ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215049 / ڈاؤنلوڈ: 4961
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس عالم ميں ''وہ يو سف كے پاس پہنچے اور اس وقت انتہائي پر يشانى كے عالم ميں انہوں نے اس كى طرف رخ كيا اور كہا : ''اے عزيز : ہميں اور ہمارے خاندان كو قحط ، پر يشا نى اور مصيبت نے گھير ليا ہے ''_(۱) اور ہمارے پاس صرف تھوڑى سى كم قيمت پو نچى ہے ''_( ۲) '' ليكن پھر بھى ہميں تيرے كرم اورشفقت پر بھروسہ ہے ''اورہميں تو قع ہے كہ تو ہما را پيما نہ بالكل پورا كرے گا '' _(۳) ''اور اس معاملہ ميں ہم پر احسان كرتے ہوئے بخشش كر ''_(۴)

''اور اپنا اجر و ثواب ہم سے نہ لے بلكہ اپنے خدا سے لے كيو نكہ'' خدا كريموں اور صدقہ كر نے والوں كو اجر خير ديتا ہے''_(۵) يہ امر قابل تو جہ ہے كہ برادران يو سف كو باپ نے تا كيد كى تھى كہ پہلے يو سف اور اس كے بھا ئي كے لئے جستجو كر يں اور بعد ميں اناج كا تقاضہ كريں شا يد اسكى وجہ يہ ہو كہ انہيں يو سف كے ملنے كى اميد نہ تھى يا ممكن ہے انہوں نے سوچا ہو كہ بہتر ہے كہ اپنے كو اناج كے خريداروں كے طور پر پيش كريں جو كہ زيادہ طبيعى اور فطرى ہے اور بھا ئي كى آزادى كا تقاضا ضمناً رہنے ديں تاكہ يہ چيز عزيز مصر پر زيادہ اثرانداز ہو ،بعض نے كہا كہ(تصدق علينا)سے مراد وہى بھائي كى آزادى ہے ورنہ وہ اناج بغير معاوضہ كے حاصل نہيں كر نا چا ہتے تھے كہ اسے (تصدق )قرار ديا جا تا _

جناب يو سف نے روتے ہو ئے باپ كے خط كو چو ما

روايات ميں بھى ہے كہ بھائي باپ ،كى طرف سے عزيز مصر كے نام ايك خط لے كر آئے تھے اس خط ميں حضرت يعقوب نے عزيز مصر كے عدل وانصاف كا تذ كرہ كيا اپنے خاندان سے اس كى محبتوں اور شفقتوں كى تعريف كى پھر اپنا اور اپنے خاندان نبوت كا تعارف كروايا اپنى پر يشانيوں كا ذكر كيا اور ساتھ ہى اس كے ضمن ميں اپنے بيٹے يو سف اور دوسرے بيٹے بنيامين كے كھو جا نے اور خشك سالى سے پيدا ہونے والي

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۸

(۲) سورہ يوسف آيت ۸۸

(۳)سورہ يوسف آيت۸۸

(۴)سوره يوسف آيت ۸۸

(۵) سورہ يوسف آيت ۸۸

۲۴۱

مصيبتوں كا ذكر كيا خط كے آخر ميں اس سے خواہش كى گئي تھى كہ بنيا مين كو آزاد كر دے اور تاكيد كى تھى كہ ہمارے خاندان ميں چورى وغيرہ ہر گز نہ تھى اور نہ ہو گى _

جب بھا ئيوں نے باپ كا خط عزيز مصر كو ديا تو انہوں نے اسے لے كر چو ما اور اپنى آنكھوں پر ركھا اور رونے لگے گريہ كا يہ عالم تھا كہ قطرات اشك ان كے پيرا ہن پر گر نے لگے ( يہ ديكھ كر بھا ئي حيرت وفكر ميں ڈوب جا تے ہيں كہ عزيز كو ان كے باپ سے كيا لگائو ہے وہ سوچتے ہيں كہ ان كے باپ كے خط نے اس ميں ہيجان واضطراب كيوں پيدا كر ديا ہے شايد اسى مو قع پر ان كے دل ميں يہ خيال بجلى كى طرح اتر ا ہو كہ ہو نہ ہو يہى خود يو سف ہو اور شايد باپ كے اسى خط كى وجہ سے يو سف اس قدر بے قرار ہو گئے كہ اب مزيد اپنے آپ كو عزيز مصر كے نقاب ميں نہ چھپا سكے اور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ بہت جلد بھا ئيوں سے بھائي كى حيثيت سے اپنا تعارف كروايا_

كيا تو وہى يو سف ہے ؟

اس موقع پر جبكہ دور آزمائش ختم ہورہا تھا اور يوسف بھى بہت بے تاب اور سخت پريشان نظر آرہے تھے،تعارف كے لئے گفتگو كا آغاز كر تے ہوئے بھا ئيوں كى طرف رخ كر كے آپ نے كہا :'' تمہيں معلوم ہے كہ جب تم جاہل ونادان تھے تم نے يوسف اوراس كے بھا ئي كے ساتھ كيا سلوك كيا''_(۱)

حضر ت يوسف كى عظمت اور شفقت ملا حظہ كيجئے كہ اولاً تو ان كا گناہ مجمل طور پر بيان كيا اور كہا (ما فعلتم )''جو كچھ تم نے انجا م ديا '' اور ثانيا ًانہيں عذر خواہى كا راستہ دكھا يا كہ تمہارے يہ اعمال وافعال جہا لت كى وجہ سے تھے اور اب جہا لت كا زمانہ كذر گيا ہے اور اب تم عاقل اور سمجھد ار ہو _

ضمناً اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے كہ گز شتہ زمانے ميں انہوں نے صرف يو سف پر ظلم نہيں ڈھا يا تھا بلكہ بنيا مين بھى اس دور ميں ان كے شرسے محفوظ نہيں تھے اور انہوں نے اس كے لئے بھى اس زمانہ ميں

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۸۹

۲۴۲

مشكلات پيدا كى تھيں جب بنيامين مصر ميں يو سف كے پاس تھے شايدان دنوں ميں انہوں نے ان كى كچھ بے انصا فياں اپنے بھا ئي كو بتا ئي ہوں _

بعض روايات ميں ہے كہ وہ زيا دہ پر يشان نہ ہوں اور يہ خيال نہ كريں كہ عزيز مصر ہم سے انتقام لينے والا ہے يو سف نے اپنى گفتگو كو ايك تبسم كے ساتھ ختم كيا اس تبسم كى وجہ سے بھا ئيوں كو حضرت يو سف كے خوبصورت دانت پورى طرح نظر آگئے جب انہوں نے خوب غور كيا تو انہيں محسوس ہوا كہ يہ دانت ان كے بھائي يو سف سے عجيب مشا بہت ركھتے ہيں ،اس طرح بہت سے پہلو جمع ہو گئے ايك طرف تو انہوں نے ديكھا كہ عزيز مصر يو سف كے بارے ميں اور اس پر بھائيوں كى طرف سے كئے گئے مظالم كے بارے ميں گفتگو كر رہا ہے جنہيں سوائے ان كے اور يوسف (ع) كے كو ئي نہيں جا نتا تھا _

دوسرى طرف انہوں نے ديكھا كہ يعقوب كے خط نے اسے اس قدر مضطر ب كر ديا ہے جيسے اس كا يعقوب سے كوئي بہت ہى قريبى تعلق ہو ،تيسرى طرف وہ اس كے چہرے مہر ے پر جتنا غور كرتے انہيں اپنے بھائي يو سف سے بہت زيادہ مشا بہت دكھا ئي ديتى ليكن ان تمام چيزوں كے باوجود انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ يوسف عزيز مصر كى مسند پر پہنچ گيا ہو وہ سو چتے كہ يو سف كہا ں اور يہ مقام كہا ں ؟ لہذا انہوں نے شك وتردد كے لہجہ ميں ''كيا تم خود يو سف تو نہيں _(۱)

اس موقع بھا ئيوں پر بہت زيادہ حساس لمحا ت گذرا كيونكہ صيح طور پہ معلوم بھى نہ تھا كہ عزيز مصران كے سوال كے جواب ميں كيا كہے گا كيا سچ مچ وہ پر دہ ہٹا دے گا اور اپنا تعارف كروائے گا يا انہيں ديوانہ اور بے وقوف سمجھ كر خطاب كر ے گا كہ انہوں نے ايك مضحكہ خيز بات كى ہے گھڑياں بہت تيزى سے گزررہى تھيں انتظار كے روح فر سالمحے ان كے دل كو بوجھل كر رہے تھے ليكن حضرت يو سف نے نہ چاہا كہ يہ زمانہ طويل ہو جائے اچانك انہوں نے حقيقت كے چہر ے سے پر دہ ہٹا يا اور كہا :'' ہا ں ميں يو سف ہو ں اور يہ ميرا بھائي بنيامين ہے ''_( ۲)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۰

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۰

۲۴۳

ليكن اس بناء پركہ وہ خدا كى نعمت كا شكر ادا كريں كہ جس نے يہ سب نعمات عطافرمائي تھيں اور ساتھ ہى بھا ئيوں كو بھى ايك عظيم درس ديں انہوں نے مزيد كہا :'' خدا نے ہم پر احسان كيا ہے جو شخص بھى تقوى اور صبر اختيا ر كرے گا خدا اسے اس كا اجر وثواب دے گا كيو نكہ خدا نيكو كاروں كا اجر ضائع نہيں كرتا ''(۱) كسى كو معلوم نہيں كہ ان حساس لمحات ميں كيا گزرى اور جب ديسوں سال بعد بھا ئيوں نے ايك دوسرے كو پہنچانا تو كيسا شور وغل بپا كيا وہ كسى طرح آپس ميں بغل گير ہو ئے اور كس طرح سے ان كى آنكھوں سے خوشى كے آنسو ٹپك پڑے _ ان تمام چيزوں كے باوجود بھا ئي اپنے آپ ميں شرمندہ تھے وہ يو سف كے چہرے كى طرف نظر بھر كے نہيں ديكھ پا رہے تھے وہ اسى انتظار ميں تھے كہ ديكھيں ان كا عظيم گناہ بخشش وعفو كے قابل ہے يا نہيں لہذا انہوں نے بھائي كى طرف رخ كيا اور كہا :'' خدا كى قسم :اللہ نے تجھے ہم پر مقدم كيا ہے''(۲) اور تجھے ترجيح دى ہے اور علم وحلم اور عقل وحكومت كے لحا ظ سے تجھے فضيلت بخشى ہے يقينا ہم خطاكا ر اور گناہ گار تھے''_(۳)

آج رحمت كا دن ہے

ليكن يوسف نہيں چا ہتے تھے كہ بھا ئي اس طرح شر مسار رہيں خصو صاً جب كہ يہ ان كى اپنى كا ميابى و كا مرانى كا مو قع تھا يا يہ كہ احتمالاً بھا ئيوں كے ذہن ميں يہ بات آئے كہ يو سف اس مو قع پر انتقام لے گا لہذا فور اًيہ كہہ كر انہيں مطمئن اور پر سكون كرديا كہ ''آج تمہيں كو ئي سر ز نش اور تو بيخ نہيں ہوگي''(۴) تمہارى فكر آسودہ رہے اور وجد ان كو را حت رہے اورگذشتہ گنا ہوں پر غم نہ كرو _ اس بناء پر كہ انہيں بتايا جا ئے كہ انہيں نہ صرف يو سف كا حق بخش ديا گيا ہے بلكہ ان كى ند امت وپشيمانى كى وجہ سے اس سلسلے ميں خدائي حق بھى قابل بخشش ہے ، مزيد كہا :'' اللہ بھى تمہيں بخش دے گا كيو نكہ وہ ارحم الرحمين ہے ''_(۵)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۰ (۲) سورہ يوسف آيت ۹۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۹۱ (۴) سورہ يوسف آيت ۹۲

(۵) سورہ يوسف آيت ۹۲

۲۴۴

يہ حضرت يو سف (ع) كى انتہائي عظمت كى دليل ہے كہ نہ صرف اپنا حق معاف كر ديا بلكہ اس بات پر بھى تيار نہ ہوئے كہ انہيں تھوڑى سى بھى سر زنش كى جا ئے ،چہ جائيكہ بھا ئيوں كو كوئي سزا ديتے بلكہ حق الہى كے لحاظ سے بھى انہيں اطمينان دلا يا كہ خدا غفور اور بخشنے والاہے بلكہ يہ بات ثابت كرنے كے لئے يہ استد لال پيش كيا كہ وہ ارحم الرا حمين ہے

اس مو قع پر بھائيوں كو ايك اور غم بھى ستارہا تھا اور وہ يہ كہ باپ اپنے بيٹوں كے فراق ميں نابينا ہو چكا ہے اور اس كا اس طرح رہنا پورے خاندان كے لئے ايك جانكا ہ رنج ہے اس كے علاوہ ان كے جر م پر ايك مسلسل دليل ہے لہذا يوسف (ع) نے اس عظيم مشكل كے حل كے لئے بھى فرمايا: ''ميرا يہ پيراہن لے جائو اور ميرے باپ كے چہرے پر ڈال دو تاكہ وہ بينا ہوجائے'' _(۱) '' اس كے بعد سارے خاندان كے ہمراہ ميرے پاس آجائو''_(۲)

يوسف (ع) كى قيمص كون لے كر گيا؟

حضرت يوسف (ع) نے كہا: ميرا شفا بخش كرتہ باپ كے پاس وہى لے جائے جو خون آلود كرتہ لے كر گيا تھا تاكہ جيسے اس نے باپ كو تكليف پہنچائي اورپريشان كيا تھا اس مرتبہ كے اسے خوش وخرم كرے_

لہذا يہ كام ''يہودا'' كے سپرد ہوا كيونكہ اس نے بتايا تھا كہ وہ ميں ہوں جو خون آلود كرتہ لے كرباپ كے پاس گيا تھا اور ان سے كہا تھا كہ آپ كے بيٹے كو بھيڑيا كھا گيا ہے_اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ اگرچہ حضرت يوسف (ع) اس قدر مشكلات اور مصائب ميں گرفتار رہے ليكن اخلاقى مسائل كى باريكيوں سے غافل نہيں رہتے تھے_

يوسف (ع) كى عظمت

اس ماجرے كے بعد حضرت يوسف (ع) كے بھائي ہميشہ شرمسار رہتے تھے انھو ں نے كسى كو يوسف (ع) كے

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۳

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۳

۲۴۵

پاس بھيجا اور كہلايا كہ آپ ہر صبح وشام ہميں اپنے دسترخوان پر بٹھاتے ہيں او رآپ كا چہرہ ديكھ كر ہميں شرم وخجالت محسوس ہوتى ہے كيونكہ ہم نے آپ كے ساتھ اس قدر جسارتيں كى ہيں _

اس بناء پر كہ انھيں نہ صرف ذرہ بھر احساس شرمندگى نہ ہو بلكہ يوسف (ع) كے دسترخوان پر اپنى موجودگى كو يوسف (ع) كى ايك خدمت محسوس كريں ، حضرت يوسف نے انھيں بہت ہى عمدہ جواب ديا، آپ نے كہا:مصر كے لوگ اب تك مجھے ايك زر خريد غلام كى نظر سے ديكھتے تھے اور ايك دوسرے سے كہتے تھے:''پاك ہے وہ ذات جس نے اس غلام كو كہ جو بيس درہم ميں بيچا گيا اس مقام تك پہنچايا_''

ليكن اب جب كہ تم لوگ آگئے ہو اور ميرى زندگى كى كتاب اس كے سامنے كھل گئي ہے تو وہ سمجھنے لگے ہيں كہ ميں غلام نہيں ہوں بلكہ ميں خاندان نبوت سے تعلق ركھتا ہوں اور ابراہيم خليل اللہ كى اولاد ميں سے ہوں اور يہ ميرے لئے باعث افتخار ہے_

آخر كار لطف الہى نے اپنا كام كرڈالا

فرزندان يعقوب (ع) خوشى سے پھولے نہ سماتے تھے، وہ خوشى خوشى يوسف (ع) كا پيراہن اپنے ساتھ لے كر قافلے كے ساتھ مصر سے چل پڑے، ادھر ان بھائيوں كے لئے زندگى كے شرين ترين لمحات تھے اُدھر شام كے علاقہ كنعان ميں بوڑھے باپ كا گھر غم واندوہ ميں ڈوبا ہوا تھا، سارا گھرانہ افسردہ اور غم زدہ تھا_

ليكن ادھر يہ قافلہ مصر سے چلا اور اُدھر اچانك يعقوب (ع) كے گھر ميں ايك واقعہ رونما ہوا جس نے سب كو تعجب ميں ڈال ديا، يعقوب (ع) كا جسم كانپ رہا تھا، انھوں نے بڑے اطمينان اور اعتماد سے پكار كر كہا:''اگر تم بدگوئي نہ كرو اور ميرے طرف نادانى اور جھوٹ كى نسبت نہ دو تو ميں تم سے كہتا ہوں كہ مجھے اپنے پيارے يوسف (ع) كى خوشبو آرہى ہے''_(۱)

ميں محسوس كررہا ہوں كہ رنج وغم اور زحمت ومشكل كى گھڑياں ختم ہونے كو ہيں اور

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۹۴

۲۴۶

وصال وكاميابى كا زمانہ آنے كو ہے، خاندان يعقوب (ع) اب لباس ماتم اتاردے گا اور لباس مسرت زيب تن كرے گا،ليكن ميرا يہ خيال نہيں كہ تم ان باتوں پر يقين كرو گے_

لفظ''فصلت''سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) ميں يہ احساس اسى وقت پيدا ہوا جب قافلہ مصر سے چلنے لگا ،_

قاعدتاً حضرت يعقوب كے پاس اس وقت ان كے پوتے پوتياں اور بہو ئيں وغير ہ تھيں انہوں نے بڑے تعجب اور گستا خى سے اور پورے يقين سے يعقوب سے كہا :'' بخدا آپ اسى پرانى گمراہى ميں ہيں ''_(۱)

يعنى اس سے بڑھ كر گمراہى كيا ہو گى كہ يو سف كى موت كو سا لہا سال گزر گئے ہيں اور ابھى آپ كا خيال ہے كہ وہ زندہ ہے اور اب آپ يہ كہہ رہے ہيں كہ مصر كى طرف سے مجھے يوسف كى خوشبو آرہى ہے ، مصر كہا ں اور شام وكنعان كہا ں ،كيا يہ اس بات كى دليل نہيں كہ آپ ہميشہ خواب وخيا ل كى دنيا ميں رہتے ہيں اور اپنے خيالات وتصورات كو حقيقت سمجھتے ہيں ، آپ يہ كيسى عجيب وغريب بات كہہ رہے ہيں بہرحال آپ تو پہلے بھى اپنے بيٹوں سے كہہ چكے ہيں كہ مصر كى طرف جا ئو اور مير ے يو سف كو تلاش كرو _

اس سے ظاہر ہو تا ہے كہ يہاں ضلالت وگمراہى سے مراد عقيدہ اور نظر يہ كى گمراہى نہيں ہے بلكہ يوسف سے متعلق مسائل كے سمجھنے ميں گمراہى مراد ہے _

بہركيف ان الفاظ سے ظاہر ہو تا ہے كہ وہ لوگ اس عظيم كہن سال اور روشن ضمير پيغمبر سے كيسا شديد اورجسا رت آميز سلوك كر تے تھے _

ايك جگہ انہوں نے كہا : ہمارا باپ ''ضلال مبين ''( كھلى گمراہى )ميں ہے اور يہا ں انہوں نے كہا: تم اپنى اسى دير ينہ گمرا ہى ميں ہو _

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۵

۲۴۷

وہ پير كنعان كے دل كى پاكيزگى اور روشنى سے بے خبر تھے ان كا خيال تھا كہ اس كا دل بھى انہى كے دل كى طرح تاريك ہے انہيں يہ خيال نہ تھا كہ آيندہ كے واقعات اور دور ونزيك كے مقامات اس كے آئينہ دل ميں منعكس ہو تے ہيں _

قافلہ كنعان پہو نچتا ہے

كئي رات دن بيت گئے يعقوب اسى طرح انتظار ميں تھے ايسا پر سوز انتظار كہ جس كى گہرائي ميں مسرت وشاد مانى اور سكون واطمينان مو جزن تھا حالانكہ ان كے پاس رہنے والوں كو ان مسائل سے كو ئي دلچسپى نہ تھى اور وہ سمجھتے تھے كہ يو سف كا معا ملہ ہميشہ كے لئے ختم ہو چكا ہے معلوم نہيں يعقوب پر يہ چند دن كس طرح گز ريں گے_ آخر ايك دن آيا جب آوزآئي وہ ديكھو مصر سے كنعان كا قافلہ آيا ہے گزشتہ سفروں كے بر خلاف فرزند ان يعقوب شاداں وخرّم شہر ميں داخل ہوئے اور بڑى تيزى سے باپ كے گھر پہنچ گئے سب سے پہلے ''بشير ''بوڑھے يعقوب كے پاس آيا وہي'' بشير '' (جو وصال كى بشارت لايا تھا اور جس كے پاس يو سف كا پير اہن تھا ) اس نے آتے ہى پير اہن يعقوب كے چہر ے پر ڈال ديا _

يعقوب كى آنكھيں تو بے نور تھيں وہ پير اہن كو ديكھ نہ سكتے تھا انہوں نے محسوس كيا كہ ايك آشنا خو شبو ان كى مشام جان ميں اتر گئي ہے يہ ايك پُركيف زريں لمحہ تھا گويا ان كے وجود كا ہر ذرہ روشن ہو گيا ہو آسمان وزمين مسكرا اٹھے ہوں ہر طرف قہقہے بكھر گئے ہوں نسيم رحمت چل اٹھى ہوا اور غم واند وہ كا گر د وغبار لپيٹ كر لے جارہى ہو، درود يوار سے خوشى كے نعرے سنا ئي دے رہے تھے اور يعقوب كى آنكھيں روشن ہو گئي ہيں اور وہ ہر جگہ ديكھ رہے ہيں دنيا اپنى تمام تر زيبا ئيوں كے ساتھ ايك مر تبہ پھر ان آنكھوں كے سامنے تھى جيسا كہ قرآن كہتا ہے :'' جب بشارت دينے والا آيا تو اس نے وہ (پيراہن ) ان كے چہرے پر ڈال ديا تو اچا نك وہ بينا ہو گئے''_(۱)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۶

۲۴۸

بھا ئيوں اور گر دو پيش والوں كى آنكھوں سے خوشى كے آنسو امنڈ آئے اور يعقوب نے پورے اعتماد سے كہا : ''ميں نہ كہتا تھا كہ ميں خدا كى طرف سے ايسى چيزيں جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جا نتے ''(۱) اس معجزے پر بھا ئي گہرى فكر ميں ڈوب گئے ايك لمحے كے لئے اپنا تاريك ماضى ان كى آنكھوں كے سامنے گھوم گيا ، خطا ،گنا ہ ، اشتباہ اور تنگ نظر ى سے پُر ماضى ليكن كتنى اچھى بات ہے كہ جب انسان اپنى غلطى كو سمجھ لے تو فوراً اس كى اصلاح اور تلافى كى فكر كرے فرزند ان يعقوب بھى اسى فكر ميں گم ہو گئے انہوں نے باپ كا دامن پكڑليا اور كہا :''بابا جا ن خدا سے درخواست كيجئے كہ وہ ہمارے گنا ہوں اور خطائوں كو بخش دے كيو نكہ ہم گنہگار اور خطا كار تھے_''(۲)

بزرگور اور با عظمت بوڑھا جس كا ظرف سمندر كى طرح وسيع تھا ، اس نے كوئي ملامت وسرزنش كئے بغير ان سے وعدہ كيا كہ'' ميں بہت جلدى تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب كروں گااور مجھے اميد ہے كہ وہ تمہارى تو بہ قبول كرلے گا اور تمہارے گناہوں سے صرف نظر كرے گا ''كيونكہ وہ غفور ورحيم ہے_''(۳)(۴)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۶

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۷

(۳) سورہ يوسف آيت ۹۸

(۴)يہاں پر چند سوال پيدا ہو تے ہيں :

۱_يعقوب نے پيراہن يو سف كى خو شبو كيسے محسو س كى ؟

يہ سوال بہت سے مفسر ين نے اٹھا يا ہے اور اس پر بحث كى ہے عام طور پر مفسرين نے اسے يعقوب يا يو سف كا معجزہ قرار ديا ہے ليكن چو نكہ قرآن نے اسے اعجاز يا غير اعجا ز ہو نے كے لحاظ سے پيش نہيں كيا اور اس سلسلے ميں خا مو شى اختيار كى ہے اس كى سائنس توجيہ معلوم كى جاسكتى ہے_ موجودہ زمانے ميں ''ٹيلى پيتھي'' ايك مسلمہ علمى مسئلہ ہے ( اس ميں يہ بات تسليم كى گئي ہے كہ ايك دوسرے سے دور رہنے والے كے درميان فكرى ارتباط اور روحانى رابطہ ہوسكتا ہے اسے ''انتقال فكر'' كہتے ہيں ) ايسے افراد جو ايك دوسرے سے نزديكى تعلق ركھتے ہيں يا جو بہت زيادہ روحانى طاقت ركھتے ہيں يہ تعلق ان كے درميان پيدا ہوتا ہے شايد ہم ميں سے بہت سے افراد نے اپنى روز مرہ كى زندگى ميں اس كا سامنا كيا ہو كہ بعض اوقات كسى كى والدہ يا بھائي اپنے اندر بلاسبب بہت زيادہ اضطراب او رپريشانى محسوس كرتے ہيں اور زيادہ دير نہيں گذر تى كے كہ خبر پہنچتى ہے كہ اس كے بيٹے يا بھائي كو فلاں دور دراز علاقے ميں ايك ناگوار حادثہ پيش آيا ہے_ ماہرين اس قسم كے احساس كو ٹيلى پيتھى اور دور دراز كے علاقوں سے انتقال فكرى كا عمل قرار ديتے ہيں _ حضرت يعقوب (ع) كے واقعہ ميں بھى ممكن ہے كہ يوسف (ع) سے شديد محبت اور آپ كى روحانى عظمت كے سبب آپ ميں وہى احساس پيدا ہوگيا جو يوسف كا كرتہ اٹھاتے وقت بھائيوں ميں پيدا ہوا تھا_

۲۴۹

البتہ يہ بات بھى ہر طرح ممكن ہے كہ اس واقعہ كا تعلق انبياء كے دائرہ علم كى وسعت سے ہو ، بعض روايات ميں بھى انتقال فكر كے مسئلہ كى طرف جاذب نظر اور عمدہ اشارہ كيا گيا ہے مثلاً: كسى نے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے عرض كيا : كبھى ايسا ہوتا ہے كہ ميں بغير كسى مصيبت يا ناگوار حادثہ كے غمگين ہوجاتا ہوں يہاں تك كہ ميرے گھروالے اور ميرے دوست بھى اس كے اثرات ميرے چہرے پر ديكھ ليتے ہيں _

امام عليہ السلام نے فرمايا: ہاں ، خدا نے مومنين كو ايك ہى بہشتى طينت سے پيدا كيا ہے اور اس كى روح ان ميں پھونكى ہے لہذا مومنين ايك دوسرے كے بھائي ہيں جس وقت كسى ايك شہر ميں ان ميں سے كسى ايك بھائي كو كوئي مصيبت پيش آتى ہے تو باقى افراد پر اس كا اثر ہوتا ہے_ بعض روايات سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ يہ كرتہ كوئي عام كرتہ نہ تھا بلكہ ايك جنتّى پيراہن تھا جو حضرت ابراہيم عليہ السلام كى طرف سے خاندان يعقوب (ع) ميں يادگار كے طور پر چلاآرہا تھا اور جو شخص حضرت يعقوب (ع) كى طرح بہشتى قوت شامہ ركھتا تھا وہ اس كى خوشبو دور سے محسوس كرليتا تھا_

۲_انبياء كے حالات ميں فرق_

يہاں پر ايك اور مشہور اعتراض سامنے آتا ہے فارسى زبان كے اشعار ميں بھى يہ اعتراض بيا ن كيا گيا ہے، كسى نے يعقوب (ع) سے كہا:

زمصرى بوى پيراہن شنيدي

چرا در جاہ كنعانش نہ ديدي

يعنى آپ نے مصر سے پيراہن كى خوشبو سونگھ لى ليكن آپ كو كنعان كے كنويں ميں يوسف كيوں نہ دكھائي دئے؟

كيسے ہوسكتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر نے اتنے دور دراز كے علاقے سے يوسف (ع) كى قميص كى خوشبو سونگھ لى جب كہ بعض نے يہ فاصلہ اسّى فرسخ لكھا ہے اور بعض نے دس دن كى مسافت بيان كى ہے ليكن اپنے علاقہ كنعان كے اندر جب كہ يوسف كو اس كے بھائي كنويں ميں پھينك رہے تھے اور ان پر وہ واقعات گزرہے تھے اس سے يعقوب (ع) آگاہ نہ ہوئے؟

قبل اس كے انبياء اور ائمہ عليہم السلام كے علم غيب كى حدود كے بارے ميں جو كچھ كہا جاچكا ہے اس كى طرف توجہ كرتے ہوئے اس سوال كا جواب ہرگز مشكل نہيں رہتا،امور غيب كے متعلق ان كا علم پروردگار كے ارادے اور عطاكئے ہوئے علم پر منحصر ہے جہاں خدا چاہتا ہے وہ جانتے ہيں ، چاہے واقعہ كا تعلق كسى بہت دور دراز علاقے سے ہو اور جہاں وہ نہ چاہے نہيں جانتے چاہے معاملہ كسى نزديك ترين علاقے سے مربط ہو جيسے كسى تاريك رات ميں ايك قافلہ كسى بيابان سے گزررہا ہو آسمان كو بادلوں نے ڈھانپ ركھا ہو ايك لمحہ كے لئے آسمان سے بجلى چمك اٹھے اور بيابان كى تمام گيرائياں او رگہرائياں روشن ہوجائيں اور تمام مسافر ہر طرف سب كچھ ديكھ ليں ليكن دوسرے لمحہ وہ بجلى خاموش ہوجائے او رپھر تاريكى ہر طرف چھا جائے اسى طرح سے كہ كوئي چيز نظر نہ آئے_

شايد امام جعفر صادق عليہ السلام سے علم امام كے بارے ميں مروى يہ حديث اسى مفہوم كى طرف اشارہ كرتى ہے ، آپ فرماتے ہيں :

''جعل الله بينه وبين الامام عموداً من نور ينظر الله به الى الامام وينظر الامام به اليه، فاذا راد علم شى ء نظر فى ذالك النور فعرفه ''

خد انے اپنے اور امام وپيشوائے خلق كے درميان نور كا ايك ستون بنايا ہے اسى سے خدا امام كى طرف ديكھتا ہے اور امام بھى اسى طريق سے اپنے پروردگار كى طرف ديكھتا ہے اور جب امام كوئي چيز جاننا چاہتا ہے تو نور كے اس ستون ميں ديكھتا ہے اور اس سے آگاہ ہوجاتا ہے_

۲۵۰

ايك شعر جو پہلے ذكر كيا گيا ہے اس كے بعد سعدى كے مشہور اشعار ميں اسى روايات كے پيش نظر كہا گيا ہے:

بگفت احوال ما برق جہان است

گہى پيدا ودگر دم نہان است

گہى بركارم اعلا نشينم

گہى تاپشت پاى خود نبينم

يعنى اس نے كہا ہمارے حالات چمكنے والى بجلى كى طرح ہيں جو كبھى دكھائي ديتى ہے اور كبھى چھپ جاتى ہے_

كبھى ہم آسمان كى بلنديوں پر بيٹھتے ہيں اور كبھى اپنے پائوں كے پيچھے بھى كچھ دكھائي نہيں ديتا_

اس حقيقت كى طرف توجہ كرتے ہوئے تعجب كا مقام نہيں كہ ايك دن مشيت الہى كى بناء پر يعقوب (ع) كى آزمائش كے لئے اپنے قريب رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ نہ ہوں اور كسى دوسرے دن جب كہ دور آزمائش ختم ہوچكا تھا اور مشكلات كے دن بيت چكے تھے انھوں نے مصر سے قميص يوسف كى مہك سونگى لى ہو_

۳_بينائي كيسے لوٹ آئي؟

بعض مفسرين نے يہ احتمال ديا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) كى آنكھ كا نور بالكل ختم نہيں ہوا تھا بلكہ ان كى آنكھيں كمزور ہوگئي تھيں او ربيٹے كى ملاقات كے امكانات پيدا ہوئے تو ان ميں ايك ايسا ہيجان پيدا ہوا كہ وہ پہلى حالت پر واپس آگئيں ، ليكن آيات كا ظہور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ بالكل نابينا ہوگئے تھے يہاں تك كہ ان كى آنكھيں سفيد ہوچكى تھيں لہذا ان كى بينائي معجزانہ طور پر واپس ہوئي_ قرآن كہتا ہے: (فارتد بصيرا)

۲۵۱

يوسف (ع) ، يعقوب اور بھائيوں كى سرگزشت كا اختتام

عظيم ترين بشارت لئے ہوئے مصرسے قافلہ كنعان پہنچا بوڑھے يعقوب بينا ہو گئے عجيب جو ش وخروش تھا سا لہا ل سال سے جو گھرانا غم واندوہ ميں ڈوبا ہوا تھا وہ خوشى اور سرور ميں ڈوب گيا ان سب نعمات الہى پر وہ پھولے نہيں سما تے تھے_

يو سف كى فرمائش كے مطا بق اس خاندان كو اب مصر كى طرف روا نہ ہو نا تھا سفر كى تيارى ہر لحا ظ سے مكمل ہو گئي يعقوب ايك مر كب پر سوارہو ئے_

جب كہ ان كے مبارك لبوں پر ذكر و شكر خدا جارى تھا اور عشق وصال نے انہيں اس طرح سے قوت وتو انا ئي بخشى تھى كہ گو يا وہ نئے سرے سے جوان ہو گئے تھے _

بھا ئيوں كے گزشتہ سفر تو خوف وپر يشانى سے گزر ے ليكن ان كے بر خلاف يہ سفر ہر قسم كے فكر وانديشہ سے خالى تھا يہا ں تك كہ اگر سفر كى كوئي تكليف تھى بھى تو اس انتظار ميں پنہاں مقصد كے سامنے اس كى كوئي حقيقت نہ تھى _

وصال كعبہ چناں مى دواندم بششاب

كہ خا رہاى مغيلاں حريرمى آيد

كعبہ مقصود كے وصال نے مجھے اتنا تيز دوڑا يا كہ خار مغيلاں ريشم معلوم ہو تے تھے _

۲۵۲

رات اور دن گو يا بڑى آہستگى سے گزررہے تھے كيو نكہ اشتياق وصال ميں ہر گھڑى ايك دن بلكہ ايك سال معلوم ہو رہى تھى مگر جو كچھ بھى تھا آخر گزرگيا مصر كى آبادى دور سے نما ياں ہو ئيں مصر كے سر سبز كھيت ، آسمان سے باتيں كر نے والے درخت اور خوبصور ت عمارتيں دكھا ئي دينے لگيں ،ليكن قرآن اپنى دائمى سيرت كے مطابق ان سب مقدما ت كو كہ جو تھوڑے سے غور وفكر سے واضح ہو جاتے ہيں حذف كر تے ہوئے كہتا ہے: ''جب وہ يو سف كے پاس پہنچے تو يو سف اپنے ماں باپ سے گلے ملے _''(۱)

آخر كار يعقوب كى زندگى كا شيريں تر ين لمحہ آگيا ديدار وصال كا يہ لمحہ فراق كے كئي سالوں بعد آيا تھا خدا كے سوا كو ئي نہيں جانتا ، كہ وصال كے يہ لمحات يعقوب اور يوسف پر كيسے گذرے ان شيريں لمحات ميں ان دونوں كے احساسات و جذبات كيا تھے، عالم شوق ميں انھوں نے كتنے آنسو بہائے اور عالم شوق ميں كيا نالہ و فرياد ہوا_

جناب يو سف كے خواب كى تعبير

''پھر يو سف نے سب سے كہا سر زمين مصر ميں قدم ركھيں كہ انشا ء اللہ يہا ں آپ بالكل امن وامان ميں ہوں گے''(۲) كيو نكہ مصر يو سف كى حكومت ميں امن وامان كا گہوارہ بن چكا تھا_

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ يو سف اپنے ماں باپ كے استقبال كے لئے شہر كے دروازے كے باہر تك آئے تھے اور شايد جملہ (ادخلو ا على يو سف ) كہ جو در واز ے سے باہر سے مر بوط ہے ، اس طرف اشارہ ہے كہ يو سف نے حكم ديا تھا كہ وہا ں خيمے نصب كئے جا ئيں اور ما ں باپ اور بھا ئيوں كى پہلے پہل وہاں پذيرائي كى جائے ،جب بارگا ہ يو سف ميں پہنچے ''تو اس نے اپنے ماں باپ كو تخت پر بٹھا يا ''(۳) نعمت الہى كى اس عظمت اور پرور دگار كے لطف كى اس گہرائي اور وسعت نے بھائيوں اور ماں باپ كو اتنا متا ثر كيا كہ وہ سب كے سب ''اس كے سامنے سجدے ميں گر گئے_ ''(۴)

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۹۹

(۲) سورہ يوسف آيت ۹۹

(۳)سورہ يوسف آيت ۱۰۰

(۴) سورہ يوسف آيت ۱۰۰

۲۵۳

اس مو قع پر يو سف نے باپ كى طرف رخ كيا ''اور عر ض كيا : ابان جان : يہ اسى خواب كى تعبير ہے جو ميں نے بچپن ميں ديكھا تھا ''(۱) كيا ايسا ہى نہيں كہ ميں نے خواب ميں ديكھا كہ سورج ، چاند اور گيار ہ ستارے ميرے سامنے سجدہ كر رہے ہيں ديكھئے : جيسا كہ آپ نے پيشين گو ئي كى تھى ''خدا نے اس خواب كو واقعيت ميں بدل ديا ہے ''(۲) ''اور پر وردگار نے مجھ پر لطف و احسان كيا ہے كہ اس نے مجھے زندان سے نكا لا ہے ''_(۳)

يہ بات قابل تو جہ ہے كہ حضرت يو سف نے اپنى زندگى كى مشكلات ميں صر ف زندان مصر كے بارے ميں گفتگو كى ہے ليكن بھائيوں كى وجہ سے كنعان كے كنوئيں كى بات نہيں كى ،اس كے بعد مزيد كہا :'' خدا نے مجھ پر كس قدر لطف كيا كہ آپ كو كنعان كے اس بيابان سے يہاں لے آيا جب كہ شيطان ميرے اور ميرے بھا ئيوں كے در ميان فساد انگيز ى كر چكا تھا _''(۴)

يہاں يو سف ايك مر تبہ پھر اپنى وسعت قلبى اور عظمت كا ايك نمو نہ پيش كر تے ہيں يہ نہيں كہتے كہ كو تا ہى كس شخص نے كي،بلكہ اس طرح سربستہ اور اجمالى طور پر كہتے ہيں كہ شيطان نے اس كا م ميں دخل اندا زى كى اور وہ فساد كا باعث بنا كيو نكہ وہ نہيں چا ہتے تھے كہ بھا ئيوں كى گزشتہ خطائوں كا گلہ كريں ،وہ جا نتا ہے كہ كون حا جت مند ہيں اور كو ن اہل ہيں '' كيونكہ وہ عليم وحكيم ہے '' _( ۵)

اس كے بعد يو سف، حقيقى مالك الملك اور دائمى ولى نعمت كى طرف رخ كر تے ہيں اور شكر اور تقاضے كے طور پر كہتے ہيں : ''پر ور دگار تونے ايك وسيع حكو مت كا ايك حصہ مجھے مر حمت فرمايا ہے '' _(۶) ''اور تو نے مجھے تعبير خواب كے علم كى تعليم دى ہے ''_(۷) اور اسى علم نے جو ظاہر اً سا دہ اور عام ہے ميرى زندگى اور تيرے بندوں كى ايك بڑى جما عت كى زندگى ميں كس قسم كا انقلا ب پيدا كر ديا ہے اور يہ علم كس قدر پر بر كت ہے_

____________________

(۱)سورہ يوسف آيت ۱۰۰ (۲) سورہ يوسف ايت۱۰۰

(۳) سورہ يوسف آيت ۱۰۰ (۴)سورہ يوسف آيت ۱۰۰

(۵) سورہ يوسف آيت ۱۰۰ (۶) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

(۷) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

۲۵۴

''تو وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمين كو ايجاد كيا ہے ''_(۱)

اور اسى بناء پر تمام چيزيں تيرى قدرت كے سامنے سر تسليم خم كئے ہو ئے ہيں ''پروردگار دنيا وآخرت ميں تو مير ا ولى ناصر مد بر اور محا فظ ہے ''_(۲)

'' مجھے اس جہا ن سے مسلمان اور اپنے فرمان كے سامنے سر تسليم خم كئے ہو ئے لے جا، اور مجھے صالحين سے كر دے ''_(۳)

ميں تجھ سے ملك كے دوام اور اپنى مادى حكو مت اور زند گى كى بقا ء كا تقا ضا نہيں كر تا كيو نكہ يہ تو سب فانى ہيں اور صرف ديكھنے ميں دل انگيز ہيں بلكہ ميں تجھ سے يہ چا ہتا ہو ں كہ ميرى عا قبت اور انجا م كا ر بخير ہو اور ميں تيرى راہ ميں ايمان وتسليم كے ساتھ ہوں اور تيرے لئے جان دوں اور صالحين اور تيرے باخلوص دو ستوں كى صف ميں قرار پائوں ميرے لئے يہ چيزيں اہم ہيں _

باپ كو سرگزشت نہ سنانا

جس وقت يعقوب (ع) يوسف (ع) سے ملاقات كے لئے پہنچے تو ان سے كہا: ميرے بيٹے ميرا دل چاہتا ہے كہ ميں پورى تفصيل جانوں كہ بھائيوں نے تمہارے ساتھ كيا سلوك كيا_

حضرت يوسف (ع) نے باپ سے تقاضا كيا كہ وہ اس معاملہ كو جانے ديں ليكن يعقوب (ع) نے انھيں قسم دے كر كہا كہ بيان كريں _

يوسف (ع) نے واقعات كا كچھ حصہ بيان كيا يہاں تك كہ بتايا : بھائيوں نے مجھے پكڑليا او ركنويں كے كنارے بٹھايا مجھے حكم ديا كہ كرتا اتاردوں تو ميں نے ان سے كہا: ميں تمہيں اپنے باپ يعقوب كے احترام كى قسم ديتا ہوں كہ ميرے بدن سے كرتا نہ اتاروں اور مجھے برہنہ نہ كرو، ان ميں سے ايك كے پاس چھرى تھى اس نے وہ چھرى نكالى اور چلاكر كہا: كرتا اتاردے_

____________________

(۱) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

(۲) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

(۳) سورہ يوسف آيت ۱۰۱

۲۵۵

يہ جملہ سنتے ہى يعقوب كى طاقت جواب دے گئي انھوں چيخ مارى او ربے ہوش ہوگئے جب وہ ہوش ميں آئے تو بيٹے سے چاہا كہ اپنى بات جارى ركھے ليكن يوسف (ع) نے كہا: آپ كو ابراہيم (ع) ، اسماعيل (ع) اور اسحاق (ع) كے خدا كى قسم مجھے اس كام سے معاف ركھيں _

جب يعقوب (ع) نے يہ جملہ سنا تو اس معاملہ سے صرف نظر كرليا_

يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ يوسف (ع) ہرگز نہيں چاہتے تھے كہ ماضى كے تلخ واقعات اپنے دل ميں لائيں يا باپ كے سامنے انھيں دھرائيں اگرچہ يعقوب (ع) كى جستجو كى حسّ انھيں مجبور كرتى تھي_

۲۵۶

۴ انبياء عليهم السلام کے واقعات

حضرت شعيب عليہ السلام

حضرت شعيب (ع) كى سر زمين''مدين''

يہاں گفتگو قوم شعيب اور اہل مدين كى ہے يہ وہى لوگ ہيں جنہوں نے توحيد كا راستہ چھوڑ ديا تھا اورشرك وبت پرستى كى سنگلاخ زمين ميں سرگرداں ہوگئے تھے يہ لوگ نہ صرف بتوں كو پوجتے تھے بلكہ درہم ودينار اور اپنے مال وثروت كى بھى پرستش كرتے تھے اور اسى لئے وہ اپنے كاروبار اور بارونق تجارت كو نادرستي،كم فروشى اور غلط طريقوں سے آلودہ كرتے تھے _

ابتداء ميں فرمايا گيا ہے :'' مدين كى طرف ہم نے ان كے بھائي شعيب كو بھيجا'' _(۱)(۲)

مدين (بروزن'' مريم'') حضرت شعيب اور ان كے قبيلے كى آبادى كا نام ہے يہ شہر خليج عقبہ كے مشرق ميں واقع ہے اس كے لوگ اولاد اسماعيل ميں سے تھے مصر، لبنان اور فلسطين سے تجارت كياكرتے تھے_

____________________

(۱)سورہ ہود آيت ۸۴

(۲)جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں لفظ''اخاھم'' (ان كا بھائي ) اس بناء پر ہے كہ اپنى قوم سے پيغمبروں كى انتہائي محبت كو بيان كيا جائے نہ صرف اس بناء پر كہ وہ افرادان كے گروہ اور قبيلے سے تھے بلكہ اس لئے كہ وہ ان كے خير خواہ اور ہمدرد بھائي كى طرح تھے_

۲۵۷

آج كل شہر مدين كا نام ''معان'' ہے بعض جغرافيہ دانوں نے خليج عقبہ كے درميان سے كوہ سينا تك زندگى بسر كرنے والوں پر مدين كے نام كا اطلاق كيا ہے ،توريت ميں بھى لفظ'' مديان '' آيا ہے ليكن بعض قبائل كے لئے (البتہ ايك ہى لفظ شہراور اہل شہر پر عام طور پر استعمال ہوجاتاہے )

قوم شعيب كى اقتصادى برائياں

اس پيغمبر اور ہمدرو ومہربان بھائي نے جيسا كہ تمام انبياء كا آغاز دعوت ميں طريقہ ہے پہلے انہيں مذہب كے اساسى ترين ركن '' توحيد'' كى طرف وعوت دى اور كہا : اے قوم : ''يكتا ويگانہ خدا كى پرستش كرو، كہ جس كے نے علاوہ تمہارا كوئي معبود نہيں ہے ''_(۱)

اس وقت اہل مدين ميں ايك اقتصادى خرابى شديد طور پر رائج تھى جس كا سر چشمہ شرك اور بت پرستى كى روح ہے اس كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا گيا ہے :''خريد وفروخت كرتے وقت چيزوں كا پيمانہ اور وزن كم نہ كرو :''(۲)

كم فروشى كے ذريعے فساد اور برائي ، لوگوں كے حقوق غصب كرنے كا فساد اور حقوق پر تجاوز كا فسانہ، معاشرتى ميزان اور اعتدال كو درہم برہم كرنے كا فساد ،اموال اورا شخاص پر عيب لگانے كا فساد _ خلاصہ يہ كہ لوگوں كى حيثيت، آبرو، ناموس اور جان كے حريم پر تجاوز كرنے كا فساد _

'' لاتعشوا'''' فساد نہ كرو'' كے معنى ميں ہے اس بناء پر اس كے بعد ''مفسدين'' كا ذكر زيادہ سے زيادہ تاكيد كى خاطر ہے _

قرآن مجيد ميں موجود آيات سے يہ حقيقت اچھى طرح سے واضح ہوتى ہے كہ توحيد كا اعتقاد اور آئيڈيالوجى كا معاملہ ايك صحيح وسالم اقتصاد كے لئے بہت اہميت ركھتا ہے نيز آيات اس امر كى نشاندہى كرتى ہيں كہ اقتصادى نظام كا درہم برہم ہونا معاشرے كى وسيع تباہى اور فساد كا سرچشمہ ہے _

____________________

(۱) سورہ ہود آيت ۸۴

(۲)سورہ ہود آيت ۸۴

۲۵۸

آخر ميں انھيں يہ گوش گزار كيا گيا ہے كہ ظلم وستم كے ذريعے اور استعمارى ہتھكنڈوں سے بڑھنے والى دولت تمہارى بے نيازى اور استغناء كا سب نہيں بن سكتى بلكہ حلال طريقے سے حاصل كيا ہوا جو سرمايہ تمہارے پاس باقى رہ جائے چاہے وہ تھوڑاہى ہو اگر خدا اور اس كے رسول پر ايمان كے ساتھ ہو تو بہترہے _(۱)

ہٹ دھرموں كى بے بنياد منطق

اب ہم ديكھتے ہيں كہ اس ہٹ دھرقوم نے اس آسمانى مصلح كى دعوت كے جواب ميں كيا رد عمل ظاہر كيا _

وہ جو بتوں كو اپنے بزرگوں كے آثار اور اپنے اصلى تمدن كى نشانى خيال كرتے تھے اور كم فروشى اور دھوكا بازى سے معاملات ميں بڑے بڑے فائدے اور مفادات اٹھاتے تھے حضرت شعيب كے جواب ميں كہنے لگے: اے شعيب : كيا تيرى نماز تجھے حكم ديتى ہے كہ ہم انہيں چھوڑديں كہ جن كى ہمارے آبائو اجداد پرستش كرتے تھے اور يا اپنے اموال كے بارے ميں اپنى آزادى سے ساتھ دھو بيٹھيں تو تو ايك بردبار حوصلہ مند اور سمجھ دار آدمى ہے تجھ سے يہ باتيں بعيد ہيں _(۲)(۳)

اس ظالم اور ستم گر قوم نے جب خود كوشعيب عليہ السلام كى منطقى باتوں كے مقابلے ميں بے دليل ديكھا تو اپنى برائيوں كو جارى و سارى ركھنے كے لئے ان پر تہمتوں كى بوچھاڑكردى _

____________________

(۱)سورہ ہود آيت۸۶

(۲)سورہ ہود آيت ۸۷

(۳)يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے كہ انہوں مو حضرت شعيب كى نماز كا ذكر كيوں كيا ؟ بعض مفسرين نے كہا ہے كہ يہ اس بناء پر تھا كہ حضرت شعيب زيادہ نماز پڑھتے تھے اور لوگوں سے كہتے تھے كہ نماز انسان كو برے اور قبيح اعمال سے روكتى ہے ليكن وہ لوگ جو نماز اور ترك منكرات كے رابطے كو نہ سمجھ سكے انہوں نے اس بات كا تمسخر اڑايا اور كہا كہ كيا يہ ذكر واذكار اور حركات تجھے حكم ديتى ہيں كہ ہم اپنے بزرگوں كے طور طريقے اور مذہبى ثقافت كو پائوں تلے روندديں يا اپنے اموال كے بارے ميں اپنا اختيار گنوابيٹھيں _

۲۵۹

سب سے پہلے وہى پراناليبل جو مجرم اور ظالم لوگ ہميشہ سے خدا كے انبياء پرلگاتے رہے ہيں آپ پر بھى لگايا اور كہا : ''توتو بس پاگل ہے''_(۱)

تيرى گفتگو ميں كوئي منطقى اور مدلل بات دكھائي نہيں ديتى تيرا خيال ہے كہ ايسى باتيں كركے تو ہميں اپنے مال ميں آزادى عمل سے روك دے ،اس كے علاوہ '' تو بھى تو صرف ہمارى طرح كا ايك انسان ہے '' _(۲) كيا تو سمجھتا ہے كہ ہم تيرى اطاعت كريں گے آخر تجھے ہم پر كون سى فضيلت اور برترى حاصل ہے_

''تيرے بارے ميں ہمارايہى خيال ہے كہ تو ايك جھوٹا شخص ہے ''_(۳)

ان كى يہ گفتگو كيسى تضادات پر مبنى ہے كبھى تو انھيں ايسا جھوٹا اور مفادپرست انسان كہتے تھے جود عوائے نبوت كى وجہ سے ان پر فوقيت حاصل كرنا چاہتاہے اور كبھى انھيں مجنون كہتے تھے ان كى آخرى بات يہ تھى كہ بہت اچھا '' اگر توسچا ہے تو ہمارے سر پر آسمان سے پتھربرسا اور ہميں اس مصيبت ميں مبتلا كردے جس كى ہميں دھمكى دے رہاہے تاكہ تجھے معلوم ہوجائے كہ ہم ايسى دھمكيوں سے نہيں ڈرتے ''_(۴) يہ الفاظ كہہ كرانھوں نے اپنى ڈھٹائي اوربے حيائي كى انتہا كردى اور اپنے كفرو تكذيب كا بدترين مظاہرہ كيا _

جناب شعيب(ع) كا جواب

ليكن جنہوں نے ان كى باتوں كو حماقت پرحمل كيا تھا اور ان كى بے عقلى كى دليل قرار دياتھا حضرت شعيب نے ان سے كہا:''اے ميرى قوم :(اے وہ لوگو: كہ تم مجھ سے ہو اور ميں تم سے ہوں اور جو كچھ ميں اپنے لئے پسند كرتا ہوں وہى تمہارے لئے بھى پسند كرتاہوں ) اگر خدا نے مجھے واضح دليل وحى اور نبوت دى ہو اوراس كے علاوہ مجھے پاكيزہ روزى اور حسب ضرورت مال ديا ہوتو كيا اس صورت ميں صحيح ہے كہ ميں اس كے فرمان كى مخالفت كروں يا تمہارے بارے ميں كوئي غرض ركھوں اور تمہارا خير خواہ نہ بنوں ''_(۵)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۱۸۵ (۲)سورہ شعراء آيت ۱۸۵

(۳) سورہ شعراء آيت ۱۸۶ (۴)سورہ شعراء آيت۱۸۷

(۵)سورہ ہود آيت ۸۸

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

طبری نے بھی اس داستان کی تفصیل میں ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کی ہے :

جب اسلامی فوج تمام سازوسامان ومال ومنال لے کر دریائے دجلہ کے ساحل پر پہنچی ، توسعددریاسے گزرنے کی ایک جگہ تلاش کرنے لگا۔لیکن دجلہ کوعبور کرنے کی کوئی راہ نہ پائی ۔بالآخر شہر مدائن کاایک باشندہ راہنمائی کے لئے سعد کی خدمت میں آیا اور سعد سے کہا:میں تم لوگوں کو ایک کم گہری جگہ سے عبور کراسکتا ہوں تاکہ تم لوگ دشمن کے دور ہونے سے پہلے اس تک پہنچ سکو ۔ اس کے بعد اس نے سعد کی سپاہ کو قطر بل نام کی ایک گزرگاہ کی طرف راہنمائی کی ۔ جس شخص نے اس گزرگاہ پر سب سے پہلے دریا میں قدم رکھاوہ ہاشم بن عتبہ تھاجو اپنے پیدل فوجیوں کے ہمراہ دریا میں کود پڑا ۔ جب ہاشم اوراس کے پیادہ ساتھی دریاسے گزر ے تو ہاشم کے سوار بھی دریا میں اترے ۔اس کے بعد سعد نے حکم دیاکہ عرفطہ کے سوار بھی دریائے دجلہ کوعبور کریں ۔اس کے بعد عیاض بن غنم کوحکم دیا کہ اپنے سوار فوجیوں کے ہمراہ دجلہ کوعبور کرے ۔اس کے بعد باقی فوجی دریا میں اترے اور اسے عبور کرگئے

ابن حزم بھی اپنی کتاب ''جمہرہ''میں لکھتا ہے :

اسلام کے سپاہیوں میں بنی سنبس کا سلیل بن زید تنہا شخص تھا جو مدائن کی طرف جاتے ہوئے دریائے دجلہ عبور کرنے کے دن غرق ہوا ۔اس کے علاوہ اس دن کوئی اور غرق نہیں ہواہے،

سند کی تحقیق:

طبری نے سیف کی پہلی روایت ،یعنی داستان کے اس حصہ کے بارے میں ،جہاں سے وہ سعد وقاص کے دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران حالت میں کھڑے رہنے کا ذکر کرتا ہے، وہاں سے سپاہیوں سے خطاب کرنے،عاصم کے پیش قدم ہونے ،سرانجام ساحل پرقبضہ کرنے اور ماہ صفر ١٦ھ میں مدائن میں داخل ہونے تک کسی راوی کاذکر نہیں کرتاہے اور نہ کسی قسم کی سند پیش کرتاہے۔

۳۲۱

لیکن دوسری روایت میں ،سیف داستان کو''ایک مرد''کی زبانی رو ایت کرتاہے ۔ ہمیں معلوم نہ ہوسکاکہ سیف نے اپنے خیال میں اس مرد کا کیا نام رکھاہے؟!تاکہ ہم راویوں کی فہرست میں اسے تلاش کرتے۔

اس کی پانچویں اور ساتویں روایت کے راوی محمد ،مھلب اور طلحہ ہیں کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں یہ سیف کی ذہنی تخلیق اور جعل کردہ راوی ہیں ۔

اسی طرح پانچویں روایت میں عمیر الصائری کوبھی راوی کی حیثیت سے پیش کرتاہے کہ ہم نے عمیر الصائری کانام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس نباء پرعمیر کوبھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کر تے ہیں ۔

لیکن تیسری اور چوتھی روایت کو ایسے رایوں سے نسبت دیتا ہے کہ جو در حقیقت موجود ہیں ایسے راوی تھے ۔لیکن ہم ہر گز یہ گناہ نہیں کرسکتے کہ سیف کے خود ساختہ جھوٹ کو ان کی گردنوں پر بار کریں جب کہ ہم نے پورے اطمینان کے ساتھ یہ معلوم کر لیا ہے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ان راویوں سے منسوب کئے ہیں اور دوسرے مورخین و مولفین نے ان راویوں سے اس قسم کی چیزیں نقل نہیں کی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ:

مدائن کی طرف جاتے وقت دریائے دجلہ سے عبور کرنا ایک مقامی راہنما کی راہنمائی سے انجام پایا ہے ۔اس نے اس گزرگاہ کی نشاندہی کی جہاں پر پانی کی گہرائی کم تھی اور جس شخص نے سب سے پہلے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم رکھا ،وہ ہاشم اور اس کی پیادہ فوج تھی ۔اس کے بعد ہاشم کے سوار فوجیوں نے دجلہ کو عبور کیا ۔اس کے بعد خالد اور اس کے بعد عیاض نے دریا میں قدم رکھا اوراسے عبور کیا ۔جب کہ سیف اپنے افسانے میں یوں ذکر کرتا ہے :

۳۲۲

سعد دریائے دجلہ ک کنارے پر متحیر و پریشان کھڑا تھا ۔دریا تلاطم اور طغیان کی حالت میں تھا کہ اس کا دیکھا ہوا خواب اس کی آنکھوں سے پردہ اٹھا تاہے ۔ وہ اپنی بات دوسرے سپاہیوں کے سامنے بیان کرتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں کہ: خدائے تعالیٰ ہماری اور تمھاری راہنمائی کرے ،جو چاہو حکم دو یہ باتیں اسے امید بخشتی ہیں عاصم بن عمرو وہ پہلوان ہے جو دریائے دجلہ عبور کرنے کے لئے سب سے پہلے آمادگی کا اعلان کرتاہے ۔سعد اسے چھ سو جنگجو ئوں اور دلیروں کی قیادت سونپتا ہے جو دریاکو عبور کرنے کے لئے آمادہ تھے ۔عاصم ساٹھ افراد کے ساتھ دریا میں قدم رکھتا ہے ،پانی میں دشمنون سے نبرد آزما ہوتا ہے اور ان پر فتح پاتا ہے ۔اس موقع پر سعد وقاص عاصم کے ''اھوال'' فوجی دستہ کو قعقاع کے ''خرساء '' فوجی دستے سے تشبیہ دیتا ہے ۔

سیف اس بات کی تشریخ کرتا ہے کہ دریا کے ساحل پر عاصم کے قدم جمانے کے بعد کسی طرح باقی سپاہیوں نے دریائے دجلہ میں قدم رکھا کہ ان کی کثرت کی وجہ سے ساحل سے دریا کی طرف دیکھنے والا پانی نہیں دیکھ سکتا تھا ،اور کیسے وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اپنی حالت یعنی دریا میں چلنے کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے تھے ،جیسے کہ خشکی میں ٹہل رہے تھے سیف تشریح کرتا ہے کہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتا تھا ،تو دریا کی تہہ سے فورا ًزمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر اوپر اٹھ آتا تھا اور بالکل اس شخص کے پائوں کے نیچے قرار پاجاتا تھا اور وہ شخص اس پر ٹھہر کر تھکاوٹ دور کرتا تھا ۔اسی سبب سے اس دن کو '' یوم الجراثیم'' یعنی زمین کے ٹکڑے کا دن کہا گیا ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ اس دن غرقدہ کے علاوہ کوئی جنگجو دریا ئے دجلہ میں غرق نہیں ہوا ،غرقدہ قبیلہ بارق سے تھا اور ایک نامور جنگجو اور شجاع سپاہی تھا ،وہ اپنے سرخ گھوٹے سے دریا میں گر گیا اور پانی میں ڈپکیاں لگا نے لگا جب مرد میدان اور خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنے گھوڑے کو غرقدہ کی طرف موڑا اوراپنا ہاتھ بڑھا کر غرقدہ کے ہاتھ کو پکڑ کر اسے کھینچ کے ساحل تک لے آیا اور اسے نجات دی ۔اس وقت غرقدہ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: اے قعقاع بہنیں تجھ جیسے کسی اور پہلوان کو جنم نہیں دے سکتیں !

۳۲۳

وہ مزید حکایت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : سپاہیوں میں سے ایک سپاہی کا برتن بندھن فرسودہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ کر دریا میں گر گیا اور دریا کی موجیں اسے اپنے ساتھ بہا لے گئیں آخر ان موجوں نے برتن کو ساحل تک پہنچا دیا ۔ساحل پر موجود ایک محافظ اسے دیکھتا ہے اور اپنے نیزہ کے ذریعہ پانی سے باہر کھینچ لیتا ہے اور سپاہ تک پہنچا دیتا ہے ۔برتن کا مالک اسے پہچان کر لے لیتا ہے ۔

سیف اپنے افسانوں کو اس صورت میں جعل کرکے اسلام کے حقائق کو توہمات کے پردے کے پیچھے چھپانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر غرقدہ کے پائوں کے نیچے کیوں نہ آگیا کہ وہ بیچارہ پانی میں گرکر نہ ڈوبا ہوتا اور قعقاع کو اسے نجات دینے کی ضرورت نہ پڑتی ؟کیا اس داستان میں یہی طے نہیں کیا گیا ہے کہ ایسی حالت میں بھی قعقاع اور خاندان تمیم افتخار حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں ۔اسی لئے غرقدہ کو غرق کیا جاتا ہے تاکہ یہاں پر بھی قعقاع کا نام نجات دہندہ ،بہادر اور بشر دوست کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام ہو جائے ؟جب فوج کے تمام سپاہی ،حتی گھوڑے بھی اس فضیلت کے لائق تھے کہ دریا ئے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ٹکڑا جد ا ہوکر ان کے پائوں کے نیچے قرار پائے تاکہ وہ تھکاوٹ دور کریں ،تو بیچارہ غرقدہ کیوں اس فضیلت سے محروم کیا گیا ؟ شائد سیف نے غرقدہ کے نام اور لفظ ''غرق'' کے درمیان موجود یکسانیت سے فائدہ اٹھاکر ایک بامسمیٰ داستان گڑھ لی ہے !!

سیف نے اپنے اس افسانے میں قعقاع اور عاصم نامی دو تمیمی بھائیوں کے لئے خاص فضائل ،شجاعتیں اور بہادریاں ذکر کی ہیں اور عام سپاہیوں کے بھی منقبت و فضائل بیان کئے ہیں تاکہ سیف کی کرامتیں اور فضائل درج کرنے والوں کو ایک جذبات بھرا اور جوشیلا افسانہ ہاتھ آئے ،چنانچہ ابونعیم نے اس افسانہ کو معتبر اور قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب '' دلائل النبوہ'' میں درج کیا ہے۔

سیف نے سپاہیوں کے دریائے دجلہ عبور کرنے کے افسانہ کو مستقل اور ایک دوسرے سے جدا چند روایات کی صورت میں اور مختلف راویوں کی زبانی نقل کرکے پیش کیا ہے تاکہ اس کی روایت پائدار اور ناقابل انکار ثابت ہو۔

۳۲۴

سیف اس افسانہ کو بھی اپنے اکثر افسانوں کی شکل و صورت بخشتا ہے اور اپنی مخصوص مہارت سے اپنے افسانہ کے سورمائوں کی سرگوشیاں ،باتیں اور حرکات و سکنات کی ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ گویا پڑھنے والا انھیں زندہ اپنے سامنے مشاہدہ کرتا ہے ،ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلتا ہے ،ان کے حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوتا ہے ،ان کی باتوں حتی سانس لینے کی آوازدجلہ کے پانی کے ساتھ لگنے والی گھوڑوں کی سموں کی آواز ،دریا کی لہروں کی آواز اور لوگوں کا شور وغل سب سن رہا ہوتا ہے ۔اور لوگوں کا پانی میں ایک دوسرے کے ساتھ اوپر نیچے ہونا ،حتی دریائے دجلہ کی تہہ سے اٹھنے والے زمین کے ٹکڑوں کے اوپر نیچے جانے کے منظر کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ،اس قسم کے زندہ اور محسوس افسانہ کے لئے راوی اور سند کی کیا ضرورت ہے کہ اسے قبول کریں اس کے سورمائوں کو پہچانیں اور باور کریں ؟کیا آپ نے سیف کی اس روایت کو غور سے نہیں پڑھا ہے جس میں وہ غرقدہ کے غرق ہونے کے بارے میں لکھتا ہے :

غرقدہ اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گر گیا ،برسوں گزرنے کے بعد بھی میں اس وقت اس منظر کو جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں غرقدہ کا گھوڑا اپنے سرگردن دراز کرکے تیز ی کے ساتھ ہلا رہا ہے اور پانی کی چھینٹیں اس کے گردن اور یال سے ہوا میں چھٹک رہی ہیں ڈوبنے والا پانی میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اپنے گرد گھوم رہا ہے اور دریا کی موجیں اسے غرق نہیں کرتیں اسی اثنا میں مرد میداں اور بیچاروں کا دادرس ،قعقاع متوجہ ہوتا ہے ،اپنے گھوڑے کی لگام کو غرقدہ کی طرف موڑلیتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے پاس پہنچاتاہے ،اپنا ہاتھ بڑھا تا ہے اور غرقدہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے کھینچ کر ساحل تک لے آتا ہے ،غرقدہ قبیلہ بارق سے ہے اور قعقاع کی ماں بھی اسی قبیلہ سے ہے وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہوکر کہتا ہے : اے قعقاع بہنیں تم جیسے سورما کو پھر جنم نہیں دے سکتیں ۔

سیف کے ایسے افسانے کڑھنے کا اصلی مقصد شائد یہی ہے کہ : صرف قبیلہ بارق کی عورتیں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کی عورتیں قعقاع تمیمی جیسا دلاور اور پہلوان جنم دینے سے قاصر ہیں ۔

سیف اپنے افسانہ میں قعقاع کے بھائی عاصم کی شجاعتیں اور دلاوریاں بھی ایک ایک کرکے گنواتاہے کہ وہ اتنے افسروں اور دلاوروں میں پہلا شخص تھا جس نے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم بڑھایا اور پانی و خشکی میں دشمنوں سے نبرد آزما ئی کی اور سب کو نابود کرکے رکھ دیا اور اگر کوئی بچ بھی نکلا تو وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا اور کس طرح اس دلاور پہلوان نے ساحل پر قبضہ جمایا کہ باقی سپاہی امن و سلامتی کے ساتھ دریا ئے دجلہ کو عبور کرگئے ۔

۳۲۵

داستان جراثیم کے نتائج

١۔ سعد وقاص کا ایک خطبہ ،جو عبارتوں کی ترکیب ،نثر نویسی اور خطابہ کے فن کے لحاظ سے ادبی کتابوں کی زینت بنے ۔

٢۔ سعد وقاص کی دعائیں جو دعائوں کی کتابوں میں درج ہو جائیں ۔

٣۔اسلامی جنگوں میں '' یوم جراثیم '' '' زمین کے ٹکڑوں کا دن'' کے نام سے ایک ایسے دن کی تخلیق کرنا جو تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہو جائے ۔

٤۔ اسلام کے سپاہیوں کے لئے فضیلت و منقبت کی تخلیق ،جیسے تھکاوٹ دور کرنے کے لئے دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کے ٹکڑے کا جدا ہوکر اوپر اٹھنا اور سپاہ اسلام کے پائوں کے نیچے قرار پاجانا تاکہ وہ فضائل و مناقب کی کتابوں میں ثبت ہو۔

٥۔گزشتہ افسانوں کی تائید وتاکید ،جیسے دوتمیمی بھائیوں کی کمانڈمیں سپاہ کے دو دستے ''اھوال'' اور '' خرسائ'' اور ان دو تمیمی بہادر بھائیوں کے دسیوں بلکہ سیکڑوں فضائل بیان کرنا

۳۲۶

عاصم ،سرزمین ایران میں !

قال سیف و کان عاصم من الصحابه

سیف کہتا ہے کہ عاصم ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا۔

جندی شاپور کی فتح کی داستان :

طبری ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے روایت کرتا ہے :

علاء بن خضرمی یمانی بحرین میں تھا ۔سعد وقاص نزاری کا سخت رقیب تھا جب اسے پتا چلا کہ قادسیہ کی جنگ میں سعد کو فتحیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور وہ ارتداد کی جنگوں کی نسبت اس جنگ میں بیشتر جنگی غنائم حاصل کرکے شہرت پا چکا ہے ،تو اس نے بھی فیصلہ کیا کہ اپنے طورپر جنوب کی طرف سے ایران پر حملہ کرکے سعد کے نمایاں کارناموں کے مقابلہ میں قابل توجہ کا رنامے انجام دے ۔ لہٰذا اس نے خلیفہ کی اطاعت یا نافرمانی وسرکشی کے موضوع کو اہمیت دئے بغیر جنوب کے سمندری راستے سے ایران پر حملہ کیا ،جب کہ خلیفہ عمر نے پہلے اسے ایسا کام کرنے سے منع کیا تھا۔

اپنے اس بلا منصوبہ حملہ کی وجہ سے علاء اور اس کے سپاہی ایرانی سپاہیوں کے محاصرے میں پھنس گئے ،سرانجام خلیفہ عمر ابن خطاب نے حکم دیا کہ عتبہ بن غزوان اپنے سپاہیوں کے ساتھ علاء اور اس کے سپاہیوں کو نجات دینے کے لئے بصرہ کی جانب سے فوراً روانہ ہو جائے ۔ایران کی طرف عزیمت کرنے والی عتبہ کی فوج کے نامور سرداروں میں عاصم بن عمرو تمیمی بھی تھا ۔

عتبہ ،عاصم اور بصرہ کے سپاہیوں نے علاء اور اس کے سپاہیوں کی مدد کی اور سر انجام دشمنوں کے محاصرہ کو توڑ کر ان پر فتح پانے میں کامیاب ہوئے ۔

۳۲۷

طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کرتے ہوئے اس کی سند کی روایت کا اشارہ کئے بغیر اپنی تاریخ میں درج کیاہے۔ابن کثیر نے بھی اس داستان کے مطالب کو اس جملہ کے ساتھ کہ :'' طبری نے یہ روایت سیف سے نقل کی ہے'' طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیاہے۔

طبری اس داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد روایت کرتاہے کہ اسلامی فوج نے ایران میں مختلف شہروں کو فتح کیا اور ان کا آخری شہر''جندی شاپور''تھا۔

طبری نے ،''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھاہے:

انھوں نے ،یعنی عتبہ ،عاصم اور علاء نے ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے شہر کامحاصرہ کیا اور محاصرہ کے دوران ایرانیوں سے نبرد آزمارہے۔ایک دن اچانک اور خلاف توقع مسلمانوں کے لئے قلعہ کے دروازے کھل گئے اور قلعہ کے محافظوں نے مسلمانوں سے کہا:تم لوگوں نے جوامان نامہ ہمارے لئے اپنے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکا تھا،ہم نے اسے قبول کیاہے۔مسلمانوں نے ان کی یہ بات آسانی سے قبول نہیں کی اور امان نامہ کو تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکنے پر یقین نہیں کیا ۔ اس موضوع پر کافی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ مکنف نام کے ایک غلام نے یہ حرکت کی تھی جو حقیقت میں ''جندی شاپور'' کا باشندہ تھا ۔اس نے تیر کے ذریعہ امان نامہ دشمن کے قلعہ کے اندر پھینکا تھا۔اس موضوع کی رپورٹ خلیفہ عمر کی خدمت میں بھیجی گئی تا کہ ان سے ہدایت حاصل کی جائے۔عمر نے ان کے جواب میں مکنف کے اقدام کی تائید اور امان نامہ کو منظور فرمایا۔

۳۲۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

طبری نے سیف کی بات کی یہیں تک روایت کی ہے اور دوسرے مؤرخین نے اس چیز کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں لکھاہے۔

لیکن حموی ''جندی شاپور''نام کے تحت اس داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھتاہے کہ عاصم بن عمرو نے ''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''اپنی جان کی قسم!مکنف نے بہترین صورت میں رشتہ داری کی رعایت کی ہے اور قطع رحم نہیں کیاہے۔اس نے ذلالت ،خواری،رسوائی اور شہروں کے ویران ہونے کے خوف سے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا، اور خلیفہ نے بھی غلام کے دئے گئے امان نامہ کو برقرار رکھ کر منظور فرمایاباوجود یکہ ہم ان سے اختلاف رکھتے تھے ۔جن امور کے بارے میں جنگ ہورہی تھی ،انھیں ایک ایسے منصف کو سونپاگیا جو صحیح فیصلہ کرتاہے اور اس حاکم نے بھی کہا کہ امان نامہ کو توڑا نہیں جاسکتاہے''۔

اس کے بعد حموی حسب ذیل صورت میں سلسلہ جاری رکھتاہے :

یہ سیف کا کہنا ہے ،جب کہ بلاذری فتح تستر(شوشتر)کی تشریح کے بعد لکھتاہے :

ابو موسیٰ اشعری نے وہاں سے ''جندی شاپور'' پر حملہ کیا۔لیکن شہر کے باشندوں نے انتہائی خوف کے سبب اس سے امان مانگی،ابوموسیٰ نے بھی موافقت کی اور مان لیا کہ سب باشندے امان میں ہوں گے،کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اسیر بنائے جائیں گے اور جنگ سے مربوط سازوسامان کے علاوہ کسی چیز پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا.....

یہ وہ مطالب تھے جنھیں حموی نے لفظ ''جندی شاپور'' کے بارے میں اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیاہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب ''روض المعطار '' میں لفظ''جندی شاپور '' کے بارے میں سیف سے نقل کرکے مندرجہ بالا داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں عاصم بن عمرو کے چوتھے شعر کے بعد پانچویں شعر کا حسب ذیل اضافہ کیاہے :

''خدا جانتاہے !''جندی شاپور'' کتنا زیبا ہے !کتنا اچھا ہوا کہ ویران اور مسمار ہونے سے بچ گیا،اتنے شہروں کے تباہ ہونے کے بعد''۔

۳۲۹

تحقیق کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جو علاء خضرمی یمانی اور سعد وقاص کے در میان حسد اور رقابت کی خبر دیتاہے اور وقت کے خلیفہ عمر بن خطاب کے حکم کی علاء کی طرف سے نافرمانی اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ محاصرہ میں پھنسنے کی خبر لکھتاہے کہ ہم نے اس کتاب کے آغاز میں ،جہاں پر خاندانی تعصبات کی بات کی ہے ،اس داستان کی طرف اشارہ کرکے اس کا سبب بھی بیان کیاہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے،جو عاصم بن عمرو کا نام لیتاہے اور اس کی شجاعتیں شمار کراتا ہے اور بعض رجز خوانیوں کو اس سے منسوب کرتاہے ۔

یہ طبری ہے جو سیف کی روایتوں کو رجز خوانیوں اور رزم ناموں کی وضاحت کئے بغیر اپنی کتاب میں نقل کرتا ہے ۔جب کہ حموی نے اسی داستان کو عاصم کے چار اشعار اور اس کے مصدر یعنی سیف کی وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ثبت کیا ہے ،اور حمیری نے اس داستان کو اس کے مصدر کے بارے میں اشارہ کئے بغیر عاصم کے پانچ اشعار کے ساتھ اپنی کتاب '' روض المعطار'' میں درج کیا ہے ٨

سند داستان کی تحقیق :

افسانوی سورما عاصم بن عمرو کے بارے میں بیان کی گئی سیف کی زیادہ تر احادیث میں راوی کے طور پر محمد اور مہلب کے نام نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد بھی اس کے بیانات میں جہاں عاصم کا نام آئے ،یہ دو اشخاص راویوں کے طور پر ملتے رہیں گے ۔اور ہم بھی مکرر کہتے رہیں گے کہ ان دو راویوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ سیف کے جعل کردہ راوی ہیں ۔

سیف ایک بار پھر شوش کی فتح کے بارے میں اپنی روایت کی سند کا یوں ذکر کرتا ہے : ''...اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے ...'' جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وہ کون ہے؟ اور اس کا نام کیا تھا ؟ کچھ معلوم نہیں ہے کہ اس کی تلاش کی جاتی ۔ ٩

۳۳۰

داستان کے نتائج:

١۔یمانی قحطانی صحابی کی مذمت و بدگوئی کرنا جو ایک مضری نزاری شخص سے حسد و رقابت کی بناء پر جنگ کے لئے اٹھتا ہے ،مضری خلیفہ سے سرکشی اور اس کے حکم کی نافرمانی جیسی لغزش سے دو چار ہوکر ایک بڑی اور ناقابل بخشش گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور ان دو فاحش غلطیوں کی وجہ سے نزدیک تھا کہ اپنے سپاہیوں سمیت ہلاک ہو جائے ۔

٢۔ کبھی واقع نہ ہوئی جنگوں کی تفصیلات اور تشریح بیان کرنا اور ایسی فتوحات کا سبب صرف افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا وجود ہوا کرتا تھا۔

٣۔ رزمیہ اشعار بیان کرنا تاکہ ادبیات عرب کے خزانے میں اضافہ ہو ۔

٤۔ سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمر وتمیمی کے درخشان اور قابل تحسین کارناموں کا اظہار۔

فتح سیستان کی داستان

طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں اس طرح روایت کی ہے :

خلیفہ عمر ابن خطاب نے ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج کے سات سرداروں کا انتخاب کیا اور ان علاقوں کی فتح کا حکم اور پرچم انھیں دیا ،ان میں سیستان کی فتح کا پرچم عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے بھیجا اور اسے اس علاقے کو فتح کرنے پر مامور کیا۔

یہاں پر سیف صراحتاًکہتا ہے کہ : عاصم بن عمرو اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے تھا ۔

طبری ٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے سیستان کی فتح کے بارے میں یوں روایت کرتا ہے :

۳۳۱

عاصم بن عمرو نے سیستان کی طرف عزیمت کی ۔اس علاقے کے مرکز تک پیش قدمی کرنے کے بعد وہاں کے باشندوں سے اس کا سامنا ہو اان کے ساتھ سخت جنگ کرنے کے بعد اس نے انھیں بری طرح شکست دی ۔سیستانی مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے اور سیستان کے دارالحکومت شہر ''زرنج '' میں پناہ لے لی اور چاروں طرف دیوار کھینچ دی ۔عاصم نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے شہر'' زرنج'' کا محاصرہ کیا اور وہاں کے باشندوں کا قافیہ تنگ کر دیا ۔لوگوں نے جب اپنے اندر عاصم سے لڑنے کی ہمت نہ پائی تو مجبور ہوکر صلح کی تجویز پیش کی ،اس شرط پر کہ عاصم ان کی کاشت کی زمین انھیں واپس کردے ۔عاصم نے یہ تجویز منظور کی اور ان کی زمینیں انھیں واپس کر دیں اس طرح اس نے منطقۂ سیستان ،جو منطقہ خراسان سے بھی وسیع تھا ،کواپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس علاقہ کی سرحدیں وسیع و عریض تھیں اور مختلف علاقوں کے لوگوں ،جیسے قندہار ،ترک اور دیگر قوموں کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافی جنگ و جدال ہوا کرتی تھی۔

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے عاصم بن عمرو کے ذریعہ سیستان کو فتح کرنے کے سلسلے میں ذکر کیا ہے اور تاریخ لکھنے والوں نے طبری کے بعد ،ان ہی مطالب کو اس سے نقل کیاہے ۔

حموی لفظ '' زرنج'' کے بارے میں لکھتا ہے :

...اور سیستان کو خلافت عمر کے زمانے میں عاصم بن عمرو نے فتح کیا ہے اور اس نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں :

'' زرنج کے بارے میں مجھ سے پوچھو !کیا میں نے زرنج کے باشندوں کو بے سہارا اور پریشان نہیں کیا جب میں ان کے ہاتھ کی ضرب کو اپنے انگوٹھے کی ضرب سے جواب دیتا تھا ؟!''

طبری ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان نے سیستان کی حکومت کسی اور کو سونپی ،اس کے بعد دو بارہ یہ عہد ہ عاصم بن عمرو کو سونپا ۔عثمان نے اپنی خلافت کے چوتھے سال عاصم بن عمر و کو صوبہ کرمان کا گورنر منصوب کیا اور وہ مرتے دم تک اسی عہدہ پر باقی رہا۔

عاصم کے مرنے کے بعد ایران کے علاقے میں شورش و بغاوتیں شروع ہوئیں اور علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی ۔

۳۳۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

عاصم کے ذریعہ فتح سیستان اور سیستان و کرمان پراس کی حکومت کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور دوسرے مورخین نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ،جب ک بلاذری فتح سیستان کے بارے میں لکھتا ہے:

عبد اللہ بن عامر بن کریز نے ربیع بن زیاد حارثی کو سیستان کی جانب بھیجا ۔ ربیع نے سیستان کے باشندوں سے صلح کی اور دو سال تک سیستان پر حکومت کی ،اس کے بعد عبداللہ بن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ کو سیستا ن کی حکومت کے لئے منصوب کیا اور خلافت عثمان کے زوال تک یہی عبدالرحمن سیستان پر حکومت کرتا رہا ۔ ١٠

تحقیق و موازنہ کا نتیجہ :

سیف تنہا فرد ہے جو ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے خلیفہ عمر کے واضح حکم کی روایت کرتا ہے اور فتح سیستان کے پرچم کو عمر کی طرف سے عاصم بن عمرو کے حوالے کرکے نتیجہ حاصل کرتا ہے کہ یہ عاصم بن عمرو ہی تھا جس نے سیستان کے دارالحکومت زرنج کو وہاں کے باشندوں

سے صلح کرکے اپنے قبضے میں لے لیا اور حموی بھی سیف پر اعتماد کرکے فتح سیستان کے

مطالب کو لفظ ''زرنج'' کے سلسلہ میں اپنی کتاب میں درج کرتاہے ،جب کہ زرنج کا فاتح

ربیع بن زیاد ہے۔

اور سیف تنہا فرد ہے جس نے عاصم بن عمرو کی سیستان پر حکومت اور کرمان کی گورنری کی روایت کی ہے اور عاصم کی وفات کی کرمان میں روایت کی ہے۔

۳۳۳

داستان کا نتیجہ:

١۔خلیفہ کی جانب سے عاصم کے لئے حکومت سیستان اور کرمان کا حکم جاری کرکے عاصم بن عمرو کے لئے افتخار کا اضافہ۔

٢۔خراسان سے زیادہ سے وسیع علاقہ پر عاصم بن عمرو کی فتحیابی جتلانا،کیونکہ سیستان وسعت اور مختلف اقوام سے ہمسائیگی نیز فوجی اور سیاسی لحاظ سے بہت اہم تھا۔

٣۔اس بات کی وضاحت اور تاکید کرنا کہ عاصم بن عمرو تمیمی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا۔

٤۔عاصم کی تاریخ وفات اور جگہ معین کرنا۔

۳۳۴

عمرو بن عاصم

یہاں تک ہم نے سیف کے ان افسانوں کا ایک خلاصہ پیش کیا جو اس نے عمرو تمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔مناسب ہے کہ ان دو بھائیوں کے سلسلے کو یہیں پر ختم نہ کیاجائے بلکہ اگلی فصل میں بھی ان دو ''نامور''اور ''بے مثال''بھائیوں میں سے ایک کے بیٹے کے بارے میں سیف کی زبانی روایت سنیں ۔

عاصم کا بیٹا اور اس کا خاندان

ھذا عن القعقاع وعن اخیہ عاصم

یہ ہے سیف کے ان مطالب کا خلاصہ ،جو اس نے قعقاع اور اس کے بھائی عاصم کے بارے میں جھوٹ کے پل باندھ کربیان کئے ہیں ۔

(مؤلف)

عمرو بن عاصم

سیف نے اپنی ذہنی تخلیق ،عاصم کے لئے عمرو نام کا ایک بیٹا بھی خلق کیاہے اور اس کے بارے میں ایک داستان بھی گڑھی ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں گڑھی گئی اپنی داستانوں میں سے ایک کے ضمن میں سیف یوں لکھتاہے:

شہر کوفہ کے چند جوانوں نے رات کے وقت ابن حیسمان کے گھر میں نقب زنی کی وہ ننگی تلوار لے کر ان کے مقابلے میں آیا۔جب اس نے دیکھا کہ نقب زنوں کی تعداد زیادہ ہے،تو اس نے شور مچاتے ہوئے لوگوں سے مدد طلب کی ۔مذکورہ جوان جو آشوب وفتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے انھوں نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا:چپ ہوجاؤ!تلوار کا صرف ایک وار تجھے اس وحشتناک شب کے خوف سے آزاد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کے بعد انھوں نے اس کو سخت زدو کوب کرکے قتل کر ڈالا۔

۳۳۵

اس کے فریاد اور شور وغل سے جمع ہوئے لوگوں نے فتنہ گر جوانوں کا محاصرہ کرکے انھیں پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دئے ۔اس موضوع کی مکمل روداد خلیفہ عثمان کی خدمت میں بھیجی گئی ۔ عثمان نے ان کے لئے سزائے موت کا حکم صادر کیا۔اس کے بعد انھیں کوفہ کے دار الامارة پر پھانسی پر لٹکادیاگیا۔عمرو بن عاصم تمیمی جو اس ماجرا کا عینی شاہد تھا،یوں کہتاہے:

''اے فتنہ انگیزو!حکومت عثمان میں کبھی اپنے ہمسایوں پر جارحانہ حملہ کرکے انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرنا،کیونکہ عثمان بن عفان وہی ہے جسے تم لوگوں نے آزمایا ہے۔وہ چوروں کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق چوری کرنے سے روکتاہے اور ہمیشہ ان کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ کر احکام قرآن نافذ کرتاہے''۔

سیف نے عثمان کے دور حکومت کے لئے بہت سے افسانے تخلیق کئے ہیں اور خاندان مضر کے ان سرداروں کا دفاع کیاہے جو اس زمانے میں بر سر اقتدار تھے۔اور حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اس زمانے کی اسلامی شخصیات پر جھوٹے الزامات عائد کرکے انھیں اخلاقی برائیوں ،کم فہمیوں اور برے کاموں سے منسوب کیاہے اور اس کے مقابلے میں صاحب اقتدار افراد کو سادہ دل،پاک،نیک صفات اور نیک کردار ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے ۔ہم نے یہاں پراس سلسلہ میں اپنے موضوع سے مربوط کچھ مختصر نمونے پیش کئے ۔ ان تمام مطالب کی تحقیق کرنا اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔صرف یہ مطلب بیان کرنا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا داستان سیف کی دیگر داستانوں کی طرح صرف اس کے ذہن کی تخلیق ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔ ١١

داستان کا نتیجہ :

١۔ عثمان کے زمانے میں واقع ہونے والے حوادث سے خاندان مضر کو مبرّا قرار دینا۔

٢۔عاصم کے لئے عمرو نامی ایک بیٹے کا وجود ثابت کرنا تاکہ اس کانام خاندان تمیم کے نیک تابعین کی فہرست میں قرار پائے۔

۳۳۶

تاریخ میں عمرو کا خاندان

سیف کی روایتوں کے مطابق عاصم کے باپ،عمرو تمیمی کے گھرانے کے بارے میں ایک اور زاوئے سے مطالعہ کرنا بے فائدہ نہیں ہے :

١۔ قعقاع :سیف قعقاع کی کنیت ،ابن حنظلیہ بتاتاہے ۔اس کے لئے قبیلۂ بارق میں چند ماموں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی بیوی کوہنیدہ بنت عامر ہلالیہ نخع نام دیتاہے اور اصرار کرتاہے کہ وہ صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا اور اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے۔

قعقاع سقیفہ بنی ساعدہ میں حاضر تھااور وہاں پر واقع ہونے والے حالات کی خبر دیتاہے۔

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں کمانڈر کی حیثیت سے شرکت کرتاہے اور عراق کی فتوحات میں خالد بن ولید کے ہمراہ شرکت کرتا ہے ، اس کے ساتھ اسلامی فوج کے سپہ سالارکی مدد کرنے کے لئے شام کی طرف عزیمت کرتاہے اور وہاں سے ایران کی جنگوں مین اسلامی فوج کے سپہ سالار سعد وقاص کی مدد کے لئے ایران عزیمت کرتاہے ۔قادسیہ کی جنگ میں اور اس کے بعد والی جنگوں جیسے :فتوح مدائن ،جلولاء اور حلوان میں شرکت کرتاہے اس کے بعد ابو عبیدہ کی مدد کرنے کے لئے دوبارہ شام جاتاہے اور سرانجام حلوان کے گورنرکے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

قعقاع نے نہاوند کی جنگ ''فتح الفتوح ''میں اور اس کے بعدہمدان وغیرہ کی فتح میں شرکت کی ہے اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں عظیم مملکت اسلامیہ کے مشرقی علاقوں ۔جن کا مرکز کوفہ تھا۔ کے وزیر دفاع کے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قعقاع فتنہ اور بغاوتوں کے شعلوں کے بجھانے کی کوشش کرتاہے ،حتی خلیفہ عثمان کی جان بچانے کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتاہے لیکن اسے یہ توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے اور اس کے مدینے پہنچنے سے پہلے ہی عثمان شورشیوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں ۔

۳۳۷

ہم اسے امام علی ں کی خلافت کے زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کوفہ کے لوگوں کو اسلامی فوج سے ملحق ہونے کی ترغیب دیتاہے اور خود امام علی ں اور عائشہ ،طلحہ وزبیر کے درمیان صلح کرانے کے لئے سفیر صلح بن کر نمایاں سرگرمیاں انجام دیتاہے لیکن عبد اللہ ابن سبا اور اس کے چیلوں کی تخریب کاریوں کے نتیجہ میں اس مصلح اعظم کی کوششوں پر پانی پھر جاتاہے اور جنگ جمل شروع ہوجاتی ہے۔قعقاع جنگ جمل میں امام کے پرچم کے تلے شرکت کرتاہے عائشہ کے اونٹ کاکام تمام کرتاہے اور جنگ کے خاتمے پر جمل کے خیرخواہوں کو عام معافی دیتاہے۔

سرانجام یہی قعقاع اتنے درخشا ں کارناموں کے باوجود معاویہ ابن ابوسفیان کی حکومت میں ''عام الجماعہ''کے بعد امام علی ں کی محبت اور ان کی طرفداری کے جرم میں فلسطین کے علاقہ ایلیا میں جلا وطن کیاجاتاہے ۔اور اس کے بعد سیف کے اس افسانوی سورما اور ''تابناک اور بے مثال'' چہرے کاکہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔

٢۔عاصم :سیف نے اپنے افسانوں اور داستانوں میں عاصم کے بارے میں جوکچھ بیان کیاہے اس کا حسب ذیل خلاصہ یوں کیاجاسکتاہے:

عاصم کو جو سیف کے کہنے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا خالد،ارتداد کی جنگوں کے بعد اپنے ہراول دستہ کے سردار کے طور پر عراق کی طرف روانہ کرتاہے اور وہ خالد کی قیادت اور پرچم کے تحت عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کرتاہے،اس کے بعد مثنی اور ابو عبیدہ کی سر کردگی میں عراق کی جنگوں کو جاری رکھتاہے۔ان دو نامور سرداروں کے بعد قادسیہ ومدائن کسریٰ کی جنگوں میں سعد وقاص کی قیادت میں شرکت کرتاہے ۔اس کے بعد عتبہ بن غزوان کی سر کردگی میں علاء خضرمی یمانی کی نجات کے لئے ایران کے جنوبی علاقوں کی جنگ میں شرکت کرتاہے اور یہ لوگ ''جندی شاپور ''کوا یک دوسرے کی مدد سے فتح کرتے ہیں ۔اس کے بعد عمر کے زمانے میں ایک فوجی دستی کے کمانڈر کی حیثیت سے سیستان کی فتح کے لئے انتخاب ہوتاہے اور خلیفہ اسے فوج کا علم عطاکرتے ہیں ۔عاصم اپنی ماموریت کی طرف روانہ ہوتاہے ،سیستان کو فتح کرتاہے اور خلافت عمر کے زمانے مین وہاں کی حکومت کو سنبھالتاہے ۔

خلیفہ عثمان بن عفان بھی سیستان میں عاصم کی حکومت کی تائید کرتے ہیں ۔اور صوبہ کرمان کی حکومت بھی اسی کو سونپتے ہیں ۔سر انجام خلیفہ عثمان کی خلافت کے چوتھے سال جب کہ عاصم سیستان اور کرمان پر حکومت کررہاتھا ،وفات پاجاتاہے،اور عمرو کے نام سے اس کاایک بیٹا باقی بچتاہے جو تابعین میں سے ہے اور اپنے چند اشعار کے ذریعہ امت اسلامیہ میں خلافت عثمان کے زمانے میں شورشوں اور بغاوتوں کے وجود کی خبر دیتاہے اور اشرار ومجرمین کے خلاف خلیفہ کے شدید اقدامات کو بیان کرتاہے ۔

۳۳۸

عاصم کے بارے میں

سیف کے راویوں کاسلسلہ

وردت اسطور عاصم عند سیف فی نیف واربعین حدیثاً

عاصم کا افسانہ چالیس سے زیادہ روایات میں ذکر ہواہے۔

(مولف)

جن لوگوں سے سیف نے عاصم کا افسانہ نقل کیاہے

سیف نے عاصم کے افسانے کو چالیس سے زائد روایات کے ضمن میں درج ذیل راویوں سے نقل کیاہے :

١۔محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ ٢٨ روایات میں

٢۔زیاد بن سرجس احمری ١٦ روایات میں

٣۔مھلب بن عقبہ اسدی ٩ روایات میں

٤۔نضر بن سری ٣ روایات میں

٥۔ابو سفیان ،طلحہ بن عبد الرحمن ٢ روایات میں

٦۔ حمید بن ابی شجار ١ روایت میں

٧۔ ابن الرفیل

٨۔وہ اپنے باپ سے جب کہ باپ بیٹوں نے ایک ہی صورت میں ایک دوسرے سے روایت کی ہے۔

٩۔ظفر بن دہی

١٠۔عبد الرحمن بن سیاہ

۳۳۹

اور یہی راوی ہیں جنھوں نے قعقاع کی روایات نقل کی ہیں اور سیف ان ہی کی زبانی قعقاع کے افسانے بھی بیان کرتا تھا اور ہم نے ثابت کیا کہ ان میں سے ایک راوی بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھا ۔یہ سب کے سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور اس کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

درج ذیل نام بھی عاصم کے افسانوں کی روایات میں سے ہر ایک روایت کی سند میں راوی کے طور پر ذکر ہوئے ہیں لیکن قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں میں ان کا نام نظر نہیں آتا ۔

١١۔حمزة بن علی بن محفز

١٢۔عبداللہ بن مسلم عکلی

١٣ ۔کرب بن ابی کرب عکلی

١٤۔عمیر صائدی

ان کے بارے میں بھی ہم نے اپنی جگہ پر وضاحت کی ہے کہ چونکہ ان ناموں کو ہم نے سیف کے علاوہ کسی بھی روایت میں کہیں نہیں پایا اور راویوں کی فہرست میں بھی ان کے نا م نظر نہیں آتے۔لہٰذا انھیں بھی ہم سیف کے دیگر راویوں کی طرح اس کے اپنے ذہن کی تخلیق محسوب کرتے ہیں اور انشاء اللہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے دیگر جعلی راویوں کے ساتھ ایک الگ کتاب میں بیان کریں گے ۔

اس کے علاوہ چند مجہول راویوں کے نام بھی لئے گئے ہیں ،جیسے عطیہ ،بنی بکر سے ایک مرد، بنی اسد سے ایک مرد، ایک مرد سے ،اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وغیرہ ۔چوں کہ ان کا کامل طور سے ذکر نہیں کیا گیا ہے اور ان کے نام بھی ذکر نہیں کئے گئے ہیں اس لئے ان کی پہچان کرنا ممکن نہیں ہے ۔

اسی طرح بقول سیف جو روایت موسیٰ ابن طریف نے محمد بن قیس سے نقل کی ہے ،اس سلسلے میں علمائے رجال کے ہاں وہ تمام راوی مشخص و معلوم ہیں جن سے موسیٰ ابن طریف نے روایت کی ہے لیکن ان میں محمد بن قیس نام ١٢ کا کوئی راوی موجود نہیں ہے ۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416