ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215582 / ڈاؤنلوڈ: 4976
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

 صرف دوسروں کے لیے دعا کریتیں ہیں۔” اس عظیم ماں نے جواب دیا “يَا بُنَيَّ الْجَارَ ثُمَ‏ الدَّارَ.” بیٹے دعا میں ہمارا ہمسایہ ہم پر مقدم ہوتا ہے” زہرا(ع) جیسی ماں حسن(ع) کی پرورش کرنے والی تھیں یہ روایت آپ سے مروی ہے۔

 “إِنَّ رَجُلًا أَتَى الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي أَعِنِّي عَلَى قَضَاءِ حَاجَةٍ فَانْتَعَلَ وَ قَامَ مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى الْحُسَيْنِ ص وَ هُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ أَيْنَ كُنْتَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ تَسْتَعِينُهُ عَلَى حَاجَتِكَ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَذُكِرَ أَنَّهُ مُعْتَكِفٌ فَقَالَ لَهُ أَمَا إِنَّهُ لَوْ أَعَانَكَ كَانَ خَيْراً لَهُ مِنِ‏ اعْتِكَافِهِ‏ شَهْراً.”

“ ایک شخص کو کوئی ضرورت پیش آئی تو اس نے آپ کو وسیلہ بنایا آپ اس کی خاطر چلے گئے۔ راستے میں دیکھا کہ حضرت امام حسین(ع) نماز پڑھ رہے ہیں آپ نے اس مرد سے پوچھا کہ تم نے حسین(ع) سے اس بارے میں رابطہ کیوں نہیں کیا اس شخص نے جواب دیا کہ امام حسین(ع) اس وقت مسجد میں اعتکاف میں تھے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ تمہاری ضرورت پوری کرتے تو ایک مہینے کے اعتکاف سے بہتر تھا۔

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نسب کے اعتبار سے تمام لوگوں کے سردار تھے حسب اور دیگر فضائل انسانی کے بارے میں آپ سے ہی سنتے ہیں۔

جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت پائی تو آپ (ع) نے فرمایا “ ہم اہل بیت حزب اﷲ ہیں جس کی زیادہ دفعہ معرفت کرادی گئی ہے“فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ‏” بے شک حزب اﷲ ، اﷲ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔” ( سورہ مائدہ آیت 56 ) ہم عترت رسول(ص) ہیں کہ حضور اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کی رو سے ہمیں قرآن کے ہم پلہ اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے۔

“إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ‏ كِتَابَ‏ اللَّهِ‏ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ”

“ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی مگر یہ

۶۱

 کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں”

 ہم ہی قرآن کی  تنزیل و تاویل کے عالم ہیں ہمیں قرآن میں معصوم اور مطہر کے نام سے پکارا گیا ہے۔

“ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً”

“ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن میں ان کو یہ حکم دیا گیا ہے۔

حضرت امام حسن(ع) کا صلح کرنا

حضرت امام حسن علیہ السلام کے اقدامات میں سے مسلمانوں اور اسلام کے لئے مفید اقدام معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ہے آپ کا یہ اقدام ان لوگوں کے نزدیک جو اسلام اور تاریخ سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں مورد شک قرار پاتا ہے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح قیام کیوں نہیں کیا۔

جو بات سب سے پہلے ذہن میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین(ع) کا قیام حضرت امام حسن(ع) کے صلح کے بیس سال بعد واقع ہوا ہے امام حسین علیہ السلام دس سال تک حضرت امام حسن علیہ السلام کےساتھ رہے اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے بعد دس سال امام کا مںصب بھی تھا، اختیار بھی تھا لیکن ان دس سالوں میں قیام نہیں کیا۔ امامت کے ان دس سالوں کے بعد آپ نے قیام کیا۔ کیا امام حسین(ع) کے اس تاخیر پر کسی کو اعتراض ہے؟ قطعی نہیں! اگر اس منزل پر کوئی اعتراض ہے تو صرف امام حسن علیہ السلام پر نہیں بلکہ دونوں اماموں پر ہو جاتا ہے یہ بات خود اس کی دلیل ہے کہ قیام کرنا اور تحریک چلانے کے لیے موقع و محل درکار ہے اور ان بیس سالوں میں اس قسم کا کوئی موقع و محل موجود نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ امیر معاویہ موجودہ اصطلاح میں ایک ماہر سیاستدان تھا۔ اور ہر ممکن ذریعے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جھوٹ ، فریب ، ظلم و قتل و غارت گری، پارٹی بازی ،

۶۲

 یا رشوت دے کر جو بھی ذریعہ اختیار کرنا پڑے اختیار کرتا تھا۔ اور ان ہی ذرائع کے وجہ سے اس کی حکومت قائم رہی جس کا ذکر تمام سنی و شیعہ کتب تاریخ میں موجود ہے۔ امیر معاویہ نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف سے تیس سال حکومت کی۔ ابن ابی الحدید کے کہنے کے مطابق حضرت عمر اپنے گورنروں کے ساتھ غیر معمولی حد تک سخت گیر تھے یعنی جب ابوہریرہ کےبارے میں سنا کہ دس ہزار درہم اس کے ذاتی جمع ہیں تو انہیں فورا اپنے دربارمیں بلایا اور کوڑے مارے یہاں تک کہ اس پیٹھ پر زخم پڑ گئے۔ اسے عہدے سے معزول کرنے کے علاوہ اس کا مال بھی ضبط کیا۔ جب خالد بن ولید کے  بارے میں سنا کہ اشعث بن قیس کو دس ہزار درہم ہدیہ دیا ہے تو حکم دیا اسے حمص میں ہی جہاں کے وہ گورنر تھے اس کے عمامے سے گلے میں باندھ کر ذلیل کر کے مسجد میں لے جایا جائے اور اس کے بعد اسے معزول کیا جائے۔ ایسا ہی کچھ  ابو موسی اشعری، قدامہ بن نطعون اور حارث بن وہب کے ساتھ ہوا مگر معاویہ کے معاملے میں آپ بھی خاموش رہے اور دیکھتے رہے کہ عالی شان محل ہے خود وہ اور اس کے احباب ریشم کا لباس پہننے ہیں۔ ، کفار کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اسراف میں تو مشہور ہوئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بدھ کے دن جمعہ کی نماز پڑھا کر اپنے وفاداروں کو آزمادیا گیا۔ امیر شام ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے رسول(ص) کے صحابہ کو اپنے گرد جمع کیا ابو ہریرہ ، ابو موسی اشعری جیسے لوگوں کو جعلی حدیثیں گڑھنے کے لیے خریدا ہوا تھا عمر ابن عاص جیسے شخص کو خریدا ہوا تھا جس نے نیزے پر قرآن کو بلند کیا۔ ثالث کی پیشکش اور ابو موسی کا فریب دینا تو تاریخ میں مسلم ہے معاویہ فوجی انتظام کا ماہر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) کا ایک آدمی ایک دفعہ شام چلا گیا  معاویہ نے کہا کہ جاکر ان کی اونٹی کو چرائے ایسا ہی کیا گیا لیکن تلاش کے بعد جب اس شخص نے اونٹنی کو کسی کے پاس

۶۳

دیکھ کر دعویٰ دائر کیا تو مدعا علیہ نے چالیس گواہ پیش کئے یہ اونٹ اسی کا ہے جب کہ مدعی کا دعوی اونٹنی پر تھا۔ گواہی کے مطابق اونٹنی کو اونٹ قرار دے کر مدعا علیہ کو دیا گیا مگر معاویہ نے مدعی کو بلا کر ایک اونٹنی اور بہت رقم دے کر کہا میری طرف سے جا کر علی ابن ابی طالب(ع) کو کہو کہ ان گواہوں جیسے لاکھوں افراد کو تمہارے ساتھ جنگ پر بھیجوں گا جو اونٹ اور اونٹنی میں فرق نہیں جانتے ۔”

حضرت امام حسن(ع) کے حامی

جن لوگوں نے حضرت امام حسن(ع) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ایسے لوگ تھے جنہوں نے جنگ جمل، صفین اور نہروان وغیرہ میں شرکت کی تھی تھکے ہوئے اور نا امید تھے ایسے افراد تھے جن کے درمیان خوارج اور ان کے طرف دار ان کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے انہوں نے حضرت امام حسن(ع) کی بیعت اس لئے کی ہوئی تھی کہ اگر معاویہ پر امام فتح پائیں تو یہ آپ (ع) کو ہٹا کر خود حکومت کریں لیکن ان کے درمیان اہلیت رکھنے والے افراد بہت کم تھے لہذا معاویہ رقم عہدوں اور انعام کا لالچ دے کر بڑے بڑے سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا اور یہ سردار راتوں رات معاویہ کی صفوں میں چلےگئے اور لشکر بغیرسرداروں کے رہ گیا اگر ایسے وقت میں امام حسن(ع) صلح نہ کرتے تو بڑی خونریزی کے بعد معاویہ امام(ع) کو آپ کے حامیوں کے ہاتھ قتل کراتا اور شام میں سوگ کی مجلس قائم کرتا۔

حضرت امام حسن(ع) کی صلح

امیرالمومنین (ع) کا ثالثی قبول کرنا اور حضرت امام حسن(ع) حضرت امام حسین(ع) کا قیام تینوں کی بنیاد اور سرچشمہ ایک ہے۔ حسن(ع) نے صلح کی اور حسین(ع) نے صبر کیا اس حد تک کہ معاویہ اس کا اقتدار اور اس کے حامیوں کا وجود مٹ گیا، حضرت امام حسین(ع) کے فرمان کے

۶۴

کے مطابق جب معاویہ مر گیا تو عوام کا دل بنی امیہ کے بغض اور اہل بیت(ع) کی محبت سے بھر چکا تھا۔ معاویہ کے مرتے ہی اس کی سیاست بھی ختم ہوئی اور حکومت ایک عیاش احمق اور مغرور شخص کے ہاتھوں میں آئی وہ بد بخت اس منزل پر پہنچا ہوا تھا کہ کمال قساوت قلبی کے ساتھ حسین(ع) کو شہید کیا ان کے اہل بیت(ع) کو شہروں میں پھرایا حسین(ع) کے قتل کی خوشی میں ایک محفل منعقد کی اور اپنے ان اشعار کو سنایا۔ گویا اس طرح لوگوں کے ہاتھ میں چراغ دیکر کہتا ہو کہ بنی امیہ کے ظلم وجور کو اچھی طرح دیکھو ان کے اسلام کو پہچانو اس کے کفر آمیز اشعار  یہ ہے۔

لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوا           جَزَعَ الْخَزْرَجِ مِنْ وَقْعِ الْأَسَلِ‏

لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً               ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

بنی ہاشم نے ایک ڈھونگ رچایا ہوا تھا نہ تو ان پر کوئی وحی آئی اور نہ کوئی نبوت ملی تھی ہم نے اپنے بدر کے کشتگان کا بدلہ لیا ور برابری کی کاش اس وقت میرے بدر کے بزرگ زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ ہم نے ان کا بدلہ کس طرح لیا۔

اس مجلس میں علی(ع) کے لہجے میں بولنے والی زینب(ع) بھی موجود تھیں۔ جو کچھ انہیں کہنا چاہئے تھا کہا۔ جامع مسجد میں امام سجاد(ع) کو منبر پر جانے کی اجازت ملی جنہوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا۔

۶۵

یزید نے اپنی حکومت کے دوسرے سال“ جنگ حرہ” کا آغاز کیا اور مدینہ کے عوام کا قتل عام کیا۔ اور خانہ خدا کو آگ لگا دی اور معاویہ کے مرتے ہی امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اسلام کی بقاء آپ(ع) کے اسی قیام کی مرہون منت ہے۔ لیکن یہ فراموش نہ کیا جائے کہ امام حسن(ع) کی صلح اور صبر دونوں امام کے قیام کے لئے میدان فراہم کرنا تھا۔ حسین(ع) کا قیام مکمل طور پر حسن(ع) کی صلح سے مربوط ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے شاید اس مرحلے کے لئے فرمایا تھا کہ حسن(ع) و حسین(ع) چاہے بیٹھے ہوئے ہوں یا قیام کریں دونوں حالتوں میں امام واجب الاطاعت ہیں۔ یعنی اگر قیام کریں تو ان کی پیروی کریں۔ اور اگر قیام نہ کریں تو بھی ان کی پیروی کریں۔

اپنی وفات کے وقت حضرت امام حسن علیہ السلام نے جنادہ کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ جنادہ کہتا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر میں نے کسی نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا ۔ “ اے جنادہ موت کے آنے سے پہلے ہر وقت موت کے لیے تیار رہو، موت کے سفر، اپنی قبر اور قیامت کے لیے زادہ راہ تیار کرو۔ جنادہ! دنیا کے لیے اس قدر کوشش کرو جیسے تم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے تیاری اس طرح کر جیسے کل ہی تم نے مرنا ہے۔ اگر قوم و قبیلہ کے بغیر عزت اور اقتدار کے بغیر ہیبت چاہتے ہو تو معصیت الہی کے ذلیل لباس کو اتار پھینکو اور اﷲ کی اطاعت کے معزز لباس کو پہنو۔”

۶۶

حضرت امام حسین علیہ السلام

آپ کانام نامی حسین(ع) ہے اس نام کو پرودگار عالم نے آپ کے لیے پسند فرمایا۔ آپ کی مشہور کنیت “ ابو عبداﷲ” ہے۔ آپ کے مشہور القاب سید الشہداء اور “ المظلوم” اور “ الشہید” ہیں۔ آپ کی مدت عمر تقریبا 56 سال ہے۔ آپ نے 4 ہجری کو شعبان کی تیسری تاریخ میں ولادت پائی اور 61ہجری میں دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال کی تھی تو آپ کے نانا حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت پائی اور زندگی کے تیس سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی (ع) کے زیر سایہ گزارے اور والد ماجد کی شہادت کے بعد دس سال تک اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام  کی معیت میں زندگی گزاری اس کے بعد آپ کی امامت کی مدت بھی دس سال ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ان فضائل کے علاوہ جو حسب و نسب کے اعتبار سے تمام اہل بیت(ع) کو حاصل ہیں کچھ امتیازی فضائل کے بھی حامل ہیں۔ سب سے پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ آپ کے صلب سے ہی ائمہ معصومین(ع) کا سلسلہ جاری رہا۔ اس بارے حضور اکرم(ص) سے احادیث موجود ہیں۔ جو اس امیتاز کی تصریح کرتی ہیں۔ حضرت سلمان فارسی(رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین (ع) حضور اکرم(ص) کی گود میں ہیں آپ (ص) نے انہیں پیار کرتے ہوئے فرمایا ۔

“ أَنْتَ‏ السَّيِّدُ ابْنُ السَّيِّدِ أَبُو السَّادَةِ أَنْتَ الْإِمَامُ ابْنُ الْإِمَامِ أَبُو الْأَئِمَّةِ الْحُجة أَبُو الْحُجَجِ تِسْعَةً مِنْ صُلْبِكَ وَ تَاسِعُهُمْ قَائِمُهُمْ.”

۶۷

“ تم سرداروں کے سردار  ہو اور سرداروں کے باپ ہو تم امام(ع) کے فرزند ہو اور خود بھی امام(ع) ہو بلکہ اماموں کے باپ ہو تم حجت خدا ہو اور خدائی حجتوں کے باپ ہو اور نو حجت تمہارےصلب سے ہی ہوں گے جس میں سے نواں “ قائم آل محمد(ص)” ہوگا۔

دوسرا امتیاز

یہ ہے کہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام کو ہمیشہ کی زندگی ملی اور اسلام کا دوام آپ کی شہادت کا مرہون منت ہے۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کے اہل بیت(ع) اسیر نہ ہوئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا ۔ اسی وجہ سے حضور اکرم(ص) نے فرمایا تھا۔حسين منی و انا من الحسين ” “ حسین (ع) مجھ سے ہیں اور میں حسین(ع) سے ہوں” اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسی امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب آپ سے بیعت طلب کی گئی تو فرمایا “لو بايعت يزيد فعلی الاسلام السلام ” اگر میں یزید کی بیعت کروں تو اسلام پر فاتحہ پڑھی جانی چاہئیے یعنی اس کا نام نشان مٹ جائے گا۔

اس قسم کے بیانات خود رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات میں بھی موجود ہیں۔

تیسرا امتیاز

حضرت امام حسین (ع) کا یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت جاگزین ہے جیسے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا ۔“إِنَّ لِلْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي‏ قُلُوبِ‏ الْناس لَا تَبْرُدُ أَبَداً” بے شک دلوں میں حسین(ع) کی محبت کے شعلے بھڑک رہے ہیں جو کبھی بجھنے والے نہیں۔ ”

۶۸

چوتھا امتیاز

حضرت ابو عبداﷲ کا یہ ہے کہ خداوند عالم نے آپ کی تربت میں شفا رکھی ہے اور آپ کے ھرم مطہر میں دعا کی قبولیت متواتر اور قطعی روایات سے ثابت ہے۔

پانچواں امتیاز

آپ کے عظیم امتیازات میں سے ہے کہ آپ نے عشق و محبت ، فداکاری ، جان نثاری اور اﷲ کی راہ میں قربانی کے مفاہیم کو عملی طور پر معنی بخشے۔

“اللَّهُمَّ أَنْتَ‏ ثِقَتِي‏ فِي كُلِّ كُرْبَةٍ وَ أَنْتَ رَجَائِي‏فِي كُلِّ شِدَّةٍ وَ أَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِي ثِقَةٌ وَ عُدَّةٌ كَمْ مِنْ كَرْبٍ يَضْعُفُ عَنْهُ الْفُؤَادُ وَ تَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ وَ يَخْذُلُ عَنْهُ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ يَشْمَتُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَعْنِينِي فِيهِ الْأُمُورُ أَنْزَلْتُهُ بِكَ وَ شَكَوْتُهُ إِلَيْكَ رَاغِباً فِيهِ عَمَّنْ سِوَاكَ فَفَرَّجْتَهُ وَ كَشَفْتَهُ وَ كَفَيْتَنِيهِ فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ وَ صَاحِبُ كُلِّ حَاجَةٍ وَ مُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَة”

“ میرے پروردگار تو میرے ہر رنج و غم میں میری پناہ گاہ ہے اور مایوسی کے وقت تو ہی امید ہے اور جو کچھ بھی میرے لئے پیش آتا ہے اس میں میرا مددگار اور میری پناہ ہے۔ کتنے سارے غم ایسے ہیں جو دلوں کو کمزور کرتے ہیں راہ چارہ کو مسدود کرتے ہیں۔ دوستوں کو غمگین اور دشمنوں کو خوشحال کرتے ہیں سب تیرے سامنے پیش کرتا ہوں اور ان کی شکایت بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں صرف اس لیے کہ میں تیری طرف ہی رغبت رکھتا ہوں اور تیرے غیر کی طرف نہیں ۔تو نے وہ غم بر طرف کردیئے تو تمام نعمتوں اور خوبیوں کا مالک ہے اور آرزؤں کی منتہا تیری ہی ذات ہے۔”

آپ نے اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کیا مال ، جان ، عیال ، دوست و احباب ، اولاد ، یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کو بھی قربان کیا اور صحرائے کربلا میں اپنے قتل ہونے کی جگہ یوں فرماتے ہیں۔

۶۹

             تركت‏ الخلق‏ طريّا في هواكا                      و أيتمت العيال لكى أراكا

             و لو قطّعتنى في الحبّ إربا                      لما حنّ الفؤاد إلى سواكا

“ میرے پروردگار ! تیری راہ میں ، میں نے تمام مخلوق سے رشتہ توڑا ہے تجھ سے ملاقات کرنے کے لیے میں نے اپنے تمام متعلقین سے آنکھیں چرالیں ہیں۔ میرے پروردگار اگر تیری راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاؤں تو بھی ہرگز تیرے غیرے کی طرف مائل نہیں ہوں گا۔”

یہ سیرالی اﷲ پر ایمان کی حقیقت ہے۔ اﷲ پر یقین و عرفان کی حقیقت بندگی اور فنا فی اﷲ کی حقیقت ، یہی تقوی اور ماسوی اﷲ سے نہ موڑنے کی حقیقت ہے اپنے امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی ایسا ہی تھا۔ آپ کے خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت اسلام کو شدید خطرہ لاحق تھا جس دن آپ نے مدینہ سے کوچ کیا یوں فرمایا۔

“إِنِّي‏ لَمْ‏ أَخْرُجْ‏ بَطِراً وَ لَا أَشِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ أَطْلُبُ الصَّلَاحَ فِي أُمَّةِ جَدِّي”

“ میں نے قیام اس لئے نہیں کیا کہ میں اﷲ کی زمین پر فساد پھیلاؤں یا ظلم کروں بلکہ میرا قیام اس لئے ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور پدر بزرگوار کی سیرت پر چلوں  اور اپنے نانا کی امت میں جو مفاسد رواج پاگئے ہیں ان کی اصلاح کروں۔” کربلا معلیٰ میں پہنچ کر جب کہ تمام صحابہ شہادت کے لیے تیار اور کمر بستہ تھے آپ نے یوں خطاب فرمایا۔

۷۰

 “ألا ترون‏ أنّ‏ الحقّ‏ لا يعمل به، و أنّ الباطل لا ينتهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء اللَّه محقّا، فإنّي لا أرى الموت إلّا سعادة، و لا الحياة مع الظّالمين إلّا برما ”

“ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے نہیں روکا جارہا ہے ایسے حالات میں تو مومن موت کی تمنا ہی کرسکتا ہے بے شک اس طرح مرنے کو میں سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمون کے ساتھ زندہ رہتا سوائے بد بختی کے اوپر کچھ نہیں۔”

امام علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات بہت سارے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت اسلام شدید خطرے سے دوچار فضا اور وقت کا تقاضا بھی قیام وتحریک کا تھا۔ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ یزید کے خلاف آپ کا قیام کرنا ایک الہی فریضہ تھا۔

حضرت امام حسین (ع) کے قیام کے اسباب پر تحقیق کرنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر بطور اجمال آپ کے قیام کے اسباب پر روشنی ڈالتے نفس اور دشمن پر غلبہ پانے کی حقیقت اور شجاعت کی حقیقت بھی وہی ہے جسے حسین(ع) نے سکھایا اور زمانے کی گردشوں میں گم نہ ہونے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ جوانمردی اور مردانگی کی حقیقت، سخاوت کی حقیقت ، رحمدل اور مہربانی کے معنی، خدا، اس کے دین اور اس کی مخلوق کے سامنے انکساری برتنے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ حکم کا مفہوم سکھایا ۔ اور فصاحت و بلاغت کے معنی اپنے کرداد اور گفتار سے سمجھا دیئے۔ یہی سیاست کی حقیقت ہے اور عدالت کا مفہوم ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ کی حقیقت ہے۔ خلاصہ یہ کہ تمام انسانی فضائل کی حقیقت عملا یکجا کر کے بتادی۔ اس لئے تو حضور اکرم(ص) کا ارشاد “:إنّ‏ الحسين‏ مصباح‏ الهدى‏ و سفينة النجاة ” حسین(ع) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔” کا مطلب معلوم ہوجاتا ہے۔ اور اگر حضور اکرم(ص)

۷۱

نے یہ فرمایا ہے کہ

“ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى أَحَبِ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى‏ الْحُسَيْنِ‏”

“ جو کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ آسمان و زمین کے پسندیدہ تر شخص کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ حسین(ع) کو دیکھے۔ ” تو بھی اس کا مطلب یہی ہے۔

آپ نے فرمایا “من لحق بي استشهد و من‏ تخلّف‏ عنّى‏ لم يبلغ الفتح ابدا”

جو کوئی میرا ساتھ دیدے اور میرے ساتھ آئے گا تو شہادت پائے گا جو روگر دانی کرتے ہوئے اس خونین قیام میں شرکت نہیں کرے گا تو کبھی بھی نجات نہیں پاسکے گا۔” “ شب ترویہ” میں آپ کے خطبے میں ہم پڑھتے ہیں آپ(ع) نے فرمایا۔

“مَنْ‏ كَانَ‏ بَاذِلًا فِينَا مُهْجَتَهُ، فَلْيَرْحَلْ  معنا غدا فَإِنِّا رَاحِلون غداً، إِنْ شَاءَ اللَّهُ.”

“ جو کوئی ہمارے ساتھ خون دینا چاہتا ہے ہمارے ساتھ کل چلے انشاء اﷲ ہمیں کل روانہ ہونا ہے۔”

آپ کے ان ارشادات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کو خطرہ لاحق ہو اور تحریک چلانا اسلام کے لئے فائدہ مند ہو، چاہے قیام و تحریک کی صورت میں شہادت کا یقین بھی ہو تو ہر ایک کا فریضہ قرار پاتا ہے کہ قیام کرے اور حضرت اس دوسری موج کے لئے اور دائمی موج کی ضرورت ہے تاکہ یہ دوسری زندہ اور متحرک رہے اور یہ تیسری موج عزاداری ، نوحہ سرائی، گریہ، سینہ زنی اور زیارت حسین(ع) کی موج ہوسکتی ہے۔ علاوہ اس کے کہ عزاداری انسان میں فداکاری ، ایثار و قربانی اور شہادت کی روش اور شہید پروری کا جذبہ ابھارتی ہے۔ اور اگر رہبر اعلیٰ قابلیتوں کا مالک ہو تو ان مجالس سے کافی حد تک لوگوں کے انسانی جذبے کو ابھار سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عمومی تعلیمات کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ تہذیب نفس کے مرحلے خصوصا صبر، استقامت ، شجاعت اور پستی قبول نہ کرنے کا

۷۲

 جذبہ اس کے براہ راست اثرات ہیں۔

ایسی مجالس کا ایک اور پہلو اسلام کے عظیم قوانین میں سے دو عظیم قوانین کا احیاء کرنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔

حسین(ع) پر روانا مجالس عزاء کا انعقاد ، ماتمی دستوں کی تشکیل ، نزدیک یا دور سے زیارت کرنا، پانی کی سبیلوں کی تعمیر اور امام بارگاہوں کی تعمیر کرنا، ولایت کے مکتب کو زندہ رکھنا ہے۔ خون حسین(ع) کو زندہ رکھنا ہے، انقلاب کی روح کو زندہ رکھنا ہے تاکہ انجام کار آخری رہبر حضرت بقیہ اﷲ عجل اﷲ تعالی فرجہ کے ذریعے عالمی انقلاب کا سامان فراہم ہوسکے۔ اگرچہ عزاداری کے برپا کرنے کا ثواب، زیارت کا  ثواب، مجالس کے انعقاد پر ثواب مستحق ہے مگر ان سب کی اصل اور بنیاد اس لیے ہے کہ اس قسم ی مجالس کامیابی کا رمز اور شیعت کی بقاء ، مکتب ولایت کو زندہ رکھنے اور انجام کار لوگوں کو حسین(ع) کے پرچم تلے لے آنا ہے اور تمام کوحسین(ع) اور اس کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ بقول جوش۔

انسان کو بیدار تو ہونے لینے دو                    ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین(ع)

ہوئے ہم چند اسباب کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں۔

ثقیفہ بنی ساعدہ کی کار روائی کے بعد “ حسبنا کتاب اﷲ ” کے نعرے نے زور پکڑا اور رسول اکرم(ص) کی احادیث کی جمع آوری پر پابندی لگ گئی یہاں تک کہ حضرت ابوبکر نے حضور اکرم(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں انہیں عوام کے سامنے لاکر جلادیا اب اگر تائید قرآن سے حاصل کی جاتی تو ثقیفہ کی کار روائی ملغی ہوجاتی لہذا کہا گیا۔ 

“ نهينا عن‏ التّعمّق والتکال فی القرآن”

ہمیں قرآن میں غور و فکر اور دقت

۷۳

 کرنے کی زحمت سے منع کیا گیا ہے اس خیال و فکر کو ترویج دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ فکر اور روش امت کو کس قدرفکر ، کامل اور بے ہمت بنائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور مصیبت طبقاتی گروہوں کی صورت میں ظاہر ہوتی جس کے بارے میں امیرالمومنین (ع) خطبہ شققیہ میں فرماتے ہیں۔

“و قام معه بنو أبيه يخضمون‏ مال اللّه خضم الإبل نبتة الربيع”

“ بنی امیہ نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو اس طرح ختم کیا جس طرح بہار کے سبزے کو اونٹ ختم کرتے ہیں۔ ” اس کے ساتھ ایک اور مصیبت جعلی روایات و احادیث کی بھر مار کی صورت میں شروع ہوئی۔ علماء نما درباری افراد اس طریقے سے اسلام کے ستونوں کو ڈھانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان تمام روایات میں سے ایک روایت نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں ایک روایت یوں گھڑی گئی۔

“اذا نزلت سوره انجم فقراها رسول اﷲ للمشرکين فاذا قرا افرايتم اللات ولعزی ومنات الثالثه الاخری القی الشيطان فی فمه و قال تلک القرانيق العلی شفاعتهن لترجی فالمشرکون سروا بذالک  فسجد رسول اﷲ و سجد المشرکون معه”

ترجمہ :۔“  جس وقت سورہ نجم نازل ہوئی تو حضور اکرم (ص) نے مشرکوں کو سنایا لیکن جب آیتافرايتم اللات ولعزی پڑھنے لگے تو شیطان نے آپ کے منہ سے یہ جملے بھی کہلوا دئے کہ وہ عالی شیر، بت، قیامت کے دن تینوں شفاعت کریں گے یہ سن کر مشرک بڑے خوش ہوئے اور جب حضور (ص) نے سجدہ کیا تو مشرکوں نے بھی خوش ہو کر سجدہ کیا۔”

بدیہی ہے کہ اس قسم کی روایات اسلام قرآن اور پیغمبر(ص) کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتیں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایک رعب اور خوف مسلط رہا خصوصا

۷۴

 معاویہ کے دور کہ ادھر کسی نے آہ کھینچی اور قتل ہوا ان تمام عوامل اور اسباب نے ایک ایسا موقع فراہم کیا کہ یزید ایک شخص عوام پرحاکم ہوتے ہوئے منبر سےیہ کہدے کہ

لعبت‏ هاشم‏ بالملك فلا                      خبر جاء و لا وحي نزل‏

قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ‏           وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

“ تو کوئی وحی آئی اور نہ خبر آئی بلکہ بنی ہاشم نے حکومت حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔” تو کیا ایسے حالات کے پیش نظر امام حسین(ع) کے لئے وظیفہ شرعی نہ بنتا تھا کہ ایسے شخص کے خلاف قیام کریں۔

بہر حال حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے حضرت ابو عبداﷲ کی زیارت اور عزاداری کے بارے میں بہت سفارش کی ہے اور اس کے عظیم ثواب گنائے ہیں ایسی روایات میں سے ایک ہم وسائل الشیعہ میں سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد تھوڑی سی ترضیح بھی کرتے ہیں

“عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِفُضَيْلٍ تَجْلِسُونَ وَ تُحَدِّثُونَ قَالَ نَعَمْ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ إِنَّ تِلْكَ‏ الْمَجَالِسَ‏ أُحِبُّهَا فَأَحْيُوا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ مَنْ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَيْنِهِ مِثْلُ جَنَاحِ الذُّبَابِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ لَوْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ.”

“ فضیل بن یسار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آپ(ع)  نے فرمایا کیا تم مجلس عزا برپا کر کے ہمارے مصائب کو یاد کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ فرمایا خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ولایت کو زندہ کرتے ہیں اے فضیل جو کوئی ہمارا تذکرہ کرتا ہے یا جس کے سامنے ہمارا تذکرہ ہوتا ہے اور گریہ کرتا ہے اتنے آنسو نکلیں کہ مکھی کے پر کو بگھونے کے بقدر ہوں تو بھی خداوند عالم اس کے گناہوں کے بخش دے گا۔ چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر

۷۵

 کیوں نہ ہوں۔”

حضرت ابا عبداﷲ (ع) کا قیام کوئی فوجی قیام نہیں تھا بلکہ ایک عاطفی اور تبلیغی تھا حسین علیہ السلام صرف یزید اور اس کے ایجنٹون کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ یزیدیت کے ساتھ بنی امیہ اور بنی مروان کی شخصیت کو نابود کرنا چاہتے تھے ۔ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے خلاف بیدار کریں۔ اور عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکائے اور اس سے متنفر کریں۔ اسی لئے آپ مدینہ سے مخفی طور پر چلے گئے۔ جس وقت لوگ حج کے لیے گروہ در گروہ ہو کر مکہ آرہے تھے تو آپ مکہ سے بھی نکل گئے اور عاشورے کے دن بعض اوقات اسلحہ کے بغیر ہی میدان جنگ میں جاتے ہیں اور بڑی مہربانی کے لہجے میں تبلیغ کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کے انسانی جذبات کو ابھارتے ہیں کبھی قرآن لے کر جاتے ہیں اور انہیں قرآن کی قسم دیتے ہیں۔ کبھی اپنے شیرخوار بچے کو ان کے سامنے لے جاتے ہیں جنہیں انہوں نے آپ کے ہاتھوں پر شہید کیا ۔ انجام کار آپ نے کربلا میں کچھ ایسی لہریں پیدا کیں کہ عاشورا کی عصر کے وقت دشمن کی فوجوں میں ہلچل مچ گئی اور حسین(ع) شہید ہوگئے ہلچل کی اس موج کے ساتھ اہل بیت(ع) کی اسیری کی دوسری موج نے بھی حرکت کی۔ اہل بیت(ع) کے اسیروں نے کوفہ و شام کے بازاروں میں تقریروں کے ذریعے انقلاب کی موجیں پیدا کیں بلکہ تمام اسلامی ممالک میں بنی امیہ کی حکومت کے خلاف نفرت کا سیلاب امڈا پڑا ۔ حسین(ع) کی شہادت سے 20 سال قبل کوئی ایک بھی انقلاب واقع نہیں ہوا تھا۔ مگر آپ کی شہادت کے 20 سال بعد بیس سے زیادہ انقلاب رونما ہوئے۔ واقعہ کربلا کے دو سال بعد بنی امیہ کی حکومت چھن گئی اور بیسویں سال بنی مروان کی حکومت عباسیوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔

۷۶

حضرت امام سجاد علیہ السلام

آپ کا اسم مبارک علی(ع) مشہور لقب زین العابدین (ع) اور سجاد(ع) ہے آپ کی مشہور کنیت ابو محمد(ع) اورابو الحسن(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک بھی آپ کے پدر گرامی کی طرح ستاون سال ہے۔ آپ نے پندرہ جمادی الاول 38 ہجری کو امیر المومنین (ع) کی شہادت سے دو سال قبل ولادت پائی۔ تیئس سال تک پدر بزرگوار کے زیر سایہ زندگی گزاری۔ آپ کے مدت امامت 34 سال ہے۔

امام سجاد علیہ السلام کے والد بزرگوار امام حسین(ع) تھے اور والدہ ماجدہ ایران بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں جیسے خداوند عالم نے معجزانہ طور پر حضرت امام حسین(ع) تک پہنچایا تھا۔ اس معظمہ کی شرافت یہ ہے کہ نو ائمہ کرام(ع) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام حسین(ع) نو ائمہ (ع) کے والد ماجد ہیں۔ اور انسانی فضائل کے اعتبار سے امام زین العابدین علیہ السلام اگرچہ تمام اہل بیت کرام(ع) کے ساتھ تمام فضائل میں برابر کے شامل ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں رکھتے ۔ لیکن آپ خصوصیت کے ساتھ اپنے افکار کو و کردار میں اپنے دادا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مکمل مشابہت رکھتے تھے۔

امام سجاد علیہ السلام کے ایمان کی منزل

امیرالمومنین علیہ السلام دعائے صباح میں فرماتے ہیں۔

“يا من‏ دلّ‏ على ذاته بذاته”

۷۷

“ اے وہ جو خود اپنی ہستی کے وجود کی دلیل ہے۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں۔

“بِكَ عَرَّفْتَک وَ دَلَلْتَنِي‏ عَلَيْكَ‏ و دعوتنی اليک و لولا انت لم ادر ما انت”

“ تیرے ذریعے ہی تجھے پہچانا تو نے میری اپنی طرف رہنمائی کی اور دعوت دی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آپ کو نہ پہچان سکتا ۔”

آپ کی دعاؤں میں ایسے کلمات ملتے ہیں جو انسان کو ایمان کی بلندی تک پہچاتے ہیں یہ ایسی منزل ہے جسے“ ایمان شہودی” کہا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔

“کو کشف لی الغطاء مازددت يقينا”

“ اگر میرے لئے آفاق کے سارے ہٹادیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔”

آپ(ع) کا علم

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا “ جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو خدا کی قسم میں قیامت تک ہونے والے تمام واقعات کو جانتا ہوں۔” حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں فرماتے ہیں۔ “ اگر مجھے لوگوں کے بارے میں غلو کرنے کا خوف نہ ہوتا تو قیامت تک ہونے والے تمام واقعات بتا دیتا۔”

آپ کا تقوی

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا۔

“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ‏ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ‏شَعِيرَةٍ  مَا فَعَلْتُهُ”

۷۸

“ خدا کی قسم اگر مجھے ساتوں اقالیم اور جو کچھ ان کے آسمانوں کے نیچے ہے دیا جائے کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “ جو” کا جھلکا چھین کر اس پر ظلم کروں تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔”

حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں ارشاد فرماتے ہیں۔

             ؟؟؟؟ الا له و انت تطهر حبه          هذا لعمری فی الفعال بديع

             لو کنت تطهير حبه اطقه                       ان الحب لمن يحب مطيع

“ خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے تم اس کی محبت کا دعوی کرتے ہو۔ میری جان کی قسم یہ بڑی عجیب بات ہے اگر تم واقعی خدا سے محبت کرتے ہو تو اس کی اطاعت کرو کیونکہ محبت کرنے والا ہمیشہ محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔”

ان اشعار میں امام فرماتے ہیں کہ میں چونکہ اﷲ سے محبت کرتا ہوں اس لیے اس کی نافرمانی مجھ سے محال ہے۔

آپ(ع) کی عبادت

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کیہا گا ہے کہ آپ دن کو فقراء کے لئے باغات اور نہریں بنانے میں مشغول رہتے اور ساری راتیں جاگ کر عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت سجاد(ع) بھی اس طرح فقراء کی قربت میں مشغول تھے۔ کتنے سارے باغات اور نہریں آپ نے فقراء کے لئے بنائیں آپ کی عبادت اور سجدوں کی کثرت کی یہ حالت تھی کہ آپ کو زین العابدین(ع) اور سجاد(ع) کا لقب ملا۔

۷۹

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ قیامت کے دن کہا جائے گا زین العابدین(ع)  کہاں ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ میرا فرزند جواب دیتا ہے اور سامنے آجاتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کثرت سے عبادت کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوجھ گئے ہیں۔ چہرے کا رنگ زرد پڑگیا ہے اور گال زخمی ہیں اور سجدہ کی جگہ پیشانی پر زخم ہوگیا ہے۔

آپ کی مہربانی و سخاوت

تاریخ میں مرقوم ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے کارناموں میں سے ایک یہ تھا کہ آپ مخفی طور پر راتوں کو فقراء میں کھانا ، کپڑے ، لکڑی اور دوسری ضروریات تقسیم کرتے تھے ۔جب کہ ان فقراء کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون ان کی ضروریات کو فراہم کرتا ہے اور مورخین حضرت امام سجاد(ع) کے بارے میں بھی ایسا ہی لکھتے ہیں۔

راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام جعفر صادق(ع) کے حضور میں تھے کہ حضرت امام علی ابن ابی طالب(ع) کے مناقب کے بارے میں بات ہوئی تو کہا گیا کہ کسی کو یہ قدرت نہیں کہ آپ جیسا کام کرسکے اور حضرت علی بن الحسین(ع) کے علاوہ اور کوئی ایسے کاموں میں ان کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے اور راتوں کو کبھی کبھی ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اہل سنت کی روایات میں ہے جب آپ کی شہادت ہوئی تو پتہ چلا کہ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے۔

آپ کا زہد

جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک کامل زاہد تھے اور سوائے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

عاصم ،دومة الجندل کی جنگ میں

ترکنا هم صرعی لخیل تنوبهم تنافسهم فیها سباع المرجب

ہم نے دشمن کے سپاہیوں کا اس قدر قتل عام کیا کہ لاشیں گھوڑوں سے پامال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزرگاہ بن گئیں

(عاصم ،افسانوی سورما)

دو مة الجندل کی فتح

طبری نے ''دومة الجندل ''کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے حسب ذیل روایت کی ہے :

مختلف عرب قبیلوں نے جن میں ودیعہ کی سرپرستی میں قبیلہ کلب بھی موجود تھا اپنے تمام سپاہیوں کو ایک جگہ پر جمع کیا ۔اس منسجم فوج کی قیادت کی ذمہ داری اکید ر بن عبد الملک اور جودی بن ربیعہ نامی دو افراد نے سنبھالی ۔

اکیدر کا نظریہ تھا کہ خالد بن ولید سے صلح کرکے جنگ سے پرہیز کیا جائے جب اکیدر کی تجویز عوام کی طرف سے منظور نہیں ہوئی تو اس نے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔خالد بن ولید نے عاصم بن عمر و کو حکم دیا کہ اکیدر کو راستے سے پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے خالد کے حکم سے اکیدر کو قتل کیا گیا. اس کے بعد خالد بن ولید نے دومة الجندل پر حملہ کیا ۔

دوسری جانب مختلف عرب قبیلے ،جنھوں نے خالد سے جنگ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد و معاہدہ کیا تھا ،قلعہ دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے ۔چوں کہ اس قلعہ میں ان تمام لوگوں کے لئے گنجائش نہیں تھی ،اس لئے ان میں سے بیشتر افراد قلعہ سے باہر مورچے سنبھالنے پر مجبور ہوئے۔ خالد بن ولید نے ان سے جنگ کی سر انجام اس نے ان پر فتح پائی جودی بھی مارا گیا ۔قبیلہ کلب کے علاوہ تمام افراد مارے گئے ۔کیوں کہ عاصم بن عمرو نے دشمن پر فتح پانے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ :اے قبیلہ تمیم کے لوگو!اپنے قدیمی ہم پیمان ساتھیوں کو اسیر کرکے انھیں پناہ دو کیوں کہ انھیں فائدہ پہنچانے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا ۔تمیمیوں نے ایسا ہی کیا ۔اس طرح قبیلہ کلب کے لوگ بچ گئے ۔ خالد بن ولید عاصم کے اس عمل سے ناخوش ہوا اور اس کی سرزنش کی ۔

۲۸۱

ان مطالب کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم بن عمر و کی زبانی کہے گئے سیف کے اشعار کو ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر نے اس داستان کے ایک حصہ کو اپنی تاریخ میں عاصم کے حالات سیف سے نقل کرتے ہوئے درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھا ہے:....اور عاصم نے دو مة الجندل کے بارے میں یوں کہا ہے :

''میں جنگوں میں کارزار کے انداز کو کنٹرول میں رکھتا ہوں ،دوستوں کی حمایت کرتاہوں ،انھیں تنہانہیں چھوڑتا ہوں ۔شام ہوتے ہی جب ودیعہ نے اپنے سپاہیوں کو مصیبتوں کے دریا میں ڈال دیا ،میں نے جب دومة الجندل میں دیکھا کہ وہ غم واندوہ میں ڈوبے خون جگر پی رہے ہیں تو میں نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ،لیکن اپنے ہم پیمان ،کلب کے افراد کا خیال رکھ کر اپنے قبیلہ کے لئے ایک بڑی نعمت فراہم کی ''

یاقوت حموی نے بھی اس داستان کے ایک حصہ کو روضة السلہب اور دومة الجندل کے ناموں کی مناسبت سے اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

''روضة السلہب عراق کے دومة الجندل میں واقع ہے ،اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں جن کے ضمن میں خالد بن ولید کی دومة الجندل کی جنگ کا اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

'' روضة السلہبکے دن دشمن خاک و خون میں غرق تھے ،وہ ہمارے دلوں کے لئے شفابخش منظر تھا کیوں کہ ان کے سردار کی ہوائے نفس نے انھیں فریب دیا تھا ۔اس دن ہم نے تلواروں کی ایک ضرب سے جودی کا کام تمام کیا اور اس کے سپاہیوں کو زہر قاتل پلا یا ۔انھیں قتل عام کیا ،ان کی لاشیں گھوڑوں سے پائمال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزر گاہ بن گئیں ''

۲۸۲

سیف بن عمر اپنے افسانوی سورما ،عاصم بن عمرو کے زبانی بیان کردہ اشعار کے ضمن میں پہلے مذکورہ قبائل کی جنگ بیان کرتا ہے اور اس میں قبیلہ کلب کے پیشوا''ودیعہ''کی نا اہلی کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو ہلاکت و نابود ی اور مصیبت سے دوچار کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اورثابت کرتاہے کہ عاصم نے قبیلہ کلب کے ساتھ اپنے قبیلہ کے عہد و پیمان کو فراموش نہیں کیا تھا ۔اور وہ اس معاہدہ پر اس کے خاندان کے لئے فضیلت وافتخار کا سبب باقی رہا ۔اس دن اس عہد نامہ کا پاس رکھتے ہوئے اس نے اپنے قبیلہ ادر قبیلہ کلب پر احسان کیا اور اس طرح اس نے قبیلہ کلب کے افراد کو یقینی مو ت سے نجات دی ہے ۔

عاصم کے اشعار کے دوسرے حصے میں تمام عرب قبیلوں کو شامل کیا گیا ہے اور ان میں ان کے احمقانہ اقدام کی وجہ سے بدترین انجام اور ان کے قائد جودی کی شکست کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔

''لسان ''اور ''ملطاط''کی تشریح

حموی نے لفظ ''الملطاط ''کی حسب ذیل تشریح کی ہے :

عرب ،کوفہ کے مشرقی علاقے جو کوفہ کے پیچھے واقع ہے کو ''لسان''اور اس کے دریائے فرات کے قریب واقع مغربی علاقے کو ''ملطاط''کہتے ہیں ....عاصم بن عمرو تمیمی نے خالد بن ولید کے ساتھ کوفہ و بصرہ کے در میان سر زمینوں کو فتح کرکے ''حیرہ''کو اپنے قبضے میں لیتے وقت اس طرح کہا ہے :

''ہم نے سواری کے گھوڑوں اور تیز رفتار اونٹوں کو عراق کے وسیع آبادی والے علاقوں کی طرف روانہ کیا ۔ان حیوانوں نے اس دن تک ہم جیسے چابک سوار کبھی نہیں دیکھے تھے اور کسی نے اس دن تک ان جیسے بلند قامت حیوان بھی نہیں دیکھے تھے۔''

ہم نے فرات کے کنارے ''ملطاط''کو اپنے ان سپاہیوں سے بھردیا جو کبھی فرار نہیں کرتے۔ ہم نے ''ملطاط ''میں فصل کاٹنے کے موسم تک توقف کیا ۔اس کے بعد ہم ''انبار''کی طرف بڑھے ،جہاں پر ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے دشمن کے جنگجو بڑی تعداد میں موجود تھے ۔''بحیرہ''میں جمع ہوئے سپاہیوں کے ساتھ ہماری سخت اور شدید جنگ ہوئی۔

۲۸۳

جب ہم سیف کی معروف روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ابیات اسی شرح کے ساتھ من وعن اس کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں ۔مثلا لفظ '' ملطاط''سیف کی چار روایتوں میں طبری کی کتاب ''تاریخ طبری ''میں ذکر ہوا ہو،من جملہ ٧١ ھمیں سعد بن وقاص کے ذریعہ کوفہ کے حدود کو معین کرتے ہوئے طبری لکھتا ہے :

عربوں کے امراء اور معروف شخصیتوں نے سعد وقاص کی توجہ ''لسان''نامی کوفہ کے پیچھے واقع علاقہ کی طرف مبذول کرائی

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

وہ حصہ جو دریائے فرات کے نزدیک ہے ،اسے ''ملطاط ''کہا جاتا ہے ۔اب رہے اس سے مربوط اشعار تو ہم ان سب کو تاریخ ابن عساکر میں عاصم بن عمرو کی تشریح میں پاتے ہیں ،جہاں پر لکھتا ہے :

سیف بن عمرو کہتا ہے :...اور عاصم بن عمرو اور اس کے علاقہ ''سواد''میں داخل ہونے (کوفہ اور بصرہ و موصل کے در میان کے رہائشی علاقہ )اور وہاں پر ان کے ٹھہرنے کی مدت اور پیش آئے مراحل کو ان اشعار میں بیان کرتا ہے :...اس کے بعد اشعار کو آخر تک درج کرتا ہے ۔

داستان کے متن کی چانچ:

''دومة الجندل'' کی فتح کے بارے میں یہ سیف کی روایتیں ہیں ،جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔طبری کے بعدابن اثیر نے ان ہی روایتوں کو اختصار کے طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا ہے اور اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔ لیکن ابن کثیر نے اس داستان کی روایتوں کی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اور اس کے مصدر کو معین کئے بغیر ،پوری داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔

حموی نے ''دومة ''و ''حیرہ ''کی تشریح میں سیف کے بعض اشعار اور روایا ت کا ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ ان مطالب کو اس نے کہاں سے نقل کیا ہے ۔

۲۸۴

اصل بات یہ ہے کہ عراق میں ''دومة الجندل ''نام کی کوئی جگہ تھی ہی نہیں ،بلکہ ''دومة الجندل ''مدینہ سے دمشق جاتے ہوئے ساتویں پڑائو پر شام میں ایک قلعہ تھا۔اور عراق میں ''دوما'' یا ''دومہ''کے نام پر ایک جگہ تھی ،جسے ''دومة الحریر ''بھی کہتے تھے۔وہاں پر واقع ہونے والی جنگ میں ''اکیدر ''مارا گیاہے۔اس کے بعد خالد نے شام کی طرف رخت سفر باندھا اور ''دومة الجندل ''پر حملہ کیااور اسے فتح کرنے کے بعد جن افراد کو اسیر کیا ان میں جودی غسانی کی بیٹی لیلیٰ بھی تھی۔

لیکن ''ربیعہ''و''روضة سلھب ''نام کی ان دو جگہوں کو ہم نے کسی کتاب میں نہیں پایا اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سیف نے ان مقامات کے ناموں کاذکر کرنے میں ہرگز غفلت،فراموشی اور غلط فہمی سے کام نہیں لیا ہے کہ شام میں واقع ''دومة الجندل''اور عراق میں ''دومة الجندل ''میں کوئی فرق نہ کرپائے اورایک کو دوسرے کی جگہ تصور کرلے ۔بلکہ سیف سے دروغ بافی ،افسانہ نگاری ،اشخاص اورمقامات کے تخلیق کرنے کا جو ہم گزشتہ تجربہ رکھتے ہیں ،اس کے پیش نظر اس نے عراق کے لئے بھی عمدا ''دومة الجندل''نام کی ایک جگہ تخلیق کی ہے اوراس کے لئے ایک علیٰحدہ اور مخصوص میدان کارزار تخلیق کیا ہے تا کہ محققین کے اذہان کو بیشتر گمراہ کرے اور تاریخ اسلام کو مضحمل ، سست و بے اعتبا ر بنائے ۔

سند کی پڑتا ل :

سیف نے ''دومة الجندل''کی داستان کے راوی کے طور پر محمد نویرہ، ابوسفیان طلحہ بن عبد الرحمان اور مھلب کا ذکر کیا ہے ۔ہم نے قعقاع سے مربوط افسانوی داستانوں میں ان کو راویوں کی حیثیت سے مکرر دیکھا ہے اور معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں افراد سیف کے ذہن کی تخیلق ہیں اور حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ۔

''ملطاط'' سے متعلق روایت میں نضر بن سری ،ابن الرفیل اور زیاد کو راویوں کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ ان کے بارے میں بھی قعقاع کی داستانوں میں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

۲۸۵

تحقیق کا نتیجہ :

سیف اپنے افسانوں میں مختلف مناطق ،خاص کر تاریخی اہمیت کے خطّوں کے سلسلے میں ، ''دومة ''جیسے ہم نام مقامات کی تخلیق کرکے محققین کو حیرت اور تعجب میں ڈالتا ہے ۔اس کے با وجود طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق کے ''دومة الجندل''کی جنگ کے افسانوں کی روایت کرتا ہے اور اپنی روش کے مطابق صرف عاصم کے رزم ناموں کو حذف کرتا ہے ۔

ابن عساکر بھی ان اشعار کے ایک حصہ کی روایت کرتاہے اور اس کی سندکی سند کے طور پر سیف ابن عمرتمیمی کا نام لیتا ہے ۔اس کے ایک حصہ کو حموی بھی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔اسی طرح حموی ''ملطاط ''کی بھی تشریح کرتا ہے اور عاصم ابن عمرو کے اشعار کو شاہد کے طور پر درج کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں اپنی روایت کی سند کا نام نہیں لیتا ،جب کہ ''ملطاط''کے بارے میں اسی تشریح کو ہم اول سے آخر تک تاریخ طبری میں سیف سے نقل شدہ دیکھتے ہیں ،اور عاصم کے اشعار کو بھی ابن عساکر کی روایت کے مطابق ،سیف بن عمرسے منقول تاریخ ابن عساکر میں مشاہدہ کرتے ہیں ۔٢

اس داستان کے نتائج:

١۔خالد مضری کے لئے عراق میں جنگوں اور فتوحات کی تخلیق کرکے عام طور پر اس کی تحسین اور بڑائی کا اظہار کرانا ۔

٢۔ایک دوسرے سے دور دوعلاقوں عراق اور شام میں ایک ہی نام کی دو جگہوں کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں ،خاص کر حموی کی کتاب ''المشترک '' میں درج کرانا اور محققین کو حیرت و پریشانی سے دوچار کرنا۔

٣۔اشعار اور رزم ناموں سے ادبیات عرب کے خزانوں کو زینت دینا۔

٤۔ سرانجام ان تمام افسانوں کا ماحصل یہ ہے کہ عاصم بن عمرو تمیمی جیسے افسانوی سور ماکی شجاعتوں ،رجز خوانیوں اور خاندانی معاہدوں کی رعایت جیسے کارناموں کی اشاعت کرکے انھیں ہمیشہ کے لئے عام طور سے قبیلہ مضر اور خاص طور پر خاندان تمیم کے افتخارات میں شامل کیا جائے اور یہ باتیں امام المورخین محمد جریر طبری کی کتاب تاریخ میں درج ہوں تاکہ دوسرے مورخین کے لئے اس کے معتبر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔

۲۸۶

عاصم وخالد کے باہمی تعاون کا خاتمہ

طبری اس سلسلے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

''فراض ''کی جنگ کے بعد خالد بن ولید نے ارادہ کیا کہ سب سے چھپ کے خاموشی کے ساتھ حج کے لئے مکہ چلاجلائے ،تو اس نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ساتھ ''حیرة''جانے کا حکم دیا۔

اس کے علاوہ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں خالد بن ولید کے شام کی طرف روانگی کے سلسلے میں لکھتا ہے :

شام میں مشرکین سے جنگ میں مشغول مسلمانوں نے خلیفہ ابوبکر سے مدد کی در خواست کی۔ ابوبکر نے خالد کو ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام کی طرف روانہ ہوجائے ۔اس غرض سے وہ عراق میں موجود فوج میں سے آدھے حصے کو اپنے ساتھ لیتا ہے اور باقی حصے کو المثنی بن حارثہ شیبانی کی قیادت میں عراق میں ہی رکھتا ہے۔اس تقسیم میں خالد کسی ایسے پہلوان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب نہیں کرتا ،مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان مثنی کے لئے چھوڑ تاہے ۔

فوج کی اس تقسیم میں خالد ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کا اپنے لئے انتخاب کرتا ہے اور غیر اصحاب کو مثنی کے پاس چھوڑتا ہے ۔

مثنی نے اس تقسیم پر اعتراض کیا اور تقاضا کیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو خالد اپنے ساتھ لے جائے اور ایک حصہ کو مثنی کے پاس رکھے ۔ خالد،مثنی کی اس تجویز کو منظور کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے قعقاع بن عمرو تمیمی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرتا ہے اور دوسرے صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمرو تمیمی قعقاع کے بھائی کو مثنی کے پاس چھوڑ دیتا ہے ۔

۲۸۷

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ تھاان مطالب کا خلاصہ جنھیں سیف نے عاصم وخالد کے باہمی تعاون کے خاتمہ کے طور پر ذکر کیا تھا۔لیکن اس سلسلے میں دوسرے مورخین کے حسب ذیل نظریات سے سیف ابن عمر تمیمی کے افسانے کا پول کھل جاتاہے:

اس سلسلے میں ابن عساکر ،ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کرتا ہے:

جس وقت خالد بن ولید ''حیرة''میں تھا ،خلیفہ ابوبکر نے اسے ایک خط لکھا اور حکم دیا کہ اپنے بہادر اور کار آمد سپاہیوں کے ساتھ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ ہو جائے ۔اور اپنے باقی بے کار اور سست و کمزور سپاہیوں کو ان ہی میں سے ایک کی قیادت میں وہیں پر چھوڑ دے ۔

ابن عساکر نے ابو بکر کے خط کا متن یوں نقل کیا ہے :

''اما بعد ،عراق سے روانہ ہو جائو اور ان عراقیوں کو وہیں پر رکھو جو تمھارے وہاں پہنچنے پر وہیں موجود تھے اور اپنے طاقتور ساتھیوں جو یمامہ سے تمھارے ساتھ عراق آئے ہیں یا حجاز سے آکر تمھارے ساتھ ملحق ہوئے ہیں کے ساتھ

روانہ ہو جائو ....''

سند کی پڑتال :

سیف کی اس افسانوی داستان کے راوی محمد مہلب اور ظفر بن دہی ہیں کہ قعقاع کی افسانوی داستان میں مکرر ان کی اصلیت معلوم ہو چکی ہے ۔

اس کے علاوہ اس روایت کا ایک اور راوی طلحہ ہے ۔سیف کی روایت میں طلحہ کا نام دو راویوں میں مشترک ہے ،ان میں سے ایک اصلی راوی ہے ۔یہاں پر معلوم نہ ہو سکا کہ ان دو میں سے سیف کا مقصود کون سا طلحہ ہے ؟!

اس کے علاوہ ''قبیلہ بنی سعد سے ایک مرد'' کے عنوان سے بھی ایک راوی کا ذکر ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اس کانام کیا تصور کیا تھا تاکہ ہم اس کے بارے میں تحقیق کرتے ؟!

۲۸۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

سیف کہتا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ اپنی فوج میں سے ایک حصہ کو شام لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور اس انتخاب میں کسی ایسے پہلوان کو اپنے لئے انتخاب نہ کرے ، مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان المثنی کے لئے وہاں پر رکھے ۔خالد نے تمام اصحاب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کو اپنے لئے انتخاب کرنا چاہا ،لیکن مثنی نے اس پر اعتراض کیا اور اسے مجبور کیا کہ آدھے اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے لئے وہاں چھوڑے ۔

لیکن دوسرے مورخین کہتے ہیں کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ فوج میں سے قوی اور کار آمد سپاہیوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور بے کار اور سست افراد کو وہیں پر چھوڑ دے اس کے علاوہ اپنے افراد کو ان لوگوں میں انتخاب کرے جو اس کے ساتھ عراق آئے تھے ۔ یہ بات شام کے حالات اور جنگ کی پوزیشن اور رومیوں کے آزمودہ اور تجربہ کار فوجیوں سے جنگ کے پیش نظر مناسب نظر آتی ہے ۔

شاید ایسی داستان دجعل کرنے سے سیف کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعہ اپنے وطن عراق کے جنگجوئوں کی تجلیل کرے ،کیوں کہ اس افسانے کے ذریعہ وہ عراقی فوجیوں کے ایک حصہ کو اسلامی سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ کرتا ہے اور فتحیاب بھی ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرے نتائج بھی حاصل کرتا ہے ۔٣

اس داستان کا نتیجہ :

اس داستان کو جعل کرنے میں سیف کی نظر میں موجود تمام مقاصد کے علاوہ سیف اپنی روایت میں واضح طور پر یہ تاکید کرتا ہے کہ اس کے افسانوی سورما ئوں قعقاع اور عاصم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور یہ دونوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔اس طرح سیف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں قعقاع اور عاصم دو اصحاب کا اضافہ کرتا ہے ۔

۲۸۹

عاصم ،نمارق کی جنگ میں

هذا واکثرمن هذا من نتائج خیال سیف الحصب

یہ داستان اور ایسی دوسری بہت سی داستانیں ،سیف کے ذہن کی پیدا وار ہیں

(مولف)

جنگ نمارق کی داستان

طبری نے جنگ'' نمارق ''( ۱)کی داستان کو سیف سے حسب ذیل بیان کیا ہے :

مسلمانوں نے ایرانی فوجیوں سے ''نمارق '' کے مقام پر صلابت کے ساتھ مقابلہ کیا ،یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے دشمن کو شکست دے دی اور فراری دشمنوں کا ''کسکر '' تک پیچھا کیا گیا۔

طبری ''سقاطیۂ کسکر '' کے بارے میں لکھتا ہے :

____________________

الف )۔''نمارق ''کے بارے میں '' معجم البلدان ''میں یوں تشریح کی گئی ہے : یہ کوفہ کے نزدیک ایک جگہ ہے معلوم نہیں اس لفظ کو اس کی تشریخ کے ساتھ سیف کی احادیث سے لیا گیا ہے یا کہیں اور سے

۲۹۰

''کسکر کا علاقہ ایران کے پادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی جاگیر تھا اور وہ خود اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس علاقہ کی پیداوار میں علاقہ نرسیان کے خرمے تھے ۔یہ

خرمے بڑے مشہور تھے ۔یہ خرمے قیمتی اور کمیاب تھے کہ صرف بادشاہ کے دسترخوانوں کی زینت ہوتے تھے اور بادشاہ انھیں نوش کرتا تھا یا اپنے معزز و محترم مہمانوں کو بخشتا تھا۔

اس کے بعد کہتا ہے :

ابو عبیدہ نے اپنے بعض سپاہیوں کو حکم دیا کہ دشمن کے فراری سپاہیوں کا تعاقب کریں اور ''نمارق '' اور ''بارق'' و ''درتا'' کے درمیانی علاقوں کو ان کے وجود سے پاک کریں ...''

اس کے بعد مزید کہتا ہے :

عاصم بن عمرو، اس سلسلے میں یوں کہتا ہے :

'' اپنی جان کی قسم ،میری جان میرے لئے کم قیمت نہیں ہے ،اہل ''نمارق '' صبح سویرے ان لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہے جنھوں نے خداکی راہ میں سفر و مہاجرت کی صعوبتیں برداشت کی تھیں ۔انھوں نے انھیں سرزمین ''درتا'' اور بارق'' میں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہم نے ان کو ''بذارق '' کی راہ میں ''مرج مسلح '' اور ''ہوافی'' کے درمیان نابود کرکے رکھ دیا''!(۱)

وہ مزید کہتا ہے :

''ابو عبید ہ نے ایرانیوں کے ساتھ '' سقاطیۂ کسکر '' کے مقام پر جنگ کی ۔ایک سخت

____________________

۱)۔ ان اشعار کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ (٢٧٧) میں ذکر کیا ہے لیکن شاعر کا نام نہیں لیا ہے بلکہ صرف اتنا لکھا ہے کہ : ایک مسلمان نے یوں کہا ہے :

۲۹۱

اور خونیں جنگ واقع ہوئی سرانجام دشمن شکست کھاکر فرارہوا۔نرسی بھی بھاگ گیا۔اس کی جاگیر ،فوجی کیمپ اور مال و منال پر اسلامی فوج نے مال غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیا ۔کافی مال اور بہت مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں منجملہ نرسیان کے خرمے مسلمانوں کے ہاتھ آگئے اور انھیں اس علاقہ کے کسانوں میں تقسیم کیا گیا ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے عاصم بن عمرو کو حکم دیا کہ ''رود جور'' یا ''رودجوبر '' کے اطراف میں آباد علاقوں پر حملہ کرے ۔عاصم نے اس یورش میں مذکورہ علاقوں میں سے بعض کو ویران کیا اور بعض پر قبضہ کیا''

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے اسے اختصار کے ساتھ طبری سے نقل کیا ہے ۔

رنگارنگ کھانوں سے بھرا دسترخوان

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کے بعد درج ذیل داستان روایت کی ہے :

اس علاقے کے ایرانی امراء جن میں فرخ کا بیٹا بھی موجود تھا نے رنگ برنگ ایرانی کھانے آمادہ کرکے ابو عبیدہ اور عاصم بن عمر و کی خدمت میں الگ الگ پیش کئے ۔ابو عبیدہ نے اس گمان سے کہ عاصم ایسے کھانوں سے محروم ہوگا اس کے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اسے کھانے پر دعوت دی ۔عاصم نے ابوعبیدہ کی دعوت کے جواب میں درج ذیل اشعار کہے :

''ابو عبیدہ !اگر تیرے پاس کدو ،سبزی ،چوزے اور مرغ ہیں تو فرخ کے بیٹے کے پاس بھی بریانی ،ہری مرچ سبزی کے ساتھ تہ شدہ نازک چپاتیاں اور مرغی کے چوزے ہیں ''

عاصم نے مزید کہا:

'' ہم نے خاندان کسری ٰ کو '' بقایس '' میں ایسی صبح کی شراب پلائی جو عراق کے دیہات کی شرابوں میں سے نہیں تھی ہم نے انھیں جو شراب پلائی وہ ایسے جوانمرد دلاور جوانمرد تھے جو قوم عاد کے گھوڑوں کی نسل کے تیز طرار گھوڑوں پر سوار تھے !''

۲۹۲

معجم البلدان میں سیف کے گڑھے ہوئے الفاظ

چوں کہ اس روایت میں '' سقاطیہ کسکر ،'' نرسیان '' ،''مرج مسلح'' اور ''ہوافی '' جیسے مقامات کا نام آیا ہے ۔اس لئے یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب '' معجم البدان'' میں اس کی تشریخ کی ہے منجملہ وہ ''سقاطیہ '' کی تشریخ میں لکھتا ہے :

سقاطیہ ،سرزمین '' واسط'' میں ''کسکر ''کا ایک علاقہ ہے ۔یہاں پر ابوعبیدہ نے ایرانی سپاہوں کے کمانڈر نرسی سے جنگ کی اور اسے بری طرح شکست دی ہے ۔

نرسیان کی تشریح میں لکھتا ہے :

نرسیان ،عراق میں ''کوفہ '' اور ''واسط'' کے درمیان ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' میں آیا ہے ۔خدا بہتر جانتا ہے ،شاید اس کانام ناسی ہوگا ۔ عاصم بن عمرو نے اسے اس طرح یاد کیا ہے :

'' ہم نے '' کسکر '' میں صبح کے وقت نرسیان کے حامیوں سے مقابلہ کیا اور انھیں اپنی سفیداور چمکیلی تلواروں سے شکست دے دی ۔ہم جنگ کے دنوں تیز رفتار گھوڑے اور جوان اونٹوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے ،جنگ ہمیشہ حوادث کو جنم دیتی ہے ۔ہم نے '' نرسیان '' کی سرزمین کو اپنے قبضے میں لے لیا ،نرسیان کے خرمے ''دبا'' اور ''اصافر'' کے باشندوں کے لئے مباح کر دئے ''

وہ مسلح کی تشریح میں لکھتا ہے :

مرج مسلح ،عراق میں واقع ہے ۔اس کا نام عاصم نے فتوحات عراق سے مربوط اشعار میں ذکر کیاہے ۔ان اشعار میں مسلمانوں کی طرف سے ایرانیوں پر پڑی مصیبتوں اور زبردست مالی و جانی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ کہتا ہے :

'' مجھے اپنی جان کی قسم ! میری جان کم قیمت نہیں ہے ....'' اور اس کے باقی اشعار کو آخر تک ذکر کرتا ہے ۔

''ہوافی''کی تشریح میں لکھتا ہے :

ہوافی، کوفہ و بصرہ کے درمیان ایک جگہ ہے ۔اس کا ذکر عاصم بن عمرو کے اشعار میں آیا ہے ، جو عبیدہ ثقفی کی فوج میں ایک چابک سوار پہلوان تھا ۔وہ اس سلسلے میں کہتا ہے :

'' ہم نے ان کو ''مرج مسلح'' کے درمیان شکست دے دی''

حموی نے اپنی کتاب '' معجم البدان '' میں ان مقامات کے بارے میں صرف اس لئے کہ اسے سیف کی باتوں پر اعتبار اور بھروسہ تھا بیان کیا ہے ۔لیکن ان کے مصدر یعنی سیف کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

۲۹۳

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ اور اس کے علاوہ دیگر سب روایتیں سیف کی ذہنی پیدا وار اور اس کی افسانہ نگار ی کا نتیجہ ہیں جب کہ حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہے کیوں کہ دوسروں نے اس سلسلے میں سیف کے بر عکس کہا ہے ، جیسے بلاذری ابوعبیدہ کے عراق میں فتوحات کے بارے میں لکھتا ہے:

''ا یرانی فوج کے ایک گروہ نے علاقہ '' درتی' 'پر اجتماع کیا تھا ۔ابو عبیدہ نے اپنی فوج کے ساتھ وہاں پر حملہ کیا اور ایرانیوں کوبری طرح شکست دے کر ''کسکر ''تک پہنچا ۔ اس کے بعد ''جالینوس ''کی طرف بڑھا جو''باروسیما''میں تھا ۔اس علاقہ کے سر حد بان اندرز گرنے ابو عبیدہ سے صلح کی اور علاقہ کے باشندوں کے لئے فی نفر چار درہم جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہوا اور ابو عبیدہ نے اس کی یہ تجویز قبول کی ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے مثنی کو ''زند رود ''کے لئے مامور کیا ۔مثنی نے وہاں پر ایرانی سپاہیوں سے جنگ کی اور ان پر فتح پائی اور ان میں سے کچھ لوگوں کو اسیر بنایا ۔اس کے علاوہ عروة ابن زید خیل طائی کو ''زوابی ''کی طرف بھیجا ۔عروہ نے ''دہقان زوابی''سے ''بارو سیما''کے باشندوں کی مصالحت کی بناء پر صلح کی ....یہ وہ مطالب ہیں جو ابو عبیدہ اور مثنی کی فتوحات کے بارے میں جنگ پل سے پہلے بیان ہوئے ہیں ''۔

اس داستان کے نتا ئج :

جو کچھ ہم نے اس داستان میں مشاہدہ کیا،جیسے :بادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی سرزمین ''کسکر''پر مالکیت ،نرسیان اور وہاں کے مشہور خرمے ،جو بادشاہوں اور ان کے محترم افراد کے لئے مخصوص تھے،'' سقا طیہ کسکر''،''ھوافی ''اور ''مرج مسلح ''جیسے مقامات اور وہان کی شدید خونیں جنگیں ، عاصم اور اس کی جنگیں شجاعتیں اور رزم نامے ،فرخ کے بیٹے کا رنگ برنگ ایران کھانوں اور اس زمانے کے شراب سے بھرا دستر خوان ،خاندان تمیم کے نامور پہلوان کے ذریعہ ''جوبر''کے باشندوں کا قتل عام اور انھیں اسیر بنانا وغیرہ سب کے سب ایسے مطالب ہیں جوصرف دوسری صدی ہجری کے دروغ گو اور قصے گڑھنے والے سیف ابن عمر تمیمی کی افسانوی روایتوں میں پائے جاتے ہیں ۔اور یہ صرف سیف ہی ہے جس نے ان افسانوں کو عجیب و غریب ناموں کی تخلیق کرکے انھیں طبری جیسے تاریخ نویسوں کے سپرد کیا ہے ۔ ٤

۲۹۴

پل کی جنگ

'نمارق''کی جنگ کے خا تمے کے بعد ایک اور داستان نقل کرتا ہے جسے طبری نے اپنی تاریخ میں یوں درج کیا ہے :

(اس جنگ میں جسے ابو عبیدہ کی جنگ پل کہاجاتا ہے مسلمانوں کو زبر دست نقصانات اٹھا نے پڑے اور اس میں ابو عبیدہ بھی ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ماراگیا ۔سیف مسلما ن فوج کے دریائے دجلہ سے عبور کی کیفیت کی اس طرح روایت کرتا ہے :)

عاصم بن عمرو نے مثنی اور اس کی پیدل فوج کی معیت میں ان لوگوں کی حمایت کی جو دریائے دجلہ پر پل تعمیر کرنے میں مشغول تھے ۔اس طرح دریائے دجلہ پر پل تعمیر کیا گیا اور سپاہیوں نے اس پر سے عبور کیا ۔

خلیفہ بن خیاط نے یہی روایت سند کو حذف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کی ہے۔

لیکن دینوری لکھتا ہے:

مثنی نے عروة بن زید خیل طائی قحطانی یمانی کو حکم دیا کہ پل کے کنارے پر ٹھہرے اور اسلامی فوج اور ایرانی سپا ہیوں کے درمیان حا ئل بنے۔اس کے بعد حکم دیا کہ سپا ہی پل کو عبور کریں ،خود بھی لشکر کے پیچھے روانہ ہوا اور ان کی حمایت کی ۔سب سپاہی پل سے گزرگئے ۔

طبری نے الیس صغریٰ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے روایت کی ہے :

مثنی نے اپنی فوج میں سے عاصم ابن عمرو کا اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کیا اور خود ایک سوار فوجی دستے کی قیادت میں دشمن کی راہ میں گھات لگا کر حملے کرتاتھا اس طرح وہ ایرانی فوج کے حوصلے پست اور ان کے نظم کو درہم برہم کر رہا تھا ۔

اس کے علاوہ جنگ ''بویب ''کے بارے میں لکھتاہے :

مثنی نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ہر اول دستے کا کمانڈر معین کیا ۔اور جنگ کے بعد اسے اجازت دی کہ ایرانیوں کا تعاقب کرتے ہوئے حملے کرے ۔عاصم نے ان اچانک حملوں اور بے وقفہ یورشوں کے نتیجہ میں مدائن میں واقع ''ساباط''کے مقام تک پیش قدمی کی ۔

۲۹۵

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

جو کچھ ہم نے یہاں تک پل کی جنگ کے بارے میں بیان کیا ،یہ وہ مطالب ہیں جن کی سیف نے روایت کی ہے جب کہ دوسروں ،جیسے بلاذری نے پل کی جنگ کے بارے میں اپنی کتا ب ''فتوح البلدان ''میں مفصل تشریح کی ہے اور دینوری نے بھی اپنی کتا ب ''اخبار الطوال''میں مکمل طور پر اسے ثبت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک میں سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ٥

سند کی تحقیق :

سیف نے عاصم بن عمرو کی ابو عبیدہ اور مثنی کے ساتھ شرکت کے بارے میں محمد، طلحہ ،زیاد اور نضر کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے کہ پہلے ہم ان کے بارے میں عرض کرچکے ہیں کہ ان کا حقیقت میں کہیں وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب سیف کی ذہنی تخلیق کا نتیجہ ہیں ۔

اس کے علاوہ اس روایت کے راوی حمزة بن علی بن محفز اور ''قبیلہ بکربن وایل کا ایک مرد ''ہیں کہ ہم نے تاریخ و انساب کی کتا بوں میں ان راویوں کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔ان کا نام صرف سیف ابن عمرکی دو روایتوں میں پایا جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔اس بناء پر ہم نے حمزہ کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کیا ہے ۔

چونکہ سیف نے کہا ہے کہ خود حمزہ نے بھی ''قبیلہ بکر بن وایل کے ایک مرد ''سے داستان پل کی روایت کی ہے ،لہٰذا قارئیں کرام خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس غیر معمولی دروغ گو سیف نے ''اس مرد''کا اپنے خیال میں کیا نام رکھا ہوگا؟!

۲۹۶

موازنہ کا نتیجہ اور اس داستان کے نتائج:

حقیقت یہ ہے کہ مثنی نے عروة بن زیاد خیل طائی قحطانی یمانی کو ماموریت دی کہ اسلامی فوج کی کمانڈ سنبھا ل کر پل پار کرائے ۔

خاندانی تعصب رکھنے والے سیف بن عمر جیسے شخص کے لئے ایک یمانی و قحطانی فرد کی اس جاں نثاری اور شجاعت کا اعتراف نا قابل برداشت تھا ،اس لئے وہ مجبور ہوتا ہے کہ خاندان قحطانی کے اس شخص کی شجاعت و جاں نثاری کو سلب کرکے اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے ایک فرد کو بٹھادے ۔اس عہدے کے لئے اس کے افسانوی سور ما عاصم بن عمرو تمیمی سے شائستہ و مناسب تر اور کون ہو سکتا ہے ؟ اسی بناء پر سیف ایک تاریخی حقیقت کی تحریف کرتا ہے اور اسلامی فوج کے پل سے گزرتے وقت عروة قحطانی یمانی کی اس فوج کی حمایت وشجاعت کا اعزازی نشان اس سے چھین کر خاندان مضر کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو کو عطا کر دیتا ہے اور اس طرح پل سے عبور کرتے وقت اسلامی فوج کی حمایت کو عاصم بن عمرو کے نام پر درج کرتا ہے ۔سیف صرف اسی تحریف پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے اس افسانوی سورما کے لئے اس کے بعد بھی شجاعتیں اور کارنامے گڑھ لیتا ہے ،جیسے مثنی کی جانشینی اور سپہ سالاری کا عہدہ اور ہر اول دستے کی کمانڈ میں دشمنوں پر پے درپے حملے کرتے ہوئے مدائن کے نزدیک ''ساباط ''تک پیش قدمی کرنا وغیرہ...

۲۹۷

عاصم ،قادسیہ کی جنگ میں

واللّٰه معکم ان صبر تم و صدقتموهم الضرب والطعن

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے تو خدا تمھارے ساتھ ہے ۔

(افسانوی سورما ،عاصم)

''گائے کا دن ''،گائے گفتگو کرتی ہے!!

طبری ١٤ھ کے حوادث کے ضمن میں جنگ قادسیہ کے مقدمہ کے طور پر سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''مسلمانوں کا سپہ سالار،سعد وقاص جب ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں اپنی سپاہ کے سرداروں میں عہدے تقسیم کررہاتھا اور ہر ایک کو اس کی استعداد ،لیاقت و شائستگی کے مطابق کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ رہا تھا،تو عاصم بن عمرو تمیمی کو اسلامی فوج کے اساسی اور اہم دستہ کی کمانڈ سونپی۔

جب سعد قادسیہ کی سرزمین پر اترا تو اس نے عاصم کو فرات کے جنوبی علاقوں کی ماموریت دی اور عاصم نے ''میسان'' تک پیش قدمی کی۔

عاصم فوج کے لئے گوشت حاصل کرنے کی غرض سے گایوں اور بھیڑوں کی تلاش میں نکلتاہے ۔وہ ''میسان''میں بھی جستجو کرتا ہے ۔ادھر ادھر دوڑ نے اور تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہیں پاتا، کیوں کہ وہاں کے باشندوں نے عرب حملہ آور وں کے ڈر سے مویشیوں کو طویلوں اور کچھاروں میں چھپا رکھا تھا ۔بالآخر اس تلاش وجستجو کے دوران عاصم کی ایک شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے وہ اس سے گائے اور گوسفند کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔اتفاقا وہ شخص چرواہا تھا اور اس نے اپنے گلہ کو نزدیک ہی ایک کچھار میں چھپا رکھا تھا وہ شدید اور جھوٹی قسمیں کھا کر بولاکہ اسے مویشیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے !جب اس آدمی نے عاصم کے سامنے ایسی جھوٹی قسمیں کھائیں تو اچانک کچھار سے ایک گائے چیختے ہوئے بول اٹھی : خدا کی قسم یہ آدمی جھوٹ بولتا ہے ،ہم یہاں پر موجود ہیں '' عاصم کچھار میں گیا اور تمام مویشیوں کو ہانکتے ہوئے اپنے ساتھ کیمپ کی طرف لے آیا ۔ سعد وقاص نے انھیں فوج کے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ۔اس طرح اسلامی سپاہی چند دنوں کے لئے خوراک کے لحاظ سے مستغنی ہو گئے۔

۲۹۸

حجاج بن یوسف ثقفی نے کوفہ کی حکومت کے دوران ایک دن کسی سے عاصم بن عمرو سے گائے کی گفتگوکی داستان سنی ۔اس نے حکم دیا کہ اس داستان کے عینی شاہد اس کے پاس آکر شہادت دیں اور اس داستان کو بیان کریں ۔جب عینی شاہدحاکم کے دربار میں حاضرہوئے تو حجاج نے ان سے اس طرح سوالات کئے :

أگائے کے گفتگوکرنے کا معاملہ کیا ہے ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا : ہم نے اپنے کانوں سے گائے کی باتیں سنیں اور گائے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بالآخر ہم ہی تھے جو ان مویشیوں کو ہانکتے ہوئے کیمپ تک لے آئے ۔

أتم چھوٹ بولتے ہو!

٭انھوں نے جواب میں کہا: ہم جھوٹ نہیں بولتے ،لیکن موضوع اس قدر عجیب اور عظیم ہے کہ اگر آپ بھی ہماری جگہ پر ہوتے اور اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم سے بیان کرتے تو ہم بھی اس کو جھٹلاتے اور یقین نہیں کرتے !

أحجاج نے کہا : سچ کہتے ہو ،ایسا ہی ہے ...مجھے بتائو کہ لوگ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا: لوگ ،گائے کی گفتگو کو فتح و کامیابی کے لئے خدا کی آیات میں سے ایک نوید بخش آیت سمجھتے تھے جو دشمنوں پر ہماری فتح کے لئے خدا کی تائید و خوشنودی کی علامت ہے ۔

أحجاج نے کہا:خدا کی قسم !یہ اس کے بغیر ناممکن ہے کہ اس سپاہ کے تمام افراد نیک اور پرہیزگار ہوں ۔

٭کہا گیا: جی ہاں ہمیں تو ان کے دل کی خبر نہیں تھی لیکن جو ہم نے دیکھا وہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک ان جیسے لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنھوں نے اس قدر دنیا سے منہ موڑا ہو اور اسے دشمن جان کر نفرت کرتے ہوں !!

سیف اس داستان کے ضمن میں مزید کہتا ہے : یہ دن اتنا اہم اور قابل توجہ تھا کہ ''گائے کادن'' کے عنوان سے مشہور ہوا ۔

۲۹۹

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

اس روایت کو تمام تفصیلات کے ساتھ امام المورخین ابن جریر طبری ،سیف ابن عمرو تمیمی سے نقل کرتا ہے اور ابن اثیر بھی اسے طبری کی کتاب سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کرتا ہے ۔

لیکن دوسرے لوگ ،یعنی بلاذری اور دینوری لکھتے ہیں :

... جب اسلام کے سپاہی ،مویشیوں کے لئے چارے اور اپنے لئے غذا کی ضرورت پیدا کرتے تھے تو فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار مچاتے تھے...

بلاذری نے اس روایت کے ضمن میں لکھا ہے :

عمر بھی مدینہ سے ان کے لئے گائے اور گوسفند بھیجا کرتے تھے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے'' گائے کا دن '' کی داستان کے سلسلے میں عبداللہ بن مسلم عکلی اور کرب بن ابی کرب عکلی کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے ۔ہم نے ان دو کا نام سیف کے علاوہ راویوں کے کسی بھی مصدر اور ماخذ میں نہیں پایا۔

عاصم ،کسریٰ کے دربار میں

طبری ،سیف بن عمرو تمیمی سے روایت کرتا ہے :

''خلیفہ عمر ابن خطاب نے سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند سخن پرور ،فصیح اور قدر ت فیصلہ رکھنے والے افراد کو کسریٰ کے پاس بھیجے تاکہ اسے اسلام کی دعوت دیں ۔سعد نے اس کام کے لئے چند افراد پر مشتمل ایک گروہ کا انتخاب کیا کہ ان میں عاصم بن عمر و بھی شامل تھا ۔یہ لوگ کسریٰ کی خدمت میں پہنچے اور اس کے ساتھ گفتگو کی ۔کسریٰ نے غصہ میں آکر حکم دیا کہ تھوڑی سی مٹی لا کر اس گروہ کے سر پرست کے کندھوں پر رکھی جائے ۔اس کے بعد سوال کیا کہ ان کا سردار کون ہے ؟ انھوں نے کسریٰ کے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی ۔عاصم بن عمرو نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا : میں اس گروہ کا سردار ہوں ،مٹی کو میرے کندھوں پر بار کرو!

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416