ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214954 / ڈاؤنلوڈ: 4957
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قرآن مجید میں دو جگہوں پر وضو وغسل اور ان کے بدل یعنی تیمم کاایک ساتھ ذکر ہواہے ۔

اولاً سورہ نسا کی ٤٣ویں آیت میں فرماتاہے:

( ''يٰااَيُّهَا الذَّینَ آمَنُوا لاٰتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُکٰاریٰ حَتّٰی تَعْلَمُوا مٰا تَقُولُونَ وَ لاٰ جُنُباً اِلاّٰ عٰابِرِی سَبیلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْ جٰائَ اَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوا مٰائً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰهَ کٰانَ عَفُوّاً غَفُوراً'' ) (نسا٤٣)

ایمان والو ! خبردار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا،جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم سمجھنے لگو کیا کہہ رہے ہو،اور جنابت کے حالت میں بھی (مسجد میں داخل نہ ہونا)مگریہ کہ راستے سے گزر رہے ہو ،جب تک غسل نہ کرلو اور اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پاخانہ نکل آئے ، یاعورتوں سے باہم جنسی ربط قائم کرو اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

ثانیاً سورہ مائدہ کی چھٹی آیت میں فرماتاہے :

( ''یٰا اَیُّهَاالَّذینَ آمَنُوااِذٰاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِفَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَیٰ الْمَرٰافِقِ وَامْسِحُوابِرُء وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْن وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَاِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْجٰائَ أَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ اَوْلاٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوامٰائً فَتَیَمَّمُواصَعیداًطَیِّباًفَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَأیْدِیْکُمْ مِنْهُ.....'' ) (مائدہ ٦)

۲۱

ایمان والو !جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کواور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤاور اپنے سر اور ٹخنے تک پیروں کامسح کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرواور اگر مریض ہویا سفر کی حالت میں ہو یا پاخانہ وغیرہ نکل آیا ہے یاعورتوں سے باہم جنسی تعلق قائم کرو اور پانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کامسح کرلو۔

اس لحاظ سے اسی وقت جب وضو اور غسل کاحکم بیان ہوا ،تیمم کاحکم بھی بیان ہواہے ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ١٣ سال مکہ میں اور ٥سال مدینہ میں صرف وضواور غسل کیا اور انہیں کبھی تیمم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی ہو یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے ام المؤمنین کے گلے کے ہار کی برکت سے مسلمانوں کو یہ سہولت عنایت کی ہو.!!

موضوع کی اہمیت:

ہم نے یہاں پر عائشہ کی حدیث کو نمونہ کے طور پر بیان کیا ہے ۔عائشہ کی اس حدیث میں آیہ ٔ کریمہ کی شأن نزول کی بات کی گئی ہے جو بذات خود علم تفسیر کاجزو ہے ،اور تیمم کی علت کے بارے میں تشریح بھی کی گئی ہے جو حقیقت میں احکام اسلام میں سے ایک حکم ہے اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کی بات بھی کی گئی ہے کہ کس طرح رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیوی کی خوشنودی کے لئے جذبات میں آکر تمام مصلحتوں سے چشم پوشی کرکے لشکر اسلام کے ساتھ ایک خشک اور بے آب سرزمین پر صرف اپنی بیوی کے گلے کے ہار کے لئے صبح تک پڑاوکیا۔جب کہ کسی عام فوجی کمانڈر سے بھی اس قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے چہ جائیکہ حکمت وبصیرت والے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے !! اور سب سے بڑھ کر اس حدیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس ناشائستہ وبے جاعمل پر اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تنبیہ اور سرزنش کرنے کے بجائے قرآن مجید کی ایک آیت نازل فرماکر تیمم کاحکم جاری کیا اور اس طرح مسلمانوں کی ایک گتھی حل کردی ۔

دشمنان اسلام اس حدیث اور داستان سے کیا نتیجہ لیں گے ؟!افسوس!کہ اس قسم کی احادیث جو اسلام کوحقیر وپست اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہلکا ،شہوت پرست اور کم عقل ثابت کرتی ہیں ،بہت ہیں ۔

۲۲

ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس قسم کی احادیث کو ام المؤمنین عائشہ،ابوہریرہ اور دیگر اصحاب سے نسبت دینے کی تصدیق کریں اور کہیں کہ یہ نسبت سو فیصدی صحیح ہے ،ممکن ہے ان میں سے بعض کو زندیقیوں یا دیگر دشمنان اسلام نے دین میں تخریب کاری کے لئے جعل کرکے ان سے منسوب کردیاہو۔لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس قسم کی احادیث ،حدیث کی مشہورترین وصحیح کتابوں ،معتبر تفسیروں ،سیرت اور تاریخ کی موثق کتابوں میں درج ہیں ۔اس قسم کی احادیث حقائق کو اس حد تک الٹا دکھانے کی باعث بنی ہیں کہ خدا کی صفات کوغلط رنگ میں پیش کرکے مجسم ومرئی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک شہوت پرست اور بے شعور اور قرآن مجید کو ناقص وقابل اصلاح صورت میں دکھایا گیاہے ۔(۱)

پروردگارا! مسلمانوں کے باور کئے گئے ان ہزاروں جھوٹ اور افسانوں کے مقابلے میں کیا کیاجائے ؟!ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے کہ مسلمان ان افسانوں کے عادی بن کر ان پر اعتقاد رکھتے ہیں اور انھیں اسلام کی صحیح احادیث،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سچی سیرت ،اسلام کی مؤثق تاریخ کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں اور اسی سبب سے صحیح اسلام کو نہیں پہچان سکے ہیں !

خداوندا ! کیا ان منحرف شدہ حقائق کو چودہ سو سال کے بعد حقائق آشکار کرکے ہزاروں جرائم سے پردہ اٹھایاجائے یامسلمانوں کی عظیم اکثریت کی چاہت کے سامنے ہتھیار ڈال دئے جائیں اور خاموش تماشائی بن کر زبان پر مہر لگالی جائے؟!

بار الٰہا !کیا یہاں پر خاموشی اختیار کرنا ان تمام جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟

اور کیا خود یہ خاموشی سب سے بڑا گناہ نہیں ہے ؟جی ہاں !بیشک ان تمام جرائم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا خود ان جرائم سے سنگین تر جرم ہے ۔اسی لئے حقیر نے حدیث وتاریخ ،حدیث کی شناخت اور اسلام کی صحیح تاریخ کے سلسلے میں میں بحث وتحقیق شروع کی ہے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اس کی مدد سے قدم آگے بڑھائے ہیں ۔

اب قارئین کرام اور علوم اسلامی کے محققین کی خدمت میں کتاب ''خمسون ومائة صحابی مختلق'' کے مباحث کا پہلا حصہ پیش کیا جاتاہے ۔

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم

العسکری

تہران: ٢٤ جمادی الثانی ١٣٩٦ ھ۔

____________________

۱)۔مؤلف کامقالہ''سرگزشت حدیث ''ملاحظہ ہو۔

۲۳

دوسرا حصہ :

کتاب کے مباحث :

٭سیف کو پہچانئے ۔

٭زندیق وزندیقان۔

٭مانی اور اس کا دین ۔

٭مانویوں کے چند نمونے ۔

٭یمانی و نزاری قبیلوں کے درمیان خاندانی تعصبات۔

٭نزار قبیلہ کے بارے میں سیف کا تعصب۔

٭اسلامی مأخذ میں سیف کی احادیث کا نفوذ ۔

٭سیف کی احادیث کے پھیلائو کے اسباب ۔

٭گزشتہ فصلوں کا ایک خلاصہ۔

۲۴

سیف کو پہچانئے

یروی الموضوعات عن الا ثبات

سیف اپنے جعل کردہ جھوٹ کو معروف ومعتبر راویوں سے نسبت دے کر حقیقت کے طور پر نقل کرتا ہے ۔

) علمائے رجال (

اس بحث کے آغاز کا مقصد

١٣٧٥ ہجری میں جب کتاب '' عبد اللہ ابن سبا''پہلی بار چھپ رہی تھی ،میں اس کی شائع شدہ فصلوں کے باقاعدہ مطالعہ کے دور ان متوجہ ہوا کہ ابن سبااور سبائیوں کے افسانہ کے علاوہ اسلامی تاریخ کے مصادر میں اور بھی بہت سی داستانیں اور افسانے شامل کئے گئے ہیں یہی امر اس کا سبب بنا کہ تاریخ اسلام کے ان افسانوں میں ذکر شدہ بیشتر سور ماؤں کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھوں ۔

میں نے کتاب کی طباعت کو طویل عرصہ کے لئے ملتوی کردیا تاکہ اس موضوع کے بارے میں بیشتر تحقیق کروں ۔اس تحقیق وتجسس کانتیجہ یہ نکلا کہ اصحاب ،تابعین سپہ سالاروں ،شعراء اور

۲۵

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے راویوں میں ایسی بہت سی معروف اور تاریخی شخصیتوں کوپایا جن میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔

اسی طرح بہت سی فرضی جگہوں اور سرزمینوں کے ناموں سے بھی سامناہوا کہ افسوس !ان کے نام جغرافیہ کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں ،جب کہ یہ سب خیالی افسانے گڑھنے والوں کی تخلیق تھے اور حقیقت میں ان کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

اس کے علاوہ معلوم ہوا کہ اصل خبروں یاتاریخی واقعات کے سالوں میں بھی خود غرضانہ طور پر تحریفیں کی گئیں ہیں اور انہیں نام نہاد معتبرکتابوں میں درج بھی کیاگیا ہے۔

ہم نے ''کتاب عبداللہ بن سبا''کے مطالب کے ساتھ مجبوراًمذکورہ بحث کو اس کتاب کے ساتھ مربوط کیا اوران افسانوں میں سے بعض کواس میں نقل کیا اور ان میں سے بعض خیالی سور ماؤں کے بارے میں اشارہ پر اکتفا کرتے ہوئے کتاب کو پائے تکمیل تک پہنچادیا اور اسے ''عبداللہ ابن سبا۔مدخل ''یعنی اس تحقیق وبحث کامقدمہ قرار دیا۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد ،میں نے سکون واطمینان کے ساتھ افسانوں کے بارے میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ (قلمی)کتابوں اور نسخوں میں تحقیق وجستجو شروع کی اور اس کام کو اس حد تک جاری رکھا کے کہ خدائے تعالیٰ نے مختلف گروہوں کے افسانوی سور ماؤں کی قابل ذکر تعداد کی شناخت حاصل کرنے میں میری رہنمائی فرمائی ان میں بہت سے فرضی اور نام نہاد اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی نظر آتے ہیں ،یہ ایسے اصحاب اور سورما ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب کے سب ،سیف بن عمر تمیمی وغیرہ جیسے مجرموں کے ہاتھوں ،اسلام اور اسلام کی تاریخ کے ساتھ غداری، حقائق کی پردہ پوشی مسلمانوں کے ذہنوں کو مشوش کرنے ،اسلام کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں مشتعل کرنے کے لئے جعل و تخلیق کئے گئے ہیں ۔

ہم نے تاریخ اسلام پر ہوئے ظلم کے ایک گوشے کو آشکار کرنے اور حقائق و واقعیات کے چہرے سے پردہ اٹھانے کے لئے جعلی اور افسانوی اصحاب کی رونمائی کو دیگر جھوٹے اور فرضی چہروں کی رونمائی پر ترجیح دی ،اور ان میں سے صرف ١٥٠اصحاب پر ہی اکتفا کی اور اس مجموعہ کا نام '' ١٥٠جعلی اصحاب '' رکھا جو آپ کے ہاتھ میں ہے ،جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ کتاب ''عبد اللہ بن سبا '' در حقیقت اس بحث میں داخل ہونے کی ایک دہلیز اور مقدمہ تھا۔

ہم نے کتاب عبد اللہ ابن سبا میں ثابت کردیا ہے کہ ابن سبا کے وجود کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ سیف بن عمر تمیمی کی فرضی تخلیق ہے ۔اس طرح اس کتاب میں بھی قارئین کرام مشاہدہ کریں گے یہ اصحاب سیف بن عمر کے جعل کردہ افسانوی سورما تھے اور ان میں سے ایک بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتاتھا۔

۲۶

سیف بن عمرکون ہے ؟

حقیقت میں یہ سیف کون ہے کہ جس نے اتنے اصحاب اور سورما اور تاریخی واقعات جعل کئے اور گڑھے ہیں ؟اس کے جھوٹ سچائی میں تبدیل ہوگئے ہیں ، افسانے حقیقت میں بدل گئے ہیں اور اس کے مذاق سو فیصدی سنجیدہ مطالب کی صورت میں تاریخ کی معتبر کتابوں میں درج کئے گئے ہیں ؟!

ہمیں افسوس ہے کہ سیف کی کوئی تصویر ہماری دست رس میں نہیں ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اس کی مکمل سوانح حیات بھی دستیاب نہیں ہے جس سے اس کے خاندان ،تربیت کے ماحول اور علمی قابلیت کے بارے میں پتہ چلتا جس کے ذریعہ ہم اس غیر معمولی افسانہ ساز اور جھوٹ گڑھنے والے کی تصویر اپنے ذہن میں مجسم کرتے ۔لیکن اس کے باوجود بعض علما اور دانشوروں کی تألیفات نے اس کی طرز تفکر ،دینی اعتقادات اور دیگر اخلاقی خصوصیات کے بارے میں ہماری راہنمائی کی ہے ۔

کتاب ''عبد اللہ ابن سبا ''میں ہم نے پڑھا کہ علماء نے سیف کی زندگی کے حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ :وہ بغدادی اور دراصل کوفی تھا ،اس کی احادیث اور بیانات کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے بلکہ ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ۔سیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس کی احادیث جھوٹی اور جعلی ہیں ،اور وہ اپنی حدیثوں کا خود اور تنھا راوی ہے بالآخر سیف ایک زندیق (مانوی مذہب کا پیروکار) ہے ۔جس نے'' فتو ح وردہ ''اور'' جمل وعلی وعائشہ کی راہ''نام کی دو کتابیں تألیف کی ہیں ۔ اور کہا گیا ہے کہ سیف ١٧٠ ہجری میں عباسی خلیفہ ھارون رشید کے زمانے میں فوت ہوا ہے ۔ ١

گزشتہ بحث میں درج ذیل مطالب ہمارے مد نظر ہیں :

اول :۔سیف بن عمر در اصل کوفی اور بغداد کا رہنے والاتھا۔

دوم:۔علمائے رجال نے اسے زندیق (مانوی مذہب کاپیروکار ) جاناہے۔

سوم:۔علماء اس بات پر متفق ہیں کہ سیف،احادیث اور داستانوں کوخود جعل کرتاتھا،وہ افسانہ ساز اورجھوٹ گڑھنے والاتھا۔خداکی مددسے اس کتاب کی آیندہ فصلوں کے ضمن میں اس موضوع پر بحث وتحقیق کی جائے گی ۔

چہارم:۔''جمل''و''فتوح''کے نام سے تألیف کی گئی اس کی دو کتابیں تاریخ اسلام کی اہم مصادر قرار پائی ہیں اور ابھی تک ان سے استناد بھی کیا جاتاہے۔

پنجم :۔اس کی تاریخ وفات کو عباسی خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں تقریباً ١٧٠ ہجری ذکر کیاگیا ہے جب کہ درج ذیل موارد سیف بن عمر تمیمی کے عصر کے ادبی نشاط کے مظہر ہیں :

۲۷

احادیث سیف کی پیدائش کازمانہ

درج ذیل موارد سیف کے عصر ِاحادیث کے مظہر ہیں :

اولاً:۔ابو مخنف لوط بن یحییٰ،وفات ١٥٧ھ ،نے سیف بن عمر کی کتاب کے بارے میں اشارہ کرکے اس سے نقل بھی کیا ہے ،اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ سیف کی کتاب ،ابو مخنف کی وفات سے پہلے لوگوں کے در میان پھیل گئی تھی۔(۱)

ثانیاً:۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیف کی احادیث ،بنی امیہ کے سردار وں اور ان کے خاندان کی مدح و ستائش سے مالا مال اور ان کے فضائل و مناقب کے بارے میں عجیب و غریب افسانوں سے پر ہیں ،(جب کہ سیف کی روش کے مطابق ) عباسیوں کے حق میں کسی حدیث کا تقریبا کوئی اثر موجود نہیں ہے یہ موضوع ہمیں یہ قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ سیف کی احادیث کی جعلی سازی کا زمانہ عباسیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے تھا ،کیوں کہ عباسیوں کی خلافت کا دور امویوں کے قتل عام ، ان پر اور ان کے حامیوں پر سختی اور دبائو کا زمانہ تھا ،حتٰی ان کی قبروں کو کھود کر ان کے اجساد کو باہر نکالا جاتا تھا اور ان میں آگ لگائی جاتی تھی ۔ان حالات میں بنی امیہ کے حق میں افسانے اور جھوٹے فضائل گڑھ کر ان کی تبلیغ کرنے یا صحابہ و تابعین کی اہم شخصیتوں میں بنی امیہ کے دشمنوں کے دامن کو داغدار بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

سیف کی احادیث گڑھنے کے زمانہ کو معین کرنے میں درج ذیل داستان ہماری مدد کرتی ہے۔

____________________

۱)۔ شیخ مفید ،وفات ٤١٢ ھ اپنی کتاب '' جمل '' کے صفحہ ٤٧ پر داستان جنگ بصرہ کو ابو مخنف کی کتاب ''حرب البصرہ '' سے یوں نقل کرتے ہیں :

'' سیف بن عمر نے محمد بن عبد اللہ بن سواد اور اعلم کے بیٹے طلحہ اور ابو عثمان (ان سب ) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا ہے : جب عثمان قتل ہوئے ،شہر

مدینہ میں پانچ دن تک '' غافقی '' کے علاوہ کوئی حاکم نہ تھا ....''

طبری نے اسی روایت کو انہی اسناد سے اسی عبارت کے ساتھ اپنی تاریخ کی جلد ٥ صفحہ ١٥٥پر ذکر کیا ہے ،جب کہ ہم جانتے ہیں طبری نے سیف کی احادیث کو اس کی دو کتابوں ''فتوح '' اور ''جمل'' سے نقل کیا ہے ۔

شیخ مفید نے سیف کی ایک اور روایت ،اپنی کتاب کے صفحہ ٤٨پر ابو مخنف سے نقل کی ہے چوں کہ ابو مخنف نے سیف کی باتوں کو اس کانام لے کر اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ،اس لئے یہ واضح ترین دلیل ہے کہ سیف بن عمر کی کتاب ابو مخنف کی وفات ( ١٥٧ھ) سے پہلے لوگوں کے درمیان موجود تھی''

۲۸

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرتے ہوئے ٢ ٢ ھ کے حوادث کے ضمن میں ساسانیوں کے آخری فرماں روا یزد گرد کے خراسان کی طرف اس کے سفر کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جنگ جلولا ء میں ایرانیوں کے شکست کھانے کے بعد یزد گرد نے رے کی طرف پسپائی اختیار کی ۔اس پسپائی کے دوران وہ اونٹ کی پشت محمل میں ہی چھپارہتا تھا اور نیچے نہیں اترتا تھا ، حتی وہیں پرسوتا تھا، کیونکہ اس کے سپاہی خطرات سے بچنے کے لئے کسی جگہ پر رات کو بھی توقت نہیں کرتے تھے۔اس دوران اس کے سپاہی ایک جگہ پانی کے کنارے پر پہنچے اور جاہتے تھے اونٹ کو لے کر پانی سے گزرجائیں .لیکن اس خوف سے کہ اونٹ کے ہلنے سے یزدگرد بیدار ہوکر ان پر برہم ہوجائے گا اور انھیں سزا دے گا .انہوں نے مجبوراًاسے نیندسے بیدار کیا، تا کہ وہ حالات سے آگاہ ہوجائے.یزد گرد بیدار ہوا اور ان پر بگڑپڑا اور کہنے لگا: تم لوگوں نے بہت برا کام کیا ! خدا کی قسم اگر مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو مجھے معلوم ہوجاتا کہ اس امت کی سربلندی کا ستارہ کب ڈوبنے والا ہے۔ کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ صلاح مشورہ کررہے ہیں خدا کہتا تھا: اس امت کو ایک سو سال کی فرصت دیتا ہوں ۔محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اس سے زیادہ! خدا نے کہا: ایک سودس سال، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر کہا:اور بھی، خدا نے کہا: ایک سوبیس سال ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: خود جانئے !اسی وقت تم لوگوں نے مجھے بیدار کردیا۔اگر ایسا نہ کرتے تو میں سمجھ جاتا کہ اس امت کی مدت کتنی ہے۔٢

اب ہم دقت کے ساتھ اس حدیث کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں :

سیف کہتا ہے کہ یزد گرد نے ''اﷲ'' کی قسم کھائی ، جبکہ یزد گرد زرتشی اور دوگانہ پرست تھا۔مجوسی لفظ ''اﷲ'' جو عربی ہے کو نہیں جانتے اور اس کی قسم نہیں کھاتے .بلکہ ان کا ایمان ''اہورامزدا'' پر ہے اور وہ آتش مقدس ، سورج اور چاند کی قسم کھاتے ہیں ۔ اللہ کی قسم کھانا مسلمانوں کی خصوصیت ہے کہ سیف نے ان ہی میں پرورش پائی تھی اور ان سے خوپیدا کرچکا تھا. اس لئے یزدگرد کی قسم میں اس نے اللہ کے نام کی نسبت دی ہے.

۲۹

یزدگرد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سچا نہیں جانتا تھا اور انھیں اس قابل نہیں جانتا تھا کہ انصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا کے ساتھ صلاح و مشورہ کے لئے بیٹھے.حقیقت میں یہ حدیث سیف کے اسلامی ماحول ، اس کے تخیلات کے طرز اور اس کے اپنے فکر و ذہن میں تخلیق کئے گئے اسلام کی عکاسی ہے.کیونکہ مسلمان تو اپنے دین کے قیامت تک باقی رہنے کا ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں اور سیف اسلام کی بقا کی ایک حد مقرر کرتا ہے اور اپنی دلی تمنا کو کسریٰ کی زبانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ''اگر مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس امت کی مدت کتنی ہے''۔!!

شائد وہ امت اسلامیہ کی نابودی کو''مانویوں '' کی فعالیت کے سائے میں دیکھتا تھا ، جن کے بارے میں خود بھی بخوبی آگاہ تھا کہ وہ اسلام کی بنیادوں کو نابود کرنے کی کس قدر کوشش کر رہے ہیں ۔ خود سیف بھی ان ہی میں سے ایک اور ان کا حامی تھا یا ملک روم و غیرہ جیسی بیرونی جنگوں سے اُمید باندھے ہوئے اپنی آرزو کی تکمیل کا منتظر تھا۔

بہر حال سیف اسلام کی بقا و پایداری نہیں چاہتا تھا اور اسے اطمینان تھا کہ اس مدت سے زیادہ جسے خود اس نے محسوس کیا وہی اس کااپنا زمانہ بھی تھا سے زیادہ (اسلام ) باقی و پائیدار نہیں رہے گا. اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے ساتھ سہ رکنی جلسہ میں ١٢٠سال کی حد بندی زمانہ کے اعتبار سے اس حدیث کی جعل سازی کی مظہر ہے۔

خلاصہ یہ کہ:

ابو مخنف (وفات:١٥٧ھ)نے سیف سے روایت نقل کی ہے اور اس مطلب کی تائید کرتا ہے کہ سیف اس تاریخ (١٥٧ھ) سے پہلے زندہ اور سرگرمِ عمل تھا۔

عباسیوں کے ذکر کے بجائے خاندان بنی امیہ کی عظمت و منزلت کی مدح و ستائش کرنا اور اُن کی طرفداری کا دم بھرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احادیث عباسی خلفاء کے اقتدارمیں آنے سے پہلے جعل کی گئی ہیں ۔ کیونکہ خلفائے بنی عباس کے زمانے میں امویوں کا اجتماعی طور پرقتل عام کیا جاتا تھا اور ان کے حامیوں کا تعاقب کرکے انھیں اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں ۔

۳۰

نتیجہ :

گزشتہ مطالب کے پیش نظر،مجموعی طور پر یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ سیف کے چھوٹ اور افسانے گڑھنے کی سرگرمیوں اور نشاط کا زمانہ دوسری صدی ہجری کے آغاز کا دور تھا، اور سیف کی وفات کو ١٧٠ ھ کے بعد ذکر کرنے والے تنہا شخص ،''مزی ''کا قول اور ذہبی کا اس کی تاریخ وفات کو ہارون رشید کا زمانہ بیان کرنا ، اس حقیقت کو رد نہیں کرتا ۔ کیونکہ اگر مزی اور ذہبی کا کہنا صحیح ہوتو ، سیف اپنی کتابوں کی تألیف کے بعد چالیس سے پچاس سال تک زندہ رہاہے.

ان حقائق کے پیش نظر کہ سیف کی تالیفات کا دور دوسری صدی ہجری کے ابتدائی ایک چوتھائی زمانہ سے مربوط تھا، اور یہ کہ وہ قبیلہ مضر کے خاندان تمیم سے تعلق رکھتا تھا۔ کوفہ کا رہنے والاتھا اور اس کا اصلی وطن عراق تھا، اس کی شخصیت کی بنیادوں ، اس کے عزائم اور اس کے حیرت انگیز افسانوں کی تخلیق و ایجا د کے عوامل و اسباب کے بارے میں تحقیق و مطالعہ آسان بنادیتا ہے.

سیف کے زمانہ کی خصوصیت:

سیف کا عصر ، ایسا زمانہ تھا جس میں تمام اسلامی شہروں میں قبیلہ پرستی، خاندانی تعصبات ، ان کے آثار کا تحفظ اور ان پر فخر و مباہات کرنا شد و مد کے ساتھ رائج تھا ۔یہ وہ مطلب ہے جس پر ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے ۔

اس بیہودہ تعصب کے علاوہ سیف کا وطن (عراق) خاص طور پر مانویوں زندیقیوں کے پھلنے پھولنے اور ان کی خود نمائی کی آماجگاہ تھا۔

اس لئے اگر ہم سیف کی افسانہ سازی کے اصل محرک کی شناسائی کرنا چاہیں تو ہم مذکورہ بالا دو موضوع کے بارے میں خصوصی طور پر الگ الگ بحث و تحقیق پر مجبور ہیں ۔

ہم اس بحث کو پہلے ''زندیق'' اور ''زندقہ'' کی تعریف سے شروع کرتے ہیں ،کیوں کہ سیف کی جائے پیدائش میں اس مذہب کے اعتقاد کے بھر پور پھیلائو اور رواج کے علاوہ خود سیف بھی اس سے جدا نہ تھا ۔خاص طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ علماء اور دانشوروں نے اپنی تالیفات میں سیف کا زندیق کے عنوان سے تعارف کرایا ہے اور یہ امر بذات خود اس کے تمام افسانے ،اصحاب

۳۱

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بہادروں کے جعل کرنے کے محرکات کی کافی حد تک توجیہ کر سکتا ہے ۔

زندیق اور زندیقان

المقصود من الزنادقة هم اتباع مانی

زندیقیوں سے مراد ''مانی '' کی پیروی کرنے والے ہیں ۔

) متن کتاب (

لفظ زندیق کی بنیاد :

لفظ ''زندیق '' کی بنیاد ،فارسی ہے ،مسعودی کہتا ہے :

''زردشت'' نے اپنی کتاب کا نام '' اوستا'' رکھا اور اس کی ایک تفسیر لکھی ،جو ''زند'' کے نام سے مشہور ہے ۔اس لئے اگر کوئی ان کے مذہب کے اصول کے خلاف کچھ بیان کرے یا اصل کی تفسیر کرے تو ایرانی اسے ''زندی'' کہتے ہیں ،یعنی وہ جس نے ظاہر کتاب اور تنزیل کے خلاف اس کی تفسیر پر اکتفا کی ہو ۔اسی وجہ سے ''مانی '' جس نے بہرام کی بادشاہی ( ٢٤٠ ٢٧٧ع)کے دوران ظہور کیا تھا اور ایک جماعت نے اس کی پیروی کی تھی ،وہ لوگ ''زندی '' یا منحرف کے نام سے مشہور ہوئے ۔'' ١

عربوں نے لفظ ''زندی'' کو اپنی زبان میں منتقل کرکے اسے ''زندیق'' پڑھا اور یہ لفظ ''زندیق '' ''مانی'' کے پیرئوں کے لئے اسم علم بن گیا ،جنھیں ''زنادقہ'' کہتے ہیں ۔

ایک مستشرق کہتا ہے:

''لفظ ''زندیق '' اصل میں ''صدیق'' ٢ تھا ،جو صدیقین کا واحد ہے ،یہ مانویوں کا ایک فرقہ ہے لفظ ''صدیق'' فارسی میں '' زندیک '' تبدیل ہوا اور دوبارہ عربی میں منتقل ہو کر ''زندیق'' بن گیاہے'' ٣

۳۲

ہم اصلی لفظ فارسی ''زندیق ''کے سلسلے میں محققین کے نظریات کے بارے میں اسی پر اکتفا کرتے ہیں :

عربی زبان میں ''زندیق''

عربی زبان میں ''مانی '' کے پیرئوں کو ''زندیق'' کہا جاتا تھا ۔یہ لوگ دنیا کو ازلی طور پر نورو ظلمت پر مبنی جانتے تھے ،اسی لئے ان کو دوگانہ پرست بھی کہا جاتا تھا ۔

اس کے بعد یہ نام مادہ پرستوں کے لئے اطلاق ہوا جو خدا ،پیغمبر وں اور آسمانی کتابوں کے منکر ہیں اور دنیا کے ابدی ہونے کے معتقد ہیں اور آخر ت و عالم ماورائے طبیعت کے منکر ہیں ۔

اس کے بعد یہ نام ان لوگوں پر اطلاق ہوا جو اصول دین میں سے کسی ایک کے منکر ہوں یا ایسا اظہار نظر کریں جس کے نتیجہ میں اصول عقائد میں سے کسی ایک کے منکر ہونے کا سبب بنے ۔ ٤

اس کے بعد یہ لفظ اپنی جہت بدل کر ہر اس شخص پر اطلاق ہونے لگا جو مذہب اہل سنت کا مخالف ہو ۔ بالاخر یہ لفظ ہر اس بیہودہ گو ،بے شرم و بے حیا شاعر کے لئے کہا جانے لگا جو بلا لحاظ معشوق کا دم بھرتا ہے یا اسی قسم کے ہر قلمکار یا اس کے طرفداروں پر اطلاق ہونے لگا۔(۱)

____________________

۱)۔اسی طرح دائرة معارف اسلامی میں ''زیدیقان'' کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ اور نظریات موجود ہیں کہ ہم ان کو

۳۳

دربار خلافت میں ''زندیق '' کی تعریف :

شائد ''زندیقیوں '' کے بارے میں کی گئی قدیمی ترین اور سرکاری تعریف وہ ہے جو عباسی خلیفہ مھدی نے اپنے بیٹے اور ولی عہد موسیٰ کے نام درج ذیل وصیت نامہ میں بیان کی ہے ۔

ایک زندیق کو عباسی خلیفہ مھدی کے حضور لایا گیا خلیفہ نے اس سے توبہ کرنے کو کہا ۔چوں کہ اس زندیق نے خلیفہ کی بات ماننے سے انکار کیا لہٰذا خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کا سر تن سے جدا کر کے جنازہ کوسولی پر لٹکا دیا جائے اس واقعہ کے بعد خلیفہ نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا:

'' اے فرزند !اگر میرے بعد تمھیں خلافت ملی تو صرف زندیقیوں پر توجہ دینا کیوں کہ یہ گروہ لوگوں کی توجہ کو بعض ظاہر ی خوشنما اور اچھے لیکن دل فریب امور ،جیسے دنیا سے کنارہ کشی اور آخرت کی طرف رغبت کی دعوت دیتے ہیں ،حتٰی لوگوں کو اس بات کا معتقد بناتے ہیں کہ گوشت کو حرام جانیں اور پاک پانی کو نہ چھوئیں ،کیڑوں کو مارنا حرام جانیں بالاخر وہ لوگوں کو دوگانہ پرستی پر مجبور کرتے ہیں ۔اس طرح نو و ظلمت کی پرستش کرتے ہیں اور ان حالات میں اپنے محارم ،جیسے بہن اور بیٹیوں سے ازدواج کرنا جائز سمجھتے ہیں ،اپنے آپ کو پیشاب سے دھوتے ہیں اور بچوں کو اس لئے راستے سے چرالیتے ہیں تاکہ ابلیس کی ظلمت سے نجات دے کر انھیں نور و روشنی کی طرف راہنمائی کریں ۔

جب میرے بعد خلیفہ بن جائو تو کسی ترحم کے بغیر ان کو پھانسی پر لٹکا نا اور انھیں تہ تیغ

____________________

صحیح نہیں سمجھتے ہیں از جملہ '' زندقہ '' عربی شکل میں ''زند گر '' یا ''زندہ گر'' ہے یعنی ا صل ا بدیت کے اعتقادات کی وضاحت کرنے والا یا ''زندہ کرد'' دین کا مجدد اور اس کا احیا کرنے والا یا '' زن دین'' کا معرب یعنی عورتوں کے دین کا مظہر ہے یا ''زندیک '' کتاب ''زندمزدک '' کے پیرئوں کی علامت ہے کہ ان کا دین ،دین ''مانی '' کا مشتق ہے ۔

۳۴

کرنا،اور ان کو قتل کرکے خداے یکتا کا تقرب حاصل کرنا ،کیوں کہ میں نے تمھارے جد عباس کو خواب میں دیکھا کہ انھوں نے مجھے دو تلوار یں حمائل کیں اور ان دو گانہ پرستوں کے قتل کا حکم دیا ''

جب موسیٰ اپنے باپ کے بعد خلیفہ بنا تو اس نے اپنے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کی ٹھان لی وہ اسی کام کو انجام دینے میں مصروف تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دسویں ماہ میں کہا : '' خدا کی قسم اگر میں زندہ رہا تو تمام زندیقیوں کو تہ تیغ کردوں گا اور ان میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گا''

کہتے ہیں کہ موسیٰ نے حکم دیا تھا کہ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک ہزار پھانسی کے پھندے تیار کئے جائیں تاکہ پہلے سے مقرر کردہ وقت پر ایک ہزار زندیقیوں کو پھانسی پر لٹکا دے ۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ اپنے اس منصوبہ پر عمل کرے اس دنیا سے چلا گیا۔(۱)

طبری نے عباسی خلیفہ مھدی کی وصیت کے ایک اور مورد کا ذکر یوں کیا ہے:

''جب دائود ابن علی عباسی اور خاندان حارث ابن عبد المطلب کے یعقوب(۲) ابن فضل حارثی کو اس (مھدی) کے پاس حاضر کیا گیا اور ان دونوں نے زندیقی ہونے کا اعتراف کیا ۔ یعقوب نے کہا میں خلوت میں آپ کے سامنے زندیقی ہونے کا اعتراف کروں گا ،لیکن لوگوں کے سامنے کسی بھی صورت میں ''مانوی'' ہونے کا اعتراف نہیں کروں گا ،چاہے مجھے آپ قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالیں ۔ مہدی نے یعقوب کے جواب میں کہا : افسوس ہے تم پر !اگر آسمانوں کے پردے ہٹا دیئے جاتے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ''دین مانی'' حق ہے اور کسی قسم کا شک و شبہ بھی تمھارے لئے باقی نہ رہتا جب بھی تمھارے لئے سزاوار تھا کہ

____________________

۱)۔ کیا خلیفہ کے قتل میں زندیقیوں کا ہاتھ تھا ؟

۲)۔دائود اور یعقوب دونوں خاندان بنی ہاشم سے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچازاد ے تھے۔

۳۵

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تعصب نہ رکھتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرفدار ی کو نہ چھوڑتے !اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ ہوتے تو آج تمھاری حیثیت کیا ہوتی ؟کیا ایسا نہیں ہے کہ اس صورت میں تم سادہ اور عام لوگوں میں سے ایک معمولی فردشمار ہوتے ؟ خدا کی قسم اگر میں نے اپنے خدا سے یہ عہد نہ کیا ہوتا کہ اگر مجھے خلافت عطا ہوئی تو بنی ہاشم میں سے کسی ایک کے بھی خون سے اپنے ہاتھ آلودہ نہ کروں گا ،تو تمھیں ایک لمحہ کے لئے بھی زندہ نہ رہنے دیتا! اس کے بعد اپنے ولی عہدموسیٰ سے مخاطب ہوکر کہا: اے فرزند !تجھے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو میرا تیرے اوپر ہے ،اگر میرے بعد خلافت پر پہنچے تو ان دونوں کو ایک لمحہ بھی زندہ نہ رکھنا!

دائود نے مہدی کے زندان میں وفات پائی ۔جب موسیٰ اپنے باپ کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے اپنے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کا حکم جاری کیا ۔اس کے بعد یعقوب پر ایک فرش ڈالا گیا اور لوگوں کی ایک جماعت اس پر بیٹھ گئی ۔اسی حالت میں اس نے دم توڑا ۔

یعقوب کی بیوی اور بیٹی نے بھی زندیقی ہونے کا اعتراف کیا ۔اس کی بیٹی حاملہ تھی اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے باپ سے حاملہ ہوئی تھی !عباسی خلیفہ موسیٰ کے حکم سے ان کے سر پر ایک ایسی چیز ماری گئی کہ خوف و وحشت سے دونوں نے جان دے دی۔ '' ٥

١٦٣ ہجری میں جب عباسی خلیفہ مہدی رومیوں سے موسم گرما کی جنگ کے لئے موصل کے اطراف میں رابق کے مقام پر پہنچاتو اس نے عبد الجبار محتسب کو اس علاقہ کے مانویوں کو گرفتار کرنے پر مامور کیا عبد الجبار نے اس حکم کی تعمیل میں ان میں سے بعض کو قتل کر ڈالا اور بعض کو پھانسی پر لٹکا دیا اور ان کی کتابوں کو چاقو سے پارہ پارہ کر دیا۔ ٦

۳۶

طبری نے ان مطالب کے ذکر کے بعد ١٦٨ ہجری کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے :

''اس سال خلیفہ کی طرف سے زندیقیوں کو تلاش کرکے انھیں گرفتار کرنے پر خاص مامور عمر کلوازی نے وفات پائی اور حمدویہ ،یعنی میسان کارہنے والا محمد بن عیسیٰ اس کا جانشین مقرر ہوا ۔اور اسی سال عباسی خلیفہ مہدی نے بغداد میں زندیقیوں کا قتل عام کیا'' ٧

زندیقی کون تھے ؟

مسعودی ،مروج الذہب میں عباسی خلیفہ ،مامون کی تاریخ میں لکھتا ہے :

'' بصرہ کے بعض زندیقیوں کی خبر مامون کو پہنچی ۔اس نے حکم دیا کہ ان سب کو پکڑ کر مقدمہ چلانے اور سزا سنا نے کے لئے اس کے پاس حاضر کیا جائے بصرہ میں مانویوں کی پکڑ دھکڑ شدت سے شروع ہوئی ،ان کو گروہ کی صورت میں پکڑ کر بغداد روانہ کیا جاتا تھا۔

ان کو پکڑنے کے بعد جس دن بغداد روانہ کرنے کے لئے ایک جگہ جمع کیا گیا تھا ایک طفیلی انھیں اس حالت میں دیکھ کر اس خیال سے کہ یہ لوگ کہیں دعوت پر جا رہے ہیں چپکے سے ان کے ساتھ جا ملا جب مامور ین انھیں دریا کے کنارے ایک کشتی کی طرف لے گئے تو مفت خور نے خیال کیا کہ اس دعوت کے ساتھ سیرو سیاحت بھی ہے ۔ وہ خوشی خوشی ان کے ساتھ کشتی پر سوار ہو گیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد طوق و زنجیر باندھنے کا سلسلہ جاری ہوا اور زندیقیوں کو ایک ایک کرکے زنجیر وں سے باندھا گیا ان کے ساتھ طفیلی کو بھی باندھا گیا اس وقت وہ مفت خور سوجنے لگا کہ یہ کیا ہوا کہ ولیمہ کے بجائے مجھے طوق و زنجیر کا سامنا کرنا پڑا؟اس نے پریشانی اور اضطراب کی حالت میں اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر پوچھا : آخر مجھے بتائو کہ تم لوگ کون ہو؟ انھوں نے جواب میں کہا: تم کون ہو کیا تم ہم میں سے نہیں ہو ؟! اس نے کہا : خدا کی قسم میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ میں ایک مفت خور اور طفیلی ہوں ۔آج جب گھر سے باہر آیاتو تم لوگوں کودیکھ کریہ خیال کیا کہ تمھیں کسی ولیمہ کے لئے جمع کیا گیا ہے اس لئے میں تم لوگوں کے ساتھ ملحق ہو گیا ۔جب کشتی پر سوار ہوئے تو خیال کیا کہ شائد کہیں سیر و سیاحت کے لئے کسی باغ میں لئے جا رہے ہیں اور میں اپنے لئے ایک مبارک دن تصور کر کے بہت خوش ہوا ،لیکن یہ سپاہی آگئے اور مجھے تم لوگوں کے ساتھ طوق و زنجیر سے باندھ دیا ،آخر مجھے بتائو کہ یہ ماجرا کیاہے؟

۳۷

زندیقی یہ سن کر اس پر ہنس پڑے اور کہا : اب جب کہ تم ہمارے ساتھ آگئے ہو اور آہنی طوق و زنجیر میں ہمارے ساتھ باندھے گئے ہو تو جان لو کہ ہم ''مانوی '' ہیں ،مخبروں نے ہمارے بارے میں خلیفہ مامون کو خبر دے دی ہے ۔اس وقت ہمیں اس کے پاس لے جایا جا رہا ہے ۔جب ہم اس کے پاس پہنچائے جائیں گے ،خلیفہ ہم سے سوال کرے گا اور ہمارے مذہب کے بارے میں پوچھ تاچھ کرے گا ۔اس کے بعد ہمارا امتحان اس صورت میں لے گا کہ ''مانی'' کی تصویر ہمارے سامنے رکھی جائے گی تاکہ ہم اس پر تھوکیں اور اس سے نفرت و بیزاری کا اظہار کریں ۔اس کے بعد ہمیں حکم دے گا کہ ایک خاص پرندہ(۱) کا سر قلم کریں ۔جو بھی اطاعت کرکے اس کے حکم کی تعمیل کرے گا وہ نجات پائے گا اور خلیفہ اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا ۔لیکن

____________________

ا۔ عربی میں ''طائر ماء الدرج'' آیا ہے اور معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کون سا پرندہ ہے۔

۳۸

جو اس کے حکم کی تعمیل نہ کرے گا اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے دین پر باقی رہنا چاہے گا اسے جلاد کے حوالے کر دیا جائے گا۔

لہٰذا ہم سے یہ بات سن لو کہ جب تمھاری باری آئے اور تم سے امتحان لینا چاہیں تو تم شروع میں ہی اپنے عقیدہ و دین کے بارے میں صاف صاف انھیں بتا دینا اس طرح تم یقینا نجات پائو گے !لیکن چوں کہ اس سفر میں تم ہمارے ساتھ مل گئے ہو اور تم نے کہا کہ ایک طفیلی ہو سنا ہے کہ طفیلیوں کے قصے دلچسپ ہوتے ہیں ،لہٰذا اس سفر میں ہمیں مفت خوروں کے چند قصے سنائو !

اسیروں کو بغداد پہنچا کر خلیفہ مامون کے دربار میں حاضر کیا گیا ۔ مامون نے نام لے کر ایک ایک کرکے انھیں بلایا ان کے مذہب کے بارے میں ان سے سوال کیا ۔ جواب میں وہ کہتے تھے ہم مسلمان ہیں ۔اس کے بعد انھیں ''مانی '' کے بارے میں نفرت و بیزاری کا اظہار کرکے اس کی تصویر پر تھوکنے کو کہا جاتا تھا اور اس طرح ان

۳۹

کا امتحان لیا جاتا تھا ۔جب وہ ایسا کرنے سے انکار کرتے تھے تو انھیں جلاد کے حوالے کر دیا جاتا تھا ۔ آخر طفیلی کی باری آگئی فہرست کے مطابق زندیقیوں میں سے کوئی باقی نہ بچا تھا ۔مامون نے نگہبانوں سے اس کے بارے میں پوچھا ۔انھوں نے جواب میں کہا : ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے کہ ہم نے اسے ان کے ساتھ پایا ،اور آپ کی خدمت میں لے آئے ۔خلیفہ نے طفیلی سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ بات کیا ہے ؟اس نے جواب میں کہا:اے امیر المومنین !اگر میں ان کے بارے میں کچھ جانتاہوتاتو میری بیوی مجھ پر حرام ہو!(۱) میں ایک طفیلی اور مفت خورہوں

____________________

۱)۔ اہل سنت میں قسموں میں سے ایک قسم بیوی کی طلاق کی قسم ہوتی ہے کہ اگر اس نے جھوٹی قسم کھائی ہوتو اس کی بیوی مطلقہ ہوجاتی ہے۔طفیلی نے خلیفہ کے حضور میں بیوی کی طلاق کی قسم کھائی تھی۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بايعوهم عليه ، فلم يكن للشّاهد أن يختار و لا للغائب أن يردّ ، و إنّما الشورى للمهاجرين والانصار، فإن اجتمعوا على رجل سمّوه إماماً كان ذلك لله رضي'' (۱)

جن لوگوں نے ابوبكر ، عمر اور عثمان كى بيعت كى تھى انہى لوگوں نے انہى شرائط پر ميرى بھى بيعت كى ہے لہذا جو بيعت كے وقت حاضرتھا اسے نئے انتخاب كا اختيار نہيں اور جو غائب تھا اسے ردّ كرنے كا حق حاصل نہيں يقينا شورى مہاجرين اور انصار كيلئے ہے پس اگر وہ كسى شخص پر متفق ہو جائيں اور اسے امام منتخب كرليں تو خدا اس پر راضى ہے _

ايك اور مقام پر فرمايا :

''و لعمرى لئن كانت الإمامة لا تنعقد حتّى يحضرها عامّة الناس فما إلى ذلك سبيل، و لكن أهلها يحكمون على من غاب عنها ثمّ ليس للشّاهد أن يرجع و لا للغائب أن يختار'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر امامت كے انتخاب كيلئے تما م لوگوں كا حاضر ہونا شرط ہوتا تو امام كا انتخاب كبھى بھى نہ ہوتا ليكن اہل حل و عقد غائب افراد پر حجت ہوتے ہيں پھر حاضر كيلئے پلٹنے كا اختيار نہيں اور غائب كو نئے انتخاب كا حق حاصل نہيں _

____________________

۱) نہج البلاغہ ، مكتوب ۶ _

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۷۳_

۱۲۱

شيخ مفيد كہتے ہيں :جب عبدالله ابن عمر، سعد ابن ابى وقاص ، محمد بن مسلمہ ، حسان ابن ثابت اور اسامہ ابن زيد نے حضرت على كى بيعت سے انكار كيا ، تو آپ نے خطبہ ديتے ہوئے فرمايا :

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويع عليه من كان قبلي، و إنّما الخيار إلى الناس قبل أنْ يبايعوا ، فإذا بايَعوا فلا خيار لهم، وإنّ على الإمام الاستقامة، و على الرعية التسليم و هذه بيعة عامّة و من رغب عنها رغب عن دين الاسلام ، و اتّبع غير سبيل أهله ...''(۱)

اے لوگوں تم نے انہى شرائط پر ميرى بيعت كى ہے كہ جن شرائط پر مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھي_ لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار حاصل ہے ليكن جب وہ بيعت كرليں تو پھر اختيار نہيں ہے _ امام كيلئے استقامت و پائيدارى اور رعيت كيلئے اطاعت اور پيروى ہے _ يہ بيعت عامہ ہے جس نے اس سے روگردانى كى اس نے دين سے منہ پھيرا اور اہل دين كے راستہ سے ہٹ گيا

قتل عثمان كے بعد جب لوگوں نے بيعت كرنا چاہى اور خلافت كى درخواست كى توآپ (ع) نے فرمايا :

بيعت تمھارے ساتھ مربوط نہيں ہے بيعت كا تعلق اصحاب بدر سے ہے جسے وہ خليفہ منتخب كرليں وہى مسلمانوں كا خليفہ ہوگا _(۲)

____________________

۱) ارشاد جلد ۱، صفحہ ۲۴۳ _ نہج البلاغہ مكتوب ۶ _

۲) ا نساب الاشراف، بلاذرى جلد۴، صفحہ ۵۵۹_

۱۲۲

اس قسم كى روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ خليفة المسلمين كے انتخاب كا اختيار مسلمانوں كے ہاتھ ميں ہے وہ افراد جو انتخاب كى صلاحيت ركھتے ہيں اور'' اہل حل و عقد'' شمار ہوتے ہيں، اگر كسى كى بيعت كرليںتو وہى مسلمانوں كا امام اور خليفہ ہے اور اس كى اطاعت واجب ہے اور دوسروں كو اس كى مخالفت كا حق حاصل نہيں ہے _ آخرى روايت صريحاً جبكہ بعض ديگر روايات ظاہرى طور پر يہ كہہ رہى ہے كہ حاكم اور خليفة المسلمين كے تعيّن ميں تمام افراد كى رائے اور بيعت كى اہميت ايك جيسى نہيں ہے بلكہ ايمان، جہاد اور شہادت ميں سبقت حاصل كرنے والے اس انتخاب كى اہليت ركھتے ہيں _ بہر حال يہ روايات صراحتاً اس قول كے متضاد ہيں كہ امام '' منصوب من الله '' ہوتا ہے _ كيونكہ ان روايات سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ امت كى سياسى ولايت انتخابى ہے اور اس كے انتخاب كا حق امت كے اہل حل و عقد كو حاصل ہے _ (۱)

صدور روايات كا زمانہ اور ماحول:

سوائے ان مختصر كلمات كے جو بيعت سقيفہ اور حضرت عمر كى مقرر كردہ چھ نفرى شورى كے متعلق ہيں _ بيعت اور شورى كے متعلق حضرت على سے جو اقوال منقول ہيں آپ كى خلافت كے مختصر عرصہ اور لوگوں كے بيعت كرنے كے بعد صادر ہوئے ہيں _

بيعت اور شورى كے متعلق اپنى خلافت كے دوران آپ نے جو بيانات ديئے ہيں انہيں تين حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے _ ان ميں سے بعض اپنى بيعت كى توصيف اور وضاحت كے بارے ميں ہيں اور يہ كہ كونسى شرائط پر بيعت ہوئي اور پہلے تين خلفاء كى بيعت كى نسبت يہ بيعت كونسى خصوصيات كى حامل تھى _ نمونہ

____________________

۱) مذكورہ بحث ان روايات كى سند كى تحقيق سے صرف نظر كرتے ہوئے اور انہيں صحيح فرض كرتے ہوئے كى جارہى ہے_ وگرنہ اگر روايات كے مصادر پر غور كيا جائے تو اكثر روايات سند كے اعتبار سےضعيف ہيں_

۱۲۳

كے طور پرہم اس قسم كے بعض بيانات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _ حضرت اميرالمؤمنين فرماتے ہيں:

''بايَعَنى الناس غَير مُستكرهين و لا مُجبرين ، بل طائعين مُخيَّرين'' (۱)

لوگوں نے ميرى بيعت اكراہ اور مجبورى كے عالم ميں نہيں كى بلكہ رضا و رغبت كے ساتھ كى ہے _

مزيد فرماتے ہيں:

''لم تكن بيعتكم ايّاى فَلتة ، و ليس أمرى و أمركم واحد، إنّى أريدكم لله و أنتم تريدوننى لانفسكم'' (۳)

تمھارا ميرى بيعت كرنا اچانك پيش آنے والا واقعہ نہيں تھا، اور ميرا اور تمھارا معاملہ بھى ايك جيسا نہيں ہے ، ميں تمھيں خدا كيلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے لئے چاہتے ہو _

جب بعض افراد نے بيعت پر اصرار كيا تو آپ (ع) نے انہيں فرمايا: ميرى بيعت مخفى طور پر نہيں ہونى چاہيے_

''ففى المسجد، فإنّ بيعتى لا تكون خفيّاً و لا تكون إلاّ عن رضا المسلمين '' (۳)

ميرى بيعت مسجد ميں ہوگى مخفى نہيں ہوگى بلكہ تمام مسلمانوں كى رضا مندى سے ہوگى _

____________________

۱) نہج البلاغہ مكتوب ۱_

۲) نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۳۶_

۳) تاريخ طبرى ج ۴ ، ص۴۲۷_

۱۲۴

اس قسم كى روايات ہمارى بحث سے خارج ہيں جو حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى كيفيت كو بيان كرتى ہيں _

دوسرى قسم كے بيانات وہ ہيں جو آپ نے بيعت نہ كرنے والے عبدالله ابن عمر ، اسامہ ابن زيد اور سعد ابن ابى وقاص اور بيعت توڑنے والے طلحہ و زبير جيسے افراد كو مخاطب كر كے فرمائے ہيں _

حضرت اميرالمؤمنين سے منقول اس قسم كى روايات دونكتوں پر اصرار كرتى ہيں پہلا نكتہ يہ ہے كہ جن افراد نے رضا و رغبت كے ساتھ بيعت كى ہے ان پراطاعت واجب ہے دوسرا يہ كہ لوگوں كا آپ كى بيعت كرنا بيعت عمومى اور اختيارى تھى لہذا بيعت توڑنے اور نہ كرنے والے پيمان شكن اور مسلمانوں كى مخالفت كرنے والے شمار ہوں گے _

تيسرى قسم كے كلمات جو كہ سب سے اہم ہيں، وہ ہيں جو معاويہ اور اہل شام كے دعووں كے مقابلے ميں بيان كئے گئے ہيں _ انہوں نے حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كے صحيح ہونے پر اعتراض كيا تھا اور ان كا كہنا تھا كہ معاويہ ، عمرو ابن عاص اور دوسرے قريش شام كا خليفہ كو منتخب كرنے والى شورى ميں شامل نہ ہونا آپ كى خلافت كو غير معتبر قرار ديتا ہيں _آپ (ع) سے صادر ہونے والے بہت سے كلمات كا تعلق اسى تيسرى قسم سے ہے _آنے والے سبق ميں ہم ان كلمات كا تجزيہ و تحليل اور يہ بحث كريں گے كہ كيا يہ كلمات سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كى تائيد كرتے ہيں يا نہيں _

۱۲۵

خلاصہ:

۱) بعض لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں كہ بعض روايات كى رو سے سياسى ولايت كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى پر اعتبار كيا جاسكتاہے_بنابريں زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت خود لوگوں كے سپرد كى گئي ہے اور انتصابى نہيں ہے_

۲) بيعت ايك ايسا عہد و پيمان ہے جو ظہور اسلام سے پہلے موجود تھا اور رسول خدا (ص) نے اس كى تائيد فرمائي ہے_

۳)بيعت كى مختلف قسميں ہيںلہذا يہ صرف ''سياسى ولايت'' كے انتخاب ميں منحصر نہيں ہے_

۴) اسلامى معاشرہ كے حاكم كى تعيين كيلئے بيعت اور شورى كے معتبر ہونے كے سلسلہ ميں حضرت اميرالمؤمنين سے روايات نقل ہوئي ہيں_

۵) يہ روايات كچھ خاص سياسى حالات كے پيش نظر صادر ہوئي ہيں _ اور يہ روايات ان لوگوں كے مقابلہ ميں بيعت اور شورى كى تائيد كرتى ہيں جنہوں نے حضرت امير المؤمنين كى بيعت پر اعتراض كيا تھا يابيعت سے انكار كيا تھا يا طلحہ و زبير كى طرح بيعت شكنى كى تھي_

۱۲۶

سوالات

۱) وہ افراد جو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كو انتخابى سمجھتے ہيں ان كى دليل كيا ہے ؟

۲) بيعت كيا ہے اور اس كى كتنى قسميں ہيں ؟

۳) كيا ''بيعت رضوان'' رسول خدا (ص) كو سياسى ولايت سونپنے كيلئے تھي؟

۴) حضرت امير المؤمنين سے منقول بعض روايات سے بيعت اور شورى كے متعلق كس نكتہ كى طرف اشارہ ملتاہے؟

۵) اس قسم كى روايات كے صادر ہونے ميں كونسے حالات كار فرما تھے؟

۱۲۷

چودہواں سبق:

سياسى ولايت كى تعيين ميں بيعت اور شورى كا كردار -۲-

پہلے گذر چكا ہے كہ سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كے قائلين نے اپنے اس نظريہ كے اثبات كيلئے حضرت امير المؤمنين سے منسوب بعض كلمات و روايات كو بطور دليل پيش كيا ہے _ وہ يہ سمجھتے ہيں كہ ان كلمات سے يہى ظاہر ہوتاہے كہ اسلامى معاشرہ كے حاكم اور خليفہ كے انتخاب كا حق خود امت كو ديا گيا ہے _ بنابريں كم از كم زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كى سياسى ولايت انتخابى امر ہے نہ كہ انتصابى اور يہ اعتقاد صحيح نہيں ہے كہ امت كيلئے فقيہ عادل نصب كوكيا گيا ہے بلكہ يہ امر'' شورى مسلمين'' اور ''بيعت امت'' كے سپرد كيا گيا ہے _

ہمارى نظر ميں ان روايات سے مذكورہ بالا مطلب اخذ كرنا صحيح نہيں ہے _ كيونكہ يہ تمام روايات '' جدال احسن''(۱)

____________________

۱) سورہ نحل كى آيت ۱۲۵ ميں ارشاد ہوتاہے: ''ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة و جادلهم بالتى هى احسن '' اللہ تعالى نے رسول خدا (ص) سے فرمايا ہے كہ وہ حق اور سعادت كى طرف دعوت دينے كيلئے برہان، خطابہ اور جدل تينوں كو بروئے كار لائيں _ تفسير الميزان ج ۱۲ ص ۳۷۱ ، ۳۷۲ _

جدل استدلال كى وہ قسم ہے جس ميں استدلال كرنے والا اپنے مدعا كے اثبات كيلئے مخاطب كے نزديك مقبول اور مسلمہ قضايا سے كام ليتاہے _ اسے اس دعوى كے قبول كرنے پر مجبور كرتاہے _ ہميشہ يہ ہوتاہے كہ استدلال كرنے والے كے نزديك ان مقدمات كى صحت مشكوك ہوتى ہے يا بالكل ناقابل قبول ہوتى ہے اور اپنے مدعا كے اثبات كيلئے اس كے پاس اور ادلّہ ہوتى ہيں _ ليكن طرف مقابل كو منوانے اور اپنے مقصد تك پہنچنے كيلئے ان صحيح اور يقينى مقدمات كى بجائے ان مقدمات سے استفادہ كرتاہے جو طرف مقابل كيلئے قابل قبول ہوں دوسرے لفظوں ميں برہان كى بجائے جدل سے استفادہ كرتاہے كيونكہ طرف مقابل برہانى مقدمات كو تسليم نہيں كرتا جبكہ جدلى مقدمات كو مانتاہے_

۱۲۸

كے زمرے ميں آتى ہيں _ لہذا ان روايات كو جدل سے ہٹ كر كسى اور مورد ميں استدلال كے طور پر پيش نہيں كيا جاسكتا_

وہ مقدمات جنہيں استدلال جدلى ميں بروئے كار لايا جاتاہے انہيں استدلال برہانى كے مقذمات كى طرح صحيح اور حق قرار نہيں ديا جاسكتا_كيونكہ جدلى استدلال كے مقدمات سے صرف اس ليئے استفادہ كيا جاتاہے چونكہ وہ مخاطب كے نزديك مسلّم اور قابل قبول ہوتے ہيں _ ليكن اس كا معنى يہ نہيں ہے كہ وہ مقدمات بذات خود بھى قابل قبول اور مسلم ہوں _ ہمارا مدعا يہ ہے كہ حضرت امير المؤمنين نے يہ استدلال ان لوگوں كے سامنے كيا ہے جو آپ (ع) كى خلافت و امامت كو تسليم كرنے سے انكار كررہے تھے_ يعنى بجائے ان اموركے جو آپ (ع) كى امامت اور ولايت كى حقيقى ادلہ ہيں كہ آپ ''منصوب من اللہ'' ہيں ان امور سے استدلال كيا ہے جو مخالفين كے نزديك قابل قبول ہيں اور جن كى بناپر پہلے تين خلفاء كى خلافت قائم ہوئي ہے_ آپ كے استدلال كا بنيادى نكتہ يہ تھا كہ جس دليل كى بناپر تم لوگوں نے پہلے تين خلفاء كى خلافت قبول كى ہے اسى دليل كى بناپر ميرى خلافت تسليم كرو كيونكہ ميرى امامت '' بيعت امت ''اور ''شورى كے اتفاق و اجماع ''سے بالاتر درجات كى حامل ہے _

ان روايات كے جدلى ہونے كى دليليں

حضرت امير المؤمنين نے اپنى خلافت كے ابتدائي ايام ميں معاويہ كو خط لكھا جس ميں اسے قتل عثمان اوراپنے ساتھ لوگوں كى بيعت كى اطلاع دى اور اسے كہا كہ وہ بھى شام كے سركردہ افراد كو لے آئے اور بيعت كرے آپ (ع) نے فرمايا:

۱۲۹

''أمّا بعد ، فإنّ الناس قَتَلوا عثمان من غَير مشورة منّي، و بايَعونى عن مشورة منهم و اجتماع، فإذا أتاك كتابى فبايع لى و أوفد إليّ أشراف أهل الشام قبلك'' (۱)

اما بعد، لوگوں نے ميرے مشورے كے بغير عثمان كو قتل كرديا ہے اور اپنى رائے اور اجماع سے ميرى بيعت كرلى ہے _ جب ميرا خط تجھ تك پہنچے تو تم بھى ميرى بيعت كرلينا اور شام كے سركردہ افراد كو ميرى طرف بھيجنا _

معاويہ نے امام كے خط كا مثبت جواب نہيں ديا اور بيعت كى بجائے آپ (ع) كے خلاف جنگ كى تيارى كرنے لگا _ جنگ كيلئے اسے ايك بہانے كى ضرورت تھى لہذا امام كے مضبوط استدلال كے سامنے يہ بہانہ پيش كيا اولاً: حضرت على اور سابقہ خلفاء كے درميان فرق ہے _ اس طرح آپ كى امامت اور خلافت كى مخالفت كي_

ثانياً: يہ بہانہ كيا كہ حضرت عثمان كے قاتل حضرت على كے زير حمايت ہيں لہذا امام سے يہ كہا كہ قاتلين كو شام روانہ كريںتا كہ انہيں سزا دى جاسكے اور ان سے قصاص لينے كے بعد خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى تشكيل دى جائے گى _ در حقيقت معاويہ يہ كہنا چاہتا تھا كہ بيعت اور شورى حضرت على كى خلافت كو اہل شام كيلئے لازم قرار نہيں ديتى كيونكہ مدينہ اور بصرہ كے اشراف كے برعكس شام كے سركردہ افراد شورى ميں شامل نہيں تھے_ معاويہ كے گستاخانہ جواب كو مبرد نے يوں نقل كيا ہے _

''أما بعد، فَلَعَمرى لو بايعك القوم الَّذين بايعوك و أنت بري من دَم عثمان ، كنتَ كأبى بكر و عمر و عثمان، و لكنّك

____________________

۱) شرح نہج البلاغہ، ابن ابى الحديد جلد ۱ ص ۲۳۰_

۱۳۰

أغريت بعثمان المهاجرين و خذّلت عنه الأنصار ، فأطاعك الجاهل و قوى بك الضعيف، و قد أبى أهل الشام إلا قتالك حتّى تدفع اليهم قتلة عثمان، فإن فعلت كانت شورى بين المسلمين ''(۱)

اما بعد: مجھے اپنى جان كى قسم اگر لوگوں نے تيرى بيعت اس حالت ميں كى ہوتى كہ تو خون عثمان سے برى ہوتا تو پھر تو تم ابوبكر، عمر اور عثمان كى طرح ہوتے_ ليكن تم نے مہاجرين كو قتل عثمان اور انصار كو ان كى مدد نہ كرنے پراكسايا ہے _ پس جاہل نے تيرى اطاعت كى ہے اوركمزور تيرى وجہ سے مضبوط ہوگيا اوراہل شام كو تو تيرے ساتھ صرف جنگ كرنا ہے مگر يہ كہ تو عثمان كے قاتلوں كو ان كى طرف بھيج دے _ اگر تو نے ايسا كيا تو پھر خليفہ كے انتخاب كيلئے مسلمانوں كى شورى قائم ہوگي_

جنگ صفين كے دوران معاويہ نے ايك اور خط لكھا جس ميں اس نے شورى اور حضرت امير المؤمنين كى بيعت كو غير معتبر قرار ديا _ اس دليل كى بناپر كہ اہل شام نہ اس ميں حاضر تھے اور نہ اس پر راضى تھے

''فَلَعَمرى لو صحَّت خلافتك لكنت قريباً من أن تعذر فى حرب المسلمين ، و لكنّها ما صحت لك، أنّى بصحّتها و أهل الشام لن يدخلوا فيها و لم يرتضوا بها'' (۲)

مجھے اپنى جان كى قسم اگر تيرى خلافت صحيح ہوتى تو تيرا مسلمانوں كى جنگ ميں صاحب عذر ہونا قريب تھا ليكن وہ صحيح نہيں ہے كيونكہ اہل شام اس ميں داخل نہيںتھے اور اس پر راضى نہيں ہيں_

____________________

۱) الكامل، مبرد جلد۱ صفحہ ۴۲۳ _ شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۸_

۲) بحارالانوار جلد۳۳ صفحہ ۸۰ ، شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۲_

۱۳۱

معاويہ اہل شام كو يہ تأثر دينے ميں كامياب ہوگيا كہ خون عثمان كے قصاص سے بڑھ كر كوئي شئے اہم نہيں ہے اور خلافت على كيلئے جو بيعت اور شورى منعقدہوئي ہے وہ قابل اعتبار نہيں ہے لہذا ضرورى ہے كہ قاتلوں كو سزا دينے كے بعد شورى تشكيل پائے_ جنگ صفين ميں معاويہ كى طرف سے بھيجے گئے نمائندہ گروہ ميں سے ايك حبيب ابن مسلمہ نے حضرت على سے مخاطب ہوكر كہا _

''فَادفع إلينا قَتَلة عثمان إن زعمتَ أنّك لم تقتله_ نقتلهم به ، ثمّ اعتزل أمر الناس، فيكون أمرهم شورى بينهم ، يولّى الناس أمرهم من أجمع عليه رَأيهم'' (۱)

اگر تم سمجھتے ہو كہ تم نے عثمان كو قتل نہيں كيا تو پھر ان كے قاتل ہمارے حوالے كردو تا كہ ہم انہيں قتل كرديں_ پھر امر خلافت لوگوں كے سپرد كردو_ ايك شورى تشكيل پائے گى اور لوگ اپنے لئے جسے چاہيں گے اسے اتفاق را ے سے خليفہ منتخب كرليں گے _

اس قسم كى سركشى ، مخالفت اور ادلّہ كے سامنے حضرت امير المؤمنين نے ان امور سے استدلال كيا جو اُن كيلئے قابل قبول تھے حتى كہ دشمن بھى ان سے انكار نہيں كرسكتا تھا_ تمام مسلمان ، اہل شام اور حضرت اميرالمؤمنين كى بيعت كى مخالفت كرنے والے ، حتى كہ معاويہ بھى پہلے تين خلفاء كے طريقہ انتخاب كو مانتے تھے_ لہذا حضرت امير المؤمنين نے استدلال كے مقام پر ان افراد كے سامنے مہاجرين اور انصار كى بيعت اور شورى كے صحيح اور قابل اعتبار ہونے كو پيش كيا اور اپنى امامت كيلئے انہى مطالب سے استدلال كيا جو مخالفين كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے_

امام نے بيعت سے روگردانى كرنے والوں كو مخاطب كركے فرمايا:

____________________

۱) تاريخ طبرى جلد۵ صفحہ ۷ ، البدايہ والنہايہ جلد۷ صفحہ ۲۵۹_

۱۳۲

''أيّها الناس، إنّكم بايعتمونى على ما بويعَ عليه مَن كان قبلي، و انّما الخيارُ إلى الناس قبل أن يُبايعوا'' (۱)

اے لوگو تم نے ميرى بيعت انہى شرائط پر كى ہے جن پر تم نے مجھ سے پہلے والوں كى بيعت كى تھى اور لوگوں كو بيعت كرنے سے پہلے اختيار ہوتاہے _

معاويہ اور اہل شام كے مقابلہ ميں بھى اسى طرح استدلال كرتے ہوئے فرمايا:

كہ جن لوگوں نے مجھ سے پہلے والے خلفاء كو منتخب كيا تھا انہى لوگوں نے اصرار اور اپنى رضا و رغبت كے ساتھ ميرى بيعت كى ہے _ پس تم پر ميرى اطاعت اسى طرح واجب ہے جس طرح مجھ سے پہلے والے خلفاء كى اطاعت كرتے تھے _(۲)

حضرت امير المؤمنين ، معاويہ كو تنبيہ كرتے ہوئے فرماتے ہيں كہ اطاعت كيلئے تيرا بيعت كے وقت موجود ہونا ضرورى نہيں ہے كيونكہ پہلے تمام خلفا كى بيعت اور شورى ميں بھى تو موجود نہيں تھا_ فرمايا:

''لأنّ بيعتى فى المدينة لزمتك و أنت بالشام كما لزمتك بيعة عثمان بالمدينة و أنت أمير لعمر على الشام، و كما لزمت يزيد أخاك بيعة عمر و هو أمير لابى بكر على الشام'' (۳)

مدينہ ميں ميرى بيعت كا ہونا تجھ پر اطاعت كو واجب قرار ديتاہے چاہے تو شام ميں ہو جس طرح عثمان كى مدينہ ميں بيعت تيرے لئے لازم ہوگئي تھى جب كہ تو عمر كى طرف سے شام پر

____________________

۱) ارشاد شيخ مفيد جلد۱ صفحہ ۲۴۳_

۲) شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ۷۵_

۳) شرح نہج البلاغہ جلد۱۴ صفحہ ۴۴_

۱۳۳

حاكم تھا_ اور جس طرح تيرے بھائي يزيد كيلئے عمر كى بيعت لازم ہوگئي تھى جبكہ وہ ابوبكر كى طرف سے شام كا والى تھا_

مزيد فرمايا كہ معاويہ اور قريش طلقا ( آزاد كردہ ) ميں سے ہيں اور خليفہ كو مقرر كرنے والى شورى ميں شموليت كى اہليت نہيں ركھتے فرمايا :

( ''وَ اعلَم أنّك من الطُلَقاء الَّذين لا تَحلُّ لَهُم الخلافة و لا تعرض فيهم الشوري'' ) (۱)

اور جان لوكہ تم طلقا ميں سے ہو ، جو كہ خلافت كے حقدار نہيں ہيں اور شورى ميں بھى شموليت كى اہليت نہيں ركھتے_

''أما قولك إنّ أهل الشام هم الحُكّام على أهل الحجاز فهات رجلاً من قريش الشام يقبل فى الشورى أو تحلّ له الخلافة، فإن زعمتَ ذلك كذبك المهاجرون والانصار'' (۲)

اور تيرا يہ كہنا كہ اہل شام اہل حجاز پر حاكم ہيں تو يہ كيسے ممكن ہے كہ شام كے قريش كا ايك فرد شورى ميں قابل قبول ہو يا اس كيلئے خلافت جائز ہو _ اگر تو ايسا سمجھتاہے تو مہاجرين اور انصار تجھے جھٹلا ديںگے _

اسكے پيش نظر اور ان ادلّہ كو ديكھتے ہوئے جو امام كى امامت كے'' منصوب من اللہ ''ہونے پر دلالت كرتى ہيں كوئي شك و شبہہ باقى نہيں رہتا كہ امام كا تعيين خليفہ ميں بيعت اور شورى كے معتبر ہونے پر

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۲۹_

۲) بحارالانوار جلد۳۲ ، صفحہ ۳۷۹ ، شرح نہج البلاغہ جلد۳ صفحہ ۸۹_

۱۳۴

تاكيد كرنا، اور يہ كہنا كہ خليفہ كا تقرر مہاجرين اور انصار كے ہاتھ ميں ہے از ''باب جدل'' تھا_ جس طرح آپ(ع) نے اسى ''جدال احسن'' كے ذريعہ اس وقت استدلال كيا تھا جب سقيفہ ميں حضرت ابوبكر كى بيعت ہوئي تھي_ انصار كے مقابلہ ميں قريش نے ابوبكر اور عمر كى رہبرى ميں آنحضرت (ص) - سے اپنى قرابت كو دليل قرار ديا تھا اور انصار نے اسى دليل كى بناپر خلافت، مہاجرين قريش كے سپرد كردى تھي_

حضرت على نے بھى اسى استدلال سے استفادہ كرتے ہوئے فرمايا: اگر خلافت كا معيار قرابت رسول (ص) ہے تو ميں سب سے زيادہ آنحضرت (ص) كے قريب ہوں _ تعيين امامت كيلئے اس قسم كے تمام استدلال ''جدلي'' ہيں كيونكہ آپ (ع) كى امامت كى دليل خدا كا آپ كو امام مقرر كرنا ہے آنحضرت (ص) سے قرابت آپ كى امامت كى دليل نہيں ہے _ امام نے معاويہ كو جو خط لكھا اس ميں اسى استدلال ''جدلي'' كا سہارا ليا_

''قالَت قريش مّنّا أمير و قالت الأنصار منّا أمير; فقالت قريش: منّا محمّد رسول الله (ص) فنحن أحقّ بذلك الأمر ، فعرفت ذلك الأنصار فسلمت لهم الولاية و السلطان فاذا استحقوها بمحمد (ص) دون الانصار فإنّ أولَى الناس بمحمّد أحقّ بها منهم'' (۱)

قريش نے كہا كہ امير ہم ميں سے ہوگا اور انصار نے كہا ہم ميں سے_ پھر قريش نے كہا كہ رسول خد ا (ص) ہم ميں سے تھے لہذا خلافت ہمارا حق ہے _ انصار نے اسے تسليم كرليا اور خلافت و ولايت ان كے سپرد كردى _لہذا جب محمد (ص) سے قرابت كى وجہ سے وہ خلافت كے مستحق قرار پائے ہيںنہ كہ انصار تو جو قرابت كے لحاظ سے محمد (ص) كے زيادہ قريب ہے وہ خلافت كا ان سے زيادہ حق ركھتاہے_

____________________

۱) وقعة صفين صفحہ ۹۱_

۱۳۵

ممكن ہے كوئي يہ كہے كہ ہم اسے تسليم كرتے ہيں كہ ائمہ معصومين كى ولايت كے اثبات كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار دينا استدلال جدلى ہے ليكن زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تعين كيلئے بيعت اور شورى كو معتبر قرار ديا جاسكتاہے _ پس بنيادى لحاظ سے بيعت اور شورى ناقابل اعتبار نہيں ہيں بلكہ امام معصوم كے زمانہ ميں ائمہ معصومين كى امامت كى ادلّہ كو ديكھتے ہوئے ناقابل اعتبار ہيں ليكن زمانہ غيبت ميں قابل اعتبار ہيں _ دوسرے لفظوں ميں امام كا ''استدلال جدلي'' غلط مقدمات پر مشتمل نہيں تھا بلكہ يہ مقدمہ (بيعت اور شورى كا معتبر ہونا) صرف امام معصوم كے حضور كے زمانہ ميں ناقابل اعتبارہے وگرنہ بذات خود يہ معتبر ہے _ جو لوگ اس نظريہ كے حامى ہيں وہ لوگ امامكے استدلال جدلى كو زمانہ غيبت ميں اسلامى معاشرہ كے حاكم كے تقرر كيلئے بيعت اور شورى سے تمسك كى راہ ميں مانع نہيں سمجھتے _ اگر فقيہ عادل كى ولايت عامہ كى ادلّہ صحيح اور كامل ہيں تو پھر اس بحث كى گنجائشے نہيں رہتى يعنى جس طرح امام معصوم كى امامت كى ادلّہ سياسى ولايت كے تقرر ميں بيعت اور شورى كے كردار كو كالعدم قرار ديتى ہيں اسى طرح ولايت فقيہ كى ادلّہ بھى بيعت اور شورى كو كالعدم قرار ديتى ہيں _

بحثكے آخر ميں اس نكتہ كى وضاحت ضرورى ہے كہ ہمارى بحث اس ميں ہے كہ يہ تحقيق كى جائے كہ سياسى تسلط كے جواز ميں بيعت اور شورى كا كيا كردار ہے _وگرنہ اس سے كسى كو انكار نہيں ہے كہ سياسى ولايت كا عينى اور خارجى وجود لوگوں كى رائے اور بيعت كے تابع ہے _ اكثر ائمہ معصومين اسى وجہ سے اپنى شرعى اور الہى ولايت كو لوگوں ميں عملى نہيں كروا سكے ، چونكہ لوگوں نے آپ كى اعلانيہ بيعت نہيں كى تھي_

۱۳۶

خلاصہ :

۱) خليفہ كے تقرر كے سلسلہ ميں بيعت اور شورى كے معت۱بر ہونے كے متعلق حضرت على سے منقول روايات ''جدل'' كے باب سے ہيں _اور ولايت كو انتخابى قرار دينے ميں ان ادلہ سے استدلال نہيں كيا جاسكتا_

۲) حضرت على كى امامت كى مخالفت كيلئے معاويہ كا ہدف بيعت اور شورى كو غير معتبر قرار دينا تھا تا كہ اس طرح آپ (ع) كى خلافت پر سوا ليہ نشان لگايا جاسكے_

۳) معاويہ يہ چاہتا تھا كہ حضرت عثمان كے قاتلوں كو سزا دينے كے بعد حاكم اور امام كے انتخاب كيلئے شورى تشكيل دى جائے جس ميں خود اس جيسے افراد بھى موجود ہوں _

۴ )اپنى خلافت كيلئے ہونے والى بيعت كى حقانيت ثابت كرنے كيلئے، حضرت امير المؤمنين نے ان امور كا سہارا ليا جو مسلمانوں كے نزديك مسلم اور قابل قبول تھے اور جن كامعاويہ اور اہل شام بھى انكار نہيں كرسكتے تھے_ پس آپ كا استدلال ''جدال احسن ''كے زمرے ميں آتاہے _

۵) حضرت اميرالمومنين كى امامت پر ادلّہ كا موجود ہونا ، اورآپ (ع) كا ان نصوص سے تمسك نہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ آپ كے يہ كلمات جدل كے باب سے تھے_

۶) اگر ولايت فقيہ كى ادلّہ صحيح اور مكمل ہوں تو زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے متعلق'' نظريہ انتخابي''كيلئے ان روايات سے تائيد لانے كى نوبت نہيں آتى _

۱۳۷

سوالات:

۱)بيعت اور شورى كے متعلق حضرت امير المؤمنين سے منقول روايات سے سياسى ولايت كے انتخابى ہونے پر كيوں استدلال نہيں كيا جاسكتا؟

۲)حضرت على كے ساتھ سياسى تنازعہ ميں معاويہ كا استدلال كيا تھا؟

۳) حضرت امير المومنين نے معاويہ اور اہل شام كے استدلال كا كيا جواب ديا؟

۴) حضرت اميرالمومنين كے استدلال كے جدلى ہونے كے شواہد بيان كيجئے ؟

۵) كيا زمانہ غيبت ميں سياسى ولايت كے انتخابى ہونے كيلئے اس قسم كى روايات سے تمسك كيا جاسكتاہے؟

۱۳۸

تيسرا باب:

ولايت فقيہ كا معنى ، مختصر تاريخ اور ادلّہ

سبق ۱۵ : ولايت فقيہ كا معني

سبق۱۶: وكالت و نظارت فقيہ كے مقابلہ ميں انتصابى ولايت

سبق ۱۷ _۱۸: ولايت فقيہ كى مختصر تاريخ

سبق ۱۹ : ولايت فقيہ ايك كلامى مسئلہ ہے يا فقہي؟

سبق ۲۰،۲۱،۲۲ : ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ

سبق ۲۳ : ولايت فقيہ پر عقلى دليل

۱۳۹

تمہيد :

پہلے گذرچكاہے كہ شيعوں كا سياسى تفكر'' نظريہ انتصاب ''پر استوار ہے اور شيعہ معتقدہيں كہ ائمہ معصومين كى امامت اور ولايت خدا كى طرف سے ہے اور اس كا اعلان خود رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے _ اہم سوال جو زير بحث ہے وہ يہ ہے كہ كيا زمانہ غيبت ميں فقہاء عادل كو ولايت عامہ اور ائمہ معصومين كى نيابت حاصل ہے ؟ مذكورہ باب اسى اساسى سوال كى تحقيق كے متعلق ہے _

اس باب ميں ابتداً ولايت فقيہ كا معنى واضح كيا جائے گا اور محل نزاع پر عميق نظر ڈالى جائے گى _ تا كہ اس كے متعلق جو غلط فہمياں ہيں انہيں دور كيا جاسكے_

اس كے بعد علمائ شيعہ كے اقوال اور ولايت فقيہ كى تاريخ پر ايك نگاہ ڈاليں گے _ ولايت فقيہ كے اثبات كى ادلّہ كى تحقيق اس باب كى اہم ترين بحث ہے اور اس سے پہلے يہ واضح كريں گے كہ مسئلہ ولايت فقيہ ايك كلامى بحث ہے يا فقہي؟ اس مسئلہ كا جواب براہ راست ان ادلّہ پر اثر انداز ہوتاہے جو ولايت فقيہ كے اثبات كيلئے قائم كى گئي ہيں _ مسئلہ ولايت فقيہ كو كلامى سمجھنا يا كم از كم يہ اعتقاد ركھنا كہ مسئلہ فقہى ہونے كے ساتھ ساتھ اس ميں كلامى پہلو بھى ہے اس سے ولايت فقيہ پر عقلى ادلہ پيش كرنے كى راہ ہموار ہوجائے گي_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416