ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215136 / ڈاؤنلوڈ: 4964
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قرآن مجید میں دو جگہوں پر وضو وغسل اور ان کے بدل یعنی تیمم کاایک ساتھ ذکر ہواہے ۔

اولاً سورہ نسا کی ٤٣ویں آیت میں فرماتاہے:

( ''يٰااَيُّهَا الذَّینَ آمَنُوا لاٰتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُکٰاریٰ حَتّٰی تَعْلَمُوا مٰا تَقُولُونَ وَ لاٰ جُنُباً اِلاّٰ عٰابِرِی سَبیلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْ جٰائَ اَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوا مٰائً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰهَ کٰانَ عَفُوّاً غَفُوراً'' ) (نسا٤٣)

ایمان والو ! خبردار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا،جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم سمجھنے لگو کیا کہہ رہے ہو،اور جنابت کے حالت میں بھی (مسجد میں داخل نہ ہونا)مگریہ کہ راستے سے گزر رہے ہو ،جب تک غسل نہ کرلو اور اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پاخانہ نکل آئے ، یاعورتوں سے باہم جنسی ربط قائم کرو اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

ثانیاً سورہ مائدہ کی چھٹی آیت میں فرماتاہے :

( ''یٰا اَیُّهَاالَّذینَ آمَنُوااِذٰاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِفَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَیٰ الْمَرٰافِقِ وَامْسِحُوابِرُء وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْن وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَاِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْجٰائَ أَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ اَوْلاٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوامٰائً فَتَیَمَّمُواصَعیداًطَیِّباًفَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَأیْدِیْکُمْ مِنْهُ.....'' ) (مائدہ ٦)

۲۱

ایمان والو !جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کواور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤاور اپنے سر اور ٹخنے تک پیروں کامسح کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرواور اگر مریض ہویا سفر کی حالت میں ہو یا پاخانہ وغیرہ نکل آیا ہے یاعورتوں سے باہم جنسی تعلق قائم کرو اور پانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کامسح کرلو۔

اس لحاظ سے اسی وقت جب وضو اور غسل کاحکم بیان ہوا ،تیمم کاحکم بھی بیان ہواہے ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ١٣ سال مکہ میں اور ٥سال مدینہ میں صرف وضواور غسل کیا اور انہیں کبھی تیمم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی ہو یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے ام المؤمنین کے گلے کے ہار کی برکت سے مسلمانوں کو یہ سہولت عنایت کی ہو.!!

موضوع کی اہمیت:

ہم نے یہاں پر عائشہ کی حدیث کو نمونہ کے طور پر بیان کیا ہے ۔عائشہ کی اس حدیث میں آیہ ٔ کریمہ کی شأن نزول کی بات کی گئی ہے جو بذات خود علم تفسیر کاجزو ہے ،اور تیمم کی علت کے بارے میں تشریح بھی کی گئی ہے جو حقیقت میں احکام اسلام میں سے ایک حکم ہے اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کی بات بھی کی گئی ہے کہ کس طرح رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیوی کی خوشنودی کے لئے جذبات میں آکر تمام مصلحتوں سے چشم پوشی کرکے لشکر اسلام کے ساتھ ایک خشک اور بے آب سرزمین پر صرف اپنی بیوی کے گلے کے ہار کے لئے صبح تک پڑاوکیا۔جب کہ کسی عام فوجی کمانڈر سے بھی اس قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے چہ جائیکہ حکمت وبصیرت والے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے !! اور سب سے بڑھ کر اس حدیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس ناشائستہ وبے جاعمل پر اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تنبیہ اور سرزنش کرنے کے بجائے قرآن مجید کی ایک آیت نازل فرماکر تیمم کاحکم جاری کیا اور اس طرح مسلمانوں کی ایک گتھی حل کردی ۔

دشمنان اسلام اس حدیث اور داستان سے کیا نتیجہ لیں گے ؟!افسوس!کہ اس قسم کی احادیث جو اسلام کوحقیر وپست اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہلکا ،شہوت پرست اور کم عقل ثابت کرتی ہیں ،بہت ہیں ۔

۲۲

ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس قسم کی احادیث کو ام المؤمنین عائشہ،ابوہریرہ اور دیگر اصحاب سے نسبت دینے کی تصدیق کریں اور کہیں کہ یہ نسبت سو فیصدی صحیح ہے ،ممکن ہے ان میں سے بعض کو زندیقیوں یا دیگر دشمنان اسلام نے دین میں تخریب کاری کے لئے جعل کرکے ان سے منسوب کردیاہو۔لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس قسم کی احادیث ،حدیث کی مشہورترین وصحیح کتابوں ،معتبر تفسیروں ،سیرت اور تاریخ کی موثق کتابوں میں درج ہیں ۔اس قسم کی احادیث حقائق کو اس حد تک الٹا دکھانے کی باعث بنی ہیں کہ خدا کی صفات کوغلط رنگ میں پیش کرکے مجسم ومرئی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک شہوت پرست اور بے شعور اور قرآن مجید کو ناقص وقابل اصلاح صورت میں دکھایا گیاہے ۔(۱)

پروردگارا! مسلمانوں کے باور کئے گئے ان ہزاروں جھوٹ اور افسانوں کے مقابلے میں کیا کیاجائے ؟!ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے کہ مسلمان ان افسانوں کے عادی بن کر ان پر اعتقاد رکھتے ہیں اور انھیں اسلام کی صحیح احادیث،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سچی سیرت ،اسلام کی مؤثق تاریخ کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں اور اسی سبب سے صحیح اسلام کو نہیں پہچان سکے ہیں !

خداوندا ! کیا ان منحرف شدہ حقائق کو چودہ سو سال کے بعد حقائق آشکار کرکے ہزاروں جرائم سے پردہ اٹھایاجائے یامسلمانوں کی عظیم اکثریت کی چاہت کے سامنے ہتھیار ڈال دئے جائیں اور خاموش تماشائی بن کر زبان پر مہر لگالی جائے؟!

بار الٰہا !کیا یہاں پر خاموشی اختیار کرنا ان تمام جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟

اور کیا خود یہ خاموشی سب سے بڑا گناہ نہیں ہے ؟جی ہاں !بیشک ان تمام جرائم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا خود ان جرائم سے سنگین تر جرم ہے ۔اسی لئے حقیر نے حدیث وتاریخ ،حدیث کی شناخت اور اسلام کی صحیح تاریخ کے سلسلے میں میں بحث وتحقیق شروع کی ہے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اس کی مدد سے قدم آگے بڑھائے ہیں ۔

اب قارئین کرام اور علوم اسلامی کے محققین کی خدمت میں کتاب ''خمسون ومائة صحابی مختلق'' کے مباحث کا پہلا حصہ پیش کیا جاتاہے ۔

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم

العسکری

تہران: ٢٤ جمادی الثانی ١٣٩٦ ھ۔

____________________

۱)۔مؤلف کامقالہ''سرگزشت حدیث ''ملاحظہ ہو۔

۲۳

دوسرا حصہ :

کتاب کے مباحث :

٭سیف کو پہچانئے ۔

٭زندیق وزندیقان۔

٭مانی اور اس کا دین ۔

٭مانویوں کے چند نمونے ۔

٭یمانی و نزاری قبیلوں کے درمیان خاندانی تعصبات۔

٭نزار قبیلہ کے بارے میں سیف کا تعصب۔

٭اسلامی مأخذ میں سیف کی احادیث کا نفوذ ۔

٭سیف کی احادیث کے پھیلائو کے اسباب ۔

٭گزشتہ فصلوں کا ایک خلاصہ۔

۲۴

سیف کو پہچانئے

یروی الموضوعات عن الا ثبات

سیف اپنے جعل کردہ جھوٹ کو معروف ومعتبر راویوں سے نسبت دے کر حقیقت کے طور پر نقل کرتا ہے ۔

) علمائے رجال (

اس بحث کے آغاز کا مقصد

١٣٧٥ ہجری میں جب کتاب '' عبد اللہ ابن سبا''پہلی بار چھپ رہی تھی ،میں اس کی شائع شدہ فصلوں کے باقاعدہ مطالعہ کے دور ان متوجہ ہوا کہ ابن سبااور سبائیوں کے افسانہ کے علاوہ اسلامی تاریخ کے مصادر میں اور بھی بہت سی داستانیں اور افسانے شامل کئے گئے ہیں یہی امر اس کا سبب بنا کہ تاریخ اسلام کے ان افسانوں میں ذکر شدہ بیشتر سور ماؤں کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھوں ۔

میں نے کتاب کی طباعت کو طویل عرصہ کے لئے ملتوی کردیا تاکہ اس موضوع کے بارے میں بیشتر تحقیق کروں ۔اس تحقیق وتجسس کانتیجہ یہ نکلا کہ اصحاب ،تابعین سپہ سالاروں ،شعراء اور

۲۵

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے راویوں میں ایسی بہت سی معروف اور تاریخی شخصیتوں کوپایا جن میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔

اسی طرح بہت سی فرضی جگہوں اور سرزمینوں کے ناموں سے بھی سامناہوا کہ افسوس !ان کے نام جغرافیہ کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں ،جب کہ یہ سب خیالی افسانے گڑھنے والوں کی تخلیق تھے اور حقیقت میں ان کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

اس کے علاوہ معلوم ہوا کہ اصل خبروں یاتاریخی واقعات کے سالوں میں بھی خود غرضانہ طور پر تحریفیں کی گئیں ہیں اور انہیں نام نہاد معتبرکتابوں میں درج بھی کیاگیا ہے۔

ہم نے ''کتاب عبداللہ بن سبا''کے مطالب کے ساتھ مجبوراًمذکورہ بحث کو اس کتاب کے ساتھ مربوط کیا اوران افسانوں میں سے بعض کواس میں نقل کیا اور ان میں سے بعض خیالی سور ماؤں کے بارے میں اشارہ پر اکتفا کرتے ہوئے کتاب کو پائے تکمیل تک پہنچادیا اور اسے ''عبداللہ ابن سبا۔مدخل ''یعنی اس تحقیق وبحث کامقدمہ قرار دیا۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد ،میں نے سکون واطمینان کے ساتھ افسانوں کے بارے میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ (قلمی)کتابوں اور نسخوں میں تحقیق وجستجو شروع کی اور اس کام کو اس حد تک جاری رکھا کے کہ خدائے تعالیٰ نے مختلف گروہوں کے افسانوی سور ماؤں کی قابل ذکر تعداد کی شناخت حاصل کرنے میں میری رہنمائی فرمائی ان میں بہت سے فرضی اور نام نہاد اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی نظر آتے ہیں ،یہ ایسے اصحاب اور سورما ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب کے سب ،سیف بن عمر تمیمی وغیرہ جیسے مجرموں کے ہاتھوں ،اسلام اور اسلام کی تاریخ کے ساتھ غداری، حقائق کی پردہ پوشی مسلمانوں کے ذہنوں کو مشوش کرنے ،اسلام کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں مشتعل کرنے کے لئے جعل و تخلیق کئے گئے ہیں ۔

ہم نے تاریخ اسلام پر ہوئے ظلم کے ایک گوشے کو آشکار کرنے اور حقائق و واقعیات کے چہرے سے پردہ اٹھانے کے لئے جعلی اور افسانوی اصحاب کی رونمائی کو دیگر جھوٹے اور فرضی چہروں کی رونمائی پر ترجیح دی ،اور ان میں سے صرف ١٥٠اصحاب پر ہی اکتفا کی اور اس مجموعہ کا نام '' ١٥٠جعلی اصحاب '' رکھا جو آپ کے ہاتھ میں ہے ،جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ کتاب ''عبد اللہ بن سبا '' در حقیقت اس بحث میں داخل ہونے کی ایک دہلیز اور مقدمہ تھا۔

ہم نے کتاب عبد اللہ ابن سبا میں ثابت کردیا ہے کہ ابن سبا کے وجود کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ سیف بن عمر تمیمی کی فرضی تخلیق ہے ۔اس طرح اس کتاب میں بھی قارئین کرام مشاہدہ کریں گے یہ اصحاب سیف بن عمر کے جعل کردہ افسانوی سورما تھے اور ان میں سے ایک بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتاتھا۔

۲۶

سیف بن عمرکون ہے ؟

حقیقت میں یہ سیف کون ہے کہ جس نے اتنے اصحاب اور سورما اور تاریخی واقعات جعل کئے اور گڑھے ہیں ؟اس کے جھوٹ سچائی میں تبدیل ہوگئے ہیں ، افسانے حقیقت میں بدل گئے ہیں اور اس کے مذاق سو فیصدی سنجیدہ مطالب کی صورت میں تاریخ کی معتبر کتابوں میں درج کئے گئے ہیں ؟!

ہمیں افسوس ہے کہ سیف کی کوئی تصویر ہماری دست رس میں نہیں ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اس کی مکمل سوانح حیات بھی دستیاب نہیں ہے جس سے اس کے خاندان ،تربیت کے ماحول اور علمی قابلیت کے بارے میں پتہ چلتا جس کے ذریعہ ہم اس غیر معمولی افسانہ ساز اور جھوٹ گڑھنے والے کی تصویر اپنے ذہن میں مجسم کرتے ۔لیکن اس کے باوجود بعض علما اور دانشوروں کی تألیفات نے اس کی طرز تفکر ،دینی اعتقادات اور دیگر اخلاقی خصوصیات کے بارے میں ہماری راہنمائی کی ہے ۔

کتاب ''عبد اللہ ابن سبا ''میں ہم نے پڑھا کہ علماء نے سیف کی زندگی کے حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ :وہ بغدادی اور دراصل کوفی تھا ،اس کی احادیث اور بیانات کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے بلکہ ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ۔سیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس کی احادیث جھوٹی اور جعلی ہیں ،اور وہ اپنی حدیثوں کا خود اور تنھا راوی ہے بالآخر سیف ایک زندیق (مانوی مذہب کا پیروکار) ہے ۔جس نے'' فتو ح وردہ ''اور'' جمل وعلی وعائشہ کی راہ''نام کی دو کتابیں تألیف کی ہیں ۔ اور کہا گیا ہے کہ سیف ١٧٠ ہجری میں عباسی خلیفہ ھارون رشید کے زمانے میں فوت ہوا ہے ۔ ١

گزشتہ بحث میں درج ذیل مطالب ہمارے مد نظر ہیں :

اول :۔سیف بن عمر در اصل کوفی اور بغداد کا رہنے والاتھا۔

دوم:۔علمائے رجال نے اسے زندیق (مانوی مذہب کاپیروکار ) جاناہے۔

سوم:۔علماء اس بات پر متفق ہیں کہ سیف،احادیث اور داستانوں کوخود جعل کرتاتھا،وہ افسانہ ساز اورجھوٹ گڑھنے والاتھا۔خداکی مددسے اس کتاب کی آیندہ فصلوں کے ضمن میں اس موضوع پر بحث وتحقیق کی جائے گی ۔

چہارم:۔''جمل''و''فتوح''کے نام سے تألیف کی گئی اس کی دو کتابیں تاریخ اسلام کی اہم مصادر قرار پائی ہیں اور ابھی تک ان سے استناد بھی کیا جاتاہے۔

پنجم :۔اس کی تاریخ وفات کو عباسی خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں تقریباً ١٧٠ ہجری ذکر کیاگیا ہے جب کہ درج ذیل موارد سیف بن عمر تمیمی کے عصر کے ادبی نشاط کے مظہر ہیں :

۲۷

احادیث سیف کی پیدائش کازمانہ

درج ذیل موارد سیف کے عصر ِاحادیث کے مظہر ہیں :

اولاً:۔ابو مخنف لوط بن یحییٰ،وفات ١٥٧ھ ،نے سیف بن عمر کی کتاب کے بارے میں اشارہ کرکے اس سے نقل بھی کیا ہے ،اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ سیف کی کتاب ،ابو مخنف کی وفات سے پہلے لوگوں کے در میان پھیل گئی تھی۔(۱)

ثانیاً:۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیف کی احادیث ،بنی امیہ کے سردار وں اور ان کے خاندان کی مدح و ستائش سے مالا مال اور ان کے فضائل و مناقب کے بارے میں عجیب و غریب افسانوں سے پر ہیں ،(جب کہ سیف کی روش کے مطابق ) عباسیوں کے حق میں کسی حدیث کا تقریبا کوئی اثر موجود نہیں ہے یہ موضوع ہمیں یہ قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ سیف کی احادیث کی جعلی سازی کا زمانہ عباسیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے تھا ،کیوں کہ عباسیوں کی خلافت کا دور امویوں کے قتل عام ، ان پر اور ان کے حامیوں پر سختی اور دبائو کا زمانہ تھا ،حتٰی ان کی قبروں کو کھود کر ان کے اجساد کو باہر نکالا جاتا تھا اور ان میں آگ لگائی جاتی تھی ۔ان حالات میں بنی امیہ کے حق میں افسانے اور جھوٹے فضائل گڑھ کر ان کی تبلیغ کرنے یا صحابہ و تابعین کی اہم شخصیتوں میں بنی امیہ کے دشمنوں کے دامن کو داغدار بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

سیف کی احادیث گڑھنے کے زمانہ کو معین کرنے میں درج ذیل داستان ہماری مدد کرتی ہے۔

____________________

۱)۔ شیخ مفید ،وفات ٤١٢ ھ اپنی کتاب '' جمل '' کے صفحہ ٤٧ پر داستان جنگ بصرہ کو ابو مخنف کی کتاب ''حرب البصرہ '' سے یوں نقل کرتے ہیں :

'' سیف بن عمر نے محمد بن عبد اللہ بن سواد اور اعلم کے بیٹے طلحہ اور ابو عثمان (ان سب ) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا ہے : جب عثمان قتل ہوئے ،شہر

مدینہ میں پانچ دن تک '' غافقی '' کے علاوہ کوئی حاکم نہ تھا ....''

طبری نے اسی روایت کو انہی اسناد سے اسی عبارت کے ساتھ اپنی تاریخ کی جلد ٥ صفحہ ١٥٥پر ذکر کیا ہے ،جب کہ ہم جانتے ہیں طبری نے سیف کی احادیث کو اس کی دو کتابوں ''فتوح '' اور ''جمل'' سے نقل کیا ہے ۔

شیخ مفید نے سیف کی ایک اور روایت ،اپنی کتاب کے صفحہ ٤٨پر ابو مخنف سے نقل کی ہے چوں کہ ابو مخنف نے سیف کی باتوں کو اس کانام لے کر اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ،اس لئے یہ واضح ترین دلیل ہے کہ سیف بن عمر کی کتاب ابو مخنف کی وفات ( ١٥٧ھ) سے پہلے لوگوں کے درمیان موجود تھی''

۲۸

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرتے ہوئے ٢ ٢ ھ کے حوادث کے ضمن میں ساسانیوں کے آخری فرماں روا یزد گرد کے خراسان کی طرف اس کے سفر کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جنگ جلولا ء میں ایرانیوں کے شکست کھانے کے بعد یزد گرد نے رے کی طرف پسپائی اختیار کی ۔اس پسپائی کے دوران وہ اونٹ کی پشت محمل میں ہی چھپارہتا تھا اور نیچے نہیں اترتا تھا ، حتی وہیں پرسوتا تھا، کیونکہ اس کے سپاہی خطرات سے بچنے کے لئے کسی جگہ پر رات کو بھی توقت نہیں کرتے تھے۔اس دوران اس کے سپاہی ایک جگہ پانی کے کنارے پر پہنچے اور جاہتے تھے اونٹ کو لے کر پانی سے گزرجائیں .لیکن اس خوف سے کہ اونٹ کے ہلنے سے یزدگرد بیدار ہوکر ان پر برہم ہوجائے گا اور انھیں سزا دے گا .انہوں نے مجبوراًاسے نیندسے بیدار کیا، تا کہ وہ حالات سے آگاہ ہوجائے.یزد گرد بیدار ہوا اور ان پر بگڑپڑا اور کہنے لگا: تم لوگوں نے بہت برا کام کیا ! خدا کی قسم اگر مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو مجھے معلوم ہوجاتا کہ اس امت کی سربلندی کا ستارہ کب ڈوبنے والا ہے۔ کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ صلاح مشورہ کررہے ہیں خدا کہتا تھا: اس امت کو ایک سو سال کی فرصت دیتا ہوں ۔محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اس سے زیادہ! خدا نے کہا: ایک سودس سال، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر کہا:اور بھی، خدا نے کہا: ایک سوبیس سال ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: خود جانئے !اسی وقت تم لوگوں نے مجھے بیدار کردیا۔اگر ایسا نہ کرتے تو میں سمجھ جاتا کہ اس امت کی مدت کتنی ہے۔٢

اب ہم دقت کے ساتھ اس حدیث کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں :

سیف کہتا ہے کہ یزد گرد نے ''اﷲ'' کی قسم کھائی ، جبکہ یزد گرد زرتشی اور دوگانہ پرست تھا۔مجوسی لفظ ''اﷲ'' جو عربی ہے کو نہیں جانتے اور اس کی قسم نہیں کھاتے .بلکہ ان کا ایمان ''اہورامزدا'' پر ہے اور وہ آتش مقدس ، سورج اور چاند کی قسم کھاتے ہیں ۔ اللہ کی قسم کھانا مسلمانوں کی خصوصیت ہے کہ سیف نے ان ہی میں پرورش پائی تھی اور ان سے خوپیدا کرچکا تھا. اس لئے یزدگرد کی قسم میں اس نے اللہ کے نام کی نسبت دی ہے.

۲۹

یزدگرد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سچا نہیں جانتا تھا اور انھیں اس قابل نہیں جانتا تھا کہ انصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا کے ساتھ صلاح و مشورہ کے لئے بیٹھے.حقیقت میں یہ حدیث سیف کے اسلامی ماحول ، اس کے تخیلات کے طرز اور اس کے اپنے فکر و ذہن میں تخلیق کئے گئے اسلام کی عکاسی ہے.کیونکہ مسلمان تو اپنے دین کے قیامت تک باقی رہنے کا ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں اور سیف اسلام کی بقا کی ایک حد مقرر کرتا ہے اور اپنی دلی تمنا کو کسریٰ کی زبانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ''اگر مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس امت کی مدت کتنی ہے''۔!!

شائد وہ امت اسلامیہ کی نابودی کو''مانویوں '' کی فعالیت کے سائے میں دیکھتا تھا ، جن کے بارے میں خود بھی بخوبی آگاہ تھا کہ وہ اسلام کی بنیادوں کو نابود کرنے کی کس قدر کوشش کر رہے ہیں ۔ خود سیف بھی ان ہی میں سے ایک اور ان کا حامی تھا یا ملک روم و غیرہ جیسی بیرونی جنگوں سے اُمید باندھے ہوئے اپنی آرزو کی تکمیل کا منتظر تھا۔

بہر حال سیف اسلام کی بقا و پایداری نہیں چاہتا تھا اور اسے اطمینان تھا کہ اس مدت سے زیادہ جسے خود اس نے محسوس کیا وہی اس کااپنا زمانہ بھی تھا سے زیادہ (اسلام ) باقی و پائیدار نہیں رہے گا. اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے ساتھ سہ رکنی جلسہ میں ١٢٠سال کی حد بندی زمانہ کے اعتبار سے اس حدیث کی جعل سازی کی مظہر ہے۔

خلاصہ یہ کہ:

ابو مخنف (وفات:١٥٧ھ)نے سیف سے روایت نقل کی ہے اور اس مطلب کی تائید کرتا ہے کہ سیف اس تاریخ (١٥٧ھ) سے پہلے زندہ اور سرگرمِ عمل تھا۔

عباسیوں کے ذکر کے بجائے خاندان بنی امیہ کی عظمت و منزلت کی مدح و ستائش کرنا اور اُن کی طرفداری کا دم بھرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احادیث عباسی خلفاء کے اقتدارمیں آنے سے پہلے جعل کی گئی ہیں ۔ کیونکہ خلفائے بنی عباس کے زمانے میں امویوں کا اجتماعی طور پرقتل عام کیا جاتا تھا اور ان کے حامیوں کا تعاقب کرکے انھیں اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں ۔

۳۰

نتیجہ :

گزشتہ مطالب کے پیش نظر،مجموعی طور پر یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ سیف کے چھوٹ اور افسانے گڑھنے کی سرگرمیوں اور نشاط کا زمانہ دوسری صدی ہجری کے آغاز کا دور تھا، اور سیف کی وفات کو ١٧٠ ھ کے بعد ذکر کرنے والے تنہا شخص ،''مزی ''کا قول اور ذہبی کا اس کی تاریخ وفات کو ہارون رشید کا زمانہ بیان کرنا ، اس حقیقت کو رد نہیں کرتا ۔ کیونکہ اگر مزی اور ذہبی کا کہنا صحیح ہوتو ، سیف اپنی کتابوں کی تألیف کے بعد چالیس سے پچاس سال تک زندہ رہاہے.

ان حقائق کے پیش نظر کہ سیف کی تالیفات کا دور دوسری صدی ہجری کے ابتدائی ایک چوتھائی زمانہ سے مربوط تھا، اور یہ کہ وہ قبیلہ مضر کے خاندان تمیم سے تعلق رکھتا تھا۔ کوفہ کا رہنے والاتھا اور اس کا اصلی وطن عراق تھا، اس کی شخصیت کی بنیادوں ، اس کے عزائم اور اس کے حیرت انگیز افسانوں کی تخلیق و ایجا د کے عوامل و اسباب کے بارے میں تحقیق و مطالعہ آسان بنادیتا ہے.

سیف کے زمانہ کی خصوصیت:

سیف کا عصر ، ایسا زمانہ تھا جس میں تمام اسلامی شہروں میں قبیلہ پرستی، خاندانی تعصبات ، ان کے آثار کا تحفظ اور ان پر فخر و مباہات کرنا شد و مد کے ساتھ رائج تھا ۔یہ وہ مطلب ہے جس پر ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے ۔

اس بیہودہ تعصب کے علاوہ سیف کا وطن (عراق) خاص طور پر مانویوں زندیقیوں کے پھلنے پھولنے اور ان کی خود نمائی کی آماجگاہ تھا۔

اس لئے اگر ہم سیف کی افسانہ سازی کے اصل محرک کی شناسائی کرنا چاہیں تو ہم مذکورہ بالا دو موضوع کے بارے میں خصوصی طور پر الگ الگ بحث و تحقیق پر مجبور ہیں ۔

ہم اس بحث کو پہلے ''زندیق'' اور ''زندقہ'' کی تعریف سے شروع کرتے ہیں ،کیوں کہ سیف کی جائے پیدائش میں اس مذہب کے اعتقاد کے بھر پور پھیلائو اور رواج کے علاوہ خود سیف بھی اس سے جدا نہ تھا ۔خاص طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ علماء اور دانشوروں نے اپنی تالیفات میں سیف کا زندیق کے عنوان سے تعارف کرایا ہے اور یہ امر بذات خود اس کے تمام افسانے ،اصحاب

۳۱

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بہادروں کے جعل کرنے کے محرکات کی کافی حد تک توجیہ کر سکتا ہے ۔

زندیق اور زندیقان

المقصود من الزنادقة هم اتباع مانی

زندیقیوں سے مراد ''مانی '' کی پیروی کرنے والے ہیں ۔

) متن کتاب (

لفظ زندیق کی بنیاد :

لفظ ''زندیق '' کی بنیاد ،فارسی ہے ،مسعودی کہتا ہے :

''زردشت'' نے اپنی کتاب کا نام '' اوستا'' رکھا اور اس کی ایک تفسیر لکھی ،جو ''زند'' کے نام سے مشہور ہے ۔اس لئے اگر کوئی ان کے مذہب کے اصول کے خلاف کچھ بیان کرے یا اصل کی تفسیر کرے تو ایرانی اسے ''زندی'' کہتے ہیں ،یعنی وہ جس نے ظاہر کتاب اور تنزیل کے خلاف اس کی تفسیر پر اکتفا کی ہو ۔اسی وجہ سے ''مانی '' جس نے بہرام کی بادشاہی ( ٢٤٠ ٢٧٧ع)کے دوران ظہور کیا تھا اور ایک جماعت نے اس کی پیروی کی تھی ،وہ لوگ ''زندی '' یا منحرف کے نام سے مشہور ہوئے ۔'' ١

عربوں نے لفظ ''زندی'' کو اپنی زبان میں منتقل کرکے اسے ''زندیق'' پڑھا اور یہ لفظ ''زندیق '' ''مانی'' کے پیرئوں کے لئے اسم علم بن گیا ،جنھیں ''زنادقہ'' کہتے ہیں ۔

ایک مستشرق کہتا ہے:

''لفظ ''زندیق '' اصل میں ''صدیق'' ٢ تھا ،جو صدیقین کا واحد ہے ،یہ مانویوں کا ایک فرقہ ہے لفظ ''صدیق'' فارسی میں '' زندیک '' تبدیل ہوا اور دوبارہ عربی میں منتقل ہو کر ''زندیق'' بن گیاہے'' ٣

۳۲

ہم اصلی لفظ فارسی ''زندیق ''کے سلسلے میں محققین کے نظریات کے بارے میں اسی پر اکتفا کرتے ہیں :

عربی زبان میں ''زندیق''

عربی زبان میں ''مانی '' کے پیرئوں کو ''زندیق'' کہا جاتا تھا ۔یہ لوگ دنیا کو ازلی طور پر نورو ظلمت پر مبنی جانتے تھے ،اسی لئے ان کو دوگانہ پرست بھی کہا جاتا تھا ۔

اس کے بعد یہ نام مادہ پرستوں کے لئے اطلاق ہوا جو خدا ،پیغمبر وں اور آسمانی کتابوں کے منکر ہیں اور دنیا کے ابدی ہونے کے معتقد ہیں اور آخر ت و عالم ماورائے طبیعت کے منکر ہیں ۔

اس کے بعد یہ نام ان لوگوں پر اطلاق ہوا جو اصول دین میں سے کسی ایک کے منکر ہوں یا ایسا اظہار نظر کریں جس کے نتیجہ میں اصول عقائد میں سے کسی ایک کے منکر ہونے کا سبب بنے ۔ ٤

اس کے بعد یہ لفظ اپنی جہت بدل کر ہر اس شخص پر اطلاق ہونے لگا جو مذہب اہل سنت کا مخالف ہو ۔ بالاخر یہ لفظ ہر اس بیہودہ گو ،بے شرم و بے حیا شاعر کے لئے کہا جانے لگا جو بلا لحاظ معشوق کا دم بھرتا ہے یا اسی قسم کے ہر قلمکار یا اس کے طرفداروں پر اطلاق ہونے لگا۔(۱)

____________________

۱)۔اسی طرح دائرة معارف اسلامی میں ''زیدیقان'' کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ اور نظریات موجود ہیں کہ ہم ان کو

۳۳

دربار خلافت میں ''زندیق '' کی تعریف :

شائد ''زندیقیوں '' کے بارے میں کی گئی قدیمی ترین اور سرکاری تعریف وہ ہے جو عباسی خلیفہ مھدی نے اپنے بیٹے اور ولی عہد موسیٰ کے نام درج ذیل وصیت نامہ میں بیان کی ہے ۔

ایک زندیق کو عباسی خلیفہ مھدی کے حضور لایا گیا خلیفہ نے اس سے توبہ کرنے کو کہا ۔چوں کہ اس زندیق نے خلیفہ کی بات ماننے سے انکار کیا لہٰذا خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کا سر تن سے جدا کر کے جنازہ کوسولی پر لٹکا دیا جائے اس واقعہ کے بعد خلیفہ نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا:

'' اے فرزند !اگر میرے بعد تمھیں خلافت ملی تو صرف زندیقیوں پر توجہ دینا کیوں کہ یہ گروہ لوگوں کی توجہ کو بعض ظاہر ی خوشنما اور اچھے لیکن دل فریب امور ،جیسے دنیا سے کنارہ کشی اور آخرت کی طرف رغبت کی دعوت دیتے ہیں ،حتٰی لوگوں کو اس بات کا معتقد بناتے ہیں کہ گوشت کو حرام جانیں اور پاک پانی کو نہ چھوئیں ،کیڑوں کو مارنا حرام جانیں بالاخر وہ لوگوں کو دوگانہ پرستی پر مجبور کرتے ہیں ۔اس طرح نو و ظلمت کی پرستش کرتے ہیں اور ان حالات میں اپنے محارم ،جیسے بہن اور بیٹیوں سے ازدواج کرنا جائز سمجھتے ہیں ،اپنے آپ کو پیشاب سے دھوتے ہیں اور بچوں کو اس لئے راستے سے چرالیتے ہیں تاکہ ابلیس کی ظلمت سے نجات دے کر انھیں نور و روشنی کی طرف راہنمائی کریں ۔

جب میرے بعد خلیفہ بن جائو تو کسی ترحم کے بغیر ان کو پھانسی پر لٹکا نا اور انھیں تہ تیغ

____________________

صحیح نہیں سمجھتے ہیں از جملہ '' زندقہ '' عربی شکل میں ''زند گر '' یا ''زندہ گر'' ہے یعنی ا صل ا بدیت کے اعتقادات کی وضاحت کرنے والا یا ''زندہ کرد'' دین کا مجدد اور اس کا احیا کرنے والا یا '' زن دین'' کا معرب یعنی عورتوں کے دین کا مظہر ہے یا ''زندیک '' کتاب ''زندمزدک '' کے پیرئوں کی علامت ہے کہ ان کا دین ،دین ''مانی '' کا مشتق ہے ۔

۳۴

کرنا،اور ان کو قتل کرکے خداے یکتا کا تقرب حاصل کرنا ،کیوں کہ میں نے تمھارے جد عباس کو خواب میں دیکھا کہ انھوں نے مجھے دو تلوار یں حمائل کیں اور ان دو گانہ پرستوں کے قتل کا حکم دیا ''

جب موسیٰ اپنے باپ کے بعد خلیفہ بنا تو اس نے اپنے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کی ٹھان لی وہ اسی کام کو انجام دینے میں مصروف تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دسویں ماہ میں کہا : '' خدا کی قسم اگر میں زندہ رہا تو تمام زندیقیوں کو تہ تیغ کردوں گا اور ان میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گا''

کہتے ہیں کہ موسیٰ نے حکم دیا تھا کہ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک ہزار پھانسی کے پھندے تیار کئے جائیں تاکہ پہلے سے مقرر کردہ وقت پر ایک ہزار زندیقیوں کو پھانسی پر لٹکا دے ۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ اپنے اس منصوبہ پر عمل کرے اس دنیا سے چلا گیا۔(۱)

طبری نے عباسی خلیفہ مھدی کی وصیت کے ایک اور مورد کا ذکر یوں کیا ہے:

''جب دائود ابن علی عباسی اور خاندان حارث ابن عبد المطلب کے یعقوب(۲) ابن فضل حارثی کو اس (مھدی) کے پاس حاضر کیا گیا اور ان دونوں نے زندیقی ہونے کا اعتراف کیا ۔ یعقوب نے کہا میں خلوت میں آپ کے سامنے زندیقی ہونے کا اعتراف کروں گا ،لیکن لوگوں کے سامنے کسی بھی صورت میں ''مانوی'' ہونے کا اعتراف نہیں کروں گا ،چاہے مجھے آپ قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالیں ۔ مہدی نے یعقوب کے جواب میں کہا : افسوس ہے تم پر !اگر آسمانوں کے پردے ہٹا دیئے جاتے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ''دین مانی'' حق ہے اور کسی قسم کا شک و شبہ بھی تمھارے لئے باقی نہ رہتا جب بھی تمھارے لئے سزاوار تھا کہ

____________________

۱)۔ کیا خلیفہ کے قتل میں زندیقیوں کا ہاتھ تھا ؟

۲)۔دائود اور یعقوب دونوں خاندان بنی ہاشم سے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچازاد ے تھے۔

۳۵

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تعصب نہ رکھتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرفدار ی کو نہ چھوڑتے !اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ ہوتے تو آج تمھاری حیثیت کیا ہوتی ؟کیا ایسا نہیں ہے کہ اس صورت میں تم سادہ اور عام لوگوں میں سے ایک معمولی فردشمار ہوتے ؟ خدا کی قسم اگر میں نے اپنے خدا سے یہ عہد نہ کیا ہوتا کہ اگر مجھے خلافت عطا ہوئی تو بنی ہاشم میں سے کسی ایک کے بھی خون سے اپنے ہاتھ آلودہ نہ کروں گا ،تو تمھیں ایک لمحہ کے لئے بھی زندہ نہ رہنے دیتا! اس کے بعد اپنے ولی عہدموسیٰ سے مخاطب ہوکر کہا: اے فرزند !تجھے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو میرا تیرے اوپر ہے ،اگر میرے بعد خلافت پر پہنچے تو ان دونوں کو ایک لمحہ بھی زندہ نہ رکھنا!

دائود نے مہدی کے زندان میں وفات پائی ۔جب موسیٰ اپنے باپ کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے اپنے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کا حکم جاری کیا ۔اس کے بعد یعقوب پر ایک فرش ڈالا گیا اور لوگوں کی ایک جماعت اس پر بیٹھ گئی ۔اسی حالت میں اس نے دم توڑا ۔

یعقوب کی بیوی اور بیٹی نے بھی زندیقی ہونے کا اعتراف کیا ۔اس کی بیٹی حاملہ تھی اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے باپ سے حاملہ ہوئی تھی !عباسی خلیفہ موسیٰ کے حکم سے ان کے سر پر ایک ایسی چیز ماری گئی کہ خوف و وحشت سے دونوں نے جان دے دی۔ '' ٥

١٦٣ ہجری میں جب عباسی خلیفہ مہدی رومیوں سے موسم گرما کی جنگ کے لئے موصل کے اطراف میں رابق کے مقام پر پہنچاتو اس نے عبد الجبار محتسب کو اس علاقہ کے مانویوں کو گرفتار کرنے پر مامور کیا عبد الجبار نے اس حکم کی تعمیل میں ان میں سے بعض کو قتل کر ڈالا اور بعض کو پھانسی پر لٹکا دیا اور ان کی کتابوں کو چاقو سے پارہ پارہ کر دیا۔ ٦

۳۶

طبری نے ان مطالب کے ذکر کے بعد ١٦٨ ہجری کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے :

''اس سال خلیفہ کی طرف سے زندیقیوں کو تلاش کرکے انھیں گرفتار کرنے پر خاص مامور عمر کلوازی نے وفات پائی اور حمدویہ ،یعنی میسان کارہنے والا محمد بن عیسیٰ اس کا جانشین مقرر ہوا ۔اور اسی سال عباسی خلیفہ مہدی نے بغداد میں زندیقیوں کا قتل عام کیا'' ٧

زندیقی کون تھے ؟

مسعودی ،مروج الذہب میں عباسی خلیفہ ،مامون کی تاریخ میں لکھتا ہے :

'' بصرہ کے بعض زندیقیوں کی خبر مامون کو پہنچی ۔اس نے حکم دیا کہ ان سب کو پکڑ کر مقدمہ چلانے اور سزا سنا نے کے لئے اس کے پاس حاضر کیا جائے بصرہ میں مانویوں کی پکڑ دھکڑ شدت سے شروع ہوئی ،ان کو گروہ کی صورت میں پکڑ کر بغداد روانہ کیا جاتا تھا۔

ان کو پکڑنے کے بعد جس دن بغداد روانہ کرنے کے لئے ایک جگہ جمع کیا گیا تھا ایک طفیلی انھیں اس حالت میں دیکھ کر اس خیال سے کہ یہ لوگ کہیں دعوت پر جا رہے ہیں چپکے سے ان کے ساتھ جا ملا جب مامور ین انھیں دریا کے کنارے ایک کشتی کی طرف لے گئے تو مفت خور نے خیال کیا کہ اس دعوت کے ساتھ سیرو سیاحت بھی ہے ۔ وہ خوشی خوشی ان کے ساتھ کشتی پر سوار ہو گیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد طوق و زنجیر باندھنے کا سلسلہ جاری ہوا اور زندیقیوں کو ایک ایک کرکے زنجیر وں سے باندھا گیا ان کے ساتھ طفیلی کو بھی باندھا گیا اس وقت وہ مفت خور سوجنے لگا کہ یہ کیا ہوا کہ ولیمہ کے بجائے مجھے طوق و زنجیر کا سامنا کرنا پڑا؟اس نے پریشانی اور اضطراب کی حالت میں اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر پوچھا : آخر مجھے بتائو کہ تم لوگ کون ہو؟ انھوں نے جواب میں کہا: تم کون ہو کیا تم ہم میں سے نہیں ہو ؟! اس نے کہا : خدا کی قسم میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ میں ایک مفت خور اور طفیلی ہوں ۔آج جب گھر سے باہر آیاتو تم لوگوں کودیکھ کریہ خیال کیا کہ تمھیں کسی ولیمہ کے لئے جمع کیا گیا ہے اس لئے میں تم لوگوں کے ساتھ ملحق ہو گیا ۔جب کشتی پر سوار ہوئے تو خیال کیا کہ شائد کہیں سیر و سیاحت کے لئے کسی باغ میں لئے جا رہے ہیں اور میں اپنے لئے ایک مبارک دن تصور کر کے بہت خوش ہوا ،لیکن یہ سپاہی آگئے اور مجھے تم لوگوں کے ساتھ طوق و زنجیر سے باندھ دیا ،آخر مجھے بتائو کہ یہ ماجرا کیاہے؟

۳۷

زندیقی یہ سن کر اس پر ہنس پڑے اور کہا : اب جب کہ تم ہمارے ساتھ آگئے ہو اور آہنی طوق و زنجیر میں ہمارے ساتھ باندھے گئے ہو تو جان لو کہ ہم ''مانوی '' ہیں ،مخبروں نے ہمارے بارے میں خلیفہ مامون کو خبر دے دی ہے ۔اس وقت ہمیں اس کے پاس لے جایا جا رہا ہے ۔جب ہم اس کے پاس پہنچائے جائیں گے ،خلیفہ ہم سے سوال کرے گا اور ہمارے مذہب کے بارے میں پوچھ تاچھ کرے گا ۔اس کے بعد ہمارا امتحان اس صورت میں لے گا کہ ''مانی'' کی تصویر ہمارے سامنے رکھی جائے گی تاکہ ہم اس پر تھوکیں اور اس سے نفرت و بیزاری کا اظہار کریں ۔اس کے بعد ہمیں حکم دے گا کہ ایک خاص پرندہ(۱) کا سر قلم کریں ۔جو بھی اطاعت کرکے اس کے حکم کی تعمیل کرے گا وہ نجات پائے گا اور خلیفہ اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا ۔لیکن

____________________

ا۔ عربی میں ''طائر ماء الدرج'' آیا ہے اور معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کون سا پرندہ ہے۔

۳۸

جو اس کے حکم کی تعمیل نہ کرے گا اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے دین پر باقی رہنا چاہے گا اسے جلاد کے حوالے کر دیا جائے گا۔

لہٰذا ہم سے یہ بات سن لو کہ جب تمھاری باری آئے اور تم سے امتحان لینا چاہیں تو تم شروع میں ہی اپنے عقیدہ و دین کے بارے میں صاف صاف انھیں بتا دینا اس طرح تم یقینا نجات پائو گے !لیکن چوں کہ اس سفر میں تم ہمارے ساتھ مل گئے ہو اور تم نے کہا کہ ایک طفیلی ہو سنا ہے کہ طفیلیوں کے قصے دلچسپ ہوتے ہیں ،لہٰذا اس سفر میں ہمیں مفت خوروں کے چند قصے سنائو !

اسیروں کو بغداد پہنچا کر خلیفہ مامون کے دربار میں حاضر کیا گیا ۔ مامون نے نام لے کر ایک ایک کرکے انھیں بلایا ان کے مذہب کے بارے میں ان سے سوال کیا ۔ جواب میں وہ کہتے تھے ہم مسلمان ہیں ۔اس کے بعد انھیں ''مانی '' کے بارے میں نفرت و بیزاری کا اظہار کرکے اس کی تصویر پر تھوکنے کو کہا جاتا تھا اور اس طرح ان

۳۹

کا امتحان لیا جاتا تھا ۔جب وہ ایسا کرنے سے انکار کرتے تھے تو انھیں جلاد کے حوالے کر دیا جاتا تھا ۔ آخر طفیلی کی باری آگئی فہرست کے مطابق زندیقیوں میں سے کوئی باقی نہ بچا تھا ۔مامون نے نگہبانوں سے اس کے بارے میں پوچھا ۔انھوں نے جواب میں کہا : ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے کہ ہم نے اسے ان کے ساتھ پایا ،اور آپ کی خدمت میں لے آئے ۔خلیفہ نے طفیلی سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ بات کیا ہے ؟اس نے جواب میں کہا:اے امیر المومنین !اگر میں ان کے بارے میں کچھ جانتاہوتاتو میری بیوی مجھ پر حرام ہو!(۱) میں ایک طفیلی اور مفت خورہوں

____________________

۱)۔ اہل سنت میں قسموں میں سے ایک قسم بیوی کی طلاق کی قسم ہوتی ہے کہ اگر اس نے جھوٹی قسم کھائی ہوتو اس کی بیوی مطلقہ ہوجاتی ہے۔طفیلی نے خلیفہ کے حضور میں بیوی کی طلاق کی قسم کھائی تھی۔

۴۰

ان کے اونٹوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا کرتے تھے۔

دوسرا قبیلہ بھی کمین گاہ میں بیٹھا اسی تاک میں لگا رہتا تھا اور اسے بھی جب موقع ملتا تھا یہی حرکت کربیٹھتا تھا۔ اور جب دوسروں سے دشمنی نہیں ہوتی تھی تو آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے۔ جیسا کہ قطامی (بنی امیہ کے پہلے دور کا) شاعر اپنے اشعار میں ا س بات کا تذکرہ کرتا ہے:

ہمارا کام پڑوسیوں اور دشمنوں پر ہجوم اور غارت گری تھا اور اگرہمیں کبھی کوئی نہ ملتا تو اپنے بھائی کا مال لوٹ لیا کرتے تھے۔(١)

اس زمانے میں جو جنگیں اوس اور خزرج نامی دو قبیلوںکے درمیان قصاص اور خونخواہی کی بنا پر شروع ہوئی تھیں وہ یثرب (مدینہ) میں اس قدر شدید اور زیادہ بڑھ گئی تھیں کہ کسی میں جرأت نہیں تھی کہ وہ اپنے علاقے یا جائے امن سے دور جائے ان لڑائیوں نے عرب کی زندگی کو مفلوج اور ان کی حالت کو پست کردیا تھا۔ قرآن مجید ان کی اس رقت بار حالت کو یاد دلاکر، اسلام کے سایہ میں جو ان کے درمیان بھائی چارگی قائم ہوئی اس کے بارے میں اس طرح سے ذکر کرتا ہے۔

''... اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نجات دی اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ''۔(٢)

___________________

(١) و احیاناً علی بکر اخینا٭اذا مالم نجد الا اخانا ۔

احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص٩؛ فیلیپ حتی، گزشتہ حوالہ، ص٣٥؛ حماسة ابی تمام حبیب اوس الطائی (کلکتہ: مطبع لیسی، ١٨٩٥ئ)،ص ٣٢.

(٢) سورۂ آل عمران،٣، آیت ١٠٣

۴۱

حرام مہینے

صرف حرام مہینوں (ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں جو کہ جناب ابراہیم اور جناب اسماعیل کی دیرینہ سنت کی یاد اوران کی بچی ہوئی تعلیمات میں سے تھی(١) ان مہینوں کے احترام میں عربوں کے درمیان، آپس میں جنگ بندی (مقدس صلح) کا قانون پایا جاتا تھا۔ اور ان کو موقع ملتا تھا کہ وہ کچھ دن سکون سے رہیں اور تجارت اور کعبہ کی زیارت کرسکیں(٢) اور ان مہینوں میں کوئی جنگ ہوجاتی تھی تو اس کو ''حرب الفجار'' (ناروا اور گناہ آلود جنگ) کہتے تھے۔(٣)

عرب کے سماج میں عورت

جاہل عربوں میں جہالت اور خرافات کا ایک واضح نمونہ، عورت کے بارے میں ان کے مخصوص نظریات تھے۔ اس دور کے معاشرے میں عورت انسانیت کے معیار ،سماجی حقوق اور آزادی

______________________

(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان (بیروت: موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ط ٢، ١٣٩١ھ.ق)، ج٩، ص ٢٧٢.

(٢) وہ لوگ مہینوں کے ناموں کو بدل کر کے حرام مہینوں کو پیچھے کردیتے تھے اور اپنے کو اس کے حد و حدود سے الگ کر کے حرام مہینے میں بھی جنگ و خونریزی کرتے تھے اسی مناسبت سے خداوند عالم نے فرمایا ہے: ( محترم مہینوں میں تقدیم و تاخیر، کفر میں ایک قسم کی زیادتی ہے۔ جس کے ذریعہ کفار کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک سال اسے حلال بنالیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام کردیتے ہیں تاکہ اتنی تعداد برابر ہو جائے جتنی خدا نے حرام کی ہے۔ اور حرام خدا حلال بھی ہو جائے ...)، (سورۂ توبہ، ٩،آیت ٣٧.)

(٣) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص١٢؛ شہرستانی، الملل و النحلل، (قم: منشورات الرضی، ط ٢)، ج٢، ص ٢٥٥.

۴۲

سے بالکل محروم تھی۔ اور اس سماج میں گمراہی اور سماج کے وحشی پن کی بنا پر لڑکی اور عورت کا وجود باعث ذلت و رسوائی سمجھا جاتا تھا۔(١) وہ لڑکیوں کو میراث کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارث کے حقدار صرف وہ لوگ ہیں جو تلوار چلاتے ہیں اور اپنے قبیلہ کا دفاع کرتے ہیں۔(٢) ایک روایت کی بنا پر عرب میں عورت کی مثال اس مال جیسی تھی جو شوہر کے مرنے کے بعد (لڑکا نہ ہونے کی صورت میں) شوہر کے دوسرے اموال اور ثروت کی طرح سوتیلی اولاد کے پاس منتقل ہوجاتی تھی۔(٣)

واقعات گواہ ہیں کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کا بڑا لڑکا اگر اس عورت کو رکھنے کا خواہش مند ہوتا تھا (یعنی اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا) تو اس کے اوپر ایک کپڑا ڈال دیتا تھا اور اس طریقہ سے میراث کے طور پر عورت اسے مل جایا کرتی تھی اس کے بعد اگر وہ چاہتا تھا تو اسے بغیر کسی مہر کے، صرف میراث ملنے کی بنا پر اس سے شادی کرلیتا تھا اور اگر اس سے شادی کا خواہش مند نہ ہوتا تو دوسروں سے اس کی شادی کردیتا تھا اور اس عورت کا مہر خود لے لیتا تھا۔ اور اس کے لئے یہ بھی ممکن تھا کہ اسے ہمیشہ کے لئے دوسرے مردوں سے شادی کرنے سے منع کردے، یہاں تک وہ مرجائے اور اس کے مال کا مالک بن جائے۔(٤)

______________________

(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان (قم: مطبوعاتی اسماعیلیان، ط٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج٢، ص٢٦٧۔

(٢) ابوالعباس المبرد، الکامل فی اللغة و الادب، مع حواشی: نعیم زرزور (اور) تغارید بیضون (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٣٩٣؛ محمد بن حبیب، المحبر (بیروت: دارالافاق الجدیدة)، ص ٣٢٤۔

(٣) کلینی، الفروع من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٢، ١٣٦٢)، ج٦، ص ٤٠٦.

(٤)طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢٥٨۔ ٢٥٤؛ سیوطی، الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور، (قم: مکتبة آیة اللہ مرعشی نجفی، ١٤٠٤ھ.ق)، ج٢، تفسیر آیۂ ٢٢ سورۂ نسائ، ص ١٣٢۔ ١٣١؛ شہرستانی، الملل و النحل (قم: منشورات الرضی، ط٢)، ج٢، ص ٢٥٤؛ حسن، حسن، حقوق زن در اسلام و یورپ (ط٧، ١٣٥٧)، ص٣٤۔عرب اس شخص کو ''ضیزن'' کہتے تھے جو باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو اپنی بیوی بنالیتا تھا۔ (محمد بن حبیب، المحبر ، ص ٣٢٥)، ابن قتیبہ دینوری نے اس قسمکی عورتوں کی تعداد کو ذکر کیا ہے، جنھوں نے شوہر کے مرنے کے بعد اپنے لڑکوں سے شادی کرلی تھی (المعارف، تحقیق: ثروة عکاشہ، قم: منشورات الرضی، ص ١١٢.)

۴۳

چونکہ باپ کی بیوی سے شادی کرنا اس وقت قانوناً منع نہیں تھا۔ لہٰذا قرآن کریم نے ان کو اس کام سے منع کیا(١) ۔ دور اسلام میں مفسرین کے کہنے کے مطابق ایک شخص جس کا نام ''ابو قبس بن اسلت'' تھا جب وہ مر گیا تو اس کے لڑکے نے چاہا کہ اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ شادی کرے تو خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی( لایَحِلُّ لَکُمْ اَن تَرِثُوْا النِّسَائَ... ) ،(٢) تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم عورت کو ارث میں لو۔

اس سماج میں متعدد شادیاں بغیر کسی رکاوٹ کے رائج تھیں۔(٣)

عورت کی زبوں حالی ( ٹریچڈی)

یہ بات مشہور ہے کہ عربوں میں سب سے بری رسم یہ تھی کہ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ کیونکہ لڑکیاں ایسے سماج میں جو تہذیب اور تمدن سے دور، ظلم و بربریت میں غرق ہو، مردوں کی طرح لڑکر اپنے قبیلہ سے دفاع نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ لڑنے کی صورت میں یہ ممکن تھا لڑکیاں دشمن کے ہاتھ لگ جائیں اور ان سے ایسی اولادیں پیدا ہوں جو باعث ننگ اور عار بنیںلہٰذا وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے(٤) اور کچھ لوگ مالی مشکلات کی خاطر، فقر و افلاس کے خوف

______________________

(١)''ولاتنکحوا ما نکح آبائکم من النسائ'' ( سورۂ نسائ، ٤،آیت ٢٢.)

(٢) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢٥٨؛ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن (بیروت: دارالمعرفہ، ط ٢، ١٣٩٢ھ.ق)، ج٤، ص ٢٠٧؛ سورۂ نساء کی آیت نمبر ١٩ کی تفسیر کے ذیل میں۔

(٣) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٦٧۔

(٤) شیخ عباس قمی، سفینة البحار (تہران: کتابخانۂ سنایی، ج١)، ص ١٩٧ (کلمۂ جھل)؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٣، ص ١٧٤؛ کلینی ، الاصول من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج٢، باب ''البر بالوالدین''، ح١٨، ص ١٦٣؛ قرطبی، تفسیر جامع الاحکام (بیروت: دار الفکر)، ج١٩، ص ٢٣٢۔

۴۴

سے ایسا کرتے تھے۔(١)

مجموعی طور پر لڑکیاں اس سماج میں منحوس سمجھی جاتی تھیں قرآن کریم نے ان کی اس غلط فکر کو اس طرح سے نقل کیا ہے:

''اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے، قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملادے، یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں''۔(٢)

عورت کو محروم اور دبانے کی باتیں اس زمانے کے عربی ادب اور آثار میں بہت زیادہ ملتی ہیں جیسا کہ ان کے درمیان یہ بات عام تھی کہ جس کے پاس لڑکی ہوتی تھی اس سے وہ لوگ کہتے تھے کہ ''خدا تم کو اس کی ذلت سے محفوظ رکھے اور اس کے اخراجات کو پورا کرے اور قبر کو داماد کا گھر بنادے۔(٣)

ایک عرب شاعر نے اس بارے میں کہا ہے:

جس باپ کے پاس لڑکی ہو اور وہ اس کو زندہ رکھنا چاہے تو اس کے لئے تین داماد ہیں: ١)ایک وہ گھر جس میں وہ رہتی ہے۔ ٢)دوسرے اس کا شوہر جو اس کی حفاظت کرتا ہے۔ ٣)اور تیسرے وہ قبر جو اس کو اپنے اندر چھپالیتی ہے۔ لیکن ان میں سب سے بہتر قبر ہے۔(٤)

______________________

(١) سورۂ انعام،٦، آیت ١٥١؛ سورۂ اسرائ،١٧، آیت ٣١؛ قرطبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٢۔

(٢) سورۂ نحل، ١٦،آیت ٥٩۔ ٥٨۔

(٣)آمنکم اللّٰه عار ها و کفاکم مؤنتها، وصاهرتم القبر!

(٤) لکل اب بنت یرجی بقائها

ثلاثة اصهار اذا ذکرو الصهر

فبیت یغطیها و بعل یصونها

و قبر یواریها و خیرهم القبر!

(عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی، موسوعة آل النبی (بیروت: دار الکتاب العربیہ، ١٣٨٧ھ.ق، ص ٤٣٥.)

کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام ابوحمزہ تھا وہ صرف اس وجہ سے اپنی بیوی سے ناراض ہوگیا اور پڑوسی کے یہاں جاکر رہنے لگا کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ لہٰذا اس کی بیوی اپنی بچی کو لوری دیتے وقت یہ اشعار پڑھتی تھی۔

۴۵

ابوحمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ جو ہمارے پاس نہیں آتا ہے اور پڑوسی کے گھر میں رہ رہا ہے وہ صرف اس بنا پر ناراض ہے کہ ہم نے لڑکا نہیں جنا! خدا کی قسم یہ کام میرے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے جو بھی وہ ہم کو دیتا ہے ہم اسے لے لیتے ہیں۔ہم بمنزلۂ زمین ہیں کہ کھیت میں جو بویا جائے گا وہی اگے گا ۔(١)

حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو اس کی ماں کی باتیں اس سماج کے نظام کے خلاف ایک احتجاج ہیں اور ان کے درمیان عورت کی پائمالی کا ایک طرح سے اظہار ہے۔

سب سے پہلا قبیلہ جس نے اس غلط رسم کی بنیاد ڈالی، وہ قبیلۂ ''بنی تمیم'' تھا کہا جاتا ہے کہ اس قبیلہ نے نعمان بن منذر کو ٹیکس دینے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے ان کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بہت ساری لڑکیاں اور عورتیں اسیر کرلی گئیں جس وقت بنی تمیم کے نمائندے اسیروں کو چھڑانے کے لئے نعمان کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے یہ اختیار خود ان عورتوں کو دیدیا کہ چاہیں تو حیرہ میں رہیں اور چاہیں تو بنی تمیم کے پاس چلی جائیں۔ قیس بن عاصم جو کہ قبیلہ کا سردار تھا اس کی لڑکی بھی اسیروں کے درمیان تھی اس نے ایک درباری سے شادی کرلی تھی لہٰذا اس نے دربار میں رکنے کا

______________________

(١) ما لابی حمزة لایأتینا

یظل فی البیت الذی یلینا

غضبان الا نلد البنینا

تالله ما ذالک فی ایدینا

وانما نأخذ ما أعطینا

و نحن کالارض لزارعینا

ننبت ما قدزرعوه فینا

(جاحظ، البیان والتبیین، بیروت: داراحیاء التراث العربی، ١٩٦٨ئ، ج١، ص ١٢٨۔ ١٢٧؛ عایشہ بنت الشاطی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٣٤۔ ٤٣٣؛ آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، ج٣، ص ٥١.

۴۶

فیصلہ کرلیا، قیس اس بات سے سخت ناراض ہوا اور اس نے اسی وقت عہد کرلیا کہ اس کے بعد وہ اپنی لڑکیوں کو قتل کر ڈالے گا،(١) اور اس نے یہ کام انجام دیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رسم دوسرے قبیلوں میں بھی رائج ہوگئی، کہا جاتا ہے کہ اس جرم اور جنایت میں قیس، اسد، ہذیل اور بکر بن وائل نامی قبیلے شامل تھے۔(٢)

البتہ یہ رسم عام نہیں تھی کچھ قبیلے اور بڑی شخصیتیں اس کام کی مخالف تھیں، ان میں سے جناب عبد المطلب پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے جد تھے جو اس کام کے شدید مخالف تھے،(٣) اور کچھ لوگ جیسے زید بن عمرو بن نفیل اور صعصعہ بن ناجیہ، لڑکیوں کو ان کے باپ سے فقر کے خوف سے زندہ درگور کرتے وقت لے لیتے تھے اور ان کو اپنے پاس رکھتے تھے۔(٤) اور کبھی لڑکیوں کے عوض میں ان کے باپ کو اونٹ دیدیا کرتے تھے۔(٥) لیکن واقعات گواہ ہیں کہ یہ رسم عام طور پر رائج تھی، کیونکہ :

١۔صعصعہ بن ناجیہ نے زمانۂ اسلام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا تھا کہ میں نے دور جاہلیت میں ٢٨٠ لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا ہے(٦)

______________________

(١)ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٩٢؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ١٧٩۔

(٢) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ١٧٤۔

(٣) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٤؛ تاریخ یعقوبی، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٠

(٤) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٥، ابن ہشام، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی السقاء (اوردوسرے لوگ) (تہران: آفسٹ، مکتبة الصدر)، ج١، ص ٢٤٠۔

(٥) محمد ابوالفضل ابراہیم( اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٤)، ج٢، ص٣١؛ ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٤؛ فرزدق کے جد، صعصعہ، عصر اسلام کے شاعر تھے اور وہ اپنے جد کے اس فعل پر افتخار کرتے تھے اور کہتے تھے : و منا الذی منع الوائدات فأحیا الوئید فلم یوأد۔ (قرطبی، تفسیر جامع الاحکام، ج١٩، ص ٢٣٢)۔

(٦) ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٩٤

۴۷

٢۔قیس بن عاصم نے عہد کرنے کے بعد (جیسا کہ پہلے گزر چکا) اپنی ١٢ یا ١٣لڑکیوں کو قتل کیا۔(١)

٣۔پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے پہلے پیمان عقبہ میں (بعثت کے بارہویں سال) جو کہ یثربیوں کے ایک گروہ کے ساتھ کیا تھا،معاہدہ کی ایک شرط یہ قرار دی کہ لڑکیوں کو زندہ درگور نہ کریں۔(٢)

٤۔ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے خدا کے حکم سے اس شہر کی مسلم عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ اپنی لڑکیوں کو قتل کرنے سے پرہیز کریں۔(٣)

٥۔قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس رسم کی شدید مذمت فرمائی ہے۔ لہٰذا ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ اس سماج کی سب سے بڑی مشکل تھی جس کے بارے میں قرآن کریم نے خبردار کیا ہے۔

١۔ اور خبردار! اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کہ ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی رزق دیتے ہیں بیشک ان کا قتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے۔(٤)

______________________

(١) ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ، ١٣٣٦)، ج٤، ص ٢٢٠ (شرح حال قیس بن عاصم) منقول ہے کہ قیس عصر اسلام میں مسلمان ہوئے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: زمانۂ جاہلیت میں،میں نے اپنی آٹھ لڑکیوںکو زندہ درگور کردیاتھا اب اس فعل کا جبران کیسے کروں؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو ۔ اس نے کہا: میرے پاس بہت اونٹ ہیں ۔ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے ہرایک کے بدلے اونٹ کی قربانی بھی کرسکتے ہو۔ (قرطبی، تفسیر جامع الاحکام، ج١٩، ص ٢٣٣.)

(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٧٥.

(٣) ''یا ایها النبی اذا جائک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن بالله شیئاً ولایسرقن و لایزنین و لا یقتلن اولادهن و لایأتین ببهتان یفترینه بین ایدیهن و ارجلهن ولایعصینک فی معروف فبایعهن واستغفر لهن اللّٰه ان اللّٰه غفور رحیم ۔'' (سورۂ ممتحنہ،٦٠،آیت ١٢.)

(٤) سورۂ اسرائ،١٧، ''ولا تقتلوا اولادکم خشیة املاق نحن نرزقهم وایاکم ان قتلهم کان خطأ کبیراً ، آیت ٣١.

۴۸

٢۔ اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کے لئے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کردیا ہے تاکہ ان کو تباہ و برباد کردیں اوران پر دین کو مشتبہ کردیں۔(١)

٣۔ یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنھوں نے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کردیا۔(٢)

٤۔ اپنی اولاد کوغربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمھیں بھی رزق دے رہے ہیں اورانھیں بھی۔(٣)

٥۔ اور جب زندہ درگور لڑکیوںکے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ انھیں کس گناہ میں مارا گیا ہے۔(٤)

______________________

(١) سورۂ انعام، ٦،(وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ َوْلاَدِهِمْ شُرَکَاؤُهُمْ لِیُرْدُوهُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دِینَهُمْ وَلَوْ شَائَ اﷲُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ) آیت ١٣٧.

(٢) سورۂ انعام، ٦،( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا َوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ) آیت ١٤٠.

(٣)سورہ انعام،٦،( وَلاَتَقْتُلُوا َوْلاَدَکُمْ مِنْ ِمْلاَقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَِیَّاهُم ) آیت ١٥١.

(٤) سورۂ تکویر، ٨١،( واذالمؤودة سئلت بای ذنب قتلت) آیت ٩۔ ٨.

۴۹

دوسری فصل

عربوں کے صفات اور نفسیات

متضاد صفات

بدو عرب میں وحشیانہ عادت اور لوٹ مار کے باوجود اچھی عادتیں ، جیسے عفو و کرم، مہمان نوازی، شجاعت اور دلیری بھی پائی جاتی تھی۔ خاص طور سے وہ اپنے وفائے عہد و پیمان کے شدید پابند تھے یہاں تک کہ اپنے عہد و پیمان کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادیتے تھے۔ اور یہ ان کی سب سے نمایاں صفت شمار ہوتی تھی۔ ان کے اندر متضاد صفات کو دیکھ کر لوگ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتے تھے۔ اور وہ ایسے دور دراز علاقہ میں زندگی بسر کرتے تھے جو دنیا میں کم نظیر تھا۔ اگر ان کے حالات زندگی ایسے نہ ہوتے تو اس بات کا سمجھنا بہت مشکل تھا۔ وہی لڑاکو عرب جو لوٹ مار کے پیاسے تھے جس وقت ان کے اندر انتقام کی آگ بھڑکتی تھی تو وہ بدترین جرائم کرنے سے بازنہیں آتے تھے۔ اپنے گھر میں بہت بڑے مہمان نواز، مہربان اور مونس تھے۔ اگر ایک کمزور اور بے چارہ، ان سے پناہ مانگتاتھا یا ایک ستمدیدہ (اگرچہ دشمن ہی کیوں نہ ہو) ان کی طرف دست نیاز دراز کرتا تھا یا اس کو اپنی پناہ گاہ سمجھتا تھا تو اس کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے کہ گویا وہ شخص، ان کے خاندان یا قبیلہ کا ایک فرد ہے. او رکبھی تو اس کادفاع

۵۰

کرنے میں اپنی جان کی بازی لگا دیتے تھے۔(١)

میدان جنگ میں شجاعت و دلیری عفو و درگزر، قبیلہ کے سامنے تسلیم اور ایسے ظالموںسے انتقام لینے میں ، جنھوں نے اس کے یا اس کے رشتہ داروں کے حقوق کو پائمال کردیا تھا بے رحمی کے ساتھ پیش آنا عرب کی شرافت اور فضیلت سمجھی جاتی تھی۔(٢)

عربوں کی اچھی صفتوں کی بنیاد

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ عربوں کے درمیان اگرچہ پانی اور چراگاہوںکے بارے میں رقابت اکثر کشمکش کا باعث بنتی تھی اور قبائل کوایک دوسرے کے ساتھ الجھا اور کشت و کشتار پر مجبور کردیتی تھی۔ لیکن دوسری طرف سے ان کے اندر کمزوری اور عاجزی کے احساس نے ہی ان کے مزاج کی سختی اور لجاجت کے مقابلہ میں اس فکر کو ہوا دی تھی کہ سبھی ایک مقدس رسم کے محتاج ہیں۔ اور ایسی سرزمین میں جہاں مہمان سرائیں اور مسافر خانے نہ ہوتے ہوں، مہمانوں کی ضیافت سے بچنا ان کے اخلاق اور عزت کے خلاف تھا۔ عہد جاہلیت کے شعراء ہمارے زمانے کے صحافیوں کا رتبہ رکھتے تھے۔ان کی بہادری اور دلیری کے ساتھ ان کی مہمان نوازی ، قوم عرب کی نمایاں فضیلت شمار کی جاتی تھی ۔ اور اس کے بارے میں وہ اشعار کہا کرتے تھے اور پڑھتے تھے۔(٣)

______________________

(١) ڈاکٹر گوسٹاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی، ص ٦٥۔ ٦٤؛ ویل ڈورانٹ، اس بارے میں لکھتا ہے: ''عرب کے بدو، مہربان بھی تھے اور خونخوار بھی، سخی بھی تھے اور کنجوس بھی، خیانت کار بھی تھے اورامین بھی، محتاط بھی تھے اور بہادر بھی ،اگرچہ فقیر تھے لیکن دنیا میں کرم و بزرگی سے پیش آتے تھے'' تاریخ تمدن، ترجمہ: ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط ٢،)، ج٤، ص ٢٠١.

(٢) احمد امین، فجر الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط ٩، ١٩٦٤م)، ص ٧٦.

(٣) فلیپ حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ، (تہران: آگاہ، ط ٢، ١٣٦٦)، ص ٣٥۔ ٣٣.

۵۱

لیکن یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کی بہت ساری اچھی خوبیاں جیسے شجاعت، مہمان نوازی، کرم اور پناہ گزینوں کی حمایت (جیسا کہ بعد میں اسلامی تعلیم اور کلچر میں یہ چیزیں ذکر ہوئی ہیں) روحانی اور انسانی اقدار سے نشأت نہیں پائی ہیں۔ بلکہ معاشرتی اسباب اور جاہلی کلچر جیسے قبیلوں کے درمیان فخر و مباہات کی بنا پر تھیں۔ کیونکہ ایسے ماحول میں جہاں پر نظم و امنیت نہ ہو، شجاعت اور دلیری ان کی زندگی کا لازمہ تھی۔ نام و نمود سے دلچسپی، منصب کی آرزو و تمنا، شعراء کی مذمت کا خوف، ذلت و رسوائی اور بدمزاجی وغیرہ نے عربوں کو جود و سخاوت، وفائے عہد، پناہ گزینوں کی حمایت اور اس طرح کی دوسری اچھائیوں پر اکسایا تھا۔ مہمان نوازی اور دلیری کی عادتیں ایسے ماحول میں کہ جہاں لوگ مال واولاداور جنگجوؤں کی کثرت تعداد پر فخر کیا کرتے تھے۔ ان کی سربلندی اور عزت کا وسیلہ بن گئی تھی اور یہ بات اس کے لئے واضح ہے جو تاریخ اسلام سے آگاہ ہے۔(١)

جہالت اور خرافات

حجاز کے عرب جو عموماً صحرا میں زندگی بسر کرتے تھے۔ تہذیب اور کلچر سے دور فکری جمود میں اس طرح سے گرفتار ہوگئے تھے کہ بہت سی چیزوں کے درمیان موجود نسبت کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ وہ چیزوں کی منطقی تحلیل اور تجزیہ نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی علت و معلول کے درمیان موجود رابطے کو پوری طرح سے سمجھ سکتے تھے۔ مثلاً اگر ایک شخص مریض ہوگیا اور تکلیف جھیل رہاہے تو ا سکے اطراف کے لوگ اس کے لئے دوا تجویز کرتے تھے اور وہ اس درد و درمان کے درمیان ایک طرح کا ربط سمجھتا تھا لیکن یہ فہم، دقیق اور تحلیلی نہیں ہوا کرتی تھی۔ وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ اس کے قبیلہ کے لوگ اس دوا کو فلاں درد میں استعمال کرتے ہیں۔ بطور نمونہ وہ آسانی سے یہ بات مان لیتا تھا کہ قبیلہ کے سردار کا خو ن ہادی نامی

______________________

(١) رجوع کریں: جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، (قم: ١٤٠٢ھ.ق)، ج١، ص ٥٤۔ ٥٠.

۵۲

مسری بیماری ( جو عموماً کتے کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے)کا علاج کرتاہے اسی طرح وہ یہ تصور کرتا تھا کہ بیماری کی وجہ، روح کی کثافت ہوا کرتی ہے جو بیمار کے اندر داخل ہوجاتی ہے اسی بنا پر یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ روح، بیمار کے بدن سے نکل جائے، یا اگر کسی کے بارے میں پاگل ہو جانے کا خطرہ ہوتا تھا تواس کی گردن میں مردار کی ہڈی یا غلاظت مل دیا کرتے تھے تاکہ وہ جنون سے محفوظ رہ سکے۔ دیو کا عقیدہ بھی ان کے یہاں ملتاہے وہ معتقد تھے کہ بھیانک شکلیں رات کے وقت خالی مکانوں میں دکھائی پڑتی ہیں یا بیابانوں میں لوگوں کے راستے میں حائل ہوجاتی ہیں اور ان کو آزار و اذیت پہنچاتی ہیں۔

جس وقت وہ اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کے لئے گھاٹ پر لے جاتے تھے تو اگر وہاں پر وہ پانی نہیں پیتے تھے تو یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے سینگ کے درمیان ایک دیو بیٹھا ہے جو انھیں پانی نہیں پینے دیتا ہے لہٰذا وہ دیو کو بھگانے کے لئے ان مویشیوں کے سر او رمنھ پر ڈنڈے مارا کرتے تھے۔(١) اس قسم کی مضحکہ خیز حرکتیں ان کے درمیان بہت زیادہ رائج تھیں۔

وہ اس طرح کی حرکتوں کے بارے میں (جب کہ یہ حرکتیں ان کے قبیلہ کے اندر پائی جاتی ہوں) زرّہ برابر بھی شک و تردید نہیں کرتے تھے کیونکہ انکار اور تردید کی وجہ، دقت نظر، بیماری کی تحقیق کی صلاحیت، اسباب و عوارض اور ان کا علاج وغیرہ ہے جبکہ اس زمانہ میں عرب، جہالت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور اس حد تک فہم و فراست ان کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔(٢)

البتہ کبھی جاہلیت کے اشعار یا اس زمانے کے محاورے یا ان کی داستانوں میں روشن فکری کے اشارے اور علت و معلول کے درمیان میں ارتباطات کی باتیں ملتی ہیں ۔ لیکن وہ بھی عمیق تفکر ،تشریح اور تجزیہ کے قابل نہیں ہیں۔ اور چیزوںکے بارے میں تجزیہ کی صلاحیت کے نہ ہونے کا اصل راز

______________________

(١) محمود شاکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، تصحیح: محمد بہجة الاثری (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ ط٣)، ج٢، ص ٣٠٣.

(٢) جاہل عربوں کی خرافات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں: بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، ج٢، ص ٣٦٧۔ ٣٠٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، (قاہرہ: دا راحیاء الکتب العربیہ)، ج١٩، ص ٤٢٩۔ ٣٨٢۔

۵۳

ان کے درمیان موجود مختلف طرح کے موہومات اور خرافات تھے جنھیں وہ یقین کرتے تھے۔ اور اس طرح کے باور سے عرب اوراسلام کی تاریخی کتابیں پر ہیں۔(١)

علم و فن سے عربوں کی آگاہی

بعض دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ عربوں کے یہاں مختلف طرح کے علوم جیسے طب، ستارہ شناسی، قیافہ شناسی(٢) وغیرہ پائے جاتے تھے لیکن یہ دعوا مبالغہ آمیز ہے۔ عربوں کی آگاہی ان علوم و فنون سے ایک علم و فن کی حد تک منظم و مرتب شکل میں نہیں تھی بلکہ ایک سطحی اور بکھری ہوئی معلومات کی شکل میں تھی جوان کو حدس و گمان اور قبیلہ کے بڑے بوڑھے مرد اور عورتوں سے سن سنا کر حاصل ہوئی تھیں۔ لہٰذا اس طرح کی معلومات کو ''علم'' نہیں کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً ستارہ شناسی کے سلسلے میںعربوں کی آگاہی صرف بعض ستاروں کے وقت طلوع اور غروب تک محدود تھی وہ بھی صرف اس بنا پر تھی کہ اس وسیع و عریض صحرا میں راستوں کی تلاش یا شب و روز کے اوقات کو معلوم کرسکیں۔ طب کے بارے میں ان کی آگاہی، ابن خلدون کے کہنے کے مطابق اس طرح سے تھی:

طب کے بارے میں معلومات عام طور سے بعض لوگوں میں مختصر اور محدود تجربات کی بنیاد پر تھی اور علم طب وراثتی طور پر قبیلہ کے بڑے بوڑھوںکے ذریعہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے ان کی اولاد تک پہنچ جاتا تھا۔ اور کبھی کبھار بعض مریض اس علاج کے ذریعہ ٹھیک بھی ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن وہ معالجہ نہ طبی قانون کے مطابق ہوا کرتا تھا او رنہ ہی انسان کے مزاج او رفطرت کے مطابق۔(٢) حارث بن کلدہ کی طبابت بھی اسی طرح کی تھی۔

______________________

(١) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٨٢، ٢٦١۔ ٢٢٣ ؛ اور ٣٢٧.

(٢) مقدمہ، ترجمہ: محمد پروین گنابادی، (تہران: مرکز انشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦٢، ط ٤)، ج٢) ص ١٠٣٤۔

۵۴

امی لوگ

اہل حجاز قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق ''امی'' یعنی نومولود بچہ کے مانند ہمیشہ جاہل اور ان پڑھ ہوا کرتے تھے ۔اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔

بلاذری اس بارے میں لکھتا ہے:

ظہور اسلام کے وقت صرف ١٧ افراد قریش میں او ریثرب (مدینہ) میں دو بڑے قبیلے اوس اورخزرج کے درمیان ١١، افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔(١)

جبکہ قریش مکہ میں ایک خاص مقام او ردرجہ رکھتے تھے او رتجارت کے پیشہ میں لکھنے پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وجہ سے یہ کیسے باور کیا جاسکتاہے کہ وہ قوم جوا س حد تک جہالت اور نادانی میں ڈوبی ہواس کے پاس اس قسم کے علوم ہوں جس کا بعض دانشوروں نے دعوی کیا ہے؟!

شعر

عہد جاہلیت کے عربوں میں صرف ایک اہم خوبی پائی جاتی تھی کہ وہ شعر او رخطابت میں مہارت رکھتے تھے ان کے یہاں، شاعر ایک مورخ، ماہر نساب، ھجاگر، عالم اخلاق، صحافی، پیشین گوئی کرنے والا اور جنگ کا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔(٢) اس زمانے میں عرب کے بڑے شعراء کی موسمی بازاروں میں جیسے عکاظ، ذی المجاز اور مجنہ(٣) میں تجارتی اور ادبی آثار کی موسمی اور عمومی نمائشیں لگتی تھیں جس میں

______________________

(١) فتوح البلدان، (قم: منشورات مکبتة الارمیہ، ١٤٠٤ھ.ق)، ص ٤٥٩۔ ٤٥٧.

(٢) ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ج٤، عصر ایمان (بخش اول)، ترجمہ ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی ط٢)، ص ٢٠٢.

(٣) اس بازار کے بارے میں رجوع کریں : بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٧٠۔ ٢٦٤

۵۵

شعراء اپنے عمدہ اشعار او رقصیدوں کو پیش کیا کرتے تھے اور اس میں سے جس کے اشعار منتخب ہوتے تھے وہ اور اس کے قبیلہ والے اسے اپنے لئے باعث فخر و عزت سمجھتے تھے اور اس کے اشعار کو اہمیت او راعزاز کے طور پر خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکادیا جاتا تھا ''معلقات سبعہ'' سات بہترین، فصیح و بلیغ اور عمدہ قصیدے سات عظیم شاعر کے تھے جس کی مثال اور نظیر اس زمانہ میں نہیں ملتی تھی۔ لہٰذا انھیں دیوار کعبہ پر لٹکادیاگیاتھا۔(١) اور اسی وجہ سے انھیں معلقات سبعہ(سات عددلٹکے ہوئے قصیدے) بھی کہا جاتا تھا۔

عرب کے اشعار اپنے تمام تر لفظی حسن کے باوجود تہذیب و ثقافت کے نہ ہونے کی بنا پربلندی فکر سے خالی ہوا کرتے تھے۔ اس زمانہ کے اشعار کے عناوین، زیادہ تر عشق، شراب، عورت، جنگ اور قومی مسائل ہوا کرتے تھے۔ او راس میں لفظی جذابیت او رادبی نزاکتیں پائی جاتی تھیں۔

عرب اور ان کے پڑوسیوں کی تہذیب

علم و ہنر کے لحاظ سے عرب کے حالات کا تجزیہ کرنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب کے جاہل اس زمانہ کے دو متمدن پڑوسی ملک یعنی ایران اور روم کے ساتھ تجارتی روابط اور مبادلہ کی بنا پر وہاں کے تمدن سے بہرہ مند تھے؟ او رکیا یہ روابط اور تعلقات ان کی زندگی میں ا نقلاب کا باعث بنے تھے؟

اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں یہ یاد دہانی کرانی چاہیئے کہ حجاز کے لوگ اس علاقے کی قدرتی اور جغرافیائی صورت حال کے لحاظ سے نہ صرف سیاسی اعتبار سے اس زمانے کی حکومتوںکے اثر و رسوخ سے دور تھے بلکہ تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے بھی ان کے دائرہ نفوذ سے خارج رہے ہیں عربوں کے لئے پڑوسی ملکوںکی تہذیب اور کلچر سے متاثر ہونے کے صرف تین راستے تھے:

١۔ تجارت ٢۔ ایران و روم کے زیر نفوذ حکومتیں (حیرہ او رغسان) ٣۔ اہل کتاب (یہودی اور عیسائی)لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ یہ اثرات کس حد تک تھے۔ اس سلسلہ میں بعض مورخین کے

______________________

(١) رجوع کریں: معلقات سبع، ترجمہ: عبد المحمد آیتی، تہران: سازمان انتشارات اشرفی، ط٢، ١٣٥٧)

۵۶

تاثرات مبالغہ آرائی سے خالی نہیں ہیں، جیسا کہ بعض نے کہا ہے:

قبائل عرب کے تعلقات ایران اور روم کے ساتھ ہونے کی بنا پر ایک حد تک وہ ان دونوں ملکوںکے کلچر اور تہذیب سے واقف ہوگئے تھے۔ عرب کے لوگ جب بھی تجارت کے لئے ایران اور روم جایا کرتے تھے تو ان دونوں ملکوں میں تہذیب اور کلچر کے نمونہ دیکھتے تھے۔ اور متوجہ ہوتے تھے کہ ایرانیوں اوررومیوں کی زندگی، عربوں کی زندگی سے کتنا فرق کرتی ہے۔ جیسا کہ ان کے آثار کو واضح طور پر زمانۂ جاہلیت کے اشعار میں دیکھا جاسکتا ہے اس کے علاوہ مسافر اور تاجر حضرات بہت سارے الفاظ اور قصوں کو ایران او روم کی سرزمین سے عربوں کے لئے تحفہ کے طور پر لیجاتے تھے اور اس کے ضمن میں ایرانیوں اور رومیوں کے بعض عقائد اور افکار بھی ان تک پہنچ جاتے تھے۔(١)

لیکن یہ خیال رہے کہ ان دونوں ملکوں میں حجاز کے تاجروںکی آمد و رفت بہت زیادہ ہونے کے باوجود ان کے تمدن اور فکری ارتقاء میں مؤثر نہیںبن ہوسکی کیونکہ ان تمدنوںکی روشنی بہت ہی تنگ راہ گزر سے پہنچتی تھی او رکبھی تودوسروں سے منقول باتوں میں تحریف پائی جاتی تھی ۔ جیسا کہ بعض واقعات جوایرانیوں او ررومیوں کے سلسلے میں نقل کئے گئے ہیں ان میں تحریف پائی گئی ہے درحقیقت اس زمانہ کے عرب، علم و دانش کو اپنے پڑوسیوں سے حاصل نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ اس سلسلے میں ان کے لئے رکاوٹیں درپیش تھیں کہ جن میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ قدرتی رکاوٹ: جیسے پہاڑ، سمندر، صحراء وغیرہ جس کی بنا پر پڑوسیوں سے عربوں کے رابطے دشوار او رمشکل ہوگئے تھے۔

٢۔ عربوں کی اجتماعی زندگی اور عقلی و فکری سطح: اس زمانے کے ایرانیوں اور رومیوں سے

______________________

(١) حسن ابراہیمی، تاریخ سیاسی اسلام ، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ(تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط ٥، ١٣٦٢)، ج١، ص ٣٤.

۵۷

بہت فاصلہ رکھتی تھی جبکہ دوسری قوموں کے تمدن کو اپنانا ثقافتی نزدیکی کی صورت میں ممکن تھا۔

٣۔ عربوںکے درمیان جہالت: یہ چیز سبب بنی کہ جو لوگ رومیوں اور ایرانیوں سے رابطہ رکھتے تھے ان کے درمیان بعض حکمت آمیز باتیں یا داستانیں اور محاورات یا تاریخی واقعات اس انداز سے نقل ہوں کہ ناقل آسانی سے اس کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کر سکے اور بدو عرب یا دوسرے لوگ اس کو سمجھ سکیں اس وجہ سے ان کے درمیان رابطہ سطحی حد تک تھا اور وہ دقیق او رعمیق آگاہی سے بے خبر تھے۔

لہٰذا یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پڑوسی ملکوں سے عربوں کے تعلقات صرف ان کی مادی اور ادبی زندگی میں مؤثر واقع ہوئے ہیں۔(١)

یہودیوں کی موجودگی کے اثرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہودی حضرت موسیٰ کے زمانے سے اوراس کے بعد رومیوں کے مظالم، خاص طور سے یروشلم کی تباہی و بربادی کے بعد حجاز کی طرف ہجرت کرگئے۔(٢) حجاز میں یہودیوں کی آمد سے اس علاقہ کی زندگی کے حالات میں کافی تبدیلی آئی۔ اور توریت اور تلمود کی داستانیں بھی عربوں میں منتقل ہوگئیں۔(٣)

ایسی دستاویزات سامنے آئی ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ عربوں کے مقابلہ میں یہودیوں کی فکری اور مذہبی سطح بلند تھی. ظہور اسلام کے بعد بھی وہ بعض مسلمانوں سے اپنے مذہبی سوالات پوچھتے تھے۔(٤) لیکن چونکہ دین یہود (عیسائیوں کے دین کی طرح) بری طرح سے تحریف کا شکار ہوگیاتھا،لہٰذا عرب، جو افکار یہودیوں سے لیتے تھے وہ بیہودہ اور مسخ شدہ ہوا کرتے تھے یہودیوں کی تعلیم نہ صرف یہ کہ ان کے لئے راہ گشا نہ تھی بلکہ ان کی گمراہی میں اضافہ کا باعث تھی۔

______________________

(١) رجوع کریں: فجر الاسلام، ص ٢٩.

(٢) یہودی عام طور سے مدینہ میں خیبر ، فدک، او رتیماء میں رہتے تھے او رکچھ طائف میں بھی تھے لیکن کوئی ایسی نشانی نہیں ملتی جس سے پتہ چلے کہ مکہ میں بھی یہودی رہا کرتے تھے۔

(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام (تہران: امیر کبیر ١٣٣٣)، ج١، ص ١٦، تلخیص کے ساتھ)

(٤) صحیح بخاری، دار مطابع الشعب، ج٩، ص ١٣٦، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ.

۵۸

ایران اور روم کے مقابلہ میںعربوں کی کمزوری اور پستی

جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ حجاز کے لوگ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ایک قبیلہ کی شکل میں زندگی بسر کرتے تھے اور زیادہ تر بادیہ نشین ہوا کرتے تھے، ان کے درمیان ایک مرکزی حکومت نہیں تھی جوان کو منظم کرسکے ۔ وہ ہمیشہ لڑائی جھگڑا اور قبائلی جنگوں میں الجھے رہا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ذلیل اور کمزور تھے اور اس زمانہ میں دوسری قوموںکے نزدیک ہرگز عزت نہیں رکھتے تھے اور جیسا کہ یہ قوم، قبیلہ اور خاندان کے دائرہ میں محصور تھی اور خیموں کی محدود فضا، اور اونٹوں کے چرانے سے تعصب، محرومیت اور بے نظمی کا شکار تھے۔ لہٰذا وہ ہرگز اپنے ملک اورجزیرة العرب کے حدود سے باہر نکل کر نہیں سوچتے تھے۔ او رنہ صرف ان کے ذہنوں سے پڑوسی ملکوں پر فتح و کامرانی کا تصور ختم ہوگیا تھا بلکہ اس زمانہ کی قدرتمند طاقتوں، یعنی روم اور ایران کے سامنے بری طرح سے کمزوری اور حقارت کا احساس کرنے لگے تھے جیسا کہ ایک شخص جس کا نام قتادہ تھا جو کہ خود ایک عرب تھا اس زمانے کی عرب قوم کو حقیر و ذلیل، پست و گمراہ اور گرسنہ ترین قوم تصور کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''وہ لوگ دوشیروں یعنی بڑی طاقتوں ایران او رروم کے درمیان پھنسے ہوئے تھے اوران سے ڈرتے تھے۔(١)

اس بات کی شہادت اس طرح سے دی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت کے زمانے میں ایک دن عرب کے کچھ بزرگوں سے گفتگو کی اوران کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیات جو فطری اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں ان کے سامنے پڑھیں تو وہ سب کے سب متأثر ہوگئے، ہر ایک نے اپنے طور سے تعریف کی لیکن ان کے بزرگ مثنی بن حارثہ نے کہا:

ہم دو پانی کے درمیان گھرے ہوئے ہیں ایک طرف سے عرب کا پانی اور ساحل اور دوسری جانب سے ایران اور کسریٰ کی نہروں کا پانی، کسریٰ ہم سے عہد و پیمان باندھ چکا ہے کہ کوئی حادثہ نہیں رونما ہونے دیں گے او رکبھی خطا وار کو پناہ نہیں دیں گے۔ شاید تمہارے آئین کو قبول کرنا، شہنشاہوں کی خوشی کا باعث قرار نہ پائے اگر اس سرزمین پر ہم سے کوئی خطا سرزد ہو تو قابل چشم پوشی ہے لیکن ایسی خطائیں ایران کے علاقہ میں (کسریٰ کی طرف سے) قابل بخشش نہیں ہیں۔(٢)

______________________

(١) طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، (بیروت: دار المعرفہ، ط٢، ١٣٩٢ھ.ق)، ج٤، ص٢٥ (تفسیر آیۂ...و کنتم علی شفاحفرة من النار ...) زاہیة قد ورة ،الشعوبیة ، و اثرہ الاساسی،الاجتماعی فی الحیاة الاسلامیة فی عصر العباسی الاول. (بیروت: دار الکتاب اللبنانی، ط١، ١٩٧٢ئ)، ص٣٤؛ احمد امین، ضحی الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضہ، ط٧)، ج١، ص١٨.

(٢) محمد ابوالفضل ابراہیم ( اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٨٢ھ.ق)، ج٢، ص ٣٥٨؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف، ط٢، ج٣، ص ١٤٤۔

۵۹

موہوم افتخار

مورخین، عربوں کے احساس حقارت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک سال قبیلہ بنی تمیم، خشک سالی میں گرفتار ہوگیا اور کسریٰ نے ان کو اجازت نہیں دی کہ عراق کے سرسبز و شاداب او رزرخیز علاقہ سے فائدہ اٹھائیں۔ یہاں تک کہ ان کے بزرگوں میں سے ایک شخص جس کا نام حاجب ابن زرارہ تھا اس قبیلہ کی نمائندگی میں کسریٰ کے دربار میں گیا اور اس سے مدد مانگی کسریٰ نے کہا: ''تم عرب لوگ خیانت کار ہو، اگر اس بارے میں تم کو اجازت دیدوں تو تم بلوا اور فتنہ برپا کردو گے۔ لوگوں کو میرے خلاف ورغلاؤ گے اور مجھے رنجیدہ اور ملول کروگے۔ حاجب نے کہا: میں ضمانت لیتا ہوں کہ اس قسم کی بات پیش نہیں آئے گی۔ کسریٰ نے پوچھا: کیا ضمانت رکھتے ہو؟'' اس نے کہا:اپنی کمان تمہارے پاس گروی رکھ دیتا ہوں۔ کسریٰ نے قبول کرلیا اور حاجب نے اپنی کمان (جو کہ شجاعت و دلیری کا نمونہ اور بہادری کی علامت سمجھی جاتی تھی) کسریٰ کے پاس گروی رکھ دی اور اس طرح سے کسریٰ کی موافقت حاصل کرلی۔ حاجب کے مرنے کے بعد اس کے لڑکے عطارد نے باپ کی کمان کسریٰ

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416