ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215608 / ڈاؤنلوڈ: 4979
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

قعقاع ایک ہزار سپاہیوں کو اپنی کمانڈ میں لئے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے منازل کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن اپنی وعدہ گاہ، یعنی قادسیہ کے میدان جنگ میں پہنچ جاتاہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرتاہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلہ کی رعایت کرتے ہوئے ایک عظیم طاقت کی صورت میں میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ فوجیوں کی ٹولیوں کی کثرت اسلامی فوج کی ہمت افزائی کا سبب بنیں اور خود پہلی ٹولی کے آگے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اسلامی فوج کو امداد پہنچنے کی نوید دیکر حوصلہ افزائی کرتاہے اور ان سے کہتاہے، جو کام میں کروں تم بھی اسی کو انجام دینا۔ اس کے بعد تن تنہا میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے ہم پلہ مد مقابل کا مطالبہ کرتاہے اور مثنی کے قاتل دشمن کے سپہ سالار ذوالحاجب کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دشمن کے ایک اور سردار اور پہلوان بیرزانِ پارسی کو قتل کرڈالتا ہے۔ اس کی شجاعت کو دیکھ کر اسلامی فوج کے سپاہی ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے:''جس سپاہ میں یہ پہلوان موجود ہو وہ سپاہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی''۔قعقاع کے سپاہی اس کے حکم کے مطابق اس دن شام ہونے تک وقفے وقفے سے ٹولیوں کی صورت میں آکر اسلامی فوج کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں اور ہر ٹولی کے پہنچنے پر قعقاع نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے اور مسلمان بھی اس کے جواب میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں ۔ اس طرح دوستوں کے دل قوی ہوتے ہیں اور دشمن متزلزل اور پریشان ہوجاتے ہیں ۔

اسی فرضی اغواث کے دن سعد وقاص ان گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو انعام کے طور پر دیتا ہے، جو خلیفہ عمر نے جنگ قادسیہ کے بہترین پہلوانوں کے لئے بھیجے تھے ۔ قعقاع اس روز تین بہترین رزم نامے کہتا ہے۔

اسی جنگ میں قعقاع اپنے ما تحت افراد کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو کپڑے سے اس طرح ڈھانپیں تا کہ وہ ہاتھی جیسے نظر آئیں پھر ان کو دس دس کی ٹولیوں میں ایرانی فوج کے گھوڑسواروں کی طرف روانہ کریں تا کہ وہ وحشت سے اپنے ہی لشکر کی صفوں کو چیرتے ہوئے بھگدڑمچائیں ، پھر خاندان تمیم کے چابک سوار بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔

عماس کی شب کو قعقاع اپنے ماتحت افراد کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اسی جگہ پر لے جاتا ہے جہاں پر اغواث کے دن انھیں جمع کرچکاتھا، اور حکم دیتا ہے کہ اس کے افراد

۲۶۱

اغواث کے دن کی طرح لیکن اس دفعہ سو١٠٠ سو١٠٠افراد کی ٹولیوں میں میدان جنگ کی طرف بڑھیں اور

جب سو افراد کی پہلی ٹولی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو دوسری ٹولی آگے بڑھے اور اسی ترتیب سے

دیگر ٹولیاں آگے بڑھیں ۔ اس جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمان فوج کا حوصلہ اس روز بھی اغواث کے دن کی طرح مددگار فوج کی آمد کی امیدمیں بلند ہوجاتاہے۔

جب سعد وقاص مشاہدہ کرتا ہے کہ ایرانی فوج کا ہاتھی سوار دستہ اسلامی فوج کی صفوں کو تتربتر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ قعقاع اور اس کے بھائی کو حکم دیتا ہے کہ ان کے راہنما اور آگے آگے چلنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کردیں ۔قعقاع اور اس کا بھائی سفید ہاتھی کی دونوں آنکھیں نکال کر اسے اندھا بنا دیتے ہیں اور قعقاع تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کوکاٹ کر جدا کردیتا ہے اور بالاخر اسے مار ڈالنے کے بعد ایک لافانی رزم نامہ لکھتا ہے ۔

جنگ ''لیلة الھریر '' میں قعقاع میدان جنگ کی طرف دوڑ نے میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں پہل کرتا ہے اور ایک شعلہ بیان تقریر کرکے اپنے سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے کے لئے جوش دلاتا ہے اور دوسرے پہلوانوں اور دلاوروں کی مدد سے دشمن کے سپہ سالار اعظم رستم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور مشرکین کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے ۔اس طرح ایرانی فوج کے تیس سے زائد دستوں کے دلاوروں کے مقابلے میں اسی تعداد میں اسلامی فوج کے دلاور بھی مقابلے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ان میں قعقاع اپنے ہم پلہ پہلوان قارن کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتا ہے اور باقی ایرانی فوجی یا مارے جاتے ہیں یا فرار کر جاتے ہیں ۔اور سعد وقاص حکم جاری کرتا ہے کہ فراریوں کا پیچھا کیا جائے آخر میں سعد وقاص قعقاع کے حق میں ایک قصیدہ بڑھ کر اس کی تمجید و تجلیل کرتا ہے ۔

قادسیہ کی جنگ کی وجہ سے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتیں اپنے شوہر وں کے مارے جانے کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہیں اور قبیلہ مضر کے مہاجرین سے شادیاں کرتی ہیں ان میں قعقاع کی بیوی کی بہن ہنیدہ بھی تھی وہ اپنی بہن کے ذریعہ اپنے لئے شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں قعقاع کا نظریہ معلوم کرتی ہے اور قعقاع چند اشعار کے ذریعہ اس کی راہنمائی کرتا ہے اور فتح بہر سیر کے بارے میں شعر کہتا ہے ۔

۲۶۲

اسلامی فوج کے دریائے دجلہ کو عبور کرتے ہوئے غرقدہ نامی قبیلۂ بارق کا ایک شخص گھوڑے سے گر کر دریا میں ڈوب جاتا ہے ،قعقاع اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساحل تک کھینچ لے آتا ہے اور اسے غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔غرقدہ ایک قوی پہلوان تھا ۔وہ قعقاع کی ستائش کرتے ہوئے کہتا ہے '' عورتیں تجھ جیسا فرزند ہر گز جنم نہیں دے سکتیں ''

قعقاع کا فوجی دستہ'' اہوال'' کے نام سے مشہور تھا ،پہلا فوجی دستہ تھا جس نے مدائن میں قدم رکھا ۔

قعقاع ایرانی شکست خوردہ فراری سپاہیوں کا تعاقب کرتا ہے اور اس کی ایک فراری شخص کے ساتھ مڈبھیڑ ہوتی ہے ،قعقاع اسے قتل کر ڈالتا ہے اور دو چوپایوں پر بار کئے ہوئے اس کے اثاثہ پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیتا ہے ۔جب ان گٹھریوں کو کھول کے دیکھتا ہے تو ان میں ایران ،روم ،ترک اور عرب بادشاہوں کا فو جی سازوسامان پاتا ہے ۔اسلامی فوج کا کمانڈر انچیف سعد وقاص قعقاع کے حاصل کئے ہوئے اس مال غنیمت میں سے روم کے بادشاہ ہر کلیوس کی تلوار اور بہرام کی زرہ قعقاع کو بخش دیتا ہے اور باقی مال خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیتا ہے ۔

جلولا کی جنگ:

جلولاء کی جنگ میں خلیفہ ،سعد وقاص کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک فوجی دستے کی کمانڈدے کر فتح جلولاء کے لئے ہراول دستے کے طور پر ماموریت دے اور جلولاء کو فتح کرنے کے بعد شام تک پھیلے ہوئے ایران کے مغربی علاقوں کی حکومت اس کو سونپے ۔قعقاع جلولاء کی طرف روانہ ہوتا ہے اور پناہ گاہوں میں مورچہ بند ی کئے ہوئے ایرانیوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیتاہے ۔ لیکن ایرانی اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف لوہے کے تیز دھار والے ٹکڑے پھیلاکر اسلامی فوج کے لئے پناہ گاہ تک پہنچنے میں رکاوٹیں گھڑی کرتے ہیں اور صرف اپنے لئے رفت و آمد کا ایک خاص اور محفوظ راستہ بناتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ پناہ گاہ سے باہر نہیں نکلتے یہ حالت اسّی روز تک جاری رہتی ہے ۔

۲۶۳

قعقاع اس مدت میں ایک مناسب فرصت کی انتظار میں رہتا ہے اور اچانک حملہ کرکے رفت و آمد کے تنہا راستہ پر قبضہ جما لیتا ہے اور جنگی حکمت عملی سے مسلمان فوج کو حملہ کے لئے جو ش دلاتا ہے اور یہی امر دشمن کو شکست دینے کا سبب بن جاتا ہے ،اس معرکہ میں مشرکین کے ایک لاکھ فوجی کا م آتے ہیں او رباقی فرار کرتے ہیں اور مسلمان ،فراریوں کا خانقین تک پیچھا کرتے ہیں ۔ فراریوں میں سے بعض مارے جاتے ہیں اور بعض اسیر کئے جاتے ہیں ایرانی فوج کا کمانڈر مہران بھی مارا جاتا ہے ۔

قعقاع اپنی پیش قدمی کو قصر شیریں تک جاری رکھتا ہے ،حلوان کے سرحد بانوں کو قتل کرتاہے فوجی کیمپ اور شہر پر قبضہ کرکے سعد وقاص کے واپس کوفہ پہنچنے تک وہیں پر پڑائو ڈالتا ہے ۔قععقاع نے جلولاء کے بارے میں بھی شعر کہے ہیں ۔

شام سے ابو عبیدہ خلیفہ عمر سے مدد طلب کرتا ہے خلیفہ سعد کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک سپاہ کی کمانڈ میں ابو عبیدہ کی مدد کے لئے شام روانہ کرے ۔قعقاع چار ہزار جنگجوئوں کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوتا ہے جب مشرکین کو قعقاع اور اس کے سپاہیوں کے آنے کی خبر ملتی ہے تو ابو عبیدہ پر سے محاصرہ اٹھا لیتے ہیں منتشر ہو جاتے ہیں اور ابوعبیدہ ،قعقاع کی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی حمص کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔عمر حکم دیتا ہے کہ قعقاع اور اس کے سپاہیوں کو بھی مال غنیمت کی تقسیم میں شریک قرار دیا جائے ۔قعقاع اس مناسبت سے بھی چند شعر کہتاہے ۔

نہاوند کی جنگ :

نہاوند میں ایرانی ،قلعہ میں پناہ لیتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ اس سے باہر نہیں نکلتے ہیں ۔ قلعۂ نہاوند پر مسلمانوں کے محاصرہ کا کام طول پکڑتا ہے ۔آخر قعقاع ایک تدبیر سوچتاہے اور جنگ شروع کرتا ہے ،اچانک حملہ کرتا ہے ،جب مشرکین دفاع کرنے لگتے ہیں تو مسلمان پیچھے ہٹتے ہیں ، ایرانی ان کا پیچھا کرتے ہیں اور مسلمان پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ،اس طرح دشمن کو قلعہ سے باہر کھینچ لاتے ہیں ۔ وہ اس حد تک باہر آتے ہیں کہ قلعہ میں قلعہ کے محافظوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہتا ۔اچانک مسلمان مڑ کر تلواروں سے ان پر وار کر دیتے ہیں اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیتے ہیں ،زمین ان کے خون سے بھرجاتی ہے اور ایسی پھسلنی بن جاتی ہے کہ سوار اور پیدل فوجی اس پر پھسل جاتے ہیں جب دن گزر کر رات پہنچ جاتی ہے تو ایرانی شکست کھا کر فرار کرنے لگتے ہیں ۔وہ راہ اور چاہ میں تمیز نہیں کرسکتے اور اپنی کھودی ہوئی خندق اور اس میں جلائی گئی آگ میں ایک ایک کرکے گرتے جاتے ہیں اور جل جاتے ہیں وہ اس آگ سے بھری خندق میں گرتے ہوئے فارسی زبان میں فریاد بلند کرتے ہیں '' وائے خرد'' آخر کار ایک لاکھ انسان اس آگ میں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں یہ تعداد ان مقتولین کے علاوہ ہے جو اس جنگ کے میدان کارزار میں کام آئے تھے !

۲۶۴

نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوج کا سپہ سالار فیروزان بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے او ر ہمدان کی طرف فرار کرتا ہے ،قعقاع اس کا پیچھا کرتا ہے اور ہمدان کی گزرگاہ پر اس کے قریب پہنچتا ہے ۔ لیکن گزر گاہ میں موجود شہدکا بار لے جانے والے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے فیروزان گزر گاہ کو عبور نہیں کر سکتا ہے ۔گھوڑے سے اتر کر پہاڑ کی طرف بھاگتا ہے اسی اثنا ء میں قعقاع پہنچ کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالتا ہے ۔شہد کا بار لئے ہوئے مویشیوں کے سبب راستہ بند ہونے کے موضوع کی وجہ سے یہ جملہ عام ہو جاتاہے کہ '' خدا کے پاس شہد کی ایک فوج بھی ہے ''

فیروزان کے قتل ہونے کے بعد ہمدان اور ماہان کے باشندے قعقاع سے امان کی درخواست کرتے ہیں ۔امان نامہ لکھا جاتا ہے اور قعقاع اس کی تائید و گواہی میں اس پر دستخط کرتا ہے ۔ وہ اس مناسبت سے بھی اشعار کہتا ہے ۔

قعقاع ،عثمان کے زمانہ میں

خلیفہ عثمان ٣٤ھاور ٣٥ھ میں قعقاع کو کوفہ کے علاقوں کے سپہ سالار اعظم کی حیثیت سے مقرر کرتا ہے ۔

کوفہ میں شورش و فتنہ پرپا ہونے پر قعقاع دیکھتا ہے کہ سبائی مسجد کوفہ میں اجتماع کرکے خلیفہ عثمان کی معزولی وبر طرفی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔قعقاع انھیں دھمکاتا ہے ،سبائی ڈر کے مارے اپنے مطالبات کو چھپاتے ہیں او ر اظہار کرتے ہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ قعقاع ان سے کہتا ہے :تمھارا مطالبہ پورا ہوگا !اس کے بعد انھیں حکم دیتا ہے کہ متفرق ہو جائیں اور اب مسجد میں اجتماع نہ کریں ۔

جب مالک اشتر کوفہ کے گونر کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے شورشیوں اور باغیوں کو اکساتا ہے تو کوفہ کا ڈپٹی گورنر ان کو نصیحت کرتے ہوئے بغاوت کو روکتا ہے ۔قعقاع ڈپٹی گورنر کو صبر کا مظاہر ہ کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بھی اس کی بات کو مانتے ہوئے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔

۲۶۵

جب سبائی دوبارہ مسجد کوفہ میں ا جتماع کرتے ہیں اور عثمان کے خلاف بد گوئی کرتے ہیں تو قعقاع سبائیوں کو نصیحت کرکے ٹھنڈا کرتا ہے اور وعدہ دیتا ہے کہ عثمان کے مقرر کردہ تمام عہدہ داروں کو برطرف کر دے گا اور ان کے مطالبات قبول کئے جائیں گے ۔

جب عثمان نے مختلف شہروں کے باشندوں سے مدد طلب کی کہ اسے محاصر ہ سے نجات دلائیں تو قعقاع کوفہ سے اور دوسرے لوگ دیگر شہروں سے عثمان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب عثمان کو محاصرہ کرنے والے سبائی اس خبر سے مطلع ہوتے ہیں کہ عثمان کے حامی ان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف آرہے ہیں تو فورا ًعثمان کا کام تمام کر دیتے ہیں عثمان کے قتل کی خبر سنتے ہی قعقاع راستے ہی سے کوفہ کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔

۲۶۶

قعقاع ،حضرت علی کے زمانہ میں

جب حضرت علی ـ نے بصرہ میں جنگ جمل کے لئے کوفیوں سے مدد طلب کی اور ابو موسیٰ اشعری نے اس امر میں امام کی نافرمانی کی اور ان کے اور کوفہ کے باشندوں سے اختلافات پیدا ہوئے ،تو قعقاع مصلح کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے امام کی دعوت قبول کریں ۔لوگ اس کی نصیحت قبول کرکے امام کی فوج سے ملحق ہوتے ہیں اور خود قعقاع بھی پانچ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ امام کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے ۔(۱)

امام حکم دیتے ہیں کہ قعقاع ان کے ایلچی کی حیثیت سے صلح و آشتی برقرار کرنے کے لئے طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے پاس جائے ۔قعقاع کی سر گرمیوں اور حسن نیت کی وجہ سے اختلاف وتفرقہ ختم ہونے والا تھا لیکن سبائی اس صلح و آشتی کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیتے ہیں اور طرفین کی بے خبری میں رات کی تاریکی میں دونوں فوجوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں ۔

قعقاع امام کے ہمراہ جنگ میں شرکت کرتے ہوئے خود کو عائشہ کے اونٹ کے نزدیک پہنچا تا ہے اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ اونٹ کا کام تمام کردو او ر جنگ کے خاتمہ پر جمل کے خیر خواہوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : ''تم امان میں ہو''

ام المومنین عائشہ رو نما ہوئے ان حالات پر پشیمان ہوتی ہیں ،امام بھی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں تمناکرتے ہیں کہ کاش اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر چکے ہوتے!

امام قعقاع کو حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کی بے احترامی کرنے والے دو افراد کو سو سوکوڑے مارے ۔

آخر میں سیف نے ایک ایسی روایت بھی نقل کی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ قعقاع نے صفین کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے ۔

آخر کار معاویہ '' عام الجماعة'' کے بعد حضرت علی ـکے حامیوں اور طرفداروں کو جلاوطن کرتا ہے ۔اور قعقاع کو بھی اسی الزام میں فلسطین کے ایلیا نام کے علاقہ میں جلا وطن کرتا ہے اور ان کی جگہ پر اپنے حامیوں اور رشتہ دارون کو کوفہ میں آباد کرتا ہے ،سیف نے ان جلاوطن ہونے والوں کے نام بھی رکھے اور انھیں ''منتقل ہونے والے '' کہا ہے ۔

____________________

الف )۔تاریخ طبری طبع یورپ ٢١٦١

۲۶۷

احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

لم نجد لهم ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے ان راویوں کے نام ، سیف کی روایت کے علاوہ روایتوں کی کسی بھی کتاب میں نہیں پائے۔

(مولف)

ہم نے گزشتہ فصلو ں میں قعقاع کے بارے میں سیف کی روایات پر بحث و تحقیق کی ۔ اب ہم اس فصل میں پہلے ان راویوں کے بارے میں بحث کریں گے جن سے سیف نے روایات نقل کی ہیں اور اس کے بعد ان کتابوں کا جائزہ لیں گے جن میں سیف سے رواتیں نقل کی گئی ہیں ۔

١۔وہ راوی جن سے سیف نے رواتیں نقل کی ہیں

قعقاع بن عمر تمیمی کا افسانہ سیف کی ٦٨روایات میں ذکر ہوا ہے ۔امام المورخین طبری نے ان میں سے اکثر کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔جب ہم ان روایات کی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے :

(١) اس کی ٣٨روایات میں محمد کانام راوی کی حیثیت سے ذکر ہواہے ۔سیف اس محمد کو ابن عبد اللہ بن سوادبن نویرہ بتاتاہے اور اختصار کے طور پر اسے محمد نویرہ یا محمد بن عبداللہ اور اکثر صرف محمد کے نام سے ذکر کرتا ہے ۔

(٢) اس کا ایک راوی مہلب بن عتبہ اسدی ہے جس سے اس نے اپنی پندرہ روایات نقل کی ہیں طبری اسے اختصار کے طور پر مہلب ذکر کرتا ہے ۔

(٣) یزید بن اسید غسانی ،اس کا ایک اور راوی ہے ۔اس کا نام اس نے اپنی دس روایات کی سند میں ذکر کیا ہے اور اس کی کنیت ابو عثمان بیان کی ہے ۔

۲۶۸

(٤) سیف کی آٹھ احادیث کا راوی زیاد بن سرجس احمری ہے ۔سیف اختصار کے طور پر اسے زیاد یا زیاد بن سرجس کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(٥) الغصن بن قاسم کنانی ۔

(٦) عبداللہ بن سعید بن ثابت جذع ،اختصار کے طور پر سیف اسے عبداللہ بن سعید یا عبداللہ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔

(٧) ظفر بن دہی ،یہ سیف کے ان اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہے جنھیں اس نے خود جعل کیا ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ۔

(٨) قعقاع بن عمروتمیمی ،ظفر کے مانند یہ بھی اس کا ایک جعلی صحابی ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ،

(٩) صعب بن عطیہ بن بلال یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،جب کہ باپ بیٹے دونوں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں اور ایک ہی انداز کی روایت کرتے ہیں ۔

(١٠) نضر بن سری الضبی ،بعض اوقات اس کا نام سیف کی احادیث میں اختصار کے طور پر نضر ذکر ہواہے ۔

(١١) ابن رفیل ،اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،رفیل کے باپ کو سیف بن عمر ،رفیل بن میسور کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(١٢) عبدالرحمن بن سیاہ احمر ی ،سیف اس کانام لقب کے بغیر ذکرکرتاہے۔

(١٣) مستنیر بن یزید ،اس نام سے سیف کامقصود مستنیر بن یزید نخعی ہے ۔

(١٤) قیس ،سیف اسے مستنیرکابھائی بتاتاہے ۔

(١٥) سہل ،سیف نے اسے سہل بن یوسف سلمی خیال کیاہے ۔

(١٦) بطان بشر

(١٧) ابن ابو مکنف

(١٨) طلحہ بن عبد الرحمان ،اس کی کنیت ابوسفیان بتائی ہے ۔

(١٩) حمید بن ابی شجار

(٢٠) المقطع بن ھیثم بکائی

۲۶۹

(٢١) عبد اللہ بن محفز بن ثعلبہ ،وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،باپ بیٹے دونوں سیف کی صرف ایک حدیث کے راوی ہیں ۔

(٢٢) حنظلة بن زیاد بن حنظلۂ تمیمی.

(٢٣) عروة بن ولید

(٢٤) ابو معبد عبسی

(٢٥) جریر بن اشرس

(٢٦) صعصعةالمزنی

(٢٧) مخلد بن کثیر

(٢٨) عصمة الوامکی

(٢٩) عمرو بن ریان

٢۔وہ علما ء جنھوں نے سیف سے روایتیں نقل کی ہے

١۔تمام وہ افسانے جنھیں اب تک ہم نے قعقاع کے بارے میں ذکر کیا ،انہیں پہلی بار سیف بن عمر تمیمی( وفات تقریباً ١٧٠ ھ )نے ''فتوح''اور ''جمل''نامی اپنی دوکتابوں میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

مندرجہ ذیل علماء نے ان کتابوں سے قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے:

٢۔طبری (وفات ٣١٠ھ)نے اپنی کتاب ''تاریخ کبیر''میں ۔

٣۔الرّازی(وفات ٣٧٧ھ )نے کتاب ''جرح و تعدیل''میں ۔

٤۔ابن السکن(وفات ٣٥٣ھ ) نے کتاب ''حروف الصحابہ''میں ۔

٥۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ ھ) نے کتاب ''تاریخ مدینہ و دمشق''میں ۔

ان سے بھی درج ذیل مؤلفین نے اپنی ادبی کتابوں میں سیف کے مطالب کو نقل کیاہے :

٦۔الاصبھانی (وفات ٣٥٦ھ ) نے کتاب ''اغانی''میں ،طبری سے نقل کیا ہے۔

۲۷۰

٧۔ابن بدرون(وفات ٥٦٠ ھ) نے ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٨۔ابن عبد البر(وفات ٤٦٣ھ ) نے کتاب ''الاستیعاب'' میں ، سیف کے مطالب کو رازی سے نقل کیا ہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب''اسد الغابہ ''میں ،سیف کے مطالب کو ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے۔

١٠۔ذہبی (وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب ''التجرید''میں ابن اثیر سے نقل کیاہے۔

١١۔ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب ''الاصابہ '' میں ان مطالب کو خود سیف بن عمر، طبری ، رازی ، ابن سکن اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔

سیف کے افسانے تاریخ کی مندرجہ ذیل عمومی کتابوں میں بھی نقل ہوئے ہیں :

١٢۔ابن اثیر(وفات ٦٣٠ھ) نے کتاب ''تاریخ کامل '' میں طبری سے نقل کیا ہے۔

١٣۔ابن کثیر (وفات ٧٧٠ھ ) نے کتاب ''تاریخ البدایہ''میں طبری سے نقل کیاہے۔

جغرافیہ کی کتابوں میں بھی سیف کے افسانے درج کئے گئے ہیں :

١٥۔الحموی(وفات ٦٢٦ ھ) نے کتاب ''معجم البلدان''میں براہ راست سیف بن عمر سے نقل کیاہے۔

١٦۔عبد المؤمن (وفات ٧٣٠ھ) نے کتاب ''مراصدا لاطلاع'' میں حموی سے نقل کیا ہے ۔

١٧۔الحمیری(وفات ٩٠٠ھ ) نے کتاب ''روض المعطار'' میں براہ راست سیف سے نقل کیا ہے۔

قعقاع کے افسانوں کا ان کتابوں میں اشاعت پانا اس امر کاسبب بنا کہ قعقاع کا نام شیعوں کی رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوجائے ،جیسے:

۲۷۱

١٨۔شیخ طوسی (وفات ٤٦٠ھ) نے کتاب ''رجال''میں ۔

١٩۔قہپائی (سال تألیف ١٠١٦ھ) نے کتاب ''مجمع الرجال'' میں شیخ کتاب ''رجا ل '' سے نقل کیا ہے۔

٢٠۔اردبیلی(وفات ١١٠١ھ) نے کتاب ''جامع الروات'' میں شیخ کی کتاب رجال سے نقل کیا ہے۔

٢١۔مامقانی ( وفات ١٣٥٠ھ ) نے کتاب ''تنقیح المقال'' میں شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

٢٢۔شوشتری، معاصر نے مامقانی کی کتاب ''تنقیح المقال ''اور شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

قعقاع کے بارے میں

سیف کی سڑسٹھ٦٧ روایتوں کا خلاصہ

قعقاع کی خبر اور اس کے حیرت انگیز افسانوی شجاعتیں اور کارنامے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ تاریخ اسلام کے دیگر معتبر مصادر و منابع میں وسیع پیمانے پر، شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سبوں نے سیف بن عمر تمیمی سے روایت نقل کی ہے۔ کیونکہ سیف مدعی ہے اور وہی روایت کرتا ہے کہ بے مثال اور نا قابل شکست تمیمی پہلوان، قعقاع بن عمرو تمیمی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی رہ چکا ہے اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایتیں نقل کی ہیں ، سقیفہ بنی ساعدہ کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں خبر بھی دی ہے، ارتداد اور فتوحات اسلامی کی اکتس جنگوں میں شرکت کی ہے۔ ان جنگوں میں سات لاکھ سے زائد انسان قتل عام ہوئے ہیں ان کے سرتن سے جدا کئے گئے ہیں یا جل کر راکھ ہوئے ہیں ۔ قعقاع بن عمر و تمیمی ان جنگوں کا بے مثال پہلوان اور مرکزی کردار و شیر مرد تھا، اس نے١ ٣ رزم نامے لکھے ہیں ۔

سیف نے ان تمام مطالب کو٦٧،احادیث میں بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر حدیث کو چند راویوں سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے چالیس راوی صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ایسی جنگوں کا نام لیا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسی جگہوں کا نام لیاہے جو بالکل وجود نہیں رکھتی تھیں اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسی جنگوں اور جگہوں کا نام لے کر ان کا تعارف کرایاہے۔

سیف منفرد شخص ہے جو تاریخ اسلا م کے چھبیس سال تک کے ایسے واقعات و حالات کی تشریح کرتا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئے ہیں اور دیگر کسی بھی خبر بیان کرنے والے نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ، بلکہ سیف نے تن تنہا ان افسانوں کی ایجاد کرکے اپنے تصور میں تخلیق اور کتابوں میں ثبت کیا ہے۔

۲۷۲

تحقیق کے منابع

ہم نے سیف کی احادیث کے راویوں کی تلاش کے سلسلے میں ان مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا جن میں تاریخ و حدیث کے تمام رایوں کے حالات درج ہیں ، مثال کے طور پر:

٭ '' علل و معرفة الرجال '' تالیف احمد بن حنبل ( وفات ٢٤١ھ)

٭ ''تاریخ بخاری '' تالیف بخاری ( وفات ٣٥٦ھ)

٭ '' جرح و تعدیل'' تالیف رازی(وفات٣٢٧)

٭ '' میزان الاعتدال '' ،والعبر''اور '' تذکرة الحفاظ''تألیف ذہبی (وفات ٧٤٨ھ

٭ ''لسان المیزان ''''تہذیب التہذیب'' ''تقریب التہیب'' اور ''تبصیرالمنتبہ'' تالیف ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ)

٭ '' خلاصة التہذیب '' تالیف صفی الدین ،کتاب کی تالیف کی تاریخ ٩٢٣ھ ہے۔

اس کے علاوہ طبقات کی کتابوں میں ،مثال کے طور پر :

٭ طبقات ابن سعد (وفات ٢٣٠ ھ )

٭ طبقات حنیفة بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)

اسی طرح کتب انساب میں ،جیسے :

٭ ''جمہرة انساب العرب '' تالیف ابن حزم (وفات ٤٥٤ھ)

٭ ''انساب ''سمعانی (وفات ٥٦٢ھ)

٭ ''اللباب '' ابن اثیر (وفات ٦٣٠)

۲۷۳

تحقیق کانتیجہ

ہم نے مذکورہ تمام کتابوں میں انتہائی تلاش و جستجو کی ،صرف انہی کتابوں پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے موضوع سے مربوط مزید دسیوں منابع و مصادر کا بھی مطالعہ کیا ،حدیث کی کتابیں جیسے مسند احمد کا مکمل دورہ اور صحاح ستہ کی تمام جلدیں ،ادبی کتابیں جیسے : ''عقد الفرید'' تالیف عبدالبر (وفات ٣٢٨ھ ) اور ''اغانی'' تالیف اصفہانی (وفات ٣٥٦ھ) اور ان کے علاوہ بھی دسیوں کتابوں کی ورق گردانی کی تاکہ سیف ابن عمر کے ان راویوں میں سے کسی ایک کا پتا چل جائے ،جن سے اس نے سیکڑوں احادیث روایت کی ہیں ،لیکن ان راویوں کے ناموں کا ہمیں سیف کے علاوہ کہیں نشان نہ ملا!اس بنا ء ہم ان تمام راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔انشاء اللہ جہاں ہم سیف کے جعلی راویوں کے بارے میں بحث کریں گے وہاں سیف کی زبانی ان کی زندگی کے حالات کی بھی تشریح کریں گے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے قعقاع کی روایات میں چند منفرد نام بھی راویوں کے طور پر ذکر کئے ہیں ،جیسے :

'' خالد کو تین روایات میں ،عبادہ کو دو روایات میں اور عطیہ و مغیرہ اور دیگر چند مجہول القاب و نام ،جن کی شناسائی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن ہے کہ سیف کے درج ذیل عنوان کے راویوں کی پہچان کی جا سکے :

''بنی کنانہ کا ایک مرد '' ،''بنی ضبہ کا ایک مرد ''،'' طی سے ایک مرد '' بنی ضبہ کا ایک بوڑھا '' ''اس سے جس نے خود بکر بن وائل سے سنا ہے '' ،ان سے جنھوں نے اپنے رشتہ داروں سے سنا ہے ''، ابن محراق نے اپنے باپ سے '' اور'' ان جیسے دیگر مجہول راوی جن سے سیف نے روایت کی ہے ؟!

تقریبا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سیف ابن عمرتمیمی نے ایسے راویوں کا ذکر کرتے وقت سنجیدگی کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے ۔

مذکورہ حالات کے پیش نظر قارئین کرام کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب سیف کی احادیث کے راویوں کی یہ حالت ہوتوخود سیف کی احادیث اور اس کی باتوں پر کس حد تک اعتبار اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟!

۲۷۴

چوتھا حصہ :

٢۔عاصم بن عمر و تمیمی

٭ عراق کی جنگ میں ۔

٭ ''دومة الجندل'' کی جنگ میں ۔

٭ مثنی کی جنگ میں ۔

٭ قادسیہ کی جنگ میں ۔

٭ جراثیم کے دن ۔

٭ سرزمین ایران میں ۔

٭ عاصم کے فرزند اور خاندان ۔

٭ عاصم کے بارے میں سیف کی احادیث کے راوی

۲۷۵

عاصم ،عراق کی جنگ میں

مصدر الجمیع فی ماذکروا هواحادیث سیف

جو کچھ علماء نے عاصم کے بارے میں لکھا ہے وہ سب سیف سے منقول ہے

( مولف )

عاصم کون ہے ؟

سیف بن عمر نے عاصم کو اپنے خیال میں قعقاع کا بھائی اور عمرو تمیمی کا بیٹا جعل کیا ہے اور اس کے لئے عمر و نامی ایک بیٹا بھی خلق کیا ہے کہ انشاء اللہ ہم باپ کے بعد اس کے اس بیٹے کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے ۔

عاصم بن عمر و سیف کے افسانوی سورمائوں کی دوسری شخصیت ہے کہ شجاعت ،دلاوری ،فہم و فراست ،سخن وری اور شعر و ادب وغیرہ کے لحاظ سے بھی سیف کے افسانوں میں اپنے بھائی قعقاع کے بعد دوسرے نمبر کا پہلوان ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں عاصم بن عمرو کی یوں تعریف کی ہے :

''عاصم ،خاندان بنی تمیم کا ایک دلاور اور اس خاندان کے نامور شاعروں میں سے ہے ''

ابن عساکر بھی اپنی عظیم تاریخ میں عاصم کی یوں تعریف کرتا ہے :

'' عاصم قبیلہ بنی تمیم کا ایک پہلوان اور اس خاندان کا ایک مشہور شاعر ہے ۔''

'' استیعاب'' اور تجرید '' جیسی کتابوں میں بھی اس کی تعریف کی گئی ہے ۔تاریخ طبری میں بھی اس کے بارے میں مفصل مطالب درج ہیں اور دوسروں نے بھی تاریخ طبری سے اقتباس کر کے عاصم بن عمرو کے بارے میں مطالب بیان کئے ہیں ۔طبری ہو یا دیگر مورخین ،عاصم سے مربوط تمام روایتوں کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی کی جعل احادیث اور روایتیں ہیں ''

چونکہ طبری نے عاصم بن عمرو کے بارے میں روایات کو ١٢ھ سے ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ کی کتاب میں مفصل اور واضح طور پر درج کیاہے،اس لئے ہم بھی عاصم کے بارے میں اسی کی تالیف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے بعد تحقیق کرکے حقائق کے پانے کے لئے ١٢ ھ سے ٢٩ھ تک کے حوادث سے مربوط دوسروں کے بیانات کا طبری سے موازنہ کرکے تحقیق کریں گے۔

۲۷۶

عاصم ،خالد کے ساتھ عراق میں

جریر طبری نے ١٢ھ کے تاریخی حوادث وواقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

چونکہ خالد بن ولید یمامہ(۱) کے مرتدوں سے بر سر پیکار تھا،اس لئے عاصم

بن عمرو کو ہراولی دستہ کے طور پر عراق روانہ کیا۔

____________________

١لف۔ یمامہ ،شہر نجد سے بحرین تک ١٠ دن کا فاصلہ ہے۔معجم البلدان۔

۲۷۷

عاصم نے خالد کی قیادت میں ایک سپاہ کے ہمراہ المذار کی جنگ میں شرکت کی اور انوش جان نامی ایرانی سپہ سالار کے تحت المذار میں جمع ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوا۔المقر اور دہانہ فرات باذقلی کی جنگ اور فتح حیرہ کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے طبری لکھتاہے:

خالد ،حیرہ کی طرف روانہ ہوا۔اپنے افراد اور اپناسازو سامان کشتی میں سوار کیا۔حیرہ کے سرحد بان نے اسلامی سپاہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اپنے بیٹے کو بند باندھنے کا حکم دیا تاکہ خالد کی کشتیاں کیچڑ میں دھنس جائیں ، خالد،سرحد بان کے بیٹے کی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور ان میں سے ایک گروہ کو مقر کے مقام پر قتل کیا ،سرحد بان کے بیٹے کو بھی فرات باذقلی کے مقام پر قتل کیا،سرحد بان کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا سرحد بان بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔خالد اپنی فوج کے ہمراہ حیرہ میں داخل ہوا اور اس کے محلوں اور خزانوں پر قبضہ جمالیا۔

خالد نے جب حیرہ کو فتح کیا تو عاصم بن عمرو کو کربلا کی فوجی چھاونی اور اس کے جنگی سازو سامان کی کمانڈ پر منصوب کیا۔

یہ ان مطالب کا ایک خلاصہ تھا جنھیں عاصم اور اس کی جنگوں کے بارے میں طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے.

حموی نے سیف کی روایتوں کے پیش نظر ان کی تشریح کی ہے اور مقر کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے:

مقر ، حیرہ کی سرزمینوں میں سے فرات باذقلی کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔ اس جگہ پر خلافت ابوبکرکے زمانے میں مسلمانوں نے خالد بن ولید کی قیادت میں ایرانیوں سے جنگ کی ہے اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

''سرزمین مقر میں ہم نے آشکارا طور پر اس کے جاری پانی اور وہاں کے باشندوں پر تسلط جمایا اور وہاں پر ان کو (اپنے دشمنوں کو) موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس کے بعد فرات کے دہانہ کی طرف حملہ کیا ، جہاں پر انہوں نے پناہ لی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہم ان ایرانی سواروں سے نبرد آزما ہوئے جو میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہتے تھے۔''

۲۷۸

حیرہ کی تشریح میں یوں کہتا ہے:

حیرہ نجف سے تین میل کی دوری پر ایک شہر ہے...

یہاں تک کہ کہتا ہے:

شہر حیرہ کو حیرة الروحاء کہتے ہیں ، عاصم بن عمرو نے اس جگہ کے بارے میں یوں کہاہے:

''ہم نے پیدل اور سوار فوجوں سے صبح سویر ے حیرۂ روحاپر حملہ کیا اور اس کے اطراف میں موجود سفید محلوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا''۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

یہ وہ مطلب ہیں جو سیف نے کہے ہیں .لیکن ہم نے سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جس نے مقر اور فرات باذقلی کے بارے میں کچھ لکھا ہو! لیکن ، حیرہ کے سرحد بان کے بارے میں جیسا کہ قعقاع ابن عمر و تمیمی کی داستان میں بلاذری سے نقل کرکے بیان کیا گیا ہے: ''ابوبکرکی خلافت کے زمانے میں مثنی نے المذار کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دی اور عمربن خطاب کی خلافت کے زمانے میں عتبہ بن غزوان فتح حیرہ کے لئے مأمور ہوا اور المذار کا سرحدبان اس کے مقابلہ کے لئے آیا اور ان دونوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ ایرانیوں نے شکست کھائی اور وہ سب کے سب پانی میں ڈوب گئے ۔ سرحد بان کا سر بھی تن سے جدا کیا گیا''۔

سند کی پڑتال:

سیف کی حدیث کی سند میں مھلب اسدی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری اور زیاد بن سرجس احمری کا نام راویوں کے طور پر آیا ہے اور اس سے پہلے قعقاع کے افسانے کی تحقیق کے دوران معلوم ہوچکا کہ یہ سب جعلی اور سیف کے خیالی راوی ہیں ۔

ان کے علاوہ ابوعثمان کا نام بھی راوی کے طور پر لیا گیا ہے کہ سیف کی احادیث میں یہ نام دو افراد سے مربوط ہے۔ ان میں ایک یزید بن اسید ہے۔ یہاں پر معلوم نہیں کہ سیف کا مقصود ان دو میں سے کون ہے؟

۲۷۹

پڑتال کا نتیجہ:

المذار کے بارے میں سیف کی روایت دوسروں کی روایت سے ہماہنگ نہیں ہے۔ المقر اور فرات باذقلی کی جنگوں کا بیان کرنے والا سیف تنہا شخص ہے کیونکہ دوسروں نے ان دوجگہوں کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے چہ جائیکہ سیف کے بقول وہاں پر واقع ہوئے حوادث اور واقعات کے ذکر کی بات !!

طبری نے ان اماکن کے بارے میں سیف کی احادیث کواپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم کی رجز خوانی اور رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے ۔

حموی نے مقامات اور جگہوں کے نام کو افسانہ ساز سیف کی روایتوں سے نقل کیا ہے اوراس کے افسانوی سورمائوں کے اشعارورزم ناموں سے بھی استناد کیا ہے،پھر مقر کی بھی اسی طریقے سے تعریف کی ہے ۔اس سلسلے میں عاصم بن عمرو کے اشعار میں '' حیرة الروحاء ''کا اشارہ کرتے ہوئے حیرہ کاذکرکرتا ہے ،جب کہ ہماری نظرمیں ضرورت شعری کا تقاضا یہ تھاکہ سیف لفظ ''روحاء '' کو لفظ ''حیرہ''کے بعد لائے نہ کہ ']روحاء ''کو ''حیرہ''کے لئے اسم اضافہ کے طور پر لائے جیسا کہ حموی نے خیال کیا ہے َ

سیف کی روایات کا نتیجہ :

١۔ ''مقر'' نام کی ایک جگہ کا نام جعل کرکے اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٢۔ایرانیوں کے انوش جان نامی ایک سپہ سالار کی تخلیق ۔

٣۔فرضی اور خیالی جنگی ایام کی تخلیق جو تاریخ میں ثبت ہوئے ہیں ۔

٤۔ان اشعار کی تخلیق جو عربی ادبیات کی زینت بنے ہیں

٥۔عراق میں خالد کی خیالی فتوحات میں ایک اور فتح کا اضافہ کرنا۔

٦۔ اور آخر میں سیف کے خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کے افتخارات کے طور پر اس کی شجاعتوں ،اشعار اور کربلا کی فوجی چھاونی اور اسلحوں پر اس کی کمانڈ کا ذکر کرنا۔ ١

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

كے لحاظ سے ہر طرح كے سازو سامان سے ليس تھا وہ حضرت موسى كے خلاف ہر طرف سے حركت ميں آگيا تھا اس كے نتيجے ميں تمام لوگوں كا ايك ہى نعرہ تھا اور وہ يہ كہ اے موسى تم تو ايك زبردست جادو گر ہو ، كيونكہ موسى كى بات كو رد كرنے كا ان كے پاس اس سے بہتر كوئي جواب نہ تھا جس كے ذريعے لوگوں كے دلوں ميں وہ گھربنانا چاہتے تھے _

ليكن چونكہ خدا كسى قوم پر اس وقت تك اپنا آخرى عذاب نازل نہيں كرتا جب تك كہ اس پر خوب اچھى طرح سے اتمام حجت نہ كرلے اس لئے بعد والى آيت ميں فرمايا گيا ہے كہ ہم نے پہلے طرح طرح كى بلائيں ان پر نازل كيں كہ شايد ان كو ہوش آجائے _(۱)

''پہلے ہم نے ان پر طوفان بھيجا''

اس كے بعد قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:

''اس كے بعد ہم نے ان كى زراعتوں اور درختوں پر ٹڈيوں كو مسلط كرديا_''

روايات ميں وارد ہوا ہے كہ كہ اللہ نے ان پر ٹڈياں اس كثرت سے بھيجيں كہ انھوں نے درختوں كے شاخ و برگ كا بالكل صفايا كرديا، حتى كہ ان كے بدنوں تك كو وہ اتنا آزار پہنچاتى تھيں كہ وہ تكليف سے چيختے چلاتے تھے_

جب بھى ان پر بلا نازل ہوتى تھى تو وہ حضرت موسى عليہ السلام سے فرياد كرتے تھے كہ وہ خدا سے كہہ كر اس بلا كو ہٹواديں طوفان اور ٹڈيوں كے موقع پر بھى انھوں نے جناب موسى عليہ السلام سے يہى خواہش كى ، جس كو موسى عليہ السلام نے قبول كرليا اور يہ دونوں بلائيں برطرف ہوگئيں ، ليكن اس كے بعد پھر وہ اپنى ضد پر اتر آئے جس كے نتيجے ميں تيسرى بلا ''قمّل '' كى ان پر نازل ہوئي_

''قمّل'' سے كيا مراد ہے؟ اس بارے ميں مفسرين كے درميان گفتگو ہوئي ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ

____________________

(۱) سورہ اعراف كى ايت ۱۳۳ ميں ان بلاو ں كا نام ليا گيا ہے

۳۴۱

ايك قسم كى نباتى آفت تھى جو زراعت كو كھاجاتى تھي_

جب يہ آفت بھى ختم ہوئي اور وہ پھر بھى ايمان نہ لائے،تو اللہ نے مينڈك كى نسل كو اس قدر فروغ ديا كہ مينڈك ايك نئي بلا كى صورت ميں ان كى زندگى ميں اخل ہوگئے_

جدھر ديكھتے تھے ہر طرف چھوٹے بڑے مينڈك نظر آتے تھے يہاں تك كہ گھروں كے اندر، كمروں ميں ، بچھونوں ميں ، دسترخوان پر كھانے كے برتنوں ميں مينڈك ہى مينڈك تھے، جس كى وجہ سے ان كى زندگى حرام ہوگئي تھي، ليكن پھر بھى انھوں نے حق كے سامنے اپنا سرنہ جھكايا اور ايمان نہ لائے_

اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط كيا_

بعض مفسرين نے كہا كہ خون سے مراد ''مرض نكسير'' ہے جو ايك وبا كى صورت ميں ان ميں پھيل گيا، ليكن بہت سے مفسرين نے لكھا ہے كہ دريائے نيل لہو رنگ ہوگيا اتنا كہ اس كا پانى مصرف كے لائق نہ رہا_

آخر ميں قرآن فرماتا ہے: '' ان معجزوں اور كھلى نشانيوں كو جو موسى كى حقانيت پر دلالت كرتى تھيں ،ہم نے ان كو دكھلايا ليكن انھوں نے ان كے مقابلہ ميں تكبر سے كام ليا اور حق كو قبول كرنے سے انكار كرديا اور وہ ايك مجرم او رگناہگار قوم تھے_''(۱)

بعض روايات ميں ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بلا ايك ايك سال كے لئے آتى تھى يعنى ايك سال طوفان و سيلاب، دوسرے سال ٹڈيوں كے دَل، تيسرے سال نباتاتى آفت، اسى طرح آخر تك، ليكن ديگر روايات ميں ہے كہ ايك آفت سے دوسرى آفت تك ايك مہينہ سے زيادہ فاصلہ نہ تھا، بہر كيف اس ميں شك نہيں كہ ان آفتوں كے درميان فاصلہ موجود تھا( جيسا كہ قرآن نے لفظ ''مفصلات'' سے تعبير كيا ہے)تاكہ ان كو تفكر كے لئے كافى موقع مل جائے_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ يہ بلائيں صرف فرعون اور فرعون والوں كے دامن گير ہوتى تھيں ، بني

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت ۱۳۳

۳۴۲

اسرائيل اس سے محفوظ تھے، بے شك يہ اعجاز ہى تھا ،ليكن اگر نكتہ ذيل پر نظر كى جائے تو ان ميں سے بعض كى علمى توجيہہ بھى كى جاسكتى ہے_

ہميں معلوم ہے كہ مصر جيسى سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دريائے نيل كے كناروں پر آباد تھى اس كے بہترين حصے وہ تھے جو درياسے قريب تھے وہاں پانى بھى فراوان تھا اور زراعت بھى خوب ہوتى تھى ،تجارتى كشتياں وغيرہ بھى دستياب تھيں ، يہ خطے فرعون والوں اور قبطيوں كے قبضے ميں تھے جہاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا ركھے تھے اس كے بر خلاف اسرائيلوں كو دور دراز كے خشك اور كم آب علاقے دئے گئے تھے جہاں وہ زندگى كے يہ سخت دن گذارتے تھے كيونكہ ان كى حيثيت غلاموں جيسى تھي_

بنا بر اين يہ ايك طبيعى امر ہے كہ جب سيلاب اور طوفان آيا تو اس كے نتيجے ميں وہ آبادياں زيادہ متاثر ہوئيں جو دريائے نيل كے دونوں كناروں پر آباد تھيں ، اسى طرح مينڈھك بھى پانى سے پيدا ہوتے ہيں جو قبطيوں كے گھروں كے آس پاس بڑى مقدار ميں موجود تھے، يہى حال خون كا ہے كيونكہ رود نيل كا پانى خون ہو گيا تھا، ٹڈياں اور زرعى آفتيں بھى باغات، كھيتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ كرتى ہيں ، لہذا ان عذابوں سے زيادہ تر نقصان قبطيوں ہى كا ہوتا تھا_

جو كچھ قرآن ميں ذكر ہوا ہے اس كا ذكر موجودہ توريت ميں بھى ملتا ہے، ليكن كسى حد تك فرق كے ساتھ_(۱)

بار بار كى عہد شكنياں

قرآن ميں فرعونيوں كے اس رد عمل كا ذكر كيا گيا ہے جو انہوں نے پروردگار عالم كى عبرت انگيزاور بيدار كنندہ بلائوں كے نزول كے بعد ظاہر كيا،ان تما م قرآنى گفتگو سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ جس وقت وہ بلا كے چنگل ميں گرفتار ہو جاتے تھے،جيسا كہ عام طور سے تباہ كاروں كا دستور ہے،وقتى طور پر خواب غفلت

____________________

(۱)ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا دہم توريت

۳۴۳

سے بيدار ہوجاتے تھے اور فرياد وزارى كرنے لگتے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام سے درخواست كرتے تھے كہ خدا سے ان كى نجات كے لئے دعا كريں _ چونكہ حضرت موسى عليہ السلام ان كے لئے دعا كرتے تھے اور وہ بلا ان كے سروں سے ٹل جاتى تھي،مگر ان كى حالت يہ تھى كہ جونہى وہ بلا سر سے ٹلتى تھى تو وہ تمام چيزوں كو بھول جاتے تھے اور وہ اپنى پہلى نا فرمانى اور سركشى كى حالت پر پلٹ جاتے تھے_

جس وقت ان پر بلا مسلط ہوتى تھى تو كہتے تھے:'' اے موسى ہمارے لئے اپنے خدا سے دعا كرو كہ جو عہد اس نے تم سے كيا ہے اسے پورا كرے اور تمہارى دعا ہمارے حق ميں قبول كرے،اگر تم يہ بلا ہم سے دور كردو تو ہم يہ وعدہ كرتے ہيں كہ ہم خود بھى تم پر ضرور ايمان لائيں گے اور بنى اسرائيل كو بھى يقينا تمہارے ہمرا ہ روانہ كرديں گے''_(۱)

اس كے بعد ان كى پيمان شكنى كا ذكر كيا گيا ہے،ارشاد ہوتا ہے:''جس وقت ہم ان پر سے بلائوں كو تعين شدہ مدت كے بعد ہٹا ديتے تھے تو وہ اپنا وعدہ توڑ ڈالتے تھے''_(۲)

نہ خود ہى ايمان لاتے تھے اور نہ ہى بنى اسرائيل كو اسيرى سے آزاد كرتے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام ان كايك مدت معين كرتے تھے كہ فلا ں وقت يہ بلا بر طرف ہوجائے گى تاكہ ان پر اچھى طرح كھل جائے كہ يہ بلا كوئي اتفاقى حادثہ نہ تھا بلكہ حضرت موسى عليہ السلام كى دعا كى وجہ سے تھا_

موسى عليہ السلام كے پاس سونے كے كنگن كيوں نہيں ؟

حضرت موسى عليہ السلام كى منطق ايك طرف ان كے مختلف معجزات دوسرى طرف مصر كے لوگوں پر نازل ہونيوالى بلائيں جو موسى عليہ السلا م كى دعا كى بركت سے ٹل جاتى تھيں تيسرى طرف،ان سب اسباب نے مجموعى طور پر اس ماحول پر گہرے اثرات ڈالے اور فرعون كے بارے ميں لوگوں كے افكار كو ڈانواں ڈول

____________________

()اعراف آيت ۱۳۴

(۲)سورہ اعراف ايت ۱۳۵

۳۴۴

كرديا اور انھيں پورے مذہبى اور معاشرتى نظام كے بارے ميں سوچنے پر مجبور كرديا_

اس موقع پر فرعون نے دھوكہ دھڑى كے ذريعہ موسى عليہ السلام كا اثر مصرى لوگوں كے ذہن سے ختم كرنے كى كوشش كى اور پست اقدار كا سہارا ليا جو اس ماحول پر حكم فرماتھا، انھيں اقدار كے ذريعہ اپنا اور موسى عليہ السلام كا موازنہ شروع كرديا تا كہ اس طرح لوگوں پر اپنى برترى كو پايہ ثبوت تك پہنچائے، جيسا كہ قرآن پاك فرماتا ہے:

''اور فرعون نے اپنے لوگوں كو پكار كر كہا:اے ميرى قوم آيا مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر ميرى حكومت نہيں ہے اور كيا يہ عظيم دريا ميرے حكم سے نہيں بہہ رہے ہيں اور ميرے محلوں ،كھيتوں اور باغوں سے نہيں گررہے ہيں ؟كيا تم ديكھتے نہيں ہو؟''(۱)

ليكن موسى عليہ السلام كے پاس كيا ہے،كچھ بھى نہيں ، ايك لاٹھى اور ايك اونى لباس اور بس ،تو كيا اس كى شخصيت بڑى ہوگى يا ميري؟ آيا وہ سچ بات كہتا ہے يا ميں ؟اپنى آنكھيں كھولوں اور بات اچھى طرح سمجھنے كى كوشش كرو_ اس طرح فرعون نے مصنوعى اقدار كو لوگوں كے سامنے پيش كيا،بالكل ويسے ہى جيسے عصر جاہليت كے بت پرستوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے مقابلے ميں مال و مقام كو صحيح انسانى اقدار سمجھ ركھا تھا_

لفظ''نادى ''(پكار كر كہا )سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے اپنى مملكت كے مشاہير كى ايك عظيم محفل جمائي اور بلند آواز كے ساتھ ان سب كو مخاطب كرتے ہوئے يہ جملے ادا كيے،يا حكم ديا كہ اس كى اس آواز كو ايك سركارى حكم نامے كے ذريعے پورے ملك ميں بيان كيا جائے_

قرآن آگے چل كر فرماتا ہے كہ فرعون نے كہا:''ميں اس شخص سے برتر ہوں جو ايك پست خاندان اور طبقے سے تعلق ركھتا ہے_اور صاف طور پر بات بھى نہيں كرسكتا''_(۲)

اس طرح سے اس نے اپنے لئے دو بڑے اعزازات(حكومت مصر اور نيل كى مملكت)اور موسى

____________________

(۱)سورہ زخرف آيت ۵۱

(۲)سورہ زخرف آيت ۵۲

۳۴۵

عليہ السلام كے دوكمزور پہلو(فقر اور لكنت زبان) بيان كرديئے_

حالانكہ اس وقت حضرت موسى عليہ السلام كى زبان ميں لكنت نہ تھي_كيونكہ خدا نے ان كى دعا كو قبول فرماليا تھا اور زبان كى لكنت كو دور كرديا تھا كيونكہ موسى عليہ السلام نے مبعوث ہوتے ہى خداسے يہ دعا مانگى تھى كہ _''خدا وندا ميرى زبان كى گرہيں كھول دے''_(۱) اور يقينا ان كى دعا قبول ہوئي اور قرآن بھى اس بات پر گواہ ہے_ بے پناہ دولت،فاخرہ لباس اور چكاچوند كرتے محلات،مظلوم طبقے پر ظلم و ستم كے ذريعے حاصل ہوتے ہيں _ ان كا مالك نہ ہونا صرف عيب كى بات ہى نہيں بلكہ باعث صدافتخار شرافت اور عزت كا سبب بھى ہے_

''مھين''(پست)كى تعبير سے ممكن ہے اس دور كے اجتماعى طبقات كى طرف اشارہ ہو، كيونكہ اس دور ميں بڑے بڑے سرمايہ داروں كا معاشرہ كے بلند طبقوں ميں شمار ہوتا تھا او رمحنت كشوں اور كم آمدنى والے لوگوں كا پست طبقے ميں ،يا پھر ممكن ہے موسى عليہ السلام كى قوم كى طرف اشارہ ہو كيونكہ ان كا تعلق بنى اسرائيل سے تھا اور فرعون كى قبطى قوم اپنے آپ كو سردار اور آقا سمجھتى تھي_ پھر فرعون دو اور بہانوں كا سہارا ليتے ہوئے كہتا ہے:''اسے سونے كے كنگن كيوں نہيں ديئے اور اس كے لئے مددگار كيوں نہيں مقرر كئے تاكہ وہ اس كى تصديق كريں ؟'' اگر خدا نے اسے رسول بنايا ہے تو دوسرے رسول كى طرح طلائي كنگن كيوں نہيں دئے گئے اور اس كے لئے مدد گار كيوں نہيں مقرر كئے گئے_

كہتے ہيں كہ فرعونى قوم كا عقيدہ تھا كہ روساء اور سر براہوں كو ہميشہ طلائي كنگنوں اور سونے كے ہاروں سے مزين ہونا چاہيئےور چونكہ موسى عليہ السلام كے پاس اس قسم كے زيورات نہيں تھے بلكہ ان زيورات كے بجائے وہ چرواہوں والا موٹا سا اونى كرتا زيب تن كئے ہوئے تھے،لہذا ان لوگوں نے اس بات پر تعجب كا اظہار كيا اور يہى حال ان لوگوں كا ہوتا ہے جو انسانى شخصيت كے پركھنے كا معيار سونا،چاندى اور دوسرے زيورات كو سمجھتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۲۷

۳۴۶

جناب موسى اورہارون عليہما السلام كے اونى لباس

اس بارے ميں ايك نہايت عمدہ بيان آيا ہے ،امام على بن ابى طالب عليہما السلام فرماتے ہيں :موسى عليہ السلام اپنے بھائي(ہارون) كے ساتھ فرعون كے دربار ميں پہنچے دونوں كے بدن پراونى لباس اور ہاتھوں ميں عصا تھا اس حالت ميں انھوں نے شرط پيش كى كہ اگر فرمان الہى كے سامنے جھك جائے تو اس كى حكومت اور ملك باقى اور اقتدار قائم و برقرار رہے گا،ليكن فرعون نے حاضرين سے كہا:تمہيں ان كى باتوں پر تعجب نہيں ہوتا كہ ميرے ساتھ شرط لگا رہے ہيں كہ ميرے ملك كى بقا اور ميرى عزت كا دوام ان كى مرضى كے ساتھ وابستہ ہے جبكہ ان كا اپنا حال يہ ہے كہ فقر و تنگدستى ان كى حالت اور صورت سے ٹپك رہى ہے(اگر يہ سچ كہتے ہيں تو)خود انھيں طلائي كنگن كيوں نہيں ديئے گئے_

دوسرا بہانہ وہى مشہور بہانہ ہے جو بہت سى گمراہ اور سركش امتيں انبياء كرام عليہم السلام كے سامنے پيش كيا كرتى تھيں ،كبھى تو كہتى تھيں كہ''وہ انسان كيوں ہے اور فرشتہ كيوں نہيں ؟اور كبھى كہتى تھى كہ اگر وہ انسان ہے تو پھر كم از كم اس كے ہمراہ كوئي فرشتہ كيوں نہيں آيا؟''

حالانكہ انسانوں كى طرف بھيجے ہوئے رسولوں كوروح انسانى كا حامل ہونا چاہئے تا كہ وہ ان كى ضرورتوں ،مشكلوں اور مسائل كو محسوس كرسكيں اور انہيں ان كا جواب دے سكيں اور عملى لحاظ سے ان كے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پاسكيں _

چوتھا مرحلہ انقلاب كى تياري

حضرت موسى عليہ السلام ميدان مقابلہ ميں فرعون پر غالب آگئے اور سرخرو اور سرفراز ہوكر ميدان سے باہر آئے اگر چہ فرعون اور اس كے تمام دربارى ان پر ايمان نہ لائے ليكن اس كے چند اہم نتائج ضرور برآمد ہوئے،جن ميں سے ہر ايك اہم كاميابى شمار ہوتا ہے_

۱_بنى اسرائيل كا اپنے رہبر اور پيشوا پر عقيدہ مزيد پختہ ہوگيا اور انھيں مزيد تقويت مل گئي چنانچہ ايك

۳۴۷

دل اور ايك جان ہو كر ان كے گرد جمع ہوگئے كيونكہ انھوں نے سالہا سال كى بدبختى اور دربدر كى ٹھوكريں كھانے كے بعد اب اپنے اندر كسى آسمانى پيغمبر كو ديكھا تھا جو كہ ان كى ہدايت كابھى ضامن تھا اور ان كے انقلاب،آزادى اور كاميابى كا بھى رہبر تھا_

۲_موسى عليہ السلام نے مصريوں اور قبطيوں تك كے درميان ايك اہم مقام حاصل كرليا_ كچھ لوگ ان كى طرف مائل ہوگئے اور جو مائل نہيں ہوئے تھے وہ كم ازكم كم ان كى مخالفت سے ضرور گھبراتے تھے اور جناب موسى عليہ السلام كى صدائے دعوت تمام مصر ميں گونجنے لگي_

۳_سب سے بڑھ كر يہ كہ فرعون عوامى افكار اور اپنى جان كو لاحق خطرے سے بچائو كے لئے اپنے اندر ايسے شخص كے ساتھ مقابلے كى طاقت كھوچكا تھا جس كے ہاتھ ميں اس قسم كا عصا اور منہ ميں اس طرح كى گويا زبان تھي_

مجموعى طور پر يہ امور موسى عليہ السلام كے لئے اس حد تك زمين ہموار كرنے ميں معاون ثابت ہوئے كہ مصريوں كے اندر ان كے پائوں جم گئے اور انھوں نے كھل كر اپنا تبليغى فريضہ انجام ديا اور اتمام حجت كي_

قرآن ميں فرعونيوں كے خلاف بنى اسرائيل كے قيام اور انقلاب كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے_پہلى بات يہ ہے كہ خدا فرماتا ہے:''ہم نے موسى اور اس كے بھائي كى طرف وحى كى كہ سرزمين مصر ميں اپنى قوم كے لئے گھروں كا انتخاب كرو''_(۱)

''اور خصوصيت كے ساتھ ان گھروں كو ايك دوسرے كے قريب اور آمنے سامنے بنائو''_(۲)

پھر روحانى طور پر اپنى خود سازى اور اصلاح كرو''اور نماز قائم كرو_''اس طرح سے اپنے نفس كو پاك اور قوى كرو_(۳)

____________________

(۱)سورہ يونس آيت۸۷

(۲)سورہ يونس آيت۸۷

(۳)سورہ يونس آيت۸۷

۳۴۸

اور اس لئے كہ خوف اور وحشت كے آثار ان كے دل سے نكل جائيں اور وہ روحانى و انقلابى قوت پاليں ''مومنين كوبشارت دو''كاميابى اور خدا كے لطف و رحمت كى بشارت_(۱)

زير بحث آيات كے مجموعى مطالعے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس زمانے ميں بنى اسرائيل منتشر،شكست خوردہ،وابستہ،طفيلي،آلودہ اور خوف زدہ گروہ كى شكل ميں تھے،نہ ان كے پاس گھر تھے نہ كوئي مركز تھا،نہ ان كے پاس معنوى اصلاح كا كوئي پروگرام تھا اور نہ ہى ان ميں اس قدر شجاعت،عزم اور حوصلہ تھا جو شكست دينے والے انقلاب كے لئے ضرورى ہوتا ہے_لہذا حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي حضرت ہارون عليہ السلام كو حكم ملاكہ وہ بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے خصوصاً روحانى حوالے سے چند امور پر مشتمل پروگرام شروع كريں _

۱_مكان تعمير كريں اور اپنے مكانات فرعونيوں سے الگ بنائيں _ اس ميں متعدد فائدے تھے_

ايك يہ كہ سرزمين مصر ميں ان كے مكانات ہوں گے تو وہ اس كا دفاع زيادہ لگائو سے كريں گے_

دوسرا يہ كہ قبطيوں كے گھروں ميں طفيلى زندگى گزارنے كے بجائے وہ اپنى ايك مستقل زندگى شروع كرسكيں گے_

تيسرا يہ كہ انكے معاملات اور تدابير كے راز دشمنوں كے ہاتھ نہيں لگيں گے_

۲_اپنے گھر ايك دوسرے كے آمنے سامنے اور قريب قريب بنائيں ،بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے يہ ايك موثر كام تھا اس طرح سے وہ اجتماعى مسائل پر مل كر غور فكر كرسكتے تھے اور مذہبيمراسم كے حوالے سے جمع ہوكر اپنى آزادى كے لئے ضرورى پروگرام بنا سكتے تھے_

۳_عبادت كى طرف متوجہ ہوں ،خصوصاً نماز كى طرف كہ جو انسان كو بندوں كى بندگى سے جدا كرتى ہے اور اس كا تعلق تمام قدرتوں كے خالق سے قائم كرديتى ہے_ اس كے دل اور روح كو گناہ كى آلودگى سے

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۸۷

۳۴۹

پاك كرتى ہے اپنے آپ پر بھروسہ كرنے كا احساس زندہ كرتى ہے اورقدرت پروردگار كا سہارا لے كر انسانى جسم ميں ايك تازہ روح پھونك ديتى ہے_

۴_ايك رہبر كے طور پر حضرت موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى روحوں ميں موجود طويل غلامى اور ذلت كے دور كا خوف ووحشت نكال باہر پھينكيں اور حتمى فتح ونصرت،كاميابى اور پروردگار كے لطف وكرم كى بشارت دے كر مومنين كے ارادے كو مضبوط كريں اور ان ميں شہامت و شجاعت كى پرورش كريں _

اس روش كو كئي سال گزر گئے اور اس دوران ميں موسى عليہ السلام نے اپنے منطقى دلائل كے ساتھ ساتھ انھيں كئي معجزے بھى دكھائے _

ہم نے انھيں باہر نكال ديا

جب موسى عليہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت كرچكے اور مومنين ومنكرين كى صفيں ايك دوسرے سے جدا ہوگئيں تو موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كے كوچ كرنے كا حكم دے ديا گيا، چنانچہ قرآن نے اس كى اسطرح منظر كشى كى _

سب سے پہلے فرمايا گياہے:''ہم نے موسى پر وحى كى كہ راتوں رات ميرے بندوں كو(مصر سے باہر)نكال كرلے جائو،كيونكہ وہ تمہارا پيچھا كرنے والے ہيں ''_(۱)

موسى عليہ السلام نے اس حكم كى تعميل كى اور دشمن كى نگاہوں سے بچ كر بنى اسرائيل كو ايك جگہ اكٹھا كرنے كے بعد كوچ كا حكم ديا اور حكم خدا كے مطابق رات كو خصوصى طور پر منتخب كيا تاكہ يہ منصوبہ صحيح صورت ميں تكميل كو پہنچے_

ليكن ظاہر ہے كہ اتنى بڑى تعداد كى روانگى ايسى چيز نہيں تھى جو زيادہ دير تك چھپى رہ جاتي_ جاسوسوں

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۵۲

۳۵۰

نے جلد ہى اس كى رپورٹ فرعون كو دے دى اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے:'' فرعون نے اپنے كارندے مختلف شہروں ميں روانہ كرديئے تا كہ فوج جمع كريں ''_(۱)

البتہ اس زمانے كے حالات كے مطابق فرعون كا پيغام تمام شہروں ميں پہنچانے كے لئے كافى وقت كى ضرورت تھى ليكن نزديك كے شہروں ميں يہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئي اور پہلے سے تيار شدہ لشكر فوراً حركت ميں آگئے اور مقدمة الجيش اور حملہ آور لشكر كى تشكيل كى گئي اور دوسرے لشكر بھى آہستہ آہستہ ان سے آملتے رہے_

ساتھ ہى لوگوں كے حوصلے بلند ركھنے اور نفسياتى اثر قائم ركھنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ اس بات كا اعلان كرديا جائے كہ''وہ تو ايك چھوٹا سا گروہ ہے''_(۲) (تعداد كے لحاظ سے بھى كم اور طاقت كے لحاظ سے بھى كم)_

لہذا اس چھوٹے سے كمزور گروہ كے مقابلے ميں ہم كامياب ہوجائيں گے گھبرانے كى كوئي بات نہيں _كيونكہ طاقت اور قوت ہمارے پاس زيادہ ہے لہذا فتح بھى ہمارى ہى ہوگي_

فرعون نے يہ بھى كہا:'' آخر ہم كس حد تك برداشت كريں اور كب تك ان سركش غلاموں كے ساتھ نرمى كا برتائو كرتے رہيں ؟انھوں نے تو ہميں غصہ دلايا ہے''_(۳)

آخر كل مصر كے كھيتوں كى كون آبپاشى كرے گا؟ہمارے گھر كون بنائے گا؟اس وسيع و عريض مملكت كا كون لوگ بوجھ اٹھائيں گے؟اور ہمارى نوكرى كون كرے گا؟

اس كے علاوہ'' ہميں ان لوگوں كى سازشو ں سے خطرہ ہے(خواہ وہ يہاں رہيں يا كہيں اور چلے جائيں )اور ہم ان سے مقابلہ كے لئے مكمل طور پر آمادہ اور اچھى طرح ہوشيار ہيں ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۳

(۲)سورہ شعراء آيت ۵۴

(۳)سورہ شعراء آيت۵۵

(۴)سورہ شعراء آيت ۵۶

۳۵۱

پھر قرآن پاك فرعونيوں كے انجام كا ذكر كرتا ہے اور اجمالى طور پر ان كى حكومت كے زوال اور بنى اسرائيل كے اقتدار كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے:''ہم نے انھيں سر سبز باغات اور پانى سے لبريز چشموں سے باہر نكال ديا''_(۱) خزانوں ،خوبصورت محلات اور آرام و آسائش كے مقامات سے بھى نكال ديا_

ہاں ہاں ہم نے ايسا ہى كيا اور بنى اسرائيل كو بغير كسى مشقت كے يہ سب كچھ دےديا اور انھيں فرعون والوں كا وارث بناديا_(۲)(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۷تا۵۹

(۲)سورہ شعراء ايت ۵۹

(۳)آيا بنى اسرائيل نے مصر ميں حكومت كى ہے؟

خدا وند عالم قران مجيد ميں فرماتا ہے كہ ہم نے بنى اسرائيل كو فرعون والوں كا وارث بنايا_ اسى تعبير كى بناء پر بعض مفسرين كى يہ رائے ہے كہ بنى اسرائيل كے افراد مصر كى طرف واپس لوٹ آئے اور زمام حكومت و اقتدار اپنے قبضے ميں لے كر مدتوں وہاں حكومت كرتے رہے_

آيات بالا كا ظاہرى مفہوم بھى اسى تفسير سے مناسبت ركھتا ہے_

جبكہ بعض مفسرين كى رائے يہ ہے كہ وہ لوگ فرعونيوں كى ہلاكت كے بعد مقدس سرزمينوں كى طرف چلے گئے البتہ كچھ عرصے كے بعد مصر واپس آگئے اور وہاں پر اپنى حكومت تشكيل دي_ تفسير كے اسى حصے كے ساتھ موجودہ توريت كى فصول بھى مطابقت ركھتى ہيں _

بعض دوسرے مفسرين كا خيال ہے كہ بنى اسرائيل دوحصوں ميں بٹ گئے_ايك گروہ مصر ميں رہ گيا اور وہيں پر حكومت كى اور ايك گروہ موسى عليہ السلام كے ساتھ سر زمين مقدس كى طرف روانہ ہو گيا_ يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ بنى اسرائيل كے وارث ہونے سے مراد يہ ہے كہ انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كے بعد اور جناب حضرت سليمان عليہ السلام كے زمانے ميں مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر حكومت كي_ ليكن اگر اس بات پر غور كيا جائے كہ حضرت موسى عليہ السلام چونكہ انقلابى پيغمبر تھے لہذا يہ بات بالكل بعيد نظر آتى ہے كہ وہ ايسى سر زمين كو كلى طور پر خير باد كہہ كر چلے جائيں جس كى حكومت مكمل طور پر انھيں كے قبضہ اور اختيارميں آچكى ہو اور وہ وہاں كے بارے ميں كسى قسم كا فيصلہ كئے بغير بيابانوں كى طرف چل ديں خصوصاً جب كہ لاكھوں بنى اسرائيلى عرصہ دراز سے وہاں پر مقيم بھى تھے اور وہاں كے ماحول سے اچھى طرح واقف بھى تھے_ بنابريں يہ كيفيت دوحال سے خالى نہيں يا تو تمام بنى اسرائيلى مصر ميں واپس لوٹ آئے اور حكومت تشكيل دي،يا كچھ لوگ جناب موسى عليہ السلام كے حكم كے مطابق وہيں رہ گئے تھے اور حكومت چلاتے رہے اس كے علاوہ فرعون او رفرعون والوں كے باہر نكال دينے او ربنى اسرائيل كو ان كا وارث بنادينے كا اور كوئي واضح مفہوم نہيں ہوگا_

۳۵۲

فرعونيوں كا درناك انجام

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام اور فرعون كى داستان كا آخرى حصہ پيش كيا گيا ہے كہ فرعون اور فرعون والے كيونكر غرق ہوئے اور بنى اسرائيل نے كس طرح نجات پائي؟ جيسا كہ ہم گزشتہ ميں پڑھ چكے ہيں كہ فرعون نے اپنے كارندوں كو مصر كے مختلف شہروں ميں بھيج ديا تاكہ وہ بڑى تعداد ميں لشكر اور افرادى قوت جمع كرسكيں چنانچہ انھوں نے ايسا ہى كيا اور مفسرين كى تصريح كے مطابق فرعون نے چھ لاكھ كا لشكر مقدمہ الجيش كى صورت ميں بھيج ديا اور خود دس لاكھ كے لشكر كے ساتھ ان كے پيچھے پيچھے چل ديا _

سارى رات بڑى تيزى كے ساتھ چلتے رہے اورطلوع آفتاب كے ساتھ ہى انھوں نے موسى عليہ السلام كے لشكر كو پاليا، چنانچہ اس سلسلے كى پہلى آيت ميں فرمايا گيا ہے : فرعونيووں نے ان كا تعاقب كيا اور طلوع آفتاب كے وقت انھيں پاليا_

''جب دونوں گروہوں كا آمناسامنا ہوا تو موسى عليہ السلام كے ساتھى كہنے لگے اب تو ہم فرعون والوں كے نرغے ميں آگئے ہيں اور بچ نكلنے كى كوئي راہ نظر نہيں آتى ''_(۱)

ہمارے سامنے دريا اور اس كى ٹھاٹھيں مارتى موجيں ہيں ، ہمارے پيچھے خونخوارمسلح لشكر كا ٹھاٹھيں مارتا سمندر ہے لشكر بھى ايسے لوگوں كا ہے جو ہم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے ہيں ، جنھوں نے اپنى خونخوارى كا ثبوت ايك طويل عرصے تك ہمارے معصوم بچوں كو قتل كركے ديا ہے اور خود فرعون بھى بہت بڑا مغرور،ظالم اور خونخوار شخص ہے لہذا وہ فوراً ہمارا محاصرہ كركے ہميں موت كے گھاٹ اتارديں گے ياقيدى بنا كر تشدد كے ذريعے ہميں واپس لے جائيں گے قرائن سے بھى ايسا ہى معلوم ہورہا تھا _

____________________

(۱) سورہ شعراء آيت۶۱

۳۵۳

اپنے عصا كو دريا پر ماردو

اس مقام پر بنى اسرائيل پر كرب و بے چينى كى حالت طارى ہوگئي اور ان كا ايك ايك لمحہ كرب واضطراب ميں گزر نے لگا يہ لمحات ان كے لئے زبردست تلخ تھے شايد بہت سے لوگوں كا ايما ن بھى متزلزل ہوچكا تھا اور بڑى حدتك ان كے حوصلے پست ہوچكے تھے _

ليكن جناب موسى عليہ السلام حسب سابق نہايت ہى مطمئن اور پر سكون تھے انھيں يقين تھا كہ بنى اسرائيل كى نجات اورسركش فرعونيوں كى تباہى كے بارے ميں خدا كا فيصلہ اٹل ہے اور وعدہ يقينى ہے _

لہذا انھوں نے مكمل اطمينان اور بھرپور اعتمادكے ساتھ بنى اسرائيل كى وحشت زدہ قوم كى طرف منہ كركے كہا: ''ايسى كوئي بات نہيں وہ ہم پر كبھى غالب نہيں آسكيں گے كيونكہ ميرا خدا ميرے ساتھ ہے اور وہ بہت جلدى مجھے ہدايت كرے گا ''_(۱)

اسى موقع پر شايد بعض لوگوں نے موسى كى باتو ں كو سن تو ليا ليكن انھيں پھر بھى يقين نہيں آرہا تھا اور وہ اسى طرح زندگى كے آخرى لمحات كے انتظار ميں تھے كہ خدا كا آخرى حكم صادر ہوا، قرآن كہتا ہے :'' ہم نے فوراً موسى كى طرف وحى بھيجى كہ اپنے عصا كودريا پرمارو''_(۲)

وہى عصاجو ايك دن تو ڈرانے كى علامت تھا اور آج رحمت اور نجات كى نشانى _

موسى عليہ السلام نے تعميل حكم كى اور عصا فوراًدرياپر دے مارا تو اچانك ايك عجيب وغريب منظر ديكھنے ميں آيا جس سے بنى اسرائيل كى آنكھيں چمك اٹھيں اور ان كے دلو ں ميں مسرت كى ايك لہردوڑگئي، ناگہانى طور پر دريا پھٹ گيا، پانى كے كئي ٹكڑے بن گئے اور ہر ٹكڑا ايك عظيم پہاڑ كى مانند بن گيا اور ان كے درميان ميں راستے بن گئے_(۳)

بہرحال جس كا فرمان ہر چيز پر جارى اور نافذ ہے اگر پانى ميں طغيانى آتى ہے تو اس كے حكم سے اور

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۶۲

(۲)سورہ شعراء آيت۶۳

(۳)سورہ شعراء آيت ۶۳

۳۵۴

اگر طوفانوں ميں حركت آتى ہے تو اس كے امر سے ، وہ خدا كہ :

نقش ہستى نقشى ازايوان

اوست آب وبادوخاك سرگردان اوست

اسى نے دريا كى موجوں كو حكم ديا امواج دريا نے اس حكم كو فورا ًقبول كياايك دوسرے پر جمع پرہوگئيں اور ان كے درميان كئي راستے بن گئے اور بنى اسرائيل كے ہر گروہ نے ايك ايك راستہ اختيار كرليا _

فرعون اور اس كے ساتھى يہ منظر ديكھ كر حيران وششد ررہ گئے،اس قدر واضح اور آشكار معجزہ ديكھنے كے باوجود تكبر اور غرور كى سوارى سے نہيں اترے، انھوں نے موسى عليہ السلام اور بنى اسرائيل كا تعاقب جارى ركھا اور اپنے آخرى انجام كى طرف آگے بڑھتے رہے جيسا كہ قرآن فرماتاہے :''اور وہاں پر دوسرے لوگوں كو بھى ہم نے نزديك كرديا''_

اس طرح فرعونى لشكر دريائي راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں كے پيچھے دوڑتے رہے جنھوں نے اب اس غلامى كى زنجيريں توڑدى تھيں ليكن انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ يہ ان كى زندگى كے آخرى لمحات ہيں اور ابھى عذاب كا حكم جارى ہونے والا ہے _

قرآن كہتا ہے :''ہم نے موسى اور ان تمام لوگوں كو نجات دى جوان كے ساتھ تھے _''(۱)

ٹھيك اس وقت جبكہ بنى اسرائيل كا آخرى فرددريا سے نكل رہا تھا اور فرعونى لشكر كا آخرى فرد اس ميں داخل ہورہاتھا ہم نے پانى كو حكم ديا كہ اپنى پہلى حالت پر لوٹ ا،اچانك موجيں ٹھاٹھيں مارنے لگيں اور فرغون اور اس كے لشكر كو گھاس پھونس اور تنكوں كى طرح بہاكرلے گئيں اور صفحہ ہستى سے ان كانام ونشان تك مٹاديا _

قرآن نے ايك مختصرسى عبارت كے ساتھ يہ ماجرايوں بيان كيا ہے : پھر ہم نے دوسروں كو غرق كرديا_''(۲)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۶۵

(۲)سورہ شعراء آيت ۶۶

۳۵۵

اے فرعون تيرا بدن لوگوں كے لئے عبرتناك ہوگا

بہر كيف يہ معاملہ چل رہا تھا '' يہاں تك كہ فرعون غرقاب ہونے لگا اور وہ عظيم دريائے نيل كى موجوں ميں تنكے كى طرح غوطے كھانے لگا تو اس وقت غرور وتكبر اور جہالت وبے خبرى كے پردے اس كى آنكھوں سے ہٹ گئے اور فطرى نور توحيد چمكنے لگا وہ پكاراٹھا :'' ميں ايمان لے آيا كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں كہ جس پر بنى اسرائيل ايمان لائے ہيں ''_(۱)

كہنے لگا كہ نہ صرف ميں اپنے دل سے ايمان لايا ہوں '' بلكہ عملى طور پر بھى ايسے توانا پروردگار كے سامنے سرتسليم خم كرتا ہوں ''_(۲)

درحقيقت جب حضرت موسى كى پيشين گوئياں يكے بعد ديگرے وقوع پذير ہوئيں اور فرعون اس عظيم پيغمبر كى گفتگو كى صداقت سے آگاہ ہوا اور اس كى قدر ت نمائي كامشاہدہ كيا تو اس نے مجبوراً اظہار ايمان كيا، اسے اميد تھى كہ جيسے ''بنى اسرائيل كے خدا'' نے انھيں كوہ پيكر موجوں سے سے نجات بخشى ہے اسے بھى نجات دے گا، لہذا وہ كہنے لگاميں اسى بنى اسرائيل كے خدا پر ايمان لايا ہوں ، ليكن ظاہر ہے كہ ايسا ايمان جو نزول بلا اور موت كے چنگل ميں گرفتار ہونے كے وقت ظاہر كيا جائے، در حقيقت ايك قسم كا اضطرارى ايمان ہے، جس كا اظہار سب مجرم اور گناہگار كرتے ہيں ، ايسے ايمان كى كوئي قدر و قيمت نہيں ہوتي، اور نہ يہ حسن نيت اور صدق گفتار كى دليل ہوسكتا ہے_

اسى بنا پر خدا وندعالم نے اسے مخاطب كرتے ہوئے فرمايا:'' تو اب ايمان لايا ہے حالانكہ اس سے پہلے تو نافرمانى اورطغيان كرنے والوں ، مفسدين فى الارض اور تباہ كاروں كى صف ميں تھا''(۳)

''ليكن آج ہم تيرے بدن كو موجوں سے بچاليں گے تاكہ تو آنے والوں كے لئے درس عبرت ہو، برسراقتدار مستكبرين كے لئے، تمام ظالموں اور مفسدوں كےلئے اور مستضعف گروہوں كے لئے بھى ''

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۹۰

(۲)سورہ يونس آيت ۹۰

(۳)سورہ يونس آيت ۹۰

۳۵۶

يہ كہ''بدن سے مراد يہاں كيا ہے ،اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے ان ميں سے اكثر كا نظريہ ہے كہ اس سے مراد فرعون كا بے جان جسم ہے كيونكہ اس ماحول كے لوگوں كے ذہن ميں فرعون كى اس قدر عظمت تھى كہ اگر اس كے بدن كو پانى سے باہرنہ اچھالاجاتاتو بہت سے لوگ يقين ہى نہ كرتے كہ اس كا غرق ہونا بھى ممكن ہے اور ہوسكتا تھا كہ اس ماجرے كے بعد فرعون كى زندگى كے بارے ميں افسانے تراش لئے جاتے _

يہ امر جاذب توجہ ہے كہ لغت ميں لفظ '' بدن'' جيسا كہ راغب نے مفردات ميں كہا ہے '' جسد عظيم'' كے معنى ميں ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ بہت سے خوشحال لوگوں كى طرح كہ جنكى بڑى زرق برق افسانوى زندگى تھى وہ بڑا سخت اور چاك وچوبند تھا مگر بعض دوسرے افراد نے كہاہے كہ''بدن'' كا ايك معني'' زرہ'' بھى ہے يہ اس طرف اشارہ ہے كہ خدا نے فرعون كو اس زريں زرہ سميت پانى سے باہر نكالاكہ جو اس كے بدن پر تھى تاكہ اس كے ذريعے پہچاناجائے اور كسى قسم كا شك وشبہ باقى نہ رہے _

اب بھى مصر اور برطانيہ كے عجائب گھروں ميں فرعونيوں كے موميائي بد ن موجود ہيں كيا ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كے ہم عصر فرعون كا بدن بھى ہے كہ جسے بعد ميں حفاظت كے لئے مومياليا گيا ہويا نہيں ؟ اس سلسلے ميں كوئي صحيح دليل ہمارے پاس نہيں ہے _

بنى اسرائيل كى گذرگاہ

قرآن مجيد ميں بارہا اس بات كو دہرايا گيا ہے كہ موسى عليہ السلام نے خدا كے حكم سے بنى اسرائيل كو'' بحر'' عبور كروايا اورچند مقامات پر''يم'' كا لفظ بھى ايا ہے _

اب سوال يہ ہے كہ يہاں پر ''يم'''' بحر'' اور '' يم'' سے كيا مراد ہے آيايہ نيل ( NILE RIYER ) جيسے وسيع وعريض دريا كى طرف اشارہ ہے كہ سرزمين مصر كى تمام آبادى جس سے سيراب ہوتى تھى يا بحيرہ احمريعنى بحر قلزم ( RID SEA )كى طرف اشارہ ہے _

۳۵۷

موجودہ تو ريت اور بعض مفسرين كے انداز گفتگو سے معلوم ہوتاہے كہ بحيرہ احمر كى طرف اشارہ ہے ليكن ايسے قرائن موجود ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد نيل كا عظيم ووسيع دريا ہے _

حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كى فرمائش

قرآن ميں بنى اسرائيل كى سرگزشت كے ايك اور اہم حصہ كى طرف اشارہ كيا گيا ہے يہ واقعہ فرعونيوں پر ان كى فتحيابى كے بعد ہوا، اس واقعہ سے بت پرستى كى جانب ان كى توجہ ظاہر ہوتى ہے _

واقعہ يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے جھگڑے سے نكل چكے تو ايك اور داخلى مصيبت شروع ہوگئي جو بنى اسرائيل كے جاہل ، سركش اور فرعون اور فرعونيوں كے ساتھ جنگ كرنے سے بدر جہا سخت اور سنگين تر تھى اور ہر داخلى كشمكش كا يہى حال ہواكرتا ہے _قرآن ميں فرماياگيا ہے:'' ہم نے بنى اسرائيل كو دريا (نيل) كے اس پار لگا ديا :''

ليكن '' انہوں نے راستے ميں ايك قوم كو ديكھا جو اپنے بتوں كے گرد خضوع اور انكسارى كے ساتھ اكٹھا تھے'' _(۱) امت موسى عليہ السلام كے جاہل افراد يہ منظر ديكھ كر اس قدر متاثر ہوئے كہ فوراً حضرت موسى كے پاس آئے اور '' وہ كہنے لگے اے موسى ہمارے واسطے بھى بالكل ويسا ہى معبود بنادو جيسا معبود ان لوگوں كا ہے''_(۲) حضرت موسى عليہ السلام ان كى اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراض ہوئے ، آپ نے ان لوگوں سے كہا: ''تم لوگ جاہل وبے خبر قوم ہو''_(۳)

بنى اسرائيل ميں ناشكر گزار افراد كى كثرت تھي،باوجود يكہ انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے اتنے معجزے ديكھے، قدرت كے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان كا دشمن فرعون نابود ہوا ابھى كچھ عرصہ بھى نہيں گذرا تھا، وہ غرق كرديا گيا اور وہ سلامتى كے ساتھ دريا كو عبور كرگئے ليكن انہوں نے ان تمام باتوں كو يكسر بھلاديا اور حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كا سوال كربيٹھے_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۳)سورہ اعراف ۱۳۸

۳۵۸

ايك يہودى كو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام كا جواب

نہج البلاغہ ميں ہے كہ ايك مرتبہ ايك يہودى نے حضرت اميرالمو منين عليہ السلام كے سامنے مسلمانوں پر اعتراض كيا:

''ابھى تمہارے نبى دفن بھى نہ ہونے پائے تھے كہ تم لوگوں نے اختلاف كرديا ''_

حضرت على عليہ السلام نے اس كے جواب ميں فرمايا :

ہم نے ان فرامين واقوال كے بارے ميں اختلاف كيا ہے جو پيغمبر سے ہم تك پہنچے ہيں ، پيغمبريا ان كى نبوت سے متعلق ہم نے كوئي اختلاف نہيں كيا (چہ جائيكہ الوہيت كے متعلق ہم نے كوئي بات كہى ہو)ليكن تم (يہودي) ابھى تمہارے پير دريا كے پانى سے خشك نہيں ہونے پائے تھے كہ تم نے اپنے نبى (حضرت موسى عليہ السلام) سے يہ كہہ ديا كہ ہمارے لئے ايك ايسا ہى معبود بنادو جس طرح كہ ان كے متعدد معبود ہيں ، اور اس نبى نے تمہارے جواب ميں تم سے كہا تھا كہ تم ايك ايسا گروہ ہوجو جہل كے دريا ميں غوطہ زن ہے _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى بات كى تكميل كے لئے بنى اسرائيل سے كہا: ''اس بت پرست گروہ كو جو تم ديكھ رہے ہو ان كا انجام ہلاكت ہے اور ان كاہر كام باطل وبے بنيادہے ''_(۱)

اس كے بعد مزيد تاكيد كے لئے فرمايا گيا ہے : ''آيا خدائے برحق كے علاوہ تمہارے لئے كوئي دوسرا معبود بنالوں ، وہى خدا جس نے اہل جہان (ہمعصر لوگوں )پر تم كو فضيلت دى ''_(۲)

اس كے بعد خداوند كريم اپنى نعمتوں ميں سے ايك بڑى نعمت كا ذكر فرماتا ہے جو اس نے بنى اسرائيل كوعطا فرمائي تھى تاكہ اس عظيم نعمت كا تصور كركے ان ميں شكر گزارارى كا جذبہ بيدار ہواور انہيں يہ احساس ہوكہ پرستش اور سجدے كا مستحق صرف خدائے يكتا ويگانہ ہے، اور اس بت كى كوئي دليل نہيں پائي جاتى كہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ہيں ان كے سامنے سر تعظيم جھكايا جائے _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۹

(۲)سورہ اعراف۱۴۰

۳۵۹

پہلے ارشاد ہوتا ہے :'' ياد كرو اس وقت كو جب كہ ہم نے تمہيں فرعون كے گروہ كے شرسے نجات ديدي، وہ لوگ تم كو مسلسل عذاب ديتے چلے آرہے تھے ''_(۱)

اس كے بعد اس عذاب وايزارسانى كى تفصيل يوں بيان فرماتاہے:وہ تمہارے بيٹوں كو تو قتل كرديتے تھے اور تمہارى عورتوں لڑكيوں كو (خدمت اور كنيزى كے لئے ) زندہ چھوڑديتے تھے'' _(۲)

بنى اسرائيل سر زمين مقدس كى طرف

قران ميں اس كے بعد سرزمين مقدس ميں بنى اسرائيل كے ورود كے بارے ميں يوں بيان كيا گيا ہے:'' موسى عليہ السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ تم سرزمين مقدس ميں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر كيا ہے_داخل ہوجائو، اس سلسلے ميں مشكلات سے نہ ڈرو، فدا كارى سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حكم سے پيٹھ پھيرى تو خسارے ميں رہوگے ''_(۳)

ارض مقدسہ سے كيا مراد ہے اس، اس سلسلے ميں مفسرين نے بہت كچھ كہا ہے، بعض بيت المقدس كہتے ہيں كچھ اردن يا فلسطين كانام ليتے ہيں اور بعض سرزمين طور سمجھتے ہيں ، ليكن بعيد نہيں كہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس ميں تمام مذكورہ علاقے شامل ہيں _

كيونكہ تاريخ شاہد ہے كہ يہ سارا علاقہ انبياء الہى كا گہوراہ، عظيم اديان كے ظہور كى زمين اور طول تاريخ ميں توحيد، خدا پرستى اور تعليمات انبياء كى نشرواشاعت كا مركزرہاہے_

لہذا اسے سرزمين مقدس كہاگيا ہے اگرچہ بعض اوقات خاص بيت المقدس كو بھى ارض مقدس كہاجاتاہے_

بنى اسرائيل نے اس حكم پر حضرت موسى عليہ السلام كو وہى جواب ديا جو ايسے موقع پر كمزور، بزدل اور جاہل لوگ ديا كرتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۳)سورہ مائدہ آيت۲۱

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416