ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215417 / ڈاؤنلوڈ: 4970
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

عاصم ،دومة الجندل کی جنگ میں

ترکنا هم صرعی لخیل تنوبهم تنافسهم فیها سباع المرجب

ہم نے دشمن کے سپاہیوں کا اس قدر قتل عام کیا کہ لاشیں گھوڑوں سے پامال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزرگاہ بن گئیں

(عاصم ،افسانوی سورما)

دو مة الجندل کی فتح

طبری نے ''دومة الجندل ''کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے حسب ذیل روایت کی ہے :

مختلف عرب قبیلوں نے جن میں ودیعہ کی سرپرستی میں قبیلہ کلب بھی موجود تھا اپنے تمام سپاہیوں کو ایک جگہ پر جمع کیا ۔اس منسجم فوج کی قیادت کی ذمہ داری اکید ر بن عبد الملک اور جودی بن ربیعہ نامی دو افراد نے سنبھالی ۔

اکیدر کا نظریہ تھا کہ خالد بن ولید سے صلح کرکے جنگ سے پرہیز کیا جائے جب اکیدر کی تجویز عوام کی طرف سے منظور نہیں ہوئی تو اس نے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔خالد بن ولید نے عاصم بن عمر و کو حکم دیا کہ اکیدر کو راستے سے پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے خالد کے حکم سے اکیدر کو قتل کیا گیا. اس کے بعد خالد بن ولید نے دومة الجندل پر حملہ کیا ۔

دوسری جانب مختلف عرب قبیلے ،جنھوں نے خالد سے جنگ کرنے کے لئے آپس میں اتحاد و معاہدہ کیا تھا ،قلعہ دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے ۔چوں کہ اس قلعہ میں ان تمام لوگوں کے لئے گنجائش نہیں تھی ،اس لئے ان میں سے بیشتر افراد قلعہ سے باہر مورچے سنبھالنے پر مجبور ہوئے۔ خالد بن ولید نے ان سے جنگ کی سر انجام اس نے ان پر فتح پائی جودی بھی مارا گیا ۔قبیلہ کلب کے علاوہ تمام افراد مارے گئے ۔کیوں کہ عاصم بن عمرو نے دشمن پر فتح پانے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ :اے قبیلہ تمیم کے لوگو!اپنے قدیمی ہم پیمان ساتھیوں کو اسیر کرکے انھیں پناہ دو کیوں کہ انھیں فائدہ پہنچانے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا ۔تمیمیوں نے ایسا ہی کیا ۔اس طرح قبیلہ کلب کے لوگ بچ گئے ۔ خالد بن ولید عاصم کے اس عمل سے ناخوش ہوا اور اس کی سرزنش کی ۔

۲۸۱

ان مطالب کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور اپنی روش کے مطابق عاصم بن عمر و کی زبانی کہے گئے سیف کے اشعار کو ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر نے اس داستان کے ایک حصہ کو اپنی تاریخ میں عاصم کے حالات سیف سے نقل کرتے ہوئے درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھا ہے:....اور عاصم نے دو مة الجندل کے بارے میں یوں کہا ہے :

''میں جنگوں میں کارزار کے انداز کو کنٹرول میں رکھتا ہوں ،دوستوں کی حمایت کرتاہوں ،انھیں تنہانہیں چھوڑتا ہوں ۔شام ہوتے ہی جب ودیعہ نے اپنے سپاہیوں کو مصیبتوں کے دریا میں ڈال دیا ،میں نے جب دومة الجندل میں دیکھا کہ وہ غم واندوہ میں ڈوبے خون جگر پی رہے ہیں تو میں نے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ،لیکن اپنے ہم پیمان ،کلب کے افراد کا خیال رکھ کر اپنے قبیلہ کے لئے ایک بڑی نعمت فراہم کی ''

یاقوت حموی نے بھی اس داستان کے ایک حصہ کو روضة السلہب اور دومة الجندل کے ناموں کی مناسبت سے اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کیا ہے اور اس کے ضمن میں لکھتا ہے :

''روضة السلہب عراق کے دومة الجندل میں واقع ہے ،اور عاصم بن عمرو نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں جن کے ضمن میں خالد بن ولید کی دومة الجندل کی جنگ کا اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

'' روضة السلہبکے دن دشمن خاک و خون میں غرق تھے ،وہ ہمارے دلوں کے لئے شفابخش منظر تھا کیوں کہ ان کے سردار کی ہوائے نفس نے انھیں فریب دیا تھا ۔اس دن ہم نے تلواروں کی ایک ضرب سے جودی کا کام تمام کیا اور اس کے سپاہیوں کو زہر قاتل پلا یا ۔انھیں قتل عام کیا ،ان کی لاشیں گھوڑوں سے پائمال ہوئیں اور درندوں کے لئے گزر گاہ بن گئیں ''

۲۸۲

سیف بن عمر اپنے افسانوی سورما ،عاصم بن عمرو کے زبانی بیان کردہ اشعار کے ضمن میں پہلے مذکورہ قبائل کی جنگ بیان کرتا ہے اور اس میں قبیلہ کلب کے پیشوا''ودیعہ''کی نا اہلی کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو ہلاکت و نابود ی اور مصیبت سے دوچار کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے اورثابت کرتاہے کہ عاصم نے قبیلہ کلب کے ساتھ اپنے قبیلہ کے عہد و پیمان کو فراموش نہیں کیا تھا ۔اور وہ اس معاہدہ پر اس کے خاندان کے لئے فضیلت وافتخار کا سبب باقی رہا ۔اس دن اس عہد نامہ کا پاس رکھتے ہوئے اس نے اپنے قبیلہ ادر قبیلہ کلب پر احسان کیا اور اس طرح اس نے قبیلہ کلب کے افراد کو یقینی مو ت سے نجات دی ہے ۔

عاصم کے اشعار کے دوسرے حصے میں تمام عرب قبیلوں کو شامل کیا گیا ہے اور ان میں ان کے احمقانہ اقدام کی وجہ سے بدترین انجام اور ان کے قائد جودی کی شکست کے بارے میں لکھا گیا ہے ۔

''لسان ''اور ''ملطاط''کی تشریح

حموی نے لفظ ''الملطاط ''کی حسب ذیل تشریح کی ہے :

عرب ،کوفہ کے مشرقی علاقے جو کوفہ کے پیچھے واقع ہے کو ''لسان''اور اس کے دریائے فرات کے قریب واقع مغربی علاقے کو ''ملطاط''کہتے ہیں ....عاصم بن عمرو تمیمی نے خالد بن ولید کے ساتھ کوفہ و بصرہ کے در میان سر زمینوں کو فتح کرکے ''حیرہ''کو اپنے قبضے میں لیتے وقت اس طرح کہا ہے :

''ہم نے سواری کے گھوڑوں اور تیز رفتار اونٹوں کو عراق کے وسیع آبادی والے علاقوں کی طرف روانہ کیا ۔ان حیوانوں نے اس دن تک ہم جیسے چابک سوار کبھی نہیں دیکھے تھے اور کسی نے اس دن تک ان جیسے بلند قامت حیوان بھی نہیں دیکھے تھے۔''

ہم نے فرات کے کنارے ''ملطاط''کو اپنے ان سپاہیوں سے بھردیا جو کبھی فرار نہیں کرتے۔ ہم نے ''ملطاط ''میں فصل کاٹنے کے موسم تک توقف کیا ۔اس کے بعد ہم ''انبار''کی طرف بڑھے ،جہاں پر ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے دشمن کے جنگجو بڑی تعداد میں موجود تھے ۔''بحیرہ''میں جمع ہوئے سپاہیوں کے ساتھ ہماری سخت اور شدید جنگ ہوئی۔

۲۸۳

جب ہم سیف کی معروف روایات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ابیات اسی شرح کے ساتھ من وعن اس کی روایتوں میں ذکر ہوئے ہیں ۔مثلا لفظ '' ملطاط''سیف کی چار روایتوں میں طبری کی کتاب ''تاریخ طبری ''میں ذکر ہوا ہو،من جملہ ٧١ ھمیں سعد بن وقاص کے ذریعہ کوفہ کے حدود کو معین کرتے ہوئے طبری لکھتا ہے :

عربوں کے امراء اور معروف شخصیتوں نے سعد وقاص کی توجہ ''لسان''نامی کوفہ کے پیچھے واقع علاقہ کی طرف مبذول کرائی

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

وہ حصہ جو دریائے فرات کے نزدیک ہے ،اسے ''ملطاط ''کہا جاتا ہے ۔اب رہے اس سے مربوط اشعار تو ہم ان سب کو تاریخ ابن عساکر میں عاصم بن عمرو کی تشریح میں پاتے ہیں ،جہاں پر لکھتا ہے :

سیف بن عمرو کہتا ہے :...اور عاصم بن عمرو اور اس کے علاقہ ''سواد''میں داخل ہونے (کوفہ اور بصرہ و موصل کے در میان کے رہائشی علاقہ )اور وہاں پر ان کے ٹھہرنے کی مدت اور پیش آئے مراحل کو ان اشعار میں بیان کرتا ہے :...اس کے بعد اشعار کو آخر تک درج کرتا ہے ۔

داستان کے متن کی چانچ:

''دومة الجندل'' کی فتح کے بارے میں یہ سیف کی روایتیں ہیں ،جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے تفصیل کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔طبری کے بعدابن اثیر نے ان ہی روایتوں کو اختصار کے طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا ہے اور اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔ لیکن ابن کثیر نے اس داستان کی روایتوں کی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اور اس کے مصدر کو معین کئے بغیر ،پوری داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیا ہے ۔

حموی نے ''دومة ''و ''حیرہ ''کی تشریح میں سیف کے بعض اشعار اور روایا ت کا ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا ہے کہ ان مطالب کو اس نے کہاں سے نقل کیا ہے ۔

۲۸۴

اصل بات یہ ہے کہ عراق میں ''دومة الجندل ''نام کی کوئی جگہ تھی ہی نہیں ،بلکہ ''دومة الجندل ''مدینہ سے دمشق جاتے ہوئے ساتویں پڑائو پر شام میں ایک قلعہ تھا۔اور عراق میں ''دوما'' یا ''دومہ''کے نام پر ایک جگہ تھی ،جسے ''دومة الحریر ''بھی کہتے تھے۔وہاں پر واقع ہونے والی جنگ میں ''اکیدر ''مارا گیاہے۔اس کے بعد خالد نے شام کی طرف رخت سفر باندھا اور ''دومة الجندل ''پر حملہ کیااور اسے فتح کرنے کے بعد جن افراد کو اسیر کیا ان میں جودی غسانی کی بیٹی لیلیٰ بھی تھی۔

لیکن ''ربیعہ''و''روضة سلھب ''نام کی ان دو جگہوں کو ہم نے کسی کتاب میں نہیں پایا اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ سیف نے ان مقامات کے ناموں کاذکر کرنے میں ہرگز غفلت،فراموشی اور غلط فہمی سے کام نہیں لیا ہے کہ شام میں واقع ''دومة الجندل''اور عراق میں ''دومة الجندل ''میں کوئی فرق نہ کرپائے اورایک کو دوسرے کی جگہ تصور کرلے ۔بلکہ سیف سے دروغ بافی ،افسانہ نگاری ،اشخاص اورمقامات کے تخلیق کرنے کا جو ہم گزشتہ تجربہ رکھتے ہیں ،اس کے پیش نظر اس نے عراق کے لئے بھی عمدا ''دومة الجندل''نام کی ایک جگہ تخلیق کی ہے اوراس کے لئے ایک علیٰحدہ اور مخصوص میدان کارزار تخلیق کیا ہے تا کہ محققین کے اذہان کو بیشتر گمراہ کرے اور تاریخ اسلام کو مضحمل ، سست و بے اعتبا ر بنائے ۔

سند کی پڑتا ل :

سیف نے ''دومة الجندل''کی داستان کے راوی کے طور پر محمد نویرہ، ابوسفیان طلحہ بن عبد الرحمان اور مھلب کا ذکر کیا ہے ۔ہم نے قعقاع سے مربوط افسانوی داستانوں میں ان کو راویوں کی حیثیت سے مکرر دیکھا ہے اور معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں افراد سیف کے ذہن کی تخیلق ہیں اور حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ۔

''ملطاط'' سے متعلق روایت میں نضر بن سری ،ابن الرفیل اور زیاد کو راویوں کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ ان کے بارے میں بھی قعقاع کی داستانوں میں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

۲۸۵

تحقیق کا نتیجہ :

سیف اپنے افسانوں میں مختلف مناطق ،خاص کر تاریخی اہمیت کے خطّوں کے سلسلے میں ، ''دومة ''جیسے ہم نام مقامات کی تخلیق کرکے محققین کو حیرت اور تعجب میں ڈالتا ہے ۔اس کے با وجود طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق کے ''دومة الجندل''کی جنگ کے افسانوں کی روایت کرتا ہے اور اپنی روش کے مطابق صرف عاصم کے رزم ناموں کو حذف کرتا ہے ۔

ابن عساکر بھی ان اشعار کے ایک حصہ کی روایت کرتاہے اور اس کی سندکی سند کے طور پر سیف ابن عمرتمیمی کا نام لیتا ہے ۔اس کے ایک حصہ کو حموی بھی سند کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔اسی طرح حموی ''ملطاط ''کی بھی تشریح کرتا ہے اور عاصم ابن عمرو کے اشعار کو شاہد کے طور پر درج کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں اپنی روایت کی سند کا نام نہیں لیتا ،جب کہ ''ملطاط''کے بارے میں اسی تشریح کو ہم اول سے آخر تک تاریخ طبری میں سیف سے نقل شدہ دیکھتے ہیں ،اور عاصم کے اشعار کو بھی ابن عساکر کی روایت کے مطابق ،سیف بن عمرسے منقول تاریخ ابن عساکر میں مشاہدہ کرتے ہیں ۔٢

اس داستان کے نتائج:

١۔خالد مضری کے لئے عراق میں جنگوں اور فتوحات کی تخلیق کرکے عام طور پر اس کی تحسین اور بڑائی کا اظہار کرانا ۔

٢۔ایک دوسرے سے دور دوعلاقوں عراق اور شام میں ایک ہی نام کی دو جگہوں کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں ،خاص کر حموی کی کتاب ''المشترک '' میں درج کرانا اور محققین کو حیرت و پریشانی سے دوچار کرنا۔

٣۔اشعار اور رزم ناموں سے ادبیات عرب کے خزانوں کو زینت دینا۔

٤۔ سرانجام ان تمام افسانوں کا ماحصل یہ ہے کہ عاصم بن عمرو تمیمی جیسے افسانوی سور ماکی شجاعتوں ،رجز خوانیوں اور خاندانی معاہدوں کی رعایت جیسے کارناموں کی اشاعت کرکے انھیں ہمیشہ کے لئے عام طور سے قبیلہ مضر اور خاص طور پر خاندان تمیم کے افتخارات میں شامل کیا جائے اور یہ باتیں امام المورخین محمد جریر طبری کی کتاب تاریخ میں درج ہوں تاکہ دوسرے مورخین کے لئے اس کے معتبر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رہے۔

۲۸۶

عاصم وخالد کے باہمی تعاون کا خاتمہ

طبری اس سلسلے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

''فراض ''کی جنگ کے بعد خالد بن ولید نے ارادہ کیا کہ سب سے چھپ کے خاموشی کے ساتھ حج کے لئے مکہ چلاجلائے ،تو اس نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ساتھ ''حیرة''جانے کا حکم دیا۔

اس کے علاوہ طبری ١٣ ھ کے حوادث کے ضمن میں خالد بن ولید کے شام کی طرف روانگی کے سلسلے میں لکھتا ہے :

شام میں مشرکین سے جنگ میں مشغول مسلمانوں نے خلیفہ ابوبکر سے مدد کی در خواست کی۔ ابوبکر نے خالد کو ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام کی طرف روانہ ہوجائے ۔اس غرض سے وہ عراق میں موجود فوج میں سے آدھے حصے کو اپنے ساتھ لیتا ہے اور باقی حصے کو المثنی بن حارثہ شیبانی کی قیادت میں عراق میں ہی رکھتا ہے۔اس تقسیم میں خالد کسی ایسے پہلوان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب نہیں کرتا ،مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان مثنی کے لئے چھوڑ تاہے ۔

فوج کی اس تقسیم میں خالد ،رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کا اپنے لئے انتخاب کرتا ہے اور غیر اصحاب کو مثنی کے پاس چھوڑتا ہے ۔

مثنی نے اس تقسیم پر اعتراض کیا اور تقاضا کیا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے کو خالد اپنے ساتھ لے جائے اور ایک حصہ کو مثنی کے پاس رکھے ۔ خالد،مثنی کی اس تجویز کو منظور کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے قعقاع بن عمرو تمیمی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرتا ہے اور دوسرے صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمرو تمیمی قعقاع کے بھائی کو مثنی کے پاس چھوڑ دیتا ہے ۔

۲۸۷

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ تھاان مطالب کا خلاصہ جنھیں سیف نے عاصم وخالد کے باہمی تعاون کے خاتمہ کے طور پر ذکر کیا تھا۔لیکن اس سلسلے میں دوسرے مورخین کے حسب ذیل نظریات سے سیف ابن عمر تمیمی کے افسانے کا پول کھل جاتاہے:

اس سلسلے میں ابن عساکر ،ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کرتا ہے:

جس وقت خالد بن ولید ''حیرة''میں تھا ،خلیفہ ابوبکر نے اسے ایک خط لکھا اور حکم دیا کہ اپنے بہادر اور کار آمد سپاہیوں کے ساتھ اسلامی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ ہو جائے ۔اور اپنے باقی بے کار اور سست و کمزور سپاہیوں کو ان ہی میں سے ایک کی قیادت میں وہیں پر چھوڑ دے ۔

ابن عساکر نے ابو بکر کے خط کا متن یوں نقل کیا ہے :

''اما بعد ،عراق سے روانہ ہو جائو اور ان عراقیوں کو وہیں پر رکھو جو تمھارے وہاں پہنچنے پر وہیں موجود تھے اور اپنے طاقتور ساتھیوں جو یمامہ سے تمھارے ساتھ عراق آئے ہیں یا حجاز سے آکر تمھارے ساتھ ملحق ہوئے ہیں کے ساتھ

روانہ ہو جائو ....''

سند کی پڑتال :

سیف کی اس افسانوی داستان کے راوی محمد مہلب اور ظفر بن دہی ہیں کہ قعقاع کی افسانوی داستان میں مکرر ان کی اصلیت معلوم ہو چکی ہے ۔

اس کے علاوہ اس روایت کا ایک اور راوی طلحہ ہے ۔سیف کی روایت میں طلحہ کا نام دو راویوں میں مشترک ہے ،ان میں سے ایک اصلی راوی ہے ۔یہاں پر معلوم نہ ہو سکا کہ ان دو میں سے سیف کا مقصود کون سا طلحہ ہے ؟!

اس کے علاوہ ''قبیلہ بنی سعد سے ایک مرد'' کے عنوان سے بھی ایک راوی کا ذکر ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اس کانام کیا تصور کیا تھا تاکہ ہم اس کے بارے میں تحقیق کرتے ؟!

۲۸۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

سیف کہتا ہے کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ اپنی فوج میں سے ایک حصہ کو شام لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور اس انتخاب میں کسی ایسے پہلوان کو اپنے لئے انتخاب نہ کرے ، مگر یہ کہ اس کے برابر کا ایک پہلوان المثنی کے لئے وہاں پر رکھے ۔خالد نے تمام اصحاب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کو اپنے لئے انتخاب کرنا چاہا ،لیکن مثنی نے اس پر اعتراض کیا اور اسے مجبور کیا کہ آدھے اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے لئے وہاں چھوڑے ۔

لیکن دوسرے مورخین کہتے ہیں کہ خلیفہ ابوبکر نے خالد بن ولید کو حکم دیا کہ فوج میں سے قوی اور کار آمد سپاہیوں کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے انتخاب کرے اور بے کار اور سست افراد کو وہیں پر چھوڑ دے اس کے علاوہ اپنے افراد کو ان لوگوں میں انتخاب کرے جو اس کے ساتھ عراق آئے تھے ۔ یہ بات شام کے حالات اور جنگ کی پوزیشن اور رومیوں کے آزمودہ اور تجربہ کار فوجیوں سے جنگ کے پیش نظر مناسب نظر آتی ہے ۔

شاید ایسی داستان دجعل کرنے سے سیف کا مقصد یہ ہو کہ اس کے ذریعہ اپنے وطن عراق کے جنگجوئوں کی تجلیل کرے ،کیوں کہ اس افسانے کے ذریعہ وہ عراقی فوجیوں کے ایک حصہ کو اسلامی سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں کی فوج کی مدد کے لئے شام روانہ کرتا ہے اور فتحیاب بھی ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرے نتائج بھی حاصل کرتا ہے ۔٣

اس داستان کا نتیجہ :

اس داستان کو جعل کرنے میں سیف کی نظر میں موجود تمام مقاصد کے علاوہ سیف اپنی روایت میں واضح طور پر یہ تاکید کرتا ہے کہ اس کے افسانوی سورما ئوں قعقاع اور عاصم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور یہ دونوں اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ۔اس طرح سیف پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں قعقاع اور عاصم دو اصحاب کا اضافہ کرتا ہے ۔

۲۸۹

عاصم ،نمارق کی جنگ میں

هذا واکثرمن هذا من نتائج خیال سیف الحصب

یہ داستان اور ایسی دوسری بہت سی داستانیں ،سیف کے ذہن کی پیدا وار ہیں

(مولف)

جنگ نمارق کی داستان

طبری نے جنگ'' نمارق ''( ۱)کی داستان کو سیف سے حسب ذیل بیان کیا ہے :

مسلمانوں نے ایرانی فوجیوں سے ''نمارق '' کے مقام پر صلابت کے ساتھ مقابلہ کیا ،یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے دشمن کو شکست دے دی اور فراری دشمنوں کا ''کسکر '' تک پیچھا کیا گیا۔

طبری ''سقاطیۂ کسکر '' کے بارے میں لکھتا ہے :

____________________

الف )۔''نمارق ''کے بارے میں '' معجم البلدان ''میں یوں تشریح کی گئی ہے : یہ کوفہ کے نزدیک ایک جگہ ہے معلوم نہیں اس لفظ کو اس کی تشریخ کے ساتھ سیف کی احادیث سے لیا گیا ہے یا کہیں اور سے

۲۹۰

''کسکر کا علاقہ ایران کے پادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی جاگیر تھا اور وہ خود اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس علاقہ کی پیداوار میں علاقہ نرسیان کے خرمے تھے ۔یہ

خرمے بڑے مشہور تھے ۔یہ خرمے قیمتی اور کمیاب تھے کہ صرف بادشاہ کے دسترخوانوں کی زینت ہوتے تھے اور بادشاہ انھیں نوش کرتا تھا یا اپنے معزز و محترم مہمانوں کو بخشتا تھا۔

اس کے بعد کہتا ہے :

ابو عبیدہ نے اپنے بعض سپاہیوں کو حکم دیا کہ دشمن کے فراری سپاہیوں کا تعاقب کریں اور ''نمارق '' اور ''بارق'' و ''درتا'' کے درمیانی علاقوں کو ان کے وجود سے پاک کریں ...''

اس کے بعد مزید کہتا ہے :

عاصم بن عمرو، اس سلسلے میں یوں کہتا ہے :

'' اپنی جان کی قسم ،میری جان میرے لئے کم قیمت نہیں ہے ،اہل ''نمارق '' صبح سویرے ان لوگوں کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہے جنھوں نے خداکی راہ میں سفر و مہاجرت کی صعوبتیں برداشت کی تھیں ۔انھوں نے انھیں سرزمین ''درتا'' اور بارق'' میں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہم نے ان کو ''بذارق '' کی راہ میں ''مرج مسلح '' اور ''ہوافی'' کے درمیان نابود کرکے رکھ دیا''!(۱)

وہ مزید کہتا ہے :

''ابو عبید ہ نے ایرانیوں کے ساتھ '' سقاطیۂ کسکر '' کے مقام پر جنگ کی ۔ایک سخت

____________________

۱)۔ ان اشعار کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ (٢٧٧) میں ذکر کیا ہے لیکن شاعر کا نام نہیں لیا ہے بلکہ صرف اتنا لکھا ہے کہ : ایک مسلمان نے یوں کہا ہے :

۲۹۱

اور خونیں جنگ واقع ہوئی سرانجام دشمن شکست کھاکر فرارہوا۔نرسی بھی بھاگ گیا۔اس کی جاگیر ،فوجی کیمپ اور مال و منال پر اسلامی فوج نے مال غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیا ۔کافی مال اور بہت مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں منجملہ نرسیان کے خرمے مسلمانوں کے ہاتھ آگئے اور انھیں اس علاقہ کے کسانوں میں تقسیم کیا گیا ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے عاصم بن عمرو کو حکم دیا کہ ''رود جور'' یا ''رودجوبر '' کے اطراف میں آباد علاقوں پر حملہ کرے ۔عاصم نے اس یورش میں مذکورہ علاقوں میں سے بعض کو ویران کیا اور بعض پر قبضہ کیا''

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور ابن اثیر نے اسے اختصار کے ساتھ طبری سے نقل کیا ہے ۔

رنگارنگ کھانوں سے بھرا دسترخوان

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کے بعد درج ذیل داستان روایت کی ہے :

اس علاقے کے ایرانی امراء جن میں فرخ کا بیٹا بھی موجود تھا نے رنگ برنگ ایرانی کھانے آمادہ کرکے ابو عبیدہ اور عاصم بن عمر و کی خدمت میں الگ الگ پیش کئے ۔ابو عبیدہ نے اس گمان سے کہ عاصم ایسے کھانوں سے محروم ہوگا اس کے تمام ساتھیوں کے ہمراہ اسے کھانے پر دعوت دی ۔عاصم نے ابوعبیدہ کی دعوت کے جواب میں درج ذیل اشعار کہے :

''ابو عبیدہ !اگر تیرے پاس کدو ،سبزی ،چوزے اور مرغ ہیں تو فرخ کے بیٹے کے پاس بھی بریانی ،ہری مرچ سبزی کے ساتھ تہ شدہ نازک چپاتیاں اور مرغی کے چوزے ہیں ''

عاصم نے مزید کہا:

'' ہم نے خاندان کسری ٰ کو '' بقایس '' میں ایسی صبح کی شراب پلائی جو عراق کے دیہات کی شرابوں میں سے نہیں تھی ہم نے انھیں جو شراب پلائی وہ ایسے جوانمرد دلاور جوانمرد تھے جو قوم عاد کے گھوڑوں کی نسل کے تیز طرار گھوڑوں پر سوار تھے !''

۲۹۲

معجم البلدان میں سیف کے گڑھے ہوئے الفاظ

چوں کہ اس روایت میں '' سقاطیہ کسکر ،'' نرسیان '' ،''مرج مسلح'' اور ''ہوافی '' جیسے مقامات کا نام آیا ہے ۔اس لئے یاقوت حموی نے سیف کی باتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب '' معجم البدان'' میں اس کی تشریخ کی ہے منجملہ وہ ''سقاطیہ '' کی تشریخ میں لکھتا ہے :

سقاطیہ ،سرزمین '' واسط'' میں ''کسکر ''کا ایک علاقہ ہے ۔یہاں پر ابوعبیدہ نے ایرانی سپاہوں کے کمانڈر نرسی سے جنگ کی اور اسے بری طرح شکست دی ہے ۔

نرسیان کی تشریح میں لکھتا ہے :

نرسیان ،عراق میں ''کوفہ '' اور ''واسط'' کے درمیان ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' میں آیا ہے ۔خدا بہتر جانتا ہے ،شاید اس کانام ناسی ہوگا ۔ عاصم بن عمرو نے اسے اس طرح یاد کیا ہے :

'' ہم نے '' کسکر '' میں صبح کے وقت نرسیان کے حامیوں سے مقابلہ کیا اور انھیں اپنی سفیداور چمکیلی تلواروں سے شکست دے دی ۔ہم جنگ کے دنوں تیز رفتار گھوڑے اور جوان اونٹوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے ،جنگ ہمیشہ حوادث کو جنم دیتی ہے ۔ہم نے '' نرسیان '' کی سرزمین کو اپنے قبضے میں لے لیا ،نرسیان کے خرمے ''دبا'' اور ''اصافر'' کے باشندوں کے لئے مباح کر دئے ''

وہ مسلح کی تشریح میں لکھتا ہے :

مرج مسلح ،عراق میں واقع ہے ۔اس کا نام عاصم نے فتوحات عراق سے مربوط اشعار میں ذکر کیاہے ۔ان اشعار میں مسلمانوں کی طرف سے ایرانیوں پر پڑی مصیبتوں اور زبردست مالی و جانی نقصان کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں وہ کہتا ہے :

'' مجھے اپنی جان کی قسم ! میری جان کم قیمت نہیں ہے ....'' اور اس کے باقی اشعار کو آخر تک ذکر کرتا ہے ۔

''ہوافی''کی تشریح میں لکھتا ہے :

ہوافی، کوفہ و بصرہ کے درمیان ایک جگہ ہے ۔اس کا ذکر عاصم بن عمرو کے اشعار میں آیا ہے ، جو عبیدہ ثقفی کی فوج میں ایک چابک سوار پہلوان تھا ۔وہ اس سلسلے میں کہتا ہے :

'' ہم نے ان کو ''مرج مسلح'' کے درمیان شکست دے دی''

حموی نے اپنی کتاب '' معجم البدان '' میں ان مقامات کے بارے میں صرف اس لئے کہ اسے سیف کی باتوں پر اعتبار اور بھروسہ تھا بیان کیا ہے ۔لیکن ان کے مصدر یعنی سیف کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

۲۹۳

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

یہ اور اس کے علاوہ دیگر سب روایتیں سیف کی ذہنی پیدا وار اور اس کی افسانہ نگار ی کا نتیجہ ہیں جب کہ حقیقت ان کے علاوہ کچھ اور ہے کیوں کہ دوسروں نے اس سلسلے میں سیف کے بر عکس کہا ہے ، جیسے بلاذری ابوعبیدہ کے عراق میں فتوحات کے بارے میں لکھتا ہے:

''ا یرانی فوج کے ایک گروہ نے علاقہ '' درتی' 'پر اجتماع کیا تھا ۔ابو عبیدہ نے اپنی فوج کے ساتھ وہاں پر حملہ کیا اور ایرانیوں کوبری طرح شکست دے کر ''کسکر ''تک پہنچا ۔ اس کے بعد ''جالینوس ''کی طرف بڑھا جو''باروسیما''میں تھا ۔اس علاقہ کے سر حد بان اندرز گرنے ابو عبیدہ سے صلح کی اور علاقہ کے باشندوں کے لئے فی نفر چار درہم جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہوا اور ابو عبیدہ نے اس کی یہ تجویز قبول کی ۔اس کے بعد ابو عبیدہ نے مثنی کو ''زند رود ''کے لئے مامور کیا ۔مثنی نے وہاں پر ایرانی سپاہیوں سے جنگ کی اور ان پر فتح پائی اور ان میں سے کچھ لوگوں کو اسیر بنایا ۔اس کے علاوہ عروة ابن زید خیل طائی کو ''زوابی ''کی طرف بھیجا ۔عروہ نے ''دہقان زوابی''سے ''بارو سیما''کے باشندوں کی مصالحت کی بناء پر صلح کی ....یہ وہ مطالب ہیں جو ابو عبیدہ اور مثنی کی فتوحات کے بارے میں جنگ پل سے پہلے بیان ہوئے ہیں ''۔

اس داستان کے نتا ئج :

جو کچھ ہم نے اس داستان میں مشاہدہ کیا،جیسے :بادشاہ کے ماموں زاد بھائی نرسی کی سرزمین ''کسکر''پر مالکیت ،نرسیان اور وہاں کے مشہور خرمے ،جو بادشاہوں اور ان کے محترم افراد کے لئے مخصوص تھے،'' سقا طیہ کسکر''،''ھوافی ''اور ''مرج مسلح ''جیسے مقامات اور وہان کی شدید خونیں جنگیں ، عاصم اور اس کی جنگیں شجاعتیں اور رزم نامے ،فرخ کے بیٹے کا رنگ برنگ ایران کھانوں اور اس زمانے کے شراب سے بھرا دستر خوان ،خاندان تمیم کے نامور پہلوان کے ذریعہ ''جوبر''کے باشندوں کا قتل عام اور انھیں اسیر بنانا وغیرہ سب کے سب ایسے مطالب ہیں جوصرف دوسری صدی ہجری کے دروغ گو اور قصے گڑھنے والے سیف ابن عمر تمیمی کی افسانوی روایتوں میں پائے جاتے ہیں ۔اور یہ صرف سیف ہی ہے جس نے ان افسانوں کو عجیب و غریب ناموں کی تخلیق کرکے انھیں طبری جیسے تاریخ نویسوں کے سپرد کیا ہے ۔ ٤

۲۹۴

پل کی جنگ

'نمارق''کی جنگ کے خا تمے کے بعد ایک اور داستان نقل کرتا ہے جسے طبری نے اپنی تاریخ میں یوں درج کیا ہے :

(اس جنگ میں جسے ابو عبیدہ کی جنگ پل کہاجاتا ہے مسلمانوں کو زبر دست نقصانات اٹھا نے پڑے اور اس میں ابو عبیدہ بھی ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ماراگیا ۔سیف مسلما ن فوج کے دریائے دجلہ سے عبور کی کیفیت کی اس طرح روایت کرتا ہے :)

عاصم بن عمرو نے مثنی اور اس کی پیدل فوج کی معیت میں ان لوگوں کی حمایت کی جو دریائے دجلہ پر پل تعمیر کرنے میں مشغول تھے ۔اس طرح دریائے دجلہ پر پل تعمیر کیا گیا اور سپاہیوں نے اس پر سے عبور کیا ۔

خلیفہ بن خیاط نے یہی روایت سند کو حذف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں درج کی ہے۔

لیکن دینوری لکھتا ہے:

مثنی نے عروة بن زید خیل طائی قحطانی یمانی کو حکم دیا کہ پل کے کنارے پر ٹھہرے اور اسلامی فوج اور ایرانی سپا ہیوں کے درمیان حا ئل بنے۔اس کے بعد حکم دیا کہ سپا ہی پل کو عبور کریں ،خود بھی لشکر کے پیچھے روانہ ہوا اور ان کی حمایت کی ۔سب سپاہی پل سے گزرگئے ۔

طبری نے الیس صغریٰ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے روایت کی ہے :

مثنی نے اپنی فوج میں سے عاصم ابن عمرو کا اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کیا اور خود ایک سوار فوجی دستے کی قیادت میں دشمن کی راہ میں گھات لگا کر حملے کرتاتھا اس طرح وہ ایرانی فوج کے حوصلے پست اور ان کے نظم کو درہم برہم کر رہا تھا ۔

اس کے علاوہ جنگ ''بویب ''کے بارے میں لکھتاہے :

مثنی نے عاصم بن عمرو کو اسلامی فوج کے ہر اول دستے کا کمانڈر معین کیا ۔اور جنگ کے بعد اسے اجازت دی کہ ایرانیوں کا تعاقب کرتے ہوئے حملے کرے ۔عاصم نے ان اچانک حملوں اور بے وقفہ یورشوں کے نتیجہ میں مدائن میں واقع ''ساباط''کے مقام تک پیش قدمی کی ۔

۲۹۵

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ :

جو کچھ ہم نے یہاں تک پل کی جنگ کے بارے میں بیان کیا ،یہ وہ مطالب ہیں جن کی سیف نے روایت کی ہے جب کہ دوسروں ،جیسے بلاذری نے پل کی جنگ کے بارے میں اپنی کتا ب ''فتوح البلدان ''میں مفصل تشریح کی ہے اور دینوری نے بھی اپنی کتا ب ''اخبار الطوال''میں مکمل طور پر اسے ثبت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک میں سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔ ٥

سند کی تحقیق :

سیف نے عاصم بن عمرو کی ابو عبیدہ اور مثنی کے ساتھ شرکت کے بارے میں محمد، طلحہ ،زیاد اور نضر کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے کہ پہلے ہم ان کے بارے میں عرض کرچکے ہیں کہ ان کا حقیقت میں کہیں وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب سیف کی ذہنی تخلیق کا نتیجہ ہیں ۔

اس کے علاوہ اس روایت کے راوی حمزة بن علی بن محفز اور ''قبیلہ بکربن وایل کا ایک مرد ''ہیں کہ ہم نے تاریخ و انساب کی کتا بوں میں ان راویوں کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔ان کا نام صرف سیف ابن عمرکی دو روایتوں میں پایا جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔اس بناء پر ہم نے حمزہ کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کیا ہے ۔

چونکہ سیف نے کہا ہے کہ خود حمزہ نے بھی ''قبیلہ بکر بن وایل کے ایک مرد ''سے داستان پل کی روایت کی ہے ،لہٰذا قارئیں کرام خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس غیر معمولی دروغ گو سیف نے ''اس مرد''کا اپنے خیال میں کیا نام رکھا ہوگا؟!

۲۹۶

موازنہ کا نتیجہ اور اس داستان کے نتائج:

حقیقت یہ ہے کہ مثنی نے عروة بن زیاد خیل طائی قحطانی یمانی کو ماموریت دی کہ اسلامی فوج کی کمانڈ سنبھا ل کر پل پار کرائے ۔

خاندانی تعصب رکھنے والے سیف بن عمر جیسے شخص کے لئے ایک یمانی و قحطانی فرد کی اس جاں نثاری اور شجاعت کا اعتراف نا قابل برداشت تھا ،اس لئے وہ مجبور ہوتا ہے کہ خاندان قحطانی کے اس شخص کی شجاعت و جاں نثاری کو سلب کرکے اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے ایک فرد کو بٹھادے ۔اس عہدے کے لئے اس کے افسانوی سور ما عاصم بن عمرو تمیمی سے شائستہ و مناسب تر اور کون ہو سکتا ہے ؟ اسی بناء پر سیف ایک تاریخی حقیقت کی تحریف کرتا ہے اور اسلامی فوج کے پل سے گزرتے وقت عروة قحطانی یمانی کی اس فوج کی حمایت وشجاعت کا اعزازی نشان اس سے چھین کر خاندان مضر کے افسانوی سورما عاصم بن عمرو کو عطا کر دیتا ہے اور اس طرح پل سے عبور کرتے وقت اسلامی فوج کی حمایت کو عاصم بن عمرو کے نام پر درج کرتا ہے ۔سیف صرف اسی تحریف پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنے اس افسانوی سورما کے لئے اس کے بعد بھی شجاعتیں اور کارنامے گڑھ لیتا ہے ،جیسے مثنی کی جانشینی اور سپہ سالاری کا عہدہ اور ہر اول دستے کی کمانڈ میں دشمنوں پر پے درپے حملے کرتے ہوئے مدائن کے نزدیک ''ساباط ''تک پیش قدمی کرنا وغیرہ...

۲۹۷

عاصم ،قادسیہ کی جنگ میں

واللّٰه معکم ان صبر تم و صدقتموهم الضرب والطعن

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے تو خدا تمھارے ساتھ ہے ۔

(افسانوی سورما ،عاصم)

''گائے کا دن ''،گائے گفتگو کرتی ہے!!

طبری ١٤ھ کے حوادث کے ضمن میں جنگ قادسیہ کے مقدمہ کے طور پر سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:

''مسلمانوں کا سپہ سالار،سعد وقاص جب ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں اپنی سپاہ کے سرداروں میں عہدے تقسیم کررہاتھا اور ہر ایک کو اس کی استعداد ،لیاقت و شائستگی کے مطابق کوئی نہ کوئی عہدہ سونپ رہا تھا،تو عاصم بن عمرو تمیمی کو اسلامی فوج کے اساسی اور اہم دستہ کی کمانڈ سونپی۔

جب سعد قادسیہ کی سرزمین پر اترا تو اس نے عاصم کو فرات کے جنوبی علاقوں کی ماموریت دی اور عاصم نے ''میسان'' تک پیش قدمی کی۔

عاصم فوج کے لئے گوشت حاصل کرنے کی غرض سے گایوں اور بھیڑوں کی تلاش میں نکلتاہے ۔وہ ''میسان''میں بھی جستجو کرتا ہے ۔ادھر ادھر دوڑ نے اور تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہیں پاتا، کیوں کہ وہاں کے باشندوں نے عرب حملہ آور وں کے ڈر سے مویشیوں کو طویلوں اور کچھاروں میں چھپا رکھا تھا ۔بالآخر اس تلاش وجستجو کے دوران عاصم کی ایک شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے وہ اس سے گائے اور گوسفند کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔اتفاقا وہ شخص چرواہا تھا اور اس نے اپنے گلہ کو نزدیک ہی ایک کچھار میں چھپا رکھا تھا وہ شدید اور جھوٹی قسمیں کھا کر بولاکہ اسے مویشیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے !جب اس آدمی نے عاصم کے سامنے ایسی جھوٹی قسمیں کھائیں تو اچانک کچھار سے ایک گائے چیختے ہوئے بول اٹھی : خدا کی قسم یہ آدمی جھوٹ بولتا ہے ،ہم یہاں پر موجود ہیں '' عاصم کچھار میں گیا اور تمام مویشیوں کو ہانکتے ہوئے اپنے ساتھ کیمپ کی طرف لے آیا ۔ سعد وقاص نے انھیں فوج کے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا ۔اس طرح اسلامی سپاہی چند دنوں کے لئے خوراک کے لحاظ سے مستغنی ہو گئے۔

۲۹۸

حجاج بن یوسف ثقفی نے کوفہ کی حکومت کے دوران ایک دن کسی سے عاصم بن عمرو سے گائے کی گفتگوکی داستان سنی ۔اس نے حکم دیا کہ اس داستان کے عینی شاہد اس کے پاس آکر شہادت دیں اور اس داستان کو بیان کریں ۔جب عینی شاہدحاکم کے دربار میں حاضرہوئے تو حجاج نے ان سے اس طرح سوالات کئے :

أگائے کے گفتگوکرنے کا معاملہ کیا ہے ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا : ہم نے اپنے کانوں سے گائے کی باتیں سنیں اور گائے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بالآخر ہم ہی تھے جو ان مویشیوں کو ہانکتے ہوئے کیمپ تک لے آئے ۔

أتم چھوٹ بولتے ہو!

٭انھوں نے جواب میں کہا: ہم جھوٹ نہیں بولتے ،لیکن موضوع اس قدر عجیب اور عظیم ہے کہ اگر آپ بھی ہماری جگہ پر ہوتے اور اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ہم سے بیان کرتے تو ہم بھی اس کو جھٹلاتے اور یقین نہیں کرتے !

أحجاج نے کہا : سچ کہتے ہو ،ایسا ہی ہے ...مجھے بتائو کہ لوگ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں ؟

٭انھوں نے جواب میں کہا: لوگ ،گائے کی گفتگو کو فتح و کامیابی کے لئے خدا کی آیات میں سے ایک نوید بخش آیت سمجھتے تھے جو دشمنوں پر ہماری فتح کے لئے خدا کی تائید و خوشنودی کی علامت ہے ۔

أحجاج نے کہا:خدا کی قسم !یہ اس کے بغیر ناممکن ہے کہ اس سپاہ کے تمام افراد نیک اور پرہیزگار ہوں ۔

٭کہا گیا: جی ہاں ہمیں تو ان کے دل کی خبر نہیں تھی لیکن جو ہم نے دیکھا وہ یہ ہے کہ ہم نے اب تک ان جیسے لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنھوں نے اس قدر دنیا سے منہ موڑا ہو اور اسے دشمن جان کر نفرت کرتے ہوں !!

سیف اس داستان کے ضمن میں مزید کہتا ہے : یہ دن اتنا اہم اور قابل توجہ تھا کہ ''گائے کادن'' کے عنوان سے مشہور ہوا ۔

۲۹۹

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

اس روایت کو تمام تفصیلات کے ساتھ امام المورخین ابن جریر طبری ،سیف ابن عمرو تمیمی سے نقل کرتا ہے اور ابن اثیر بھی اسے طبری کی کتاب سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کرتا ہے ۔

لیکن دوسرے لوگ ،یعنی بلاذری اور دینوری لکھتے ہیں :

... جب اسلام کے سپاہی ،مویشیوں کے لئے چارے اور اپنے لئے غذا کی ضرورت پیدا کرتے تھے تو فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار مچاتے تھے...

بلاذری نے اس روایت کے ضمن میں لکھا ہے :

عمر بھی مدینہ سے ان کے لئے گائے اور گوسفند بھیجا کرتے تھے ۔

سند کی تحقیق :

سیف نے'' گائے کا دن '' کی داستان کے سلسلے میں عبداللہ بن مسلم عکلی اور کرب بن ابی کرب عکلی کو راویوں کے طور پر پیش کیا ہے ۔ہم نے ان دو کا نام سیف کے علاوہ راویوں کے کسی بھی مصدر اور ماخذ میں نہیں پایا۔

عاصم ،کسریٰ کے دربار میں

طبری ،سیف بن عمرو تمیمی سے روایت کرتا ہے :

''خلیفہ عمر ابن خطاب نے سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند سخن پرور ،فصیح اور قدر ت فیصلہ رکھنے والے افراد کو کسریٰ کے پاس بھیجے تاکہ اسے اسلام کی دعوت دیں ۔سعد نے اس کام کے لئے چند افراد پر مشتمل ایک گروہ کا انتخاب کیا کہ ان میں عاصم بن عمر و بھی شامل تھا ۔یہ لوگ کسریٰ کی خدمت میں پہنچے اور اس کے ساتھ گفتگو کی ۔کسریٰ نے غصہ میں آکر حکم دیا کہ تھوڑی سی مٹی لا کر اس گروہ کے سر پرست کے کندھوں پر رکھی جائے ۔اس کے بعد سوال کیا کہ ان کا سردار کون ہے ؟ انھوں نے کسریٰ کے سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کی ۔عاصم بن عمرو نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا : میں اس گروہ کا سردار ہوں ،مٹی کو میرے کندھوں پر بار کرو!

۳۰۰

کسریٰ نے دوسرے افراد سے سوال کیا : کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ؟

انھوں نے جواب میں کہا: ہاں :

اس کے بعد عاصم نے مٹی کو اپنے کندھوں پر رکھ کر کسریٰ کے محل کو ترک کیا اور فورا ًاپنے گھوڑے کے پاس پہنچ کر مٹی کو گھوڑے پر رکھ کر دیگر افراد سے پہلے تیز ی کے ساتھ اپنے آپ کو سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا دیا ۔اور دشمن پر کامیابی پانے کی نوید دیتے ہوئے کہا: خدا کی قسم ،بیشک خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی کنجی ہمیں عنایت کردی ۔جب عاصم کے اس عمل اور بات کی اطلاع ایرانی فوج کے سپہ سالاررستم کو ملی تو رستم نے اسے بدشگونی سے تعبیر کیا ۔

یہاں پر یعقوبی نے سیف کی بات کو حق سمجھ کر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔

لیکن اس سلسلے میں بلاذری لکھتا ہے :

عمر نے ایک خط کے ذریعہ سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند افراد کو کسریٰ کی خدمت میں مدائن بھیجے تاکہ وہ اسے اسلام کی دعوت دیں ،سعد نے خلیفہ عمر کے حکم پر عمل کرتے ہوئے عمروابن معدی کرب اور اشعث بن قیس کندی کہ دونوں قحطانی یمانی تھے کو ایک گروہ کے ہمراہ مدائن بھیجا ۔ جب یہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے کیمپ کے نزدیک سے گزررہے تھے تو ایرانی محافظوں نے انھیں اپنے کمانڈر انچیف رستم کی خدمت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ۔رستم نے ان سے پوچھا : کہاں جا رہے تھے اور تمھارا ارادہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : کسریٰ کی خدمت میں مدائن جا رہے تھے

بلازری لکھتا ہے :

ان کے اور رستم کے درمیان کافی گفتگو ہوئی ۔اس حد تک کہ انھوں نے کہا :

پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں نوید دی ہے کہ تمھاری سرزمین کو ہم اپنے قبضے میں لے لیں گے رستم نے جب ان سے یہ بات سنی تو حکم دیا کہ مٹی سے بھری ایک زنبیل لائی جائے ۔اس کے بعد ان سے مخاطب ہو کر کہا:یہ ہمارے وطن کی مٹی ہے تم لوگ اسے لے جائو ۔رستم کی یہ بات سننے کے بعد عمرو بن معدی کرب فورا ًاٹھا اپنی رد ا پھیلا دی اور مٹی کو اس میں سمیٹ کر اپنے کندھوں پر لئے ہوئے وہاں سے چلا ۔اس کے ساتھیوں نے اس سے سوال کیا کہ کس چیز نے تمھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ اس نے جواب میں کہا : رستم نے جوعمل انجام دیا ہے اس سے میرے دل نے گواہی دی کہ ہم ان کی سر زمین پر قبضہ کر لیں گے اور اس کا م میں کامیاب ہوں گے ۔

۳۰۱

سند کی تحقیق :

اس داستان کی سند میں دو راویوں کے نام اس طرح آئے ہیں '' عن بنت کیسان الضبیة عن بعض سبا یا القاد سیہ ممن حسن اسلامہ ''(۱) یعنی کیسان ضبیی کی بیٹی سے اس نے جنگ قادسیہ کے ایک ایرانی اسیر سے روایت کی ہے ۔جس نے اسلام قبول کیا ۔

اب ہم سیف سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیسان کی بیٹی کا کیا نام تھا؟ خود کیسان کون تھا؟ ایک ایرانی اسیر کا اس کے خیال میں کیا نام ہے ؟ تاکہ ہم راویوں کی کتاب میں ان کو ڈھونڈ نکالتے !!

تحقیق کا نتیجہ اور داستان کا ماحصل:

سعد وقاص ،عمرو ابن معدی کرب اور اشعث بن قیس قندی کہ دونوں قحطانی یمانی

تھے و چند افراد کے ہمراہ ایلچی کے طور پر کسریٰ کے پاس بھیجا ہے کہ ان لوگوں کی راستے میں ایرانی فوج کے کمانڈرانچیف رستم فرخ زاد سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ،ان کے اور رستم کے درمیان گفتگو ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں عمرو ایران کی سرزمین کی مٹی بھری ایک زنبیل لے کر واپس ہوتا ہے ۔سیف بن عمرتمیمی خاندانی تعصب کی بنا پر یہ پسند نہیں کرتا کہ اس قسم کی مسئولیت خاندان قحطانی یمانی کا کوئی فرد انجام دے جس سے سیف عداوت و دشمنی رکھتا ہے ۔اس لئے اس کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگتاہے اورحسب سابق حقائق میں تحریف کرتا ہے ۔اس طرح قبیلہ مضرکے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو ان دو افراد کی جگہ پر رکھ کر اس گروہ کے ساتھ دربار کسریٰ میں بھیجتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے

____________________

الف )۔ تاریخ طبری طبع یورپ (٢٢٣٨١ ٢٢٤٥)

۳۰۲

کہ اس کے اور کسریٰ کے درمیان گفتگو ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں کسریٰ کے ہاں سے مٹی اٹھا کر لانا عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے دشمن پر فتحیابی کا فال نیک ثابت ہو تاہے ۔

سیف خاندانی تعصب کی بناء پر ایک تاریخی حقیقت میں تحریف کرکے عمرو بن معدی کرب جیسے یمانی و قحطانی فرد کی ماموریت ،جرأت اور شجاعت کو قلم زد کردیتا ہے اور اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو رکھ دیتا ہے ۔ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف رستم فرخ زاد کے پاس منعقد ہونے والی مجلس و گفتگو کو کسریٰ کے دربار میں لے جاکر رستم کے حکم کو کسریٰ کے حکم میں تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح کے افسانے جعل کرکے محققین کو حیرت اور تشویش سے دو چار کرتا ہے

عاصم کی تقریر

طبری نے قادسیہ کی جنگ کے آغاز میں سیف سے یوں نقل کیا ہے:

اسلامی فوج کے کمانڈرانچیف سعد وقاص نے اپنی فوج میں ایک گروہ کو حکم دیا کہ نہر ین کے آبادی والے علاقوں پر حملہ کریں ۔اس گروہ کے افراد نے حکم کی تعمیل کی اور اچانک حملہ کرکے اپنے کیمپ سے بہت دور جا پہنچے ۔اس حالت میں ایک ایرانی فوج کے سوار دستہ سے دو چار ہوئے اور یہ محسوس کیا کہ اب نابودی یقینی ہے ۔جوں ہی یہ خبر سعد وقاص کو ملی تواس نے فوراً عاصم بن عمرو تمیمی کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا ۔ایرانیوں نے جوں ہی عاصم کو دیکھا تو ڈر کے مارے سب فرار کر گئے !! جب عاصم اسلامی سپاہ کے پاس پہنچا تو اس نے حسب ذیل تقریر کی :

'' خدائے تعالیٰ نے یہ سرزمین اور اس کے رہنے والے تمھیں عطا کئے ہیں ، تین سال سے تم اس پر قابض ہو اور ان کی طرف سے کسی قسم کا صدمہ پہنچے بغیر ان پر حکمرانی اور برتری کے مالک ہو''

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا شیوہ بنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے اور اچھی طرح تلوار چلائوگے اور خوب نیزہ اندازی کروگے تو خدا ئے تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے ،اس صورت میں ان کا مال و منال ، عورتیں ، اولاد اور ان کی سر زمین سب تمھارے قبضہ میں ہوگی ۔

۳۰۳

لیکن اگر خدا نخواستہ کسی قسم کی کوتاہی اور سستی دکھائو گے تو دشمن تم پر غالب آجائے گا اور اس ڈر سے کہ کہیں تم لوگ دو بارہ منظم ہوکر ان پر حملہ کرکے ان کو نیست و نابود نہ کر دو ،انتہائی کوشش کرکے تم میں سے ایک آدمی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ۔

اس بنا پر خدا کو مد نظر رکھو ،اپنے گزشتہ افتخارات کو یاد رکھو اور خدا کی عنایتوں کو ہر گز نہ بھولو ۔ اپنی نابودی اور شکست کے لئے دشمن کو کسی صورت میں بھی فرصت نہ دو ۔کیا تم اس خشک و بنجر سرزمین کو نہیں دیکھ رہے ہو ۔نہ یہاں پر کوئی آبادی ہے اور نہ پناہگاہ کہ شکست کھانے کی صورت میں تمھارا تحفظ کر سکے ؟ لہٰذا ابھی سے اپنی کوشش کو آخرت اور دوسری دنیا کے لئے جاری رکھو ۔

ایک اور تقریر

طبری سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

سعد وقاص نے دشمن سے نبرد آزمائی کے لئے چند عقلمند اور شجاع افراد کا انتخاب کیا جن میں عاصم بن عمرو بھی شامل تھا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:

''اے عرب جماعت !تم لوگ قوم کی معروف اور اہم شخصیتیں ہو جو ایران کی معروف اور اہم شخصیتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے منتخب کئے گئے ہو ،تم لوگ بہشت کے عاشق ہو جب کہ وہ دنیا کی ہو او ہوس اور زیبائیوں کی تمناّ رکھتے ہیں ۔ اس مقصد کے پیش نظر ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے دنیوی مقاصد میں تمھارے اخروی مقاصد کے مقابلے میں بیشتر تعلق خاطر رکھتے ہوں !تو اس صورت میں ان کی دنیا تمھاری آخرت سے زیادہ زیبا و آباد ہوگی ۔''

لہٰذا آج ایسا کام نہ کرناجو کل عربوں کے لئے ننگ و شرمندگی کا سبب بنے !

جب جنگ شروع ہوئی تو عاصم بن عمرو تمیمی حسب ذیل رجز خوانی کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف حملہ آور ہوا ۔

سونے کی مانند زرد گردن والا میرا سفید فام محبوب اس چاندی کے جیسا ہے جس کا غلاف سونے کا ہو ۔وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ایک ایسامرد ہوں جس کا تنہا عیب دشنامی ہے ۔اے میرے دشمن !یہ جان لو کہ ملامت سننا مجھے تم پر حملہ کے لئے بھڑکاتاہے ۔''

۳۰۴

اس کے بعد ایک ایرانی مرد پر حملہ آور ہوا، وہ مرد بھاگ گیا ،عاصم نے اس کا پیچھا کیا ، حتی وہ مرد اپنے سپاہیوں میں گھس گیا اور عاصم کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔عاصم اس کا تعاقب کرتے ہوئے دشمن کے سپاہیوں کے ہجوم میں داخل ہوا اور اس کا پیچھا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اس کی ایک ایسے سوارسے مڈبھیڑ ہو ئی جو ایک خچر کی لگام پکڑکر اسے اپنے پیچھے کھینچ رہا تھا سوار نے جب عاصم کو دیکھا تو خچر کی لگام چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو سپاہیوں کے اندر چھپا دیا انھوں نے بھی اسے پناہ دے دی عاصم خچر کو بار کے سمیت اپنی سپاہ کی طرف لے چلا اس خچر پر لدا ہو ابار ، ایرانی کمانڈرانچیف کے لئے انواع و اقسام کے کھانے ، جیسے حلوا ،شہد اور شربت وغیرہ تھے معلوم ہوا کہ وہ آدمی کمانڈر انچیف کا خانساماں تھا ۔

عاصم نے کھانوں کو سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا اور خود اپنی جگہ لوٹا ۔ سعد وقاص نے انھیں دیکھ کر حکم دیا کہ تمام مٹھائیوں کو عاصم کے افراد میں تقسیم کر دیا جائے اور انھیں پیغام بھیجا کہ یہ تمھارے سردار نے تمھارے لئے بھیجا ہے،تمھیں مبارک ہو!

۳۰۵

ارماث کادن

سیف کی روایت کے مطابق : عاصم کی تقریر کے بعد قادسیہ کی جنگ شروع ہو گئی یہ جنگ تین دن تک جاری رہی اور ہر دن کے لئے ایک خاص نام رکھا گیا ،اس کے پہلے دن کا نام '' ارماث'' تھا۔(۱)

طبری نے سیف سے روایت کرکے ارماث کے دن کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اس دن ایرانی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی فوج پر حملے کر رہے تھے اور جنگ کے شعلے قبیلہ اسد کے مرکز میں بھڑک اٹھے تھے ،خاص کر ایران کے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کی سوار فوج کا شیرازہ بالکل بکھر چکا تھا ۔سعد وقاص نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے عاصم بن عمرو کو پیغام بھیجا کہ : کیا تم تمیمی خاندان کے افراد اتنے تیز رفتار گھوڑوں اور تجربہ کار اور کارآمد اونٹوں کے باوجود دشمن کے جنگی ہاتھیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے ؟ قبیلہ تمیم کے لوگوں نے اور ان کے آگے آگے اس قبیلہ کے جنگجو پہلوان اور شجاع عاصم بن عمرو نے سعد کے پیغام کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا: جی ہاں !خد اکی قسم ہم یہ کان انجام دے سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کا م کے لئے کھڑے ہوگئے

عاصم نے قبیلہ تمیم میں سے تجربہ کار اور ماہر تیر انداز وں اور نیزہ بازوں کے ایک گروہ کا انتخاب کیا اور جنگی ہاتھیوں سے جنگ کرنے کی حکمت عملی کے بارے میں یوں تشریح کی :

تیر اندا ز قبیلہ تمیم کے نیزہ بازوں کی مدد کریں ،ہاتھی بان اور ہاتھیوں پر تیروں کی بوچھار کریں گے اور نیزہ باز جنگی ہاتھیوں پرپیچھے سے حملہ کریں گے اور ہاتھیوں کی پیٹیاں کاٹ کر ان کی پیٹھ پر موجود کجاوے الٹ کر گرا دیں ،عاصم نے خود دونوں فوجی دستوں کی قیادت سنبھالی ۔

____________________

الف )۔ قعقاع کی داستان میں ان تین دنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

۳۰۶

قبیلہ اسد کے مرکز میں جنگ کے شعلے بدستور بھڑک رہے تھے ۔میمنہ اور میسرہ کی کوئی تمییز نہیں کر سکتا تھا ۔عاصم کے جنگجو ئوں نے دشمن کے ہاتھیوں کی طرف ایک شدید حملہ کیا ۔اس طرح ایک خونین جنگ چھڑ گئی عاصم کے افراد ہاتھیوں کی دموں او ر محمل کے غلاف کی جھالروں سے آویزاں ہو کر ان پر حملے کر رہے تھے اور بڑی تیزی سے ان کی پیٹیاں کاٹ رہے تھے اور دوسری طرف سے تیر انداز اور نیزہ باز بھی ہاتھی بانوں پر جان لیوا حملے کر رہے تھے اس دن (ارماث کے دن) دشمن کے ہاتھیوں میں سے نہ کوئی ہاتھی زندہ بچا او ر نہ ہاتھی سوار اور کوئی محمل بھی باقی نہ بچی ۔خاندان تمیم کے تجربہ کار تیر اندازوں کی تیر اندازی سے دشمن کے تمام ہاتھی اور ہاتھی سوار بھی نابود ہوئے اور اس طرح جنگی ہاتھیوں کے اس محاذ پر دشمن کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی وقت دشمن کے جنگی ہاتھی غیر مسلح ہوئے اور خاندان اسد میں جنگ کے شعلے بھی قدر ے بجھ گئے ۔سوار فوجی اس گرماگرم میدان جنگ سے واپس آرہے تھے ۔اس دن عاصم لشکر اسلام کا پشت پناہ تھا۔

قادسیہ کی جنگ کے اس پہلے دن کا نام ''ارماث'' رکھا گیا ہے ۔اسی داستان کے ضمن میں سیف کہتا ہے :

جب سعد وقاص کی بیوی سلمیٰ جو پہلے مثنی کی بیوی تھی نے ایرانی فوج کے حملے اور ان کی شان وشوکت کا قبیلہ اسد کے مرکز میں مشاہدہ کیا تو فریاد بلند کرکے کہنے لگی:کہاں ہو اے مثنی ! ان سواروں میں مثنی موجود نہیں ہے ،اس لئے اس طرح تہس نہس ہورہے ہیں ،اگر ان میں مثنی ہوتا تو دشمن کو نیست ونابود کرکے رکھ دیتا!

سعد ،بیمار اور صاحب فراش تھا،اپنی بیوی کی ان باتوں سے مشتعل ہوا اور سلمیٰ کو ایک زور دار تھپڑ مار کے تند آواز میں بولا : مثنی کہاں اور یہ دلیر چابک کہاں !جو بہادری کے ساتھ میدان جنگ کو ادارہ کر رہے ہیں ۔سعد کا مقصود خاندان اسد ،عاصم بن عمرو اور خاندان تمیم کے افراد تھے ۔

۳۰۷

یہ وہ مطالب تھے جنھیں طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے روز '' ارماث'' اور اس دن کے واقعات کے تحت درج کیا ہے ۔

حموی لفظ ''ارماث'' کی تشریح میں قمطراز ہے :

گویا ''ارماث'' لفظ ''رمث'' کی جمع ہے ۔یہ ایک بیابانی سبزی کا نام ہے ۔

بہر حال ''ارماث'' جنگ قادسیہ کے دنوں میں سے پہلا دن ہے۔ عاصم بن عمرو اس کے بارے میں اس طرح شعر کہتا ہے :

'' ہم نے ''ارماث '' کے دن اپنے گروہ کی حمایت کی اور ایک گروہ نے اپنی نیک کارکردگی کی بناء پر دوسرے گروہ پر سبقت حاصل کی ''

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنھیں سیف نے ''ارماث'' کے دن کی جنگ اور عاصم کی شجاعت کے بارے میں ذکر کیاہے ۔دوسرے دن کو روز ''اغواث'' کا نام رکھا گیا ہے ۔

روز ''اغواث''

روز ''اغواث''کے بارے میں طبری نے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس دن خلیفہ عمر بن خطاب کی طرف سے ایک قاصد ،چار تلوار یں اور چار گھوڑے لے کر جنگ قادسیہ کے کمانڈرانچیف سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا کہ وہ انھیں بہترین جنگجوئوں اور مجاہدوں میں تحفے کے طور پر تقسیم کرے ۔سعد نے ان میں سے تین تلوار یں قبیلہ اسد کے دلاوروں میں تقسیم کیں اور چوتھی تلوار عاصم بن عمرو تمیمی کو تحفے کے طور پر دی اور تین گھوڑے خاندان تمیم کے پہلوانوں میں تقسیم کئے اور چوتھا گھوڑا بنی اسد کے ایک سپاہی کو دیا ۔اس طرح عمر کے تحفے صرف اسد اور تمیم کے دو قبیلوں میں تقسیم کئے گئے ۔

۳۰۸

روز'' عماس''

جنگ قادسیہ کا تیسرا دن ''عماس'' ہے۔

طبری '' عماس'' کے دن کے جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے یوں بیان کرتا ہے :

قعقاع نے روز '' عماس'' کی شام کو اپنے سپاہیوں کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے بچاکر مخفی طور سے اسی جگہ لے جاکر جمع کیا ،جہاں پر روز ''اغواث''کی صبح کو اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے میدان جنگ میں آنے کا حکم دیا تھا ۔فرق صرف یہ تھا کہ اب کی بار حکم دیا کہ پو پھٹتے ہی سو ،سو افراد کی ٹولیوں میں سپاہی میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ اسلام کے سپاہی مدد پہنچنے کے خیال سے ہمت پیدا کر سکیں او ر دشمن پر فتح پانے کی امید بڑھ جائے ،قعقاع کے بھائی عاصم نے بھی اپنے سواروں کے ہمراہ یہی کام انجام دیا اور ان دو تمیمی بھائیوں کی جنگی چال کے سبب اسلام کے سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔

سیف کہتا ہے : ''عماس'' کے دن دشمن کے جنگی ہاتھیوں نے ایک بار پھر اسلامی فوج کی منظم صفوں میں بھگدڑ مچا کر '' ارماث'' کے دن کی طرح اسلامی فوج کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیا ۔سعد نے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کا مشاہدہ کیا ،تو خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو بھائیوں قعقاع و عاصم ابن عمرو کو پیغام بھیجا اور ان سے کہا کہ سر گروہ اور پیش قدم سفید ہاتھی کا کام تمام کرکے اسلام کے سپاہیوں کو ان کے شر سے نجات دلائیں ۔کیوں کہ باقی ہاتھی اس سفید ہاتھی کی پیروی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔

قعقاع اور عاصم نے دشمن کے جنگی ہاتھیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا انھوں نے دو محکم اور نرم نیزے اٹھالئے اور پیدل اور سوار فوجوں کے بیچوں بیچ سفید ہاتھی کی طرف دوڑ ے اور اپنے سپاہیوں کو بھی حکم دیا کہ چاروں طرف سے اس ہاتھی پر حملہ کرکے اسے پریشان کریں جب وہ اس ہاتھی کے بالکل نزدیک پہنچے تو اچانک حملہ کیا اور دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ اپنے نیزے سفید ہاتھی کی آنکھوں میں بھونک دئے ۔ہاتھی نے درد کے مارے تڑپتے ہوئے اپنے سوار کو زمین پر گرا دیا اور زور سے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے اپنی سونڈ اوپر اٹھا ئی اور ایک طرف گر گیا ۔قعقاع نے تلوار کی ایک ضرب سے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی ۔

۳۰۹

سیف نے عاصم بن عمرو کے لئے '' لیلة الھریر '' سے پہلے اور اس کے بعد کے واقعات میں بھی شجاعتوں ،دلاوریوں کی داستانیں گڑھی ہیں اور ان کے آخر میں کہتا ہے :

جب دشمن کے سپاہیوں نے بری طرح شکست کھائی اور مسلمان فتحیاب ہوئے تو ایرانی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے ۔بعض ایرانی سردار وں اور جنگجوئوں نے فرار کی ذلت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی جگہ پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ان کے ہی برابر کے چند مشہور اور نامور عرب سپاہی ان کے مقابلے میں آئے اور دوبارہ دست بدست جنگ شروع ہوئی ۔ان مسلمان دلاوروں میں دو تمیمی بھائی قعقاع اور عاصم بھی تھے ۔عاصم نے اس دست بدست جنگ میں اپنے ہم پلہ ایک نامور ایرانی پہلوان زاد بھش ،جو ایک نامور اوربہادر ایرانی جنگجو تھا ،کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٦ اور اسی طرح قعقاع نے بھی اپنے ہم پلہ پہلوان کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ اسلام کی کتابوں میں اس داستان کی اشاعت :

جو کچھ یہاں تک بیان ہو ا یہ سیف کی وہ باتیں تھیں جو اس نے ناقابل شکست پہلوان ، شہسوار،دلیر عرب، شجاع، قعقاع بن عمرو تمیمی نامی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی نامور سیاستداں اور جنگی میدانوں کے بہادر اس کے بھائی اور صحابی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمر تمیمی کے بارے میں بیان کی ہیں ۔سیف بن عمر تمیمی کے ان دو افسانوی بھائیوں جو سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں کی داستانوں کو امام المؤرخین طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب میں درج کیا ہے ، اور اس کے بعد دوسرے مورخین ،جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان روایتوں کی سند کا اشارہ کئے بغیر طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس طرح ابن کثیر نے اس داستان کو طبری سے نقل کرتے ہوئے گیارہ جگہوں پر سیف کا نام لیا ہے ۔

۳۱۰

سند کی تحقیق :

ان داستانوں کی سند میں جند راوی مثل نضربن سری تین روایتوں میں ،ابن رخیل اور حمید بن ابی شجار ایک ایک روایت میں ذکر ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد اور زیادہ کا نام بھی راویوں کے طور پر لیا گیا ہے ۔ان سب راویوں کے بارے میں ہم نے مکرر لکھا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے جعلی راوی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ

یہاں تک ہم نے عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں '' گائے کادن '' اور قاسیہ کی جنگ کے تین دنوں کے بارے میں پڑتال کی اور حسب ذیل نتیجہ واضح ہوا :

سیف منفرد شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ علاقۂ میسان کے کچھار میں گائے نے عاصم بن عمرو سے گفتگو کی اور حجاج بن یوسف ثقفی کی تحقیق کو اس کی تائید کے طور بیان کرتا ہے حجاج بن یوسف ثقفی برسوں بعد اس داستان کے بارے میں تحقیق کرتا ہے،عینی شاہد اس کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ داستان بالکل صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں ہے اگرچہ آپ اسے با ور نہ کریں گے ،کیوں کہ اگر ہم بھی آپ کی جگہ پر ہوتے اور ایسی داستان سنتے تو ہم بھی یقین نہ کرتے ۔اس وقت حجاج اس مرد خدا (عاصم) اور کامل روحانی شخص جس کی تلاش اسے پہلے ہی سے تھی کے بارے میں سر ہلاتے ہوئے تصدیق کرتا ہے اور خاص کر تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام افراد جنھوں نے جنگ قادسیہ میں شرکت کی ہے ،وقت کے پارسااور نیک افراد تھے ۔یہ سب تاکید پر تاکید گفتگو ،تائید و تردید اس لئے ہے کہ سیف بن عمر جس نے تن تنہا اس افسانہ کو جعل کرکے نقل کیا ہے ،دوسروں کو قبول کرائے کہ یہ واقعہ افسانہ نہیں ہے اور کسی کے ذہن کی تخلیق نہیں ہے اور اس قصہ میں کسی قسم کی بد نیتی اورخود غرضی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت تھی جو واقع ہوئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس قسم کے افسانوں کو طبری کی کتاب تاریخ میں پڑھیں اور یقین کریں کہ طبری کے تمام مطالب حقیقت پر مبنی ہیں ۔نتیجہ کے طور پر اسلام کے حقائق آیات الٰہی اور پیغمبروںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معجزات کا آسانی کے ساتھ انکار کرنا ممکن ہو جائے گا اور ایسے موقع پر سیف اور سیف جیسے دیگر لوگ خوشیوں سے پھولے نہیں سمائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ سیف کے ہم مسلک اور ہم عقیدہ لوگ طبری کو شاباش اور آفرین کہتے ہیں اور اسے پیار کرتے ہیں ۔اور ہم بھی کہتے ہیں : '' شاباش '' ہو تم پر طبری !!

۳۱۱

بہر حال سیف نے میسان کے کچھار میں چھپا کے رکھی گئی گائے کی عاصم سے باتیں کرنے کا افسانہ گڑھا ہے ،جب کہ دوسرے مورخوں نے کہا ہے کہ : جب سعد کی سپاہ کو مویشیوں کے لئے چارہ اور اپنے لئے کھانے کی ضرورت ہوئی تھی تو سعد وقاص حکم دیتا تھا کہ دریا ئے فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار کر کے اپنی ضرورت توں کی چیزیں حاصل کریں ۔ان دنوں سپاہ کے حالا ت کے پیش نظر یہی موضوع بالکل مناسب اور ہماہنگ نظر آتا ہے ۔

اسی طرح سیف کہتا ہے کہ کسریٰ نے اس کی خدمت میں آئے ہوئے شریف اور محترم قاصدوں کے ذریعہ سر زمین ایران کی مٹی بھیجنے کاحکم دیا عاصم بن عمرو تمیمی مضری ،کسریٰ کے اس عمل کو نیک شگون جانتا ہے اور مٹی کو اٹھا کر سعدوقاص کے پاس پہنچتا ہے اور دشمن پر فتح و کامرانی کی نوید دیتا ہے ۔جب کہ دوسروں نے لکھاہے کہ ایرانیوں کے سپہ سالار رستم نے ایسا کیا تھا اور جو شخص مٹی کو سعد کے پاس لے گیا وہ عمر بن معدی کرب قحطانی یمانی تھا۔

اس کے علاوہ سیف وہ منفرد شخص ہے جو عاصم کی جنگوں ،تقریروں ،رجز خوانیوں ، جنگ قادسیہ میں '' ارماث'' ،''اغواث'' اور'' عماس'' کے دن اس کی شجاعتوں اور دلاوریوں کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے ،جب کہ دینوری اوربلاذری نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں مکمل اور مفصل تشریح کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی ''ارماث'' ،''اغواث'' اور ''عماس'' کا نام تک نہیں لیا ہے اور سیف کے یہ تمام افسانے بھی ان کے ہاں نہیں ملتے ۔ہم نے یہاں پر بحث کے طولانی ہونے کے اندیشہ سے جنگ قادسیہ کے بارے میں بلاذری اور دینوری کی تفصیلات بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے اور قارئین کرام سے اس کے مطالعہ کی درخواست کرتے ہیں ۔

۳۱۲

قادسیہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کے نتائج :

١۔ میسان کے کچھار میں گائے کا اس کے ساتھ فصیح عربی زبان میں بات کرنے کا افسانہ کے ذریعہ صحابی بزرگوار اور خاندان تمیم کے نامور پہلوان عاصم بن عمرو کے لئے کرامت جعل کرنا ۔

٢۔ دربارکسریٰ میں بھیجے گئے گروہ میں عاصم بن عمرو کی موجودگی اور اس کا اچانک اور ناگہانی طور پر مٹی کو اٹھا کر سعد وقاص کے پاس لے جانا اوراس فعل کو نیک شگون سے تعبیر کرنا۔

٣۔عمروتمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کو ایسی بلندی ،اہمیت اور مقام و منزلت کا حامل دکھانا کہ تمام کامیابیوں کی کلیدانہی کے پاس ہے ۔کیا یہ عاصم ہی نہیں تھا جس کے حکم سے خاندان تمیم کے تیر اندازوں اور نیزہ برداروں نے دشمن کے ہاتھیوں اور ان کے سواروں کو نابود کرکے رکھ دیا اور ہاتھیوں کی پیٹھ پر جو کچھ تھا ''ارماث'' کے دن انھوں نے اسے نیچے گرا دیا؟!

٤۔یہ کہنا کہ: مثنی کہاں اور عاصم جیسا شیر دل پہلوان کہاں !! تاکہ مثنی کی سابقہ بیوی سلمیٰ پھر کبھی زبان درازی نہ کرے اور ایسے لشکر شکن پہلوان جوجنگ کرتا ہے اور دوسرے مجاہدوں کی مدد بھی کرتا ہے کوحقیر نہ سمجھے ۔

٥۔سب سے آگے آنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کرنے کے بعد ہاتھی سوار فوجی دستے کو درہم برہم کرکے ایرانیوں کو بھگا کر دو افسانوی پہلوانوں قعقاع اور عاصم کے لئے فخر و مباہات میں اضافہ کرنا۔

قبیلہ نزار اور خاندان تمیم کے لئے سیف نے یہ اوراس قسم کے دسیوں افتخارات جعل کئے ہیں تاکہ طبری ،ابن عساکر ،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے مورخین انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کریں اور صدیاں گزر جانے کے بعد دین کو سطحی اور ظاہری نگاہ سے دیکھنے والے انھیں آنکھوں سے لگا ئیں اورمضر ،نزار اور خاص کر خاندان تمیم کو شاباشی دیں !اور اس کے مقابلے میں ان کے دشمنوں ، یعنی قحطانی یمانی قبیلوں جن کے بارے میں سیف نے بے حد رسوائیاں اور جھوٹ کے پوٹ گڑھے ہیں سے لوگوں کے دلوں میں غصہ و نفرت پیدا ہو جائے اوروہ رہتی دنیا تک انھیں لعنت و ملامت کرتے رہیں ۔

۳۱۳

عاصم ''جراثیم'' کے دن !

قتلوا عامتهم ونجا منهم عورانا

اسلام کے سپاہیوں نے دشمن کے سپاہیوں کایک جا قتل عام کیا ۔ان میں صرف وہ لوگ بچ رہے جو اپنی آنکھ کھو چکے تھے ۔

( سیف بن عمر)

سیف نے ''جراثیم کے دن''کی داستان ،مختلف روایتوں میں نقل کی ہے ۔یہاں پر ہم پہلے روایتوں کو بیان کریں گے اور اس کے بعد ان کے متن و سند پر تحقیق کریں گے :

١۔ جریر طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

سعد وقاص سپہ سالار اعظم قادسیہ کی جنگ میں فتح پانے کے بعد ایک مدت تک دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران و پریشان سوچتا رہا کہ اس وسیع دریا کو کیسے عبور کیا جائے ؟! کیوں کہ اس سال دریائے دجلہ تلاطم اور طغیانی کی حالت میں موجیں مار رہا تھا ۔

سعد وقاص نے اتفاقاً خواب دیکھا تھا کہ مسلمانوں کے سپاہی دریائے دجلہ کو عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ چکے ہیں ۔لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے اس نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور خدا کی بارگاہ میں حمد و ثنا کے بعد یوں بولا:

تمھارے دشمن نے تمھارے خوف سے اس عظیم اور وسیع دریا کی پناہ لی ہے اور ان تک تمھاری رسائی ممکن نہیں ہے ،جب کہ وہ اپنی کشتیوں کے ذریعہ تم لوگوں تک رسائی رکھتے ہیں اور جب چاہیں ان کشتیوں کے ذریعہ تم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اس نے کہا:

۳۱۴

یہ جان لو کہ میں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ دریا کو عبور کرکے ان پر حملہ کروں گا ۔سپاہیوں نے ایک آواز میں جواب دیا : خدائے تعالیٰ آپ کا اور ہمارا راہنما ہے ،جو چاہیں حکم دیں !اور سپاہیوں نے اپنے آپ کو دجلہ پار کرنے کے لئے آمادہ کیا ۔سعد نے کہا: تم لوگوں میں سے کون آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے جو دریا پار کرکے ساحل پر قبصہ کرلے وہاں پر پائوں جمائے اور باقی سپاہی امن و سکون کے ساتھ اس سے ملحق ہوجائیں اور دشمن کے سپاہی دجلہ میں ان کی پیش قدمی کو روک نہ سکیں ؟ عربوں کا نامور پہلوان عاصم بن عمر و پہلا شخص تھا جس نے آگے بڑھ کر سعد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ۔عاصم کے بعد چھہ سوشجاع جنگجو بھی عاصم سے تعاون کرنے کے لئے آگے بڑھے سعد و قاص نے عاصم کو ان چھہ سوافراد کے گروہ کا کمانڈر معین کیا ۔

عاصم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے پر پہنچ گیا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا : تم لوگوں میں سے کون حاضر ہے جو میرے ساتھ دشمن پرحملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ہم دریا کے دوسرے ساحل کو دشمنوں کے قبضہ سے آزاد کردیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے تاکہ باقی سپاہی بھی ہم سے ملحق ہو جائیں ؟ ان لوگوں میں سے ساٹھ آدمی آگے بڑھے ،عاصم نے انھیں تیس تیس نفر کی دو ٹولیوں میں تقسیم کیا اور گھوڑوں پر سوار کیا تاکہ پانی میں دوسرے ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہو جائے ۔اس کے بعد ان ساٹھ افراد کے ساتھ خود بھی دریائے دجلہ میں اتر گیا۔

جب ایرانیوں نے مسلمانوں کے اس فوجی دستے کو دریا عبور کرکے آگے بڑھتے دیکھا ،تو انھوں نے اپنی فوج میں سے ان کی تعداد کے برابر فوجی سواروں کو مقابلہ کے لئے آمادہ کرکے آگے بھیج دیا ۔ایران کے سپاہیوں کا ساٹھ نفری گروہ عاصم کے ساٹھ نفری گروہ جوبڑی تیزی کے ساتھ ساحل کے نزدیک پہنچ رہے تھے کے مقابلے کے لئے آمنے سامنے پہنچا ۔اس موقع پر عاصم نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں کہا : نیزے !نیزے ! اپنے نیزوں کو ایرانیوں کی طرف بڑھائو اور ان کی آنکھوں کو نشانہ بنائو !اور آگے بڑھو !عاصم کے سواروں نے دشمنوں کی آنکھوں کو نشانہ بنا یا اور آگے بڑھے ۔ایرانیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے ۔لیکن تب تک مسلمان ان کے قریب پہنچ چکے تھے اور تلواروں سے ان سب کا کام تمام کرکے رکھ دیا ۔جو بھی ان میں بچا وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا ۔اس فتح کے بعد عاصم کے دیگر افرادبھی کسی مزاحمت اور مشکل کے بغیر اپنے ساتھیوں سے جا ملے ۔

۳۱۵

سعد وقاص جب عاصم بن عمرو کے ہاتھوں ساحل پر قبضہ کرنے سے مطمئن ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو آگے بڑھنے اور دریائے دجلہ عبور کرنے کا حکم دیا اور کہا: اس دعا کو پڑھنے کے بعد دریائے دجلہ میں کود پڑو:

'' ہم خدا سے مدد چاہتے ہیں اورا سی پر توکل کرتے ہیں ۔ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہ بہتر ین پشت پناہ ہے ۔ خدائے تعالیٰ کے علاوہ کوئی مدد گار اور طاقتور نہیں ہے ''

اس دعا کے پڑھنے کے بعد سعد کے اکثر سپاہی دریا میں کود پڑے اور دریاکی پر تلاطم امواج پر سوار ہو گئے ۔دریا ئے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے سپاہی آپس میں معمول کے مطابق گفتگو کر رہے تھے ایک دوسرے کے دوش بدوش ایسے محو گفتگو تھے جیسے وہ ہموار زمین پر ٹہل رہے ہوں ۔

ایرانیوں کو جب ایسے خلاف توقع اورحیرت انگیز حالات کا سامنا ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح مسلمان ١٦ھ کو صفر کے مہینہ میں مدائن میں داخل ہو گئے ۔

٢۔ ایک اور حدیث میں ابو عثمان نہدی نامی ایک مرد سے سیف ایسی ہی داستان نقل کرتا ہے ،یہاں تک کہ راوی کہتا ہے:

دریائے دجلہ سپاہیوں ،منجملہ پیدل ،سواروں اور چوپایوں سے اس قدر بھر چکا تھا کہ ساحل سے دیکھنے والے کو پانی نظر نہیں آتا تھا ،کیوں کہ اسلام کے سپاہیوں نے حد نظر تک پورے دریا کو ڈھانپ رکھا تھا۔

دجلہ کو عبور کرنے کے بعد سواروں نے ساحل پر قدم رکھا۔گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور اپنی یال و گردن کو زور سے ہلا رہے تھے اور اس طرح ان کی یال و گردن سے پانی کے قطرات دوردور تک جا گرتے تھے ۔جب دشمن نے یہ عجیب حالت دیکھی تو فرار کر گئے ۔

۳۱۶

٣۔ایک اورروایت میں کہتاہے :

سعد وقاص اپنی فوج کو دریا میں کود نے کا حکم دینے سے پہلے دریائے دجلہ کے کناے پر کھڑا ہوکر عاصم اور اس کے سپاہیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا جو دریا میں دشمنوں کے ساتھ لڑرہے تھے ،اسی اثناء میں وہ اچانک بول اٹھا : خدا کی قسم !اگر '' خرسائ'' فوجی دستہ قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کو سیف نے خرساء دستہ نام دے رکھا تھا ان کی جگہ پر ہوتا اور دشمن سے نبرد آزما ہوتا تو ایسی ہی بہتر اور نتیجہ بخش صورت میں لڑتا ۔اس طرح اس نے فوجی دستہ ''اھوال'' عاصم کی کمانڈ میں افراد کو سیف نے اھوال نام رکھا تھا جو پانی اور ساحل پر لڑرہے تھے ،کی خرسا فوجی دستے سے تشبیہ دی ہے یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

جب عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ '' اھوال '' کے تمام افراد نے ساحل پر اتر کر اس پر قبضہ کر لیا توسعد وقاص اپنے دیگر سپاہیوں کے ساتھ دریائے دجلہ میں اترا ۔سلمان فارسی سعد وقاص کے شانہ بہ شانہ دریا میں چل رہے تھے یہ عظیم اور وسیع دریا اسلام کے سوار سپاہیوں سے بھر چکا تھا ۔اس حالت میں سعد وقاص نے یہ دعا پڑھی :

'' خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارے لئے بہترین پناہ گاہ ہے خدا کی قسم !پرور دگار اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے ،اس کے دین کو واضح کرتا ہے اور اس کے دشمن کو نابود کرتا ہے ، اس شرط پر کہ فوج گمراہی اور گناہ سے پاک ہو اوربرائیاں خوبیوں پر غلبہ نہ پائیں ''

سلمان نے سعد سے مخاطب ہو کر کہا :اسلام ایک جدید دین ہے ،خدا نے دریائوں کو مسلمانوں کا مطیع بنادیا ہے جس طر ح زمینوں کوان کے لئے مسخر کیا ہے ۔ا س کی قسم ،جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے !اس عظیم دریا سے سب لوگ جوق در جوق صحیح و سالم عبور کریں گے ،جیسے انھوں نے گروہ گروہ دریا میں قدم رکھا تھا ان میں سے ایک فرد بھی غرق نہیں ہوگا۔

دریائے دجلہ اسلام کے سپاہیوں سے سیاہ نظر آرہا تھا اور ساحل سے پانی دکھائی نہیں دیتا تھا اکثر افراد پانی میں اسی طرح آپس میں گفتگو کر رہے تھے جیسے خشکی پرٹہلتے ہوئے باتیں کرتے ہوں ۔سلمان کی پیشنگوئی کے مطابق سب سپاہی دریا سے صحیح و سالم باہر آگئے ۔نہ کوئی غرق ہوا اور نہ ان کے اموال میں سے کوئی چیز کم ہوئی ۔

۳۱۷

٤۔ایک دوسری روایت میں ایک اور راوی سے نقل کرکے کہتا ہے :

...سب خیریت سے ساحل تک پہنچ گئے ۔لیکن قبیلہ بارق کا غرقدہ نامی ایک مرد اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گرگیا ۔گویا کہ میں اس وقت بھی اس گھوڑے کو دیکھ رہا ہوں جو زین کے بغیر ہے اور خود کو ہلارہا ہے اور اپنی یال و گردن سے پانی کے چھینٹے ہوا میں اڑا رہا ہے ۔غرقدہ ،جو پانی میں ڈبکیاں لگا رہا تھا ،اسی اثنا میں قعقاع نے اپنے گھوڑے کا رخ ڈوبتے ہوئے غرقدہ کی طرف موڑلیااور اپنے ہاتھ کو بڑھا کر غرقدہ کا ہاتھ پکڑلیا اور اسے ساحل تک کھینچ لایا ۔قبیلہ بارق کا یہ شخص،غرقدہ ایک نامور پہلوان تھا ،وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہو کر بولا :''اے قعقاع بہنیں تم جیسے شخص کو پھر کبھی جنم نہیں دیں گی !وجہ یہ تھی کہ قعقاع کی ماں اس مرد کے قبیلہ ،یعنی قبیلہ بارق سے تھی۔

٥۔ایک اور روایت میں ایک دوسرے راوی سے اس طرح نقل کرتا ہے :

اس لشکر کے مال و اثاثہ سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوئی ۔صرف مالک بن عامر نامی ایک سپاہی

جو قریش کے ہم معاہدہ قبیلہ عنز سے تھا کا برتن بندھن فرسودہ ہو کر ٹوٹنے کی وجہ سے پانی میں گرگیا تھا اور پانی اسے بہالے گیا تھا ۔عامر بن مالک نام کا ایک شخص مالک کے شانہ بہ شانہ پانی میں چل رہاتھا ، اس نے مالک سے مذاق کرتے ہوئے کہا:تقدیر تمھارا برتن بہا لے گئی !مالک نے جواب میں کہا: میں سیدھے راستے پر ہوں اور خدائے تعالیٰ اتنے بڑے لشکر میں سے میرے برتن کو ہر گز مجھ سے نہیں چھینے گا !جب سب لوگ دریا سے عبور کرگئے، تو ایک شخص جو دریا کے نچلے حصے میں محا فظت کر رہا تھا ۔اس نے ایک برتن کو دیکھا جسے دریا کی لہریں ساحل کی طرف پھینک چکی تھیں ۔وہ شخص اپنے نیزے سے اس برتن کو پانی سے نکال کر کیمپ میں لے آیا۔مالک نے اپنے برتن کو حاصل کرتے ہوئے عامر سے مخاطب ہوکر کہا :کیا میں نے سچ نہیں کہا تھا؟

۳۱۸

٦۔ سیف ایک اور راوی سے نقل کرتے ہوئے ایک دوسری روایت میں یوں کہتاہے:

جب سعد وقاص نے لوگوں کوحکم دیاکہ دریا ئے دجلہ کوعبور کریں ،سب پانی میں اتر گئے اور دو دوآدمی شانہ بہ شانہ آگے بڑھتے رہے ۔دریائے دجلہ میں پانی کی سطح کافی حدتک اوپر آچکی تھی۔سلمان فارسی ،سعدوقاص کے شانہ بہ شانہ چل رہے تھے ۔اسی اثناء میں سعد نے کہا :یہ ''خدائے تعالیٰ کی قدرت ہے !!''دریائے دجلہ کی پرتلاطم لہریں انہیں اپنے ساتھ اوپرنیچے لے جارہی تھیں ۔ مسلمان آگے بڑھ رہے تھے ۔اگر اس دوران کوئی گھوڑاتھک جاتا تودریاکی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑااوپر اٹھ کر تھکے ہوئے گھوڑے کے چارپائوں کے بالکل نیچے آجاتاتھااوروہ گھوڑااس پر رک کر تھکاوٹ دور کرتاتھا،جیسے کہ گھوڑاکسی خشک زمین پرکھڑاہو!!مدائن کی طرف اس پیش قدمی میں اس سے بڑھ کرکوئی حیرت انگیز واقعہ پیش نہیں آیا۔اس دن کو ''یوم المائ''یعنی پانی کادن یا''یوم الجراثیم '' یعنی زمین کے ٹکڑے کادن کہتے ہیں ۔

٧۔ پھر ایک حدیث میں ایک راوی سے نقل کرکے لکھتاہے:

بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ جس دن اسلام کے سپاہی دریائے دجلہ سے عبور کرنے کے لئے اس میں کود پڑے اس دن کو زمین کے ٹکڑے کادن نام رکھاگیا ہے ۔کیونکہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتاتھا توفوراًدریا کی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑا اوپر اٹھ کر اس کے پائوں کے نیچے قرارپاجاتاتھا اور وہ اس پر ٹھہر کراپنی تھکاوٹ دور کرتاتھا۔

٨ ۔ ایک اور حدیث میں ایک اور راوی سے نقل کرتاہے:

ہم دریائے دجلہ میں کود پڑے جب کہ اس کی مو جوں میں تلاطم اور لہریں بہت اونچی اٹھ رہی تھیں ۔جب ہم اس کے عمیق ترین نقطہ پر پہنچ گئے تھے تو پانی گھوڑے کی پیٹی تک بھی نہیں پہنچتا تھا

٩۔سر انجام ایک دوسری حدیث میں ایک اور راوی سے روایت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ راوی کہتا ہے :

جس وقت ہم مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے ،ایرانیوں نے ہمیں دریائے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے دیکھا تو وہ ہمیں بھوتوں سے تشبیہ دے رہے تھے اور فارسی میں آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے : بھوت آگئے ہیں !بعض کہتے تھے : خدا کی قسم ہم انسانوں سے نہیں بلکہ جنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔

اس لئے سب ایرانی فرار کر گئے َ

۳۱۹

تاریخ کی کتابوں میں سیف کی روایتوں کی اشاعت:

مذکورہ تمام نو روایتوں کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور جو تاریخ لکھنے والے طبری کے بعد آئے ہیں ،ان سبوں نے روایات کی سند کا کوئی اشارہ کئے بغیر انھیں طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ابو نعیم نے بھی احادیث میں سے بعض کو بلا واسطہ سیف سے لے کر ''دلائل النبوة'' نامی اپنی کتاب میں درج کیاہے۔

لیکن دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے سلسلے میں دوسرے کیا لکھتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائیے :

حموی ،کوفہ کے بارے میں کی گئی اپنی تشریح کے ضمن میں ایرانی فوج کے سپہ سالار رستم فرخ زاد اور قادسیہ کی جنگ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

ایرانی کسان ،اسلامی فوج کو ایرانی سپاہیوں کی کمزوریوں کے بارے میں راہنمائی کرکے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے اس کے علاوہ ان کو تحفے تحائف دے کر اور ان کے لئے روز انہ بازار قائم کرکے اپنے آپ کو بیشتر اسلام اور اس کی سپاہ کے نزدیک لاتے تھے ،سعد بن وقاص نے بزرگ مہر (ایرانی کمانڈر) کو پکڑنے کے لئے مدائن کی طرف عزیمت کی. یہاں تک کہ وہ لکھتا ہے :

اس نے دریائے دجلہ پر کوئی پل نہیں پایا کہ اپنی فوج کو دریا کے اس پار لے جائے بالآخر مدائن کے جنوب میں صیادین کی جگہ اس کی راہنمائی کی گئی جہاں پر ایک گزرگاہ تھی ۔اس جگہ پر دریا کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے سوار و پیادہ فوج کے لئے آسانی کے ساتھ دریا کو عبور کرنا ممکن تھا ۔سعد وقاص نے وہاں پر اپنی فوج کے ہمراہ دریا کو عبور کیا۔

خطیب ،ہاشم کی تشریح کے ضمن میں اپنی تاریخ میں لکھتا ہے:

جب قادسیہ کی جنگ میں خدائے تعالیٰ نے ایرانیوں کوشکست دیدی تووہ مدائن کی طرف پیچھے ہٹے ،سعد نے اسلامی فوج کے ہمراہ ان کا تعاقب کیا۔دریائے دجلہ کوعبور کرنے کے لئے مدائن کے ایک باشندہ نے ''قطر بل ''نام کی ایک جگہ کی راہنمائی کی جہاں پر دریا کی گہرائی کم تھی ۔سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اسی جگہ سے دریاکوعبور کرکے مدائن پرحملہ کیا ۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416