ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215578 / ڈاؤنلوڈ: 4976
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

وضو

مسئلہ ٢ ۴ ٢ وضوميں واجب ہے کہ چہرہ اور دونوں ہاتھ دهوئے جائيں، سر کے اگلے حصے اور دونوں پاؤں کے سامنے والے حصے کا مسح کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٣ چھرے کو لمبائی ميں پيشانی کے اوپر اس جگہ سے لے کر جهاں سر کے بال اگتے ہيں ٹھ وڑی کے آخری کنارے تک دهونا ضروری ہے اور چوڑائی ميں بيچ کی انگلی اور انگوٹھ ے کے پهيلاؤميں جتنی جگہ آجائے اسے دهونا ضروری ہے اور اتنی مقدار دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار کی اطراف سے بھی کچھ دهولے۔

مسئلہ ٢ ۴۴ اگر کسی شخص کے ہاتھ یا چہرہ عام لوگوں کی نسبت بڑے یا چھوٹے ہوں تو ضروری ہے کہ عام لوگوں کو دیکھے کہ کهاں تک اپنا چہرہ دهوتے ہيں پھر وہ بھی اتنا ہی دهوئے۔

هاں، اگر اس کے ہاتھ اور چہرہ دونوں عام لوگوں کی نسبت فرق کرتے ہوں ليکن آپس ميں متناسب ہوں تو ضروری ہے کہ پچهلے مسئلے ميں بيان شدہ کيفيت کے مطابق دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۴۵ اگر اس بات کا احتمال ہو کہ بهوؤں، آنکه کے گوشوں اور ہونٹوں پر ميل یا کوئی اور ایسی چيز ہے جو پانی کے ان تک پهنچنے ميں مانع ہے اور اس کا یہ احتمال عقلائی ہو تو ضروری ہے کہ وضو سے پهلے تحقيق کر لے تاکہ اگر کوئی ایسی چيز ہو تو اسے دور کر لے۔

مسئلہ ٢ ۴۶ اگر چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہوتو پانی جلد تک پهنچانا ضروری ہے اور اگر نظر نہ آتی ہو تو بالوں کا دهونا کافی ہے اور ان کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ۔

مسئلہ ٢ ۴ ٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ آیا اس کے چھرے کی جلد بالوں کے نيچے سے نظر آتی ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ بالوں کو دهوئے اور پانی کو جلد تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢ ۴ ٨ ناک کے اندرونی حصے اور ہونٹوں اور آنکہوں کے ان حصوں کا جو بند کرنے پر نظر نہيں آتے، دهونا واجب نہيں ہے ، ليکن اس بات کا یقين حاصل کرنا ضروری ہے کہ جن جگہوں کو دهونا ضروری ہے اس ميں سے کچھ باقی نہيں رہا ہے اور جو شخص یہ نہيں جانتا تھا کہ واجب کی انجا م دهی کے یقين تک دهونا ضروری ہے ، اگر نہ جانتا ہو کہ جو وضو اس نے کئے ہيں اس ميں اس نے اس مقدار تک دهویا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ اس وضو کے ساته پڑھی گئی نماز کا وقت اگر باقی ہے تو اسے نئے وضو کے ساته دوبارہ پڑھے اورجن نمازوں کا وقت گذر چکا ہے ان کی قضا کرے۔

۴۱

مسئلہ ٢ ۴ ٩ ہاتھوں کو وضو ميں اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے اور اگر نيچے سے اوپر کی طرف دهوئے تو وضو باطل ہے اور بنا بر احتياط واجب چھرے کا بھی یهی حکم ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٠ اگر ہاتھ کو تر کر کے چھرے اور ہاتھوں پر پهيرا جائے اور ہاتھ ميں اتنی تری ہوکہ ہاتھ پهيرنے سے ذرا سا پانی ان پر بهے تو کافی ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ١ چہرہ دهونے کے بعد ضروری ہے کہ پهلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ کهنی سے انگليوں کے سروں تک دهویا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٢ کهنی کے مکمل طور پر دهل جانے کا یقين حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کهنی سے اوپر کی کچھ مقدار بھی دهوئے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٣ جس شخص نے چہرہ دهونے سے پهلے اپنے ہاتھوں کو کلائی تک دهویا ہو ضروری ہے کہ وضو کرتے وقت انگليوں کے سروں تک دهوئے، اگر وہ صرف کلائی تک دهوئے گا تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۴ وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کا دهونا پهلی مرتبہ واجب، دوسری مرتبہ مستحب اور تيسری مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دهونا حرام ہے ۔ جهاں تک یہ سوال ہے کہ کون سا دهونا پهلا، دوسرا یا تيسرا ہے اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اعضاء وضو کو وضوکی نيت سے دهویا جائے، مثلاًاگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور تيسری مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے، تو کوئی حرج نہيں اور تيسری مرتبہ دهونا پهلا دهونا شمار ہو گا، ليکن اگر تين مرتبہ چھرے پر پانی ڈالے اور ہر مرتبہ وضو کے لئے دهونے کی نيت کرے تو تيسری مرتبہ پانی ڈالنا حرام ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵۵ ضروری ہے کہ دونوںہاتھ دهونے کے بعد سر کے اگلے حصے کا، ہاتھ ميں رہ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے مسح کرے اور احتياط واجب یہ ہے کہ مسح سيدهے ہاتھ کی ہتھيلی کی طرف سے کيا جائے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ اوپر سے نيچے کی طرف انجام دیا جائے۔

مسئلہ ٢ ۵۶ سر کے چار حصوں ميں سے ایک حصہ جو پيشانی سے ملاہو ا ہے ، مسح کر نے کا مقام ہے ۔ اس حصے ميں جهاں بھی اور جس انداز سے بھی مسح کرے کافی ہے اگرچہ مستحب ہے کہ لمبائی ميں ایک انگلی کی لمبائی کے لگ بھگ اور چوڑائی ميں تين ملی ہوئی انگليوں کے لگ بھگ جگہ پر مسح کيا جائے۔

۴۲

مسئلہ ٢ ۵ ٧ یہ ضروری نہيں کہ سر کا مسح جلد پر کيا جائے بلکہ سر کے اگلے حصے کے بالوں پر کرنا بھی درست ہے ليکن اگر کسی کے سر کے بال اتنے لمبے ہوں کہ مثلاً کنگھا کرتے وقت چھرے پر آگریں یا سر کے کسی دوسرے حصے تک جا پهنچيں تو ضروری ہے کہ بالوں کی جڑ پر یا مانگ نکال کر سر کی جلد پر مسح کرے اور اگر وہ چھرے پر آگرنے والے یا سر کے دوسرے حصے تک پهنچنے والے بالوں کو آگے کی طرف جمع کر کے ان پر مسح کرے یا سر کے دوسرے حصوں کے بالوں پر جو آگے بڑھ آئے ہوں مسح کرے تو ایسا مسح باطل ہے ۔

مسئلہ ٢ ۵ ٨ ضروری ہے سر کے مسح کے بعد ہاتھوں ميں بچ جانے والی وضو کے پانی کی تری سے پاؤں کے اوپری حصے کا مسح کرے۔ اس کی واجب مقدار پاؤں کی ایک انگلی سے لے کر گٹوں کے ابهار تک ہے اور احتياط مستحب پاؤں کے جوڑ تک ہے ۔ احتياط واجب یہ ہے کہ سيدهے پاؤں کا مسح الٹے پاؤں سے پهلے کرے، اسی طرح سيدهے ہاتھ سے سيدهے پاؤں اور الٹے ہاتھ سے الٹے پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢ ۵ ٩ پاؤں پر مسح کی چوڑائی جتنی بھی ہو کافی ہے ليکن افضل یہ ہے کہ پاؤں کے پورے اوپری حصے کا مسح پوری ہتھيلی سے کيا جائے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٠ احتياط واجب یہ ہے کہ پاؤں کا مسح کرتے وقت ہاتھ انگليوں کے سروں پر رکھے اور پھر پاؤں کے ابهار کی جانب کھينچے یا ہاتھ گٹوں کے ابهار یا پاؤں کے جوڑ پر رکھ کر انگليوں کے سروں کی طرف کھينچے، یہ نہ ہو کہ پورا ہاتھ پاؤ ںپر رکھ کر تهوڑا سا کھينچ دے۔

مسئلہ ٢ ۶ ١ سر اور پاؤں کا مسح کرتے وقت ضروری ہے کہ ہاتھ کو ان پر کھينچے، نہ کہ ہاتھ کو رکھ کر سر یا پاؤں کو حرکت دے، ليکن ہاتھ کھينچنے کے وقت سر یا پاؤں کے معمولی حرکت کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٢ ضروری ہے کہ مسح کی جگہ خشک ہو، لہٰذا اگر وہ اس قدر تر ہو کہ ہتھيلی کی تری اس پر اثر نہ کرے تو مسح باطل ہے ۔ ہاں، اگر اس پر نمی یا تری اتنی کم ہو کہ مسح کے بعد جو تری نظر آئے اسے صرف ہاتھ کی تری کها جائے تو اس ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢ ۶ ٣ اگر مسح کرنے کے لئے ہتھيلی پر تری باقی نہ رہی ہو تو کسی اور پانی سے تر نہيں کيا جاسکتا، بلکہ ایسی صورت ميں ضروری ہے کہ داڑھی کے اس حصے سے جو چھرے کی حدود ميں ہے ، تری لے کر مسح کرے اور داڑھی کے علاوہ کسی اور جگہ سے تری لے کر مسح کرنا محلِ اشکال ہے ۔

۴۳

مسئلہ ٢ ۶۴ اگر ہتھيلی کی تری صرف سر کے مسح کے لئے کافی ہو تو سر کا مسح اس تری سے کرے اور پاؤں کے مسح کے لئے داڑھی سے، جو چھرے کی حدود ميں داخل ہے ، تری حاصل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۵ موزے اور جوتے پر مسح کرنا باطل ہے ۔ ہاں، اگر سخت سردی کی وجہ سے یا چور یا درندے وغيرہ کے خوف سے جوتے یا موزے نہ اتار سکے تو احتياط واجب یہ ہے کہ موزے اور جوتے پر مسح کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٢ ۶۶ اگر پاؤں کا اوپر والا حصہ نجس ہو اور مسح کرنے کے لئے اسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

ارتماسی وضو

مسئلہ ٢ ۶ ٧ ارتماسی وضو یہ ہے کہ انسان چھرے اور ہاتھوں کو وضو کی نيت سے پانی ميں ڈبودے ليکن ارتماسی طریقے سے دهلے ہوئے ہاتھ کی تری سے مسح کرنے ميں اشکال ہے ۔ لہذا، اگر بایاں ہاتھ ارتماسی طریقے سے دهوئے تو اس ہتھيلی کی طرف سے کچھ مقدار پانی ميں نہ ڈالے بلکہ سيدهے ہاتھ سے اس حصے کو دهو لے۔

احتياط واجب کی بنا پر اعضائے وضو کوپانی سے باہر نکالنے پر ارتماسی وضو محقق نہيں ہوتا۔

مسئلہ ٢ ۶ ٨ ارتماسی وضو ميں ہاتھوں کو اوپر سے نيچے کی طرف دهونا ضروری ہے ۔ پس اگر ہاتھوں کو پانی ميں وضو کے قصد سے ڈبوئے تو ضروری ہے کہ کهنيوں کی طرف سے داخل کرے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر چھرے کو پيشانی کی طرف سے پانی ميں داخل کرے۔

مسئلہ ٢ ۶ ٩ وضو ميں بعض اعضاء کو ارتماسی اور بعض کو غير ارتماسی طریقے سے دهونے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

وضو کے وقت کی مستحب دعائيں

مسئلہ ٢٧٠ جو شخص وضو کر رہا ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ:

جب پانی ہاتھ ميں لے تو کهے:

بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْن

اور کلی کرتے وقت یہ کهے:

اَللّٰهُمَّ لَقِّنِیْ حُجَّتِیْ یَوْمَ ا لَْٔقَاکَ وَ ا طَْٔلِقْ لِسَانِیْ بِذِکْرِک

اور ناک ميں پانی ڈالتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ لاَ تُحَرِّمْ عَلَیَّ رِیْحَ الْجَنَّةِ وَاجْعَلْنِی مِمَّنْ یَّشُمُّ رِیْحَهَا وَ رَوْحَهَا وَ طِيْبَهَا

۴۴

چهرہ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ بَيِّضْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَسْوَدُّ فِيْهِ الْوُجُوْهُ وَلاَ تُسَوِّدْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَبْيَضُّ فِيْهِ الْوُجُوه

دایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ا عَْٔطِنِیْ کِتَابِیْ بِيَمِيْنِیْ وَالْخُلْدَ فِی الْجَنَانِ بِيَسَارِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَاباً یَّسِيْرًا

بایاں ہاتھ دهوتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ لاَ تُعْطِنِیْ کِتَابِی بِشِمَالِی وَلاَ مِنْ وَّرَاءِ ظَهْرِیْ وَلاَ تَجْعَلْهَا مَغْلُوْلَةً إِلٰی عُنُقِیْ وَ ا عَُٔوْذُ بِکَ مِن مُّقَطَّعَاتِ النِّيْرَان

سر کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے :

اَللّٰهُمَّ غَشِّنِیْ بِرَحْمَتِکَ وَبَرَکَاتِکَ وَعَفْوِک

پاؤں کا مسح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ فِيْهِ اْلا قَْٔدَامُ وَاجْعَلْ سَعْيِیْ فِی مَا یُرْضِيْکَ عَنِّی یَا ذَا الْجَلاَلِ وَاْلإِکْرَام اور مستحب ہے کہ جب وضو کر لے تو یہ پڑھے :

ا شَْٔهَدُ ا نَْٔ لاَّ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِين

وضو صحيح ہونے کی شرائط

وضو صحيح ہونے کی چند شرائط ہيں :

پهلی شرط: وضو کا پانی پاک ہو۔

دوسری شرط: وضو کا پانی مطلق ہو۔

مسئلہ ٢٧١ نجس یا مضاف پانی سے وضو باطل ہے ، چاہے وضو کرنے والا شخص اس کے نجس یا مضاف ہونے کے بارے ميں علم ہی نہ رکھتا ہو یا بھول گيا ہو اور اگر وہ اس وضو کے ساته نماز پڑھ چکا ہو توضروری ہے کہ صحيح وضو کے ساته دوبارہ پڑھے۔

مسئلہ ٢٧٢ اگر مٹی ملے ہوئے مضاف پانی کے علاوہ کوئی اور پانی وضو کے لئے نہ ہو اور نماز کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر وقت تنگ نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کے صاف ہونے کا انتظار کرے یا اسے صاف کر کے وضو کر لے۔

۴۵

تيسری شرط: یہ کہ وضو کا پانی مباح ہو اور احتياط واجب کی بناپر جس فضاميں وضو کررہاہے وہ بهی مباح ہو۔

مسئلہ ٢٧٣ غصبی پانی یا ایسے پانی سے جس کے مالک کی رضایت پر دليل نہ رکھتا ہو، وضو کرنا حرام اور باطل ہے اور اگر وضوکا پانی غصبی جگہ پر گرے اور اس کے علاوہ وضو کرنے کے لئے کوئی جگہ بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس جگہ کہ علاوہ کہيں وضو کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں وضو کرے اور اگر کوئی شخص گناہ کرتے ہوئے وہيں وضو کرلے تو اس وضو کا صحيح ہونا محلِ اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۴ کسی مدرسے کے ایسے حوض سے وضو کرنا کہ جس کے بارے ميں انسان نہ جانتا ہو کہ یہ حوض تمام افراد کے لئے وقف ہے یا فقط مدرسے کے طلاب کے لئے ، جائز نہيں ہے اور اگر انسان کو، چاہے عام لوگوں کو وضو کرتا ہوا دیکھ کر ہی سهی، یہ اطمينان ہو جائے کہ یہ تمام افراد کے لئے وقف ہے تو کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۵ جو شخص کسی مسجد ميں نما ز نہ پڑھنا چاہتا ہو اور یہ بھی نہ جانتا ہو کہ آیا اس مسجد کا حوض تما م افراد کے لئے وقف ہے یا صرف اس مسجد ميں نماز پڑھنے والوں کے لئے تو اس کے لئے ا س حوض سے وضو کرنا صحيح نہيں ہے ، ليکن اگر عموماًوہ لوگ بھی اس حوض سے وضو کرتے ہوں جو اس مسجد ميں نماز نہ پڑھنا چاہتے ہوں اور ان کے وضو کرنے سے عموميت وقف کا اطمينان حاصل ہو جائے تو اس حوض سے وضو کر سکتا ہے ۔

مسئلہ ٢٧ ۶ سرائے، مسافر خانوں اور ایسے ہی دوسرے مقامات کے حوض سے ان لوگوں کے لئے جو ان ميں مقيم نہ ہوں، وضو کرنا اس صورت ميں صحيح ہے جب ا ن کے مالکان کی رضایت کا اطمينان ہو جائے، چاہے یہ اطمينان وہاں نہ رہنے والے لوگوں کے وضو کرنے سے حاصل ہو۔

مسئلہ ٢٧٧ بڑی نهروں سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے اگرچہ انسان ان کے مالک کی رضایت کا علم نہ رکھتا ہو، ليکن اگر ان نهروں کا مالک وضو کرنے سے منع کرے یا یہ کہ انسان کو علم ہو کہ اس کا مالک راضی نہيں ہے تو ان سے وضو کرنا جائز نہيں ہے ۔ یهی حکم احتياط واجب کی بنا پر اس وقت ہے جب مالک بچہ یا پاگل ہو یا یہ نہر کسی غاصب کے قبضے ميں ہو یا گمان ہو کہ مالک راضی نہيں ہے ۔ ہاں، نهروں اور قناتوں کے اس پانی سے جو آبادی مثلاًدیهات سے گزرتا ہے ، وضو کرنے پينے اور اس جيسے دوسرے کام لينے ميں کوئی حرج نہيں چاہے ان کا مالک بچہ یا پاگل ہی کيوں نہ ہو۔

مسئلہ ٢٧٨ اگر کوئی شخص بھول جائے کہ پانی غصبی ہے اور اس سے وضو کر لے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر خود پانی کو غصب کيا ہو اور بعد ميں اس کا غصبی ہونا بھول کر وضو کر لے تو اگر اس نے غصب سے توبہ نہ کی ہو، اس کا وضو باطل ہے اور اگر توبہ کر چکا ہو تو اس کا باطل ہو نا محلِ اشکال ہے ۔

۴۶

چوتھی شرط : یہ کہ وضو کے پانی کا برتن مباح ہو۔

پانچویں شرط:وضو کے پانی کا برتن احتياط واجب کی بنا پر سونے اور چاندی کا نہ ہو۔

ان دو شرائط کی تفصيل اگلے مسائل ميں آرہی ہے ۔

مسئلہ ٢٧٩ اگر وضو کا پانی غصبی برتن ميں ہو اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی نہ ہو تو اگر وہ اس پانی کو شرعی طریقے سے دوسرے برتن ميں انڈیل سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے کسی دوسرے برتن ميں انڈیل لے، پھر اس سے وضو کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے یا اگر کوئی پانی موجود ہو تو اس سے وضو کرے۔ ہاں، ان دونوں صورتوں ميں اگر وہ معصيت کرے اور پانی کو اس ميں سے اٹھ ائے اور اٹھ ا نے کے بعدوضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہو گا۔

اسی طریقے سے اگر سونے یا چاندی کے برتن سے وضو کرے تو وضو صحيح ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو۔

اگر غصبی برتن سے ارتماسی وضو کرے تو وضو حرام اور باطل ہے چاہے دوسرا پانی ہو یا نہ ہو، ليکن اگر سونے اور چاندی کے برتن ميں ارتماسی وضو کرے تو اس کا وضو جائز اور صحيح ہونا محل اشکال ہے ۔

مسئلہ ٢٨٠ جس حوض ميں مثلاًایک اینٹ یا ایک پتّھر غصبی ہو اور عرف عام ميں اس حوض ميں سے پانی نکالنا اس اینٹ یا پتّھر پر تصرف نہ سمجھا جائے تو کوئی حرج نہيں اور اگر تصرف سمجھا جائے اور اس کے علاوہ کوئی اور پانی بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور پانی موجود ہو تو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس پانی سے وضو کرے، ليکن اگر دونوں صورتوں ميں معصيت کرتے ہوئے پانی اٹھ ائے اور اٹھ انے کے بعد وضو کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔ جب کہ دونوں صورتوں ميں ارتماسی وضو کرنا، اگر غصبی چيز ميں تصرف سمجھا جائے تو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٨١ ائمہ عليهم السلام یا امام زادگان کے صحن ميں جو پهلے قبرستان تھا اگر کوئی حوض یا نہر کهودی جائے اور یہ علم نہ ہو کہ صحن کی زمين قبرستان کے لئے وقف ہو چکی ہے تو اس حوض یا نہر کے پانی سے وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ۔

چھٹی شرط:وضو کے اعضاء دهوتے وقت اور مسح کرتے وقت پاک ہوں اگر چہ یہ طهارت

وضو کے دوران معتصم پانی سے دهوتے وقت حاصل ہو جائے۔ معتصم اس پانی کوکہتے ہيں جو نجاست کے ملنے سے نجس نہ ہو جيسے بارش کا پانی، کرُ یا جاری پانی۔

مسئلہ ٢٨٢ اگر وضو مکمل ہونے سے پهلے وہ جگہ جس کو دهویا یا مسح کيا جاچکا ہو نجس ہو جائے تو وضو صحيح ہو گا۔

مسئلہ ٢٨٣ اگر اعضاء وضوکے علاوہ انسان کے بدن کا کوئی حصہ نجس ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ليکن اگر پيشاب یا پاخانے کی جگہ پاک نہ کی ہو تو احتياط مستحب یہ ہے کہ انہيں پاک کرنے کے بعد وضو کرے۔

۴۷

مسئلہ ٢٨ ۴ اگر اعضاء وضو ميں سے کوئی ایک نجس ہو اور وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ وضو سے پهلے اس جگہ کو پاک کيا تھا یا نہيں ، تو اگر وضو کرتے وقت وہ اس جگہ کے پاک یا نجس ہونے کے بارے ميں متوجہ نہيں تھا تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جانتا ہو یا احتمال رکھتا ہو کہ متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے اور دونوں صورتوں ميں نجس جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨ ۵ اگر چھرے یا ہاتھوں پر کوئی ایسی خراش یا زخم ہو جس کا خون نہ رک رہا ہو اورپانی اس کے لئے مضر بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس عضو کے صحيح وسالم اجزاء کو دهونے کے بعد وضو کے مسئلہ نمبر” ٢ ۴ ٩ “ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے زخم یا خراش والے حصے کو کرُیا جاری پانی ميں ڈبو دے اور اسے اس قدر دبائے کہ خون آنا بند ہو جائے اور ہاتھ کو پانی کے نيچے ہی زخم یا خراش پر وضو کی نيت سے اوپر سے نيچے کی طرف پهيرے تاکہ پانی اس پر جاری ہوجائے، اس کے بعد بقيہ وضو کو انجام دے اور اس بات کا خيال رکھے کہ مسح ہاتھ کی تری سے ہی انجام پائے۔

ساتویں شرط:وضو اور نما زکے لئے وقت ميں گنجائش ہو۔

مسئلہ ٢٨ ۶ اگر وقت اتنا تنگ ہو کہ وضو کرنے کی صورت ميں ساری کی ساری نما زیا اس کا کچھ حصہ وقت کے بعد پڑھنا پڑے تو ضروری ہے کہ تيمم کر لے ليکن اگر تيمم اور وضو کے لئے یکساں وقت درکار ہو تو پھر وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٨٧ جس شخص کے لئے نماز کا وقت تنگ ہونے کے باعث تيمم کرنا ضروری ہو اور وہ اس نيت سے کہ وضو کرنا مستحب ہے یا کسی ایسے مستحب کام مثلاً قرآن مجيد پڑھنے کے لئے وضو کرے جس کے لئے شریعت ميں وضو کرنے کا حکم آیا ہے تو اس کا وضو صحيح ہے ، ليکن اگر اس نماز کو پڑھنے کے لئے اس طرح وضو کرے کہ اگر باوضو ہو کر نمازپڑھنے کا حکم نہ ہوتا تووضو کا ارادہ بھی نہ ہوتا، تو یہ وضو باطل ہے ۔

آٹھ ویں شرط:وضو قصد قربت اور خلوص کے ساته کرے۔

”قصد قربت“سے مراد یہ ہے کہ عمل کو اس چيز کے ارادے سے جسے خداوند متعال سے نسبت دے رہا ہے مثلاًا س کے حکم کی بجا آوری یا اس کی محبوبيت حاصل کرنے کے لئے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٨ وضو کی نيت زبان پر لانا یا دل ميں گزارناضروری نہيں ہے بلکہ اگر کوئی شخص وضو کے تمام افعال الله تعالی کے لئے بجا لائے تو کافی ہے ۔

نویں شرط:وضو کو بيان شدہ ترتيب کے مطابق انجام دے،

یعنی پهلے چہرہ ، اس کے بعد دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دهوئے اس کے بعد سر کا اور پھر پاؤں کا مسح کرے اور بنا بر احتياط واجب بائيں پاؤں کا مسح دائيں پاؤںکے بعد کرے۔

۴۸

دسویں شرط:وضو کے افعال پے درپے انجام دے۔

مسئلہ ٢٨٩ اگر وضو کے افعال کے درميان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ جب وہ کسی عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا چاہے تو اس پهلے والے اعضاء کی رطوبت خشک ہو چکی ہو تو اس کا وضو باطل ہے اور اگر جس عضو کو دهونا یا اس پر مسح کرنا ہے ، صرف اس سے پهلے دهوئے ہوئے یا مسح کئے ہوئے عضو کی تری خشک ہو گئی ہومثلاًبایاں ہاتھ دهوتے وقت صرف دائيں ہاتھ کی تری خشک ہو چکی ہو ليکن چہرہ تر ہو، تو وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩٠ اگر وضو کے افعال پے درپے انجام دے ليکن موسم یا بدن کی گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے پچهلے حصوں کی رطوبت خشک ہو جائے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٢٩١ وضو کے دوران چلنے پھرنے ميں کوئی حرج نہيں ، لہٰذا اگر کوئی شخص چہرہ اور ہاتھ دهونے کے بعد چند قدم چلے اور پھر سر او ر پاؤں کا مسح کرے تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

گيارہویں شرط:انسان خود اپنا چہرہ اور ہاتھ دهوئے اور سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

اگر کوئی دوسرا اسے وضو کرائے یا اس کے چھرے یا ہاتھوں پر پانی ڈالنے یا سر اور پاؤں کا مسح کرنے ميں اس کی مدد کرے تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٢٩٢ اگر کوئی شخص خود وضو نہ کر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی کو نائب بنائے جو اس کو وضو کرائے اور اگر نائب مزدوری مانگے جب کہ مزدوری دینا ممکن ہو اور باعث حرج نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے مزدوری دے، ليکن ضروری ہے کہ وضو کی نيت خود کرے اور بنا بر احتياط واجب نائب بھی وضو کی نيت کرے اور مسح خود کرے اور اگر مسح خود نہ کر سکتا ہو تو نائب مسح کی جگہوں پر اس کا ہاتھ کھينچے اور اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو نائب اس کے ہاتھ سے رطوبت لے کر اس کے سر اور پاؤں کا مسح کرے۔

مسئلہ ٢٩٣ وضو کے جو بھی افعال انسان خود انجام دے سکتا ہو ضروری ہے کہ ان کی انجام دهی ميں دوسروں سے مدد نہ لے۔

بارہویں شرط:وضو کرنے والے کے لئے پانی کے استعمال ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۴ جس شخص کو خوف ہو کہ وضو کرنے سے بيمار ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور جس شخص کو خوف ہو کہ پانی وضوميں استعمال کرنے سے پياسا رہ جائے گا تو اگر پياس بيماری کا باعث بنے تو ضروری ہے کہ وضو نہ کرے اور اگر بيماری کا باعث نہ ہو تو اختيار ہے کہ وضو کرے یا تيمم کرے اور اگر نہ جانتا ہو کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر ہے اور وضو کرلے اگر چہ بعد ميں اسے معلوم ہوجائے کہ پانی کا استعمال اس کے لئے مضر تھا ليکن ضرر، ضررِحرام نہ تھا، تواس کا وضو صحيح ہے ۔

۴۹

مسئلہ ٢٩ ۵ اگر چھرے اور ہاتھوں کو اتنے کم پانی سے دهونا جس سے وضو صحيح ہو جاتا ہے ضرر رساں نہ ہو اور اس سے زیادہ ضرر رساں ہو تو ضروری ہے کہ کم مقدار سے ہی وضو کرلے۔

تيرہویں شرط:اعضائے وضو تک پانی پهنچنے ميں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

مسئلہ ٢٩ ۶ اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس کے اعضائے وضو پر کوئی چيز لگی ہوئی ہے ليکن اس کے بارے ميں اسے شک ہو کہ آیا وہ چيز پانی کے ان اعضا ء تک پهنچنے ميں رکاوٹ ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ یا تو اس چيز کو ہٹا دے یا پانی کو اس کے نيچے تک پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٧ اگرمعمول کے مطابق بڑھے ہوئے ناخنوں کے نيچے ميل ہو تو وضو کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔ ہاں، ناخنوں کو کاٹ دینے کی صورت ميں وضو کے لئے اسے برطرف کرنا ضروری ہے اور اگر ناخن معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوں تو جو ميل معمول سے زیادہ والی مقدار کے نيچے ہے اسے برطرف کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٢٩٨ اگر کسی شخص کے چھرے، ہاتھوں، سر کے اگلے حصے یا پاؤں سے اوپر والے حصے پر جل جانے سے یا کسی اور وجہ سے ورم ہو جائے تو اسے دهو لينا اور اس پر مسح کر لينا کافی ہے اور اگر اس ميں سوراخ ہو جائے تو پانی جلد کے نيچے پهنچانا ضروری نہيں بلکہ اگر جلد کا ایک حصہ اکهڑ جائے تب بھی جو حصہ نہيں اکهڑا اس کے نيچے تک پانی پهنچانا ضروری نہيں ، ليکن جب اکهڑی ہوئی جلد کبهی بدن سے چپک جاتی ہو اور کبهی اٹھ جاتی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کاٹ دے یا اس کے نيچے پانی پهنچائے۔

مسئلہ ٢٩٩ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس کے وضو کے اعضاء سے کوئی چيز چپکی ہوئی ہے یا نہيں اور اس کا یہ احتمال لوگوں کی نظر ميں بھی درست ہو مثلاً، گارے سے کوئی کام کرنے کے بعد شک ہو کہ گارا اس کے ہاتھ سے لگا رہ گياہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ تحقيق کر لے یا اپنے ہاتھوں کو اتنا ملے کہ اطمينان ہو جائے کہ اگر اس پر گارا رہ گياتها تو اب دور ہو گيا ہے یا پانی اس کے نيچے پهنچ گيا ہے ۔

مسئلہ ٣٠٠ دهونے یا مسح کرنے کی جگہ پر اگر ميل ہو ليکن وہ ميل پانی کے جلد تک پهنچنے ميں رکاوٹ نہ ڈالے تو کوئی حرج نہيں ۔ اسی طرح اگر پلستر وغيرہ کا کام کرنے کے بعد سفيدی ہاتھ پر لگی رہ جائے جو پانی کو جلد تک پهنچنے سے نہ روکے تو اس ميں بھی کوئی حرج نہيں ، ليکن اگر شک ہو کہ ان چيزوں کی موجودگی پانی کے جلد تک پهنچنے ميں مانع ہے یا نہيں تو انہيں دور کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠١ اگر کوئی شخص وضو کرنے سے پهلے جانتا ہو کہ وضو کے بعض اعضاء پر ایسی چيز موجود ہے جو ان تک پانی پهنچنے ميں مانع ہے اور وضو کے بعد شک کرے کہ وضو کے دوران ا ن اعضاء تک پانی پهنچا ہے یا نہيں ، اگر اسے وضو کے دوران غافل ہونے کا یقين نہ ہو تو ا س کا وضو صحيح ہے ۔

۵۰

مسئلہ ٣٠٢ اگر وضو کے بعض اعضاء پر کوئی ایسی رکاوٹ ہو جس کے نيچے پانی کبهی خود بخود چلا جاتا ہے اور کبهی خود نہيں پهنچ پاتا اور انسان وضو کے بعد شک کرے کہ پانی اس کے نيچے پهنچا ہے یا نہيں ، اگر جانتا ہو کہ وضو کے وقت اس سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٣ اگر وضو کرنے کے بعد اعضائے وضو پر کوئی ایسی چيز دیکھے جو پانی کے پهنچنے ميں رکاوٹ ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ وضو کرتے وقت یہ رکاوٹ موجود تھی یا بعد ميں آئی ہے تو اگر وضو کرتے وقت جانتا ہواس امر سے غافل تھا تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے اور اگر اس امر کی طرف متوجہ تھا تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٠ ۴ اگر وضو کرنے کے بعد شک کرے کہ جو چيز پانی کے پهنچنے ميں مانع ہے وضو کے اعضاء پر تھی یا نہيں تو اگر وضو کرتے وقت اس امر سے غافل ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا وضو صحيح ہے ۔

احکام وضو

مسئلہ ٣٠ ۵ اگر کوئی شخص افعالِ وضو اور شرائط ميں بہت شک کرتا ہو، اگر اس کا شک وسواس کی حد تک پهنچ جائے تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔

مسئلہ ٣٠ ۶ جس شخص کو شک ہو کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے یا نہيں تو سمجھے کہ اس کا وضو باقی ہے ، ليکن اگر اس نے پيشاب کرنے کے بعد استبرا کئے بغير وضو کر ليا ہو اور وضو کے بعد اس سے ایسی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہو کہ پيشاب ہے یا کوئی اور چيز تو اس کا وضو باطل ہے ۔

مسئلہ ٣٠٧ اگر کسی شخص کو شک ہو کہ اس نے وضو کيا ہے یا نہيں تو ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣٠٨ جس شخص کو معلوم ہو کہ اس نے وضو کيا ہے اور اس سے حدث بھی واقع ہو گيا ہے مثلاًاس نے پيشاب کيا ہے ، ليکن اسے یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی چيز پهلے واقع ہوئی ہے ، اگر یہ صورت نماز سے پهلے پيش آئے تو ضروری ہے کہ وضو کرے اوراگر نما زکے دوران یہ صورت پيش آئے تو ضروری ہے کہ نما زتوڑ کر وضو کرے اور اگر نمازکے بعد یہ صورت پيش آئے تو جو نما زپڑھ چکا ہے اس شرط پر صحيح ہے کہ نما زشروع کرتے وقت غفلت کا یقين نہ ہو، البتہ اگلی نمازوں کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٠٩ اگر کسی شخص کو وضو کے بعد یا وضو کے دوران یقين آجائے کہ اس نے بعض جگہيں نہيں دهوئيں یا ان کا مسح نہيں کيا، جب کہ جن اعضاء کی باری ان سے پهلے تھی ان کی تری زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے خشک ہو چکی ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ وضو کرے، ليکن اگر وہ تری خشک نہ ہوئی ہو یا گرمی یا ایسی ہی کسی وجہ سے خشک ہو گئی ہو تو ضروری ہے کہ بھولی ہوئی اور اس کے بعد آنے والی جگہوں کو دهوئے یا ان کا مسح کرے۔ اسی طرح وضو کے دوران کسی عضو کے دهونے یا مسح کرنے کے بارے ميں شک کی صورت ميں اسی حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

۵۱

مسئلہ ٣١٠ اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد شک ہو کہ اس نے وضو کيا تھا یا نہيں تو اس صورت ميں کہ اسے یقين نہ ہو کہ شروع کرتے وقت وہ اس بات سے غافل تھا تو اس کی نماز صحيح ہے ۔ البتہ دوسری نماز وں کے لئے ضروری ہے کہ وضو کرے۔

مسئلہ ٣١١ اگر کسی شخص کو نما زکے دوران شک ہو کہ وضو کيا تھا یا نہيں تو اس کی نماز باطل ہے اور ضروری ہے کہ وضو کرکے نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٢ اگر کوئی شخص نماز کے بعد یہ جان لے کہ اس کا وضو باطل ہو گيا تھا ليکن شک کرے کہ نماز کے بعد باطل ہوا تھا یا اس سے پهلے، تو جو نما زپڑھ چکا ہے وہ صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣١٣ اگر کوئی شخص ایسے مرض ميں مبتلا ہوکہ اس کا پيشاب قطرہ قطرہ ٹپکتاہویا پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو، اگر اسے یقين ہو کہ نماز کے اول وقت سے آخر وقت تک اسے اتنا وقفہ مل جائے گا کہ وضو کر کے نماز پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ اس وقفے کے دوران نماز پڑھے اور اگر اسے وضو اور نما زکے صرف واجب افعال انجام دینے کا وقت ملے تو ضروری ہے کہ اس وقفے ميں وضو ونماز کے صرف واجبات کو انجام دے اور مستحبات کو چھوڑ دے۔

مسئلہ ٣١ ۴ اگر اس شخص کو وضو اور نما زپڑھنے کے کی مقدار کے برابر وقفہ نہ ملتا ہو اور نماز کے دوران ایک یا چند بار پيشاب یا پاخانہ اس سے خارج ہو تا ہو، اگر اسی نما زکو ایک وضو سے پڑھے تو کافی ہے ، اگر چہ احتياط مستحب یہ ہے کہ جب بھی پيشاب یا پاخانہ خارج ہو موالات ختم ہونے سے پهلے وضو کرے اور بقيہ نماز کو مکمل کرے۔

مسئلہ ٣١ ۵ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتو وہ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے سوائے اس کے کہ کسی دوسرے حدث ميں مبتلا ہو جائے اور بہتر یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے ایک وضو کرے، ليکن بھولے ہوئے سجدے وتشهد اور نماز احتياط کے لئے دوسرا وضو ضروری نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣١ ۶ جس شخص کا پيشا ب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو اس کے لئے ضروری نہيں کہ وضو کے بعد فوراًنماز پڑھے اگرچہ احتياط مستحب یہ ہے کہ وضو کے فوراًبعد نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣١٧ جس شخص کا پيشاب یاپاخانہ پے درپے خارج ہوتا ہو وضو کے بعد بنابر احتياط مستحب ان چيزوں کو مس کرنے سے پرہيز کرے جنہيں مس کرنا محدث پر حرام ہے ۔

مسئلہ ٣١٨ جس شخص کو قطرہ قطرہ پيشاب آتاہو ضروری ہے کہ نماز ميں خود کو ایک ایسی تهيلی کے ذریعے پيشاب سے بچائے جس ميں روئی یا کوئی اور چيز رکھی ہو جو پيشاب کو دوسری جگہوں پر نہ پهنچنے دے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ہر نماز سے پهلے مقام پيشاب کو پاک کرے سوائے اس صورت کے کہ باعث حرج ہو۔

۵۲

اور ظہر وعصر یا مغرب وعشا کو ملا کر پڑھنے کی صورت ميں دوسری نماز کے لئے مقام پيشاب کو پاک کرنا ضروری نہيں ہے ۔

اور اگر کوئی شخص پاخانہ روکنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ جهاں تک ممکن ہو نماز پڑھنے کی مقدار تک پاخانہ دوسری جگہ تک پهنچنے سے روکے اور بنابر احتياط واجب ہر نماز کے لئے مقام پاخانہ کو پاک کرے، سوائے اس صورت ميں کہ باعث حرج ہو۔

مسئلہ ٣١٩ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہ رکھتا ہو، ضروری ہے کہ ممکنہ حد تک حرج نہ ہونے کی صورت ميں نماز پڑ هنے کی مقدار تک پيشاب وپاخانہ کو نکلنے سے روکے، اور اگر آسانی سے اس مرض کا علاج ہو سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اس کا علاج کرائے۔

مسئلہ ٣٢٠ جو شخص پيشاب یا پاخانہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتا، صحت یا ب ہونے کے بعد ضروری نہيں ہے کہ جو نمازیں اس نے بيماری کی حالت ميں اپنی ذمہ داری کے مطابق پڑھی تہيں ، ان کی قضا کرے ليکن اگر نما زکے وقت کے دوران مرض سے شفا پا جائے تو ضروری ہے کہ اس وقت ميں پڑھی ہوئی نماز کو دهرائے۔

مسئلہ ٣٢١ جو شخص اپنی ریح روکنے پر قادر نہ ہو ضروری ہے کہ ان لوگوں کے وظيفے کے مطابق عمل کرے جو پيشاب یا پاخا نہ روکنے پر قدرت نہيں رکھتے۔

وہ چيزيں جن کے لئے حدث سے پاک ہونا ضروری ہے

مسئلہ ٣٢٢ چھ چيزوں کے لئے وضو کرنا واجب ہے :

١) نماز ميت کے علاوہ تمام واجب نمازوںکے لئے اور مستحب نمازوں ميں وضو شرط صِحت ہے ۔

٢) بھولے ہوئے سجدے اور تشهد کی قضا کے لئے اور تشهد بھولنے کی وجہ سے انجام دئے جانے والے سجدہ سهو کٔے لئے اور اگر ان کے اور نماز کے درميان اس سے کوئی حدث سر زد ہوا ہو مثلاًپيشاب کر دیا ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے۔ ہاں، مذکورہ سجدہ سهوکے علاوہ دوسرے موارد ميں وضو کرنا واجب نہيں ہے ۔

٣) حج وعمرے کے واجب طواف کے لئے ۔

۴) اگر کسی نے وضو کرنے کی نذر کی ہو، عهد کيا ہو یا قسم کهائی ہو۔

۵) جب کسی نے نذر کی ہو کہ اپنے بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرے گا، جب کہ یہ نذر صحيح ہو، مثلاًقرآن کو بوسہ دینا۔

۵۳

۶) نجس قرآن کو پاک کرنے یا قرآن کو ایسی جگہ سے نکالنے کے لئے جهاں قرآن کا ہونا توهين کا باعث ہو، جب کہ صورت حال یہ ہو کہ انسان اپنے ہاتھ یا بدن کے کسی حصے کو قرآن کے حروف سے مس کرنے پر مجبور ہو، ليکن اگر وضو کے لئے رکنا قرآن کی بے احترامی کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ بغير وضو ہی قرآن کو اس جگہ سے نکالے یا اگر نجس ہو گيا ہو تو اسے پاک کرے۔

مسئلہ ٣٢٣ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے قرآن کے حروف کو مس کر نا، یعنی بدن کا کوئی حصہ قرآن کے حروف سے لگانا، حرام ہے ليکن اگر بال کھال کے تابع شمار نہ ہو ں تو انہيں قران کے حروف سے مس کرنے ميں کوئی حرج نہيں اور اگر قرآن کا اردو یا کسی اور زبان ميں ترجمہ کيا گيا ہو تو خداوندِمتعال کے اسم ذات اور اسماء صفات کے علاوہ کومس کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۴ بچے اور دیوانے کو قرآن مجيد کے الفاظ کو مس کرنے سے روکنا واجب نہيں ، ليکن اگر ان کے ایسا کرنے سے قرآن مجيد کی بے حرمتی ہوتی ہو تو انہيں روکنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣٢ ۵ جو شخص باوضو نہ ہو اس کے لئے الله تعالی کی ذات او ر اس کی صفات کے ناموں کو خواہ کسی بھی زبان ميں لکھے ہوں مس کرنا حرام ہے اور احتياط مستحب یہ ہے کہ چودہ معصومين عليهم السلام کے اسماء مبارک کو بھی بغير وضو کے مس نہ کيا جائے۔

مسئلہ ٣٢ ۶ اگر کوئی شخص نما زکا وقت آنے سے پهلے باطهارت ہونے کے ارادے سے وضو یا غسل کرے تو صحيح ہے اور نماز کے وقت کے نزدیک بھی اگر نما ز کے لئے تيار ہونے کی نيت سے وضو کرے تو کوئی حرج نہيں ، بلکہ مستحب ہے ۔

مسئلہ ٣٢٧ اگر کسی کو یقين ہو یا شرعی دليل رکھتا ہو کہ نما زکا وقت داخل ہو چکا ہے اور وہ واجب کی نيت سے وضو کرے جب کہ اس کا قصد وجوب سے مقيد نہ ہو اور وضو کے بعد معلوم ہو کہ وقت داخل نہيں ہوا تھا تو اس کاوضو صحيح ہے ۔

مسئلہ ٣٢٨ انسان کے لئے مستحب ہے کہ ہر اس کام کے لئے جس کے صحيح ہونے کے لئے وضو کرنا اگر چہ شرط نہيں ليکن اس عمل کے کمال ميں معتبر ہے ، وضو کرے۔ مثلاًواجب طواف اور نماز طواف کے علاوہ باقی تمام مناسک حج کے لئے ، کيونکہ ان دو ميں وضو کرنا شرطِ صحت ہے ۔

اسی طرح نماز ميت پڑھنے، ميت کو قبر ميں داخل کرنے، مسجد جانے، قرآن پڑھنے اور لکھنے اور سوتے وقت وضو کرنا مستحب ہے ۔ یہ بھی مستحب ہے کہ جو شخص با وضو ہو وہ دوبارہ وضو کرے۔

مذکورہ بالا کاموں ميں سے کسی ایک کے لئے بھی وضو کرنے کی صورت ميں انسان ہر وہ کام انجام دے سکتا ہے جس کے لئے وضو کرنا ضروری ہے مثلاًاس وضو سے نماز پڑھ سکتا ہے یا واجب طواف کر سکتا ہے ۔

۵۴

مبطلات وضو

مسئلہ ٣٢٩ سات چيزیں وضو کر باطل کرتی ہيں :

٢)پيشاب وپاخانہ، جب کہ اپنی طبيعی جگہ سے نکلے یا عادت کے مطابق غير طبيعی جگہ ،١

نکلے۔ اسی طرح احتياط واجب کی بنا پر بغير عادت کے غير طبيعی مقام سے پيشاب یا پاخانہ نکلنے پر بھی وضو باطل ہو جاتا ہے ۔

وہ تری جو پيشاب سے شباہت رکھتی ہو اور استبرا سے پهلے نکلے پيشاب کا حکم رکھتی ہے ۔

٣) طبيعی مقام سے نکلنے والی آنتوں کی ریح اور پاخانے کے مورد ميں بيان شدہ تفصيل کے مطابق غير طبيعی مقام سے نکلنے والی ریح بھی جب کہ اس مقام کا دو مخصوص ناموں ميں سے ایک نام رکھا جا سکے۔

۴) نيند، جو اس وقت ثابت ہوگی جب کان سن نہ سکيں۔

۵) عقل کو زائل کر دینے والی چيزیں جيسے دیوانگی، مستی، بے ہوشی وغيرہ۔

۶) عورتوں کا استحاضہ جس کی تفصيل بعد ميں آئے گی۔

٧) جنابت۔

جبيرہ وضوکے احکام

وہ چيز جس سے زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو باندها جاتا ہے اور وہ دوا جو زخم یا ایسی ہی کسی چيز پر لگائی جاتی ہے جبيرہ کهلاتی ہے ۔

مسئلہ ٣٣٠ اگر اعضاء وضو ميں سے کسی پر زخم یا پھوڑا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو، تو اگر اس پر کوئی چيز نہ ہو اور پانی اس کے ليے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ عام طریقے سے وضو کيا جائے۔

مسئلہ ٣٣١ اگر زخم پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی چھرے یا ہاتھوںپر ہو اوراس پر کوئی چيز نہ ہو جب کہ پانی ڈالنا اس کے لئے مضر ہو تو اگر اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا مضر نہ ہو تو ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ اس پر گيلا ہاتھ پهيرے، جب کہ زخم یا پھوڑا ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ گيلا ہاتھ پهيرے اور اس کے بعد احتياط مستحب کی بنا پر ایک پاک کپڑا اس پر رکھ کر گيلا ہاتھ کپڑے پر بھی پهيرے۔

اور اگر یہ بھی مضر ہو یا زخم اور ٹوٹی ہوئی ہڈی وغيرہ نجس ہو جسے پاک نہ کيا جا سکتا ہو تو زخم کی صورت ميں ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو وضو ميں بيان شدہ طریقے کے مطابق اوپر سے نيچے کی طرف دهوئے اور تيمم بھی ضروری نہيں ، البتہ احتياط مستحب یہ ہے کہ زخم پر پاک کپڑا رکھ کر اس پر گيلا ہاتھ پهيرے اور تيمم بھی کرے۔

۵۵

اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کی صورت ميں ضروری ہے کہ تيمم کرے اور احتياط واجب کی بنا پر وضو بھی کرے اور اس پر پاک کپڑارکھ کر گيلا ہاتھ پهير دے۔

مسئلہ ٣٣٢ زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کسی کے سر یا پاؤں کے اوپر والے حصے ميں ہو اور اس پر کوئی چيز بھی نہ ہو، اگر وہ اس پر مسح نہ کر سکتا ہو، یعنی مثلا زخم مسح کے سارے مقام پر پهيلا ہوا ہو یا سالم حصوں پر مسح کرنا بھی ممکن نہ ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ ایک پاک کپڑا زخم وغيرہ پر رکھ کر ہاتھ ميں بچی ہوئی وضو کی تری سے اس پر مسح کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣٣ اگر پهوڑے، زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کو کسی چيز سے باندها گيا ہو، اگر اس کا کهو لنا مشقت کا باعث نہ ہو اور پانی بھی اس کے لئے مضر نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے کھول کر وضو کرے خواہ زخم وغيرہ چھرے اور ہاتھوں پر ہو یا سر کے اگلے حصے یا پاؤں کے اوپر والے حصے پر ہو۔

مسئلہ ٣٣ ۴ اگر کسی شخص کا زخم، پھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی جو کسی چيز سے بندهی ہو اس کے چھرے یا ہاتھوں پر ہواور اسے کھولنے یا پانی ڈالنے ميں ضرر یا مشقت ہو تو جتنی مقدار ميں ضرر اور مشقت نہ ہو، اسے دهوئے اور جبيرہ کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے۔

مسئلہ ٣٣ ۵ اگر زخم کو کھولا نہ جاسکتا ہو ليکن خود زخم اور جو چيز ا س پر لگا ئی ہو پاک ہوں اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور مضر اور باعث مشقت بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ پانی کو زخم پر ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے، جس کا خيال رکھنا چھرے ميں احتياط واجب کی بنا پرہے، پهنچائے، ليکن اگر جبيرہ چھرے پر ہو اور پانی پهنچانے ميں ترتيب کا خيال رکھنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط اسے دهوئے بھی اور ترتيب کا خيال رکھتے ہوئے گيلا ہاتھ بھی پهيرے۔

اور اگر زخم یا وہ چيز جو ا س کے اوپر رکھی ہے نجس ہو، چنانچہ اسے پاک کر نا اور زخم تک پانی پهنچانا ممکن ہو اور ضرر ومشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے پاک کرے اور وضو کے وقت پانی کو زخم تک پهنچائے۔

اور اگر زخم تک پانی پهنچانا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو یا زخم نجس ہو اور اسے پاک کرنا ممکن نہ ہو یا ضرر یا مشقت ہو تو ضروری ہے کہ زخم کے اطراف کو دهوئے اور اگر جبيرہ پاک ہو تو اس کے اوپر گيلا ہاتھ پهيرے، اور اگر جبيرہ نجس ہو یا گيلا ہاتھ اس کے اوپر نہيں پهير سکتے تو ممکنہ صورت ميں پاک کپڑا اس پر رکھ کر احتياط واجب کی بنا پر تيمم بھی کرے اور اس کپڑ ے پر گيلا ہاتھ بھی پهيرے اور حتی الامکان اس کپڑ ے کو اس طرح رکھے کہ جبيرہ کا جزء سمجھا جائے اور اگر دوسرا کپڑا رکھنا یا اس پر گيلا ہاتھ پهيرنا ممکن نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب اس کے اطراف کو وضو ميں بيا ن شدہ طریقے کے مطابق دهوئے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣٣ ۶ اگر جبيرہ تمام چھرے یا پورے ایک ہاتھ یا پورے دونوں ہاتھوں کو گھيرے ہوئے ہو، احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

۵۶

مسئلہ ٣٣٧ اگر جبيرہ تمام اعضاء وضو کو گھيرے ہوئے ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضوئے جبيرہ اور تيمم دونوں کرے۔

مسئلہ ٣٣٨ جس شخص کی ہتھيلی اور انگليوں پر جبيرہ ہو اور وضو کرتے وقت اس پر گيلا ہاتھ پهيرا ہو تو وہ سر اور پاؤں کا مسح اسی رطوبت سے کرے۔

مسئلہ ٣٣٩ اگر کسی شخص کے پاؤں کے اوپر والے پورے حصے پر جبيرہ ہو ليکن کچھ حصہ انگليوں کی طرف سے اورکچه حصہ پاؤںکے اوپر والے حصے کی طرف سے کہ جس پر مسح واجب ہے ، کهلا ہوا ہو تو ضروری ہے کہ جو جگہيں کهلی ہيں وہاں پاؤں کے اوپر والے حصے پر اور جن جگہوں پر جبيرہ ہے وہاں جبيرہ پر مسح کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٠ اگر چھرے یاہاتھوں پر ایک سے زیادہ جبيرے ہوں تو ان کا درميانی حصہ دهونا ضروری ہے اور اگر سر یاپاؤں کے اوپر والے حصے پر چند جبيرے ہوں تو ان کے درميانی حصے کا مسح کرنا ضروری ہے اور جهاں جبيرے ہوں وہاں جبيرے کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ١ اگر جبيرہ زخم کے آس پاس کے حصوں کو معمول سے زیادہ گھيرے ہوئے ہو اور اس کو ہٹا نا بغير مشقت کے ممکن نہ ہوتو بنا بر احتياط واجب وضو ئے جبيرہ بھی کرے اور تيمم بھی اور اگر جبيرے کی معمول سے زیادہ بڑھی ہوئی مقدار کو ہٹانے ميں مشقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ اسے ہٹا لے، پس اگر زخم چھرے یا ہاتھوں پر ہو تو ان کو دهولے اور اگر سر یا پيروں کے اوپر والے حصے پر ہوکہ جس کا مسح واجب ہے تو اس کا مسح کرے اور زخم کی جگہ پر جبيرہ کے احکام کے مطابق عمل کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٢ اگر اعضائے وضو پر زخم، چوٹ یا ٹوٹی ہوئی ہڈی نہ ہو ليکن کسی اور وجہ سے پانی ان کے لئے مضر ہو تو تيمم کرنا ضروری ہے ۔

مسئلہ ٣ ۴ ٣ اگر اعضائے وضو ميں سے کسی جگہ کی رگ کٹوا کر خون نکلوایا ہواور اس مقام کو ضرر کی وجہ سے نہ دهویا جاسکتا ہو تو اس پر زخم کے احکام جاری ہوں گے جن کا تذکرہ پچهلے مسائل ميں ہو ا اور اگر کسی اور وجہ سے مثلا خون نہ رکنے کی وجہ سے اسے دهونا ممکن نہ ہوتو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴۴ اگر وضو یا غسل کی جگہ پر کوئی ایسی چيز چپک گئی ہو جس کا اتارنا ممکن نہ ہو یا باعثِ حرج ہو تو احتياط واجب یہ ہے کہ وضو یا غسل جبيرہ بھی کرے اور تيمم بهی۔

۵۷

مسئلہ ٣ ۴۵ غسل ميت کے علاوہ غسل کی تمام اقسام ميں غسل جبيرہ وضوئے جبيرہ کی طرح ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ اسے ترتيبی طریقے سے انجام دے، ليکن اگر بد ن ميں زخم یا پھوڑا ہو تو چاہے اس مقام پر جبيرہ ہو یا نہ ہو، اگرچہ مکلف کے غسل یا تيمم ميں سے کسی ایک کو انجام دینے پر صاحب اختيار ہونے کی دليل ہے ، ليکن احتياط واجب یہ ہے کہ غسل کرے اور ٹوٹی ہوئی جگہ، زخم اور پهوڑے کاحکم غسل ميں وهی ہے جو وضو ميں چھرے اور ہاتھوں کے سلسلے ميں بيان کيا جاچکاہے۔

مسئلہ ٣ ۴۶ جس شخص کی ذمہ داری تيمم ہو اگر اس کے بعض اعضائے تيمم پر زخم یاپھوڑا یا ٹوٹی ہوئی ہڈی ہو تو ضروری ہے کہ وضوئے جبيرہ کے احکام کے مطابق تيمم جبيرہ انجام دے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٧ جس شخص کے لئے وضوئے جبيرہ یا غسل جبيرہ کے ساته نماز پڑھنا ضروری ہو، اگر جانتاہو کہ نماز کے آخری وقت تک اس کا عذر دور نہيں ہوگا، تو وہ اول وقت ميں نماز پڑھ

سکتاہے ، ليکن اگر اميد ہو کہ آخر وقت تک عذر بر طرف ہو جائے گا تو بہتر ہے کہ صبر کرلے اور عذر برطرف نہ ہونے کی صورت ميں نماز کو آخر وقت ميں وضوئے جبيرہ یا غسلِ جبيرہ کے ساته انجام دے، اور اگر اول وقت ميں نماز پڑھ چکا ہو اور آخر وقت ميں عذر بر طرف ہوجائے تو ضروری ہے کہ وضو یا غسل کرکے دوبارہ نماز پڑھے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٨ اگر کسی شخص نے آنکه کی بيماری کی وجہ سے پلکيں چپکا کر رکھی ہو ں یا آنکه ميں درد کی وجہ سے پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تيمم کرے۔

مسئلہ ٣ ۴ ٩ جو شخص نہ جانتا ہو کہ آیا اس کا وظيفہ تيمم ہے یا وضو ئے جبيرہ تو ضروری ہے کہ احتياط کرتے ہوئے وضو بھی کرے اور تيمم بھی کرے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٠ جونمازیں انسان نے وضوء جبيرہ سے پڑھی ہوں اور آخر وقت تک عذر باقی رہا ہو، صحيح ہيں اور بعد کی نمازوں کو بھی اگر تمام وقت ميں عذر باقی رہے تو اسی وضو سے پڑھ سکتا ہے اور جب بھی عذر ختم ہوجائے احتياط واجب کی بنا پر بعد کی نمازوں کے لئے وضو کرے۔

واجب غسل واجب غسل سات ہيں :

١) غسل جنابت

٢) غسل حيض

٣) غسل نفاس

۴) غسل استحاضہ

۵۸

۵) غسل مسِ ميت

۶) غسل ميت

٧) وہ غسل جو نذر، قسم یا ان جيسی چيزوں کی وجہ سے واجب ہوجائے۔

جنابت کے احکام

مسئلہ ٣ ۵ ١ انسان دو چيزوں سے جنب ہوتا ہے :

١) جماع

٢) منی کے خارج ہونے سے، خواہ وہ نيند کی حالت ميں نکلے یا بيداری ميں ، کم ہو یا زیادہ، شهوت سے نکلے یا بغير شهوت کے، اختيار سے نکلے یا بغير اختيار کے۔

مسئلہ ٣ ۵ ٢ اگر کسی مرد کے بدن سے کوئی رطوبت خارج ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا پيشاب یا کوئی اور چيز، اگر وہ رطوبت شهوت کے ساته اور اچھل کر نکلے اور اس کے نکلنے کے بعد بدن سست پڑ جائے تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ، ليکن اگر ان تين علامتوں ميں سے ساری یا کچھ موجود نہ ہوں تو وہ رطوبت منی کے حکم ميں نہيں آئے گی، ليکن اگر بيمار ہو اور وہ رطوبت شهوت کے ساته نکلی ہو تو چاہے اچھل کر نہ نکلی ہواور اس کے نکلنے کے بعد جسم سست نہ پڑا ہو، تب بھی منی کے حکم ميں ہے اور اگر عورت شهوت کے ساته انزال کرے تو اس پر غسل جنابت واجب ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٣ اگر کسی ایسے مرد کے مقام پيشاب سے جو بيمار نہ ہو کوئی ایسا پانی خارج ہو، جس ميں ان مذکورہ بالا تين علامات ميں سے کوئی ایک علامت موجود ہو ليکن نہ جانتا ہو کہ بقيہ علامات بھی اس ميں موجود ہيں یا نہيں ، تو اگر اس پانی کے خارج ہونے سے پهلے اس نے وضو کيا ہوا ہو تو وهی وضو کافی ہے اور اگر وضو نہيں کيا تھا تو صرف وضو کرنا کافی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۴ منی خارج ہونے کے بعد انسان کے لئے پيشاب کرنا مستحب ہے اور اگر پيشاب نہ کرے اور غسل کے بعد اس سے کوئی رطوبت خارج ہو جس کے بارے ميں نہ جانتا ہوکہ منی ہے یا کوئی اور رطوبت تو وہ رطوبت منی کا حکم رکھتی ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵۵ اگر کوئی شخص جماع کرے اور عضو تناسل ختنہ گاہ کی مقدار تک یا اس سے زیادہ عورت کی شرمگاہ ميں داخل ہوجائے تو خواہ یہ دخول فرج ميں ہو یا دبر ميں ، دونوں جنب ہو جائيں گے، اگرچہ منی بھی خارج نہ ہوئی ہو اور اگر مرد سے جماع کرے تو پهلے سے باوضو نہ ہونے کی صورت ميں احتياط واجب یہ ہے کہ وضو بھی کرے اور غسل بھی ورنہ غسل کرنا کافی ہے ۔ مذکورہ بالا حکم ميں بالغ ونابالغ، عاقل ودیوانے اور با ارادہ یا بے ارادہ کے درميان کوئی فرق نہيں ۔

۵۹

مسئلہ ٣ ۵۶ اگر کسی کو شک ہو کہ عضو تناسل ختنہ گاہ تک داخل ہوا ہے یا نہيں ، تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٧ اگر کوئی شخص کسی حيوان کے ساته وطی کرے اور اس کی منی خارج ہو تو صرف غسل کرنا کافی ہے اور اگر منی خارج نہ ہو ليکن وطی سے پهلے با وضو ہو تب بھی صرف غسل کافی ہے اور اگر باوضو نہ ہو تو بنا بر احتياط واجب وضو بھی کرے اور غسل بهی۔

مسئلہ ٣ ۵ ٨ اگر منی اپنی جگہ سے حرکت کرے ليکن خارج نہ ہو یا انسان کو شک ہو کہ منی خارج ہوئی ہے یا نہيں تو اس پر غسل واجب نہيں ہے ۔

مسئلہ ٣ ۵ ٩ جو شخص غسل نہ کرسکتا ہو ليکن تيمم کر سکتا ہو، وہ نما زکا وقت داخل ہونے کے بعد بھی اپنی بيوی سے جماع کر سکتاہے۔

مسئلہ ٣ ۶ ٠ اگر کوئی شخص اپنے لباس ميں منی دیکھے اور جانتا ہو کہ اس کی اپنی منی ہے اور اس کے لئے غسل نہ کيا ہو تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور جن نمازوں کے بارے ميں اسے یقين ہو کہ وہ اس نے منی خارج ہونے کے بعد پڑھی ہيں ، اگر وقت باقی ہو تو ادا کرلے اور اگر وقت گزر چکا ہو تو ان نمازوں کی قضا کرے، ليکن جن نمازوں کے بارے ميں احتمال ہو کہ منی خارج ہونے سے پهلے پڑھی ہيں ان کی ادا یاقضا نہيں ۔

وہ چيزيں جو جنب پر حرام ہيں

مسئلہ ٣ ۶ ١ پانچ چيزیں جنب شخص پر حرام ہيں :

١) اپنے بدن کا کوئی حصہ قرآن مجيد کے الفاظ، الله تعالی کے نام، خواہ کسی بھی زبان ميں ہو اور باقی اسمائے حسنی سے مس کرنا۔ احتياط مستحب یہ ہے کہ پيغمبروں، ائمہ اور حضرت زهرا عليها السلام کے ناموں سے بھی اپنا بدن مس نہ کرے۔

٢) مسجدا لحرام اور مسجد النبوی صلی الله عليہ و آلہ وسلم ميں جانا، خواہ ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے۔

٣) دوسری مسجدوں ميں ٹہرنا، ليکن اگر ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے دروازے سے نکل آئے تو کوئی حرج نہيں ہے اور اسی طرح ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ٹہرنا حرام ہے اور احتياط واجب یہ ہے کہ ائمہ عليهم السلام کے حرم ميں ، حتی ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے دروازے سے نکلنے کی حد تک بھی نہ جائے۔

۴) کسی چيز کو مسجد ميں رکھنے کے لئے اور اسی طرح بنا بر احتياط واجب کسی چيز کو مسجد سے اٹھ انے کے لئے داخل ہونا۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اس کے علاوہ جو کچھ سیف نے اس سلسلہ میں کہا ہے وہ جعلی ہے اور تنہا وہی اس کا راوی ہے دیگر راویوں نے اس قسم کی کوئی چیز ذکر نہیں کی ہے اور یہ سب دیگر مورخین کے نظریات اور نقل و روایت کے خلاف ہے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے یہ داستان محمد اور مہلب سے نقل کی ہے کہ یہ دونوں اس کے جعلی راوی ہیں اور ہم اس سے پہلے ان کا ذکر کر چکے ہیں ۔

اسی طرح عروہ ابن ولید اور ابو معبد العبسی کہ جنھوں نے اپنے رشتہ دار وں سے روایت کی ہے ،کو بھی اس داستان کے راویوں کے طور سے ذکر کیا ہے ۔ہم نے عروہ اور ابومعبد کا نام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا ،ان کے مجہول رشتہ داروں کا پتا لگانا تو دور کی بات ہے !!۔

پڑتال کا نتیجہ :

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف بن عمر نے ایران کی فوج کے سپہ سالار اعظم کا نام بدل دیاہے۔

ایرانیوں کو اپنی پناہ گاہ سے نکالنے کے طریقہ کار میں تحریف کی ہے فتح کے سال کوبھی بدل دیا ہے اور شاید '' گزر گاہ شہد ''کو اس لئے جعل کیا ہے تاکہ معاویہ ابن ابو سفیان مضری کی کارکردگی اور مالک اشتر کو شہد میں ملائے زہر سے قتل کرنے کی اس کی بات گول مول کردے ۔

اس کے علاوہ ہم نے واضح طور پرمشاہدہ کیاکہ اس نے ہمدان کی فتح کو جریر بجلی قحطانی یمانی کے بجائے قعقاع بن عمر و تمیمی مضری کے کارناموں میں درج کردیا ہے ۔

۲۲۱

اس داستان کے نتائج:

١۔ ایرانیوں کو جنگی حیلہ اور فریب سے ان کی پناہ گاہ سے باہر لاکر خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع بن عمرو کے لئے خاص فضیلت و ستائش تخلیق کرنا۔

٢۔ نہاوند میں ''وائے خرد !'' نام کی جگہ ایک لاکھ سے زائد ایرانیوں کا ان کے اپنی ہی آگ سے بھری خندق میں گر کر ہلاک ہوجانا۔

٣۔ نہاوند کی فتح میں ایک لاکھ انسان کے قتل ہونے اور ایک لاکھ کے جل کر ہلاک ہونے ، یعنی مجموعی طور سے دو لاکھ انسانوں کی ہلاکت پر تاکید اور اصرار کرنا۔

٤۔فیروزان نام کی ایک نمایاں ایرانی شخصیت کو ایرانی فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے جعل کرنا۔

٥۔ ''وائے خرد'' نام کی ایک خندق کی تخلیق کرنا تاکہ جغرافیہ کی کتابوں میں یہ نام درج ہو جائے ۔

٦۔ ''گزر گاہ شہد '' کے نام سے ایک گزرگاہ تخلیق کرنا تاکہ دشمنان اسلام کے لئے رکاوٹ بن جائے ۔اور اس فیروزان کو قتل کر کے قعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ کرنا ۔

٧۔ ہمدان کی فتح کا سحرا قعقاع اور دیگر مضری سرداروں کو بخش کر ان کے افتخارات میں ایک اورفخر کا اضافہ کرنا ۔

٨۔ ان جنگوں میں بے مثال پہلوان قعقاع بن عمرو کے رجز اور رزم ناموں پر مشتمل قصیدوں کو ادبیات عرب کی زینت بنانا۔

٩۔ ہمدان اور ماہان کے باشندوں کے ساتھ صلح و امان نامے جعل کرنا تاکہ تاریخ کی کتابوں میں ناقابل انکار تاریخی اسناد کے طور پر ثبت ہو جائیں اور ہمیشہ کے لئے باقی رہیں ۔

۲۲۲

بحث کاخلاصہ:

یہ ہے سیف کا افسانوی دلاور ،پہلوان ،عقلمند سیاست داں ،نامور رزمی شاعر اور تمام معرکوں اور فتوحات میں ناقابل شکست سورما قعقاع ،جس کی نیک نامیاں ،بہادریاں ،دوراندیشیاں ،سنجیدگیاں اور قابل قدر خدمات کتابوں میں درج ہوئے ہیں اور اس کے نام کی شہرت دنیا میں پھیل گئی ہے ۔

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ٣٤ھو ٣٥ھ کے حوادث کے ضمن میں عثمان کی خلافت کے زمانے میں قعقاع کی سرگرمیوں کا ایک اور باب کھول کر یوں ذکر کیا ہے ۔

'' خلیفہ عثمان نے قعقاع بن عمر و کو کوفہ کی جنگ کا سپہ سالار مقر ر کیا ۔اس زمانے میں کوفہ اسلامی ممالک کا مشرقی دارالخلافہ تھا اور عسکری نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل تھا ۔سیف کی اس روایت کے مطابق خلیفہ عثمان نے قعقاع بن عمرو کو اسلامی ممالک کے مشرقی حصے کے کمانڈر انجیف کی حیثیت سے مقرر کیا ہے ۔

سیف کی روایت کے مطابق اس کے بعد قعقاع بن عمر و کی سرگرمیاں ایک اور صورت اختیار کرتی ہیں اور اس کے لئے ایک خاص مقام و مرتبہ پر فائز ہوتا ہے ۔آخر اس جیسا افسانوی ''مرد مجاہد '' کیوں ہر لحاظ سے کامل نہ ہو !؟

قعقاع ابن عمرو کی سرگرمیوں کے اس نئے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کو ایک خیر خواہ ،صلح و صفائی کے ایلچی اور عثمان اور حضرت علی ں کی خلافت کے دوران پیدا ہوئی بغاوتوں اور فتنوں کو دوستی و برادری سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس حصے کی تفصیل اگلی فصل میں پیش کریں گے ۔

۲۲۳

قعقاع ،عثمان کے زمانے میں

انی لکم ناصح و علیکم شفیق

میں آپ کا شجاع دوست اورخیر خواہ ہوں

( قعقاع افسانوی خیر خواہ )

قعقاع ،عثمان کے زمانے کی بغاوتوں میں

طبری نے سیف بن عمر سے روایت کی ہے :

'' جب قعقاع سبائیوں کی عثمان کے خلافت بغاوت کے سلسلے میں مسجد کوفہ میں منعقدہ میٹنگ سے آگاہ ہوا ،تو فوراً وہاں پہنچ گیا اور انھیں ڈرادھمکا کے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا ۔سبائیوں نے اپنے جلسہ کا مقصد اس سے چھپاتے ہوئے کہا : ہم کوفہ کے گورنر سعید کی برطرفی کے حامی ہیں قعقاع نے جواب میں کہا : کاش !تم لوگوں کی خواہش صرف یہی ہوتی !اس کے بعد ان کو منتشر کیا اور مسجد میں رکنے نہیں دیا ''

وہ مزید لکھتا ہے :

جب مالک اشتر سعید کو گورنر کی حیثیت سے کوفہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے باغیوں کو اکسارہا تھا ،تو ڈپٹی گورنر عمر وبن حریث اس شورش کو روکنے اور نصیحت و رہنمائی کرنے کی غرض سے آگے بڑھا اور انھیں اس سلسلہ میں ہر قسم کی انتہا پسندی سے پرہیز کرنے کو کہا ۔اسی اثنا میں قعقاع بھی وہاں پہنچتا ہے اور ابن حریث سے کہتا ہے کیا تم سیلاب طوفانی لہروں کو نصیحت کی زبان سے پلٹنا چاہتے ہو !؟کیا دریائے فرات کو مہربانی اور نرمی سے اپنے سر چشمہ کی طرف پلٹنا چاہتے ہو !؟ یہ ناممکن ہے !! خدا کی قسم اس بغاوت اور شورش کے شعلوں کو تلوار کی تیز دھار کے علاوہ کوئی چیز بجھا نہیں سکتی اب وہ وقت آگیا ہے کہ یہ تلوار میان سے باہر آئے ۔اس وقت ان کی چیخ پکار بلند ہوگی اور وہ اپنے گنوائے ہوئے وقت کی آرزو کریں گے کہ خدا کی قسم :اس وقت دیر ہوچکی ہوگی وہ ہرگز اپنے عزائم کو نہیں پہنچ پائیں گے،لہٰذا تم چپ رہو اور صبر سے کام لو۔

۲۲۴

ابن حریث نے قعقاع کی نصیحت وراہنمائی قبول کی اور اپنے گھر چلاگیا۔وہ مزید کہتاہے:

جب یزید بن قیس مسجد کوفہ میں لوگوں کو سعید کے خلاف بھڑکارہاتھا اور عثمان کے بارے میں بد گوئی کررہاتھا ،تو قعقاع بن عمرو اٹھتاہے اور اس کے سامنے کھڑا ہوکر کہتاہے:کیا تم ہمارے عثمان کے مامور حکام کے استعفا دینے کے علاوہ کچھ

اور چاہتے ہو؟ توہم تمھاری یہ خواہش پوری کردیں گے!

اس نے مزید روایت کی ہے:

جب عثمان کا محاصرہ کیاگیا تو خلیفہ نے مختلف اسلامی شہروں کو خط لکھا اور ان سے مد د چاہی ۔ عثمان کے جواب میں قعقاع بن عمرو ،ساتھیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ کوفہ سے مدینہ کی طرف عثمان کی مدد کے لئے روانہ ہوا ۔ادھر عثمان کا محاصرہ کرنے والے باغیوں کو یہ اطلاع ملی کہ مختلف شہروں سے لوگ عثمان کی مدد کے لئے آرہے ہیں اور ان کو یہ بھی پتا چلا کہ معاویہ شام سے اور قعقاع بن عمرو کوفہ سے اور ......خلیفہ کو نجات دینے کے لئے مدینہ کے طرف آرہے ہیں ،تو انھوں نے محاصرہ کا دائرہ تنگ تر کرکے عثمان کا کام تمام کردیا اور اسے قتل کرڈالا۔جب عثمان کے قتل کی خبر راستے میں ہی قعقاع کوملی تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت کوفہ پلٹ گیا۔

یہ تھی ،عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت اور اس میں قعقاع کے رول کے بارے میں ، سیف کی روایت ۔آئندہ فصل میں ہم امام علی ں کے زمانے میں قعقاع کے رول کے بارے میں سیف کی روایت کا جائزہ لیں گے۔

۲۲۵

قعقاع ،امام علی کے زمانے میں

نادی علی ان اعقرواالجمل

علی نے فریاد بلند کی ،اونٹ کوپے کرو!

(مؤرخین)

امر قعقاع بالجمل فعقر

قعقاع نے حکم دیا اونٹ کوپے کرو اور اونٹ پے کیاگیا۔

(سیف بن عمر)

جنگ جمل کی داستان ،سیف کی روایت کے مطابق:

طبری نے سیف سے یوں روایت کی ہے :

حضرت علی بن ابیطالب کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ کے باشندوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امام کی مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ بصرہ جائیں گے۔لیکن ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا گورنر تھا نے انھیں بصرہ جانے سے روکا ۔اس کی وجہ سے زید بن صوحان ابوموسیٰ سے الجھ گیا اور ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی !آخر میں قعقاع اٹھا اور بولا:

میں آپ سبوں کا دوست اور ناصح ہوں ،میں چاہتاہوں کہ آپ لوگ ذرا عقل سے کام لیں اور میری بات مان لیں ،کیونکہ میری بات عین حقیقت ہے۔جو کچھ گورنر ابو موسیٰ اشعری نے کہا، وہ حق بات ہے لیکن قابل اعتماد نہیں ہے۔جہاں تک زید کی بات کا تعلق ہے ،چونکہ اس بغاوت میں خود اس کا ہاتھ ہے،اس لئے اسے ہرگز قبول نہ کرنا ۔(۱) ۔حق و حقیقت یہ ہے کہ بے شک لوگوں کو حکومت اور خلیفہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ پوری طاقت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کا اقدام کرے اور سماج میں نظم وضبط برقرار کرے ۔ظالموں کو قرار واقعی سزادے اور مظلوموں کی دادرسی کرے امام علی ـ لوگوں کے حاکم مقرر ہوئے ہیں ۔انھوں نے خیر خواہانہ طور پر لوگوں کو اپنی حمایت کی دعوت دی ہے۔وہ لوگوں کو اصلاح کی طرف بلارہے ہیں ۔لہٰذا ان کاساتھ دو اور ان کی اطاعت کرو۔

۲۲۶

صلح کا سفیر

طبری نے مزید روایت کی ہے :

قعقاع بن عمرو کوفہ کے کمانڈروں میں وہ پہلا کمانڈر تھا ،جس نے علی کا ساتھ دیا۔اور جب ذی قار کے مقام پر علی کی خدمت میں پہنچا،تو حضرت نے اسے اپنے پاس بلاکر اسے بصرہ کے لوگوں کی جانب اپنا سفیر اور ایلچی بنا کر روانہ کیا اور فرمایا:

اے ابن حنظلیہ !ان دو مردوں (طلحہ وزبیر) سے ملاقات کرو (سیف کا کہنا ہے کہ قعقاع

١لف۔سیف نے اس افسانہ میں زید بن صوحان کو اس کے مقام ومنزلت کے پیش نظر خاص طور پر سبائی جتلاکر قعقاع کی زبانی اس کی اس طرح تصویر کشی کی ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا)اور انھیں اسلامی معاشرے میں اتحاد ویکجہتی قائم کرنے کی دعوت دو اور معاشرے میں اختلاف وافتراق سے انھیں خبر دار کرو!اس کے بعد فرمایا:ان کا جواب سننے کے بعد اگر کسی خاص امر میں تمھارے پاس میرا حکم موجود نہ ہو تو ،تم کیا کروگے؟قعقاع نے جواب میں کہا:آپ کے حکم کے مطابق ان دونوں سے ملوں گا۔اگر کوئی ایسا امر پیش آیا جس کا حکم آپ نے نہ دیا ہوتو میں اپنی رائے اور اجتہاد سے اس کا تدارک کروں گا۔ان کے ساتھ جو بھی سزاوار ہو،مشاہدہ کے مطابق اسی پر عمل کروں گا۔

امام علی ں نے جواب میں کہا:تم اس کام کے لائق ہو ،جاؤ!

اس کے بعد قعقاع اپنی ماموریت پر روانہ ہوا۔جب ان (عائشہ،طلحہ وزبیر)کے پاس پہنچا،تو ان سے گفتگو کی ۔ام المومنین عائشہ نے اس کی بات مان لی اور طلحہ وزبیر نے بھی توافق کیا اور کہا:شاباش ہو!سچ کہتے ہو اور حق یہی ہے۔اس طرح انھوں نے دو گروہوں کے درمیان صلح وآشتی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔

جب قعقاع صلح وآشتی کی نوید لے کر امام علی ں کی خدمت میں پہنچا تو علی ں اٹھ کر منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر کرتے ہوئے بولے:

تم لوگ یہ جان لو کہ میں کل روانہ ہورہاہوں ۔تم لوگ بھی تیار رہنا۔لیکن جس نے عثمان کے خلاف کوئی اقدام کیا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ آئے ۔ہم احمقوں کی حمایت سے بے نیاز ہیں ۔

۲۲۷

سبائیوں کی میٹنگ:

سبائیوں نے جب دو سپاہیوں کے درمیان صلح کی خبر سنی تو بڑی تیزی کے ساتھ آپس میں جلسہ منعقد کرکے صلاح و مشورہ کرنے لگے ۔کافی گفتگو کے بعد عبداللہ بن سبا نے یہ تجویز پیش کی کہ :'' دونوں سپاہوں کے قائدین کی بے خبری میں ہم راتوں رات جنگ کے شعلے بھڑکا دیں گے اور انھیں آپس میں ٹکرا دیں گے '' اس تجویز پر تمام سبائیوں نے موافقت کی اور قول و قرار کے بعد متفرق ہو گئے۔

دوسری طرف دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراہوئیں ۔حضرت علی ـ،طلحہ اور زبیر نے اپنی فوج کے مختلف دستوں کے کمانڈروں کو بلا کر انھیں مطلع کیا کہ دونوں گروہوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے ہونے والا ہے اور جنگ نہیں ہوگی ۔نتیجہ کے طور پت دو طرف کے سپاہیوں نے صلح و آشتی کی امید میں وہ دن آرام سے گزارا ۔لیکن اسی رات تاریکی میں سبائیوں نے عبداللہ ابن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا دئے اور دونوں فوجوں کو ایک دوسرے سے ٹکرادیا۔

قعقاع کی جنگ

جنگ چھڑ گئی اسی گرما گرمی کی حالت میں قعقاع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ طلحہ کے نزدیک سے گزررہا تھا کہ اس نے طلحہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' اے خدا کے بندو!میری جانب آجائو ،صبر کرو! صبر کرو! قعقاع نے طلحہ سے کہا : تم زخمی ہو چکے ہو اور اپنی طاقت کھو بیٹھے ہو ،اپنے گھر چلے جائو۔

طبری سیف سے مزید روایت کرتا ہے :

قعقاع نے جنگ کی اس حالت میں مالک اشتر کی شماتت کرتے ہوئے کہا : کیا تم جنگ کی طرف نہیں بڑھو گے ؟! چوں کہ مالک اشتر نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اس لئے قعقاع اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا : ہم مضری جنگ میں اپنے مد مقابل سے لڑنے میں دیگر لوگوں سے زیادہ ماہر ہیں ۔اس کے بعد وہ جنگ کو جاری رکھتے حسب ذیل رجز خوانی کرنے لگا:

۲۲۸

''جب ہم کسی پانی پینے کی جگہ پر وارد ہوتے ہیں تو اسے پاک و صاف کرکے رکھتے ہیں اور جس پانی پر ہم قبضہ کر لیتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ اس کی طرف دست درازی کرے ''

طبری نے مزید روایت کی ہے :

''زفر بن حارث آخر ی شخص تھا جس نے میدان کا رزار میں جاکر جنگ کی قعقاع نے جاکر اس کا مقابلہ کیا ۔

عائشہ کے اونٹ کے اطراف میں جنگ شدت اختیار کر گئی تھی ،اس اونٹ کے اطراف میں قبیلہ بنی عامر کے مردوں میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا ،اس وقت قعقاع نے حکم دیا کہ عائشہ کے اونٹ کو پئے کردیں ۔عائشہ کے اونٹ کے مارے جانے کے بعد قعقاع نے ہی عام معافی کا اعلان کیا اور اپنے اطراف میں موجود سپاہیوں سے کہا :''تم امان میں ہو !!'' اس کے بعد اس نے اور زفربن حارث نے اونٹ کے پالان کی پٹیاں کاٹ دیں اور عائشہ کے محمل کو اس سے جدا کر کے آہستہ سے زمین پر رکھ دیا اور اس کے اطراف میں حفاظت کا انتظام کیا۔

جب عائشہ کا اونٹ قتل ہوا تو لوگ (جنگ جمل کے حامی) بھاگ گئے اور جنگ کے شعلے فوراً بجھ گئے ۔یہ کامیابی قعقاع بن عمرو تمیمی مضری کے وجود کی برکت سے نصیب ہوئی ۔جنگ کا عفریت فرار کر گیا اور خطرات ٹل گئے ۔

جنگ جمل کا فخر بھی ابتدا ء سے آخر تک خاندان تمیم کو ہی نصیب ہوا ۔کیوں کہ قعقاع بن عمرو تمیمی کے ذریعہ ہی قوم کے قائدین کے درمیان دوستی و آشتی کا باب کھلتا ہے ۔ سبائیوں کے عبداللہ بن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا نے اور قعقاع کی صلح کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے برادر کشی کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے بعد بھی قعقاع بن عمر و تمیمی ہی ہمت و حوصلہ سے میدان کا رزار میں اتر کر ،عرب قوم کو نابود کرنے والی جنگ کے ان شعلوں کو اپنی تدبیر و حکمت عملی سے بجھاتا ہے اور عائشہ کے اونٹ کو قتل کرنے کے بعد جنگ کا خاتمہ کرتا ہے ۔ عام معافی کا اعلان کرنے والا بھی قعقاع بن عمرو تمیمی ہی تھا ۔

۲۲۹

حضرت علی ں اور عائشہ کی پشیمانی

طبری سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے عائشہ اور قعقاع بن عمر و کے درمیان گفتگو کی حسب ذیل روایت بیان کرتا ہے :

عائشہ نے قعقاع بن عمرو تمیمی سے کہا:

''خدا کی قسم !تمنا کرتی ہوں کاش اب سے بیس سال پہلے مر چکی ہوتی ''

امام علی ـنے بھی قعقاع سے یہی کہا ۔علی اور عائشہ کے جملے یکساں تھے ۔

طبری مزید روایت کرتا ہے :

حضرت علی ـابن ابی طالب نے قعقاع بن عمرو کو مامور کیا کہ ان افراد کا سر تن سے جدا کردے ،جنھوں نے عائشہ کے بارے میں شعر کہہ کر اس کی بے احترامی کی تھی ۔

ان میں سے ایک شعر یہ کہا گیا تھا:

'' اے ماں !تیرا جرم نافرمانی ہے ''

اور دوسرے نے کہا تھا:

'' اے ماں !توبہ کر کیوں کہ تونے خطا کی ہے ''

حضرت علی ں نے یہ حکم جاری کرنے کے بعد قعقاع سے کہا : میں انھیں سخت سزا دوں گا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ ان دونوں کے کپڑے اتار دئے جائیں ہر ایک کو سو سو

کوڑے مارے ۔

مورخین نے سیف کی روایت طبری سے نقل کی ہے

یہ تھا اس داستان کا خلاصہ جس کی طبری نے سیف بن عمر سے ،جنگ جمل ،اس کے وقوع کے اسباب اور افسانوی سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے نمایاں خدمات اور قابل ذکر سرگرمیوں کے بارے میں روایت کی ہے ۔اور ان ہی مطالب کو ابن کثیر اورابن اثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۲۳۰

ابن کثیر اپنے بیان کے آغاز میں کہتا ہے : سیف بن عمر نے اس طرح کہا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے : یہ اس کا خلاصہ ہے جسے ابو جعفر طبری

ابن خلدون نے بھی جمل کے بارے میں درج کی گئی اپنی داستان کے آخر میں لکھاہے : ابو جعفر طبری کی روایت کے مطابق جنگ جمل کا یہ ایک خلاصہ ہے ۔

دوسرے مورخین نے بھی سیف کے افسانے کو طبری سے اقتباس کیا ہے منجملہ میر خواند بھی ہے کہ جس نے ''روضة الصفا '' میں جنگ جمل کے بارے میں طبری کے نقل کئے ہوئے مطالب درج کئے ہیں ۔

ان مردود اور باطل مطالب کی وقعت معلوم کرنے کے لئے ایک تفصیلی تجزیہ اور تشریح کی ضرورت ہے کہ یہاں پر اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ہم نے اس کے ایک بڑے حصے کی ''اسلامی تاریخ میں عائشہ کا کردار ''نام کی اپنی کتاب کی فصل ''عائشہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامادوں کے دوران'' میں تشریح کی ہے اور یہاں پر اس کے ایک حصے کو خلاصہ کے طور پر پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ دوسری صدی ہجری کے اس افسانہ ساز ،سیف بن عمر نے کس طرح حقائق میں تحریف کی ہے اور کس طرح اسلام اور تاریخ اسلام کا مضحکہ اڑاتے ہوئے اپنے زندیقی اور مانوی پن کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوستی کے لباس میں اسلام کو نابود کرنے کے درپئے رہا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا ہے امام المورخین ابو جعفر جریر طبری جیسے نام کا عالمی شہرت یافتہ شخص اور مورخ کس طرح اور کیوں اس دروغ گو اور عیار افسانہ ساز کا آلۂ کار بن گیا!!

۲۳۱

جنگ جمل کی داستان ،سیف کے علاوہ دیگر راویوں کے مطابق

طبری نے جنگ جمل میں شرکت کرنے کے لئے کوفیوں کی رضاکارانہ آمادگی کے بارے میں اس طرح روایت کی ہے :

''امیرالمومنین علی ں نے ہاشم بن عتبہ کوایک خط دے کر ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا حاکم تھا کے پاس کوفہ بھیجا ۔اس خط میں ابو موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ کوفیوں کی ایک فوج کمک کے طور پرجنگ کے لئے اس کے ساتھ بصرہ بھیج دے۔ چوں کہ ابو موسیٰ اشعری نے امام کے حکم کی نافرمانی کی اور کوفیوں کو امام کی مدد کے لئے بھیجنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اس لئے حضرت نے اپنے بیٹے حسن اور عمار یاسر کو کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ابو موسیٰ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر دیا ۔

حسن ابن علی اور عمار یاسر کوفہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تقریر و ہدایت کرنے لگے ان دونوں کی تقریر وں کا یہ نتیجہ نکلا کہ کوفہ کے باشندوں نے بصرہ کی جنگ میں شرکت کی آمادگی کا اعلان کیا اور تقریباً بارہ ہزار جنگجو کوفی حضرت علی ں کے ساتھ ملحق ہوگئے۔

نیزطبری بصرہ میں حضرت علی ں کی موجودگی کے بارے میں روایت کرتا ہے :

''تین دن تک دونوں متخاصم فوجوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں کوئی جنگ نہ ہوئی ۔بلکہ حضرت علی ـ،بعض افراد کو ایلچیوں کے طور پر ان کے (طلحہ ،زبیر و عائشہ) پاس بھیجتے رہے اور پیغام دیتے رہے کہ اس نافرمانی ،اختلاف اور دشمنی سے باز آجائیں ۔

طبری نے ان تین دنوں کے دوران دو طرفہ خط و کتابت اور گفتگو کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے ۔لیکن اس کے ایک حصہ کو ابن قتیبہ ،ابن اعثم اور سید رضی نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

منجملہ درج ذیل خط یہ ہے جو امام نے طلحہ و زبیر کے پاس لکھ کر بھیجا تھا:

''خد ا کی حمد و ثنا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام کے بعد ،دونوں بخوبی جانتے ہو اور دل سے اقرار بھی کرتے ہو اگر چہ زبان پر نہیں لاتے اور اعتراف نہیں کرتے ہو ، کہ میں نے کسی کو لوگوں کے پاس نہیں بھیجا تھا اور ان سے یہ نہیں چاہاتھا کہ میری بیعت کریں بلکہ یہ لوگ ہی تھے جنھوں نے مجھے حکومت اور بیعت قبول کرنے پر مجبور کیا اور تب تک ارام سے نہ بیٹھے جب تک میرے ہاتھ پر خلافت کے لئے بیعت نہ کرلی۔

۲۳۲

تم دونوں بھی ان کے ساتھ تھے بارہا میرے پاس آئے ہو اور مجھ سے اصرار کرتے رہے ہو کہ میں حکومت قبول کرلوں ۔تملوگ میری خلافت کے لئے میرے ہا تھ پر بیعت کرنے تک آرام سے نہ بیٹھے ۔جن لوگوں نے میری خلافت کو قبول کرتے ہوئے میری بیعت کی انھوں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا ہے کہ اس کے بدلے میں انھیں کوئی مال وثروت ملے اور نہ زور و زبردستی ،دھمکی اور خوف وہراس سے میری بیعت کی ہے ۔

بہر حال اگر تم دونوں نے اپنی مرضی اور اختیار سے میرے ساتھ عہد و پیمان کرکے میری خلافت کی بیعت کی ہے تو،یہ راہ جو تم نے اختیار کی ہے (بغاوت ،مخالفت اور مسلمانوں کے در میان اختلاف اندازی )سے جتنا جلد ممکن ہوسکے ہاتھ کھینچ لو اور دل سے خداکے حضور توبہ کرو اور اگر اپنی مرضی کے بر خلاف میری بیعت کی ہے تو تمھارے لئے کوئی عذر و بہانہ نہیں ہے بلکہ یہ میرا حق بنتا ہے کہ تم سے یہ پوچھوں کہ اس ظاہرداری اور دو رخی کا سبب کیا تھا؟تم لوگوں نے کیوں ظاہر ی طور پر میرے ہاتھ پر بیعت کی (اور میری حکومت کے مقاصد کے سلسلے میں جانثاری کا اعلان کیا؟)اور باطن میں میرے ساتھ مخالفت اور امت اسلامیہ میں اختلاف و افتراق کے بیج بوئے ؟اپنی جان کی قسم !تم دونوں دیگر مہاجرین سے کچھ کم فضیلت نہیں رکھتے تھے ،تم بے بس و کمزور نہیں تھے کہ ظاہر داری اور تقیہ سے اپنے دل کی خواہشات چھپاتے ۔تم دونوں کے لئے (میری بیعت کرنے کے بعد اس سے منہ موڑکر رسوائی مول لینے سے ) بہت آسان یہ تھا کہ اسی دن میری بیعت نہ کرتے اور میری خلافت کو قبول نہ کرتے ۔تم لوگوں نے اپنی مخالفت اور بغاوت کے سلسلے میں عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے اور یہ افواہ پھیلائی ہے کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے ۔میرے اور تمھارے درمیان مدینہ کے وہ لوگ حَکَم ہوں جو نہ تمھارے طرفدار ہیں اور نہ میرے بلکہ غیر جانبدار ہیں ،تا کہ معلوم ہوجائے کہ عثمان کے قاتل کون ہیں ۔اس وقت جو اس سلسلے میں جتنا مجرم قرار پائے اسی قدر سزا کا مستحق ہوگا ۔

پس اے دو بوڑھو!ان (بے بنیاد و بیہودہ ) افکار کو اپنے دماغ سے نکال باہر کرو اور اس احمقانہ اقدام سے پرہیز کرو ،اگر چہ یہ تمھاری نظرمیں بہت ننگ وعار ہے ،لیکن قیامت کے دن اس سے بڑے ننگ یعنی آتش جہنم سے دوچار نہ ہوگے ۔والسلام

اس کے بعد عبداللہ بن عباس کو مامور کیا کہ زبیر سے تنہائی میں ملاقات کرے اور اس سے یوں تاکید کی :

'' طلحہ کے پیچھے نہ جانا ،کیوں کہ اگر اسے دیکھو گے تو اس بیل کے مانند پائوگے جو اپنا سر نیچے کئے ہوئے اپنے سینگوں سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ ہے وہ ایک متکبر ،خود غرض اور تند خو آدمی ہے ،وہ مشکل، سخت اور بڑا کام شروع کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ بہت آسان ہے ۔

۲۳۳

لیکن اس کے بر عکس زبیر سے ملنا ۔وہ نرم مزاج ،در گزر کرنے والا اور بات سننے والا ہے ۔ اس سے کہنا کہ تیرا ماموں زاد بھائی کہتا ہے : تم حجاز میں (اس کی جائے پیدئش میں ) میرے آشنا اور حامی تھے ،اب کیا ہوا کہ عراق میں (بے وطنی میں ) نا آشنا،میری مخالفت اور دشمنی پر تلے ہوئے ہو؟

(حضرت اس زیبا اور دلچسب بیان میں فرماتے ہیں : عرفتنی بالحجاز وانکرتنی بالعراق فما عدا ممابدا؟)

ابن عباس کہتے ہیں : میں نے امام کے پیغام کو کسی کمی بیشی کے بغیرزبیر تک پہنچا دیا ۔زبیر چند لمحات کے لئے غور فکر میں پڑا ،پھر جواب کے طور پر صرف اتنا کہا: ان سے کہنا : اس راہ میں تمام موجود ہ مشکلات اور خوف و ہراس کے باوجود ہم امید وار ہیں ۔

عبداللہ ابن زبیر نے بھی مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:(۱) ان سے کہنا : ہمارے درمیان خون عثمان کا مسئلہ در پیش ہے اور خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ اس شوریٰ کو وا گزار کرنا ہے جس کی تشکیل عمر نے کی تھی ۔اس صورت میں تمھیں جاننا چاہئے کہ ان میں سے دو افراد یعنی طلحہ و زبیر ایک طرف ہوں گے اور ام المومنین عائشہ بھی ان کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچیں گی ۔جو اثر ورسوخ عائشہ

عوام میں رکھتی ہیں ،اس کے پیش نظر یہ دونوں بھی انھیں نہیں چھوڑیں گے اور اگر مسئلہ لوگوں کے انتخاب پر منحصر ہوا تو اکثریت عائشہ اور ان کے طرفداروں کی ہوگی ۔اس صورت میں تم اکیلے

رہ جائو گے ۔

ابن عباس کہتے ہیں :میں ابن زبیر کی ان باتوں سے سمجھ گیا کہ اس کی گفتگو کے پیچھے صرف جنگ حکم فرما ہے ۔میں علی علیہ السلام کے پاس آیا اور انھیں حالات سے آگاہ کیا۔

امام نے ابن عباس کو ایک بار پھر عائشہ کے پاس درج ذیل پیغام دے کر بھیجا :

'' خدائے تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے گھر میں رہو اور کسی صورت میں گھر سے باہر

____________________

۱)۔، وقال لی ابنہ عبداللہ : قل لہ بیننا و بینک دم خلیفة و وصیة خلیفة ،واجتماع اثنین و انفراد واحد ، وأم مبرورة و مشاورة العامة : قال ابن عباس فعلمت انہ لیس وراء ھذا الکلام الا الحرب

۲۳۴

نہ نکلو اور تم خود اسے بخوبی جانتی ہو ۔مسئلہ حقیقت میں یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے تمھیں اکسایاہے اور تمھاری کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر آسانی کے ساتھ اپنے حق میں اور تمھارے نقصان میں اقدام کیاہے اور تمھیں اپنے گھر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے ۔یہ عہد وپیمان جو تم نے ان کے ساتھ باندھاہے اور ان کے ساتھ ہم فکری اور تعاون کررہی ہو،اس سے تم نے لوگوں کو مصیبت ونابودی سے دوچار کرکے رکھدیاہے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف وافتراق کے شعلے بھڑکائے ہیں ۔

اس کے باوجود تمہارے لئے اسی میں بھلائی ہے کہ اپنے گھر چلی جاؤاور کسی بھی صورت دشمنی ،جنگ اور برادر کشی کی مرتکب نہ ہو!۔

اگر تم اس نصیحت کو قبول کرکے اپنے گھر نہ لوٹیں اور اس فتنہ کی آگ کو ،کہ جسے تم نے خود بھڑکایاہے،نہ بجھایا تو بلاشک ایک خونیں جنگ رونما ہوگی اور یہ جنگ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو نابود کرکے رکھ دے گی اور اس کی ذمہ داری کسی شک وشبہ کے بغیر اس جنگ کی آگ کو ہوا دینے والوں کے ذمہ ہوگی۔

لہٰذا ،اے عائشہ!خدا سے ڈرو،اس اختیار کی گئی راہ سے پیچھے ہٹ کر توبہ کرو ،خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور خطاؤں کو معاف کرنے والاہے ۔ایسا نہ ہو کہ ابن زبیر اور طلحہ سے تمھاری رشتہ داری تمھیں اس جگہ پر کھینچ لے جائے ،جس کا انجام جہنم کی آگ ہے!!

امام کے ایلچی عائشہ کے پاس پہنچے اور پیغام پہنچادیا۔اس نے امام کے جواب میں صرف اتناکہا:

میں فرزند ابو طالب کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتی ،کیونکہ فصاحت اور استدلال کی قدرت میں اس کی ہم پلہ نہیں ہوں ۔

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ طلحہ نے بلند آواز میں اپنے دوستوں سے مخاطب ہوکر کہا:

ان لوگوں سے جنگ کے لئے اٹھو!تمھارے پاس فرزند ابوطالب کے استدلال کے مقابلے میں استدلال کی کوئی طاقت نہیں ہے۔

۲۳۵

عبد اللہ بن زبیر نے بھی اس روز ایک تقریر کی اور اس کے ضمن میں بولا

اے لوگو!علی بن ابیطالب نے خلیفہ بر حق عثمان بن عفان کو قتل کیاہے۔اب ایک بڑے لشکر کے ہمراہ تمھاری طرف آیاہے تاکہ تمہاری سرزمین کو تسخیر کرے اور تمھیں اپنی اطاعت پر مجبور کرے۔

اب تمہاری باری ہے کہ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہو جاؤاور اپنے خلیفہ کے قتل کے انتقام میں اپنی عزت و آبرو کا تحفظ کرو اور اپنی شرافت ،عفت،اولاد واموال بالاخر اپنی شخصیت کا خیال رکھو اور جان کی بازی لگاکر ان کا تحفظ کرو۔کیاتم جیسے دلاوروں ،ناموس کے شدید محافظوں اور عثمان وعائشہ کی راہ میں جانثاری کرنے والوں کے ہوتے ہوئے رواہے کہ کوفی تمھارے شہرووطن پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کریں ؟!

انھوں نے تم پر حملہ کیا ہے،تمھاری شخصیت کی بے حرمتی کی ہے ،تمھارے جذبات کو مجروح کیاہے ۔اس وقت موقع ہے کہ جوش میں آجاؤاور ہر قسم کی مروت کو بالائے طاق رکھ دو۔ان کے اسلحہ کا جواب اسلحہ سے دو اور ان سے جنگ کرو۔علی سے جنگ کرنے میں کسی قسم کی پریشانی اور وسواس سے دوچار نہ ہو،کیونکہ وہ اپنے علاوہ کسی کو خلافت وحکومت کے لائق وسزاوار نہیں سمجھتا ۔خدا کی قسم اگر اس نے تم لوگوں پر تسلط جمانے میں کامیابی پائی تو تمھارے دین ودنیا دونوں کو نابود کردے گا اور تمھیں ذلیل وخوار کرکے رکھ دے گا.....اور اسی طرح کی بہت سی باتیں کہیں ۔

ابن زبیر کی اس تقریر کی رپورٹ علی کو پہنچادی گئی۔امام ں نے اپنے بیٹے حسن ں سے مخاطب ہوکر فرمایا:بیٹے!کھڑے ہوکر ابن زبیر کا جواب دو!۔

علی ں کا بیٹا کھڑا ہو اور بارگاہ الٰہی میں حمد وثناء اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود وسلام کے بعد بولا:

۲۳۶

لوگو!ہم نے اپنے باپ کے بارے میں ابن زبیر کی باتیں سن لیں کہ وہ کہتاہے :عثمان کو انھوں نے قتل کیاہے ،کتنی بڑی تہمت ہے !۔اے مہاجرو انصار !اے مسلمانو!تم بہتر جانتے ہو کہ زبیر عثمان کے بارے میں کیاکہتاتھا اور اس کا کیا نام رکھا تھا اور اسے کس نام سے لوگوں میں مشہور کرتاتھا،اور آخر میں اس نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیااور کیسے ظلم وستم عثمان پرڈھائے!

اور طلحہ !یہ وہی طلحہ ہے کہ ابھی عثمان زندہ تھے کہ اس نے ان کے خلاف مخالفت اور بغاوت کا پرچم بلند کیا،اس پرچم کو بیت المال پر نصب کیا اور حق وانصاف کو پائمال کرتے ہوئے بیت المال پر ڈالا،جب کہ عثمان ابھی زندہ اور خلیفہ تھے!

عثمان کی خلافت کی پوری مدت کے دوران ان دو افراد کے اس کے ساتھ برتاؤ ( اس کے ساتھ اتنی بے وفائی اورظلم کرنے کے بعد بالاخر انھیں خاک وخون میں غلطاں کیا)کے پیش نظر ان کے لئے یہ سزاوار نہ تھا کہ ہمارے باپ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگائیں اور ان کے خلاف بدگوئی کریں ! اگر ہم چاہیں تو ضرورت کے مطابق ان کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں ۔

لیکن ،یہ جو کہتے ہیں کہ علی زبردستی قدرت حاصل کرکے لوگوں پر حکومت کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں ابن زبیر،جو سب سے بڑی دلیل پیش کرتاہے وہ یہ ہے کہ اس کے باپ نے علی کی دل سے بیعت نہیں کی ہے بلکہ ہاتھ سے بیعت کی ہے۔یہ بات کہکر اس نے خود بیعت کا اعتراف واقرار کیاہے اور اس کے بعد بہانہ تراشیاں کرتاہے۔اگر وہ سچ کہتاہے تو اس سلسلے میں دلیل وبرہان پیش کرے،لیکن وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔

اور ،ابن زبیر کا اس پر تعجب کرنا کہ کوفیوں نے بصرہ کے لوگوں پرحملہ کیاہے،تو یہ تعجب بے جاہے ۔آخر یہ کون سی حیرت کی بات ہے کہ حق وحقیقت کے حامی گمراہوں اور بدکاروں پرحملہ کریں ؟

۲۳۷

اما،عثمان کے دوست اور ان کی مدد کرنے والے ،ہمیں ان کے ساتھ کوئی جنگ واختلاف نہیں ہے،بلکہ ہماری جنگ اونٹ سوار اس خاتون اور اس کے حامی باغیوں اور تخریب کاروں سے ہے نہ کہ عثمان کے طرفداروں اور حامیوں کے ساتھ !(۱)

جب امام کے ایلچی ،عائشہ ،طلحہ وزبیر سے مل کر واپس آئے اور ان کے پیغام کو جس میں خون اور اعلان جنگ کی بوتھی امام ں کی خدمت میں پہنچادیا،تو علی ں اٹھے اور خدا کی حمد وثنا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے بعد فرمایا:

اے لوگو!میں ان سے مہربانی اور نرمی سے پیش آیا تاکہ وہ شرم وحیا کریں اور دوسرے لوگوں کے اکسانے پر مسلمانوں میں تفرقہ واختلاف پیدا کرنے سے باز آئیں ۔

میں نے عہد شکنی اور بیعت توڑنے پر ان کی تنبیہ کی اور ان کی بغاوت اور گمراہی کو واضح کرکے انھیں دکھا کر گوش زد کردیا اور حق وحقیقت کا راستہ دکھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تاکہ وہ ہوش میں آکر باطل کے مقابلے میں حق کی پیروی کریں ۔لیکن انھوں نے ایک نہ مانی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کو حقیقت پر ترجیح دی اور میری دعوت قبول نہ کی ۔اس کے بر عکس مجھے ہی دھمکی دینے لگے اور مجھے پیغام بھیجا کہ ان کی تلواروں اور نیزوں کے حملوں کے لئے خود کوآمادہ کروں ۔حقیقت میں وہ طولانی آرزؤں کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر غرور وغلط فہمیوں کے شکار ہوگئے ہیں ۔

سوگ منانے والے ان کے سوگ میں نالہ وفریاد بلند کریں ۔آخر وہ میرے بارے میں کیا

____________________

۱)۔ علی تواضع اور مہربانی سے پیش آتے تھے تا کہ شاید کوئی بات بن جائے اور جنگ نہ چھڑے،بے گناہوں کا خون نہ بہے اور اس سے زیادہ مسلمانوں میں اختلاف وافتراق پیدا نہ ہو۔اس لئے مسلسل پیغام دیتے رہے ،خط لکھتے رہے،صبر وشکیبائی سے کام لیتے رہے،نصیحت وہدایت فرماتے رہے،حقائق کی وضاحت فرماتے رہے تاکہ جمل کے خیر خواہوں کی طرف سے بھڑکائی گئی فتنہ وبغاوت کی آگ کو تدبیر وتلاش سے بجھاسکیں ۔شاید وہ اس کی ناکام کوشش کررہے تھے تاکہ درخشاں وتاباں ماضی اور صدر اسلام میں جانثار یوں کے مالک اصحاب جیسے ،طلحہ وزبیر کو منحوس اور بدترین حوادث کی زد میں آنے سے بچالیں ۔کیونکہ ان کو اقتدار اور حکومت کی ہوس نے اس حد تک اندھا بنادیاتھا کہ انھوں نے دین خدا،حقیقت اسلام حتیٰ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام نصیحتوں کوبھی پس پشت ڈال دیاتھا۔کیا حقیقت میں ان کے اس اقدام کو جس کے نتیجہ میں اتنے انسانوں کا خون بہایاگیا خدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کے علاوہ کسی اور چیز سے تعبیر کیا جاسکتاہے؟ اور قیامت کے دن خدا کے سامنے وہ کیا جواب دیں گے؟!

۲۳۸

سوچتے ہیں ؟اور مجھے کس قسم کاآدمی سمجھتے ہیں ؟جب کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیاہے اور اپنے پورے وجود سے محسوس کیاہے کہ میں وہ مرد نہیں ہوں جو دشمن کی جنگ کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہوجاؤں گا یا تلواروں کی جھنکار اور میدان کارزار کے شور وغل سے وحشت کروں گا۔ولقد انصف القارہ من راماھا۔(۱)

(حقیقت میں انھوں نے اپنے برپا کئے ہوئے فتنہ وبغاوت کے سلسلے میں بھیجے گئے میرے ایلچیوں کے جواب میں مجھے میدان جنگ کی دعوت دی ہے اور مجھے جنگ کی دھمکیاں دی ہیں اور جنگ وپیکار کے بارے میں میرے ساتھ حق وانصاف پر مبنی برتاؤ کیاہے)

چھوڑو انھیں گرجنے دو،وہ ذرا رجز خوانی کرلیں اور جنگ کا بازار گرم کرلیں ،تب وہ جان لیں گے کہ ہم خود نمائی کے محتاج نہیں ہیں ۔انھوں نے ہمیں بہت پہلے جنگ کے میدان میں دیکھا ہے

اور کارزاروں میں میرے ہاتھ کی کاری ضربوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں ۔

اس وقت وہ مجھے کیسا پاتے ہیں ؟میں وہی علی اور وہی ابوالحسن ہوں جو کل مشرکین کی گنجان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتاتھا اور ان کی طاقت کو چورچور کرکے رکھ دیتاتھا اور آج بھی اس قدرت اور اطمینان کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کروں گا اور کسی قسم کا خوف وہراس نہیں کروں گا ۔مجھے اس وعدۂ الٰہی پر ایمان ہے جو اس نے مجھے دیاہے اور اس راہ میں اپنی حقانیت پر یقین رکھتاہوں اور اس مستحکم ایمان میں کسی قسم کے تذبذب سے دوچار نہیں ہوں یہاں تک کہ فرمایا:

خداوندا !تو جانتاہے کہ طلحہ نے میری بیعت توڑدی ہے اور یہ وہی تھا جس نے عثمان کے

____________________

۱)۔''وقد انصف القارہ من راماھا''عربی زبان میں ایک ضرب المثل ہے اور اس کا موضوع یہ ہے کہ قبیلہ قارہہ کے افراد تیر اندازی اور کمان چلانے میں کافی ماہر اور صاحب شہرت تھے۔اس فن میں کوئی ان کاہم پلہ نہ تھا۔لہٰذا جب طلحہ وزبیر نے امام کوجنگ کی دعوت دی ،تو گویا یہ ایسا ہے کہ قبیلۂ قارہ کے تیر اندازوں کو تیر اندازی کی دعوت دی ہے اور انھیں دھمکی دے رہے ہیں ۔اسی بناء پر امام نے اس مثل کو اپنے کلام میں بیان کیاہے۔

۲۳۹

خلاف بغاوت کی اور سر انجام اسے قتل کیا،اسکے بعد بے قصور مجھ پر اسے قتل کرنے کی تہمت لگائی ۔ خداوندا ! اسے خود نمائی کی فرصت نہ دے !

خداوندا !زبیرنے ہماری رشتہ داری سے چشم پوشی کی اور میرے ساتھ قطع رحم کیا اور بیعت توڑدی اور میرے دشمنوں کو میرے خلاف جنگ کرنے پر اکسایا۔خداوندا!جس طرح مناسب ہو آج مجھے اس کے شر سے نجات دے!اس کے بعد آپ ں منبر سے نیچے تشریف لائے۔

جنگ سے پہلے امام کی سفارشیں

حاکم ،ذہبی اور متقی لکھتے ہیں :

علی ں نے جنگ جمل کے دن بلند آواز سے اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:

اس سے پہلے کہ وہ جنگ شروع کریں تم کو حق نہیں ہے کہ کسی پر تیر یا نیزہ برساؤیاتلوار سے حملہ کرکے جنگ میں پہل کرو۔بلکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ان سے مہربانی اورملائمت سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو اور دوستانہ گفتگو کرو۔کیونکہ جو یہاں پر امام کی اطاعت کرکے کامیاب ہوا ،وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوگا۔

راوی کہتاہے :

دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ہوئیں ۔ظہر تک دونوں طرف سے کسی قسم کا اقدام نہ ہوا۔صرف ''جمل''کے خیرخواہ بیچ بیچ میں فریاد بلند کرتے تھے:(یالثارات عثمان) ''عثمان کے خون کا انتقام لینے میں جلدی کرو ۔امیرالمومنین نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے فرمایا:

خداوندا!عثمان کے قاتلوں کو آج نابود کردے!

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416