ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215423 / ڈاؤنلوڈ: 4971
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اجتماعی نظام کا عقلی ہونا(۱)

تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔

____________________

(۱) '' اجتماعی نظام''سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔

۲۱

علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش

''علوم انسانی تبیینی'' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔

البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔

اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی وجہ تحصیل

مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی

۲۲

اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میں روح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔(۱)

ب)انسان شناسی، معارف دینی کے آئینہ میں

انسان شناسی کے مباحث کا اصول دین اور اس کے وجود شناسی کے مسائل سے محکم رابطہ ہے نیز فروع دین اور دین کے اہم مسائل سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ یہاں ہم وجود شناسی اوردین کے حوالے سے اجتماعی انسان شناسی سے رابطے کے بارے میں تین بنیادی اصولوں کے تحت تحقیق کریں گے ۔

خدا شناسی اور انسان شناسی

انسان شناسی اور خدا شناسی کے رابطہ کو سمجھنا (انسان و خدا کی طرف نسبت دیتے ہوئے ) شناخت حصولی اور شناخت حضوری دونوں کے ذریعہ ممکن ہے ۔(۲) یا دوسرے لفظوں میں ، انسان کی حضوری معرفت خود وسیلہ اور ذریعہ ہے خدا کی حضوری معرفت کا ،اور اسی طرح انسان کے سلسلہ میں حصولی شناخت بھی خدا اور اس کے عظیم صفات کے بارے میں حصولی شناخت کا ایک ذریعہ ہے۔ پہلی قسم میں عبادت ، تزکیہ نفس ، عرفانی راستوں کے ذریعہ اور دوسری قسم میں انسانی وجوداور اس کے اسرارورموز میں غور و فکر کے ذریعہ یہ شناخت ممکن ہے ۔اس کے باوجودیہ مباحث

____________________

(۱)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

( ۲ ) معر فت یا علم حضوری سے مراد عالم اور درک کرنے والے کے لئے خود شئی کے حقیقی و واقعی وجود کاکشف ہونا ہے اور علم حصولی یعنی درک کرنے والے کے لئے حقیقی و خارجی شی کے وجود کا کشف نہ ہونا ہے ۔بلکہ اس حقیقی اور خارجی شی کے مفہوم یا صورت کو( جو اس وجود خارجی کو بیان کرتی ہے ) درک کرنا ہے اور اس صورت و مفہوم کے ذریعہ اس خارجی شی کودرک کیا جاتا ہے ۔

۲۳

انسان شناسی،جو علم حصولی کے مفاہیم میں لحاظ کئے جاتے ہیں انسان کی حضوری معرفت اور خدا کے سلسلہ میں حضوری شناخت کے موضوع سے خارج ہیں لہٰذا ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔(۱)

قرآن مجید خدا کی حصولی معرفت کے ساتھ انسان کی حصولی معرفت کے رابطہ کو یوں بیان کرتا ہے :

( وَ فِی الاَّرضِ آیات لِلمُوقِنِینَ وَ فِی أَنفُسِکُم أَفَلا تُبصِرُونَ ) (۲)

زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں (خدا کے وجود اور اس کے صفات پر بہت ہی عظیم )ہیں اور تم میں ( بھی)نشانیاں (کتنی عظیم )ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ۔

اور دوسری آیت میں بیان ہوا :

( سَنُریهِم آیاتِنَا فِی الآفاقِ وَ فِی أَنفُسِهِم حَتیٰ یَتَبَیّنَ لَهُم أَنّهُ الحَقُّ ) (۳)

عنقریب ہم اپنی نشانیوں کو پورے اطراف عالم اور ان کے وجود میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے ۔(۴)

____________________

(۱)قابل ذکر یہ ہے کہ انسان کی حقیقی سعادت ( انبیاء الٰہی کی بعثت کا ہدف) پروردگار عالم کی عبادت میں خلوص کے ذریعہ ممکن ہے جو اس کی حضوری معرفت کا سبب ہو ۔ لیکن ایسی معرفت کا حصول بغیر علمی مقدمات کے ممکن نہیں ہے یعنی اس کی حقیقت اور عظمت کے حوالے سے اس کی حصولی معرفت ، نیز اس پر عقیدہ رکھنا ، اور مقام عمل میں اس پر پورا اترناہے، اور انسان شناسی کی تحقیق و تحلیل اس حضوری معرفت کی راہ حصول میں پہلا قدم ہے ۔ (۲)ذاریات ۲۰و ۲۱۔

(۳)فصلت ۵۳۔

(۴)مراد ؛ معرفت حصولی میں مفاد آیت کا منحصر ہونا نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں حضوری و حصولی دونوں معرفت مراد ہو لیکن ظاہر آیت کے مطابق معرفت حصولی حتماً مورد نظر ہے ۔

۲۴

نبوت اور انسان شناسی

نبوت کا ہونا اوراس کا اثبات ورابطہ ،انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل پر موقوف ہے ۔ اگر انسان شناسی میں یہ ثابت نہ ہو کہ وہ فرشتوں کی طرح خدا سے براہ راست یا باواسطہ رابطہ رکھ سکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وحی اور پیغمبرکے سلسلہ میں گفتگو کی جائے ؟!

وحی اورمنصب نبوت سے مرادیہ ہے کہ لوگوں میں ایسے افراد پائے جاتے ہیںجوبراہ راست یا فرشتوں کے ذریعہ خداوند عالم سے وابستہ ہیں ، خداوند عالم ان کے ذریعہ معجزات دکھاتا ہے اور یہ حضرات خدا سے معارف اور پیغامات حاصل کرتے ہیں تا کہ لوگوں تک پہونچائیں ،اس حقیقت کو ثابت اور قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس رابطہ کے سلسلہ میں انسان کی قابلیت کو پرکھا جائے ۔بنوت کا انکار کرنے والوں کے اعتراضات اور شبہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ایسا رابطہ خداوند عالم سے رکھ ہی نہیں سکتا اور ایسا رابطہ انسان کی قدرت سے خارج ہے ، قرآن مجید اس طرح بنوت کا انکار کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتا ہے کہ وہ کہتے ہیں :

( مَا هٰذا لاّ بَشَر مِثلُکُم ...ولَو شَائَ اللّٰهُ لأَنزَلَ مَلائِکَةً مَا سَمِعنَا بِهٰذا فِی آبَائِنَا الأوَّلِینَ ) (۱)

''یہ (پیغمبر )تم جیسا بشر کے علاوہ کچھ نہیں اگر خدا چاہتا(کوئی پیغمبر بھیجے ) تو

فرشتوں کو نازل کرتا ، ہم نے تو اس سلسلہ میں اپنے آباء و اجداد سے کچھ نہیں سنا

دوسری آیت میں کافروں اور قیامت کا انکار کرنے والوں سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے :

( مَا هٰذَا لاّ بَشَر مِثلُکُم یَأکُلُ مِمَّا تَأکُلُونَ مِنهُ وَ یَشرَبُ مِمَّا تَشرَبُونَ وَ لَئِن أَطَعتُم بَشَراً مِثلَکُم ِنَّکُم ِذاً لَخَاسِرُونَ ) (۲)

____________________

(۱)مومنون ۲۴ ۔

(۲) مومنون ۳۳و ۳۴۔

۲۵

(کفار اور قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں :)یہ (پیغمبر ) فقط تمہاری طرح ایک بشر ہے جو چیزیں تم کھاتے اور پیتے ہو وہی وہ کھاتا اور پیتا ہے ، اور اگر تم لوگ نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کرلی، تب تو ضرور گھاٹے میں رہوگے ۔

لہٰذا نبوت کا ہونا یا نہ ہونا اس مسئلہ کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان اللہ کی جانب سے بھیجے گئے پیغامات وحی کو دریافت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ مزید یہ کہ نبوت کا ہونا ، نبوت عامہ کا اثبات اور انبیاء کی بعثت کی ضرورت بھی اسی انسان شناسی کے مسائل کے حل سے وابستہ ہے کہ کیا انسان وحی کی مدداور خدا کی مخصوص رہنمائی کے بغیر ،نیز صرف عمومی اسباب کے ذریعہ معرفت حاصل کرکے اپنی راہ سعادت کو کامل طریقے سے پہچان سکتا ہے ؟ یا یہ کہ عمومی اسباب کسب معرفت کے سلسلہ میں کافی و وافی کردار ادا نہیں کرسکتے اور کیا ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے انسان کی رہنمائی کے لئے کوئی پیغمبر مبعوث ہو ؟

معاد اور انسان شناسی

وحی کی روشنی میں انسان کا وجودصرف مادی دنیا اور دنیاوی زندگی ہی سے مخصوص نہیں ہوتابلکہ اس کے وجود کی وسعت عالم آخرت سے بھی تعلق رکھتی ہے اوراس کی حقیقی زندگی موت کے بعدکی دنیا سے مربوط ہے لہٰذا ایک زاویہ نگاہ سے معاد پر اعتقاد ، موت کے بعد انسان کی زندگی کے دوام اور اس کے نابود نہ ہونے کا اعتقاد ہے اور ایسا اعتقاد در اصل ایک طرح سے انسان کے سلسلہ میں ایسا تفکر ہے جسے انسان شناسی کے مباحث سے اگرحاصل اور ثابت نہیں کیا گیا تو معاد کے مسئلہ کی کوئی عقلی ضرورت نہیں رہ جاتی اورمعاد کا مسئلہ عقلی دلائل کی پشت پناہی سے عاری ہوگا اسی وجہ سے قرآن مجید معاد کی ضرورت و حقانیت پر استدلال کے لئے موت کے بعد انسان کی بقا اور اس کے نابود نہ ہونے پر تکیہ کرتا ہے اور رسول اکرم سے مخاطب ہو کرمنکرین معادکی گفتگو کو اس طرح پیش کرتا ہے :

۲۶

( وَ قَالُوا أَئِ ذَا ضَلَلنَا فِی الأرضِ أَئِ نّا لَفِی خَلقٍ جَدیدٍ ) (۱)

اور (معاد کا انکار کرنے والے )یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب (ہم مرگئے اور بوسیدہ ہوگئے اور )زمین میں ناپید ہوجائیں گے تو کیا ہم پھردوبارہ پیدا کئے جائیں گے ؟

ان لوگوں کے جواب میں قرآن یوں فرماتا ہے :

( ...بَل هُم بِلِقائِ رَبِّهِم کَافِرُونَ٭قُلّ یَتَوفَّاکُم مَلکُ الموتِ الذِی وُکِّلَ بِکُم ثُمَّ لیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) (۲)

(ان لوگوں نے زمین میں مل جانے کو دلیل قرار دیا ہے ورنہ معاد کے ہونے اور اس کے تحقق میں کوئی شبہہ نہیں رکھتے ہیں )بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات ہی سےانکار کرتے ہیں(اے پیغمبر! اس دلیل کے جواب میں ) تم کہدو کہ: ملک الموت

جو تمہارے اوپر معین ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (اور تم ناپیدا نہیں ہوئوگے)اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پروردگار کی طرف پلٹائے جائوگے ۔

انسان شناسی اوراحکام اجتماعی کی وضاحت

اس سے پہلے انسان کی حقیقی قابلیت اور بنیادی ضرورتوں کی معرفت نیز بنیاد سازی اور معقول و صحیح اجتماعی عادات و اطوار کی ترسیم مورد تائید قرار پا چکی ہے۔ لہٰذاہم یہاں اس نکتہ کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ بعض دین کے اجتماعی احکام کو عقلی نقطۂ نظر سے قبول کریں اور انہیں انسان شناسی کے بعض مسائل میں استفادہ کریں، اگرچہ دین کے اجتماعی احکام کی صحت و حقانیت علم خدا کے اس لامتناہی سرچشمہ کی وجہ سے ہے کہ جس کی ذات ،عادل، رحیم و کلیم جیسے صفات سے استوار ہے ،لیکن اسلام کے بعض اجتماعی احکام کی معقول وضاحت ((دینی ، عالم کی معرفت میں ) اس طرح سے کہ جو لوگ

____________________

(۱)سجدہ ۱۰۔

(۲)سجدہ ۱۰و ۱۱

۲۷

دین کونہیں مانتے ہیںان کے لئے بھی معقول اور قابل فہم ہو )صرف انسان شناسی کے بعض مسائل کے جوابات کی روشنی میں میسور وممکن ہے مثال کے طور پر وحی کی تعلیمات میں ، انسان کی حقیقی شخصیت (انسان کی انسانیت )قرب الہٰی(خدا سے قریب ہونا)کی راہ میں گامزن ہونے کی صورت میں سامنے آتی ہے ۔ اور خدا سے دور ہونے کا مطلب خود کو فراموش کرنا اور انسانیت کے رتبہ سے گر کر حیوانات سے بدتر ہونا ہے(۱) اس مطلب کی روشنی میں ، وہ شخص جو اسلام کی حقانیت اور اس پر ایمان لانے کے بعد کسی غرض اور حق کی مخالفت کی وجہ سے اسلام سے منہ موڑ کے کافر(مرتد) ہوجائے تو اس کے لئے پھانسی کا قانون ایک معقول اور مستحکم فعل ہے ،اس لئے کہ ایسے شخص نے اپنی انسانیت کو جان بوجھ کر گنوایا ہے نیزحیوان اور بد ترین مخلوق ہونے کا سہرا باندھ کر جامعہ کے لئے خطرناک جانور(۲) میں تبدیل ہوگیا ہے ۔

دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران اور اس کے مختلف پہلو

بہت سی فکری کوششیں جو وجود انسان کے گوشوں کو روشن کرنے کے لئے دوبارہ احیاء ہوئی ہیںاس نے بشر کے لئے بہت سی معلومات فراہم کی ہیں ،اگرچہ ان معلومات کی جمع آوری میں تحقیق کے مختلف طریقوں کو بروئے کار لایا گیا ہے لیکن ان میں روش تجربی کا حصہ دوسری راہوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ انسان شناسی میں زیادہ حصہ تجربہ کا ہے۔ بہت سے قضایا اور انکشافات جو انسان شناسی کے مختلف مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور وجود انسانی کے

____________________

(۱)(أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل هُم أَضَلُّ أولٰئِکَ هُمُ الغَافِلونَ )''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بہت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ۱۷۹)

(۲)(إنَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّهِ الّذِینَ کَفَرُوا فَهُم لایُؤمِنُونَ )''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وہی ہیں جو کافر ہوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ''( انفال ۵۵)

۲۸

تاریک گوشوںکے حوالے سے قابل تحقیق ہیں ۔ نیز فراوانی اور اس کے ابعاد کی کثرت کی وجہ سے نہ صرف انسان کے ناشناختہپہلوئوں کو جیسا چاہیئے تھا واضح کرتے اور اس نامعلوم موجود کی شناخت میں حائل شدہ مشکلات کو حل کرتیخود ہی مشکلات سے دچار ہوگئے ہیں ۔(۱)

علم کے کسی شعبہ میں بحران کا معنی یہ ہیںکہ جن مشکلات کے حل کے لئے اس علم کی بنیاد رکھی گئی ہووہ علم اس کو حل کرنے سے عاجز ہو اور اپنے محوری و مرکزی سوالات کے جوابات میں مبہوت و پریشان ہو، ٹھیکیہی صورت حال دور حاضر میں انسان شناسی کی ہوگئی ہے، یہ بات ایک سر سری نظر سے معلوم ہوجاتی ہے کہ دور حاضر میں انسان شناسی کی مختلف معلومات، مختلف جہتوںسے بحران کا شکار ہیں۔ انسان شناسی کا ماہر، جرمنی کا فلسفی ''اسکیلر میکس '' لکھتا ہے کہ : تاریخ کے اوراق میں کسی وقت بھی ...انسان جس قدر آج معمہ بنا ہوا ہے کبھی نہیں تھا ...تخصصی علوم جن کی تعداد میں ہر روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اوربشر کے مسائل سے مربوط ہیں ،یہ بھی ذات انسان کو مزید معمہ بنائے ہوئے ہیں ۔(۲)

دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کا چار بنیادی طریقوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان چار بنیادی طریقوں سے مراد یہ ہیں؛ ۱۔ علوم نظری کی ایک دوسرے سے عدم ہماہنگی اور اندرونی نظم سے عاری ہونا۔ ۲۔ فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا ۔ ۳۔ انسان کے ماضی و مستقبل کا خیال نہ کرنا

۴ ۔ انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا ۔

____________________

(۱)''ہوسرل ''منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے انسان شناسی کے بحران کو بیان کیا ہے ،اس نے '' وین''(مئی ۱۹۳۵)کی اپنی تقریر میں ''یورپ میں انسانیت کی بحران کا فلسفہ ''اور ''پراگ ''(۱۲ ۱۹۳۴)کی تقریر میں ''نفسیات شناسی اور یورپ کے علوم کا بحران''کے عناوین سے اس موضوع پر تقریریں کی ہیں اوراس کی موت کے بعد اس کے مسودوں کو ۱۹۵۴ئ میں ایک پر حجم کتاب کی شکل میں ''بحران علوم اروپائی و پدیدار شناسی استعلایی '' کے عنوان سے منتشرکیا گیاہے ،ملاحظہ ہو ؛ مدرنیتہ و اندیشہ انتقادی، ص۵۶

(۲) Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. ۱۷

کیسیرر سے نقل کرتے ہوئے ، ارنسٹ ، ( ۱۳۶۰) فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تہران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ، ص ۴۶و ۴۷۔

۲۹

الف) علوم نظری کی آپس میں ناہماہنگی اور درونی نظم و ضبط کا نہ ہونا

تمام مفکرین مدعی ہیں کہ انسان کے سلسلہ میں ان کا خاکہ اور نظریہ، دنیاوی اور تجربی معلومات و حوادث پر مبنی ہے اور ان کے نظریات کی دنیاوی حوادث سے تائید ہو جاتی ہے لیکن اگر ان نظریات کی سبھی توضیحات کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کی فطری وحدت مجہول ہے اور ہم انسان کی ایک فرد یاایسے مختلف افراد سے رو برو نہیں ہیںجو ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔(۱) مثال کے طور پر''رفتار گرایان'' کا عقیدہ ( جو انسان کے کردار کو محور تسلیم کرتے ہیں )جیسے ا سکینر(۲) ، سیاسی و اقتصادی جامعہ شناس جیسے کارل مارکس(۳) ، جامعہ شناس جیسے دور کھیم(۴) علم الحیات کے نظریات کو ماننے والے اور عقیدہ وجود والے جیسے ژان پل سارٹر(۵) کے نظریات انسان کے اختیارات اور آزادی کے بارے میں ملاحظہ کریں کہ کس طرح ایک دوسرے سے ہماہنگ اور قابل جمع نہیں ہیں؛ ''عقیدۂ رفتار و کردار رکھنے والے'' اختیار کا ایک سرے سے ہی انکار کرتے ہیں۔ ''مارکس'' انسان کے اختیاراور آزادی کو روابط کے ایجاد اور تاریخی جبر کی پیداوار سمجھتا ہے ۔'' دورکھیم'' اجتماعی جبر کی تاکید کرتا ہے۔ ''حیات شناس افراد'' عناصر حیات کے سرنوشت ساز کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور'' ژان پل سارٹر''انسان کی بے چوں و چرا آزادی کا قائل ہے کہ جس میں حیات کے تقاضوں سے بالاتر ہو کرمادی دنیا کے تغییر ناپذیر قوانین کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔''اسکیلر میکس'' اس سلسلہ میں کہتا ہے کہگذشتہ دور کے برخلاف آج کے دور میں انسان شناسی تجربی(اپنے تمام انواع کے ساتھ) انسان شناسی فلسفی اور انسان شناسی الٰہی ایک دوسرے کے مخالف یا آپس میں بالکل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیںان میں

____________________

(۱)کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ (ترجمہ )ص ۴۵و ۴۶۔

(۲) B.F.Skinner

(۳) Karl Marx

(۴) Emile Durkheim

(۵) Jean-Paul

۳۰

انسان کے سلسلہ میں اجماعی نظریہ اور اتحاد نہیںپایا جاتا ہے ۔(۱)

ب) فائدہ مند اور مورد اتفاق دلیل کا نہ ہونا

طبیعی علوم میں وہ قوانین جن کو علوم طبیعی کے اکثر مفکرین مانتے ہیں ان کے علاوہ، تجربی روش کو بھی اکثر مفکرین نے آخری دلیل اور حاکم کے عنوان سے قبول کیا ہے،اگرچہ اس کی افادیت کی مقدار میں بعض اعتراضات موجود ہیں لیکن علوم انسانی میں (جیسا کہ'' ارنسٹ کیسیرر''(۲) ذکرکرتاہے کہ)کوئی ایسی علمی اصل نہیں ملتی جسے سبھی مانتے ہوں(۳) ایسے موقعہ پر ایک مفید حاکم و دلیل کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اس کے باوجود علمی تحقیق یہ ہے کہ دور حاضر میں ہر انسان شناس اپنے نظریات کے سلسلہ میں عین واقعیت اور تجربی دلیلوں سے ہماہنگی کا مدعی ہے ، حالانکہ ، تجربی روش جس کو آخری اور مستحکم دلیل و حاکم کے عنوان سیپیش کیا گیا ہے خود ہی متناقض معلومات فراہم کرتی ہے اوروہ بیان کئے گئے مشکلات کو حل کرنے میں مرجع ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لہٰذا ضروری افادیت سے محروم ہے مزید یہ کہ (مفکرین کے )قابل توجہ گروہ نے کلی طور پر ( حتی ان موارد میں بھی جہاں علم تجربی ہمارے لئے ہماہنگ معلومات فراہم کرتا ہے)اس روش کی افادیت میں شک ظاہر کیا ہے اور تفہیم و حوادث شناسی کے دوسرے طریقۂ کار کی تاکید کی ہے ۔

ج) انسان کے ماضی اور مستقبل کا خیال نہ کرنا

انسان شناسی تجربی کے نظریات ،انسان کے ماضی اور مستقبل (موت کے بعد کی دنیا) کے سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں کرتے ہیں۔ اگر انسان موت سے نابود نہیں ہوتا ہے (جب کہ ایساہی ہے ) تو یہ نظریات اس کی کیفیت اور اس دنیاوی زندگی سے اس کے رابطوں کی وضاحت و تعریف سے عاجز ہیں

____________________

(۱)اسکیلرمیکس۔

(۲) Earnest Cassirar

(۳)کیسیرر ، ارنسٹ ، گذشتہ حوالہ، ص ۴۶۔

۳۱

چنانچہ وہ اپنے ماضی سے غافل ہیں ،انسان کی سر نوشت اوراس کی خواہش میں معنوی اسباب کا اثر و عمل بھی ایک دوسرا مسئلہ ہے جس کے بارے میں انسان شناسی تجربی کے نظریات کسی بھی وضاحت یا حتمی رأی دینے سے قاصر ہیں ۔انسان شناسی کے دوسرے اقسام بھی (دینی انسان شناسی کے علاوہ ) اخروی سعادت اور انسانی اعمال کے درمیان تفصیلی اور قدم بہ قدم روابط کے بیان سے عاجز ہیں ۔

د) انسان کے اہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجز ہونا

دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریے اور مکاتب اس دنیا کے بھی مہم ترین انسانی حوادث کی تفصیل و صراحت سے عاجز ہیں اور اس جہت سے بھی علمِ انسان شناسی بحران کا شکار ہے ۔ زبان ، اجتماعی اور انسانی حوادث کے اہم ترین ایجادات میں سے ہے اور اس کی اہمیت اتنی ہے کہ علوم انسانی کے بعض مفکرین کا نظریہ ہے کہ: جو مکتب اچھی طرح زبان کی وضاحت پر قادر ہے وہ انسانی حوادث کی بھی صراحت کر سکتا ہے جب کہ دور حاضر میں انسان شناسی ،زبان کے بعض گوشوں کی تفسیر و وضاحت سے عاجز ہے مثال کے طور پر وہ نظریات جو انسان کو ایک مشین یا کامل حیوان کا درجہ دیتے ہیں کس طرح ان جدید اصطلاحات و ایجاد معانی جن کو پہلی مرتبہ انسان مشاہدہ کرتا ہے یا اس طرح کی چیزوں کے سمجھنے میں ذہن انسانی کی خلاقیت اور اس کی ابتکاری صلاحیت کی کیونکروضاحت کرسکتے ہیں؟ یا نمونہ کے طور پر میدان فہم و تفہیم میں (مقصد کو بیان کرنے کے لئے کلمات کا ایجاد کرنا) جو حیوانات کی آواز کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ،انسان کی خلاقیت کی کس طرح وضاحت کریں گے ؟ ''چومسکی''(۱) معتقد ہے کہ قابلیت اور ایجادات ،انسان کی زبان کے امتیازات میں سے ہے یعنی ہم سب سے گفتگو کرسکتے ہیں اور زبان کے قوانین اور معانی کی مدد سے ایسے جملات کو سمجھتے ہیں جس کو اس سے پہلے سنا ہی نہ تھا ، لہٰذا زبان ماہیت کے اعتبار سے حیوانات کے اپنے مخصوص طریقۂ عمل سے کاملاًجدا ہے ۔(۲)

____________________

(۱) Chomsky Noam (۲)لسلی ، اسٹیونسن ، ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ۱۶۱۔

۳۲

دینی انسان شناسی کی خصوصیات

دینی انسان شناسی اپنے مد مقابل اقسام کے درمیان کچھ ایسے امتیازات کی مالک ہے جسے ہم اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں :

جامعیت

چونکہ دینی انسان شناسی تعلیمات وحی سے بہرہ مند ہے اور طریقہ وحی کسی خاص زاویہ سے مخصوص نہیں ہے لہٰذااس سلسلہ میں دوسری روشوں کی محدودیت معنی نہیں رکھتی ہے بلکہ یہ ایک مخصوص عمومیت کی مالک ہے، اس طرح کہ اگر ہم کسی فرد خاص کے بارے میں بھی گفتگو کریں تواس گفتگو کوانسان کے سبھی افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان کیا جاسکتا ہے اور اس فرد خاص کے اعتبارسے بھی بیان کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ گفتگو کرنے والا کامل اور ہر زاویہ سے صاحب معرفت ہے ، مزید دینی انسان شناسی کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ یہ انسان شناسی ، انسان کے مختلف افراد کو مدنظر رکھتی ہے نیز جسمانی و فطری ، تاریخی و سماجی ،دنیاوی واخروی، فعلی و ارمانی، مادی و معنوی لحاظ سے بھی گفتگو کرتی ہے اور بعض موارد میں ایسی حقیقتوں کو منظر عام پر لاتی ہے جن کو انسان شناسی کے دوسرے انواع و اقسام کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے ، دینی تعلیمات میں منظور نظرا ہداف ہی انسان شناسی دینی کے مختلف گوشے ہیں جو انتخابی صورت میں انجام پاتے ہیں ۔لہٰذا ہر پہلو کے مسئلہ کو اسی مقدار میں پیش کیا جائے گا جس قدر وہ انسان کی حقیقی سعادت میں اثر انداز ہے ، جب کہ اس کی انتخابی عمومیت باقی رہے گی بلکہ انسان شناسی کے ہر ایک شعبہ مثلاً فلسفی ، تجربی ،شہودی کے لئے ایک خاص موضوع مورد نظر ہو گا اور انسان شناسی سے مربوط دوسرے موضوعات اس کے دائر ۂبحث سے خارج ہوںگے ۔

۳۳

استوار اور محکم

دینی انسان شناسی ،تعلیمات وحی سے مستفادہے ،چونکہ یہ تعلیمات نا قابل خطا اور کاملاً صحیح ہیں لہٰذا اس قسم کی انسان شناسی استواری اور استحکام کا باعث ہو گی جو فلسفی ، عرفانی اور تجربی انسان شناسی میں قابل تصور نہیں ہے ، اگر دینی انسان شناسی میں دینی نظریات کا استفادہ اور انتساب ضروری ہوجائے تو ان نظریات کے استحکام اور بے خطا ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا ، لیکن انسان شناسی کے دوسرے اقسام؛ تجربی ، عقلی یا سیر و سلوک میں خطا اور غلطی کے احتمال کی نفی نہیں کی جا سکتی ہے۔

مبدا اور معاد کا تصور

غیر دینی انسان شناسی میں یا تو مبدا اور معاد سے بالکل عاری انسان کی تحقیق ہوتی ہے (جیسا کہ ہم تجربی انسان شناسی اور فلسفی و عرفانی انسان شناسی کے بعض گوشوں میں مشاہدہ کرتے ہیں) یا انسان کے معاد و مبدأ کے بارے میں بہت ہی عام اور کلی گفتگو ہوتی ہے جو زندگی اور راہ کمال کے طے کرنے کی کیفیت کو واضح نہیں کرتی ہے لیکن دینی انسان شناسی میں ، مبدا اور معاد کی بحث انسانی وجود کے دو بنیادی حصوں کے عنوان سے مورد توجہ قرار پائی ہے اوراس میں انسان کی اس دنیاوی زندگی کا مبدا اور معاد سے رابطہ کی تفصیلات و جزئیات کو بیان کیا گیا ہے اسی لئے بعثت انبیاء کی ضرورت پراسلامی مفکرین کی اہم ترین دلیل جن باتوں پر استوار ہے وہ یہ ہیں:دنیا اور آخرت کے رابطہ سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت اور سعادت انسانی کی راہ میں کون سی چیز موثر ہے اور کون سی چیز موثر نہیں ہے اس سے واقفیت اورعقل انسانی اور تجربہ کا ان کے درک سے قاصر ہوناہے۔(۱)

بنیادی فکر

دینی انسان شناسی کے دوسرے امتیازات یہ ہیں کہ آپس میں تمام افراد انسان کے مختلف سطح کے رابطہ سے غافل نہیں ہے اور تمام انسانوں کو کلی حیثیت سے مختلف سطح کے ہوتے ہوئے، ایک قالب اورایک تناظر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس تفکر میں انسان کا ماضی ، حال اور آئندہ ، جسم و روح ، مادی و

____________________

(۱)ملاحظہ ہو : محمد تقی مصباح ، راہ و راہنما شناسی ؛ ص ۴۳و ۴۴۔

۳۴

معنوی اور فکری تمایل نیز ان کے آپسی روابط کے تاثرات ،شدید مورد توجہ قرار پاتے ہیں ۔ لیکن تجربی، فلسفی ،عرفانی انسان شناسی میں یا تو آپس میں ایسے وسیع روابط سے غفلت ہو جاتی ہے یااتنی وسعت سے توجہ نہیں کی جاتی ہے بلکہ صرف بعض آپسی جوانب کے روابط سے گفتگو ہوتی ہے ۔

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی شناخت اور اس کے ابعادوجودی، زمانہ قدیم سے لے کراب تک مفکرین کی مہم ترین تحقیقات کا موضوع رہے ہیں ۔

۲۔ہر وہ منظومہ معرفت جو کسی شخص ، گروہ یا انسان کے ابعاد وجودی کے بارے میں بحث کرے یا انسان کے سلسلہ میں کلی طور پربحث کرے اس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔

۳۔ انسان شناسی کی مختلف قسمیں ہیں ،جو تحقیقی روش یا زاویہ نگاہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں ۔

۴۔ اس کتاب میں مورد توجہ انسان شناسی ، انسان شناسی کلاں یا جامع ہے جو روائی اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یا یوں کہا جائے کہ وحی اور تعبدی طریقہ سے حاصل ہوتی ہے ۔

۵۔ انسان شناسی ''کلاں نمائی'' مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے مخصوص اہمیتکی حامل ہے :

الف)زندگی کو واضح کرتی ہے ۔ ب)اجتماعی نظام کو بیان کرتی ہے ۔

ج)علوم و تحقیقات کی طرفداری میں موثر ہے ۔ د)دین کے بنیادی اصول اور اس کے اجتماعی احکام کی توضیح سے مربوط ہے ۔

۶۔ دور حاضر میں انسان شناسی کے نظریات میں عدم ہماہنگی کی وجہ سے جامع اور مفید دلیل و حاکم کے فقدان ، انسان کے ماضی و آئندہ سے چشم پوشی اور اس کے مہم ترین حوادث کی وضاحت سے عاجزاور شدید بحران سے روبرو ہے ۔

۷۔ دینی انسان شناسی ''ہمہ گیر ''ہونے کی وجہ سے جامعیت ، نا قابل خطا، مبدا و معاد پہ توجہ اور دوسرے انسان شناسی کے مقابلہ میں عمدہ کردار کی وجہ سے برتری رکھتی ہے۔

۳۵

تمرین

اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں اور اگر ان کے جوابات میں کوئی مشکل در پیش ہو تومطالب کا دوبارہ مطالعہ کریں ؟

۱۔ منددرجہ ذیل موارد میں سے کون انسان شناسی کل نمائی اور ہمہ گیر موضوعات کا جزء ہے اور کون انسان شناسی ،جزئی موضوعات کا جزء ہے ؟

''سعادت انسان ، خود فراموشی، حقوق بشر ، انسانی قابلیت ، انسانی ضرورتیں ، مغز کی بناوٹ ''

۲۔ ''خود شناسی ''سے مراد کیا ہے اور دینی انسان شناسی سے اس کا کیا رابطہ ہے ؟

۳۔ مندرجہ ذیل میں سے کون صحیح ہے ؟

(الف) تجربی علوم انسانی میں ایک مکتب، انسان محوری ہے ؟( ب) تجربی علوم انسانی اور دینی انسان شناسی، موضوع ، دائرہ عمل اورروش کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ ( ج) حقوق بشر کا یقین اور اعتقاد ، انسانوں کی مشترکہ فطرت سے وابستہ ہے ۔ (د) موت کے بعد کی دنیا پر یقین کا انسان شناسی کے مسائل سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔

۴۔ انسان کی صحیح اور جھوٹی ضرورتوں کی شناخت کا معیار کیا ہے ؟

۵۔ آپ کے تعلیمی موضوع کا وجود و اعتبار کس طرح انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل سے مربوط ہے ؟

۶۔ انسانوں کا جانوروں سے امتیاز اوراختلاف ، فہم اور انتقال مطالب کے دائرے میں زبان اور آواز کے حوالے سے کیا ہے ؟

۷۔ آیا انسان محوری ، انسان کی تعظیم و قدر دانی ہے یا انسان کی تذلیل اور اس کے حقیقی قدر و منزلت سے گرانا ہے ؟

۳۶

مزید مطالعہ کے لئے

۱.دور حاضر میں انسان شناسی کے بحران کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ارتگا ای گاست ، خوسہ ؛ انسان و بحران ترجمہ احمد تدین ؛ تہران : انتشارات علمی و فرہنگی

۔عارف ، نصر محمد ( ۱۹۱۷ ) قضایا المنھجیة فی العلوم النسانیة.قاہرہ : المعھد العالمی للفکر السلامی

۔کیسیرر،ارنسٹ (۱۳۶۹) رسالہای در باب انسان در آمدی بر فلسفہ و فرہنگ ، ترجمہ بزرگ نادرزادہ تہران : پژوہشگاہ علوم انسانی

۔گلدنر ، الوین (۱۳۶۸) بحران جامعہ شناسی غرب ، ترجمہ فریدہ ممتاز ، تہران : شرکت سہامی انتشار

۔ گنون ، رنہ ،بحران دنیای متجدد ، ترجمہ ضیاء الدین دہشیری تہران : امیر کبیر

۔والر اشتاین ، ایمانویل (۱۳۷۷)سیاست و فرہنگ در نظام متحول جہانی ، ترجمہ پیروز ایزدی تہران : نشرنی

۔ واعظی ، احمد ، ''بحران انسان شناسی معاصر''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹، ص ۱۰۹.۹۴، قم دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵.

۲ معارف دینی اور تفکر بشری کے سلسلہ میں انسان شناسی کا اثر چنانچہ اس سلسلہ میں مزید مطالعہ کے لئے ملاحظہ ہو:

۔ دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ در آمدی بہ جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ص ۴۵.۵۵۔

۔ محمد تقی مصباح (۱۳۷۶)معارف قرآن (خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان

شناسی )قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ۱۵۔ ۳۵۔

۔ پیش نیازھای مدیریت اسلامی ، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ،قم : ۱۳۷۹۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان در اسلام ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، تہران : سمت ، ص ۱۴۔۱۷۔

۳. انسان شناسی کی کتابوں کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو:

۔مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ ۹ ،ص۱۶۶۔ ۱۲۸ ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، زمستان ۱۳۷۵

۳۷

۴۔بعض وہ کتابیں جس میں اسلامی نقطہ نظر سے انسان کے بارے میں بحث ہوئی ہے :

۔ ایزوٹسوٹوشی ہیکو ( ۱۳۶۸) خدا و انسان در قرآن ، ترجمہ احمد آرام ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۔ بہشتی ، احمد (۱۳۶۴ ) انسان در قرآن ، کانون نشر طریق القدس ۔

۔ جعفری ، محمد تقی ( ۱۳۴۹ ) انسان در افق قرآن ، اصفہان : کانون علمی و تربیتی جہان اسلام.

۔ جوادی آملی ، عبد اللہ ( ۱۳۷۲ ) انسان در اسلام ، تہران : رجاء ۔

۔حائری تہرانی ، مہدی ( ۱۳۷۳) شخصیت انسان از نظر قرآن و عترت .قم : بنیاد فرہنگی امام مہدی ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن ( ۱۳۶۹) انسان و قرآن ، تہران:الزہراء

۔حلبی ، علی اصغر ( ۱۳۷۱ ) انسان در اسلام و مکاتب غربی تہران : اساطیر

۔دولت آبادی ، علی رضا (۱۳۷۵)سایہ خدایان نظریہ بحران روان شناسی در مسئلہ

انسان ،فردوس : ( ۱۳۷۵)

۔قرائتی ، محسن ( بی تا ) جہان و انسان از دیدگاہ قرآن ، قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔قطب ، محمد ( ۱۳۴۱) انسان بین مادیگری و اسلام ، تہران : سہامی انتشار ۔

۔محمد تقی مصباح (۱۳۷۶) معارف قرآن ( جہان شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی )

قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( بی تا ) انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔

۔ نصری ، عبد اللہ ( ۱۳۶۸) مبانی انسان شناسی در قرآن ، تہران : جہاد دانشگاہی ۔

۔ واعظی ، احمد ( ۱۳۷۷) انسان از دیدگاہ اسلام ، قم : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔

۳۸

دوسری فصل :

ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان

اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :

ا۔ انسان کے بارے میں مختلف نظریوں کو مختصراً بیان کریں ؟

۲۔ہیومنزم کے معانی و مراد کی وضاحت کریں ؟

۳۔ ہیومنزم کے چار اہداف و مراتب کی مختصراً وضاحت پیش کریں ؟

۴۔ہیومنزم کے نظریہ کی تنقیدو تحلیل کریں ؟

۳۹

جیسا کہ اشارہ ہوچکاہے کہ انسان ، بشری تفکر کا ایک محور ہے جس کے بارے میں وجود اور اہمیت شناسی کے مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ، بعض مفکرین نے انسان کو دوسرے موجودات سے بالاتر اور بعض نے اسے حیوانات کے برابر اور کچھ نے اس کو حیوان سے کمتر و ناتواں اور ضعیف بیان کیا ہے ، معرفت کی اہمیت کے اعتبار سے بھی بعض نے اس کو اشرف المخلوقات ، بعض نے معتدل (نہ بہتر اور نہ خراب ) اور بعض نے انسان کو برا ، ذلیل اورپست کہا ہے، آئندہ مباحث میں ہم بعض مذکورہ بالا نظریوں کو اجمالاً بیان کریں گے اور اس سلسلہ میں دینی نظریات کو بھی پیش کریں گے ۔

ایک دوسرے زاویہ سے انسان کی حقیقی شخصیت اور اس کی قابلیت ولیاقت کے بارے میں دو کاملاً متفاوت بلکہ متضاد نظریات بیان کئے گئے ہیں، ایک نظریہ کے مطابق انسان کاملاً آزاد اور خود مختار مخلوق ہے جو اپنی حقیقی سعادت کی شناخت اور اس تک دست رسی میں خود کفا ہے ،اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے ، خود مختار، بخشی ہوئی قدرت مطلقہ کا مالک اور ہر طرح کی بیرونی تکلیف سے (خواہش و ارادہ سے خارج ) مطلقاً آزاد ہے ۔

دوسرے نظریہ کے مطابق انسان کے لئے قدرتِ شناخت کا ہونا لازم ہے نیز واقعی سعادت کے حصول کے لئے الٰہی رہنمائی کا محتاج ہے وہ خدائی قدرت کی ہدایت اور اس کی تدبیر کے زیر اثر اپنی سعادت کے لئے تکالیف اور واجبات کا حامل ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اس کے اختیار میں قرار دی جاتی ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

قعقاع ایک ہزار سپاہیوں کو اپنی کمانڈ میں لئے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے منازل کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن اپنی وعدہ گاہ، یعنی قادسیہ کے میدان جنگ میں پہنچ جاتاہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرتاہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلہ کی رعایت کرتے ہوئے ایک عظیم طاقت کی صورت میں میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ فوجیوں کی ٹولیوں کی کثرت اسلامی فوج کی ہمت افزائی کا سبب بنیں اور خود پہلی ٹولی کے آگے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اسلامی فوج کو امداد پہنچنے کی نوید دیکر حوصلہ افزائی کرتاہے اور ان سے کہتاہے، جو کام میں کروں تم بھی اسی کو انجام دینا۔ اس کے بعد تن تنہا میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے ہم پلہ مد مقابل کا مطالبہ کرتاہے اور مثنی کے قاتل دشمن کے سپہ سالار ذوالحاجب کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دشمن کے ایک اور سردار اور پہلوان بیرزانِ پارسی کو قتل کرڈالتا ہے۔ اس کی شجاعت کو دیکھ کر اسلامی فوج کے سپاہی ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے:''جس سپاہ میں یہ پہلوان موجود ہو وہ سپاہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی''۔قعقاع کے سپاہی اس کے حکم کے مطابق اس دن شام ہونے تک وقفے وقفے سے ٹولیوں کی صورت میں آکر اسلامی فوج کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں اور ہر ٹولی کے پہنچنے پر قعقاع نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے اور مسلمان بھی اس کے جواب میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں ۔ اس طرح دوستوں کے دل قوی ہوتے ہیں اور دشمن متزلزل اور پریشان ہوجاتے ہیں ۔

اسی فرضی اغواث کے دن سعد وقاص ان گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو انعام کے طور پر دیتا ہے، جو خلیفہ عمر نے جنگ قادسیہ کے بہترین پہلوانوں کے لئے بھیجے تھے ۔ قعقاع اس روز تین بہترین رزم نامے کہتا ہے۔

اسی جنگ میں قعقاع اپنے ما تحت افراد کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو کپڑے سے اس طرح ڈھانپیں تا کہ وہ ہاتھی جیسے نظر آئیں پھر ان کو دس دس کی ٹولیوں میں ایرانی فوج کے گھوڑسواروں کی طرف روانہ کریں تا کہ وہ وحشت سے اپنے ہی لشکر کی صفوں کو چیرتے ہوئے بھگدڑمچائیں ، پھر خاندان تمیم کے چابک سوار بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔

عماس کی شب کو قعقاع اپنے ماتحت افراد کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اسی جگہ پر لے جاتا ہے جہاں پر اغواث کے دن انھیں جمع کرچکاتھا، اور حکم دیتا ہے کہ اس کے افراد

۲۶۱

اغواث کے دن کی طرح لیکن اس دفعہ سو١٠٠ سو١٠٠افراد کی ٹولیوں میں میدان جنگ کی طرف بڑھیں اور

جب سو افراد کی پہلی ٹولی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو دوسری ٹولی آگے بڑھے اور اسی ترتیب سے

دیگر ٹولیاں آگے بڑھیں ۔ اس جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمان فوج کا حوصلہ اس روز بھی اغواث کے دن کی طرح مددگار فوج کی آمد کی امیدمیں بلند ہوجاتاہے۔

جب سعد وقاص مشاہدہ کرتا ہے کہ ایرانی فوج کا ہاتھی سوار دستہ اسلامی فوج کی صفوں کو تتربتر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ قعقاع اور اس کے بھائی کو حکم دیتا ہے کہ ان کے راہنما اور آگے آگے چلنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کردیں ۔قعقاع اور اس کا بھائی سفید ہاتھی کی دونوں آنکھیں نکال کر اسے اندھا بنا دیتے ہیں اور قعقاع تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کوکاٹ کر جدا کردیتا ہے اور بالاخر اسے مار ڈالنے کے بعد ایک لافانی رزم نامہ لکھتا ہے ۔

جنگ ''لیلة الھریر '' میں قعقاع میدان جنگ کی طرف دوڑ نے میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں پہل کرتا ہے اور ایک شعلہ بیان تقریر کرکے اپنے سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے کے لئے جوش دلاتا ہے اور دوسرے پہلوانوں اور دلاوروں کی مدد سے دشمن کے سپہ سالار اعظم رستم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور مشرکین کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے ۔اس طرح ایرانی فوج کے تیس سے زائد دستوں کے دلاوروں کے مقابلے میں اسی تعداد میں اسلامی فوج کے دلاور بھی مقابلے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ان میں قعقاع اپنے ہم پلہ پہلوان قارن کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتا ہے اور باقی ایرانی فوجی یا مارے جاتے ہیں یا فرار کر جاتے ہیں ۔اور سعد وقاص حکم جاری کرتا ہے کہ فراریوں کا پیچھا کیا جائے آخر میں سعد وقاص قعقاع کے حق میں ایک قصیدہ بڑھ کر اس کی تمجید و تجلیل کرتا ہے ۔

قادسیہ کی جنگ کی وجہ سے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتیں اپنے شوہر وں کے مارے جانے کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہیں اور قبیلہ مضر کے مہاجرین سے شادیاں کرتی ہیں ان میں قعقاع کی بیوی کی بہن ہنیدہ بھی تھی وہ اپنی بہن کے ذریعہ اپنے لئے شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں قعقاع کا نظریہ معلوم کرتی ہے اور قعقاع چند اشعار کے ذریعہ اس کی راہنمائی کرتا ہے اور فتح بہر سیر کے بارے میں شعر کہتا ہے ۔

۲۶۲

اسلامی فوج کے دریائے دجلہ کو عبور کرتے ہوئے غرقدہ نامی قبیلۂ بارق کا ایک شخص گھوڑے سے گر کر دریا میں ڈوب جاتا ہے ،قعقاع اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساحل تک کھینچ لے آتا ہے اور اسے غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔غرقدہ ایک قوی پہلوان تھا ۔وہ قعقاع کی ستائش کرتے ہوئے کہتا ہے '' عورتیں تجھ جیسا فرزند ہر گز جنم نہیں دے سکتیں ''

قعقاع کا فوجی دستہ'' اہوال'' کے نام سے مشہور تھا ،پہلا فوجی دستہ تھا جس نے مدائن میں قدم رکھا ۔

قعقاع ایرانی شکست خوردہ فراری سپاہیوں کا تعاقب کرتا ہے اور اس کی ایک فراری شخص کے ساتھ مڈبھیڑ ہوتی ہے ،قعقاع اسے قتل کر ڈالتا ہے اور دو چوپایوں پر بار کئے ہوئے اس کے اثاثہ پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیتا ہے ۔جب ان گٹھریوں کو کھول کے دیکھتا ہے تو ان میں ایران ،روم ،ترک اور عرب بادشاہوں کا فو جی سازوسامان پاتا ہے ۔اسلامی فوج کا کمانڈر انچیف سعد وقاص قعقاع کے حاصل کئے ہوئے اس مال غنیمت میں سے روم کے بادشاہ ہر کلیوس کی تلوار اور بہرام کی زرہ قعقاع کو بخش دیتا ہے اور باقی مال خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیتا ہے ۔

جلولا کی جنگ:

جلولاء کی جنگ میں خلیفہ ،سعد وقاص کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک فوجی دستے کی کمانڈدے کر فتح جلولاء کے لئے ہراول دستے کے طور پر ماموریت دے اور جلولاء کو فتح کرنے کے بعد شام تک پھیلے ہوئے ایران کے مغربی علاقوں کی حکومت اس کو سونپے ۔قعقاع جلولاء کی طرف روانہ ہوتا ہے اور پناہ گاہوں میں مورچہ بند ی کئے ہوئے ایرانیوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیتاہے ۔ لیکن ایرانی اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف لوہے کے تیز دھار والے ٹکڑے پھیلاکر اسلامی فوج کے لئے پناہ گاہ تک پہنچنے میں رکاوٹیں گھڑی کرتے ہیں اور صرف اپنے لئے رفت و آمد کا ایک خاص اور محفوظ راستہ بناتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ پناہ گاہ سے باہر نہیں نکلتے یہ حالت اسّی روز تک جاری رہتی ہے ۔

۲۶۳

قعقاع اس مدت میں ایک مناسب فرصت کی انتظار میں رہتا ہے اور اچانک حملہ کرکے رفت و آمد کے تنہا راستہ پر قبضہ جما لیتا ہے اور جنگی حکمت عملی سے مسلمان فوج کو حملہ کے لئے جو ش دلاتا ہے اور یہی امر دشمن کو شکست دینے کا سبب بن جاتا ہے ،اس معرکہ میں مشرکین کے ایک لاکھ فوجی کا م آتے ہیں او رباقی فرار کرتے ہیں اور مسلمان ،فراریوں کا خانقین تک پیچھا کرتے ہیں ۔ فراریوں میں سے بعض مارے جاتے ہیں اور بعض اسیر کئے جاتے ہیں ایرانی فوج کا کمانڈر مہران بھی مارا جاتا ہے ۔

قعقاع اپنی پیش قدمی کو قصر شیریں تک جاری رکھتا ہے ،حلوان کے سرحد بانوں کو قتل کرتاہے فوجی کیمپ اور شہر پر قبضہ کرکے سعد وقاص کے واپس کوفہ پہنچنے تک وہیں پر پڑائو ڈالتا ہے ۔قععقاع نے جلولاء کے بارے میں بھی شعر کہے ہیں ۔

شام سے ابو عبیدہ خلیفہ عمر سے مدد طلب کرتا ہے خلیفہ سعد کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک سپاہ کی کمانڈ میں ابو عبیدہ کی مدد کے لئے شام روانہ کرے ۔قعقاع چار ہزار جنگجوئوں کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوتا ہے جب مشرکین کو قعقاع اور اس کے سپاہیوں کے آنے کی خبر ملتی ہے تو ابو عبیدہ پر سے محاصرہ اٹھا لیتے ہیں منتشر ہو جاتے ہیں اور ابوعبیدہ ،قعقاع کی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی حمص کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔عمر حکم دیتا ہے کہ قعقاع اور اس کے سپاہیوں کو بھی مال غنیمت کی تقسیم میں شریک قرار دیا جائے ۔قعقاع اس مناسبت سے بھی چند شعر کہتاہے ۔

نہاوند کی جنگ :

نہاوند میں ایرانی ،قلعہ میں پناہ لیتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ اس سے باہر نہیں نکلتے ہیں ۔ قلعۂ نہاوند پر مسلمانوں کے محاصرہ کا کام طول پکڑتا ہے ۔آخر قعقاع ایک تدبیر سوچتاہے اور جنگ شروع کرتا ہے ،اچانک حملہ کرتا ہے ،جب مشرکین دفاع کرنے لگتے ہیں تو مسلمان پیچھے ہٹتے ہیں ، ایرانی ان کا پیچھا کرتے ہیں اور مسلمان پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ،اس طرح دشمن کو قلعہ سے باہر کھینچ لاتے ہیں ۔ وہ اس حد تک باہر آتے ہیں کہ قلعہ میں قلعہ کے محافظوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہتا ۔اچانک مسلمان مڑ کر تلواروں سے ان پر وار کر دیتے ہیں اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیتے ہیں ،زمین ان کے خون سے بھرجاتی ہے اور ایسی پھسلنی بن جاتی ہے کہ سوار اور پیدل فوجی اس پر پھسل جاتے ہیں جب دن گزر کر رات پہنچ جاتی ہے تو ایرانی شکست کھا کر فرار کرنے لگتے ہیں ۔وہ راہ اور چاہ میں تمیز نہیں کرسکتے اور اپنی کھودی ہوئی خندق اور اس میں جلائی گئی آگ میں ایک ایک کرکے گرتے جاتے ہیں اور جل جاتے ہیں وہ اس آگ سے بھری خندق میں گرتے ہوئے فارسی زبان میں فریاد بلند کرتے ہیں '' وائے خرد'' آخر کار ایک لاکھ انسان اس آگ میں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں یہ تعداد ان مقتولین کے علاوہ ہے جو اس جنگ کے میدان کارزار میں کام آئے تھے !

۲۶۴

نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوج کا سپہ سالار فیروزان بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے او ر ہمدان کی طرف فرار کرتا ہے ،قعقاع اس کا پیچھا کرتا ہے اور ہمدان کی گزرگاہ پر اس کے قریب پہنچتا ہے ۔ لیکن گزر گاہ میں موجود شہدکا بار لے جانے والے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے فیروزان گزر گاہ کو عبور نہیں کر سکتا ہے ۔گھوڑے سے اتر کر پہاڑ کی طرف بھاگتا ہے اسی اثنا ء میں قعقاع پہنچ کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالتا ہے ۔شہد کا بار لئے ہوئے مویشیوں کے سبب راستہ بند ہونے کے موضوع کی وجہ سے یہ جملہ عام ہو جاتاہے کہ '' خدا کے پاس شہد کی ایک فوج بھی ہے ''

فیروزان کے قتل ہونے کے بعد ہمدان اور ماہان کے باشندے قعقاع سے امان کی درخواست کرتے ہیں ۔امان نامہ لکھا جاتا ہے اور قعقاع اس کی تائید و گواہی میں اس پر دستخط کرتا ہے ۔ وہ اس مناسبت سے بھی اشعار کہتا ہے ۔

قعقاع ،عثمان کے زمانہ میں

خلیفہ عثمان ٣٤ھاور ٣٥ھ میں قعقاع کو کوفہ کے علاقوں کے سپہ سالار اعظم کی حیثیت سے مقرر کرتا ہے ۔

کوفہ میں شورش و فتنہ پرپا ہونے پر قعقاع دیکھتا ہے کہ سبائی مسجد کوفہ میں اجتماع کرکے خلیفہ عثمان کی معزولی وبر طرفی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔قعقاع انھیں دھمکاتا ہے ،سبائی ڈر کے مارے اپنے مطالبات کو چھپاتے ہیں او ر اظہار کرتے ہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ قعقاع ان سے کہتا ہے :تمھارا مطالبہ پورا ہوگا !اس کے بعد انھیں حکم دیتا ہے کہ متفرق ہو جائیں اور اب مسجد میں اجتماع نہ کریں ۔

جب مالک اشتر کوفہ کے گونر کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے شورشیوں اور باغیوں کو اکساتا ہے تو کوفہ کا ڈپٹی گورنر ان کو نصیحت کرتے ہوئے بغاوت کو روکتا ہے ۔قعقاع ڈپٹی گورنر کو صبر کا مظاہر ہ کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بھی اس کی بات کو مانتے ہوئے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔

۲۶۵

جب سبائی دوبارہ مسجد کوفہ میں ا جتماع کرتے ہیں اور عثمان کے خلاف بد گوئی کرتے ہیں تو قعقاع سبائیوں کو نصیحت کرکے ٹھنڈا کرتا ہے اور وعدہ دیتا ہے کہ عثمان کے مقرر کردہ تمام عہدہ داروں کو برطرف کر دے گا اور ان کے مطالبات قبول کئے جائیں گے ۔

جب عثمان نے مختلف شہروں کے باشندوں سے مدد طلب کی کہ اسے محاصر ہ سے نجات دلائیں تو قعقاع کوفہ سے اور دوسرے لوگ دیگر شہروں سے عثمان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب عثمان کو محاصرہ کرنے والے سبائی اس خبر سے مطلع ہوتے ہیں کہ عثمان کے حامی ان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف آرہے ہیں تو فورا ًعثمان کا کام تمام کر دیتے ہیں عثمان کے قتل کی خبر سنتے ہی قعقاع راستے ہی سے کوفہ کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔

۲۶۶

قعقاع ،حضرت علی کے زمانہ میں

جب حضرت علی ـ نے بصرہ میں جنگ جمل کے لئے کوفیوں سے مدد طلب کی اور ابو موسیٰ اشعری نے اس امر میں امام کی نافرمانی کی اور ان کے اور کوفہ کے باشندوں سے اختلافات پیدا ہوئے ،تو قعقاع مصلح کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے امام کی دعوت قبول کریں ۔لوگ اس کی نصیحت قبول کرکے امام کی فوج سے ملحق ہوتے ہیں اور خود قعقاع بھی پانچ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ امام کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے ۔(۱)

امام حکم دیتے ہیں کہ قعقاع ان کے ایلچی کی حیثیت سے صلح و آشتی برقرار کرنے کے لئے طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے پاس جائے ۔قعقاع کی سر گرمیوں اور حسن نیت کی وجہ سے اختلاف وتفرقہ ختم ہونے والا تھا لیکن سبائی اس صلح و آشتی کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیتے ہیں اور طرفین کی بے خبری میں رات کی تاریکی میں دونوں فوجوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں ۔

قعقاع امام کے ہمراہ جنگ میں شرکت کرتے ہوئے خود کو عائشہ کے اونٹ کے نزدیک پہنچا تا ہے اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ اونٹ کا کام تمام کردو او ر جنگ کے خاتمہ پر جمل کے خیر خواہوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : ''تم امان میں ہو''

ام المومنین عائشہ رو نما ہوئے ان حالات پر پشیمان ہوتی ہیں ،امام بھی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں تمناکرتے ہیں کہ کاش اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر چکے ہوتے!

امام قعقاع کو حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کی بے احترامی کرنے والے دو افراد کو سو سوکوڑے مارے ۔

آخر میں سیف نے ایک ایسی روایت بھی نقل کی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ قعقاع نے صفین کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے ۔

آخر کار معاویہ '' عام الجماعة'' کے بعد حضرت علی ـکے حامیوں اور طرفداروں کو جلاوطن کرتا ہے ۔اور قعقاع کو بھی اسی الزام میں فلسطین کے ایلیا نام کے علاقہ میں جلا وطن کرتا ہے اور ان کی جگہ پر اپنے حامیوں اور رشتہ دارون کو کوفہ میں آباد کرتا ہے ،سیف نے ان جلاوطن ہونے والوں کے نام بھی رکھے اور انھیں ''منتقل ہونے والے '' کہا ہے ۔

____________________

الف )۔تاریخ طبری طبع یورپ ٢١٦١

۲۶۷

احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

لم نجد لهم ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے ان راویوں کے نام ، سیف کی روایت کے علاوہ روایتوں کی کسی بھی کتاب میں نہیں پائے۔

(مولف)

ہم نے گزشتہ فصلو ں میں قعقاع کے بارے میں سیف کی روایات پر بحث و تحقیق کی ۔ اب ہم اس فصل میں پہلے ان راویوں کے بارے میں بحث کریں گے جن سے سیف نے روایات نقل کی ہیں اور اس کے بعد ان کتابوں کا جائزہ لیں گے جن میں سیف سے رواتیں نقل کی گئی ہیں ۔

١۔وہ راوی جن سے سیف نے رواتیں نقل کی ہیں

قعقاع بن عمر تمیمی کا افسانہ سیف کی ٦٨روایات میں ذکر ہوا ہے ۔امام المورخین طبری نے ان میں سے اکثر کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔جب ہم ان روایات کی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے :

(١) اس کی ٣٨روایات میں محمد کانام راوی کی حیثیت سے ذکر ہواہے ۔سیف اس محمد کو ابن عبد اللہ بن سوادبن نویرہ بتاتاہے اور اختصار کے طور پر اسے محمد نویرہ یا محمد بن عبداللہ اور اکثر صرف محمد کے نام سے ذکر کرتا ہے ۔

(٢) اس کا ایک راوی مہلب بن عتبہ اسدی ہے جس سے اس نے اپنی پندرہ روایات نقل کی ہیں طبری اسے اختصار کے طور پر مہلب ذکر کرتا ہے ۔

(٣) یزید بن اسید غسانی ،اس کا ایک اور راوی ہے ۔اس کا نام اس نے اپنی دس روایات کی سند میں ذکر کیا ہے اور اس کی کنیت ابو عثمان بیان کی ہے ۔

۲۶۸

(٤) سیف کی آٹھ احادیث کا راوی زیاد بن سرجس احمری ہے ۔سیف اختصار کے طور پر اسے زیاد یا زیاد بن سرجس کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(٥) الغصن بن قاسم کنانی ۔

(٦) عبداللہ بن سعید بن ثابت جذع ،اختصار کے طور پر سیف اسے عبداللہ بن سعید یا عبداللہ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔

(٧) ظفر بن دہی ،یہ سیف کے ان اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہے جنھیں اس نے خود جعل کیا ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ۔

(٨) قعقاع بن عمروتمیمی ،ظفر کے مانند یہ بھی اس کا ایک جعلی صحابی ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ،

(٩) صعب بن عطیہ بن بلال یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،جب کہ باپ بیٹے دونوں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں اور ایک ہی انداز کی روایت کرتے ہیں ۔

(١٠) نضر بن سری الضبی ،بعض اوقات اس کا نام سیف کی احادیث میں اختصار کے طور پر نضر ذکر ہواہے ۔

(١١) ابن رفیل ،اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،رفیل کے باپ کو سیف بن عمر ،رفیل بن میسور کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(١٢) عبدالرحمن بن سیاہ احمر ی ،سیف اس کانام لقب کے بغیر ذکرکرتاہے۔

(١٣) مستنیر بن یزید ،اس نام سے سیف کامقصود مستنیر بن یزید نخعی ہے ۔

(١٤) قیس ،سیف اسے مستنیرکابھائی بتاتاہے ۔

(١٥) سہل ،سیف نے اسے سہل بن یوسف سلمی خیال کیاہے ۔

(١٦) بطان بشر

(١٧) ابن ابو مکنف

(١٨) طلحہ بن عبد الرحمان ،اس کی کنیت ابوسفیان بتائی ہے ۔

(١٩) حمید بن ابی شجار

(٢٠) المقطع بن ھیثم بکائی

۲۶۹

(٢١) عبد اللہ بن محفز بن ثعلبہ ،وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،باپ بیٹے دونوں سیف کی صرف ایک حدیث کے راوی ہیں ۔

(٢٢) حنظلة بن زیاد بن حنظلۂ تمیمی.

(٢٣) عروة بن ولید

(٢٤) ابو معبد عبسی

(٢٥) جریر بن اشرس

(٢٦) صعصعةالمزنی

(٢٧) مخلد بن کثیر

(٢٨) عصمة الوامکی

(٢٩) عمرو بن ریان

٢۔وہ علما ء جنھوں نے سیف سے روایتیں نقل کی ہے

١۔تمام وہ افسانے جنھیں اب تک ہم نے قعقاع کے بارے میں ذکر کیا ،انہیں پہلی بار سیف بن عمر تمیمی( وفات تقریباً ١٧٠ ھ )نے ''فتوح''اور ''جمل''نامی اپنی دوکتابوں میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

مندرجہ ذیل علماء نے ان کتابوں سے قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے:

٢۔طبری (وفات ٣١٠ھ)نے اپنی کتاب ''تاریخ کبیر''میں ۔

٣۔الرّازی(وفات ٣٧٧ھ )نے کتاب ''جرح و تعدیل''میں ۔

٤۔ابن السکن(وفات ٣٥٣ھ ) نے کتاب ''حروف الصحابہ''میں ۔

٥۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ ھ) نے کتاب ''تاریخ مدینہ و دمشق''میں ۔

ان سے بھی درج ذیل مؤلفین نے اپنی ادبی کتابوں میں سیف کے مطالب کو نقل کیاہے :

٦۔الاصبھانی (وفات ٣٥٦ھ ) نے کتاب ''اغانی''میں ،طبری سے نقل کیا ہے۔

۲۷۰

٧۔ابن بدرون(وفات ٥٦٠ ھ) نے ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٨۔ابن عبد البر(وفات ٤٦٣ھ ) نے کتاب ''الاستیعاب'' میں ، سیف کے مطالب کو رازی سے نقل کیا ہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب''اسد الغابہ ''میں ،سیف کے مطالب کو ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے۔

١٠۔ذہبی (وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب ''التجرید''میں ابن اثیر سے نقل کیاہے۔

١١۔ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب ''الاصابہ '' میں ان مطالب کو خود سیف بن عمر، طبری ، رازی ، ابن سکن اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔

سیف کے افسانے تاریخ کی مندرجہ ذیل عمومی کتابوں میں بھی نقل ہوئے ہیں :

١٢۔ابن اثیر(وفات ٦٣٠ھ) نے کتاب ''تاریخ کامل '' میں طبری سے نقل کیا ہے۔

١٣۔ابن کثیر (وفات ٧٧٠ھ ) نے کتاب ''تاریخ البدایہ''میں طبری سے نقل کیاہے۔

جغرافیہ کی کتابوں میں بھی سیف کے افسانے درج کئے گئے ہیں :

١٥۔الحموی(وفات ٦٢٦ ھ) نے کتاب ''معجم البلدان''میں براہ راست سیف بن عمر سے نقل کیاہے۔

١٦۔عبد المؤمن (وفات ٧٣٠ھ) نے کتاب ''مراصدا لاطلاع'' میں حموی سے نقل کیا ہے ۔

١٧۔الحمیری(وفات ٩٠٠ھ ) نے کتاب ''روض المعطار'' میں براہ راست سیف سے نقل کیا ہے۔

قعقاع کے افسانوں کا ان کتابوں میں اشاعت پانا اس امر کاسبب بنا کہ قعقاع کا نام شیعوں کی رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوجائے ،جیسے:

۲۷۱

١٨۔شیخ طوسی (وفات ٤٦٠ھ) نے کتاب ''رجال''میں ۔

١٩۔قہپائی (سال تألیف ١٠١٦ھ) نے کتاب ''مجمع الرجال'' میں شیخ کتاب ''رجا ل '' سے نقل کیا ہے۔

٢٠۔اردبیلی(وفات ١١٠١ھ) نے کتاب ''جامع الروات'' میں شیخ کی کتاب رجال سے نقل کیا ہے۔

٢١۔مامقانی ( وفات ١٣٥٠ھ ) نے کتاب ''تنقیح المقال'' میں شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

٢٢۔شوشتری، معاصر نے مامقانی کی کتاب ''تنقیح المقال ''اور شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

قعقاع کے بارے میں

سیف کی سڑسٹھ٦٧ روایتوں کا خلاصہ

قعقاع کی خبر اور اس کے حیرت انگیز افسانوی شجاعتیں اور کارنامے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ تاریخ اسلام کے دیگر معتبر مصادر و منابع میں وسیع پیمانے پر، شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سبوں نے سیف بن عمر تمیمی سے روایت نقل کی ہے۔ کیونکہ سیف مدعی ہے اور وہی روایت کرتا ہے کہ بے مثال اور نا قابل شکست تمیمی پہلوان، قعقاع بن عمرو تمیمی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی رہ چکا ہے اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایتیں نقل کی ہیں ، سقیفہ بنی ساعدہ کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں خبر بھی دی ہے، ارتداد اور فتوحات اسلامی کی اکتس جنگوں میں شرکت کی ہے۔ ان جنگوں میں سات لاکھ سے زائد انسان قتل عام ہوئے ہیں ان کے سرتن سے جدا کئے گئے ہیں یا جل کر راکھ ہوئے ہیں ۔ قعقاع بن عمر و تمیمی ان جنگوں کا بے مثال پہلوان اور مرکزی کردار و شیر مرد تھا، اس نے١ ٣ رزم نامے لکھے ہیں ۔

سیف نے ان تمام مطالب کو٦٧،احادیث میں بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر حدیث کو چند راویوں سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے چالیس راوی صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ایسی جنگوں کا نام لیا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسی جگہوں کا نام لیاہے جو بالکل وجود نہیں رکھتی تھیں اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسی جنگوں اور جگہوں کا نام لے کر ان کا تعارف کرایاہے۔

سیف منفرد شخص ہے جو تاریخ اسلا م کے چھبیس سال تک کے ایسے واقعات و حالات کی تشریح کرتا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئے ہیں اور دیگر کسی بھی خبر بیان کرنے والے نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ، بلکہ سیف نے تن تنہا ان افسانوں کی ایجاد کرکے اپنے تصور میں تخلیق اور کتابوں میں ثبت کیا ہے۔

۲۷۲

تحقیق کے منابع

ہم نے سیف کی احادیث کے راویوں کی تلاش کے سلسلے میں ان مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا جن میں تاریخ و حدیث کے تمام رایوں کے حالات درج ہیں ، مثال کے طور پر:

٭ '' علل و معرفة الرجال '' تالیف احمد بن حنبل ( وفات ٢٤١ھ)

٭ ''تاریخ بخاری '' تالیف بخاری ( وفات ٣٥٦ھ)

٭ '' جرح و تعدیل'' تالیف رازی(وفات٣٢٧)

٭ '' میزان الاعتدال '' ،والعبر''اور '' تذکرة الحفاظ''تألیف ذہبی (وفات ٧٤٨ھ

٭ ''لسان المیزان ''''تہذیب التہذیب'' ''تقریب التہیب'' اور ''تبصیرالمنتبہ'' تالیف ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ)

٭ '' خلاصة التہذیب '' تالیف صفی الدین ،کتاب کی تالیف کی تاریخ ٩٢٣ھ ہے۔

اس کے علاوہ طبقات کی کتابوں میں ،مثال کے طور پر :

٭ طبقات ابن سعد (وفات ٢٣٠ ھ )

٭ طبقات حنیفة بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)

اسی طرح کتب انساب میں ،جیسے :

٭ ''جمہرة انساب العرب '' تالیف ابن حزم (وفات ٤٥٤ھ)

٭ ''انساب ''سمعانی (وفات ٥٦٢ھ)

٭ ''اللباب '' ابن اثیر (وفات ٦٣٠)

۲۷۳

تحقیق کانتیجہ

ہم نے مذکورہ تمام کتابوں میں انتہائی تلاش و جستجو کی ،صرف انہی کتابوں پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے موضوع سے مربوط مزید دسیوں منابع و مصادر کا بھی مطالعہ کیا ،حدیث کی کتابیں جیسے مسند احمد کا مکمل دورہ اور صحاح ستہ کی تمام جلدیں ،ادبی کتابیں جیسے : ''عقد الفرید'' تالیف عبدالبر (وفات ٣٢٨ھ ) اور ''اغانی'' تالیف اصفہانی (وفات ٣٥٦ھ) اور ان کے علاوہ بھی دسیوں کتابوں کی ورق گردانی کی تاکہ سیف ابن عمر کے ان راویوں میں سے کسی ایک کا پتا چل جائے ،جن سے اس نے سیکڑوں احادیث روایت کی ہیں ،لیکن ان راویوں کے ناموں کا ہمیں سیف کے علاوہ کہیں نشان نہ ملا!اس بنا ء ہم ان تمام راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔انشاء اللہ جہاں ہم سیف کے جعلی راویوں کے بارے میں بحث کریں گے وہاں سیف کی زبانی ان کی زندگی کے حالات کی بھی تشریح کریں گے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے قعقاع کی روایات میں چند منفرد نام بھی راویوں کے طور پر ذکر کئے ہیں ،جیسے :

'' خالد کو تین روایات میں ،عبادہ کو دو روایات میں اور عطیہ و مغیرہ اور دیگر چند مجہول القاب و نام ،جن کی شناسائی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن ہے کہ سیف کے درج ذیل عنوان کے راویوں کی پہچان کی جا سکے :

''بنی کنانہ کا ایک مرد '' ،''بنی ضبہ کا ایک مرد ''،'' طی سے ایک مرد '' بنی ضبہ کا ایک بوڑھا '' ''اس سے جس نے خود بکر بن وائل سے سنا ہے '' ،ان سے جنھوں نے اپنے رشتہ داروں سے سنا ہے ''، ابن محراق نے اپنے باپ سے '' اور'' ان جیسے دیگر مجہول راوی جن سے سیف نے روایت کی ہے ؟!

تقریبا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سیف ابن عمرتمیمی نے ایسے راویوں کا ذکر کرتے وقت سنجیدگی کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے ۔

مذکورہ حالات کے پیش نظر قارئین کرام کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب سیف کی احادیث کے راویوں کی یہ حالت ہوتوخود سیف کی احادیث اور اس کی باتوں پر کس حد تک اعتبار اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟!

۲۷۴

چوتھا حصہ :

٢۔عاصم بن عمر و تمیمی

٭ عراق کی جنگ میں ۔

٭ ''دومة الجندل'' کی جنگ میں ۔

٭ مثنی کی جنگ میں ۔

٭ قادسیہ کی جنگ میں ۔

٭ جراثیم کے دن ۔

٭ سرزمین ایران میں ۔

٭ عاصم کے فرزند اور خاندان ۔

٭ عاصم کے بارے میں سیف کی احادیث کے راوی

۲۷۵

عاصم ،عراق کی جنگ میں

مصدر الجمیع فی ماذکروا هواحادیث سیف

جو کچھ علماء نے عاصم کے بارے میں لکھا ہے وہ سب سیف سے منقول ہے

( مولف )

عاصم کون ہے ؟

سیف بن عمر نے عاصم کو اپنے خیال میں قعقاع کا بھائی اور عمرو تمیمی کا بیٹا جعل کیا ہے اور اس کے لئے عمر و نامی ایک بیٹا بھی خلق کیا ہے کہ انشاء اللہ ہم باپ کے بعد اس کے اس بیٹے کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے ۔

عاصم بن عمر و سیف کے افسانوی سورمائوں کی دوسری شخصیت ہے کہ شجاعت ،دلاوری ،فہم و فراست ،سخن وری اور شعر و ادب وغیرہ کے لحاظ سے بھی سیف کے افسانوں میں اپنے بھائی قعقاع کے بعد دوسرے نمبر کا پہلوان ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں عاصم بن عمرو کی یوں تعریف کی ہے :

''عاصم ،خاندان بنی تمیم کا ایک دلاور اور اس خاندان کے نامور شاعروں میں سے ہے ''

ابن عساکر بھی اپنی عظیم تاریخ میں عاصم کی یوں تعریف کرتا ہے :

'' عاصم قبیلہ بنی تمیم کا ایک پہلوان اور اس خاندان کا ایک مشہور شاعر ہے ۔''

'' استیعاب'' اور تجرید '' جیسی کتابوں میں بھی اس کی تعریف کی گئی ہے ۔تاریخ طبری میں بھی اس کے بارے میں مفصل مطالب درج ہیں اور دوسروں نے بھی تاریخ طبری سے اقتباس کر کے عاصم بن عمرو کے بارے میں مطالب بیان کئے ہیں ۔طبری ہو یا دیگر مورخین ،عاصم سے مربوط تمام روایتوں کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی کی جعل احادیث اور روایتیں ہیں ''

چونکہ طبری نے عاصم بن عمرو کے بارے میں روایات کو ١٢ھ سے ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ کی کتاب میں مفصل اور واضح طور پر درج کیاہے،اس لئے ہم بھی عاصم کے بارے میں اسی کی تالیف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے بعد تحقیق کرکے حقائق کے پانے کے لئے ١٢ ھ سے ٢٩ھ تک کے حوادث سے مربوط دوسروں کے بیانات کا طبری سے موازنہ کرکے تحقیق کریں گے۔

۲۷۶

عاصم ،خالد کے ساتھ عراق میں

جریر طبری نے ١٢ھ کے تاریخی حوادث وواقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

چونکہ خالد بن ولید یمامہ(۱) کے مرتدوں سے بر سر پیکار تھا،اس لئے عاصم

بن عمرو کو ہراولی دستہ کے طور پر عراق روانہ کیا۔

____________________

١لف۔ یمامہ ،شہر نجد سے بحرین تک ١٠ دن کا فاصلہ ہے۔معجم البلدان۔

۲۷۷

عاصم نے خالد کی قیادت میں ایک سپاہ کے ہمراہ المذار کی جنگ میں شرکت کی اور انوش جان نامی ایرانی سپہ سالار کے تحت المذار میں جمع ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوا۔المقر اور دہانہ فرات باذقلی کی جنگ اور فتح حیرہ کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے طبری لکھتاہے:

خالد ،حیرہ کی طرف روانہ ہوا۔اپنے افراد اور اپناسازو سامان کشتی میں سوار کیا۔حیرہ کے سرحد بان نے اسلامی سپاہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اپنے بیٹے کو بند باندھنے کا حکم دیا تاکہ خالد کی کشتیاں کیچڑ میں دھنس جائیں ، خالد،سرحد بان کے بیٹے کی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور ان میں سے ایک گروہ کو مقر کے مقام پر قتل کیا ،سرحد بان کے بیٹے کو بھی فرات باذقلی کے مقام پر قتل کیا،سرحد بان کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا سرحد بان بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔خالد اپنی فوج کے ہمراہ حیرہ میں داخل ہوا اور اس کے محلوں اور خزانوں پر قبضہ جمالیا۔

خالد نے جب حیرہ کو فتح کیا تو عاصم بن عمرو کو کربلا کی فوجی چھاونی اور اس کے جنگی سازو سامان کی کمانڈ پر منصوب کیا۔

یہ ان مطالب کا ایک خلاصہ تھا جنھیں عاصم اور اس کی جنگوں کے بارے میں طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے.

حموی نے سیف کی روایتوں کے پیش نظر ان کی تشریح کی ہے اور مقر کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے:

مقر ، حیرہ کی سرزمینوں میں سے فرات باذقلی کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔ اس جگہ پر خلافت ابوبکرکے زمانے میں مسلمانوں نے خالد بن ولید کی قیادت میں ایرانیوں سے جنگ کی ہے اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

''سرزمین مقر میں ہم نے آشکارا طور پر اس کے جاری پانی اور وہاں کے باشندوں پر تسلط جمایا اور وہاں پر ان کو (اپنے دشمنوں کو) موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس کے بعد فرات کے دہانہ کی طرف حملہ کیا ، جہاں پر انہوں نے پناہ لی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہم ان ایرانی سواروں سے نبرد آزما ہوئے جو میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہتے تھے۔''

۲۷۸

حیرہ کی تشریح میں یوں کہتا ہے:

حیرہ نجف سے تین میل کی دوری پر ایک شہر ہے...

یہاں تک کہ کہتا ہے:

شہر حیرہ کو حیرة الروحاء کہتے ہیں ، عاصم بن عمرو نے اس جگہ کے بارے میں یوں کہاہے:

''ہم نے پیدل اور سوار فوجوں سے صبح سویر ے حیرۂ روحاپر حملہ کیا اور اس کے اطراف میں موجود سفید محلوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا''۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

یہ وہ مطلب ہیں جو سیف نے کہے ہیں .لیکن ہم نے سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جس نے مقر اور فرات باذقلی کے بارے میں کچھ لکھا ہو! لیکن ، حیرہ کے سرحد بان کے بارے میں جیسا کہ قعقاع ابن عمر و تمیمی کی داستان میں بلاذری سے نقل کرکے بیان کیا گیا ہے: ''ابوبکرکی خلافت کے زمانے میں مثنی نے المذار کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دی اور عمربن خطاب کی خلافت کے زمانے میں عتبہ بن غزوان فتح حیرہ کے لئے مأمور ہوا اور المذار کا سرحدبان اس کے مقابلہ کے لئے آیا اور ان دونوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ ایرانیوں نے شکست کھائی اور وہ سب کے سب پانی میں ڈوب گئے ۔ سرحد بان کا سر بھی تن سے جدا کیا گیا''۔

سند کی پڑتال:

سیف کی حدیث کی سند میں مھلب اسدی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری اور زیاد بن سرجس احمری کا نام راویوں کے طور پر آیا ہے اور اس سے پہلے قعقاع کے افسانے کی تحقیق کے دوران معلوم ہوچکا کہ یہ سب جعلی اور سیف کے خیالی راوی ہیں ۔

ان کے علاوہ ابوعثمان کا نام بھی راوی کے طور پر لیا گیا ہے کہ سیف کی احادیث میں یہ نام دو افراد سے مربوط ہے۔ ان میں ایک یزید بن اسید ہے۔ یہاں پر معلوم نہیں کہ سیف کا مقصود ان دو میں سے کون ہے؟

۲۷۹

پڑتال کا نتیجہ:

المذار کے بارے میں سیف کی روایت دوسروں کی روایت سے ہماہنگ نہیں ہے۔ المقر اور فرات باذقلی کی جنگوں کا بیان کرنے والا سیف تنہا شخص ہے کیونکہ دوسروں نے ان دوجگہوں کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے چہ جائیکہ سیف کے بقول وہاں پر واقع ہوئے حوادث اور واقعات کے ذکر کی بات !!

طبری نے ان اماکن کے بارے میں سیف کی احادیث کواپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم کی رجز خوانی اور رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے ۔

حموی نے مقامات اور جگہوں کے نام کو افسانہ ساز سیف کی روایتوں سے نقل کیا ہے اوراس کے افسانوی سورمائوں کے اشعارورزم ناموں سے بھی استناد کیا ہے،پھر مقر کی بھی اسی طریقے سے تعریف کی ہے ۔اس سلسلے میں عاصم بن عمرو کے اشعار میں '' حیرة الروحاء ''کا اشارہ کرتے ہوئے حیرہ کاذکرکرتا ہے ،جب کہ ہماری نظرمیں ضرورت شعری کا تقاضا یہ تھاکہ سیف لفظ ''روحاء '' کو لفظ ''حیرہ''کے بعد لائے نہ کہ ']روحاء ''کو ''حیرہ''کے لئے اسم اضافہ کے طور پر لائے جیسا کہ حموی نے خیال کیا ہے َ

سیف کی روایات کا نتیجہ :

١۔ ''مقر'' نام کی ایک جگہ کا نام جعل کرکے اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٢۔ایرانیوں کے انوش جان نامی ایک سپہ سالار کی تخلیق ۔

٣۔فرضی اور خیالی جنگی ایام کی تخلیق جو تاریخ میں ثبت ہوئے ہیں ۔

٤۔ان اشعار کی تخلیق جو عربی ادبیات کی زینت بنے ہیں

٥۔عراق میں خالد کی خیالی فتوحات میں ایک اور فتح کا اضافہ کرنا۔

٦۔ اور آخر میں سیف کے خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کے افتخارات کے طور پر اس کی شجاعتوں ،اشعار اور کربلا کی فوجی چھاونی اور اسلحوں پر اس کی کمانڈ کا ذکر کرنا۔ ١

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416