ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214959 / ڈاؤنلوڈ: 4957
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

طبری نے بھی اس داستان کی تفصیل میں ابن اسحاق سے نقل کرکے روایت کی ہے :

جب اسلامی فوج تمام سازوسامان ومال ومنال لے کر دریائے دجلہ کے ساحل پر پہنچی ، توسعددریاسے گزرنے کی ایک جگہ تلاش کرنے لگا۔لیکن دجلہ کوعبور کرنے کی کوئی راہ نہ پائی ۔بالآخر شہر مدائن کاایک باشندہ راہنمائی کے لئے سعد کی خدمت میں آیا اور سعد سے کہا:میں تم لوگوں کو ایک کم گہری جگہ سے عبور کراسکتا ہوں تاکہ تم لوگ دشمن کے دور ہونے سے پہلے اس تک پہنچ سکو ۔ اس کے بعد اس نے سعد کی سپاہ کو قطر بل نام کی ایک گزرگاہ کی طرف راہنمائی کی ۔ جس شخص نے اس گزرگاہ پر سب سے پہلے دریا میں قدم رکھاوہ ہاشم بن عتبہ تھاجو اپنے پیدل فوجیوں کے ہمراہ دریا میں کود پڑا ۔ جب ہاشم اوراس کے پیادہ ساتھی دریاسے گزر ے تو ہاشم کے سوار بھی دریا میں اترے ۔اس کے بعد سعد نے حکم دیاکہ عرفطہ کے سوار بھی دریائے دجلہ کوعبور کریں ۔اس کے بعد عیاض بن غنم کوحکم دیا کہ اپنے سوار فوجیوں کے ہمراہ دجلہ کوعبور کرے ۔اس کے بعد باقی فوجی دریا میں اترے اور اسے عبور کرگئے

ابن حزم بھی اپنی کتاب ''جمہرہ''میں لکھتا ہے :

اسلام کے سپاہیوں میں بنی سنبس کا سلیل بن زید تنہا شخص تھا جو مدائن کی طرف جاتے ہوئے دریائے دجلہ عبور کرنے کے دن غرق ہوا ۔اس کے علاوہ اس دن کوئی اور غرق نہیں ہواہے،

سند کی تحقیق:

طبری نے سیف کی پہلی روایت ،یعنی داستان کے اس حصہ کے بارے میں ،جہاں سے وہ سعد وقاص کے دریائے دجلہ کے کنارے پر حیران حالت میں کھڑے رہنے کا ذکر کرتا ہے، وہاں سے سپاہیوں سے خطاب کرنے،عاصم کے پیش قدم ہونے ،سرانجام ساحل پرقبضہ کرنے اور ماہ صفر ١٦ھ میں مدائن میں داخل ہونے تک کسی راوی کاذکر نہیں کرتاہے اور نہ کسی قسم کی سند پیش کرتاہے۔

۳۲۱

لیکن دوسری روایت میں ،سیف داستان کو''ایک مرد''کی زبانی رو ایت کرتاہے ۔ ہمیں معلوم نہ ہوسکاکہ سیف نے اپنے خیال میں اس مرد کا کیا نام رکھاہے؟!تاکہ ہم راویوں کی فہرست میں اسے تلاش کرتے۔

اس کی پانچویں اور ساتویں روایت کے راوی محمد ،مھلب اور طلحہ ہیں کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں یہ سیف کی ذہنی تخلیق اور جعل کردہ راوی ہیں ۔

اسی طرح پانچویں روایت میں عمیر الصائری کوبھی راوی کی حیثیت سے پیش کرتاہے کہ ہم نے عمیر الصائری کانام سیف کی حدیث کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس نباء پرعمیر کوبھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کر تے ہیں ۔

لیکن تیسری اور چوتھی روایت کو ایسے رایوں سے نسبت دیتا ہے کہ جو در حقیقت موجود ہیں ایسے راوی تھے ۔لیکن ہم ہر گز یہ گناہ نہیں کرسکتے کہ سیف کے خود ساختہ جھوٹ کو ان کی گردنوں پر بار کریں جب کہ ہم نے پورے اطمینان کے ساتھ یہ معلوم کر لیا ہے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے ایسے مطالب ان راویوں سے منسوب کئے ہیں اور دوسرے مورخین و مولفین نے ان راویوں سے اس قسم کی چیزیں نقل نہیں کی ہیں ۔

تحقیق کا نتیجہ:

مدائن کی طرف جاتے وقت دریائے دجلہ سے عبور کرنا ایک مقامی راہنما کی راہنمائی سے انجام پایا ہے ۔اس نے اس گزرگاہ کی نشاندہی کی جہاں پر پانی کی گہرائی کم تھی اور جس شخص نے سب سے پہلے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم رکھا ،وہ ہاشم اور اس کی پیادہ فوج تھی ۔اس کے بعد ہاشم کے سوار فوجیوں نے دجلہ کو عبور کیا ۔اس کے بعد خالد اور اس کے بعد عیاض نے دریا میں قدم رکھا اوراسے عبور کیا ۔جب کہ سیف اپنے افسانے میں یوں ذکر کرتا ہے :

۳۲۲

سعد دریائے دجلہ ک کنارے پر متحیر و پریشان کھڑا تھا ۔دریا تلاطم اور طغیان کی حالت میں تھا کہ اس کا دیکھا ہوا خواب اس کی آنکھوں سے پردہ اٹھا تاہے ۔ وہ اپنی بات دوسرے سپاہیوں کے سامنے بیان کرتا ہے اور وہ جواب دیتے ہیں کہ: خدائے تعالیٰ ہماری اور تمھاری راہنمائی کرے ،جو چاہو حکم دو یہ باتیں اسے امید بخشتی ہیں عاصم بن عمرو وہ پہلوان ہے جو دریائے دجلہ عبور کرنے کے لئے سب سے پہلے آمادگی کا اعلان کرتاہے ۔سعد اسے چھ سو جنگجو ئوں اور دلیروں کی قیادت سونپتا ہے جو دریاکو عبور کرنے کے لئے آمادہ تھے ۔عاصم ساٹھ افراد کے ساتھ دریا میں قدم رکھتا ہے ،پانی میں دشمنون سے نبرد آزما ہوتا ہے اور ان پر فتح پاتا ہے ۔اس موقع پر سعد وقاص عاصم کے ''اھوال'' فوجی دستہ کو قعقاع کے ''خرساء '' فوجی دستے سے تشبیہ دیتا ہے ۔

سیف اس بات کی تشریخ کرتا ہے کہ دریا کے ساحل پر عاصم کے قدم جمانے کے بعد کسی طرح باقی سپاہیوں نے دریائے دجلہ میں قدم رکھا کہ ان کی کثرت کی وجہ سے ساحل سے دریا کی طرف دیکھنے والا پانی نہیں دیکھ سکتا تھا ،اور کیسے وہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ اپنی حالت یعنی دریا میں چلنے کی طرف توجہ بھی نہیں کرتے تھے ،جیسے کہ خشکی میں ٹہل رہے تھے سیف تشریح کرتا ہے کہ جب بھی کوئی سپاہی تھک جاتا تھا ،تو دریا کی تہہ سے فورا ًزمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر اوپر اٹھ آتا تھا اور بالکل اس شخص کے پائوں کے نیچے قرار پاجاتا تھا اور وہ شخص اس پر ٹھہر کر تھکاوٹ دور کرتا تھا ۔اسی سبب سے اس دن کو '' یوم الجراثیم'' یعنی زمین کے ٹکڑے کا دن کہا گیا ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ اس دن غرقدہ کے علاوہ کوئی جنگجو دریا ئے دجلہ میں غرق نہیں ہوا ،غرقدہ قبیلہ بارق سے تھا اور ایک نامور جنگجو اور شجاع سپاہی تھا ،وہ اپنے سرخ گھوٹے سے دریا میں گر گیا اور پانی میں ڈپکیاں لگا نے لگا جب مرد میدان اور خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنے گھوڑے کو غرقدہ کی طرف موڑا اوراپنا ہاتھ بڑھا کر غرقدہ کے ہاتھ کو پکڑ کر اسے کھینچ کے ساحل تک لے آیا اور اسے نجات دی ۔اس وقت غرقدہ نے اس سے مخاطب ہو کر کہا: اے قعقاع بہنیں تجھ جیسے کسی اور پہلوان کو جنم نہیں دے سکتیں !

۳۲۳

وہ مزید حکایت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے : سپاہیوں میں سے ایک سپاہی کا برتن بندھن فرسودہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ کر دریا میں گر گیا اور دریا کی موجیں اسے اپنے ساتھ بہا لے گئیں آخر ان موجوں نے برتن کو ساحل تک پہنچا دیا ۔ساحل پر موجود ایک محافظ اسے دیکھتا ہے اور اپنے نیزہ کے ذریعہ پانی سے باہر کھینچ لیتا ہے اور سپاہ تک پہنچا دیتا ہے ۔برتن کا مالک اسے پہچان کر لے لیتا ہے ۔

سیف اپنے افسانوں کو اس صورت میں جعل کرکے اسلام کے حقائق کو توہمات کے پردے کے پیچھے چھپانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ایک ٹکڑا جدا ہو کر غرقدہ کے پائوں کے نیچے کیوں نہ آگیا کہ وہ بیچارہ پانی میں گرکر نہ ڈوبا ہوتا اور قعقاع کو اسے نجات دینے کی ضرورت نہ پڑتی ؟کیا اس داستان میں یہی طے نہیں کیا گیا ہے کہ ایسی حالت میں بھی قعقاع اور خاندان تمیم افتخار حاصل کرنے سے محروم نہ رہیں ۔اسی لئے غرقدہ کو غرق کیا جاتا ہے تاکہ یہاں پر بھی قعقاع کا نام نجات دہندہ ،بہادر اور بشر دوست کی حیثیت سے زبان زد خاص و عام ہو جائے ؟جب فوج کے تمام سپاہی ،حتی گھوڑے بھی اس فضیلت کے لائق تھے کہ دریا ئے دجلہ کی تہہ سے زمین کا ٹکڑا جد ا ہوکر ان کے پائوں کے نیچے قرار پائے تاکہ وہ تھکاوٹ دور کریں ،تو بیچارہ غرقدہ کیوں اس فضیلت سے محروم کیا گیا ؟ شائد سیف نے غرقدہ کے نام اور لفظ ''غرق'' کے درمیان موجود یکسانیت سے فائدہ اٹھاکر ایک بامسمیٰ داستان گڑھ لی ہے !!

سیف نے اپنے اس افسانے میں قعقاع اور عاصم نامی دو تمیمی بھائیوں کے لئے خاص فضائل ،شجاعتیں اور بہادریاں ذکر کی ہیں اور عام سپاہیوں کے بھی منقبت و فضائل بیان کئے ہیں تاکہ سیف کی کرامتیں اور فضائل درج کرنے والوں کو ایک جذبات بھرا اور جوشیلا افسانہ ہاتھ آئے ،چنانچہ ابونعیم نے اس افسانہ کو معتبر اور قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب '' دلائل النبوہ'' میں درج کیا ہے۔

سیف نے سپاہیوں کے دریائے دجلہ عبور کرنے کے افسانہ کو مستقل اور ایک دوسرے سے جدا چند روایات کی صورت میں اور مختلف راویوں کی زبانی نقل کرکے پیش کیا ہے تاکہ اس کی روایت پائدار اور ناقابل انکار ثابت ہو۔

۳۲۴

سیف اس افسانہ کو بھی اپنے اکثر افسانوں کی شکل و صورت بخشتا ہے اور اپنی مخصوص مہارت سے اپنے افسانہ کے سورمائوں کی سرگوشیاں ،باتیں اور حرکات و سکنات کی ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ گویا پڑھنے والا انھیں زندہ اپنے سامنے مشاہدہ کرتا ہے ،ان کے ساتھ قدم بہ قدم چلتا ہے ،ان کے حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہوتا ہے ،ان کی باتوں حتی سانس لینے کی آوازدجلہ کے پانی کے ساتھ لگنے والی گھوڑوں کی سموں کی آواز ،دریا کی لہروں کی آواز اور لوگوں کا شور وغل سب سن رہا ہوتا ہے ۔اور لوگوں کا پانی میں ایک دوسرے کے ساتھ اوپر نیچے ہونا ،حتی دریائے دجلہ کی تہہ سے اٹھنے والے زمین کے ٹکڑوں کے اوپر نیچے جانے کے منظر کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ،اس قسم کے زندہ اور محسوس افسانہ کے لئے راوی اور سند کی کیا ضرورت ہے کہ اسے قبول کریں اس کے سورمائوں کو پہچانیں اور باور کریں ؟کیا آپ نے سیف کی اس روایت کو غور سے نہیں پڑھا ہے جس میں وہ غرقدہ کے غرق ہونے کے بارے میں لکھتا ہے :

غرقدہ اپنے سرخ گھوڑے سے دریائے دجلہ میں گر گیا ،برسوں گزرنے کے بعد بھی میں اس وقت اس منظر کو جیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں غرقدہ کا گھوڑا اپنے سرگردن دراز کرکے تیز ی کے ساتھ ہلا رہا ہے اور پانی کی چھینٹیں اس کے گردن اور یال سے ہوا میں چھٹک رہی ہیں ڈوبنے والا پانی میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اپنے گرد گھوم رہا ہے اور دریا کی موجیں اسے غرق نہیں کرتیں اسی اثنا میں مرد میداں اور بیچاروں کا دادرس ،قعقاع متوجہ ہوتا ہے ،اپنے گھوڑے کی لگام کو غرقدہ کی طرف موڑلیتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے پاس پہنچاتاہے ،اپنا ہاتھ بڑھا تا ہے اور غرقدہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے کھینچ کر ساحل تک لے آتا ہے ،غرقدہ قبیلہ بارق سے ہے اور قعقاع کی ماں بھی اسی قبیلہ سے ہے وہ قعقاع کی طرف مخاطب ہوکر کہتا ہے : اے قعقاع بہنیں تم جیسے سورما کو پھر جنم نہیں دے سکتیں ۔

سیف کے ایسے افسانے کڑھنے کا اصلی مقصد شائد یہی ہے کہ : صرف قبیلہ بارق کی عورتیں ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کی عورتیں قعقاع تمیمی جیسا دلاور اور پہلوان جنم دینے سے قاصر ہیں ۔

سیف اپنے افسانہ میں قعقاع کے بھائی عاصم کی شجاعتیں اور دلاوریاں بھی ایک ایک کرکے گنواتاہے کہ وہ اتنے افسروں اور دلاوروں میں پہلا شخص تھا جس نے دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے لئے قدم بڑھایا اور پانی و خشکی میں دشمنوں سے نبرد آزما ئی کی اور سب کو نابود کرکے رکھ دیا اور اگر کوئی بچ بھی نکلا تو وہ اپنی ایک آنکھ کھو چکا تھا اور کس طرح اس دلاور پہلوان نے ساحل پر قبضہ جمایا کہ باقی سپاہی امن و سلامتی کے ساتھ دریا ئے دجلہ کو عبور کرگئے ۔

۳۲۵

داستان جراثیم کے نتائج

١۔ سعد وقاص کا ایک خطبہ ،جو عبارتوں کی ترکیب ،نثر نویسی اور خطابہ کے فن کے لحاظ سے ادبی کتابوں کی زینت بنے ۔

٢۔ سعد وقاص کی دعائیں جو دعائوں کی کتابوں میں درج ہو جائیں ۔

٣۔اسلامی جنگوں میں '' یوم جراثیم '' '' زمین کے ٹکڑوں کا دن'' کے نام سے ایک ایسے دن کی تخلیق کرنا جو تاریخ کی کتابوں میں ثبت ہو جائے ۔

٤۔ اسلام کے سپاہیوں کے لئے فضیلت و منقبت کی تخلیق ،جیسے تھکاوٹ دور کرنے کے لئے دریائے دجلہ کی تہہ سے زمین کے ٹکڑے کا جدا ہوکر اوپر اٹھنا اور سپاہ اسلام کے پائوں کے نیچے قرار پاجانا تاکہ وہ فضائل و مناقب کی کتابوں میں ثبت ہو۔

٥۔گزشتہ افسانوں کی تائید وتاکید ،جیسے دوتمیمی بھائیوں کی کمانڈمیں سپاہ کے دو دستے ''اھوال'' اور '' خرسائ'' اور ان دو تمیمی بہادر بھائیوں کے دسیوں بلکہ سیکڑوں فضائل بیان کرنا

۳۲۶

عاصم ،سرزمین ایران میں !

قال سیف و کان عاصم من الصحابه

سیف کہتا ہے کہ عاصم ،پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے تھا۔

جندی شاپور کی فتح کی داستان :

طبری ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے روایت کرتا ہے :

علاء بن خضرمی یمانی بحرین میں تھا ۔سعد وقاص نزاری کا سخت رقیب تھا جب اسے پتا چلا کہ قادسیہ کی جنگ میں سعد کو فتحیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور وہ ارتداد کی جنگوں کی نسبت اس جنگ میں بیشتر جنگی غنائم حاصل کرکے شہرت پا چکا ہے ،تو اس نے بھی فیصلہ کیا کہ اپنے طورپر جنوب کی طرف سے ایران پر حملہ کرکے سعد کے نمایاں کارناموں کے مقابلہ میں قابل توجہ کا رنامے انجام دے ۔ لہٰذا اس نے خلیفہ کی اطاعت یا نافرمانی وسرکشی کے موضوع کو اہمیت دئے بغیر جنوب کے سمندری راستے سے ایران پر حملہ کیا ،جب کہ خلیفہ عمر نے پہلے اسے ایسا کام کرنے سے منع کیا تھا۔

اپنے اس بلا منصوبہ حملہ کی وجہ سے علاء اور اس کے سپاہی ایرانی سپاہیوں کے محاصرے میں پھنس گئے ،سرانجام خلیفہ عمر ابن خطاب نے حکم دیا کہ عتبہ بن غزوان اپنے سپاہیوں کے ساتھ علاء اور اس کے سپاہیوں کو نجات دینے کے لئے بصرہ کی جانب سے فوراً روانہ ہو جائے ۔ایران کی طرف عزیمت کرنے والی عتبہ کی فوج کے نامور سرداروں میں عاصم بن عمرو تمیمی بھی تھا ۔

عتبہ ،عاصم اور بصرہ کے سپاہیوں نے علاء اور اس کے سپاہیوں کی مدد کی اور سر انجام دشمنوں کے محاصرہ کو توڑ کر ان پر فتح پانے میں کامیاب ہوئے ۔

۳۲۷

طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور ابن اثیر نے اسے طبری سے نقل کرتے ہوئے اس کی سند کی روایت کا اشارہ کئے بغیر اپنی تاریخ میں درج کیاہے۔ابن کثیر نے بھی اس داستان کے مطالب کو اس جملہ کے ساتھ کہ :'' طبری نے یہ روایت سیف سے نقل کی ہے'' طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیاہے۔

طبری اس داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد روایت کرتاہے کہ اسلامی فوج نے ایران میں مختلف شہروں کو فتح کیا اور ان کا آخری شہر''جندی شاپور''تھا۔

طبری نے ،''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے یوں لکھاہے:

انھوں نے ،یعنی عتبہ ،عاصم اور علاء نے ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے شہر کامحاصرہ کیا اور محاصرہ کے دوران ایرانیوں سے نبرد آزمارہے۔ایک دن اچانک اور خلاف توقع مسلمانوں کے لئے قلعہ کے دروازے کھل گئے اور قلعہ کے محافظوں نے مسلمانوں سے کہا:تم لوگوں نے جوامان نامہ ہمارے لئے اپنے ایک تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکا تھا،ہم نے اسے قبول کیاہے۔مسلمانوں نے ان کی یہ بات آسانی سے قبول نہیں کی اور امان نامہ کو تیر کے ہمراہ قلعہ کے اندر پھینکنے پر یقین نہیں کیا ۔ اس موضوع پر کافی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ مکنف نام کے ایک غلام نے یہ حرکت کی تھی جو حقیقت میں ''جندی شاپور'' کا باشندہ تھا ۔اس نے تیر کے ذریعہ امان نامہ دشمن کے قلعہ کے اندر پھینکا تھا۔اس موضوع کی رپورٹ خلیفہ عمر کی خدمت میں بھیجی گئی تا کہ ان سے ہدایت حاصل کی جائے۔عمر نے ان کے جواب میں مکنف کے اقدام کی تائید اور امان نامہ کو منظور فرمایا۔

۳۲۸

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

طبری نے سیف کی بات کی یہیں تک روایت کی ہے اور دوسرے مؤرخین نے اس چیز کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں لکھاہے۔

لیکن حموی ''جندی شاپور''نام کے تحت اس داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھتاہے کہ عاصم بن عمرو نے ''جندی شاپور'' کی فتح کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''اپنی جان کی قسم!مکنف نے بہترین صورت میں رشتہ داری کی رعایت کی ہے اور قطع رحم نہیں کیاہے۔اس نے ذلالت ،خواری،رسوائی اور شہروں کے ویران ہونے کے خوف سے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا، اور خلیفہ نے بھی غلام کے دئے گئے امان نامہ کو برقرار رکھ کر منظور فرمایاباوجود یکہ ہم ان سے اختلاف رکھتے تھے ۔جن امور کے بارے میں جنگ ہورہی تھی ،انھیں ایک ایسے منصف کو سونپاگیا جو صحیح فیصلہ کرتاہے اور اس حاکم نے بھی کہا کہ امان نامہ کو توڑا نہیں جاسکتاہے''۔

اس کے بعد حموی حسب ذیل صورت میں سلسلہ جاری رکھتاہے :

یہ سیف کا کہنا ہے ،جب کہ بلاذری فتح تستر(شوشتر)کی تشریح کے بعد لکھتاہے :

ابو موسیٰ اشعری نے وہاں سے ''جندی شاپور'' پر حملہ کیا۔لیکن شہر کے باشندوں نے انتہائی خوف کے سبب اس سے امان مانگی،ابوموسیٰ نے بھی موافقت کی اور مان لیا کہ سب باشندے امان میں ہوں گے،کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ اسیر بنائے جائیں گے اور جنگ سے مربوط سازوسامان کے علاوہ کسی چیز پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا.....

یہ وہ مطالب تھے جنھیں حموی نے لفظ ''جندی شاپور'' کے بارے میں اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیاہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب ''روض المعطار '' میں لفظ''جندی شاپور '' کے بارے میں سیف سے نقل کرکے مندرجہ بالا داستان کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں عاصم بن عمرو کے چوتھے شعر کے بعد پانچویں شعر کا حسب ذیل اضافہ کیاہے :

''خدا جانتاہے !''جندی شاپور'' کتنا زیبا ہے !کتنا اچھا ہوا کہ ویران اور مسمار ہونے سے بچ گیا،اتنے شہروں کے تباہ ہونے کے بعد''۔

۳۲۹

تحقیق کا نتیجہ:

سیف تنہا شخص ہے جو علاء خضرمی یمانی اور سعد وقاص کے در میان حسد اور رقابت کی خبر دیتاہے اور وقت کے خلیفہ عمر بن خطاب کے حکم کی علاء کی طرف سے نافرمانی اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ محاصرہ میں پھنسنے کی خبر لکھتاہے کہ ہم نے اس کتاب کے آغاز میں ،جہاں پر خاندانی تعصبات کی بات کی ہے ،اس داستان کی طرف اشارہ کرکے اس کا سبب بھی بیان کیاہے ۔

اس کے علاوہ سیف تنہا شخص ہے،جو عاصم بن عمرو کا نام لیتاہے اور اس کی شجاعتیں شمار کراتا ہے اور بعض رجز خوانیوں کو اس سے منسوب کرتاہے ۔

یہ طبری ہے جو سیف کی روایتوں کو رجز خوانیوں اور رزم ناموں کی وضاحت کئے بغیر اپنی کتاب میں نقل کرتا ہے ۔جب کہ حموی نے اسی داستان کو عاصم کے چار اشعار اور اس کے مصدر یعنی سیف کی وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں ثبت کیا ہے ،اور حمیری نے اس داستان کو اس کے مصدر کے بارے میں اشارہ کئے بغیر عاصم کے پانچ اشعار کے ساتھ اپنی کتاب '' روض المعطار'' میں درج کیا ہے ٨

سند داستان کی تحقیق :

افسانوی سورما عاصم بن عمرو کے بارے میں بیان کی گئی سیف کی زیادہ تر احادیث میں راوی کے طور پر محمد اور مہلب کے نام نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد بھی اس کے بیانات میں جہاں عاصم کا نام آئے ،یہ دو اشخاص راویوں کے طور پر ملتے رہیں گے ۔اور ہم بھی مکرر کہتے رہیں گے کہ ان دو راویوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ سیف کے جعل کردہ راوی ہیں ۔

سیف ایک بار پھر شوش کی فتح کے بارے میں اپنی روایت کی سند کا یوں ذکر کرتا ہے : ''...اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے ...'' جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وہ کون ہے؟ اور اس کا نام کیا تھا ؟ کچھ معلوم نہیں ہے کہ اس کی تلاش کی جاتی ۔ ٩

۳۳۰

داستان کے نتائج:

١۔یمانی قحطانی صحابی کی مذمت و بدگوئی کرنا جو ایک مضری نزاری شخص سے حسد و رقابت کی بناء پر جنگ کے لئے اٹھتا ہے ،مضری خلیفہ سے سرکشی اور اس کے حکم کی نافرمانی جیسی لغزش سے دو چار ہوکر ایک بڑی اور ناقابل بخشش گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور ان دو فاحش غلطیوں کی وجہ سے نزدیک تھا کہ اپنے سپاہیوں سمیت ہلاک ہو جائے ۔

٢۔ کبھی واقع نہ ہوئی جنگوں کی تفصیلات اور تشریح بیان کرنا اور ایسی فتوحات کا سبب صرف افسانوی سورما عاصم بن عمرو تمیمی کا وجود ہوا کرتا تھا۔

٣۔ رزمیہ اشعار بیان کرنا تاکہ ادبیات عرب کے خزانے میں اضافہ ہو ۔

٤۔ سیف کے افسانوی سورما عاصم بن عمر وتمیمی کے درخشان اور قابل تحسین کارناموں کا اظہار۔

فتح سیستان کی داستان

طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے نقل کرتے ہوئے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں اس طرح روایت کی ہے :

خلیفہ عمر ابن خطاب نے ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے فوج کے سات سرداروں کا انتخاب کیا اور ان علاقوں کی فتح کا حکم اور پرچم انھیں دیا ،ان میں سیستان کی فتح کا پرچم عاصم بن عمرو تمیمی کے لئے بھیجا اور اسے اس علاقے کو فتح کرنے پر مامور کیا۔

یہاں پر سیف صراحتاًکہتا ہے کہ : عاصم بن عمرو اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے تھا ۔

طبری ٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے سیستان کی فتح کے بارے میں یوں روایت کرتا ہے :

۳۳۱

عاصم بن عمرو نے سیستان کی طرف عزیمت کی ۔اس علاقے کے مرکز تک پیش قدمی کرنے کے بعد وہاں کے باشندوں سے اس کا سامنا ہو اان کے ساتھ سخت جنگ کرنے کے بعد اس نے انھیں بری طرح شکست دی ۔سیستانی مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹے اور سیستان کے دارالحکومت شہر ''زرنج '' میں پناہ لے لی اور چاروں طرف دیوار کھینچ دی ۔عاصم نے اپنی پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے شہر'' زرنج'' کا محاصرہ کیا اور وہاں کے باشندوں کا قافیہ تنگ کر دیا ۔لوگوں نے جب اپنے اندر عاصم سے لڑنے کی ہمت نہ پائی تو مجبور ہوکر صلح کی تجویز پیش کی ،اس شرط پر کہ عاصم ان کی کاشت کی زمین انھیں واپس کردے ۔عاصم نے یہ تجویز منظور کی اور ان کی زمینیں انھیں واپس کر دیں اس طرح اس نے منطقۂ سیستان ،جو منطقہ خراسان سے بھی وسیع تھا ،کواپنے قبضے میں لے لیا ۔ اس علاقہ کی سرحدیں وسیع و عریض تھیں اور مختلف علاقوں کے لوگوں ،جیسے قندہار ،ترک اور دیگر قوموں کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے کافی جنگ و جدال ہوا کرتی تھی۔

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے عاصم بن عمرو کے ذریعہ سیستان کو فتح کرنے کے سلسلے میں ذکر کیا ہے اور تاریخ لکھنے والوں نے طبری کے بعد ،ان ہی مطالب کو اس سے نقل کیاہے ۔

حموی لفظ '' زرنج'' کے بارے میں لکھتا ہے :

...اور سیستان کو خلافت عمر کے زمانے میں عاصم بن عمرو نے فتح کیا ہے اور اس نے اس سلسلے میں اشعار کہے ہیں :

'' زرنج کے بارے میں مجھ سے پوچھو !کیا میں نے زرنج کے باشندوں کو بے سہارا اور پریشان نہیں کیا جب میں ان کے ہاتھ کی ضرب کو اپنے انگوٹھے کی ضرب سے جواب دیتا تھا ؟!''

طبری ٢٩ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان نے سیستان کی حکومت کسی اور کو سونپی ،اس کے بعد دو بارہ یہ عہد ہ عاصم بن عمرو کو سونپا ۔عثمان نے اپنی خلافت کے چوتھے سال عاصم بن عمر و کو صوبہ کرمان کا گورنر منصوب کیا اور وہ مرتے دم تک اسی عہدہ پر باقی رہا۔

عاصم کے مرنے کے بعد ایران کے علاقے میں شورش و بغاوتیں شروع ہوئیں اور علاقہ میں افرا تفری پھیل گئی ۔

۳۳۲

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ:

عاصم کے ذریعہ فتح سیستان اور سیستان و کرمان پراس کی حکومت کے بارے میں طبری نے سیف سے روایت کی ہے اور دوسرے مورخین نے اسے طبری سے نقل کیا ہے ،جب ک بلاذری فتح سیستان کے بارے میں لکھتا ہے:

عبد اللہ بن عامر بن کریز نے ربیع بن زیاد حارثی کو سیستان کی جانب بھیجا ۔ ربیع نے سیستان کے باشندوں سے صلح کی اور دو سال تک سیستان پر حکومت کی ،اس کے بعد عبداللہ بن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ کو سیستا ن کی حکومت کے لئے منصوب کیا اور خلافت عثمان کے زوال تک یہی عبدالرحمن سیستان پر حکومت کرتا رہا ۔ ١٠

تحقیق و موازنہ کا نتیجہ :

سیف تنہا فرد ہے جو ایران کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے خلیفہ عمر کے واضح حکم کی روایت کرتا ہے اور فتح سیستان کے پرچم کو عمر کی طرف سے عاصم بن عمرو کے حوالے کرکے نتیجہ حاصل کرتا ہے کہ یہ عاصم بن عمرو ہی تھا جس نے سیستان کے دارالحکومت زرنج کو وہاں کے باشندوں

سے صلح کرکے اپنے قبضے میں لے لیا اور حموی بھی سیف پر اعتماد کرکے فتح سیستان کے

مطالب کو لفظ ''زرنج'' کے سلسلہ میں اپنی کتاب میں درج کرتاہے ،جب کہ زرنج کا فاتح

ربیع بن زیاد ہے۔

اور سیف تنہا فرد ہے جس نے عاصم بن عمرو کی سیستان پر حکومت اور کرمان کی گورنری کی روایت کی ہے اور عاصم کی وفات کی کرمان میں روایت کی ہے۔

۳۳۳

داستان کا نتیجہ:

١۔خلیفہ کی جانب سے عاصم کے لئے حکومت سیستان اور کرمان کا حکم جاری کرکے عاصم بن عمرو کے لئے افتخار کا اضافہ۔

٢۔خراسان سے زیادہ سے وسیع علاقہ پر عاصم بن عمرو کی فتحیابی جتلانا،کیونکہ سیستان وسعت اور مختلف اقوام سے ہمسائیگی نیز فوجی اور سیاسی لحاظ سے بہت اہم تھا۔

٣۔اس بات کی وضاحت اور تاکید کرنا کہ عاصم بن عمرو تمیمی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا۔

٤۔عاصم کی تاریخ وفات اور جگہ معین کرنا۔

۳۳۴

عمرو بن عاصم

یہاں تک ہم نے سیف کے ان افسانوں کا ایک خلاصہ پیش کیا جو اس نے عمرو تمیمی کے دو بیٹوں قعقاع اور عاصم کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔مناسب ہے کہ ان دو بھائیوں کے سلسلے کو یہیں پر ختم نہ کیاجائے بلکہ اگلی فصل میں بھی ان دو ''نامور''اور ''بے مثال''بھائیوں میں سے ایک کے بیٹے کے بارے میں سیف کی زبانی روایت سنیں ۔

عاصم کا بیٹا اور اس کا خاندان

ھذا عن القعقاع وعن اخیہ عاصم

یہ ہے سیف کے ان مطالب کا خلاصہ ،جو اس نے قعقاع اور اس کے بھائی عاصم کے بارے میں جھوٹ کے پل باندھ کربیان کئے ہیں ۔

(مؤلف)

عمرو بن عاصم

سیف نے اپنی ذہنی تخلیق ،عاصم کے لئے عمرو نام کا ایک بیٹا بھی خلق کیاہے اور اس کے بارے میں ایک داستان بھی گڑھی ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں گڑھی گئی اپنی داستانوں میں سے ایک کے ضمن میں سیف یوں لکھتاہے:

شہر کوفہ کے چند جوانوں نے رات کے وقت ابن حیسمان کے گھر میں نقب زنی کی وہ ننگی تلوار لے کر ان کے مقابلے میں آیا۔جب اس نے دیکھا کہ نقب زنوں کی تعداد زیادہ ہے،تو اس نے شور مچاتے ہوئے لوگوں سے مدد طلب کی ۔مذکورہ جوان جو آشوب وفتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے انھوں نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا:چپ ہوجاؤ!تلوار کا صرف ایک وار تجھے اس وحشتناک شب کے خوف سے آزاد کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کے بعد انھوں نے اس کو سخت زدو کوب کرکے قتل کر ڈالا۔

۳۳۵

اس کے فریاد اور شور وغل سے جمع ہوئے لوگوں نے فتنہ گر جوانوں کا محاصرہ کرکے انھیں پکڑ کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دئے ۔اس موضوع کی مکمل روداد خلیفہ عثمان کی خدمت میں بھیجی گئی ۔ عثمان نے ان کے لئے سزائے موت کا حکم صادر کیا۔اس کے بعد انھیں کوفہ کے دار الامارة پر پھانسی پر لٹکادیاگیا۔عمرو بن عاصم تمیمی جو اس ماجرا کا عینی شاہد تھا،یوں کہتاہے:

''اے فتنہ انگیزو!حکومت عثمان میں کبھی اپنے ہمسایوں پر جارحانہ حملہ کرکے انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کرنا،کیونکہ عثمان بن عفان وہی ہے جسے تم لوگوں نے آزمایا ہے۔وہ چوروں کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق چوری کرنے سے روکتاہے اور ہمیشہ ان کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ کر احکام قرآن نافذ کرتاہے''۔

سیف نے عثمان کے دور حکومت کے لئے بہت سے افسانے تخلیق کئے ہیں اور خاندان مضر کے ان سرداروں کا دفاع کیاہے جو اس زمانے میں بر سر اقتدار تھے۔اور حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اس زمانے کی اسلامی شخصیات پر جھوٹے الزامات عائد کرکے انھیں اخلاقی برائیوں ،کم فہمیوں اور برے کاموں سے منسوب کیاہے اور اس کے مقابلے میں صاحب اقتدار افراد کو سادہ دل،پاک،نیک صفات اور نیک کردار ثابت کرنے کی زبردست کوشش کی ہے ۔ہم نے یہاں پراس سلسلہ میں اپنے موضوع سے مربوط کچھ مختصر نمونے پیش کئے ۔ ان تمام مطالب کی تحقیق کرنا اس کتاب میں ممکن نہیں ہے۔صرف یہ مطلب بیان کرنا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا داستان سیف کی دیگر داستانوں کی طرح صرف اس کے ذہن کی تخلیق ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں ۔ ١١

داستان کا نتیجہ :

١۔ عثمان کے زمانے میں واقع ہونے والے حوادث سے خاندان مضر کو مبرّا قرار دینا۔

٢۔عاصم کے لئے عمرو نامی ایک بیٹے کا وجود ثابت کرنا تاکہ اس کانام خاندان تمیم کے نیک تابعین کی فہرست میں قرار پائے۔

۳۳۶

تاریخ میں عمرو کا خاندان

سیف کی روایتوں کے مطابق عاصم کے باپ،عمرو تمیمی کے گھرانے کے بارے میں ایک اور زاوئے سے مطالعہ کرنا بے فائدہ نہیں ہے :

١۔ قعقاع :سیف قعقاع کی کنیت ،ابن حنظلیہ بتاتاہے ۔اس کے لئے قبیلۂ بارق میں چند ماموں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کی بیوی کوہنیدہ بنت عامر ہلالیہ نخع نام دیتاہے اور اصرار کرتاہے کہ وہ صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا اور اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل کی ہے۔

قعقاع سقیفہ بنی ساعدہ میں حاضر تھااور وہاں پر واقع ہونے والے حالات کی خبر دیتاہے۔

قعقاع ارتداد کی جنگوں میں کمانڈر کی حیثیت سے شرکت کرتاہے اور عراق کی فتوحات میں خالد بن ولید کے ہمراہ شرکت کرتا ہے ، اس کے ساتھ اسلامی فوج کے سپہ سالارکی مدد کرنے کے لئے شام کی طرف عزیمت کرتاہے اور وہاں سے ایران کی جنگوں مین اسلامی فوج کے سپہ سالار سعد وقاص کی مدد کے لئے ایران عزیمت کرتاہے ۔قادسیہ کی جنگ میں اور اس کے بعد والی جنگوں جیسے :فتوح مدائن ،جلولاء اور حلوان میں شرکت کرتاہے اس کے بعد ابو عبیدہ کی مدد کرنے کے لئے دوبارہ شام جاتاہے اور سرانجام حلوان کے گورنرکے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

قعقاع نے نہاوند کی جنگ ''فتح الفتوح ''میں اور اس کے بعدہمدان وغیرہ کی فتح میں شرکت کی ہے اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں عظیم مملکت اسلامیہ کے مشرقی علاقوں ۔جن کا مرکز کوفہ تھا۔ کے وزیر دفاع کے عہدے پر منصوب ہوتاہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ قعقاع فتنہ اور بغاوتوں کے شعلوں کے بجھانے کی کوشش کرتاہے ،حتی خلیفہ عثمان کی جان بچانے کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوتاہے لیکن اسے یہ توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے اور اس کے مدینے پہنچنے سے پہلے ہی عثمان شورشیوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں ۔

۳۳۷

ہم اسے امام علی ں کی خلافت کے زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کوفہ کے لوگوں کو اسلامی فوج سے ملحق ہونے کی ترغیب دیتاہے اور خود امام علی ں اور عائشہ ،طلحہ وزبیر کے درمیان صلح کرانے کے لئے سفیر صلح بن کر نمایاں سرگرمیاں انجام دیتاہے لیکن عبد اللہ ابن سبا اور اس کے چیلوں کی تخریب کاریوں کے نتیجہ میں اس مصلح اعظم کی کوششوں پر پانی پھر جاتاہے اور جنگ جمل شروع ہوجاتی ہے۔قعقاع جنگ جمل میں امام کے پرچم کے تلے شرکت کرتاہے عائشہ کے اونٹ کاکام تمام کرتاہے اور جنگ کے خاتمے پر جمل کے خیرخواہوں کو عام معافی دیتاہے۔

سرانجام یہی قعقاع اتنے درخشا ں کارناموں کے باوجود معاویہ ابن ابوسفیان کی حکومت میں ''عام الجماعہ''کے بعد امام علی ں کی محبت اور ان کی طرفداری کے جرم میں فلسطین کے علاقہ ایلیا میں جلا وطن کیاجاتاہے ۔اور اس کے بعد سیف کے اس افسانوی سورما اور ''تابناک اور بے مثال'' چہرے کاکہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔

٢۔عاصم :سیف نے اپنے افسانوں اور داستانوں میں عاصم کے بارے میں جوکچھ بیان کیاہے اس کا حسب ذیل خلاصہ یوں کیاجاسکتاہے:

عاصم کو جو سیف کے کہنے کے مطابق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا خالد،ارتداد کی جنگوں کے بعد اپنے ہراول دستہ کے سردار کے طور پر عراق کی طرف روانہ کرتاہے اور وہ خالد کی قیادت اور پرچم کے تحت عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کرتاہے،اس کے بعد مثنی اور ابو عبیدہ کی سر کردگی میں عراق کی جنگوں کو جاری رکھتاہے۔ان دو نامور سرداروں کے بعد قادسیہ ومدائن کسریٰ کی جنگوں میں سعد وقاص کی قیادت میں شرکت کرتاہے ۔اس کے بعد عتبہ بن غزوان کی سر کردگی میں علاء خضرمی یمانی کی نجات کے لئے ایران کے جنوبی علاقوں کی جنگ میں شرکت کرتاہے اور یہ لوگ ''جندی شاپور ''کوا یک دوسرے کی مدد سے فتح کرتے ہیں ۔اس کے بعد عمر کے زمانے میں ایک فوجی دستی کے کمانڈر کی حیثیت سے سیستان کی فتح کے لئے انتخاب ہوتاہے اور خلیفہ اسے فوج کا علم عطاکرتے ہیں ۔عاصم اپنی ماموریت کی طرف روانہ ہوتاہے ،سیستان کو فتح کرتاہے اور خلافت عمر کے زمانے مین وہاں کی حکومت کو سنبھالتاہے ۔

خلیفہ عثمان بن عفان بھی سیستان میں عاصم کی حکومت کی تائید کرتے ہیں ۔اور صوبہ کرمان کی حکومت بھی اسی کو سونپتے ہیں ۔سر انجام خلیفہ عثمان کی خلافت کے چوتھے سال جب کہ عاصم سیستان اور کرمان پر حکومت کررہاتھا ،وفات پاجاتاہے،اور عمرو کے نام سے اس کاایک بیٹا باقی بچتاہے جو تابعین میں سے ہے اور اپنے چند اشعار کے ذریعہ امت اسلامیہ میں خلافت عثمان کے زمانے میں شورشوں اور بغاوتوں کے وجود کی خبر دیتاہے اور اشرار ومجرمین کے خلاف خلیفہ کے شدید اقدامات کو بیان کرتاہے ۔

۳۳۸

عاصم کے بارے میں

سیف کے راویوں کاسلسلہ

وردت اسطور عاصم عند سیف فی نیف واربعین حدیثاً

عاصم کا افسانہ چالیس سے زیادہ روایات میں ذکر ہواہے۔

(مولف)

جن لوگوں سے سیف نے عاصم کا افسانہ نقل کیاہے

سیف نے عاصم کے افسانے کو چالیس سے زائد روایات کے ضمن میں درج ذیل راویوں سے نقل کیاہے :

١۔محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ ٢٨ روایات میں

٢۔زیاد بن سرجس احمری ١٦ روایات میں

٣۔مھلب بن عقبہ اسدی ٩ روایات میں

٤۔نضر بن سری ٣ روایات میں

٥۔ابو سفیان ،طلحہ بن عبد الرحمن ٢ روایات میں

٦۔ حمید بن ابی شجار ١ روایت میں

٧۔ ابن الرفیل

٨۔وہ اپنے باپ سے جب کہ باپ بیٹوں نے ایک ہی صورت میں ایک دوسرے سے روایت کی ہے۔

٩۔ظفر بن دہی

١٠۔عبد الرحمن بن سیاہ

۳۳۹

اور یہی راوی ہیں جنھوں نے قعقاع کی روایات نقل کی ہیں اور سیف ان ہی کی زبانی قعقاع کے افسانے بھی بیان کرتا تھا اور ہم نے ثابت کیا کہ ان میں سے ایک راوی بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتا تھا ۔یہ سب کے سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور اس کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

درج ذیل نام بھی عاصم کے افسانوں کی روایات میں سے ہر ایک روایت کی سند میں راوی کے طور پر ذکر ہوئے ہیں لیکن قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں میں ان کا نام نظر نہیں آتا ۔

١١۔حمزة بن علی بن محفز

١٢۔عبداللہ بن مسلم عکلی

١٣ ۔کرب بن ابی کرب عکلی

١٤۔عمیر صائدی

ان کے بارے میں بھی ہم نے اپنی جگہ پر وضاحت کی ہے کہ چونکہ ان ناموں کو ہم نے سیف کے علاوہ کسی بھی روایت میں کہیں نہیں پایا اور راویوں کی فہرست میں بھی ان کے نا م نظر نہیں آتے۔لہٰذا انھیں بھی ہم سیف کے دیگر راویوں کی طرح اس کے اپنے ذہن کی تخلیق محسوب کرتے ہیں اور انشاء اللہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے دیگر جعلی راویوں کے ساتھ ایک الگ کتاب میں بیان کریں گے ۔

اس کے علاوہ چند مجہول راویوں کے نام بھی لئے گئے ہیں ،جیسے عطیہ ،بنی بکر سے ایک مرد، بنی اسد سے ایک مرد، ایک مرد سے ،اس سے جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے وغیرہ ۔چوں کہ ان کا کامل طور سے ذکر نہیں کیا گیا ہے اور ان کے نام بھی ذکر نہیں کئے گئے ہیں اس لئے ان کی پہچان کرنا ممکن نہیں ہے ۔

اسی طرح بقول سیف جو روایت موسیٰ ابن طریف نے محمد بن قیس سے نقل کی ہے ،اس سلسلے میں علمائے رجال کے ہاں وہ تمام راوی مشخص و معلوم ہیں جن سے موسیٰ ابن طریف نے روایت کی ہے لیکن ان میں محمد بن قیس نام ١٢ کا کوئی راوی موجود نہیں ہے ۔

۳۴۰

ایک اور حدیث اس نے مقدام ابن ابی مقدام اور اس نے اپنے باپ سے اور اس نے کرب ابن ابی کرب کے ذریعہ روایت کی ہے ۔علمائے رجال نے شیوخ مقدام کے ضمن میں ان کے باپ اور کرب کا کوئی نام نہیں لیا ہے ۔یعنی کسی روایت میں مقدام نے اپنے باپ یا کرب سے کوئی حدیث نقل نہیں کی ہے ١٣ اور یہ تنہا سیف ہے جس نے اپنی حدیث کے لئے ایسی سندجعل کی ہے اس کے علاوہ سیف بن عمر نے اپنے راویوں کے طور پر بعض دیگر نام لئے ہیں کہ سیف کے سابقہ ریکارڈ کے پیش نظر ہم نہیں چاہتے کہ سیف کے جھوٹ اور افسانوی گناہ ایسے اشخاص کے کندھوں پر ڈالیں ۔

جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ سیف تنہا شخص ہے جس نے ایسی احادیث ان راویوں کی زبانی نقل کی ہیں ۔بے شک سیف ایک جھوٹا اور افسانہ نگار شخص ہے ۔

جن لوگوں نے عاصم کے افسانہ کو سیف سے نقل کیا ہے

ہم نے قعقاع کے افسانہ کو سیف ابن عمر تمیمی کی تقریبا ستّر روایات میں اور اس کے بھائی عاصم کے افسانہ کو سیف کی چالیس سے زاید روایات میں بیان کیا ہے ۔

طبری نے ان دو بھائیوں کے بارے میں احادیث کے ایک بڑے حصے کو سیف سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور اس کے بعد والے مورخین جیسے : ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون ،ابو الفرج نے اغانی میں اور ابن عبدون نے شرح القصیدہ میں ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کیاہے ۔اس کے علاوہ '' اسد الغابہ'' ''استیعاب'' ''التجرید '' اور '' الاصابہ'' جیسی کتاب کے مولفین نے بھی ان مطالب کو براہ راست سیف یا طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

ابن عساکر ،حموی اور حمیری نے ''الجرح والتعدیل '' میں تمام مطالب بلا واسطہ سیف سے نقل کئے ہیں ۔

مذکورہ اور دسیوں دیگر مصادر نے خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو افسانوی سورما قعقاع اور عاصم کے بارے میں ان مطالب کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سیف ابن عمر تمیمی سے لیا ہے ۔

۳۴۱

سیف کی احادیث سے استناد نہ کرنے والے مورخین

مذکورہ مصادر کے مقابلہ میں ایسے مصادر بھی پائے جاتے ہیں ،جنھوں نے فتوحات اور ارتدادکی جنگوں کے بارے میں وضاحت کی ہے یا اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سوانح لکھی ہیں ،لیکن سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا ہے اور سیف کے ان دو جعلی اور افسانوی بھائیوں ،قعقاع اور عاصم کا نام و نشان تک ان کی تحریروں میں نہیں پایا جاتا ۔یہ مصادر حسب ذیل ہیں :

طبقات ابن سعد میں (جس حصہ میں کوفہ جانے والے اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بعد جو تابعین کوفہ میں ساکن ہوئے ہیں ،کے بارے میں تفصیل بیان کی گئی ہے )نہ ا ن دو تمیمی بھائیوں کا کہیں نام ملتاہے اور نہ عمرو ابن عاصم کو تابعین میں شمار کیا گیا ہے اور نہ اس کتاب کے دیگر حصوں میں ان کا کوئی ذکر ہے ۔

اس کے علاوہ بلاذری کی کتاب ''فتوح البلدان ''اور شیخ مفید کی کتاب ''جمل ''میں بھی سیف کے جعل کردہ ان دو تمیمی بھائیوں کا کسی صورت میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

دوسری جانب طبری اور ابن عساکر نے باوجود اس کے کہ ''فتوح ''اور ''ارتداد''کے سلسلہ میں ان دو افسانوی بھائیوں کے بارے میں بہت سارے مطالب سیف بن عمر تمیمی سے نقل کئے ہیں ، لیکن حسب ذیل راویوں :

١۔ابن شہاب زہری وفات ١٢٤ ھ

٢ ۔موسی بن عقبہ وفات ١٤١ ھ

٣۔محمد بن اسحاق وفات ١٥٢ ھ

٤۔ابو مخنف لوط بن یحییٰ وفات ١٥٧ ھ

٥۔محمد بن سائب کلبی وفات ١٤٦ ھ

٦۔ھشام بن محمد بن سائب وفات ٢٠٦ ھ

٧۔محمد بن عمر الواقدی وفات ٢٠٧ ھ

اور

۳۴۲

٨۔زبیر بن بکار وفات ٢٥٧ ھ

نیزان کے علاوہ دسیوں دیگر راویوں سے بھی مطالب نقل کرکے اپنی کتابوں میں ثبت کئے ہیں ۔ ان احادیث میں سے کسی ایک میں بھی ان دوتمیمی افسانوی سور مائو ں ،قعقاع اور عاصم کے نام نہیں پائے جاتے ۔

ابن عساکر نے بھی اپنی تاریخ کے پہلے حصہ میں خالد بن ولید کے یمامہ سے عراق اور عراق سے شام اور فتوح شام کی طرف عزیمت کے بارے میں ساٹھ روایات میں مذکورہ بالا راویوں سے نقل کیا ہے اور انھوں نے بھی ان ہی واقعات کو نقل کیا ہے ،جس کی تشریح سیف نے کی ہے ۔لیکن ان دو افسانوی تمیمی سور مائوں کا کسی ایک حدیث میں ذکر نہیں پایا جاتا اور ان کی شجاعتوں اور حیرت انگیز کارناموں کا کہیں اشارہ تک نہیں ملتا ۔

طبری نے بھی فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں ١٣ ھسے ٣٢ ھکے حوادث اور واقعات کے ضمن میں پچاس سے زیادہ روایات مذکورہ طریقہ سے ان ہی راویوں سے بیان کی ہیں جن کے بارے میں اوپر اشارہ ہوا ۔اس کے علاوہ خلافت عثمان کے زمانے کے حوادث و واقعات کو بھی پچاس سے زیادہ روایات اور جنگ جمل کے بارے میں انتالیس روایات مذکورہ راویوں سے نقل کی ہیں اور ان ہی حوادث و واقعات کی تشریح کی ہے جن کی سیف نے وضاحت کرتے ہوئے خاندان تمیم کے دو افسانوی بہادر بھائیوں کا ذکر کیا ہے ،لیکن ان میں سے ایک روایت میں بھی ان دو بھائیوں کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ،ان کے حیرت انگیز کارناموں کا تذکرہ تو دور کی بات ہے ۔

اس کے علاوہ کتاب انساب میں بھی ان دو تمیمی بھائیوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا اور اس کتاب میں سیف ابن عمرتمیمی زندیق ،جھوٹے اور افسانہ ساز کی باتوں کو کسی قدر و منزلت کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھا گیا ہے ۔

یہ تھے سیف کے خیالی اور جعلی صحابیوں کے دو نمونے جنھیں اس نے اپنی خیالی قدرت سے خلق کرکے اپنے خاندان تمیم کے سور مائوں کے عنوان سے پہچنوایا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس کے دیگر جعلی اصحاب کے بارے میں اس کتاب کی اگلی جلدوں میں بحث و تحقیق کریں گے ۔

واللّٰه ولی التوفیق

۳۴۳

فہرستیں :

٭ کتاب کے اسناد

٭ اس کتاب میں مذکور شخصیتوں کے نام

٭ اس کتاب میں مذکور قبیلوں کے نام

٭ اس کتاب میں مذکور مقامات کے نام

٭ اس کتاب میں ذکر شدہ سیف کے افسانوی دنوں کے نام

۳۴۴

کتاب کے اسناد

مباحث کے حوالے :

١۔ ''عبد اللہ بن سبا'' ،''سیف بن عمر'' کے حالات سے مربوط فصل۔

٢۔''تاریخ طبری'' ،طبع یورپ ٢٦٨١١ وطبع مصر ٢٦٣٤

زندیق وزندیقان :

١۔ ''مروج الذہب'' حاشیہ ''ابن اثیر'' میں ٨٤٢و ١١٦ عبارتوں میں تغیر کے ساتھ۔

٢۔ Browne, vo ٭ ,۱,P,۱۶۰

٣۔''دائرة المعارف الاسلامیة'' انگریزی ١ ٤٤٥

٤۔ ''الطبری'' طبع یورپ ٣ ٥٨٨ موسیٰ عباسی کے زمانے کے حوادث میں اور '' ابن اثیر ''میں ۔

٥۔ ''الطبری'' ،طبع یورپ ٣ ٥٤٩۔٥٥١اور طبع مصر ١٤١٠ ١٦٩ھ کے حوادث میں اور ''ابن اثیر'' ٢٩٦۔

٦۔ ''الطبری'' ،طبع یورپ ٤٩٩٣

٧۔ ''الطبری'' طبع یورپ ٣ ٥٢٢

٨۔''مروج الذہب'' ،''ابن اثیر'' کے حاشیہ میں ٧٩۔٩ مأمون کے مختصر حالات کے بیان میں ۔

مانی اور اس کا دین :

٩۔ ''مانی و دین او'' ٥و٦

١٠۔''الفہرست'' ٤٥٨ اور ''مانی ودین او '' ٧و ٢٩۔٣٧۔

۳۴۵

مانی کا دین

١١۔ ''مانی ودین او'' عبد الکریم شہرستانی سے منقول مانیوں کے ایک سردار ابن سعید کے بقول

١٢۔'' الفہرست'' ٤٥٦۔٤٦٤ اور '' مانی ودین او'' ٢٧۔٥٤۔

انبیاء کے بارے میں مانی کانظریہ :

١٣۔ '' الفہرست'' ٤٥٧ اور '' مانی ودین او'' ٥٧و ٥٨

١٤۔'' مانی ودین او'' ٢٢۔

مانی کی شریعت:

١٥۔'' الفہرست'' ٤٦٥ و٤٦٦ اور '' مانی ودین او'' ٤٩۔٥٤

مانی اور اس کے دین کاخاتمہ:

١٦ ۔'' مانی ودین او''١۔١٦و٥٨

١٧۔'' مانی ودین او'' ١٨۔٢٠

١٨۔'' الفہرست'' ٤٧٢،'' الاغانی ''١٣١٦،'' ابن اثیر ''طبع یورپ ٣٢٩٥

١٩۔'' الفہرست''٤٧٢

مانیوں کی سرگرمیاں :

٢٠۔'' الفہرست'' ٤٧١۔٤٧٤اور '' مروج الذہب''زمانہ قاہر عباسی کے حوادث کے بیان میں ۔

۳۴۶

عبد اللہ بن مقفّع:

٢١۔'' ابن خلکان'' ٤١٣١

عبد الکریم ابن ابی العوجائ:

٢٢۔ '' طبری'' اور '' ابن اثیر'' میں ١٥٥ھ کے حوادث کے ضمن میں آیاہے وہ کہ معن بن زائدہ کا ماموں تھا۔صاحب '' لسان المیزان '' نے اس کے حالات کے بارے میں ٥٢٤ اور صالح کی شرح حالات میں ١٧٣٣ میں لکھاہے کہ وہ پہلے بصرہ میں زندگی بسر کرتاتھا۔

٢٣۔ '' بحار الانوار '' ١١٢ '' احتجاج'' سے نقل کرتے ہوئے کہ یہاں پر مختصر بیان ہواہے ۔

٢٤۔ '' بحار الانوار'' ٣ ١٩٩ اور ١٤١٤۔

٢٥۔ '' بحار الانوار'' ١٤٢۔١٥ ایک مفصل روایت نقل کی گئی ہے کہ اس میں '' عالم '' سے مقصود حضرت امام صادق ـ ہیں ۔

٢٦۔'' بحار الانوار ''١٣٧١١

٢٧۔'' بحار الانوار ''١٨٤ توحید کے موضوع پر ایک مفصل حدیث ہے جسے حضرت امام صادق ـ نے تین دن کے اندر مفضل بن عمر کو املاء فرمایاہے۔

٢٨۔'' لسان المیزان''٥٢٤۔

٢٩۔'' طبری ''طبع یورپ ٣٧٦٣،'' ابن اثیر''٣٦،'' ابن کثیر''١١٣١٠، '' میزان الاعتدال''ذہبی طبع دار الکتب العربیہ تحقیق علی محمد البجادی ٦٤٤٢،'' لسان المیزان ''نے اسی کے حالات تفصیل سے ذکر کئے ہیں ۔

۳۴۷

مطیع بن ایاس:

٣٠۔'' اغانی'' ٩٩١٢

٣١۔'' اغانی'' ٨٦١٢

٣٢۔'' اغانی'' ٨١١٢

٣٣۔'' اغانی'' ٨١١٢

٣٤۔'' اغانی'' ٩٩١٢۔١٠١

٣٥۔'' اغانی'' ٩٤١٢

٣٦۔'' اغانی'' ١٠٠١٢

٣٧۔'' اغانی'' ٩٦١٢

٣٨۔'' اغانی'' ٨٦١٢

٣٩۔'' اغانی'' ٨٧١٢ و ''الدیارات''شابشتی ١٦٠۔١٦٢

٤٠۔'' اغانی'' ٨٧١٢

٤١۔'' اغانی'' ١٠٥١٢

٤٢۔'' اغانی'' ٨٥١٢

٤٣۔''تاریخ بغداد'' خطیب ٢٢٥١٣

٤٤۔''اغانی'' ٩٦١٢

٤٥۔''اغانی' ٩٨١٢

٤٦۔''الفہرست'' ٤٦٧و٤٦٨

٤٧۔فصل شریعت مانی۔اسی کتاب میں

٤٨۔''اغانی'' ٨٥١٢

٤٩۔''تہذیب''ابن عساکر ١١٢۔١٢ اور ''الموضوعات'' ابن جوزی ٣٨١

۳۴۸

نزاریوں اور یمانیوں کے درمیان خاندانی تعصبات :

١۔ ''طبری '' ١٥٢٦١،''اغالی'' ١٢٤، از زہری و ۔ل۔م (بیض)

٢۔'' امتاع الاسماع'' مقریزی ٢١٠۔٢١٢ ،اوردیوان حسان

٣۔''طبری ''سقیفہ کی داستان میں ١٨٣٨١و ١٩٤٩

٤۔کتاب '' سقیفہ '' کا قلمی نسخہ از مولف جس میں اس واقعہ کے مفصل اسناد پیش کئے گئے ہیں

٥۔ '' التنبیہ والاشراف '' مسعودی طبع ١٣٥٧ھ،دارالصاوی مصر ٩٤۔٩٥

٦۔ مذکورہ سند ٢٨٠۔٢٨١

٧۔ '' طبری '' ١٧٨١٢قصیدہ کے الفاظ میں تھوڑے فرق کے ساتھ ،مسعوی سے منقول ''ابن اثیر '' ١٠٤٥

٨۔'' مروج الذہب '' ''ابن اثیر'' کے حاشیہ میں ١٨٠٧و١٨١

نزاریوں کی حمایت میں سیف کا تعصب:

٩۔ قعقاع ،ابی بجید و ابی مفز ز،سیف کے افسانوں کے سورمائوں کی روئیداد اسی کتا ب کی اگلی فصلوں میں

١٠۔ '' طبری '' طبع یورپ ٣٢٦٤١۔ ٣٢٦٥ اور طبع مصر ١٤٤٤،داستان جنگ قادسیہ ١٤ھ میں '' ابن کثیر '' ٤٧٧

١١۔'' عبداللہ ابن سبا '' طبع دارالکتب بیروت ٧٧ ( سقیفہ کے بارے میں سیف کی ساتویں حدیث )اور ١٢٤ ( خالد بن سعید اموی کے بارے میں )

١٢۔ابو موسیٰ کی معزولی کے بارے میں سیف کی روایت کا ''طبری '' ٢٨٩٩١ اور اسی کتاب میں دوسروں کی روایت سے ٢٨٢٨١۔٢٨٣١ میں اور '' استیعاب'' میں شبل کے حالات میں موازنہ کیا جا سکتا ہے ۔

۳۴۹

سیف سے روایت نقل کرنے والی کتابیں :

١۔ روئیداد '' عبید بن صخر بن لوذان'' اسی کتاب '' ١٥٠جعلی اصحاب '' کے طبع اول میں

٢۔'' اسد الغابہ '' ۔'' الاصابہ'' اور سیوطی کی ''اللئالی المصنوعہ''کے باب مناقب سائر الصحابہ ٤٢٧۔٤٢٨ ،میں عاصم کے بیٹے قریمہ و عدس کی روئیداد۔

٣۔'' عبیدبن صخر '' کی روئیداد ،اسی کتاب کی پہلی طبع میں اور ''الاصابة '' میں قعقاع کے حالات کی وضاحت ۔

٤۔''اسد الغابہ''اور ''الاصابہ '' میں ''منجاب بن راشد'' اور کبیس بن ہوذہ'' کے حالات

٥۔'' الاصابہ ''میں '' کبیس بن ہوذہ'' کے حالات

٦۔ ''اسد الغابہ'' میں '' کبیس بن ہوذہ ''کے حالات۔

٧۔ ''قعقاع '' کے حالات اسی کتاب '' جعلی اصحاب'' میں ۔

٨۔ اسی کتاب میں '' عبید بن صخر بن لوذان'' کے حالات ۔

٩۔ '' الاصابہ '' اور اسی کتاب میں ''اط''اور ''عبد بن فدکی'' کے حالات زندگی ۔

١٠۔'' اسد الغابہ'' میں ''حارث بن حکیم ضبی'' اور ''عبد اللہ بن حکیم '' کے حالات۔

١١۔'' اسد الغابہ'' اور اسی کتاب میں '' قعقاع '' کے حالات۔

١٢۔''التجرید ''میں ''قعقاع''اور'' عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبان''کے حالات۔

١٣۔اسی کتاب کی (١٥٠ جعلی اصحا۲) تمام داستانیں ۔

١٤۔''اسد الغابہ ''اور ''الاصابہ'' میں ''عبد اللہ بن المعتم ''کی داستان۔

١٥۔''اسد الغابہ ''اور ''الاصابہ'' میں ''عبد اللہ بن عتبان ''کے حالات۔

١٦۔کتاب ''تاریخ جرجان''٤۔٢٧٨ فاتحین شہر گرگان کے باب میں ۔

١٧۔ابو نعیم کی ''تاریخ اصبہان'' اصفہان جانے والے اصحاب کی روئیداد کی فصل میں ۔

١٨۔''تاریخ بغداد''''عتبہ بن غزوان''کے حالات ١٥٥١ اور بشیر بن الخصاصیہ کے حالات ١٩٥١۔

١٩۔'' تاریخ دمشق''کتب خانہ ظاہریہ دمشق میں موجود قلمی نسخہ میں '' قعقاع''کی روئیداد۔

۳۵۰

٢٠۔'' التہذیب''میں '' قعقاع''کے حالات ۔

٢١۔'' الاصابہ''اور اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحا۲) میں '' نافع الاسود''اور '' عبداللہ بن المنذر''کے حالات۔

٢٢۔'' الاصابہ''اور اسی کتاب کا آخری شخص '' عبد اللہ بن صفوان''اور '' اسود بن قطبہ''کی زندگی کے حالات۔

٢٣۔اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحا۲)طبع اول میں '' خزیمہ غیر ذی الشہادتین''کی روئیداد

٢٤۔دارالکتب مصر میں موجود '' الاکمال''کے قلمی نسخہ ج١،ورق ١١١(۲) ٤٠(۲) '' جاریہ ابن عبد اللہ ''اور'' ابی بجید''کے حالات۔

٢٥۔'' الاصابہ ''میں '' حزیمة بن عاصم''کے حالات اور اسی کتاب میں '' عمرو بن الخفاجی '' کی روئیداد۔

٢٦۔'' اسد الغابہ''میں '' عدس بن عاصم ''کے حالات ۔

٢٧۔'' جمہرة انساب العرب''١٩٩ اور اسی کتاب میں '' حارث بن ابی ھالہ ''کی زندگی کے حالات۔

٢٨اور ٣٠۔'' الانساب''میں '' الاقفانی ''کی زندگی کے حالات اور اسی کتاب میں '' حرملہ '' کے حالات۔

٢٩۔ابن قدامہ مقدسی کی '' الاستبصار''٣٣٨۔

٣١۔'' الجرح والتعدیل''طبع حیدر آباد ١٣٧١ھ میں '' قعقاع''اور '' زبیر بن ابی ھالہ''کے حالات ۔

٣٢۔'' میزان الاعتدال''میں '' عمرو بن ریان ''٢٦٠٣ اور '' مبشر بن فضیل ''٤٣٤٣ کے حالات۔

٣٣۔'' لسان المیزان ''میں ١٢٢٣ '' سہل بن یوسف''،'' عمرو بن ریان''٣٤٦٤ اور '' مبشر بن فضیل''١٣٥ کے حالات۔

٣٤۔ابن فقیہ کی کتاب '' مختصر البلدان''١٣٩۔

٣٥۔٣٦۔٣٧۔کتاب '' عبد اللہ بن سبا''فصل '' شہر ہای جعلی سیف''۔

٣٨۔اسی کتاب (١٥٠جعلی اصحا۲)میں '' 'عاصم 'اور'' قعقاع''کے حالات ۔

٣٩و٤١۔اسی کتاب کے مقدماتی بحثوں کی ابتدائی بحث۔

٤٠۔'' نضربن مزاحم ''کی کتاب '' صفین ''٥۔٦۔٩۔١٠۔٥٣٣.

٤٢۔کتاب'' عبد اللہ بن سبا''فصل'' افسانہ سبا کی پیدائش کی بنیاد ''۔

٤٣۔'' ابن خیاط''کی '' تاریخ خلیفہ''طبع اول نجف١٣٨٦ھ ١٠٧۔١٠٨.

۳۵۱

٤٤۔'' فتوح البلدان ''طبع ١٩٥٨ھ دارالنشر للجامعین بیروت ٣٥٤و٤٣١

٤٥۔٤٩۔(اسی فہرست کا) مأخذ نمبر ٤٢۔

٥٠۔سیوطی کی '' تاریخ الخلفائ''٩٧۔

٥١۔٥٢۔٥٤۔٥٦۔٦٠۔٦١۔اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحاب )کی فصل '' لیلة الھریر''میں '' قعقاع ''کی سوانح ۔

٥٣۔٦٣۔اسی کتاب میں '' زبیر بن ابی ہالہ''کی زندگی کے حالات۔

٥٥۔اسی کتاب کی فصل '' یوم الجراثیم ''میں '' عاصم ''کے حالات۔

٥٧۔'' الخاقانی''کی تحقیق '' نہایة الارب''طبع بغداد ١٣٧٨ھ ٤٢٥۔

٥٨۔'' اغانی''٥٥١٥و٥٦۔

٥٩۔ابن بدرون کی '' شرح قصیدہ ''طبع سعادہ ،قاہرہ ١٣٤٠ھ ١٤٢و١٤٤۔

٦٢۔'' ترمذی ''طبع دار الصاوی،مصر ١٣٥٢ھ ٢٤٥١٣ اور '' ذہبی''کی '' میزان الاعتدال '' ٢ ٢٥٦میں '' سیف''کے حالات ۔

٦٤۔ابن'' حجر''کی '' فتح الباری''٥٨٨۔

٦٥۔'' کنزالعمال''٣٢٣١١اور ٦٩١٥و٢٣٣۔

٦٦۔'' عقیلی''میں '' عمروبن ریان''کے حالات۔

٦٧۔ابن '' جوزی''کی '' الموضوعات''۔

٦٨۔'' اللئالی المصنوعہ''باب '' مناقب سائر الصحابة''٤٢٧و ٤٢٨۔

۳۵۲

روایات سیف کی اشاعت کے اسباب:

١۔''عبد اللہ بن سبا''طبع بیروت ١٥٩۔١٦٣

٢۔'' ذہبی''کی '' النبلائ''١٩٢ اور '' طبقات ابن سعد''٣٦٢٤

٣۔'' عبد اللہ ابن سبا''طبع قاہرہ ١٥٢ فصل '' حوادث وواقعات کے سال میں تحریف''

٤۔'' طبری''٢٢٢٢١و٢٩٤٤و٣١٦٣ از عبد الرحمن بن ملجم

٥۔'' طبری''٢٧٠٢١

٦۔'' عبد اللہ ابن سبا''طبع بیروت ،فصل '' سیف کی زندگی کے حالات ''سیف کے بارے میں علماء کے نظریات

قعقاع بن عمرو

١۔ یہاں پرہم نے کتاب ''الاستیعاب'' طبع حیدر آباد ١٣٣٦ھ پر اعتماد کیاہے۔

٢۔'' ظاہریہ ''لائبریری دمشق کاقلمی نسخہ جس کی فوٹو کاپی ہمارے پاس موجود ہے۔

٣۔ استاد ابراہیم واعظ کی '' خریجو مدرسہ محمد''

٤۔مجلہ'' المسلمون ''شمارہ ٤و٥سال ہفتم اور محمود شیت خطاب کی '' قادة الفتوح''

اس کاشجرۂ نسب :

١۔ '' طبری ''طبع یورپ ١٩٢٠١ اس سند کے ساتھ :''عن سیف عن الصعب بن عطیہ بن بلال عن ابیہ''

٢۔'' طبری ''٣١٥٦١و٣١٥٨تا ٣١٦٤ اس سند کے ساتھ '' عن سیف عن محمد وطلحہ باسنادھا''

٣۔'' طبری ''٢٤٣٧١ اس سند کے ساتھ:'' عن سیف عن ابی عمرو دثار عن ابی عثمان النھدی''

٤۔ '' طبری''٢٣٦٣١ اس سند کے ساتھ:'' عن سیف عن محمد والمھلب و الطلحہ قالوا''

۳۵۳

قعقاع رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی:

١۔ '' طبری''٣١٥٦١ اور '' تاریخ ابن عساکر ''سیف سے نقل '' قعقاع''کے حالات میں ۔

٢۔'' الاصابہ''٢٣٠٣ میں '' قعقاع''کے حالات کی تشریح ۔

قعقاع سے منقول ایک حدیث:

١۔ ابن حجر کی '' الاصابہ ''اور الرازی کی '' الجرح والتعدیل''١٣٦٢٣ میں '' قعقاع''کے حالات میں ۔

سند کی تحقیقات:

١۔سیف کی روایتیں '' صعب''سے'' تاریخ طبری''١٩٦٢١ میں ،'' سہم بن منجاب ''اور '' صعب''نیز اس کے باپ سے ١٩٠٨١و١٩٢١و٣١٩٥،اور ٣٢٠٦۔٣٢١٠میں چار روایتیں ہیں ۔اور ''اسد الغابہ ''١٣٨٣و ١٤٥و١٦٧ اور '' الاصابہ ''٣٠٦ میں آئی ہیں اور '' الاستیعاب''میں عبد اللہ بن حارث کے حالات میں اس کی سند بھی روایت ہوئی ہے اور محمد بن عبد اللہ سے سیف کی روایتیں '' طبری''٢٠٢٥١۔٣٢٥٥ میں ١٢ تا ٣٦ ھ کے حوادث کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں ۔اور '' مھلب بن عقبہ ''سے سیف کی روایتیں '' طبری ''٢٠٢٣١۔٢٧١٠ میں ٢ ١ ھ سے ٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں ۔

ابوبکر کے زمانہ میں :

١۔ اس روایت کو '' طبری''طبع یورپ ١٨٩٩١ نے '' السری ''سے'' سیف ''سے '' سہل ''اور '' عبد اللہ ''سے نقل کیاہے اور ابوالفرج اصفہانی نے '' الاغانی ''٥٥١٥ طبع ساسی میں طبری سے روایت کرکے لکھاہے:روایت کی ہے ہم سے '' محمد بن جریر طبری''نے '' السری''سے اور اس نے '' شعیب ''سے اور اس نے '' سیف بن عمر''سے اور '' ابن حجر''نے اسے '' علقمہ ''کے حالات میں '' الاصابہ'' ٤٩٧٢ نمبر ٥٦٧٧میں بیان کرتے ہوئے لکھاہے: '' سیف نے فتوح میں یوں کہاہے''اور ابن '' اثیر''نے '' الکامل''١٣٣ میں اسے مختصر طور پر ذکر کیاہے۔

٢۔''ابوالفرج اصفہانی'' نے '' الاغانی '' ٥٥١٥میں '' عامر '' کے حالات میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہتا ہے : '' مدائنی '' نے اس طرح نقل کیا ہے ۔

۳۵۴

سند کی پڑتال:

١۔''طبری '' ١٨٤٤١ ۔٣١٢٠میں ''سہل ''سے ''سیف'' کی رواتیں ١١ھ سے ٣٦ھ تک کے حوادث کے ضمن میں نقل ہوئی ہیں اور تاریخ طبری ١٧٥٠١۔٣٠٩٥ میں عبداللہ سے نقل کی گئی سیف کی روایتیں سنہ ١٠،١١،١٣،١٦،١٧،٣٥،اور٣٧ہجری کے حوادث کے ضمن میں پراکندہ صورت میں پائی جاتی ہیں ۔

قعقاععراق کی جنگ میں :

١۔''طبری '' ٢٠١٦١ و ٢٠٢٠تا ٢٠٢٦ ، '' ابن اثیر '' ١٤٨٢۔ ١٤٩، '' ابن خلدون '' ٢٩٥٢ و٢٩٦ ،'' تاریخ الاسلام الکبیر '' ذہبی ٣٧٤١،اور '' ابن کثیر '' ٣٤٢٦

٢۔''طبری '' ٢٣٧٧١۔ ٢٣٨٩

سند کی پڑتال:

١۔ ''طبری '' ٢٠٢٤١و٢٠٧٦و٣١٥١،اور روایت عبدالرحمن ٢٠٢١١۔٢١١٠،اور حنظلہ ٢٠٢٥۔٢٠٢٦ ۔زیاد بن حنظلہ کی روئیداد بعد میں بیان ہوگی۔

قعقاعحیرہ کی جنگوں میں :

١۔''طبری '' ٢٠٢٦١۔ ٢٠٣٦،'' ابن اثیر '' ١٤٨٢۔١٤٩،ابن کثیر ٣٤٤٦۔٣٤٦، اور'' ابن خلدون'' ٢٩٧٢۔٢٩٨

٢۔''طبری '' ٢٠٤٦١۔٢٠٤٧

٣۔ بلاذری '' فتوح البلدان'' ٣٥٣و٤٧٨ میں ۔

٤۔بلاذری '' فتوح البلدان''٣٣٩و٣٤٢۔

٥۔'' ابن درید '' کی '' الاشتقاق'' اور '' ابن حزم '' کی '' الجمہرہ '' ٢٩٥۔

۳۵۵

سند کی جانچ و پڑتال:

١۔ ''طبری '' ٢٠٢٦١و٢٤٩٥میں '' زیاد بن سرجس'' سے ''سیف '' کی روایت ١٢سے١٧ھ تک کے حوادث کے ضمن میں ذکر ہوئی ہیں اور '' ابو عثمان النھدی عبدالرحمن بن مل ،'' طبری ٢٤٨١٣ و ٢٥٤٧ میں اور '' ابو عثمان یزید بن اسید '' سیف کے جعلی صحابی ہیں ۔فہرست طبری ٣٧٨ ۔کہ یہ لوگ ''محمد بن طلحہ '' کے ہمراہ تین افراد ہوتے ہیں ،فہرست طبری ٥١٦ میں ذکر ہوئے ہیں ۔

قعقاعحیرہ کے حوادث کے بعد :

١۔ ''طبری '' ٢٠٤٩١و٢٠٥٥،'' ابن اثیر '' ١٥٠٢،'' ابن کثیر ٣٤٨٦۔ابن خلدون ٢٩٩٢ حیدرآبادی '' مجموعة الوثائق السیاسیہ '' مکتوبات نمبر ٢٩٣و ٣٠١ اور ٣٤٠ میں ۔

٢۔ ''طبری '' ٢٠١٦١و٢٠١٨میں کلبی سے اور '' ابی مخنف '' سے اور '' ابن اسحاق '' سے اور بلاذری نے فتوح البلدان ٣٤٢ اور معجم البلدان میں '' بانقیائ'' کے حالات میں ۔

سند کی پڑتال:

١۔روایت غصن '' طبری''١٩٧٧١۔٢٩٨٠میں سنہ ١١و١٢و١٤و٢٢و٣٠و٣٤ ہجری کے حوادث کے ضمن میں اور ابن مکنف سے ٢٠٥٠١ میں اور بنی کنانہ کے ایک مرد سے ٢٠٣٩١۔٢٨٩٠ میں سنہ ١٢۔٣٢ ہجری کے حوادث کے ضمن میں ۔

حدیث المصینح کی سند:

١۔ '' طبری''٢٠٧٤١ میں '' بنی سعد سے ایک مرد''نقل ہواہے۔

۳۵۶

خالد کی شام کی شام کی جانب روانگی کی داستان:

١۔ '' ابن عساکر''٤٤٧١ اور ٤٤٦ میں مختصر طور سے ذکر ہے۔

٢۔ '' طبری''٢٠٧٠١ اور ٢٠٧٦ اور ٢٠٨٥۔

٣۔ '' ابن عساکر''٤٦٤١۔

٤۔ عراق میں خالد کی فتوحات کے بارے میں جو نقل ہواہے: '' طبری''٢٠٢٠١ ۔٢٠٧٧ '' ابن اثیر''١٤٧٢۔١٥٣، '' ابن کثیر''٦ ٣٤٢۔٣٥٢، '' ابن خلدون''٢٩٥٢۔٣٠٣، '' بلاذری''، '' فتوح البلدان''کے باب '' فتوح السواد میں ''٣٣٧۔٣٥٠ اور دینوری کے'' اخبار الطوال''١١١۔١١٢

٥۔مؤرخین کے روایات میں اختلافات کو '' ابن عساکر''نے ٤٤٧١ ۔٤٧٠،طبری نے ٢١١٠١۔٢١٢٧اور ابن اثیر نے ٣١٢٢۔٤میں ذکر کیاہے۔

سند کی پڑتال:

١۔'' طبری''٢١١٣١۔٢٤٦٠میں '' عبید اللہ بن محفز''سنہ ١٣اور ١٦ہجری کے حوادث کے ضمن میں آیاہے اور '' ابن عساکر ''٤٦٦١میں '' عبد اللہ''اور وہ جس نے اس کے لئے '' بکر بن وائل ''سے روایت نقل کی ہے '' طبری''٢١١٣١اور ابن عساکر ٤٦٦١۔

شام کی جنگوں میں :

١۔ '' طبری ''٢٠٩٣١۔٢٠٩٧،ابن عساکر ٥٤١اور قعقاع کے حالات میں نیز ابن کثیر ٧٧۔١٦ ،داستان یرموک ابن اثیر وابن خلدون اور فتوح البلدان ١٥٧و١٨٤ اور ''عبد اللہ ابن سبا'' کی فصل ''حوادث کے سنوں میں سیف کی تحریف''ملاحظہ فرمائیے۔

سند کی تحقیق:

١۔ روایت '' ابو عثمان یزید'''' طبری ''٢٠٨٤١۔٢٥٨٦ سنہ ١٣ اور ١٨ ہجری کے حوادث کے ضمن میں اور تاریخ ابن عساکر ٤٨٤١۔٥٤٦ میں آئی ہے ۔

۳۵۷

فتح دمشق:

١۔طبری ٢١٥٠١۔٢١٥٦،ابن عساکر ٥١٥١۔٥١٨،اور قعقاع کے حالات میں سیف کے اشعار نقل ہوئے ہیں ،فتوح البلدان ١٦٥،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے انھیں طبری سے نقل کیاہے۔

سند کی تحقیق:

١۔ '' طبری''٢٠٨٤١۔٢٨٢٢میں سنہ ١٣۔١٨ ہجری کے حوادث کے ضمن میں اور تاریخ ابن عساکر ٤٨٤١۔٥٤٥میں '' خالد''و'' عبادہ''سے سیف کی روایتیں ۔

فحل کی جنگ:

١۔ طبری ٥٩٤۔٦٠،ابن عساکر ٤٨٥١۔٤٨٨و٥٣٥اور '' فتوح البلدان''بلاذری ١٥٨

٢۔طبری ٢١٥٤١ سنہ ١٣ ہجری کے حوادث کے ضمن میں وطبع مصر ١٢٠٤،تاریخ ابن عساکر ٥١٧١،ابن کثیر ٢٥٧اور کتاب عبد اللہ ابن سبا کی فصل '' حوادث کے سالوں میں تحریف''کے ذیل میں ۔

عراق میں دوبارہ جنگیں ۔قادسیہ:

١۔ طبری ٢٣٠٥١۔٣٣٢٧ اور طبع مصر ١٢٠٤ ۔١٢٨ ١٤ھ کے حوادث۔

٢۔'' شرح قصیدہ ابن عبدون ''طبع لیدن ١٤٤۔١٤٦۔

٣۔'' نہایة الارب''تحقیق علی الخاقانی ٤٢٥اور تاج العروس ٦٣٧١۔

٤۔ طبری ٢٣٢٧١۔٢٣٣٣

٥۔ طبری ٢٣٠٥١۔٢٣٣٨ اور طبع مصر ١٢٠٤۔١٣٣، نیز '' ابن عساکر ''قعقاع کے حالات ٥١٧١،شرح قصیدہ ابن عبدون،ابن کلبی کی '' انساب الخلیل'' ،'''قاموس'' فیروزہ آبادی ، ''لسان العرب'' ابن منظور،'' نہایة الارب'' قلقشندی اور ابن کثیر ٤٥٧۔

٦۔ '' ابن اثیر '' ٣٤٥٢۔٣٧٧، ابن کثیر ٣٥٧۔٤٧، ابن خلدون٣٠٨٢و٣١٥اور ''روضة الصفا'' ٦٨٢٢۔٦٨٥

۳۵۸

سند کی تحقیق:

١۔روایت عمرو '' طبری'' ٢٢٩٥١۔٢٤٩٨میں آئی ہے اور اس کے حالات '' میزان الاعتدال'' ٢٦٠٣،اور لسان المیزان ٣٤٦٤میں سنہ ١٤و ١٧ ہجری کے حوادث کے ضمن میں آئے ہیں ۔حمید نے ''طبری '' ٢٣٢٩١میں ،جحذب و عصمة نے طبری ٢٣٢١١میں اور ابن محراق جو قبیلہ طی کے ایک مرد سے نقل کرتا ہے ،نے طبری ٢٣١٢١میں روایت کی ہے ۔

جنگ کے بعد کے حوادث:

١۔طبری ٢٣٥٧١۔٢٣٦٤اور طبع مصر ١٣٦٤۔١٤٣،اور'' قعقاع ''کے حالات ''الاصابہ'' و '' فتح البلدان '' میں اور '' الاخبار الطوال '' فتح قادسیہ۔

فتح مدائن اور جنگی غنائم:

١۔ '' طبری '' ٢٤٣٤١۔٢٤٣٦،اور ٢٤٤٧۔٢٤٤٩و ابن اثیر ٣٩٥٢۔٤٠٤،ابن کثیر ٦١٧۔٦٨،ابن خلدون ٣٢٨٢۔٣٣٠،'' الروض '' ورق ٢٢٨٢سے مدائن کی روئیداد۔

سند کی تحقیق :

١۔ان کی روایت طبری میں اس طرح نقل ہوئی ہے : '' بنی الحارث '' سے ایک مرد اور ''عصمة '' ٢٤٤٨١و مرد گمنام ٢٤٣٥١و الرفیل اور اس کابیٹا ٢٢٤٩١۔٢٤٤٥ سنہ ١٤،١٥ و ١٦ہجری کے واقعات میں اور النضر ٢١٧١١۔٢٤٤٥ ،سنہ ١٣،١٤و١٦ہجری کے واقعات میں ۔

جلولاء میں :

١۔''طبری ''٢٤٥٦١۔٢٤٧٤اور طبع مصر ١٧٩٤ و١٨٦و١٩١ و١٩٤،''اخبار الطوال '' ١٢٧۔ ١٢٩،'' فتوح البلدان'' ٣٦٨۔٤٢٣،'' معجم البلدان'' ،ابن اثیر ٤٠٤٢۔٧٠٠'' ابن کثیر '' ٦٩٧، ''ابن خلدون'' ٣٣١٢۔٣٣٢،اور '' روضة الصفا'' ٦٨٩٢۔

۳۵۹

سند کی تحقیق:

١۔''طبری میں حدیث '' حماد'' ٢٤٦٣١۔٣٢١٤و '' بطان'' ٢٤٥٨١و عبداللہ ٢١١٣١۔ ٢٤٦٠سنہ ١٣۔١٦ہجری کے حوادث اور '' المستنیر'' ١٧٩٥١۔ ٣٠٣٤سنہ ١١۔٣٤ہجری کے حوادث میں ۔

شام کی دوبارہ جنگوں میں :

١۔''طبری '' طبع مصر ١٩٥٤ و١٩٧،قعقاع کے حالات ابن ''عساکر '' اور '' الاصابہ'' میں ، ابن اثیر ٤١٣٢،ابن کثیر ٧٥٧،اور ابن خلدون ٣٣٨٢۔

نہاوند میں :

١۔ ''طبری '' طبع مصر ٢٣١٤۔٢٤٥طبع یورپ ٢٥٩٦١۔٢٦٣٤،الاخبار الطوال ١٣٣۔ ١٣٧، بلاذری ٤٢٤۔٤٣٣، '' الوثائق السیاسیہ'' مکتوب نمبر ٣٣٢، معجم البلدان میں '' ثنیة الرکاب '' ''ماہان''''وایہ خرد''اور نہاوند کی روداد ،'' ابن اثیر ''٤٣،'' ابن کثیر ''١٠٥٧۔١١٠،'' ابن خلدون'' ٣٥٠٢ ''ابن کثیر '' اس باب کی ابتداء میں لکھتا ہے جو کچھ اس نے سیف سے نقل کیا ہے '' طبری '' سے لیا ہے ۔

سند کی تحقیق :

١۔ ان کی روایات '' طبری '' ٢٥٠٥١و٢٦٣١میں ہیں ۔

بحث کا خلاصہ :

١۔'' طبری '' ٢٩٢٨١۔٢٩٣٠و٢٩٣٦و٢٩٥٠،اور طبع مصر ٩٢٥۔٩٣و ٩٦و١٠١۔

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416