولاد ہوئے پھر نو سو پانچ سال کی عمر میں رحلت کر گئے.قینان ستّر سال کے تھے کہ ان کے بیٹے ''مَہلَلْئِیْل'' ( مہلائیل) پیدا ہوئے، قینان مہلائیل کی پیدائش کے بعد آٹھ سو چالیس سال زندہ رہے اور ان بہت سے بیٹے اور بیٹیاں تھیں اور نو سو دس (۹۱۰ ) سال کی عمر میں وفات پائی۔

(مہلائیل) ۶۵ سال کے تھے کے ان کے فرزند (یارد) پیدا ہوئے مہلا ئیل یارد کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو تیس سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں وا لے ہوئے پھر انتقال کر گئے مہلا ئیل کی مدت عمر پورے ۸۹۵ سال ہے.

یارد ۱۶۲ سال کے تھے کہ ان کے فرزند (اخنوخ ) پیدا ہوئے اخنوخ کی پیدا ئش کے بعد آٹھ سو سال زندہ رہے ،لڑکوں اور لڑ کیوں والے ہوئے یارد کی پوری عمر ۹سو ۶۲ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے.

۷۵

اَخنوخ ۶۵ سال کے تھے کہ ان کے فرزند(مَتُو شَلَح)پیدا ہوئے. اخنوخ متوشلح کے پیدا ہونے سے خدا کے پاس جانے تک ۳۰۰ سال مزید زندہ رہے اور اس مدت میں صاحب اولاد ہوئے لہٰذا اخنوخ کی پو ری مدت حیات ۳۶۵ سال ہے اخنوخ خداکے جوار میں چلے گئے اس کے بعد کبھی دکھائی نہیں دئیے کیو نکہ خداوند عالم نے انھیں اٹھا لیا تھا۔

متوشلح ۱۸۷ سال کے تھے کہ ان کے بہت سے لڑ کے اور لڑ کیاں ہوئیں متوشلح کی پوری مدت حیات ۹۶۹ سال ہے پھر اس کے بعد انتقال کر گئے۔

(لا مک) ۱۸۲ سال کے سن میں صاحب فرزند ہوئے ان کا نام نوح رکھا اور کہا یہ بچہ ، ہمارے کاروبار اور اس زمین کے حا صل سے جس پر خدا نے لعنت کی ہے ہمیں بہرہ مند کرے گا۔

لا مک نوح کی پیدا ئش کے بعد ۵۹۵ سال زندہ رہے لڑکے اور لڑ کیاں پیدا ہوئیں لا مک کی پوری مدت حیا ت ۷۷۷ سال ہے پھر انتقا ل کر گئے،نوح پانچ سو سال کے تھے کہ ان کے بیٹے سام، حام اور یافث پیدا ہوئے۔

٭٭٭

اسی طرح توریت نے آدم اور نوح کے درمیان اوصیاء کے حالات نقل کرنے میںہر ایک کی مدت عمر کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے مگرا خنوخ کی خبر میں اس جملے (اور اخنوخ خدا کے پاس گئے کیو نکہ خدا وندعالم نے انھیں اُٹھا لیا تھا) کا بھی اضا فہ ہے. قرآن کریم نے بھی اسی امر کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فر مایا ہے :

( و َ رَفَعْنٰاه مَکَا ناً علیّاً )

ہم نے اسے بلند جگہ پر اٹھا لیا۔

۷۶

اس بحث کا نتیجہ

خداوند عالم نے حضرت آدم کوبخش دیا اور انھیں لوگوںکی ہدایت اور اولین انسانوں کوجن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی ان کے زمانے کے انسا نوں کو جن اسلامی احکام کی ضرورت تھی اس کی تبلیغ کے لئے انتخاب کیا. پھر اس وقت انھیں اپنے پاس بلالیا اور ان کے بعد اوصیا ء شریعت کی حفا ظت اور پاسداری اور لوگوں کی ہدایت کے لئے اس کی تبلیغ کو اٹھ کھڑے ہوئے .انسان حضرت ادریس کے زمانے تک دھیرے دھیرے تہذ یب وتمدن سے نزدیک ہوتا گیا اور تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ زندگی کی راہ میں اسلامی احکام کی شرح وبیان کی نئے سرے سے ضرورت محسوس ہوئی یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم نے ادریس پیغمبر کو ان چیزوں کے لئے جن کی ان کے ہم عصر لوگوں کوضرورت تھی '' یعنی اسلامی احکام' ' کی وحی کی تو آپ نے بھی احسن طریقہ سے اپنی رسا لت انجام دی، خدا نے جس چیز کی انھیں وحی کی تھی لوگوں کی ہدایت کی خاطرانھیں تبلیغ کی ؛ اس کے بعد حکمت خدا وندی یہ رہی کہ انھیں بلند جگہ پرلے جا ئے ، خدا جانتا ہے کہ انھیں کیسے اور کہاں بلندی پر لے گیا ، اس بحث میں اس کی تحقیق کی گنجا ئش نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اسلا می مصا در میں انبیاء واوصیاء کی خبروں سے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے وصی سے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نور کے بارے میں جو کہ اس کو منتقل ہوتا تھا، عہد وپیمان لیا اور اس نے بھی اپنے بعد کے وصی کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اسے متعہد و پا بند بنایا۔اس عہد و پیمان پر تاکید قرآن مجید میں نما یاں اور روشن ہے:( وَإِذْ َخَذَ ﷲ مِیثَاقَ النّاَبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَابٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَائَکُمْ رَسُول مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ََقْرَرْتُمْ وََخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ ِصْرِی قَالُوا َقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وََنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاهِدِین َ٭ فَمَنْ تَوَلَّی بَعْدَ ذَلِکَ فَُوْلَئِکَ هُمْ الْفَاسِقُونَ )

جب خدا وند عالم نے پیغمبروں سے پیمان لیا ،کہ چونکہ تمھیں کتاب وحکمت دی ، پھر جس وقت تمہارے پاس وہ پیغمبر جائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے تو تمھیں چا ہئے اُس پر ایمان لا کر اُس کی نصرت کرو( خدا وند عالم نے پیغمبروں سے فرمایا) آیا اقرار کر تے ہو اور اپنی امتوں سے اس کے مطابق پیمان لیا ہے؟

سب نے کہا ،ہاں : اقرار کرتے ہیں فر مایا اس پر گواہ رہنا کہ میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوںلہٰذا جو کوئی اس کے بعد( آخری رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آنے کے بعد )حق سے رو گردانی کرے یقینا وہ فاسقوں میں ہو گا۔( ۱ )

طبری نے پہلی آیت کی تفسیر میں حضرت امام علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فر مایا:

____________________

(۱)آل عمران،۸۱ اور ۸۲

۷۷

خداوند عالم نے حضرت آدم اور ان کے بعد کے پیغمبر وں کو پیغمبری کے لئے مبعوث نہیں کیامگر یہ کہ ان سے حضرت محمد مصطفےٰ صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلہ میں عہد وپیمان لیا پھر اس کے بعد اس آیت کی تلا وت فر ما ئی:

( وَاإِذْ اَخَذَاللّٰهُ مِیثَاقَ النَبْیِین... )

دوسری آیت کی تفسیر میں حضرت سے نقل کیا ہے کہ آیہ کر یمہ اس مطلب کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ خدا وند فرما تا ہے : اس مطلب پر اپنی امتوں پر گواہ رہنا کہ میں تم پر بھی گواہ ہوں اور اُ ن پر بھی۔

لہٰذا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو بھی اس عہد و پیمان کے بعد ان تمام امتوں میں سے تم سے رو گردانی کرے وہ فاسقوں میں سے ہو گا۔( ۱ )

مذکورہ آیت کی تفسیر میں قرطبی فر ماتے ہیں:

یہاں پر حضرت علی اور ابن عباس کے بقول ''رسول'' سے مراد حضر ت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

مؤلف فر ماتے ہیں:

یہ دو نوں مذ کورہ آیتیں اُن چند آیات کے مجمو عہ کے ضمن میں ذ کر ہوئی ہیں جو خود ہی ایسی بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی سے روایت کی گئی ہے، کہ جس کے آغا ز ہی میں خدا وند عالم نے اس طرح فر مایا:

( لَمْ تَرَ الَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ الَی کِتَابِ ﷲ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ یَتَوَلَّی فَرِیق مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ )

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو کتاب سے تھوڑا بہرہ مند ہوئے ہیں جب انھیں کتاب خدا وندی کی دعوت دی گئی تا کہ وہ لوگ اپنے درمیان قضا وت کر یں ، تو ان میں سے بعض گروہ نے پچھلے پاؤں لوٹ کر رو گردانی کی اور وہ لوگ اعرا ض( رو گردانی ) کر نے والوں میں ہیں؟( ۲ ) ( قُلْ اِنْ تُخَفُوا مَا فِی صَدُ وْرِکُم اَوتُبدُوهُ یَعْلَمهُ اللّٰهُ... )

(اے پیغمبر ) کہدو: اگر جو کچھ تم لوگ دل میں رکھتے ہو خواہ چھپا ؤ یا آشکا ر کرو خدا سب جانتا ہے۔( ۳ )

( قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ ﷲ فَاتّاَبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ ﷲ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَﷲ غَفُور رَحِیم )

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۳، ص ۲۳۶ اور ۲۳۸؛ زاد المسیر فی علم التفسیر، تالیف، ابن جوزی، ج۱، ص ۴۱۶؛تفسیرابن کثیر، ج۱، ص۳۷۸، الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ؛ اور تفسیر قرطبی، ج۴، ص ۱۲۵. (۲)سورۂ آل عمران، آیت:۲۳.(۳)سورۂ آل عمران، آیت:۲۹.

۷۸

(اے پیغمبر ) کہو: اگر خدا کو دوست رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو تا کہ خدا تمھیں دوست رکھے اور تمہا رے گنا ہوںکو بخش دے۔( ۱ )

( قُلْ َطِیعُوا ﷲ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ ﷲ لَا یُحِبُّ الْکَافِرِینَ )

(اے پیغمبر ) کہو: خدا اور پیغمبر کی اطا عت کرو اگر ان دو سے رو گردانی کرو گے ، تو بیشک خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا ۔( ۲ )

چونتیسویں آیت ا ور اس کے بعد اسی سورہ میں بیان کر تا ہے کہ خدا نے آدم اور نوح کومنتخب کیا اور یہ کہ اس نے کس طرح عیسیٰ کو پیدا کیا اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا اور یہ کہ حواری ان پر ایمان لائے۔

پھر اس کے بعد فر ماتا ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ َبْنَائَنَا وََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَا وََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ ﷲ عَلَی الْکَاذِبِینَ )

پھر جو بھی (حضرت عیسیٰ کے بارے میں ) علم آجانے کے بعد تم سے کٹ حجتی کرے، تو اس سے کہو: آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں، پھر مبا ہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیتے ہیں۔( ۳ )

پھر چند آیات کے بعد فرماتا ہے:

( یَااَهلَ الَکِتاب لِمَ تَلبِسُونَ الَحَقَّ بِِالبَاطِل وَ تَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ اَنْتُم تَعْلَمُون )

اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کے لباس میں ظاہر کرتے ہو ،جب کہ خود بھی جانتے ہو کہ حق چھپا رہے ہو؟( ۴ )

دوسری جگہ فر ماتا ہے:

( وَاِذَ اَخَذَ اللّٰهُ مِیثَاقَ النَّبیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ... )

جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا ، چو نکہ ہم نے تمھیں کتاب وحکمت بخشی ہے...( ۵ )

اس طرح سیاق آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا وند اعالم کی فرمایش سے مراد سورہ ٔآل عمران کی ۸۱ ویں

____________________

(۱)سورۂ آل عمران، آیت: ۳۱.(۲) سورۂ آل عمران، آیت: ۳۲.(۳) سورۂ آل عمران، آیت:۶۱(۴) سورۂ آل عمران، آیت:۷۱ (۵)سورۂ آل عمران، آیت:۸۱

۷۹

آیت میںکہ ا س میں فر ماتا ہے: (تمہا ری ہدایت کے لئے اے اہل کتاب! خدا کی طرف سے ایک رسول آیا جس نے تمہاری کتاب اور شریعت کی صداقت کی گو اہی دی، تا کہ ایمان لاؤ.اور اس کی نصرت کرو...)یہ چیز ہے کہ امتوں سے عہد لیا گیا ہے کہ حضرت ختمی مر تبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر ایمان لائیں، جس طرح سے اس کی تفسیر ہم نے حضرت امیر المو منین علی سے نقل کی ہے. ان تمام چیزوں کے علا وہ اُن آیات کی طرف آپ کی تو جہ مبذول کریں گے جسے ہم نے کتاب کے آخر میں ''آخرین شریعت'' کے عنوان کے تحت ذ کر کیا ہے جیسے اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( یَعرِ فُونَهُ کَمَایَعِرفُونَ اَبْنَائِ هم )

اہل کتاب، خاتم الا نبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس طرح پہچا نتے ہیں جیسے کہ وہ اپنی اولا دکو پہچا نتے ہیں۔

ان تمام آیات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا وند متعال نے گزشتہ انبیاء سے عہد وپیمان لیا ہے کہ اپنی امتوں کو حضرت ختمی مرتبت کی رسا لت کے وجوب پر ایمان لا نے سے آگا ہ کریں( ۱ ) اور یہ بھی کہ ہرایک نبی نے اپنے وصی سے اس سلسلہ میں عہد وپیمان لیا ہے .جیساکہ اسلامی منا بع و مصادر سے حضرت نوح کے زمانے تک اس کی شرح وتفصیل گذر چکی ہے۔

یہ سب حضرت آدم سے حضرت نوح کے زمانے تک انبیا ء اور ان کے اوصیاء کی کچھ خبریں تھیں۔

حضرت نوح کے زمانے میں شیث کے پو توں نے قا بیل کے پو توں سے آمیز ش اور اختلاط پیدا کیا اور نتیجہ کے طور پر ایک فاسد،سر کش، گمراہ ، بت پرست اور طاغی نسل کو جنم دیا۔

انشاء اللہ ان کے حالات کوحضرت نوح کے حالات کے ضمن میں بیان کریں گے۔

____________________

(۱)لباب التاویل فی معانی التنزیل معروف بہ تفسیر خازن ، متوفیّٰ ۷۴۱ھ، ج۱، ص۲۵۲.اورتفسیر البحر المحیط، ابوحیان،متوفیّٰ ۷۴۵ھ، ج۲، ص۵۰۸، ۵۰۹.اورتفسیر در منثور، سیوطی، متوفیّٰ ۹۱۱ھ، ج۲، ص۴۷، ۴۸.

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اس کے علاوہ جو کچھ سیف نے اس سلسلہ میں کہا ہے وہ جعلی ہے اور تنہا وہی اس کا راوی ہے دیگر راویوں نے اس قسم کی کوئی چیز ذکر نہیں کی ہے اور یہ سب دیگر مورخین کے نظریات اور نقل و روایت کے خلاف ہے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے یہ داستان محمد اور مہلب سے نقل کی ہے کہ یہ دونوں اس کے جعلی راوی ہیں اور ہم اس سے پہلے ان کا ذکر کر چکے ہیں ۔

اسی طرح عروہ ابن ولید اور ابو معبد العبسی کہ جنھوں نے اپنے رشتہ دار وں سے روایت کی ہے ،کو بھی اس داستان کے راویوں کے طور سے ذکر کیا ہے ۔ہم نے عروہ اور ابومعبد کا نام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا ،ان کے مجہول رشتہ داروں کا پتا لگانا تو دور کی بات ہے !!۔

پڑتال کا نتیجہ :

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف بن عمر نے ایران کی فوج کے سپہ سالار اعظم کا نام بدل دیاہے۔

ایرانیوں کو اپنی پناہ گاہ سے نکالنے کے طریقہ کار میں تحریف کی ہے فتح کے سال کوبھی بدل دیا ہے اور شاید '' گزر گاہ شہد ''کو اس لئے جعل کیا ہے تاکہ معاویہ ابن ابو سفیان مضری کی کارکردگی اور مالک اشتر کو شہد میں ملائے زہر سے قتل کرنے کی اس کی بات گول مول کردے ۔

اس کے علاوہ ہم نے واضح طور پرمشاہدہ کیاکہ اس نے ہمدان کی فتح کو جریر بجلی قحطانی یمانی کے بجائے قعقاع بن عمر و تمیمی مضری کے کارناموں میں درج کردیا ہے ۔

۲۲۱

اس داستان کے نتائج:

١۔ ایرانیوں کو جنگی حیلہ اور فریب سے ان کی پناہ گاہ سے باہر لاکر خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع بن عمرو کے لئے خاص فضیلت و ستائش تخلیق کرنا۔

٢۔ نہاوند میں ''وائے خرد !'' نام کی جگہ ایک لاکھ سے زائد ایرانیوں کا ان کے اپنی ہی آگ سے بھری خندق میں گر کر ہلاک ہوجانا۔

٣۔ نہاوند کی فتح میں ایک لاکھ انسان کے قتل ہونے اور ایک لاکھ کے جل کر ہلاک ہونے ، یعنی مجموعی طور سے دو لاکھ انسانوں کی ہلاکت پر تاکید اور اصرار کرنا۔

٤۔فیروزان نام کی ایک نمایاں ایرانی شخصیت کو ایرانی فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے جعل کرنا۔

٥۔ ''وائے خرد'' نام کی ایک خندق کی تخلیق کرنا تاکہ جغرافیہ کی کتابوں میں یہ نام درج ہو جائے ۔

٦۔ ''گزر گاہ شہد '' کے نام سے ایک گزرگاہ تخلیق کرنا تاکہ دشمنان اسلام کے لئے رکاوٹ بن جائے ۔اور اس فیروزان کو قتل کر کے قعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ کرنا ۔

٧۔ ہمدان کی فتح کا سحرا قعقاع اور دیگر مضری سرداروں کو بخش کر ان کے افتخارات میں ایک اورفخر کا اضافہ کرنا ۔

٨۔ ان جنگوں میں بے مثال پہلوان قعقاع بن عمرو کے رجز اور رزم ناموں پر مشتمل قصیدوں کو ادبیات عرب کی زینت بنانا۔

٩۔ ہمدان اور ماہان کے باشندوں کے ساتھ صلح و امان نامے جعل کرنا تاکہ تاریخ کی کتابوں میں ناقابل انکار تاریخی اسناد کے طور پر ثبت ہو جائیں اور ہمیشہ کے لئے باقی رہیں ۔

۲۲۲

بحث کاخلاصہ:

یہ ہے سیف کا افسانوی دلاور ،پہلوان ،عقلمند سیاست داں ،نامور رزمی شاعر اور تمام معرکوں اور فتوحات میں ناقابل شکست سورما قعقاع ،جس کی نیک نامیاں ،بہادریاں ،دوراندیشیاں ،سنجیدگیاں اور قابل قدر خدمات کتابوں میں درج ہوئے ہیں اور اس کے نام کی شہرت دنیا میں پھیل گئی ہے ۔

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ٣٤ھو ٣٥ھ کے حوادث کے ضمن میں عثمان کی خلافت کے زمانے میں قعقاع کی سرگرمیوں کا ایک اور باب کھول کر یوں ذکر کیا ہے ۔

'' خلیفہ عثمان نے قعقاع بن عمر و کو کوفہ کی جنگ کا سپہ سالار مقر ر کیا ۔اس زمانے میں کوفہ اسلامی ممالک کا مشرقی دارالخلافہ تھا اور عسکری نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل تھا ۔سیف کی اس روایت کے مطابق خلیفہ عثمان نے قعقاع بن عمرو کو اسلامی ممالک کے مشرقی حصے کے کمانڈر انجیف کی حیثیت سے مقرر کیا ہے ۔

سیف کی روایت کے مطابق اس کے بعد قعقاع بن عمر و کی سرگرمیاں ایک اور صورت اختیار کرتی ہیں اور اس کے لئے ایک خاص مقام و مرتبہ پر فائز ہوتا ہے ۔آخر اس جیسا افسانوی ''مرد مجاہد '' کیوں ہر لحاظ سے کامل نہ ہو !؟

قعقاع ابن عمرو کی سرگرمیوں کے اس نئے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کو ایک خیر خواہ ،صلح و صفائی کے ایلچی اور عثمان اور حضرت علی ں کی خلافت کے دوران پیدا ہوئی بغاوتوں اور فتنوں کو دوستی و برادری سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس حصے کی تفصیل اگلی فصل میں پیش کریں گے ۔

۲۲۳

قعقاع ،عثمان کے زمانے میں

انی لکم ناصح و علیکم شفیق

میں آپ کا شجاع دوست اورخیر خواہ ہوں

( قعقاع افسانوی خیر خواہ )

قعقاع ،عثمان کے زمانے کی بغاوتوں میں

طبری نے سیف بن عمر سے روایت کی ہے :

'' جب قعقاع سبائیوں کی عثمان کے خلافت بغاوت کے سلسلے میں مسجد کوفہ میں منعقدہ میٹنگ سے آگاہ ہوا ،تو فوراً وہاں پہنچ گیا اور انھیں ڈرادھمکا کے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا ۔سبائیوں نے اپنے جلسہ کا مقصد اس سے چھپاتے ہوئے کہا : ہم کوفہ کے گورنر سعید کی برطرفی کے حامی ہیں قعقاع نے جواب میں کہا : کاش !تم لوگوں کی خواہش صرف یہی ہوتی !اس کے بعد ان کو منتشر کیا اور مسجد میں رکنے نہیں دیا ''

وہ مزید لکھتا ہے :

جب مالک اشتر سعید کو گورنر کی حیثیت سے کوفہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے باغیوں کو اکسارہا تھا ،تو ڈپٹی گورنر عمر وبن حریث اس شورش کو روکنے اور نصیحت و رہنمائی کرنے کی غرض سے آگے بڑھا اور انھیں اس سلسلہ میں ہر قسم کی انتہا پسندی سے پرہیز کرنے کو کہا ۔اسی اثنا میں قعقاع بھی وہاں پہنچتا ہے اور ابن حریث سے کہتا ہے کیا تم سیلاب طوفانی لہروں کو نصیحت کی زبان سے پلٹنا چاہتے ہو !؟کیا دریائے فرات کو مہربانی اور نرمی سے اپنے سر چشمہ کی طرف پلٹنا چاہتے ہو !؟ یہ ناممکن ہے !! خدا کی قسم اس بغاوت اور شورش کے شعلوں کو تلوار کی تیز دھار کے علاوہ کوئی چیز بجھا نہیں سکتی اب وہ وقت آگیا ہے کہ یہ تلوار میان سے باہر آئے ۔اس وقت ان کی چیخ پکار بلند ہوگی اور وہ اپنے گنوائے ہوئے وقت کی آرزو کریں گے کہ خدا کی قسم :اس وقت دیر ہوچکی ہوگی وہ ہرگز اپنے عزائم کو نہیں پہنچ پائیں گے،لہٰذا تم چپ رہو اور صبر سے کام لو۔

۲۲۴

ابن حریث نے قعقاع کی نصیحت وراہنمائی قبول کی اور اپنے گھر چلاگیا۔وہ مزید کہتاہے:

جب یزید بن قیس مسجد کوفہ میں لوگوں کو سعید کے خلاف بھڑکارہاتھا اور عثمان کے بارے میں بد گوئی کررہاتھا ،تو قعقاع بن عمرو اٹھتاہے اور اس کے سامنے کھڑا ہوکر کہتاہے:کیا تم ہمارے عثمان کے مامور حکام کے استعفا دینے کے علاوہ کچھ

اور چاہتے ہو؟ توہم تمھاری یہ خواہش پوری کردیں گے!

اس نے مزید روایت کی ہے:

جب عثمان کا محاصرہ کیاگیا تو خلیفہ نے مختلف اسلامی شہروں کو خط لکھا اور ان سے مد د چاہی ۔ عثمان کے جواب میں قعقاع بن عمرو ،ساتھیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ کوفہ سے مدینہ کی طرف عثمان کی مدد کے لئے روانہ ہوا ۔ادھر عثمان کا محاصرہ کرنے والے باغیوں کو یہ اطلاع ملی کہ مختلف شہروں سے لوگ عثمان کی مدد کے لئے آرہے ہیں اور ان کو یہ بھی پتا چلا کہ معاویہ شام سے اور قعقاع بن عمرو کوفہ سے اور ......خلیفہ کو نجات دینے کے لئے مدینہ کے طرف آرہے ہیں ،تو انھوں نے محاصرہ کا دائرہ تنگ تر کرکے عثمان کا کام تمام کردیا اور اسے قتل کرڈالا۔جب عثمان کے قتل کی خبر راستے میں ہی قعقاع کوملی تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت کوفہ پلٹ گیا۔

یہ تھی ،عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت اور اس میں قعقاع کے رول کے بارے میں ، سیف کی روایت ۔آئندہ فصل میں ہم امام علی ں کے زمانے میں قعقاع کے رول کے بارے میں سیف کی روایت کا جائزہ لیں گے۔

۲۲۵

قعقاع ،امام علی کے زمانے میں

نادی علی ان اعقرواالجمل

علی نے فریاد بلند کی ،اونٹ کوپے کرو!

(مؤرخین)

امر قعقاع بالجمل فعقر

قعقاع نے حکم دیا اونٹ کوپے کرو اور اونٹ پے کیاگیا۔

(سیف بن عمر)

جنگ جمل کی داستان ،سیف کی روایت کے مطابق:

طبری نے سیف سے یوں روایت کی ہے :

حضرت علی بن ابیطالب کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ کے باشندوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امام کی مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ بصرہ جائیں گے۔لیکن ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا گورنر تھا نے انھیں بصرہ جانے سے روکا ۔اس کی وجہ سے زید بن صوحان ابوموسیٰ سے الجھ گیا اور ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی !آخر میں قعقاع اٹھا اور بولا:

میں آپ سبوں کا دوست اور ناصح ہوں ،میں چاہتاہوں کہ آپ لوگ ذرا عقل سے کام لیں اور میری بات مان لیں ،کیونکہ میری بات عین حقیقت ہے۔جو کچھ گورنر ابو موسیٰ اشعری نے کہا، وہ حق بات ہے لیکن قابل اعتماد نہیں ہے۔جہاں تک زید کی بات کا تعلق ہے ،چونکہ اس بغاوت میں خود اس کا ہاتھ ہے،اس لئے اسے ہرگز قبول نہ کرنا ۔(۱) ۔حق و حقیقت یہ ہے کہ بے شک لوگوں کو حکومت اور خلیفہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ پوری طاقت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کا اقدام کرے اور سماج میں نظم وضبط برقرار کرے ۔ظالموں کو قرار واقعی سزادے اور مظلوموں کی دادرسی کرے امام علی ـ لوگوں کے حاکم مقرر ہوئے ہیں ۔انھوں نے خیر خواہانہ طور پر لوگوں کو اپنی حمایت کی دعوت دی ہے۔وہ لوگوں کو اصلاح کی طرف بلارہے ہیں ۔لہٰذا ان کاساتھ دو اور ان کی اطاعت کرو۔

۲۲۶

صلح کا سفیر

طبری نے مزید روایت کی ہے :

قعقاع بن عمرو کوفہ کے کمانڈروں میں وہ پہلا کمانڈر تھا ،جس نے علی کا ساتھ دیا۔اور جب ذی قار کے مقام پر علی کی خدمت میں پہنچا،تو حضرت نے اسے اپنے پاس بلاکر اسے بصرہ کے لوگوں کی جانب اپنا سفیر اور ایلچی بنا کر روانہ کیا اور فرمایا:

اے ابن حنظلیہ !ان دو مردوں (طلحہ وزبیر) سے ملاقات کرو (سیف کا کہنا ہے کہ قعقاع

١لف۔سیف نے اس افسانہ میں زید بن صوحان کو اس کے مقام ومنزلت کے پیش نظر خاص طور پر سبائی جتلاکر قعقاع کی زبانی اس کی اس طرح تصویر کشی کی ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا)اور انھیں اسلامی معاشرے میں اتحاد ویکجہتی قائم کرنے کی دعوت دو اور معاشرے میں اختلاف وافتراق سے انھیں خبر دار کرو!اس کے بعد فرمایا:ان کا جواب سننے کے بعد اگر کسی خاص امر میں تمھارے پاس میرا حکم موجود نہ ہو تو ،تم کیا کروگے؟قعقاع نے جواب میں کہا:آپ کے حکم کے مطابق ان دونوں سے ملوں گا۔اگر کوئی ایسا امر پیش آیا جس کا حکم آپ نے نہ دیا ہوتو میں اپنی رائے اور اجتہاد سے اس کا تدارک کروں گا۔ان کے ساتھ جو بھی سزاوار ہو،مشاہدہ کے مطابق اسی پر عمل کروں گا۔

امام علی ں نے جواب میں کہا:تم اس کام کے لائق ہو ،جاؤ!

اس کے بعد قعقاع اپنی ماموریت پر روانہ ہوا۔جب ان (عائشہ،طلحہ وزبیر)کے پاس پہنچا،تو ان سے گفتگو کی ۔ام المومنین عائشہ نے اس کی بات مان لی اور طلحہ وزبیر نے بھی توافق کیا اور کہا:شاباش ہو!سچ کہتے ہو اور حق یہی ہے۔اس طرح انھوں نے دو گروہوں کے درمیان صلح وآشتی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔

جب قعقاع صلح وآشتی کی نوید لے کر امام علی ں کی خدمت میں پہنچا تو علی ں اٹھ کر منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر کرتے ہوئے بولے:

تم لوگ یہ جان لو کہ میں کل روانہ ہورہاہوں ۔تم لوگ بھی تیار رہنا۔لیکن جس نے عثمان کے خلاف کوئی اقدام کیا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ آئے ۔ہم احمقوں کی حمایت سے بے نیاز ہیں ۔

۲۲۷

سبائیوں کی میٹنگ:

سبائیوں نے جب دو سپاہیوں کے درمیان صلح کی خبر سنی تو بڑی تیزی کے ساتھ آپس میں جلسہ منعقد کرکے صلاح و مشورہ کرنے لگے ۔کافی گفتگو کے بعد عبداللہ بن سبا نے یہ تجویز پیش کی کہ :'' دونوں سپاہوں کے قائدین کی بے خبری میں ہم راتوں رات جنگ کے شعلے بھڑکا دیں گے اور انھیں آپس میں ٹکرا دیں گے '' اس تجویز پر تمام سبائیوں نے موافقت کی اور قول و قرار کے بعد متفرق ہو گئے۔

دوسری طرف دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراہوئیں ۔حضرت علی ـ،طلحہ اور زبیر نے اپنی فوج کے مختلف دستوں کے کمانڈروں کو بلا کر انھیں مطلع کیا کہ دونوں گروہوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے ہونے والا ہے اور جنگ نہیں ہوگی ۔نتیجہ کے طور پت دو طرف کے سپاہیوں نے صلح و آشتی کی امید میں وہ دن آرام سے گزارا ۔لیکن اسی رات تاریکی میں سبائیوں نے عبداللہ ابن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا دئے اور دونوں فوجوں کو ایک دوسرے سے ٹکرادیا۔

قعقاع کی جنگ

جنگ چھڑ گئی اسی گرما گرمی کی حالت میں قعقاع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ طلحہ کے نزدیک سے گزررہا تھا کہ اس نے طلحہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' اے خدا کے بندو!میری جانب آجائو ،صبر کرو! صبر کرو! قعقاع نے طلحہ سے کہا : تم زخمی ہو چکے ہو اور اپنی طاقت کھو بیٹھے ہو ،اپنے گھر چلے جائو۔

طبری سیف سے مزید روایت کرتا ہے :

قعقاع نے جنگ کی اس حالت میں مالک اشتر کی شماتت کرتے ہوئے کہا : کیا تم جنگ کی طرف نہیں بڑھو گے ؟! چوں کہ مالک اشتر نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اس لئے قعقاع اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا : ہم مضری جنگ میں اپنے مد مقابل سے لڑنے میں دیگر لوگوں سے زیادہ ماہر ہیں ۔اس کے بعد وہ جنگ کو جاری رکھتے حسب ذیل رجز خوانی کرنے لگا:

۲۲۸

''جب ہم کسی پانی پینے کی جگہ پر وارد ہوتے ہیں تو اسے پاک و صاف کرکے رکھتے ہیں اور جس پانی پر ہم قبضہ کر لیتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ اس کی طرف دست درازی کرے ''

طبری نے مزید روایت کی ہے :

''زفر بن حارث آخر ی شخص تھا جس نے میدان کا رزار میں جاکر جنگ کی قعقاع نے جاکر اس کا مقابلہ کیا ۔

عائشہ کے اونٹ کے اطراف میں جنگ شدت اختیار کر گئی تھی ،اس اونٹ کے اطراف میں قبیلہ بنی عامر کے مردوں میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا ،اس وقت قعقاع نے حکم دیا کہ عائشہ کے اونٹ کو پئے کردیں ۔عائشہ کے اونٹ کے مارے جانے کے بعد قعقاع نے ہی عام معافی کا اعلان کیا اور اپنے اطراف میں موجود سپاہیوں سے کہا :''تم امان میں ہو !!'' اس کے بعد اس نے اور زفربن حارث نے اونٹ کے پالان کی پٹیاں کاٹ دیں اور عائشہ کے محمل کو اس سے جدا کر کے آہستہ سے زمین پر رکھ دیا اور اس کے اطراف میں حفاظت کا انتظام کیا۔

جب عائشہ کا اونٹ قتل ہوا تو لوگ (جنگ جمل کے حامی) بھاگ گئے اور جنگ کے شعلے فوراً بجھ گئے ۔یہ کامیابی قعقاع بن عمرو تمیمی مضری کے وجود کی برکت سے نصیب ہوئی ۔جنگ کا عفریت فرار کر گیا اور خطرات ٹل گئے ۔

جنگ جمل کا فخر بھی ابتدا ء سے آخر تک خاندان تمیم کو ہی نصیب ہوا ۔کیوں کہ قعقاع بن عمرو تمیمی کے ذریعہ ہی قوم کے قائدین کے درمیان دوستی و آشتی کا باب کھلتا ہے ۔ سبائیوں کے عبداللہ بن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا نے اور قعقاع کی صلح کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے برادر کشی کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے بعد بھی قعقاع بن عمر و تمیمی ہی ہمت و حوصلہ سے میدان کا رزار میں اتر کر ،عرب قوم کو نابود کرنے والی جنگ کے ان شعلوں کو اپنی تدبیر و حکمت عملی سے بجھاتا ہے اور عائشہ کے اونٹ کو قتل کرنے کے بعد جنگ کا خاتمہ کرتا ہے ۔ عام معافی کا اعلان کرنے والا بھی قعقاع بن عمرو تمیمی ہی تھا ۔

۲۲۹

حضرت علی ں اور عائشہ کی پشیمانی

طبری سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے عائشہ اور قعقاع بن عمر و کے درمیان گفتگو کی حسب ذیل روایت بیان کرتا ہے :

عائشہ نے قعقاع بن عمرو تمیمی سے کہا:

''خدا کی قسم !تمنا کرتی ہوں کاش اب سے بیس سال پہلے مر چکی ہوتی ''

امام علی ـنے بھی قعقاع سے یہی کہا ۔علی اور عائشہ کے جملے یکساں تھے ۔

طبری مزید روایت کرتا ہے :

حضرت علی ـابن ابی طالب نے قعقاع بن عمرو کو مامور کیا کہ ان افراد کا سر تن سے جدا کردے ،جنھوں نے عائشہ کے بارے میں شعر کہہ کر اس کی بے احترامی کی تھی ۔

ان میں سے ایک شعر یہ کہا گیا تھا:

'' اے ماں !تیرا جرم نافرمانی ہے ''

اور دوسرے نے کہا تھا:

'' اے ماں !توبہ کر کیوں کہ تونے خطا کی ہے ''

حضرت علی ں نے یہ حکم جاری کرنے کے بعد قعقاع سے کہا : میں انھیں سخت سزا دوں گا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ ان دونوں کے کپڑے اتار دئے جائیں ہر ایک کو سو سو

کوڑے مارے ۔

مورخین نے سیف کی روایت طبری سے نقل کی ہے

یہ تھا اس داستان کا خلاصہ جس کی طبری نے سیف بن عمر سے ،جنگ جمل ،اس کے وقوع کے اسباب اور افسانوی سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے نمایاں خدمات اور قابل ذکر سرگرمیوں کے بارے میں روایت کی ہے ۔اور ان ہی مطالب کو ابن کثیر اورابن اثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۲۳۰

ابن کثیر اپنے بیان کے آغاز میں کہتا ہے : سیف بن عمر نے اس طرح کہا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے : یہ اس کا خلاصہ ہے جسے ابو جعفر طبری

ابن خلدون نے بھی جمل کے بارے میں درج کی گئی اپنی داستان کے آخر میں لکھاہے : ابو جعفر طبری کی روایت کے مطابق جنگ جمل کا یہ ایک خلاصہ ہے ۔

دوسرے مورخین نے بھی سیف کے افسانے کو طبری سے اقتباس کیا ہے منجملہ میر خواند بھی ہے کہ جس نے ''روضة الصفا '' میں جنگ جمل کے بارے میں طبری کے نقل کئے ہوئے مطالب درج کئے ہیں ۔

ان مردود اور باطل مطالب کی وقعت معلوم کرنے کے لئے ایک تفصیلی تجزیہ اور تشریح کی ضرورت ہے کہ یہاں پر اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ہم نے اس کے ایک بڑے حصے کی ''اسلامی تاریخ میں عائشہ کا کردار ''نام کی اپنی کتاب کی فصل ''عائشہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامادوں کے دوران'' میں تشریح کی ہے اور یہاں پر اس کے ایک حصے کو خلاصہ کے طور پر پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ دوسری صدی ہجری کے اس افسانہ ساز ،سیف بن عمر نے کس طرح حقائق میں تحریف کی ہے اور کس طرح اسلام اور تاریخ اسلام کا مضحکہ اڑاتے ہوئے اپنے زندیقی اور مانوی پن کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوستی کے لباس میں اسلام کو نابود کرنے کے درپئے رہا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا ہے امام المورخین ابو جعفر جریر طبری جیسے نام کا عالمی شہرت یافتہ شخص اور مورخ کس طرح اور کیوں اس دروغ گو اور عیار افسانہ ساز کا آلۂ کار بن گیا!!

۲۳۱

جنگ جمل کی داستان ،سیف کے علاوہ دیگر راویوں کے مطابق

طبری نے جنگ جمل میں شرکت کرنے کے لئے کوفیوں کی رضاکارانہ آمادگی کے بارے میں اس طرح روایت کی ہے :

''امیرالمومنین علی ں نے ہاشم بن عتبہ کوایک خط دے کر ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا حاکم تھا کے پاس کوفہ بھیجا ۔اس خط میں ابو موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ کوفیوں کی ایک فوج کمک کے طور پرجنگ کے لئے اس کے ساتھ بصرہ بھیج دے۔ چوں کہ ابو موسیٰ اشعری نے امام کے حکم کی نافرمانی کی اور کوفیوں کو امام کی مدد کے لئے بھیجنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اس لئے حضرت نے اپنے بیٹے حسن اور عمار یاسر کو کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ابو موسیٰ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر دیا ۔

حسن ابن علی اور عمار یاسر کوفہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تقریر و ہدایت کرنے لگے ان دونوں کی تقریر وں کا یہ نتیجہ نکلا کہ کوفہ کے باشندوں نے بصرہ کی جنگ میں شرکت کی آمادگی کا اعلان کیا اور تقریباً بارہ ہزار جنگجو کوفی حضرت علی ں کے ساتھ ملحق ہوگئے۔

نیزطبری بصرہ میں حضرت علی ں کی موجودگی کے بارے میں روایت کرتا ہے :

''تین دن تک دونوں متخاصم فوجوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں کوئی جنگ نہ ہوئی ۔بلکہ حضرت علی ـ،بعض افراد کو ایلچیوں کے طور پر ان کے (طلحہ ،زبیر و عائشہ) پاس بھیجتے رہے اور پیغام دیتے رہے کہ اس نافرمانی ،اختلاف اور دشمنی سے باز آجائیں ۔

طبری نے ان تین دنوں کے دوران دو طرفہ خط و کتابت اور گفتگو کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے ۔لیکن اس کے ایک حصہ کو ابن قتیبہ ،ابن اعثم اور سید رضی نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

منجملہ درج ذیل خط یہ ہے جو امام نے طلحہ و زبیر کے پاس لکھ کر بھیجا تھا:

''خد ا کی حمد و ثنا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام کے بعد ،دونوں بخوبی جانتے ہو اور دل سے اقرار بھی کرتے ہو اگر چہ زبان پر نہیں لاتے اور اعتراف نہیں کرتے ہو ، کہ میں نے کسی کو لوگوں کے پاس نہیں بھیجا تھا اور ان سے یہ نہیں چاہاتھا کہ میری بیعت کریں بلکہ یہ لوگ ہی تھے جنھوں نے مجھے حکومت اور بیعت قبول کرنے پر مجبور کیا اور تب تک ارام سے نہ بیٹھے جب تک میرے ہاتھ پر خلافت کے لئے بیعت نہ کرلی۔

۲۳۲

تم دونوں بھی ان کے ساتھ تھے بارہا میرے پاس آئے ہو اور مجھ سے اصرار کرتے رہے ہو کہ میں حکومت قبول کرلوں ۔تملوگ میری خلافت کے لئے میرے ہا تھ پر بیعت کرنے تک آرام سے نہ بیٹھے ۔جن لوگوں نے میری خلافت کو قبول کرتے ہوئے میری بیعت کی انھوں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا ہے کہ اس کے بدلے میں انھیں کوئی مال وثروت ملے اور نہ زور و زبردستی ،دھمکی اور خوف وہراس سے میری بیعت کی ہے ۔

بہر حال اگر تم دونوں نے اپنی مرضی اور اختیار سے میرے ساتھ عہد و پیمان کرکے میری خلافت کی بیعت کی ہے تو،یہ راہ جو تم نے اختیار کی ہے (بغاوت ،مخالفت اور مسلمانوں کے در میان اختلاف اندازی )سے جتنا جلد ممکن ہوسکے ہاتھ کھینچ لو اور دل سے خداکے حضور توبہ کرو اور اگر اپنی مرضی کے بر خلاف میری بیعت کی ہے تو تمھارے لئے کوئی عذر و بہانہ نہیں ہے بلکہ یہ میرا حق بنتا ہے کہ تم سے یہ پوچھوں کہ اس ظاہرداری اور دو رخی کا سبب کیا تھا؟تم لوگوں نے کیوں ظاہر ی طور پر میرے ہاتھ پر بیعت کی (اور میری حکومت کے مقاصد کے سلسلے میں جانثاری کا اعلان کیا؟)اور باطن میں میرے ساتھ مخالفت اور امت اسلامیہ میں اختلاف و افتراق کے بیج بوئے ؟اپنی جان کی قسم !تم دونوں دیگر مہاجرین سے کچھ کم فضیلت نہیں رکھتے تھے ،تم بے بس و کمزور نہیں تھے کہ ظاہر داری اور تقیہ سے اپنے دل کی خواہشات چھپاتے ۔تم دونوں کے لئے (میری بیعت کرنے کے بعد اس سے منہ موڑکر رسوائی مول لینے سے ) بہت آسان یہ تھا کہ اسی دن میری بیعت نہ کرتے اور میری خلافت کو قبول نہ کرتے ۔تم لوگوں نے اپنی مخالفت اور بغاوت کے سلسلے میں عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے اور یہ افواہ پھیلائی ہے کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے ۔میرے اور تمھارے درمیان مدینہ کے وہ لوگ حَکَم ہوں جو نہ تمھارے طرفدار ہیں اور نہ میرے بلکہ غیر جانبدار ہیں ،تا کہ معلوم ہوجائے کہ عثمان کے قاتل کون ہیں ۔اس وقت جو اس سلسلے میں جتنا مجرم قرار پائے اسی قدر سزا کا مستحق ہوگا ۔

پس اے دو بوڑھو!ان (بے بنیاد و بیہودہ ) افکار کو اپنے دماغ سے نکال باہر کرو اور اس احمقانہ اقدام سے پرہیز کرو ،اگر چہ یہ تمھاری نظرمیں بہت ننگ وعار ہے ،لیکن قیامت کے دن اس سے بڑے ننگ یعنی آتش جہنم سے دوچار نہ ہوگے ۔والسلام

اس کے بعد عبداللہ بن عباس کو مامور کیا کہ زبیر سے تنہائی میں ملاقات کرے اور اس سے یوں تاکید کی :

'' طلحہ کے پیچھے نہ جانا ،کیوں کہ اگر اسے دیکھو گے تو اس بیل کے مانند پائوگے جو اپنا سر نیچے کئے ہوئے اپنے سینگوں سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ ہے وہ ایک متکبر ،خود غرض اور تند خو آدمی ہے ،وہ مشکل، سخت اور بڑا کام شروع کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ بہت آسان ہے ۔

۲۳۳

لیکن اس کے بر عکس زبیر سے ملنا ۔وہ نرم مزاج ،در گزر کرنے والا اور بات سننے والا ہے ۔ اس سے کہنا کہ تیرا ماموں زاد بھائی کہتا ہے : تم حجاز میں (اس کی جائے پیدئش میں ) میرے آشنا اور حامی تھے ،اب کیا ہوا کہ عراق میں (بے وطنی میں ) نا آشنا،میری مخالفت اور دشمنی پر تلے ہوئے ہو؟

(حضرت اس زیبا اور دلچسب بیان میں فرماتے ہیں : عرفتنی بالحجاز وانکرتنی بالعراق فما عدا ممابدا؟)

ابن عباس کہتے ہیں : میں نے امام کے پیغام کو کسی کمی بیشی کے بغیرزبیر تک پہنچا دیا ۔زبیر چند لمحات کے لئے غور فکر میں پڑا ،پھر جواب کے طور پر صرف اتنا کہا: ان سے کہنا : اس راہ میں تمام موجود ہ مشکلات اور خوف و ہراس کے باوجود ہم امید وار ہیں ۔

عبداللہ ابن زبیر نے بھی مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:(۱) ان سے کہنا : ہمارے درمیان خون عثمان کا مسئلہ در پیش ہے اور خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ اس شوریٰ کو وا گزار کرنا ہے جس کی تشکیل عمر نے کی تھی ۔اس صورت میں تمھیں جاننا چاہئے کہ ان میں سے دو افراد یعنی طلحہ و زبیر ایک طرف ہوں گے اور ام المومنین عائشہ بھی ان کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچیں گی ۔جو اثر ورسوخ عائشہ

عوام میں رکھتی ہیں ،اس کے پیش نظر یہ دونوں بھی انھیں نہیں چھوڑیں گے اور اگر مسئلہ لوگوں کے انتخاب پر منحصر ہوا تو اکثریت عائشہ اور ان کے طرفداروں کی ہوگی ۔اس صورت میں تم اکیلے

رہ جائو گے ۔

ابن عباس کہتے ہیں :میں ابن زبیر کی ان باتوں سے سمجھ گیا کہ اس کی گفتگو کے پیچھے صرف جنگ حکم فرما ہے ۔میں علی علیہ السلام کے پاس آیا اور انھیں حالات سے آگاہ کیا۔

امام نے ابن عباس کو ایک بار پھر عائشہ کے پاس درج ذیل پیغام دے کر بھیجا :

'' خدائے تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے گھر میں رہو اور کسی صورت میں گھر سے باہر

____________________

۱)۔، وقال لی ابنہ عبداللہ : قل لہ بیننا و بینک دم خلیفة و وصیة خلیفة ،واجتماع اثنین و انفراد واحد ، وأم مبرورة و مشاورة العامة : قال ابن عباس فعلمت انہ لیس وراء ھذا الکلام الا الحرب

۲۳۴

نہ نکلو اور تم خود اسے بخوبی جانتی ہو ۔مسئلہ حقیقت میں یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے تمھیں اکسایاہے اور تمھاری کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر آسانی کے ساتھ اپنے حق میں اور تمھارے نقصان میں اقدام کیاہے اور تمھیں اپنے گھر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے ۔یہ عہد وپیمان جو تم نے ان کے ساتھ باندھاہے اور ان کے ساتھ ہم فکری اور تعاون کررہی ہو،اس سے تم نے لوگوں کو مصیبت ونابودی سے دوچار کرکے رکھدیاہے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف وافتراق کے شعلے بھڑکائے ہیں ۔

اس کے باوجود تمہارے لئے اسی میں بھلائی ہے کہ اپنے گھر چلی جاؤاور کسی بھی صورت دشمنی ،جنگ اور برادر کشی کی مرتکب نہ ہو!۔

اگر تم اس نصیحت کو قبول کرکے اپنے گھر نہ لوٹیں اور اس فتنہ کی آگ کو ،کہ جسے تم نے خود بھڑکایاہے،نہ بجھایا تو بلاشک ایک خونیں جنگ رونما ہوگی اور یہ جنگ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو نابود کرکے رکھ دے گی اور اس کی ذمہ داری کسی شک وشبہ کے بغیر اس جنگ کی آگ کو ہوا دینے والوں کے ذمہ ہوگی۔

لہٰذا ،اے عائشہ!خدا سے ڈرو،اس اختیار کی گئی راہ سے پیچھے ہٹ کر توبہ کرو ،خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور خطاؤں کو معاف کرنے والاہے ۔ایسا نہ ہو کہ ابن زبیر اور طلحہ سے تمھاری رشتہ داری تمھیں اس جگہ پر کھینچ لے جائے ،جس کا انجام جہنم کی آگ ہے!!

امام کے ایلچی عائشہ کے پاس پہنچے اور پیغام پہنچادیا۔اس نے امام کے جواب میں صرف اتناکہا:

میں فرزند ابو طالب کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتی ،کیونکہ فصاحت اور استدلال کی قدرت میں اس کی ہم پلہ نہیں ہوں ۔

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ طلحہ نے بلند آواز میں اپنے دوستوں سے مخاطب ہوکر کہا:

ان لوگوں سے جنگ کے لئے اٹھو!تمھارے پاس فرزند ابوطالب کے استدلال کے مقابلے میں استدلال کی کوئی طاقت نہیں ہے۔

۲۳۵

عبد اللہ بن زبیر نے بھی اس روز ایک تقریر کی اور اس کے ضمن میں بولا

اے لوگو!علی بن ابیطالب نے خلیفہ بر حق عثمان بن عفان کو قتل کیاہے۔اب ایک بڑے لشکر کے ہمراہ تمھاری طرف آیاہے تاکہ تمہاری سرزمین کو تسخیر کرے اور تمھیں اپنی اطاعت پر مجبور کرے۔

اب تمہاری باری ہے کہ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہو جاؤاور اپنے خلیفہ کے قتل کے انتقام میں اپنی عزت و آبرو کا تحفظ کرو اور اپنی شرافت ،عفت،اولاد واموال بالاخر اپنی شخصیت کا خیال رکھو اور جان کی بازی لگاکر ان کا تحفظ کرو۔کیاتم جیسے دلاوروں ،ناموس کے شدید محافظوں اور عثمان وعائشہ کی راہ میں جانثاری کرنے والوں کے ہوتے ہوئے رواہے کہ کوفی تمھارے شہرووطن پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کریں ؟!

انھوں نے تم پر حملہ کیا ہے،تمھاری شخصیت کی بے حرمتی کی ہے ،تمھارے جذبات کو مجروح کیاہے ۔اس وقت موقع ہے کہ جوش میں آجاؤاور ہر قسم کی مروت کو بالائے طاق رکھ دو۔ان کے اسلحہ کا جواب اسلحہ سے دو اور ان سے جنگ کرو۔علی سے جنگ کرنے میں کسی قسم کی پریشانی اور وسواس سے دوچار نہ ہو،کیونکہ وہ اپنے علاوہ کسی کو خلافت وحکومت کے لائق وسزاوار نہیں سمجھتا ۔خدا کی قسم اگر اس نے تم لوگوں پر تسلط جمانے میں کامیابی پائی تو تمھارے دین ودنیا دونوں کو نابود کردے گا اور تمھیں ذلیل وخوار کرکے رکھ دے گا.....اور اسی طرح کی بہت سی باتیں کہیں ۔

ابن زبیر کی اس تقریر کی رپورٹ علی کو پہنچادی گئی۔امام ں نے اپنے بیٹے حسن ں سے مخاطب ہوکر فرمایا:بیٹے!کھڑے ہوکر ابن زبیر کا جواب دو!۔

علی ں کا بیٹا کھڑا ہو اور بارگاہ الٰہی میں حمد وثناء اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود وسلام کے بعد بولا:

۲۳۶

لوگو!ہم نے اپنے باپ کے بارے میں ابن زبیر کی باتیں سن لیں کہ وہ کہتاہے :عثمان کو انھوں نے قتل کیاہے ،کتنی بڑی تہمت ہے !۔اے مہاجرو انصار !اے مسلمانو!تم بہتر جانتے ہو کہ زبیر عثمان کے بارے میں کیاکہتاتھا اور اس کا کیا نام رکھا تھا اور اسے کس نام سے لوگوں میں مشہور کرتاتھا،اور آخر میں اس نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیااور کیسے ظلم وستم عثمان پرڈھائے!

اور طلحہ !یہ وہی طلحہ ہے کہ ابھی عثمان زندہ تھے کہ اس نے ان کے خلاف مخالفت اور بغاوت کا پرچم بلند کیا،اس پرچم کو بیت المال پر نصب کیا اور حق وانصاف کو پائمال کرتے ہوئے بیت المال پر ڈالا،جب کہ عثمان ابھی زندہ اور خلیفہ تھے!

عثمان کی خلافت کی پوری مدت کے دوران ان دو افراد کے اس کے ساتھ برتاؤ ( اس کے ساتھ اتنی بے وفائی اورظلم کرنے کے بعد بالاخر انھیں خاک وخون میں غلطاں کیا)کے پیش نظر ان کے لئے یہ سزاوار نہ تھا کہ ہمارے باپ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگائیں اور ان کے خلاف بدگوئی کریں ! اگر ہم چاہیں تو ضرورت کے مطابق ان کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں ۔

لیکن ،یہ جو کہتے ہیں کہ علی زبردستی قدرت حاصل کرکے لوگوں پر حکومت کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں ابن زبیر،جو سب سے بڑی دلیل پیش کرتاہے وہ یہ ہے کہ اس کے باپ نے علی کی دل سے بیعت نہیں کی ہے بلکہ ہاتھ سے بیعت کی ہے۔یہ بات کہکر اس نے خود بیعت کا اعتراف واقرار کیاہے اور اس کے بعد بہانہ تراشیاں کرتاہے۔اگر وہ سچ کہتاہے تو اس سلسلے میں دلیل وبرہان پیش کرے،لیکن وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔

اور ،ابن زبیر کا اس پر تعجب کرنا کہ کوفیوں نے بصرہ کے لوگوں پرحملہ کیاہے،تو یہ تعجب بے جاہے ۔آخر یہ کون سی حیرت کی بات ہے کہ حق وحقیقت کے حامی گمراہوں اور بدکاروں پرحملہ کریں ؟

۲۳۷

اما،عثمان کے دوست اور ان کی مدد کرنے والے ،ہمیں ان کے ساتھ کوئی جنگ واختلاف نہیں ہے،بلکہ ہماری جنگ اونٹ سوار اس خاتون اور اس کے حامی باغیوں اور تخریب کاروں سے ہے نہ کہ عثمان کے طرفداروں اور حامیوں کے ساتھ !(۱)

جب امام کے ایلچی ،عائشہ ،طلحہ وزبیر سے مل کر واپس آئے اور ان کے پیغام کو جس میں خون اور اعلان جنگ کی بوتھی امام ں کی خدمت میں پہنچادیا،تو علی ں اٹھے اور خدا کی حمد وثنا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے بعد فرمایا:

اے لوگو!میں ان سے مہربانی اور نرمی سے پیش آیا تاکہ وہ شرم وحیا کریں اور دوسرے لوگوں کے اکسانے پر مسلمانوں میں تفرقہ واختلاف پیدا کرنے سے باز آئیں ۔

میں نے عہد شکنی اور بیعت توڑنے پر ان کی تنبیہ کی اور ان کی بغاوت اور گمراہی کو واضح کرکے انھیں دکھا کر گوش زد کردیا اور حق وحقیقت کا راستہ دکھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تاکہ وہ ہوش میں آکر باطل کے مقابلے میں حق کی پیروی کریں ۔لیکن انھوں نے ایک نہ مانی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کو حقیقت پر ترجیح دی اور میری دعوت قبول نہ کی ۔اس کے بر عکس مجھے ہی دھمکی دینے لگے اور مجھے پیغام بھیجا کہ ان کی تلواروں اور نیزوں کے حملوں کے لئے خود کوآمادہ کروں ۔حقیقت میں وہ طولانی آرزؤں کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر غرور وغلط فہمیوں کے شکار ہوگئے ہیں ۔

سوگ منانے والے ان کے سوگ میں نالہ وفریاد بلند کریں ۔آخر وہ میرے بارے میں کیا

____________________

۱)۔ علی تواضع اور مہربانی سے پیش آتے تھے تا کہ شاید کوئی بات بن جائے اور جنگ نہ چھڑے،بے گناہوں کا خون نہ بہے اور اس سے زیادہ مسلمانوں میں اختلاف وافتراق پیدا نہ ہو۔اس لئے مسلسل پیغام دیتے رہے ،خط لکھتے رہے،صبر وشکیبائی سے کام لیتے رہے،نصیحت وہدایت فرماتے رہے،حقائق کی وضاحت فرماتے رہے تاکہ جمل کے خیر خواہوں کی طرف سے بھڑکائی گئی فتنہ وبغاوت کی آگ کو تدبیر وتلاش سے بجھاسکیں ۔شاید وہ اس کی ناکام کوشش کررہے تھے تاکہ درخشاں وتاباں ماضی اور صدر اسلام میں جانثار یوں کے مالک اصحاب جیسے ،طلحہ وزبیر کو منحوس اور بدترین حوادث کی زد میں آنے سے بچالیں ۔کیونکہ ان کو اقتدار اور حکومت کی ہوس نے اس حد تک اندھا بنادیاتھا کہ انھوں نے دین خدا،حقیقت اسلام حتیٰ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام نصیحتوں کوبھی پس پشت ڈال دیاتھا۔کیا حقیقت میں ان کے اس اقدام کو جس کے نتیجہ میں اتنے انسانوں کا خون بہایاگیا خدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کے علاوہ کسی اور چیز سے تعبیر کیا جاسکتاہے؟ اور قیامت کے دن خدا کے سامنے وہ کیا جواب دیں گے؟!

۲۳۸

سوچتے ہیں ؟اور مجھے کس قسم کاآدمی سمجھتے ہیں ؟جب کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیاہے اور اپنے پورے وجود سے محسوس کیاہے کہ میں وہ مرد نہیں ہوں جو دشمن کی جنگ کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہوجاؤں گا یا تلواروں کی جھنکار اور میدان کارزار کے شور وغل سے وحشت کروں گا۔ولقد انصف القارہ من راماھا۔(۱)

(حقیقت میں انھوں نے اپنے برپا کئے ہوئے فتنہ وبغاوت کے سلسلے میں بھیجے گئے میرے ایلچیوں کے جواب میں مجھے میدان جنگ کی دعوت دی ہے اور مجھے جنگ کی دھمکیاں دی ہیں اور جنگ وپیکار کے بارے میں میرے ساتھ حق وانصاف پر مبنی برتاؤ کیاہے)

چھوڑو انھیں گرجنے دو،وہ ذرا رجز خوانی کرلیں اور جنگ کا بازار گرم کرلیں ،تب وہ جان لیں گے کہ ہم خود نمائی کے محتاج نہیں ہیں ۔انھوں نے ہمیں بہت پہلے جنگ کے میدان میں دیکھا ہے

اور کارزاروں میں میرے ہاتھ کی کاری ضربوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں ۔

اس وقت وہ مجھے کیسا پاتے ہیں ؟میں وہی علی اور وہی ابوالحسن ہوں جو کل مشرکین کی گنجان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتاتھا اور ان کی طاقت کو چورچور کرکے رکھ دیتاتھا اور آج بھی اس قدرت اور اطمینان کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کروں گا اور کسی قسم کا خوف وہراس نہیں کروں گا ۔مجھے اس وعدۂ الٰہی پر ایمان ہے جو اس نے مجھے دیاہے اور اس راہ میں اپنی حقانیت پر یقین رکھتاہوں اور اس مستحکم ایمان میں کسی قسم کے تذبذب سے دوچار نہیں ہوں یہاں تک کہ فرمایا:

خداوندا !تو جانتاہے کہ طلحہ نے میری بیعت توڑدی ہے اور یہ وہی تھا جس نے عثمان کے

____________________

۱)۔''وقد انصف القارہ من راماھا''عربی زبان میں ایک ضرب المثل ہے اور اس کا موضوع یہ ہے کہ قبیلہ قارہہ کے افراد تیر اندازی اور کمان چلانے میں کافی ماہر اور صاحب شہرت تھے۔اس فن میں کوئی ان کاہم پلہ نہ تھا۔لہٰذا جب طلحہ وزبیر نے امام کوجنگ کی دعوت دی ،تو گویا یہ ایسا ہے کہ قبیلۂ قارہ کے تیر اندازوں کو تیر اندازی کی دعوت دی ہے اور انھیں دھمکی دے رہے ہیں ۔اسی بناء پر امام نے اس مثل کو اپنے کلام میں بیان کیاہے۔

۲۳۹

خلاف بغاوت کی اور سر انجام اسے قتل کیا،اسکے بعد بے قصور مجھ پر اسے قتل کرنے کی تہمت لگائی ۔ خداوندا ! اسے خود نمائی کی فرصت نہ دے !

خداوندا !زبیرنے ہماری رشتہ داری سے چشم پوشی کی اور میرے ساتھ قطع رحم کیا اور بیعت توڑدی اور میرے دشمنوں کو میرے خلاف جنگ کرنے پر اکسایا۔خداوندا!جس طرح مناسب ہو آج مجھے اس کے شر سے نجات دے!اس کے بعد آپ ں منبر سے نیچے تشریف لائے۔

جنگ سے پہلے امام کی سفارشیں

حاکم ،ذہبی اور متقی لکھتے ہیں :

علی ں نے جنگ جمل کے دن بلند آواز سے اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:

اس سے پہلے کہ وہ جنگ شروع کریں تم کو حق نہیں ہے کہ کسی پر تیر یا نیزہ برساؤیاتلوار سے حملہ کرکے جنگ میں پہل کرو۔بلکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ان سے مہربانی اورملائمت سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو اور دوستانہ گفتگو کرو۔کیونکہ جو یہاں پر امام کی اطاعت کرکے کامیاب ہوا ،وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوگا۔

راوی کہتاہے :

دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ہوئیں ۔ظہر تک دونوں طرف سے کسی قسم کا اقدام نہ ہوا۔صرف ''جمل''کے خیرخواہ بیچ بیچ میں فریاد بلند کرتے تھے:(یالثارات عثمان) ''عثمان کے خون کا انتقام لینے میں جلدی کرو ۔امیرالمومنین نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے فرمایا:

خداوندا!عثمان کے قاتلوں کو آج نابود کردے!

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416