ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215593 / ڈاؤنلوڈ: 4976
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

بعد جھوٹے چكنے برتنوں كو فوراً جمع كركے دھونے كى معبنہ جگہ پرركھ ديجئے _ گھركى سجاوٹ كے سامان كے لئے مناسب جگہ مقرر كيجئے _ اور ہر چيز اپنى معينہ جگہ پر ركھى رہے _ آپ كے اور بچوں كے كپڑے كمروں ميں بكھرے نہ پڑے رہيں بلكہ انھيں عادت ڈلوايئےہ كپڑے اتار كر المارى ميں ركھيں _ كھونٹى يا اسٹينڈپرٹانگيں _ بچوں كو نصيحت كيجئے كہ اپنے سامان مثلاً بستہ ، قلم ،كتابيں معينہ جگہ پر ركھا كريں _ اطمينان ركھئے اگر آپ ترتيب اور سليقے سے كام ليں تو آپ كے بچوں كى بھى يہى عادت پڑجائے گى _

پھوہٹر عورتيں اپنے آپ كو بے گناہ ثابت كرنے كے لئے گھر كى بدنظمى كا الزام بچوں كے سر تھوپتى ہيں _ مگر يہ بات صحيح نہيں ہے كيونكہ بچے ماں باپ كى تقليد كرتے ہيں _ اگر ماں باپ سليقہ مند ہوں گے تو وہ بھى سليقہ سيكھيں گے _ شروع ميں بچے نظم و ترتيب كے مخالف نہيں ہوتے بلكہ سليقہ مند ہوتے ہيں _ ليكن جب گھر كى بدسليقگى اور بد انتظامى ديكھتے ہيں تو وہ بھى يہى سيكھتے ہيں _

روپيہ پيسہ _ قيمتى كا غذوں مثلاً چيك _ بانڈ _ سرٹيفكيٹ اور سندوں و غيرہ كو ايسى محفوظ جگہ پر ركھئے جو چھوٹے بچوں كى دسترس سے دور ہو _ كيونكہ اگر آپ كى غفلت سے ضائع ہوجائے تو بعد ميں بچوں كو مارنے پيٹنے سے كوئي فائدہ نہ ہوگا _ لہذا حادث وقوع ميں آنے سے پہلے ہى اس كا علاج كرليناچاہئے _ معصوم بچے كا كوئي گناہ نہيں ہوتا _قصور بد سليقہ ماں كاہوتا ہے جس نے قيمتى شيء كو حفاظت سے نہيں ركھا _

اس سلسلہ ميں ذيل كے واقعہ سے عبرت حاصل كيجئے _

ايك شخص نے اپنى بيوى كو تين ہزار روپئے ديئےور حفاظت س ركھنے كى تاكيد كى اس نے روپيہ لے كر طلاق ميں ركھ ديا اور كسى معمولى كام سے باہر چلى گئي _ جب كمرے ميں واپس آئي تو وہاں روپئے موجود نہيں تھے _ گھبرا كے ادھر ادھر نظر دوڑ ائي توديكھاكہ اس كا پانچ سالہ بچہ صحن ميں كوئي چيز جلا رہا ہے اور خوش ہورہا ہے _ ماں يہ ديكھ كر اس قد رغضبناك ہوئي

۱۲۱

كہ اپنے پانچ سالہ بچے كو اٹھاكر زمين پر پخ ديا _ اتفاق سے بچہ فوراً مرگيا وحشت زدہ ماں ، بچے كہ بيجان جسم كو ديكھ رہى تھى كہ اسى وقت اس كا شوہر آگيا اور ماجرا دريافت كيا _ بيوى نے واقعہ بيان كيا _ مرد نے طيش ميں آكر بيوى كو خوب مارپيٹا اور موٹر سائيكل پر سوار ہوكر پوليس كو اس واقعہ كى رپورٹ دينے چلا گيا _ ليكن پريشانى اورگبھراہٹ كے عالم ميں اس كى كسى گاڑى سے ٹكر ہوگئي _ اب اس مرد كى حالت بيحد نازك ہے '' _(۱۲۴)

آپ كا خيا ل ميں اس واقعہ ميں اصلى قصور وار كون ہے؟ اس كا فيصہ ہم قارئين كرام پر چھوڑتے ہيں _ اس قسم كے واقعات و حادثات اكثر رونما ہوتے رہتے ہيں _ ممكن ہے خود آپ كى زندگى ميں بھى واقع ہوئے ہوں _

دواؤں ، خطرناك اورزہر يلى چيزوں حتى كى مٹى كے تيل اور پٹروں كو ايسى جگہ ركھيں جو چھوٹے اورناسمجھ بچوں كى دسترس سے باہر ہو _ كيونكہ اس بات كا امكان ہے كہ ناسمجھى كے سبب اسے پى ليں اور ختم ہوجائيں _ اور پھر آپ سارى عمر روتى رہيں احتياط كرنے ميں كوئي نقصان نہيں ہے ليكن غفلت اور بے احتياطى سے سينكڑوں خطرے لاحق ہوجاتے ہيں _ ايسے معصوم بچے جو بد سليقہ ماں باپ كى غفلت سے تلف ہوئے اور ہورہے ہيں ان كى فہرست طويل ہے _ ان ميں سے بعض كى خبريں اخباروسائل ميں شائع ہوتى رہتى ہى _ ياددہانى كے طور پر چند سچے واقعات نقل كئے جاتے ہيں _

دو چھوٹے چھوٹے بہن بھائي ، جن كى عمريں چھ سال اور چار سال تھيں ، ايك برتن ميں بھرے ڈى ڈى ٹى دواكے محلول كونسى سمجھ كے پى گئے _ چھوٹى بچى تو فوراً مرگئي _دونوں بچے گھر ميں تنہا تھے _ جب انھيں پياس لگى تو پانى كے بجائے ڈى ڈى ٹى دوا كے محلول كولسى سمجھ كر پى گئے _ اسپتال ميں بچوں كى ماں نے بتايا كہ كل رات ميں نے تھوڑا سا ڈى ڈى ٹى پاؤ ڈرپانى ميں بھگوكر ركھا تھا كہ چوہوں كے بلوں ميں ڈالوں گى كہ يہ حادث رونما ہوگيا ''_(۱۲۵)

زبانى كى جگہ مٹى كا تيل پى ليا _ ايك پنچ سالہ بچّے نہ ماں كے پير درد كي

۱۲۲

كھاليں _ انھيں اسپتال ميں بھرتى كيا گيا ہے '' _(۱۲۶)

آخر ميں بھى عرض كرديں كہ نظم و ضبط بہت اچھى چيز ہے ليكن نہ اس حد تك كہ آپ كا اور آپ كے شوہر كا سكون و چين سلب ہوجائے صفائي اور طہارت اگر حد سے تجاوز كرجائے اور وہم آزادى سلب ہوجانے كى حد تك بڑھ جائے تو خود ان خاندان كے لئے مشكلات پيدا ہوجاتى ہيں _ لڑائي جھگڑے اور عليحدگى تك كى نوبت آجاتى ہے _ ذيل كا واقعہ سنيں:_

ايك شخص كہتا ہے : اپنى بيوى كى عجيب و غريب پاكيزگى نے تو مجھے ديوانہ بناديا ہے _ شام كو جب آفس سے تھكاہارا گھر آتا ہوں تو ميرے لئے لازم ہے كہ حوض كے يخ بستہ پانى سے سات دفعہ ہاتھ پاؤں دھؤون _ جوتوں كو مخصوص جگہ پر ركھوں _ گھر كى مخصوص چپل پہنوں _ ہاتھ روم كى مخصوص چپل پہنوں باورچى خانہ ، ڈرائنگ روم ، غرضكہ گھر ميں ہر جگہ احتياط برتوں ، لباس كو اس كى مخصوص جگہ پرٹانگوں _ اگر سگريٹ پينے كى اجازت دے تو مخصوص كمرے ميں جاكر پيئوں تا كہ پورے گھر ميں اس كى بونہ پھيلے _ مختصر يہ كہ ميں نے ايك عمر نہايت اطمينان و آزادى كے ساتھ گزارى ہے _ ليكن اس چار سالہ شادى شادہ زندگى ميں ميرى حالت قيديوں سے بدتر ہوگئي _ كيا ضرورت ہے كہ انسان اس قدر حد سے زيادہ صفائي پسند ہو يہ وہم ہے اور ميں وہم سے بيزار ہوں '' _(۱۲۷)

كسى بھى كام ميں افراط و تفريط اچھى نہيں ہوتى بلكہ ہر حال ميں ميانہ روى سے كام لينا چاہئے _ نہ اس قدر بد سليقگى كارفرما ہو كہ زندگى كى حالت ابتر رہے اور نہ اتنا زيادہ نظم و ضبط كالحاظ ركھا جائے كہ وہم كى حد تك بڑھ جائے اور آپ كا سكون وچين درہم برہم ہوجائے _

كھانا پكانا

امورخانہ دارى ميں ايك اہم كھانا پكانا بھى ہے جس كے ذريعہ خواتين كے ذوق اور سليقہ كا پتہ چلتا ہے _ ايك سليقہ مند اور باذوق گھر كى مالكہ خرچ ميں بہترين اور لذيذغذائيں تيار كرتى ہے ليكن ايك بدسليقہ خاتون زيادہ خرچ كركے بھى مزيدار كھانے تيار نہيں كرپاتى _ خواتين لذيذ اور مزيدار

۱۲۳

كھانوں كے ذريعہ اپنے شوہر كو گھر كى طرف راغب كرسكتى ہيں جو خوا تين اس گر سغ واقف ہيں ان كے شوہر خوش ذالقہ كھانوں كے شوق ميں ہو ٹلوں ميں نہيں گنواتے _حضرت رسول خدا (ع) فرماتے ہيں : تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جواپنے بدن ميں خوشبو لگائے _ كھا نا پكانے كے فن ميں ماہر ہوا ور زيادہ خرچ نہ كرے ايسى عورت كا شمار خدا كے عمال ميں ہو گا اور خدا كے عامل كو بھى شكست اور پشيمانى كا سامنا نہيں كرنا پڑے گا _(۱۲۸)

اس موقعہ پر كھا نا پكا نے فن پز بحث كرنا اور كھانے تياركرنے كى تركيب بيان كرنا مضف كے موضوع سخن سے خارج ہے _

البتہ اس سلسلے ميں صحت بخش غذاؤں اور كھانا پكانے كے ماہرين كى لكھى ہولى ركتا بيں آسانى سے دستياب ہيں ان كتابوں كے مطالعہ اور اپنے ذاتى تجربہ و سليقہ سے كام لے كر خوش ذائقہ اور ، قوت بخش كھانے تيار كئے جا سكتے ہيں _ البتہ يہاں پر چند باتوں كا ذكر كر ناضرورى معلوم ہوتا ہے :

۱ _ كھانا صرف لذت حاصل كرنے اور پيٹ بھرنے كى خاطر نہيں كھا يا جا تا بلكہ كھا نا كھانے كا مقصد صحت و سلامتى كا تحفظ اور بدن كے خليوں كو زندہ ركةنے كے لئے جن چيزوں كى ضرورت ہوتى ہے ان كو بہم پہو نچا نا ہے _ لازمى اجزاء مختلف قسم كى غذاؤں ، پھلوں ، سبزيوں ، دالوں اور گوشت و غيرہ ميں پائے جاتے ہيں _ مجموعى طور پر انھيں چھ حصوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _

۱_ پاني

۲_ معدنى مواد مثلا كيسليشم _ فاسفورس ، لوہا ، تانبا

۳_ نشاستہ ( STARCH ) والى چيزيں

۴_ چربي

۵_ پروٹين

۶_ مختلف و ٹامن مثلاوٹا من بى ، وٹامن سى ، وٹامن ڈى و غيرہ

۱۲۴

انسان كے بدن كازيادہ تروزن پانى كے ذريعہ تشكيل پاتا ہے _ پانى منجمد غذاؤں كو حل كرتا ہے تا كہ آنتوں كے ذريعہ جذب ہو جائيں _ بدن كے درجہ حرارت كو كنٹروں كرتا ہے _ معدنى مواد دانتوں اور ہڈيوں كى نشو و نما اور عضلات كے كام كى تنظيم كے لئے بھى لازمى ہے _

نشاستہ اور شكروالى چيزيں انرجى پيدا كرتى ہيں چربى انرجى اور حرارت پيدا كرتى ہے پروٹين بدن كى نشو و نما اور پرانے كى تجديد كيلئے ضرورى ہے ، وٹامن بدن كى نشو و نماہڈيوں كى اور اعصاب كى تقويت اور بدن كى مشينرى كو چلانے اور آنتوں ميں غذاؤں كے جذب ہونے ميں مدد ديتے ہيں _ مذكورہ مواد انسان كى صحت و سلامتى كے تحفظ اور زندہ رہنے كے لئے بيحد ضرورى ہيں _ ان ميں سے ہر ايك كا اہم رول ہے اور وہ بدن كى كسى نہ كسى ضرورت كو پورا كرتے ہيں _ ان ميں سے كسى كا بھى فقدا ن يا كمى يا زيادتى انسان كى زندگى و سلامتى كے لئے مضر ہے _ اور علاج اور خطرناك امراض پيدا كرنے كا سبب بن سكتا ہے _ سلامتى و بيمارى ، عمر كى درازى اور كوتاہى ، اعصاب كى سلامتى و نفسياتى بيمارياں ،خوشى و افسردگى ، خوبصورتى و بدصورتى ، غرضكہ وہ تما م حادثات و اثرات جن سے انسان كا بدن دوچار ہوتا ہے ، انسب كا غذا كى كيفيت سے گہرا تعلق ہے _

ہم جو كچھ كھاتے ہيں اسى سے ہمارى نشو ونما ہوتى ہے اگر انسان جان لے كہ كيا چيز اور كتنى مقدار ميں كھانا چاہئے تو كم بيمار پڑے گا _ بد قسمتى تو يہى ہے كہ بدن كى غذائي ضروريات اور كھانے پينے كى چيزوں كى خاصيت پر توجہ ديئےغير ، انسان اپنے پيٹ كو مزيدار غذاؤں سے بھر ليتا ہے اور اپنى صحت و سلامتى كو خطرے ميں ڈال ديتا ہے _ اور جب ہوش آتا ہے اس وقت پانى سرسے اونچا ہوچكا ہوتا ہے اور بدن كى نازك مشينرى فرسودہ اور تباہ ہوچكى ہوتى ہے _ اس وقت اس طبيت اوراس طبيب يہ دوا اور وہ دوا كى تلاش شروع ہوتى ہے ليكن افسوس كہ رنگ و روغن سے فرسودہ مشينرى كى تعمير و مرمت نہيں ہوسكتى _ يہى سبب ہے كہ پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا فرمان ہے :'' پيٹ تمام بيماريوں كا مركز ہے '' _(۱۲۹)

عموماً غذا كا انتخاب كرنا عورتوں كى ذمہ دارى ہوتى ہے _ لہذا كہ جا سكتا ہے كہ خاندان كي

۱۲۵

صحت و سلامتى ان كے ہاتھ ميں ہوتى ہے _ اس بناء پر ايك خاتون خانہ كے كندھوں پر ايك بہت بڑى ذمہ دارى ہے اوراگراس سلسلے ميں ذرا اسى بھى كوتاہى كى تو آپ كى ، شوہر اور بچوں كى تندرستى سخت خطرے سے دوچار ہوسكتى ہے _ اس كے علاوہ كھانا پكانے كے فن ميں مہارت ركھنے والے كو ايك مكمل غذا شناس بلكہ ايك ماہر طبيب بھى ہونا چاہئے _ اس كا مقصد صرف گھر والوں كا پيٹ بھرناہى نہ ہو بلكہ اسے چاہئے كہ پہلے مرحلے ميں ،صحت و سلامتى كى حفاظت اور بدن كى غذائي ضروريات كو پورا كرنے كے لئے جن مواد كى ضرورت ہوتى ہے اس كا دھيان ركھے _ اور اس بات سے واقف ہو كہ كھانے پينے كى چيزوں ميں كون كون سے اجزاء شامل كرنا لازم ہے _ اور كتنى مقدار ميں ہونا چاہئے _ اس كے بعد بدن كى گوناگوں ضروريات كے مطابق ، كھانے پينے كى چيزوں كا انتخاب كرے _ اور اسے خوراك كے پروگرام كا جزو قراردے _ اسى كے ساتھ كوشش كرے كہ ضرورى اور مفيد غذاؤں كواس طرح تيار كرے كہ وہ خوش ذائقہ اور مزيدار بھى ہوں _

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : اپنے شوہر كى نسبت عورت كا فرض ہے كہ گھر كے چراغ كو روشن كرے اور اچھى و عمدہ غذائيں تيار كرے _(۱۳۰)

ايك عورت نے رسول خدا (ص) كى خدمت ميں عرض كيا : شوہر كے گھر ميں عورت كے خدمت كرنے كى كيا فضيلت ہے ؟ فرمايا: گھر كو چلانے كے لئے جو بھى كام انجام دے ، خدا اس پر لطف كى نظر فرمائے گا _ اور جو شخص خدا كا منظور نظر ، ہوگا وہ عذاب الہى سے محفوظ رہے گا '' _(۱۳۱)

۲_ انسان كى غذائي ضروريات ہميشہ يكسان نہيں ہوتيں بلكہ مختلف سن و سال اور حالات كے مطابق اس ميں فرق پيدا ہوتا رہتا ہے _ مثلاً چھوٹے بچے اور نوجواں چونكہ نشو و نما كى حالت ميں ہوتے ہيں ان كو معدنى مواد خصوصاً كيلشيم كى زيادہ ضرورت ہوتى ہے ان كى غذا ميں ان چيزوں كو شامل كرنا چاہئے جن ميں معدنى مواد پايا جاتا ہو _ اسى طرح بچے اور نوجوان چونكہ زيادہ فعال ہوتے ہيں بھاگ دوڑ اور كھيل ميں ان كى انرجى زيادہ صرف ہوتى ہے اس لئے ان كو انرجى والے مواد مثلاً

۱۲۶

چربى ، شكر اور نشاستہ والى غذاؤں كى ضرورت ہوتى ہے اوران كى غذا ميں ان چيزوں كا لحاظ ركھنا چاہئے _ اسى طرح ہر انسان كى غذا ئي ضرورت كا تعلق اس كے شغل اور كاموں كى نوعيت كے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے مثلاً ايك مزدور پيشہ انسان كو چربى ، شكر اور نشاستہ كى زيادہ ضرورت ہوتى ہے كيونكہ اس كے كام ميں محنت و مشقت زيادہ ہے ليكن جن كے شغل آسان اور زيادہ محنت طلب نہيں ان كو ايك مزدور كى طرح مذكورہ مواد كى ضرورت نہيں ہے _ گرمى كے موسم اور جاڑے كے موسم كے غذائي پروگرام بھى يكسان نہيں ہوتے _ ايك بيمار كا غذائي پروگرام بھى سالم افراد كے غذائي پروگرام سے مختلف ہوتا ہے _ عموماً ايك بيمار كى لئے ہلكى اور مقوى غذائيں تيار كرنى چاہئيں _ اس كے كھانے كے متعلق ڈاكٹر سے مشورہ لينا چاہئے _ بہر حال ايك خانہ دار خاتون كو ان تمام باتوں كا دھيان ركھنا چاہئے اور ہر فرد كى احتياج كے مطابق اس كے لئے غذا تيار كرنى چاہئے _

۳_ ايك قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ جب انسان كا سن چاليس سے تجاوز كرجاتا ہے تو عموماً موٹا پے كى بيمارى ميں مبتلا ہوجاتا ہے _ بعض لوگ موٹا پے كو صحت كى علامت سمجھيں ليكن يہ خيال بالكل غلط ہے _ موٹا پے كو ايك خطرناك بيمارى كہا جاتا ہے _ جس كے نتيجہ ميں گوناگوں امراض پيدا ہوجاتے ہيں _ موٹے لوگ مختلف امراض مثلا ًدل كے مرض ، بلڈ پريشر،رگوں كا سخت ہوجانا ، نيز گردے اور جگركى بيماريوں ، ديا بيطس اور گال بليڈر جيسى بيماريوں ميں مبتلا ہوجاتے ہيں _ ڈاكٹر كے تجربے اور بيمہ كمپنيوں كے اعداد و شمار سے اس بات كى تصديق ہوتى ہے كہ دبلے آدميوں كى عمر موٹے آدميوں سے زيادہ لمبى ہوتى ہے _ چاليس سال كے بعد انسان كے بدن كى چستى ميں كمى آجاتى ہے _ جس كے سبب اس كى فعاليت بھى گھٹ جاتى ہے _ اس لئے اسے چربى ، نشاستہ اور شكر والے اجزا كى كم ضرورت ہوتى ہے _ اس سن ميں بدن ميں طاقت كو پيدا كرنے والى مشينرى ، جو كہ كالريوں كو انرجى ميں تبديل كرتى ہے ، اپنا كام كدرتى ہے جس كى وجہ سے كالرياں تبديل نہيں ہوتيں اوركمراور شريانوں كے اطراف اور بدن كے اعضاء ميں جمع ہوكر موٹا پا

۱۲۷

پيدا كرديتى ہيں _ موٹا پے كا بہترين علاج كم خورى ہے خصوصاً چربى اور شكر و نشاستہ والى غذاؤں ميں كم كردنى چاہئے _

جن خواتين كو اپنے شوہر سے محبت ہے انھيں چاہئے كہ جو نہى اپنے شوہر ميں موٹا پے كے آثار و علائم ديكھيں فوراً اس كے غذائي پروگرام پر توجہ كريں _ دھيان ركھيں كہ پر خورى نہ كرے _ چكنائي ، مٹھائي ، ملائي و غيرہ كے استعمال پر پابندى لگاديں _ شكر اور نشاستہ والى غذائيں مثلاً روٹي، چاول ، موٹا پا پيداكرنے ميں اہم كردار ادا كرتى ہيں _ ايسا كام كريں كہ مردان كا استعمال كم كريں اوراس كى جگہ پر پروٹين والى غذائيں مثلاً انڈا، كليجى ، گائے و بكرى اور چڑيوں كا گوشت ،مچھلى اور پنير كا زيادہ استعمال كرائيں _ كيونكہ ان غذاؤں سے بھوك بھى مٹ جائے گى اور ان ميں كالرى بھى كم پائي جاتى ہے _ اس عمر ميں دودھ سے بنى چيروں كا استعمال بھى مناسب ہے _ اگر ڈاكٹر نے پرہيز نہ بتايا تو پھل اورسبزياں بھى مناسب ہيں _ اس سلسلے ميں داكٹر سے بھى مشورہ لے ليجئے جو خواتين اپنے شوہر سے محبت كرتى ہيں ان كو ان تمام نكات كو پورا لحاظ ركھنا چاہئے _ در حقيقت شوہر كى زندگى اور سلامتى ان كے ہاتھ ميں ہے _ وہ جو كچھ بھى پكاكے سامنے ركھ ديں گى وہ اسے كھانے پر مجبور ہے _ البتہ اگر شوہر سے دل بھر گيا ہے اور بيوہ ہونا چاہتى ہيں اور چاہتى ہيں كہ اس كو اس طرح سے قتل كرديں كہ كسى كو بھى ان كے جرم كا پتہ نہ چلے اور پوليس كے ہاتھوں سے بچ جائيں نوان كے لئے يہ بہت آسان نسخہ ہے كہ گھى سے تر تراتى ہوئي مزيدار غذائيں اور مٹھائيان تياركركے شوہر كو كھلائيں اور اصرار كركے اس كو خوب ڈٹ كركھانے پر آمادہ كريں _ اس كے كھانے ميں روٹى اور چاول كااستعمال كرانے كے لئے اس كے سامنے لذيذ اورمرغن كھانوں سے بھر ادستر خوان بچھائيں تا كہ وہ ان غذاؤں سے اپنا پيٹ خوب بھر ليا كرے اگر اس پروگرام پر عمل كيا توہ بيوہو ہونے ميں زيادہ دير نہيں لگے گى _ جلد ہى اس سے چھٹكار امل جائے گا _ مزيد بر آن بيوى كى خدمات اور خاطر تواضع كے سبب اس سے خوش بھى رہے گا _

۱۲۸

ممكن ہے قارئين گرامى كہيں كہ مذكورہ پروگرام دولتمند طبقے كے لئے تو اچھا ہے جو انواع و اقسام كى لذيد اور مہنگى غذائيں تيار كرنے پر قادر ہيں ليكن تيسرى درجے كے طبقے كے لئے ، كہ جو قوم كى اكثريت پر مشتمل ہے اور شب و روز كى محنت و مشقت كے بعد دو لقموں سے اپنا پيٹ بھر نے پر مجبور ہے ، قابل عمل نہيں _ اس طبقے كے لوگ بدن كى ضروريات كو پورا كرنے والے غذائي پروگرام پر كس طرح عمل كر سكتے ہيں ؟

ليكن قارئين محترم كو معلوم ہونا چاہئے كہ وہ اس بات كو مد نظر ركھيں كہ خوش قسمتى سے بدن كے لئے لازمى مواد ،انھيں سادہ اور فطرى غذاؤں ميں كافى مقدار ميں پايا جاتاہے _ اگر خاتون خانہ ، مقوى اور صحت بخش غذاؤں سے آشنا ہو اور كھانا پكانے كے فن ميں بھى مہارت ركھتى ہو تو معمولى پھلوں ، تر كاريوں والوں مثلاً چنے ، ماش اور مسور كى دالوں ، گيہوں ، جو ، آلو پياز ، ٹماٹر گاجر اور مختلف سبزيوں سے اس طرح كھانا تيار كرسكتى ہيں كہ مزيدار بھى ہو اور صحت و سلامتى كے لئے بھى فائدہ مند ہو _ البتہ سليقہ اور ہوشيارى شرط ہے _

۱۲۹

مہمانداري

ايك چيز جس كا ہر خاندا كو كم يا زيادہ سامنا كرنا پرتا ہے وہ مہماندارى ہے بلكہ يوں كہنا چاہئے كہ مہماندارى زندگى كے لوازمات ميں سے ہے _ مہمان نوازى ايك اچھى رسم ہے اس كے ذريعہ دلوں ميں باہمى تعلق و ارتباط پيدا ہوتا ہے _ محبت و الفت ميں اضافہ ہوتا ہے _ نفرت و كدورت دور ہوتى ہے دوستوں اور عزيزوں كے يہاں آمد و رفت اور كچھ دير مل بيٹھنا ايك مفيد اورسالم تفريح شمار كى جاتى ہے _

پيغمبر اكرم (ص) فرماتے ہيں : مہمان كا رزق آسمان سے نازل ہوتا ہے اس كو كھلانے سے ميزبان كى گناہ بخش ديئےاتے ہيں'' _(۱۳۲)

امام على رضا (ع) فرماتے ہيں سخى لوگ دوسروں كے كھانے ميں سے كھاتے ہيں تا كہ ان كے كھانے ميں سے وہ كھائيں ليكن كنجوس دوسروں كے كھانے ميں سے نہيں كھاتے كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ اس كے كھانے ميں سے وہ كھاليں _(۱۳۳)

۱۳۰

حضرت رسول خدا (ص) كا رارشاد گرامى ہے : دوستوں كے ساتھ بيٹھنے سے ، محبت پيدا ہوتى ہے _(۱۳۴)

امام محمد تقى (ع) فرماتے ہيں : دوستوں كے پاس بيٹھنا ، دل كو تروتازہ اور عقل كو بار آور كرتا ہے ، خواہ تھوڑى دير ہى بيٹھا جائے _(۱۳۵)

زندگى كى اس متلاطم سمندر ميں انسان كے دل و دماغ كوآرام و سكون كى ضرورت ہوتى ہے _

اس سے بہتر سكون وآرام كس طرح مہيا ہوسكتا ہے كہ كچھ وفادار دوستوں اور رشتہ داروں كى محفل ميں بيٹھيں _ كچھ اپنا حال دل كہيں كچھ ان كى سنيں _ پر لطف گفتگو سے محبت و الفت كى محفل كو سجائيں _ اور وقتى طور پر زندگى كى مشكلات اور پريشانيوں كو بھلاديں_ تفريح بھى كرليں اور كھولى ہوئي طاقت بھى بحال كرليں ، دل بہلائيں اور دوستى كے رشتوں كو بھى مستحكم كرليں _

جى ہاں _ مہماندارى بہت عمدرہ رسم ہے اور شايد ہى كوئي اس كى خوبى سے انكار كرے _ البتہ اس سلسلے ميں دوبڑى مشكلات سامنے آتى ہيں كہ جس كے سبب اكثر لوگ جہاں تك ہوسكتا ہے اس سے بچنے كو كوشش كرتے ہيں اور انتہائي ضرورى حالات ميں ہى اس كو قبول كرتے ہيں _

پہلى مشكل : زندگى كى چمك دمك اور ايك دوسرے سے آگے بڑھ جانے كى بيجا ہوس نے زندگى كو دشوار بناديا ہے _

گھر كے ضرورى ساز وسامان جو ضرورتوں كو پورا كرنے كے لئے اور آرام كى خاطر ہوتے تھے ، اپنى حقيقى صورت سے خارج ہوكر خودنمائي اوراشياء ے تجمل كى شكل اختيار كرگئے ہيں _ اسى چيز نے مہماندارى اور دوستوں كى آمد و رفت ميں كمى پيدا كردى ہے _ شايد كم ہى لوگ ہوں گے جو دوستوں اور رشتہ داروں كے آنے جانے كو پسند نہ كرتے ہوں _ ليكن چونكہ حسب دلخواہ شان و شوكت كے اسباب فراہم كرنے اور معيار زندگى اونچا كرنے پر قادر نہيں ہيں اور اپنے معيار زندگى كو سطحى سمجھتے ہيں اس لئے دوستوں سے ميل جول ركھنے سے بھاگتے ہيں _ ايك غلط خيال انسان كے ہاتھ پاؤں باندھ كر اس كى دنيا و آخرت كو تباہ كرديتا ہے _

خاتون عزيز كيا دوست احباب آپ كے گھر كى شان و شوكت اور سجاوٹ كو ديكھنے كے لئے آپ كے

۱۳۱

گھر آتے ہيں _ اگر يہى مقصد ہے تو بہتر ہے كہ دو كانوں ، شوروم اور ميوزيم جائيں _ كيا آپ نے اشيائے تجمل كى نمائشے لگاركھى ہے اور اپنے خودنمائي كے لئے ان كو اپنے گھرآنے كى دعوت ديتى ہيں؟ ايك دوسرے كے يہاں آمدو روفت ، آپسى تعلقات اور محبت كى خاطر اور تفريح كى غرض سے كى جاتى ہے نہ كہ فخر و مباہات اور خودنمائي كے لئے _ مہمان اپنا شكم پركرنے اور خوبصورت مناظرہ كا نظارہ كرنے كے لئے آپ كے گھر نہيں آتے ہيں بلكہ دعوت كو ايك قسم كى عزت افزائي سمجھتے ہيں _ وہ خود بھى اس قسم كى رقابتوں اور تجمل پرستى سے تنگ آگئے ہيں اور سادگى كو پسند كرتے ہيں ليكن ان ميں اتنى ہمت نہيں ہے كہ اس غلط رسم كا خاتمہ كرسكيں اور خود كو اس اختيارى قيد و بند سے آزاد كرليں _ اگر آپ ان كى سادگى كے ساتھ خاطر تواضع كريں تو نہ صرف يہ كہ ان كو برا نہيں لگے گا بلكہ خوش ہوں گے اور بعد ميں اس سادہ روش كى پيروى كركے بغير كسى تكلف اور پريشانى كے آپ كى بھى پذيرائي كريں گے _ ايسى صورت ميں آپ نہايت سادگى كے ساتھ دوستوں كے يہاں آمد ورفت كا سلسلہ جارى ركھ سكتى ہيں اور انس و محبت كى نعمت سے بہرہ مند ہوسكتى ہيں _ لہذا اس مشكل كو آسانى كے ساتھ حل كيا جا سكتا ہے البتہ كسى قدرہمت و جرات كى ضرورت ہے

دوسرى مشكل

مہماندارى كوئي آسان كام نہيں ہے _ بلكہ خواتين كے مشكل كاموں ميں سے ہے _ كبھى ايسا ہواہے كہ بيوى چند گھنٹوں كے اندر اندر كچھ مہمانوں كى خاطر تواضع كا انتظام كرنے پر مجبور ہے اسى سبب سے كھانے مرضى كے مطابق تيار نہيں ہوسكے ايسى حالت ميں ايك طرف مياں ناراض ہوتا ہے كہ ميں نے پيسہ خرچ كيا اور اس كے باوجود ميرى عزت مٹى ميں مل گئي _ دوسروں طرف بيوى ناراض ہے كہ ميں نے اتنى زحمت اٹھائي اس كے باوجود مہمانوں كے سامنے ميرى بے عزتى ہوگئي وہ لوگ مجھے بد سليقہ اور پھر ہٹز سمجھيں گے _ ان سب سے بدتر يہ كہ شوہر كى جھك جھك كے جواب ميں كيا كہوں ان ہى ، اسباب كى بناء پر كم ہى ايسى محفليں ہوتى ہيں جو بغير كسى ہنگامے اور الجھن و پريشانى كے اختتام پذيرہوں _ اور يہ امر باعث بنتا ہے كہ بہت سے لوگ مہماندارى سے گريز كرتے ہيں اور اس كے تصور سے ہى لرزتے ہيں _

۱۳۲

ہم مانتے ہيں كہ مہماندرى آسان كام نہيں ہے ليكن اصل مشكل اس وجہ سے پيدا ہوتى ہے كہ ميزبان خاتون ، مہماندارى كے طور طريقوں سے اچھى طرح واقف نہيں اور چاہتى ہے كہ صرف دوتين گھنٹے كے اندر بہت سے مشكل اور دشوار كاموں كوانجام دے لے _ اگر مدبر اورتجربہ كارہے تو بہت خوبى اور آسانى كے ساتھ بہترين طريقے سے دعوت كا انتظام كرسكتى ہے _ اب ہم آپ كے سامنے مہماندارى كے دو نمونے پيش كررہے ہيں ، ان ميں سے جو آپ كہ بہتر معلوم ہوا سے منتخب كرسكتى ہيں :_

پہلا نمونہ : مياں گھر ميں داخل ہوتا ہے اور بيوى سے كہتا ہے شب جمعہ دس آدمى رات كے كھانے پر آئيں گے _ بيوى جسے گہ گزشتہ دعوتوں كى تلخياں ياد ہيں مہمانوں كا نام سن كرہى اس كا دل دھڑكنے لكتاہے اور وہ اعتراض كرتے ہيں _ مرد دلائل كے ذريعہ اور خوشامد كركے اس كوراضى كرتا ہے كہ يہ دعوت كرنا ضرورى تھا_ جس طرح بھى ہو اس دعوت كا انتظام كرو _ اس وقت سے جمعرات تك پريشانى اور اضطراب ميں گزرتے ہيں _ يہاں تك كہ جمعرات كادن آپہونچا _ اس روز دعوت كاانتظام كرنا ہے مياں يا بيوى سامان خريد نے كے لئے گھر سے باہر جاتے ہيں _ راستے ميں سوچتے ہيں كہ كيا كيا چيزيں خريد نا چاہئے _ آخر كاركئي طرح كى چيزيں خريد كردو پہر تك گھر آتے ہيں _ بيوى كا كام دوپہر كے بعد شروع ہوتاہے _ دوپہر كا كھانا بھى كھايا يا نہيں كھايا ، اٹھ كر كام ميں مشغول ہوجاتى ہے _ ليكن كام كوئي ايك دوتوہيں نہيں _ اپنے آپ كوگوناگوں كاموں كے انبار ميں گھر اپاتى ہے _ كيا كيا كرے اور كيانہ كرے _ مثلاً سبزياں صاف كرنا اور كاٹنا ہے_ آلو اور پياز سرخ كرنا ہے _ دال چننا ہے _ چاول چن كے بھيگنے كو ركھنا ہے _ گوشت كو صاف كركے قيمہ بنانا ہے _ دو تين قسم كے كھانے پكانا چاہتى ہے _ مرغ بھوننا ہے _ كباب بنانا ہے _ سالن پكانا ہے _ پلاؤ پكانا _ چائے كا سامان ٹھيك كرنا ہے _ برتن دھونا ہے _ ڈرائنگ روم كو ٹھيك ٹھاك كرنا ہے _ يہ سارے كام يا تو خود تنہا انجام دے يا كسى كى مدد لے بہر حال عجلت اور پريشانى كى حالت ميں كاموں ميں مشغول ہے _ مگر چھرى نہيں مل رہى ہے ادھر تلاش كرتى ہے _ سالن

۱۳۳

ہے تو ديكھتى ہے پياز نہيں _ چاول چڑھا ديا تو معلوم ہوانمك ختم ہوگيا ہے كسى كو نمك اور پياز خريدنے بھيجتى ہے _ كھانا پكانے كے لئے جس چيز كى ضرورت ہوتى ہے اس كو ڈھونڈنے ميں كچھ وقت صرف ہوتا ہے _ كبھى نوكر پر چيختى چلاتى ہے _ كبھى بيٹى كو ڈانٹتى پھٹكارتى ہے _ كبھى بيٹے كو برا بھلا كہتى ہے _ كھانا پكانے كے دوران اسٹو كاتيل يا گيس ختم ہوجاتى ہے _ اے خدا اب كيا كرے ؟

اسى حالت ميں دروازے كى گھنٹى بجتى ہے اور ايك ايك كركے مہمان آنا شروع ہوجاتے ہيں بيچارہ شوہر جو اپنى بيوى كى پريشانى اور اضطراب سے آگاہ ہے ، دھڑكتے دل سے مہمانوں كا استقبال كرتا ہے _ دعا سلام كے بعد چائے لانے جاتا ہے تو ديكھتا ہے ابھى تو چائے كا پانى بھى پكنے كو نہيں ركھا گيا ہے _ بيٹے يا بيٹى كو ڈانٹتا ہے كہ ابھى تك چائے كا پانى ابلنے كو كيوں نہيں ركھا گيا _ چائے تيار ہوئي تو معلوم ہوا كہ ابھى دودھ نہيں پكايا گيا ہے يا چائے كہ برتن نہيں نكالے گئے ہيں _ خداخدا كركے چند بار اندر باہر كے چكّر لگانے كے بعد چائے كى چند پيالياں مہمانوں كے سامنے ركھى جاتى ہيں _ نظريں مہمانوں پر ہيں ليكن دل باورچى خانے ميں لگا ہوا ہے كيونكہ معلوم ہے كہ باورچى خانہ ميں كيا ہنگامہ برپا ہے _

دوستوں كى پر لطف باتوں كا جواب پھيكى مسكراہٹ سے ديا جاتا ہے ليكن دل اس دعوت كے انجام سے خوفزدہ ہے _ سب سے بدتر توجب ہوتا ہے كہ مہمانوں ميں عورتيں بھى ہوں _ يا مدعو حضرات رشتہ داروں ميں سے ہوں ايسى حالت ميں ہر ايك مہمان پوچھتا ہے كہ آپ كى بيگم كہاں ہيں؟ شوہر جواب ديتا ہے كام ميں مشغول ہيں ، ابھى آتى ہيں _ كبھى بيوى مجبوراً كاموں كے بيچ ميں سے اٹھ كر ذرا دير كے لئے مہمانوں كے پاس چلى آتى ہے _ لرزتے دل اور خشك ہونٹوں كے ساتھ سلام اور مزاج پر سى كرتى ہے ليكن كيا كچھ دير ان كے پاس بيٹھ سكتى ہے ؟ فوراً عذركركے واپس آجاتى ہے _ آخر كار كھانا تيا رہوتا ہے ليكن وہ كھانے جو اس صورت سے تيار كئے گئے ہوں ان كا حال تو ظاہرہى ہے _ كھانا پكانے سے فرصت ملى تو اب سلام بنانے كا كام باقى ہے _ دہى كى بورانى بنانى ہے _ چٹنى اچاربرتنوں ميں نكالنا ہے _ كھانے كے برتنوں كو صاف كرنا ہے _ بدبختى تو يہ ہے كہ سامان اور برتنوں كى بھى كو ئي خاص جگہ نہيں ہے ہر چيز كو

۱۳۴

ادھر ادھر سے تلاش كرنا ہے _ خير صاحب كھانا لگايا جاتا ہے _ مہمان كھانا كھاكررخصت ہوتے ہيں _ ليكن نتيجہ كيا ہوتا _ كسى چيز ميں نمك تيز ہے كسى ميں نمك پڑاہى نہيں ہے _ كوئي چيز جل گئي _ كچھ كچارہ گيا _ گھبراہٹ كے مارے بعض ڈشنر كو لانا ہى بھول گئيں _ بيوى تقريباً بارہ بجے رات كو كاموں سے فراغت پاتے ہے ليكن تھكى پريشان _ دو پہر سے اب تك ايك لمحہ بھى سر اٹھانے كاموقعہ نہيں ملا _ اتنى بھى فرصت نہيں ملى كہ مہمانوں كے پاس بيٹھ كر ان سے ذرا دير باتيں كرتى _ حتى كہ ٹھيك سے سلام اور احوال پرسى بھى كرسكى ليكن مرد كو سوائے پريشانى اور غم و غصہ كے كچھ ہاتھ نہ لگا _ اتنا پيسہ خرچ كرنے كے بعد بھى كھانا ٹھيك سے نہيں پكا _ دعوت كركے پشيمانى اٹھانى پڑى ، ممكن ہے غم و غصہ كى شدت سے جھگڑا كرے اور تھكى ہارى بيوى كو سخت سست كہے _ اس طرح كى دعوت سے نہ صرف يہ كہ مياں بيوى كو كوئي فائدہ نہيں ہوتا بلكہ اكثر اوقات شديد اختلاف اور كشمكش كا باعث بنتا ہے اگر خيريت گزرگئي توطے كرليتے ہيں كہ آئندہ كبھى ايسا شوق نہيں كريں گے _

مہمان بھى چونكہ ميزبانوں كى پريشانى اور اضطرابى كيفيت سے باخبر ہوجاتے ہيں ان كو بھى اچھا نہيں لگتا اور كھانے پينے ميں ذرا بھى لطف نہيں آتا _ اپنے دل ميں كہتے ہيں كاش ايسى محفل ميں نہ آئے ہوتے بلاوجہ ہى ميزبان كو ہمارى وجہ سے پريشانى اٹھانى پڑى _

يقين سے قارئين كرام ميں سے كسى كو بھى ايسى دعوت اچھى نہيں لگے گى جو درد سر بن جائے اور آپ بھى اس ميں شركت سے گريز كريں گے _

كيا آپ جانتى ہيں ان تمام پريشانيوں كى وجہ كيا ہے ؟

اس كى وجہ صرف زندگى بدنظمى اور مہماندارى كے فن سے عدم واقفيت ہے ورنہ مہماندارى اتنا بھى دشوار كام نہيں ہے _

اب ايك اور نمونہ پر توجہ فرمايئے

مرد گھر ميں داخل ہوتا ہے بيوى سے كہتا ہے ميں نے جمعہ كى رات كو دس افراد كو كھانے كي

۱۳۵

دعوت دى ہے _ بيوى جواب ديتى ہے بہت اچھا كيا _ كيا كيا چيزيں تياركروں ؟ اس كے بعد دونوں باہم مشورہ كركے كھانے كى فہرست تيار كرتے ہيں اس كے بعد نہايت صبر و حوصلہ كے ساتھ دعوت كے لئے جن چيزوں كى ضرورت ہے اس كو مع مقدار كے ايك كا غذ پرنوٹ كرليتے ہيں _ ايك مرتبہ پھر اچھى طرح اس فہرست كو پڑھ ليتے ہيں كہ كہيں كوئي چيز رہ تو نہيں گئي _ دوبارہ اس كا جائزہ لينے كے بعد ان ميں سے جو چيزيں گھر ميں موجود ہيں ان كو كاٹ كر جن چيزوں كو خريدنا ہے اس كو ايك الگ كاغذ پر لكھ ليتے ہيں _ اولين فرصت ميں ان چيزوں كو خريد كرركھ ليتے ہيں ، جمعرات كے دن كہ ابھى مقررہ دعوت ميں ايك روز باقى ہے ، بعض كام انجام دے لئے ، مثلاً مياں بيوى اور بچوں نے فرصت كے وقت تعاون سے كام ليتے ہوئے گھر كى صفائي كر ڈالى _ سبزياں صاف كركے ركھ ليں _ چاول، دال كو چن ليا نمك دان ميں نمك بھر كے اس كى جگہ پر ركھ ديا _ ضرورت كے برتنوں كو نكال كے دھوليا _ مختصر يہ كہ جو كام پہلے سے انجام ديئےا سكتے ہيں ان كو تفريح كے طور پر سب نے مل كركرليا _ (بعض ڈشنر مثلاً فرينى يا دوسرى كوئي ميٹھى ڈش ايك دن پہلے تيار كركے فريج ميں ركھى جا سكتى ہے _ كبابوںكا قيمہ پيس كر فريج ميں محفوظ كيا جا سكتاہے ) جمعہ كى صبح كوناشتے سے فراغت كے بعد بعض كام انجام دے لئے مثلاً گوشت كے ٹكڑے كاٹ لئے _ مرغ كوصاف كركے بھوں ليا _ پياز كاٹ كے سرخ كرلى _ كھانوں كے مصالحے پيس لئے چاول بھكوديئے مختصر يہ كہ كچھ كام دو پہر سے پہلے انجام دے لئے _ ظاہر ہے ، جب يہ سارے كام صبر و حوصلے كے ساتھ انجام ديئےائيں گے تو بيوى كيلئے چنداں مشكل نہ ہوگى كہ باقى كاموں كو بھى انجام دے اور امور خانہ دارى كے دوسرے كاموں كو بھى آسانى سے كرسكے _ دو پہر كا كھانا كھانے كے بعد تھوڑا سا آرام كركے بقيہ كاموں ميں مشغول ہوگئيں _ كام زيادہ نہيں ہے كيونكہ اكثر كاموں كو توپہلے ہى كركے ركھ ليا ہے _ ساراسامان بھى ترتيب و سليقہ ہے ركھا ہے _ ايك دو گھنٹے كے اندر بغير كسى چيخ پكار اور دوڑبھاگ كے باقى كام انجام دے لئے _ اس طرح سے كہ رات كے لئے كوئي كام باقى نہ بچا _ اس كے بعد خود صاف ستھرے كپڑے پہن كرتيار ہوگئيں _ مہمانوں كے آنے كا وقت ہواتو پہلے سے چائے كا پانى ابلنے كو ركھديا _ اگر مہمان رشتہ دار اور محرم ہيں تو ان كے استقبال كيلئے خود آگے

۱۳۶

بڑھيں اور بغير كسى فكر و تردد كے ان كى خاطر مدارات ميں لگ گئيں _ بيچ ميں كبھى كبھى باورچى خانہ كا بھى ايك چكر لگاليا _ كھانے كے وقت نہايت اطمينان كے ساتھ سارا كھانا تيار ہے اگر ضرورى ہواتو شوہر اور بچوں سے بھى اس وقت مدد لے لى _ جلدى سے آسانى كے ساتھ كھانا چن ديا گيا _ مہمان بھى انتہائي خوشى و سكون كے ساتھ كھانا كھانے ميں لذت محسوس كريں گے اور اس طرح مسرت و انبساط كے ماحول ميں دعوت ختم ہوگئي _

نتيجہ : مہمان لذيذ اور مزيدار كھانوں كى لذت كے ساتھ ساتھ ، انس و محبت كى نعمت سے بھى لطف اندوز ہوں گے اور پر مسرت ماحول ميں فرحت حاصل كريں گے _ اس رات كى خوشگوار يادوں اور ميزبان كے بشاش چہرہ كو فراموش نہيں كريں گے _ ميزبانوں كى گرمجوشى اورخاتون خانہ كے سليقے كى تعريف كريں گے _ مياں بھى نہايت اطمينان و سكون كے چند گھنٹے مہمانوں كے ساتھ گزاركرسالم اور بہترين تفريح كرليتا ہے ،چونكہ اپنے دوستوں كى اچھى طرح سے خاطر مدارات كر سكاہے اس لئے خوش و خرّم ہے اور ايسى باسليقہ بيوى كے وجود پر جس نے اپنے ذوق و سليقہ سے ايسى عمدہ دعوت كا اہتمام كيا ہے فخركرتا ہے اور ايسى لائق بيوى اور گھر سے اس كى دلچسپى اور زيادہ بڑھ جاتى ہے _

بيوى نے بھى چونكہ صبر و سكون كے ساتھ دعوت كا انتظام كيا تھا اس لئے وہ بھى تھكن سے چور، چور نہيں ہے غصہ اور پريشانى كے عالم ميں نہيں ہے اپنے شوہر اور مہمانوں كے سامنے سربلند ہے اور خوش ہے كہ بغير كسى پريشانى اور الجھن كے مہمانوں كى اچھى طرح سے خاطر تواضع كى گئي _ اپنى لياقت اور سليقے كا ثبوت دے كر اپنے شوہر كے دل كو اپنے بس ميں كرليتى ہے _ ان دونوں نموں كو ملاحظہ كرنے كے بعد آپ غور كريں كہ كون سا طريقہ كا رد رست تھا اور آپ كس كا انتخاب كريں گى _

امين خانہ

گھر كے اخراجات كا انتظام عموماً مرد كے ذمہ ہوتا ہے _ مرد شب و روز محنت كركے اپنے خاندان كى ضروريات پورى كرتا ہے _ اس دائمى بيگارى كو ايك شرعى اور انسانى فريضہ سمجھ كروں و جان

۱۳۷

سے انجام ديتا ہے _ اپنے خاندان كے آرام و آسائشے كى خاطر ہر قسم كى تكليف و پريشانى كو خندہ پيشانى سے برداشت كرتا ہے اور ان كى خوشى ميں لذت محسوس كرتا ہے _ ليكن گھر كى مالكہ سے توقع ركھتا ہے كہ پيسے كى قدروقيمت سمجھے اور بيكار خرچ نہ كرے _ اس سے توقع كرتا ہے كہ گھركے اخراجات ميں نہايت دل سوزى اور عاقبت انديشى سے كام لے _ يعنى زندگى كى ضروريات اور اہم چيزوں كى درجہ بندى كركے ، ضرورى خرچوں مثلاً خوراك ، ضرورى پوشاك ، مكان كا كرايہ ، سجلى ، پانى ڈاكٹر و دوا كے اخراجات كو تمام دوسرے امور پر ترجيح دے اور نيم ضرورى چيزوں مثلاً گھر كے سامان و غيرہ كو دوسرے نمبر پر ركھے اور غير ضرورى چيزوں كو تيسرے نمبر پرركھے ، فضول خرچى ، اسراف اور بيجا بخششوں كو وہ ايك قسم كى ناقدرى اور ناشكرى سمجھتا ہے _

مرد كو اگر بيوى پر اعتماد ہوجائے اور سمجھ لے كہ اس كى محنت كى كمائي كو فضول خرچيوں ميں نہيں اڑايا جائے گا تووہ فكر معاش اور آمدنى بڑھانے ميں زيادہ دلچسپى لے گا اور خود بھى تن پرورى اور فضول خرچى سے گريز كرے گا ليكن اگر اپنى محنت كى كمائي كو برباد ہوتے ديكھتا ہے كہ گھر والى غير ضرورى لباس اور اپنى آرائشے اور زيب وزينت كے اسباب كو تمام ضرورى چيزوں پر مقدم سمجھتى ہے اور مشاہدہ كرتا ہے كہ رات دن محنت كركے جو كچھ كماكرلاتاہے وہ غير ضرورى اشياء پر خرچ ہوجاتا ہے اور ضرور ى اخراجات كے لئے ہميشہ پريشان رہنا پڑتا ہے اور قرض لينے كى نوبت آجاتى ہے اور اس كى خون پسينے كى كمائي مال غنيمت كى طرح بيوى بچوں كے ہاتھوں لٹا ى جارہى ہے ايسى صورت ميں گھر پر سے اس كا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور محنت مشقت كرنے سے بيزار ہوجاتا ہے _ اپنے دل ميں سوچتا ہے كہ كوئي ضرورت ہى نہيں ہے كہ ميں اس قدر زحمت اٹھاكركماكے لاؤں اورناقدرى كرنے والوں كے حوالے كردوں كہ فضول خرچيوں ميں پيسے اڑاديں _ ميں ضروريات زندگى مہيا كرنے اور عزت و آبرو قائم ركھنے كے لئے محنت كرتا ہوں ليكن ميرے گھروالوں كو سوائے فضول خرچى اور ہوا وہوس كے اور كچھ فكر ہى نہيں ہے _

۱۳۸

ممكن ہے رفتہ رفتہ افكار كے نتيجہ ميں وہ بھى عياشى اور فضول خرچى كرنے لگے اور آپ كى زندگى كا شيرازہ بكھر جائے

خواہر عزيز اگر آپ كا شوہر جو كچھ كماكرلاتاہے وہ سب آپ كے حوالے كرديتا ہے تو يہ نہ سمجھئے كہ اس كى حقيقى مالك آپ ہوگئيں _ بلكہ شرعاً اور قانوناً آپ كا شوہر مالك ہے _ آپ گھر كى امين ہيں اس لئے تمام اخراجات اس كى مرضى و اجازت سے انجام پانے چائيں _ اس كى مرضى كے بغير آپ كو حق نہيں كہ كسى كو كوئي چيز دے ديں يا كسى كے يہاں تحفہ و سوغات لے جائيں _ حتى كہ اپنے يا اس كے رشتہ داروں كو بھى اس كى مرضى كے بغير تحفے تحائف نہ ديں _ آپ اپنے خاندان كى امانت دار ہيں اور اس سلسلے ميں آپ پر ذمہ دارى عائد ہوتى ہے اگر آپ خيانت كريں گى تو روز قيامت اس سلسلے ميں آپ سے بازپرس ہوگى _

پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : بيوى اپنے شوہر كے اموال كى نگہبان اور امانت دار ہوتى ہے اور اس سلسلے ميں اس كى ذمہ دارى ہوتى ہے _ (۱۳۱۶)

ايك امور موقع پر آپ ارشاد فرماتے ہيں : تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جو اپنے بدن ميں خوشبو لگائے _ مزيدار كھانے تيار كرے _ گھر كے اخراجات ميں كفايت شعارى سے كام لے _ ايسى خاتون كا شمار خدا كے كاركنوں اور عمال ميں ہوگا اور جو شخص خدا كے لئے كام كرے اسے ہرگز شكست اور پشيمانى كا سامنا نہيں كرنا پڑے گا _(۱۳۷)

ايك عورت نے حضرت رسول خدا (ص) سے سوال كيا كہ شوہر كے تئيں بيوى كے كيا فرائض ہيں؟ آپ نے فرمايا: ا س كى مطيع ہو _ اس كے كہنے كى خلاف ورزى نہ كرے اور بغير اس كى اجازت كے كوئي چيز كسى كو نہ دے _(۱۳۸)

آنحضرت (ص) كا ارشاد گرامى ہے : تم ميں سے بہترين عورت وہ ہے جو كم خرچ ہو _(۱۳۹)

خواتين كے مشاغل

يہ صحيح ہے كہ خاندان كے اخراچات پورے كر نا مردوں پرواجب ہے اور خواتين كى اس سلسلے ميں شرعاً كوئي ذمہ دارى نہيں ہے ليكن عورتوں كو بھى كوئي نہ كوئي كام يا مشغلہ اپنانا چاہئے _

۱۳۹

اسلام ميں بيكار اور خالى بيٹھے رہنے كى مذمت كى گئي ہے _

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں : خداوند عالم زيادہ سونے اور زيادہ فراغت كو ناپسند فرماتا ہے _(۱۴۰)

امام جعفر صادق عليہ السلام ايك اور موقعہ پر فرماتے ہيں : زيادہ نيند ، انسان كے دين ودنيا كو تلف كرديتى ہے _(۱۴۱)

خواتين عالم كى سردار حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا بھى گھر ميں كام كرتى تھيں اور محنت مشقّت كرتى تھيں _(۱۴۲)

انسان خواہ ضرورت مند ہو يا آسودہ حال ، اس كو كسى نہ كسى كام اور مشغلے ميں لگے رہنا چاہئے ، اور اپنے اوقات كو بيكار و بے مصرف برباد نہيں كرنا چاہئے ، بلكہ كام كرے اور دنيا كو آباد كرے اگر ضرورت مند ہے تو اپنى آمدنى كو اپنے گھريلو اخراجات پر خرچ كرے اور اگر ضرورتمند و نادار نہيں ہے تو حاجتمند وں كى امداد اور نيك كاموں ميں خرچ كرے _ بيكاري، تھكن او ررنج و غم پيد اكرتى ہے _ بہت سى جسمانى و نفسياتى بيمارياں اور اخلاقى بدعنوانياں اسى كے سبب ظہور ميں آتى ہيں _

خواتين كے بہترين مشغلے ، گھر كر ہستى كے كام، شوہر كى ديكھ بھال ، اور بچوں كى پرورش و غيرہ جيسے امور ہيں جو كہ گھر كے اندر ہى انجام پاتے ہيں _ ہنرمند خواتين اپنے حسن تدبر اور سليقے سے اپنے گھر كو بہشت برين ، نيك بچوں كى تعليم و تربيت گاہ اور زندگى كى دوڑ ميں مشغول اپنے محنتى شوہر كے لئے بہترين آسائشے گاہ بنا سكتى ہيں اور يہ كام نہيات عظيم اور قابل احترام ہے _

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں : عورت كا جہا د يہى ہے كہ وہ شوہر كى ديكھ بھال اچھى طرح كرے _(۱۴۳)

حضرت ام سلمہ نے آنحضرت (ص) سے پوچھا كہ : عورت كے گھر ميں كام كرنے كى كس قدر فضيلت ہے ؟

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

کسریٰ نے دوسرے افراد سے سوال کیا : کیا یہ سچ کہہ رہا ہے ؟

انھوں نے جواب میں کہا: ہاں :

اس کے بعد عاصم نے مٹی کو اپنے کندھوں پر رکھ کر کسریٰ کے محل کو ترک کیا اور فورا ًاپنے گھوڑے کے پاس پہنچ کر مٹی کو گھوڑے پر رکھ کر دیگر افراد سے پہلے تیز ی کے ساتھ اپنے آپ کو سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا دیا ۔اور دشمن پر کامیابی پانے کی نوید دیتے ہوئے کہا: خدا کی قسم ،بیشک خدائے تعالیٰ نے ان کے ملک کی کنجی ہمیں عنایت کردی ۔جب عاصم کے اس عمل اور بات کی اطلاع ایرانی فوج کے سپہ سالاررستم کو ملی تو رستم نے اسے بدشگونی سے تعبیر کیا ۔

یہاں پر یعقوبی نے سیف کی بات کو حق سمجھ کر اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس داستان کو اپنی تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔

لیکن اس سلسلے میں بلاذری لکھتا ہے :

عمر نے ایک خط کے ذریعہ سعد وقاص کو حکم دیا کہ چند افراد کو کسریٰ کی خدمت میں مدائن بھیجے تاکہ وہ اسے اسلام کی دعوت دیں ،سعد نے خلیفہ عمر کے حکم پر عمل کرتے ہوئے عمروابن معدی کرب اور اشعث بن قیس کندی کہ دونوں قحطانی یمانی تھے کو ایک گروہ کے ہمراہ مدائن بھیجا ۔ جب یہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے کیمپ کے نزدیک سے گزررہے تھے تو ایرانی محافظوں نے انھیں اپنے کمانڈر انچیف رستم کی خدمت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی ۔رستم نے ان سے پوچھا : کہاں جا رہے تھے اور تمھارا ارادہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : کسریٰ کی خدمت میں مدائن جا رہے تھے

بلازری لکھتا ہے :

ان کے اور رستم کے درمیان کافی گفتگو ہوئی ۔اس حد تک کہ انھوں نے کہا :

پیغمبر خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہمیں نوید دی ہے کہ تمھاری سرزمین کو ہم اپنے قبضے میں لے لیں گے رستم نے جب ان سے یہ بات سنی تو حکم دیا کہ مٹی سے بھری ایک زنبیل لائی جائے ۔اس کے بعد ان سے مخاطب ہو کر کہا:یہ ہمارے وطن کی مٹی ہے تم لوگ اسے لے جائو ۔رستم کی یہ بات سننے کے بعد عمرو بن معدی کرب فورا ًاٹھا اپنی رد ا پھیلا دی اور مٹی کو اس میں سمیٹ کر اپنے کندھوں پر لئے ہوئے وہاں سے چلا ۔اس کے ساتھیوں نے اس سے سوال کیا کہ کس چیز نے تمھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ اس نے جواب میں کہا : رستم نے جوعمل انجام دیا ہے اس سے میرے دل نے گواہی دی کہ ہم ان کی سر زمین پر قبضہ کر لیں گے اور اس کا م میں کامیاب ہوں گے ۔

۳۰۱

سند کی تحقیق :

اس داستان کی سند میں دو راویوں کے نام اس طرح آئے ہیں '' عن بنت کیسان الضبیة عن بعض سبا یا القاد سیہ ممن حسن اسلامہ ''(۱) یعنی کیسان ضبیی کی بیٹی سے اس نے جنگ قادسیہ کے ایک ایرانی اسیر سے روایت کی ہے ۔جس نے اسلام قبول کیا ۔

اب ہم سیف سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیسان کی بیٹی کا کیا نام تھا؟ خود کیسان کون تھا؟ ایک ایرانی اسیر کا اس کے خیال میں کیا نام ہے ؟ تاکہ ہم راویوں کی کتاب میں ان کو ڈھونڈ نکالتے !!

تحقیق کا نتیجہ اور داستان کا ماحصل:

سعد وقاص ،عمرو ابن معدی کرب اور اشعث بن قیس قندی کہ دونوں قحطانی یمانی

تھے و چند افراد کے ہمراہ ایلچی کے طور پر کسریٰ کے پاس بھیجا ہے کہ ان لوگوں کی راستے میں ایرانی فوج کے کمانڈرانچیف رستم فرخ زاد سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ،ان کے اور رستم کے درمیان گفتگو ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں عمرو ایران کی سرزمین کی مٹی بھری ایک زنبیل لے کر واپس ہوتا ہے ۔سیف بن عمرتمیمی خاندانی تعصب کی بنا پر یہ پسند نہیں کرتا کہ اس قسم کی مسئولیت خاندان قحطانی یمانی کا کوئی فرد انجام دے جس سے سیف عداوت و دشمنی رکھتا ہے ۔اس لئے اس کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگتاہے اورحسب سابق حقائق میں تحریف کرتا ہے ۔اس طرح قبیلہ مضرکے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو ان دو افراد کی جگہ پر رکھ کر اس گروہ کے ساتھ دربار کسریٰ میں بھیجتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے

____________________

الف )۔ تاریخ طبری طبع یورپ (٢٢٣٨١ ٢٢٤٥)

۳۰۲

کہ اس کے اور کسریٰ کے درمیان گفتگو ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں کسریٰ کے ہاں سے مٹی اٹھا کر لانا عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے دشمن پر فتحیابی کا فال نیک ثابت ہو تاہے ۔

سیف خاندانی تعصب کی بناء پر ایک تاریخی حقیقت میں تحریف کرکے عمرو بن معدی کرب جیسے یمانی و قحطانی فرد کی ماموریت ،جرأت اور شجاعت کو قلم زد کردیتا ہے اور اس کی جگہ پر قبیلہ مضر کے اپنے افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کو رکھ دیتا ہے ۔ایرانی فوج کے کمانڈر انچیف رستم فرخ زاد کے پاس منعقد ہونے والی مجلس و گفتگو کو کسریٰ کے دربار میں لے جاکر رستم کے حکم کو کسریٰ کے حکم میں تبدیل کردیتا ہے اور اس طرح کے افسانے جعل کرکے محققین کو حیرت اور تشویش سے دو چار کرتا ہے

عاصم کی تقریر

طبری نے قادسیہ کی جنگ کے آغاز میں سیف سے یوں نقل کیا ہے:

اسلامی فوج کے کمانڈرانچیف سعد وقاص نے اپنی فوج میں ایک گروہ کو حکم دیا کہ نہر ین کے آبادی والے علاقوں پر حملہ کریں ۔اس گروہ کے افراد نے حکم کی تعمیل کی اور اچانک حملہ کرکے اپنے کیمپ سے بہت دور جا پہنچے ۔اس حالت میں ایک ایرانی فوج کے سوار دستہ سے دو چار ہوئے اور یہ محسوس کیا کہ اب نابودی یقینی ہے ۔جوں ہی یہ خبر سعد وقاص کو ملی تواس نے فوراً عاصم بن عمرو تمیمی کو ان کی مدد کے لئے روانہ کیا ۔ایرانیوں نے جوں ہی عاصم کو دیکھا تو ڈر کے مارے سب فرار کر گئے !! جب عاصم اسلامی سپاہ کے پاس پہنچا تو اس نے حسب ذیل تقریر کی :

'' خدائے تعالیٰ نے یہ سرزمین اور اس کے رہنے والے تمھیں عطا کئے ہیں ، تین سال سے تم اس پر قابض ہو اور ان کی طرف سے کسی قسم کا صدمہ پہنچے بغیر ان پر حکمرانی اور برتری کے مالک ہو''

اگر صبر و شکیبائی کو اپنا شیوہ بنا کر صحیح طور پر جنگ کروگے اور اچھی طرح تلوار چلائوگے اور خوب نیزہ اندازی کروگے تو خدا ئے تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے ،اس صورت میں ان کا مال و منال ، عورتیں ، اولاد اور ان کی سر زمین سب تمھارے قبضہ میں ہوگی ۔

۳۰۳

لیکن اگر خدا نخواستہ کسی قسم کی کوتاہی اور سستی دکھائو گے تو دشمن تم پر غالب آجائے گا اور اس ڈر سے کہ کہیں تم لوگ دو بارہ منظم ہوکر ان پر حملہ کرکے ان کو نیست و نابود نہ کر دو ،انتہائی کوشش کرکے تم میں سے ایک آدمی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے ۔

اس بنا پر خدا کو مد نظر رکھو ،اپنے گزشتہ افتخارات کو یاد رکھو اور خدا کی عنایتوں کو ہر گز نہ بھولو ۔ اپنی نابودی اور شکست کے لئے دشمن کو کسی صورت میں بھی فرصت نہ دو ۔کیا تم اس خشک و بنجر سرزمین کو نہیں دیکھ رہے ہو ۔نہ یہاں پر کوئی آبادی ہے اور نہ پناہگاہ کہ شکست کھانے کی صورت میں تمھارا تحفظ کر سکے ؟ لہٰذا ابھی سے اپنی کوشش کو آخرت اور دوسری دنیا کے لئے جاری رکھو ۔

ایک اور تقریر

طبری سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

سعد وقاص نے دشمن سے نبرد آزمائی کے لئے چند عقلمند اور شجاع افراد کا انتخاب کیا جن میں عاصم بن عمرو بھی شامل تھا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:

''اے عرب جماعت !تم لوگ قوم کی معروف اور اہم شخصیتیں ہو جو ایران کی معروف اور اہم شخصیتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے منتخب کئے گئے ہو ،تم لوگ بہشت کے عاشق ہو جب کہ وہ دنیا کی ہو او ہوس اور زیبائیوں کی تمناّ رکھتے ہیں ۔ اس مقصد کے پیش نظر ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے دنیوی مقاصد میں تمھارے اخروی مقاصد کے مقابلے میں بیشتر تعلق خاطر رکھتے ہوں !تو اس صورت میں ان کی دنیا تمھاری آخرت سے زیادہ زیبا و آباد ہوگی ۔''

لہٰذا آج ایسا کام نہ کرناجو کل عربوں کے لئے ننگ و شرمندگی کا سبب بنے !

جب جنگ شروع ہوئی تو عاصم بن عمرو تمیمی حسب ذیل رجز خوانی کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف حملہ آور ہوا ۔

سونے کی مانند زرد گردن والا میرا سفید فام محبوب اس چاندی کے جیسا ہے جس کا غلاف سونے کا ہو ۔وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ایک ایسامرد ہوں جس کا تنہا عیب دشنامی ہے ۔اے میرے دشمن !یہ جان لو کہ ملامت سننا مجھے تم پر حملہ کے لئے بھڑکاتاہے ۔''

۳۰۴

اس کے بعد ایک ایرانی مرد پر حملہ آور ہوا، وہ مرد بھاگ گیا ،عاصم نے اس کا پیچھا کیا ، حتی وہ مرد اپنے سپاہیوں میں گھس گیا اور عاصم کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔عاصم اس کا تعاقب کرتے ہوئے دشمن کے سپاہیوں کے ہجوم میں داخل ہوا اور اس کا پیچھا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ اس کی ایک ایسے سوارسے مڈبھیڑ ہو ئی جو ایک خچر کی لگام پکڑکر اسے اپنے پیچھے کھینچ رہا تھا سوار نے جب عاصم کو دیکھا تو خچر کی لگام چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو سپاہیوں کے اندر چھپا دیا انھوں نے بھی اسے پناہ دے دی عاصم خچر کو بار کے سمیت اپنی سپاہ کی طرف لے چلا اس خچر پر لدا ہو ابار ، ایرانی کمانڈرانچیف کے لئے انواع و اقسام کے کھانے ، جیسے حلوا ،شہد اور شربت وغیرہ تھے معلوم ہوا کہ وہ آدمی کمانڈر انچیف کا خانساماں تھا ۔

عاصم نے کھانوں کو سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا اور خود اپنی جگہ لوٹا ۔ سعد وقاص نے انھیں دیکھ کر حکم دیا کہ تمام مٹھائیوں کو عاصم کے افراد میں تقسیم کر دیا جائے اور انھیں پیغام بھیجا کہ یہ تمھارے سردار نے تمھارے لئے بھیجا ہے،تمھیں مبارک ہو!

۳۰۵

ارماث کادن

سیف کی روایت کے مطابق : عاصم کی تقریر کے بعد قادسیہ کی جنگ شروع ہو گئی یہ جنگ تین دن تک جاری رہی اور ہر دن کے لئے ایک خاص نام رکھا گیا ،اس کے پہلے دن کا نام '' ارماث'' تھا۔(۱)

طبری نے سیف سے روایت کرکے ارماث کے دن کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اس دن ایرانی پوری طاقت کے ساتھ اسلامی فوج پر حملے کر رہے تھے اور جنگ کے شعلے قبیلہ اسد کے مرکز میں بھڑک اٹھے تھے ،خاص کر ایران کے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کی سوار فوج کا شیرازہ بالکل بکھر چکا تھا ۔سعد وقاص نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے عاصم بن عمرو کو پیغام بھیجا کہ : کیا تم تمیمی خاندان کے افراد اتنے تیز رفتار گھوڑوں اور تجربہ کار اور کارآمد اونٹوں کے باوجود دشمن کے جنگی ہاتھیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے ؟ قبیلہ تمیم کے لوگوں نے اور ان کے آگے آگے اس قبیلہ کے جنگجو پہلوان اور شجاع عاصم بن عمرو نے سعد کے پیغام کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا: جی ہاں !خد اکی قسم ہم یہ کان انجام دے سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کا م کے لئے کھڑے ہوگئے

عاصم نے قبیلہ تمیم میں سے تجربہ کار اور ماہر تیر انداز وں اور نیزہ بازوں کے ایک گروہ کا انتخاب کیا اور جنگی ہاتھیوں سے جنگ کرنے کی حکمت عملی کے بارے میں یوں تشریح کی :

تیر اندا ز قبیلہ تمیم کے نیزہ بازوں کی مدد کریں ،ہاتھی بان اور ہاتھیوں پر تیروں کی بوچھار کریں گے اور نیزہ باز جنگی ہاتھیوں پرپیچھے سے حملہ کریں گے اور ہاتھیوں کی پیٹیاں کاٹ کر ان کی پیٹھ پر موجود کجاوے الٹ کر گرا دیں ،عاصم نے خود دونوں فوجی دستوں کی قیادت سنبھالی ۔

____________________

الف )۔ قعقاع کی داستان میں ان تین دنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

۳۰۶

قبیلہ اسد کے مرکز میں جنگ کے شعلے بدستور بھڑک رہے تھے ۔میمنہ اور میسرہ کی کوئی تمییز نہیں کر سکتا تھا ۔عاصم کے جنگجو ئوں نے دشمن کے ہاتھیوں کی طرف ایک شدید حملہ کیا ۔اس طرح ایک خونین جنگ چھڑ گئی عاصم کے افراد ہاتھیوں کی دموں او ر محمل کے غلاف کی جھالروں سے آویزاں ہو کر ان پر حملے کر رہے تھے اور بڑی تیزی سے ان کی پیٹیاں کاٹ رہے تھے اور دوسری طرف سے تیر انداز اور نیزہ باز بھی ہاتھی بانوں پر جان لیوا حملے کر رہے تھے اس دن (ارماث کے دن) دشمن کے ہاتھیوں میں سے نہ کوئی ہاتھی زندہ بچا او ر نہ ہاتھی سوار اور کوئی محمل بھی باقی نہ بچی ۔خاندان تمیم کے تجربہ کار تیر اندازوں کی تیر اندازی سے دشمن کے تمام ہاتھی اور ہاتھی سوار بھی نابود ہوئے اور اس طرح جنگی ہاتھیوں کے اس محاذ پر دشمن کو بری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی وقت دشمن کے جنگی ہاتھی غیر مسلح ہوئے اور خاندان اسد میں جنگ کے شعلے بھی قدر ے بجھ گئے ۔سوار فوجی اس گرماگرم میدان جنگ سے واپس آرہے تھے ۔اس دن عاصم لشکر اسلام کا پشت پناہ تھا۔

قادسیہ کی جنگ کے اس پہلے دن کا نام ''ارماث'' رکھا گیا ہے ۔اسی داستان کے ضمن میں سیف کہتا ہے :

جب سعد وقاص کی بیوی سلمیٰ جو پہلے مثنی کی بیوی تھی نے ایرانی فوج کے حملے اور ان کی شان وشوکت کا قبیلہ اسد کے مرکز میں مشاہدہ کیا تو فریاد بلند کرکے کہنے لگی:کہاں ہو اے مثنی ! ان سواروں میں مثنی موجود نہیں ہے ،اس لئے اس طرح تہس نہس ہورہے ہیں ،اگر ان میں مثنی ہوتا تو دشمن کو نیست ونابود کرکے رکھ دیتا!

سعد ،بیمار اور صاحب فراش تھا،اپنی بیوی کی ان باتوں سے مشتعل ہوا اور سلمیٰ کو ایک زور دار تھپڑ مار کے تند آواز میں بولا : مثنی کہاں اور یہ دلیر چابک کہاں !جو بہادری کے ساتھ میدان جنگ کو ادارہ کر رہے ہیں ۔سعد کا مقصود خاندان اسد ،عاصم بن عمرو اور خاندان تمیم کے افراد تھے ۔

۳۰۷

یہ وہ مطالب تھے جنھیں طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرکے روز '' ارماث'' اور اس دن کے واقعات کے تحت درج کیا ہے ۔

حموی لفظ ''ارماث'' کی تشریح میں قمطراز ہے :

گویا ''ارماث'' لفظ ''رمث'' کی جمع ہے ۔یہ ایک بیابانی سبزی کا نام ہے ۔

بہر حال ''ارماث'' جنگ قادسیہ کے دنوں میں سے پہلا دن ہے۔ عاصم بن عمرو اس کے بارے میں اس طرح شعر کہتا ہے :

'' ہم نے ''ارماث '' کے دن اپنے گروہ کی حمایت کی اور ایک گروہ نے اپنی نیک کارکردگی کی بناء پر دوسرے گروہ پر سبقت حاصل کی ''

یہ ان مطالب کا خلاصہ تھا جنھیں سیف نے ''ارماث'' کے دن کی جنگ اور عاصم کی شجاعت کے بارے میں ذکر کیاہے ۔دوسرے دن کو روز ''اغواث'' کا نام رکھا گیا ہے ۔

روز ''اغواث''

روز ''اغواث''کے بارے میں طبری نے قادسیہ کی جنگ کے دوسرے دن کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس دن خلیفہ عمر بن خطاب کی طرف سے ایک قاصد ،چار تلوار یں اور چار گھوڑے لے کر جنگ قادسیہ کے کمانڈرانچیف سعد وقاص کی خدمت میں پہنچا کہ وہ انھیں بہترین جنگجوئوں اور مجاہدوں میں تحفے کے طور پر تقسیم کرے ۔سعد نے ان میں سے تین تلوار یں قبیلہ اسد کے دلاوروں میں تقسیم کیں اور چوتھی تلوار عاصم بن عمرو تمیمی کو تحفے کے طور پر دی اور تین گھوڑے خاندان تمیم کے پہلوانوں میں تقسیم کئے اور چوتھا گھوڑا بنی اسد کے ایک سپاہی کو دیا ۔اس طرح عمر کے تحفے صرف اسد اور تمیم کے دو قبیلوں میں تقسیم کئے گئے ۔

۳۰۸

روز'' عماس''

جنگ قادسیہ کا تیسرا دن ''عماس'' ہے۔

طبری '' عماس'' کے دن کے جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرکے یوں بیان کرتا ہے :

قعقاع نے روز '' عماس'' کی شام کو اپنے سپاہیوں کو دوست و دشمنوں کی نظروں سے بچاکر مخفی طور سے اسی جگہ لے جاکر جمع کیا ،جہاں پر روز ''اغواث''کی صبح کو اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے دس دس افراد کی ٹولیوں میں تقسیم کرکے میدان جنگ میں آنے کا حکم دیا تھا ۔فرق صرف یہ تھا کہ اب کی بار حکم دیا کہ پو پھٹتے ہی سو ،سو افراد کی ٹولیوں میں سپاہی میدان جنگ میں داخل ہوں تاکہ اسلام کے سپاہی مدد پہنچنے کے خیال سے ہمت پیدا کر سکیں او ر دشمن پر فتح پانے کی امید بڑھ جائے ،قعقاع کے بھائی عاصم نے بھی اپنے سواروں کے ہمراہ یہی کام انجام دیا اور ان دو تمیمی بھائیوں کی جنگی چال کے سبب اسلام کے سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔

سیف کہتا ہے : ''عماس'' کے دن دشمن کے جنگی ہاتھیوں نے ایک بار پھر اسلامی فوج کی منظم صفوں میں بھگدڑ مچا کر '' ارماث'' کے دن کی طرح اسلامی فوج کے شیرازہ کو بکھیر کر رکھ دیا ۔سعد نے جنگی ہاتھیوں کے پے در پے حملوں کا مشاہدہ کیا ،تو خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو بھائیوں قعقاع و عاصم ابن عمرو کو پیغام بھیجا اور ان سے کہا کہ سر گروہ اور پیش قدم سفید ہاتھی کا کام تمام کرکے اسلام کے سپاہیوں کو ان کے شر سے نجات دلائیں ۔کیوں کہ باقی ہاتھی اس سفید ہاتھی کی پیروی میں آگے بڑھ رہے تھے ۔

قعقاع اور عاصم نے دشمن کے جنگی ہاتھیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا انھوں نے دو محکم اور نرم نیزے اٹھالئے اور پیدل اور سوار فوجوں کے بیچوں بیچ سفید ہاتھی کی طرف دوڑ ے اور اپنے سپاہیوں کو بھی حکم دیا کہ چاروں طرف سے اس ہاتھی پر حملہ کرکے اسے پریشان کریں جب وہ اس ہاتھی کے بالکل نزدیک پہنچے تو اچانک حملہ کیا اور دونوں بھائیوں نے ایک ساتھ اپنے نیزے سفید ہاتھی کی آنکھوں میں بھونک دئے ۔ہاتھی نے درد کے مارے تڑپتے ہوئے اپنے سوار کو زمین پر گرا دیا اور زور سے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے اپنی سونڈ اوپر اٹھا ئی اور ایک طرف گر گیا ۔قعقاع نے تلوار کی ایک ضرب سے اس کی سونڈ کاٹ ڈالی ۔

۳۰۹

سیف نے عاصم بن عمرو کے لئے '' لیلة الھریر '' سے پہلے اور اس کے بعد کے واقعات میں بھی شجاعتوں ،دلاوریوں کی داستانیں گڑھی ہیں اور ان کے آخر میں کہتا ہے :

جب دشمن کے سپاہیوں نے بری طرح شکست کھائی اور مسلمان فتحیاب ہوئے تو ایرانی فوجی بھاگ کھڑے ہوئے ۔بعض ایرانی سردار وں اور جنگجوئوں نے فرار کی ذلت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی جگہ پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ان کے ہی برابر کے چند مشہور اور نامور عرب سپاہی ان کے مقابلے میں آئے اور دوبارہ دست بدست جنگ شروع ہوئی ۔ان مسلمان دلاوروں میں دو تمیمی بھائی قعقاع اور عاصم بھی تھے ۔عاصم نے اس دست بدست جنگ میں اپنے ہم پلہ ایک نامور ایرانی پہلوان زاد بھش ،جو ایک نامور اوربہادر ایرانی جنگجو تھا ،کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٦ اور اسی طرح قعقاع نے بھی اپنے ہم پلہ پہلوان کو قتل کر ڈالا۔

تاریخ اسلام کی کتابوں میں اس داستان کی اشاعت :

جو کچھ یہاں تک بیان ہو ا یہ سیف کی وہ باتیں تھیں جو اس نے ناقابل شکست پہلوان ، شہسوار،دلیر عرب، شجاع، قعقاع بن عمرو تمیمی نامی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی نامور سیاستداں اور جنگی میدانوں کے بہادر اس کے بھائی اور صحابی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عاصم بن عمر تمیمی کے بارے میں بیان کی ہیں ۔سیف بن عمر تمیمی کے ان دو افسانوی بھائیوں جو سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں کی داستانوں کو امام المؤرخین طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب میں درج کیا ہے ، اور اس کے بعد دوسرے مورخین ،جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی ان روایتوں کی سند کا اشارہ کئے بغیر طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ اس طرح ابن کثیر نے اس داستان کو طبری سے نقل کرتے ہوئے گیارہ جگہوں پر سیف کا نام لیا ہے ۔

۳۱۰

سند کی تحقیق :

ان داستانوں کی سند میں جند راوی مثل نضربن سری تین روایتوں میں ،ابن رخیل اور حمید بن ابی شجار ایک ایک روایت میں ذکر ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ محمد اور زیادہ کا نام بھی راویوں کے طور پر لیا گیا ہے ۔ان سب راویوں کے بارے میں ہم نے مکرر لکھا ہے کہ وہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے جعلی راوی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ

یہاں تک ہم نے عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں '' گائے کادن '' اور قاسیہ کی جنگ کے تین دنوں کے بارے میں پڑتال کی اور حسب ذیل نتیجہ واضح ہوا :

سیف منفرد شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ علاقۂ میسان کے کچھار میں گائے نے عاصم بن عمرو سے گفتگو کی اور حجاج بن یوسف ثقفی کی تحقیق کو اس کی تائید کے طور بیان کرتا ہے حجاج بن یوسف ثقفی برسوں بعد اس داستان کے بارے میں تحقیق کرتا ہے،عینی شاہد اس کے سامنے شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ داستان بالکل صحیح ہے اور اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں ہے اگرچہ آپ اسے با ور نہ کریں گے ،کیوں کہ اگر ہم بھی آپ کی جگہ پر ہوتے اور ایسی داستان سنتے تو ہم بھی یقین نہ کرتے ۔اس وقت حجاج اس مرد خدا (عاصم) اور کامل روحانی شخص جس کی تلاش اسے پہلے ہی سے تھی کے بارے میں سر ہلاتے ہوئے تصدیق کرتا ہے اور خاص کر تاکید کرتا ہے کہ وہ تمام افراد جنھوں نے جنگ قادسیہ میں شرکت کی ہے ،وقت کے پارسااور نیک افراد تھے ۔یہ سب تاکید پر تاکید گفتگو ،تائید و تردید اس لئے ہے کہ سیف بن عمر جس نے تن تنہا اس افسانہ کو جعل کرکے نقل کیا ہے ،دوسروں کو قبول کرائے کہ یہ واقعہ افسانہ نہیں ہے اور کسی کے ذہن کی تخلیق نہیں ہے اور اس قصہ میں کسی قسم کی بد نیتی اورخود غرضی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت تھی جو واقع ہوئی ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس قسم کے افسانوں کو طبری کی کتاب تاریخ میں پڑھیں اور یقین کریں کہ طبری کے تمام مطالب حقیقت پر مبنی ہیں ۔نتیجہ کے طور پر اسلام کے حقائق آیات الٰہی اور پیغمبروںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معجزات کا آسانی کے ساتھ انکار کرنا ممکن ہو جائے گا اور ایسے موقع پر سیف اور سیف جیسے دیگر لوگ خوشیوں سے پھولے نہیں سمائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ سیف کے ہم مسلک اور ہم عقیدہ لوگ طبری کو شاباش اور آفرین کہتے ہیں اور اسے پیار کرتے ہیں ۔اور ہم بھی کہتے ہیں : '' شاباش '' ہو تم پر طبری !!

۳۱۱

بہر حال سیف نے میسان کے کچھار میں چھپا کے رکھی گئی گائے کی عاصم سے باتیں کرنے کا افسانہ گڑھا ہے ،جب کہ دوسرے مورخوں نے کہا ہے کہ : جب سعد کی سپاہ کو مویشیوں کے لئے چارہ اور اپنے لئے کھانے کی ضرورت ہوئی تھی تو سعد وقاص حکم دیتا تھا کہ دریا ئے فرات کے نچلے علاقوں میں جا کر لوٹ مار کر کے اپنی ضرورت توں کی چیزیں حاصل کریں ۔ان دنوں سپاہ کے حالا ت کے پیش نظر یہی موضوع بالکل مناسب اور ہماہنگ نظر آتا ہے ۔

اسی طرح سیف کہتا ہے کہ کسریٰ نے اس کی خدمت میں آئے ہوئے شریف اور محترم قاصدوں کے ذریعہ سر زمین ایران کی مٹی بھیجنے کاحکم دیا عاصم بن عمرو تمیمی مضری ،کسریٰ کے اس عمل کو نیک شگون جانتا ہے اور مٹی کو اٹھا کر سعدوقاص کے پاس پہنچتا ہے اور دشمن پر فتح و کامرانی کی نوید دیتا ہے ۔جب کہ دوسروں نے لکھاہے کہ ایرانیوں کے سپہ سالار رستم نے ایسا کیا تھا اور جو شخص مٹی کو سعد کے پاس لے گیا وہ عمر بن معدی کرب قحطانی یمانی تھا۔

اس کے علاوہ سیف وہ منفرد شخص ہے جو عاصم کی جنگوں ،تقریروں ،رجز خوانیوں ، جنگ قادسیہ میں '' ارماث'' ،''اغواث'' اور'' عماس'' کے دن اس کی شجاعتوں اور دلاوریوں کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے ،جب کہ دینوری اوربلاذری نے قادسیہ کی جنگ کے بارے میں مکمل اور مفصل تشریح کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی ''ارماث'' ،''اغواث'' اور ''عماس'' کا نام تک نہیں لیا ہے اور سیف کے یہ تمام افسانے بھی ان کے ہاں نہیں ملتے ۔ہم نے یہاں پر بحث کے طولانی ہونے کے اندیشہ سے جنگ قادسیہ کے بارے میں بلاذری اور دینوری کی تفصیلات بیان کرنے سے پرہیز کیا ہے اور قارئین کرام سے اس کے مطالعہ کی درخواست کرتے ہیں ۔

۳۱۲

قادسیہ کے بارے میں سیف کی روایتوں کے نتائج :

١۔ میسان کے کچھار میں گائے کا اس کے ساتھ فصیح عربی زبان میں بات کرنے کا افسانہ کے ذریعہ صحابی بزرگوار اور خاندان تمیم کے نامور پہلوان عاصم بن عمرو کے لئے کرامت جعل کرنا ۔

٢۔ دربارکسریٰ میں بھیجے گئے گروہ میں عاصم بن عمرو کی موجودگی اور اس کا اچانک اور ناگہانی طور پر مٹی کو اٹھا کر سعد وقاص کے پاس لے جانا اوراس فعل کو نیک شگون سے تعبیر کرنا۔

٣۔عمروتمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کو ایسی بلندی ،اہمیت اور مقام و منزلت کا حامل دکھانا کہ تمام کامیابیوں کی کلیدانہی کے پاس ہے ۔کیا یہ عاصم ہی نہیں تھا جس کے حکم سے خاندان تمیم کے تیر اندازوں اور نیزہ برداروں نے دشمن کے ہاتھیوں اور ان کے سواروں کو نابود کرکے رکھ دیا اور ہاتھیوں کی پیٹھ پر جو کچھ تھا ''ارماث'' کے دن انھوں نے اسے نیچے گرا دیا؟!

٤۔یہ کہنا کہ: مثنی کہاں اور عاصم جیسا شیر دل پہلوان کہاں !! تاکہ مثنی کی سابقہ بیوی سلمیٰ پھر کبھی زبان درازی نہ کرے اور ایسے لشکر شکن پہلوان جوجنگ کرتا ہے اور دوسرے مجاہدوں کی مدد بھی کرتا ہے کوحقیر نہ سمجھے ۔

٥۔سب سے آگے آنے والے سفید ہاتھی کا کام تمام کرنے کے بعد ہاتھی سوار فوجی دستے کو درہم برہم کرکے ایرانیوں کو بھگا کر دو افسانوی پہلوانوں قعقاع اور عاصم کے لئے فخر و مباہات میں اضافہ کرنا۔

قبیلہ نزار اور خاندان تمیم کے لئے سیف نے یہ اوراس قسم کے دسیوں افتخارات جعل کئے ہیں تاکہ طبری ،ابن عساکر ،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے مورخین انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کریں اور صدیاں گزر جانے کے بعد دین کو سطحی اور ظاہری نگاہ سے دیکھنے والے انھیں آنکھوں سے لگا ئیں اورمضر ،نزار اور خاص کر خاندان تمیم کو شاباشی دیں !اور اس کے مقابلے میں ان کے دشمنوں ، یعنی قحطانی یمانی قبیلوں جن کے بارے میں سیف نے بے حد رسوائیاں اور جھوٹ کے پوٹ گڑھے ہیں سے لوگوں کے دلوں میں غصہ و نفرت پیدا ہو جائے اوروہ رہتی دنیا تک انھیں لعنت و ملامت کرتے رہیں ۔

۳۱۳

عاصم ''جراثیم'' کے دن !

قتلوا عامتهم ونجا منهم عورانا

اسلام کے سپاہیوں نے دشمن کے سپاہیوں کایک جا قتل عام کیا ۔ان میں صرف وہ لوگ بچ رہے جو اپنی آنکھ کھو چکے تھے ۔

( سیف بن عمر)

سیف نے ''جراثیم کے دن''کی داستان ،مختلف روایتوں میں نقل کی ہے ۔یہاں پر ہم پہلے روایتوں کو بیان کریں گے اور اس کے بعد ان کے متن و سند پر تحقیق کریں گے :

١۔ جریر طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے روایت کرتا ہے :

سعد وقاص سپہ سالار اعظم قادسیہ کی جنگ میں فتح پانے کے بعد ایک مدت تک دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران و پریشان سوچتا رہا کہ اس وسیع دریا کو کیسے عبور کیا جائے ؟! کیوں کہ اس سال دریائے دجلہ تلاطم اور طغیانی کی حالت میں موجیں مار رہا تھا ۔

سعد وقاص نے اتفاقاً خواب دیکھا تھا کہ مسلمانوں کے سپاہی دریائے دجلہ کو عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ چکے ہیں ۔لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے اس نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور خدا کی بارگاہ میں حمد و ثنا کے بعد یوں بولا:

تمھارے دشمن نے تمھارے خوف سے اس عظیم اور وسیع دریا کی پناہ لی ہے اور ان تک تمھاری رسائی ممکن نہیں ہے ،جب کہ وہ اپنی کشتیوں کے ذریعہ تم لوگوں تک رسائی رکھتے ہیں اور جب چاہیں ان کشتیوں کے ذریعہ تم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اس نے کہا:

۳۱۴

یہ جان لو کہ میں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ دریا کو عبور کرکے ان پر حملہ کروں گا ۔سپاہیوں نے ایک آواز میں جواب دیا : خدائے تعالیٰ آپ کا اور ہمارا راہنما ہے ،جو چاہیں حکم دیں !اور سپاہیوں نے اپنے آپ کو دجلہ پار کرنے کے لئے آمادہ کیا ۔سعد نے کہا: تم لوگوں میں سے کون آگے بڑھنے کے لئے تیار ہے جو دریا پار کرکے ساحل پر قبصہ کرلے وہاں پر پائوں جمائے اور باقی سپاہی امن و سکون کے ساتھ اس سے ملحق ہوجائیں اور دشمن کے سپاہی دجلہ میں ان کی پیش قدمی کو روک نہ سکیں ؟ عربوں کا نامور پہلوان عاصم بن عمر و پہلا شخص تھا جس نے آگے بڑھ کر سعد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ۔عاصم کے بعد چھہ سوشجاع جنگجو بھی عاصم سے تعاون کرنے کے لئے آگے بڑھے سعد و قاص نے عاصم کو ان چھہ سوافراد کے گروہ کا کمانڈر معین کیا ۔

عاصم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دریا کے کنارے پر پہنچ گیا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا : تم لوگوں میں سے کون حاضر ہے جو میرے ساتھ دشمن پرحملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ہم دریا کے دوسرے ساحل کو دشمنوں کے قبضہ سے آزاد کردیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے تاکہ باقی سپاہی بھی ہم سے ملحق ہو جائیں ؟ ان لوگوں میں سے ساٹھ آدمی آگے بڑھے ،عاصم نے انھیں تیس تیس نفر کی دو ٹولیوں میں تقسیم کیا اور گھوڑوں پر سوار کیا تاکہ پانی میں دوسرے ساحل تک پہنچنے میں آسانی ہو جائے ۔اس کے بعد ان ساٹھ افراد کے ساتھ خود بھی دریائے دجلہ میں اتر گیا۔

جب ایرانیوں نے مسلمانوں کے اس فوجی دستے کو دریا عبور کرکے آگے بڑھتے دیکھا ،تو انھوں نے اپنی فوج میں سے ان کی تعداد کے برابر فوجی سواروں کو مقابلہ کے لئے آمادہ کرکے آگے بھیج دیا ۔ایران کے سپاہیوں کا ساٹھ نفری گروہ عاصم کے ساٹھ نفری گروہ جوبڑی تیزی کے ساتھ ساحل کے نزدیک پہنچ رہے تھے کے مقابلے کے لئے آمنے سامنے پہنچا ۔اس موقع پر عاصم نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بلند آواز میں کہا : نیزے !نیزے ! اپنے نیزوں کو ایرانیوں کی طرف بڑھائو اور ان کی آنکھوں کو نشانہ بنائو !اور آگے بڑھو !عاصم کے سواروں نے دشمنوں کی آنکھوں کو نشانہ بنا یا اور آگے بڑھے ۔ایرانیوں نے جب یہ دیکھا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے ۔لیکن تب تک مسلمان ان کے قریب پہنچ چکے تھے اور تلواروں سے ان سب کا کام تمام کرکے رکھ دیا ۔جو بھی ان میں بچا وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا ۔اس فتح کے بعد عاصم کے دیگر افرادبھی کسی مزاحمت اور مشکل کے بغیر اپنے ساتھیوں سے جا ملے ۔

۳۱۵

سعد وقاص جب عاصم بن عمرو کے ہاتھوں ساحل پر قبضہ کرنے سے مطمئن ہوا تو اس نے اپنے سپاہیوں کو آگے بڑھنے اور دریائے دجلہ عبور کرنے کا حکم دیا اور کہا: اس دعا کو پڑھنے کے بعد دریائے دجلہ میں کود پڑو:

'' ہم خدا سے مدد چاہتے ہیں اورا سی پر توکل کرتے ہیں ۔ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہ بہتر ین پشت پناہ ہے ۔ خدائے تعالیٰ کے علاوہ کوئی مدد گار اور طاقتور نہیں ہے ''

اس دعا کے پڑھنے کے بعد سعد کے اکثر سپاہی دریا میں کود پڑے اور دریاکی پر تلاطم امواج پر سوار ہو گئے ۔دریا ئے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے سپاہی آپس میں معمول کے مطابق گفتگو کر رہے تھے ایک دوسرے کے دوش بدوش ایسے محو گفتگو تھے جیسے وہ ہموار زمین پر ٹہل رہے ہوں ۔

ایرانیوں کو جب ایسے خلاف توقع اورحیرت انگیز حالات کا سامنا ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح مسلمان ١٦ھ کو صفر کے مہینہ میں مدائن میں داخل ہو گئے ۔

٢۔ ایک اور حدیث میں ابو عثمان نہدی نامی ایک مرد سے سیف ایسی ہی داستان نقل کرتا ہے ،یہاں تک کہ راوی کہتا ہے:

دریائے دجلہ سپاہیوں ،منجملہ پیدل ،سواروں اور چوپایوں سے اس قدر بھر چکا تھا کہ ساحل سے دیکھنے والے کو پانی نظر نہیں آتا تھا ،کیوں کہ اسلام کے سپاہیوں نے حد نظر تک پورے دریا کو ڈھانپ رکھا تھا۔

دجلہ کو عبور کرنے کے بعد سواروں نے ساحل پر قدم رکھا۔گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور اپنی یال و گردن کو زور سے ہلا رہے تھے اور اس طرح ان کی یال و گردن سے پانی کے قطرات دوردور تک جا گرتے تھے ۔جب دشمن نے یہ عجیب حالت دیکھی تو فرار کر گئے ۔

۳۱۶

٣۔ایک اورروایت میں کہتاہے :

سعد وقاص اپنی فوج کو دریا میں کود نے کا حکم دینے سے پہلے دریائے دجلہ کے کناے پر کھڑا ہوکر عاصم اور اس کے سپاہیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا جو دریا میں دشمنوں کے ساتھ لڑرہے تھے ،اسی اثناء میں وہ اچانک بول اٹھا : خدا کی قسم !اگر '' خرسائ'' فوجی دستہ قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کو سیف نے خرساء دستہ نام دے رکھا تھا ان کی جگہ پر ہوتا اور دشمن سے نبرد آزما ہوتا تو ایسی ہی بہتر اور نتیجہ بخش صورت میں لڑتا ۔اس طرح اس نے فوجی دستہ ''اھوال'' عاصم کی کمانڈ میں افراد کو سیف نے اھوال نام رکھا تھا جو پانی اور ساحل پر لڑرہے تھے ،کی خرسا فوجی دستے سے تشبیہ دی ہے یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

جب عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ '' اھوال '' کے تمام افراد نے ساحل پر اتر کر اس پر قبضہ کر لیا توسعد وقاص اپنے دیگر سپاہیوں کے ساتھ دریائے دجلہ میں اترا ۔سلمان فارسی سعد وقاص کے شانہ بہ شانہ دریا میں چل رہے تھے یہ عظیم اور وسیع دریا اسلام کے سوار سپاہیوں سے بھر چکا تھا ۔اس حالت میں سعد وقاص نے یہ دعا پڑھی :

'' خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ ہمارے لئے بہترین پناہ گاہ ہے خدا کی قسم !پرور دگار اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے ،اس کے دین کو واضح کرتا ہے اور اس کے دشمن کو نابود کرتا ہے ، اس شرط پر کہ فوج گمراہی اور گناہ سے پاک ہو اوربرائیاں خوبیوں پر غلبہ نہ پائیں ''

سلمان نے سعد سے مخاطب ہو کر کہا :اسلام ایک جدید دین ہے ،خدا نے دریائوں کو مسلمانوں کا مطیع بنادیا ہے جس طر ح زمینوں کوان کے لئے مسخر کیا ہے ۔ا س کی قسم ،جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے !اس عظیم دریا سے سب لوگ جوق در جوق صحیح و سالم عبور کریں گے ،جیسے انھوں نے گروہ گروہ دریا میں قدم رکھا تھا ان میں سے ایک فرد بھی غرق نہیں ہوگا۔

دریائے دجلہ اسلام کے سپاہیوں سے سیاہ نظر آرہا تھا اور ساحل سے پانی دکھائی نہیں دیتا تھا اکثر افراد پانی میں اسی طرح آپس میں گفتگو کر رہے تھے جیسے خشکی پرٹہلتے ہوئے باتیں کرتے ہوں ۔سلمان کی پیشنگوئی کے مطابق سب سپاہی دریا سے صحیح و سالم باہر آگئے ۔نہ کوئی غرق ہوا اور نہ ان کے اموال میں سے کوئی چیز کم ہوئی ۔

۳۱۷

٤۔ایک دوسری روایت میں ایک اور راوی سے نقل کرکے کہتا ہے :

...سب خیریت سے ساحل تک پہنچ گئے ۔لیکن قبیلہ بارق کا غرقدہ نامی ایک مرد اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گرگیا ۔گویا کہ میں اس وقت بھی اس گھوڑے کو دیکھ رہا ہوں جو زین کے بغیر ہے اور خود کو ہلارہا ہے اور اپنی یال و گردن سے پانی کے چھینٹے ہوا میں اڑا رہا ہے ۔غرقدہ ،جو پانی میں ڈبکیاں لگا رہا تھا ،اسی اثنا میں قعقاع نے اپنے گھوڑے کا رخ ڈوبتے ہوئے غرقدہ کی طرف موڑلیااور اپنے ہاتھ کو بڑھا کر غرقدہ کا ہاتھ پکڑلیا اور اسے ساحل تک کھینچ لایا ۔قبیلہ بارق کا یہ شخص،غرقدہ ایک نامور پہلوان تھا ،وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہو کر بولا :''اے قعقاع بہنیں تم جیسے شخص کو پھر کبھی جنم نہیں دیں گی !وجہ یہ تھی کہ قعقاع کی ماں اس مرد کے قبیلہ ،یعنی قبیلہ بارق سے تھی۔

٥۔ایک اور روایت میں ایک دوسرے راوی سے اس طرح نقل کرتا ہے :

اس لشکر کے مال و اثاثہ سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوئی ۔صرف مالک بن عامر نامی ایک سپاہی

جو قریش کے ہم معاہدہ قبیلہ عنز سے تھا کا برتن بندھن فرسودہ ہو کر ٹوٹنے کی وجہ سے پانی میں گرگیا تھا اور پانی اسے بہالے گیا تھا ۔عامر بن مالک نام کا ایک شخص مالک کے شانہ بہ شانہ پانی میں چل رہاتھا ، اس نے مالک سے مذاق کرتے ہوئے کہا:تقدیر تمھارا برتن بہا لے گئی !مالک نے جواب میں کہا: میں سیدھے راستے پر ہوں اور خدائے تعالیٰ اتنے بڑے لشکر میں سے میرے برتن کو ہر گز مجھ سے نہیں چھینے گا !جب سب لوگ دریا سے عبور کرگئے، تو ایک شخص جو دریا کے نچلے حصے میں محا فظت کر رہا تھا ۔اس نے ایک برتن کو دیکھا جسے دریا کی لہریں ساحل کی طرف پھینک چکی تھیں ۔وہ شخص اپنے نیزے سے اس برتن کو پانی سے نکال کر کیمپ میں لے آیا۔مالک نے اپنے برتن کو حاصل کرتے ہوئے عامر سے مخاطب ہوکر کہا :کیا میں نے سچ نہیں کہا تھا؟

۳۱۸

٦۔ سیف ایک اور راوی سے نقل کرتے ہوئے ایک دوسری روایت میں یوں کہتاہے:

جب سعد وقاص نے لوگوں کوحکم دیاکہ دریا ئے دجلہ کوعبور کریں ،سب پانی میں اتر گئے اور دو دوآدمی شانہ بہ شانہ آگے بڑھتے رہے ۔دریائے دجلہ میں پانی کی سطح کافی حدتک اوپر آچکی تھی۔سلمان فارسی ،سعدوقاص کے شانہ بہ شانہ چل رہے تھے ۔اسی اثناء میں سعد نے کہا :یہ ''خدائے تعالیٰ کی قدرت ہے !!''دریائے دجلہ کی پرتلاطم لہریں انہیں اپنے ساتھ اوپرنیچے لے جارہی تھیں ۔ مسلمان آگے بڑھ رہے تھے ۔اگر اس دوران کوئی گھوڑاتھک جاتا تودریاکی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑااوپر اٹھ کر تھکے ہوئے گھوڑے کے چارپائوں کے بالکل نیچے آجاتاتھااوروہ گھوڑااس پر رک کر تھکاوٹ دور کرتاتھا،جیسے کہ گھوڑاکسی خشک زمین پرکھڑاہو!!مدائن کی طرف اس پیش قدمی میں اس سے بڑھ کرکوئی حیرت انگیز واقعہ پیش نہیں آیا۔اس دن کو ''یوم المائ''یعنی پانی کادن یا''یوم الجراثیم '' یعنی زمین کے ٹکڑے کادن کہتے ہیں ۔

٧۔ پھر ایک حدیث میں ایک راوی سے نقل کرکے لکھتاہے:

بعض لوگوں نے روایت کی ہے کہ جس دن اسلام کے سپاہی دریائے دجلہ سے عبور کرنے کے لئے اس میں کود پڑے اس دن کو زمین کے ٹکڑے کادن نام رکھاگیا ہے ۔کیونکہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتاتھا توفوراًدریا کی تہہ سے زمین کاایک ٹکڑا اوپر اٹھ کر اس کے پائوں کے نیچے قرارپاجاتاتھا اور وہ اس پر ٹھہر کراپنی تھکاوٹ دور کرتاتھا۔

٨ ۔ ایک اور حدیث میں ایک اور راوی سے نقل کرتاہے:

ہم دریائے دجلہ میں کود پڑے جب کہ اس کی مو جوں میں تلاطم اور لہریں بہت اونچی اٹھ رہی تھیں ۔جب ہم اس کے عمیق ترین نقطہ پر پہنچ گئے تھے تو پانی گھوڑے کی پیٹی تک بھی نہیں پہنچتا تھا

٩۔سر انجام ایک دوسری حدیث میں ایک اور راوی سے روایت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ راوی کہتا ہے :

جس وقت ہم مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے ،ایرانیوں نے ہمیں دریائے دجلہ سے عبور کرتے ہوئے دیکھا تو وہ ہمیں بھوتوں سے تشبیہ دے رہے تھے اور فارسی میں آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے : بھوت آگئے ہیں !بعض کہتے تھے : خدا کی قسم ہم انسانوں سے نہیں بلکہ جنوں سے جنگ کر رہے ہیں ۔

اس لئے سب ایرانی فرار کر گئے َ

۳۱۹

تاریخ کی کتابوں میں سیف کی روایتوں کی اشاعت:

مذکورہ تمام نو روایتوں کو طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور جو تاریخ لکھنے والے طبری کے بعد آئے ہیں ،ان سبوں نے روایات کی سند کا کوئی اشارہ کئے بغیر انھیں طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ابو نعیم نے بھی احادیث میں سے بعض کو بلا واسطہ سیف سے لے کر ''دلائل النبوة'' نامی اپنی کتاب میں درج کیاہے۔

لیکن دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے سلسلے میں دوسرے کیا لکھتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائیے :

حموی ،کوفہ کے بارے میں کی گئی اپنی تشریح کے ضمن میں ایرانی فوج کے سپہ سالار رستم فرخ زاد اور قادسیہ کی جنگ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

ایرانی کسان ،اسلامی فوج کو ایرانی سپاہیوں کی کمزوریوں کے بارے میں راہنمائی کرکے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہمدردی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتے تھے اس کے علاوہ ان کو تحفے تحائف دے کر اور ان کے لئے روز انہ بازار قائم کرکے اپنے آپ کو بیشتر اسلام اور اس کی سپاہ کے نزدیک لاتے تھے ،سعد بن وقاص نے بزرگ مہر (ایرانی کمانڈر) کو پکڑنے کے لئے مدائن کی طرف عزیمت کی. یہاں تک کہ وہ لکھتا ہے :

اس نے دریائے دجلہ پر کوئی پل نہیں پایا کہ اپنی فوج کو دریا کے اس پار لے جائے بالآخر مدائن کے جنوب میں صیادین کی جگہ اس کی راہنمائی کی گئی جہاں پر ایک گزرگاہ تھی ۔اس جگہ پر دریا کی گہرائی کم ہونے کی وجہ سے سوار و پیادہ فوج کے لئے آسانی کے ساتھ دریا کو عبور کرنا ممکن تھا ۔سعد وقاص نے وہاں پر اپنی فوج کے ہمراہ دریا کو عبور کیا۔

خطیب ،ہاشم کی تشریح کے ضمن میں اپنی تاریخ میں لکھتا ہے:

جب قادسیہ کی جنگ میں خدائے تعالیٰ نے ایرانیوں کوشکست دیدی تووہ مدائن کی طرف پیچھے ہٹے ،سعد نے اسلامی فوج کے ہمراہ ان کا تعاقب کیا۔دریائے دجلہ کوعبور کرنے کے لئے مدائن کے ایک باشندہ نے ''قطر بل ''نام کی ایک جگہ کی راہنمائی کی جہاں پر دریا کی گہرائی کم تھی ۔سعد نے بھی اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اسی جگہ سے دریاکوعبور کرکے مدائن پرحملہ کیا ۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416