ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215006 / ڈاؤنلوڈ: 4958
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

دوسرے راویوں اور مؤلفین نے بھی بیان کیاہے:

جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ہوئیں ،امام نے اپنے سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

خدا کا شکر ہے کہ تم ، میرے پیرو،حق پر ہو۔اس لئے خودداری ،مہربانی اور جوانمردی سے پیش آنا تاکہ انھیں کوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے ۔ان کے لئے جنگ شروع کرنے کا کوئی موقع وفرصت فراہم نہ کرنا تاکہ وہ خود جنگ شروع کریں اور یہ تمھاری حقانیت کی ایک دلیل ہوگی۔

جب جنگ شروع ہوگی،تو زخمیوں پر رحم کرنا اور انھیں قتل نہ کرنا۔جب دشمن شکست کھاکر بھاگنے لگے تو فراریوں کاپیچھا نہ کرنا ۔میدان جنگ میں مقتولین کو برہنہ نہ کرنا۔ان کے کان اور ناک نہ کاٹنا اور انھیں مثلہ نہ کرنا۔

جب ان کے شہر ووطن پر قابض ہوجاؤ تو ان کی عصمتیں نہ لوٹنا،حکم کے بغیر کسی گھر میں داخل نہ ہونا اور ان کے مال وثروت پرڈاکا نہ ڈالنا۔

مسعودی نے اس کے بعد امام ں کے بیانات کو یو ں نقل کیاہے :

. ... ان کامال وثروت تم لوگوں پر حرام ہے،مگر وہ چیزیں جو دشمن کے فوجی کیمپ میں جنگی اسلحہ مویشی،غلام اور کنیز کی صورت میں تمھارے ہاتھ آئیں ۔اس کے علاوہ ان کا باقی تمام مال وثروت اسلامی قوانین اور قرآن مجید کے مطابق ان کی میراث ہے اور ان کے وارثوں سے

متعلق ہے۔

کسی کو کسی عورت کے ساتھ تند کلامی کرنے اور اسے اذیت پہنچانے کا حق نہیں ہے، چاہے وہ تمھیں برا بھلا بھی کہے اور تمھاری بے احترامی بھی کرے ،حتیٰ تمھارے مقدسات اور کمانڈروں کو گالیاں بھی دے۔کیونکہ وہ عقل ونفسیات کے لحاظ سے کمزور ہیں اور قابل رحم ہیں ۔جس زمانہ میں ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ کفار سے جنگ کررہے تھے ہمیں حکم ملاتھا کہ ان (عورتوں )سے در گزر کریں باوجود اس کے کہ وہ مشرک وکافر تھیں ۔زمانہ قدیم میں اگر کوئی مرد اپنے عصا یا لاٹھی سے کسی عورت کو اذیت پہنچاتاتھا ،تو اس مرد کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو بھی اس ناشائستہ کام کی وجہ سے ملامت ومذمت کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔

۲۴۱

جمل کے خیر خواہوں کی طرف سے جنگ کاآغاز

حاکم نے مستدرک میں لکھاہے کہ زبیر نے اپنے حامیوں سے کہا:

حضرت علی ـکے سپاہیوں پر تیروں کی بارش کرو !گویا زبیر اس طرح جنگ شروع کرنے کا اعلان کرنا چاہتا تھا۔

ابن اعثم اور دیگر لوگ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ نے کہا:

مجھے مٹھی بھر کنکریاں دے دو!اس کے بعد مٹھی بھر کنکریاں حضرت علی ں کی سپاہ کی طرف پھینکنے کے بعد پوری طاقت کے ساتھ فریاد بلند کی : چہرے سیاہ ہو جائیں !۔

عائشہ کا یہ عمل ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنگ حنین میں مشرکین کے ساتھ کئے گئے عمل کی تقلید تھا عائشہ کے اس کام کا رد عمل یہ ہوا کہ حضرت علی ں کی سپاہ میں ایک مرد عائشہ سے مخاطب ہو کر بولا : یہ تم نہیں تھیں جس نے کنکریاں پھینکیں بلکہ یہ شیطان تھا جس نے کنکریاں پھینکیں ۔(۱)

طبری اور دیگر مورخین نے روایت کی ہے :

حضرت علی ں نے جمل کے دن قرآن مجید کو ہاتھ میں لیا اور اپنے سپاہیوں میں گھوماتے ہوئے فرمایا:

'' ہے کوئی جو اس قرآن مجید کو دشمن کے پاس لے جائے اور انھیں اس پرعمل کرنے کی

____________________

الف )۔ عائشہ کی بات '' شاھت الوجوہ '' تھی اور اس مرد کا جواب : ومارمیت اذرمیت ولٰکن الشیطان رمی تھا ۔داستان اس طرح ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ حنین میں مٹھی بھر کنکریاں مشرکین کی طرف پھینکیں اور فرمایا: '' شاھت الوجوہ'' (رو سیاہ ہو جائو )اور آیہ نازل ہوئی : وما رمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی ( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !یہ تم نہیں تھے جس نے کنکریاں پھینکیں بلکہ یہ خدا نے کنکریاں پھینکی ہیں ۔

۲۴۲

دعوت دے چاہے قتل بھی ہو جائے ؟ کوفیوں سے ایک نوجوان سفید قبا پہنے ہوئے آگے بڑھا اور بولا ''میں '' ہو ں امام نے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور اس کی کمسنی کو دیکھ کر اس سے منہ موڑ کر اپنی بات کو پھر سے دہرانے لگے ۔دوبارہ اسی نوجوان نے اس جاں نثاری کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا پھر حضرت علی ـنے قرآن مجید کو اس کے ہاتھ میں دے دیا ۔

نوجوان ،جمل کے خیر خواہ سپاہیوں کی طرف بڑھا اور امام کی فرمائش کے مطابق انھیں قرآن مجید پر عمل کرنے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کی دعوت دی بصرہ کے جنگ افروزوں نے علی کے اس اقدام پر ایک لمحہ کے لئے بھی فکر کرنے کی اپنے آپ کو تکلیف نہیں دی اور بزدلانہ طور پر اس نوجوان پر حملہ کرکے تلوار سے اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا ۔جوان نے قرآن مجید کو اپنے بائیں ہاتھ میں اٹھا لیا اور اپنی تبلیغ جاری رکھی ۔اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا ۔نوجوان نے ہاتھ کٹے دونوں بازئوں سے قرآن مجید اپنے سینے پر رکھ کر بلند کیا جب کہ اس کے کٹے ہوئے دونوں ہاتھوں سے خون کا فوارہ جاری تھا اور یہ خون قرآن مجید اور اس کی سفید قبا پر بہہ رہا تھا، پھر بھی وہ اپنی تبلیغ میں مصروف تھا کہ سر انجام اسے قتل کردیا گیا۔

طبری نے اسی داستان کو ایک اور روایت کے مطابق حسب ذیل بیان کیا ہے :

'' حضرت علی ـنے اپنے حامیوں سے مخاطب ہو کر کہا: تم میں سے کون شخص آمادہ ہے جو اس قرآن مجید کو ان کے پاس لے جاکر انھیں اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے ،اگر چہ اس کا ہاتھ بھی کاٹا جائے وہ قرآن مجید کو دوسرے ہاتھ سے بلند کرے اور اگر وہ ہاتھ بھی کاٹا جائے تو قرآن مجید کو اپنے دانتوں سے پکڑ لے ؟!ایک کمسن نوجوان نے اٹھ کر کہا: میں ہوں حضرت علی ـبار بار اپنی بات دہراتے ہوئے اپنے حامیوں میں جستجو کرتے تھے ،لیکن اس نوجوان کے علاوہ کسی نے علی کی بات کا مثبت جواب نہیں دیا ۔ حضرت علی ـنے قرآن مجید اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا: یہ قرآن مجید انھیں پیش کرنا اور کہنا ،خدا کی کتاب اول سے آخر تک ہمارے اور تمھارے درمیان حَکَم و منصف ہے ۔ایک دوسرے کا خون بہانے کے سلسلے میں خدا کو مد نظر رکھیں اور بلا سبب ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں ۔

۲۴۳

نوجوان قرآن مجید کو ہاتھ میں لئے دشمن کی سپاہ کی طرف بڑھا اور ماموریت کے مطابق تبلیغ کرنے لگا ۔جیسے کہ بیان ہوا ،اس کے ہاتھ کاٹے گئے یہاں تک کہ اس نے قرآن مجید کو دانتوں سے بکڑ لیا اور سر انجام اسے قتل کر دیا گیا۔

اس واقعہ کے بعد حضرت علی ـنے کہا: چوں کہ انھوں نے قرآن مجید کا احترام نہیں کیا ،لہٰذا ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے ۔

اس نوجوان کی ماں اپنے بیٹے کے سوگ میں اس طرح شیون کرتی تھی :

''خدا وندا !(میرا بیٹا مسلم) ان سے نہ ڈرا اور انھیں کتاب خدا کی طرف دعوت دی ان کی ماں (عائشہ ) کھڑی دیکھ رہی تھی کہ کس طرح وہ سرکشی اور گمراہی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور وہ انھیں اس سے منع نہیں کرتی تھی جب کہ ان کی داڑھی خون سے خضاب ہو رہی تھی''

ابو مخنف نے لکھا ہے :

اس نوجوان پر ماتم کرنے والی خاتون کا نام ام ذریح عبدیہ تھا ۔

ابن اعثم لکھتا ہے :

وہ نوجوان خاندان مجاشع سے تھا اورجس نے اس کے ہاتھ تلوار سے کاٹے وہ عائشہ کے غلاموں میں سے ایک تھا۔

مسعودی نے لکھا ہے :

عمار یاسر دو فوجوں کے درمیان کھڑے ہو کر بولے : اے لوگو!تم نے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انصاف نہیں کیا ہے ،کیوں کہ اپنی عورتوں کو اپنے گھروں میں رکھ کر ان کی زوجہ (عائشہ ) کو میدان کارزار میں کھینچ لائے ہو اور انھیں جنگجوئوں کی تلوار وں اور نیزوں کے درمیان لئے ہوئے ہو!!

مسعودی مزید روایت کرتا ہے :

عائشہ تختوں سے بنی ایک محمل میں بیٹھی تھیں ۔اس محمل کو ٹاٹ اور گائے کی کھال سے ڈھانپا گیا تھا اسے نمدہ کے فرش سے مضبوط کیا گیا تھا۔جنگی ہتھیار وں اور تلواروں کی ضربوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے اوپر لوہے کی زرہ ڈالی گئی تھی ۔اس طرح یہ محمل ایک مضبوط آہنی قلعہ کے مانند اونٹ پر رکھی گئی تھی ۔عمار جب ان لوگوں سے خطاب کرنے کے لئے آگے بڑھے تو عائشہ کی محمل کے پاس جاکر ان سے یوں سوال کیا:

تم ہمیں کس چیز کی دعوت دیتی ہو اورہم سے کیا چاہتی ہو؟

۲۴۴

عائشہ نے جواب دیا : عثمان کے خون کا انتقام !

عمار نے کہا:خد ا سر کش کو نابود کرے اور اسے بھی نابود کرے جو ناحق کسی چیز کا طالب ہو!

اس گفتگو کے بعد عمار نے پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: اے لوگو!تم بہتر جانتے ہو کہ ہم میں سے کن کے ہاتھ عثمان کے خون سے رنگین ہیں ؟

یہاں پر جمل کے خیر خواہوں نے عمار پر تیروں کی بوچھار کردی اسی حالت میں عمار نے عائشہ سے مخاطب ہو کر فی البدیہہ یہ شعر پڑھے :

''فتنہ کی بنیاد تم نے ڈالی اور پہلی بار تم نے ہی عثمان پر شیون و زاری بھی کی لہٰذا طوفان و ہوا تم سے تھے اور بارش بھی تم ہی سے تھی ۔تم نے ہی عثمان کو قتل کرنے کا حکم دیا ہم اسی کو عثمان کا قاتل جانتے ہیں جس نے اس کے قتل کا حکم جاری کیا ہے ''

چوں کہ عمار کی طرف تیربرس رہے تھے ۔وہ مجبور ہوکر اپنے گھوڑے کو موڑ کر امام کے لشکر کی طرف لوٹے اور حضرت علی ـسے مخاطب ہوکر بولے :اے امیرالمومنین !آپ کو کس چیز کا انتظار ہے؟ان لوگوں کے دماغ میں جنگ و خوں ریزی کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے ۔

حضرت علی کی طرف سے جوابی حملہ کا حکم

ابو مخنف اور دوسروں نے لکھا ہے کہ :

جمل کے خیر خواہوں نے حضرت علی ـکے لشکر پر شدید تیر اندازی کی،اس حد تک کہ علی کے سپاہی تنگ آکر کہنے لگے ، ١ اے امیر المومنین !کوئی حکم دیجئے ،دشمنوں کے تیر ہمیں نابود کر رہے ہیں ۔

امام ایک چھوٹے خیمہ میں تھے۔ ایک لاش ان کے پاس لائی گئی اور کہا گیا: یہ فلاں ہے جسے قتل کیا گیا ۔امام نے فرمایا:خداوندا !گواہ رہنا ! اور فرمایا: صبر کا مظاہرہ کرو تا کہ ان کے لئے کوئی عذر و بہانہ باقی نہ رہے۔

اسی دوران عبد اللہ بدیل اپنے بھائی عبد الرحمان بدیل جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھے اور جمل کے خیر خواہوں کے تیروں سے قتل ہوئے تھے کی لاش کو اپنے کندھے پر اٹھا کے لائے اور اس بے جان لاش کو علی کے سامنے رکھ کر بولے:اے امیر المومین ! یہ میرا بھائی ہے ، جو شہید ہوا۔

۲۴۵

علی ـ نے کہا :''اناللہ واناالیہ راجعون ''تب حکم دیا کہ ''ذات الفضول '' نامی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زرہ لائی جائے ،اسے زیب تن کیا اور چونکہ وہ آپ کے شکم تک لٹک رہی تھی لہٰذا اپنے اعزّہ میں سے ایک کو حکم دیا کہ اسے دستار کے ذریعہ درمیان سے باندھ دے ۔اس کے بعد ذوالفقار کو حمائل کیا اور ''عقاب'' نام کے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سیاہ پرچم کو اپنے بیٹے محمد حنفیہ کے ہاتھ میں دیا اور اپنے دو بیٹوں حسن و حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: میں نے پرچم کو اس لئے تمھارے بھائی کے ہاتھ میں دیا ہے اور تم دونوں کو اس سلسلے میں نظر انداز کیا ہے ،کیوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تمھاری قرابت کی وجہ سے تمھاری حیثیت قابل قدر و معزز ہے ۔(۱)

ابو مخنف لکھتا ہے :

امیر المومنین ـاس آیہ ٔ شریفہ''ام حسبتم ان تدخلوا الجنّة و لما یا تکم مثل الذین خلو ا من قبلکم مستھم الباساء والضراء وزلزلوا.... ''(۲) کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے سپاہیوں میں گھوم رہے تھے اور اس کے بعد فرمایا:

خدائے تعالیٰ ہمیں صبر و تحمل عطا فرمائے ،ہمیں کامیابی عنایت کرکے سر بلند فرمائے اور ہمارے ہر کام میں ہمارا یاور ومدد گارہو :

ہم نے امام کی سپاہ اور جمل کے خیر خواہوں کے درمیان جنگ چھڑنے کے اسباب سے متعلق عین مطالب کو بیان کرنے میں اسی مقدار پر اکتفاکی اور باقی مطالب ،جیسے جنگ شروع ہونے

سے پہلے حضرت علی ـاور زبیر کا آمنا سامنا کہ جس کے سبب زبیر کا امام سے دشمنی ترک کرکے میدان سے بھاگنا یا جنگ کے دوران مروان کے ہاتھوں طلحہ کا قتل ہونا وغیرہ سے صرف نظر کیا ہے اور اب صرف جنگ جمل کے خاتمے پر روشنی ڈالتے ہیں تاکہ جمل کے بارے میں سیف ابن عمر کی احادیث اور دوسرے راویوں کی روایتوں کے درمیان موازنہ کرکے حق و حقیقت کی جانچ کی جا سکے ۔

____________________

۱)۔کیوں کہ جنگوں میں دشمن کی فوج کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ علمدار کو مغلوب کیا جائے ،امام چاہتے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسوں کو اس خطر ہ سے دور رکھیں ؛

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جنگ کے بعد حضرت نے محمد حنفیہ کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: بیٹے تم میرے لئے دست و بازو کی حیثیت رکھتے ہو اور وہ دونون میری آنکھیں ہیں انسان آنکھوں کا تحفظ کرتا ہے ۔

۲)۔کیا تمھارا خیال ہے کہ تم آسانی سے جنت میں داخل ہو جائو گے جب کہ ابھی تمھارے سامنے سابق امتوں کی مثال پیش نہیں آئی جنھیں جنگ وفقر وفاقہ اور پریشانیوں نے گھیر لیا اور جھٹکے دئے ۔

۲۴۶

جب اونٹ مارا گیا تب جنگ ختم ہوئی

ابو مخنف لکھتا ہے :

''جب امام نے دیکھا کہ عائشہ کے اونٹ کی لگام کے اطراف میں جمل کے خیر خواہوں پر موت کے بادل منڈلا رہے ہیں اور جوں ہی کوئی ہاتھ اونٹ کی لگام تھامتا ہے فورا ًکٹ جاتا ہے اور اس کے اطراف میں بہت سی جانیں جا رہی ہیں تو فرمایا: اشتر اور عمار کو بلائو ؛ جب یہ دونوں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام نے ان سے فرمایا: آگے بڑھ کر اس اونٹ کا کام تمام کرو جب تک یہ اونٹ زندہ ہے جنگ کی آگ نہیں بجھے گی ،کیوں کہ جمل کے خیر خواہوں نے عائشہ کے اونٹ کو اپنا قبلہ بنا رکھا ہے ۔

طبری لکھتا ہے :

علی ـنے فریاد بلند کی !اونٹ کا کام تمام کرو کیوں کہ اگر اونٹ ماراجائے گا تو جنگ ختم ہو جائے گی اور جمل کے خیر خواہ منتشر ہو جائیں گے ۔

ابو مخنف کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے :

'' حضرت علی ـنے جب عائشہ کے اونٹ کے اطراف میں جنگجوئوں کو موت کے گھاٹ اترتے ہوئے دیکھا تو سمجھ گئے کہ جب تک اونٹ زندہ ہے جنگ کے شعلے نہیں بجھیں گے آپ اپنی ننگی تلوار کو اٹھا کے اونٹ کی طرف بڑھے اور حکم دیا کہ آپ کے حامی بھی ایسا ہی کریں اس طرح وہ جمل کے خیر خواہوں اور اونٹ کی لگام پکڑنے والوں کی طرف بڑھے ۔

اس وقت عائشہ کے اونٹ کی لگام خاندان بنی ضبہ کے افراد کے ہاتھوں میں دست بدست منتقل ہو رہی تھی ۔جو بھی ان میں زمین پر گرتا تھا فورا ًدوسرا آدمی اونٹ کی لگام کو پکڑ لیتا تھا یہاں تک کہ قتل ہو جاتا تھا ۔عائشہ کے اونٹ کے اطراف میں جنگ شدت اختیار کرتی جا رہی تھی اور اونٹ کی لگام پکڑنے والے خاندان بنی ضبہ کے افراد بڑی تیزی سے یکے بعد دیگرے خاک و خون میں غلطاں ہو رہے تھے اور ان کی ایک بڑی تعداد قتل ہو چکی تھی ۔حضترت علی ـاور ان کے حامیوں نے ان کی دفاعی لائن (اونٹ کے محاصرہ) کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور ان کی جگہ پر خود عائشہ کے اونٹ کے قریب پہنچ گئے ۔اسی حالت میں امام نے خاندان نخع کے بجیرنامی ایک شخص سے کہا: اے بجیر !اس اونٹ کا کام تمام کردو !بجیر نے پوری طاقت سے اونٹ کے حلق پر تلوار ماری جس کے سبب اونٹ پہلو کے بھل دھڑام سے گر گیا ۔اس کا سینہ زور سے زمین پر لگا اور اونٹ نے ایسی زور دار چیخ ماری کہ اس روز تک ایسی چیخ نہ سنی گئی تھی ۔

۲۴۷

جب عائشہ کا اونٹ گرکے مر گیا تو جمل کے خیر خواہ اس کے اطراف سے فرار کر گئے اورجنگ ختم ہو گئی ۔امام نے پکار کر کہا :محمل کی رسیاں کاٹ دو !حضرت علی کے حامیوں نے فوری طور پر اونٹ کی پیٹھ پر مضبوطی کے ساتھ باندھی ہوئی محمل کی رسیاں کاٹ دیں اور عائشہ کی محمل کو ہاتھوں پر اٹھا کر زمین پر رکھ دیا ۔

امام کی طرف سے عام معافی

جنگ ختم ہوئی تو حضرت علی ـکے ترجمان نے امام کے حکم سے حسب ذیل اعلان کیا :

''زخمیوں کو صدمہ نہ پہنچائو ،فراریوں کا پیچھا نہ کرو اور انھیں زخمی نہ کرو دشمن کی فوج میں جو بھی ہتھیار زمین پر رکھ دے وہ امان میں ہے ۔ جو اپنے گھر میں رہ کر گھر کا دروازہ بند کرلے وہ بھی امان میں ہے ۔اس کے بعد امام نے سب کو امان دے دی ۔ اس طرح عام معافی کا اعلان ہو گیا اور سبوں کو امام کی حمایت نصیب ہوئی ۔

حضرت علی ـکے حکم سے ،عائشہ کا بھائی محمد بن ابو بکر ،عائشہ کو ان کے کجاوے کے ساتھ ایک طرف لے گیا اور وہاں پر ان کے لئے خصوصی خیمہ نصب کیا ۔اس کے بعد حضرت علی ـعائشہ کے خیمہ کے پیچھے آکے رُکے اور بہت سی باتوں کے ضمن میں عائشہ سے کہا: تم نے لوگوں کو میرے خلاف بغاوت پر اکسایا ،انھیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنایا یہاں تک کہ انھوں نے ایک دوسرے کو خاک و خون میں غلطاں کیا ۔

طبری نے امام کی اس مفصل تقریر کو درج نہیں کیا ہے حتیٰ اتنا بھی نہیں لکھا ہے کہ اس میں کیا کیا باتیں بیان ہوئیں ۔(۱)

مسعودی اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھتا ہے :

حضرت علی ـنے عائشہ سے فرمایا: کیا پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمھیں اسی چیز کا حکم دیا تھا؟ کیا انھوں نے تمھیں آرام سے اپنے گھر میں بیٹھنے اور گھر سے باہر قدم نہ رکھنے کو نہیں کہا تھا؟ خدا کی قسم جنھوں نے تمھیں میدان جنگ میں کھینچا اور اپنی عورتوں کو

____________________

۱)۔ جب کہ یہی طبری جھوٹے سیف کے عجیب و غریب افسانے درج کرتے وقت ان میں سے ایک حرف بھی کم نہیں کرتا ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا راز کیا ہے ؟

۲۴۸

پردے میں اپنے گھروں میں محفوظ رکھا ، انھوں نے تم پرظلم و ستم کیا ہے !

طبری نے لکھا ہے کہ

عائشہ نے امام کے جواب میں کہا :

اے فرزند ابوطالب ـ!اب جب کہ جنگ کا خاتمہ آپ کے حق میں ہو گیا ہے اور آپ فتح پا چکے ہیں تو اب ماضی سے درگزر کریں ۔آج آپ نے اپنی قوم کے ساتھ کیا اچھا برتائو کیا !

طبری نے مزید روایت کی ہے :

جب جنگ ختم ہوئی تو عمار یاسر نے عائشہ سے مخاطب ہو کر کہا:

اے ام المومنین !تمھارا کردار تمھیں کی گئی وصیت سے کتنا فاصلہ رکھتا ہے ؟

عائشہ نے عمار یاسر کی بات ان سنی کرتے ہوئے سوال کیا : کیا تم ابو الیقظان ہو؟

عمار نے جواب دیا جی ہاں ،

عائشہ نے کہا: خدا کی قسم تم ہر وقت حق بات کہتے ہو ۔

عمار نے جواب میں کہا : شکر ہو اس خدا کا جس نے تمھاری زبان پر میرے حق میں یہ بات جاری کی !

جنگ جمل کے بارے میں روایات سیف کی سند کی جانچ:

جہاں پر سیف ''فتنہ ''(۱) کی داستان کے بارے میں بات کرتاہے وہاں اس کے راوی محمد اور مستنیر ہیں اور گزشتہ بحثوں میں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ دونوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق

اور جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

____________________

(۱)مورخین نے عثمان کے قتل اور جنگ جمل کی داستان کو فتنہ کے نام سے یاد کیا ہے۔

۲۴۹

اس کے دیگر راوی عبارت ہیں : قیس بن یزید نخعی ،اس سے تین روایت ،جریر بن اثر س ، اس سے دو روایت ،صصعہ یا صصعۂ مزنی اور مخلد بن کثیر ،ان دونوں سے ایک ایک روایت تاریخ طبری میں درج ہیں ۔ہم نے ان چاروں راویوں کے نام سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نہیں پائے اس لئے وہ بھی سیف کے جعلی راوی محسوب ہوتے ہیں ۔

اس کے علاوہ قبیلہ بنی ضبہ سے'' ایک بوڑھا ''کے نام سے ایک راوی اور بنی اسد سے ''ایک مرد ''نام سے ایک اور راوی کا ذکر کرتا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ قبیلہ ضبہ اور بنی اسد کے ان دو افراد کا اس نے کیا نام تصور کیاہے تاکہ ہم راویوں کی فہرست طبقات میں ان کو بھی ڈھونڈتے ۔

سیف کی باتوں کا دوسروں سے موازنہ:

سیف بن عمر تمیمی کی روایتیں اپنے افسانوی سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے بارے میں اتنے معجزہ نما افسانے ،کارنامے اور ماموریتیں عثمان کے زمانے کی بغاوتوں کے بعد تک مورخین کے اقوال کے خلاف ہیں ۔

سیف کہتا ہے کہ کوفہ کے لوگوں کے حضرت علی ں کی حمایت اور مدد کے لئے بصرہ کی طرف روانہ ہونے کا سبب قعقاع بنا جب کہ دوسرے مورخین معتقد ہیں کہ کوفی جنگجو ئوں کی روانگی حسن ابن علی ،عمار یاسر اور مالک اشتر کے ذریعہ انجام پائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ صلح و آشتی کے منصوبہ کے سلسلے میں امام نے قعقاع کو اپنے ایلچی کے طور پر جمل کے خیر خواہوں کے پاس بھیجا جب کہ یہ ماموریت ابن عباس اور ابن صوحان نے انجام دی ہے

سیف کا دعویٰ ہے کہ جمل کے خیر خواہوں نے صلح و آشتی کی تجویز کو قبول کیا ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمل کے سرداروں اورخیر خواہوں نے امام کے صلح کے پیغام اور نصیحتوں کو پوری طاقت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور امام سے جنگ کرنے پر مصر رہے اور انھیں جنگ کی دھمکی دیتے رہے ۔

۲۵۰

سیف تنہا راوی ہے جو یہ کہتا ہے کہ جنگ جمل کی شب عبداللہ ابن سبا کی صدارت میں سبائیوں کے سردار وں کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی اور ابن سبا نے ایک دور اندیش قائد کی حیثیت سے ضروری ہدایت حاضرین کو دیں اور یاد دہانی کرائی کہ ان کا شیطانی منصوبہ نقش بر آب ہو گیا ہے اور جو دو فوجین جنگ و پیکار کے لئے صف آرا ہو چکی تھیں ،صبح ہوتے ہی ایک دوسرے سے صلح و آشتی کا ہاتھ ملانے والی ہیں ۔ابن سبا اپنے جیسے شیطان صفت یمانی سردار وں سے اس کا کوئی حل تلاش کرنے کو کہتا ہے سر انجام اپنی شیطانی تجویز کو سامنے رکھتا ہے کہ سبائیوں کو چاہئے کہ اس سے قبل کہ دونوں فوجوں کے سردار آگاہ ہوں ،دونوں سپاہوں کی صفوں میں نفوذ کر کے جنگ کے شعلے بھڑکا دیں ۔ جلسہ کے حاضرین اس نظریہ کو پسند کرکے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے منتشر ہو جاتے ہیں ۔

سیف نے اپنی چالاکی سے سبائیوں کے اس اجلاس کو اسی صور ت میں منعقد کیا ہے جیسا کفار قریش نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کے سلسلے میں ''دارالندوہ'' میں اجلاس منعقد کیا تھا ۔اس اجلاس میں بھی شیخ نجدی ( جس کے روپ میں شیطان آیا تھا ) ''دارالندوہ '' کے ہر ایک رکن کے نظریات سننے کے بعد انھیں مسترد کرکے حاضرین پر اپنا نظریہ مسلط کرتا ہے ۔

مذکورہ دو اجلاس کے درمیان جو دو مختلف زمانوں میں واقع ہوئے جو فرق نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ شیخ نجدی کی قیادت میں ''دار الندوہ '' کا اجلاس ناکامی سے دو چار ہوتا ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچ جاتی ہے ،جب کہ عبداللہ ابن سبا کی قیادت میں منعقد ہوئے اس جلسہ کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے اور دو مضری سپاہ کے قائدین جیسے ،امیر المومنین ـ،عائشہ ،طلحہ و زبیر کی بے خبری اور ان کی مرضی کے خلاف رات کی تاریکی میں دو لشکروں کو آپس میں ٹکرا کر اسلامی معاشرے میں برادر کشی اور اختلاف و افتراق پیدا کرنے والی جنگ کے شعلے بھڑکا دئے جاتے ہیں !

۲۵۱

اس داستان کو بڑی مہارت سے زمان و مکان کے اقتضا کے مطابق مرتب کئے جانے کے اس منصوبہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس تباہ کن اور رونگٹے کھڑے کردینے والی جنگ کے تمام گناہ اور ذمہ داریاں یمانی سبائیوں کے قائد عبد اللہ ابن سبا کی گردن پر ڈال دی جاتی ہیں اور حقیقت میں اس جنگ کے تباہ کن شعلے بھڑکانے والے اصلی مجرم '' مضری سردار عائشہ طلحہ و زبیر کے دامن کو اس الزام سے پاک کر دیا جاتا ہے تاکہ قحطانی یمانی قبائل کے چہروں پر تباہی مچانے والی اس بد ترین رسوائی کا داغ رہتی دنیا تک باقی رہے ۔یہ سب سے پہلا اور واضح ترین نتیجہ ہے جو سیف کو اس قسم کا افسانہ گڑھنے سے حاصل ہوتا ہے اور اس طرح وہ خاندانی تعصبات کی پیاس کو اپنی مرضی کے مطابق بجھا تا ہے ۔

دوسری جانب ایسے افسانوں کی اس زمانے میں مکمل حمایت اور تائید کے نتیجہ میں سیف حقائق میں تحریف کرکے تاریخ اسلام کو اپنے ہم عقیدہ مانویوں کے ذوق کے مطابق بدل دیتا ہے اور اسلامی معاشرہ میں نظریات اور عقاید کے اختلافات ایجاد کرکے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خون کے پیاسا بنادیتا ہے اور زندیقیوں کی آرزوکے مطابق اسلام کی بنیادپر کاری ضرب لگا کر اس کو کمزور کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔

جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیف کے بیان کے مطابق جمل کے خیر خواہوں کی صلح و آشتی کے لئے موافقت کے بر عکس امام مسلم مجاشعی نام کے ایک نوجوان کے ہاتھ میں قرآن مجید دے کر جمل کے خیر خواہوں کی طرف بھیجتے ہیں تاکہ انھیں قرآن اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے لیکن جمل کے خیر خواہ جواب میں اس نوجوان کے دونوں ہاتھ کاٹ کر اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔

اور جو کچھ سیف نے مالک اشتر نخعی یمانی کے جنگ سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں لکھا ہے تو مالک اشتر کی شہرۂ آفاق شجاعت و دلاوری کے پیش نظر اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔

سیف نے لکھا ہے کہ حقیقت میں قعقاع بن عمرو نے عائشہ کے اونٹ کو مار ڈالنے کا حکم جاری کرکے جنگ کا خاتمہ کیا جب کہ یہ حکم امام کی طرف سے جاری ہوا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے اپنے حامیوں کے ہمراہ خود اقدام کیاہے ۔

۲۵۲

سیف لکھتا ہے کہ جنگ ختم ہونے سے پہلے قعقاع بن عمرو نے عام معافی کا اعلان کیا اور کہا ''تم سب امان میں ہو'' جب کہ دیکھتے ہیں کہ یہ اعلان امام کے ترجمان کے ذریعہ امام کے حکم سے انجام پایا ہے ۔فرض کریں اگر قعقاع نام کا کوئی آدمی موجود بھی ہوتا تو امام کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت و مجال تھی کہ خود ایسا حکم جاری کرتا ؟!

اس کے علاوہ سیف مدعی ہے کہ جنگ کے خاتمے پر قعقاع اور چند دیگر افراد نے عائشہ کے کجاوے کو اونٹ کی پیٹھ سے جدا کرکے ایک گوشے میں رکھا ،جب کہ امام کے حکم سے عائشہ کے بھائی محمد ابن ابوبکر نے یہ کام انجام دیاہے ۔

آخر میں سیف نے امام اوراسی طرح عائشہ سے منسوب کچھ بیانات ذکر کئے ہیں کہ یہ سب باتیں ان حقائق و مطالب کے بر عکس ہیں جنھیں تمام مورخین نے مختلف طریقوں سے درج کیا ہے ۔

داستان جمل کے نتائج

سیف کی روایات میں ،عثمان کے زمانے کے بعد رونما ہوئی بغاوتوں اور شورشوں کے شعلے کبجھانے میں نمایاں اور قابل تحسین کام انجام دینے کا سحرا افسانوی سورما قعقاع بن عمر وتمیمی کے سر ہی باندھا گیا ہے اور کسی کواس میں شریک نہیں کیا گیا ہے ۔

کیوں کہ سیف کی روایتوں کے مطابق :

یہ قعقاع ہے جو سبائی شورشیوں کو مسجد کوفہ میں جمع ہونے سے منع کرتا ہے اور اس روز ان کے اور کوفہ کے گونر کے درمیان بھڑکنے والے فتنہ کے شعلوں کو بجھاتاہے ۔

یہ وہی شخص ہے جو ایک فوج کو اپنی قیادت میں لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوتا ہے تاکہ محاصرہ میں پھنسے خلیفہ عثمان بن عفان کو باغیوں اور تخریب کاروں سے نجات دلائے ،لیکن جب راستے میں عثمان کے قتل ہونے کی خبر سنتا ہے تو کوفہ واپس لوٹنے پر مجبور ہوتا ہے ۔

یہ قعقاع ہی تھا جو لوگوں اور کوفہ کے گورنر کے درمیان حکمیت کا رول ادا کرتا ہے اور حکمیت میں اس کی بات مؤثر ثابت ہوتی ہے ،وہ حکم دیتا ہے کہ امام کی مدد کے لئے لوگ ان کے فوجی کیمپ کی طرف روانہ ہو جائیں اور لوگ بھی اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں ۔

۲۵۳

اور یہی قعقاع ہے کہ امام اس پر اعتماد کرتے ہوئے اسے حکم دیتے ہیں کہ امام کے ایلچی کی حیثیت سے جمل کے خیر خواہوں اور امام کے درمیان صلح و آشتی کی کوشش کرے اور اس کی سرگرمیاں مطلوبہ نتیجہ تک پہنچتی ہیں اور دونوں گروہوں کے درمیان صلح کے مقدمات طے پاتے ہیں کہ اچانک عبداللہ ابن سبا یمانی کی شیطنتوں اور دخل اندازی سے تمام کوشیشی نقش بر آب ہو جاتی ہیں اور قعقاع کی فہم و فراست سے خاموش ہونے والی جنگ کی آگ سبائیوں کی شازشوں کے نتیجہ میں انتہائی تباہ کن صورت میں بھڑک اٹھتی ہے اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد لقمۂ اجل بنادیتی ہے ۔

یہ وہی قعقاع تھا جس نے اونٹ کو مارڈالنے کا حکم جاری کرکے جنگ کو خاتمہ بخشا۔

یہ وہی قعقاع تھا جس نے جنگ کے آخر میں ''تم سب امان میں ہو '' کا حکم جاری کرکے جمل کے سپاہیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا اورجمل کے پریشان حال جنگجوئوں کو بد ترین حالات و نتائج سے نجات دلائی ۔

آخر میں یہ قعقاع ہی ہے جو عائشہ کی محمل کو اٹھا کر اسے زمین پر رکھتا ہے ۔

جی ہاں !ان سب افتخارات اور سر بلندیوں کا مالک وہی ہے ،یعنی قعقاع بن عمرو ،ناقابل شکست پہلوان،امت کا محب ، مسلمانوں کا ہمدرد ، ایک قابل اطاعت سپہ سالار اور خاندان تمیم کا با اثر قائد جو خاندان تمیم اورمضر کے تاج میں ستارے کی طرح چمکتا ہے اور ان تمام فخر و مباہات کا مالک ہے

اس کے مقابلے میں جو تمام برائیاں ، شور شیں ، فتنے، تخریب کاریاں ،مصیبت و بلائیں اور بد بختیاں اسلامی معاشرے کو در پیش آئی ہیں وہ سب کی سب عبد اللہ ابن سبا یہودی یمانی کے ہیرو سبائیوں کی وجہ سے تھیں ۔ اس لئے تمام نفرین و ملامت کے مستحق سبائی اور یمانی ہیں ۔

۲۵۴

سیف ابن عمر تمیمی نے اس تمہید سازی، عجیب و غریب افسانے گڑھ کر ، تاریخ کے سنوں میں تبدیلی کرکے، حکام کے خطوط میں تغیر دے کر، جنگیں اور میدان جنگ جعل کرکے اور خاص کر سبائیوں اور ابن سبا کے افسانے کے منصوبے کے ذریعہ اپنا شیطانی مقصد حاصل کرنا چاہا ہے اور سیف کی خوش قسمتی سے امام المؤرخین ابو جعفر جریر طبری کی مہربانی اور خصوصی توجہ سے جو اہمیت سیف کے افسانوں کو ملی ہے اس سے سیف اپنے ناپاک عزائم میں اچھی طرح کامیاب ہوا ہے، کیونکہ بارہ صدیوں سے تاریخ اسلام کے حقائق سیف کے ان تخیلاتی افسانوں کے بادلوں کے پیچھے کھوگئے ہیں ۔

آخر میں کیا یہ کہنا بہتر نہیں کہ سیف خاندانی تعصب کا بہانہ بناکر اس کی آڑ میں خود اپنے دینی اعتقادات کے تحت اسلام کو کمزور کرکے اسے نابود کرنے کے در پے تھا۔کیا سیف کو زندیق اور مانوی مذہب کا پیرو ذکر نہیں کیا گیا ہے؟

قعقاع کے کام کا خاتمہ

یہاں تک ،سیف بن عمر کی طرف سے اس کے ناقابل شکست افسانوی سور ما قعقاع بن عمرو کے سلسلے میں اس کی شجاعتوں ،رجز خوانیوں ، رزمیہ اشعار اور تعجب خیز کارناموں کے بارے میں ہمیں جو کچھ ملاہے، وہ اختتام کو پہنچتا ہے۔

جنگ جمل کے بعدسے اس وقت تک قعقاع کا کہیں نام نہیں لیا جاتا ہے، یہاں تک کہ طبری دوبارہ سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ صفین کی جنگ جمل سے شباہت کے بارے میں قعقاع ابن عمر و سے یوں روایت کرتا ہے:

میں نے دنیا میں کسی چیز کو صفین اور جمل کی دوجنگوں جیسا شبیہ نہیں دیکھا۔ کیونکہ اس جنگ میں دوفوجیں اس قدر ایک دوسرے کی نزدیک آچکی تھیں کہ ہم نے مجبور ہو کر اپنے نیزوں کے ساتھ ٹیک لگائی اور اپنے دانتوں سے ایک دوسرے سے جنگ کی اس طرح روبرو ہونا اور نیزوں کا زمین میں نصب ہونا اس قدر گنجان اور نزدیک تھا کہ اگر لوگ نیزوں پر قدم رکھ کر چلنا چاہتے تو یہ ممکن تھا!!

سیف نے صفین کے بارے میں یہ عجیب و غریب توصیف کرکے اپنے افسانوی سورما قعقاع کو اس میں شریک قرار دیا ہے کیونکہ یہ قعقاع ہے جس نے جنگ کو نزدیک سے دیکھا ہے اور اس میں شرکت کی ہے.

۲۵۵

اس روایت کے علاوہ کوئی اور روایت سیف سے نقل نہیں ہوئی ہے جو اس بات کی دلیل ہو کہ قعقاع نے صفین یا صفین کے بعد کسی جنگ میں شرکت کی ہو۔

قعقاع کے بارے میں سیف کے ذریعہ جو آخری روایت ہم تک پہنچی ہے وہ ایک ایسی روایت ہے جسے طبری نے ١١ ھکے حوادث کے ضمن میں بیان کیا ہے اور وہ حسب ذیل ہے:

معاویہ نے (عام الجماعة) سال ''اتحاد و یکجہتی''جس سال امام حسن ں اور معاویہ نے صلح کی کے بعد علی کے دوستوں اور طرفداروں کو ایک ایک کرکے کوفہ سے جلاوطن کیا اور ان کی جگہوں پر اپنے دوستوں اور طرفداروں کو آباد کیا۔انھیں مختلف شہروں میں ''جلاوطن ''ہونے والوں کے نام سے یاد کیا جاتاہے.کوفہ سے جلاوطن ہونے والوں میں سے ایک قعقاع بن عمرو بھی تھا کہ اسے فلسطین کے شہر ایلیا جلاوطن کیا گیا اور اس کی جگہ پر خاندان تغلب کے افراد من جملہ سجاح نامی ایک شخص کو لاکر قعقاع اور بنی عقفان سے مربوط اس کے دیگر رشتہ داروں کے محلے میں آباد کیا گیا۔

اسلامی اسناد میں قعقاع کانام

جو کچھ ہم نے یہاں تک قعقاع بن عمرو کے بارے میں بیان کیا، ان سب نے مل جل کر نوبت یہاں تک پہنچائی ہے کہ ابو جعفر محمد بن حسن ملقب بہ شیخ طوسی(وفات ٤٦٠ھ )بھی علم رجال کی اپنی کتاب میں دوجگہوں پر قعقاع کو امیر المؤمنین کے صحابی کے طور پر درج کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :''اس کانام قعقاع تھا''.اور دوسری جگہ پر لکھتے ہیں :''قعقاع بن عمیر تیمی''۔ ان دو جملوں کے علاوہ اس سلسلے میں کسی قسم کی تشریح و تفسیر نہیں لکھی ہے۔

شیخ طوسی کے بعد جن علماء نے ان سے اس بات کو نقل کرکے اپنی کتابوں م میں درج کیاہے، حسب ذیل ہیں :

اردبیلی(وفات ١١٠١ھ )نے کتاب ''جامع الروات''میں ، قہپائی نے ''مجمع الرجال''میں جس کی تألیف ١٠١٦ھ میں مکمل ہوئی ہے اور مامقانی نے کتاب ''تنقیح المقال '' میں شیخ طوسی کی کتاب رجال کا حوالہ دیکر قعقاع کانام لیا ہے ۔

۲۵۶

مامقانی لکھتے ہیں :

قعقاع شیخ(رض) نے اپنی رجال کی کتاب میں ''اصحاب علی ''کے باب میں دو جگہوں پر اس کا نام لیا ہے۔ ایک جگہ پر صرف اس کا نام لیا ہے اور دوسری جگہ پر اس کے باپ اور خاندان کا نام بھی ذکر کیا ہے۔لیکن اس کے حالات کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ شیخ نے قعقاع کے باپ کا نام عمیر لکھا ہے جبکہ عبد البر اور ابن اثیر نے اس کا نام عمر لکھا ہے۔ بعید نہیں ہے کہ پہ پیغام صحیح تر ہو۔ اسی طرح ''اسد الغابہ'' میں جنگِ قادسیہ میں ایرانیوں کے خلاف پیکار کے دوران قعقاع کی شجاعتوں اور نمایاں کارناموں کے پیش نظر اسے روئے زمین کا شجاع ترین اور بے مثال پہلوان بتایاگیاہے۔ اس کے علاوہ اس میں آیا ہے کہ قعقاع نے جنگ جمل اور دیگر جنگوں میں علی کے ہمراہ شرکت کی ۔طلحہ و زبیر کے ساتھ اس نے اتنی بہتر گفتگو کی کہ اس کے سبب لوگ آپس میں صلح و آشتی کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اور یہ وہی شخص ہے جس کے

بارے میں ابوبکر نے کہا ہے:''لشکر میں قعقاع کی آواز ایک ہزار مردوں کی آواز سے بڑھکر ہے۔'' !

لفظ ''قعقاع'' کی تشریح میں صاحب ''قاموس الرجال'' نے مامقانی کی اس سلسلے میں درج کی گئی تمام باتوں کو ذکر کرتے ہوئے لکھاہے:

ظاہرا ًشیخ طوسی کا اپنی کتاب رجال میں مقصود پہلا قعقاع ، یعنی قعقاع بن ثور ہے کہ ابن ابی الحدید نے اس کے بارے میں کہا ہے: علی علیہ السلام نے اسے ''لشکر'' کی سرداری تفویض کی. اس نے ایک عورت کو ایک لاکھ درہم مہر دیدی اور علی کی بازپرسی کے ڈرسے معاویہ سے جاملا۔

۲۵۷

گزشتہ فصلوں کا خلاصہ

تخیل سیف القعقاع بن عمرو تمیماً

سیف نے اپنے خیالی سورما قعقاع کو عمرو کا بیٹا اور اپنے خاندان تمیم سے قرار دیا ہے ۔

(مولف)

قعقاع کا شجرۂ نسب اور منصب

سیف نے اپنے خیال میں قعقاع کو عمرو کا بیٹا ،مالک تصویر کا نواسہ اور اپنے قبیلہ تمیم سے تعلق رکھنے والا بتایا ہے اور کہتا ہے کہ اس کی ماں حنظلیہ تھی ،اس کے ماموں خاندان بارق سے تھے ۔ اس کی بیوی ہنیدہ خاندان ہلال نخع سے تھی ۔

سیف کہتا ہے کہ قعقاع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے احادیث روایت کی ہیں ۔وہ سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود تھا اور اس نے وہاں پر گزرے حالات کی اطلاع دی ہے ۔

ملاحظہ ہو اس کی جنگی سرگرمیاں :

ابوبکر کے زمانے میں قعقاع کی شجاعتیں

قعقاع ،قبیلہ ہوران کے خلاف حملہ میں ابوبکر کے حکم سے منظم کئے گئے ایک لشکر میں شرکت کرتا ہے کہ قبیلہ کا سردار علقمہ اس کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور قعقاع علقمہ کے اہل خانہ کو اسیر بنا لیتا ہے۔

فتوح کی جنگوں میں ابوبکر ،قعقاع کو سپہ سالار اعظم خالد بن ولید کی مدد طلب کرنے پر عراق کے علاقوں میں جنگ میں شرکت کرنے کے لئے مامور کرتے ہیں ،جب ابوبکر پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ خالد نے آپ سے ایک لشکر کی مدد چاہی تھی اور آپ صرف ایک آدمی کو اس کی مدد کے لئے بھیج رہے ہیں ؟ !تو ابوبکر جواب میں کہتے ہیں :جس سپاہ میں اس جیسا پہلوان موجود ہو وہ ہرگز شکست سے دو چار نہیں ہوگی !۔

۲۵۸

قعقاع جنگ ابلہ میں شرکت کرتا ہے ۔جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کی سپاہ کا کمانڈر ، خالد سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آیا ہے اور خالد کو فریب دینے کا نقشہ کھینچ رہا ہے تو قعقاع تن تنہا دشمن کی فوج پر حملہ کرکے دشمن کی ریشہ دوانیوں کو نقش بر آب کرکے رکھ دیتا ہے ۔

اس کے بعد قعقاع خالد بن ولید کے ساتھ المذار ،الثنی ،الولجہ اور الیس کی جنگوں میں شرکت کرتا ہے ۔

جنگ الیس میں خالد بن ولید اپنی قسم پوری کرنے کے لئے تین دن رات جنگی اسیروں کے سر تن سے جدا کرتا ہے تاکہ ان کے خون سے ایک بہتا ہوا دریا وجود میں لائے !لیکن خون زمین پر جاری نہیں ہوتا تب قعقاع اور اس کے ہم خیال خالد کی مدد کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور اسے مشورہ دیتے ہیں کہ خون پر پانی جاری کردے ۔اس طرح خالد کی قسم پوری ہوتی ہے اور تین دن رات تک خون کا دریا بہتا ہے جس کے نتیجہ میں اس دریا پر موجود پن چکیاں چلتی ہیں اور خالد کی فوج کے لئے آٹا مہیا ہوتا ہے ۔

حیرہ کے فتح کے بعد خالد بن ولید ،قعقاع کو سرحدی علاقوں کی کمانڈ اور حکومت سونپتا ہے اور قعقاع ،خالد کی طرف سے خراج ادا کرنے والوں کو دی جانے والی رسید پر دستخط کرتا ہے جب خالد عیاض کی مدد کے لئے حیرہ سے باہر جاتا ہے تو قعقاع کو اپنی جگہ پر جانشین مقرر کرکے حیرہ کی حکومت اسے سونپتا ہے ۔

قعقاع حصید کی جنگ میں سپہ سالار کی حیثیت سے عہدہ سنبھالتا ہے اور ایرانی فوج کے سپہ سالار روز مہر کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور فوج کے دوسرے سردار وں کے ہمراہ مصیخ بنی البرشاء اور فراض کی جنگوں میں شرکت کرتا ہے ۔اسی آخری جنگ کے خاتمہ پر خالد بن ولید حکم دیتا ہے کہ فراری دشمنوں کو تہہ تیغ کیا جائے ۔اس طرح میدان جنگ میں قتل کئے گئے اور فراری مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے ۔

اس کے بعد خلیفہ ابوبکر خالد بن ولید کو حکم دیتا ہے کہ عراق کی جنگ کو ناتمام چھوڑکر شام کی طرف روانہ ہو جائے ۔خالد گمان کرتا ہے کہ عمر نے اس کے ساتھ حسد کے پیش نظر ابوبکر کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ہوگا ۔قعقاع فوراً خالد کو نصیحت کرتا ہے اور عمر کے بارے میں اس کی بد ظنی کو حسن ظن میں تبدیل کر دیتا ہے ۔

۲۵۹

قعقاع خالد کی سپاہ کے ساتھ عراق سے شام کی طرف روانہ ہوتا ہے اور اس کے ہمراہ مصیخ بہراء ،مرج الصفر اور شام کے ابتدائی شہر قنات عراقی فوجیوں کے ہاتھوں فتح ہونے والاپہلا شہر کی جنگوں میں شرکت کرتا ہے اور اس کے بعد واقوصہ کی جنگ میں شرکت کرتا ہے ۔

قعقاع ان تمام جنگوں کی مناسبت سے شعر ،رزم نامے اور رجز کے ذریعہ ادبیات عرب کے خزانوں کو پُر کرتا ہے ۔

یرموک کی جنگ میں خالد اسے عراقی سپاہ کی کمانڈ سونپتا ہے اور اسے حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے قعقاع حکم کی تعمیل کرتا ہے اور چند اشعار بھی کہتا ہے ۔جنگ کے خاتمے پر جنگ واقوصہ میں رومیوں کے مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچتی ہے ۔

دمشق کی جنگ میں قعقاع اور ایک دوسرا پہلوان قلعۂ دمشق کے برج پر کمندیں ڈال کر دیوار پر چڑھتے ہیں اور دوسروں کی کمندوں کو برج کے ساتھ مضبوطی سے باندھتے ہیں اور اس طرح قلعہ کی دیوار سے اوپر چڑھ کر قلعہ کے محافظوں سے نبرد آزما ہونے کے بعد قلعہ کا دروازہ اسلامی فوج کے لئے کھولنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور شہر پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔قعقاع نے اس مناسبت سے بھی چند اشعار کہے ہیں ۔

عمر کے زمانے میں قعقاع کی شجاعتیں

اس کے بعد قعقاع جنگ فحل میں شرکت کرتا ہے ،جس میں اسّی ہزار رومی مارے جاتے ہیں ۔ وہ اس سلسلے میں دولافانی رزم نامے کہتا ہے اس کے بعد ایک لشکر کی قیادت کرتے ہوئے شام سے عراق کی طرف روانہ ہوتا ہے تاکہ اسلامی فوج کے سپہ سالارسعد وقاص کی مدد کرے اور جنگ قادسیہ میں شرکت کرے.

۲۶۰

قعقاع ایک ہزار سپاہیوں کو اپنی کمانڈ میں لئے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے منازل کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن اپنی وعدہ گاہ، یعنی قادسیہ کے میدان جنگ میں پہنچ جاتاہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرتاہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلہ کی رعایت کرتے ہوئے ایک عظیم طاقت کی صورت میں میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ فوجیوں کی ٹولیوں کی کثرت اسلامی فوج کی ہمت افزائی کا سبب بنیں اور خود پہلی ٹولی کے آگے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اسلامی فوج کو امداد پہنچنے کی نوید دیکر حوصلہ افزائی کرتاہے اور ان سے کہتاہے، جو کام میں کروں تم بھی اسی کو انجام دینا۔ اس کے بعد تن تنہا میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے ہم پلہ مد مقابل کا مطالبہ کرتاہے اور مثنی کے قاتل دشمن کے سپہ سالار ذوالحاجب کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دشمن کے ایک اور سردار اور پہلوان بیرزانِ پارسی کو قتل کرڈالتا ہے۔ اس کی شجاعت کو دیکھ کر اسلامی فوج کے سپاہی ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے:''جس سپاہ میں یہ پہلوان موجود ہو وہ سپاہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی''۔قعقاع کے سپاہی اس کے حکم کے مطابق اس دن شام ہونے تک وقفے وقفے سے ٹولیوں کی صورت میں آکر اسلامی فوج کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں اور ہر ٹولی کے پہنچنے پر قعقاع نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے اور مسلمان بھی اس کے جواب میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں ۔ اس طرح دوستوں کے دل قوی ہوتے ہیں اور دشمن متزلزل اور پریشان ہوجاتے ہیں ۔

اسی فرضی اغواث کے دن سعد وقاص ان گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو انعام کے طور پر دیتا ہے، جو خلیفہ عمر نے جنگ قادسیہ کے بہترین پہلوانوں کے لئے بھیجے تھے ۔ قعقاع اس روز تین بہترین رزم نامے کہتا ہے۔

اسی جنگ میں قعقاع اپنے ما تحت افراد کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو کپڑے سے اس طرح ڈھانپیں تا کہ وہ ہاتھی جیسے نظر آئیں پھر ان کو دس دس کی ٹولیوں میں ایرانی فوج کے گھوڑسواروں کی طرف روانہ کریں تا کہ وہ وحشت سے اپنے ہی لشکر کی صفوں کو چیرتے ہوئے بھگدڑمچائیں ، پھر خاندان تمیم کے چابک سوار بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔

عماس کی شب کو قعقاع اپنے ماتحت افراد کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اسی جگہ پر لے جاتا ہے جہاں پر اغواث کے دن انھیں جمع کرچکاتھا، اور حکم دیتا ہے کہ اس کے افراد

۲۶۱

اغواث کے دن کی طرح لیکن اس دفعہ سو١٠٠ سو١٠٠افراد کی ٹولیوں میں میدان جنگ کی طرف بڑھیں اور

جب سو افراد کی پہلی ٹولی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو دوسری ٹولی آگے بڑھے اور اسی ترتیب سے

دیگر ٹولیاں آگے بڑھیں ۔ اس جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمان فوج کا حوصلہ اس روز بھی اغواث کے دن کی طرح مددگار فوج کی آمد کی امیدمیں بلند ہوجاتاہے۔

جب سعد وقاص مشاہدہ کرتا ہے کہ ایرانی فوج کا ہاتھی سوار دستہ اسلامی فوج کی صفوں کو تتربتر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ قعقاع اور اس کے بھائی کو حکم دیتا ہے کہ ان کے راہنما اور آگے آگے چلنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کردیں ۔قعقاع اور اس کا بھائی سفید ہاتھی کی دونوں آنکھیں نکال کر اسے اندھا بنا دیتے ہیں اور قعقاع تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کوکاٹ کر جدا کردیتا ہے اور بالاخر اسے مار ڈالنے کے بعد ایک لافانی رزم نامہ لکھتا ہے ۔

جنگ ''لیلة الھریر '' میں قعقاع میدان جنگ کی طرف دوڑ نے میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں پہل کرتا ہے اور ایک شعلہ بیان تقریر کرکے اپنے سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے کے لئے جوش دلاتا ہے اور دوسرے پہلوانوں اور دلاوروں کی مدد سے دشمن کے سپہ سالار اعظم رستم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور مشرکین کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے ۔اس طرح ایرانی فوج کے تیس سے زائد دستوں کے دلاوروں کے مقابلے میں اسی تعداد میں اسلامی فوج کے دلاور بھی مقابلے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ان میں قعقاع اپنے ہم پلہ پہلوان قارن کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتا ہے اور باقی ایرانی فوجی یا مارے جاتے ہیں یا فرار کر جاتے ہیں ۔اور سعد وقاص حکم جاری کرتا ہے کہ فراریوں کا پیچھا کیا جائے آخر میں سعد وقاص قعقاع کے حق میں ایک قصیدہ بڑھ کر اس کی تمجید و تجلیل کرتا ہے ۔

قادسیہ کی جنگ کی وجہ سے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتیں اپنے شوہر وں کے مارے جانے کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہیں اور قبیلہ مضر کے مہاجرین سے شادیاں کرتی ہیں ان میں قعقاع کی بیوی کی بہن ہنیدہ بھی تھی وہ اپنی بہن کے ذریعہ اپنے لئے شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں قعقاع کا نظریہ معلوم کرتی ہے اور قعقاع چند اشعار کے ذریعہ اس کی راہنمائی کرتا ہے اور فتح بہر سیر کے بارے میں شعر کہتا ہے ۔

۲۶۲

اسلامی فوج کے دریائے دجلہ کو عبور کرتے ہوئے غرقدہ نامی قبیلۂ بارق کا ایک شخص گھوڑے سے گر کر دریا میں ڈوب جاتا ہے ،قعقاع اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساحل تک کھینچ لے آتا ہے اور اسے غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔غرقدہ ایک قوی پہلوان تھا ۔وہ قعقاع کی ستائش کرتے ہوئے کہتا ہے '' عورتیں تجھ جیسا فرزند ہر گز جنم نہیں دے سکتیں ''

قعقاع کا فوجی دستہ'' اہوال'' کے نام سے مشہور تھا ،پہلا فوجی دستہ تھا جس نے مدائن میں قدم رکھا ۔

قعقاع ایرانی شکست خوردہ فراری سپاہیوں کا تعاقب کرتا ہے اور اس کی ایک فراری شخص کے ساتھ مڈبھیڑ ہوتی ہے ،قعقاع اسے قتل کر ڈالتا ہے اور دو چوپایوں پر بار کئے ہوئے اس کے اثاثہ پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیتا ہے ۔جب ان گٹھریوں کو کھول کے دیکھتا ہے تو ان میں ایران ،روم ،ترک اور عرب بادشاہوں کا فو جی سازوسامان پاتا ہے ۔اسلامی فوج کا کمانڈر انچیف سعد وقاص قعقاع کے حاصل کئے ہوئے اس مال غنیمت میں سے روم کے بادشاہ ہر کلیوس کی تلوار اور بہرام کی زرہ قعقاع کو بخش دیتا ہے اور باقی مال خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیتا ہے ۔

جلولا کی جنگ:

جلولاء کی جنگ میں خلیفہ ،سعد وقاص کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک فوجی دستے کی کمانڈدے کر فتح جلولاء کے لئے ہراول دستے کے طور پر ماموریت دے اور جلولاء کو فتح کرنے کے بعد شام تک پھیلے ہوئے ایران کے مغربی علاقوں کی حکومت اس کو سونپے ۔قعقاع جلولاء کی طرف روانہ ہوتا ہے اور پناہ گاہوں میں مورچہ بند ی کئے ہوئے ایرانیوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیتاہے ۔ لیکن ایرانی اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف لوہے کے تیز دھار والے ٹکڑے پھیلاکر اسلامی فوج کے لئے پناہ گاہ تک پہنچنے میں رکاوٹیں گھڑی کرتے ہیں اور صرف اپنے لئے رفت و آمد کا ایک خاص اور محفوظ راستہ بناتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ پناہ گاہ سے باہر نہیں نکلتے یہ حالت اسّی روز تک جاری رہتی ہے ۔

۲۶۳

قعقاع اس مدت میں ایک مناسب فرصت کی انتظار میں رہتا ہے اور اچانک حملہ کرکے رفت و آمد کے تنہا راستہ پر قبضہ جما لیتا ہے اور جنگی حکمت عملی سے مسلمان فوج کو حملہ کے لئے جو ش دلاتا ہے اور یہی امر دشمن کو شکست دینے کا سبب بن جاتا ہے ،اس معرکہ میں مشرکین کے ایک لاکھ فوجی کا م آتے ہیں او رباقی فرار کرتے ہیں اور مسلمان ،فراریوں کا خانقین تک پیچھا کرتے ہیں ۔ فراریوں میں سے بعض مارے جاتے ہیں اور بعض اسیر کئے جاتے ہیں ایرانی فوج کا کمانڈر مہران بھی مارا جاتا ہے ۔

قعقاع اپنی پیش قدمی کو قصر شیریں تک جاری رکھتا ہے ،حلوان کے سرحد بانوں کو قتل کرتاہے فوجی کیمپ اور شہر پر قبضہ کرکے سعد وقاص کے واپس کوفہ پہنچنے تک وہیں پر پڑائو ڈالتا ہے ۔قععقاع نے جلولاء کے بارے میں بھی شعر کہے ہیں ۔

شام سے ابو عبیدہ خلیفہ عمر سے مدد طلب کرتا ہے خلیفہ سعد کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک سپاہ کی کمانڈ میں ابو عبیدہ کی مدد کے لئے شام روانہ کرے ۔قعقاع چار ہزار جنگجوئوں کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوتا ہے جب مشرکین کو قعقاع اور اس کے سپاہیوں کے آنے کی خبر ملتی ہے تو ابو عبیدہ پر سے محاصرہ اٹھا لیتے ہیں منتشر ہو جاتے ہیں اور ابوعبیدہ ،قعقاع کی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی حمص کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔عمر حکم دیتا ہے کہ قعقاع اور اس کے سپاہیوں کو بھی مال غنیمت کی تقسیم میں شریک قرار دیا جائے ۔قعقاع اس مناسبت سے بھی چند شعر کہتاہے ۔

نہاوند کی جنگ :

نہاوند میں ایرانی ،قلعہ میں پناہ لیتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ اس سے باہر نہیں نکلتے ہیں ۔ قلعۂ نہاوند پر مسلمانوں کے محاصرہ کا کام طول پکڑتا ہے ۔آخر قعقاع ایک تدبیر سوچتاہے اور جنگ شروع کرتا ہے ،اچانک حملہ کرتا ہے ،جب مشرکین دفاع کرنے لگتے ہیں تو مسلمان پیچھے ہٹتے ہیں ، ایرانی ان کا پیچھا کرتے ہیں اور مسلمان پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ،اس طرح دشمن کو قلعہ سے باہر کھینچ لاتے ہیں ۔ وہ اس حد تک باہر آتے ہیں کہ قلعہ میں قلعہ کے محافظوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہتا ۔اچانک مسلمان مڑ کر تلواروں سے ان پر وار کر دیتے ہیں اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیتے ہیں ،زمین ان کے خون سے بھرجاتی ہے اور ایسی پھسلنی بن جاتی ہے کہ سوار اور پیدل فوجی اس پر پھسل جاتے ہیں جب دن گزر کر رات پہنچ جاتی ہے تو ایرانی شکست کھا کر فرار کرنے لگتے ہیں ۔وہ راہ اور چاہ میں تمیز نہیں کرسکتے اور اپنی کھودی ہوئی خندق اور اس میں جلائی گئی آگ میں ایک ایک کرکے گرتے جاتے ہیں اور جل جاتے ہیں وہ اس آگ سے بھری خندق میں گرتے ہوئے فارسی زبان میں فریاد بلند کرتے ہیں '' وائے خرد'' آخر کار ایک لاکھ انسان اس آگ میں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں یہ تعداد ان مقتولین کے علاوہ ہے جو اس جنگ کے میدان کارزار میں کام آئے تھے !

۲۶۴

نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوج کا سپہ سالار فیروزان بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے او ر ہمدان کی طرف فرار کرتا ہے ،قعقاع اس کا پیچھا کرتا ہے اور ہمدان کی گزرگاہ پر اس کے قریب پہنچتا ہے ۔ لیکن گزر گاہ میں موجود شہدکا بار لے جانے والے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے فیروزان گزر گاہ کو عبور نہیں کر سکتا ہے ۔گھوڑے سے اتر کر پہاڑ کی طرف بھاگتا ہے اسی اثنا ء میں قعقاع پہنچ کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالتا ہے ۔شہد کا بار لئے ہوئے مویشیوں کے سبب راستہ بند ہونے کے موضوع کی وجہ سے یہ جملہ عام ہو جاتاہے کہ '' خدا کے پاس شہد کی ایک فوج بھی ہے ''

فیروزان کے قتل ہونے کے بعد ہمدان اور ماہان کے باشندے قعقاع سے امان کی درخواست کرتے ہیں ۔امان نامہ لکھا جاتا ہے اور قعقاع اس کی تائید و گواہی میں اس پر دستخط کرتا ہے ۔ وہ اس مناسبت سے بھی اشعار کہتا ہے ۔

قعقاع ،عثمان کے زمانہ میں

خلیفہ عثمان ٣٤ھاور ٣٥ھ میں قعقاع کو کوفہ کے علاقوں کے سپہ سالار اعظم کی حیثیت سے مقرر کرتا ہے ۔

کوفہ میں شورش و فتنہ پرپا ہونے پر قعقاع دیکھتا ہے کہ سبائی مسجد کوفہ میں اجتماع کرکے خلیفہ عثمان کی معزولی وبر طرفی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔قعقاع انھیں دھمکاتا ہے ،سبائی ڈر کے مارے اپنے مطالبات کو چھپاتے ہیں او ر اظہار کرتے ہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ قعقاع ان سے کہتا ہے :تمھارا مطالبہ پورا ہوگا !اس کے بعد انھیں حکم دیتا ہے کہ متفرق ہو جائیں اور اب مسجد میں اجتماع نہ کریں ۔

جب مالک اشتر کوفہ کے گونر کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے شورشیوں اور باغیوں کو اکساتا ہے تو کوفہ کا ڈپٹی گورنر ان کو نصیحت کرتے ہوئے بغاوت کو روکتا ہے ۔قعقاع ڈپٹی گورنر کو صبر کا مظاہر ہ کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بھی اس کی بات کو مانتے ہوئے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔

۲۶۵

جب سبائی دوبارہ مسجد کوفہ میں ا جتماع کرتے ہیں اور عثمان کے خلاف بد گوئی کرتے ہیں تو قعقاع سبائیوں کو نصیحت کرکے ٹھنڈا کرتا ہے اور وعدہ دیتا ہے کہ عثمان کے مقرر کردہ تمام عہدہ داروں کو برطرف کر دے گا اور ان کے مطالبات قبول کئے جائیں گے ۔

جب عثمان نے مختلف شہروں کے باشندوں سے مدد طلب کی کہ اسے محاصر ہ سے نجات دلائیں تو قعقاع کوفہ سے اور دوسرے لوگ دیگر شہروں سے عثمان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب عثمان کو محاصرہ کرنے والے سبائی اس خبر سے مطلع ہوتے ہیں کہ عثمان کے حامی ان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف آرہے ہیں تو فورا ًعثمان کا کام تمام کر دیتے ہیں عثمان کے قتل کی خبر سنتے ہی قعقاع راستے ہی سے کوفہ کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔

۲۶۶

قعقاع ،حضرت علی کے زمانہ میں

جب حضرت علی ـ نے بصرہ میں جنگ جمل کے لئے کوفیوں سے مدد طلب کی اور ابو موسیٰ اشعری نے اس امر میں امام کی نافرمانی کی اور ان کے اور کوفہ کے باشندوں سے اختلافات پیدا ہوئے ،تو قعقاع مصلح کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے امام کی دعوت قبول کریں ۔لوگ اس کی نصیحت قبول کرکے امام کی فوج سے ملحق ہوتے ہیں اور خود قعقاع بھی پانچ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ امام کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے ۔(۱)

امام حکم دیتے ہیں کہ قعقاع ان کے ایلچی کی حیثیت سے صلح و آشتی برقرار کرنے کے لئے طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے پاس جائے ۔قعقاع کی سر گرمیوں اور حسن نیت کی وجہ سے اختلاف وتفرقہ ختم ہونے والا تھا لیکن سبائی اس صلح و آشتی کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیتے ہیں اور طرفین کی بے خبری میں رات کی تاریکی میں دونوں فوجوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں ۔

قعقاع امام کے ہمراہ جنگ میں شرکت کرتے ہوئے خود کو عائشہ کے اونٹ کے نزدیک پہنچا تا ہے اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ اونٹ کا کام تمام کردو او ر جنگ کے خاتمہ پر جمل کے خیر خواہوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : ''تم امان میں ہو''

ام المومنین عائشہ رو نما ہوئے ان حالات پر پشیمان ہوتی ہیں ،امام بھی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں تمناکرتے ہیں کہ کاش اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر چکے ہوتے!

امام قعقاع کو حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کی بے احترامی کرنے والے دو افراد کو سو سوکوڑے مارے ۔

آخر میں سیف نے ایک ایسی روایت بھی نقل کی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ قعقاع نے صفین کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے ۔

آخر کار معاویہ '' عام الجماعة'' کے بعد حضرت علی ـکے حامیوں اور طرفداروں کو جلاوطن کرتا ہے ۔اور قعقاع کو بھی اسی الزام میں فلسطین کے ایلیا نام کے علاقہ میں جلا وطن کرتا ہے اور ان کی جگہ پر اپنے حامیوں اور رشتہ دارون کو کوفہ میں آباد کرتا ہے ،سیف نے ان جلاوطن ہونے والوں کے نام بھی رکھے اور انھیں ''منتقل ہونے والے '' کہا ہے ۔

____________________

الف )۔تاریخ طبری طبع یورپ ٢١٦١

۲۶۷

احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

لم نجد لهم ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے ان راویوں کے نام ، سیف کی روایت کے علاوہ روایتوں کی کسی بھی کتاب میں نہیں پائے۔

(مولف)

ہم نے گزشتہ فصلو ں میں قعقاع کے بارے میں سیف کی روایات پر بحث و تحقیق کی ۔ اب ہم اس فصل میں پہلے ان راویوں کے بارے میں بحث کریں گے جن سے سیف نے روایات نقل کی ہیں اور اس کے بعد ان کتابوں کا جائزہ لیں گے جن میں سیف سے رواتیں نقل کی گئی ہیں ۔

١۔وہ راوی جن سے سیف نے رواتیں نقل کی ہیں

قعقاع بن عمر تمیمی کا افسانہ سیف کی ٦٨روایات میں ذکر ہوا ہے ۔امام المورخین طبری نے ان میں سے اکثر کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔جب ہم ان روایات کی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے :

(١) اس کی ٣٨روایات میں محمد کانام راوی کی حیثیت سے ذکر ہواہے ۔سیف اس محمد کو ابن عبد اللہ بن سوادبن نویرہ بتاتاہے اور اختصار کے طور پر اسے محمد نویرہ یا محمد بن عبداللہ اور اکثر صرف محمد کے نام سے ذکر کرتا ہے ۔

(٢) اس کا ایک راوی مہلب بن عتبہ اسدی ہے جس سے اس نے اپنی پندرہ روایات نقل کی ہیں طبری اسے اختصار کے طور پر مہلب ذکر کرتا ہے ۔

(٣) یزید بن اسید غسانی ،اس کا ایک اور راوی ہے ۔اس کا نام اس نے اپنی دس روایات کی سند میں ذکر کیا ہے اور اس کی کنیت ابو عثمان بیان کی ہے ۔

۲۶۸

(٤) سیف کی آٹھ احادیث کا راوی زیاد بن سرجس احمری ہے ۔سیف اختصار کے طور پر اسے زیاد یا زیاد بن سرجس کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(٥) الغصن بن قاسم کنانی ۔

(٦) عبداللہ بن سعید بن ثابت جذع ،اختصار کے طور پر سیف اسے عبداللہ بن سعید یا عبداللہ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔

(٧) ظفر بن دہی ،یہ سیف کے ان اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہے جنھیں اس نے خود جعل کیا ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ۔

(٨) قعقاع بن عمروتمیمی ،ظفر کے مانند یہ بھی اس کا ایک جعلی صحابی ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ،

(٩) صعب بن عطیہ بن بلال یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،جب کہ باپ بیٹے دونوں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں اور ایک ہی انداز کی روایت کرتے ہیں ۔

(١٠) نضر بن سری الضبی ،بعض اوقات اس کا نام سیف کی احادیث میں اختصار کے طور پر نضر ذکر ہواہے ۔

(١١) ابن رفیل ،اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،رفیل کے باپ کو سیف بن عمر ،رفیل بن میسور کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(١٢) عبدالرحمن بن سیاہ احمر ی ،سیف اس کانام لقب کے بغیر ذکرکرتاہے۔

(١٣) مستنیر بن یزید ،اس نام سے سیف کامقصود مستنیر بن یزید نخعی ہے ۔

(١٤) قیس ،سیف اسے مستنیرکابھائی بتاتاہے ۔

(١٥) سہل ،سیف نے اسے سہل بن یوسف سلمی خیال کیاہے ۔

(١٦) بطان بشر

(١٧) ابن ابو مکنف

(١٨) طلحہ بن عبد الرحمان ،اس کی کنیت ابوسفیان بتائی ہے ۔

(١٩) حمید بن ابی شجار

(٢٠) المقطع بن ھیثم بکائی

۲۶۹

(٢١) عبد اللہ بن محفز بن ثعلبہ ،وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،باپ بیٹے دونوں سیف کی صرف ایک حدیث کے راوی ہیں ۔

(٢٢) حنظلة بن زیاد بن حنظلۂ تمیمی.

(٢٣) عروة بن ولید

(٢٤) ابو معبد عبسی

(٢٥) جریر بن اشرس

(٢٦) صعصعةالمزنی

(٢٧) مخلد بن کثیر

(٢٨) عصمة الوامکی

(٢٩) عمرو بن ریان

٢۔وہ علما ء جنھوں نے سیف سے روایتیں نقل کی ہے

١۔تمام وہ افسانے جنھیں اب تک ہم نے قعقاع کے بارے میں ذکر کیا ،انہیں پہلی بار سیف بن عمر تمیمی( وفات تقریباً ١٧٠ ھ )نے ''فتوح''اور ''جمل''نامی اپنی دوکتابوں میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

مندرجہ ذیل علماء نے ان کتابوں سے قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے:

٢۔طبری (وفات ٣١٠ھ)نے اپنی کتاب ''تاریخ کبیر''میں ۔

٣۔الرّازی(وفات ٣٧٧ھ )نے کتاب ''جرح و تعدیل''میں ۔

٤۔ابن السکن(وفات ٣٥٣ھ ) نے کتاب ''حروف الصحابہ''میں ۔

٥۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ ھ) نے کتاب ''تاریخ مدینہ و دمشق''میں ۔

ان سے بھی درج ذیل مؤلفین نے اپنی ادبی کتابوں میں سیف کے مطالب کو نقل کیاہے :

٦۔الاصبھانی (وفات ٣٥٦ھ ) نے کتاب ''اغانی''میں ،طبری سے نقل کیا ہے۔

۲۷۰

٧۔ابن بدرون(وفات ٥٦٠ ھ) نے ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٨۔ابن عبد البر(وفات ٤٦٣ھ ) نے کتاب ''الاستیعاب'' میں ، سیف کے مطالب کو رازی سے نقل کیا ہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب''اسد الغابہ ''میں ،سیف کے مطالب کو ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے۔

١٠۔ذہبی (وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب ''التجرید''میں ابن اثیر سے نقل کیاہے۔

١١۔ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب ''الاصابہ '' میں ان مطالب کو خود سیف بن عمر، طبری ، رازی ، ابن سکن اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔

سیف کے افسانے تاریخ کی مندرجہ ذیل عمومی کتابوں میں بھی نقل ہوئے ہیں :

١٢۔ابن اثیر(وفات ٦٣٠ھ) نے کتاب ''تاریخ کامل '' میں طبری سے نقل کیا ہے۔

١٣۔ابن کثیر (وفات ٧٧٠ھ ) نے کتاب ''تاریخ البدایہ''میں طبری سے نقل کیاہے۔

جغرافیہ کی کتابوں میں بھی سیف کے افسانے درج کئے گئے ہیں :

١٥۔الحموی(وفات ٦٢٦ ھ) نے کتاب ''معجم البلدان''میں براہ راست سیف بن عمر سے نقل کیاہے۔

١٦۔عبد المؤمن (وفات ٧٣٠ھ) نے کتاب ''مراصدا لاطلاع'' میں حموی سے نقل کیا ہے ۔

١٧۔الحمیری(وفات ٩٠٠ھ ) نے کتاب ''روض المعطار'' میں براہ راست سیف سے نقل کیا ہے۔

قعقاع کے افسانوں کا ان کتابوں میں اشاعت پانا اس امر کاسبب بنا کہ قعقاع کا نام شیعوں کی رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوجائے ،جیسے:

۲۷۱

١٨۔شیخ طوسی (وفات ٤٦٠ھ) نے کتاب ''رجال''میں ۔

١٩۔قہپائی (سال تألیف ١٠١٦ھ) نے کتاب ''مجمع الرجال'' میں شیخ کتاب ''رجا ل '' سے نقل کیا ہے۔

٢٠۔اردبیلی(وفات ١١٠١ھ) نے کتاب ''جامع الروات'' میں شیخ کی کتاب رجال سے نقل کیا ہے۔

٢١۔مامقانی ( وفات ١٣٥٠ھ ) نے کتاب ''تنقیح المقال'' میں شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

٢٢۔شوشتری، معاصر نے مامقانی کی کتاب ''تنقیح المقال ''اور شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

قعقاع کے بارے میں

سیف کی سڑسٹھ٦٧ روایتوں کا خلاصہ

قعقاع کی خبر اور اس کے حیرت انگیز افسانوی شجاعتیں اور کارنامے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ تاریخ اسلام کے دیگر معتبر مصادر و منابع میں وسیع پیمانے پر، شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سبوں نے سیف بن عمر تمیمی سے روایت نقل کی ہے۔ کیونکہ سیف مدعی ہے اور وہی روایت کرتا ہے کہ بے مثال اور نا قابل شکست تمیمی پہلوان، قعقاع بن عمرو تمیمی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی رہ چکا ہے اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایتیں نقل کی ہیں ، سقیفہ بنی ساعدہ کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں خبر بھی دی ہے، ارتداد اور فتوحات اسلامی کی اکتس جنگوں میں شرکت کی ہے۔ ان جنگوں میں سات لاکھ سے زائد انسان قتل عام ہوئے ہیں ان کے سرتن سے جدا کئے گئے ہیں یا جل کر راکھ ہوئے ہیں ۔ قعقاع بن عمر و تمیمی ان جنگوں کا بے مثال پہلوان اور مرکزی کردار و شیر مرد تھا، اس نے١ ٣ رزم نامے لکھے ہیں ۔

سیف نے ان تمام مطالب کو٦٧،احادیث میں بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر حدیث کو چند راویوں سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے چالیس راوی صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ایسی جنگوں کا نام لیا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسی جگہوں کا نام لیاہے جو بالکل وجود نہیں رکھتی تھیں اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسی جنگوں اور جگہوں کا نام لے کر ان کا تعارف کرایاہے۔

سیف منفرد شخص ہے جو تاریخ اسلا م کے چھبیس سال تک کے ایسے واقعات و حالات کی تشریح کرتا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئے ہیں اور دیگر کسی بھی خبر بیان کرنے والے نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ، بلکہ سیف نے تن تنہا ان افسانوں کی ایجاد کرکے اپنے تصور میں تخلیق اور کتابوں میں ثبت کیا ہے۔

۲۷۲

تحقیق کے منابع

ہم نے سیف کی احادیث کے راویوں کی تلاش کے سلسلے میں ان مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا جن میں تاریخ و حدیث کے تمام رایوں کے حالات درج ہیں ، مثال کے طور پر:

٭ '' علل و معرفة الرجال '' تالیف احمد بن حنبل ( وفات ٢٤١ھ)

٭ ''تاریخ بخاری '' تالیف بخاری ( وفات ٣٥٦ھ)

٭ '' جرح و تعدیل'' تالیف رازی(وفات٣٢٧)

٭ '' میزان الاعتدال '' ،والعبر''اور '' تذکرة الحفاظ''تألیف ذہبی (وفات ٧٤٨ھ

٭ ''لسان المیزان ''''تہذیب التہذیب'' ''تقریب التہیب'' اور ''تبصیرالمنتبہ'' تالیف ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ)

٭ '' خلاصة التہذیب '' تالیف صفی الدین ،کتاب کی تالیف کی تاریخ ٩٢٣ھ ہے۔

اس کے علاوہ طبقات کی کتابوں میں ،مثال کے طور پر :

٭ طبقات ابن سعد (وفات ٢٣٠ ھ )

٭ طبقات حنیفة بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)

اسی طرح کتب انساب میں ،جیسے :

٭ ''جمہرة انساب العرب '' تالیف ابن حزم (وفات ٤٥٤ھ)

٭ ''انساب ''سمعانی (وفات ٥٦٢ھ)

٭ ''اللباب '' ابن اثیر (وفات ٦٣٠)

۲۷۳

تحقیق کانتیجہ

ہم نے مذکورہ تمام کتابوں میں انتہائی تلاش و جستجو کی ،صرف انہی کتابوں پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے موضوع سے مربوط مزید دسیوں منابع و مصادر کا بھی مطالعہ کیا ،حدیث کی کتابیں جیسے مسند احمد کا مکمل دورہ اور صحاح ستہ کی تمام جلدیں ،ادبی کتابیں جیسے : ''عقد الفرید'' تالیف عبدالبر (وفات ٣٢٨ھ ) اور ''اغانی'' تالیف اصفہانی (وفات ٣٥٦ھ) اور ان کے علاوہ بھی دسیوں کتابوں کی ورق گردانی کی تاکہ سیف ابن عمر کے ان راویوں میں سے کسی ایک کا پتا چل جائے ،جن سے اس نے سیکڑوں احادیث روایت کی ہیں ،لیکن ان راویوں کے ناموں کا ہمیں سیف کے علاوہ کہیں نشان نہ ملا!اس بنا ء ہم ان تمام راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔انشاء اللہ جہاں ہم سیف کے جعلی راویوں کے بارے میں بحث کریں گے وہاں سیف کی زبانی ان کی زندگی کے حالات کی بھی تشریح کریں گے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے قعقاع کی روایات میں چند منفرد نام بھی راویوں کے طور پر ذکر کئے ہیں ،جیسے :

'' خالد کو تین روایات میں ،عبادہ کو دو روایات میں اور عطیہ و مغیرہ اور دیگر چند مجہول القاب و نام ،جن کی شناسائی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن ہے کہ سیف کے درج ذیل عنوان کے راویوں کی پہچان کی جا سکے :

''بنی کنانہ کا ایک مرد '' ،''بنی ضبہ کا ایک مرد ''،'' طی سے ایک مرد '' بنی ضبہ کا ایک بوڑھا '' ''اس سے جس نے خود بکر بن وائل سے سنا ہے '' ،ان سے جنھوں نے اپنے رشتہ داروں سے سنا ہے ''، ابن محراق نے اپنے باپ سے '' اور'' ان جیسے دیگر مجہول راوی جن سے سیف نے روایت کی ہے ؟!

تقریبا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سیف ابن عمرتمیمی نے ایسے راویوں کا ذکر کرتے وقت سنجیدگی کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے ۔

مذکورہ حالات کے پیش نظر قارئین کرام کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب سیف کی احادیث کے راویوں کی یہ حالت ہوتوخود سیف کی احادیث اور اس کی باتوں پر کس حد تک اعتبار اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟!

۲۷۴

چوتھا حصہ :

٢۔عاصم بن عمر و تمیمی

٭ عراق کی جنگ میں ۔

٭ ''دومة الجندل'' کی جنگ میں ۔

٭ مثنی کی جنگ میں ۔

٭ قادسیہ کی جنگ میں ۔

٭ جراثیم کے دن ۔

٭ سرزمین ایران میں ۔

٭ عاصم کے فرزند اور خاندان ۔

٭ عاصم کے بارے میں سیف کی احادیث کے راوی

۲۷۵

عاصم ،عراق کی جنگ میں

مصدر الجمیع فی ماذکروا هواحادیث سیف

جو کچھ علماء نے عاصم کے بارے میں لکھا ہے وہ سب سیف سے منقول ہے

( مولف )

عاصم کون ہے ؟

سیف بن عمر نے عاصم کو اپنے خیال میں قعقاع کا بھائی اور عمرو تمیمی کا بیٹا جعل کیا ہے اور اس کے لئے عمر و نامی ایک بیٹا بھی خلق کیا ہے کہ انشاء اللہ ہم باپ کے بعد اس کے اس بیٹے کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے ۔

عاصم بن عمر و سیف کے افسانوی سورمائوں کی دوسری شخصیت ہے کہ شجاعت ،دلاوری ،فہم و فراست ،سخن وری اور شعر و ادب وغیرہ کے لحاظ سے بھی سیف کے افسانوں میں اپنے بھائی قعقاع کے بعد دوسرے نمبر کا پہلوان ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں عاصم بن عمرو کی یوں تعریف کی ہے :

''عاصم ،خاندان بنی تمیم کا ایک دلاور اور اس خاندان کے نامور شاعروں میں سے ہے ''

ابن عساکر بھی اپنی عظیم تاریخ میں عاصم کی یوں تعریف کرتا ہے :

'' عاصم قبیلہ بنی تمیم کا ایک پہلوان اور اس خاندان کا ایک مشہور شاعر ہے ۔''

'' استیعاب'' اور تجرید '' جیسی کتابوں میں بھی اس کی تعریف کی گئی ہے ۔تاریخ طبری میں بھی اس کے بارے میں مفصل مطالب درج ہیں اور دوسروں نے بھی تاریخ طبری سے اقتباس کر کے عاصم بن عمرو کے بارے میں مطالب بیان کئے ہیں ۔طبری ہو یا دیگر مورخین ،عاصم سے مربوط تمام روایتوں کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی کی جعل احادیث اور روایتیں ہیں ''

چونکہ طبری نے عاصم بن عمرو کے بارے میں روایات کو ١٢ھ سے ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ کی کتاب میں مفصل اور واضح طور پر درج کیاہے،اس لئے ہم بھی عاصم کے بارے میں اسی کی تالیف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے بعد تحقیق کرکے حقائق کے پانے کے لئے ١٢ ھ سے ٢٩ھ تک کے حوادث سے مربوط دوسروں کے بیانات کا طبری سے موازنہ کرکے تحقیق کریں گے۔

۲۷۶

عاصم ،خالد کے ساتھ عراق میں

جریر طبری نے ١٢ھ کے تاریخی حوادث وواقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

چونکہ خالد بن ولید یمامہ(۱) کے مرتدوں سے بر سر پیکار تھا،اس لئے عاصم

بن عمرو کو ہراولی دستہ کے طور پر عراق روانہ کیا۔

____________________

١لف۔ یمامہ ،شہر نجد سے بحرین تک ١٠ دن کا فاصلہ ہے۔معجم البلدان۔

۲۷۷

عاصم نے خالد کی قیادت میں ایک سپاہ کے ہمراہ المذار کی جنگ میں شرکت کی اور انوش جان نامی ایرانی سپہ سالار کے تحت المذار میں جمع ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوا۔المقر اور دہانہ فرات باذقلی کی جنگ اور فتح حیرہ کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے طبری لکھتاہے:

خالد ،حیرہ کی طرف روانہ ہوا۔اپنے افراد اور اپناسازو سامان کشتی میں سوار کیا۔حیرہ کے سرحد بان نے اسلامی سپاہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اپنے بیٹے کو بند باندھنے کا حکم دیا تاکہ خالد کی کشتیاں کیچڑ میں دھنس جائیں ، خالد،سرحد بان کے بیٹے کی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور ان میں سے ایک گروہ کو مقر کے مقام پر قتل کیا ،سرحد بان کے بیٹے کو بھی فرات باذقلی کے مقام پر قتل کیا،سرحد بان کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا سرحد بان بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔خالد اپنی فوج کے ہمراہ حیرہ میں داخل ہوا اور اس کے محلوں اور خزانوں پر قبضہ جمالیا۔

خالد نے جب حیرہ کو فتح کیا تو عاصم بن عمرو کو کربلا کی فوجی چھاونی اور اس کے جنگی سازو سامان کی کمانڈ پر منصوب کیا۔

یہ ان مطالب کا ایک خلاصہ تھا جنھیں عاصم اور اس کی جنگوں کے بارے میں طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے.

حموی نے سیف کی روایتوں کے پیش نظر ان کی تشریح کی ہے اور مقر کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے:

مقر ، حیرہ کی سرزمینوں میں سے فرات باذقلی کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔ اس جگہ پر خلافت ابوبکرکے زمانے میں مسلمانوں نے خالد بن ولید کی قیادت میں ایرانیوں سے جنگ کی ہے اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

''سرزمین مقر میں ہم نے آشکارا طور پر اس کے جاری پانی اور وہاں کے باشندوں پر تسلط جمایا اور وہاں پر ان کو (اپنے دشمنوں کو) موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس کے بعد فرات کے دہانہ کی طرف حملہ کیا ، جہاں پر انہوں نے پناہ لی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہم ان ایرانی سواروں سے نبرد آزما ہوئے جو میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہتے تھے۔''

۲۷۸

حیرہ کی تشریح میں یوں کہتا ہے:

حیرہ نجف سے تین میل کی دوری پر ایک شہر ہے...

یہاں تک کہ کہتا ہے:

شہر حیرہ کو حیرة الروحاء کہتے ہیں ، عاصم بن عمرو نے اس جگہ کے بارے میں یوں کہاہے:

''ہم نے پیدل اور سوار فوجوں سے صبح سویر ے حیرۂ روحاپر حملہ کیا اور اس کے اطراف میں موجود سفید محلوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا''۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

یہ وہ مطلب ہیں جو سیف نے کہے ہیں .لیکن ہم نے سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جس نے مقر اور فرات باذقلی کے بارے میں کچھ لکھا ہو! لیکن ، حیرہ کے سرحد بان کے بارے میں جیسا کہ قعقاع ابن عمر و تمیمی کی داستان میں بلاذری سے نقل کرکے بیان کیا گیا ہے: ''ابوبکرکی خلافت کے زمانے میں مثنی نے المذار کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دی اور عمربن خطاب کی خلافت کے زمانے میں عتبہ بن غزوان فتح حیرہ کے لئے مأمور ہوا اور المذار کا سرحدبان اس کے مقابلہ کے لئے آیا اور ان دونوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ ایرانیوں نے شکست کھائی اور وہ سب کے سب پانی میں ڈوب گئے ۔ سرحد بان کا سر بھی تن سے جدا کیا گیا''۔

سند کی پڑتال:

سیف کی حدیث کی سند میں مھلب اسدی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری اور زیاد بن سرجس احمری کا نام راویوں کے طور پر آیا ہے اور اس سے پہلے قعقاع کے افسانے کی تحقیق کے دوران معلوم ہوچکا کہ یہ سب جعلی اور سیف کے خیالی راوی ہیں ۔

ان کے علاوہ ابوعثمان کا نام بھی راوی کے طور پر لیا گیا ہے کہ سیف کی احادیث میں یہ نام دو افراد سے مربوط ہے۔ ان میں ایک یزید بن اسید ہے۔ یہاں پر معلوم نہیں کہ سیف کا مقصود ان دو میں سے کون ہے؟

۲۷۹

پڑتال کا نتیجہ:

المذار کے بارے میں سیف کی روایت دوسروں کی روایت سے ہماہنگ نہیں ہے۔ المقر اور فرات باذقلی کی جنگوں کا بیان کرنے والا سیف تنہا شخص ہے کیونکہ دوسروں نے ان دوجگہوں کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے چہ جائیکہ سیف کے بقول وہاں پر واقع ہوئے حوادث اور واقعات کے ذکر کی بات !!

طبری نے ان اماکن کے بارے میں سیف کی احادیث کواپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم کی رجز خوانی اور رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے ۔

حموی نے مقامات اور جگہوں کے نام کو افسانہ ساز سیف کی روایتوں سے نقل کیا ہے اوراس کے افسانوی سورمائوں کے اشعارورزم ناموں سے بھی استناد کیا ہے،پھر مقر کی بھی اسی طریقے سے تعریف کی ہے ۔اس سلسلے میں عاصم بن عمرو کے اشعار میں '' حیرة الروحاء ''کا اشارہ کرتے ہوئے حیرہ کاذکرکرتا ہے ،جب کہ ہماری نظرمیں ضرورت شعری کا تقاضا یہ تھاکہ سیف لفظ ''روحاء '' کو لفظ ''حیرہ''کے بعد لائے نہ کہ ']روحاء ''کو ''حیرہ''کے لئے اسم اضافہ کے طور پر لائے جیسا کہ حموی نے خیال کیا ہے َ

سیف کی روایات کا نتیجہ :

١۔ ''مقر'' نام کی ایک جگہ کا نام جعل کرکے اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٢۔ایرانیوں کے انوش جان نامی ایک سپہ سالار کی تخلیق ۔

٣۔فرضی اور خیالی جنگی ایام کی تخلیق جو تاریخ میں ثبت ہوئے ہیں ۔

٤۔ان اشعار کی تخلیق جو عربی ادبیات کی زینت بنے ہیں

٥۔عراق میں خالد کی خیالی فتوحات میں ایک اور فتح کا اضافہ کرنا۔

٦۔ اور آخر میں سیف کے خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کے افتخارات کے طور پر اس کی شجاعتوں ،اشعار اور کربلا کی فوجی چھاونی اور اسلحوں پر اس کی کمانڈ کا ذکر کرنا۔ ١

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416