ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215589 / ڈاؤنلوڈ: 4976
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ہمت بلند دار کہ مردان روز گار         از ہمت بلند بہ جایی رسیدہ اند

یعنی بزرگ شخصیات بلند ہمت والے تہے اور وہ اپنی ہمت کے ذریعہ ایک مقام و منزلت تک پہنچ گئے ۔

حضرت امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' قدر الرجل علیٰ قدر همّته ''(1)

ہر شخص کی قدر وقیمت ، اس کی ہمت کے لحاظ سے ہے۔

کیو نکہ بلند ہمت و حو صلہ انسان کو بہت اہمیت  عطا کر تا ہے ہمارے بزرگ کہ جو صاحبان اسرار اہل بیت عصمت و طہارت تہے اور جنہوں نے ان کی رضا کی راہ میں جا نفشا نی سے کام لیا وہ کس طرح عالی مقامات پر فائز ہو ئے اور کس طرح اہل بیت علیہم السلام کے معنوی چشمہ سے سیراب ہوئے ؟

ان افراد کا ظرف ایسا تہا کہ اہل بیت  کے لطف نے جن میں کسی قسم کی خود پسندی اور تکبر ایجاد   نہ کیا ۔ وہ جس مقام کی جانب جائیں ، ان پر عنا یات بہی اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں ۔ لیکن جو ایک خواب دیکہنے یا کسی معنوی  سیر کے اتفاق یا امام سے کسی مادی حاجت کے پورا ہونے سے پہولے نہ سمائے ، کیا وہ بلند حوصلہ و ہمت رکہتا ہے ؟ یا جو کوئی خواب سننے یا معنوی سیر کے اتفاق یا مادی حاجت کے پورا ہونے پر تعجب کرے اور اس کا انکار کرے ، کیا یہ اعلیٰ و بلند ہمت سے بہرہ مند ہے ؟

حضرت امیرالمومنین (ع)  فر ماتے ہیں :

'' من صغرت همّته بطلت فضیلته ''(2)

جس کی ہمت کم ہو وہ اپنی فضیلت کہو دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شرح غرر الحکم:ج 4ص  500 ، بحار الانوار:ج 78ص  14

[2] ۔ شرح غرر الحکم:ج 5 ص 210

۶۱

اپنے ارادہ پر عمل کریں

بہت سے موارد میں ممکن ہے کہ انسان کسی مناسب وقت و فرصت کو ضائع کر دے اور پہر اس پر افسوس کرے اور پشیمان ہو ، ایسی پشیمانیوں سے بچنے کے لئے تمام مناسب اور اچہے مکا نا ت و سہولیات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ارادہ پر عمل کریں  ۔

امام صادق (ع)ایک روایت میں فر ما تے ہیں :

'' اذا همّ احدکم بخیرٍ فلا یؤخّره ''(1)

جب بہی تم میں سے کوئی کسی اچہے کام کو انجام دینے کا ارادہ کرے تو اس میں تاخیر نہ کرو۔

  اسی طرح امام صادق (ع) ایک دوسری روایت میں فرما تے ہیں :

'' اذا همّت بخیرٍ فبادر فانّک لا تدری ما یحدث ''(2)

جب بہی کسی اچہے کام کا ارادہ کرو تو اسے شروع کرو ، کیو نکہ تم نہیں جانتے کہ بعد میں کیا چیز در پیش آجا ئے ۔

مختلف حوادث کے پیش آنے سے انسان بہت سی سہولیات و امکا نا ت کو گنوا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں ہم نے جس کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں اسے انجام دینے میں کامیاب نہیں ہو تے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحارالانوار:ج 71ص  17 2 ، مجالس شیخ مفید: 28 1

[2] ۔ بحا ر الا نوار:ج 71ص  2 2 2 ، اصول کا فی:ج 2ص  42 1

۶۲

قدرت در تصمیم گیری ، عامل پیروزی

وضعف در آن ، عامل شکست است

کامیابی کا عامل ارادہ کی قدرت ہے اور اس میں ضعف شکست کابا عث ہے ۔

جس طرح نیک کام کے لئے بلند حوصلہ و ہمت مقام انسان کی عظمت پر گوا ہ ہے ، اسی طرح   ارادہ  میں کمزور ی انسان کی ہار کی دلیل ہے ۔ پچیس ہزار افراد کے بارے میں تحقیق ومطالعہ سے یہ معلوم ہو اکہ ان کے ہدف تک نہ پہنچنے اور شکست کہانے کے اکتّیس اسباب میں سے اہم سبب عامل کمزورا رادہ تہا آج کے کام کو کل پر چہوڑ نا اور مسامحہ مضبوط ارادہ کے مخالف ہیں اس پر غلبہ پانا ضروری ہے ۔

اپنے ہدف تک پہنچنے والے ہزاروں افراد کے مطا لعہ سے یہ معلوم ہو گا کہ وہ پختہا رادہ  کے مالک تہے اور اپنے عزم و ارادہ پر ثابت قدم رہتے تہے  ۔

اپنے ہدف و مقصد تک نہ پہنچنے والے افراد ایسے ہو تے ہیں کہ جو ارادہ نہیں کر سکتے یا اپنے ارادہ کو بہت جلد بدل دیتے ہیں ۔

پس اپنی قدرت کے  مطابق قوت ارادہ کو مزید مضبوط کریں کیو نکہ ارادہ جس قدرپختہ ہوگا ، آپ کے لئے  بیشتر آثار فراہم کرے گا پہر آپ بلند حوصلہ و ہمت کے ساتہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں گے ۔

حضرت امیر المومنین(ع)  فر ماتے ہیں :

'' من کبرت همّته عزّ مرامه ''(1)

جس کی ہمت بلند ہو وہ عزیز و محترم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ شر ح غرر الحکم:ج 5ص  88 2

۶۳

نہ ہر در خت تحمل کند  جفای خزاں            غلام ہمّت سروم کہ این قدم دار

ہردرخت میں خزاں کی سختی و جفا کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی۔  لیکن یہ میرا ہی سرو ہے جو خزاںکی سختیوں کو برداشت کررہا ہے۔

پس عالی ہمت و ایسے افراد احترام کے  لائق ہیں کہ جو اپنے مصمم ارادے کی بناء پر اپنے ہدف کو پانے میں کامیا ب ہوگئے ۔ لوگ ایسی شخصیات کو عزت کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور ان کی مدح و تعریف   کر تے ہیں لوگ ایسے افراد کی رفتار و روش کو احترام کی نگاہ سے دیکہتے ہیں اور دوسروں کی نظروں میں یہ شخصیات ممتاز و بے نظیر شمار ہوتی ہیں ۔

ایسے افراد اگر اپنی ہمت و ارادے کو معنوی  مسائل اور تقرب خدا کی راہ میں قرار دیں تو یہ خدا اور خاندان رسالت  کے نزدیک ارزش و تقرب حاصل کریں گے کہ جو دوسروں کے لئے مورد غبطہ ہو ۔

ہمت عالی ز فلک بگذرد        مرد بہ ہمت ز ملک بگذ رد

اگر عالی اور بلند ہمت آسمان سے بہی آگے بڑہ جائے تو مرد اپنی ہمت کے ذریعہ ملائکہ سے بہی آگے بڑہ سکتا ہے ۔

۶۴

قوت ارادہ کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آنا

انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وقت گزرنے کے سا تہ ساتہ اس کا کردار و رفتار اس کے خلق اور ذات کا حصہ بن جا تا ہے جب اس کی عادت ہو جائے تو پہر اس سے جدا ہو نا ممکن نہیں ہو تا ۔

امام صادق (ع) فر ماتے ہیں :

'' الخلق خلقان ، احدهما نیّة والآخرة سجیّة قیل فایّهما افضل ، قال : النیّة لانّ صاحب السجیّة مجبول علی امرٍ لا یستطیع غیره وصاحب النیّة یتصبّر علی الطاعة تَصَبّراً فهذا افضل ''

اخلاق  کی  دو قسمیں  ہیں :

۱۔نیت کے ذریعہ حاصل ہو نے والا اخلاق ۔

۲۔ انسان کا طبیعی و ذاتی اخلا ق ۔

امام صادق سے پو چہا گیا کہ ان میں سے کون سا اخلاق افضل ہے ؟ امام صادق نے فرما یا : نیت کے ذریعہ حاصل شدہ اخلاق افضل ہے کیو نکہ جس کا اخلاق اس کی طبیعت سے اخذ ہو ، تو اس کی خلقت ایسی ہے کہ جو اس کے علا وہ کسی اور کام کے انجام دینے پر قادر نہیں ہو تا لیکن جو اپنے  ارادہ  سے پسندیدہ

اخلاق کا مالک بنے وہ صابرانہ اپنے پرور دگار کی  اطاعت کر تا ہے پس یہ شخص افضل ہے ۔

۶۵

عظیم لوگ اپنے قوة  ارادہ  کے ذریعہ اخلاق حسنہ کو اپنی طبیعت کا  حصہ بنا لیتے  ہیں اور اپنی مضبوط نیت و پختہ ارادے کے ذریعہ اخلاق رذیلہ اور نا پسندید ہ عا دات کو اپنے سے دور کرتے ہیں ۔ ذو القر نین نے دنیا کے مشرق و مغرب کو طے کیا مختلف اقوام عالم کو نزدیک سے دیکہا اور ان کے رفتار و کردار کا مشا ہدہ کیا انہوںنے تمام لوگوں میں سے چند ایسے لوگوں کو بہی دیکہا کہ جن کی آسان زندگی ان کے لئے حیرت کا سبب تہی وہ اعلیٰ ترین اور خوبصور ت زندگی گزار رہے تہے ان میں قتل و خونریزی اور خیانت کے آثار دکہائی نہیں دیتے تہے صاحب ثروت ، نچلے طبقے کو کچہ نہیں دیتے تہے ۔

لہذا ذو القر نین بہت حیران ہوئے اور ان سے بہت سے سوالات پوچہے اور ان سے قانع کنندہ جوابات لیئے انہوں  نے ان سے پوچہا:'' فما لکم لا تسبّون ولا تقتلون ؟ قالو: من قبل انّا غلبنا طبائعنا با لعزم و سنّنا انفسنا بالحلم ''

ذو لقرنین نے ان سے پوچہا : تمہارے معاشرے میں فحش و دشنام اور قتل و غارت کیوں اور کس وجہ سے نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : کیو نکہ ہم مصمم ارادے کے ذریعہ اپنی طبیعت پر غالب آچکے ہیں اور ہم نے قوی ارادہ سے بری عادات کو اپنے سے نکال دیا ہے اور بردبادی و حلم کو اپنی نفسانی روش قرار دیا ہے ۔

اس بناء پر اگر انسان طبیعتاً ظالم و جنایت کار ، جہوٹا یا ریا کار ، سست و کاہل ہو یا اس میں کوئی اور بری صفت ہو تو وہ مضبوط عزم  اور پختہ ارادہ سے انہیں بر طرف کر سکتا ہے اور اپنے کو صفات حسنہ سے مزین کرسکتا ہے ۔

کوہ نتوان شدن سدّ رہ مقصود مرد              ہمت مردان بر آرد از نہاد کوہ گرد

یعنی ایک بلند و با لا پہاڑ انسان کی منزل و مقصود میں رکاوٹ نہیں بن سکتا کیونکہ مردکی ہمت اس  پہاڑ کو بہی خاک کے ذرات میں تبدیل کر دیتی ہے ۔

پس اگر آپ خود  میں کسی پہاڑ کے  برابربری صفات و عا دات کو دیکہیں تو آپ قوت ارادہ اور مردا نہ ہمت کے ذریعہ انہیں نابود کر سکتے ہیں بلکہ آپ انہیں اچہی صفات میں تبدیل کر نے کی بہی قدرت رکہتے ہیں ۔

۶۶

ملّا صالح مازندرانی، ایک پختہ ارادہ کے مالک شخص

صالح مازندرانی ایسے صاحب تصمیم و پختہ ارادہ کے مالک تہے کہ جنہوں نے بہت کم وسائل کے باوجود اپنے مقصد کو پالیا وہ علا مہ مجلسی اول کے داماد اور نامور شیعہ علماء  میں سے تہے یہ ہر اس شخص کے لئے نمونہ ہیں کہ جو اعلیٰ مقاصد و اہداف رکہتے ہیں ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں دینی علوم حاصل کرنے والوں کے لئے حجت ہوں کیو نکہ مجہ سے بڑہ کر    کوئی فقیر نہیں تہا اور میرا حا فظہ سب سے ضعیف و بد تر تہا کبہی میں اپنے گہر تو کبہی اپنے فرزند کا نام بہول جا تا میری عمر کے تیس سال گزر چکے تہے کہ میں نے ( الف ، با ) سیکہنی شروع کی اور اتنی سعی و کوشش کی کہ خدا نے فضل کیا ۔

وہ فقر ، کند ذہن اور ضعیف حافظہ کے با وجود پختہ ارادہ  رکہتے تہے جس کی بدولت انہوں نے باارزش کتب کی تالیف کا مصمم ارادہ کیا اور کامیاب ہوئے ، وہ کتب آج بہی شیعہ  علماء  کے لئے مورد استفادہ ہیں ۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس قدر کم حافظہ رکہتے تہے کہ اپنے استاد کے گہر کو بہول جاتے اور اتنے فقیر و غریب تہے اور اتنا پرا نا لباس پہنتے کہ شرم کے مارے مجلس درس میں وارد نہ ہوتے وہ محل درس سے با ہر بیٹہتے اور ہڈیوں اور چنار کے درخت کے پتوں پر درس لکہتے ایک  بار کوئی مسئلہ مورد اشکال قرار پایا اور وہ چند روز تک جاری رہا  مرحوم مجلسی کے ایک شاگرد نے دیکہا کہ ملا صالح مازندرانی نے اس اشکال کا جواب چنار کے پتوں پر لکہا ہے ، اس نے درس میں علامہ  مجلسی کا جوا ب دیا ۔

۶۷

علامہ مجلسی  سمجہ گئے کہ یہ اس  کا جواب نہیں  ہے  لہذا انہوں نے اس سے پوچہا کہ یہ کس کا جواب ہے اور اس بارے میں اصرار کیا تو اس شاگرد نے بتا یا کہ یہ اس کا جواب ہے کہ جو مجلس درس کے باہر بیٹہا ہوا ہے ۔ علامہ مجلسی نے دیکہا تو ملا محمد صالح دروازے کے باہر بیٹہے ہوئے تہے ، علامہ نے ملا ّ  محمد صالح کو لباس دیا اور درس میں حاضر ہونے کو کہا وہ علامہ مجلسی کے اتنے مورد تو جہ قرار پائے کہ وہ انہیں اپنے گہر لے گئے اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی ! اور انہیں کو گہر کا کتابخانہ دیا ۔

بہ ہر کاری کہ ہمت بستہ گردد            اگر کاری بود ، گل دستہ گردد

یعنی جو کام بہی ہمت سے وابستہ ہو اور آپ اسے ہمت سے انجام دیں تو اگر وہ کام کانٹوں کی صورت میں بہی ہو تو وہ گل دستے میں تبدیل ہو جائے گا ۔

۶۸

اپنے ارادہ اور نیت کو تقویت دینا

علامہ صالح مازندرا نی نے بہت سی مشکلات کے با وجود پختہ ارادہ  کے ذریعہ علمی مراحل طے کرکے بلند مقام حاصل کیا اگر آپ چاہیں تو خدا آپ کو ب ھ ی یہ مقام عنایت فرمائے گا لیکن اس کے لئے اپنی نیت وارا دے میں کو تاہی نہ برتیں حضرت امیر المو منین  اپنے ایک خط میں لک ھ تے ہیں : '' فانّ اللّٰه یعطی العبد بقدر نیّته ''(1)

بے شک خدا ہر بندے کو اس کی نیت کے برابر عطا فرما تا ہے  ۔جس قدر انسان کی نیت کی اہمیت ہو ، خدا بہی اسی لحاظ سے اسے عطا کر تا ہے آپ کی نیت جس قدر بہتر اور خالص  ہو گی ، اسی لحاظ سے اجر و ثواب بہی زیاد ہو گا اس بناء پر اپنی نیت کو خالص کریں نہ کہ صرف اپنے اعمال کو زینت دیں ۔

خدا کے بزرگ بندے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے خدا کی توفیقات و عنایات کا دامن پکڑتے ہیں ایک روایت میں امام صادق اس راز سے پردہ اٹہا تے ہوئے فرما تے ہیں :

'' انّما قدّر اللّٰه عون العباد علیٰ قدر نیّاتهم ، فمن صحّت نیّته تمّ عون اللّٰه له  ومن قصرت نیّته ، قصرعنه العون بقدر الّذی قصر ''(2) خداوند تعالی لوگوں کی نیت کے مطابق ان کی مدد کو مقدر کر تا ہے جو صحیح و کامل نیت رک ھ تا ہو تو خداب ھ ی کامل طور پر اس کی مدد کر تا ہے اور جس کی نیت کم ہو اسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا ر الانوار:ج 33ص  88 5

 [2] ۔ بحار الانوار:ج 0 7ص 11 2

۶۹

لحاظ سے اس کی مدد میں بہی کمی آتی ہے۔

امام صادق (ع) اپنے اس قول میں کامیاب لوگوں کی کامیابی اور نا کام لوگوں کی ناکامی کے راز کو بیان فرماتے ہیں : کیو نکہ لوگوں کو خدا کی مدد ان کی نیت کے لحاظ سے پہنچتی ہے ۔

نیت و ارادہ اس قدر کا رساز اور پر قدرت ہے کہ اگر اپنے ارادہ کو تقویت دیں تو آپ کے جسم کا ضعف دور ہو جائے گا اور آپ جسمانی  لحاظ سے بہی ہر مشکل کام ا  نجام دینے کو تیار ہوں گے کیو نکہ نیت میں پختگی آپ کے  بدنی ضعف کو دور کرتی ہے حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں :

'' ما ضعف بدن عمّا قویت علیه النیّة ''(1)

 نیت کے ذریعہ سے قوی ہونے والے بدن کو کوئی ضعف لا حق نہیں ہو سکتا۔

بہت سے ورزش کار اور کہلاڑی جسمی تمرینات سے زیادہ روح کو تقویت دینے سے استفادہ کرتے ہیں کیو نکہ نیت سے  فکر اور ارادہ کو تقویت دینا، صرف بدن کو طاقت ور بنا نے سے بہتر ہے بہت سے افراد معتقد ہیں کہ جوا نی و بڑہا پا اور قوت و ضعف کا سر چشمہ ایک غیر جسمی منشاء ہے اگر چہ اس موضوع کو تمام قبول نہیں کرتے لیکن اس فرض کی بناء پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فکر و اندیشہ انسان کی صحت و مرض ،اور بندی  قدرت و ضعف  حتی کہ حیات وموت میں بہی مؤثر ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔   اما لی صدوق: 8 9 1 ، بحار الا نوار:ج 7 ص 5 0 2

۷۰

ارادہ کو تقویت دینے کے طریقے

1 ۔ ذوق و شوق آ پ کے ارادہ کو تقویت دیتا ہے

شیطان گناہ کار کو گمراہی کے راستے دکہا تا ہے اور گناہ اور وسوسہ کی طرف متحرک کر تا ہے تاکہ اس کے ذریعہ انسان کو راہ راست سے بہٹکا دے اور ابدی نقصان میں مبتلا کردے گمراہی کے راستوں میں سے ایک شہوت کا فراوان شوق ہے خدا وند متعال فرما تا ہے :

'' و یرید الّذین یتّبعون الشّهوات ان تمیلوا میلاً عظیماً ''(1)

شہوات کی پیرو ی کرنے والے چاہتے ہیں کہ تمہیں بالکل ہی راہ حق سے دور کردیں  ۔

ان میں شہوت کو پورا کرنے کا شوق اور نفس امارہ اور شیطان کی طرف تحرک کا اشتیاق ایجاد ہوجاتا ہے ۔ جنہیں انجام دینے سے وہ بدترین و زشت ترین گناہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔

جس طرح شہوت کو پورا کرنے کا اشتیاق انسان کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح اپنے عالی اہداف تک پہنچنے کا ذوق و شوق انسان کوا علیٰ علمی و معنوی مراتب پر فائز کر تاہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ سورہ نساء آیت: 7 2

۷۱

پس اگر آپ اعلیٰ اہداف کے حصول کی طرف مائل ہیں اور آپ آ سانی سے انہیں حاصل کر نا چاہتے ہیں تو اپنے میں شدید ذوق و شوق ایجاد کریں پہر سختیاں آسانی ، دشواریاں سہل اور ہدف سے دوری نزدیکی میں تبدیل ہو جائے گی ذوق و شوق سے ہر قسم کے مانع و دشواری کو بر طرف کر سکتے ہیں پہر آپ کا ارادہ ہدف تک پہنچنے کے لئے قوی ہو جائے گا کسی موضوع کے بارے میں ذوق و شوق ، بہت سے دیگر مسائل کو بہی بر طرف کر دیتا ہے لہذا آ پ شوق کی بنیاد پر  مختلف و پرا کندہ مسائل سے نجات پا کر عظیم ہدف تک پہنچنے کے لئے فعالیت کریں بہترین ہدف کا انتخاب کریں اور اس کے حصول کے لئے اپنے میں ذوق و شوق ایجاد کریں ۔

امام صادق(ع) سے منسوب ایک روایت میں ذکر ہواہے :

'' مثل المشتاق مثل الغریق ، لیس له همّة الاَّ خلاصه وقد نسی کلّ شیئیٍ دونه ''(1)

مشتاق شخص کی مثال کسی ڈوبنے والے شخص کی مانند ہے کہ جو اپنی نجات کے علاوہ کچہ اور نہیں سوچتا اور اس کے علاوہ ہر چیز کو فراموش کر دیتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحا ر الا نوار:ج 70  ص4 2

۷۲

2 ۔ امید و آرزو سے ہمت میں اضافہ ہو تا ہے

انسان کی جتنی زیادہ امید ہو ، اتنی ہی ہمت بیشتر ہو جاتی ہے جس انسان میں امید ہو ، اس میں شوق بہی بڑہ جا تا ہے لہذا جو نو جوان اپنے روشن مستقبل کی امید رکہتے ہیں ، ان کی آرزو معنویت اور روحانیت سے سرشار ہے انہیں بہتر مستقبل و مقام کی آرزو ہو تی ہے لہذا وہ زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن جن لوگوں کو نہ کوئی شوق ہو اور نہ امید وہ اپنے مستقبل کے بارے میں مأیوس وناامید ہو تے ہیں اسی مایوسی کے عالم میں وہ اچہے مستقبل کی تلاش و کوشش کو چہوڑ دیتے ہیں حا لا نکہ ہرروشن فکر انسان کا اولین و ظیفہ جستجو اور کوشش کرنا ہے اور ہر شیعہ اس امر سے آگاہ ہے مایوس و ناامید غم واندوہ کے عالم میں صرف شب و روز گزار رہا ہو تا ہے ، اس کے غموں میں مزید اضافہ ہو تا چلا جا تا ہے ۔  لیکن وہ ان سے نجات کی نہ  تو کوشش کر تا ہے اور نہ ہی ما یوسی کے عالم میں اسے امید کی  کوئی  کرن دکہائی دیتی ہے وہ نہ تو اپنی مشکلات کی گرہوں کو کہول سکتے ہیں اور نہ دوسروں کی ۔

جی ہاں ، یہ ان افراد کی زندگی گا نتیجہ ہے کہ جو خدا کی رحمت سے نا امید اور اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی حیات بخش عنایات سے مایوس ہو جاتے ہیں ۔

۷۳

3 ۔ خدا سے پختہ ارادہ و بلند ہمت کی دعا کریں  :

خاندان وحی و رسالت علیہم السلام  سے منقول دعا ئیں اور مناجات و توسلات انسان کی تربیت کی بہترین روش اور زندگی کا بہترین شیوہ ہیں عظیم اہداف ، بلند حوصلہ و ہمت اور پختہ و راسخ ترین ارادہ اہل بیت علیہم السلام کے انسان ساز مکتب سے سیکہیں ۔

ان مقدس ہستیوں نے  ہمیں نہ صرف اپنے اقوا ل و فرامین بلکہ دعاؤں اور مناجات میں بہی زندگی کا بہترین درس سکہا یا ۔ امام سجاد(ع) اپنی مناجات میں خدا کی در گاہ میں عرض کرتے ہیں :

'' اسألک من الهمم اعلا ها ''(1)

پرور دگار میں تجہ سے عالی ترین ہمت کا طالب ہوں ۔

امام سجاد (ع) اپنی مناجات کے اس جملہ سے اپنے تمام پیرو کاروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن فرماتے ہیں اور بے ہمت انسانوں کو دعا و درخواست کے ذریعہ بلند ہمت کی امید دلا تے ہیں ۔

یہ گفتار تمام لوگوں کو بیدار کرتی ہے سب یہ جان لیں کہ عالی ہمت افراد کے کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے بلکہ مکتب تشیع کے تمام پیروکار خدا وند متعال سے بلند ہمت کی دعا کریں اور اس کے حصول کی کوشش کریں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] ۔ بحار الانوار:ج 94ص  55 1

۷۴

نتیجہ ٔبحث

پختہ ارادہ اور بلند ہمت خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ہے ان کے ذریعہ آپ معنویت کے آسمان کی اوج پر پرواز کر سکتے ہیں خود میں یہ قدرت ایجاد کرو اور ضعف ، کاہلی و سستی سے پر ہیز کرو تاکہ آپ کی شرافت و عظمت میں اضافہ ہو قوةارادہ کا کمزور ہونا آپ کے توقف و ٹہہراؤ کا باعث ہے ، قوہ ارادة کو تقویت دینے سے آپ کامیابی کے نزدیک ہو سکتے ہیں امام صادق کے فرمان کی رو سے آپ مصمم ارادہ کے ذریعہ اپنے اندر پائی جانے والی بری عادات اور نا پسند ید ہ اخلاق کو ختم کر کے اچہے اور پسند یدہ اخلاق و عادات کو حاصل کر سکتے ہیں ہدف تک نہ پہنچنے میں نا کامی سے آپ کا ارادہ کمزور نہیں ہونا چاہئے  بلکہ ناکامی سے عبرت کا درس لیں اور اپنی قوہ ارادہ کو مزید مضبوط بنائیں ۔

پختہ ارادے اور مردانہ ہمت سے آپ صرف اعلیٰ انسانی مقامات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ ملائکہ کے در جات بہی حا صل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بڑہ کر وہ مقام و مرتبہ بہی حاصل کر سکتے ہیں کہ جب ملائکہ آپ کی خدمت کر کے فخر و مباہات محسو س کریں پس فرصت سے استفادہ کریں اور پختہ ارادے کے ذریعہ اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو حا صل کرنے کی کوشش کریں ۔

بہ زندگانی اگر عزم آہنین داری          بہ زیر  پا شودت کوہ چون زمین ہموار

اگر آپ زندگی میں پختہ عز م و ارادہ رکہتے ہوں توآپ کے پاؤں تلے پہاڑ بہی ہموار زمین کی مانند ہو جائے گا ۔

۷۵

پانچواں باب

نظم  و  ضبط

حضرت امیر المو منین  علی  علیہ  السلام  فرماتے ہیں :

'' اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّه ونظم امرکم ''

تمہیں وصیت کر تا ہوں کہ  تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط کی رعایت کرو ۔

    نظم وضبط کی اہمیت

    نظم و ضبط آشفتگی کو ختم کر تا ہے

    نو جوانوں کی صحیح نظم و ضبط میں مدد کریں

    نظم و ضبط : وقت سے استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ

    مرحوم شیخ انصاری کا منظم پروگرام

    نتیجۂ بحث

۷۶

نظم  وضبط  کی  اہمیت

نظم و ضبط اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک بہترین وسیلہ ہے اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے آپ منظم پروگرام تشکیل دے کر اپنی زندگی کے لمحات کو خوشگوار اور پر ثمر بنا سکتے ہیں۔ کو شش اور مصمم ارادے سے ایک صحیح اور منظمپروگرام تشکیل دے کر اس پر عمل کریں ، صحیحمنشور پر عمل انسان کو منظم ، متعہد اور انجام دیئے جا نے والی چیز کا معتقد بنا تا ہے کو شش کریں کہ زندگی کا ہر کام آپ کے منظم پروگرام کے مطابق ہوتا کہ اپنی زندگی کے لمحات سے بہتر طور پر استفادہ کر سکیں اور زندگی میں سر خرو ہوں۔ یہ وہ راستہ ہے کہ تاریخ کے عظیم ترین افراد نے جس کی پیروری کی اور اس کے پابند رہے آپ بہی ان کے راستے کو منتخب کریں اور کسی بہی لمحے خدا پسند ، منظم اور صحیح آئین کی تشکیل اور اس پر عمل پیرا ہو نے میں غفلت نہ کریں جس حد تک ممکن ہو ، کوشش کریں کہ آ پ کا آئین و منشور اور پروگرام خاندان وحی و عصمت  علیہم السلام کے حیات بخش مکتب کی ترویج کا باعث ہو س صورت میں آپ اپنے سر پر ان ہستیوں کاکریمانہ شفیقانہ ہاتہ محسوس کریں گے ۔

حضرت امیر المومنین (ع)  نے اپنے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے تمام فرزندوں ، اہل خانہ اور ہر اس شخص کو یہ وصیت فرمائی ، کہ جو ان کی اس وصیت سے مطلع ہو جائے ، انہوں نے فرمایا کہ کاموں میں نظم و ضبط کی رعایت کریں اور منظم پروگرام بنا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں ۔ '' قال امیر المو منین : عند وفاته للحسن و الحسین علیهما السلام ، اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی بتقوی اللّٰه ونظم امرکم ''(1)

حضرت امیر المومنین نے اپنی وفات کے وقت امام حسن اور حسین  سے فرمایا کہ : آپ ، میرے تمام فرزندوں اور اہل و عیال اور ہر اس شخص کو کہ جس تک میرا یہ فرمان پہنچے یہ وصیت کر تا ہوں کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اپنے امور میں نظم و ضبط  رکہو    ۔یہ کا ئنات کے پہلے امام امیر المو منین علی  کا پیغام ہے کہ جس سے نظم و ضبط کی اہمیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ نہج البلاغہ ، مکتو ب  7: 4 ، بحا ر الا نوار:ج 75ص  4 2

۷۷

نظم و ضبط  آشفتگی کو ختم کر تا ہے

جب آپ اپنی زندگی کے امور اور کاموں میں نظم و ضبط رکہتے ہوں اور پختہ ارادے سے اس پر عمل کریں تو آپ بہت سے باطنی تضاد اور بے حاصلسو چ  و فکر سے نجات پاجائیں گے ۔

نظم و ضبط عدم تضاد اور افراد کی آراء و افکار میں اختلاف کی بہترین دلیل ہے ۔ حکومتوں یا اداروں کے منشور میں اختلاف حکومتی یا اداری نظام میں نظم و ضبط کے نہ ہونے کی واضح دلیل ہے جہاں بڑے یا چہوٹے اجتماع میں اختلاف ہو وہاں نظم وضبط نہیں ہو تا ہر جگہ نظم ہونا چاہئے کیو نکہ یہ اس جگہ پر قدرت تدبیر کے موجود ہونے کا پتہ دیتا ہے کائنات کے نظام میں موجود نظم ، اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا نظام ایک منظم تدبیر کے تحت چل رہا ہے ۔ اگر آپ نظام کائنات میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ جس طرح کائنات کے چہوٹے چہوٹے ذرات میں نظم ہے ۔اسی طرح کہکشانوں میں نظم ہے انیسو یں صدی کے وسط میں انسان کو ذرات کے بارے میں تحقیقات سے کچہ معلومات حاصل ہوئی کہ ذ رات کے اندر بہی ایک نظم و قا نون کا رفرما ہے کہ جس میں تعطل نہیں ہو تا ، ایٹم میں مو جود الیکٹرون ہر سکینڈ میں تین کاٹر یلیون مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کر تا ہے کہ کوئی چیزبہی اس گردش کو نہیں روک سکتی ۔

لوہے کے ایک ذرّے میں موجود الیکٹرون بہی ہر سکینڈ میں تین کاٹریلیون مرتبہ اپنے مر کزکے گرد گردش کر تا ہے ۔

۷۸

جب لوہے کو اس قدر حرارت دیں کہ وہ گیس میں تبدیل ہو جائے تو پہر بہی الیکٹرون تین کاٹریلیون(۳۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰) مرتبہ ایٹم کے گرد گردش کرے گا ۔

فقط ایک صورت میں ممکن ہے کہ اس دائمی حرکت کو مختل کیا جا سکتا ہے کہ جب ایٹم کو توڑ دیا جائے اس صورت میں الیکٹرون اپنے مرکز سے دور ہو جائے گا ۔ لیکن یہ نہیں کہ وہ حرکت نہیں کر ے گا بلکہ اس صورت میں وہ ایک جدید مرکز و مدار کے گرد گردش شروع کرے گا ۔

جس قانون و نظام کے تحت الیکٹرون ، ایٹم کے گرد اتنی تیزی سے حرکت کر تاہے اسی طرح زمین ، سورج کے گرد اور سورج تمام ستاروں کے گرد اور یہ سب کہشاں اور کہشاں کسی دیگر چیز کے گرد گردش کر  تے ہیں کہ جس سے ہم آگاہ نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ وہ بہی گردش کرتے ہیں ۔

کائنات کا یہ عجیب نظم اس بات کی دلیل ہے کہ امر خلقت میں کسی قسم کی آشفتگی نہیں ہے کیو نکہ اگر اس میں تضاد و آ شفتگی ہو تی تو کائنات کا نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔

امام صادق (ع) مفضل سے فرماتے ہیں :

'' والتضاد لا یأتی بالنّظام '' (1)

تضاد سے نظم و جود میں نہیں آتا  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] ۔ بحا را لا نوار:ج 3 ص  3 6

۷۹

جس طرح خلقت کائنات میں نظم اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کی تدبیر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح چہوٹے ، بڑے اجتماعات میں نظم ، ان میں عدم اختلاف کی دلیل ہے پس نہ صرف خلقت کے مسئلہ میں بلکہ جس مورد میں  بہی نظم کی ضرورت ہو وہاں کسی صاحب تدبیر شخص کی بہی ضرورت ہو تی ہے ، پس تضاد و اختلاف اس امر کی دلیل ہے کہ وہاں کوئی تدبّر کے ذریعہ نظم قائم کرنے والا نہیں ہے ۔

اس بناء پر اختلاف و تضاد کو رفع کر نے کے لئے عملی پروگراموں  میں نظم بر قرار رکہیں اور فردی واجتماعی زندگی سے اختلافات کاقلع قمع کریں ۔

صرف اجتماعی و خانوادگی پروگراموں  میں ہی  نظم و ضبط افکار میں عدم تضاد کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ شخصی پروگراموں  میں بہی نظم وضبط کے وجود پر دلالت کر تا ہے کہ انسان کی زندگی میں تضاد و آشفتگی نہیں ہے اور یہ ایک منظم آئین کی پیرو ی کر رہا ہے ۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی زندگی تضاد سیبہری پڑی ہے ۔ مختلف نفسانی افکار خواہشات اور عقلی  دستورات انسان میں تضاد ایجاد کر تے ہیں بہت سے موارد میں افکار میں آشفتگی اور مشوش ہونا انہی تضاد کی وجہ سے ہے ایسے تضاد کبہی باعث بنتے ہیں کہ انسان کام کو چہوڑ دے اور اپنی زندگی حوادث کے سپرد کر دے ۔

نظم و برنامہ ایسے تضاد و اضطرا بات کو ختم کر تا ہے اور افکار و تخیلات کی تشویش کو ایک صحیح منشور  کی راہ دکہاتا ہے وقت گزرنے کے ساتہ مضطرب فکر کو ایک صحیحآئین و منشور کا سایہ فراہم ہو جا تا ہے ۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

طبری نے بھی اس داستان کی تفصیل میں ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کی ہے :

جب اسلامی فوج تمام سازوسامان ومال ومنال لے کر دریائے دجلہ کے ساحل پر پہنچی ، توسعددریاسے گزرنے کی ایک جگہ تلاش کرنے لگا۔لیکن دجلہ کوعبور کرنے کی کوئی راہ نہ پائی ۔بالآخر شہر مدائن کاایک باشندہ راہنمائی کے لئے سعد کی خدمت میں آیا اور سعد سے کہا:میں تم لوگوں کو ایک کم گہری جگہ سے عبور کراسکتا ہوں تاکہ تم لوگ دشمن کے دور ہونے سے پہلے اس تک پہنچ سکو ۔ اس کے بعد اس نے سعد کی سپاہ کو قطر بل نام کی ایک گزرگاہ کی طرف راہنمائی کی ۔ جس شخص نے اس گزرگاہ پر سب سے پہلے دریا میں قدم رکھاوہ ہاشم بن عتبہ تھاجو اپنے پیدل فوجیوں کے ہمراہ دریا میں کود پڑا ۔ جب ہاشم اوراس کے پیادہ ساتھی دریاسے گزر ے تو ہاشم کے سوار بھی دریا میں اترے ۔اس کے بعد سعد نے حکم دیاکہ عرفطہ کے سوار بھی دریائے دجلہ کوعبور کریں ۔اس کے بعد عیاض بن غنم کوحکم دیا کہ اپنے سوار فوجیوں کے ہمراہ دجلہ کوعبور کرے ۔اس کے بعد باقی فوجی دریا میں اترے اور اسے عبور کرگئے

ابن حزم بھی اپنی کتاب ''جمہرہ''میں لکھتا ہے :

اسلام کے سپاہیوں میں بنی سنبس کا سلیل بن زید تنہا شخص تھا جو مدائن کی طرف جاتے ہوئے دریائے دجلہ عبور کرنے کے دن غرق ہوا ۔اس کے علاوہ اس دن کوئی اور غرق نہیں ہواہے،

سند کی تحقیق:

طبری نے سیف کی پہلی روایت ،یعنی داستان کے اس حصہ کے بارے میں ،جہاں سے وہ سعد وقاص کے دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران حالت میں کھڑے رہنے کا ذکر کرتا ہے، وہاں سے سپاہیوں سے خطاب کرنے،عاصم کے پیش قدم ہونے ،سرانجام ساحل پرقبضہ کرنے اور ماہ صفر ١٦ھ میں مدائن میں داخل ہونے تک کسی راوی کاذکر نہیں کرتاہے اور نہ کسی قسم کی سند پیش کرتاہے۔

۳۲۱

لیکن دوسری روایت میں ،سیف داستان کو''ایک مرد''کی زبانی رو ایت کرتاہے ۔ ہمیں معلوم نہ ہوسکاکہ سیف نے اپنے خیال میں اس مرد کا کیا نام رکھاہے؟!تاکہ ہم راویوں کی فہرست میں اسے تلاش کرتے۔

اس کی پانچویں اور ساتویں روایت کے راوی محمد ،مھلب اور طلحہ ہیں کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں یہ سیف کی ذہنی تخلیق اور جعل کردہ راوی ہیں ۔

اسی طرح پانچویں روایت میں عمیر الصائری کوبھی راوی کی حیثیت سے پیش کرتاہے کہ ہم نے عمیر الصائری کانام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس نباء پرعمیر کوبھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کر تے ہیں ۔

لیکن تیسری اور چوتھی روایت کو ایسے رایوں سے نسبت دیتا ہے کہ جو در حقیقت موجود ہیں ایسے راوی تھے ۔لیکن ہم ہر گز یہ گناہ نہیں کرسکتے کہ سیف کے خود ساختہ جھوٹ کو ان کی گردنوں پر بار کریں جب کہ ہم نے پورے اطمینان کے ساتھ یہ معلوم کر لیا ہے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ان راویوں سے منسوب کئے ہیں اور دوسرے مورخین و مولفین نے ان راویوں سے اس قسم کی چیزیں نقل نہیں کی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ:

مدائن کی طرف جاتے وقت دریائے دجلہ سے عبور کرنا ایک مقامی راہنما کی راہنمائی سے انجام پایا ہے ۔اس نے اس گزرگاہ کی نشاندہی کی جہاں پر پانی کی گہرائی کم تھی اور جس شخص نے سب سے پہلے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم رکھا ،وہ ہاشم اور اس کی پیادہ فوج تھی ۔اس کے بعد ہاشم کے سوار فوجیوں نے دجلہ کو عبور کیا ۔اس کے بعد خالد اور اس کے بعد عیاض نے دریا میں قدم رکھا اوراسے عبور کیا ۔جب کہ سیف اپنے افسانے میں یوں ذکر کرتا ہے :

۳۲۲

سعد دریائے دجلہ ک کنارے پر متحیر و پریشان کھڑا تھا ۔دریا تلاطم اور طغیان کی حالت میں تھا کہ اس کا دیکھا ہوا خواب اس کی آنکھوں سے پردہ اٹھا تاہے ۔ وہ اپنی بات دوسرے سپاہیوں کے سامنے بیان کرتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں کہ: خدائے تعالیٰ ہماری اور تمھاری راہنمائی کرے ،جو چاہو حکم دو یہ باتیں اسے امید بخشتی ہیں عاصم بن عمرو وہ پہلوان ہے جو دریائے دجلہ عبور کرنے کے لئے سب سے پہلے آمادگی کا اعلان کرتاہے ۔سعد اسے چھ سو جنگجو ئوں اور دلیروں کی قیادت سونپتا ہے جو دریاکو عبور کرنے کے لئے آمادہ تھے ۔عاصم ساٹھ افراد کے ساتھ دریا میں قدم رکھتا ہے ،پانی میں دشمنون سے نبرد آزما ہوتا ہے اور ان پر فتح پاتا ہے ۔اس موقع پر سعد وقاص عاصم کے ''اھوال'' فوجی دستہ کو قعقاع کے ''خرساء '' فوجی دستے سے تشبیہ دیتا ہے ۔

سیف اس بات کی تشریخ کرتا ہے کہ دریا کے ساحل پر عاصم کے قدم جمانے کے بعد کسی طرح باقی سپاہیوں نے دریائے دجلہ میں قدم رکھا کہ ان کی کثرت کی وجہ سے ساحل سے دریا کی طرف دیکھنے والا پانی نہیں دیکھ سکتا تھا ،اور کیسے وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اپنی حالت یعنی دریا میں چلنے کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے تھے ،جیسے کہ خشکی میں ٹہل رہے تھے سیف تشریح کرتا ہے کہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتا تھا ،تو دریا کی تہہ سے فورا ًزمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر اوپر اٹھ آتا تھا اور بالکل اس شخص کے پائوں کے نیچے قرار پاجاتا تھا اور وہ شخص اس پر ٹھہر کر تھکاوٹ دور کرتا تھا ۔اسی سبب سے اس دن کو '' یوم الجراثیم'' یعنی زمین کے ٹکڑے کا دن کہا گیا ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ اس دن غرقدہ کے علاوہ کوئی جنگجو دریا ئے دجلہ میں غرق نہیں ہوا ،غرقدہ قبیلہ بارق سے تھا اور ایک نامور جنگجو اور شجاع سپاہی تھا ،وہ اپنے سرخ گھوٹے سے دریا میں گر گیا اور پانی میں ڈپکیاں لگا نے لگا جب مرد میدان اور خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنے گھوڑے کو غرقدہ کی طرف موڑا اوراپنا ہاتھ بڑھا کر غرقدہ کے ہاتھ کو پکڑ کر اسے کھینچ کے ساحل تک لے آیا اور اسے نجات دی ۔اس وقت غرقدہ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: اے قعقاع بہنیں تجھ جیسے کسی اور پہلوان کو جنم نہیں دے سکتیں !

۳۲۳

وہ مزید حکایت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : سپاہیوں میں سے ایک سپاہی کا برتن بندھن فرسودہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ کر دریا میں گر گیا اور دریا کی موجیں اسے اپنے ساتھ بہا لے گئیں آخر ان موجوں نے برتن کو ساحل تک پہنچا دیا ۔ساحل پر موجود ایک محافظ اسے دیکھتا ہے اور اپنے نیزہ کے ذریعہ پانی سے باہر کھینچ لیتا ہے اور سپاہ تک پہنچا دیتا ہے ۔برتن کا مالک اسے پہچان کر لے لیتا ہے ۔

سیف اپنے افسانوں کو اس صورت میں جعل کرکے اسلام کے حقائق کو توہمات کے پردے کے پیچھے چھپانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر غرقدہ کے پائوں کے نیچے کیوں نہ آگیا کہ وہ بیچارہ پانی میں گرکر نہ ڈوبا ہوتا اور قعقاع کو اسے نجات دینے کی ضرورت نہ پڑتی ؟کیا اس داستان میں یہی طے نہیں کیا گیا ہے کہ ایسی حالت میں بھی قعقاع اور خاندان تمیم افتخار حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں ۔اسی لئے غرقدہ کو غرق کیا جاتا ہے تاکہ یہاں پر بھی قعقاع کا نام نجات دہندہ ،بہادر اور بشر دوست کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام ہو جائے ؟جب فوج کے تمام سپاہی ،حتی گھوڑے بھی اس فضیلت کے لائق تھے کہ دریا ئے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ٹکڑا جد ا ہوکر ان کے پائوں کے نیچے قرار پائے تاکہ وہ تھکاوٹ دور کریں ،تو بیچارہ غرقدہ کیوں اس فضیلت سے محروم کیا گیا ؟ شائد سیف نے غرقدہ کے نام اور لفظ ''غرق'' کے درمیان موجود یکسانیت سے فائدہ اٹھاکر ایک بامسمیٰ داستان گڑھ لی ہے !!

سیف نے اپنے اس افسانے میں قعقاع اور عاصم نامی دو تمیمی بھائیوں کے لئے خاص فضائل ،شجاعتیں اور بہادریاں ذکر کی ہیں اور عام سپاہیوں کے بھی منقبت و فضائل بیان کئے ہیں تاکہ سیف کی کرامتیں اور فضائل درج کرنے والوں کو ایک جذبات بھرا اور جوشیلا افسانہ ہاتھ آئے ،چنانچہ ابونعیم نے اس افسانہ کو معتبر اور قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب '' دلائل النبوہ'' میں درج کیا ہے۔

سیف نے سپاہیوں کے دریائے دجلہ عبور کرنے کے افسانہ کو مستقل اور ایک دوسرے سے جدا چند روایات کی صورت میں اور مختلف راویوں کی زبانی نقل کرکے پیش کیا ہے تاکہ اس کی روایت پائدار اور ناقابل انکار ثابت ہو۔

۳۲۴

سیف اس افسانہ کو بھی اپنے اکثر افسانوں کی شکل و صورت بخشتا ہے اور اپنی مخصوص مہارت سے اپنے افسانہ کے سورمائوں کی سرگوشیاں ،باتیں اور حرکات و سکنات کی ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ گویا پڑھنے والا انھیں زندہ اپنے سامنے مشاہدہ کرتا ہے ،ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلتا ہے ،ان کے حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوتا ہے ،ان کی باتوں حتی سانس لینے کی آوازدجلہ کے پانی کے ساتھ لگنے والی گھوڑوں کی سموں کی آواز ،دریا کی لہروں کی آواز اور لوگوں کا شور وغل سب سن رہا ہوتا ہے ۔اور لوگوں کا پانی میں ایک دوسرے کے ساتھ اوپر نیچے ہونا ،حتی دریائے دجلہ کی تہہ سے اٹھنے والے زمین کے ٹکڑوں کے اوپر نیچے جانے کے منظر کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ،اس قسم کے زندہ اور محسوس افسانہ کے لئے راوی اور سند کی کیا ضرورت ہے کہ اسے قبول کریں اس کے سورمائوں کو پہچانیں اور باور کریں ؟کیا آپ نے سیف کی اس روایت کو غور سے نہیں پڑھا ہے جس میں وہ غرقدہ کے غرق ہونے کے بارے میں لکھتا ہے :

غرقدہ اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گر گیا ،برسوں گزرنے کے بعد بھی میں اس وقت اس منظر کو جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں غرقدہ کا گھوڑا اپنے سرگردن دراز کرکے تیز ی کے ساتھ ہلا رہا ہے اور پانی کی چھینٹیں اس کے گردن اور یال سے ہوا میں چھٹک رہی ہیں ڈوبنے والا پانی میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اپنے گرد گھوم رہا ہے اور دریا کی موجیں اسے غرق نہیں کرتیں اسی اثنا میں مرد میداں اور بیچاروں کا دادرس ،قعقاع متوجہ ہوتا ہے ،اپنے گھوڑے کی لگام کو غرقدہ کی طرف موڑلیتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے پاس پہنچاتاہے ،اپنا ہاتھ بڑھا تا ہے اور غرقدہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے کھینچ کر ساحل تک لے آتا ہے ،غرقدہ قبیلہ بارق سے ہے اور قعقاع کی ماں بھی اسی قبیلہ سے ہے وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہوکر کہتا ہے : اے قعقاع بہنیں تم جیسے سورما کو پھر جنم نہیں دے سکتیں ۔

سیف کے ایسے افسانے کڑھنے کا اصلی مقصد شائد یہی ہے کہ : صرف قبیلہ بارق کی عورتیں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کی عورتیں قعقاع تمیمی جیسا دلاور اور پہلوان جنم دینے سے قاصر ہیں ۔

سیف اپنے افسانہ میں قعقاع کے بھائی عاصم کی شجاعتیں اور دلاوریاں بھی ایک ایک کرکے گنواتاہے کہ وہ اتنے افسروں اور دلاوروں میں پہلا شخص تھا جس نے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم بڑھایا اور پانی و خشکی میں دشمنوں سے نبرد آزما ئی کی اور سب کو نابود کرکے رکھ دیا اور اگر کوئی بچ بھی نکلا تو وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا اور کس طرح اس دلاور پہلوان نے ساحل پر قبضہ جمایا کہ باقی سپاہی امن و سلامتی کے ساتھ دریا ئے دجلہ کو عبور کرگئے ۔

۳۲۵

داستان جراثیم کے نتائج

١۔ سعد وقاص کا ایک خطبہ ،جو عبارتوں کی ترکیب ،نثر نویسی اور خطابہ کے فن کے لحاظ سے ادبی کتابوں کی زینت بنے ۔

٢۔ سعد وقاص کی دعائیں جو دعائوں کی کتابوں میں درج ہو جائیں ۔

٣۔اسلامی جنگوں میں '' یوم جراثیم '' '' زمین کے ٹکڑوں کا دن'' کے نام سے ایک ایسے دن کی تخلیق کرنا جو تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہو جائے ۔

٤۔ اسلام کے سپاہیوں کے لئے فضیلت و منقبت کی تخلیق ،جیسے تھکاوٹ دور کرنے کے لئے دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کے ٹکڑے کا جدا ہوکر اوپر اٹھنا اور سپاہ اسلام کے پائوں کے نیچے قرار پاجانا تاکہ وہ فضائل و مناقب کی کتابوں میں ثبت ہو۔

٥۔گزشتہ افسانوں کی تائید وتاکید ،جیسے دوتمیمی بھائیوں کی کمانڈمیں سپاہ کے دو دستے ''اھوال'' اور '' خرسائ'' اور ان دو تمیمی بہادر بھائیوں کے دسیوں بلکہ سیکڑوں فضائل بیان کرنا

۳۲۶

عاصم ،سرزمین ایران میں !

قال سیف و کان عاصم من الصحابه

سیف کہتا ہے کہ عاصم ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا۔

جندی شاپور کی فتح کی داستان :

طبری ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے روایت کرتا ہے :

علاء بن خضرمی یمانی بحرین میں تھا ۔سعد وقاص نزاری کا سخت رقیب تھا جب اسے پتا چلا کہ قادسیہ کی جنگ میں سعد کو فتحیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور وہ ارتداد کی جنگوں کی نسبت اس جنگ میں بیشتر جنگی غنائم حاصل کرکے شہرت پا چکا ہے ،تو اس نے بھی فیصلہ کیا کہ اپنے طورپر جنوب کی طرف سے ایران پر حملہ کرکے سعد کے نمایاں کارناموں کے مقابلہ میں قابل توجہ کا رنامے انجام دے ۔ لہٰذا اس نے خلیفہ کی اطاعت یا نافرمانی وسرکشی کے موضوع کو اہمیت دئے بغیر جنوب کے سمندری راستے سے ایران پر حملہ کیا ،جب کہ خلیفہ عمر نے پہلے اسے ایسا کام کرنے سے منع کیا تھا۔

اپنے اس بلا منصوبہ حملہ کی وجہ سے علاء اور اس کے سپاہی ایرانی سپاہیوں کے محاصرے میں پھنس گئے ،سرانجام خلیفہ عمر ابن خطاب نے حکم دیا کہ عتبہ بن غزوان اپنے سپاہیوں کے ساتھ علاء اور اس کے سپاہیوں کو نجات دینے کے لئے بصرہ کی جانب سے فوراً روانہ ہو جائے ۔ایران کی طرف عزیمت کرنے والی عتبہ کی فوج کے نامور سرداروں میں عاصم بن عمرو تمیمی بھی تھا ۔

عتبہ ،عاصم اور بصرہ کے سپاہیوں نے علاء اور اس کے سپاہیوں کی مدد کی اور سر انجام دشمنوں کے محاصرہ کو توڑ کر ان پر فتح پانے میں کامیاب ہوئے ۔

۳۲۷

طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کرتے ہوئے اس کی سند کی روایت کا اشارہ کئے بغیر اپنی تاریخ میں درج کیاہے۔ابن کثیر نے بھی اس داستان کے مطالب کو اس جملہ کے ساتھ کہ :'' طبری نے یہ روایت سیف سے نقل کی ہے'' طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیاہے۔

طبری اس داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد روایت کرتاہے کہ اسلامی فوج نے ایران میں مختلف شہروں کو فتح کیا اور ان کا آخری شہر''جندی شاپور''تھا۔

طبری نے ،''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھاہے:

انھوں نے ،یعنی عتبہ ،عاصم اور علاء نے ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے شہر کامحاصرہ کیا اور محاصرہ کے دوران ایرانیوں سے نبرد آزمارہے۔ایک دن اچانک اور خلاف توقع مسلمانوں کے لئے قلعہ کے دروازے کھل گئے اور قلعہ کے محافظوں نے مسلمانوں سے کہا:تم لوگوں نے جوامان نامہ ہمارے لئے اپنے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکا تھا،ہم نے اسے قبول کیاہے۔مسلمانوں نے ان کی یہ بات آسانی سے قبول نہیں کی اور امان نامہ کو تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکنے پر یقین نہیں کیا ۔ اس موضوع پر کافی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ مکنف نام کے ایک غلام نے یہ حرکت کی تھی جو حقیقت میں ''جندی شاپور'' کا باشندہ تھا ۔اس نے تیر کے ذریعہ امان نامہ دشمن کے قلعہ کے اندر پھینکا تھا۔اس موضوع کی رپورٹ خلیفہ عمر کی خدمت میں بھیجی گئی تا کہ ان سے ہدایت حاصل کی جائے۔عمر نے ان کے جواب میں مکنف کے اقدام کی تائید اور امان نامہ کو منظور فرمایا۔

۳۲۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

طبری نے سیف کی بات کی یہیں تک روایت کی ہے اور دوسرے مؤرخین نے اس چیز کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں لکھاہے۔

لیکن حموی ''جندی شاپور''نام کے تحت اس داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھتاہے کہ عاصم بن عمرو نے ''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''اپنی جان کی قسم!مکنف نے بہترین صورت میں رشتہ داری کی رعایت کی ہے اور قطع رحم نہیں کیاہے۔اس نے ذلالت ،خواری،رسوائی اور شہروں کے ویران ہونے کے خوف سے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا، اور خلیفہ نے بھی غلام کے دئے گئے امان نامہ کو برقرار رکھ کر منظور فرمایاباوجود یکہ ہم ان سے اختلاف رکھتے تھے ۔جن امور کے بارے میں جنگ ہورہی تھی ،انھیں ایک ایسے منصف کو سونپاگیا جو صحیح فیصلہ کرتاہے اور اس حاکم نے بھی کہا کہ امان نامہ کو توڑا نہیں جاسکتاہے''۔

اس کے بعد حموی حسب ذیل صورت میں سلسلہ جاری رکھتاہے :

یہ سیف کا کہنا ہے ،جب کہ بلاذری فتح تستر(شوشتر)کی تشریح کے بعد لکھتاہے :

ابو موسیٰ اشعری نے وہاں سے ''جندی شاپور'' پر حملہ کیا۔لیکن شہر کے باشندوں نے انتہائی خوف کے سبب اس سے امان مانگی،ابوموسیٰ نے بھی موافقت کی اور مان لیا کہ سب باشندے امان میں ہوں گے،کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اسیر بنائے جائیں گے اور جنگ سے مربوط سازوسامان کے علاوہ کسی چیز پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا.....

یہ وہ مطالب تھے جنھیں حموی نے لفظ ''جندی شاپور'' کے بارے میں اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیاہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب ''روض المعطار '' میں لفظ''جندی شاپور '' کے بارے میں سیف سے نقل کرکے مندرجہ بالا داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں عاصم بن عمرو کے چوتھے شعر کے بعد پانچویں شعر کا حسب ذیل اضافہ کیاہے :

''خدا جانتاہے !''جندی شاپور'' کتنا زیبا ہے !کتنا اچھا ہوا کہ ویران اور مسمار ہونے سے بچ گیا،اتنے شہروں کے تباہ ہونے کے بعد''۔

۳۲۹

تحقیق کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جو علاء خضرمی یمانی اور سعد وقاص کے در میان حسد اور رقابت کی خبر دیتاہے اور وقت کے خلیفہ عمر بن خطاب کے حکم کی علاء کی طرف سے نافرمانی اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ محاصرہ میں پھنسنے کی خبر لکھتاہے کہ ہم نے اس کتاب کے آغاز میں ،جہاں پر خاندانی تعصبات کی بات کی ہے ،اس داستان کی طرف اشارہ کرکے اس کا سبب بھی بیان کیاہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے،جو عاصم بن عمرو کا نام لیتاہے اور اس کی شجاعتیں شمار کراتا ہے اور بعض رجز خوانیوں کو اس سے منسوب کرتاہے ۔

یہ طبری ہے جو سیف کی روایتوں کو رجز خوانیوں اور رزم ناموں کی وضاحت کئے بغیر اپنی کتاب میں نقل کرتا ہے ۔جب کہ حموی نے اسی داستان کو عاصم کے چار اشعار اور اس کے مصدر یعنی سیف کی وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ثبت کیا ہے ،اور حمیری نے اس داستان کو اس کے مصدر کے بارے میں اشارہ کئے بغیر عاصم کے پانچ اشعار کے ساتھ اپنی کتاب '' روض المعطار'' میں درج کیا ہے ٨

سند داستان کی تحقیق :

افسانوی سورما عاصم بن عمرو کے بارے میں بیان کی گئی سیف کی زیادہ تر احادیث میں راوی کے طور پر محمد اور مہلب کے نام نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد بھی اس کے بیانات میں جہاں عاصم کا نام آئے ،یہ دو اشخاص راویوں کے طور پر ملتے رہیں گے ۔اور ہم بھی مکرر کہتے رہیں گے کہ ان دو راویوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ سیف کے جعل کردہ راوی ہیں ۔

سیف ایک بار پھر شوش کی فتح کے بارے میں اپنی روایت کی سند کا یوں ذکر کرتا ہے : ''...اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے ...'' جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وہ کون ہے؟ اور اس کا نام کیا تھا ؟ کچھ معلوم نہیں ہے کہ اس کی تلاش کی جاتی ۔ ٩

۳۳۰

داستان کے نتائج:

١۔یمانی قحطانی صحابی کی مذمت و بدگوئی کرنا جو ایک مضری نزاری شخص سے حسد و رقابت کی بناء پر جنگ کے لئے اٹھتا ہے ،مضری خلیفہ سے سرکشی اور اس کے حکم کی نافرمانی جیسی لغزش سے دو چار ہوکر ایک بڑی اور ناقابل بخشش گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور ان دو فاحش غلطیوں کی وجہ سے نزدیک تھا کہ اپنے سپاہیوں سمیت ہلاک ہو جائے ۔

٢۔ کبھی واقع نہ ہوئی جنگوں کی تفصیلات اور تشریح بیان کرنا اور ایسی فتوحات کا سبب صرف افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا وجود ہوا کرتا تھا۔

٣۔ رزمیہ اشعار بیان کرنا تاکہ ادبیات عرب کے خزانے میں اضافہ ہو ۔

٤۔ سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمر وتمیمی کے درخشان اور قابل تحسین کارناموں کا اظہار۔

فتح سیستان کی داستان

طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں اس طرح روایت کی ہے :

خلیفہ عمر ابن خطاب نے ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج کے سات سرداروں کا انتخاب کیا اور ان علاقوں کی فتح کا حکم اور پرچم انھیں دیا ،ان میں سیستان کی فتح کا پرچم عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے بھیجا اور اسے اس علاقے کو فتح کرنے پر مامور کیا۔

یہاں پر سیف صراحتاًکہتا ہے کہ : عاصم بن عمرو اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے تھا ۔

طبری ٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے سیستان کی فتح کے بارے میں یوں روایت کرتا ہے :

۳۳۱

عاصم بن عمرو نے سیستان کی طرف عزیمت کی ۔اس علاقے کے مرکز تک پیش قدمی کرنے کے بعد وہاں کے باشندوں سے اس کا سامنا ہو اان کے ساتھ سخت جنگ کرنے کے بعد اس نے انھیں بری طرح شکست دی ۔سیستانی مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے اور سیستان کے دارالحکومت شہر ''زرنج '' میں پناہ لے لی اور چاروں طرف دیوار کھینچ دی ۔عاصم نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے شہر'' زرنج'' کا محاصرہ کیا اور وہاں کے باشندوں کا قافیہ تنگ کر دیا ۔لوگوں نے جب اپنے اندر عاصم سے لڑنے کی ہمت نہ پائی تو مجبور ہوکر صلح کی تجویز پیش کی ،اس شرط پر کہ عاصم ان کی کاشت کی زمین انھیں واپس کردے ۔عاصم نے یہ تجویز منظور کی اور ان کی زمینیں انھیں واپس کر دیں اس طرح اس نے منطقۂ سیستان ،جو منطقہ خراسان سے بھی وسیع تھا ،کواپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس علاقہ کی سرحدیں وسیع و عریض تھیں اور مختلف علاقوں کے لوگوں ،جیسے قندہار ،ترک اور دیگر قوموں کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافی جنگ و جدال ہوا کرتی تھی۔

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے عاصم بن عمرو کے ذریعہ سیستان کو فتح کرنے کے سلسلے میں ذکر کیا ہے اور تاریخ لکھنے والوں نے طبری کے بعد ،ان ہی مطالب کو اس سے نقل کیاہے ۔

حموی لفظ '' زرنج'' کے بارے میں لکھتا ہے :

...اور سیستان کو خلافت عمر کے زمانے میں عاصم بن عمرو نے فتح کیا ہے اور اس نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں :

'' زرنج کے بارے میں مجھ سے پوچھو !کیا میں نے زرنج کے باشندوں کو بے سہارا اور پریشان نہیں کیا جب میں ان کے ہاتھ کی ضرب کو اپنے انگوٹھے کی ضرب سے جواب دیتا تھا ؟!''

طبری ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان نے سیستان کی حکومت کسی اور کو سونپی ،اس کے بعد دو بارہ یہ عہد ہ عاصم بن عمرو کو سونپا ۔عثمان نے اپنی خلافت کے چوتھے سال عاصم بن عمر و کو صوبہ کرمان کا گورنر منصوب کیا اور وہ مرتے دم تک اسی عہدہ پر باقی رہا۔

عاصم کے مرنے کے بعد ایران کے علاقے میں شورش و بغاوتیں شروع ہوئیں اور علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی ۔

۳۳۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

عاصم کے ذریعہ فتح سیستان اور سیستان و کرمان پراس کی حکومت کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور دوسرے مورخین نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ،جب ک بلاذری فتح سیستان کے بارے میں لکھتا ہے:

عبد اللہ بن عامر بن کریز نے ربیع بن زیاد حارثی کو سیستان کی جانب بھیجا ۔ ربیع نے سیستان کے باشندوں سے صلح کی اور دو سال تک سیستان پر حکومت کی ،اس کے بعد عبداللہ بن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ کو سیستا ن کی حکومت کے لئے منصوب کیا اور خلافت عثمان کے زوال تک یہی عبدالرحمن سیستان پر حکومت کرتا رہا ۔ ١٠

تحقیق و موازنہ کا نتیجہ :

سیف تنہا فرد ہے جو ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے خلیفہ عمر کے واضح حکم کی روایت کرتا ہے اور فتح سیستان کے پرچم کو عمر کی طرف سے عاصم بن عمرو کے حوالے کرکے نتیجہ حاصل کرتا ہے کہ یہ عاصم بن عمرو ہی تھا جس نے سیستان کے دارالحکومت زرنج کو وہاں کے باشندوں

سے صلح کرکے اپنے قبضے میں لے لیا اور حموی بھی سیف پر اعتماد کرکے فتح سیستان کے

مطالب کو لفظ ''زرنج'' کے سلسلہ میں اپنی کتاب میں درج کرتاہے ،جب کہ زرنج کا فاتح

ربیع بن زیاد ہے۔

اور سیف تنہا فرد ہے جس نے عاصم بن عمرو کی سیستان پر حکومت اور کرمان کی گورنری کی روایت کی ہے اور عاصم کی وفات کی کرمان میں روایت کی ہے۔

۳۳۳

داستان کا نتیجہ:

١۔خلیفہ کی جانب سے عاصم کے لئے حکومت سیستان اور کرمان کا حکم جاری کرکے عاصم بن عمرو کے لئے افتخار کا اضافہ۔

٢۔خراسان سے زیادہ سے وسیع علاقہ پر عاصم بن عمرو کی فتحیابی جتلانا،کیونکہ سیستان وسعت اور مختلف اقوام سے ہمسائیگی نیز فوجی اور سیاسی لحاظ سے بہت اہم تھا۔

٣۔اس بات کی وضاحت اور تاکید کرنا کہ عاصم بن عمرو تمیمی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا۔

٤۔عاصم کی تاریخ وفات اور جگہ معین کرنا۔

۳۳۴

عمرو بن عاصم

یہاں تک ہم نے سیف کے ان افسانوں کا ایک خلاصہ پیش کیا جو اس نے عمرو تمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔مناسب ہے کہ ان دو بھائیوں کے سلسلے کو یہیں پر ختم نہ کیاجائے بلکہ اگلی فصل میں بھی ان دو ''نامور''اور ''بے مثال''بھائیوں میں سے ایک کے بیٹے کے بارے میں سیف کی زبانی روایت سنیں ۔

عاصم کا بیٹا اور اس کا خاندان

ھذا عن القعقاع وعن اخیہ عاصم

یہ ہے سیف کے ان مطالب کا خلاصہ ،جو اس نے قعقاع اور اس کے بھائی عاصم کے بارے میں جھوٹ کے پل باندھ کربیان کئے ہیں ۔

(مؤلف)

عمرو بن عاصم

سیف نے اپنی ذہنی تخلیق ،عاصم کے لئے عمرو نام کا ایک بیٹا بھی خلق کیاہے اور اس کے بارے میں ایک داستان بھی گڑھی ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں گڑھی گئی اپنی داستانوں میں سے ایک کے ضمن میں سیف یوں لکھتاہے:

شہر کوفہ کے چند جوانوں نے رات کے وقت ابن حیسمان کے گھر میں نقب زنی کی وہ ننگی تلوار لے کر ان کے مقابلے میں آیا۔جب اس نے دیکھا کہ نقب زنوں کی تعداد زیادہ ہے،تو اس نے شور مچاتے ہوئے لوگوں سے مدد طلب کی ۔مذکورہ جوان جو آشوب وفتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے انھوں نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا:چپ ہوجاؤ!تلوار کا صرف ایک وار تجھے اس وحشتناک شب کے خوف سے آزاد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کے بعد انھوں نے اس کو سخت زدو کوب کرکے قتل کر ڈالا۔

۳۳۵

اس کے فریاد اور شور وغل سے جمع ہوئے لوگوں نے فتنہ گر جوانوں کا محاصرہ کرکے انھیں پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دئے ۔اس موضوع کی مکمل روداد خلیفہ عثمان کی خدمت میں بھیجی گئی ۔ عثمان نے ان کے لئے سزائے موت کا حکم صادر کیا۔اس کے بعد انھیں کوفہ کے دار الامارة پر پھانسی پر لٹکادیاگیا۔عمرو بن عاصم تمیمی جو اس ماجرا کا عینی شاہد تھا،یوں کہتاہے:

''اے فتنہ انگیزو!حکومت عثمان میں کبھی اپنے ہمسایوں پر جارحانہ حملہ کرکے انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرنا،کیونکہ عثمان بن عفان وہی ہے جسے تم لوگوں نے آزمایا ہے۔وہ چوروں کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق چوری کرنے سے روکتاہے اور ہمیشہ ان کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ کر احکام قرآن نافذ کرتاہے''۔

سیف نے عثمان کے دور حکومت کے لئے بہت سے افسانے تخلیق کئے ہیں اور خاندان مضر کے ان سرداروں کا دفاع کیاہے جو اس زمانے میں بر سر اقتدار تھے۔اور حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اس زمانے کی اسلامی شخصیات پر جھوٹے الزامات عائد کرکے انھیں اخلاقی برائیوں ،کم فہمیوں اور برے کاموں سے منسوب کیاہے اور اس کے مقابلے میں صاحب اقتدار افراد کو سادہ دل،پاک،نیک صفات اور نیک کردار ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے ۔ہم نے یہاں پراس سلسلہ میں اپنے موضوع سے مربوط کچھ مختصر نمونے پیش کئے ۔ ان تمام مطالب کی تحقیق کرنا اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔صرف یہ مطلب بیان کرنا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا داستان سیف کی دیگر داستانوں کی طرح صرف اس کے ذہن کی تخلیق ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔ ١١

داستان کا نتیجہ :

١۔ عثمان کے زمانے میں واقع ہونے والے حوادث سے خاندان مضر کو مبرّا قرار دینا۔

٢۔عاصم کے لئے عمرو نامی ایک بیٹے کا وجود ثابت کرنا تاکہ اس کانام خاندان تمیم کے نیک تابعین کی فہرست میں قرار پائے۔

۳۳۶

تاریخ میں عمرو کا خاندان

سیف کی روایتوں کے مطابق عاصم کے باپ،عمرو تمیمی کے گھرانے کے بارے میں ایک اور زاوئے سے مطالعہ کرنا بے فائدہ نہیں ہے :

١۔ قعقاع :سیف قعقاع کی کنیت ،ابن حنظلیہ بتاتاہے ۔اس کے لئے قبیلۂ بارق میں چند ماموں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی بیوی کوہنیدہ بنت عامر ہلالیہ نخع نام دیتاہے اور اصرار کرتاہے کہ وہ صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا اور اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے۔

قعقاع سقیفہ بنی ساعدہ میں حاضر تھااور وہاں پر واقع ہونے والے حالات کی خبر دیتاہے۔

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں کمانڈر کی حیثیت سے شرکت کرتاہے اور عراق کی فتوحات میں خالد بن ولید کے ہمراہ شرکت کرتا ہے ، اس کے ساتھ اسلامی فوج کے سپہ سالارکی مدد کرنے کے لئے شام کی طرف عزیمت کرتاہے اور وہاں سے ایران کی جنگوں مین اسلامی فوج کے سپہ سالار سعد وقاص کی مدد کے لئے ایران عزیمت کرتاہے ۔قادسیہ کی جنگ میں اور اس کے بعد والی جنگوں جیسے :فتوح مدائن ،جلولاء اور حلوان میں شرکت کرتاہے اس کے بعد ابو عبیدہ کی مدد کرنے کے لئے دوبارہ شام جاتاہے اور سرانجام حلوان کے گورنرکے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

قعقاع نے نہاوند کی جنگ ''فتح الفتوح ''میں اور اس کے بعدہمدان وغیرہ کی فتح میں شرکت کی ہے اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں عظیم مملکت اسلامیہ کے مشرقی علاقوں ۔جن کا مرکز کوفہ تھا۔ کے وزیر دفاع کے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قعقاع فتنہ اور بغاوتوں کے شعلوں کے بجھانے کی کوشش کرتاہے ،حتی خلیفہ عثمان کی جان بچانے کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتاہے لیکن اسے یہ توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے اور اس کے مدینے پہنچنے سے پہلے ہی عثمان شورشیوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں ۔

۳۳۷

ہم اسے امام علی ں کی خلافت کے زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کوفہ کے لوگوں کو اسلامی فوج سے ملحق ہونے کی ترغیب دیتاہے اور خود امام علی ں اور عائشہ ،طلحہ وزبیر کے درمیان صلح کرانے کے لئے سفیر صلح بن کر نمایاں سرگرمیاں انجام دیتاہے لیکن عبد اللہ ابن سبا اور اس کے چیلوں کی تخریب کاریوں کے نتیجہ میں اس مصلح اعظم کی کوششوں پر پانی پھر جاتاہے اور جنگ جمل شروع ہوجاتی ہے۔قعقاع جنگ جمل میں امام کے پرچم کے تلے شرکت کرتاہے عائشہ کے اونٹ کاکام تمام کرتاہے اور جنگ کے خاتمے پر جمل کے خیرخواہوں کو عام معافی دیتاہے۔

سرانجام یہی قعقاع اتنے درخشا ں کارناموں کے باوجود معاویہ ابن ابوسفیان کی حکومت میں ''عام الجماعہ''کے بعد امام علی ں کی محبت اور ان کی طرفداری کے جرم میں فلسطین کے علاقہ ایلیا میں جلا وطن کیاجاتاہے ۔اور اس کے بعد سیف کے اس افسانوی سورما اور ''تابناک اور بے مثال'' چہرے کاکہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔

٢۔عاصم :سیف نے اپنے افسانوں اور داستانوں میں عاصم کے بارے میں جوکچھ بیان کیاہے اس کا حسب ذیل خلاصہ یوں کیاجاسکتاہے:

عاصم کو جو سیف کے کہنے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا خالد،ارتداد کی جنگوں کے بعد اپنے ہراول دستہ کے سردار کے طور پر عراق کی طرف روانہ کرتاہے اور وہ خالد کی قیادت اور پرچم کے تحت عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کرتاہے،اس کے بعد مثنی اور ابو عبیدہ کی سر کردگی میں عراق کی جنگوں کو جاری رکھتاہے۔ان دو نامور سرداروں کے بعد قادسیہ ومدائن کسریٰ کی جنگوں میں سعد وقاص کی قیادت میں شرکت کرتاہے ۔اس کے بعد عتبہ بن غزوان کی سر کردگی میں علاء خضرمی یمانی کی نجات کے لئے ایران کے جنوبی علاقوں کی جنگ میں شرکت کرتاہے اور یہ لوگ ''جندی شاپور ''کوا یک دوسرے کی مدد سے فتح کرتے ہیں ۔اس کے بعد عمر کے زمانے میں ایک فوجی دستی کے کمانڈر کی حیثیت سے سیستان کی فتح کے لئے انتخاب ہوتاہے اور خلیفہ اسے فوج کا علم عطاکرتے ہیں ۔عاصم اپنی ماموریت کی طرف روانہ ہوتاہے ،سیستان کو فتح کرتاہے اور خلافت عمر کے زمانے مین وہاں کی حکومت کو سنبھالتاہے ۔

خلیفہ عثمان بن عفان بھی سیستان میں عاصم کی حکومت کی تائید کرتے ہیں ۔اور صوبہ کرمان کی حکومت بھی اسی کو سونپتے ہیں ۔سر انجام خلیفہ عثمان کی خلافت کے چوتھے سال جب کہ عاصم سیستان اور کرمان پر حکومت کررہاتھا ،وفات پاجاتاہے،اور عمرو کے نام سے اس کاایک بیٹا باقی بچتاہے جو تابعین میں سے ہے اور اپنے چند اشعار کے ذریعہ امت اسلامیہ میں خلافت عثمان کے زمانے میں شورشوں اور بغاوتوں کے وجود کی خبر دیتاہے اور اشرار ومجرمین کے خلاف خلیفہ کے شدید اقدامات کو بیان کرتاہے ۔

۳۳۸

عاصم کے بارے میں

سیف کے راویوں کاسلسلہ

وردت اسطور عاصم عند سیف فی نیف واربعین حدیثاً

عاصم کا افسانہ چالیس سے زیادہ روایات میں ذکر ہواہے۔

(مولف)

جن لوگوں سے سیف نے عاصم کا افسانہ نقل کیاہے

سیف نے عاصم کے افسانے کو چالیس سے زائد روایات کے ضمن میں درج ذیل راویوں سے نقل کیاہے :

١۔محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ ٢٨ روایات میں

٢۔زیاد بن سرجس احمری ١٦ روایات میں

٣۔مھلب بن عقبہ اسدی ٩ روایات میں

٤۔نضر بن سری ٣ روایات میں

٥۔ابو سفیان ،طلحہ بن عبد الرحمن ٢ روایات میں

٦۔ حمید بن ابی شجار ١ روایت میں

٧۔ ابن الرفیل

٨۔وہ اپنے باپ سے جب کہ باپ بیٹوں نے ایک ہی صورت میں ایک دوسرے سے روایت کی ہے۔

٩۔ظفر بن دہی

١٠۔عبد الرحمن بن سیاہ

۳۳۹

اور یہی راوی ہیں جنھوں نے قعقاع کی روایات نقل کی ہیں اور سیف ان ہی کی زبانی قعقاع کے افسانے بھی بیان کرتا تھا اور ہم نے ثابت کیا کہ ان میں سے ایک راوی بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھا ۔یہ سب کے سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور اس کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

درج ذیل نام بھی عاصم کے افسانوں کی روایات میں سے ہر ایک روایت کی سند میں راوی کے طور پر ذکر ہوئے ہیں لیکن قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں میں ان کا نام نظر نہیں آتا ۔

١١۔حمزة بن علی بن محفز

١٢۔عبداللہ بن مسلم عکلی

١٣ ۔کرب بن ابی کرب عکلی

١٤۔عمیر صائدی

ان کے بارے میں بھی ہم نے اپنی جگہ پر وضاحت کی ہے کہ چونکہ ان ناموں کو ہم نے سیف کے علاوہ کسی بھی روایت میں کہیں نہیں پایا اور راویوں کی فہرست میں بھی ان کے نا م نظر نہیں آتے۔لہٰذا انھیں بھی ہم سیف کے دیگر راویوں کی طرح اس کے اپنے ذہن کی تخلیق محسوب کرتے ہیں اور انشاء اللہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے دیگر جعلی راویوں کے ساتھ ایک الگ کتاب میں بیان کریں گے ۔

اس کے علاوہ چند مجہول راویوں کے نام بھی لئے گئے ہیں ،جیسے عطیہ ،بنی بکر سے ایک مرد، بنی اسد سے ایک مرد، ایک مرد سے ،اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وغیرہ ۔چوں کہ ان کا کامل طور سے ذکر نہیں کیا گیا ہے اور ان کے نام بھی ذکر نہیں کئے گئے ہیں اس لئے ان کی پہچان کرنا ممکن نہیں ہے ۔

اسی طرح بقول سیف جو روایت موسیٰ ابن طریف نے محمد بن قیس سے نقل کی ہے ،اس سلسلے میں علمائے رجال کے ہاں وہ تمام راوی مشخص و معلوم ہیں جن سے موسیٰ ابن طریف نے روایت کی ہے لیکن ان میں محمد بن قیس نام ١٢ کا کوئی راوی موجود نہیں ہے ۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416