ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215515 / ڈاؤنلوڈ: 4975
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اسی طرح انھوں نے شہر ارم کو قوم عاد سے متعارف کر ایا ہے ، یہ بات خدا وند عالم کی سورہ ٔفجر کی چھٹی تا نویں آیات سے مطابقت رکھتی ہے:

( اَلَمَ تَرَکَیفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ٭اِرَمَ ذَاتِ الْعِمادِ٭ الَّتِی لَمْ یُخلَق مِثْلُهَا فِیْ البِلادِ٭ وَ ثَمُودَ الَّذِینَ جَابوُاالصَّخْرَ بِا لْوٰادِ )

(اے ہمارے رسول!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟!. شہر ارم میں جو کہ بلند وبالا اور عالی شان محلوں والا تھا ؟ !

ایسا شہر کہ جس کا مثل دوسرے شہروں میںنہیں پیدا ہوا. اور قوم ثمود کے ساتھ جو وادی میں پتھروں کو کاٹ کر اپنے لئے پتھروں سے قصر تعمیر کرتے تھے؟!

اس طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب عبد المطلب کا شعر قرآن کر یم میں مذکور پیغمبروں اور ہلاک شدہ امتوں کی خبروں سے مطابقت رکھتا ہے۔

وہ جہاں پر اپنے اجداد کی توصیف کر تے ہیں اور انھیں اللہ کے نبیوں کی ردیف میں ، پسندیدہ اخلاق ، جیسے صلہ رحم اور عہد کے وفا کر نے والی صفت سے متصف ہو نے کی بناء پر، قرار دیتے ہیں، وہیں ان کی بات کی سچائی ان کے اجداد کی سیرت کے بارے میں ثابت ہوجاتی ہے، جو کہ گزشتہ فصلوں میں مفصل طور پر بیان کی گئی ہے۔

اور آپ کی یہ بات کہ: وہ لوگ حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہی آج تک آل اللہ اور خدا پرست ہیں اور خدا وند عالم ہمیشہ ان کے ذریعہ(یعنی جن لوگوں کو وہ آل اللہ اور حجت خدا کے عنوان سے متعارف کر تے ہیں) برائی اور ناگوار چیزوں کو دور کر تا ہے، یہ ایک ایسا مطلب ہے جو صحیح اور درست ہے .کیوکہ ان کے خدا پرست ہو نے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہیں کر تے اور ہم ان کی بات کی صداقت کو اس بات سے درک کر تے ہیں کہ پیغمبر کے آباء واجداد میں حضرت اسمٰعیل تک کسی کو ایسا نہیں پایا کہ بُت کو سجدہ کیا ہویا بُت کے لئے قربانی کی ہو،یا بت کے نام پر حج کا تلبیہ کہاہو یا بت کی قسم کھا ئی ہو یا بت کی کسی بیت یا کسی شعر میں مدح وستائش کی ہو،بلکہ ان تمام موارد میں بر عکس دیکھا ہے کہ انھوں نے خدا کا سجدہ کیا ہے اور خدا سے تقرب حاصل کر نے کے لئے قربانی کی ہے اور خداوند عالم کی قسم کھائی اور اُ س کی تعریف وتوصیف کی ہے.اس لحاظ سے حضرت عبد المطلب کی بات کا صادق ہو نا روشن وآشکار ہے۔

۲۴۱

رہی ان کی یہ بات کہ ان کے درمیان ہمیشہ خدا کی کوئی حجت رہی ہے، تو اس کے متعلق یا یہ کہیں کہ پروردگار عالم نے اپنے گھر کے ساکنوں کو مکّہ میں کہ جسے ام القری کہتے ہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے یعنی اس ام القریٰ اور اس کے اطراف میں رہنے والے اور وہ لوگ جو حج ادا کر نے کے لئے اس کے محترم گھر کی طرف آتے ہیں پانچ سو سال سے زیادہ مدت تک انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور کسی ایسے شخص کو جس کے پاس شریعت اسلام وہ لوگ حاصل کر سکیں ان کے درمیان قرار نہیں دیا ہے کہ اس بات کا غلط ہو نا واضح اور آشکا ر ہے؛اور ہم نے اس کتاب کی ربوبیت کی بحث میں تشریح کی ہے کہ پروردگار عالم اس طرح کی چیزوں سے منزہ اور مبرا ہے۔

یا یہ کہیں کہ:

پروردگار عالم نے مسلسل نسلوں کو پانچ سو سال سے زیادہ ام القریٰ اور اس کے اطراف میں ان کے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور اُن کے درمیان ایسے افراد کو قرار دیا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی دینی احکام سیکھنا چاہے تو وہ سکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو؛ اس آیۂ شریفہ کے مصداق کے مطابق کہ خدا فرماتا ہے:

( وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوافِینَالَنَهْدِ یَنَّهُمْ سُبُلَنَا )

''اور وہ لوگ جو کہ ہماری راہ میں سعی و تلاش کرتے ہیں،ہم خود ہی انھیں اپنی راہ کی راہنمائی کرتے ہیں ''۔

اس بناء پر خدا وند عالم نے انھیں افراد کے درمیان ایسے لوگوں کو قرار دیا ہے کہ جو اُسی نسل کے سارے افراد پر حجت تمام کرتے ہیں. ایسی صورت میں دین خدا کی طرف ہدایت کر نے والا جناب عبد المطلب اور آپ کے آباء و اجداد کے علاوہ حضرت ابراہیم تک کون ہوسکتا ہے؟ پروردگار عالم کی قسم کہ خدا وند متعال نے ان کے درمیان ذریت حضرت ابراہیم سے حجتیں قرار دیں اور ان پر حجت تمام کی ہے اور ان کے ذریعہ بُرائی اور عذاب کو ان سے دور کیا ہے.اور جناب عبدالمطلب نے سچ کہا ہے کہ:

نحنُ آل الله فی ما قد مضیٰ

لم یزل ذاک علی عهد ابرهم

لم تزل الله فینا حجة

ید فع الله بها عنّا النقم

۲۴۲

جناب عبد المطلب کے شاعرانہ اسلوب میں بالخصوص مذکورہ با لا ابیات میں کہ آپ نے اپنے شکست خوردہ دشمن (ابرھہ اور اس کے سپا ہی) پر فخر ومباہات کے موقع پر کہا ہے اور جن فضائل و مناقب کو شمار کیا ہے گزشتہ اور موجودہ عرب کی شاعرانہ روش سے واضح اور آشکار فرق پا یا جا تا ہے ۔

کیونکہ آپ نے اپنے باپ ہاشم کے وجود ذی جود پر افتخار نہیں کیا ایسا سخی اور جواد باپ جس نے خشک سالی کے زما نے میں مکّہ والوں کو کھانا کھلانے کا بندو بست کیا اور اونٹوں پر تجا رتی اجناس بار کر نے کے بجائے مکّہ والوں کے لئے شام سے غذا لائے اور. پھر انھیں اونٹوں کو جن پر لوگوں کے لئے غذا لا د کر لائے تھے ،نحر کیا اور گرسنہ ( بھوکے) لوگوں کو سیر کیا. یہ ایسا کار نامہ انجام دیا ہے کہ اُن سے پہلے نہ کسی عرب نے ایسا کیا اور نہ ہی حاتم طائی نے اور نہ ہی ان سے پہلے یا بعد میں کسی اورنے انجام دیا اور نہ ہم نے گزشتہ امتوں کی داستان میں کو ئی ایسا کا رنامہ ملاحظہ کیا ہے. اور اپنے باپ کے اقدام کو جو کہ اعتفاد کی رسم کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ کو ئی گھرا نہ مجبوری اور گرسنگی(بھوک) کے زیر اثر موت سے دوچار نہ ہو اپنے لئے فخر شمار نہیں کر تے اور اس وقت عرب کو تجارت کے آداب سکھا نے اور اجناس کو آباد سرزمینوں میں لے جانے کو اپنی فوقیت و بر تری کا معیار نہیں سمجھتے۔

جناب عبد المطلب نے ان تمام فضائل میں سے کسی ایک فضیلت کو اپنے لئے افتخار کا باعث نہیں سمجھا،جب کہ تمام لوگوں کے درمیان مذکورہ بالا فضائل صرف اور صرف ان کے باپ ھا شم سے مخصوص تھے.اس طرح کے امور میں جو کہ خدمت خلق کا پتہ دیتے ہیں خود پر فخر ومباہات نہ کر نا اللہ کے نبیوں اور اس کی حجتوں کے واضح اورنمایا صفا ت میں سے ہے.یعنی یہ لوگ لوگوں کے ساتھ جود و بخشش کر کے اور معاشی امور میں ان کی خد مت کرکے لوگوں پر احسان نہیں جتاتے بلکہ صرف لوگوں کو اس منصب سے جو خدا نے اُن سے مخصوص کیا ہے اور لوگوں کو ہدایت کا وسیلہ قرار دیا ہے آگاہ کرتے ہیں.یہ کام جناب عبد المطلب نے اپنے اشعار میں انجام دیا ہے جس میں فرماتے ہیںکہ ''ہم قدیم زمانے سے ہی آل اللہ تھے...''۔

۲۴۳

جناب عبد المطلب اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت

انساب الاشراف میں ختمی مرتبت حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولا دت سے متعلق اختصار کے ساتھ یوں ذکر کیا گیا ہے:

جب آمنہ کے بطنِ مبارک میں حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نور استقرا ر پایا تو خواب میں کوئی ان کے دیدار کو آیا اور اُس نے کہا:

اے آمنہ! تم اس امت کے سید وسردار کی حامل ہو، جب تمہارا بچہ پیدا ہو جا ئے تو کہو:(اُعیذُک بالواحِد مِن شرِّ کُلِّ حاسدِ)۔

یعنی ''تمھیں ہر حاسد کے شر سے خدا وند واحد کی پناہ میں دیتی ہوں'' اور اس کا نام احمد رکھو؛اور ایک روایت کے مطابق محمد رکھو. جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت ہو گئی تو آمنہ نے جناب عبد المطلب کو پیغام بھیجا کہ آپ کے لئے ایک بچہ پیدا ہوا ہے.جناب عبد المطلب شاد و خرم اٹھے اور گھر آئے (اس حال میں کہ ان کی اولا د اُن کے ہمراہ تھی) اور انہوں نے اپنی نگاہیں نو مولود فرزند کی طرف جمائیں، آمنہ نے اپنے خواب کو اُن سے بیان کیا اور یہ کہ اُن کے حمل کی مدت سہل اور آسان رہی ہے اور ولادت آسانی سے ہو گئی ہے، جناب عبد المطلب نے بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُسے اپنے سینے سے لگا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور یہ اشعار پڑھے:

اَلْحَمدُ لِلّٰه الَّذِیْ اَعطَانِی

هَٰذا الْغُلاْمَ الطَیِّبَ ا لَاردانِ

اُعیذه با لبیتِ ذی الارکان

من کل ذی بغی و ذی شنآنِ

و حاسدٍ مضطرب العنان

تمام تعر یف اس خدا کی ہے جس نے ہمیں یہ پاک و پاکیزہ اور مبارک و نورانی بچہ عنایت کیا ہے. میں اسے خداوند عالم کے گھر کی پناہ میںدیتا ہوں تاکہ ظالموں،بد خواہوں اور بے لگام حاسدوں کے شر سے محفوظ رہے۔

۲۴۴

تاریخ ابن عساکر اور ابن کثیر میں کچھ ابیات کا اضافہ کیا ہے کہ جو ان کے آخر میں ذکر ہوئے ہیں!

مندرجہ ذیل اشعار جو آخر میں اضافہ کے ساتھ مذکور ہیں :

انت الذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کتب ثابتة المبان

احمد مکتوب علی اللسان( ۱ )

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں اور زبانوں پر'' احمد'' ہے ۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دیتے ہیں کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

طبقات ابن سعد میں اختصار کے ساتھ اس طرح مذکور ہے:

____________________

(۱) انساب الاشراف، ج۱، ص ۸۰۔۸۱ کلمات میں اختلاف کے ساتھ؛طبقات ابن سعد، ج۱، ص ۱۰۳؛ تاریخ ابن عساکر،ج۱ ص ۶۹؛ ابن کثیر، ج۲، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵؛ اسی طرح دلا ئل بیھقی، ج۱، ص۵۱ بھی ملاحظہ کیجئے.

۲۴۵

حلیمہ:حضرت پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلا نے والی دا یہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان کے بارے میں خوفزدہ ہوئیں اسی وجہ سے کہ انھیں پانچ سال کے سن میں مکّہ واپس لے آئیں تا کہ ان کی ماں کے حوالے کر دیں،لیکن لوگوں کی بھیڑ کے درمیان انھیں گُم کر گئیں اور جتنا بھی تلا ش کیا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور آپ نہ ملے۔ لہٰذا حضرت عبد المطلب کی خدمت میں دوڑی ہوئی آئیں اور واقعہ سے انھیں آگاہ کیا.جناب عبد المطلب کی جستجو بھی فرزند کے حصول میں نتیجہ خیز نہ ہوئی نا چا ر وہ کعبہ کی طرف رخ کر کے کہنے لگے۔

لاهُمّ أَدِّ راکبی محمّدا ----أدِّ هْ الیَّ وَاصطنع عندی یدا

انت الذی جعلتَهُ لی عضدا -----لا یبعد الدَّهرُ به فیبعدا

انت الَّذی سمَّیتَهُ مُحمّداً( ۱ )

(خدا یا! ہمارے شہسوار محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو واپس کر دے ،اُسے لو ٹا دے اور اسے میرا ناصر و مدد گار قراردے.تو نے ہی اُس کو میرا بازو قرار دیا ہے، زمانہ کبھی اس کو مجھ سے دور نہ کرے، تو نے ہی اس کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے)۔

یہاں بھی جناب عبد المطلب تصریح کر تے ہیں کہ یہ خدا ہے جس نے اُن کے پو تے کا نام محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکھا ہے۔

مروج الذھب نامی کتاب میں مذکور ہے:

جناب عبد المطلب اپنے فرزندوں کو صلۂ رحم اور کھانا کھلا نے کی وصیت اور انھیں تشو یق کرتے تھے اورڈرایا کرتے تھے تا کہ ان لوگوں کی طرح جو معاد،بعثت اور حشر و نشر کے معتقد ہیں، عمل کریں۔

انھوں نے سقایت (سقائی) اور رفادت کی ذمہّ داری اپنے فرزند''عبد مناف'' یعنی''جناب ابوطالب'' کودی اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے متعلق وصیت بھی انھیں سے کی( ۲ )

سیرۂ حلبیہ و نبویہ نامی کتابوں میں مذکور ہے:جاہلیت کے زمانے میں جناب عبد المطلب اُن لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر دی تھی وہ مستجاب الداعوت انسان تھے (یعنی ان کی دعائیں بارگاہ خدا وندی میں مقبول ہوتی تھیں) انھیں ان کی جود وبخشش کی وجہ سے '' فیاض'' کہتے تھے اور چونکہ پر ندوں کے لئے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھا نے کا انتظام کرتے تھے انھیں لوگوں نے ''مطعم طیر السمائ'' (آسمان کے پرندوں کوغذا دینے والے کا) لقب دے رکھا تھا۔

____________________

(۱)طبقات ابن سعد، طبع یورپ، ج۱، ص ۷۰۔ ۷۱ ، خبر میں اور لفظ کے اختلاف کے ساتھ انساب الاشراف۔ ج۱، ص ۸۲؛ اسی طرح سبل الھدی والارشاد ،ج۱، ص۳۹۰ بھی ملاحظہ ہو؛(۲) مروج الذھب، ج۲، ص ۱۰۸۔ ۱۰۹

۲۴۶

روای کہتا ہے! قریش میں صابر اور حکیم شمار ہوتے تھے۔

پھر سبط جو زی کی نقل کے مطابق اختصار سے ذکر کیا ہے:جناب عبد المطلب اپنے بیٹوں کو ظلم و ستم اور طغیانی و سر کشی کے ترک کر نے کاحکم دیتے تھے اورانھیں مکارم اخلاق کی رعایت کی تشو یق اور تحریک کر تے اور انھیں اس پر آمادہ کرتے تھے اور نازیبا حرکتوں اور ناپسندیدہ افعال کے انجام دینے سے روکتے تھے وہ کہتے تھے: کو ئی ظالم اور ستمگر دنیا سے نہیں جا ئے گا مگر یہ کہ اس کے ظلم کا انتقام لوگ اُس سے لے لیں گے اور وہ اُس کی سزا بھگتے گا۔

قضاء الہٰی سے ایک ظالم انسان جو کہ شام کا رہنے والا تھا بغیر اس کے کہ وہ دنیا میں اپنے سیاہ کارناموں اور بُرے افعال کی سزا بھگتے انتقال کر گیا. اس کی داستان جناب عبد المطلب سے نقل کی گئی۔

انھوں نے تھوڑی دیر غور وفکر کیا اور آخر میں کہا: خدا کی قسم اس دنیا کے بعد ایک دو سری دنیا ہے جس میں نیک لوگوں کو ان کے نیک عمل کی جزا اور بد کا روں کو اُن کے بُرے عمل کی سزا دی جائے گی۔

یہ بات اس معنی میں ہے کہ ستمگر و ظالم انسان کا دنیا میں نتیجہ یہ ہے .اور اگر مر گیا اور اُسے کوئی سزا نہ ملی تو پھر اس کی سزاآخرت کے لئے آمادہ اور مہیا ہے۔

ان کی بہت ساری سنتیں ایسی ہیں جن میں اکثر و بیشتر کی تائید قرآن کریم نے کی ہے جیسے نذر کا پورا کرنا،محارم سے نکاح کی ممانعت،چور کا ہاتھ کاٹنا،لڑکیوں کو زندہ در گور کر نے سے روکنا،زنا اور شراب کو حرام کر نا اور یہ کہ برہینہ خا نہ خدا کا طواف نہیں کر نا چاہئے۔( ۱)

سیرۂ بنویہ نامی کتاب میں مذکور ہے کہ :جناب ہاشم کے فرزند جناب عبد المطلب، قریش کے حکیموں اور بہت زیادہ صبر کر نے والوں اور مستجاب الدعوة انسان میں شمار ہوتے تھے.اُنہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی تھی۔ وہ سب سے پہلے انسان ہیں جو اکثر شبوں میں کوہ حرا میں عبادت(تحنث) کر تے تھے.وہ جب رمضان کا مہینہ آتا توفقراء کو کھانا کھلاتے اور پہاڑوں کی بلندی پر جا کر اس کے ایک گوشہ میں خلوت اختیار کرتے اس غرض سے کہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے ذاتِ خدا وندی کی عظمت اور بزرگی کے بارے میں غور و خوض کریں۔( ۲ )

____________________

(۱)سیرۂ حلبیہ، ج۱ ص ۴؛ سیرۂ نبویۂ ، ج۱ ،ص ۲۱.(۲) سیرۂ نبویہ ، ج۱ ، ص۲۰ اسی مضمون سے ملتی جلتی عبارت انساب الاشراف کی پہلی جلد کے صفحہ ۸۴ پر مذکو ر ہے.تاریخ یعقوبی اور انساب الا اشراف بلا ذری میں اختصار کے ساتھ اس طرح ذکر ہوا ہے ( اور ہم نے اس مطلب کو تاریخ یعقوبی سے لیا ہے)۔

۲۴۷

قریش پر مصیبت کے سا لہا سال قحط اور گرانی کے ساتھ گذرگئے یہاں تک کہ کھیتیاں برباد ہوگئیں اور دودھ پستا نوں میں خشک ہوگئے قریشیوں نے عاجزی اور درماندگی کے عالم میں جناب عبد المطلب سے پناہ مانگی اور کہا:خدا وند عالم نے تمہارے وجود کی برکت سے بارہا ہم پر اپنی رحمت کی بارش کی ہے اس وقت بھی خدا سے درخواست کرو تاکہ وہ ہمیں سیراب کرے۔

جناب عبد المطلب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ اُن اےّام میں جب کہ وہ اپنے جد کی آغوش میں تھے (اور اپنے جد کے سہارے راستہ طے کرتے تھے) باہر نکلے اور اس طرح دعا کی۔

''أللّهم سادَّ الخلَّة ِ،وَکَاشِفَ الکُربةِ،اَنت عَالم غَیر مُعَلَّم، مَسؤول غیرُ مُبَخَّل وَ هؤلائِ عبادُک وَ اماؤک بِعذراتِ حرمک یَشکُون اِلیکَ سَنیهِم الَّتی أَقحلتِ الضَرع وَ أَ ذهبتِ الزَّرعَ،فاسمعنَّ الّٰهُمّ وَ أَمطرنَّ غَیثاً مَریعاً مغدقاً )

خدایا !اے ضرو رتوں کو پورا کر نے والے اور کرب و بیچینی کو دور کر نے والے تو بغیر تعلیم کے عالم ہے اور بخل نہ کر نے والا مسئول ہے یہ لوگ تیرے بندے اور کنیزیں ہیں جو تیرے حرم کے ارد گرد رہتے ہیں۔

تجھ سے اس قحط کی شکا یت کرتے ہیں جس سے پستا نوں میں دودھ خشک ہو گیا ہے اور کھتیاں تباہ و برباد ہوگئیں ہیں۔

لہٰذا خدا یا! سُن اور ان پر زور دار موسلا دھار بارش نازل فرما۔

قریش ابھی وہاں سے حر کت بھی نہیں کر پا ئے تھے کہ آسمان سے ایسی موسلا دھا ر بارش ہوئی کہ ہر طرف جل تھل ہو گیا۔

ایک قریش نے ایسے مو قع پر اس طرح شعر کہا:

بشیبة الحمد اسقیٰ اللهُ بلدتنا وقد فقدنا الکریٰ واجلّوذ المطرُ

''خدا وند عالم نے شیبة الحمد(جناب عبد المطلب) کی بر کت سے ہماری سر زمینوں کو سیراب کیا جب کہ ہم عیش وعشرت کھو چکے تھے اور بارش کا دور دور تک سراغ نہیں تھا''۔

منّاً من اللهِ بالمیمونِ طائره وخیر من بشّرت یوماً به مُضرُ

''خداوند عالم نے مبارک فال انسان کے وجود سے ،ہم پر احسان کیا ہے اور وہ سب سے اچھا انسان ہے کہ ایک دن مضر قبیلہ والے اُس سے شاد و خرم ہوئے ہیں ''۔

۲۴۸

مُبارک الامرِ یُستقیٰ الغمامُ به ما فی الأنام له عدلُ و لاخطرُ ( ۱ )

'' وہ مبارک مرد (جناب عبد المطلب) جس کی وجہ سے بادل نے برسنا شروع کیا؛ لوگوں کے درمیان وہ بے نظیر و بے مثال ہے ''۔

بحار الانوار میں مذکور ہے:

لوگ رسول خدا کے جد جناب عبد المطلب کے لئے کعبہ کے پاس فرش بچھا تے تھے تا کہ اس پر وہ تشریف فر ما ہوں اور اس پر ان کے احترام میں ا ن کے سوا ان کی کوئی اولاد بھی نہیں بیٹھتی تھی،لیکن جب پیغمبر اکرم صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آتے تھے تو اُس پر بیٹھتے تھے، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرات جا کر انھیں اس کام سے روکنے کی کوشش کرتے لیکن جناب عبد المطلب اُن سے مخاطب ہو کر کہتے!

میرے بیٹے کو چھوڑ دو اسے نہ روکو۔

پھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پشت پر ہا تھ رکھ کر کہتے:میرے اس بیٹے کی خاص شان اور منزلت ہے۔( ۲ )

تاریخ یعقوبی نامی کتاب میں مذکو ر ہے کہ :

جناب عبد المطلب نے کعبہ کی حکومت اور ذمّہ داری اپنے بیٹے زبیر کے حوالے کی اور رسولخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سرپرستی اور زمزم کی سقائی جناب ابو طالب کے سپر د کی اور کہا:میں نے تمہارے اختیار میں ایسا عظیم شرف اور بے مثال افتخار قرر دیا ہے جس کے سامنے عرب کے بزرگوں کے سر خم ہو جائیں گے۔

پھر اس وقت جناب ابو طالب سے کہا:

أُوصیک یا عبد منافٍ بعدی

بمُفردٍ بعد أبیه فردِ

''اے عبد مناف! تم کو اپنے بعد ایک یتیم کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جو اپنے باپ کے بعد تنہا رہ گیا ہے''۔

فارقه و هُو ضجیع المهد

فَکُنت کا لأُ مّ له فی الوجد

____________________

(۱) یہاں تک بلا ذری کی انساب الاشراف کے صفحہ ۱۸۲ تا۱۸۵ پر حالات پراگندہ طور پر مذکور ہیں لیکن ہم نے تاریخ یعقوبی کی ج،۲ ص ۱۲ اور ۱۳ سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے.(۲)بحار الانوار، ج۱۵، ص ۱۴۴اور ۱۴۶ا ور ۱۵۰.

۲۴۹

''اس کا باپ اس سے اس وقت جدا ہوگیا جب وہ گہوارے میں تھا اور تمہاری حیثیت اس کے لئے ایک دل سوز اور مہربان ماں کی تھی ''۔

تُدنیه من أَحشائها و الکبد --- فَأَنت مِن أَرجیٰ بنیّ عِندی

لدفع ضیمٍ أَو لشدِّ عقد( ۱ )

''کہ اسے دل و جان سے آغوش میں لیتی ہے.میں تم سے مشکلات اور پریشانیوں کے بر طرف کر نے اور رشتہ کو مضبوط بنا نے کے لحاظ سے اپنے تمام فرزندوں سے زیادہ امید رکھتا ہوں''۔

بحار الانوار میں،واقدی کی زبانی اس واقعہ کے نقل کے بعد اختصار کے ساتھ اس طرح روایت ہے:

اوصیک أَرجیٰ اهلنا بالر فدی --- یابن الذی غیبته فی اللحدِ

بالکره منّی ثمّ لا بالعمدی --- وخیرة الله یشاء فی العبدِ

جناب عبد المطلب نے کہا:اے ابو طالب! میں اپنی وصیت کے بعد تمہارے ذمّہ ایک کام سپرد کررہا ہوں.جناب ابو طالب نے پو چھا کس سلسلہ میں؟

کہا: میری تم سے وصیت میرے نور چشم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعلق ہے کہ تم میرے نزدیک اس کی عظمت اور قدر ومنزلت کو جا نتے ہو،لہٰذا اس کی مکمّل طور پرتعظیم کرو اور جب تک زندہ ہو روز وشب کسی بھی وقت بھی ا س سے الگ نہ ہونا؛ خدا را ،خدا را،حبیب خدا کے بارے میں۔پھر اُس وقت اپنے دیگر بیٹوں سے کہا:محمد کی قدر دانی کرو کہ بہت جلد ہی عظیم اور گراں قدر امرکا اس میں نظارہ کروگے اور بہت جلد اس کے انجام کار کو جس سلسلے میں میں نے اس کی تعریف و توصیف کی ہے وقت آنے پر سمجھ جائو گے ۔جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک آواز ہو کر کہا: اے بابا! ہم مطیع اور فرمانبردار ہیں اور اپنی جان و مال اُس پر فدا کر دیں گے۔پھر اس وقت جناب ابو طالب نے جوپہلے سے ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر چچا کے مقابلے سب سے زیادہ ان کی بہ نسبت مہر بان اور دلسوز تھے. کہا: میرا مال اور میری جان محمد پر فدا ہے،میں ان کے دشمنوں سے جنگ کروں گا اور دوستوں کی نصرت کروں گا۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی،ج،۲ ،ص ۱۳.

۲۵۰

واقدی نے کہا ہے:

پھر جناب عبد المطلب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور دوبارہ آنکھ کھولی اور قریشیوں کی جانب نظر کی اور بو لے:اے میری قوم! کیا تم پر میرے حق کی رعا یت واجب نہیں ہے؟

سب نے ایک ساتھ کہا:بیشک،تمہارے حق کی رعایت چھوٹے بڑے،سب پر واجب ہے تم ہمارے نیک رہبر اور بہترین رہنما تھے۔

جناب عبد المطلب نے کہا: میںاپنے فرزند محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بن عبد اللہ کے بارے میں تم سے وصیت کر تا ہوں اس کی حیثیت اپنے درمیان ایک محتر م اور معزز شخص کی طرح سمجھنا اس کے ساتھ نیکی کر نا اور اس پر ظلم روا نہ رکھنا اور اس کے سامنے نا پسندیدہ افعال بجا نہ لانا۔

جناب عبد المطلب کے فرزندوں نے ایک ساتھ کہا: ہم نے آپ کی بات سنی اور ہم اس کی اطاعت و پیروی کریں گے۔( ۱ )

ابن سعد کی طبقات میں مذکو ر ہے:

جب جناب عبد المطلب کی موت کا وقت قریب آیا،تو انھوں نے جناب ابو طالب کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محافظت و نگہداری کی وصیت کی۔( ۲ )

جناب عبد المطلب کا اس وقت انتقال ہوا جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آٹھ سال کے تھے اور وہ خود ایک سو بیس سال کے تھے کہ اس سن میں دنیا کو وداع کہہ کر رخصت ہوئے۔

خدا وند عالم نے جناب عبد المطلب کو جسمی اعتبار سے قوی و توانا بنا یا تھا اور صبر وتحمل اور جو د وسخا کے اعتبار سے بڑا حو صلہ دیا تھا اور آپ کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا انھیں توحید پرست،روز قیامت کی سزا کا معتقد اور جاہلیت کے دور میں خدا پر ست بنایا اور بتوں کی پرستش اور تمام ہلا کت بار چیزوں سے جو لوگوں کی تباہی کا باعث ہوتی ہیں ان سے انھیں دور رکھا تھا.وہ ظلم وستم اور گناہوں کے ارتکاب کو سخت ناپسند کر تے تھے.وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے غار حرا میں عبادت کے لئے خلوت نشینی کی تاکہ خدا کی عظمت و جلالت کے بارے میں تفکر کریں اور اس کی عبادت کریں وہ رمضان کے مہینے میں عبادت میں مشغول ہوتے اور فقرا ء و مسا کین کو اس ماہ میں کھانا کھلا تے تھے. آپ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مکّہ میں خوش ذائقہ پا نی سے

____________________

(۱)بحار الانوار :ج۱۵، ص۱۵۲، ۱۵۳.(۲) طبقات ابن سعد،ج۱ص ۱۱۸.

۲۵۱

لوگوں کو سیراب کیا اور خواب میں زمزم کا کنواں کھو دنے پر مامور ہوئے ور آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور صرف اپنے فرزند حا رث کے ساتھ مذکورہ کنویں کی کھدائی کی۔

اور جب ابرھہ اپنے ہاتھی پر سوار ہو کر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ کو ڈھانے کے ارادہ سے مکّہ کے اطراف میں پہنچا،تو جناب عبد المطلب نے ابرھہ کے لشکر سے مقا بلہ کرنے کے لئے قریش کو آواز دی لیکن ان لو گوں نے سنی اَن سنی کر دی اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر فرار کر گئے؛ لیکن جناب عبد المطلب نے خدا کے گھر کو نہیں چھوڑا اور خدا کو مخاطب کر کے اس طرح شعر پڑھا:

یا ربّ انَّ العبد یمنعُ

رحلهُ فامنع رحالک

خدایا! ہر بندہ اپنے گھر کا دفاع اور بچاؤ کر تا ہے،لہٰذا تو بھی اپنے گھر کا دفاع اور تحفظ کر۔

اور جب خدا وند متعال نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو ہلاک کر ڈالا تو انھوں نے یہ اشعار کہے:

انَّ للبیت لرباً ما نعاً

من یرده بأَثامٍ یصطلم

(اس گھر کا روکنے والاایک مالک ہے کہ جو بھی اس کی طرف گناہ کا قصد کر ے گا تو وہ اسے نابود کر دے گا)۔

رامه تُبّع فی من جند ت

حمیر و الحی من آل قدم

( تبع انھیں میں سے ایک تھا کہ جس نے لشکر کشی کی،اسی طرح حمیر اور اس کے قبیلہ والے )۔

فانثنیٰ عنه و فی اوداجه

جارح امسک منه بالکظم

(کہ لوٹنے کے بعد اس کی گردن میںکچھ زخم تھے جو سانس لینے سے مانع تھے)۔

۲۵۲

قلت والأشرم تردی خیله

اِنّ ذا الاَّشرم غرّ بالحرم

(اور اس کان کٹے (ابرھہ) سے جو اپنے لشکر کو ہلاکت میں ڈال رہا تھا میں نے کہا:بیشک یہ گوش بریدہ(کان کٹا) حرم کی بہ نسبت نہایت مغرور ہے)۔

نحن آل الله فی ما قد مضی

لمن یزل ذاک علی عهد اِبرهم

( ہم گزشتہ افراد کی آل اللہ ہیں اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہمیشہ ایسا رہا ہے)۔

نحنُ دمَّرنا ثموداً عَنوة

ثم عادا قبلها ذات ا لارم

( ہم نے ثمود کی سختی کے ساتھ گو شمالی کی اور انھیں ہلاک کر ڈالا اور اس سے پہلے شہر ارم والی قوم عاد کو )

نعبد الله و فینا سُنّة

صلَة القربیٰ و ایفاء الذمم

( ہم خدا کی عبادت کر تے ہیں اور ہمارے درمیان صلہ رحم اور عہد کا وفا کرنا سنت رہا ہے)۔

۲۵۳

لم تزل للهِ فینا حجّة

یدفع الله بها عنّا النّقم

( ہمیشہ ہمارے درمیان خدا کی ایک حجت رہی ہے کہ اس کے ذریعہ بلاؤں کو ہم سے دور کر تا ہے)۔

یہی سال تھا کہ آپ کے پو تے خاتم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیدا ہوئے تو جناب عبد المطلب نے انہیںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک کپڑے میں لپیٹا اور اُ نہیں اپنے سینے سے لپٹا کر کعبہ میں داخل ہوگئے اور اس طرح شعر پڑھا :

انت الّذی سُمِّیت فی الفرقان

فی کُتب ثابتة المثان

احمد مکتوب علی اللسان

''تو وہی ہے جس کا نام فرقان اور محکم غیر تحریف شدہ کتابوں میں '' احمد ہے ''۔

ان اشعار میں جناب عبد المطلب خبر دے رہے کہ آسمانی کتابوں میں ان کے پو تے کا نام احمد ہے۔

جناب عبد المطلب مستجاب الدعوات تھے، جس وقت قریش پر بارش نہیں ہوتی تھی اُن سے دعا کی درخواست کر تے تھے کہ آپ خدا سے دعا کریں تو خدا آپ کی دعا کے نتیجے میں موسلا دھار بارش نازل کرتا تھا.آخر ی بار پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جب آپ کم سن بچہ تھے رحمت باراں طلب کرنے کے لئے باہر گئے ابھی لوگ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔

جناب عبد المطلب نے کچھ ایسی سنتیں قائم کی ہیں کہ اسلام نے ان کی تائید اور تثبیت کی ہے. جیسے:

۱۔ نذر کا پو را کر نا؛ سورۂ انسان، آیت ۷ اور سورۂ حج ،آیت ۲۔

۲۔ محارم سے ازدواج کی ممانعت؛سورۂ نسائ،آیت ۲۳۔

۳۔ چور کا ہاتھ کاٹنا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۳۸۔

۴۔ لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی ممانعت؛ سورۂ تکویر، آیت ۸، سورۂ انعام، آیت ۱۵۱، سورۂ اسرائ، آیت ۳.

۵۔ شراب کا حرام کر نا؛ سورۂ مائدہ، آیت ۹۰۔ ۹۱۔

۲۵۴

۶۔ زنا کی حر مت سورۂ فرقان آیت۶۸، سورۂ ممتحنہ آیت ۱۲ ، سورۂ اسرائ، آیت ۳۲۔

۷۔ خا نہ کعبہ کے گرد عریاں اور برہینہ حالت میں طواف کر نے سے روکنا۔

پیغمبر خدا نے ۹ ھ میں جب انھوں نے اپنے چچا زاد بھائی علی کو حاجیوں کے سامنے سورۂ برائت کی ابتدائی آیات کی تلا وت کر نے پر مامور کیا تھا تب یہ بھی حکم دیا تھا کہ یہ موضوع بلند آواز سے لوگوں کو ابلاغ کر یں۔

۸۔صلۂ رحم کی رعایت ، خاندان والوں اور رشتہ داروں سے ارتباط رکھنا؛ سورۂ نسائ، آیت۱۔

۹۔ کھانا کھلانا؛ سورۂ مائدہ آیت ۸۹ اور سورۂ بلد آیت ۱۴ ، سورۂ الحاقہ آیت ۳۴۔

۱۰۔ظلم نہ کرنااور ستمگری کو ترک کرنا؛ سورۂ ابراھیم آیت ۲۲ اور بہت سی دیگر آیات۔

وہ غار حرا میں کنج تنہائی اختیار کرتے تھے اور کئی کئی راتیں خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ( کہ جس کو کہتے ہیں) یہی روش آپ کے پو تے خا تم الانبیائصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنائی تھی.وہ روز جزا (قیامت) پر ایمان واعتقاد رکھتے تھے اور اس بات کی دوسروں کو بھی تبلیغ کر تے تھے۔

بحار الانوار میں اپنی سند کے ساتھ امام جعفر صادق سے انھوں نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے جد سے انھوں نے حضرت علی ابن ابی طالب سے انھوں نے حضرت محمد صلّیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے اپنی وصیت میں فرمایا : اے علی! جناب عبد المطلب نے دور جا ہلیت میں پانچ سنتیں قائم کی ہیں کہ خدا وند عالم نے اسے اسلام میں اجرا کیا اور اس پر عمل کرنے کو ضروری سمجھا ہے ۔

انھوں نے باپ کی بیوی سے ازدواج حرام کیا ہے؛ اور خدا وند رحمن نے یہ آیت نازل فرمائی :

( لَا تَنْکِحُوا مَانَکَحَ آباؤُکُمْ مِنَ النِّسٰائِ )

جن عورتوں سے تمہارے آباء و اجداد نے نکاح کیا ہے اُن سے نکاح نہ کرو۔

جناب عبد المطلب نے ایک خزانہ پایا،تو اس کا خمس نکال کر جدا کر دیا اور راہ خدا میں صدقہ دیا، خدوند عالم نے بھی فرمایا:

( وَاعْلَمُوا اَنّمَا غَنِمْتُمْ مِن شَیٍٔ فَاِنَّ لِلّٰهِ خُمسَه )

جان لو کہ تمھیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو یقینا اس میں اللہ اور کے لئے خمس ہے۔

اور جب زمزم کا کنواں کھودا تو اُ سے حاجیوں کے پینے کے لئے مخصوص کر دیا. اور خدا وند عالم نے بھی فرمایا:( اَجَعَلْتُمْ سَقَایةَ الَحَاجَّ ) حجاج کو پانی پلانا ...؟

۲۵۵

آپ نے اونٹ کی دیت سو اونٹ معین کی تو خدا وند عالم نے بھی اسی کو اسلام میں معین کردیا، پہلے خانہ خدا کے گرد طواف کر نے کی کوئی حد معین نہیں تھی جناب عبد المطلب نے سات چکر طواف معین کیا اور خدا وند عالم نے اسی کو اسلام میں باقی رکھا۔

اے علی! جناب عبد المطلب نے ازلام ( پانسوں) کے تیروں کے مطابق تقسیم نہیں کی،کسی بُت کی پوجا نہیں کی اور نہ ہی بُت کے لئے قربانی کیا ہوا گوشت کبھی نہیں کھا یا اور کہتے تھے میں ا پنے باپ ابراہیم کے دین کا پابند ہوں۔( ۱ )

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب عبد المطلب کے اونٹ کے سم کے نیچے سے پانی کا ابلنا ( کہ جس کی حکا یت پہلے بیان کی جاچکی ہے ) ایک کرامت تھی خدا نے جس کے ذریعہ ان کو محترم بنا یا ۔

جس طرح ان کے جد اسمٰعیل کو اس سے پہلے ان کے قدم کے نیچے سے آب زمزم کے جاری ہو نے کی وجہ سے مکرم اور محترم بنایا تھا۔

خدا وند عالم نے اسی طرح کی کرامت سے اُن کے پو تے حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو گرامی قدر بنا یا جب جنگ تبوک میںآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیر کے پاس سے چشمہ پھوٹ پڑا۔( ۲ )

جو کچھ ا س حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ جناب عبد المطلب نے زمانۂ جا ہلیت میں پا نچ سنتیں قائم کیں اور اسلام نے اس کی تائید اور تثبیت کی،وہ اس سے پہلے ذکر کی گئی باتوں سے منا فات نہیں رکھتا کیو نکہ کسی چیز کا ثابت کر نا دوسری چیزوں کے نہ ہو نے پر دلیل نہیں بن سکتا۔

بحث کا خلاصہ

حضرت ابراہیم نے اسمٰعیل کو وصیت کی کہ ان کی حنیفیہ شریعت کے ستونوں کو بیت ﷲ الحرام کی تعمیر اور منا سک حج کی ادائیگی سے قائم رکھیں.تو اسمٰعیل نے اپنی پوری زندگی اپنے باپ کی وصیت کا پاس و لحاظ رکھا یہاں تک کہ مکّہ میں انتقال کر گئے اور اپنی مادر گرامی (ہاجرہ) اور اپنے بعض فرزندوں کے پاس حجر اسمٰعیل میں سپر د لحد کئے گئے۔( ۳ )

____________________

(۱) بحار الانوار ، ج ۱۵،ص ۱۲۷ شیخ صدوق کی خصال ج۱، ص ۱۵۰ کی نقل کے مطابق

(۲) بحار الانوار ،ج ۲۱، ص ۲۳۵ ،خرائج کی نقل کے مطابق ص ۱۸۹ ، بابِ غزوۂ تبوک

(۳) ملاحظہ کیجئے : اسلام میں دو مکتب، ج۱ ، ص ۸۲ تا ۸۵ اور معا لم المدرستین، طبع ۴،ج۱ ،ص۶۰ تا ۶۴.

۲۵۶

خدا نے اسحق کے فرزند یعقوب جو کہ اسرائیل سے مشہو ر تھے ان کی اولا د کے لئے بھی مخصوص احکام وضع کئے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کی شریعت میں رائج ہوئے ہیں۔

حضرت عیسیٰ بن مر یم کے بعد رسولوں کی فترت کا زمانہ شروع ہو جا تا ہے .یعنی خدا وند عالم نے اس مدت میں کو ئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا رسول نہیں بھیجا .جز ان نبیوں کے جو بعض لوگوں کے لئے ہدایت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے.انھیں عیسیٰ کی شریعت پر عمل کر نے کی دعوت دی.جیسے خالد بن سنان اور حنظلہ جن کا شمار اوصیاء شریعت عیسیٰ میں ہوتا ہے ۔

رہا سوال ام القریٰ (مکّہ) اور اس کے اطراف وجوانب کا تو حضرت اسمٰعیل کے پوتوں میں کوئی نہ کوئی بزرگ یکے بعد دیگرے حضرت ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کے قیام اور حضرت کی سنتون کو زندہ کر نے کے لئے اُٹھے کہ اب مختصر طور سے ہم ان کا تعارف کراتے ہیں:

۱۔ مضر کے فرزند الیاس

مضر کے فرزند الیاس حضرت اسمٰعیل کے قبیلہ کے اُن افراد پر بہت ناراض ہوئے اور نکتہ چینی کی جنھوں نے اپنے آباء واجداد کی روش اور سنتوں کو بدل ڈالا تھا.انھوں نے ان کی نئے سرے سے تجد ید کی یہاں تک کہ تحر یف سے قبل والی حالت کے مانند ان پر عمل ہونے لگا۔

الیاس وہ پہلے آدمی ہیں جو اپنے ہمراہ قربانی کا اونٹ مکّہ لے گئے ، نیز وہ حضرت ابراہیم کے بعد پہلے آدمی ہیں جنھوں نے رکن کی بنیاد ڈالی۔

۲۔الیاس کے پو تے خز یمہ بن مدرکہ

خزیمہ کہتے تھے: ایک''احمد '' نامی پیغمبر کے خروج کا زمانہ قریب آچکا ہے.وہ لوگوں کو خدا، نیکی، احسان اور مکارم الاخلا ق (اخلاق کی بلندیوں) کی دعوت دے گا. تم سب اس کی پیروی کرنا اور اس کی کبھی تکذیب نہ کرنا کیو نکہ وہ جو کچھ لائے گا حق ہو گا۔

۲۵۷

۳۔ کعب بن لو ٔی

کعب خزیمہ کے پو توں میں سے ہیں وہ حج کے ایام میں خطبہ دیتے اور کہتے تھے : زمین و آسمان اور ستارے لغو اور بیہودہ خلق نہیں کئے گئے ہیں اور روز قیامت تمہارے سامنے ہے .وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو پسندیدہ اخلا ق اور بیت اللہ الحرام کی تعظیم و تکریم پر آما دہ کرتے تھے.اور انھیں آگاہ کرتے تھے کہ خا تم الانبیاء خدا کے گھر سے مبعوث ہو گے اور اس بات کی موسیٰ اور عیسیٰ نے بھی اطلا ع دی ہے اورشعر پڑھتے تھے:

علیٰ غفلةٍ یاتی النبی محمد فیخبرا خباراً صدوقاً خبیرها

اچانک محمد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئیں گے اور وہ سچی خبر دیں گے۔

اور کہتے تھے:اے کاش میں ان کی دعوت اور بعثت کو درک کر تا..

۴۔ جناب قُصیّ

بعد اس کے کہ خزاعہ قبیلہ کے رئیس نے مکّہ میں بُت پر ستی کو رواج دیا.حضرت اسمٰعیلں کی نسل سے قُصیّ ان کے مقابلے کے لئے اُٹھے اور انھیں مکّہ سے باہر نکال دیا.انھوں نے بُت پر ستی سے منع کیا اور ابراہیم کی سنت جو مہمانوں کو کھا نا کھلانے سے متعلق تھی اس کی دوبارہ بنیاد ڈالی.وہ حج کا موسم آنے سے پہلے ہی قریش قبیلہ کے درمیان اٹھے اور ایک خطبہ کے ضمن میں فرمایا:

اے جماعت قریش ! تم لوگ خدا کے ھمسایہ(پڑوسی) اس کے حرم اور گھر والے ہو اور حجاج خدا کے مہمان اور اس کے گھر کے زائر ہیں .اور احترام وتکریم کے سب سے زیادہ لائق اور سزاوار ترین مہمان ہیں.لہٰذا حج کے ایام میں جب تک کہ تمہارے علا قے سے اپنے گھرواپس نہیں چلے جاتے اس وقت تک ان کے لئے غذا اور کھا نے پینے کی چیزیں فر اہم کرو، اگر میرا مال ان تمام امور کے لئے کافی ہوتا تو تن تنہا اور تمہاری شمو لیت کے بغیر اس کام کے لئے اقدام کر تا.لہٰذا تم میں سے ہر ایک اس کام کے لئے اپنے مال کا ایک حصّہ مخصوص کرے۔

۲۵۸

قریش نے حکم کی تعمیل کی اور کافی مقدار میں مال جمع ہو گیا،جب حاجیوں کے آنے کا زمانہ قریب ہوا ، تو مکّہ کے ہر راستے پر ایک اونٹ نحر کیا اور مکّہ کے اندر بھی ایسا کیا اور ایک جگہ کا انتخاب کیا تا کہ وہاں روٹی اور گو شت رکھا جائے اور خوش ذائقہ اور میٹھا پانی اور دوغ (چھاچھ) حاجیوں کے لئے فر اہم کیا، وہ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مزدلفہ میںآگ جلا ئی تا کہ رات کے وقت حجاج عرفات سے باہر آئیں تو اپنا راستہ پہچان سکیں،انھوں نے خانہ خدا کے لئے کلید بردار اور پردہ دارکا تقرر کیا اور اپنے بیٹے عبد الدار کے گھر کو دار الندوہ (مجلس مشاورت) کا نام دیا،اس طرح سے کہ قریش وہاں کے علا وہ کہیں فیصلہ نہ کر یں.انھوں نے اپنی موت کے وقت اپنے فرزندوں سے وصیت کی کہ شراب سے پر ہیز کریں۔

۵۔ جناب عبد مناف

قُصیّ کے بعد، ان کے فرزند عبد مناف کہ جن کانام مغیرہ تھا ان کے جا نشین ہوئے اور قریش کو تقوائے الٰہی،صلہ رحم اور پر ہیز گاری کی تعلیم دی۔

۶۔ جناب ھا شم

عبد مناف کے بعد ،ان کے فرزند جناب ہاشم ان کے جانشین ہوئے اور قَصیّ کی سنت و روش کی پیروی میں حجاج کی مہما ن نوازی کے لئے قریش کو آواز دی وہ اپنے خطبہ میں کہتے تھے:

خدا کے مہمانوں اور اس کے گھر کے زائرین کا احترام کرو اس گھر کے ربّ کا واسطہ،اگر میرے پا س اتنا مال ہوتا جو ان کے اخراجا ت کے لئے کا فی ہوتا تو تمہاری مدد سے بے نیاز ہوتا ، میں اپنے پاک وحلال مال سے کہ جس میں قطع رحم نہیں ہوا، کوئی چیز ظلم وستم سے نہیں لی گئی اور جس میں حرام کا گذر نہیں ہے(حجاج کے اخراجا ت کے لئے) ایک مبلغ الگ کر تا ہوں اور جو بھی چاہتا ہے کہ ایسا کرے وہ ایک مبلغ جدا کردے،تمھیں اس گھر کے حق کی قسم تم میں سے جو بھی بیت اللہ کے زائر کا احترام کر نے اور ان کی تقو یت کے لئے کوئی مال پیش کرے وہ اُس مال سے ہو جو پاک اور حلال ہو، جسے ظلم کے ذریعہ اور قطع رحم کر کے نہ لیا گیا ہو اور نہ زور اور زبر دستی سے حاصل کیا گیا ہو، قریش نے بھی اس سلسلے میں کافی احتیاط سے کام لیا اور اموال کو دار الندوہ میں رکھ دیا۔

۲۵۹

جیسا کہ ہم ملاحظہ کر تے ہیں ،جناب ہاشم کا کام خدا کی خوشنودی حاصل کر نے میں انبیاء جیسا ہے انھوں نے نہ تو شہرت حاصل کر نے کے لئے اور نہ ہی اس لئے ان امور میں ہا تھ لگایا کہ دوسرے لوگ ان کی اور ان کی قوم کی تعریف و توصیف کریں ؛جیسا کہ اُس زمانے میں جاہل عرب کی روش تھی۔

ان کا قریش کے تجارتی قافلوں کے لئے پروگرام بنانا بھی خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے تھا جبکہ وہ لوگ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ سرزمینوں میں زندگی گذارتے تھے اور امر ار معاش کے لئے دودھ کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے تھے۔

جناب ہاشم اپنے امور میں دیگر انبیاء اور پیغمبروں کی طرح دور اندیش اور اپنی قوم کے دنیاوی معاش اور اخروی معاد کے بارے میں غور وخوض کر نے والے ایک معزز انسان تھے

۷۔ جناب عبد المطلب بن ہا شم

وہ توحید کا اقرار کر نے والے اور دنیا وآخرت میں ہر کام کی جزا یا سزا ملنے پر ایمان و اعتقاد رکھتے تھے ، وہ جاہلیت کے دور میں خد اشناس اور خدا پر ست تھے. انھوں نے زمزم کا کنواں کھودا۔

جناب عبد المطلب ایک مستجاب الدعوات شخص تھے،انھوں نے خدا سے بارش کی دعا کی تو خداوند عالم نے ان کے لئے بارش نازل کی انھوں نے خبر دی کہ خدا نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آسمانی کتابوں میں نام احمد رکھا ہے اور رسول خدا کے آباء و اجداد کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم کے دَور سے خدا کی کوئی نہ کوئی حجت رہی ہے جس کی وجہ سے خدا نے برائیوں کو ان سے دور کیا ہے۔

جناب عبد المطلب نے چند سنتوں کی بنیاد رکھی جس کی اسلام نے تائید اورتثبیت کی ہے ۔

تاریخ یعقوبی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اختصار کے ساتھ ذکر ہوا ہے:

خدا وند عالم قیامت کے دن ہمارے جد جناب عبد المطلب کو پیغمبروں کے جلوہ کے ساتھ امت واحدہ کی صورت میں مبعوث کرے گا.( ۱ )

اس سے پہلے ا ن کی سیرت میں دیکھ چکے ہیں کہ اُنھوں نے اپنے فرزندوں اور اپنی قوم سے عہد و پیمان لیا کہ جب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث بہ رسالت ہوں تو وہ لوگ ان کی نصرت کریں.جیسا کہ دیگر انبیاء اپنی قوم کے ساتھ ایسا ہی عہد و پیمان لیتے تھے۔

____________________

(۱) تاریخ یعقوبی ۔ج۲ ، ص ۱۲ تا ۱۴؛ بحار الانوار جلد ۱۵، ص ۱۵۷ کافی کی نقل کے مطابق، ج۱ ،ص ۴۴۶، ۴۴۷. حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ: آپ نے فرمایا : جناب عبد المطلب امت واحدہ کی صورت میں محشور ہو گے اس حال میں کہ پیغمبروں کی جھلک اور باشاہوں کی صورت کے حامل ہوں گئے.

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

عاصم ،دومة الجندل کی جنگ میں

ترکنا هم صرعی لخیل تنوبهم تنافسهم فیها سباع المرجب

ہم نے دشمن کے سپاہیوں کا اس قدر قتل عام کیا کہ لاشیں گھوڑوں سے پامال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزرگاہ بن گئیں

(عاصم ،افسانوی سورما)

دو مة الجندل کی فتح

طبری نے ''دومة الجندل ''کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے حسب ذیل روایت کی ہے :

مختلف عرب قبیلوں نے جن میں ودیعہ کی سرپرستی میں قبیلہ کلب بھی موجود تھا اپنے تمام سپاہیوں کو ایک جگہ پر جمع کیا ۔اس منسجم فوج کی قیادت کی ذمہ داری اکید ر بن عبد الملک اور جودی بن ربیعہ نامی دو افراد نے سنبھالی ۔

اکیدر کا نظریہ تھا کہ خالد بن ولید سے صلح کرکے جنگ سے پرہیز کیا جائے جب اکیدر کی تجویز عوام کی طرف سے منظور نہیں ہوئی تو اس نے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔خالد بن ولید نے عاصم بن عمر و کو حکم دیا کہ اکیدر کو راستے سے پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے خالد کے حکم سے اکیدر کو قتل کیا گیا. اس کے بعد خالد بن ولید نے دومة الجندل پر حملہ کیا ۔

دوسری جانب مختلف عرب قبیلے ،جنھوں نے خالد سے جنگ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد و معاہدہ کیا تھا ،قلعہ دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے ۔چوں کہ اس قلعہ میں ان تمام لوگوں کے لئے گنجائش نہیں تھی ،اس لئے ان میں سے بیشتر افراد قلعہ سے باہر مورچے سنبھالنے پر مجبور ہوئے۔ خالد بن ولید نے ان سے جنگ کی سر انجام اس نے ان پر فتح پائی جودی بھی مارا گیا ۔قبیلہ کلب کے علاوہ تمام افراد مارے گئے ۔کیوں کہ عاصم بن عمرو نے دشمن پر فتح پانے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ :اے قبیلہ تمیم کے لوگو!اپنے قدیمی ہم پیمان ساتھیوں کو اسیر کرکے انھیں پناہ دو کیوں کہ انھیں فائدہ پہنچانے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا ۔تمیمیوں نے ایسا ہی کیا ۔اس طرح قبیلہ کلب کے لوگ بچ گئے ۔ خالد بن ولید عاصم کے اس عمل سے ناخوش ہوا اور اس کی سرزنش کی ۔

۲۸۱

ان مطالب کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم بن عمر و کی زبانی کہے گئے سیف کے اشعار کو ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر نے اس داستان کے ایک حصہ کو اپنی تاریخ میں عاصم کے حالات سیف سے نقل کرتے ہوئے درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھا ہے:....اور عاصم نے دو مة الجندل کے بارے میں یوں کہا ہے :

''میں جنگوں میں کارزار کے انداز کو کنٹرول میں رکھتا ہوں ،دوستوں کی حمایت کرتاہوں ،انھیں تنہانہیں چھوڑتا ہوں ۔شام ہوتے ہی جب ودیعہ نے اپنے سپاہیوں کو مصیبتوں کے دریا میں ڈال دیا ،میں نے جب دومة الجندل میں دیکھا کہ وہ غم واندوہ میں ڈوبے خون جگر پی رہے ہیں تو میں نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ،لیکن اپنے ہم پیمان ،کلب کے افراد کا خیال رکھ کر اپنے قبیلہ کے لئے ایک بڑی نعمت فراہم کی ''

یاقوت حموی نے بھی اس داستان کے ایک حصہ کو روضة السلہب اور دومة الجندل کے ناموں کی مناسبت سے اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

''روضة السلہب عراق کے دومة الجندل میں واقع ہے ،اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں جن کے ضمن میں خالد بن ولید کی دومة الجندل کی جنگ کا اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

'' روضة السلہبکے دن دشمن خاک و خون میں غرق تھے ،وہ ہمارے دلوں کے لئے شفابخش منظر تھا کیوں کہ ان کے سردار کی ہوائے نفس نے انھیں فریب دیا تھا ۔اس دن ہم نے تلواروں کی ایک ضرب سے جودی کا کام تمام کیا اور اس کے سپاہیوں کو زہر قاتل پلا یا ۔انھیں قتل عام کیا ،ان کی لاشیں گھوڑوں سے پائمال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزر گاہ بن گئیں ''

۲۸۲

سیف بن عمر اپنے افسانوی سورما ،عاصم بن عمرو کے زبانی بیان کردہ اشعار کے ضمن میں پہلے مذکورہ قبائل کی جنگ بیان کرتا ہے اور اس میں قبیلہ کلب کے پیشوا''ودیعہ''کی نا اہلی کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو ہلاکت و نابود ی اور مصیبت سے دوچار کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اورثابت کرتاہے کہ عاصم نے قبیلہ کلب کے ساتھ اپنے قبیلہ کے عہد و پیمان کو فراموش نہیں کیا تھا ۔اور وہ اس معاہدہ پر اس کے خاندان کے لئے فضیلت وافتخار کا سبب باقی رہا ۔اس دن اس عہد نامہ کا پاس رکھتے ہوئے اس نے اپنے قبیلہ ادر قبیلہ کلب پر احسان کیا اور اس طرح اس نے قبیلہ کلب کے افراد کو یقینی مو ت سے نجات دی ہے ۔

عاصم کے اشعار کے دوسرے حصے میں تمام عرب قبیلوں کو شامل کیا گیا ہے اور ان میں ان کے احمقانہ اقدام کی وجہ سے بدترین انجام اور ان کے قائد جودی کی شکست کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔

''لسان ''اور ''ملطاط''کی تشریح

حموی نے لفظ ''الملطاط ''کی حسب ذیل تشریح کی ہے :

عرب ،کوفہ کے مشرقی علاقے جو کوفہ کے پیچھے واقع ہے کو ''لسان''اور اس کے دریائے فرات کے قریب واقع مغربی علاقے کو ''ملطاط''کہتے ہیں ....عاصم بن عمرو تمیمی نے خالد بن ولید کے ساتھ کوفہ و بصرہ کے در میان سر زمینوں کو فتح کرکے ''حیرہ''کو اپنے قبضے میں لیتے وقت اس طرح کہا ہے :

''ہم نے سواری کے گھوڑوں اور تیز رفتار اونٹوں کو عراق کے وسیع آبادی والے علاقوں کی طرف روانہ کیا ۔ان حیوانوں نے اس دن تک ہم جیسے چابک سوار کبھی نہیں دیکھے تھے اور کسی نے اس دن تک ان جیسے بلند قامت حیوان بھی نہیں دیکھے تھے۔''

ہم نے فرات کے کنارے ''ملطاط''کو اپنے ان سپاہیوں سے بھردیا جو کبھی فرار نہیں کرتے۔ ہم نے ''ملطاط ''میں فصل کاٹنے کے موسم تک توقف کیا ۔اس کے بعد ہم ''انبار''کی طرف بڑھے ،جہاں پر ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے دشمن کے جنگجو بڑی تعداد میں موجود تھے ۔''بحیرہ''میں جمع ہوئے سپاہیوں کے ساتھ ہماری سخت اور شدید جنگ ہوئی۔

۲۸۳

جب ہم سیف کی معروف روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ابیات اسی شرح کے ساتھ من وعن اس کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں ۔مثلا لفظ '' ملطاط''سیف کی چار روایتوں میں طبری کی کتاب ''تاریخ طبری ''میں ذکر ہوا ہو،من جملہ ٧١ ھمیں سعد بن وقاص کے ذریعہ کوفہ کے حدود کو معین کرتے ہوئے طبری لکھتا ہے :

عربوں کے امراء اور معروف شخصیتوں نے سعد وقاص کی توجہ ''لسان''نامی کوفہ کے پیچھے واقع علاقہ کی طرف مبذول کرائی

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

وہ حصہ جو دریائے فرات کے نزدیک ہے ،اسے ''ملطاط ''کہا جاتا ہے ۔اب رہے اس سے مربوط اشعار تو ہم ان سب کو تاریخ ابن عساکر میں عاصم بن عمرو کی تشریح میں پاتے ہیں ،جہاں پر لکھتا ہے :

سیف بن عمرو کہتا ہے :...اور عاصم بن عمرو اور اس کے علاقہ ''سواد''میں داخل ہونے (کوفہ اور بصرہ و موصل کے در میان کے رہائشی علاقہ )اور وہاں پر ان کے ٹھہرنے کی مدت اور پیش آئے مراحل کو ان اشعار میں بیان کرتا ہے :...اس کے بعد اشعار کو آخر تک درج کرتا ہے ۔

داستان کے متن کی چانچ:

''دومة الجندل'' کی فتح کے بارے میں یہ سیف کی روایتیں ہیں ،جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔طبری کے بعدابن اثیر نے ان ہی روایتوں کو اختصار کے طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا ہے اور اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔ لیکن ابن کثیر نے اس داستان کی روایتوں کی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اور اس کے مصدر کو معین کئے بغیر ،پوری داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔

حموی نے ''دومة ''و ''حیرہ ''کی تشریح میں سیف کے بعض اشعار اور روایا ت کا ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ ان مطالب کو اس نے کہاں سے نقل کیا ہے ۔

۲۸۴

اصل بات یہ ہے کہ عراق میں ''دومة الجندل ''نام کی کوئی جگہ تھی ہی نہیں ،بلکہ ''دومة الجندل ''مدینہ سے دمشق جاتے ہوئے ساتویں پڑائو پر شام میں ایک قلعہ تھا۔اور عراق میں ''دوما'' یا ''دومہ''کے نام پر ایک جگہ تھی ،جسے ''دومة الحریر ''بھی کہتے تھے۔وہاں پر واقع ہونے والی جنگ میں ''اکیدر ''مارا گیاہے۔اس کے بعد خالد نے شام کی طرف رخت سفر باندھا اور ''دومة الجندل ''پر حملہ کیااور اسے فتح کرنے کے بعد جن افراد کو اسیر کیا ان میں جودی غسانی کی بیٹی لیلیٰ بھی تھی۔

لیکن ''ربیعہ''و''روضة سلھب ''نام کی ان دو جگہوں کو ہم نے کسی کتاب میں نہیں پایا اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سیف نے ان مقامات کے ناموں کاذکر کرنے میں ہرگز غفلت،فراموشی اور غلط فہمی سے کام نہیں لیا ہے کہ شام میں واقع ''دومة الجندل''اور عراق میں ''دومة الجندل ''میں کوئی فرق نہ کرپائے اورایک کو دوسرے کی جگہ تصور کرلے ۔بلکہ سیف سے دروغ بافی ،افسانہ نگاری ،اشخاص اورمقامات کے تخلیق کرنے کا جو ہم گزشتہ تجربہ رکھتے ہیں ،اس کے پیش نظر اس نے عراق کے لئے بھی عمدا ''دومة الجندل''نام کی ایک جگہ تخلیق کی ہے اوراس کے لئے ایک علیٰحدہ اور مخصوص میدان کارزار تخلیق کیا ہے تا کہ محققین کے اذہان کو بیشتر گمراہ کرے اور تاریخ اسلام کو مضحمل ، سست و بے اعتبا ر بنائے ۔

سند کی پڑتا ل :

سیف نے ''دومة الجندل''کی داستان کے راوی کے طور پر محمد نویرہ، ابوسفیان طلحہ بن عبد الرحمان اور مھلب کا ذکر کیا ہے ۔ہم نے قعقاع سے مربوط افسانوی داستانوں میں ان کو راویوں کی حیثیت سے مکرر دیکھا ہے اور معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں افراد سیف کے ذہن کی تخیلق ہیں اور حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ۔

''ملطاط'' سے متعلق روایت میں نضر بن سری ،ابن الرفیل اور زیاد کو راویوں کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ ان کے بارے میں بھی قعقاع کی داستانوں میں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

۲۸۵

تحقیق کا نتیجہ :

سیف اپنے افسانوں میں مختلف مناطق ،خاص کر تاریخی اہمیت کے خطّوں کے سلسلے میں ، ''دومة ''جیسے ہم نام مقامات کی تخلیق کرکے محققین کو حیرت اور تعجب میں ڈالتا ہے ۔اس کے با وجود طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق کے ''دومة الجندل''کی جنگ کے افسانوں کی روایت کرتا ہے اور اپنی روش کے مطابق صرف عاصم کے رزم ناموں کو حذف کرتا ہے ۔

ابن عساکر بھی ان اشعار کے ایک حصہ کی روایت کرتاہے اور اس کی سندکی سند کے طور پر سیف ابن عمرتمیمی کا نام لیتا ہے ۔اس کے ایک حصہ کو حموی بھی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔اسی طرح حموی ''ملطاط ''کی بھی تشریح کرتا ہے اور عاصم ابن عمرو کے اشعار کو شاہد کے طور پر درج کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں اپنی روایت کی سند کا نام نہیں لیتا ،جب کہ ''ملطاط''کے بارے میں اسی تشریح کو ہم اول سے آخر تک تاریخ طبری میں سیف سے نقل شدہ دیکھتے ہیں ،اور عاصم کے اشعار کو بھی ابن عساکر کی روایت کے مطابق ،سیف بن عمرسے منقول تاریخ ابن عساکر میں مشاہدہ کرتے ہیں ۔٢

اس داستان کے نتائج:

١۔خالد مضری کے لئے عراق میں جنگوں اور فتوحات کی تخلیق کرکے عام طور پر اس کی تحسین اور بڑائی کا اظہار کرانا ۔

٢۔ایک دوسرے سے دور دوعلاقوں عراق اور شام میں ایک ہی نام کی دو جگہوں کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں ،خاص کر حموی کی کتاب ''المشترک '' میں درج کرانا اور محققین کو حیرت و پریشانی سے دوچار کرنا۔

٣۔اشعار اور رزم ناموں سے ادبیات عرب کے خزانوں کو زینت دینا۔

٤۔ سرانجام ان تمام افسانوں کا ماحصل یہ ہے کہ عاصم بن عمرو تمیمی جیسے افسانوی سور ماکی شجاعتوں ،رجز خوانیوں اور خاندانی معاہدوں کی رعایت جیسے کارناموں کی اشاعت کرکے انھیں ہمیشہ کے لئے عام طور سے قبیلہ مضر اور خاص طور پر خاندان تمیم کے افتخارات میں شامل کیا جائے اور یہ باتیں امام المورخین محمد جریر طبری کی کتاب تاریخ میں درج ہوں تاکہ دوسرے مورخین کے لئے اس کے معتبر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔

۲۸۶

عاصم وخالد کے باہمی تعاون کا خاتمہ

طبری اس سلسلے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

''فراض ''کی جنگ کے بعد خالد بن ولید نے ارادہ کیا کہ سب سے چھپ کے خاموشی کے ساتھ حج کے لئے مکہ چلاجلائے ،تو اس نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ساتھ ''حیرة''جانے کا حکم دیا۔

اس کے علاوہ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں خالد بن ولید کے شام کی طرف روانگی کے سلسلے میں لکھتا ہے :

شام میں مشرکین سے جنگ میں مشغول مسلمانوں نے خلیفہ ابوبکر سے مدد کی در خواست کی۔ ابوبکر نے خالد کو ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام کی طرف روانہ ہوجائے ۔اس غرض سے وہ عراق میں موجود فوج میں سے آدھے حصے کو اپنے ساتھ لیتا ہے اور باقی حصے کو المثنی بن حارثہ شیبانی کی قیادت میں عراق میں ہی رکھتا ہے۔اس تقسیم میں خالد کسی ایسے پہلوان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب نہیں کرتا ،مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان مثنی کے لئے چھوڑ تاہے ۔

فوج کی اس تقسیم میں خالد ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کا اپنے لئے انتخاب کرتا ہے اور غیر اصحاب کو مثنی کے پاس چھوڑتا ہے ۔

مثنی نے اس تقسیم پر اعتراض کیا اور تقاضا کیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو خالد اپنے ساتھ لے جائے اور ایک حصہ کو مثنی کے پاس رکھے ۔ خالد،مثنی کی اس تجویز کو منظور کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے قعقاع بن عمرو تمیمی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرتا ہے اور دوسرے صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمرو تمیمی قعقاع کے بھائی کو مثنی کے پاس چھوڑ دیتا ہے ۔

۲۸۷

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ تھاان مطالب کا خلاصہ جنھیں سیف نے عاصم وخالد کے باہمی تعاون کے خاتمہ کے طور پر ذکر کیا تھا۔لیکن اس سلسلے میں دوسرے مورخین کے حسب ذیل نظریات سے سیف ابن عمر تمیمی کے افسانے کا پول کھل جاتاہے:

اس سلسلے میں ابن عساکر ،ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کرتا ہے:

جس وقت خالد بن ولید ''حیرة''میں تھا ،خلیفہ ابوبکر نے اسے ایک خط لکھا اور حکم دیا کہ اپنے بہادر اور کار آمد سپاہیوں کے ساتھ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ ہو جائے ۔اور اپنے باقی بے کار اور سست و کمزور سپاہیوں کو ان ہی میں سے ایک کی قیادت میں وہیں پر چھوڑ دے ۔

ابن عساکر نے ابو بکر کے خط کا متن یوں نقل کیا ہے :

''اما بعد ،عراق سے روانہ ہو جائو اور ان عراقیوں کو وہیں پر رکھو جو تمھارے وہاں پہنچنے پر وہیں موجود تھے اور اپنے طاقتور ساتھیوں جو یمامہ سے تمھارے ساتھ عراق آئے ہیں یا حجاز سے آکر تمھارے ساتھ ملحق ہوئے ہیں کے ساتھ

روانہ ہو جائو ....''

سند کی پڑتال :

سیف کی اس افسانوی داستان کے راوی محمد مہلب اور ظفر بن دہی ہیں کہ قعقاع کی افسانوی داستان میں مکرر ان کی اصلیت معلوم ہو چکی ہے ۔

اس کے علاوہ اس روایت کا ایک اور راوی طلحہ ہے ۔سیف کی روایت میں طلحہ کا نام دو راویوں میں مشترک ہے ،ان میں سے ایک اصلی راوی ہے ۔یہاں پر معلوم نہ ہو سکا کہ ان دو میں سے سیف کا مقصود کون سا طلحہ ہے ؟!

اس کے علاوہ ''قبیلہ بنی سعد سے ایک مرد'' کے عنوان سے بھی ایک راوی کا ذکر ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اس کانام کیا تصور کیا تھا تاکہ ہم اس کے بارے میں تحقیق کرتے ؟!

۲۸۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

سیف کہتا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ اپنی فوج میں سے ایک حصہ کو شام لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور اس انتخاب میں کسی ایسے پہلوان کو اپنے لئے انتخاب نہ کرے ، مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان المثنی کے لئے وہاں پر رکھے ۔خالد نے تمام اصحاب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کو اپنے لئے انتخاب کرنا چاہا ،لیکن مثنی نے اس پر اعتراض کیا اور اسے مجبور کیا کہ آدھے اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے لئے وہاں چھوڑے ۔

لیکن دوسرے مورخین کہتے ہیں کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ فوج میں سے قوی اور کار آمد سپاہیوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور بے کار اور سست افراد کو وہیں پر چھوڑ دے اس کے علاوہ اپنے افراد کو ان لوگوں میں انتخاب کرے جو اس کے ساتھ عراق آئے تھے ۔ یہ بات شام کے حالات اور جنگ کی پوزیشن اور رومیوں کے آزمودہ اور تجربہ کار فوجیوں سے جنگ کے پیش نظر مناسب نظر آتی ہے ۔

شاید ایسی داستان دجعل کرنے سے سیف کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعہ اپنے وطن عراق کے جنگجوئوں کی تجلیل کرے ،کیوں کہ اس افسانے کے ذریعہ وہ عراقی فوجیوں کے ایک حصہ کو اسلامی سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ کرتا ہے اور فتحیاب بھی ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرے نتائج بھی حاصل کرتا ہے ۔٣

اس داستان کا نتیجہ :

اس داستان کو جعل کرنے میں سیف کی نظر میں موجود تمام مقاصد کے علاوہ سیف اپنی روایت میں واضح طور پر یہ تاکید کرتا ہے کہ اس کے افسانوی سورما ئوں قعقاع اور عاصم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور یہ دونوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔اس طرح سیف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں قعقاع اور عاصم دو اصحاب کا اضافہ کرتا ہے ۔

۲۸۹

عاصم ،نمارق کی جنگ میں

هذا واکثرمن هذا من نتائج خیال سیف الحصب

یہ داستان اور ایسی دوسری بہت سی داستانیں ،سیف کے ذہن کی پیدا وار ہیں

(مولف)

جنگ نمارق کی داستان

طبری نے جنگ'' نمارق ''( ۱)کی داستان کو سیف سے حسب ذیل بیان کیا ہے :

مسلمانوں نے ایرانی فوجیوں سے ''نمارق '' کے مقام پر صلابت کے ساتھ مقابلہ کیا ،یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے دشمن کو شکست دے دی اور فراری دشمنوں کا ''کسکر '' تک پیچھا کیا گیا۔

طبری ''سقاطیۂ کسکر '' کے بارے میں لکھتا ہے :

____________________

الف )۔''نمارق ''کے بارے میں '' معجم البلدان ''میں یوں تشریح کی گئی ہے : یہ کوفہ کے نزدیک ایک جگہ ہے معلوم نہیں اس لفظ کو اس کی تشریخ کے ساتھ سیف کی احادیث سے لیا گیا ہے یا کہیں اور سے

۲۹۰

''کسکر کا علاقہ ایران کے پادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی جاگیر تھا اور وہ خود اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس علاقہ کی پیداوار میں علاقہ نرسیان کے خرمے تھے ۔یہ

خرمے بڑے مشہور تھے ۔یہ خرمے قیمتی اور کمیاب تھے کہ صرف بادشاہ کے دسترخوانوں کی زینت ہوتے تھے اور بادشاہ انھیں نوش کرتا تھا یا اپنے معزز و محترم مہمانوں کو بخشتا تھا۔

اس کے بعد کہتا ہے :

ابو عبیدہ نے اپنے بعض سپاہیوں کو حکم دیا کہ دشمن کے فراری سپاہیوں کا تعاقب کریں اور ''نمارق '' اور ''بارق'' و ''درتا'' کے درمیانی علاقوں کو ان کے وجود سے پاک کریں ...''

اس کے بعد مزید کہتا ہے :

عاصم بن عمرو، اس سلسلے میں یوں کہتا ہے :

'' اپنی جان کی قسم ،میری جان میرے لئے کم قیمت نہیں ہے ،اہل ''نمارق '' صبح سویرے ان لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہے جنھوں نے خداکی راہ میں سفر و مہاجرت کی صعوبتیں برداشت کی تھیں ۔انھوں نے انھیں سرزمین ''درتا'' اور بارق'' میں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہم نے ان کو ''بذارق '' کی راہ میں ''مرج مسلح '' اور ''ہوافی'' کے درمیان نابود کرکے رکھ دیا''!(۱)

وہ مزید کہتا ہے :

''ابو عبید ہ نے ایرانیوں کے ساتھ '' سقاطیۂ کسکر '' کے مقام پر جنگ کی ۔ایک سخت

____________________

۱)۔ ان اشعار کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ (٢٧٧) میں ذکر کیا ہے لیکن شاعر کا نام نہیں لیا ہے بلکہ صرف اتنا لکھا ہے کہ : ایک مسلمان نے یوں کہا ہے :

۲۹۱

اور خونیں جنگ واقع ہوئی سرانجام دشمن شکست کھاکر فرارہوا۔نرسی بھی بھاگ گیا۔اس کی جاگیر ،فوجی کیمپ اور مال و منال پر اسلامی فوج نے مال غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیا ۔کافی مال اور بہت مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں منجملہ نرسیان کے خرمے مسلمانوں کے ہاتھ آگئے اور انھیں اس علاقہ کے کسانوں میں تقسیم کیا گیا ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے عاصم بن عمرو کو حکم دیا کہ ''رود جور'' یا ''رودجوبر '' کے اطراف میں آباد علاقوں پر حملہ کرے ۔عاصم نے اس یورش میں مذکورہ علاقوں میں سے بعض کو ویران کیا اور بعض پر قبضہ کیا''

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے اسے اختصار کے ساتھ طبری سے نقل کیا ہے ۔

رنگارنگ کھانوں سے بھرا دسترخوان

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کے بعد درج ذیل داستان روایت کی ہے :

اس علاقے کے ایرانی امراء جن میں فرخ کا بیٹا بھی موجود تھا نے رنگ برنگ ایرانی کھانے آمادہ کرکے ابو عبیدہ اور عاصم بن عمر و کی خدمت میں الگ الگ پیش کئے ۔ابو عبیدہ نے اس گمان سے کہ عاصم ایسے کھانوں سے محروم ہوگا اس کے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اسے کھانے پر دعوت دی ۔عاصم نے ابوعبیدہ کی دعوت کے جواب میں درج ذیل اشعار کہے :

''ابو عبیدہ !اگر تیرے پاس کدو ،سبزی ،چوزے اور مرغ ہیں تو فرخ کے بیٹے کے پاس بھی بریانی ،ہری مرچ سبزی کے ساتھ تہ شدہ نازک چپاتیاں اور مرغی کے چوزے ہیں ''

عاصم نے مزید کہا:

'' ہم نے خاندان کسری ٰ کو '' بقایس '' میں ایسی صبح کی شراب پلائی جو عراق کے دیہات کی شرابوں میں سے نہیں تھی ہم نے انھیں جو شراب پلائی وہ ایسے جوانمرد دلاور جوانمرد تھے جو قوم عاد کے گھوڑوں کی نسل کے تیز طرار گھوڑوں پر سوار تھے !''

۲۹۲

معجم البلدان میں سیف کے گڑھے ہوئے الفاظ

چوں کہ اس روایت میں '' سقاطیہ کسکر ،'' نرسیان '' ،''مرج مسلح'' اور ''ہوافی '' جیسے مقامات کا نام آیا ہے ۔اس لئے یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب '' معجم البدان'' میں اس کی تشریخ کی ہے منجملہ وہ ''سقاطیہ '' کی تشریخ میں لکھتا ہے :

سقاطیہ ،سرزمین '' واسط'' میں ''کسکر ''کا ایک علاقہ ہے ۔یہاں پر ابوعبیدہ نے ایرانی سپاہوں کے کمانڈر نرسی سے جنگ کی اور اسے بری طرح شکست دی ہے ۔

نرسیان کی تشریح میں لکھتا ہے :

نرسیان ،عراق میں ''کوفہ '' اور ''واسط'' کے درمیان ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' میں آیا ہے ۔خدا بہتر جانتا ہے ،شاید اس کانام ناسی ہوگا ۔ عاصم بن عمرو نے اسے اس طرح یاد کیا ہے :

'' ہم نے '' کسکر '' میں صبح کے وقت نرسیان کے حامیوں سے مقابلہ کیا اور انھیں اپنی سفیداور چمکیلی تلواروں سے شکست دے دی ۔ہم جنگ کے دنوں تیز رفتار گھوڑے اور جوان اونٹوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے ،جنگ ہمیشہ حوادث کو جنم دیتی ہے ۔ہم نے '' نرسیان '' کی سرزمین کو اپنے قبضے میں لے لیا ،نرسیان کے خرمے ''دبا'' اور ''اصافر'' کے باشندوں کے لئے مباح کر دئے ''

وہ مسلح کی تشریح میں لکھتا ہے :

مرج مسلح ،عراق میں واقع ہے ۔اس کا نام عاصم نے فتوحات عراق سے مربوط اشعار میں ذکر کیاہے ۔ان اشعار میں مسلمانوں کی طرف سے ایرانیوں پر پڑی مصیبتوں اور زبردست مالی و جانی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ کہتا ہے :

'' مجھے اپنی جان کی قسم ! میری جان کم قیمت نہیں ہے ....'' اور اس کے باقی اشعار کو آخر تک ذکر کرتا ہے ۔

''ہوافی''کی تشریح میں لکھتا ہے :

ہوافی، کوفہ و بصرہ کے درمیان ایک جگہ ہے ۔اس کا ذکر عاصم بن عمرو کے اشعار میں آیا ہے ، جو عبیدہ ثقفی کی فوج میں ایک چابک سوار پہلوان تھا ۔وہ اس سلسلے میں کہتا ہے :

'' ہم نے ان کو ''مرج مسلح'' کے درمیان شکست دے دی''

حموی نے اپنی کتاب '' معجم البدان '' میں ان مقامات کے بارے میں صرف اس لئے کہ اسے سیف کی باتوں پر اعتبار اور بھروسہ تھا بیان کیا ہے ۔لیکن ان کے مصدر یعنی سیف کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

۲۹۳

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ اور اس کے علاوہ دیگر سب روایتیں سیف کی ذہنی پیدا وار اور اس کی افسانہ نگار ی کا نتیجہ ہیں جب کہ حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہے کیوں کہ دوسروں نے اس سلسلے میں سیف کے بر عکس کہا ہے ، جیسے بلاذری ابوعبیدہ کے عراق میں فتوحات کے بارے میں لکھتا ہے:

''ا یرانی فوج کے ایک گروہ نے علاقہ '' درتی' 'پر اجتماع کیا تھا ۔ابو عبیدہ نے اپنی فوج کے ساتھ وہاں پر حملہ کیا اور ایرانیوں کوبری طرح شکست دے کر ''کسکر ''تک پہنچا ۔ اس کے بعد ''جالینوس ''کی طرف بڑھا جو''باروسیما''میں تھا ۔اس علاقہ کے سر حد بان اندرز گرنے ابو عبیدہ سے صلح کی اور علاقہ کے باشندوں کے لئے فی نفر چار درہم جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہوا اور ابو عبیدہ نے اس کی یہ تجویز قبول کی ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے مثنی کو ''زند رود ''کے لئے مامور کیا ۔مثنی نے وہاں پر ایرانی سپاہیوں سے جنگ کی اور ان پر فتح پائی اور ان میں سے کچھ لوگوں کو اسیر بنایا ۔اس کے علاوہ عروة ابن زید خیل طائی کو ''زوابی ''کی طرف بھیجا ۔عروہ نے ''دہقان زوابی''سے ''بارو سیما''کے باشندوں کی مصالحت کی بناء پر صلح کی ....یہ وہ مطالب ہیں جو ابو عبیدہ اور مثنی کی فتوحات کے بارے میں جنگ پل سے پہلے بیان ہوئے ہیں ''۔

اس داستان کے نتا ئج :

جو کچھ ہم نے اس داستان میں مشاہدہ کیا،جیسے :بادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی سرزمین ''کسکر''پر مالکیت ،نرسیان اور وہاں کے مشہور خرمے ،جو بادشاہوں اور ان کے محترم افراد کے لئے مخصوص تھے،'' سقا طیہ کسکر''،''ھوافی ''اور ''مرج مسلح ''جیسے مقامات اور وہان کی شدید خونیں جنگیں ، عاصم اور اس کی جنگیں شجاعتیں اور رزم نامے ،فرخ کے بیٹے کا رنگ برنگ ایران کھانوں اور اس زمانے کے شراب سے بھرا دستر خوان ،خاندان تمیم کے نامور پہلوان کے ذریعہ ''جوبر''کے باشندوں کا قتل عام اور انھیں اسیر بنانا وغیرہ سب کے سب ایسے مطالب ہیں جوصرف دوسری صدی ہجری کے دروغ گو اور قصے گڑھنے والے سیف ابن عمر تمیمی کی افسانوی روایتوں میں پائے جاتے ہیں ۔اور یہ صرف سیف ہی ہے جس نے ان افسانوں کو عجیب و غریب ناموں کی تخلیق کرکے انھیں طبری جیسے تاریخ نویسوں کے سپرد کیا ہے ۔ ٤

۲۹۴

پل کی جنگ

'نمارق''کی جنگ کے خا تمے کے بعد ایک اور داستان نقل کرتا ہے جسے طبری نے اپنی تاریخ میں یوں درج کیا ہے :

(اس جنگ میں جسے ابو عبیدہ کی جنگ پل کہاجاتا ہے مسلمانوں کو زبر دست نقصانات اٹھا نے پڑے اور اس میں ابو عبیدہ بھی ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ماراگیا ۔سیف مسلما ن فوج کے دریائے دجلہ سے عبور کی کیفیت کی اس طرح روایت کرتا ہے :)

عاصم بن عمرو نے مثنی اور اس کی پیدل فوج کی معیت میں ان لوگوں کی حمایت کی جو دریائے دجلہ پر پل تعمیر کرنے میں مشغول تھے ۔اس طرح دریائے دجلہ پر پل تعمیر کیا گیا اور سپاہیوں نے اس پر سے عبور کیا ۔

خلیفہ بن خیاط نے یہی روایت سند کو حذف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کی ہے۔

لیکن دینوری لکھتا ہے:

مثنی نے عروة بن زید خیل طائی قحطانی یمانی کو حکم دیا کہ پل کے کنارے پر ٹھہرے اور اسلامی فوج اور ایرانی سپا ہیوں کے درمیان حا ئل بنے۔اس کے بعد حکم دیا کہ سپا ہی پل کو عبور کریں ،خود بھی لشکر کے پیچھے روانہ ہوا اور ان کی حمایت کی ۔سب سپاہی پل سے گزرگئے ۔

طبری نے الیس صغریٰ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے روایت کی ہے :

مثنی نے اپنی فوج میں سے عاصم ابن عمرو کا اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کیا اور خود ایک سوار فوجی دستے کی قیادت میں دشمن کی راہ میں گھات لگا کر حملے کرتاتھا اس طرح وہ ایرانی فوج کے حوصلے پست اور ان کے نظم کو درہم برہم کر رہا تھا ۔

اس کے علاوہ جنگ ''بویب ''کے بارے میں لکھتاہے :

مثنی نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ہر اول دستے کا کمانڈر معین کیا ۔اور جنگ کے بعد اسے اجازت دی کہ ایرانیوں کا تعاقب کرتے ہوئے حملے کرے ۔عاصم نے ان اچانک حملوں اور بے وقفہ یورشوں کے نتیجہ میں مدائن میں واقع ''ساباط''کے مقام تک پیش قدمی کی ۔

۲۹۵

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

جو کچھ ہم نے یہاں تک پل کی جنگ کے بارے میں بیان کیا ،یہ وہ مطالب ہیں جن کی سیف نے روایت کی ہے جب کہ دوسروں ،جیسے بلاذری نے پل کی جنگ کے بارے میں اپنی کتا ب ''فتوح البلدان ''میں مفصل تشریح کی ہے اور دینوری نے بھی اپنی کتا ب ''اخبار الطوال''میں مکمل طور پر اسے ثبت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک میں سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ٥

سند کی تحقیق :

سیف نے عاصم بن عمرو کی ابو عبیدہ اور مثنی کے ساتھ شرکت کے بارے میں محمد، طلحہ ،زیاد اور نضر کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے کہ پہلے ہم ان کے بارے میں عرض کرچکے ہیں کہ ان کا حقیقت میں کہیں وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب سیف کی ذہنی تخلیق کا نتیجہ ہیں ۔

اس کے علاوہ اس روایت کے راوی حمزة بن علی بن محفز اور ''قبیلہ بکربن وایل کا ایک مرد ''ہیں کہ ہم نے تاریخ و انساب کی کتا بوں میں ان راویوں کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔ان کا نام صرف سیف ابن عمرکی دو روایتوں میں پایا جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔اس بناء پر ہم نے حمزہ کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کیا ہے ۔

چونکہ سیف نے کہا ہے کہ خود حمزہ نے بھی ''قبیلہ بکر بن وایل کے ایک مرد ''سے داستان پل کی روایت کی ہے ،لہٰذا قارئیں کرام خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس غیر معمولی دروغ گو سیف نے ''اس مرد''کا اپنے خیال میں کیا نام رکھا ہوگا؟!

۲۹۶

موازنہ کا نتیجہ اور اس داستان کے نتائج:

حقیقت یہ ہے کہ مثنی نے عروة بن زیاد خیل طائی قحطانی یمانی کو ماموریت دی کہ اسلامی فوج کی کمانڈ سنبھا ل کر پل پار کرائے ۔

خاندانی تعصب رکھنے والے سیف بن عمر جیسے شخص کے لئے ایک یمانی و قحطانی فرد کی اس جاں نثاری اور شجاعت کا اعتراف نا قابل برداشت تھا ،اس لئے وہ مجبور ہوتا ہے کہ خاندان قحطانی کے اس شخص کی شجاعت و جاں نثاری کو سلب کرکے اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے ایک فرد کو بٹھادے ۔اس عہدے کے لئے اس کے افسانوی سور ما عاصم بن عمرو تمیمی سے شائستہ و مناسب تر اور کون ہو سکتا ہے ؟ اسی بناء پر سیف ایک تاریخی حقیقت کی تحریف کرتا ہے اور اسلامی فوج کے پل سے گزرتے وقت عروة قحطانی یمانی کی اس فوج کی حمایت وشجاعت کا اعزازی نشان اس سے چھین کر خاندان مضر کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو کو عطا کر دیتا ہے اور اس طرح پل سے عبور کرتے وقت اسلامی فوج کی حمایت کو عاصم بن عمرو کے نام پر درج کرتا ہے ۔سیف صرف اسی تحریف پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے اس افسانوی سورما کے لئے اس کے بعد بھی شجاعتیں اور کارنامے گڑھ لیتا ہے ،جیسے مثنی کی جانشینی اور سپہ سالاری کا عہدہ اور ہر اول دستے کی کمانڈ میں دشمنوں پر پے درپے حملے کرتے ہوئے مدائن کے نزدیک ''ساباط ''تک پیش قدمی کرنا وغیرہ...

۲۹۷

عاصم ،قادسیہ کی جنگ میں

واللّٰه معکم ان صبر تم و صدقتموهم الضرب والطعن

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے تو خدا تمھارے ساتھ ہے ۔

(افسانوی سورما ،عاصم)

''گائے کا دن ''،گائے گفتگو کرتی ہے!!

طبری ١٤ھ کے حوادث کے ضمن میں جنگ قادسیہ کے مقدمہ کے طور پر سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''مسلمانوں کا سپہ سالار،سعد وقاص جب ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں اپنی سپاہ کے سرداروں میں عہدے تقسیم کررہاتھا اور ہر ایک کو اس کی استعداد ،لیاقت و شائستگی کے مطابق کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ رہا تھا،تو عاصم بن عمرو تمیمی کو اسلامی فوج کے اساسی اور اہم دستہ کی کمانڈ سونپی۔

جب سعد قادسیہ کی سرزمین پر اترا تو اس نے عاصم کو فرات کے جنوبی علاقوں کی ماموریت دی اور عاصم نے ''میسان'' تک پیش قدمی کی۔

عاصم فوج کے لئے گوشت حاصل کرنے کی غرض سے گایوں اور بھیڑوں کی تلاش میں نکلتاہے ۔وہ ''میسان''میں بھی جستجو کرتا ہے ۔ادھر ادھر دوڑ نے اور تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہیں پاتا، کیوں کہ وہاں کے باشندوں نے عرب حملہ آور وں کے ڈر سے مویشیوں کو طویلوں اور کچھاروں میں چھپا رکھا تھا ۔بالآخر اس تلاش وجستجو کے دوران عاصم کی ایک شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے وہ اس سے گائے اور گوسفند کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔اتفاقا وہ شخص چرواہا تھا اور اس نے اپنے گلہ کو نزدیک ہی ایک کچھار میں چھپا رکھا تھا وہ شدید اور جھوٹی قسمیں کھا کر بولاکہ اسے مویشیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے !جب اس آدمی نے عاصم کے سامنے ایسی جھوٹی قسمیں کھائیں تو اچانک کچھار سے ایک گائے چیختے ہوئے بول اٹھی : خدا کی قسم یہ آدمی جھوٹ بولتا ہے ،ہم یہاں پر موجود ہیں '' عاصم کچھار میں گیا اور تمام مویشیوں کو ہانکتے ہوئے اپنے ساتھ کیمپ کی طرف لے آیا ۔ سعد وقاص نے انھیں فوج کے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ۔اس طرح اسلامی سپاہی چند دنوں کے لئے خوراک کے لحاظ سے مستغنی ہو گئے۔

۲۹۸

حجاج بن یوسف ثقفی نے کوفہ کی حکومت کے دوران ایک دن کسی سے عاصم بن عمرو سے گائے کی گفتگوکی داستان سنی ۔اس نے حکم دیا کہ اس داستان کے عینی شاہد اس کے پاس آکر شہادت دیں اور اس داستان کو بیان کریں ۔جب عینی شاہدحاکم کے دربار میں حاضرہوئے تو حجاج نے ان سے اس طرح سوالات کئے :

أگائے کے گفتگوکرنے کا معاملہ کیا ہے ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا : ہم نے اپنے کانوں سے گائے کی باتیں سنیں اور گائے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بالآخر ہم ہی تھے جو ان مویشیوں کو ہانکتے ہوئے کیمپ تک لے آئے ۔

أتم چھوٹ بولتے ہو!

٭انھوں نے جواب میں کہا: ہم جھوٹ نہیں بولتے ،لیکن موضوع اس قدر عجیب اور عظیم ہے کہ اگر آپ بھی ہماری جگہ پر ہوتے اور اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم سے بیان کرتے تو ہم بھی اس کو جھٹلاتے اور یقین نہیں کرتے !

أحجاج نے کہا : سچ کہتے ہو ،ایسا ہی ہے ...مجھے بتائو کہ لوگ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا: لوگ ،گائے کی گفتگو کو فتح و کامیابی کے لئے خدا کی آیات میں سے ایک نوید بخش آیت سمجھتے تھے جو دشمنوں پر ہماری فتح کے لئے خدا کی تائید و خوشنودی کی علامت ہے ۔

أحجاج نے کہا:خدا کی قسم !یہ اس کے بغیر ناممکن ہے کہ اس سپاہ کے تمام افراد نیک اور پرہیزگار ہوں ۔

٭کہا گیا: جی ہاں ہمیں تو ان کے دل کی خبر نہیں تھی لیکن جو ہم نے دیکھا وہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک ان جیسے لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنھوں نے اس قدر دنیا سے منہ موڑا ہو اور اسے دشمن جان کر نفرت کرتے ہوں !!

سیف اس داستان کے ضمن میں مزید کہتا ہے : یہ دن اتنا اہم اور قابل توجہ تھا کہ ''گائے کادن'' کے عنوان سے مشہور ہوا ۔

۲۹۹

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

اس روایت کو تمام تفصیلات کے ساتھ امام المورخین ابن جریر طبری ،سیف ابن عمرو تمیمی سے نقل کرتا ہے اور ابن اثیر بھی اسے طبری کی کتاب سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کرتا ہے ۔

لیکن دوسرے لوگ ،یعنی بلاذری اور دینوری لکھتے ہیں :

... جب اسلام کے سپاہی ،مویشیوں کے لئے چارے اور اپنے لئے غذا کی ضرورت پیدا کرتے تھے تو فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار مچاتے تھے...

بلاذری نے اس روایت کے ضمن میں لکھا ہے :

عمر بھی مدینہ سے ان کے لئے گائے اور گوسفند بھیجا کرتے تھے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے'' گائے کا دن '' کی داستان کے سلسلے میں عبداللہ بن مسلم عکلی اور کرب بن ابی کرب عکلی کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے ۔ہم نے ان دو کا نام سیف کے علاوہ راویوں کے کسی بھی مصدر اور ماخذ میں نہیں پایا۔

عاصم ،کسریٰ کے دربار میں

طبری ،سیف بن عمرو تمیمی سے روایت کرتا ہے :

''خلیفہ عمر ابن خطاب نے سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند سخن پرور ،فصیح اور قدر ت فیصلہ رکھنے والے افراد کو کسریٰ کے پاس بھیجے تاکہ اسے اسلام کی دعوت دیں ۔سعد نے اس کام کے لئے چند افراد پر مشتمل ایک گروہ کا انتخاب کیا کہ ان میں عاصم بن عمر و بھی شامل تھا ۔یہ لوگ کسریٰ کی خدمت میں پہنچے اور اس کے ساتھ گفتگو کی ۔کسریٰ نے غصہ میں آکر حکم دیا کہ تھوڑی سی مٹی لا کر اس گروہ کے سر پرست کے کندھوں پر رکھی جائے ۔اس کے بعد سوال کیا کہ ان کا سردار کون ہے ؟ انھوں نے کسریٰ کے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی ۔عاصم بن عمرو نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا : میں اس گروہ کا سردار ہوں ،مٹی کو میرے کندھوں پر بار کرو!

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416