ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب19%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214987 / ڈاؤنلوڈ: 4958
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

اس کے علاوہ جو کچھ سیف نے اس سلسلہ میں کہا ہے وہ جعلی ہے اور تنہا وہی اس کا راوی ہے دیگر راویوں نے اس قسم کی کوئی چیز ذکر نہیں کی ہے اور یہ سب دیگر مورخین کے نظریات اور نقل و روایت کے خلاف ہے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے یہ داستان محمد اور مہلب سے نقل کی ہے کہ یہ دونوں اس کے جعلی راوی ہیں اور ہم اس سے پہلے ان کا ذکر کر چکے ہیں ۔

اسی طرح عروہ ابن ولید اور ابو معبد العبسی کہ جنھوں نے اپنے رشتہ دار وں سے روایت کی ہے ،کو بھی اس داستان کے راویوں کے طور سے ذکر کیا ہے ۔ہم نے عروہ اور ابومعبد کا نام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا ،ان کے مجہول رشتہ داروں کا پتا لگانا تو دور کی بات ہے !!۔

پڑتال کا نتیجہ :

ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف بن عمر نے ایران کی فوج کے سپہ سالار اعظم کا نام بدل دیاہے۔

ایرانیوں کو اپنی پناہ گاہ سے نکالنے کے طریقہ کار میں تحریف کی ہے فتح کے سال کوبھی بدل دیا ہے اور شاید '' گزر گاہ شہد ''کو اس لئے جعل کیا ہے تاکہ معاویہ ابن ابو سفیان مضری کی کارکردگی اور مالک اشتر کو شہد میں ملائے زہر سے قتل کرنے کی اس کی بات گول مول کردے ۔

اس کے علاوہ ہم نے واضح طور پرمشاہدہ کیاکہ اس نے ہمدان کی فتح کو جریر بجلی قحطانی یمانی کے بجائے قعقاع بن عمر و تمیمی مضری کے کارناموں میں درج کردیا ہے ۔

۲۲۱

اس داستان کے نتائج:

١۔ ایرانیوں کو جنگی حیلہ اور فریب سے ان کی پناہ گاہ سے باہر لاکر خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع بن عمرو کے لئے خاص فضیلت و ستائش تخلیق کرنا۔

٢۔ نہاوند میں ''وائے خرد !'' نام کی جگہ ایک لاکھ سے زائد ایرانیوں کا ان کے اپنی ہی آگ سے بھری خندق میں گر کر ہلاک ہوجانا۔

٣۔ نہاوند کی فتح میں ایک لاکھ انسان کے قتل ہونے اور ایک لاکھ کے جل کر ہلاک ہونے ، یعنی مجموعی طور سے دو لاکھ انسانوں کی ہلاکت پر تاکید اور اصرار کرنا۔

٤۔فیروزان نام کی ایک نمایاں ایرانی شخصیت کو ایرانی فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے جعل کرنا۔

٥۔ ''وائے خرد'' نام کی ایک خندق کی تخلیق کرنا تاکہ جغرافیہ کی کتابوں میں یہ نام درج ہو جائے ۔

٦۔ ''گزر گاہ شہد '' کے نام سے ایک گزرگاہ تخلیق کرنا تاکہ دشمنان اسلام کے لئے رکاوٹ بن جائے ۔اور اس فیروزان کو قتل کر کے قعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ کرنا ۔

٧۔ ہمدان کی فتح کا سحرا قعقاع اور دیگر مضری سرداروں کو بخش کر ان کے افتخارات میں ایک اورفخر کا اضافہ کرنا ۔

٨۔ ان جنگوں میں بے مثال پہلوان قعقاع بن عمرو کے رجز اور رزم ناموں پر مشتمل قصیدوں کو ادبیات عرب کی زینت بنانا۔

٩۔ ہمدان اور ماہان کے باشندوں کے ساتھ صلح و امان نامے جعل کرنا تاکہ تاریخ کی کتابوں میں ناقابل انکار تاریخی اسناد کے طور پر ثبت ہو جائیں اور ہمیشہ کے لئے باقی رہیں ۔

۲۲۲

بحث کاخلاصہ:

یہ ہے سیف کا افسانوی دلاور ،پہلوان ،عقلمند سیاست داں ،نامور رزمی شاعر اور تمام معرکوں اور فتوحات میں ناقابل شکست سورما قعقاع ،جس کی نیک نامیاں ،بہادریاں ،دوراندیشیاں ،سنجیدگیاں اور قابل قدر خدمات کتابوں میں درج ہوئے ہیں اور اس کے نام کی شہرت دنیا میں پھیل گئی ہے ۔

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ٣٤ھو ٣٥ھ کے حوادث کے ضمن میں عثمان کی خلافت کے زمانے میں قعقاع کی سرگرمیوں کا ایک اور باب کھول کر یوں ذکر کیا ہے ۔

'' خلیفہ عثمان نے قعقاع بن عمر و کو کوفہ کی جنگ کا سپہ سالار مقر ر کیا ۔اس زمانے میں کوفہ اسلامی ممالک کا مشرقی دارالخلافہ تھا اور عسکری نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل تھا ۔سیف کی اس روایت کے مطابق خلیفہ عثمان نے قعقاع بن عمرو کو اسلامی ممالک کے مشرقی حصے کے کمانڈر انجیف کی حیثیت سے مقرر کیا ہے ۔

سیف کی روایت کے مطابق اس کے بعد قعقاع بن عمر و کی سرگرمیاں ایک اور صورت اختیار کرتی ہیں اور اس کے لئے ایک خاص مقام و مرتبہ پر فائز ہوتا ہے ۔آخر اس جیسا افسانوی ''مرد مجاہد '' کیوں ہر لحاظ سے کامل نہ ہو !؟

قعقاع ابن عمرو کی سرگرمیوں کے اس نئے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کو ایک خیر خواہ ،صلح و صفائی کے ایلچی اور عثمان اور حضرت علی ں کی خلافت کے دوران پیدا ہوئی بغاوتوں اور فتنوں کو دوستی و برادری سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس حصے کی تفصیل اگلی فصل میں پیش کریں گے ۔

۲۲۳

قعقاع ،عثمان کے زمانے میں

انی لکم ناصح و علیکم شفیق

میں آپ کا شجاع دوست اورخیر خواہ ہوں

( قعقاع افسانوی خیر خواہ )

قعقاع ،عثمان کے زمانے کی بغاوتوں میں

طبری نے سیف بن عمر سے روایت کی ہے :

'' جب قعقاع سبائیوں کی عثمان کے خلافت بغاوت کے سلسلے میں مسجد کوفہ میں منعقدہ میٹنگ سے آگاہ ہوا ،تو فوراً وہاں پہنچ گیا اور انھیں ڈرادھمکا کے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا ۔سبائیوں نے اپنے جلسہ کا مقصد اس سے چھپاتے ہوئے کہا : ہم کوفہ کے گورنر سعید کی برطرفی کے حامی ہیں قعقاع نے جواب میں کہا : کاش !تم لوگوں کی خواہش صرف یہی ہوتی !اس کے بعد ان کو منتشر کیا اور مسجد میں رکنے نہیں دیا ''

وہ مزید لکھتا ہے :

جب مالک اشتر سعید کو گورنر کی حیثیت سے کوفہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے باغیوں کو اکسارہا تھا ،تو ڈپٹی گورنر عمر وبن حریث اس شورش کو روکنے اور نصیحت و رہنمائی کرنے کی غرض سے آگے بڑھا اور انھیں اس سلسلہ میں ہر قسم کی انتہا پسندی سے پرہیز کرنے کو کہا ۔اسی اثنا میں قعقاع بھی وہاں پہنچتا ہے اور ابن حریث سے کہتا ہے کیا تم سیلاب طوفانی لہروں کو نصیحت کی زبان سے پلٹنا چاہتے ہو !؟کیا دریائے فرات کو مہربانی اور نرمی سے اپنے سر چشمہ کی طرف پلٹنا چاہتے ہو !؟ یہ ناممکن ہے !! خدا کی قسم اس بغاوت اور شورش کے شعلوں کو تلوار کی تیز دھار کے علاوہ کوئی چیز بجھا نہیں سکتی اب وہ وقت آگیا ہے کہ یہ تلوار میان سے باہر آئے ۔اس وقت ان کی چیخ پکار بلند ہوگی اور وہ اپنے گنوائے ہوئے وقت کی آرزو کریں گے کہ خدا کی قسم :اس وقت دیر ہوچکی ہوگی وہ ہرگز اپنے عزائم کو نہیں پہنچ پائیں گے،لہٰذا تم چپ رہو اور صبر سے کام لو۔

۲۲۴

ابن حریث نے قعقاع کی نصیحت وراہنمائی قبول کی اور اپنے گھر چلاگیا۔وہ مزید کہتاہے:

جب یزید بن قیس مسجد کوفہ میں لوگوں کو سعید کے خلاف بھڑکارہاتھا اور عثمان کے بارے میں بد گوئی کررہاتھا ،تو قعقاع بن عمرو اٹھتاہے اور اس کے سامنے کھڑا ہوکر کہتاہے:کیا تم ہمارے عثمان کے مامور حکام کے استعفا دینے کے علاوہ کچھ

اور چاہتے ہو؟ توہم تمھاری یہ خواہش پوری کردیں گے!

اس نے مزید روایت کی ہے:

جب عثمان کا محاصرہ کیاگیا تو خلیفہ نے مختلف اسلامی شہروں کو خط لکھا اور ان سے مد د چاہی ۔ عثمان کے جواب میں قعقاع بن عمرو ،ساتھیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ کوفہ سے مدینہ کی طرف عثمان کی مدد کے لئے روانہ ہوا ۔ادھر عثمان کا محاصرہ کرنے والے باغیوں کو یہ اطلاع ملی کہ مختلف شہروں سے لوگ عثمان کی مدد کے لئے آرہے ہیں اور ان کو یہ بھی پتا چلا کہ معاویہ شام سے اور قعقاع بن عمرو کوفہ سے اور ......خلیفہ کو نجات دینے کے لئے مدینہ کے طرف آرہے ہیں ،تو انھوں نے محاصرہ کا دائرہ تنگ تر کرکے عثمان کا کام تمام کردیا اور اسے قتل کرڈالا۔جب عثمان کے قتل کی خبر راستے میں ہی قعقاع کوملی تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت کوفہ پلٹ گیا۔

یہ تھی ،عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت اور اس میں قعقاع کے رول کے بارے میں ، سیف کی روایت ۔آئندہ فصل میں ہم امام علی ں کے زمانے میں قعقاع کے رول کے بارے میں سیف کی روایت کا جائزہ لیں گے۔

۲۲۵

قعقاع ،امام علی کے زمانے میں

نادی علی ان اعقرواالجمل

علی نے فریاد بلند کی ،اونٹ کوپے کرو!

(مؤرخین)

امر قعقاع بالجمل فعقر

قعقاع نے حکم دیا اونٹ کوپے کرو اور اونٹ پے کیاگیا۔

(سیف بن عمر)

جنگ جمل کی داستان ،سیف کی روایت کے مطابق:

طبری نے سیف سے یوں روایت کی ہے :

حضرت علی بن ابیطالب کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ کے باشندوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امام کی مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ بصرہ جائیں گے۔لیکن ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا گورنر تھا نے انھیں بصرہ جانے سے روکا ۔اس کی وجہ سے زید بن صوحان ابوموسیٰ سے الجھ گیا اور ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی !آخر میں قعقاع اٹھا اور بولا:

میں آپ سبوں کا دوست اور ناصح ہوں ،میں چاہتاہوں کہ آپ لوگ ذرا عقل سے کام لیں اور میری بات مان لیں ،کیونکہ میری بات عین حقیقت ہے۔جو کچھ گورنر ابو موسیٰ اشعری نے کہا، وہ حق بات ہے لیکن قابل اعتماد نہیں ہے۔جہاں تک زید کی بات کا تعلق ہے ،چونکہ اس بغاوت میں خود اس کا ہاتھ ہے،اس لئے اسے ہرگز قبول نہ کرنا ۔(۱) ۔حق و حقیقت یہ ہے کہ بے شک لوگوں کو حکومت اور خلیفہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ پوری طاقت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کا اقدام کرے اور سماج میں نظم وضبط برقرار کرے ۔ظالموں کو قرار واقعی سزادے اور مظلوموں کی دادرسی کرے امام علی ـ لوگوں کے حاکم مقرر ہوئے ہیں ۔انھوں نے خیر خواہانہ طور پر لوگوں کو اپنی حمایت کی دعوت دی ہے۔وہ لوگوں کو اصلاح کی طرف بلارہے ہیں ۔لہٰذا ان کاساتھ دو اور ان کی اطاعت کرو۔

۲۲۶

صلح کا سفیر

طبری نے مزید روایت کی ہے :

قعقاع بن عمرو کوفہ کے کمانڈروں میں وہ پہلا کمانڈر تھا ،جس نے علی کا ساتھ دیا۔اور جب ذی قار کے مقام پر علی کی خدمت میں پہنچا،تو حضرت نے اسے اپنے پاس بلاکر اسے بصرہ کے لوگوں کی جانب اپنا سفیر اور ایلچی بنا کر روانہ کیا اور فرمایا:

اے ابن حنظلیہ !ان دو مردوں (طلحہ وزبیر) سے ملاقات کرو (سیف کا کہنا ہے کہ قعقاع

١لف۔سیف نے اس افسانہ میں زید بن صوحان کو اس کے مقام ومنزلت کے پیش نظر خاص طور پر سبائی جتلاکر قعقاع کی زبانی اس کی اس طرح تصویر کشی کی ہے۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا)اور انھیں اسلامی معاشرے میں اتحاد ویکجہتی قائم کرنے کی دعوت دو اور معاشرے میں اختلاف وافتراق سے انھیں خبر دار کرو!اس کے بعد فرمایا:ان کا جواب سننے کے بعد اگر کسی خاص امر میں تمھارے پاس میرا حکم موجود نہ ہو تو ،تم کیا کروگے؟قعقاع نے جواب میں کہا:آپ کے حکم کے مطابق ان دونوں سے ملوں گا۔اگر کوئی ایسا امر پیش آیا جس کا حکم آپ نے نہ دیا ہوتو میں اپنی رائے اور اجتہاد سے اس کا تدارک کروں گا۔ان کے ساتھ جو بھی سزاوار ہو،مشاہدہ کے مطابق اسی پر عمل کروں گا۔

امام علی ں نے جواب میں کہا:تم اس کام کے لائق ہو ،جاؤ!

اس کے بعد قعقاع اپنی ماموریت پر روانہ ہوا۔جب ان (عائشہ،طلحہ وزبیر)کے پاس پہنچا،تو ان سے گفتگو کی ۔ام المومنین عائشہ نے اس کی بات مان لی اور طلحہ وزبیر نے بھی توافق کیا اور کہا:شاباش ہو!سچ کہتے ہو اور حق یہی ہے۔اس طرح انھوں نے دو گروہوں کے درمیان صلح وآشتی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔

جب قعقاع صلح وآشتی کی نوید لے کر امام علی ں کی خدمت میں پہنچا تو علی ں اٹھ کر منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر کرتے ہوئے بولے:

تم لوگ یہ جان لو کہ میں کل روانہ ہورہاہوں ۔تم لوگ بھی تیار رہنا۔لیکن جس نے عثمان کے خلاف کوئی اقدام کیا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ آئے ۔ہم احمقوں کی حمایت سے بے نیاز ہیں ۔

۲۲۷

سبائیوں کی میٹنگ:

سبائیوں نے جب دو سپاہیوں کے درمیان صلح کی خبر سنی تو بڑی تیزی کے ساتھ آپس میں جلسہ منعقد کرکے صلاح و مشورہ کرنے لگے ۔کافی گفتگو کے بعد عبداللہ بن سبا نے یہ تجویز پیش کی کہ :'' دونوں سپاہوں کے قائدین کی بے خبری میں ہم راتوں رات جنگ کے شعلے بھڑکا دیں گے اور انھیں آپس میں ٹکرا دیں گے '' اس تجویز پر تمام سبائیوں نے موافقت کی اور قول و قرار کے بعد متفرق ہو گئے۔

دوسری طرف دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراہوئیں ۔حضرت علی ـ،طلحہ اور زبیر نے اپنی فوج کے مختلف دستوں کے کمانڈروں کو بلا کر انھیں مطلع کیا کہ دونوں گروہوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے ہونے والا ہے اور جنگ نہیں ہوگی ۔نتیجہ کے طور پت دو طرف کے سپاہیوں نے صلح و آشتی کی امید میں وہ دن آرام سے گزارا ۔لیکن اسی رات تاریکی میں سبائیوں نے عبداللہ ابن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا دئے اور دونوں فوجوں کو ایک دوسرے سے ٹکرادیا۔

قعقاع کی جنگ

جنگ چھڑ گئی اسی گرما گرمی کی حالت میں قعقاع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ طلحہ کے نزدیک سے گزررہا تھا کہ اس نے طلحہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' اے خدا کے بندو!میری جانب آجائو ،صبر کرو! صبر کرو! قعقاع نے طلحہ سے کہا : تم زخمی ہو چکے ہو اور اپنی طاقت کھو بیٹھے ہو ،اپنے گھر چلے جائو۔

طبری سیف سے مزید روایت کرتا ہے :

قعقاع نے جنگ کی اس حالت میں مالک اشتر کی شماتت کرتے ہوئے کہا : کیا تم جنگ کی طرف نہیں بڑھو گے ؟! چوں کہ مالک اشتر نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اس لئے قعقاع اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا : ہم مضری جنگ میں اپنے مد مقابل سے لڑنے میں دیگر لوگوں سے زیادہ ماہر ہیں ۔اس کے بعد وہ جنگ کو جاری رکھتے حسب ذیل رجز خوانی کرنے لگا:

۲۲۸

''جب ہم کسی پانی پینے کی جگہ پر وارد ہوتے ہیں تو اسے پاک و صاف کرکے رکھتے ہیں اور جس پانی پر ہم قبضہ کر لیتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ اس کی طرف دست درازی کرے ''

طبری نے مزید روایت کی ہے :

''زفر بن حارث آخر ی شخص تھا جس نے میدان کا رزار میں جاکر جنگ کی قعقاع نے جاکر اس کا مقابلہ کیا ۔

عائشہ کے اونٹ کے اطراف میں جنگ شدت اختیار کر گئی تھی ،اس اونٹ کے اطراف میں قبیلہ بنی عامر کے مردوں میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا ،اس وقت قعقاع نے حکم دیا کہ عائشہ کے اونٹ کو پئے کردیں ۔عائشہ کے اونٹ کے مارے جانے کے بعد قعقاع نے ہی عام معافی کا اعلان کیا اور اپنے اطراف میں موجود سپاہیوں سے کہا :''تم امان میں ہو !!'' اس کے بعد اس نے اور زفربن حارث نے اونٹ کے پالان کی پٹیاں کاٹ دیں اور عائشہ کے محمل کو اس سے جدا کر کے آہستہ سے زمین پر رکھ دیا اور اس کے اطراف میں حفاظت کا انتظام کیا۔

جب عائشہ کا اونٹ قتل ہوا تو لوگ (جنگ جمل کے حامی) بھاگ گئے اور جنگ کے شعلے فوراً بجھ گئے ۔یہ کامیابی قعقاع بن عمرو تمیمی مضری کے وجود کی برکت سے نصیب ہوئی ۔جنگ کا عفریت فرار کر گیا اور خطرات ٹل گئے ۔

جنگ جمل کا فخر بھی ابتدا ء سے آخر تک خاندان تمیم کو ہی نصیب ہوا ۔کیوں کہ قعقاع بن عمرو تمیمی کے ذریعہ ہی قوم کے قائدین کے درمیان دوستی و آشتی کا باب کھلتا ہے ۔ سبائیوں کے عبداللہ بن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا نے اور قعقاع کی صلح کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے برادر کشی کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے بعد بھی قعقاع بن عمر و تمیمی ہی ہمت و حوصلہ سے میدان کا رزار میں اتر کر ،عرب قوم کو نابود کرنے والی جنگ کے ان شعلوں کو اپنی تدبیر و حکمت عملی سے بجھاتا ہے اور عائشہ کے اونٹ کو قتل کرنے کے بعد جنگ کا خاتمہ کرتا ہے ۔ عام معافی کا اعلان کرنے والا بھی قعقاع بن عمرو تمیمی ہی تھا ۔

۲۲۹

حضرت علی ں اور عائشہ کی پشیمانی

طبری سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے عائشہ اور قعقاع بن عمر و کے درمیان گفتگو کی حسب ذیل روایت بیان کرتا ہے :

عائشہ نے قعقاع بن عمرو تمیمی سے کہا:

''خدا کی قسم !تمنا کرتی ہوں کاش اب سے بیس سال پہلے مر چکی ہوتی ''

امام علی ـنے بھی قعقاع سے یہی کہا ۔علی اور عائشہ کے جملے یکساں تھے ۔

طبری مزید روایت کرتا ہے :

حضرت علی ـابن ابی طالب نے قعقاع بن عمرو کو مامور کیا کہ ان افراد کا سر تن سے جدا کردے ،جنھوں نے عائشہ کے بارے میں شعر کہہ کر اس کی بے احترامی کی تھی ۔

ان میں سے ایک شعر یہ کہا گیا تھا:

'' اے ماں !تیرا جرم نافرمانی ہے ''

اور دوسرے نے کہا تھا:

'' اے ماں !توبہ کر کیوں کہ تونے خطا کی ہے ''

حضرت علی ں نے یہ حکم جاری کرنے کے بعد قعقاع سے کہا : میں انھیں سخت سزا دوں گا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ ان دونوں کے کپڑے اتار دئے جائیں ہر ایک کو سو سو

کوڑے مارے ۔

مورخین نے سیف کی روایت طبری سے نقل کی ہے

یہ تھا اس داستان کا خلاصہ جس کی طبری نے سیف بن عمر سے ،جنگ جمل ،اس کے وقوع کے اسباب اور افسانوی سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے نمایاں خدمات اور قابل ذکر سرگرمیوں کے بارے میں روایت کی ہے ۔اور ان ہی مطالب کو ابن کثیر اورابن اثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۲۳۰

ابن کثیر اپنے بیان کے آغاز میں کہتا ہے : سیف بن عمر نے اس طرح کہا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے : یہ اس کا خلاصہ ہے جسے ابو جعفر طبری

ابن خلدون نے بھی جمل کے بارے میں درج کی گئی اپنی داستان کے آخر میں لکھاہے : ابو جعفر طبری کی روایت کے مطابق جنگ جمل کا یہ ایک خلاصہ ہے ۔

دوسرے مورخین نے بھی سیف کے افسانے کو طبری سے اقتباس کیا ہے منجملہ میر خواند بھی ہے کہ جس نے ''روضة الصفا '' میں جنگ جمل کے بارے میں طبری کے نقل کئے ہوئے مطالب درج کئے ہیں ۔

ان مردود اور باطل مطالب کی وقعت معلوم کرنے کے لئے ایک تفصیلی تجزیہ اور تشریح کی ضرورت ہے کہ یہاں پر اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ہم نے اس کے ایک بڑے حصے کی ''اسلامی تاریخ میں عائشہ کا کردار ''نام کی اپنی کتاب کی فصل ''عائشہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دامادوں کے دوران'' میں تشریح کی ہے اور یہاں پر اس کے ایک حصے کو خلاصہ کے طور پر پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ دوسری صدی ہجری کے اس افسانہ ساز ،سیف بن عمر نے کس طرح حقائق میں تحریف کی ہے اور کس طرح اسلام اور تاریخ اسلام کا مضحکہ اڑاتے ہوئے اپنے زندیقی اور مانوی پن کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوستی کے لباس میں اسلام کو نابود کرنے کے درپئے رہا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا ہے امام المورخین ابو جعفر جریر طبری جیسے نام کا عالمی شہرت یافتہ شخص اور مورخ کس طرح اور کیوں اس دروغ گو اور عیار افسانہ ساز کا آلۂ کار بن گیا!!

۲۳۱

جنگ جمل کی داستان ،سیف کے علاوہ دیگر راویوں کے مطابق

طبری نے جنگ جمل میں شرکت کرنے کے لئے کوفیوں کی رضاکارانہ آمادگی کے بارے میں اس طرح روایت کی ہے :

''امیرالمومنین علی ں نے ہاشم بن عتبہ کوایک خط دے کر ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا حاکم تھا کے پاس کوفہ بھیجا ۔اس خط میں ابو موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ کوفیوں کی ایک فوج کمک کے طور پرجنگ کے لئے اس کے ساتھ بصرہ بھیج دے۔ چوں کہ ابو موسیٰ اشعری نے امام کے حکم کی نافرمانی کی اور کوفیوں کو امام کی مدد کے لئے بھیجنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اس لئے حضرت نے اپنے بیٹے حسن اور عمار یاسر کو کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ابو موسیٰ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر دیا ۔

حسن ابن علی اور عمار یاسر کوفہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تقریر و ہدایت کرنے لگے ان دونوں کی تقریر وں کا یہ نتیجہ نکلا کہ کوفہ کے باشندوں نے بصرہ کی جنگ میں شرکت کی آمادگی کا اعلان کیا اور تقریباً بارہ ہزار جنگجو کوفی حضرت علی ں کے ساتھ ملحق ہوگئے۔

نیزطبری بصرہ میں حضرت علی ں کی موجودگی کے بارے میں روایت کرتا ہے :

''تین دن تک دونوں متخاصم فوجوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں کوئی جنگ نہ ہوئی ۔بلکہ حضرت علی ـ،بعض افراد کو ایلچیوں کے طور پر ان کے (طلحہ ،زبیر و عائشہ) پاس بھیجتے رہے اور پیغام دیتے رہے کہ اس نافرمانی ،اختلاف اور دشمنی سے باز آجائیں ۔

طبری نے ان تین دنوں کے دوران دو طرفہ خط و کتابت اور گفتگو کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے ۔لیکن اس کے ایک حصہ کو ابن قتیبہ ،ابن اعثم اور سید رضی نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

منجملہ درج ذیل خط یہ ہے جو امام نے طلحہ و زبیر کے پاس لکھ کر بھیجا تھا:

''خد ا کی حمد و ثنا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام کے بعد ،دونوں بخوبی جانتے ہو اور دل سے اقرار بھی کرتے ہو اگر چہ زبان پر نہیں لاتے اور اعتراف نہیں کرتے ہو ، کہ میں نے کسی کو لوگوں کے پاس نہیں بھیجا تھا اور ان سے یہ نہیں چاہاتھا کہ میری بیعت کریں بلکہ یہ لوگ ہی تھے جنھوں نے مجھے حکومت اور بیعت قبول کرنے پر مجبور کیا اور تب تک ارام سے نہ بیٹھے جب تک میرے ہاتھ پر خلافت کے لئے بیعت نہ کرلی۔

۲۳۲

تم دونوں بھی ان کے ساتھ تھے بارہا میرے پاس آئے ہو اور مجھ سے اصرار کرتے رہے ہو کہ میں حکومت قبول کرلوں ۔تملوگ میری خلافت کے لئے میرے ہا تھ پر بیعت کرنے تک آرام سے نہ بیٹھے ۔جن لوگوں نے میری خلافت کو قبول کرتے ہوئے میری بیعت کی انھوں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا ہے کہ اس کے بدلے میں انھیں کوئی مال وثروت ملے اور نہ زور و زبردستی ،دھمکی اور خوف وہراس سے میری بیعت کی ہے ۔

بہر حال اگر تم دونوں نے اپنی مرضی اور اختیار سے میرے ساتھ عہد و پیمان کرکے میری خلافت کی بیعت کی ہے تو،یہ راہ جو تم نے اختیار کی ہے (بغاوت ،مخالفت اور مسلمانوں کے در میان اختلاف اندازی )سے جتنا جلد ممکن ہوسکے ہاتھ کھینچ لو اور دل سے خداکے حضور توبہ کرو اور اگر اپنی مرضی کے بر خلاف میری بیعت کی ہے تو تمھارے لئے کوئی عذر و بہانہ نہیں ہے بلکہ یہ میرا حق بنتا ہے کہ تم سے یہ پوچھوں کہ اس ظاہرداری اور دو رخی کا سبب کیا تھا؟تم لوگوں نے کیوں ظاہر ی طور پر میرے ہاتھ پر بیعت کی (اور میری حکومت کے مقاصد کے سلسلے میں جانثاری کا اعلان کیا؟)اور باطن میں میرے ساتھ مخالفت اور امت اسلامیہ میں اختلاف و افتراق کے بیج بوئے ؟اپنی جان کی قسم !تم دونوں دیگر مہاجرین سے کچھ کم فضیلت نہیں رکھتے تھے ،تم بے بس و کمزور نہیں تھے کہ ظاہر داری اور تقیہ سے اپنے دل کی خواہشات چھپاتے ۔تم دونوں کے لئے (میری بیعت کرنے کے بعد اس سے منہ موڑکر رسوائی مول لینے سے ) بہت آسان یہ تھا کہ اسی دن میری بیعت نہ کرتے اور میری خلافت کو قبول نہ کرتے ۔تم لوگوں نے اپنی مخالفت اور بغاوت کے سلسلے میں عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے اور یہ افواہ پھیلائی ہے کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے ۔میرے اور تمھارے درمیان مدینہ کے وہ لوگ حَکَم ہوں جو نہ تمھارے طرفدار ہیں اور نہ میرے بلکہ غیر جانبدار ہیں ،تا کہ معلوم ہوجائے کہ عثمان کے قاتل کون ہیں ۔اس وقت جو اس سلسلے میں جتنا مجرم قرار پائے اسی قدر سزا کا مستحق ہوگا ۔

پس اے دو بوڑھو!ان (بے بنیاد و بیہودہ ) افکار کو اپنے دماغ سے نکال باہر کرو اور اس احمقانہ اقدام سے پرہیز کرو ،اگر چہ یہ تمھاری نظرمیں بہت ننگ وعار ہے ،لیکن قیامت کے دن اس سے بڑے ننگ یعنی آتش جہنم سے دوچار نہ ہوگے ۔والسلام

اس کے بعد عبداللہ بن عباس کو مامور کیا کہ زبیر سے تنہائی میں ملاقات کرے اور اس سے یوں تاکید کی :

'' طلحہ کے پیچھے نہ جانا ،کیوں کہ اگر اسے دیکھو گے تو اس بیل کے مانند پائوگے جو اپنا سر نیچے کئے ہوئے اپنے سینگوں سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ ہے وہ ایک متکبر ،خود غرض اور تند خو آدمی ہے ،وہ مشکل، سخت اور بڑا کام شروع کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ بہت آسان ہے ۔

۲۳۳

لیکن اس کے بر عکس زبیر سے ملنا ۔وہ نرم مزاج ،در گزر کرنے والا اور بات سننے والا ہے ۔ اس سے کہنا کہ تیرا ماموں زاد بھائی کہتا ہے : تم حجاز میں (اس کی جائے پیدئش میں ) میرے آشنا اور حامی تھے ،اب کیا ہوا کہ عراق میں (بے وطنی میں ) نا آشنا،میری مخالفت اور دشمنی پر تلے ہوئے ہو؟

(حضرت اس زیبا اور دلچسب بیان میں فرماتے ہیں : عرفتنی بالحجاز وانکرتنی بالعراق فما عدا ممابدا؟)

ابن عباس کہتے ہیں : میں نے امام کے پیغام کو کسی کمی بیشی کے بغیرزبیر تک پہنچا دیا ۔زبیر چند لمحات کے لئے غور فکر میں پڑا ،پھر جواب کے طور پر صرف اتنا کہا: ان سے کہنا : اس راہ میں تمام موجود ہ مشکلات اور خوف و ہراس کے باوجود ہم امید وار ہیں ۔

عبداللہ ابن زبیر نے بھی مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:(۱) ان سے کہنا : ہمارے درمیان خون عثمان کا مسئلہ در پیش ہے اور خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ اس شوریٰ کو وا گزار کرنا ہے جس کی تشکیل عمر نے کی تھی ۔اس صورت میں تمھیں جاننا چاہئے کہ ان میں سے دو افراد یعنی طلحہ و زبیر ایک طرف ہوں گے اور ام المومنین عائشہ بھی ان کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچیں گی ۔جو اثر ورسوخ عائشہ

عوام میں رکھتی ہیں ،اس کے پیش نظر یہ دونوں بھی انھیں نہیں چھوڑیں گے اور اگر مسئلہ لوگوں کے انتخاب پر منحصر ہوا تو اکثریت عائشہ اور ان کے طرفداروں کی ہوگی ۔اس صورت میں تم اکیلے

رہ جائو گے ۔

ابن عباس کہتے ہیں :میں ابن زبیر کی ان باتوں سے سمجھ گیا کہ اس کی گفتگو کے پیچھے صرف جنگ حکم فرما ہے ۔میں علی علیہ السلام کے پاس آیا اور انھیں حالات سے آگاہ کیا۔

امام نے ابن عباس کو ایک بار پھر عائشہ کے پاس درج ذیل پیغام دے کر بھیجا :

'' خدائے تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے گھر میں رہو اور کسی صورت میں گھر سے باہر

____________________

۱)۔، وقال لی ابنہ عبداللہ : قل لہ بیننا و بینک دم خلیفة و وصیة خلیفة ،واجتماع اثنین و انفراد واحد ، وأم مبرورة و مشاورة العامة : قال ابن عباس فعلمت انہ لیس وراء ھذا الکلام الا الحرب

۲۳۴

نہ نکلو اور تم خود اسے بخوبی جانتی ہو ۔مسئلہ حقیقت میں یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے تمھیں اکسایاہے اور تمھاری کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر آسانی کے ساتھ اپنے حق میں اور تمھارے نقصان میں اقدام کیاہے اور تمھیں اپنے گھر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے ۔یہ عہد وپیمان جو تم نے ان کے ساتھ باندھاہے اور ان کے ساتھ ہم فکری اور تعاون کررہی ہو،اس سے تم نے لوگوں کو مصیبت ونابودی سے دوچار کرکے رکھدیاہے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف وافتراق کے شعلے بھڑکائے ہیں ۔

اس کے باوجود تمہارے لئے اسی میں بھلائی ہے کہ اپنے گھر چلی جاؤاور کسی بھی صورت دشمنی ،جنگ اور برادر کشی کی مرتکب نہ ہو!۔

اگر تم اس نصیحت کو قبول کرکے اپنے گھر نہ لوٹیں اور اس فتنہ کی آگ کو ،کہ جسے تم نے خود بھڑکایاہے،نہ بجھایا تو بلاشک ایک خونیں جنگ رونما ہوگی اور یہ جنگ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو نابود کرکے رکھ دے گی اور اس کی ذمہ داری کسی شک وشبہ کے بغیر اس جنگ کی آگ کو ہوا دینے والوں کے ذمہ ہوگی۔

لہٰذا ،اے عائشہ!خدا سے ڈرو،اس اختیار کی گئی راہ سے پیچھے ہٹ کر توبہ کرو ،خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور خطاؤں کو معاف کرنے والاہے ۔ایسا نہ ہو کہ ابن زبیر اور طلحہ سے تمھاری رشتہ داری تمھیں اس جگہ پر کھینچ لے جائے ،جس کا انجام جہنم کی آگ ہے!!

امام کے ایلچی عائشہ کے پاس پہنچے اور پیغام پہنچادیا۔اس نے امام کے جواب میں صرف اتناکہا:

میں فرزند ابو طالب کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتی ،کیونکہ فصاحت اور استدلال کی قدرت میں اس کی ہم پلہ نہیں ہوں ۔

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ طلحہ نے بلند آواز میں اپنے دوستوں سے مخاطب ہوکر کہا:

ان لوگوں سے جنگ کے لئے اٹھو!تمھارے پاس فرزند ابوطالب کے استدلال کے مقابلے میں استدلال کی کوئی طاقت نہیں ہے۔

۲۳۵

عبد اللہ بن زبیر نے بھی اس روز ایک تقریر کی اور اس کے ضمن میں بولا

اے لوگو!علی بن ابیطالب نے خلیفہ بر حق عثمان بن عفان کو قتل کیاہے۔اب ایک بڑے لشکر کے ہمراہ تمھاری طرف آیاہے تاکہ تمہاری سرزمین کو تسخیر کرے اور تمھیں اپنی اطاعت پر مجبور کرے۔

اب تمہاری باری ہے کہ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہو جاؤاور اپنے خلیفہ کے قتل کے انتقام میں اپنی عزت و آبرو کا تحفظ کرو اور اپنی شرافت ،عفت،اولاد واموال بالاخر اپنی شخصیت کا خیال رکھو اور جان کی بازی لگاکر ان کا تحفظ کرو۔کیاتم جیسے دلاوروں ،ناموس کے شدید محافظوں اور عثمان وعائشہ کی راہ میں جانثاری کرنے والوں کے ہوتے ہوئے رواہے کہ کوفی تمھارے شہرووطن پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کریں ؟!

انھوں نے تم پر حملہ کیا ہے،تمھاری شخصیت کی بے حرمتی کی ہے ،تمھارے جذبات کو مجروح کیاہے ۔اس وقت موقع ہے کہ جوش میں آجاؤاور ہر قسم کی مروت کو بالائے طاق رکھ دو۔ان کے اسلحہ کا جواب اسلحہ سے دو اور ان سے جنگ کرو۔علی سے جنگ کرنے میں کسی قسم کی پریشانی اور وسواس سے دوچار نہ ہو،کیونکہ وہ اپنے علاوہ کسی کو خلافت وحکومت کے لائق وسزاوار نہیں سمجھتا ۔خدا کی قسم اگر اس نے تم لوگوں پر تسلط جمانے میں کامیابی پائی تو تمھارے دین ودنیا دونوں کو نابود کردے گا اور تمھیں ذلیل وخوار کرکے رکھ دے گا.....اور اسی طرح کی بہت سی باتیں کہیں ۔

ابن زبیر کی اس تقریر کی رپورٹ علی کو پہنچادی گئی۔امام ں نے اپنے بیٹے حسن ں سے مخاطب ہوکر فرمایا:بیٹے!کھڑے ہوکر ابن زبیر کا جواب دو!۔

علی ں کا بیٹا کھڑا ہو اور بارگاہ الٰہی میں حمد وثناء اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود وسلام کے بعد بولا:

۲۳۶

لوگو!ہم نے اپنے باپ کے بارے میں ابن زبیر کی باتیں سن لیں کہ وہ کہتاہے :عثمان کو انھوں نے قتل کیاہے ،کتنی بڑی تہمت ہے !۔اے مہاجرو انصار !اے مسلمانو!تم بہتر جانتے ہو کہ زبیر عثمان کے بارے میں کیاکہتاتھا اور اس کا کیا نام رکھا تھا اور اسے کس نام سے لوگوں میں مشہور کرتاتھا،اور آخر میں اس نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیااور کیسے ظلم وستم عثمان پرڈھائے!

اور طلحہ !یہ وہی طلحہ ہے کہ ابھی عثمان زندہ تھے کہ اس نے ان کے خلاف مخالفت اور بغاوت کا پرچم بلند کیا،اس پرچم کو بیت المال پر نصب کیا اور حق وانصاف کو پائمال کرتے ہوئے بیت المال پر ڈالا،جب کہ عثمان ابھی زندہ اور خلیفہ تھے!

عثمان کی خلافت کی پوری مدت کے دوران ان دو افراد کے اس کے ساتھ برتاؤ ( اس کے ساتھ اتنی بے وفائی اورظلم کرنے کے بعد بالاخر انھیں خاک وخون میں غلطاں کیا)کے پیش نظر ان کے لئے یہ سزاوار نہ تھا کہ ہمارے باپ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگائیں اور ان کے خلاف بدگوئی کریں ! اگر ہم چاہیں تو ضرورت کے مطابق ان کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں ۔

لیکن ،یہ جو کہتے ہیں کہ علی زبردستی قدرت حاصل کرکے لوگوں پر حکومت کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں ابن زبیر،جو سب سے بڑی دلیل پیش کرتاہے وہ یہ ہے کہ اس کے باپ نے علی کی دل سے بیعت نہیں کی ہے بلکہ ہاتھ سے بیعت کی ہے۔یہ بات کہکر اس نے خود بیعت کا اعتراف واقرار کیاہے اور اس کے بعد بہانہ تراشیاں کرتاہے۔اگر وہ سچ کہتاہے تو اس سلسلے میں دلیل وبرہان پیش کرے،لیکن وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔

اور ،ابن زبیر کا اس پر تعجب کرنا کہ کوفیوں نے بصرہ کے لوگوں پرحملہ کیاہے،تو یہ تعجب بے جاہے ۔آخر یہ کون سی حیرت کی بات ہے کہ حق وحقیقت کے حامی گمراہوں اور بدکاروں پرحملہ کریں ؟

۲۳۷

اما،عثمان کے دوست اور ان کی مدد کرنے والے ،ہمیں ان کے ساتھ کوئی جنگ واختلاف نہیں ہے،بلکہ ہماری جنگ اونٹ سوار اس خاتون اور اس کے حامی باغیوں اور تخریب کاروں سے ہے نہ کہ عثمان کے طرفداروں اور حامیوں کے ساتھ !(۱)

جب امام کے ایلچی ،عائشہ ،طلحہ وزبیر سے مل کر واپس آئے اور ان کے پیغام کو جس میں خون اور اعلان جنگ کی بوتھی امام ں کی خدمت میں پہنچادیا،تو علی ں اٹھے اور خدا کی حمد وثنا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے بعد فرمایا:

اے لوگو!میں ان سے مہربانی اور نرمی سے پیش آیا تاکہ وہ شرم وحیا کریں اور دوسرے لوگوں کے اکسانے پر مسلمانوں میں تفرقہ واختلاف پیدا کرنے سے باز آئیں ۔

میں نے عہد شکنی اور بیعت توڑنے پر ان کی تنبیہ کی اور ان کی بغاوت اور گمراہی کو واضح کرکے انھیں دکھا کر گوش زد کردیا اور حق وحقیقت کا راستہ دکھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تاکہ وہ ہوش میں آکر باطل کے مقابلے میں حق کی پیروی کریں ۔لیکن انھوں نے ایک نہ مانی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کو حقیقت پر ترجیح دی اور میری دعوت قبول نہ کی ۔اس کے بر عکس مجھے ہی دھمکی دینے لگے اور مجھے پیغام بھیجا کہ ان کی تلواروں اور نیزوں کے حملوں کے لئے خود کوآمادہ کروں ۔حقیقت میں وہ طولانی آرزؤں کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر غرور وغلط فہمیوں کے شکار ہوگئے ہیں ۔

سوگ منانے والے ان کے سوگ میں نالہ وفریاد بلند کریں ۔آخر وہ میرے بارے میں کیا

____________________

۱)۔ علی تواضع اور مہربانی سے پیش آتے تھے تا کہ شاید کوئی بات بن جائے اور جنگ نہ چھڑے،بے گناہوں کا خون نہ بہے اور اس سے زیادہ مسلمانوں میں اختلاف وافتراق پیدا نہ ہو۔اس لئے مسلسل پیغام دیتے رہے ،خط لکھتے رہے،صبر وشکیبائی سے کام لیتے رہے،نصیحت وہدایت فرماتے رہے،حقائق کی وضاحت فرماتے رہے تاکہ جمل کے خیر خواہوں کی طرف سے بھڑکائی گئی فتنہ وبغاوت کی آگ کو تدبیر وتلاش سے بجھاسکیں ۔شاید وہ اس کی ناکام کوشش کررہے تھے تاکہ درخشاں وتاباں ماضی اور صدر اسلام میں جانثار یوں کے مالک اصحاب جیسے ،طلحہ وزبیر کو منحوس اور بدترین حوادث کی زد میں آنے سے بچالیں ۔کیونکہ ان کو اقتدار اور حکومت کی ہوس نے اس حد تک اندھا بنادیاتھا کہ انھوں نے دین خدا،حقیقت اسلام حتیٰ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تمام نصیحتوں کوبھی پس پشت ڈال دیاتھا۔کیا حقیقت میں ان کے اس اقدام کو جس کے نتیجہ میں اتنے انسانوں کا خون بہایاگیا خدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی کے علاوہ کسی اور چیز سے تعبیر کیا جاسکتاہے؟ اور قیامت کے دن خدا کے سامنے وہ کیا جواب دیں گے؟!

۲۳۸

سوچتے ہیں ؟اور مجھے کس قسم کاآدمی سمجھتے ہیں ؟جب کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیاہے اور اپنے پورے وجود سے محسوس کیاہے کہ میں وہ مرد نہیں ہوں جو دشمن کی جنگ کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہوجاؤں گا یا تلواروں کی جھنکار اور میدان کارزار کے شور وغل سے وحشت کروں گا۔ولقد انصف القارہ من راماھا۔(۱)

(حقیقت میں انھوں نے اپنے برپا کئے ہوئے فتنہ وبغاوت کے سلسلے میں بھیجے گئے میرے ایلچیوں کے جواب میں مجھے میدان جنگ کی دعوت دی ہے اور مجھے جنگ کی دھمکیاں دی ہیں اور جنگ وپیکار کے بارے میں میرے ساتھ حق وانصاف پر مبنی برتاؤ کیاہے)

چھوڑو انھیں گرجنے دو،وہ ذرا رجز خوانی کرلیں اور جنگ کا بازار گرم کرلیں ،تب وہ جان لیں گے کہ ہم خود نمائی کے محتاج نہیں ہیں ۔انھوں نے ہمیں بہت پہلے جنگ کے میدان میں دیکھا ہے

اور کارزاروں میں میرے ہاتھ کی کاری ضربوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں ۔

اس وقت وہ مجھے کیسا پاتے ہیں ؟میں وہی علی اور وہی ابوالحسن ہوں جو کل مشرکین کی گنجان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتاتھا اور ان کی طاقت کو چورچور کرکے رکھ دیتاتھا اور آج بھی اس قدرت اور اطمینان کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کروں گا اور کسی قسم کا خوف وہراس نہیں کروں گا ۔مجھے اس وعدۂ الٰہی پر ایمان ہے جو اس نے مجھے دیاہے اور اس راہ میں اپنی حقانیت پر یقین رکھتاہوں اور اس مستحکم ایمان میں کسی قسم کے تذبذب سے دوچار نہیں ہوں یہاں تک کہ فرمایا:

خداوندا !تو جانتاہے کہ طلحہ نے میری بیعت توڑدی ہے اور یہ وہی تھا جس نے عثمان کے

____________________

۱)۔''وقد انصف القارہ من راماھا''عربی زبان میں ایک ضرب المثل ہے اور اس کا موضوع یہ ہے کہ قبیلہ قارہہ کے افراد تیر اندازی اور کمان چلانے میں کافی ماہر اور صاحب شہرت تھے۔اس فن میں کوئی ان کاہم پلہ نہ تھا۔لہٰذا جب طلحہ وزبیر نے امام کوجنگ کی دعوت دی ،تو گویا یہ ایسا ہے کہ قبیلۂ قارہ کے تیر اندازوں کو تیر اندازی کی دعوت دی ہے اور انھیں دھمکی دے رہے ہیں ۔اسی بناء پر امام نے اس مثل کو اپنے کلام میں بیان کیاہے۔

۲۳۹

خلاف بغاوت کی اور سر انجام اسے قتل کیا،اسکے بعد بے قصور مجھ پر اسے قتل کرنے کی تہمت لگائی ۔ خداوندا ! اسے خود نمائی کی فرصت نہ دے !

خداوندا !زبیرنے ہماری رشتہ داری سے چشم پوشی کی اور میرے ساتھ قطع رحم کیا اور بیعت توڑدی اور میرے دشمنوں کو میرے خلاف جنگ کرنے پر اکسایا۔خداوندا!جس طرح مناسب ہو آج مجھے اس کے شر سے نجات دے!اس کے بعد آپ ں منبر سے نیچے تشریف لائے۔

جنگ سے پہلے امام کی سفارشیں

حاکم ،ذہبی اور متقی لکھتے ہیں :

علی ں نے جنگ جمل کے دن بلند آواز سے اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:

اس سے پہلے کہ وہ جنگ شروع کریں تم کو حق نہیں ہے کہ کسی پر تیر یا نیزہ برساؤیاتلوار سے حملہ کرکے جنگ میں پہل کرو۔بلکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ان سے مہربانی اورملائمت سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو اور دوستانہ گفتگو کرو۔کیونکہ جو یہاں پر امام کی اطاعت کرکے کامیاب ہوا ،وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوگا۔

راوی کہتاہے :

دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ہوئیں ۔ظہر تک دونوں طرف سے کسی قسم کا اقدام نہ ہوا۔صرف ''جمل''کے خیرخواہ بیچ بیچ میں فریاد بلند کرتے تھے:(یالثارات عثمان) ''عثمان کے خون کا انتقام لینے میں جلدی کرو ۔امیرالمومنین نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے فرمایا:

خداوندا!عثمان کے قاتلوں کو آج نابود کردے!

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

اس جملے سے حضرت شعيب يہ كہنا چاہتے ہيں كہ اس كام ميں ميراصرف روحانى ، انسانى اور تربيتى مقصدہے ميں ايسے حقائق كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے اور انسان ہميشہ اس چيز كا دشمن ہوتاہے جسے نہيں جانتا ہے _

اس كے بعد يہ عظيم پيغمبر مزيد كہتے ہيں :يہ گمان نہ كرنا كہ ميں تمہيں كسى چيز سے منع كروں اور پھر خود اسى كى جستجو ميں لگ جائوں ''_(۱)

تمہيں كہوں كم فروشى نہ كرو اور دھوكا بازى اور ملاوٹ نہ كرو ليكن ميں خود يہ اعمال انجام دوں كہ دولت و ثروت اكھٹا كرنے لگوں يا تمہيں تو بتوں كى پرستش سے منع كروں مگر خودان كے سامنے سر تعظيم خم كروں نہيں ايسا ہرگز نہيں ہے _

اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ حضرت شعيب پر الزام لگاتے تھے كہ خود يہ فائدہ اٹھانے كا ارادہ ركھتا ہے لہذا وہ صراحت سے اس امر كى نفى كرتے ہيں _

آخر ميں ان سے كہتے ہيں :

''ميرا صرف ايك ہدف اور مقصد ہے اور وہ ہے اپنى قدرت واستطاعت كے مطابق تمہارى اور تمہارے معاشرے كى اصلاح ''_(۲)

يہ وہى ہدف ہے جو تمام پيغمبروں كے پيش نطر رہا ہے ،يعنى عقيدے كى اصلاح، اخلاق كى اصلاح، عمل كى اصلاح ، روابط اور اجتماعى نطاموں كى اصلاح _

''اور اس ہدف تك پہنچنے كے لئے صرف خدا سے توفيق طلب كرتا ہوں ''(۳)

مشكلات كے حل كے لئے اس كى مدد پر بھروسہ كرتے ہوئے كو شش كرتاہوں اور اس راہ ميں سختياں گوارا كرنے كےلئے اس كى طرف رجوع كرتا ہوں _

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۸۸

(۲)سورہ ہود آيت۸۸

(۳)سورہ ہود آيت ۸۸

۲۶۱

اس كے بعد انہيں ايك اخلاقى نكتے كى طرف متوجہ كيا گيا ہے اور وہ يہ كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى سے بغض وعداوت كى بناء پر يا تعصب اور ہٹ دھرمى سے اپنے تمام مصالح نظر انداز كرديتا ہے اور انجام كو فراموش كرديتا ہے ،چنانچہ حضرت شعيب نے ان سے فرمايا : ''اے ميرى قوم ايسا نہ ہوكہ ميرى دشمنى اور عداوت تمہيں گناہ، عصياں اور سركشى پر ابھارے اور كہيں ايسانہ ہو كہ وہى بلائيں ، مصيبتيں ، تكليفيں عذاب اور سزائيں جو قوم نوح ، قوم ہود يا قوم صالح كو پہنچيں وہ تمہيں بھى آليں ،يہاں تك كہ قوم لوط كے شہروں كا زير وزبر ہونا اور ان پر سنگبارى كا واقعہ تم سے كوئي دور نہيں ہے''_(۱)

نہ ان كا زمانہ تم سے كوئي دور ہے اور نہ ان كے علاقے تم سے دور ہيں اور نہ ہى تمہارے اعمال اور گناہ ان لوگوں سے كچھ كم ہيں _''مدين'' كہ جو قوم شعيب كا مركز تھا وہ قوم لوط كے علاقے سے كوئي زيادہ فاصلے پر نہيں تھا_ كيونكہ دونوں شامات كے علاقوں ميں تھے_زمانے كے لحاظ سے اگر چہ كچھ فاصلہ تھاتا ہم اتنا نہيں كہ ان كى تاريخ فراموش ہوچكى ہوتي_باقى رہا عمل كے لحاظ سے تو اگر چہ قوم لوط كے جنسى انحرافات نماياں تھے اور قوم شعيب كے اقتصادى انحرافات زيادہ تھے_ اور ظاہراًبہت مختلف تھے ليكن دونوں معاشرے ميں فساد پيدا كرنے،اجتماعى نظام خراب كرنے،اخلاقى فضائل كو نابود كرنے اور برائي پھيلانے ميں ايك دوسرے سے مشابہت ركھتے تھے_

ايك دوسرے كو دھمكياں

يہ عظيم پيغمبرحضرت شعيب كہ انتہائي جچے تلے،بليغ اور دلنشين كلام كى وجہ سے جن كا لقب،''خطيب الانبياء ''ہے،ان كا كلام ان لوگوں كے لئے روحانى ومادى زند گى كى راہيں كھولنے والاتھا_انہوں نے بڑے صبر،حوصلے،متانت اور دلسوزى كے ساتھ ان سے تمام باتيں كيں ليكن ہم ديكھ رہے ہيں كہ اس گمراہ قوم نے انہيں كس طرح سے جواب ديا_

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۸۹

۲۶۲

انہوں نے چار جملوں ميں كہ جو ڈھٹائي،جہالت اور بے خبرى كا مظہر تھے آپ(ع) كو جواب ديا:

پہلے وہ كہنے لگے:''اے شعيب(ع) تمہارى زيادہ تر باتيں ہمارى سمجھ ميں نہيں آتيں ''_(۱)

بنيادى طور پر تيرى باتوں كا كوئي سر پير نہيں ،ان ميں كوئي خاص بات اور منطق ہى نہيں كہ ہم ان پر كوئي غوروفكر كريں _ لہذا ان ميں كوئي ايسى چيز نہيں جس پر ہم عمل كريں اس ليے تم اپنے آ پ كو زيادہ نہ تھكائو اور دوسرے لوگوں كے پيچھے جائو_

''دوسرا يہ كہ ہم تجھے اپنے مابين كمزور پاتے ہيں ''_(۲)

لہذا گر تم يہ سوچتے ہو كہ تم اپنى بے منطق باتيں طاقت كے بل پر منوالوگے تو يہ بھى تمہارى غلط فہمى ہے_

يہ گمان نہ كروں كہ اگر ہم تم سے پوچھ گچھ نہيں كرتے تو يہ تمہارى طاقت كے خوف سے ہے_اگر تيرى قوم و قبيلہ كا احترام پيش نظر نہ ہوتا تو ہم تجھے بد ترين طريقے سے قتل كرديتے اور تجھے سنگسار كرتے_(۳)

آخر ميں انہوں نے كہا:

''تو ہمارے ليے كوئي طاقتور اور ناقابل شكست نہيں ہے''_(۴)

اگر چہ تو اپنے قبيلے كے بزرگوں ميں شمار ہوتا ہے ليكن جو پروگرام تيرے پيش نظر ہے اس كى وجہ سے ہمارى نگاہ ميں كوئي وقعت اور منزلت نہيں ہے_

حضرت شعيب(ع) ان باتوں كے نشتروں اور توہين آميز رويّے سے(سيخ پا ہوكر)اٹھ كرنہيں گئے بلكہ آپ(ع) نے اس طرح انہيں پر منطق اور بليغ پيرائے ميں جواب ديا:''اے قومميرے قبيلے كے يہ چند افراد تمہارے نزديك خدا سے زيادہ عزيز ہيں _''(۵)

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۹۱ (۲)سورہ ھود آيت ۹۱

(۳)سورہ شعيب آيت۹۱ (۴)سورہ ھود آيت۹۱

(۵)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۳

تم ميرے خاندان كى خاطر كہ جو تمہارے بقول چند نفر سے زيادہ نہيں ہے ،مجھے آزار نہيں پہنچاتے ہو،توكيوں خدا كے ليے تم ميرى باتوں كو قبول نہيں كرتے ہو_ كيا عظمت خدا كے سامنے چندافرادكى كوئي حيثيت ہے؟

كيا تم خدا كے لئے كسى احترام كے قائل ہو''جبكہ اسے اور اس كے فرمان كو تم نے پس پشت ڈال ديا ہے_''(۱)

آخر ميں حضرت شعيب(ع) كہتے ہيں :'' يہ خيال نہ كرو كہ خدا تمہارے اعمال كو نہيں ديكھتا اور تمہارى باتيں نہيں سنتا_ يقين جانو كہ ميرا پروردگار ان تمام اعمال پر محيط ہے جو تم انجام ديتے ہو''_(۲)

بليغ سخن ور وہ ہے كہ جو اپنى باتوں ميں مدمقابل كى تمام تنقيدوں كا جواب دے_قوم شعيب(ع) كے مشركين نے چونكہ اپنى باتوں كے آخر ميں ضمناًانہيں سنگسار كرنے كى دھمكى دى تھى اور ان كے سامنے اپنى طاقت كا اظہار كيا تھا لہذا ان كى دھمكى كے جواب ميں حضرت شعيب(ع) نے اپنے موقف كواس طرح سے بيان كيا:

اے ميرى قومجو كچھ تمہارے بس ميں ہے كر گزرواور اس ميں كوتاہى نہ كرو اور جو كچھ تم سے ہو سكتا ہے اس ميں رورعايت نہ كرو_ميں بھى اپنا كام كروں گا_ليكن تم جلد سمجھ جائو گے كہ كون رسوا كن عذاب ميں گرفتار ہوتا ہے اور كون جھوٹا ہے ميں يا تم _

اور اب جبكہ معاملہ اس طرح ہے تو تم بھى انتظار كرو اور ميں بھى انتظار كرتا ہوں ،تم اپنى طاقت،تعداد،سرمائے اور اثرورسوخ سے مجھ پر كاميابى كے انتظار ميں رہو اور ميں بھى اس انتظار ميں ہوں كہ عنقريب دردناك عذاب الہى تم جيسى گمراہ قوم كے دامن گير ہو اور تمہيں صفحہ ہستى سے مٹادے_

مدين كے تباہ كاروں كا انجام

گزشتہ اقوام كى سرگزشت كے بارے ميں قرآن مجيد ميں ہم نے بارہا پڑھا ہے كہ پہلے مرحلے ميں

____________________

(۱)سورہء ھود آيت۹۲

(۲)سورہ ھودآيت۹۲

۲۶۴

انبياء انہيں خدا كى طرف دعوت دينے كے ليے قيام كرتے تھے اور ہر طرح سے تعليم و تربيت اور پند ونصيحت ميں كوئي گنجائش نہيں چھوڑتے تھے_ دوسرے مرحلے ميں جب ايك گروہ پر پند و نصائح كا كوئي اثر نہ ہوتا تو انہيں عذاب الہى سے ڈراتے تاكہ وہ آخرى افراد تسليم حق ہوجائيں جو قبوليت كى اہليت ركھتے ہيں اور راہ خدا كى طرف پلٹ آئيں نيز اتمام حجت ہو جائے_

تيسرے مرحلے ميں جب ان پركوئي چيز مو ثر نہ ہوتى تو روئے زمين كى ستھرائي اور پاك سازى كر ليے سنت الہى كے مطابق عذاب آجاتا اور راستے كے ان كانٹوں كو دور كرديتا _

قوم شعيب(ع) يعنى اہل مدين كا بھى آخر كار مرحلہ انجام آپہنچا_چنانچہ قرآن كہتا ہے: ''جب(اس گمراہ، ظالم اور ہٹ دھرم قوم كو عذاب ديئے جانے كے بارے ميں ) ہمارا فرمان آپہنچا تو ہم نے شعيب(ع) اور اس پر ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت كى بركت سے نجات دي_''(۱) ''پھر آسمانى پكار اور مرگ آفريں عظيم صيحہ نے ظالموں اور ستمگروں كو اپنى گرفت ميں لے ليا_''(۲)

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں _''صيحہ'' ہرقسم كى عظيم آواز اور پكار كے معنى ميں ہے، قرآن نے بعض قوموں كى نابودى صيحہ آسمانى كے ذريعے بتائي ہے_ يہ صيحہ احتمالاًصاعقہ كے ذريعے يا اس كى مانند ہوتى ہے اور جيسا كہ ہم نے قوم ثمود كى داستان ميں بيان كيا ہے كہ صوتى امواج بعض اوقات اس قدر قوى ہوسكتى ہيں كہ ايك گروہ كى موت كا سبب بن جائيں _

اس كے بعد فرمايا گيا ہے:''اس آسمانى صيحہ كے اثر سے قوم شعيب كے لوگ اپنے گھروں ميں منہ كے بل جاگرے اور مرگئے اور ان كے بے جان جسم درس عبرت بنے ہو ايك مدت تك وہيں پڑے رہے''_(۳)

ان كى زندگى كى كتاب اس طرح بندكردى گئي كہ ''گويا كبھى وہ اس سرزمين كے ساكن ہى نہ تھے''_

____________________

(۱)سورہ ھودآيت۹۴

(۲)سورہ ھود آيت۹۴

(۳)سورہ ھود آيت۹۴

۲۶۵

سات روز تك شدت كى گرمى پڑى اور ہوا بالكل نہ چلي، اس كے بعد اچانك آسمان پر بادل آئے، ہوا چلى ان كو گھروں سے نكال پھينكا، گرمى كى وجہ سے بادل كے سايہ كے نيچے چلے گئے_

اس وقت صاعقہ موت كا پيغام لے كر آئي خطرناك آواز، آگ كى بارش اور زمين ميں زلزلہ آگيا، اس طرح وہ سب نابود ہوگئے_

وہ تمام دولت وثروت كہ جس كى خاطر انہوں نے گناہ اور ظلم و ستم كيے نابود ہوگئي_ انكى زمينيں اور زرق برق زندگى ختم ہوگئي اور ان كا شور وغو غا خاموش ہوگيا اور آخر كار جيسا كہ قوم عادوثمود كى داستان كے آخر ميں بيان ہوا ہے فرمايا گيا ہے:دورہو سرزمين مدين لطف و رحمت پروردگار سے جيسے كہ قوم ثمود دور ہوئي_(۱)

''واضح ہے كہ يہاں ''مدين''سے مراد اہل مدين ہيں جو رحمت خدا سے دور ہوئے''_

____________________

(۱)سورہ ھود آيت۹۵

۲۶۶

حضرت موسى عليہ السلام

تمام پيغمبر كى نسبت قرآن ميں حضرت موسى (ع) كا واقعہ زيادہ آيا ہے_تيس سے زيادہ سورتوں ميں موسى (ع) و فرعون اور بنى اسرائيل كے واقعہ كى طرف سومرتبہ سے زيادہ اشارہ ہوا ہے_

اگر ہم ان آيتوں كى الگ الگ شرح كريں ااس كے بعد ان سب كو ايك دوسرے كے ساتھ ملا ديں تو بعض افراد كے اس توہم كے برخلاف كہ قرآن ميں تكرار سے كام ليا گيا ہے،ہم كو معلوم ہوگا كہ قرآن ميں نہ صرف تكرار نہيں ہے بلكہ ہر سورہ ميں جو بحث چھيڑى گئي ہے اس كى مناسبت سے اس سرگزشت كا ايك حصہ شاہد كے طور پر پيش كيا گيا ہے_

ضمناًيہ بات بھى ذہن ميں ركھنا چايئےہ اس زمانے ميں مملكت مصر نسبتاً وسيع مملكت تھي_وہاں كے رہنے والوں كا تمدن بھى حضرت نوح(ع) ،ہود(ع) اور شعيب(ع) كى اقوام سے زيادہ ترقى يافتہ تھا_ لہذا حكومت فراعنہ كى مقاومت بھى زيادہ تھي_

اسى بناء پر حضرت موسى (ع) كى تحريك اور نہضت بھى اتنى اہميت كى حامل ہوئي كہ اس ميں بہت زيادہ عبرت انگيز نكات پائے جاتے ہيں _بنابريں اس قرآن ميں حضرت موسى (ع) كى زندگى اور بنى اسرائيل كے حالات كے مختلف پہلوئوں پر روشنى ڈالى گئي ہے_

كلى طور پر اس عظيم پيغمبر(ع) كى زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_

۲۶۷

حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے پانچ ادوار

۱_پيدائش سے لے كر آغوش فرعون ميں آپ(ع) كى پرورش تك كا زمانہ_

۲_مصر سے آپ(ع) كا نكلنا اور شہر مدين ميں حضرت شعيب(ع) كے پاس كچھ دقت گزارنا_

۳_آپ(ع) كى بعثت كا زمانہ اور فرعون اور اس كى حكومت والوں سے آپ(ع) كے متعدد تنازعے_

۴_فرعونيوں كے چنگل سے موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى نجات اور وہ حوادث جو راستہ ميں اور بيت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے_

۵_حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كے درميان كشمكش كا زمانہ_

ولادت حضرت موسى عليہ السلام

حكومت فرعون نے بنى اسرئيل كے يہاں جو نومولود بيٹے ہوتے تھے انہيں قتل كرنے كا ايك وسيع پروگرام بنايا تھا_ يہاں تك كہ فرعون كى مقرر كردہ دائياں بنى اسرائيل كى باردار عورتوں كى نگرانى كرتى تھيں _

ان دائيوں ميں سے ايك والدہ موسى (ع) كى دوست بن گئي تھي_ (شكم مادر ميں موسى (ع) كا حمل مخفى رہا اوراس كے آثار ظاہر نہ ہوئے) جس وقت مادر موسى (ع) كو يہ احساس ہوا كہ بچے كى ولادت كا وقت قريب ہے تو آپ نے كسى كے ذريعہ اپنى دوست دائي كو بلانے بھيجا_جب وہ آگئي تو اس سے كہا:ميرے پيٹ ميں ايك فرزند ہے،آج مجھے تمہارى دوستى اور محبت كى ضرورت ہے_

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام پيدا ہوگئے تو آپ كى آنكھوں ميں ايك خاص نور چمك رہا تھا،چنانچہ اسے ديكھ كر وہ دايہ كاپنے لگى اور اس كے دل كى گہرائي ميں محبت كى ايك بجلى سماگئي،جس نے اس كے دل كى تمام فضاء كو روشن كرديا_

يہ ديكھ كر وہ دايہ، مادر موسى (ع) سے مخاطب ہوكر بولى كہ ميرا يہ خيال تھا كہ حكومت كے دفتر ميں جاكے اس بچے كے پيدا ہونے كى خبر دوں تاكہ جلاد آئيں اور اسے قتل كرديں اور ميں اپنا انعام پالوں _ مگر ميں كيا كروں

۲۶۸

كہ ميں اپنے دل ميں اس نوزائيدہ بچے كى شديد محبت كا احساس كرتى ہوں _ يہاں تك كہ ميں يہ نہيں چاہتى كہ اس كا بال بھى بيكا ہو_اس كى اچھى طرح حفاظت كرو_ميرا خيال ہے كہ آخر كار يہى ہمارا دشمن ہوگا_

جناب موسى عليہ السلام تنور ميں

وہ دايہ مادر موسى (ع) كے گھر سے باہر نكلي_ تو حكومت كے بعض جاسوسوں نے اسے ديكھ ليا_ انھوں نے تہيہ كرليا كہ وہ گھر ميں داخل ہوجائيں گے_ موسى (ع) كى بہن نے اپنى ماں كو اس خطرے سے آگاہ كرديا ماں يہ سن كے گھبراگئي_ اس كى سمجھ ميں نہ آتا تھا كہ اب كيا كرے_

اس شديد پريشانى كے عالم ميں جب كہ وہ بالكل حواس باختہ ہورہى تھياس نے بچے كو ايك كپڑے ميں لپيٹا او رتنور ميں ڈال ديا_ اس دوران ميں حكومت كے آدمى آگئے_مگر وہاں انھوں نے روشن تنور كے سوا كچھ نہ ديكھا_ انھوں نے مادر موسى (ع) سے تفتيش شرو ع كردى _ پوچھا_دايہ يہاں كيا كررہى تھي_؟ موسى (ع) كى ماں نے كہا كہ وہ ميرى سہيلى ہے مجھ سے ملنے آئي تھى _حكومت كے كارندے مايوس ہوكے واپس ہوگئے_

اب موسى (ع) كى ماں كو ہوش آيا_ آپ نے اپنى بيٹى سے پوچھا كہ بچہ كہاں ہے؟ اس نے لاعلمى كا اظہار كيا_ ناگہاں تنور كے اندر سے بچہ كے رونے كى آواز آئي_ اب ماں تنور كى طرف دوڑى _كيا ديكھتى ہے كہ خدا نے اس كے لئے آتش تنور كو ''ٹھنڈا اور سلامتى كہ جگہ''بناديا ہے_ وہى خدا جس نے حضرت ابراھيم(ع) كے ليے آتش نمرود كو ''برد وسلام''بناديا تھا_ اس نے اپنا ہاتھ بڑھايا اور بچے كو صحيح وسالم باہر نكال ليا_

ليكن پھر بھى ماں محفوظ نہ تھي_كيونكہ حكومت كے كارندے دائيں بائيں پھرتے رہتے اور جستجو ميں لگے رہتے تھے_ كسى بڑے خطرے كے ليے يہى كافى تھا كہ وہ ايك نوزائيد بچے كے رونے كى آواز سن ليتے_

اس حالت ميں خدا كے ايك الہام نے ماں كے قلب كو روشن كرديا_وہ الہام ايسا تھا كہ ماں كو بظاہر ايك خطرناك كام پر آمادہ كررہا تھا_مگر پھر بھى ماں اس ارادے سے اپنے دل ميں سكون محسوس كرتى تھي_

۲۶۹

''ہم نے موسى (ع) كى ماں كى طرف وحى كى كہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس كے بارے ميں كچھ خوف پيدا ہوتو اسے دريا ميں ڈال دينا اور ڈرنا نہيں اور نہ غمگين ہونا كيونكہ ہم اسے تيرے پاس لوٹا ديں گے اور اسے رسولوں ميں سے قرار ديں گے_(۱)

اس نے كہا: ''خدا كى طرف سے مجھ پريہ فرض عائد ہوا ہے_ ميں اسے ضرور انجام دوں گي''_اس نے پختہ ارادہ كرليا كہ ميں اس الہام كو ضرور عملى جامہ پہنائوں گى اور اپنے نوزائيدہ بچے كو دريائے نيل ميں ڈال دوں گي_

اس نے ايك مصرى بڑھئي كو تلاش كيا (وہ بڑھئي قبطى اور فرعون كى قوم ميں سے تھا)اس نے اس بڑھئي سے درخواست كى كہ ميرے ليے ايك چھوٹا سا صندوق بنادے_

بڑھئي نے پوچھا:جس قسم كا صندوقچہ تم بنوانا چاہتى ہو اسے كس كام ميں لائوگي؟

موسى (ع) كى ماں جو دروغ گوئي كى عادى نہ تھى اس نازك مقام پر بھى سچ بولنے سے باز نہ رہي_اس نے كہا:ميں بنى اسرائيل كى ايك عورت ہوں _ميرا ايك نوزائيد بچہ لڑكا ہے_ميں اس بچے كو اس صندوق ميں چھپانا چاہتى ہوں _

اس قبطى بڑھئي نے اپنے دل ميں يہ پختہ ارادہ كرليا كہ جلادوں كو يہ خبر پہنچادےگا_وہ تلاش كركے ان كے پاس پہنچ گيا_ مگر جب وہ انھيں يہ خبر سنانے لگاتو اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس كى زبان بند ہوگئي_ وہ صرف ہاتھوں سے اشارے كرتا تھا اور چاہتا تھا كہ ان علامتوں سے انھيں اپنا مطلب سمجھا دے_ حكومت كے كارندوں نے اس كى حركات ديكھ كر يہ سمجھا كہ يہ شخص ہم سے مذاق كررہا ہے_اس ليے اسے مارا اور باہر نكال ديا_

جيسے ہى وہ اس دفتر سے باہر نكلا اس كے ہوش و حواس يكجاہوگئے، وہ پھر جلادوں كے پاس گيا اور اپنى حركات سے پھر ماركھائي_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۷

۲۷۰

آخر اس نے يہ سمجھا كہ اس واقعے ميں ضرور كوئي الہى راز پوشيدہ ہے_چنانچہ اس نے صندوق بناكے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو دےديا_

دريا كى موجيں گہوارے سے بہتر

غالباًصبح كا وقت تھا_ابھى اہل مصر محو خواب تھے_مشرق سے پو پھٹ رہى تھي_ماں نے نوزائيدہ بچے اور صندوق كو دريائے نيل كے كنارے لائي،بچے كو آخرى مرتبہ دودھ پلايا_پھر اسے،مخصوص صندوق ميں ركھا(جس ميں يہ خصوصيت تھى كہ ايك چھوٹى كشتى كى طرح پانى پر تيرسكے)پھر اس صندوق كو نيل كى موجوں كے سپرد كرديا_ نيل كى پر شور موجوں نے اس صندوق كوجلدہى ساحل سے دور كرديا_ماں كنارے كھڑى ديكھ رہى تھى _ معاًاسے ايسا محسوس ہوا كہ اس كا دل سينے سے نكل كر موجوں كے اوپر تيررہاہے_اس دقت،اگر الطاف الہى اس كے دل كو سكون و قرار نہ بخشتا تو يقينا وہ زور زور سے رونے لگتى اور پھر سارا راز فاش ہو جاتا،كسى آدمى ميں يہ قدرت نہيں ہے كہ ان حساس لمحات ميں ماں پر جو گزررہى تھي_الفاظ ميں اس كا نقشہ كھينچ سكے مگر _ ايك فارسى شاعرہ نے كسى حد تك اس منظر كو اپنے فصيح اور پر از جذبات اشعار ميں مجسم كيا ہے_

۱_مادر موسى (ع) چو موسى (ع) رابہ نيل ---درفگند از گفتہ رب جليل

۲_خودز ساحل كرد باحسرت نگاہ ---گفت كاى فرزند خرد بى گناہ

۳_گر فراموشت كند لطف خداى ---چون رہى زين كشتى بى ناخداي

۴_وحى آمد كاين چہ فكر باطل است ---رہرو ما اينك اندر منزل است

۵_ماگرفتيم آنچہ را انداختى ----دست حق را ديدى ونشاختي

۶_سطح آب از گاہوارش خوشتراست ---دايہ اش سيلاب و موجش مادراست

۷_رودھا از خودنہ طغيان مى كنند--- آنچہ مى گوئيم ما آن مى كنند

۲۷۱

۸_ما بہ دريا حكم طوفان مى دہيم

ما بہ سيل وموج فرماں مى دہيم

۹_نقش ہستى نقشى از ايوان ما است

خاك وباد وآب سرگردان ماست

۱۰_بہ كہ برگردى بہ ما بسپاريش

كى تو از ما دوسترمى داريش؟(۱)

۱_جب موسى (ع) كى ماں نے حكم الہى كے مطابق موسى (ع) كو دريائے نيل ميں ڈال ديا_

۲_وہ ساحل پركھڑى ہوئي حسرت سے ديكھ رہى تھى اور كہہ رہى تھى كہ اے ميرے بے گناہ ننھے بيٹے

۳_اگر لطف الہى تيرے شامل حال نہ ہو تو ،تو اس كشتى ميں كيسے سلامت رہ سكتا ہے جس كا كوئي نا خدا نہيں ہے_

۴_حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو اس وقت وحى ہوئي كہ تيرى يہ كيا خام خيالى ہے ہمارا مسافر تو سوئے منزل رواں ہے_

۵_تونے جب اس بچے كو دريا ميں ڈالاتھا تو ہم نے اسے اسى وقت سنبھال ليا تھا _ تو نے خدا كا ہاتھ ديكھا مگر اسے پہچانا نہيں _

۶_اس وقت پانى كى سطح(اس كے ليے)اس كے گہوارے سے زيادہ راحت بخش ہے_دريا كا سيلاب اس كى دايہ گيرى كررہا ہے اور اس كى موجيں آغوش مادر بنى ہوئي ہيں _

۷_ديكھوں دريائوں ميں ان كے ارادہ و اختيار سے طغيانى نہيں آتي_وہ ہمارے حكم كے مطيع ہيں وہ وہى كرتے ہيں جو ہمارا امر ہوتا ہے_

۸_ہم ہى سمندروں كو طوفانى ہونے كاحكم ديتے ہيں اور ہم ہى سيل دريا كو روانى اور امواج بحر كو تلاطم كا فرمان بھيجتے ہيں _

____________________

(۱)از ديوان پروين اعتصامي

۲۷۲

۹_ہستى كا نقش ہمارے ايوان كے نقوش ميں سے ايك نقش ہے جو كچھ ہے،يہ كائنات تو اس كامشتے ازخروارى نمونہ ہے_ اور خاك،پاني،ہوا اور آتش ہمارے ہى اشارے سے متحرك ہيں _

۱۰_بہتر يہى ہے كہ تو بچے كو ہمارے سپرد كردے اور خود واپس چلى جا_ كيونكہ تو اس سے ہم سے زيادہ محبت نہيں كرتي_

دلوں ميں حضرت مو سى عليہ السلام كى محبت

اب ديكھناچاہيئے فرعون كے محل ميں كيا ہورہا تھا؟

روايات ميں مذكور ہے كہ فرعون كى ايك اكلوتى بيٹى تھي_وہ ايك سخت بيمارى سے شديد تكليف ميں تھي_فرعون نے اس كا بہت كچھ علاج كرايا مگر بے سود_اس نے كاہنوں سے پوچھا_ انھوں نے كہا:''اے فرعون ہم پيشن گوئي كرتے ہيں كہ اس دريا ميں سے ايك آدمى تيرے محل ميں داخل ہوگا_اگر اس كے منہ كى رال اس بيمار كے جسم پر ملى جائے گى تو اسے شفا ہوجائيگي_

چنانچہ فرعون اور اس كى ملكہ آسيہ ايسے واقعے كے انتظار ميں تھے كہ ناگہاں ايك روز انھيں ايك صندوق نظر آيا جو موجوں كى سطح پر تير رہا تھا_فرعون نے حكم ديا كہ سركارى ملازمين فوراً ديكھيں كہ يہ صندوق كيسا ہے اور اسے پانى ميں سے نكال ليں _ديكھيں كہ اس ميں كيا ہے؟

نوكروں نے وہ عجيب صندوق فرعون كے سامنے لاكے ركھ ديا_ كسى كو اس كا ڈھكنا كھولنے كى ہمت نہ ہوئي_ مطابق مشيت الہي،يہ لازمى تھا كہ حضرت موسى (ع) كى نجات كے ليے صندوق كا ڈھكنا فرعون ہى كے ہاتھ سے كھولا جائے،چنانچہ ايسا ہى ہوا_

جس وقت فرعون كى ملكہ نے اس بچے كو ديكھا تو اسے يوں محسوس ہواكہ ايك بجلى چمكى ہے جس نے اس كے دل كو منور كرديا ہے_

ان دونوں بالخصوص فرعون كى ملكہ كے دل ميں اس بچے كى محبت نے گھر بناليا اور جب اس بچے كا

۲۷۳

آب دہن اس كے ليے موجب شفا ہوگيا تو يہ محبت اور بھى زيادہ ہوگئي _

قرآن ميں يہ واقعہ اس طرح مذكور ہے كہ:_فرعون كے اہل خانہ نے موسى (ع) كو نيل كى موجوں كے اوپر سے پكڑ ليا_ تا كہ وہ ان كا دشمن اور ان كے ليے باعث اندوہ ہوجائے_(۱)

''يہ امر بديہى ہے كہ فرعون كے اہل خانہ نے اس بچے كے قنداقہ(وہ كپڑاجس ميں بچہ كو لپيٹتے ہيں )كو اس نيت سے دريا سے نہيں نكالا تھا كہ اپنے جانى دشمن كو اپنى گود ميں پاليں ،بلكہ وہ لوگ بقول ملكہ فرعون،اپنے ليے ايك نور چشم حاصل كرناچاہتے تھے_

ليكن انجام كار ايسا ہى ہوا،اس معنى و مراد كى تعبير ميں لطافت يہى ہے كہ خدا اپنى قدرت كا اظہار كرنا چاہتا ہے كہ وہ كس طرح اس گروہ كو جنھوں نے اپنى تمام قوتيں اور وسائل،بنى اسرائيل كى اولاد ذكور كو قتل كرنے كے ليے وقف كرديا تھا،اس خدمت پر مامور كرے كہ جس بچے كو نابود كرنے كے ليے انھوں نے يہ پروگرام بنايا تھا،اسى كوو وہ اپنى جان كى طرح عزيز ركھيں اور اسى كى پرورش كريں _

قرآن كى آيات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس بچے كى بابت فرعون،اس كى ملكہ اور ديگر اہل خاندان ميں باہم نزاع اور اختلاف بھى ہوا تھا،كيونكہ قرآن شريف ميں يوں بيان ہے:فرعون كى بيوى نے كہا كہ يہ بچہ ميرى اور تيرى آنكھوں كا نور ہے_ اسے قتل نہ كرو_ ممكن ہے يہ ہمارے ليے نفع بخش ہو يا ہم اسے ہم اپنا بيٹابنا ليں _(۲)

ايسا معلوم ہوتا ہے كہ فرعون بچے كے چہرے اور دديگر علامات سے،من جملہ ان كے اسے صندوق ميں ركھنے اور دريائے نيل ميں بہادينے سے يہ سمجھ گيا تھا كہ يہ بنى اسرائيل ميں سے كسى كا بچہ ہے_

يہ سمجھ كر ناگہاں ،بنى اسرائيل ميں سے ايك آدمى كى بغاوت اور اس كى سلطنت كے زوال كا كابوس اس كى روح پر مسلط ہوگيا اور وہ اس امر كا خواہاں ہوا كہ اس كا وہ ظالمانہ قانون،جو بنى اسرائيل كے تمام نوزاد اطفال كے ليے جارى كيا گيا تھا اس بچے پر بھى نافذ ہو_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۸

(۲)قصص آيت ۹

۲۷۴

فرعون كے خوشامدى درباريوں او ررشتہ داروں نے بھى اس امر ميں فرعون كى تائيد و حمايت كى اور كہا اس كى كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ بچہ قانون سے مستثنى رہے_

ليكن فرعون كى بيوى آسيہ جس كے بطن سے كوئي لڑكا نہ تھا اور اس كا پاك دل فرعون كے درباريوں كى مانند نہ تھا،اس بچے كے ليے محبت كا كان بن گيا تھا_ چنانچہ وہ ان سب كى مخالفت پرآمادہ ہوگئي اور چونكہ اس قسم كے گھريلو اختلافات ميں فتح ہميشہ عورتوں كى ہوتى ہے،وہ بھى جيت گئي_

اگر اس گھريلو جھگڑے پر،دختر فرعون كى شفايابى كے واقعے كا بھى اضافہ كرليا جائے تواس اختلاف باہمى ميں آسيہ كى فتح كا امكان روشن تر ہو جاتا ہے_

قرآن ميں ايك بہت ہى پر معنى فقرہ ہے:''وہ نہيں جانتے تھے كہ كيا كررہے ہيں :''(۱)

البتہ وہ بالكل بے خبر تھے كہ خدا كا واجب النفوذ فرمان اور اس كى شكست ناپذير مشيت نے يہ تہيہ كرليا ہے كہ يہ طفل نوزاد انتہائي خطرات ميں پرورش پائے _ اور كسى آدمى ميں بھى ارادہ و مشيت الہى سے سرتابى كى جرا ت اور طاقت نہيں ہے''_

اللہ كى عجيب قدرت

اس چيز كانام قدرت نمائي نہيں ہے كہ خداآسمان و زمين كے لشكروں كو مامور كركے كسى پُرقوت اور ظالم قوم كو نيست و نابود كردے_

بلكہ قدرت نمائي يہ ہے كہ ان ہى جباران مستكبر سے يہ كا م لے كر وہ اپنے آپ كو خود ہى نيست و نابود كرليں اور ان كے دل و دماغ ميں ايسے خيالات پيدا ہوجائيں كہ بڑے شوق سے لكڑياں جمع كريں اور اس كى آگ ميں جل مريں ،اپنے ليے خودہى قيدخانہ بنائيں اور اسميں اسير ہوكے جان دے ديں ، اپنے ليے خود ہى صليب كھڑى كريں اور اس پر چڑھ مرجائيں _

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۹

۲۷۵

فرعون اوراسكے زور منداور ظالم ساتھيوں كے ساتھ بھى يہى پيش آيا_ چنانچہ تمام مراحل ميں حضرت موسى (ع) كى نجات اور پرورش انہى كے ہاتھوں سے ہوئي،حضرت موسى (ع) كى دايہ قبطيوں ميں سے تھي،صندوق موسى (ع) كو امواج نيل سے نكالنے اور نجات دينے والے متعلقين فرعون تھے،صندوق كا ڈھكنا كھولنے والا خود فرعون يا اس كى اہليہ تھي،اور آخر كا ر فرعون شكن اور مالك غلبہ و اقتدار موسى (ع) كے ليے امن و آرام اور پرورش كى جگہ خود فرعون كا محل قرار پايا_ يہ ہے پروردگار عالم خدا كى قدرت_

موسى عليہ السلام پھر آغوش مادر ميں

حضرت موسى عليہ السلام كى ماں نے اس طرح سے جيسا كہ ہم نے پيشتر بيان كيا ہے،اپنے فرزند كو دريائے نيل كى لہروں كے سپرد كرديا_ مگر اس عمل كے بعد اس كے دل ميں جذبات كا يكايك شديد طوفان اٹھنے لگا،نوزائيدہ بيٹے كى ياد،جس كے سوا اس كے دل ميں كچھ نہ تھا،اس كے احساسات پر غالب آگئي تھي،قريب تھا كہ وہ دھاڑيں مار كر رونے لگے اور اپنا راز فاش كردے،قريب تھا كہ چيخ مارے اور اپنے بيٹے كى جدائي ميں نالے كرے_

ليكن عنايت خداوندى اس كے شامل حال رہى جيسا كہ قرآن ميں مذكور ہے:''موسى عليہ السلام كى ماں كا دل اپنے فرزند كى ياد كے سوا ہر چيز سے خالى ہوگيا،اگر ہم نے اس كا دل ايمان اور اميد كے نور سے روشن نہ كيا ہوتا تو قريب تھا كہ وہ راز فاش كرديتي_ ليكن ہم نے يہ اس ليے كيا تاكہ وہ اہل ايمان ميں سے رہے''_(۱)

يہ قطعى فطرى امر ہے كہ: ايك ماں جو اپنے بچے كو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا كرے وہ اپنى اولاد كے سوا ہر شے كو بھول جائے گي_ اور اس كے حواس ايسے باختہ ہو جائيں گے كہ ان خطرات كا لحاظ

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۰

۲۷۶

كيے بغير جو اس كے اور اس كے بيٹے دونوں كے سر پر منڈلارہے تھے فرياد كرے اور اپنے دل كا راز فاش كردے_

ليكن وہ خدا جس نے اس ماں كے سپرد يہ اہم فريضہ كيا تھا،اسى نے اس كے دل كو ايسا حوصلہ بھى بخشا كہ وعدہ الہى پر اس كا ايمان ثابت رہے اور اسے يہ يقين رہے كہ اس كا بچہ خدا كے ہاتھ ميں ہے آخر كار وہ پھر اسى كے پاس آجائے گا اور پيغمبر بنے گا_

اس لطف خداوندى كے طفيل ماں كے دل كا سكون لوٹ آيامگر اسے آرزورہى كہ وہ اپنے فرزندكے حال سے باخبر رہے'' اس لئے اس نے موسى عليہ السلام كى بہن سے كہاكہ جا تو ديكھتى رہ كہ اس پر كيا گزرتى ہے''_(۱)

موسى عليہ السلام كى بہن ماں كا حكم بجالائي اور اتنے فاصلہ سے جہاں سے سب كچھ نظر آتا تھا ديكھتى رہى _ اس نے دور سے ديكھا كہ فرعون كے عمال اس كے بھائي كے صندوق كو پانى ميں سے نكال رہے ہيں اور موسى عليہ السلام كو صندوق ميں سے نكال كر گود ميں لے رہے ہيں _

''مگر وہ لوگ اس بہن كى ا س كيفيت حال سے بے خبر تھے_''_(۲)

بہر حال ارادہ الہى يہ تھا كہ يہ طفل نوزاد جلد اپنى ماں كے پاس واپس جائے اور اس كے دل كو قرار آئے_اس ليے فرمايا گيا ہے :''ہم نے تمام دودھ پلانے والى عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا''_(۳)

يہ طبيعى ہے كہ شير خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ہى بھوك سے رونے لگتا ہے اور بے تاب ہوجاتا ہے_ درين حال لازم تھا كہ موسى عليہ السلام كو دودھ پلانے كے ليے كسى عورت كى تلاش كى جاتي_ خصوصاً جبكہ ملكہ مصر اس بچے سے نہايت دل بستگى ركھتى تھى اور اسے اپنى جان كے برابر عزيز ركھتى تھي_

محل كے تمام خدام حركت ميں آگئے اور دربدر كسى دودھ پلانے والى كو تلاش كرنے لگے_مگر يہ عجيب بات تھى كہ وہ كسى كا دودھ پيتا ہى نہ تھا_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۱

(۲)سورہ قصص آيت۱۱

(۳)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۷

ممكن ہے كہ وہ بچہ ان عورتوں كى صورت ہى سے ڈرتا ہو اور ان كے دودھ كا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس كا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس ہوتا ہو_اس بچے كا طور كچھ اس طرح كا تھا گويا كہ ان (دودھ پلانے والي)عورتوں كى گود سے اچھل كے دورجاگرے در اصل يہ خدا كى طرف سے''تحريم تكويني''تھى كہ اس نے تمام عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا_

بچہ لحظہ بہ لحظہ زيادہ بھوكا اور زيادہ بيتاب ہوتا جاتا تھا_ بار بار رورہا تھا اور اس كى آواز سے فرعون كے محل ميں شور ہورہا تھا_ اور ملكہ كا دل لرز رہا تھا_

خدمت پرمامور لوگوں نے اپنى تلاش كو تيز تر كرديا_ ناگہاں قريب ہى انھيں ايك لڑكى مل جاتى ہے_ وہ ان سے يہ كہتى ہے:ميں ايك ايسے خاندان كو جانتى ہوں جو اس بچے كى كفالت كرسكتا ہے_ وہ لوگ اس كے ساتھ اچھا سلوك كريں گے_

''كيا تم لوگ يہ پسند كروگے كہ ميں تمہيں وہاں لے چلوں ''؟(۱)

ميں بنى اسرائيل ميں سے ايك عورت كو جانتى ہوں جس كى چھاتيوں ميں دودھ ہے اور اس كا دل محبت سے بھرا ہوا ہے_ اس كا ايك بچہ تھا وہ اسے كھو چكى ہے_ وہ ضرور اس بچے كو جو محل ميں پيدا ہوا ہے،دودھ پلانے پر آمادہ ہوجائے گي_

وہ تلاش كرنے والے خدام يہ سن كر خوش ہوگئے اور موسى عليہ السلام كى ماں كو فرعون كے محل ميں لے گئے_ اس بچے نے جونہى اپنى ماں كى خوشبو سونگھى اس كا دودھ پينے لگا_ اور اپنى ماں كا روحانى رس چوس كر اس ميں جان تازہ آگئي_اسكى آنكھوں ميں خوشى كا نور چمكنے لگا_

اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے تھے_ بہت ہى زيادہ خوش و خرم تھے_ فرعون كى بيوى بھى اس وقت اپنى خوشى كو نہ چھپا سكي_ممكن ہے اس وقت لوگوں نے كہا ہوكہ تو كہاں چلى گئي تھي_ہم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے _ تجھ پر اورتيرے شير مشكل كشا پر آفرين ہے_

____________________

(۱)سورہ قصص آيت۱۲

۲۷۸

صرف تيرا ہى دودھ كيوں پيا

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام ماں كا دودھ پينے لگے،فرعون كے وزير ہامان نے كہا: مجھے لگتا ہے كہ تو ہى اسكى ماں ہے_ بچے نے ان تمام عورتوں ميں سے صرف تيرا ہى دودھ كيوں قبول كرليا؟

ماں نے كہا:اس كى وجہ يہ ہے كہ ميں ايسى عورت ہوں جس كے دودھ ميں سے خوشبو آتى ہے_ ميرا دودھ نہايت شيريں ہے_ اب تك جو بچہ بھى مجھے سپرد كيا گيا ہے_ وہ فوراً ہى ميرا دودھ پينے لگتا ہے_

حاضرين دربار نے اس قول كى صداقت كو تسليم كرليا اور ہر ايك نے حضرت موسى عليہ السلام كى ماں كو گراں بہا ہديے اور تحفے ديے_

ايك حديث جو امام باقر عليہ السلام سے مروى ہے اس ميں منقول ہے كہ:''تين دن سے زيادہ كا عرصہ نہ گزرا تھا كہ خدانے كے بچے كواس كى ماں كے پاس لوٹا ديا''_

بعض اہل دانش كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ليے يہ''تحريم تكويني''(يعنى دوسرى عورتوں كا حرام كيا جانا)اس سبب سے تھاكہ خدا يہ نہيں چاہتا تھا كہ ميرا فرستادہ پيغمبر ايسا دودھ پيئے جو حرام سے آلودہ ہو اور ايسا مال كھاكے بنا ہو جو چوري،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس كو غصب كركے حاصل كيا گيا ہو_

خدا كى مشيت يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى صالحہ ماں كے پاك دودھ سے غذا حاصل كريں _تاكہ وہ اہل دنيا كے شر كے خلاف ڈٹ جائيں اور اہل شروفساد سے نبردآزمائي كرسكيں _

''ہم نے اس طرح موسى عليہ السلام كو اس كى ماں كے پاس لوٹا ديا_تاكہ اس كى آنكھيں روشن ہوجائيں اور اس كے دل ميں غم واندوہ باقى نہ رہے اور وہ يہ جان لے كہ خدا كا وعدہ حق ہے_ اگر چہ اكثر لوگ يہ نہيں جانتے''_(۱)

____________________

(۱)سورہ قصص آيت ۱۳

۲۷۹

اس مقام پر ايك سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ يہ ہے كہ:كيا وابستگان فرعون نے موسى عليہ السلام كو پورے طور سے ماں كے سپرد كرديا تھا كہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلايا كرے اور دوران رضاعت روزانہ يا كبھى كبھى بچے كو محل ميں لايا كرے تا كہ ملكہ مصر اسے ديكھ ليا كرے يا يہ كہ بچہ محل ہى ميں رہتا تھا اور موسى عليہ السلام كى ماں معين اوقات ميں آكر اسے دودھ پلاجاتى تھي؟

مذكورہ بالا دونوں احتمالات كے ليے ہمارے پاس كوئي واضح دليا نہيں ہے_ ليكن احتمال اول زيادہ قرين قياس ہے_

ايك اور سوال يہ ہے كہ:

آيا عرصہ شير خوارگى كے بعد حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل ميں چلے گئے يا ان كا تعلق اپنى ماں اور خاندان كے ساتھ باقى رہا اور محل سے وہاں آتے جاتے رہے؟

اس مسئلے كے متعلق بعض صاحبان نے يہ كہا ہے كہ شير خوار گى كے بعد آپ كى ماں نے انھيں فرعون اور اس كى بيوى آسيہ كے سپرد كرديا تھا اور حضرت موسى عليہ السلام ان دونوں كے پاس پرورش پاتے رہے_

اس ضمن ميں راويوں نے فرعون كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كى طفلانہ(مگر با معنى )باتوں كا ذكر كيا ہے كہ اس مقام پر ہم ان كو بعذر طول كلام كے پيش نظر قلم انداز كرتے ہيں _ ليكن فرعون كا يہ جملہ جے اس نے بعثت موسى عليہ السلام كے بعد كہا:

''كيا ہم نے تجھے بچپن ميں پرورش نہيں كيا اور كيا تو برسوں تك ہمارے درميان نہيں رہا''_(۱)

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام چند سال تك فرعون كے محل ميں رہتے تھے_

على ابن ابراھيم كى تفسير سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام تازمانہ بلوغ فرعون كے محل ميں نہايت احترام كے ساتھ رہے_مگر ان كى توحيد كے بارے ميں واضح باتيں فرعون كو سخت ناگوار ہوتى تھيں _

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۱۸

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416