ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 416
مشاہدے: 174888
ڈاؤنلوڈ: 3031


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174888 / ڈاؤنلوڈ: 3031
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 1

مؤلف:
اردو

قعقاع ایک ہزار سپاہیوں کو اپنی کمانڈ میں لئے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے منازل کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن اپنی وعدہ گاہ، یعنی قادسیہ کے میدان جنگ میں پہنچ جاتاہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرتاہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلہ کی رعایت کرتے ہوئے ایک عظیم طاقت کی صورت میں میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ فوجیوں کی ٹولیوں کی کثرت اسلامی فوج کی ہمت افزائی کا سبب بنیں اور خود پہلی ٹولی کے آگے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اسلامی فوج کو امداد پہنچنے کی نوید دیکر حوصلہ افزائی کرتاہے اور ان سے کہتاہے، جو کام میں کروں تم بھی اسی کو انجام دینا۔ اس کے بعد تن تنہا میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے ہم پلہ مد مقابل کا مطالبہ کرتاہے اور مثنی کے قاتل دشمن کے سپہ سالار ذوالحاجب کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دشمن کے ایک اور سردار اور پہلوان بیرزانِ پارسی کو قتل کرڈالتا ہے۔ اس کی شجاعت کو دیکھ کر اسلامی فوج کے سپاہی ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے:''جس سپاہ میں یہ پہلوان موجود ہو وہ سپاہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی''۔قعقاع کے سپاہی اس کے حکم کے مطابق اس دن شام ہونے تک وقفے وقفے سے ٹولیوں کی صورت میں آکر اسلامی فوج کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں اور ہر ٹولی کے پہنچنے پر قعقاع نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے اور مسلمان بھی اس کے جواب میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں ۔ اس طرح دوستوں کے دل قوی ہوتے ہیں اور دشمن متزلزل اور پریشان ہوجاتے ہیں ۔

اسی فرضی اغواث کے دن سعد وقاص ان گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو انعام کے طور پر دیتا ہے، جو خلیفہ عمر نے جنگ قادسیہ کے بہترین پہلوانوں کے لئے بھیجے تھے ۔ قعقاع اس روز تین بہترین رزم نامے کہتا ہے۔

اسی جنگ میں قعقاع اپنے ما تحت افراد کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو کپڑے سے اس طرح ڈھانپیں تا کہ وہ ہاتھی جیسے نظر آئیں پھر ان کو دس دس کی ٹولیوں میں ایرانی فوج کے گھوڑسواروں کی طرف روانہ کریں تا کہ وہ وحشت سے اپنے ہی لشکر کی صفوں کو چیرتے ہوئے بھگدڑمچائیں ، پھر خاندان تمیم کے چابک سوار بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔

عماس کی شب کو قعقاع اپنے ماتحت افراد کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اسی جگہ پر لے جاتا ہے جہاں پر اغواث کے دن انھیں جمع کرچکاتھا، اور حکم دیتا ہے کہ اس کے افراد

۲۶۱

اغواث کے دن کی طرح لیکن اس دفعہ سو١٠٠ سو١٠٠افراد کی ٹولیوں میں میدان جنگ کی طرف بڑھیں اور

جب سو افراد کی پہلی ٹولی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو دوسری ٹولی آگے بڑھے اور اسی ترتیب سے

دیگر ٹولیاں آگے بڑھیں ۔ اس جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمان فوج کا حوصلہ اس روز بھی اغواث کے دن کی طرح مددگار فوج کی آمد کی امیدمیں بلند ہوجاتاہے۔

جب سعد وقاص مشاہدہ کرتا ہے کہ ایرانی فوج کا ہاتھی سوار دستہ اسلامی فوج کی صفوں کو تتربتر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ قعقاع اور اس کے بھائی کو حکم دیتا ہے کہ ان کے راہنما اور آگے آگے چلنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کردیں ۔قعقاع اور اس کا بھائی سفید ہاتھی کی دونوں آنکھیں نکال کر اسے اندھا بنا دیتے ہیں اور قعقاع تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کوکاٹ کر جدا کردیتا ہے اور بالاخر اسے مار ڈالنے کے بعد ایک لافانی رزم نامہ لکھتا ہے ۔

جنگ ''لیلة الھریر '' میں قعقاع میدان جنگ کی طرف دوڑ نے میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں پہل کرتا ہے اور ایک شعلہ بیان تقریر کرکے اپنے سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے کے لئے جوش دلاتا ہے اور دوسرے پہلوانوں اور دلاوروں کی مدد سے دشمن کے سپہ سالار اعظم رستم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور مشرکین کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے ۔اس طرح ایرانی فوج کے تیس سے زائد دستوں کے دلاوروں کے مقابلے میں اسی تعداد میں اسلامی فوج کے دلاور بھی مقابلے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ان میں قعقاع اپنے ہم پلہ پہلوان قارن کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتا ہے اور باقی ایرانی فوجی یا مارے جاتے ہیں یا فرار کر جاتے ہیں ۔اور سعد وقاص حکم جاری کرتا ہے کہ فراریوں کا پیچھا کیا جائے آخر میں سعد وقاص قعقاع کے حق میں ایک قصیدہ بڑھ کر اس کی تمجید و تجلیل کرتا ہے ۔

قادسیہ کی جنگ کی وجہ سے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتیں اپنے شوہر وں کے مارے جانے کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہیں اور قبیلہ مضر کے مہاجرین سے شادیاں کرتی ہیں ان میں قعقاع کی بیوی کی بہن ہنیدہ بھی تھی وہ اپنی بہن کے ذریعہ اپنے لئے شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں قعقاع کا نظریہ معلوم کرتی ہے اور قعقاع چند اشعار کے ذریعہ اس کی راہنمائی کرتا ہے اور فتح بہر سیر کے بارے میں شعر کہتا ہے ۔

۲۶۲

اسلامی فوج کے دریائے دجلہ کو عبور کرتے ہوئے غرقدہ نامی قبیلۂ بارق کا ایک شخص گھوڑے سے گر کر دریا میں ڈوب جاتا ہے ،قعقاع اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساحل تک کھینچ لے آتا ہے اور اسے غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔غرقدہ ایک قوی پہلوان تھا ۔وہ قعقاع کی ستائش کرتے ہوئے کہتا ہے '' عورتیں تجھ جیسا فرزند ہر گز جنم نہیں دے سکتیں ''

قعقاع کا فوجی دستہ'' اہوال'' کے نام سے مشہور تھا ،پہلا فوجی دستہ تھا جس نے مدائن میں قدم رکھا ۔

قعقاع ایرانی شکست خوردہ فراری سپاہیوں کا تعاقب کرتا ہے اور اس کی ایک فراری شخص کے ساتھ مڈبھیڑ ہوتی ہے ،قعقاع اسے قتل کر ڈالتا ہے اور دو چوپایوں پر بار کئے ہوئے اس کے اثاثہ پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیتا ہے ۔جب ان گٹھریوں کو کھول کے دیکھتا ہے تو ان میں ایران ،روم ،ترک اور عرب بادشاہوں کا فو جی سازوسامان پاتا ہے ۔اسلامی فوج کا کمانڈر انچیف سعد وقاص قعقاع کے حاصل کئے ہوئے اس مال غنیمت میں سے روم کے بادشاہ ہر کلیوس کی تلوار اور بہرام کی زرہ قعقاع کو بخش دیتا ہے اور باقی مال خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیتا ہے ۔

جلولا کی جنگ:

جلولاء کی جنگ میں خلیفہ ،سعد وقاص کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک فوجی دستے کی کمانڈدے کر فتح جلولاء کے لئے ہراول دستے کے طور پر ماموریت دے اور جلولاء کو فتح کرنے کے بعد شام تک پھیلے ہوئے ایران کے مغربی علاقوں کی حکومت اس کو سونپے ۔قعقاع جلولاء کی طرف روانہ ہوتا ہے اور پناہ گاہوں میں مورچہ بند ی کئے ہوئے ایرانیوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیتاہے ۔ لیکن ایرانی اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف لوہے کے تیز دھار والے ٹکڑے پھیلاکر اسلامی فوج کے لئے پناہ گاہ تک پہنچنے میں رکاوٹیں گھڑی کرتے ہیں اور صرف اپنے لئے رفت و آمد کا ایک خاص اور محفوظ راستہ بناتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ پناہ گاہ سے باہر نہیں نکلتے یہ حالت اسّی روز تک جاری رہتی ہے ۔

۲۶۳

قعقاع اس مدت میں ایک مناسب فرصت کی انتظار میں رہتا ہے اور اچانک حملہ کرکے رفت و آمد کے تنہا راستہ پر قبضہ جما لیتا ہے اور جنگی حکمت عملی سے مسلمان فوج کو حملہ کے لئے جو ش دلاتا ہے اور یہی امر دشمن کو شکست دینے کا سبب بن جاتا ہے ،اس معرکہ میں مشرکین کے ایک لاکھ فوجی کا م آتے ہیں او رباقی فرار کرتے ہیں اور مسلمان ،فراریوں کا خانقین تک پیچھا کرتے ہیں ۔ فراریوں میں سے بعض مارے جاتے ہیں اور بعض اسیر کئے جاتے ہیں ایرانی فوج کا کمانڈر مہران بھی مارا جاتا ہے ۔

قعقاع اپنی پیش قدمی کو قصر شیریں تک جاری رکھتا ہے ،حلوان کے سرحد بانوں کو قتل کرتاہے فوجی کیمپ اور شہر پر قبضہ کرکے سعد وقاص کے واپس کوفہ پہنچنے تک وہیں پر پڑائو ڈالتا ہے ۔قععقاع نے جلولاء کے بارے میں بھی شعر کہے ہیں ۔

شام سے ابو عبیدہ خلیفہ عمر سے مدد طلب کرتا ہے خلیفہ سعد کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک سپاہ کی کمانڈ میں ابو عبیدہ کی مدد کے لئے شام روانہ کرے ۔قعقاع چار ہزار جنگجوئوں کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوتا ہے جب مشرکین کو قعقاع اور اس کے سپاہیوں کے آنے کی خبر ملتی ہے تو ابو عبیدہ پر سے محاصرہ اٹھا لیتے ہیں منتشر ہو جاتے ہیں اور ابوعبیدہ ،قعقاع کی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی حمص کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔عمر حکم دیتا ہے کہ قعقاع اور اس کے سپاہیوں کو بھی مال غنیمت کی تقسیم میں شریک قرار دیا جائے ۔قعقاع اس مناسبت سے بھی چند شعر کہتاہے ۔

نہاوند کی جنگ :

نہاوند میں ایرانی ،قلعہ میں پناہ لیتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ اس سے باہر نہیں نکلتے ہیں ۔ قلعۂ نہاوند پر مسلمانوں کے محاصرہ کا کام طول پکڑتا ہے ۔آخر قعقاع ایک تدبیر سوچتاہے اور جنگ شروع کرتا ہے ،اچانک حملہ کرتا ہے ،جب مشرکین دفاع کرنے لگتے ہیں تو مسلمان پیچھے ہٹتے ہیں ، ایرانی ان کا پیچھا کرتے ہیں اور مسلمان پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ،اس طرح دشمن کو قلعہ سے باہر کھینچ لاتے ہیں ۔ وہ اس حد تک باہر آتے ہیں کہ قلعہ میں قلعہ کے محافظوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہتا ۔اچانک مسلمان مڑ کر تلواروں سے ان پر وار کر دیتے ہیں اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیتے ہیں ،زمین ان کے خون سے بھرجاتی ہے اور ایسی پھسلنی بن جاتی ہے کہ سوار اور پیدل فوجی اس پر پھسل جاتے ہیں جب دن گزر کر رات پہنچ جاتی ہے تو ایرانی شکست کھا کر فرار کرنے لگتے ہیں ۔وہ راہ اور چاہ میں تمیز نہیں کرسکتے اور اپنی کھودی ہوئی خندق اور اس میں جلائی گئی آگ میں ایک ایک کرکے گرتے جاتے ہیں اور جل جاتے ہیں وہ اس آگ سے بھری خندق میں گرتے ہوئے فارسی زبان میں فریاد بلند کرتے ہیں '' وائے خرد'' آخر کار ایک لاکھ انسان اس آگ میں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں یہ تعداد ان مقتولین کے علاوہ ہے جو اس جنگ کے میدان کارزار میں کام آئے تھے !

۲۶۴

نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوج کا سپہ سالار فیروزان بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے او ر ہمدان کی طرف فرار کرتا ہے ،قعقاع اس کا پیچھا کرتا ہے اور ہمدان کی گزرگاہ پر اس کے قریب پہنچتا ہے ۔ لیکن گزر گاہ میں موجود شہدکا بار لے جانے والے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے فیروزان گزر گاہ کو عبور نہیں کر سکتا ہے ۔گھوڑے سے اتر کر پہاڑ کی طرف بھاگتا ہے اسی اثنا ء میں قعقاع پہنچ کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالتا ہے ۔شہد کا بار لئے ہوئے مویشیوں کے سبب راستہ بند ہونے کے موضوع کی وجہ سے یہ جملہ عام ہو جاتاہے کہ '' خدا کے پاس شہد کی ایک فوج بھی ہے ''

فیروزان کے قتل ہونے کے بعد ہمدان اور ماہان کے باشندے قعقاع سے امان کی درخواست کرتے ہیں ۔امان نامہ لکھا جاتا ہے اور قعقاع اس کی تائید و گواہی میں اس پر دستخط کرتا ہے ۔ وہ اس مناسبت سے بھی اشعار کہتا ہے ۔

قعقاع ،عثمان کے زمانہ میں

خلیفہ عثمان ٣٤ھاور ٣٥ھ میں قعقاع کو کوفہ کے علاقوں کے سپہ سالار اعظم کی حیثیت سے مقرر کرتا ہے ۔

کوفہ میں شورش و فتنہ پرپا ہونے پر قعقاع دیکھتا ہے کہ سبائی مسجد کوفہ میں اجتماع کرکے خلیفہ عثمان کی معزولی وبر طرفی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔قعقاع انھیں دھمکاتا ہے ،سبائی ڈر کے مارے اپنے مطالبات کو چھپاتے ہیں او ر اظہار کرتے ہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ قعقاع ان سے کہتا ہے :تمھارا مطالبہ پورا ہوگا !اس کے بعد انھیں حکم دیتا ہے کہ متفرق ہو جائیں اور اب مسجد میں اجتماع نہ کریں ۔

جب مالک اشتر کوفہ کے گونر کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے شورشیوں اور باغیوں کو اکساتا ہے تو کوفہ کا ڈپٹی گورنر ان کو نصیحت کرتے ہوئے بغاوت کو روکتا ہے ۔قعقاع ڈپٹی گورنر کو صبر کا مظاہر ہ کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بھی اس کی بات کو مانتے ہوئے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔

۲۶۵

جب سبائی دوبارہ مسجد کوفہ میں ا جتماع کرتے ہیں اور عثمان کے خلاف بد گوئی کرتے ہیں تو قعقاع سبائیوں کو نصیحت کرکے ٹھنڈا کرتا ہے اور وعدہ دیتا ہے کہ عثمان کے مقرر کردہ تمام عہدہ داروں کو برطرف کر دے گا اور ان کے مطالبات قبول کئے جائیں گے ۔

جب عثمان نے مختلف شہروں کے باشندوں سے مدد طلب کی کہ اسے محاصر ہ سے نجات دلائیں تو قعقاع کوفہ سے اور دوسرے لوگ دیگر شہروں سے عثمان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب عثمان کو محاصرہ کرنے والے سبائی اس خبر سے مطلع ہوتے ہیں کہ عثمان کے حامی ان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف آرہے ہیں تو فورا ًعثمان کا کام تمام کر دیتے ہیں عثمان کے قتل کی خبر سنتے ہی قعقاع راستے ہی سے کوفہ کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔

۲۶۶

قعقاع ،حضرت علی کے زمانہ میں

جب حضرت علی ـ نے بصرہ میں جنگ جمل کے لئے کوفیوں سے مدد طلب کی اور ابو موسیٰ اشعری نے اس امر میں امام کی نافرمانی کی اور ان کے اور کوفہ کے باشندوں سے اختلافات پیدا ہوئے ،تو قعقاع مصلح کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے امام کی دعوت قبول کریں ۔لوگ اس کی نصیحت قبول کرکے امام کی فوج سے ملحق ہوتے ہیں اور خود قعقاع بھی پانچ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ امام کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے ۔(۱)

امام حکم دیتے ہیں کہ قعقاع ان کے ایلچی کی حیثیت سے صلح و آشتی برقرار کرنے کے لئے طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے پاس جائے ۔قعقاع کی سر گرمیوں اور حسن نیت کی وجہ سے اختلاف وتفرقہ ختم ہونے والا تھا لیکن سبائی اس صلح و آشتی کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیتے ہیں اور طرفین کی بے خبری میں رات کی تاریکی میں دونوں فوجوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں ۔

قعقاع امام کے ہمراہ جنگ میں شرکت کرتے ہوئے خود کو عائشہ کے اونٹ کے نزدیک پہنچا تا ہے اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ اونٹ کا کام تمام کردو او ر جنگ کے خاتمہ پر جمل کے خیر خواہوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : ''تم امان میں ہو''

ام المومنین عائشہ رو نما ہوئے ان حالات پر پشیمان ہوتی ہیں ،امام بھی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں تمناکرتے ہیں کہ کاش اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر چکے ہوتے!

امام قعقاع کو حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کی بے احترامی کرنے والے دو افراد کو سو سوکوڑے مارے ۔

آخر میں سیف نے ایک ایسی روایت بھی نقل کی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ قعقاع نے صفین کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے ۔

آخر کار معاویہ '' عام الجماعة'' کے بعد حضرت علی ـکے حامیوں اور طرفداروں کو جلاوطن کرتا ہے ۔اور قعقاع کو بھی اسی الزام میں فلسطین کے ایلیا نام کے علاقہ میں جلا وطن کرتا ہے اور ان کی جگہ پر اپنے حامیوں اور رشتہ دارون کو کوفہ میں آباد کرتا ہے ،سیف نے ان جلاوطن ہونے والوں کے نام بھی رکھے اور انھیں ''منتقل ہونے والے '' کہا ہے ۔

____________________

الف )۔تاریخ طبری طبع یورپ ٢١٦١

۲۶۷

احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

لم نجد لهم ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے ان راویوں کے نام ، سیف کی روایت کے علاوہ روایتوں کی کسی بھی کتاب میں نہیں پائے۔

(مولف)

ہم نے گزشتہ فصلو ں میں قعقاع کے بارے میں سیف کی روایات پر بحث و تحقیق کی ۔ اب ہم اس فصل میں پہلے ان راویوں کے بارے میں بحث کریں گے جن سے سیف نے روایات نقل کی ہیں اور اس کے بعد ان کتابوں کا جائزہ لیں گے جن میں سیف سے رواتیں نقل کی گئی ہیں ۔

١۔وہ راوی جن سے سیف نے رواتیں نقل کی ہیں

قعقاع بن عمر تمیمی کا افسانہ سیف کی ٦٨روایات میں ذکر ہوا ہے ۔امام المورخین طبری نے ان میں سے اکثر کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔جب ہم ان روایات کی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے :

(١) اس کی ٣٨روایات میں محمد کانام راوی کی حیثیت سے ذکر ہواہے ۔سیف اس محمد کو ابن عبد اللہ بن سوادبن نویرہ بتاتاہے اور اختصار کے طور پر اسے محمد نویرہ یا محمد بن عبداللہ اور اکثر صرف محمد کے نام سے ذکر کرتا ہے ۔

(٢) اس کا ایک راوی مہلب بن عتبہ اسدی ہے جس سے اس نے اپنی پندرہ روایات نقل کی ہیں طبری اسے اختصار کے طور پر مہلب ذکر کرتا ہے ۔

(٣) یزید بن اسید غسانی ،اس کا ایک اور راوی ہے ۔اس کا نام اس نے اپنی دس روایات کی سند میں ذکر کیا ہے اور اس کی کنیت ابو عثمان بیان کی ہے ۔

۲۶۸

(٤) سیف کی آٹھ احادیث کا راوی زیاد بن سرجس احمری ہے ۔سیف اختصار کے طور پر اسے زیاد یا زیاد بن سرجس کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(٥) الغصن بن قاسم کنانی ۔

(٦) عبداللہ بن سعید بن ثابت جذع ،اختصار کے طور پر سیف اسے عبداللہ بن سعید یا عبداللہ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔

(٧) ظفر بن دہی ،یہ سیف کے ان اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہے جنھیں اس نے خود جعل کیا ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ۔

(٨) قعقاع بن عمروتمیمی ،ظفر کے مانند یہ بھی اس کا ایک جعلی صحابی ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ،

(٩) صعب بن عطیہ بن بلال یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،جب کہ باپ بیٹے دونوں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں اور ایک ہی انداز کی روایت کرتے ہیں ۔

(١٠) نضر بن سری الضبی ،بعض اوقات اس کا نام سیف کی احادیث میں اختصار کے طور پر نضر ذکر ہواہے ۔

(١١) ابن رفیل ،اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،رفیل کے باپ کو سیف بن عمر ،رفیل بن میسور کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(١٢) عبدالرحمن بن سیاہ احمر ی ،سیف اس کانام لقب کے بغیر ذکرکرتاہے۔

(١٣) مستنیر بن یزید ،اس نام سے سیف کامقصود مستنیر بن یزید نخعی ہے ۔

(١٤) قیس ،سیف اسے مستنیرکابھائی بتاتاہے ۔

(١٥) سہل ،سیف نے اسے سہل بن یوسف سلمی خیال کیاہے ۔

(١٦) بطان بشر

(١٧) ابن ابو مکنف

(١٨) طلحہ بن عبد الرحمان ،اس کی کنیت ابوسفیان بتائی ہے ۔

(١٩) حمید بن ابی شجار

(٢٠) المقطع بن ھیثم بکائی

۲۶۹

(٢١) عبد اللہ بن محفز بن ثعلبہ ،وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،باپ بیٹے دونوں سیف کی صرف ایک حدیث کے راوی ہیں ۔

(٢٢) حنظلة بن زیاد بن حنظلۂ تمیمی.

(٢٣) عروة بن ولید

(٢٤) ابو معبد عبسی

(٢٥) جریر بن اشرس

(٢٦) صعصعةالمزنی

(٢٧) مخلد بن کثیر

(٢٨) عصمة الوامکی

(٢٩) عمرو بن ریان

٢۔وہ علما ء جنھوں نے سیف سے روایتیں نقل کی ہے

١۔تمام وہ افسانے جنھیں اب تک ہم نے قعقاع کے بارے میں ذکر کیا ،انہیں پہلی بار سیف بن عمر تمیمی( وفات تقریباً ١٧٠ ھ )نے ''فتوح''اور ''جمل''نامی اپنی دوکتابوں میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

مندرجہ ذیل علماء نے ان کتابوں سے قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے:

٢۔طبری (وفات ٣١٠ھ)نے اپنی کتاب ''تاریخ کبیر''میں ۔

٣۔الرّازی(وفات ٣٧٧ھ )نے کتاب ''جرح و تعدیل''میں ۔

٤۔ابن السکن(وفات ٣٥٣ھ ) نے کتاب ''حروف الصحابہ''میں ۔

٥۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ ھ) نے کتاب ''تاریخ مدینہ و دمشق''میں ۔

ان سے بھی درج ذیل مؤلفین نے اپنی ادبی کتابوں میں سیف کے مطالب کو نقل کیاہے :

٦۔الاصبھانی (وفات ٣٥٦ھ ) نے کتاب ''اغانی''میں ،طبری سے نقل کیا ہے۔

۲۷۰

٧۔ابن بدرون(وفات ٥٦٠ ھ) نے ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٨۔ابن عبد البر(وفات ٤٦٣ھ ) نے کتاب ''الاستیعاب'' میں ، سیف کے مطالب کو رازی سے نقل کیا ہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب''اسد الغابہ ''میں ،سیف کے مطالب کو ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے۔

١٠۔ذہبی (وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب ''التجرید''میں ابن اثیر سے نقل کیاہے۔

١١۔ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب ''الاصابہ '' میں ان مطالب کو خود سیف بن عمر، طبری ، رازی ، ابن سکن اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔

سیف کے افسانے تاریخ کی مندرجہ ذیل عمومی کتابوں میں بھی نقل ہوئے ہیں :

١٢۔ابن اثیر(وفات ٦٣٠ھ) نے کتاب ''تاریخ کامل '' میں طبری سے نقل کیا ہے۔

١٣۔ابن کثیر (وفات ٧٧٠ھ ) نے کتاب ''تاریخ البدایہ''میں طبری سے نقل کیاہے۔

جغرافیہ کی کتابوں میں بھی سیف کے افسانے درج کئے گئے ہیں :

١٥۔الحموی(وفات ٦٢٦ ھ) نے کتاب ''معجم البلدان''میں براہ راست سیف بن عمر سے نقل کیاہے۔

١٦۔عبد المؤمن (وفات ٧٣٠ھ) نے کتاب ''مراصدا لاطلاع'' میں حموی سے نقل کیا ہے ۔

١٧۔الحمیری(وفات ٩٠٠ھ ) نے کتاب ''روض المعطار'' میں براہ راست سیف سے نقل کیا ہے۔

قعقاع کے افسانوں کا ان کتابوں میں اشاعت پانا اس امر کاسبب بنا کہ قعقاع کا نام شیعوں کی رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوجائے ،جیسے:

۲۷۱

١٨۔شیخ طوسی (وفات ٤٦٠ھ) نے کتاب ''رجال''میں ۔

١٩۔قہپائی (سال تألیف ١٠١٦ھ) نے کتاب ''مجمع الرجال'' میں شیخ کتاب ''رجا ل '' سے نقل کیا ہے۔

٢٠۔اردبیلی(وفات ١١٠١ھ) نے کتاب ''جامع الروات'' میں شیخ کی کتاب رجال سے نقل کیا ہے۔

٢١۔مامقانی ( وفات ١٣٥٠ھ ) نے کتاب ''تنقیح المقال'' میں شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

٢٢۔شوشتری، معاصر نے مامقانی کی کتاب ''تنقیح المقال ''اور شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

قعقاع کے بارے میں

سیف کی سڑسٹھ٦٧ روایتوں کا خلاصہ

قعقاع کی خبر اور اس کے حیرت انگیز افسانوی شجاعتیں اور کارنامے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ تاریخ اسلام کے دیگر معتبر مصادر و منابع میں وسیع پیمانے پر، شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سبوں نے سیف بن عمر تمیمی سے روایت نقل کی ہے۔ کیونکہ سیف مدعی ہے اور وہی روایت کرتا ہے کہ بے مثال اور نا قابل شکست تمیمی پہلوان، قعقاع بن عمرو تمیمی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی رہ چکا ہے اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایتیں نقل کی ہیں ، سقیفہ بنی ساعدہ کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں خبر بھی دی ہے، ارتداد اور فتوحات اسلامی کی اکتس جنگوں میں شرکت کی ہے۔ ان جنگوں میں سات لاکھ سے زائد انسان قتل عام ہوئے ہیں ان کے سرتن سے جدا کئے گئے ہیں یا جل کر راکھ ہوئے ہیں ۔ قعقاع بن عمر و تمیمی ان جنگوں کا بے مثال پہلوان اور مرکزی کردار و شیر مرد تھا، اس نے١ ٣ رزم نامے لکھے ہیں ۔

سیف نے ان تمام مطالب کو٦٧،احادیث میں بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر حدیث کو چند راویوں سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے چالیس راوی صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ایسی جنگوں کا نام لیا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسی جگہوں کا نام لیاہے جو بالکل وجود نہیں رکھتی تھیں اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسی جنگوں اور جگہوں کا نام لے کر ان کا تعارف کرایاہے۔

سیف منفرد شخص ہے جو تاریخ اسلا م کے چھبیس سال تک کے ایسے واقعات و حالات کی تشریح کرتا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئے ہیں اور دیگر کسی بھی خبر بیان کرنے والے نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ، بلکہ سیف نے تن تنہا ان افسانوں کی ایجاد کرکے اپنے تصور میں تخلیق اور کتابوں میں ثبت کیا ہے۔

۲۷۲

تحقیق کے منابع

ہم نے سیف کی احادیث کے راویوں کی تلاش کے سلسلے میں ان مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا جن میں تاریخ و حدیث کے تمام رایوں کے حالات درج ہیں ، مثال کے طور پر:

٭ '' علل و معرفة الرجال '' تالیف احمد بن حنبل ( وفات ٢٤١ھ)

٭ ''تاریخ بخاری '' تالیف بخاری ( وفات ٣٥٦ھ)

٭ '' جرح و تعدیل'' تالیف رازی(وفات٣٢٧)

٭ '' میزان الاعتدال '' ،والعبر''اور '' تذکرة الحفاظ''تألیف ذہبی (وفات ٧٤٨ھ

٭ ''لسان المیزان ''''تہذیب التہذیب'' ''تقریب التہیب'' اور ''تبصیرالمنتبہ'' تالیف ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ)

٭ '' خلاصة التہذیب '' تالیف صفی الدین ،کتاب کی تالیف کی تاریخ ٩٢٣ھ ہے۔

اس کے علاوہ طبقات کی کتابوں میں ،مثال کے طور پر :

٭ طبقات ابن سعد (وفات ٢٣٠ ھ )

٭ طبقات حنیفة بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)

اسی طرح کتب انساب میں ،جیسے :

٭ ''جمہرة انساب العرب '' تالیف ابن حزم (وفات ٤٥٤ھ)

٭ ''انساب ''سمعانی (وفات ٥٦٢ھ)

٭ ''اللباب '' ابن اثیر (وفات ٦٣٠)

۲۷۳

تحقیق کانتیجہ

ہم نے مذکورہ تمام کتابوں میں انتہائی تلاش و جستجو کی ،صرف انہی کتابوں پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے موضوع سے مربوط مزید دسیوں منابع و مصادر کا بھی مطالعہ کیا ،حدیث کی کتابیں جیسے مسند احمد کا مکمل دورہ اور صحاح ستہ کی تمام جلدیں ،ادبی کتابیں جیسے : ''عقد الفرید'' تالیف عبدالبر (وفات ٣٢٨ھ ) اور ''اغانی'' تالیف اصفہانی (وفات ٣٥٦ھ) اور ان کے علاوہ بھی دسیوں کتابوں کی ورق گردانی کی تاکہ سیف ابن عمر کے ان راویوں میں سے کسی ایک کا پتا چل جائے ،جن سے اس نے سیکڑوں احادیث روایت کی ہیں ،لیکن ان راویوں کے ناموں کا ہمیں سیف کے علاوہ کہیں نشان نہ ملا!اس بنا ء ہم ان تمام راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔انشاء اللہ جہاں ہم سیف کے جعلی راویوں کے بارے میں بحث کریں گے وہاں سیف کی زبانی ان کی زندگی کے حالات کی بھی تشریح کریں گے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے قعقاع کی روایات میں چند منفرد نام بھی راویوں کے طور پر ذکر کئے ہیں ،جیسے :

'' خالد کو تین روایات میں ،عبادہ کو دو روایات میں اور عطیہ و مغیرہ اور دیگر چند مجہول القاب و نام ،جن کی شناسائی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن ہے کہ سیف کے درج ذیل عنوان کے راویوں کی پہچان کی جا سکے :

''بنی کنانہ کا ایک مرد '' ،''بنی ضبہ کا ایک مرد ''،'' طی سے ایک مرد '' بنی ضبہ کا ایک بوڑھا '' ''اس سے جس نے خود بکر بن وائل سے سنا ہے '' ،ان سے جنھوں نے اپنے رشتہ داروں سے سنا ہے ''، ابن محراق نے اپنے باپ سے '' اور'' ان جیسے دیگر مجہول راوی جن سے سیف نے روایت کی ہے ؟!

تقریبا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سیف ابن عمرتمیمی نے ایسے راویوں کا ذکر کرتے وقت سنجیدگی کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے ۔

مذکورہ حالات کے پیش نظر قارئین کرام کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب سیف کی احادیث کے راویوں کی یہ حالت ہوتوخود سیف کی احادیث اور اس کی باتوں پر کس حد تک اعتبار اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟!

۲۷۴

چوتھا حصہ :

٢۔عاصم بن عمر و تمیمی

٭ عراق کی جنگ میں ۔

٭ ''دومة الجندل'' کی جنگ میں ۔

٭ مثنی کی جنگ میں ۔

٭ قادسیہ کی جنگ میں ۔

٭ جراثیم کے دن ۔

٭ سرزمین ایران میں ۔

٭ عاصم کے فرزند اور خاندان ۔

٭ عاصم کے بارے میں سیف کی احادیث کے راوی

۲۷۵

عاصم ،عراق کی جنگ میں

مصدر الجمیع فی ماذکروا هواحادیث سیف

جو کچھ علماء نے عاصم کے بارے میں لکھا ہے وہ سب سیف سے منقول ہے

( مولف )

عاصم کون ہے ؟

سیف بن عمر نے عاصم کو اپنے خیال میں قعقاع کا بھائی اور عمرو تمیمی کا بیٹا جعل کیا ہے اور اس کے لئے عمر و نامی ایک بیٹا بھی خلق کیا ہے کہ انشاء اللہ ہم باپ کے بعد اس کے اس بیٹے کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے ۔

عاصم بن عمر و سیف کے افسانوی سورمائوں کی دوسری شخصیت ہے کہ شجاعت ،دلاوری ،فہم و فراست ،سخن وری اور شعر و ادب وغیرہ کے لحاظ سے بھی سیف کے افسانوں میں اپنے بھائی قعقاع کے بعد دوسرے نمبر کا پہلوان ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں عاصم بن عمرو کی یوں تعریف کی ہے :

''عاصم ،خاندان بنی تمیم کا ایک دلاور اور اس خاندان کے نامور شاعروں میں سے ہے ''

ابن عساکر بھی اپنی عظیم تاریخ میں عاصم کی یوں تعریف کرتا ہے :

'' عاصم قبیلہ بنی تمیم کا ایک پہلوان اور اس خاندان کا ایک مشہور شاعر ہے ۔''

'' استیعاب'' اور تجرید '' جیسی کتابوں میں بھی اس کی تعریف کی گئی ہے ۔تاریخ طبری میں بھی اس کے بارے میں مفصل مطالب درج ہیں اور دوسروں نے بھی تاریخ طبری سے اقتباس کر کے عاصم بن عمرو کے بارے میں مطالب بیان کئے ہیں ۔طبری ہو یا دیگر مورخین ،عاصم سے مربوط تمام روایتوں کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی کی جعل احادیث اور روایتیں ہیں ''

چونکہ طبری نے عاصم بن عمرو کے بارے میں روایات کو ١٢ھ سے ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ کی کتاب میں مفصل اور واضح طور پر درج کیاہے،اس لئے ہم بھی عاصم کے بارے میں اسی کی تالیف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے بعد تحقیق کرکے حقائق کے پانے کے لئے ١٢ ھ سے ٢٩ھ تک کے حوادث سے مربوط دوسروں کے بیانات کا طبری سے موازنہ کرکے تحقیق کریں گے۔

۲۷۶

عاصم ،خالد کے ساتھ عراق میں

جریر طبری نے ١٢ھ کے تاریخی حوادث وواقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

چونکہ خالد بن ولید یمامہ(۱) کے مرتدوں سے بر سر پیکار تھا،اس لئے عاصم

بن عمرو کو ہراولی دستہ کے طور پر عراق روانہ کیا۔

____________________

١لف۔ یمامہ ،شہر نجد سے بحرین تک ١٠ دن کا فاصلہ ہے۔معجم البلدان۔

۲۷۷

عاصم نے خالد کی قیادت میں ایک سپاہ کے ہمراہ المذار کی جنگ میں شرکت کی اور انوش جان نامی ایرانی سپہ سالار کے تحت المذار میں جمع ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوا۔المقر اور دہانہ فرات باذقلی کی جنگ اور فتح حیرہ کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے طبری لکھتاہے:

خالد ،حیرہ کی طرف روانہ ہوا۔اپنے افراد اور اپناسازو سامان کشتی میں سوار کیا۔حیرہ کے سرحد بان نے اسلامی سپاہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اپنے بیٹے کو بند باندھنے کا حکم دیا تاکہ خالد کی کشتیاں کیچڑ میں دھنس جائیں ، خالد،سرحد بان کے بیٹے کی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور ان میں سے ایک گروہ کو مقر کے مقام پر قتل کیا ،سرحد بان کے بیٹے کو بھی فرات باذقلی کے مقام پر قتل کیا،سرحد بان کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا سرحد بان بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔خالد اپنی فوج کے ہمراہ حیرہ میں داخل ہوا اور اس کے محلوں اور خزانوں پر قبضہ جمالیا۔

خالد نے جب حیرہ کو فتح کیا تو عاصم بن عمرو کو کربلا کی فوجی چھاونی اور اس کے جنگی سازو سامان کی کمانڈ پر منصوب کیا۔

یہ ان مطالب کا ایک خلاصہ تھا جنھیں عاصم اور اس کی جنگوں کے بارے میں طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے.

حموی نے سیف کی روایتوں کے پیش نظر ان کی تشریح کی ہے اور مقر کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے:

مقر ، حیرہ کی سرزمینوں میں سے فرات باذقلی کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔ اس جگہ پر خلافت ابوبکرکے زمانے میں مسلمانوں نے خالد بن ولید کی قیادت میں ایرانیوں سے جنگ کی ہے اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

''سرزمین مقر میں ہم نے آشکارا طور پر اس کے جاری پانی اور وہاں کے باشندوں پر تسلط جمایا اور وہاں پر ان کو (اپنے دشمنوں کو) موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس کے بعد فرات کے دہانہ کی طرف حملہ کیا ، جہاں پر انہوں نے پناہ لی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہم ان ایرانی سواروں سے نبرد آزما ہوئے جو میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہتے تھے۔''

۲۷۸

حیرہ کی تشریح میں یوں کہتا ہے:

حیرہ نجف سے تین میل کی دوری پر ایک شہر ہے...

یہاں تک کہ کہتا ہے:

شہر حیرہ کو حیرة الروحاء کہتے ہیں ، عاصم بن عمرو نے اس جگہ کے بارے میں یوں کہاہے:

''ہم نے پیدل اور سوار فوجوں سے صبح سویر ے حیرۂ روحاپر حملہ کیا اور اس کے اطراف میں موجود سفید محلوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا''۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

یہ وہ مطلب ہیں جو سیف نے کہے ہیں .لیکن ہم نے سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جس نے مقر اور فرات باذقلی کے بارے میں کچھ لکھا ہو! لیکن ، حیرہ کے سرحد بان کے بارے میں جیسا کہ قعقاع ابن عمر و تمیمی کی داستان میں بلاذری سے نقل کرکے بیان کیا گیا ہے: ''ابوبکرکی خلافت کے زمانے میں مثنی نے المذار کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دی اور عمربن خطاب کی خلافت کے زمانے میں عتبہ بن غزوان فتح حیرہ کے لئے مأمور ہوا اور المذار کا سرحدبان اس کے مقابلہ کے لئے آیا اور ان دونوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ ایرانیوں نے شکست کھائی اور وہ سب کے سب پانی میں ڈوب گئے ۔ سرحد بان کا سر بھی تن سے جدا کیا گیا''۔

سند کی پڑتال:

سیف کی حدیث کی سند میں مھلب اسدی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری اور زیاد بن سرجس احمری کا نام راویوں کے طور پر آیا ہے اور اس سے پہلے قعقاع کے افسانے کی تحقیق کے دوران معلوم ہوچکا کہ یہ سب جعلی اور سیف کے خیالی راوی ہیں ۔

ان کے علاوہ ابوعثمان کا نام بھی راوی کے طور پر لیا گیا ہے کہ سیف کی احادیث میں یہ نام دو افراد سے مربوط ہے۔ ان میں ایک یزید بن اسید ہے۔ یہاں پر معلوم نہیں کہ سیف کا مقصود ان دو میں سے کون ہے؟

۲۷۹

پڑتال کا نتیجہ:

المذار کے بارے میں سیف کی روایت دوسروں کی روایت سے ہماہنگ نہیں ہے۔ المقر اور فرات باذقلی کی جنگوں کا بیان کرنے والا سیف تنہا شخص ہے کیونکہ دوسروں نے ان دوجگہوں کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے چہ جائیکہ سیف کے بقول وہاں پر واقع ہوئے حوادث اور واقعات کے ذکر کی بات !!

طبری نے ان اماکن کے بارے میں سیف کی احادیث کواپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم کی رجز خوانی اور رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے ۔

حموی نے مقامات اور جگہوں کے نام کو افسانہ ساز سیف کی روایتوں سے نقل کیا ہے اوراس کے افسانوی سورمائوں کے اشعارورزم ناموں سے بھی استناد کیا ہے،پھر مقر کی بھی اسی طریقے سے تعریف کی ہے ۔اس سلسلے میں عاصم بن عمرو کے اشعار میں '' حیرة الروحاء ''کا اشارہ کرتے ہوئے حیرہ کاذکرکرتا ہے ،جب کہ ہماری نظرمیں ضرورت شعری کا تقاضا یہ تھاکہ سیف لفظ ''روحاء '' کو لفظ ''حیرہ''کے بعد لائے نہ کہ ']روحاء ''کو ''حیرہ''کے لئے اسم اضافہ کے طور پر لائے جیسا کہ حموی نے خیال کیا ہے َ

سیف کی روایات کا نتیجہ :

١۔ ''مقر'' نام کی ایک جگہ کا نام جعل کرکے اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٢۔ایرانیوں کے انوش جان نامی ایک سپہ سالار کی تخلیق ۔

٣۔فرضی اور خیالی جنگی ایام کی تخلیق جو تاریخ میں ثبت ہوئے ہیں ۔

٤۔ان اشعار کی تخلیق جو عربی ادبیات کی زینت بنے ہیں

٥۔عراق میں خالد کی خیالی فتوحات میں ایک اور فتح کا اضافہ کرنا۔

٦۔ اور آخر میں سیف کے خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کے افتخارات کے طور پر اس کی شجاعتوں ،اشعار اور کربلا کی فوجی چھاونی اور اسلحوں پر اس کی کمانڈ کا ذکر کرنا۔ ١

۲۸۰