ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215415 / ڈاؤنلوڈ: 4970
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

قعقاع ایک ہزار سپاہیوں کو اپنی کمانڈ میں لئے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے منازل کو طے کرتے ہوئے اغواث کے دن اپنی وعدہ گاہ، یعنی قادسیہ کے میدان جنگ میں پہنچ جاتاہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرتاہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلہ کی رعایت کرتے ہوئے ایک عظیم طاقت کی صورت میں میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ فوجیوں کی ٹولیوں کی کثرت اسلامی فوج کی ہمت افزائی کا سبب بنیں اور خود پہلی ٹولی کے آگے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اسلامی فوج کو امداد پہنچنے کی نوید دیکر حوصلہ افزائی کرتاہے اور ان سے کہتاہے، جو کام میں کروں تم بھی اسی کو انجام دینا۔ اس کے بعد تن تنہا میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے ہم پلہ مد مقابل کا مطالبہ کرتاہے اور مثنی کے قاتل دشمن کے سپہ سالار ذوالحاجب کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دشمن کے ایک اور سردار اور پہلوان بیرزانِ پارسی کو قتل کرڈالتا ہے۔ اس کی شجاعت کو دیکھ کر اسلامی فوج کے سپاہی ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : یہ وہی پہلوان ہے جس کے بارے میں ابوبکر نے کہا ہے:''جس سپاہ میں یہ پہلوان موجود ہو وہ سپاہ ہرگز شکست نہیں کھائے گی''۔قعقاع کے سپاہی اس کے حکم کے مطابق اس دن شام ہونے تک وقفے وقفے سے ٹولیوں کی صورت میں آکر اسلامی فوج کے ساتھ ملحق ہوتے ہیں اور ہر ٹولی کے پہنچنے پر قعقاع نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے اور مسلمان بھی اس کے جواب میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں ۔ اس طرح دوستوں کے دل قوی ہوتے ہیں اور دشمن متزلزل اور پریشان ہوجاتے ہیں ۔

اسی فرضی اغواث کے دن سعد وقاص ان گھوڑوں میں سے ایک گھوڑا قعقاع کو انعام کے طور پر دیتا ہے، جو خلیفہ عمر نے جنگ قادسیہ کے بہترین پہلوانوں کے لئے بھیجے تھے ۔ قعقاع اس روز تین بہترین رزم نامے کہتا ہے۔

اسی جنگ میں قعقاع اپنے ما تحت افراد کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں کو کپڑے سے اس طرح ڈھانپیں تا کہ وہ ہاتھی جیسے نظر آئیں پھر ان کو دس دس کی ٹولیوں میں ایرانی فوج کے گھوڑسواروں کی طرف روانہ کریں تا کہ وہ وحشت سے اپنے ہی لشکر کی صفوں کو چیرتے ہوئے بھگدڑمچائیں ، پھر خاندان تمیم کے چابک سوار بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ۔

عماس کی شب کو قعقاع اپنے ماتحت افراد کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اسی جگہ پر لے جاتا ہے جہاں پر اغواث کے دن انھیں جمع کرچکاتھا، اور حکم دیتا ہے کہ اس کے افراد

۲۶۱

اغواث کے دن کی طرح لیکن اس دفعہ سو١٠٠ سو١٠٠افراد کی ٹولیوں میں میدان جنگ کی طرف بڑھیں اور

جب سو افراد کی پہلی ٹولی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو دوسری ٹولی آگے بڑھے اور اسی ترتیب سے

دیگر ٹولیاں آگے بڑھیں ۔ اس جنگی حکمت عملی کی وجہ سے مسلمان فوج کا حوصلہ اس روز بھی اغواث کے دن کی طرح مددگار فوج کی آمد کی امیدمیں بلند ہوجاتاہے۔

جب سعد وقاص مشاہدہ کرتا ہے کہ ایرانی فوج کا ہاتھی سوار دستہ اسلامی فوج کی صفوں کو تتربتر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ قعقاع اور اس کے بھائی کو حکم دیتا ہے کہ ان کے راہنما اور آگے آگے چلنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کردیں ۔قعقاع اور اس کا بھائی سفید ہاتھی کی دونوں آنکھیں نکال کر اسے اندھا بنا دیتے ہیں اور قعقاع تلوار کے ایک وار سے اس کی سونڈ کوکاٹ کر جدا کردیتا ہے اور بالاخر اسے مار ڈالنے کے بعد ایک لافانی رزم نامہ لکھتا ہے ۔

جنگ ''لیلة الھریر '' میں قعقاع میدان جنگ کی طرف دوڑ نے میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں پہل کرتا ہے اور ایک شعلہ بیان تقریر کرکے اپنے سپاہیوں کو دشمن سے لڑنے کے لئے جوش دلاتا ہے اور دوسرے پہلوانوں اور دلاوروں کی مدد سے دشمن کے سپہ سالار اعظم رستم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور مشرکین کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیتا ہے ۔اس طرح ایرانی فوج کے تیس سے زائد دستوں کے دلاوروں کے مقابلے میں اسی تعداد میں اسلامی فوج کے دلاور بھی مقابلے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ان میں قعقاع اپنے ہم پلہ پہلوان قارن کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتا ہے اور باقی ایرانی فوجی یا مارے جاتے ہیں یا فرار کر جاتے ہیں ۔اور سعد وقاص حکم جاری کرتا ہے کہ فراریوں کا پیچھا کیا جائے آخر میں سعد وقاص قعقاع کے حق میں ایک قصیدہ بڑھ کر اس کی تمجید و تجلیل کرتا ہے ۔

قادسیہ کی جنگ کی وجہ سے ایک ہزار سات سو قحطانی عورتیں اپنے شوہر وں کے مارے جانے کی وجہ سے بیوہ ہوجاتی ہیں اور قبیلہ مضر کے مہاجرین سے شادیاں کرتی ہیں ان میں قعقاع کی بیوی کی بہن ہنیدہ بھی تھی وہ اپنی بہن کے ذریعہ اپنے لئے شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں قعقاع کا نظریہ معلوم کرتی ہے اور قعقاع چند اشعار کے ذریعہ اس کی راہنمائی کرتا ہے اور فتح بہر سیر کے بارے میں شعر کہتا ہے ۔

۲۶۲

اسلامی فوج کے دریائے دجلہ کو عبور کرتے ہوئے غرقدہ نامی قبیلۂ بارق کا ایک شخص گھوڑے سے گر کر دریا میں ڈوب جاتا ہے ،قعقاع اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساحل تک کھینچ لے آتا ہے اور اسے غرق ہونے سے بچالیتا ہے ۔غرقدہ ایک قوی پہلوان تھا ۔وہ قعقاع کی ستائش کرتے ہوئے کہتا ہے '' عورتیں تجھ جیسا فرزند ہر گز جنم نہیں دے سکتیں ''

قعقاع کا فوجی دستہ'' اہوال'' کے نام سے مشہور تھا ،پہلا فوجی دستہ تھا جس نے مدائن میں قدم رکھا ۔

قعقاع ایرانی شکست خوردہ فراری سپاہیوں کا تعاقب کرتا ہے اور اس کی ایک فراری شخص کے ساتھ مڈبھیڑ ہوتی ہے ،قعقاع اسے قتل کر ڈالتا ہے اور دو چوپایوں پر بار کئے ہوئے اس کے اثاثہ پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیتا ہے ۔جب ان گٹھریوں کو کھول کے دیکھتا ہے تو ان میں ایران ،روم ،ترک اور عرب بادشاہوں کا فو جی سازوسامان پاتا ہے ۔اسلامی فوج کا کمانڈر انچیف سعد وقاص قعقاع کے حاصل کئے ہوئے اس مال غنیمت میں سے روم کے بادشاہ ہر کلیوس کی تلوار اور بہرام کی زرہ قعقاع کو بخش دیتا ہے اور باقی مال خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیتا ہے ۔

جلولا کی جنگ:

جلولاء کی جنگ میں خلیفہ ،سعد وقاص کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک فوجی دستے کی کمانڈدے کر فتح جلولاء کے لئے ہراول دستے کے طور پر ماموریت دے اور جلولاء کو فتح کرنے کے بعد شام تک پھیلے ہوئے ایران کے مغربی علاقوں کی حکومت اس کو سونپے ۔قعقاع جلولاء کی طرف روانہ ہوتا ہے اور پناہ گاہوں میں مورچہ بند ی کئے ہوئے ایرانیوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیتاہے ۔ لیکن ایرانی اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف لوہے کے تیز دھار والے ٹکڑے پھیلاکر اسلامی فوج کے لئے پناہ گاہ تک پہنچنے میں رکاوٹیں گھڑی کرتے ہیں اور صرف اپنے لئے رفت و آمد کا ایک خاص اور محفوظ راستہ بناتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ پناہ گاہ سے باہر نہیں نکلتے یہ حالت اسّی روز تک جاری رہتی ہے ۔

۲۶۳

قعقاع اس مدت میں ایک مناسب فرصت کی انتظار میں رہتا ہے اور اچانک حملہ کرکے رفت و آمد کے تنہا راستہ پر قبضہ جما لیتا ہے اور جنگی حکمت عملی سے مسلمان فوج کو حملہ کے لئے جو ش دلاتا ہے اور یہی امر دشمن کو شکست دینے کا سبب بن جاتا ہے ،اس معرکہ میں مشرکین کے ایک لاکھ فوجی کا م آتے ہیں او رباقی فرار کرتے ہیں اور مسلمان ،فراریوں کا خانقین تک پیچھا کرتے ہیں ۔ فراریوں میں سے بعض مارے جاتے ہیں اور بعض اسیر کئے جاتے ہیں ایرانی فوج کا کمانڈر مہران بھی مارا جاتا ہے ۔

قعقاع اپنی پیش قدمی کو قصر شیریں تک جاری رکھتا ہے ،حلوان کے سرحد بانوں کو قتل کرتاہے فوجی کیمپ اور شہر پر قبضہ کرکے سعد وقاص کے واپس کوفہ پہنچنے تک وہیں پر پڑائو ڈالتا ہے ۔قععقاع نے جلولاء کے بارے میں بھی شعر کہے ہیں ۔

شام سے ابو عبیدہ خلیفہ عمر سے مدد طلب کرتا ہے خلیفہ سعد کو حکم دیتا ہے کہ قعقاع کو ایک سپاہ کی کمانڈ میں ابو عبیدہ کی مدد کے لئے شام روانہ کرے ۔قعقاع چار ہزار جنگجوئوں کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوتا ہے جب مشرکین کو قعقاع اور اس کے سپاہیوں کے آنے کی خبر ملتی ہے تو ابو عبیدہ پر سے محاصرہ اٹھا لیتے ہیں منتشر ہو جاتے ہیں اور ابوعبیدہ ،قعقاع کی مدد کے پہنچنے سے پہلے ہی حمص کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیتا ہے ۔عمر حکم دیتا ہے کہ قعقاع اور اس کے سپاہیوں کو بھی مال غنیمت کی تقسیم میں شریک قرار دیا جائے ۔قعقاع اس مناسبت سے بھی چند شعر کہتاہے ۔

نہاوند کی جنگ :

نہاوند میں ایرانی ،قلعہ میں پناہ لیتے ہیں اور ضرورت کے علاوہ اس سے باہر نہیں نکلتے ہیں ۔ قلعۂ نہاوند پر مسلمانوں کے محاصرہ کا کام طول پکڑتا ہے ۔آخر قعقاع ایک تدبیر سوچتاہے اور جنگ شروع کرتا ہے ،اچانک حملہ کرتا ہے ،جب مشرکین دفاع کرنے لگتے ہیں تو مسلمان پیچھے ہٹتے ہیں ، ایرانی ان کا پیچھا کرتے ہیں اور مسلمان پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ،اس طرح دشمن کو قلعہ سے باہر کھینچ لاتے ہیں ۔ وہ اس حد تک باہر آتے ہیں کہ قلعہ میں قلعہ کے محافظوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہتا ۔اچانک مسلمان مڑ کر تلواروں سے ان پر وار کر دیتے ہیں اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیتے ہیں ،زمین ان کے خون سے بھرجاتی ہے اور ایسی پھسلنی بن جاتی ہے کہ سوار اور پیدل فوجی اس پر پھسل جاتے ہیں جب دن گزر کر رات پہنچ جاتی ہے تو ایرانی شکست کھا کر فرار کرنے لگتے ہیں ۔وہ راہ اور چاہ میں تمیز نہیں کرسکتے اور اپنی کھودی ہوئی خندق اور اس میں جلائی گئی آگ میں ایک ایک کرکے گرتے جاتے ہیں اور جل جاتے ہیں وہ اس آگ سے بھری خندق میں گرتے ہوئے فارسی زبان میں فریاد بلند کرتے ہیں '' وائے خرد'' آخر کار ایک لاکھ انسان اس آگ میں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں یہ تعداد ان مقتولین کے علاوہ ہے جو اس جنگ کے میدان کارزار میں کام آئے تھے !

۲۶۴

نہاوند کی جنگ میں ایرانی فوج کا سپہ سالار فیروزان بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے او ر ہمدان کی طرف فرار کرتا ہے ،قعقاع اس کا پیچھا کرتا ہے اور ہمدان کی گزرگاہ پر اس کے قریب پہنچتا ہے ۔ لیکن گزر گاہ میں موجود شہدکا بار لے جانے والے مویشیوں کی کثرت کی وجہ سے فیروزان گزر گاہ کو عبور نہیں کر سکتا ہے ۔گھوڑے سے اتر کر پہاڑ کی طرف بھاگتا ہے اسی اثنا ء میں قعقاع پہنچ کر اسے وہیں پر قتل کر ڈالتا ہے ۔شہد کا بار لئے ہوئے مویشیوں کے سبب راستہ بند ہونے کے موضوع کی وجہ سے یہ جملہ عام ہو جاتاہے کہ '' خدا کے پاس شہد کی ایک فوج بھی ہے ''

فیروزان کے قتل ہونے کے بعد ہمدان اور ماہان کے باشندے قعقاع سے امان کی درخواست کرتے ہیں ۔امان نامہ لکھا جاتا ہے اور قعقاع اس کی تائید و گواہی میں اس پر دستخط کرتا ہے ۔ وہ اس مناسبت سے بھی اشعار کہتا ہے ۔

قعقاع ،عثمان کے زمانہ میں

خلیفہ عثمان ٣٤ھاور ٣٥ھ میں قعقاع کو کوفہ کے علاقوں کے سپہ سالار اعظم کی حیثیت سے مقرر کرتا ہے ۔

کوفہ میں شورش و فتنہ پرپا ہونے پر قعقاع دیکھتا ہے کہ سبائی مسجد کوفہ میں اجتماع کرکے خلیفہ عثمان کی معزولی وبر طرفی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔قعقاع انھیں دھمکاتا ہے ،سبائی ڈر کے مارے اپنے مطالبات کو چھپاتے ہیں او ر اظہار کرتے ہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ قعقاع ان سے کہتا ہے :تمھارا مطالبہ پورا ہوگا !اس کے بعد انھیں حکم دیتا ہے کہ متفرق ہو جائیں اور اب مسجد میں اجتماع نہ کریں ۔

جب مالک اشتر کوفہ کے گونر کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے شورشیوں اور باغیوں کو اکساتا ہے تو کوفہ کا ڈپٹی گورنر ان کو نصیحت کرتے ہوئے بغاوت کو روکتا ہے ۔قعقاع ڈپٹی گورنر کو صبر کا مظاہر ہ کرنے کا حکم دیتا ہے وہ بھی اس کی بات کو مانتے ہوئے اپنے گھر چلا جاتا ہے۔

۲۶۵

جب سبائی دوبارہ مسجد کوفہ میں ا جتماع کرتے ہیں اور عثمان کے خلاف بد گوئی کرتے ہیں تو قعقاع سبائیوں کو نصیحت کرکے ٹھنڈا کرتا ہے اور وعدہ دیتا ہے کہ عثمان کے مقرر کردہ تمام عہدہ داروں کو برطرف کر دے گا اور ان کے مطالبات قبول کئے جائیں گے ۔

جب عثمان نے مختلف شہروں کے باشندوں سے مدد طلب کی کہ اسے محاصر ہ سے نجات دلائیں تو قعقاع کوفہ سے اور دوسرے لوگ دیگر شہروں سے عثمان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔جب عثمان کو محاصرہ کرنے والے سبائی اس خبر سے مطلع ہوتے ہیں کہ عثمان کے حامی ان کی مدد کے لئے مدینہ کی طرف آرہے ہیں تو فورا ًعثمان کا کام تمام کر دیتے ہیں عثمان کے قتل کی خبر سنتے ہی قعقاع راستے ہی سے کوفہ کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔

۲۶۶

قعقاع ،حضرت علی کے زمانہ میں

جب حضرت علی ـ نے بصرہ میں جنگ جمل کے لئے کوفیوں سے مدد طلب کی اور ابو موسیٰ اشعری نے اس امر میں امام کی نافرمانی کی اور ان کے اور کوفہ کے باشندوں سے اختلافات پیدا ہوئے ،تو قعقاع مصلح کی حیثیت سے آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور انھیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے امام کی دعوت قبول کریں ۔لوگ اس کی نصیحت قبول کرکے امام کی فوج سے ملحق ہوتے ہیں اور خود قعقاع بھی پانچ ہزار سپاہیوں کے ہمراہ امام کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے ۔(۱)

امام حکم دیتے ہیں کہ قعقاع ان کے ایلچی کی حیثیت سے صلح و آشتی برقرار کرنے کے لئے طلحہ ،زبیر اور عائشہ کے پاس جائے ۔قعقاع کی سر گرمیوں اور حسن نیت کی وجہ سے اختلاف وتفرقہ ختم ہونے والا تھا لیکن سبائی اس صلح و آشتی کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیتے ہیں اور طرفین کی بے خبری میں رات کی تاریکی میں دونوں فوجوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں ۔

قعقاع امام کے ہمراہ جنگ میں شرکت کرتے ہوئے خود کو عائشہ کے اونٹ کے نزدیک پہنچا تا ہے اس کے بعد حکم دیتا ہے کہ اونٹ کا کام تمام کردو او ر جنگ کے خاتمہ پر جمل کے خیر خواہوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ : ''تم امان میں ہو''

ام المومنین عائشہ رو نما ہوئے ان حالات پر پشیمان ہوتی ہیں ،امام بھی پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں تمناکرتے ہیں کہ کاش اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر چکے ہوتے!

امام قعقاع کو حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کی بے احترامی کرنے والے دو افراد کو سو سوکوڑے مارے ۔

آخر میں سیف نے ایک ایسی روایت بھی نقل کی ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ قعقاع نے صفین کی جنگ میں بھی شرکت کی ہے ۔

آخر کار معاویہ '' عام الجماعة'' کے بعد حضرت علی ـکے حامیوں اور طرفداروں کو جلاوطن کرتا ہے ۔اور قعقاع کو بھی اسی الزام میں فلسطین کے ایلیا نام کے علاقہ میں جلا وطن کرتا ہے اور ان کی جگہ پر اپنے حامیوں اور رشتہ دارون کو کوفہ میں آباد کرتا ہے ،سیف نے ان جلاوطن ہونے والوں کے نام بھی رکھے اور انھیں ''منتقل ہونے والے '' کہا ہے ۔

____________________

الف )۔تاریخ طبری طبع یورپ ٢١٦١

۲۶۷

احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

لم نجد لهم ذکرا فی غیر احادیث سیف

ہم نے ان راویوں کے نام ، سیف کی روایت کے علاوہ روایتوں کی کسی بھی کتاب میں نہیں پائے۔

(مولف)

ہم نے گزشتہ فصلو ں میں قعقاع کے بارے میں سیف کی روایات پر بحث و تحقیق کی ۔ اب ہم اس فصل میں پہلے ان راویوں کے بارے میں بحث کریں گے جن سے سیف نے روایات نقل کی ہیں اور اس کے بعد ان کتابوں کا جائزہ لیں گے جن میں سیف سے رواتیں نقل کی گئی ہیں ۔

١۔وہ راوی جن سے سیف نے رواتیں نقل کی ہیں

قعقاع بن عمر تمیمی کا افسانہ سیف کی ٦٨روایات میں ذکر ہوا ہے ۔امام المورخین طبری نے ان میں سے اکثر کو اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے ۔جب ہم ان روایات کی سند کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے :

(١) اس کی ٣٨روایات میں محمد کانام راوی کی حیثیت سے ذکر ہواہے ۔سیف اس محمد کو ابن عبد اللہ بن سوادبن نویرہ بتاتاہے اور اختصار کے طور پر اسے محمد نویرہ یا محمد بن عبداللہ اور اکثر صرف محمد کے نام سے ذکر کرتا ہے ۔

(٢) اس کا ایک راوی مہلب بن عتبہ اسدی ہے جس سے اس نے اپنی پندرہ روایات نقل کی ہیں طبری اسے اختصار کے طور پر مہلب ذکر کرتا ہے ۔

(٣) یزید بن اسید غسانی ،اس کا ایک اور راوی ہے ۔اس کا نام اس نے اپنی دس روایات کی سند میں ذکر کیا ہے اور اس کی کنیت ابو عثمان بیان کی ہے ۔

۲۶۸

(٤) سیف کی آٹھ احادیث کا راوی زیاد بن سرجس احمری ہے ۔سیف اختصار کے طور پر اسے زیاد یا زیاد بن سرجس کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(٥) الغصن بن قاسم کنانی ۔

(٦) عبداللہ بن سعید بن ثابت جذع ،اختصار کے طور پر سیف اسے عبداللہ بن سعید یا عبداللہ کے نام سے ذکر کرتا ہے۔

(٧) ظفر بن دہی ،یہ سیف کے ان اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے ہے جنھیں اس نے خود جعل کیا ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ۔

(٨) قعقاع بن عمروتمیمی ،ظفر کے مانند یہ بھی اس کا ایک جعلی صحابی ہے اور اس کی احادیث کا راوی بھی ہے ،

(٩) صعب بن عطیہ بن بلال یہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،جب کہ باپ بیٹے دونوں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں اور ایک ہی انداز کی روایت کرتے ہیں ۔

(١٠) نضر بن سری الضبی ،بعض اوقات اس کا نام سیف کی احادیث میں اختصار کے طور پر نضر ذکر ہواہے ۔

(١١) ابن رفیل ،اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،رفیل کے باپ کو سیف بن عمر ،رفیل بن میسور کے نام سے یاد کرتا ہے ۔

(١٢) عبدالرحمن بن سیاہ احمر ی ،سیف اس کانام لقب کے بغیر ذکرکرتاہے۔

(١٣) مستنیر بن یزید ،اس نام سے سیف کامقصود مستنیر بن یزید نخعی ہے ۔

(١٤) قیس ،سیف اسے مستنیرکابھائی بتاتاہے ۔

(١٥) سہل ،سیف نے اسے سہل بن یوسف سلمی خیال کیاہے ۔

(١٦) بطان بشر

(١٧) ابن ابو مکنف

(١٨) طلحہ بن عبد الرحمان ،اس کی کنیت ابوسفیان بتائی ہے ۔

(١٩) حمید بن ابی شجار

(٢٠) المقطع بن ھیثم بکائی

۲۶۹

(٢١) عبد اللہ بن محفز بن ثعلبہ ،وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے ،باپ بیٹے دونوں سیف کی صرف ایک حدیث کے راوی ہیں ۔

(٢٢) حنظلة بن زیاد بن حنظلۂ تمیمی.

(٢٣) عروة بن ولید

(٢٤) ابو معبد عبسی

(٢٥) جریر بن اشرس

(٢٦) صعصعةالمزنی

(٢٧) مخلد بن کثیر

(٢٨) عصمة الوامکی

(٢٩) عمرو بن ریان

٢۔وہ علما ء جنھوں نے سیف سے روایتیں نقل کی ہے

١۔تمام وہ افسانے جنھیں اب تک ہم نے قعقاع کے بارے میں ذکر کیا ،انہیں پہلی بار سیف بن عمر تمیمی( وفات تقریباً ١٧٠ ھ )نے ''فتوح''اور ''جمل''نامی اپنی دوکتابوں میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

مندرجہ ذیل علماء نے ان کتابوں سے قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے:

٢۔طبری (وفات ٣١٠ھ)نے اپنی کتاب ''تاریخ کبیر''میں ۔

٣۔الرّازی(وفات ٣٧٧ھ )نے کتاب ''جرح و تعدیل''میں ۔

٤۔ابن السکن(وفات ٣٥٣ھ ) نے کتاب ''حروف الصحابہ''میں ۔

٥۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ ھ) نے کتاب ''تاریخ مدینہ و دمشق''میں ۔

ان سے بھی درج ذیل مؤلفین نے اپنی ادبی کتابوں میں سیف کے مطالب کو نقل کیاہے :

٦۔الاصبھانی (وفات ٣٥٦ھ ) نے کتاب ''اغانی''میں ،طبری سے نقل کیا ہے۔

۲۷۰

٧۔ابن بدرون(وفات ٥٦٠ ھ) نے ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح میں طبری سے نقل کیا ہے۔

٨۔ابن عبد البر(وفات ٤٦٣ھ ) نے کتاب ''الاستیعاب'' میں ، سیف کے مطالب کو رازی سے نقل کیا ہے۔

٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے کتاب''اسد الغابہ ''میں ،سیف کے مطالب کو ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے۔

١٠۔ذہبی (وفات ٧٤٨ھ) نے کتاب ''التجرید''میں ابن اثیر سے نقل کیاہے۔

١١۔ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) نے کتاب ''الاصابہ '' میں ان مطالب کو خود سیف بن عمر، طبری ، رازی ، ابن سکن اور ابن عساکر سے نقل کیا ہے۔

سیف کے افسانے تاریخ کی مندرجہ ذیل عمومی کتابوں میں بھی نقل ہوئے ہیں :

١٢۔ابن اثیر(وفات ٦٣٠ھ) نے کتاب ''تاریخ کامل '' میں طبری سے نقل کیا ہے۔

١٣۔ابن کثیر (وفات ٧٧٠ھ ) نے کتاب ''تاریخ البدایہ''میں طبری سے نقل کیاہے۔

جغرافیہ کی کتابوں میں بھی سیف کے افسانے درج کئے گئے ہیں :

١٥۔الحموی(وفات ٦٢٦ ھ) نے کتاب ''معجم البلدان''میں براہ راست سیف بن عمر سے نقل کیاہے۔

١٦۔عبد المؤمن (وفات ٧٣٠ھ) نے کتاب ''مراصدا لاطلاع'' میں حموی سے نقل کیا ہے ۔

١٧۔الحمیری(وفات ٩٠٠ھ ) نے کتاب ''روض المعطار'' میں براہ راست سیف سے نقل کیا ہے۔

قعقاع کے افسانوں کا ان کتابوں میں اشاعت پانا اس امر کاسبب بنا کہ قعقاع کا نام شیعوں کی رجال کی کتابوں میں بھی درج ہوجائے ،جیسے:

۲۷۱

١٨۔شیخ طوسی (وفات ٤٦٠ھ) نے کتاب ''رجال''میں ۔

١٩۔قہپائی (سال تألیف ١٠١٦ھ) نے کتاب ''مجمع الرجال'' میں شیخ کتاب ''رجا ل '' سے نقل کیا ہے۔

٢٠۔اردبیلی(وفات ١١٠١ھ) نے کتاب ''جامع الروات'' میں شیخ کی کتاب رجال سے نقل کیا ہے۔

٢١۔مامقانی ( وفات ١٣٥٠ھ ) نے کتاب ''تنقیح المقال'' میں شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

٢٢۔شوشتری، معاصر نے مامقانی کی کتاب ''تنقیح المقال ''اور شیخ طوسی کی کتاب رجال سے نقل کیاہے۔

قعقاع کے بارے میں

سیف کی سڑسٹھ٦٧ روایتوں کا خلاصہ

قعقاع کی خبر اور اس کے حیرت انگیز افسانوی شجاعتیں اور کارنامے، مذکورہ کتابوں کے علاوہ تاریخ اسلام کے دیگر معتبر مصادر و منابع میں وسیع پیمانے پر، شائع ہوچکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سبوں نے سیف بن عمر تمیمی سے روایت نقل کی ہے۔ کیونکہ سیف مدعی ہے اور وہی روایت کرتا ہے کہ بے مثال اور نا قابل شکست تمیمی پہلوان، قعقاع بن عمرو تمیمی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی رہ چکا ہے اور اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایتیں نقل کی ہیں ، سقیفہ بنی ساعدہ کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں خبر بھی دی ہے، ارتداد اور فتوحات اسلامی کی اکتس جنگوں میں شرکت کی ہے۔ ان جنگوں میں سات لاکھ سے زائد انسان قتل عام ہوئے ہیں ان کے سرتن سے جدا کئے گئے ہیں یا جل کر راکھ ہوئے ہیں ۔ قعقاع بن عمر و تمیمی ان جنگوں کا بے مثال پہلوان اور مرکزی کردار و شیر مرد تھا، اس نے١ ٣ رزم نامے لکھے ہیں ۔

سیف نے ان تمام مطالب کو٦٧،احادیث میں بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر حدیث کو چند راویوں سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے چالیس راوی صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔

اسی طرح سیف نے ایسی جنگوں کا نام لیا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسی جگہوں کا نام لیاہے جو بالکل وجود نہیں رکھتی تھیں اور وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسی جنگوں اور جگہوں کا نام لے کر ان کا تعارف کرایاہے۔

سیف منفرد شخص ہے جو تاریخ اسلا م کے چھبیس سال تک کے ایسے واقعات و حالات کی تشریح کرتا ہے جو ہرگز واقع نہیں ہوئے ہیں اور دیگر کسی بھی خبر بیان کرنے والے نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں ، بلکہ سیف نے تن تنہا ان افسانوں کی ایجاد کرکے اپنے تصور میں تخلیق اور کتابوں میں ثبت کیا ہے۔

۲۷۲

تحقیق کے منابع

ہم نے سیف کی احادیث کے راویوں کی تلاش کے سلسلے میں ان مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا جن میں تاریخ و حدیث کے تمام رایوں کے حالات درج ہیں ، مثال کے طور پر:

٭ '' علل و معرفة الرجال '' تالیف احمد بن حنبل ( وفات ٢٤١ھ)

٭ ''تاریخ بخاری '' تالیف بخاری ( وفات ٣٥٦ھ)

٭ '' جرح و تعدیل'' تالیف رازی(وفات٣٢٧)

٭ '' میزان الاعتدال '' ،والعبر''اور '' تذکرة الحفاظ''تألیف ذہبی (وفات ٧٤٨ھ

٭ ''لسان المیزان ''''تہذیب التہذیب'' ''تقریب التہیب'' اور ''تبصیرالمنتبہ'' تالیف ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ)

٭ '' خلاصة التہذیب '' تالیف صفی الدین ،کتاب کی تالیف کی تاریخ ٩٢٣ھ ہے۔

اس کے علاوہ طبقات کی کتابوں میں ،مثال کے طور پر :

٭ طبقات ابن سعد (وفات ٢٣٠ ھ )

٭ طبقات حنیفة بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)

اسی طرح کتب انساب میں ،جیسے :

٭ ''جمہرة انساب العرب '' تالیف ابن حزم (وفات ٤٥٤ھ)

٭ ''انساب ''سمعانی (وفات ٥٦٢ھ)

٭ ''اللباب '' ابن اثیر (وفات ٦٣٠)

۲۷۳

تحقیق کانتیجہ

ہم نے مذکورہ تمام کتابوں میں انتہائی تلاش و جستجو کی ،صرف انہی کتابوں پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے موضوع سے مربوط مزید دسیوں منابع و مصادر کا بھی مطالعہ کیا ،حدیث کی کتابیں جیسے مسند احمد کا مکمل دورہ اور صحاح ستہ کی تمام جلدیں ،ادبی کتابیں جیسے : ''عقد الفرید'' تالیف عبدالبر (وفات ٣٢٨ھ ) اور ''اغانی'' تالیف اصفہانی (وفات ٣٥٦ھ) اور ان کے علاوہ بھی دسیوں کتابوں کی ورق گردانی کی تاکہ سیف ابن عمر کے ان راویوں میں سے کسی ایک کا پتا چل جائے ،جن سے اس نے سیکڑوں احادیث روایت کی ہیں ،لیکن ان راویوں کے ناموں کا ہمیں سیف کے علاوہ کہیں نشان نہ ملا!اس بنا ء ہم ان تمام راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔انشاء اللہ جہاں ہم سیف کے جعلی راویوں کے بارے میں بحث کریں گے وہاں سیف کی زبانی ان کی زندگی کے حالات کی بھی تشریح کریں گے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے قعقاع کی روایات میں چند منفرد نام بھی راویوں کے طور پر ذکر کئے ہیں ،جیسے :

'' خالد کو تین روایات میں ،عبادہ کو دو روایات میں اور عطیہ و مغیرہ اور دیگر چند مجہول القاب و نام ،جن کی شناسائی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر کیسے ممکن ہے کہ سیف کے درج ذیل عنوان کے راویوں کی پہچان کی جا سکے :

''بنی کنانہ کا ایک مرد '' ،''بنی ضبہ کا ایک مرد ''،'' طی سے ایک مرد '' بنی ضبہ کا ایک بوڑھا '' ''اس سے جس نے خود بکر بن وائل سے سنا ہے '' ،ان سے جنھوں نے اپنے رشتہ داروں سے سنا ہے ''، ابن محراق نے اپنے باپ سے '' اور'' ان جیسے دیگر مجہول راوی جن سے سیف نے روایت کی ہے ؟!

تقریبا یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سیف ابن عمرتمیمی نے ایسے راویوں کا ذکر کرتے وقت سنجیدگی کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ لوگوں کو بے وقوف بنایا ہے اور مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے ۔

مذکورہ حالات کے پیش نظر قارئین کرام کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب سیف کی احادیث کے راویوں کی یہ حالت ہوتوخود سیف کی احادیث اور اس کی باتوں پر کس حد تک اعتبار اور بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟!

۲۷۴

چوتھا حصہ :

٢۔عاصم بن عمر و تمیمی

٭ عراق کی جنگ میں ۔

٭ ''دومة الجندل'' کی جنگ میں ۔

٭ مثنی کی جنگ میں ۔

٭ قادسیہ کی جنگ میں ۔

٭ جراثیم کے دن ۔

٭ سرزمین ایران میں ۔

٭ عاصم کے فرزند اور خاندان ۔

٭ عاصم کے بارے میں سیف کی احادیث کے راوی

۲۷۵

عاصم ،عراق کی جنگ میں

مصدر الجمیع فی ماذکروا هواحادیث سیف

جو کچھ علماء نے عاصم کے بارے میں لکھا ہے وہ سب سیف سے منقول ہے

( مولف )

عاصم کون ہے ؟

سیف بن عمر نے عاصم کو اپنے خیال میں قعقاع کا بھائی اور عمرو تمیمی کا بیٹا جعل کیا ہے اور اس کے لئے عمر و نامی ایک بیٹا بھی خلق کیا ہے کہ انشاء اللہ ہم باپ کے بعد اس کے اس بیٹے کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے ۔

عاصم بن عمر و سیف کے افسانوی سورمائوں کی دوسری شخصیت ہے کہ شجاعت ،دلاوری ،فہم و فراست ،سخن وری اور شعر و ادب وغیرہ کے لحاظ سے بھی سیف کے افسانوں میں اپنے بھائی قعقاع کے بعد دوسرے نمبر کا پہلوان ہے ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں عاصم بن عمرو کی یوں تعریف کی ہے :

''عاصم ،خاندان بنی تمیم کا ایک دلاور اور اس خاندان کے نامور شاعروں میں سے ہے ''

ابن عساکر بھی اپنی عظیم تاریخ میں عاصم کی یوں تعریف کرتا ہے :

'' عاصم قبیلہ بنی تمیم کا ایک پہلوان اور اس خاندان کا ایک مشہور شاعر ہے ۔''

'' استیعاب'' اور تجرید '' جیسی کتابوں میں بھی اس کی تعریف کی گئی ہے ۔تاریخ طبری میں بھی اس کے بارے میں مفصل مطالب درج ہیں اور دوسروں نے بھی تاریخ طبری سے اقتباس کر کے عاصم بن عمرو کے بارے میں مطالب بیان کئے ہیں ۔طبری ہو یا دیگر مورخین ،عاصم سے مربوط تمام روایتوں کا سر چشمہ سیف بن عمر تمیمی کی جعل احادیث اور روایتیں ہیں ''

چونکہ طبری نے عاصم بن عمرو کے بارے میں روایات کو ١٢ھ سے ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں اپنی تاریخ کی کتاب میں مفصل اور واضح طور پر درج کیاہے،اس لئے ہم بھی عاصم کے بارے میں اسی کی تالیف کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے بعد تحقیق کرکے حقائق کے پانے کے لئے ١٢ ھ سے ٢٩ھ تک کے حوادث سے مربوط دوسروں کے بیانات کا طبری سے موازنہ کرکے تحقیق کریں گے۔

۲۷۶

عاصم ،خالد کے ساتھ عراق میں

جریر طبری نے ١٢ھ کے تاریخی حوادث وواقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

چونکہ خالد بن ولید یمامہ(۱) کے مرتدوں سے بر سر پیکار تھا،اس لئے عاصم

بن عمرو کو ہراولی دستہ کے طور پر عراق روانہ کیا۔

____________________

١لف۔ یمامہ ،شہر نجد سے بحرین تک ١٠ دن کا فاصلہ ہے۔معجم البلدان۔

۲۷۷

عاصم نے خالد کی قیادت میں ایک سپاہ کے ہمراہ المذار کی جنگ میں شرکت کی اور انوش جان نامی ایرانی سپہ سالار کے تحت المذار میں جمع ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوا۔المقر اور دہانہ فرات باذقلی کی جنگ اور فتح حیرہ کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے طبری لکھتاہے:

خالد ،حیرہ کی طرف روانہ ہوا۔اپنے افراد اور اپناسازو سامان کشتی میں سوار کیا۔حیرہ کے سرحد بان نے اسلامی سپاہ کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے اپنے بیٹے کو بند باندھنے کا حکم دیا تاکہ خالد کی کشتیاں کیچڑ میں دھنس جائیں ، خالد،سرحد بان کے بیٹے کی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور ان میں سے ایک گروہ کو مقر کے مقام پر قتل کیا ،سرحد بان کے بیٹے کو بھی فرات باذقلی کے مقام پر قتل کیا،سرحد بان کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا سرحد بان بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔خالد اپنی فوج کے ہمراہ حیرہ میں داخل ہوا اور اس کے محلوں اور خزانوں پر قبضہ جمالیا۔

خالد نے جب حیرہ کو فتح کیا تو عاصم بن عمرو کو کربلا کی فوجی چھاونی اور اس کے جنگی سازو سامان کی کمانڈ پر منصوب کیا۔

یہ ان مطالب کا ایک خلاصہ تھا جنھیں عاصم اور اس کی جنگوں کے بارے میں طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے.

حموی نے سیف کی روایتوں کے پیش نظر ان کی تشریح کی ہے اور مقر کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے:

مقر ، حیرہ کی سرزمینوں میں سے فرات باذقلی کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے۔ اس جگہ پر خلافت ابوبکرکے زمانے میں مسلمانوں نے خالد بن ولید کی قیادت میں ایرانیوں سے جنگ کی ہے اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:

''سرزمین مقر میں ہم نے آشکارا طور پر اس کے جاری پانی اور وہاں کے باشندوں پر تسلط جمایا اور وہاں پر ان کو (اپنے دشمنوں کو) موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس کے بعد فرات کے دہانہ کی طرف حملہ کیا ، جہاں پر انہوں نے پناہ لی تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہم ان ایرانی سواروں سے نبرد آزما ہوئے جو میدان جنگ سے بھاگنا نہیں چاہتے تھے۔''

۲۷۸

حیرہ کی تشریح میں یوں کہتا ہے:

حیرہ نجف سے تین میل کی دوری پر ایک شہر ہے...

یہاں تک کہ کہتا ہے:

شہر حیرہ کو حیرة الروحاء کہتے ہیں ، عاصم بن عمرو نے اس جگہ کے بارے میں یوں کہاہے:

''ہم نے پیدل اور سوار فوجوں سے صبح سویر ے حیرۂ روحاپر حملہ کیا اور اس کے اطراف میں موجود سفید محلوں کو اپنے محاصرہ میں لے لیا''۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

یہ وہ مطلب ہیں جو سیف نے کہے ہیں .لیکن ہم نے سیف کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جس نے مقر اور فرات باذقلی کے بارے میں کچھ لکھا ہو! لیکن ، حیرہ کے سرحد بان کے بارے میں جیسا کہ قعقاع ابن عمر و تمیمی کی داستان میں بلاذری سے نقل کرکے بیان کیا گیا ہے: ''ابوبکرکی خلافت کے زمانے میں مثنی نے المذار کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دی اور عمربن خطاب کی خلافت کے زمانے میں عتبہ بن غزوان فتح حیرہ کے لئے مأمور ہوا اور المذار کا سرحدبان اس کے مقابلہ کے لئے آیا اور ان دونوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ ایرانیوں نے شکست کھائی اور وہ سب کے سب پانی میں ڈوب گئے ۔ سرحد بان کا سر بھی تن سے جدا کیا گیا''۔

سند کی پڑتال:

سیف کی حدیث کی سند میں مھلب اسدی ، عبد الرحمان بن سیاہ احمری اور زیاد بن سرجس احمری کا نام راویوں کے طور پر آیا ہے اور اس سے پہلے قعقاع کے افسانے کی تحقیق کے دوران معلوم ہوچکا کہ یہ سب جعلی اور سیف کے خیالی راوی ہیں ۔

ان کے علاوہ ابوعثمان کا نام بھی راوی کے طور پر لیا گیا ہے کہ سیف کی احادیث میں یہ نام دو افراد سے مربوط ہے۔ ان میں ایک یزید بن اسید ہے۔ یہاں پر معلوم نہیں کہ سیف کا مقصود ان دو میں سے کون ہے؟

۲۷۹

پڑتال کا نتیجہ:

المذار کے بارے میں سیف کی روایت دوسروں کی روایت سے ہماہنگ نہیں ہے۔ المقر اور فرات باذقلی کی جنگوں کا بیان کرنے والا سیف تنہا شخص ہے کیونکہ دوسروں نے ان دوجگہوں کا کہیں نام تک نہیں لیا ہے چہ جائیکہ سیف کے بقول وہاں پر واقع ہوئے حوادث اور واقعات کے ذکر کی بات !!

طبری نے ان اماکن کے بارے میں سیف کی احادیث کواپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم کی رجز خوانی اور رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے ۔

حموی نے مقامات اور جگہوں کے نام کو افسانہ ساز سیف کی روایتوں سے نقل کیا ہے اوراس کے افسانوی سورمائوں کے اشعارورزم ناموں سے بھی استناد کیا ہے،پھر مقر کی بھی اسی طریقے سے تعریف کی ہے ۔اس سلسلے میں عاصم بن عمرو کے اشعار میں '' حیرة الروحاء ''کا اشارہ کرتے ہوئے حیرہ کاذکرکرتا ہے ،جب کہ ہماری نظرمیں ضرورت شعری کا تقاضا یہ تھاکہ سیف لفظ ''روحاء '' کو لفظ ''حیرہ''کے بعد لائے نہ کہ ']روحاء ''کو ''حیرہ''کے لئے اسم اضافہ کے طور پر لائے جیسا کہ حموی نے خیال کیا ہے َ

سیف کی روایات کا نتیجہ :

١۔ ''مقر'' نام کی ایک جگہ کا نام جعل کرکے اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٢۔ایرانیوں کے انوش جان نامی ایک سپہ سالار کی تخلیق ۔

٣۔فرضی اور خیالی جنگی ایام کی تخلیق جو تاریخ میں ثبت ہوئے ہیں ۔

٤۔ان اشعار کی تخلیق جو عربی ادبیات کی زینت بنے ہیں

٥۔عراق میں خالد کی خیالی فتوحات میں ایک اور فتح کا اضافہ کرنا۔

٦۔ اور آخر میں سیف کے خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کے افتخارات کے طور پر اس کی شجاعتوں ،اشعار اور کربلا کی فوجی چھاونی اور اسلحوں پر اس کی کمانڈ کا ذکر کرنا۔ ١

۲۸۰

عاصم ،دومة الجندل کی جنگ میں

ترکنا هم صرعی لخیل تنوبهم تنافسهم فیها سباع المرجب

ہم نے دشمن کے سپاہیوں کا اس قدر قتل عام کیا کہ لاشیں گھوڑوں سے پامال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزرگاہ بن گئیں

(عاصم ،افسانوی سورما)

دو مة الجندل کی فتح

طبری نے ''دومة الجندل ''کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے حسب ذیل روایت کی ہے :

مختلف عرب قبیلوں نے جن میں ودیعہ کی سرپرستی میں قبیلہ کلب بھی موجود تھا اپنے تمام سپاہیوں کو ایک جگہ پر جمع کیا ۔اس منسجم فوج کی قیادت کی ذمہ داری اکید ر بن عبد الملک اور جودی بن ربیعہ نامی دو افراد نے سنبھالی ۔

اکیدر کا نظریہ تھا کہ خالد بن ولید سے صلح کرکے جنگ سے پرہیز کیا جائے جب اکیدر کی تجویز عوام کی طرف سے منظور نہیں ہوئی تو اس نے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔خالد بن ولید نے عاصم بن عمر و کو حکم دیا کہ اکیدر کو راستے سے پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے خالد کے حکم سے اکیدر کو قتل کیا گیا. اس کے بعد خالد بن ولید نے دومة الجندل پر حملہ کیا ۔

دوسری جانب مختلف عرب قبیلے ،جنھوں نے خالد سے جنگ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد و معاہدہ کیا تھا ،قلعہ دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے ۔چوں کہ اس قلعہ میں ان تمام لوگوں کے لئے گنجائش نہیں تھی ،اس لئے ان میں سے بیشتر افراد قلعہ سے باہر مورچے سنبھالنے پر مجبور ہوئے۔ خالد بن ولید نے ان سے جنگ کی سر انجام اس نے ان پر فتح پائی جودی بھی مارا گیا ۔قبیلہ کلب کے علاوہ تمام افراد مارے گئے ۔کیوں کہ عاصم بن عمرو نے دشمن پر فتح پانے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ :اے قبیلہ تمیم کے لوگو!اپنے قدیمی ہم پیمان ساتھیوں کو اسیر کرکے انھیں پناہ دو کیوں کہ انھیں فائدہ پہنچانے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا ۔تمیمیوں نے ایسا ہی کیا ۔اس طرح قبیلہ کلب کے لوگ بچ گئے ۔ خالد بن ولید عاصم کے اس عمل سے ناخوش ہوا اور اس کی سرزنش کی ۔

۲۸۱

ان مطالب کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم بن عمر و کی زبانی کہے گئے سیف کے اشعار کو ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر نے اس داستان کے ایک حصہ کو اپنی تاریخ میں عاصم کے حالات سیف سے نقل کرتے ہوئے درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھا ہے:....اور عاصم نے دو مة الجندل کے بارے میں یوں کہا ہے :

''میں جنگوں میں کارزار کے انداز کو کنٹرول میں رکھتا ہوں ،دوستوں کی حمایت کرتاہوں ،انھیں تنہانہیں چھوڑتا ہوں ۔شام ہوتے ہی جب ودیعہ نے اپنے سپاہیوں کو مصیبتوں کے دریا میں ڈال دیا ،میں نے جب دومة الجندل میں دیکھا کہ وہ غم واندوہ میں ڈوبے خون جگر پی رہے ہیں تو میں نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ،لیکن اپنے ہم پیمان ،کلب کے افراد کا خیال رکھ کر اپنے قبیلہ کے لئے ایک بڑی نعمت فراہم کی ''

یاقوت حموی نے بھی اس داستان کے ایک حصہ کو روضة السلہب اور دومة الجندل کے ناموں کی مناسبت سے اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

''روضة السلہب عراق کے دومة الجندل میں واقع ہے ،اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں جن کے ضمن میں خالد بن ولید کی دومة الجندل کی جنگ کا اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

'' روضة السلہبکے دن دشمن خاک و خون میں غرق تھے ،وہ ہمارے دلوں کے لئے شفابخش منظر تھا کیوں کہ ان کے سردار کی ہوائے نفس نے انھیں فریب دیا تھا ۔اس دن ہم نے تلواروں کی ایک ضرب سے جودی کا کام تمام کیا اور اس کے سپاہیوں کو زہر قاتل پلا یا ۔انھیں قتل عام کیا ،ان کی لاشیں گھوڑوں سے پائمال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزر گاہ بن گئیں ''

۲۸۲

سیف بن عمر اپنے افسانوی سورما ،عاصم بن عمرو کے زبانی بیان کردہ اشعار کے ضمن میں پہلے مذکورہ قبائل کی جنگ بیان کرتا ہے اور اس میں قبیلہ کلب کے پیشوا''ودیعہ''کی نا اہلی کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو ہلاکت و نابود ی اور مصیبت سے دوچار کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اورثابت کرتاہے کہ عاصم نے قبیلہ کلب کے ساتھ اپنے قبیلہ کے عہد و پیمان کو فراموش نہیں کیا تھا ۔اور وہ اس معاہدہ پر اس کے خاندان کے لئے فضیلت وافتخار کا سبب باقی رہا ۔اس دن اس عہد نامہ کا پاس رکھتے ہوئے اس نے اپنے قبیلہ ادر قبیلہ کلب پر احسان کیا اور اس طرح اس نے قبیلہ کلب کے افراد کو یقینی مو ت سے نجات دی ہے ۔

عاصم کے اشعار کے دوسرے حصے میں تمام عرب قبیلوں کو شامل کیا گیا ہے اور ان میں ان کے احمقانہ اقدام کی وجہ سے بدترین انجام اور ان کے قائد جودی کی شکست کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔

''لسان ''اور ''ملطاط''کی تشریح

حموی نے لفظ ''الملطاط ''کی حسب ذیل تشریح کی ہے :

عرب ،کوفہ کے مشرقی علاقے جو کوفہ کے پیچھے واقع ہے کو ''لسان''اور اس کے دریائے فرات کے قریب واقع مغربی علاقے کو ''ملطاط''کہتے ہیں ....عاصم بن عمرو تمیمی نے خالد بن ولید کے ساتھ کوفہ و بصرہ کے در میان سر زمینوں کو فتح کرکے ''حیرہ''کو اپنے قبضے میں لیتے وقت اس طرح کہا ہے :

''ہم نے سواری کے گھوڑوں اور تیز رفتار اونٹوں کو عراق کے وسیع آبادی والے علاقوں کی طرف روانہ کیا ۔ان حیوانوں نے اس دن تک ہم جیسے چابک سوار کبھی نہیں دیکھے تھے اور کسی نے اس دن تک ان جیسے بلند قامت حیوان بھی نہیں دیکھے تھے۔''

ہم نے فرات کے کنارے ''ملطاط''کو اپنے ان سپاہیوں سے بھردیا جو کبھی فرار نہیں کرتے۔ ہم نے ''ملطاط ''میں فصل کاٹنے کے موسم تک توقف کیا ۔اس کے بعد ہم ''انبار''کی طرف بڑھے ،جہاں پر ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے دشمن کے جنگجو بڑی تعداد میں موجود تھے ۔''بحیرہ''میں جمع ہوئے سپاہیوں کے ساتھ ہماری سخت اور شدید جنگ ہوئی۔

۲۸۳

جب ہم سیف کی معروف روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ابیات اسی شرح کے ساتھ من وعن اس کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں ۔مثلا لفظ '' ملطاط''سیف کی چار روایتوں میں طبری کی کتاب ''تاریخ طبری ''میں ذکر ہوا ہو،من جملہ ٧١ ھمیں سعد بن وقاص کے ذریعہ کوفہ کے حدود کو معین کرتے ہوئے طبری لکھتا ہے :

عربوں کے امراء اور معروف شخصیتوں نے سعد وقاص کی توجہ ''لسان''نامی کوفہ کے پیچھے واقع علاقہ کی طرف مبذول کرائی

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

وہ حصہ جو دریائے فرات کے نزدیک ہے ،اسے ''ملطاط ''کہا جاتا ہے ۔اب رہے اس سے مربوط اشعار تو ہم ان سب کو تاریخ ابن عساکر میں عاصم بن عمرو کی تشریح میں پاتے ہیں ،جہاں پر لکھتا ہے :

سیف بن عمرو کہتا ہے :...اور عاصم بن عمرو اور اس کے علاقہ ''سواد''میں داخل ہونے (کوفہ اور بصرہ و موصل کے در میان کے رہائشی علاقہ )اور وہاں پر ان کے ٹھہرنے کی مدت اور پیش آئے مراحل کو ان اشعار میں بیان کرتا ہے :...اس کے بعد اشعار کو آخر تک درج کرتا ہے ۔

داستان کے متن کی چانچ:

''دومة الجندل'' کی فتح کے بارے میں یہ سیف کی روایتیں ہیں ،جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔طبری کے بعدابن اثیر نے ان ہی روایتوں کو اختصار کے طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا ہے اور اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔ لیکن ابن کثیر نے اس داستان کی روایتوں کی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اور اس کے مصدر کو معین کئے بغیر ،پوری داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔

حموی نے ''دومة ''و ''حیرہ ''کی تشریح میں سیف کے بعض اشعار اور روایا ت کا ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ ان مطالب کو اس نے کہاں سے نقل کیا ہے ۔

۲۸۴

اصل بات یہ ہے کہ عراق میں ''دومة الجندل ''نام کی کوئی جگہ تھی ہی نہیں ،بلکہ ''دومة الجندل ''مدینہ سے دمشق جاتے ہوئے ساتویں پڑائو پر شام میں ایک قلعہ تھا۔اور عراق میں ''دوما'' یا ''دومہ''کے نام پر ایک جگہ تھی ،جسے ''دومة الحریر ''بھی کہتے تھے۔وہاں پر واقع ہونے والی جنگ میں ''اکیدر ''مارا گیاہے۔اس کے بعد خالد نے شام کی طرف رخت سفر باندھا اور ''دومة الجندل ''پر حملہ کیااور اسے فتح کرنے کے بعد جن افراد کو اسیر کیا ان میں جودی غسانی کی بیٹی لیلیٰ بھی تھی۔

لیکن ''ربیعہ''و''روضة سلھب ''نام کی ان دو جگہوں کو ہم نے کسی کتاب میں نہیں پایا اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سیف نے ان مقامات کے ناموں کاذکر کرنے میں ہرگز غفلت،فراموشی اور غلط فہمی سے کام نہیں لیا ہے کہ شام میں واقع ''دومة الجندل''اور عراق میں ''دومة الجندل ''میں کوئی فرق نہ کرپائے اورایک کو دوسرے کی جگہ تصور کرلے ۔بلکہ سیف سے دروغ بافی ،افسانہ نگاری ،اشخاص اورمقامات کے تخلیق کرنے کا جو ہم گزشتہ تجربہ رکھتے ہیں ،اس کے پیش نظر اس نے عراق کے لئے بھی عمدا ''دومة الجندل''نام کی ایک جگہ تخلیق کی ہے اوراس کے لئے ایک علیٰحدہ اور مخصوص میدان کارزار تخلیق کیا ہے تا کہ محققین کے اذہان کو بیشتر گمراہ کرے اور تاریخ اسلام کو مضحمل ، سست و بے اعتبا ر بنائے ۔

سند کی پڑتا ل :

سیف نے ''دومة الجندل''کی داستان کے راوی کے طور پر محمد نویرہ، ابوسفیان طلحہ بن عبد الرحمان اور مھلب کا ذکر کیا ہے ۔ہم نے قعقاع سے مربوط افسانوی داستانوں میں ان کو راویوں کی حیثیت سے مکرر دیکھا ہے اور معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں افراد سیف کے ذہن کی تخیلق ہیں اور حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ۔

''ملطاط'' سے متعلق روایت میں نضر بن سری ،ابن الرفیل اور زیاد کو راویوں کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ ان کے بارے میں بھی قعقاع کی داستانوں میں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

۲۸۵

تحقیق کا نتیجہ :

سیف اپنے افسانوں میں مختلف مناطق ،خاص کر تاریخی اہمیت کے خطّوں کے سلسلے میں ، ''دومة ''جیسے ہم نام مقامات کی تخلیق کرکے محققین کو حیرت اور تعجب میں ڈالتا ہے ۔اس کے با وجود طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق کے ''دومة الجندل''کی جنگ کے افسانوں کی روایت کرتا ہے اور اپنی روش کے مطابق صرف عاصم کے رزم ناموں کو حذف کرتا ہے ۔

ابن عساکر بھی ان اشعار کے ایک حصہ کی روایت کرتاہے اور اس کی سندکی سند کے طور پر سیف ابن عمرتمیمی کا نام لیتا ہے ۔اس کے ایک حصہ کو حموی بھی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔اسی طرح حموی ''ملطاط ''کی بھی تشریح کرتا ہے اور عاصم ابن عمرو کے اشعار کو شاہد کے طور پر درج کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں اپنی روایت کی سند کا نام نہیں لیتا ،جب کہ ''ملطاط''کے بارے میں اسی تشریح کو ہم اول سے آخر تک تاریخ طبری میں سیف سے نقل شدہ دیکھتے ہیں ،اور عاصم کے اشعار کو بھی ابن عساکر کی روایت کے مطابق ،سیف بن عمرسے منقول تاریخ ابن عساکر میں مشاہدہ کرتے ہیں ۔٢

اس داستان کے نتائج:

١۔خالد مضری کے لئے عراق میں جنگوں اور فتوحات کی تخلیق کرکے عام طور پر اس کی تحسین اور بڑائی کا اظہار کرانا ۔

٢۔ایک دوسرے سے دور دوعلاقوں عراق اور شام میں ایک ہی نام کی دو جگہوں کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں ،خاص کر حموی کی کتاب ''المشترک '' میں درج کرانا اور محققین کو حیرت و پریشانی سے دوچار کرنا۔

٣۔اشعار اور رزم ناموں سے ادبیات عرب کے خزانوں کو زینت دینا۔

٤۔ سرانجام ان تمام افسانوں کا ماحصل یہ ہے کہ عاصم بن عمرو تمیمی جیسے افسانوی سور ماکی شجاعتوں ،رجز خوانیوں اور خاندانی معاہدوں کی رعایت جیسے کارناموں کی اشاعت کرکے انھیں ہمیشہ کے لئے عام طور سے قبیلہ مضر اور خاص طور پر خاندان تمیم کے افتخارات میں شامل کیا جائے اور یہ باتیں امام المورخین محمد جریر طبری کی کتاب تاریخ میں درج ہوں تاکہ دوسرے مورخین کے لئے اس کے معتبر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔

۲۸۶

عاصم وخالد کے باہمی تعاون کا خاتمہ

طبری اس سلسلے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

''فراض ''کی جنگ کے بعد خالد بن ولید نے ارادہ کیا کہ سب سے چھپ کے خاموشی کے ساتھ حج کے لئے مکہ چلاجلائے ،تو اس نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ساتھ ''حیرة''جانے کا حکم دیا۔

اس کے علاوہ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں خالد بن ولید کے شام کی طرف روانگی کے سلسلے میں لکھتا ہے :

شام میں مشرکین سے جنگ میں مشغول مسلمانوں نے خلیفہ ابوبکر سے مدد کی در خواست کی۔ ابوبکر نے خالد کو ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام کی طرف روانہ ہوجائے ۔اس غرض سے وہ عراق میں موجود فوج میں سے آدھے حصے کو اپنے ساتھ لیتا ہے اور باقی حصے کو المثنی بن حارثہ شیبانی کی قیادت میں عراق میں ہی رکھتا ہے۔اس تقسیم میں خالد کسی ایسے پہلوان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب نہیں کرتا ،مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان مثنی کے لئے چھوڑ تاہے ۔

فوج کی اس تقسیم میں خالد ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کا اپنے لئے انتخاب کرتا ہے اور غیر اصحاب کو مثنی کے پاس چھوڑتا ہے ۔

مثنی نے اس تقسیم پر اعتراض کیا اور تقاضا کیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو خالد اپنے ساتھ لے جائے اور ایک حصہ کو مثنی کے پاس رکھے ۔ خالد،مثنی کی اس تجویز کو منظور کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے قعقاع بن عمرو تمیمی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرتا ہے اور دوسرے صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمرو تمیمی قعقاع کے بھائی کو مثنی کے پاس چھوڑ دیتا ہے ۔

۲۸۷

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ تھاان مطالب کا خلاصہ جنھیں سیف نے عاصم وخالد کے باہمی تعاون کے خاتمہ کے طور پر ذکر کیا تھا۔لیکن اس سلسلے میں دوسرے مورخین کے حسب ذیل نظریات سے سیف ابن عمر تمیمی کے افسانے کا پول کھل جاتاہے:

اس سلسلے میں ابن عساکر ،ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کرتا ہے:

جس وقت خالد بن ولید ''حیرة''میں تھا ،خلیفہ ابوبکر نے اسے ایک خط لکھا اور حکم دیا کہ اپنے بہادر اور کار آمد سپاہیوں کے ساتھ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ ہو جائے ۔اور اپنے باقی بے کار اور سست و کمزور سپاہیوں کو ان ہی میں سے ایک کی قیادت میں وہیں پر چھوڑ دے ۔

ابن عساکر نے ابو بکر کے خط کا متن یوں نقل کیا ہے :

''اما بعد ،عراق سے روانہ ہو جائو اور ان عراقیوں کو وہیں پر رکھو جو تمھارے وہاں پہنچنے پر وہیں موجود تھے اور اپنے طاقتور ساتھیوں جو یمامہ سے تمھارے ساتھ عراق آئے ہیں یا حجاز سے آکر تمھارے ساتھ ملحق ہوئے ہیں کے ساتھ

روانہ ہو جائو ....''

سند کی پڑتال :

سیف کی اس افسانوی داستان کے راوی محمد مہلب اور ظفر بن دہی ہیں کہ قعقاع کی افسانوی داستان میں مکرر ان کی اصلیت معلوم ہو چکی ہے ۔

اس کے علاوہ اس روایت کا ایک اور راوی طلحہ ہے ۔سیف کی روایت میں طلحہ کا نام دو راویوں میں مشترک ہے ،ان میں سے ایک اصلی راوی ہے ۔یہاں پر معلوم نہ ہو سکا کہ ان دو میں سے سیف کا مقصود کون سا طلحہ ہے ؟!

اس کے علاوہ ''قبیلہ بنی سعد سے ایک مرد'' کے عنوان سے بھی ایک راوی کا ذکر ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اس کانام کیا تصور کیا تھا تاکہ ہم اس کے بارے میں تحقیق کرتے ؟!

۲۸۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

سیف کہتا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ اپنی فوج میں سے ایک حصہ کو شام لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور اس انتخاب میں کسی ایسے پہلوان کو اپنے لئے انتخاب نہ کرے ، مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان المثنی کے لئے وہاں پر رکھے ۔خالد نے تمام اصحاب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کو اپنے لئے انتخاب کرنا چاہا ،لیکن مثنی نے اس پر اعتراض کیا اور اسے مجبور کیا کہ آدھے اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے لئے وہاں چھوڑے ۔

لیکن دوسرے مورخین کہتے ہیں کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ فوج میں سے قوی اور کار آمد سپاہیوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور بے کار اور سست افراد کو وہیں پر چھوڑ دے اس کے علاوہ اپنے افراد کو ان لوگوں میں انتخاب کرے جو اس کے ساتھ عراق آئے تھے ۔ یہ بات شام کے حالات اور جنگ کی پوزیشن اور رومیوں کے آزمودہ اور تجربہ کار فوجیوں سے جنگ کے پیش نظر مناسب نظر آتی ہے ۔

شاید ایسی داستان دجعل کرنے سے سیف کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعہ اپنے وطن عراق کے جنگجوئوں کی تجلیل کرے ،کیوں کہ اس افسانے کے ذریعہ وہ عراقی فوجیوں کے ایک حصہ کو اسلامی سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ کرتا ہے اور فتحیاب بھی ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرے نتائج بھی حاصل کرتا ہے ۔٣

اس داستان کا نتیجہ :

اس داستان کو جعل کرنے میں سیف کی نظر میں موجود تمام مقاصد کے علاوہ سیف اپنی روایت میں واضح طور پر یہ تاکید کرتا ہے کہ اس کے افسانوی سورما ئوں قعقاع اور عاصم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور یہ دونوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔اس طرح سیف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں قعقاع اور عاصم دو اصحاب کا اضافہ کرتا ہے ۔

۲۸۹

عاصم ،نمارق کی جنگ میں

هذا واکثرمن هذا من نتائج خیال سیف الحصب

یہ داستان اور ایسی دوسری بہت سی داستانیں ،سیف کے ذہن کی پیدا وار ہیں

(مولف)

جنگ نمارق کی داستان

طبری نے جنگ'' نمارق ''( ۱)کی داستان کو سیف سے حسب ذیل بیان کیا ہے :

مسلمانوں نے ایرانی فوجیوں سے ''نمارق '' کے مقام پر صلابت کے ساتھ مقابلہ کیا ،یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے دشمن کو شکست دے دی اور فراری دشمنوں کا ''کسکر '' تک پیچھا کیا گیا۔

طبری ''سقاطیۂ کسکر '' کے بارے میں لکھتا ہے :

____________________

الف )۔''نمارق ''کے بارے میں '' معجم البلدان ''میں یوں تشریح کی گئی ہے : یہ کوفہ کے نزدیک ایک جگہ ہے معلوم نہیں اس لفظ کو اس کی تشریخ کے ساتھ سیف کی احادیث سے لیا گیا ہے یا کہیں اور سے

۲۹۰

''کسکر کا علاقہ ایران کے پادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی جاگیر تھا اور وہ خود اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس علاقہ کی پیداوار میں علاقہ نرسیان کے خرمے تھے ۔یہ

خرمے بڑے مشہور تھے ۔یہ خرمے قیمتی اور کمیاب تھے کہ صرف بادشاہ کے دسترخوانوں کی زینت ہوتے تھے اور بادشاہ انھیں نوش کرتا تھا یا اپنے معزز و محترم مہمانوں کو بخشتا تھا۔

اس کے بعد کہتا ہے :

ابو عبیدہ نے اپنے بعض سپاہیوں کو حکم دیا کہ دشمن کے فراری سپاہیوں کا تعاقب کریں اور ''نمارق '' اور ''بارق'' و ''درتا'' کے درمیانی علاقوں کو ان کے وجود سے پاک کریں ...''

اس کے بعد مزید کہتا ہے :

عاصم بن عمرو، اس سلسلے میں یوں کہتا ہے :

'' اپنی جان کی قسم ،میری جان میرے لئے کم قیمت نہیں ہے ،اہل ''نمارق '' صبح سویرے ان لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہے جنھوں نے خداکی راہ میں سفر و مہاجرت کی صعوبتیں برداشت کی تھیں ۔انھوں نے انھیں سرزمین ''درتا'' اور بارق'' میں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہم نے ان کو ''بذارق '' کی راہ میں ''مرج مسلح '' اور ''ہوافی'' کے درمیان نابود کرکے رکھ دیا''!(۱)

وہ مزید کہتا ہے :

''ابو عبید ہ نے ایرانیوں کے ساتھ '' سقاطیۂ کسکر '' کے مقام پر جنگ کی ۔ایک سخت

____________________

۱)۔ ان اشعار کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ (٢٧٧) میں ذکر کیا ہے لیکن شاعر کا نام نہیں لیا ہے بلکہ صرف اتنا لکھا ہے کہ : ایک مسلمان نے یوں کہا ہے :

۲۹۱

اور خونیں جنگ واقع ہوئی سرانجام دشمن شکست کھاکر فرارہوا۔نرسی بھی بھاگ گیا۔اس کی جاگیر ،فوجی کیمپ اور مال و منال پر اسلامی فوج نے مال غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیا ۔کافی مال اور بہت مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں منجملہ نرسیان کے خرمے مسلمانوں کے ہاتھ آگئے اور انھیں اس علاقہ کے کسانوں میں تقسیم کیا گیا ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے عاصم بن عمرو کو حکم دیا کہ ''رود جور'' یا ''رودجوبر '' کے اطراف میں آباد علاقوں پر حملہ کرے ۔عاصم نے اس یورش میں مذکورہ علاقوں میں سے بعض کو ویران کیا اور بعض پر قبضہ کیا''

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے اسے اختصار کے ساتھ طبری سے نقل کیا ہے ۔

رنگارنگ کھانوں سے بھرا دسترخوان

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کے بعد درج ذیل داستان روایت کی ہے :

اس علاقے کے ایرانی امراء جن میں فرخ کا بیٹا بھی موجود تھا نے رنگ برنگ ایرانی کھانے آمادہ کرکے ابو عبیدہ اور عاصم بن عمر و کی خدمت میں الگ الگ پیش کئے ۔ابو عبیدہ نے اس گمان سے کہ عاصم ایسے کھانوں سے محروم ہوگا اس کے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اسے کھانے پر دعوت دی ۔عاصم نے ابوعبیدہ کی دعوت کے جواب میں درج ذیل اشعار کہے :

''ابو عبیدہ !اگر تیرے پاس کدو ،سبزی ،چوزے اور مرغ ہیں تو فرخ کے بیٹے کے پاس بھی بریانی ،ہری مرچ سبزی کے ساتھ تہ شدہ نازک چپاتیاں اور مرغی کے چوزے ہیں ''

عاصم نے مزید کہا:

'' ہم نے خاندان کسری ٰ کو '' بقایس '' میں ایسی صبح کی شراب پلائی جو عراق کے دیہات کی شرابوں میں سے نہیں تھی ہم نے انھیں جو شراب پلائی وہ ایسے جوانمرد دلاور جوانمرد تھے جو قوم عاد کے گھوڑوں کی نسل کے تیز طرار گھوڑوں پر سوار تھے !''

۲۹۲

معجم البلدان میں سیف کے گڑھے ہوئے الفاظ

چوں کہ اس روایت میں '' سقاطیہ کسکر ،'' نرسیان '' ،''مرج مسلح'' اور ''ہوافی '' جیسے مقامات کا نام آیا ہے ۔اس لئے یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب '' معجم البدان'' میں اس کی تشریخ کی ہے منجملہ وہ ''سقاطیہ '' کی تشریخ میں لکھتا ہے :

سقاطیہ ،سرزمین '' واسط'' میں ''کسکر ''کا ایک علاقہ ہے ۔یہاں پر ابوعبیدہ نے ایرانی سپاہوں کے کمانڈر نرسی سے جنگ کی اور اسے بری طرح شکست دی ہے ۔

نرسیان کی تشریح میں لکھتا ہے :

نرسیان ،عراق میں ''کوفہ '' اور ''واسط'' کے درمیان ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' میں آیا ہے ۔خدا بہتر جانتا ہے ،شاید اس کانام ناسی ہوگا ۔ عاصم بن عمرو نے اسے اس طرح یاد کیا ہے :

'' ہم نے '' کسکر '' میں صبح کے وقت نرسیان کے حامیوں سے مقابلہ کیا اور انھیں اپنی سفیداور چمکیلی تلواروں سے شکست دے دی ۔ہم جنگ کے دنوں تیز رفتار گھوڑے اور جوان اونٹوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے ،جنگ ہمیشہ حوادث کو جنم دیتی ہے ۔ہم نے '' نرسیان '' کی سرزمین کو اپنے قبضے میں لے لیا ،نرسیان کے خرمے ''دبا'' اور ''اصافر'' کے باشندوں کے لئے مباح کر دئے ''

وہ مسلح کی تشریح میں لکھتا ہے :

مرج مسلح ،عراق میں واقع ہے ۔اس کا نام عاصم نے فتوحات عراق سے مربوط اشعار میں ذکر کیاہے ۔ان اشعار میں مسلمانوں کی طرف سے ایرانیوں پر پڑی مصیبتوں اور زبردست مالی و جانی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ کہتا ہے :

'' مجھے اپنی جان کی قسم ! میری جان کم قیمت نہیں ہے ....'' اور اس کے باقی اشعار کو آخر تک ذکر کرتا ہے ۔

''ہوافی''کی تشریح میں لکھتا ہے :

ہوافی، کوفہ و بصرہ کے درمیان ایک جگہ ہے ۔اس کا ذکر عاصم بن عمرو کے اشعار میں آیا ہے ، جو عبیدہ ثقفی کی فوج میں ایک چابک سوار پہلوان تھا ۔وہ اس سلسلے میں کہتا ہے :

'' ہم نے ان کو ''مرج مسلح'' کے درمیان شکست دے دی''

حموی نے اپنی کتاب '' معجم البدان '' میں ان مقامات کے بارے میں صرف اس لئے کہ اسے سیف کی باتوں پر اعتبار اور بھروسہ تھا بیان کیا ہے ۔لیکن ان کے مصدر یعنی سیف کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

۲۹۳

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ اور اس کے علاوہ دیگر سب روایتیں سیف کی ذہنی پیدا وار اور اس کی افسانہ نگار ی کا نتیجہ ہیں جب کہ حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہے کیوں کہ دوسروں نے اس سلسلے میں سیف کے بر عکس کہا ہے ، جیسے بلاذری ابوعبیدہ کے عراق میں فتوحات کے بارے میں لکھتا ہے:

''ا یرانی فوج کے ایک گروہ نے علاقہ '' درتی' 'پر اجتماع کیا تھا ۔ابو عبیدہ نے اپنی فوج کے ساتھ وہاں پر حملہ کیا اور ایرانیوں کوبری طرح شکست دے کر ''کسکر ''تک پہنچا ۔ اس کے بعد ''جالینوس ''کی طرف بڑھا جو''باروسیما''میں تھا ۔اس علاقہ کے سر حد بان اندرز گرنے ابو عبیدہ سے صلح کی اور علاقہ کے باشندوں کے لئے فی نفر چار درہم جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہوا اور ابو عبیدہ نے اس کی یہ تجویز قبول کی ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے مثنی کو ''زند رود ''کے لئے مامور کیا ۔مثنی نے وہاں پر ایرانی سپاہیوں سے جنگ کی اور ان پر فتح پائی اور ان میں سے کچھ لوگوں کو اسیر بنایا ۔اس کے علاوہ عروة ابن زید خیل طائی کو ''زوابی ''کی طرف بھیجا ۔عروہ نے ''دہقان زوابی''سے ''بارو سیما''کے باشندوں کی مصالحت کی بناء پر صلح کی ....یہ وہ مطالب ہیں جو ابو عبیدہ اور مثنی کی فتوحات کے بارے میں جنگ پل سے پہلے بیان ہوئے ہیں ''۔

اس داستان کے نتا ئج :

جو کچھ ہم نے اس داستان میں مشاہدہ کیا،جیسے :بادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی سرزمین ''کسکر''پر مالکیت ،نرسیان اور وہاں کے مشہور خرمے ،جو بادشاہوں اور ان کے محترم افراد کے لئے مخصوص تھے،'' سقا طیہ کسکر''،''ھوافی ''اور ''مرج مسلح ''جیسے مقامات اور وہان کی شدید خونیں جنگیں ، عاصم اور اس کی جنگیں شجاعتیں اور رزم نامے ،فرخ کے بیٹے کا رنگ برنگ ایران کھانوں اور اس زمانے کے شراب سے بھرا دستر خوان ،خاندان تمیم کے نامور پہلوان کے ذریعہ ''جوبر''کے باشندوں کا قتل عام اور انھیں اسیر بنانا وغیرہ سب کے سب ایسے مطالب ہیں جوصرف دوسری صدی ہجری کے دروغ گو اور قصے گڑھنے والے سیف ابن عمر تمیمی کی افسانوی روایتوں میں پائے جاتے ہیں ۔اور یہ صرف سیف ہی ہے جس نے ان افسانوں کو عجیب و غریب ناموں کی تخلیق کرکے انھیں طبری جیسے تاریخ نویسوں کے سپرد کیا ہے ۔ ٤

۲۹۴

پل کی جنگ

'نمارق''کی جنگ کے خا تمے کے بعد ایک اور داستان نقل کرتا ہے جسے طبری نے اپنی تاریخ میں یوں درج کیا ہے :

(اس جنگ میں جسے ابو عبیدہ کی جنگ پل کہاجاتا ہے مسلمانوں کو زبر دست نقصانات اٹھا نے پڑے اور اس میں ابو عبیدہ بھی ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ماراگیا ۔سیف مسلما ن فوج کے دریائے دجلہ سے عبور کی کیفیت کی اس طرح روایت کرتا ہے :)

عاصم بن عمرو نے مثنی اور اس کی پیدل فوج کی معیت میں ان لوگوں کی حمایت کی جو دریائے دجلہ پر پل تعمیر کرنے میں مشغول تھے ۔اس طرح دریائے دجلہ پر پل تعمیر کیا گیا اور سپاہیوں نے اس پر سے عبور کیا ۔

خلیفہ بن خیاط نے یہی روایت سند کو حذف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کی ہے۔

لیکن دینوری لکھتا ہے:

مثنی نے عروة بن زید خیل طائی قحطانی یمانی کو حکم دیا کہ پل کے کنارے پر ٹھہرے اور اسلامی فوج اور ایرانی سپا ہیوں کے درمیان حا ئل بنے۔اس کے بعد حکم دیا کہ سپا ہی پل کو عبور کریں ،خود بھی لشکر کے پیچھے روانہ ہوا اور ان کی حمایت کی ۔سب سپاہی پل سے گزرگئے ۔

طبری نے الیس صغریٰ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے روایت کی ہے :

مثنی نے اپنی فوج میں سے عاصم ابن عمرو کا اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کیا اور خود ایک سوار فوجی دستے کی قیادت میں دشمن کی راہ میں گھات لگا کر حملے کرتاتھا اس طرح وہ ایرانی فوج کے حوصلے پست اور ان کے نظم کو درہم برہم کر رہا تھا ۔

اس کے علاوہ جنگ ''بویب ''کے بارے میں لکھتاہے :

مثنی نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ہر اول دستے کا کمانڈر معین کیا ۔اور جنگ کے بعد اسے اجازت دی کہ ایرانیوں کا تعاقب کرتے ہوئے حملے کرے ۔عاصم نے ان اچانک حملوں اور بے وقفہ یورشوں کے نتیجہ میں مدائن میں واقع ''ساباط''کے مقام تک پیش قدمی کی ۔

۲۹۵

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

جو کچھ ہم نے یہاں تک پل کی جنگ کے بارے میں بیان کیا ،یہ وہ مطالب ہیں جن کی سیف نے روایت کی ہے جب کہ دوسروں ،جیسے بلاذری نے پل کی جنگ کے بارے میں اپنی کتا ب ''فتوح البلدان ''میں مفصل تشریح کی ہے اور دینوری نے بھی اپنی کتا ب ''اخبار الطوال''میں مکمل طور پر اسے ثبت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک میں سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ٥

سند کی تحقیق :

سیف نے عاصم بن عمرو کی ابو عبیدہ اور مثنی کے ساتھ شرکت کے بارے میں محمد، طلحہ ،زیاد اور نضر کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے کہ پہلے ہم ان کے بارے میں عرض کرچکے ہیں کہ ان کا حقیقت میں کہیں وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب سیف کی ذہنی تخلیق کا نتیجہ ہیں ۔

اس کے علاوہ اس روایت کے راوی حمزة بن علی بن محفز اور ''قبیلہ بکربن وایل کا ایک مرد ''ہیں کہ ہم نے تاریخ و انساب کی کتا بوں میں ان راویوں کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔ان کا نام صرف سیف ابن عمرکی دو روایتوں میں پایا جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔اس بناء پر ہم نے حمزہ کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کیا ہے ۔

چونکہ سیف نے کہا ہے کہ خود حمزہ نے بھی ''قبیلہ بکر بن وایل کے ایک مرد ''سے داستان پل کی روایت کی ہے ،لہٰذا قارئیں کرام خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس غیر معمولی دروغ گو سیف نے ''اس مرد''کا اپنے خیال میں کیا نام رکھا ہوگا؟!

۲۹۶

موازنہ کا نتیجہ اور اس داستان کے نتائج:

حقیقت یہ ہے کہ مثنی نے عروة بن زیاد خیل طائی قحطانی یمانی کو ماموریت دی کہ اسلامی فوج کی کمانڈ سنبھا ل کر پل پار کرائے ۔

خاندانی تعصب رکھنے والے سیف بن عمر جیسے شخص کے لئے ایک یمانی و قحطانی فرد کی اس جاں نثاری اور شجاعت کا اعتراف نا قابل برداشت تھا ،اس لئے وہ مجبور ہوتا ہے کہ خاندان قحطانی کے اس شخص کی شجاعت و جاں نثاری کو سلب کرکے اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے ایک فرد کو بٹھادے ۔اس عہدے کے لئے اس کے افسانوی سور ما عاصم بن عمرو تمیمی سے شائستہ و مناسب تر اور کون ہو سکتا ہے ؟ اسی بناء پر سیف ایک تاریخی حقیقت کی تحریف کرتا ہے اور اسلامی فوج کے پل سے گزرتے وقت عروة قحطانی یمانی کی اس فوج کی حمایت وشجاعت کا اعزازی نشان اس سے چھین کر خاندان مضر کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو کو عطا کر دیتا ہے اور اس طرح پل سے عبور کرتے وقت اسلامی فوج کی حمایت کو عاصم بن عمرو کے نام پر درج کرتا ہے ۔سیف صرف اسی تحریف پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے اس افسانوی سورما کے لئے اس کے بعد بھی شجاعتیں اور کارنامے گڑھ لیتا ہے ،جیسے مثنی کی جانشینی اور سپہ سالاری کا عہدہ اور ہر اول دستے کی کمانڈ میں دشمنوں پر پے درپے حملے کرتے ہوئے مدائن کے نزدیک ''ساباط ''تک پیش قدمی کرنا وغیرہ...

۲۹۷

عاصم ،قادسیہ کی جنگ میں

واللّٰه معکم ان صبر تم و صدقتموهم الضرب والطعن

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے تو خدا تمھارے ساتھ ہے ۔

(افسانوی سورما ،عاصم)

''گائے کا دن ''،گائے گفتگو کرتی ہے!!

طبری ١٤ھ کے حوادث کے ضمن میں جنگ قادسیہ کے مقدمہ کے طور پر سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''مسلمانوں کا سپہ سالار،سعد وقاص جب ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں اپنی سپاہ کے سرداروں میں عہدے تقسیم کررہاتھا اور ہر ایک کو اس کی استعداد ،لیاقت و شائستگی کے مطابق کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ رہا تھا،تو عاصم بن عمرو تمیمی کو اسلامی فوج کے اساسی اور اہم دستہ کی کمانڈ سونپی۔

جب سعد قادسیہ کی سرزمین پر اترا تو اس نے عاصم کو فرات کے جنوبی علاقوں کی ماموریت دی اور عاصم نے ''میسان'' تک پیش قدمی کی۔

عاصم فوج کے لئے گوشت حاصل کرنے کی غرض سے گایوں اور بھیڑوں کی تلاش میں نکلتاہے ۔وہ ''میسان''میں بھی جستجو کرتا ہے ۔ادھر ادھر دوڑ نے اور تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہیں پاتا، کیوں کہ وہاں کے باشندوں نے عرب حملہ آور وں کے ڈر سے مویشیوں کو طویلوں اور کچھاروں میں چھپا رکھا تھا ۔بالآخر اس تلاش وجستجو کے دوران عاصم کی ایک شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے وہ اس سے گائے اور گوسفند کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔اتفاقا وہ شخص چرواہا تھا اور اس نے اپنے گلہ کو نزدیک ہی ایک کچھار میں چھپا رکھا تھا وہ شدید اور جھوٹی قسمیں کھا کر بولاکہ اسے مویشیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے !جب اس آدمی نے عاصم کے سامنے ایسی جھوٹی قسمیں کھائیں تو اچانک کچھار سے ایک گائے چیختے ہوئے بول اٹھی : خدا کی قسم یہ آدمی جھوٹ بولتا ہے ،ہم یہاں پر موجود ہیں '' عاصم کچھار میں گیا اور تمام مویشیوں کو ہانکتے ہوئے اپنے ساتھ کیمپ کی طرف لے آیا ۔ سعد وقاص نے انھیں فوج کے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ۔اس طرح اسلامی سپاہی چند دنوں کے لئے خوراک کے لحاظ سے مستغنی ہو گئے۔

۲۹۸

حجاج بن یوسف ثقفی نے کوفہ کی حکومت کے دوران ایک دن کسی سے عاصم بن عمرو سے گائے کی گفتگوکی داستان سنی ۔اس نے حکم دیا کہ اس داستان کے عینی شاہد اس کے پاس آکر شہادت دیں اور اس داستان کو بیان کریں ۔جب عینی شاہدحاکم کے دربار میں حاضرہوئے تو حجاج نے ان سے اس طرح سوالات کئے :

أگائے کے گفتگوکرنے کا معاملہ کیا ہے ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا : ہم نے اپنے کانوں سے گائے کی باتیں سنیں اور گائے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بالآخر ہم ہی تھے جو ان مویشیوں کو ہانکتے ہوئے کیمپ تک لے آئے ۔

أتم چھوٹ بولتے ہو!

٭انھوں نے جواب میں کہا: ہم جھوٹ نہیں بولتے ،لیکن موضوع اس قدر عجیب اور عظیم ہے کہ اگر آپ بھی ہماری جگہ پر ہوتے اور اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم سے بیان کرتے تو ہم بھی اس کو جھٹلاتے اور یقین نہیں کرتے !

أحجاج نے کہا : سچ کہتے ہو ،ایسا ہی ہے ...مجھے بتائو کہ لوگ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا: لوگ ،گائے کی گفتگو کو فتح و کامیابی کے لئے خدا کی آیات میں سے ایک نوید بخش آیت سمجھتے تھے جو دشمنوں پر ہماری فتح کے لئے خدا کی تائید و خوشنودی کی علامت ہے ۔

أحجاج نے کہا:خدا کی قسم !یہ اس کے بغیر ناممکن ہے کہ اس سپاہ کے تمام افراد نیک اور پرہیزگار ہوں ۔

٭کہا گیا: جی ہاں ہمیں تو ان کے دل کی خبر نہیں تھی لیکن جو ہم نے دیکھا وہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک ان جیسے لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنھوں نے اس قدر دنیا سے منہ موڑا ہو اور اسے دشمن جان کر نفرت کرتے ہوں !!

سیف اس داستان کے ضمن میں مزید کہتا ہے : یہ دن اتنا اہم اور قابل توجہ تھا کہ ''گائے کادن'' کے عنوان سے مشہور ہوا ۔

۲۹۹

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

اس روایت کو تمام تفصیلات کے ساتھ امام المورخین ابن جریر طبری ،سیف ابن عمرو تمیمی سے نقل کرتا ہے اور ابن اثیر بھی اسے طبری کی کتاب سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کرتا ہے ۔

لیکن دوسرے لوگ ،یعنی بلاذری اور دینوری لکھتے ہیں :

... جب اسلام کے سپاہی ،مویشیوں کے لئے چارے اور اپنے لئے غذا کی ضرورت پیدا کرتے تھے تو فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار مچاتے تھے...

بلاذری نے اس روایت کے ضمن میں لکھا ہے :

عمر بھی مدینہ سے ان کے لئے گائے اور گوسفند بھیجا کرتے تھے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے'' گائے کا دن '' کی داستان کے سلسلے میں عبداللہ بن مسلم عکلی اور کرب بن ابی کرب عکلی کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے ۔ہم نے ان دو کا نام سیف کے علاوہ راویوں کے کسی بھی مصدر اور ماخذ میں نہیں پایا۔

عاصم ،کسریٰ کے دربار میں

طبری ،سیف بن عمرو تمیمی سے روایت کرتا ہے :

''خلیفہ عمر ابن خطاب نے سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند سخن پرور ،فصیح اور قدر ت فیصلہ رکھنے والے افراد کو کسریٰ کے پاس بھیجے تاکہ اسے اسلام کی دعوت دیں ۔سعد نے اس کام کے لئے چند افراد پر مشتمل ایک گروہ کا انتخاب کیا کہ ان میں عاصم بن عمر و بھی شامل تھا ۔یہ لوگ کسریٰ کی خدمت میں پہنچے اور اس کے ساتھ گفتگو کی ۔کسریٰ نے غصہ میں آکر حکم دیا کہ تھوڑی سی مٹی لا کر اس گروہ کے سر پرست کے کندھوں پر رکھی جائے ۔اس کے بعد سوال کیا کہ ان کا سردار کون ہے ؟ انھوں نے کسریٰ کے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی ۔عاصم بن عمرو نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا : میں اس گروہ کا سردار ہوں ،مٹی کو میرے کندھوں پر بار کرو!

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416