ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215632 / ڈاؤنلوڈ: 4981
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

تفصیل آپ سابقہ اوراق میں پڑھ چکے ہیں ۔

عہد شیخین میں انہوں نے کیا کچھ حاصل کیا ؟ اس کی معمولی سی جھلک بلاذری کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے :

ہشام بن عروہ اپنے باپ سےروایت کرتے ہیں کہ : حضرت ابو بکر نے زبیر کو "حرف" اور قتاۃ" کی تمام جاگیر الاٹ کی تھی ۔

مدائنی نے مجھے بتایا کہ :-

"قتاۃ" ایک برساتی نالہ ہے جو طائف سے آتا ہے اور "ارحضیہ"اور "قرقرۃ الکدر" کے پاس سے گزرتا ہے پھر "معاویہ بند" آتا ہے اور پھر موڑ کاٹ کر یہ نالہ شہدائے احد کے پاس سے گزر تا ہے ۔

ہشام بن عروہ روایت کرتے ہیں :- حضرت عمر لوگوں کی جاگیریں الاٹ کرنے لگے تو وادی عقیق میں پہنچے اور کہا کہ زمین کے خواہش مند کہاں ہیں ؟ میں نے اس سے بہتر زمین کہیں نہیں دیکھی ۔زبیر نے کہا: یہ زمین مجھے الاٹ کر دیں ۔ حضرت عمر نے وہ تمام جاگیر انہیں الاٹ کردی "(۱) ۔

بلاذری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخصیات کسی کی مفت حمایت کرنے کے عادی نہ تھیں ۔انھوں نے ہر دور میں اپنی حمایت کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کی تھی ۔

لیکن حضرت علی جیسا عادل امام جس نے اپنے بھائی کو ضرورت سے زیادہ کچھ نہیں دیا تھا وہ ان دونوں کو کیا دیتا ؟

بعض مورخین نے ایک واقعہ لکھا ہے جس سے بخوبی علم ہوسکتا ہے کہ طلحہ وزبیر علی علیہ السلام پر ناراض کیوں تھے ؟

"طلحہ و زبیر نے خروج سے پہلے محمد بن طلحہ کو حضرت علی (ع) کی خدمت میں

____________________

(۱):-بلاذری ۔فتوح البلاذری ۔ص ۲۶۔

۲۲۱

بھیجا اور اس نے آکر دونوں کا یہ پیغام آپ کے گوش گزار کیا :-

ہم نے آپ کی راہ ہموار کی ہم نے لوگوں کو عثمان کے خلاف برانگیختہ کیا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا ۔ اور ہم نے دیکھا کہ لوگ آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی رہنمائی کی اور سب سے پہلے ہم نے آپ کی بیعت کی ہم نے آپ کے سامنے عرب کی گردنیں جھکادی ہیں ۔ ہماری وجہ سے مہاجرین و انصار نے آپ کی بیعت کی ہے ۔لیکن ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ جب آپ حاکم بن گئے تو آپ نے ہم سے منہ موڑ لیا اور ہمیں غلاموں اور کنیزوں کی طرح ذلیل کیا ۔

جب محمد بن طلحہ کی زبانی حضرت علی (ع) نے یہ پیغام سنا تو اسے فرمایا تم ان کے پاس جاؤ اور پوچھو وہ کیا چاہتے ہیں ؟

وہ گيا اور واپس آکر کہا کہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک کو بصرہ کا حاکم بنایا جائے اور دوسرے کو کوفہ کا حاکم بنایا جائے ۔ یہ سن کر حضرت علی (ع) نے فرمایا :- ایسا کرنے سے فساد پھیل جائے گا اور یہ دونوں میرے لئے باقی شہروں کی حکومت کو بھی دشوار بنادیں گے اب جب کہ یہ دونوں میرے پاس مدینہ میں ہیں پھر بھی ان سے مطمئن نہیں ہوں اور اگر انہیں اہم علاقوں کا حاکم بنا دوں تو سازش کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔

جب یہ دونوں نے حضرت علی (ع) کا یہ ٹکاسا جواب سنا تو بڑے مایوس ہوئے اور انہیں اپنے تمام عزائم خاک میں ملتے ہوئے نظر آئے تو وہ حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم عمرہ کرنے کے لئے مکہ جانا چاہتے ہیں ، آپ ہمیں جانے کی اجازت دیں حضرت علی نے فرمایا کہ پہلے تم قسم کھاؤ کہ میری بیعت نہ توڑو گے اور غداری نہ کروگے ۔اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ نہ کرو گے اور عمرہ کے بعد واپس اپن گھر کو آجاؤ گے ۔

ان دونوں نے حلفیہ طور پر یہ تمام باتیں تسلیم کیں تو حضرت علی (ع) نے انہیں

۲۲۲

عمرے کے لئے جانے کی اجازت دی ۔اس کے بعد انہوں نے جو کیا سو کیا ۔"(۱)

اور جب یہ دونوں حضرات مکہ جارہے تھے تو حضرت علی (ع) نے ان سے فرمایا کہ تم دونوں مجھے یہ بتا سکتے ہو کہ کبھی میں نے تمہیں تمہارے کسی حق سے محروم کیا ہے ؟ یا میں نے تمہارے مقرر شدہ وظیفہ میں کسی طرح کی کوئی کمی کی ہے ؟ اور کیا تم نے کبھی ایسا موقع بھی دیکھا جب کسی مظلوم نے میرے پاس فریاد کی ہو اور میں نے اسے اس کا حق دلانے میں کوئی کوتاہی کی ہو ؟

خدا کی قسم ! مجھے خلافت کا نہ کوئی شوق تھا اور نہ ہی حکومت کبھی میرا مطمع نظر رہی ہے ۔ تم نے ہی مجھے حکومت وامارات کی دعوت دی تو میں نے قبول کرلی اور جب میں نے حکومت سنبھالی تو میں نے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی قرآن نے مجھے حاکم اور رعیت کے باہمی حقوق وفرائض بتائے تومیں نے احکام قرآن کو اپنا رہنما اصول بنایا اور سنت نبوی کی میں نے اقتدا کی ۔

اس رہنمائی کے حصول کے لئے مجھے تمہاری رائے کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی اور کے مشورہ کی مجھے احتیاج محسوس ہوئی ۔ اور آج تک کوئی ایسا مقدمہ بھی میرے پاس نہیں لایا گیا ۔ جس کے لئے مجھے تمہارے مشورہ کی ضرورت پڑتی ۔

حضرت علی (ع) نے طلحہ وزبیر کے فتنہ کو ان الفاظ سے اجاگر کیا :- "خدا کی قسم ! وہ مجھ پر کوئی الزام ثابت نہیں کرسکتے اور انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف نہیں کیا ۔ وہ اس حق کے طلب کر رہے ہیں جسے انہوں نے خود چھوڑ ا تھا ۔۔۔۔اور اس خون کا بدلہ طلب کررہے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا تھا ۔(۲)

____________________

(۱):-ابن ابی الحدید /شرح نہج البلاغہ ۔جلد سوم ۔ص ۴-۹ طبع مصر

(۲):- :-ابن ابی الحدید /شرح نہج البلاغہ ۔جلد دوم ۔ص۴۰۵

۲۲۳

جنگ جمل کے محرّک بصرہ میں

طلحہ اور زبیر ام المومنین کو اپنے ساتھ لے کر بصرہ کی جانب روانہ ہوئے اور وہ اپنے تئیں خون عثمان کا مطالبہ کررہے تھے ۔

جب کہ ان کا یہ مطالبہ دینی اور معروضی حالات دونوں کے تحت ناجائز تھا ۔

۱:- دینی اعتبار سے انہیں مطالبہ کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کیونکہ حضرت عثمان لاولد نہیں تھے ان کی اولاد موجود تھی۔ ان کے فرزند عمرو کو حق پہنچتا تھا کہ وہ خلیفۃ المسلمین کے پاس اپنے باپ کے خون کا دعوی کرتا ۔ اور خلیفۃ المسلمین تحقیق کرکے مجرمین کو سزا دیتے ۔

حضرت عثمان کی اولاد کی موجودگی میں طلحہ و زبیر اور ام المومنین کو خون عثمان کے مطالبہ کا کوئی جواز نہیں تھا ۔

۲:-خون کا مطالبہ لے کر اٹھنے والے افراد نے بہت سے غلط کام کئے ، انہوں نے بے گناہ افراد کو ناحق قتل کیا ۔ بصرہ کے بیت المال کو لوٹا اور بصرہ میں مسلمانوں بالخصوص حاکم بصرہ ناجائز تشدد کیا ۔ جس کی انسانیت اور شریعت میں اجازت نہیں ہے ۔

۳:- قاتلین کی تلاش کے لئے محرکین جمل مصر کی بجائے بصرہ کیوں گئے ؟

۴:- ام المومنین عائشہ کو گھر سے باہر نکلنے کا حق نہ تھا کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں "وقرن فی بیوتکن " کے تحت گھر میں بیٹھنے کاحکم دیا تھا ۔انہوں نے میدان میں آکر حق خداوندی کی نافرمانی کی ۔

۵:- کیا شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ایک شورش کے ختم کرنے کے لئے اس سے بھی بڑی شورش بپا کی جائے ۔اور بالخصوص جب کہ شورشی افراد کو علم تھا کہ حضرت علی کا دامن خون عثمان کے چھینٹوں سے پاک ہے حضرت علی

۲۲۴

نے قاتلین عثمان کو کسی قسم کے عہدے بھی تو نہیں دئیے تھے ۔محرکین جمل پہلے عثمان پر ناراض تھے اور بعد ازاں علی (ع) پر ناراض ہوئے لیکن ناراضگی کے اسباب میں فرق تھا ۔

حضرت عثمان پر اس لئےناراض تھے کہ ان کی مالی پالیسی غیر متوازن اور غیر عادلانہ تھی اور حضرت علی (ع) پر اس لئے ناراض تھے کہ ان کی پالیسی عدل کے مطابق تھی۔

اسی عادلانہ پالیسی کے مد نظر حضرت علی (ع) نے اقتدار پرست افراد کو کسی محکمہ کا سربراہ نہیں بنایا تھا اور حضرت علی (ع) کی یہ پالیسی ان کے لئے حضرت عثمان کی پالیسیوں سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ۔

موجودہ سیاسی اصطلاح میں یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ :- حضرت علی اس انقلاب کے بعد تخت نشین ہوئے اور جس انقلاب میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا اور اس انقلاب کا ثمر حضرت علی کی جھولی میں آکر گرا تھا اور انقلابی افراد کو اس میں کچھ حصہ نہیں ملا تھا ۔

علاوہ ازیں طلحہ ، زبیر اور ام المومنین کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر علی (ع) کی حکومت مستحکم ہوگئی تو ان پر قتل عثمان کی فرد جرم عائد ہوسکتی تھی ۔

اسی خطرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے طلحہ وزبیر نے عہد شکنی کی اور ام المومنین کو ساتھ ملا کر بصرہ روانہ ہوئے ۔راستے میں ایک چشمہ کے پاس سے ان کا گزر ہوا اور وہاں کتے بی بی صاحبہ کے محمل کے گرد بھونگنے لگے جس سے بی بی کا اونٹ بدکنے لگا تو ایک ساربان نے کہا :-

اللہ "حواب" کے کتوں کو غارت کرے ۔یہاں کتے کتنے زیادہ ہیں ۔

جب "حواب " کے الفاظ بی بی صاحبہ نے سنے تو فرمایا ۔مجھے واپس لے چلو میں آگے نہیں جاؤں گی ۔ کیونکہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا تھا کہ ایک دفعہ

۲۲۵

انہوں نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ میری ایک بیوی کو "حواب " کے کتے بھونک رہے ہیں پھر مجھے فرمایا تھا کہ "حمیرا" وہ عورت تم نہ بننا ۔یہ سن کر زبیر نے کہا کہ ہم حواب سے گزر آئے ہیں بعد ازاں طلحہ و زبیر نے پچاس اعرابیوں کو رشوت دے کر بی بی کے پاس گواہی دلوائی کہ اس چشمہ کا نا م حواب نہیں ہے ۔

تاریخ اسلام میں یہ پہلی اجتماعی جھوٹی گواہی تھی ۔

حضرت علی نے والی بصرہ عثمان بن حنیف کو خط تحریر کیا جس میں آپ نے لکھا ۔باغی افراد نے اللہ سے وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے عہد شکنی کی ۔جب وہ تمہارے پاس آئیں تو تم انہیں اطاعت کی دعوت دو ۔اگر مان لیں تو ان سے اچھا سلوک کرو ۔

خط ملنے کے بعد والی بصرہ نے ابو الاسود دؤلی اور عمرو بن حصین خزاعی کو ان کے پاس بھیجا۔

بصرہ کی دونوں معززشخصیات کے پاس گئیں اور انہیں وعظ ونصیحت کی ام المومنین نے کہا تم طلحہ و زبیر سے ملاقت کرو ۔

چنانچہ وہ وہاں سے اٹھ کر زبیر کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ آپ بصرہ کیوں آئے ہیں ؟ زبیر نے کہا ہم عثمان کے خون کابدلہ لینے یہاں آئے ہیں ۔

بصرہ کے معززین نے کہا کہ "مگر عثمان بصرہ میں تو قتل نہیں ہوئے آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں ؟ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ عثمان کے قاتل کون ہیں اور کہاں ہیں ۔تم دونوں نے ام المومنین ہی عثمان کے سب سے بڑے دشمن تھے ۔ تم نے ہی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا اور جب وہ قتل ہوگئے تو تم ہی بدلہ لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ علاوہ ازیں تم نے چند دن پہلے بلاجبر واکراہ حضرت علی (ع) کی بیعت کی تھی اور اب بیعت شکنی کرکے ان کے خلاف لشکر کشی کررہے ہو۔

یہ باتیں سن کر زبیر نے کہا کہ طلحہ سے جاکر ملاقات کرو زبیر کے پاس سے اٹھ کر امن کے خواہاں دونوں افراد طلحہ کے پاس گئے اس سے گفتگو کرکے وہ

۲۲۶

اس نتیجہ پر پہنچے کہ :طلحہ کسی قسم کے صلح کے لئے آمادہ نہیں ہے وہ ہر قیمت پر جنگ کرنا چاہتے ہے ۔

اسی دوران بصرہ کا ایک معزز شخص عبداللہ بن حکیم تمیمی خطوط کا ایک پلندہ لے کر طلحہ و زبیر کے پاس آیا اور کہا کہ کیا یہ تم دونوں کے خطوط نہیں ہیں جو تم نے ہمیں روانہ کئے تھے ؟

طلحہ اور زبیر نے کہا جی ہاں ۔

عبداللہ بن حکیم نے کہا : پھر خدا کا خوف کرو ،کل تک تم ہمیں خط لکھا کرتے تھے کہ عثمان کو خلافت سے معزول کردو ،اگر وہ معزول نہ ہونا چاہے تو اسے قتل کردو اورجب وہ قتل ہوگیا تو تم اس کے خون کا بدلہ لینے کیلئے آگئے ہو۔

والی بصرہ عثمان بن حنیف طلحہ وزبیر کے پاس آگئے ۔انہیں اللہ ،رسول اور اسلام کے واسطے دے کر انہیں یاد لایا کہ وہ حضرت علی (ع) کی بیعت بھی کرچکے ہیں ۔ اسی لئے انہیں شورش سے باز رہنا چاہئیے ۔

ان دونوں نے کہا کہ ہم خون عثمان کابدلہ لینے آئے ہیں ۔

والی بصرہ نے کہا :- تم دونوں کاخون عثمان سے کیا تعلق ہے ؟ خون عثمان کے مطالبہ کاحق صرف اسکی اولاد کو حاصل ہے اور اسکی اولاد بھی موجود ہے ۔

طلحہ اور زبیر اور والی بصرہ کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا اور اس معاہدہ کو باقاعدہ تحریر کیاگیا ۔

اس معاہدہ میں یہ الفاظ تھ ےکہ فریقین خلیفۃ المسلمین کی آمد یا انتظار کریں گے اور کسی قسم کی جنگ نہ کریں گے ۔

چند دن تو بصرہ میں اس معاہدہ کی وجہ سے امن قائم رہا ۔بعدازاں طلحہ اور زبیر نے قبائل کے سربراہوں کو خطوط لکھے اور انہیں اپنی حمایت پر امادہ کیا ۔ ان کے بہکانے پر بنی ازد ،ضبہ ،قیس بن غیلان ،بنی عمرو بن تمیم ،بنی حنظلہ ،اور بنی دارم کے

۲۲۷

افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی جبکہ بنی مجاشع کے دیندار افراد نے انکی مخالفت کی ۔

طلحہ وزبیر ن ےبعد آزاں ایک اور غداری کی انہوں نے اپنے بہی خواہوں کو ایک رات میں مسلح کیا اور زرہوں کے اوپر قمیصیں پہنائیں تاکہ لوگ سمجھیں کہ یہ افراد غیر مسلح ہیں ۔ اس رات بڑی بارش برس رہی تھی اور طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ۔اسی ماحول میں یہ اپنے ساتھیوں کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے والی بصرہ عثمان بن حنیف نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے تو طلحہ وزبیر کے مسلح ساتھیوں نے ایک شدید جھڑپ کے بعد انہیں پیچھے ہٹا کر زبیر کو آگے کردیا ۔بیت المال کے مسلح محافظوں نے مداخلت کرکے زبیر کوپیچھے ہٹایا اور عثمان بن حنیف کو آگے کھڑا کردیا ۔ اتنے میں زبیر کے اور مسلح ساتھی مسجد میں پہنچ گئے اور انہوں حکومتی افراد سے سخت جنگ کرکے زبیر کو مصلائے امامت پر کھڑا کردیا ۔ انہیں جھڑپوں کی وجہ سے سورج طلوع ہونے کا آگیا اور نمازیوں نے چیخ کر کہاکہ نماز قضا ہو رہی ہے ۔ چنانچہ زبیر نے مصلائے امامت پر جبرا قبضہ کرکے نماز پڑھائی ۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد زبیر نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ عثمان بن حنیف کو گرفتار کرکے سخت سزادو ۔زبیر کے ساتھیوں نے والی بصرہ کو پکڑ کر اسے سخت سزا دی اور اس بے چارے کی داڑھی ،ابرو اور سر کے بال نوچ ڈالے اور بیت المال کے محافظوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو طلحہ وزبیر کے حکم پر لوٹ لیا گیا ۔

بیت المال کے محافظین اور والی بصرہ کو قید کرکے ام المومنین کے پاس لایا گیا تو "مہربان ماں " نے محافظین کے قتل کا حکم صادرفرمایا(۱) ۔

"ناکثین " کی بحث کی تکمیل کے لئے ہم ایک اور روایت کو نقل کرنا پسند کرتے ہیں ابن اثیر رقم طراز ہیں کہ :-

جب حضرت عثمان محصور تھے تو ام المومنین مکہ چلی گئی تھیں ۔اور حج

____________________

(۱):- تاریخ طبری وشرح ابن ابی الحدید ۔جلد دوم ۔ ص ۴۹۷۔۵۰۱

۲۲۸

سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آرہی تھیں اور مقام "سرف "پہ پہنچیں تو بنی لیث کے خاندان کے ایک فرد سے جس کا نام عبیداللہ بن ابی سلمہ تھا ملاقات ہوئی ۔

بی بی نے اس سے مدینہ کے حالات پو چھے تو اس نے بتایا کہ عثمان قتل ہوچکے ہیں ۔ بی بی نے پھر پوچھا کہ عثمان کے بعد حکومت کس کو ملی ؟

اس نے بتایا کہ حکومت حضرت علی (ع) کو ملی ہے ۔

اس وقت شدّت تاسف سے ام المومنین نےکہا " کاش آسمان زمین پہ گر جاتا ۔ مجھے مکّہ واپس لے چلو اورکہہ رہی تھیں کہ ہائے عثمان مظلوم مارا گیا ۔

عبیداللہ بن ابی سلمہ نے کہا کہ بی بی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ آپ کل تک تو کہتی تھیں کہ "نعثل " کو قتل کردو یہ کافر ہوگیا ہے "۔

اس کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے ۔

فمنک البداء ومنک الغبر ومنک الریاح ومنک المطر

وانت امرت بقتل الامام وقلت لنا انّه قد کفر

فهبنا اطعناک فی قتله وقاتله عندنا من قد امر

"ابتدا آپ کی طرفسے ہے ۔گردو غبار بھی آپ کی طرف سے ہے ۔تیزآندھی اور بارش بھی آپ کی طرف سے ہے ۔آپ نے ہمیں خلیفہ کے قتل کا حکم دیا تھا اور کہا کرتی تھیں کہ وہ کافر ہوگیا ۔ ہم نے آپ کا کہا مان کر اسے قتل کیا ہے ۔ اور ہماری نظر میں اس کا اصل قاتل وہ ہے جس نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے ۔"

اس کے بعد ام المومنین مکّہ آگئیں اور لوگوں کو اپنے ارد گرد جمع کرنا شروع کیا اور کہتی تھیں کہ ناحق قتل ہوگیا ۔عثمان روئے زمین پر بسنے والے تمام افراد سے بہتر تھا۔ عبداللہ بن عامر بصرہ سے بہت سا مال لایا اور ام المومنین کی نذر کیا ۔اسی طرح سے یعلی بن امیہ بھی یمن سے بہت بڑی دولت لے کر آیا اور ساری دولت بی بی کے قدموں میں ڈھیر کردی ۔اوربی بی کو بصرہ کی طرف جانے کا مشورہ دیا ۔

اس وقت مکّہ میں اور بھی ازواج رسول موجود تھیں ۔بی بی عائشہ نے

۲۲۹

انہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کا مشورہ دیا ۔

حضرت ام سلمہ نے اس کی شدید مخالفت کی اور عائشہ سے کہا:- خدا کا خوف کرو ،اللہ نے ہمیں اپنے گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے ۔جنگ کی کمان سنبھالنے کا حکم دیا ۔ حضرت حفصہ بنت عمر بی بی عائشہ کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کے بھائی عبداللہ بن عمر نے انہیں سمجھایا اور انہیں اس مہم جوئی سے باز رکھا ۔ ام المومنین طلحہ وزبیر کو ساتھ لے کر روانہ ہوئیں تو مروان بن حکم نے کہا کہ ان دونوں میں سے امامت کو ن کرائے گا ؟

عبداللہ بن زبیر نے کہا : میرا باپ امامت کرائے گا اور محمد بن طلحہ نے کہا کہ میرا باپ امامت کرائے گا ۔

جب اس جھگڑے کی اطلاع بی بی عائشہ کو ملی تو انہوں نے مروان کو پیغام بھیجا کہ تو ہمارے درمیان جھگڑا پیدا کرنا چاہتاہے ؟

نماز میرا بھانجہ عبداللہ بن زبیر پڑھائے گا ۔

اس گروہ سے تعلق رکھنے والا ایک فرد معاذ بن عبداللہ کہا کرتاتھا کہ : خدا کا شکر ہے کہ ہم ناکام ہوگئے ،اگر ہم بالفرض کامیاب ہوجاتے تو زبیر طلحہ کو کبھی حکومت نہ کرنے دیتا اور طلحہ بھی زبیر کو ایک دن کی حکومت کی اجازت نہ دیتا ۔اس طرح ہم آپس میں لڑکر ختم ہوجاتے ۔

جب باغیوں کا یہ گروہ بصرہ جارہا تھا تو راستے میں سعید بن العاص نے مروان بن الحکم سے ملاقات کی اورکہا کہ :جن لوگوں سے ہم نے بدلہ لینا تھا وہ تو تمہارے ساتھ ہیں ۔ قتل عثمان کے بدلہ کی صحیح صورت یہ ہے کہ ان محرکین کو قتل کردو اور بعد ازاں اپن ےگھر وں کی راہ لو ۔

بصرہ پہنچ کر طلحہ وزبیر ن ےحضرت عثمان کی مظلومیت کی درد بھری داستان لوگوں کو سنائی اور ان کے خون کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا اور ام المومنین

۲۳۰

نے بھی کھلے عام تقریر کی ۔

اس پر جاریہ بن قدامہ سعدی نے کھڑے ہو کر کہا : ام المومنین ! عثمان جیسے ہزاروں افراد بھی قتل ہوجاتے تو بھی وہ اتنا صدمہ نہ ہوتا جتنا کہ تمہارے باہر آنے کا ہمیں صدمہ پہنچا ہے ۔زوجہ رسول ہونے کے ناطے اللہ نے آپ کو حرمت وعزت عطا کی تھی لیکن تم نے اس حرمت کے پردے کو خود ہی پھاڑ ڈالا اور پردے کو چھوڑ کر جنگوں میں آگئیں ۔

بنی سعد کا ایک اور نوجوان کھڑا ہوا اور طلحہ وزبیر کو مخاطب کرکے کہا :-کیا میدان میں تم دونوں اپنی بیویاں بھی ساتھ لائے ہو؟

اگر نہیں لائے تو تمہیں حیا آنی چاہئیے کہ اپنی بیویوں کو تم نے پردے کے پیچھے بٹھایا اور رسول خدا (ص) کی بیوی کو میدان کو میدان میں لے آئے ہو؟

بعد ازاں اس نے اسی مفہوم کی ادائیگی کے لئے کچھ اشعار بھی پڑھے ۔

پھر یہ لوگ بصرہ آئے اور وہاں انہوں نے عذر سے کام لیتے ہوئے عثمان بن حنیف کو گرفتار کیا اور اس کے بال نوچ ڈالے اور اس چالیس کوڑے مارے ۔ بصرہ سے ام المومنین نے زید بن صوحان کو درج ذیل خط لکھا :- رسول خدا (ص) کی پیاری بیوی عائشہ کی جانب سے اپنے خالص فرزند زید بن صوحان کے نام !

اما بعد : جب میرا یہ خط تجھے ملے تو ہماری مدد کے لئے چلا آ اور اگر تو نہ آسکے تو لوگوں کو علی (ع) سے متنفّر کر۔

زید بن صوحان نے اس خط کا جواب درج ذیل الفاظ میں دیا : اگر آپ واپس چلی جائیں اور اپنے گھر میں بیٹھ جائیں تو میں آپ کا خالص فرزند ہوں ، ورنہ میں آپ کا سب سے پہلا مخالف ہوں ۔

پھر زید نے حاضرین سے کہا کہ :- اللہ ام المومنین کے حال پر رحم فرمائے ۔اسے حکم ملا تھا کہ وہ گھر میں

۲۳۱

بیٹھے اور ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ہم جنگ کریں ۔انہوں نے اپنے حکم کو پس پشت ڈال دیا اور وہ اس حکم پر عمل کرنے لگی ہیں جو کہ ہمیں دیاگیا تھا ۔

ایک دفعہ طلحہ وزبیر اجلاس عام سے خطاب کررہے تھے کہ بنی بعد قیس کے ایک شخص نے کھڑے ہوکر کہا :-

اے گروہ مہاجرین ! ہماری بات سنیں ۔جب رسول (ص) کی وفات ہوئی تو تم نے ایک شخص کی بیعت کرلی تھی ۔ہم نے اسے تسلیم کر لیا تھا ۔ اور جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے ہم سے مشہورہ کئے بغیر ایک شخص کو نامزد کیا تھا ۔ ہم نے اسے بھی تسلیم کیا تھا ۔ اور جب اس کی وفات کا وقت آیا تو اس نے خلافت کے لئے چھ افراد پر مشتمل شوری تشکیل دی تھی۔ اور اس شوری کے لئے ہم سے کسی نے مشورہ طلب نہیں کیا تھا ۔ اور پھر ایک شخص شوری کے ذریعہ سے منتخب ہوا تو ہم نے اسے بھی تسلیم کیا تھا ۔پھر تمہیں اس میں عیب نظرآئے ۔تم نے ہمارے مشورہ کے بغیر اسے قتل کردیا اور تم نے علی (ع) کی بیعت کی تم بھی ہم سے تم نے مشورہ نہیں لیا تھا اب آپ ہمیں بتائیں کہ علی (ع) سے کون سی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہم اس کے خلاف جنگ کریں ؟

کیا اس نے اللہ کا مال کسی کو ناحق دیا ہے ؟

کیا اس نے حق کے دامن کو چھوڑ کر باطل کو اپنا لیا ہے ؟

یا اس سے کوئی غلط کام سرزد ہوا ہے ؟

آخر ہمیں بتائیں کہ علی (ع) نے وہ کون سا ایسا جرم کیا ہے جس کی وجہ سے اس سے جنگ ناگزیر ہوگئی ہے ؟

نوجوان کی اس جسارت کی وجہ سے چند لوگ اس کو قتل کرنے کے لئے اٹھے تو اس کے قبیلہ کے افراد نے اسے بچا لیا ۔

وہ دن تو جیسے تیسے گزر گیا ۔ دوسرے دن باغیوں نے اس کے گھر پہ حملہ کرکے

۲۳۲

اسے قتل کردیا اور اس کے علاوہ اس کی قوم کے ستر دیگر افراد کو بھی قتل کردیا ۔

اس فتنہ کو فروکرنے کے لئے علی (ع) بصرہ آئے جہاں شدید جنگ ہوئی ۔ حضرت علی (ع) کامیاب ہوئے ۔طلحہ اور زبیر مارے گئے ۔

ام المومنین نے عبداللہ بن حلف کے مکال میں پناہ لی ۔حضرت امیر المومنین نے اپنے لشکر میں اعلان کردیا کہ کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے ،کسی عورت پہ ہاتھ نہ اٹھایا جائے ، کسی کے گھر میں داخل ہو کر مال نہ لوٹا جائے ۔

پھر امیر المومنین نے زوجہ رسول (ص) کو چالیس عورتوں کےہمراہ واپس مدینہ بھیج دیا اور اس کی مزید حفاظت کے لئے اس کے بھائی محمد بن ابو بکر کو ہمراہ روانہ کیا ۔ حضرت عائشہ نے بصرہ سے روانہ ہوتے وقت کہا ۔ہمیں ایک دوسرے پر ناراض نہیں ہونا چاہیئے ۔میرے اور علی (ع)کے درمیان تنازعات کی وہی نوعیت ہے جو کہ دیور اور بھابھی کے تنازعات کی ہوا کرتی ہے ۔

محرّکین جمل کے جرائم

گروہ ناکثین کی کارستانیاں آپ نے ملاحظہ فرمائیں ۔ اس پورے ہنگامے میں ان لوگوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ۔

۱:- طلحہ وزبیر نے پچاس افراد کو رشوت دے کر جھوٹی گواہی دلائی کہ اس چشمہ کا نام "حواب" نہیں ہے ۔اور یہ تاریخ اسلام کی پہلی اجتماعی جھوٹی گواہی تھی اور اسلام میں جھوٹی گواہی کتنا بڑا جرم ہے ؟

اس کے لئے صحیح بخاری کی اس حدیث کا مطالعہ فرمائیں ۔

"قال رسول الله اکبر الکبائر عندالله الاشراک بالله وعقوق الوالدین وشهادة الزور ثلاثا اقولها او اقول شهادة الزور فما زال یکرّرها قلنا لیته سکت "

رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک بد ترین گناہ اس کے ساتھ شرک

۲۳۳

کرنا ،والدین کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی ہے ۔

آپ نے ان الفاظ کا بار بار تکرار کیا ۔ یہاں تک کہ ہم کہنے لگے : کاش کہ آپ خاموش ہوجائیں ۔

۲:- ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ام المومنین "حواب " کا سن کر واپس کبھی اپنے گھر نہ جاتیں کیونکہ جھوٹے گواہ انہیں بتارہے تھے کہ وہ تھوڑی دیرپہلے "حواب" سے گزر چکی ہیں ۔

ام المومنین کے دل میں فرمان رسول کا رتی برابر بھی احساس ہوتا تو بھی انہیں واپس چلے جانا چاہئے تھا ۔

۳:- طلحہ وزبیر نے حضرت علی کی بیعت کرکے عہد شکنی کی تھی اور بعد ازاں عثمان بن حنیف کے ساتھ معاہدہ کرکے عہد شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔

۴:- انہوں نے مسجد اور نماز کی حرمت پامال کی اور بیت المال کے محافظین کو ناحق قتل کیا ۔ جب کہ قرآن مجید میں قتل مومن کی بہت بڑی سزا بیان ہوئی ہے ۔

۵:- محرکین جمل نے حضرت عثمان بن حنیف کے تمام بال نوچ ڈالے تھے اور ان کا "مثلہ" کیا تھا ۔ اب آئیے رسول اسلام (ص) کی تعلیمات کو بھی دیکھ لیں ۔

حضرت عمر نے رسول خدا (ص)کی خدمت میں عرض کی تھی کہ :سہیل بن عمرو کفار مکہ کا خطیب ہے ۔ وہ کفار کو ہمیشہ اپنے خطبات کے ذریعہ برانگیختہ کیا کرتا ہے ۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کے نچلے دودانت توڑ دیتا ہوں ۔اس کے بعد اس کی خطابت کے جوش میں وہ روانی نہیں رہے گی اور وہ یوں کسی کو اسلام کی مخالفت پر امادہ کرنے کے قابل نہ رہے گا ۔

رسول خدا (ص) نے حضرت عمر کو سختی س منع فرمایا اور ارشاد فرمایا :"میں کسی کی صورت نہیں بگاڑوں گا ورنہ اللہ میری صورت بگاڑدے گا اگر چہ کہ میں نبی ہوں :"(۱)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ رسول خدا (ص) نے تو بد ترین مشرک کا حلیہ بگاڑنے کی

____________________

(۱):- تاریخ طبری ۔جلد دوم ۔ص ۲۸۹

۲۳۴

اجازت نہیں دی ۔لیکن طلحہ وزبیر نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایک شریف اور امین مسلمان کا حلیہ تبدیل کردیا تھا کیا اسلام میں اس فعل شنیع کی اجازت ہے ؟

۶:- حضرت عثمان کے قتل ،اور بصرہ کے لوٹنے کا باہمی ربط کیا ہے ؟

۷:- جو کچھ بلوائیوں نے حضرت عثمان کے ساتھ سلوک کیا وہ نامناسب تھا جو سلوک طلحہ وزبیر نے عثمان بن حنیف کے ساتھ کیا ۔کیا وہ اسلامی طرز عمل کے مطابق تھا ؟

۸:- اسلام میں ایفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے اور عہد شکنی کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔جیسا کہ امام مسلم نے رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کی ہے ۔

"قال رسول الله ص اربع من کنّ فیه کا منافقا خالصا ومن کا نت فیه خصلة منهن کانت فیه خصلة من نفاق حتی یدعها اذا حدّث کذب واذا عاهد غدر واذا اخلف خاصم فجر "

"رسول خدا(ص) نے فرمایا : جس میں چار علامتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ایک علامت ہو تو اس میں بھی منافقت کی علامت ہے ۔یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے :-

۱:- جب بو لے تو جھوٹ بولے ۔

۲:- جب معاہدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔

۳: جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ۔

۴:- جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے ۔"(۱)

اور گروہ ناکثین میں جتنی علامات پائی جاتی تھیں اس کا فیصلہ ہم اپنے انصاف پسند قارئین پر چھوڑتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ اپنے قارئین سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ وہ ناکثین کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ امیرالمومنین کے طرز عمل کو بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

ہمیں اپنے باضمیر اور انصاف پسند قارئین سے امید ہے کہ وہ خود ہی اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ علی (ع) اوران کے حریفوں کے درمیان زمین وآسمان ،حق وباطل اور نور وظلمت جتنا فاصلہ پایا جاتا ہے ۔

____________________

(۱):- صحیح مسلم ۔جلد اول ۔ص ۴۲

۲۳۵

فصل پنجم

گروہ قاسطین (منکرین حق)

"ویحک عمّار تقتلک الفئة الباغیة تدعوهم الی الله ویدعونک الی النار"

(فرمان رسول اکرم ص)

عمّار ! تجھ کو پر افسوس ہے ۔تجھے باغی گروہ قتل کرے گا ۔تو انہیں اللہ کی طرف دعوت دے گا اور وہ تجھے دوزخ کی طرف بلائیں گے ۔

انزلنی الدّهر ثمّ انزلنی

حتی قیل علیّ ومعاویة

"زمانے نے مجھے میرے مقام سے نیچے کیا اور بہت ہی نیچے کیا ۔ یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے کہ علی اور معاویہ ۔"(الامام علی بن ابی طالب علیہ السلام )

ہم نے سابقہ فصل میں ناکثین کی تحریک کا اکیا جائزہ لیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک نے اسلامی دنیا میں سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کی تھی ۔

ناکثین کی تحریک کا نتیجہ حق وباطل کی جنگ کی صورت میں نمودار ہوا ۔

واقعہ جمل کی وجہ سے معاویہ اور اس کے ہم نواؤں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہیں اسلامی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت برپا کرنے کی جراءت ہوئی اور واقعہ جمل کی وجہ سے معاویہ کو اتنی فرصت مل گئی جس میں اس نے شر اور بدی کی قوتوں کو جمع کیا اور دین حنیف کے مقابلہ میں علم بغاوت بلند کیا ۔معاویہ کے پرچم تلے وہ تمام افراد آکر جمع ہوئے جنہیں خدشہ تھا کہ علی ان پر حد جاری کرینگے وہ سب بھاگ کر معاویہ کے پاس آگئے تھے ۔ جس کی مثال عبیداللہ بن عمر بن خطاب ہے ۔

۲۳۶

جب ابو لولؤ نے حضرت عمر پر وار کیا تھا اور حضرت عمر اس کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئےچل بسے تھے ۔ تو ان کے فرزند عبیداللہ بن عمر نے تلوار اٹھا کر ابو لولؤ کو قتل کیا ۔اور اس کے علاوہ ایک ایرانی سردار جو کہ اسلام قبول کر چکا تھا اور اس کا نام ہرمزان تھا ، اسے اور ایک ذمی شخص جفینہ کو قتل کردیا ۔

حضرت عثمان جیسے ہی خلیفہ منتخب ہوتے تھے حضرت علی (ع) نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ عبیداللہ نے قانون ہاتھ میں لے کر شریعت نبوی کا مذاق اڑایا ہے ۔اس نے دو بے گناہ افراد کو ناحق قتل کیا ہے لہذا اس پر حد شرعی کو نافذ کرنا چاہیئے ۔

حضرت عثمان نے اس مطالبہ پر کوئی توجہ نہ دی اور کہا کہ کل اسکا باپ قتل ہوا اور آج اس کے بیٹے کو قتل کیا جائے ؟

الغرض حضرت عثمان نے مجرم کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور اس سے کوئی بازپرس نہ کی ۔

حضرت عثمان کے بعد جیسے ہی حضرت علی (ع) نے اقتدار سنبھالا تو عبیداللہ کو اپنی جان کے لالے پڑگئے ۔حضرت علی (ع) کے مثالی عدل سے ڈر کر شام چلا آیا اور معاویہ نے اس کا خیر مقد م کیا ۔(۱)

اسی طرح سے مصقلہ بن ھبیرہ شیبانی نے خرّیت بن راشد اسامی خارجی کے بقیۃ السیف پانچ سو افراد کو خرید کو آزاد کیا ۔لیکن جب عبداللہ بن عباس نے اس سے قیمت کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ : اگر میں اس سے زیادہ رقم عثمان سے مانگتا تو وہ بے دریغ مجھے دے دیتے ۔

چنانچہ رقم کی ادائیگی کی بجائے وہ معاویہ کے پاس شام چلاگیا اور معاویہ نے اسے طبرستان کا گورنر بنا دیا ۔

بعد ازاں اس نے اپنے بھائی نعیم بن ھبیرہ کو بھی معاویہ کے پاس آنے

____________________

(۱):-المسعودی ۔مروج الذھب ومعادن لجوہر ۔جلد دوم ۔ص ۲۶۱

۲۳۷

کی ترغیب دی ۔(۱)

جگر خوار ماں کا بیٹا حضرت علی (ع) کے مخالفین اور ان کی عدالت سے بھاگے ہوے افراد کے لئے کمین گاہ بن گیا تھا اور اس نے مسلم معاشرہ میں فساد کی تخم ریزی کی اور دین متین کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور مخالفت دین کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ۔

معاویہ کے کردار کے اثرات صرف اس کے اپنے دور تک محدود نہیں رہے ۔بلکہ امت مسلمہ اس کا آج تک خمیازہ بھگت رہی ہے ۔

خون عثمان کا بہانہ کرکے معاویہ نے دین اسلام کے ضروریات کا انکار کیا ۔ہماری نظر میں عظمت انسانیت پر سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ علی (ع) جیسے انسان کے مقابلے میں معاویہ کو قابل ذکر انسان تصور کیا گیا ۔ جی ہاں ی وہ عظیم انسان تھے جن کے والد ابو طالب تھے جو کہ رسولخدا (ص) کے مربی تھے اور معاویہ کا باپ ابو سفیان تھا جس نے اسلام اور رسول اسلام کے خلاف ہمیشہ جنگیں کیں ۔

علی (ع) کی ماں فاطمہ بنت اسد تھیں جنہیں رسول خدا (ص) اپنی ماں قراردیا کرتے تھے اور معاویہ کی ماں ہند جگر خوار تھی ۔

معاویہ کی بیوی میسونہ عیسائیوں کی بیٹی تھی ۔ علی کی زوجہ حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا (ص) کے جگر کا ٹکرا تھیں جن کی تعظیم کے لئے رسول خدا (ص) اپنی مسند چھوڑ دیتے تھے ۔ اور انہیں سیدۃ نساء العالمین کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔

معاویہ اور میسونہ کی مشترکہ تربیت کا مجسمہ یزید لعین تھا اور علی وزہرا (س) کی آغوش میں پلنے والے حسن وحسین تھے جو کہ جوانان جنت کے سردار تھے

معاویہ کا باپ ابو سفیان اور ماں ہند فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے جب کہ ان کے پاس اپنی جان ومال بچانے کے لئے اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین ۔الفتنتہ الکبری ۔ علی وبنوہ ۔ص ۱۲۷

۲۳۸

نہیں تھا ۔

اگر معاویہ خون عثمان کے مطالبہ میں مخلص تھا تو اس کا فرض بنتا تھا کہ وہ امت اسلامیہ کے زعیم حضرت علی (ع) کی بیعت کرتا اور پھر حضرت عثمان کی اولاد کو ساتھ لے کر حضرت علی (ع) کے پاس ان کے خون کا مقدمہ درج کراتا اور انصاف حاصل کرتا ۔

لیکن حقیقت یہ کہ معاویہ صرف اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتاتھا اسے خون عثمان سے کوئی دل چسپی نہیں تھی اور اس کا تاریخی ثبوت یہ ہے کہ جب معاویہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان نے خون عثمان کو مکمل طور پر فراموش کردیا اور حضرت عثمان کے کسی قاتل سے اس نے کوئی تعرض نہیں کیا ۔

خون عثمان کا بہانہ کرکے معاویہ نے دولت بھی حاصل کرلی اور دشمنان علی کی پارٹی منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور آخر کار حکومت بھی حاصل کرلی غرضیکہ معاویہ نے سب کچھ حاصل کیا لیکن صرف ایک چیز اسے حاصل نہ ہوئی اور وہ چیز خون عثمان کا بدلہ تھی ۔

حقیقت تویہ ہے کہ معاویہ خود ذہنی طور پر یہ چاہتا تھا کہ حضرت عثمان کسی نہ کسی طرح قتل ہوں اور وہ ان کا "دلی دم" بن کر اقتدار حاصل کرسکے ۔ حضرت عثمان کافی ایام تک اپنے گھر میں محصور رہے تھے اور اس دوران اگر معاویہ چاہتا تو فوج بھیج کر ان کی گلوخلاصی کراسکتا تھا لیکن اس نے جان بچا کر خاموشی اختیار کرلی تھی تاکہ حالات اپنے منطقی نتیجہ تک پہنچ سکیں اور اس کے بعد وہ خود بنی امیہ کا "ہیرو" بن کر منظر عام پر آسکے ۔

معاویہ نے ابو الطفیل کو ایک مرتبہ ملامت کرتے ہوئے کہا تھا کہ : تجھ پر افسوس ہے تو نے حضرت عثمان کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔

۲۳۹

ابو الطفیل نے کہا:- میں اس وقت باقی مہاجرین وانصار کی طرح خاموش رہا لیکن تمہارے پاس تو شام جیسا بڑا صوبہ تھا اسکے باوجود تو نے اسکی مدد کیو ں نہ کی ؟

معاویہ نے کہا : اس کے خون کے بدلہ کا نعرہ لگا کر میں عثمان کی مدد کررہا ہوں ۔ یہ سن کر ابو الطفیل ہنسنے لگے اور کہا کہ تیرا اور عثمان کا معاملہ بھی وہی ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا "

لا لفینّک بعد الموت تندبنی ۔۔۔ وفی حیاتی ما زودتّنی زادا

"اپنے مرنے کے بعد میں تجھے اپنے اوپر روتا ہا دیکھوں گا جب کہ تونے میری زندگی میں کسی طرح کی مدد نہیں کی تھی ۔"

معاویہ نے مخالفین عثمان کو کلیدی مناصب پرفائز کیا ہوا تھا ۔

سابقہ صفحات میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان نے عمرو بن العاص کو حکومت سے معزول کردیا تھا ۔ اس کے بعد عمرو بن العاص نے لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑکانا شروع کیا ۔ان کے اپنے قول کے مطابق انہیں کوئی چرواہا بھی ملتا تو اسے بھی عثمان کی مخالفت پر آمادہ کرتے تھے ۔ اور جب حضرت عثمان قتل ہوگئے تو اس وقت عمر بن العاص نے اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کرکے کہا تھا :-

" میں عبداللہ کاباپ ہوں میں نے آج تک جس زخم کو بھی کریدا اس سے خون ضرور نکالا ۔"(۱)

حضرت عثمان کے اس مخالف کو معاویہ نے اپنے ساتھ ملایا اور وہ معاویہ کا مشیر اعظم تھا ۔

عمرو بن العاص جیسے عثمان دشمن شخص کو اتنا بڑا منصب دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معاویہ کو عثمان کے خون سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔اسے

____________________

(۱):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

عاصم ،دومة الجندل کی جنگ میں

ترکنا هم صرعی لخیل تنوبهم تنافسهم فیها سباع المرجب

ہم نے دشمن کے سپاہیوں کا اس قدر قتل عام کیا کہ لاشیں گھوڑوں سے پامال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزرگاہ بن گئیں

(عاصم ،افسانوی سورما)

دو مة الجندل کی فتح

طبری نے ''دومة الجندل ''کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے حسب ذیل روایت کی ہے :

مختلف عرب قبیلوں نے جن میں ودیعہ کی سرپرستی میں قبیلہ کلب بھی موجود تھا اپنے تمام سپاہیوں کو ایک جگہ پر جمع کیا ۔اس منسجم فوج کی قیادت کی ذمہ داری اکید ر بن عبد الملک اور جودی بن ربیعہ نامی دو افراد نے سنبھالی ۔

اکیدر کا نظریہ تھا کہ خالد بن ولید سے صلح کرکے جنگ سے پرہیز کیا جائے جب اکیدر کی تجویز عوام کی طرف سے منظور نہیں ہوئی تو اس نے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔خالد بن ولید نے عاصم بن عمر و کو حکم دیا کہ اکیدر کو راستے سے پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے خالد کے حکم سے اکیدر کو قتل کیا گیا. اس کے بعد خالد بن ولید نے دومة الجندل پر حملہ کیا ۔

دوسری جانب مختلف عرب قبیلے ،جنھوں نے خالد سے جنگ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد و معاہدہ کیا تھا ،قلعہ دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے ۔چوں کہ اس قلعہ میں ان تمام لوگوں کے لئے گنجائش نہیں تھی ،اس لئے ان میں سے بیشتر افراد قلعہ سے باہر مورچے سنبھالنے پر مجبور ہوئے۔ خالد بن ولید نے ان سے جنگ کی سر انجام اس نے ان پر فتح پائی جودی بھی مارا گیا ۔قبیلہ کلب کے علاوہ تمام افراد مارے گئے ۔کیوں کہ عاصم بن عمرو نے دشمن پر فتح پانے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ :اے قبیلہ تمیم کے لوگو!اپنے قدیمی ہم پیمان ساتھیوں کو اسیر کرکے انھیں پناہ دو کیوں کہ انھیں فائدہ پہنچانے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا ۔تمیمیوں نے ایسا ہی کیا ۔اس طرح قبیلہ کلب کے لوگ بچ گئے ۔ خالد بن ولید عاصم کے اس عمل سے ناخوش ہوا اور اس کی سرزنش کی ۔

۲۸۱

ان مطالب کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم بن عمر و کی زبانی کہے گئے سیف کے اشعار کو ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر نے اس داستان کے ایک حصہ کو اپنی تاریخ میں عاصم کے حالات سیف سے نقل کرتے ہوئے درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھا ہے:....اور عاصم نے دو مة الجندل کے بارے میں یوں کہا ہے :

''میں جنگوں میں کارزار کے انداز کو کنٹرول میں رکھتا ہوں ،دوستوں کی حمایت کرتاہوں ،انھیں تنہانہیں چھوڑتا ہوں ۔شام ہوتے ہی جب ودیعہ نے اپنے سپاہیوں کو مصیبتوں کے دریا میں ڈال دیا ،میں نے جب دومة الجندل میں دیکھا کہ وہ غم واندوہ میں ڈوبے خون جگر پی رہے ہیں تو میں نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ،لیکن اپنے ہم پیمان ،کلب کے افراد کا خیال رکھ کر اپنے قبیلہ کے لئے ایک بڑی نعمت فراہم کی ''

یاقوت حموی نے بھی اس داستان کے ایک حصہ کو روضة السلہب اور دومة الجندل کے ناموں کی مناسبت سے اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

''روضة السلہب عراق کے دومة الجندل میں واقع ہے ،اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں جن کے ضمن میں خالد بن ولید کی دومة الجندل کی جنگ کا اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

'' روضة السلہبکے دن دشمن خاک و خون میں غرق تھے ،وہ ہمارے دلوں کے لئے شفابخش منظر تھا کیوں کہ ان کے سردار کی ہوائے نفس نے انھیں فریب دیا تھا ۔اس دن ہم نے تلواروں کی ایک ضرب سے جودی کا کام تمام کیا اور اس کے سپاہیوں کو زہر قاتل پلا یا ۔انھیں قتل عام کیا ،ان کی لاشیں گھوڑوں سے پائمال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزر گاہ بن گئیں ''

۲۸۲

سیف بن عمر اپنے افسانوی سورما ،عاصم بن عمرو کے زبانی بیان کردہ اشعار کے ضمن میں پہلے مذکورہ قبائل کی جنگ بیان کرتا ہے اور اس میں قبیلہ کلب کے پیشوا''ودیعہ''کی نا اہلی کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو ہلاکت و نابود ی اور مصیبت سے دوچار کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اورثابت کرتاہے کہ عاصم نے قبیلہ کلب کے ساتھ اپنے قبیلہ کے عہد و پیمان کو فراموش نہیں کیا تھا ۔اور وہ اس معاہدہ پر اس کے خاندان کے لئے فضیلت وافتخار کا سبب باقی رہا ۔اس دن اس عہد نامہ کا پاس رکھتے ہوئے اس نے اپنے قبیلہ ادر قبیلہ کلب پر احسان کیا اور اس طرح اس نے قبیلہ کلب کے افراد کو یقینی مو ت سے نجات دی ہے ۔

عاصم کے اشعار کے دوسرے حصے میں تمام عرب قبیلوں کو شامل کیا گیا ہے اور ان میں ان کے احمقانہ اقدام کی وجہ سے بدترین انجام اور ان کے قائد جودی کی شکست کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔

''لسان ''اور ''ملطاط''کی تشریح

حموی نے لفظ ''الملطاط ''کی حسب ذیل تشریح کی ہے :

عرب ،کوفہ کے مشرقی علاقے جو کوفہ کے پیچھے واقع ہے کو ''لسان''اور اس کے دریائے فرات کے قریب واقع مغربی علاقے کو ''ملطاط''کہتے ہیں ....عاصم بن عمرو تمیمی نے خالد بن ولید کے ساتھ کوفہ و بصرہ کے در میان سر زمینوں کو فتح کرکے ''حیرہ''کو اپنے قبضے میں لیتے وقت اس طرح کہا ہے :

''ہم نے سواری کے گھوڑوں اور تیز رفتار اونٹوں کو عراق کے وسیع آبادی والے علاقوں کی طرف روانہ کیا ۔ان حیوانوں نے اس دن تک ہم جیسے چابک سوار کبھی نہیں دیکھے تھے اور کسی نے اس دن تک ان جیسے بلند قامت حیوان بھی نہیں دیکھے تھے۔''

ہم نے فرات کے کنارے ''ملطاط''کو اپنے ان سپاہیوں سے بھردیا جو کبھی فرار نہیں کرتے۔ ہم نے ''ملطاط ''میں فصل کاٹنے کے موسم تک توقف کیا ۔اس کے بعد ہم ''انبار''کی طرف بڑھے ،جہاں پر ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے دشمن کے جنگجو بڑی تعداد میں موجود تھے ۔''بحیرہ''میں جمع ہوئے سپاہیوں کے ساتھ ہماری سخت اور شدید جنگ ہوئی۔

۲۸۳

جب ہم سیف کی معروف روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ابیات اسی شرح کے ساتھ من وعن اس کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں ۔مثلا لفظ '' ملطاط''سیف کی چار روایتوں میں طبری کی کتاب ''تاریخ طبری ''میں ذکر ہوا ہو،من جملہ ٧١ ھمیں سعد بن وقاص کے ذریعہ کوفہ کے حدود کو معین کرتے ہوئے طبری لکھتا ہے :

عربوں کے امراء اور معروف شخصیتوں نے سعد وقاص کی توجہ ''لسان''نامی کوفہ کے پیچھے واقع علاقہ کی طرف مبذول کرائی

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

وہ حصہ جو دریائے فرات کے نزدیک ہے ،اسے ''ملطاط ''کہا جاتا ہے ۔اب رہے اس سے مربوط اشعار تو ہم ان سب کو تاریخ ابن عساکر میں عاصم بن عمرو کی تشریح میں پاتے ہیں ،جہاں پر لکھتا ہے :

سیف بن عمرو کہتا ہے :...اور عاصم بن عمرو اور اس کے علاقہ ''سواد''میں داخل ہونے (کوفہ اور بصرہ و موصل کے در میان کے رہائشی علاقہ )اور وہاں پر ان کے ٹھہرنے کی مدت اور پیش آئے مراحل کو ان اشعار میں بیان کرتا ہے :...اس کے بعد اشعار کو آخر تک درج کرتا ہے ۔

داستان کے متن کی چانچ:

''دومة الجندل'' کی فتح کے بارے میں یہ سیف کی روایتیں ہیں ،جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔طبری کے بعدابن اثیر نے ان ہی روایتوں کو اختصار کے طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا ہے اور اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔ لیکن ابن کثیر نے اس داستان کی روایتوں کی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اور اس کے مصدر کو معین کئے بغیر ،پوری داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔

حموی نے ''دومة ''و ''حیرہ ''کی تشریح میں سیف کے بعض اشعار اور روایا ت کا ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ ان مطالب کو اس نے کہاں سے نقل کیا ہے ۔

۲۸۴

اصل بات یہ ہے کہ عراق میں ''دومة الجندل ''نام کی کوئی جگہ تھی ہی نہیں ،بلکہ ''دومة الجندل ''مدینہ سے دمشق جاتے ہوئے ساتویں پڑائو پر شام میں ایک قلعہ تھا۔اور عراق میں ''دوما'' یا ''دومہ''کے نام پر ایک جگہ تھی ،جسے ''دومة الحریر ''بھی کہتے تھے۔وہاں پر واقع ہونے والی جنگ میں ''اکیدر ''مارا گیاہے۔اس کے بعد خالد نے شام کی طرف رخت سفر باندھا اور ''دومة الجندل ''پر حملہ کیااور اسے فتح کرنے کے بعد جن افراد کو اسیر کیا ان میں جودی غسانی کی بیٹی لیلیٰ بھی تھی۔

لیکن ''ربیعہ''و''روضة سلھب ''نام کی ان دو جگہوں کو ہم نے کسی کتاب میں نہیں پایا اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سیف نے ان مقامات کے ناموں کاذکر کرنے میں ہرگز غفلت،فراموشی اور غلط فہمی سے کام نہیں لیا ہے کہ شام میں واقع ''دومة الجندل''اور عراق میں ''دومة الجندل ''میں کوئی فرق نہ کرپائے اورایک کو دوسرے کی جگہ تصور کرلے ۔بلکہ سیف سے دروغ بافی ،افسانہ نگاری ،اشخاص اورمقامات کے تخلیق کرنے کا جو ہم گزشتہ تجربہ رکھتے ہیں ،اس کے پیش نظر اس نے عراق کے لئے بھی عمدا ''دومة الجندل''نام کی ایک جگہ تخلیق کی ہے اوراس کے لئے ایک علیٰحدہ اور مخصوص میدان کارزار تخلیق کیا ہے تا کہ محققین کے اذہان کو بیشتر گمراہ کرے اور تاریخ اسلام کو مضحمل ، سست و بے اعتبا ر بنائے ۔

سند کی پڑتا ل :

سیف نے ''دومة الجندل''کی داستان کے راوی کے طور پر محمد نویرہ، ابوسفیان طلحہ بن عبد الرحمان اور مھلب کا ذکر کیا ہے ۔ہم نے قعقاع سے مربوط افسانوی داستانوں میں ان کو راویوں کی حیثیت سے مکرر دیکھا ہے اور معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں افراد سیف کے ذہن کی تخیلق ہیں اور حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ۔

''ملطاط'' سے متعلق روایت میں نضر بن سری ،ابن الرفیل اور زیاد کو راویوں کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ ان کے بارے میں بھی قعقاع کی داستانوں میں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

۲۸۵

تحقیق کا نتیجہ :

سیف اپنے افسانوں میں مختلف مناطق ،خاص کر تاریخی اہمیت کے خطّوں کے سلسلے میں ، ''دومة ''جیسے ہم نام مقامات کی تخلیق کرکے محققین کو حیرت اور تعجب میں ڈالتا ہے ۔اس کے با وجود طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق کے ''دومة الجندل''کی جنگ کے افسانوں کی روایت کرتا ہے اور اپنی روش کے مطابق صرف عاصم کے رزم ناموں کو حذف کرتا ہے ۔

ابن عساکر بھی ان اشعار کے ایک حصہ کی روایت کرتاہے اور اس کی سندکی سند کے طور پر سیف ابن عمرتمیمی کا نام لیتا ہے ۔اس کے ایک حصہ کو حموی بھی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔اسی طرح حموی ''ملطاط ''کی بھی تشریح کرتا ہے اور عاصم ابن عمرو کے اشعار کو شاہد کے طور پر درج کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں اپنی روایت کی سند کا نام نہیں لیتا ،جب کہ ''ملطاط''کے بارے میں اسی تشریح کو ہم اول سے آخر تک تاریخ طبری میں سیف سے نقل شدہ دیکھتے ہیں ،اور عاصم کے اشعار کو بھی ابن عساکر کی روایت کے مطابق ،سیف بن عمرسے منقول تاریخ ابن عساکر میں مشاہدہ کرتے ہیں ۔٢

اس داستان کے نتائج:

١۔خالد مضری کے لئے عراق میں جنگوں اور فتوحات کی تخلیق کرکے عام طور پر اس کی تحسین اور بڑائی کا اظہار کرانا ۔

٢۔ایک دوسرے سے دور دوعلاقوں عراق اور شام میں ایک ہی نام کی دو جگہوں کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں ،خاص کر حموی کی کتاب ''المشترک '' میں درج کرانا اور محققین کو حیرت و پریشانی سے دوچار کرنا۔

٣۔اشعار اور رزم ناموں سے ادبیات عرب کے خزانوں کو زینت دینا۔

٤۔ سرانجام ان تمام افسانوں کا ماحصل یہ ہے کہ عاصم بن عمرو تمیمی جیسے افسانوی سور ماکی شجاعتوں ،رجز خوانیوں اور خاندانی معاہدوں کی رعایت جیسے کارناموں کی اشاعت کرکے انھیں ہمیشہ کے لئے عام طور سے قبیلہ مضر اور خاص طور پر خاندان تمیم کے افتخارات میں شامل کیا جائے اور یہ باتیں امام المورخین محمد جریر طبری کی کتاب تاریخ میں درج ہوں تاکہ دوسرے مورخین کے لئے اس کے معتبر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔

۲۸۶

عاصم وخالد کے باہمی تعاون کا خاتمہ

طبری اس سلسلے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

''فراض ''کی جنگ کے بعد خالد بن ولید نے ارادہ کیا کہ سب سے چھپ کے خاموشی کے ساتھ حج کے لئے مکہ چلاجلائے ،تو اس نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ساتھ ''حیرة''جانے کا حکم دیا۔

اس کے علاوہ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں خالد بن ولید کے شام کی طرف روانگی کے سلسلے میں لکھتا ہے :

شام میں مشرکین سے جنگ میں مشغول مسلمانوں نے خلیفہ ابوبکر سے مدد کی در خواست کی۔ ابوبکر نے خالد کو ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام کی طرف روانہ ہوجائے ۔اس غرض سے وہ عراق میں موجود فوج میں سے آدھے حصے کو اپنے ساتھ لیتا ہے اور باقی حصے کو المثنی بن حارثہ شیبانی کی قیادت میں عراق میں ہی رکھتا ہے۔اس تقسیم میں خالد کسی ایسے پہلوان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب نہیں کرتا ،مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان مثنی کے لئے چھوڑ تاہے ۔

فوج کی اس تقسیم میں خالد ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کا اپنے لئے انتخاب کرتا ہے اور غیر اصحاب کو مثنی کے پاس چھوڑتا ہے ۔

مثنی نے اس تقسیم پر اعتراض کیا اور تقاضا کیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو خالد اپنے ساتھ لے جائے اور ایک حصہ کو مثنی کے پاس رکھے ۔ خالد،مثنی کی اس تجویز کو منظور کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے قعقاع بن عمرو تمیمی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرتا ہے اور دوسرے صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمرو تمیمی قعقاع کے بھائی کو مثنی کے پاس چھوڑ دیتا ہے ۔

۲۸۷

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ تھاان مطالب کا خلاصہ جنھیں سیف نے عاصم وخالد کے باہمی تعاون کے خاتمہ کے طور پر ذکر کیا تھا۔لیکن اس سلسلے میں دوسرے مورخین کے حسب ذیل نظریات سے سیف ابن عمر تمیمی کے افسانے کا پول کھل جاتاہے:

اس سلسلے میں ابن عساکر ،ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کرتا ہے:

جس وقت خالد بن ولید ''حیرة''میں تھا ،خلیفہ ابوبکر نے اسے ایک خط لکھا اور حکم دیا کہ اپنے بہادر اور کار آمد سپاہیوں کے ساتھ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ ہو جائے ۔اور اپنے باقی بے کار اور سست و کمزور سپاہیوں کو ان ہی میں سے ایک کی قیادت میں وہیں پر چھوڑ دے ۔

ابن عساکر نے ابو بکر کے خط کا متن یوں نقل کیا ہے :

''اما بعد ،عراق سے روانہ ہو جائو اور ان عراقیوں کو وہیں پر رکھو جو تمھارے وہاں پہنچنے پر وہیں موجود تھے اور اپنے طاقتور ساتھیوں جو یمامہ سے تمھارے ساتھ عراق آئے ہیں یا حجاز سے آکر تمھارے ساتھ ملحق ہوئے ہیں کے ساتھ

روانہ ہو جائو ....''

سند کی پڑتال :

سیف کی اس افسانوی داستان کے راوی محمد مہلب اور ظفر بن دہی ہیں کہ قعقاع کی افسانوی داستان میں مکرر ان کی اصلیت معلوم ہو چکی ہے ۔

اس کے علاوہ اس روایت کا ایک اور راوی طلحہ ہے ۔سیف کی روایت میں طلحہ کا نام دو راویوں میں مشترک ہے ،ان میں سے ایک اصلی راوی ہے ۔یہاں پر معلوم نہ ہو سکا کہ ان دو میں سے سیف کا مقصود کون سا طلحہ ہے ؟!

اس کے علاوہ ''قبیلہ بنی سعد سے ایک مرد'' کے عنوان سے بھی ایک راوی کا ذکر ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اس کانام کیا تصور کیا تھا تاکہ ہم اس کے بارے میں تحقیق کرتے ؟!

۲۸۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

سیف کہتا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ اپنی فوج میں سے ایک حصہ کو شام لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور اس انتخاب میں کسی ایسے پہلوان کو اپنے لئے انتخاب نہ کرے ، مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان المثنی کے لئے وہاں پر رکھے ۔خالد نے تمام اصحاب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کو اپنے لئے انتخاب کرنا چاہا ،لیکن مثنی نے اس پر اعتراض کیا اور اسے مجبور کیا کہ آدھے اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے لئے وہاں چھوڑے ۔

لیکن دوسرے مورخین کہتے ہیں کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ فوج میں سے قوی اور کار آمد سپاہیوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور بے کار اور سست افراد کو وہیں پر چھوڑ دے اس کے علاوہ اپنے افراد کو ان لوگوں میں انتخاب کرے جو اس کے ساتھ عراق آئے تھے ۔ یہ بات شام کے حالات اور جنگ کی پوزیشن اور رومیوں کے آزمودہ اور تجربہ کار فوجیوں سے جنگ کے پیش نظر مناسب نظر آتی ہے ۔

شاید ایسی داستان دجعل کرنے سے سیف کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعہ اپنے وطن عراق کے جنگجوئوں کی تجلیل کرے ،کیوں کہ اس افسانے کے ذریعہ وہ عراقی فوجیوں کے ایک حصہ کو اسلامی سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ کرتا ہے اور فتحیاب بھی ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرے نتائج بھی حاصل کرتا ہے ۔٣

اس داستان کا نتیجہ :

اس داستان کو جعل کرنے میں سیف کی نظر میں موجود تمام مقاصد کے علاوہ سیف اپنی روایت میں واضح طور پر یہ تاکید کرتا ہے کہ اس کے افسانوی سورما ئوں قعقاع اور عاصم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور یہ دونوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔اس طرح سیف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں قعقاع اور عاصم دو اصحاب کا اضافہ کرتا ہے ۔

۲۸۹

عاصم ،نمارق کی جنگ میں

هذا واکثرمن هذا من نتائج خیال سیف الحصب

یہ داستان اور ایسی دوسری بہت سی داستانیں ،سیف کے ذہن کی پیدا وار ہیں

(مولف)

جنگ نمارق کی داستان

طبری نے جنگ'' نمارق ''( ۱)کی داستان کو سیف سے حسب ذیل بیان کیا ہے :

مسلمانوں نے ایرانی فوجیوں سے ''نمارق '' کے مقام پر صلابت کے ساتھ مقابلہ کیا ،یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے دشمن کو شکست دے دی اور فراری دشمنوں کا ''کسکر '' تک پیچھا کیا گیا۔

طبری ''سقاطیۂ کسکر '' کے بارے میں لکھتا ہے :

____________________

الف )۔''نمارق ''کے بارے میں '' معجم البلدان ''میں یوں تشریح کی گئی ہے : یہ کوفہ کے نزدیک ایک جگہ ہے معلوم نہیں اس لفظ کو اس کی تشریخ کے ساتھ سیف کی احادیث سے لیا گیا ہے یا کہیں اور سے

۲۹۰

''کسکر کا علاقہ ایران کے پادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی جاگیر تھا اور وہ خود اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس علاقہ کی پیداوار میں علاقہ نرسیان کے خرمے تھے ۔یہ

خرمے بڑے مشہور تھے ۔یہ خرمے قیمتی اور کمیاب تھے کہ صرف بادشاہ کے دسترخوانوں کی زینت ہوتے تھے اور بادشاہ انھیں نوش کرتا تھا یا اپنے معزز و محترم مہمانوں کو بخشتا تھا۔

اس کے بعد کہتا ہے :

ابو عبیدہ نے اپنے بعض سپاہیوں کو حکم دیا کہ دشمن کے فراری سپاہیوں کا تعاقب کریں اور ''نمارق '' اور ''بارق'' و ''درتا'' کے درمیانی علاقوں کو ان کے وجود سے پاک کریں ...''

اس کے بعد مزید کہتا ہے :

عاصم بن عمرو، اس سلسلے میں یوں کہتا ہے :

'' اپنی جان کی قسم ،میری جان میرے لئے کم قیمت نہیں ہے ،اہل ''نمارق '' صبح سویرے ان لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہے جنھوں نے خداکی راہ میں سفر و مہاجرت کی صعوبتیں برداشت کی تھیں ۔انھوں نے انھیں سرزمین ''درتا'' اور بارق'' میں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہم نے ان کو ''بذارق '' کی راہ میں ''مرج مسلح '' اور ''ہوافی'' کے درمیان نابود کرکے رکھ دیا''!(۱)

وہ مزید کہتا ہے :

''ابو عبید ہ نے ایرانیوں کے ساتھ '' سقاطیۂ کسکر '' کے مقام پر جنگ کی ۔ایک سخت

____________________

۱)۔ ان اشعار کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ (٢٧٧) میں ذکر کیا ہے لیکن شاعر کا نام نہیں لیا ہے بلکہ صرف اتنا لکھا ہے کہ : ایک مسلمان نے یوں کہا ہے :

۲۹۱

اور خونیں جنگ واقع ہوئی سرانجام دشمن شکست کھاکر فرارہوا۔نرسی بھی بھاگ گیا۔اس کی جاگیر ،فوجی کیمپ اور مال و منال پر اسلامی فوج نے مال غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیا ۔کافی مال اور بہت مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں منجملہ نرسیان کے خرمے مسلمانوں کے ہاتھ آگئے اور انھیں اس علاقہ کے کسانوں میں تقسیم کیا گیا ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے عاصم بن عمرو کو حکم دیا کہ ''رود جور'' یا ''رودجوبر '' کے اطراف میں آباد علاقوں پر حملہ کرے ۔عاصم نے اس یورش میں مذکورہ علاقوں میں سے بعض کو ویران کیا اور بعض پر قبضہ کیا''

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے اسے اختصار کے ساتھ طبری سے نقل کیا ہے ۔

رنگارنگ کھانوں سے بھرا دسترخوان

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کے بعد درج ذیل داستان روایت کی ہے :

اس علاقے کے ایرانی امراء جن میں فرخ کا بیٹا بھی موجود تھا نے رنگ برنگ ایرانی کھانے آمادہ کرکے ابو عبیدہ اور عاصم بن عمر و کی خدمت میں الگ الگ پیش کئے ۔ابو عبیدہ نے اس گمان سے کہ عاصم ایسے کھانوں سے محروم ہوگا اس کے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اسے کھانے پر دعوت دی ۔عاصم نے ابوعبیدہ کی دعوت کے جواب میں درج ذیل اشعار کہے :

''ابو عبیدہ !اگر تیرے پاس کدو ،سبزی ،چوزے اور مرغ ہیں تو فرخ کے بیٹے کے پاس بھی بریانی ،ہری مرچ سبزی کے ساتھ تہ شدہ نازک چپاتیاں اور مرغی کے چوزے ہیں ''

عاصم نے مزید کہا:

'' ہم نے خاندان کسری ٰ کو '' بقایس '' میں ایسی صبح کی شراب پلائی جو عراق کے دیہات کی شرابوں میں سے نہیں تھی ہم نے انھیں جو شراب پلائی وہ ایسے جوانمرد دلاور جوانمرد تھے جو قوم عاد کے گھوڑوں کی نسل کے تیز طرار گھوڑوں پر سوار تھے !''

۲۹۲

معجم البلدان میں سیف کے گڑھے ہوئے الفاظ

چوں کہ اس روایت میں '' سقاطیہ کسکر ،'' نرسیان '' ،''مرج مسلح'' اور ''ہوافی '' جیسے مقامات کا نام آیا ہے ۔اس لئے یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب '' معجم البدان'' میں اس کی تشریخ کی ہے منجملہ وہ ''سقاطیہ '' کی تشریخ میں لکھتا ہے :

سقاطیہ ،سرزمین '' واسط'' میں ''کسکر ''کا ایک علاقہ ہے ۔یہاں پر ابوعبیدہ نے ایرانی سپاہوں کے کمانڈر نرسی سے جنگ کی اور اسے بری طرح شکست دی ہے ۔

نرسیان کی تشریح میں لکھتا ہے :

نرسیان ،عراق میں ''کوفہ '' اور ''واسط'' کے درمیان ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' میں آیا ہے ۔خدا بہتر جانتا ہے ،شاید اس کانام ناسی ہوگا ۔ عاصم بن عمرو نے اسے اس طرح یاد کیا ہے :

'' ہم نے '' کسکر '' میں صبح کے وقت نرسیان کے حامیوں سے مقابلہ کیا اور انھیں اپنی سفیداور چمکیلی تلواروں سے شکست دے دی ۔ہم جنگ کے دنوں تیز رفتار گھوڑے اور جوان اونٹوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے ،جنگ ہمیشہ حوادث کو جنم دیتی ہے ۔ہم نے '' نرسیان '' کی سرزمین کو اپنے قبضے میں لے لیا ،نرسیان کے خرمے ''دبا'' اور ''اصافر'' کے باشندوں کے لئے مباح کر دئے ''

وہ مسلح کی تشریح میں لکھتا ہے :

مرج مسلح ،عراق میں واقع ہے ۔اس کا نام عاصم نے فتوحات عراق سے مربوط اشعار میں ذکر کیاہے ۔ان اشعار میں مسلمانوں کی طرف سے ایرانیوں پر پڑی مصیبتوں اور زبردست مالی و جانی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ کہتا ہے :

'' مجھے اپنی جان کی قسم ! میری جان کم قیمت نہیں ہے ....'' اور اس کے باقی اشعار کو آخر تک ذکر کرتا ہے ۔

''ہوافی''کی تشریح میں لکھتا ہے :

ہوافی، کوفہ و بصرہ کے درمیان ایک جگہ ہے ۔اس کا ذکر عاصم بن عمرو کے اشعار میں آیا ہے ، جو عبیدہ ثقفی کی فوج میں ایک چابک سوار پہلوان تھا ۔وہ اس سلسلے میں کہتا ہے :

'' ہم نے ان کو ''مرج مسلح'' کے درمیان شکست دے دی''

حموی نے اپنی کتاب '' معجم البدان '' میں ان مقامات کے بارے میں صرف اس لئے کہ اسے سیف کی باتوں پر اعتبار اور بھروسہ تھا بیان کیا ہے ۔لیکن ان کے مصدر یعنی سیف کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

۲۹۳

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ اور اس کے علاوہ دیگر سب روایتیں سیف کی ذہنی پیدا وار اور اس کی افسانہ نگار ی کا نتیجہ ہیں جب کہ حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہے کیوں کہ دوسروں نے اس سلسلے میں سیف کے بر عکس کہا ہے ، جیسے بلاذری ابوعبیدہ کے عراق میں فتوحات کے بارے میں لکھتا ہے:

''ا یرانی فوج کے ایک گروہ نے علاقہ '' درتی' 'پر اجتماع کیا تھا ۔ابو عبیدہ نے اپنی فوج کے ساتھ وہاں پر حملہ کیا اور ایرانیوں کوبری طرح شکست دے کر ''کسکر ''تک پہنچا ۔ اس کے بعد ''جالینوس ''کی طرف بڑھا جو''باروسیما''میں تھا ۔اس علاقہ کے سر حد بان اندرز گرنے ابو عبیدہ سے صلح کی اور علاقہ کے باشندوں کے لئے فی نفر چار درہم جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہوا اور ابو عبیدہ نے اس کی یہ تجویز قبول کی ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے مثنی کو ''زند رود ''کے لئے مامور کیا ۔مثنی نے وہاں پر ایرانی سپاہیوں سے جنگ کی اور ان پر فتح پائی اور ان میں سے کچھ لوگوں کو اسیر بنایا ۔اس کے علاوہ عروة ابن زید خیل طائی کو ''زوابی ''کی طرف بھیجا ۔عروہ نے ''دہقان زوابی''سے ''بارو سیما''کے باشندوں کی مصالحت کی بناء پر صلح کی ....یہ وہ مطالب ہیں جو ابو عبیدہ اور مثنی کی فتوحات کے بارے میں جنگ پل سے پہلے بیان ہوئے ہیں ''۔

اس داستان کے نتا ئج :

جو کچھ ہم نے اس داستان میں مشاہدہ کیا،جیسے :بادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی سرزمین ''کسکر''پر مالکیت ،نرسیان اور وہاں کے مشہور خرمے ،جو بادشاہوں اور ان کے محترم افراد کے لئے مخصوص تھے،'' سقا طیہ کسکر''،''ھوافی ''اور ''مرج مسلح ''جیسے مقامات اور وہان کی شدید خونیں جنگیں ، عاصم اور اس کی جنگیں شجاعتیں اور رزم نامے ،فرخ کے بیٹے کا رنگ برنگ ایران کھانوں اور اس زمانے کے شراب سے بھرا دستر خوان ،خاندان تمیم کے نامور پہلوان کے ذریعہ ''جوبر''کے باشندوں کا قتل عام اور انھیں اسیر بنانا وغیرہ سب کے سب ایسے مطالب ہیں جوصرف دوسری صدی ہجری کے دروغ گو اور قصے گڑھنے والے سیف ابن عمر تمیمی کی افسانوی روایتوں میں پائے جاتے ہیں ۔اور یہ صرف سیف ہی ہے جس نے ان افسانوں کو عجیب و غریب ناموں کی تخلیق کرکے انھیں طبری جیسے تاریخ نویسوں کے سپرد کیا ہے ۔ ٤

۲۹۴

پل کی جنگ

'نمارق''کی جنگ کے خا تمے کے بعد ایک اور داستان نقل کرتا ہے جسے طبری نے اپنی تاریخ میں یوں درج کیا ہے :

(اس جنگ میں جسے ابو عبیدہ کی جنگ پل کہاجاتا ہے مسلمانوں کو زبر دست نقصانات اٹھا نے پڑے اور اس میں ابو عبیدہ بھی ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ماراگیا ۔سیف مسلما ن فوج کے دریائے دجلہ سے عبور کی کیفیت کی اس طرح روایت کرتا ہے :)

عاصم بن عمرو نے مثنی اور اس کی پیدل فوج کی معیت میں ان لوگوں کی حمایت کی جو دریائے دجلہ پر پل تعمیر کرنے میں مشغول تھے ۔اس طرح دریائے دجلہ پر پل تعمیر کیا گیا اور سپاہیوں نے اس پر سے عبور کیا ۔

خلیفہ بن خیاط نے یہی روایت سند کو حذف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کی ہے۔

لیکن دینوری لکھتا ہے:

مثنی نے عروة بن زید خیل طائی قحطانی یمانی کو حکم دیا کہ پل کے کنارے پر ٹھہرے اور اسلامی فوج اور ایرانی سپا ہیوں کے درمیان حا ئل بنے۔اس کے بعد حکم دیا کہ سپا ہی پل کو عبور کریں ،خود بھی لشکر کے پیچھے روانہ ہوا اور ان کی حمایت کی ۔سب سپاہی پل سے گزرگئے ۔

طبری نے الیس صغریٰ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے روایت کی ہے :

مثنی نے اپنی فوج میں سے عاصم ابن عمرو کا اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کیا اور خود ایک سوار فوجی دستے کی قیادت میں دشمن کی راہ میں گھات لگا کر حملے کرتاتھا اس طرح وہ ایرانی فوج کے حوصلے پست اور ان کے نظم کو درہم برہم کر رہا تھا ۔

اس کے علاوہ جنگ ''بویب ''کے بارے میں لکھتاہے :

مثنی نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ہر اول دستے کا کمانڈر معین کیا ۔اور جنگ کے بعد اسے اجازت دی کہ ایرانیوں کا تعاقب کرتے ہوئے حملے کرے ۔عاصم نے ان اچانک حملوں اور بے وقفہ یورشوں کے نتیجہ میں مدائن میں واقع ''ساباط''کے مقام تک پیش قدمی کی ۔

۲۹۵

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

جو کچھ ہم نے یہاں تک پل کی جنگ کے بارے میں بیان کیا ،یہ وہ مطالب ہیں جن کی سیف نے روایت کی ہے جب کہ دوسروں ،جیسے بلاذری نے پل کی جنگ کے بارے میں اپنی کتا ب ''فتوح البلدان ''میں مفصل تشریح کی ہے اور دینوری نے بھی اپنی کتا ب ''اخبار الطوال''میں مکمل طور پر اسے ثبت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک میں سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ٥

سند کی تحقیق :

سیف نے عاصم بن عمرو کی ابو عبیدہ اور مثنی کے ساتھ شرکت کے بارے میں محمد، طلحہ ،زیاد اور نضر کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے کہ پہلے ہم ان کے بارے میں عرض کرچکے ہیں کہ ان کا حقیقت میں کہیں وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب سیف کی ذہنی تخلیق کا نتیجہ ہیں ۔

اس کے علاوہ اس روایت کے راوی حمزة بن علی بن محفز اور ''قبیلہ بکربن وایل کا ایک مرد ''ہیں کہ ہم نے تاریخ و انساب کی کتا بوں میں ان راویوں کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔ان کا نام صرف سیف ابن عمرکی دو روایتوں میں پایا جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔اس بناء پر ہم نے حمزہ کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کیا ہے ۔

چونکہ سیف نے کہا ہے کہ خود حمزہ نے بھی ''قبیلہ بکر بن وایل کے ایک مرد ''سے داستان پل کی روایت کی ہے ،لہٰذا قارئیں کرام خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس غیر معمولی دروغ گو سیف نے ''اس مرد''کا اپنے خیال میں کیا نام رکھا ہوگا؟!

۲۹۶

موازنہ کا نتیجہ اور اس داستان کے نتائج:

حقیقت یہ ہے کہ مثنی نے عروة بن زیاد خیل طائی قحطانی یمانی کو ماموریت دی کہ اسلامی فوج کی کمانڈ سنبھا ل کر پل پار کرائے ۔

خاندانی تعصب رکھنے والے سیف بن عمر جیسے شخص کے لئے ایک یمانی و قحطانی فرد کی اس جاں نثاری اور شجاعت کا اعتراف نا قابل برداشت تھا ،اس لئے وہ مجبور ہوتا ہے کہ خاندان قحطانی کے اس شخص کی شجاعت و جاں نثاری کو سلب کرکے اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے ایک فرد کو بٹھادے ۔اس عہدے کے لئے اس کے افسانوی سور ما عاصم بن عمرو تمیمی سے شائستہ و مناسب تر اور کون ہو سکتا ہے ؟ اسی بناء پر سیف ایک تاریخی حقیقت کی تحریف کرتا ہے اور اسلامی فوج کے پل سے گزرتے وقت عروة قحطانی یمانی کی اس فوج کی حمایت وشجاعت کا اعزازی نشان اس سے چھین کر خاندان مضر کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو کو عطا کر دیتا ہے اور اس طرح پل سے عبور کرتے وقت اسلامی فوج کی حمایت کو عاصم بن عمرو کے نام پر درج کرتا ہے ۔سیف صرف اسی تحریف پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے اس افسانوی سورما کے لئے اس کے بعد بھی شجاعتیں اور کارنامے گڑھ لیتا ہے ،جیسے مثنی کی جانشینی اور سپہ سالاری کا عہدہ اور ہر اول دستے کی کمانڈ میں دشمنوں پر پے درپے حملے کرتے ہوئے مدائن کے نزدیک ''ساباط ''تک پیش قدمی کرنا وغیرہ...

۲۹۷

عاصم ،قادسیہ کی جنگ میں

واللّٰه معکم ان صبر تم و صدقتموهم الضرب والطعن

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے تو خدا تمھارے ساتھ ہے ۔

(افسانوی سورما ،عاصم)

''گائے کا دن ''،گائے گفتگو کرتی ہے!!

طبری ١٤ھ کے حوادث کے ضمن میں جنگ قادسیہ کے مقدمہ کے طور پر سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''مسلمانوں کا سپہ سالار،سعد وقاص جب ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں اپنی سپاہ کے سرداروں میں عہدے تقسیم کررہاتھا اور ہر ایک کو اس کی استعداد ،لیاقت و شائستگی کے مطابق کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ رہا تھا،تو عاصم بن عمرو تمیمی کو اسلامی فوج کے اساسی اور اہم دستہ کی کمانڈ سونپی۔

جب سعد قادسیہ کی سرزمین پر اترا تو اس نے عاصم کو فرات کے جنوبی علاقوں کی ماموریت دی اور عاصم نے ''میسان'' تک پیش قدمی کی۔

عاصم فوج کے لئے گوشت حاصل کرنے کی غرض سے گایوں اور بھیڑوں کی تلاش میں نکلتاہے ۔وہ ''میسان''میں بھی جستجو کرتا ہے ۔ادھر ادھر دوڑ نے اور تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہیں پاتا، کیوں کہ وہاں کے باشندوں نے عرب حملہ آور وں کے ڈر سے مویشیوں کو طویلوں اور کچھاروں میں چھپا رکھا تھا ۔بالآخر اس تلاش وجستجو کے دوران عاصم کی ایک شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے وہ اس سے گائے اور گوسفند کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔اتفاقا وہ شخص چرواہا تھا اور اس نے اپنے گلہ کو نزدیک ہی ایک کچھار میں چھپا رکھا تھا وہ شدید اور جھوٹی قسمیں کھا کر بولاکہ اسے مویشیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے !جب اس آدمی نے عاصم کے سامنے ایسی جھوٹی قسمیں کھائیں تو اچانک کچھار سے ایک گائے چیختے ہوئے بول اٹھی : خدا کی قسم یہ آدمی جھوٹ بولتا ہے ،ہم یہاں پر موجود ہیں '' عاصم کچھار میں گیا اور تمام مویشیوں کو ہانکتے ہوئے اپنے ساتھ کیمپ کی طرف لے آیا ۔ سعد وقاص نے انھیں فوج کے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ۔اس طرح اسلامی سپاہی چند دنوں کے لئے خوراک کے لحاظ سے مستغنی ہو گئے۔

۲۹۸

حجاج بن یوسف ثقفی نے کوفہ کی حکومت کے دوران ایک دن کسی سے عاصم بن عمرو سے گائے کی گفتگوکی داستان سنی ۔اس نے حکم دیا کہ اس داستان کے عینی شاہد اس کے پاس آکر شہادت دیں اور اس داستان کو بیان کریں ۔جب عینی شاہدحاکم کے دربار میں حاضرہوئے تو حجاج نے ان سے اس طرح سوالات کئے :

أگائے کے گفتگوکرنے کا معاملہ کیا ہے ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا : ہم نے اپنے کانوں سے گائے کی باتیں سنیں اور گائے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بالآخر ہم ہی تھے جو ان مویشیوں کو ہانکتے ہوئے کیمپ تک لے آئے ۔

أتم چھوٹ بولتے ہو!

٭انھوں نے جواب میں کہا: ہم جھوٹ نہیں بولتے ،لیکن موضوع اس قدر عجیب اور عظیم ہے کہ اگر آپ بھی ہماری جگہ پر ہوتے اور اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم سے بیان کرتے تو ہم بھی اس کو جھٹلاتے اور یقین نہیں کرتے !

أحجاج نے کہا : سچ کہتے ہو ،ایسا ہی ہے ...مجھے بتائو کہ لوگ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا: لوگ ،گائے کی گفتگو کو فتح و کامیابی کے لئے خدا کی آیات میں سے ایک نوید بخش آیت سمجھتے تھے جو دشمنوں پر ہماری فتح کے لئے خدا کی تائید و خوشنودی کی علامت ہے ۔

أحجاج نے کہا:خدا کی قسم !یہ اس کے بغیر ناممکن ہے کہ اس سپاہ کے تمام افراد نیک اور پرہیزگار ہوں ۔

٭کہا گیا: جی ہاں ہمیں تو ان کے دل کی خبر نہیں تھی لیکن جو ہم نے دیکھا وہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک ان جیسے لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنھوں نے اس قدر دنیا سے منہ موڑا ہو اور اسے دشمن جان کر نفرت کرتے ہوں !!

سیف اس داستان کے ضمن میں مزید کہتا ہے : یہ دن اتنا اہم اور قابل توجہ تھا کہ ''گائے کادن'' کے عنوان سے مشہور ہوا ۔

۲۹۹

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

اس روایت کو تمام تفصیلات کے ساتھ امام المورخین ابن جریر طبری ،سیف ابن عمرو تمیمی سے نقل کرتا ہے اور ابن اثیر بھی اسے طبری کی کتاب سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کرتا ہے ۔

لیکن دوسرے لوگ ،یعنی بلاذری اور دینوری لکھتے ہیں :

... جب اسلام کے سپاہی ،مویشیوں کے لئے چارے اور اپنے لئے غذا کی ضرورت پیدا کرتے تھے تو فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار مچاتے تھے...

بلاذری نے اس روایت کے ضمن میں لکھا ہے :

عمر بھی مدینہ سے ان کے لئے گائے اور گوسفند بھیجا کرتے تھے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے'' گائے کا دن '' کی داستان کے سلسلے میں عبداللہ بن مسلم عکلی اور کرب بن ابی کرب عکلی کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے ۔ہم نے ان دو کا نام سیف کے علاوہ راویوں کے کسی بھی مصدر اور ماخذ میں نہیں پایا۔

عاصم ،کسریٰ کے دربار میں

طبری ،سیف بن عمرو تمیمی سے روایت کرتا ہے :

''خلیفہ عمر ابن خطاب نے سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند سخن پرور ،فصیح اور قدر ت فیصلہ رکھنے والے افراد کو کسریٰ کے پاس بھیجے تاکہ اسے اسلام کی دعوت دیں ۔سعد نے اس کام کے لئے چند افراد پر مشتمل ایک گروہ کا انتخاب کیا کہ ان میں عاصم بن عمر و بھی شامل تھا ۔یہ لوگ کسریٰ کی خدمت میں پہنچے اور اس کے ساتھ گفتگو کی ۔کسریٰ نے غصہ میں آکر حکم دیا کہ تھوڑی سی مٹی لا کر اس گروہ کے سر پرست کے کندھوں پر رکھی جائے ۔اس کے بعد سوال کیا کہ ان کا سردار کون ہے ؟ انھوں نے کسریٰ کے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی ۔عاصم بن عمرو نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا : میں اس گروہ کا سردار ہوں ،مٹی کو میرے کندھوں پر بار کرو!

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416