ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215084 / ڈاؤنلوڈ: 4962
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

قرآن مجید میں دو جگہوں پر وضو وغسل اور ان کے بدل یعنی تیمم کاایک ساتھ ذکر ہواہے ۔

اولاً سورہ نسا کی ٤٣ویں آیت میں فرماتاہے:

( ''يٰااَيُّهَا الذَّینَ آمَنُوا لاٰتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُکٰاریٰ حَتّٰی تَعْلَمُوا مٰا تَقُولُونَ وَ لاٰ جُنُباً اِلاّٰ عٰابِرِی سَبیلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْ جٰائَ اَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوا مٰائً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰهَ کٰانَ عَفُوّاً غَفُوراً'' ) (نسا٤٣)

ایمان والو ! خبردار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا،جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم سمجھنے لگو کیا کہہ رہے ہو،اور جنابت کے حالت میں بھی (مسجد میں داخل نہ ہونا)مگریہ کہ راستے سے گزر رہے ہو ،جب تک غسل نہ کرلو اور اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پاخانہ نکل آئے ، یاعورتوں سے باہم جنسی ربط قائم کرو اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

ثانیاً سورہ مائدہ کی چھٹی آیت میں فرماتاہے :

( ''یٰا اَیُّهَاالَّذینَ آمَنُوااِذٰاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِفَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَیٰ الْمَرٰافِقِ وَامْسِحُوابِرُء وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْن وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا وَاِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْجٰائَ أَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ اَوْلاٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوامٰائً فَتَیَمَّمُواصَعیداًطَیِّباًفَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَأیْدِیْکُمْ مِنْهُ.....'' ) (مائدہ ٦)

۲۱

ایمان والو !جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کواور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤاور اپنے سر اور ٹخنے تک پیروں کامسح کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرواور اگر مریض ہویا سفر کی حالت میں ہو یا پاخانہ وغیرہ نکل آیا ہے یاعورتوں سے باہم جنسی تعلق قائم کرو اور پانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کامسح کرلو۔

اس لحاظ سے اسی وقت جب وضو اور غسل کاحکم بیان ہوا ،تیمم کاحکم بھی بیان ہواہے ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ١٣ سال مکہ میں اور ٥سال مدینہ میں صرف وضواور غسل کیا اور انہیں کبھی تیمم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی ہو یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے ام المؤمنین کے گلے کے ہار کی برکت سے مسلمانوں کو یہ سہولت عنایت کی ہو.!!

موضوع کی اہمیت:

ہم نے یہاں پر عائشہ کی حدیث کو نمونہ کے طور پر بیان کیا ہے ۔عائشہ کی اس حدیث میں آیہ ٔ کریمہ کی شأن نزول کی بات کی گئی ہے جو بذات خود علم تفسیر کاجزو ہے ،اور تیمم کی علت کے بارے میں تشریح بھی کی گئی ہے جو حقیقت میں احکام اسلام میں سے ایک حکم ہے اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کی بات بھی کی گئی ہے کہ کس طرح رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیوی کی خوشنودی کے لئے جذبات میں آکر تمام مصلحتوں سے چشم پوشی کرکے لشکر اسلام کے ساتھ ایک خشک اور بے آب سرزمین پر صرف اپنی بیوی کے گلے کے ہار کے لئے صبح تک پڑاوکیا۔جب کہ کسی عام فوجی کمانڈر سے بھی اس قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے چہ جائیکہ حکمت وبصیرت والے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے !! اور سب سے بڑھ کر اس حدیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس ناشائستہ وبے جاعمل پر اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تنبیہ اور سرزنش کرنے کے بجائے قرآن مجید کی ایک آیت نازل فرماکر تیمم کاحکم جاری کیا اور اس طرح مسلمانوں کی ایک گتھی حل کردی ۔

دشمنان اسلام اس حدیث اور داستان سے کیا نتیجہ لیں گے ؟!افسوس!کہ اس قسم کی احادیث جو اسلام کوحقیر وپست اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہلکا ،شہوت پرست اور کم عقل ثابت کرتی ہیں ،بہت ہیں ۔

۲۲

ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس قسم کی احادیث کو ام المؤمنین عائشہ،ابوہریرہ اور دیگر اصحاب سے نسبت دینے کی تصدیق کریں اور کہیں کہ یہ نسبت سو فیصدی صحیح ہے ،ممکن ہے ان میں سے بعض کو زندیقیوں یا دیگر دشمنان اسلام نے دین میں تخریب کاری کے لئے جعل کرکے ان سے منسوب کردیاہو۔لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس قسم کی احادیث ،حدیث کی مشہورترین وصحیح کتابوں ،معتبر تفسیروں ،سیرت اور تاریخ کی موثق کتابوں میں درج ہیں ۔اس قسم کی احادیث حقائق کو اس حد تک الٹا دکھانے کی باعث بنی ہیں کہ خدا کی صفات کوغلط رنگ میں پیش کرکے مجسم ومرئی اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک شہوت پرست اور بے شعور اور قرآن مجید کو ناقص وقابل اصلاح صورت میں دکھایا گیاہے ۔(۱)

پروردگارا! مسلمانوں کے باور کئے گئے ان ہزاروں جھوٹ اور افسانوں کے مقابلے میں کیا کیاجائے ؟!ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے کہ مسلمان ان افسانوں کے عادی بن کر ان پر اعتقاد رکھتے ہیں اور انھیں اسلام کی صحیح احادیث،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سچی سیرت ،اسلام کی مؤثق تاریخ کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں اور اسی سبب سے صحیح اسلام کو نہیں پہچان سکے ہیں !

خداوندا ! کیا ان منحرف شدہ حقائق کو چودہ سو سال کے بعد حقائق آشکار کرکے ہزاروں جرائم سے پردہ اٹھایاجائے یامسلمانوں کی عظیم اکثریت کی چاہت کے سامنے ہتھیار ڈال دئے جائیں اور خاموش تماشائی بن کر زبان پر مہر لگالی جائے؟!

بار الٰہا !کیا یہاں پر خاموشی اختیار کرنا ان تمام جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟

اور کیا خود یہ خاموشی سب سے بڑا گناہ نہیں ہے ؟جی ہاں !بیشک ان تمام جرائم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا خود ان جرائم سے سنگین تر جرم ہے ۔اسی لئے حقیر نے حدیث وتاریخ ،حدیث کی شناخت اور اسلام کی صحیح تاریخ کے سلسلے میں میں بحث وتحقیق شروع کی ہے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اس کی مدد سے قدم آگے بڑھائے ہیں ۔

اب قارئین کرام اور علوم اسلامی کے محققین کی خدمت میں کتاب ''خمسون ومائة صحابی مختلق'' کے مباحث کا پہلا حصہ پیش کیا جاتاہے ۔

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم

العسکری

تہران: ٢٤ جمادی الثانی ١٣٩٦ ھ۔

____________________

۱)۔مؤلف کامقالہ''سرگزشت حدیث ''ملاحظہ ہو۔

۲۳

دوسرا حصہ :

کتاب کے مباحث :

٭سیف کو پہچانئے ۔

٭زندیق وزندیقان۔

٭مانی اور اس کا دین ۔

٭مانویوں کے چند نمونے ۔

٭یمانی و نزاری قبیلوں کے درمیان خاندانی تعصبات۔

٭نزار قبیلہ کے بارے میں سیف کا تعصب۔

٭اسلامی مأخذ میں سیف کی احادیث کا نفوذ ۔

٭سیف کی احادیث کے پھیلائو کے اسباب ۔

٭گزشتہ فصلوں کا ایک خلاصہ۔

۲۴

سیف کو پہچانئے

یروی الموضوعات عن الا ثبات

سیف اپنے جعل کردہ جھوٹ کو معروف ومعتبر راویوں سے نسبت دے کر حقیقت کے طور پر نقل کرتا ہے ۔

) علمائے رجال (

اس بحث کے آغاز کا مقصد

١٣٧٥ ہجری میں جب کتاب '' عبد اللہ ابن سبا''پہلی بار چھپ رہی تھی ،میں اس کی شائع شدہ فصلوں کے باقاعدہ مطالعہ کے دور ان متوجہ ہوا کہ ابن سبااور سبائیوں کے افسانہ کے علاوہ اسلامی تاریخ کے مصادر میں اور بھی بہت سی داستانیں اور افسانے شامل کئے گئے ہیں یہی امر اس کا سبب بنا کہ تاریخ اسلام کے ان افسانوں میں ذکر شدہ بیشتر سور ماؤں کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھوں ۔

میں نے کتاب کی طباعت کو طویل عرصہ کے لئے ملتوی کردیا تاکہ اس موضوع کے بارے میں بیشتر تحقیق کروں ۔اس تحقیق وتجسس کانتیجہ یہ نکلا کہ اصحاب ،تابعین سپہ سالاروں ،شعراء اور

۲۵

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث کے راویوں میں ایسی بہت سی معروف اور تاریخی شخصیتوں کوپایا جن میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔

اسی طرح بہت سی فرضی جگہوں اور سرزمینوں کے ناموں سے بھی سامناہوا کہ افسوس !ان کے نام جغرافیہ کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئے ہیں ،جب کہ یہ سب خیالی افسانے گڑھنے والوں کی تخلیق تھے اور حقیقت میں ان کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

اس کے علاوہ معلوم ہوا کہ اصل خبروں یاتاریخی واقعات کے سالوں میں بھی خود غرضانہ طور پر تحریفیں کی گئیں ہیں اور انہیں نام نہاد معتبرکتابوں میں درج بھی کیاگیا ہے۔

ہم نے ''کتاب عبداللہ بن سبا''کے مطالب کے ساتھ مجبوراًمذکورہ بحث کو اس کتاب کے ساتھ مربوط کیا اوران افسانوں میں سے بعض کواس میں نقل کیا اور ان میں سے بعض خیالی سور ماؤں کے بارے میں اشارہ پر اکتفا کرتے ہوئے کتاب کو پائے تکمیل تک پہنچادیا اور اسے ''عبداللہ ابن سبا۔مدخل ''یعنی اس تحقیق وبحث کامقدمہ قرار دیا۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد ،میں نے سکون واطمینان کے ساتھ افسانوں کے بارے میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ (قلمی)کتابوں اور نسخوں میں تحقیق وجستجو شروع کی اور اس کام کو اس حد تک جاری رکھا کے کہ خدائے تعالیٰ نے مختلف گروہوں کے افسانوی سور ماؤں کی قابل ذکر تعداد کی شناخت حاصل کرنے میں میری رہنمائی فرمائی ان میں بہت سے فرضی اور نام نہاد اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی نظر آتے ہیں ،یہ ایسے اصحاب اور سورما ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب کے سب ،سیف بن عمر تمیمی وغیرہ جیسے مجرموں کے ہاتھوں ،اسلام اور اسلام کی تاریخ کے ساتھ غداری، حقائق کی پردہ پوشی مسلمانوں کے ذہنوں کو مشوش کرنے ،اسلام کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں مشتعل کرنے کے لئے جعل و تخلیق کئے گئے ہیں ۔

ہم نے تاریخ اسلام پر ہوئے ظلم کے ایک گوشے کو آشکار کرنے اور حقائق و واقعیات کے چہرے سے پردہ اٹھانے کے لئے جعلی اور افسانوی اصحاب کی رونمائی کو دیگر جھوٹے اور فرضی چہروں کی رونمائی پر ترجیح دی ،اور ان میں سے صرف ١٥٠اصحاب پر ہی اکتفا کی اور اس مجموعہ کا نام '' ١٥٠جعلی اصحاب '' رکھا جو آپ کے ہاتھ میں ہے ،جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ کتاب ''عبد اللہ بن سبا '' در حقیقت اس بحث میں داخل ہونے کی ایک دہلیز اور مقدمہ تھا۔

ہم نے کتاب عبد اللہ ابن سبا میں ثابت کردیا ہے کہ ابن سبا کے وجود کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ سیف بن عمر تمیمی کی فرضی تخلیق ہے ۔اس طرح اس کتاب میں بھی قارئین کرام مشاہدہ کریں گے یہ اصحاب سیف بن عمر کے جعل کردہ افسانوی سورما تھے اور ان میں سے ایک بھی حقیقت میں وجود نہیں رکھتاتھا۔

۲۶

سیف بن عمرکون ہے ؟

حقیقت میں یہ سیف کون ہے کہ جس نے اتنے اصحاب اور سورما اور تاریخی واقعات جعل کئے اور گڑھے ہیں ؟اس کے جھوٹ سچائی میں تبدیل ہوگئے ہیں ، افسانے حقیقت میں بدل گئے ہیں اور اس کے مذاق سو فیصدی سنجیدہ مطالب کی صورت میں تاریخ کی معتبر کتابوں میں درج کئے گئے ہیں ؟!

ہمیں افسوس ہے کہ سیف کی کوئی تصویر ہماری دست رس میں نہیں ہے کہ اسے لوگوں کے سامنے پیش کریں اور اس کی مکمل سوانح حیات بھی دستیاب نہیں ہے جس سے اس کے خاندان ،تربیت کے ماحول اور علمی قابلیت کے بارے میں پتہ چلتا جس کے ذریعہ ہم اس غیر معمولی افسانہ ساز اور جھوٹ گڑھنے والے کی تصویر اپنے ذہن میں مجسم کرتے ۔لیکن اس کے باوجود بعض علما اور دانشوروں کی تألیفات نے اس کی طرز تفکر ،دینی اعتقادات اور دیگر اخلاقی خصوصیات کے بارے میں ہماری راہنمائی کی ہے ۔

کتاب ''عبد اللہ ابن سبا ''میں ہم نے پڑھا کہ علماء نے سیف کی زندگی کے حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ :وہ بغدادی اور دراصل کوفی تھا ،اس کی احادیث اور بیانات کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے بلکہ ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ۔سیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس کی احادیث جھوٹی اور جعلی ہیں ،اور وہ اپنی حدیثوں کا خود اور تنھا راوی ہے بالآخر سیف ایک زندیق (مانوی مذہب کا پیروکار) ہے ۔جس نے'' فتو ح وردہ ''اور'' جمل وعلی وعائشہ کی راہ''نام کی دو کتابیں تألیف کی ہیں ۔ اور کہا گیا ہے کہ سیف ١٧٠ ہجری میں عباسی خلیفہ ھارون رشید کے زمانے میں فوت ہوا ہے ۔ ١

گزشتہ بحث میں درج ذیل مطالب ہمارے مد نظر ہیں :

اول :۔سیف بن عمر در اصل کوفی اور بغداد کا رہنے والاتھا۔

دوم:۔علمائے رجال نے اسے زندیق (مانوی مذہب کاپیروکار ) جاناہے۔

سوم:۔علماء اس بات پر متفق ہیں کہ سیف،احادیث اور داستانوں کوخود جعل کرتاتھا،وہ افسانہ ساز اورجھوٹ گڑھنے والاتھا۔خداکی مددسے اس کتاب کی آیندہ فصلوں کے ضمن میں اس موضوع پر بحث وتحقیق کی جائے گی ۔

چہارم:۔''جمل''و''فتوح''کے نام سے تألیف کی گئی اس کی دو کتابیں تاریخ اسلام کی اہم مصادر قرار پائی ہیں اور ابھی تک ان سے استناد بھی کیا جاتاہے۔

پنجم :۔اس کی تاریخ وفات کو عباسی خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں تقریباً ١٧٠ ہجری ذکر کیاگیا ہے جب کہ درج ذیل موارد سیف بن عمر تمیمی کے عصر کے ادبی نشاط کے مظہر ہیں :

۲۷

احادیث سیف کی پیدائش کازمانہ

درج ذیل موارد سیف کے عصر ِاحادیث کے مظہر ہیں :

اولاً:۔ابو مخنف لوط بن یحییٰ،وفات ١٥٧ھ ،نے سیف بن عمر کی کتاب کے بارے میں اشارہ کرکے اس سے نقل بھی کیا ہے ،اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ سیف کی کتاب ،ابو مخنف کی وفات سے پہلے لوگوں کے در میان پھیل گئی تھی۔(۱)

ثانیاً:۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیف کی احادیث ،بنی امیہ کے سردار وں اور ان کے خاندان کی مدح و ستائش سے مالا مال اور ان کے فضائل و مناقب کے بارے میں عجیب و غریب افسانوں سے پر ہیں ،(جب کہ سیف کی روش کے مطابق ) عباسیوں کے حق میں کسی حدیث کا تقریبا کوئی اثر موجود نہیں ہے یہ موضوع ہمیں یہ قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ سیف کی احادیث کی جعلی سازی کا زمانہ عباسیوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے تھا ،کیوں کہ عباسیوں کی خلافت کا دور امویوں کے قتل عام ، ان پر اور ان کے حامیوں پر سختی اور دبائو کا زمانہ تھا ،حتٰی ان کی قبروں کو کھود کر ان کے اجساد کو باہر نکالا جاتا تھا اور ان میں آگ لگائی جاتی تھی ۔ان حالات میں بنی امیہ کے حق میں افسانے اور جھوٹے فضائل گڑھ کر ان کی تبلیغ کرنے یا صحابہ و تابعین کی اہم شخصیتوں میں بنی امیہ کے دشمنوں کے دامن کو داغدار بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

سیف کی احادیث گڑھنے کے زمانہ کو معین کرنے میں درج ذیل داستان ہماری مدد کرتی ہے۔

____________________

۱)۔ شیخ مفید ،وفات ٤١٢ ھ اپنی کتاب '' جمل '' کے صفحہ ٤٧ پر داستان جنگ بصرہ کو ابو مخنف کی کتاب ''حرب البصرہ '' سے یوں نقل کرتے ہیں :

'' سیف بن عمر نے محمد بن عبد اللہ بن سواد اور اعلم کے بیٹے طلحہ اور ابو عثمان (ان سب ) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا ہے : جب عثمان قتل ہوئے ،شہر

مدینہ میں پانچ دن تک '' غافقی '' کے علاوہ کوئی حاکم نہ تھا ....''

طبری نے اسی روایت کو انہی اسناد سے اسی عبارت کے ساتھ اپنی تاریخ کی جلد ٥ صفحہ ١٥٥پر ذکر کیا ہے ،جب کہ ہم جانتے ہیں طبری نے سیف کی احادیث کو اس کی دو کتابوں ''فتوح '' اور ''جمل'' سے نقل کیا ہے ۔

شیخ مفید نے سیف کی ایک اور روایت ،اپنی کتاب کے صفحہ ٤٨پر ابو مخنف سے نقل کی ہے چوں کہ ابو مخنف نے سیف کی باتوں کو اس کانام لے کر اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ،اس لئے یہ واضح ترین دلیل ہے کہ سیف بن عمر کی کتاب ابو مخنف کی وفات ( ١٥٧ھ) سے پہلے لوگوں کے درمیان موجود تھی''

۲۸

طبری نے اس داستان کو سیف سے نقل کرتے ہوئے ٢ ٢ ھ کے حوادث کے ضمن میں ساسانیوں کے آخری فرماں روا یزد گرد کے خراسان کی طرف اس کے سفر کے بارے میں یوں روایت کی ہے :

''جنگ جلولا ء میں ایرانیوں کے شکست کھانے کے بعد یزد گرد نے رے کی طرف پسپائی اختیار کی ۔اس پسپائی کے دوران وہ اونٹ کی پشت محمل میں ہی چھپارہتا تھا اور نیچے نہیں اترتا تھا ، حتی وہیں پرسوتا تھا، کیونکہ اس کے سپاہی خطرات سے بچنے کے لئے کسی جگہ پر رات کو بھی توقت نہیں کرتے تھے۔اس دوران اس کے سپاہی ایک جگہ پانی کے کنارے پر پہنچے اور جاہتے تھے اونٹ کو لے کر پانی سے گزرجائیں .لیکن اس خوف سے کہ اونٹ کے ہلنے سے یزدگرد بیدار ہوکر ان پر برہم ہوجائے گا اور انھیں سزا دے گا .انہوں نے مجبوراًاسے نیندسے بیدار کیا، تا کہ وہ حالات سے آگاہ ہوجائے.یزد گرد بیدار ہوا اور ان پر بگڑپڑا اور کہنے لگا: تم لوگوں نے بہت برا کام کیا ! خدا کی قسم اگر مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو مجھے معلوم ہوجاتا کہ اس امت کی سربلندی کا ستارہ کب ڈوبنے والا ہے۔ کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ صلاح مشورہ کررہے ہیں خدا کہتا تھا: اس امت کو ایک سو سال کی فرصت دیتا ہوں ۔محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: اس سے زیادہ! خدا نے کہا: ایک سودس سال، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر کہا:اور بھی، خدا نے کہا: ایک سوبیس سال ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا: خود جانئے !اسی وقت تم لوگوں نے مجھے بیدار کردیا۔اگر ایسا نہ کرتے تو میں سمجھ جاتا کہ اس امت کی مدت کتنی ہے۔٢

اب ہم دقت کے ساتھ اس حدیث کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں :

سیف کہتا ہے کہ یزد گرد نے ''اﷲ'' کی قسم کھائی ، جبکہ یزد گرد زرتشی اور دوگانہ پرست تھا۔مجوسی لفظ ''اﷲ'' جو عربی ہے کو نہیں جانتے اور اس کی قسم نہیں کھاتے .بلکہ ان کا ایمان ''اہورامزدا'' پر ہے اور وہ آتش مقدس ، سورج اور چاند کی قسم کھاتے ہیں ۔ اللہ کی قسم کھانا مسلمانوں کی خصوصیت ہے کہ سیف نے ان ہی میں پرورش پائی تھی اور ان سے خوپیدا کرچکا تھا. اس لئے یزدگرد کی قسم میں اس نے اللہ کے نام کی نسبت دی ہے.

۲۹

یزدگرد محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سچا نہیں جانتا تھا اور انھیں اس قابل نہیں جانتا تھا کہ انصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا کے ساتھ صلاح و مشورہ کے لئے بیٹھے.حقیقت میں یہ حدیث سیف کے اسلامی ماحول ، اس کے تخیلات کے طرز اور اس کے اپنے فکر و ذہن میں تخلیق کئے گئے اسلام کی عکاسی ہے.کیونکہ مسلمان تو اپنے دین کے قیامت تک باقی رہنے کا ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں اور سیف اسلام کی بقا کی ایک حد مقرر کرتا ہے اور اپنی دلی تمنا کو کسریٰ کی زبانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ''اگر مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تو مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس امت کی مدت کتنی ہے''۔!!

شائد وہ امت اسلامیہ کی نابودی کو''مانویوں '' کی فعالیت کے سائے میں دیکھتا تھا ، جن کے بارے میں خود بھی بخوبی آگاہ تھا کہ وہ اسلام کی بنیادوں کو نابود کرنے کی کس قدر کوشش کر رہے ہیں ۔ خود سیف بھی ان ہی میں سے ایک اور ان کا حامی تھا یا ملک روم و غیرہ جیسی بیرونی جنگوں سے اُمید باندھے ہوئے اپنی آرزو کی تکمیل کا منتظر تھا۔

بہر حال سیف اسلام کی بقا و پایداری نہیں چاہتا تھا اور اسے اطمینان تھا کہ اس مدت سے زیادہ جسے خود اس نے محسوس کیا وہی اس کااپنا زمانہ بھی تھا سے زیادہ (اسلام ) باقی و پائیدار نہیں رہے گا. اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے ساتھ سہ رکنی جلسہ میں ١٢٠سال کی حد بندی زمانہ کے اعتبار سے اس حدیث کی جعل سازی کی مظہر ہے۔

خلاصہ یہ کہ:

ابو مخنف (وفات:١٥٧ھ)نے سیف سے روایت نقل کی ہے اور اس مطلب کی تائید کرتا ہے کہ سیف اس تاریخ (١٥٧ھ) سے پہلے زندہ اور سرگرمِ عمل تھا۔

عباسیوں کے ذکر کے بجائے خاندان بنی امیہ کی عظمت و منزلت کی مدح و ستائش کرنا اور اُن کی طرفداری کا دم بھرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احادیث عباسی خلفاء کے اقتدارمیں آنے سے پہلے جعل کی گئی ہیں ۔ کیونکہ خلفائے بنی عباس کے زمانے میں امویوں کا اجتماعی طور پرقتل عام کیا جاتا تھا اور ان کے حامیوں کا تعاقب کرکے انھیں اذیتیں پہنچائی جاتی تھیں ۔

۳۰

نتیجہ :

گزشتہ مطالب کے پیش نظر،مجموعی طور پر یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ سیف کے چھوٹ اور افسانے گڑھنے کی سرگرمیوں اور نشاط کا زمانہ دوسری صدی ہجری کے آغاز کا دور تھا، اور سیف کی وفات کو ١٧٠ ھ کے بعد ذکر کرنے والے تنہا شخص ،''مزی ''کا قول اور ذہبی کا اس کی تاریخ وفات کو ہارون رشید کا زمانہ بیان کرنا ، اس حقیقت کو رد نہیں کرتا ۔ کیونکہ اگر مزی اور ذہبی کا کہنا صحیح ہوتو ، سیف اپنی کتابوں کی تألیف کے بعد چالیس سے پچاس سال تک زندہ رہاہے.

ان حقائق کے پیش نظر کہ سیف کی تالیفات کا دور دوسری صدی ہجری کے ابتدائی ایک چوتھائی زمانہ سے مربوط تھا، اور یہ کہ وہ قبیلہ مضر کے خاندان تمیم سے تعلق رکھتا تھا۔ کوفہ کا رہنے والاتھا اور اس کا اصلی وطن عراق تھا، اس کی شخصیت کی بنیادوں ، اس کے عزائم اور اس کے حیرت انگیز افسانوں کی تخلیق و ایجا د کے عوامل و اسباب کے بارے میں تحقیق و مطالعہ آسان بنادیتا ہے.

سیف کے زمانہ کی خصوصیت:

سیف کا عصر ، ایسا زمانہ تھا جس میں تمام اسلامی شہروں میں قبیلہ پرستی، خاندانی تعصبات ، ان کے آثار کا تحفظ اور ان پر فخر و مباہات کرنا شد و مد کے ساتھ رائج تھا ۔یہ وہ مطلب ہے جس پر ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے ۔

اس بیہودہ تعصب کے علاوہ سیف کا وطن (عراق) خاص طور پر مانویوں زندیقیوں کے پھلنے پھولنے اور ان کی خود نمائی کی آماجگاہ تھا۔

اس لئے اگر ہم سیف کی افسانہ سازی کے اصل محرک کی شناسائی کرنا چاہیں تو ہم مذکورہ بالا دو موضوع کے بارے میں خصوصی طور پر الگ الگ بحث و تحقیق پر مجبور ہیں ۔

ہم اس بحث کو پہلے ''زندیق'' اور ''زندقہ'' کی تعریف سے شروع کرتے ہیں ،کیوں کہ سیف کی جائے پیدائش میں اس مذہب کے اعتقاد کے بھر پور پھیلائو اور رواج کے علاوہ خود سیف بھی اس سے جدا نہ تھا ۔خاص طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ علماء اور دانشوروں نے اپنی تالیفات میں سیف کا زندیق کے عنوان سے تعارف کرایا ہے اور یہ امر بذات خود اس کے تمام افسانے ،اصحاب

۳۱

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور بہادروں کے جعل کرنے کے محرکات کی کافی حد تک توجیہ کر سکتا ہے ۔

زندیق اور زندیقان

المقصود من الزنادقة هم اتباع مانی

زندیقیوں سے مراد ''مانی '' کی پیروی کرنے والے ہیں ۔

) متن کتاب (

لفظ زندیق کی بنیاد :

لفظ ''زندیق '' کی بنیاد ،فارسی ہے ،مسعودی کہتا ہے :

''زردشت'' نے اپنی کتاب کا نام '' اوستا'' رکھا اور اس کی ایک تفسیر لکھی ،جو ''زند'' کے نام سے مشہور ہے ۔اس لئے اگر کوئی ان کے مذہب کے اصول کے خلاف کچھ بیان کرے یا اصل کی تفسیر کرے تو ایرانی اسے ''زندی'' کہتے ہیں ،یعنی وہ جس نے ظاہر کتاب اور تنزیل کے خلاف اس کی تفسیر پر اکتفا کی ہو ۔اسی وجہ سے ''مانی '' جس نے بہرام کی بادشاہی ( ٢٤٠ ٢٧٧ع)کے دوران ظہور کیا تھا اور ایک جماعت نے اس کی پیروی کی تھی ،وہ لوگ ''زندی '' یا منحرف کے نام سے مشہور ہوئے ۔'' ١

عربوں نے لفظ ''زندی'' کو اپنی زبان میں منتقل کرکے اسے ''زندیق'' پڑھا اور یہ لفظ ''زندیق '' ''مانی'' کے پیرئوں کے لئے اسم علم بن گیا ،جنھیں ''زنادقہ'' کہتے ہیں ۔

ایک مستشرق کہتا ہے:

''لفظ ''زندیق '' اصل میں ''صدیق'' ٢ تھا ،جو صدیقین کا واحد ہے ،یہ مانویوں کا ایک فرقہ ہے لفظ ''صدیق'' فارسی میں '' زندیک '' تبدیل ہوا اور دوبارہ عربی میں منتقل ہو کر ''زندیق'' بن گیاہے'' ٣

۳۲

ہم اصلی لفظ فارسی ''زندیق ''کے سلسلے میں محققین کے نظریات کے بارے میں اسی پر اکتفا کرتے ہیں :

عربی زبان میں ''زندیق''

عربی زبان میں ''مانی '' کے پیرئوں کو ''زندیق'' کہا جاتا تھا ۔یہ لوگ دنیا کو ازلی طور پر نورو ظلمت پر مبنی جانتے تھے ،اسی لئے ان کو دوگانہ پرست بھی کہا جاتا تھا ۔

اس کے بعد یہ نام مادہ پرستوں کے لئے اطلاق ہوا جو خدا ،پیغمبر وں اور آسمانی کتابوں کے منکر ہیں اور دنیا کے ابدی ہونے کے معتقد ہیں اور آخر ت و عالم ماورائے طبیعت کے منکر ہیں ۔

اس کے بعد یہ نام ان لوگوں پر اطلاق ہوا جو اصول دین میں سے کسی ایک کے منکر ہوں یا ایسا اظہار نظر کریں جس کے نتیجہ میں اصول عقائد میں سے کسی ایک کے منکر ہونے کا سبب بنے ۔ ٤

اس کے بعد یہ لفظ اپنی جہت بدل کر ہر اس شخص پر اطلاق ہونے لگا جو مذہب اہل سنت کا مخالف ہو ۔ بالاخر یہ لفظ ہر اس بیہودہ گو ،بے شرم و بے حیا شاعر کے لئے کہا جانے لگا جو بلا لحاظ معشوق کا دم بھرتا ہے یا اسی قسم کے ہر قلمکار یا اس کے طرفداروں پر اطلاق ہونے لگا۔(۱)

____________________

۱)۔اسی طرح دائرة معارف اسلامی میں ''زیدیقان'' کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ اور نظریات موجود ہیں کہ ہم ان کو

۳۳

دربار خلافت میں ''زندیق '' کی تعریف :

شائد ''زندیقیوں '' کے بارے میں کی گئی قدیمی ترین اور سرکاری تعریف وہ ہے جو عباسی خلیفہ مھدی نے اپنے بیٹے اور ولی عہد موسیٰ کے نام درج ذیل وصیت نامہ میں بیان کی ہے ۔

ایک زندیق کو عباسی خلیفہ مھدی کے حضور لایا گیا خلیفہ نے اس سے توبہ کرنے کو کہا ۔چوں کہ اس زندیق نے خلیفہ کی بات ماننے سے انکار کیا لہٰذا خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کا سر تن سے جدا کر کے جنازہ کوسولی پر لٹکا دیا جائے اس واقعہ کے بعد خلیفہ نے اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا:

'' اے فرزند !اگر میرے بعد تمھیں خلافت ملی تو صرف زندیقیوں پر توجہ دینا کیوں کہ یہ گروہ لوگوں کی توجہ کو بعض ظاہر ی خوشنما اور اچھے لیکن دل فریب امور ،جیسے دنیا سے کنارہ کشی اور آخرت کی طرف رغبت کی دعوت دیتے ہیں ،حتٰی لوگوں کو اس بات کا معتقد بناتے ہیں کہ گوشت کو حرام جانیں اور پاک پانی کو نہ چھوئیں ،کیڑوں کو مارنا حرام جانیں بالاخر وہ لوگوں کو دوگانہ پرستی پر مجبور کرتے ہیں ۔اس طرح نو و ظلمت کی پرستش کرتے ہیں اور ان حالات میں اپنے محارم ،جیسے بہن اور بیٹیوں سے ازدواج کرنا جائز سمجھتے ہیں ،اپنے آپ کو پیشاب سے دھوتے ہیں اور بچوں کو اس لئے راستے سے چرالیتے ہیں تاکہ ابلیس کی ظلمت سے نجات دے کر انھیں نور و روشنی کی طرف راہنمائی کریں ۔

جب میرے بعد خلیفہ بن جائو تو کسی ترحم کے بغیر ان کو پھانسی پر لٹکا نا اور انھیں تہ تیغ

____________________

صحیح نہیں سمجھتے ہیں از جملہ '' زندقہ '' عربی شکل میں ''زند گر '' یا ''زندہ گر'' ہے یعنی ا صل ا بدیت کے اعتقادات کی وضاحت کرنے والا یا ''زندہ کرد'' دین کا مجدد اور اس کا احیا کرنے والا یا '' زن دین'' کا معرب یعنی عورتوں کے دین کا مظہر ہے یا ''زندیک '' کتاب ''زندمزدک '' کے پیرئوں کی علامت ہے کہ ان کا دین ،دین ''مانی '' کا مشتق ہے ۔

۳۴

کرنا،اور ان کو قتل کرکے خداے یکتا کا تقرب حاصل کرنا ،کیوں کہ میں نے تمھارے جد عباس کو خواب میں دیکھا کہ انھوں نے مجھے دو تلوار یں حمائل کیں اور ان دو گانہ پرستوں کے قتل کا حکم دیا ''

جب موسیٰ اپنے باپ کے بعد خلیفہ بنا تو اس نے اپنے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کی ٹھان لی وہ اسی کام کو انجام دینے میں مصروف تھا ۔اس نے اپنی خلافت کے دسویں ماہ میں کہا : '' خدا کی قسم اگر میں زندہ رہا تو تمام زندیقیوں کو تہ تیغ کردوں گا اور ان میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گا''

کہتے ہیں کہ موسیٰ نے حکم دیا تھا کہ اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک ہزار پھانسی کے پھندے تیار کئے جائیں تاکہ پہلے سے مقرر کردہ وقت پر ایک ہزار زندیقیوں کو پھانسی پر لٹکا دے ۔ لیکن اس سے قبل کہ وہ اپنے اس منصوبہ پر عمل کرے اس دنیا سے چلا گیا۔(۱)

طبری نے عباسی خلیفہ مھدی کی وصیت کے ایک اور مورد کا ذکر یوں کیا ہے:

''جب دائود ابن علی عباسی اور خاندان حارث ابن عبد المطلب کے یعقوب(۲) ابن فضل حارثی کو اس (مھدی) کے پاس حاضر کیا گیا اور ان دونوں نے زندیقی ہونے کا اعتراف کیا ۔ یعقوب نے کہا میں خلوت میں آپ کے سامنے زندیقی ہونے کا اعتراف کروں گا ،لیکن لوگوں کے سامنے کسی بھی صورت میں ''مانوی'' ہونے کا اعتراف نہیں کروں گا ،چاہے مجھے آپ قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالیں ۔ مہدی نے یعقوب کے جواب میں کہا : افسوس ہے تم پر !اگر آسمانوں کے پردے ہٹا دیئے جاتے اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ''دین مانی'' حق ہے اور کسی قسم کا شک و شبہ بھی تمھارے لئے باقی نہ رہتا جب بھی تمھارے لئے سزاوار تھا کہ

____________________

۱)۔ کیا خلیفہ کے قتل میں زندیقیوں کا ہاتھ تھا ؟

۲)۔دائود اور یعقوب دونوں خاندان بنی ہاشم سے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچازاد ے تھے۔

۳۵

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تعصب نہ رکھتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرفدار ی کو نہ چھوڑتے !اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ ہوتے تو آج تمھاری حیثیت کیا ہوتی ؟کیا ایسا نہیں ہے کہ اس صورت میں تم سادہ اور عام لوگوں میں سے ایک معمولی فردشمار ہوتے ؟ خدا کی قسم اگر میں نے اپنے خدا سے یہ عہد نہ کیا ہوتا کہ اگر مجھے خلافت عطا ہوئی تو بنی ہاشم میں سے کسی ایک کے بھی خون سے اپنے ہاتھ آلودہ نہ کروں گا ،تو تمھیں ایک لمحہ کے لئے بھی زندہ نہ رہنے دیتا! اس کے بعد اپنے ولی عہدموسیٰ سے مخاطب ہوکر کہا: اے فرزند !تجھے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو میرا تیرے اوپر ہے ،اگر میرے بعد خلافت پر پہنچے تو ان دونوں کو ایک لمحہ بھی زندہ نہ رکھنا!

دائود نے مہدی کے زندان میں وفات پائی ۔جب موسیٰ اپنے باپ کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے اپنے باپ کی وصیت پر عمل کرنے کا حکم جاری کیا ۔اس کے بعد یعقوب پر ایک فرش ڈالا گیا اور لوگوں کی ایک جماعت اس پر بیٹھ گئی ۔اسی حالت میں اس نے دم توڑا ۔

یعقوب کی بیوی اور بیٹی نے بھی زندیقی ہونے کا اعتراف کیا ۔اس کی بیٹی حاملہ تھی اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے باپ سے حاملہ ہوئی تھی !عباسی خلیفہ موسیٰ کے حکم سے ان کے سر پر ایک ایسی چیز ماری گئی کہ خوف و وحشت سے دونوں نے جان دے دی۔ '' ٥

١٦٣ ہجری میں جب عباسی خلیفہ مہدی رومیوں سے موسم گرما کی جنگ کے لئے موصل کے اطراف میں رابق کے مقام پر پہنچاتو اس نے عبد الجبار محتسب کو اس علاقہ کے مانویوں کو گرفتار کرنے پر مامور کیا عبد الجبار نے اس حکم کی تعمیل میں ان میں سے بعض کو قتل کر ڈالا اور بعض کو پھانسی پر لٹکا دیا اور ان کی کتابوں کو چاقو سے پارہ پارہ کر دیا۔ ٦

۳۶

طبری نے ان مطالب کے ذکر کے بعد ١٦٨ ہجری کے حوادث کے ضمن میں لکھا ہے :

''اس سال خلیفہ کی طرف سے زندیقیوں کو تلاش کرکے انھیں گرفتار کرنے پر خاص مامور عمر کلوازی نے وفات پائی اور حمدویہ ،یعنی میسان کارہنے والا محمد بن عیسیٰ اس کا جانشین مقرر ہوا ۔اور اسی سال عباسی خلیفہ مہدی نے بغداد میں زندیقیوں کا قتل عام کیا'' ٧

زندیقی کون تھے ؟

مسعودی ،مروج الذہب میں عباسی خلیفہ ،مامون کی تاریخ میں لکھتا ہے :

'' بصرہ کے بعض زندیقیوں کی خبر مامون کو پہنچی ۔اس نے حکم دیا کہ ان سب کو پکڑ کر مقدمہ چلانے اور سزا سنا نے کے لئے اس کے پاس حاضر کیا جائے بصرہ میں مانویوں کی پکڑ دھکڑ شدت سے شروع ہوئی ،ان کو گروہ کی صورت میں پکڑ کر بغداد روانہ کیا جاتا تھا۔

ان کو پکڑنے کے بعد جس دن بغداد روانہ کرنے کے لئے ایک جگہ جمع کیا گیا تھا ایک طفیلی انھیں اس حالت میں دیکھ کر اس خیال سے کہ یہ لوگ کہیں دعوت پر جا رہے ہیں چپکے سے ان کے ساتھ جا ملا جب مامور ین انھیں دریا کے کنارے ایک کشتی کی طرف لے گئے تو مفت خور نے خیال کیا کہ اس دعوت کے ساتھ سیرو سیاحت بھی ہے ۔ وہ خوشی خوشی ان کے ساتھ کشتی پر سوار ہو گیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد طوق و زنجیر باندھنے کا سلسلہ جاری ہوا اور زندیقیوں کو ایک ایک کرکے زنجیر وں سے باندھا گیا ان کے ساتھ طفیلی کو بھی باندھا گیا اس وقت وہ مفت خور سوجنے لگا کہ یہ کیا ہوا کہ ولیمہ کے بجائے مجھے طوق و زنجیر کا سامنا کرنا پڑا؟اس نے پریشانی اور اضطراب کی حالت میں اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر پوچھا : آخر مجھے بتائو کہ تم لوگ کون ہو؟ انھوں نے جواب میں کہا: تم کون ہو کیا تم ہم میں سے نہیں ہو ؟! اس نے کہا : خدا کی قسم میں اس کے سوا کچھ نہیں جانتا کہ میں ایک مفت خور اور طفیلی ہوں ۔آج جب گھر سے باہر آیاتو تم لوگوں کودیکھ کریہ خیال کیا کہ تمھیں کسی ولیمہ کے لئے جمع کیا گیا ہے اس لئے میں تم لوگوں کے ساتھ ملحق ہو گیا ۔جب کشتی پر سوار ہوئے تو خیال کیا کہ شائد کہیں سیر و سیاحت کے لئے کسی باغ میں لئے جا رہے ہیں اور میں اپنے لئے ایک مبارک دن تصور کر کے بہت خوش ہوا ،لیکن یہ سپاہی آگئے اور مجھے تم لوگوں کے ساتھ طوق و زنجیر سے باندھ دیا ،آخر مجھے بتائو کہ یہ ماجرا کیاہے؟

۳۷

زندیقی یہ سن کر اس پر ہنس پڑے اور کہا : اب جب کہ تم ہمارے ساتھ آگئے ہو اور آہنی طوق و زنجیر میں ہمارے ساتھ باندھے گئے ہو تو جان لو کہ ہم ''مانوی '' ہیں ،مخبروں نے ہمارے بارے میں خلیفہ مامون کو خبر دے دی ہے ۔اس وقت ہمیں اس کے پاس لے جایا جا رہا ہے ۔جب ہم اس کے پاس پہنچائے جائیں گے ،خلیفہ ہم سے سوال کرے گا اور ہمارے مذہب کے بارے میں پوچھ تاچھ کرے گا ۔اس کے بعد ہمارا امتحان اس صورت میں لے گا کہ ''مانی'' کی تصویر ہمارے سامنے رکھی جائے گی تاکہ ہم اس پر تھوکیں اور اس سے نفرت و بیزاری کا اظہار کریں ۔اس کے بعد ہمیں حکم دے گا کہ ایک خاص پرندہ(۱) کا سر قلم کریں ۔جو بھی اطاعت کرکے اس کے حکم کی تعمیل کرے گا وہ نجات پائے گا اور خلیفہ اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا ۔لیکن

____________________

ا۔ عربی میں ''طائر ماء الدرج'' آیا ہے اور معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کون سا پرندہ ہے۔

۳۸

جو اس کے حکم کی تعمیل نہ کرے گا اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے دین پر باقی رہنا چاہے گا اسے جلاد کے حوالے کر دیا جائے گا۔

لہٰذا ہم سے یہ بات سن لو کہ جب تمھاری باری آئے اور تم سے امتحان لینا چاہیں تو تم شروع میں ہی اپنے عقیدہ و دین کے بارے میں صاف صاف انھیں بتا دینا اس طرح تم یقینا نجات پائو گے !لیکن چوں کہ اس سفر میں تم ہمارے ساتھ مل گئے ہو اور تم نے کہا کہ ایک طفیلی ہو سنا ہے کہ طفیلیوں کے قصے دلچسپ ہوتے ہیں ،لہٰذا اس سفر میں ہمیں مفت خوروں کے چند قصے سنائو !

اسیروں کو بغداد پہنچا کر خلیفہ مامون کے دربار میں حاضر کیا گیا ۔ مامون نے نام لے کر ایک ایک کرکے انھیں بلایا ان کے مذہب کے بارے میں ان سے سوال کیا ۔ جواب میں وہ کہتے تھے ہم مسلمان ہیں ۔اس کے بعد انھیں ''مانی '' کے بارے میں نفرت و بیزاری کا اظہار کرکے اس کی تصویر پر تھوکنے کو کہا جاتا تھا اور اس طرح ان

۳۹

کا امتحان لیا جاتا تھا ۔جب وہ ایسا کرنے سے انکار کرتے تھے تو انھیں جلاد کے حوالے کر دیا جاتا تھا ۔ آخر طفیلی کی باری آگئی فہرست کے مطابق زندیقیوں میں سے کوئی باقی نہ بچا تھا ۔مامون نے نگہبانوں سے اس کے بارے میں پوچھا ۔انھوں نے جواب میں کہا : ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے کہ ہم نے اسے ان کے ساتھ پایا ،اور آپ کی خدمت میں لے آئے ۔خلیفہ نے طفیلی سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ بات کیا ہے ؟اس نے جواب میں کہا:اے امیر المومنین !اگر میں ان کے بارے میں کچھ جانتاہوتاتو میری بیوی مجھ پر حرام ہو!(۱) میں ایک طفیلی اور مفت خورہوں

____________________

۱)۔ اہل سنت میں قسموں میں سے ایک قسم بیوی کی طلاق کی قسم ہوتی ہے کہ اگر اس نے جھوٹی قسم کھائی ہوتو اس کی بیوی مطلقہ ہوجاتی ہے۔طفیلی نے خلیفہ کے حضور میں بیوی کی طلاق کی قسم کھائی تھی۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کے مراتب میں شرک اورنفاق خفی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے نیچے کا درجہ جو مقام قرب کے ماسواء ہے شرک اور نفاق جلی کا ہے اور کہا جا چکا ہے کہ یہ شرک ونفاق صاحب عمل وفعل کی نیت سے مربوط ہیں پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

''نیّة الشرک فی أمتی أخفی من دبیب النملة السودائِ علیٰ صخرة الصّاً فی اللیلة الظلمائ'' (۱)

میری امت کے درمیان نیت ِشرک، تاریک شب میں سیاہ سنگ پر سیاہ چیونٹیوں کی حرکت سے زیادہ مخفی ہے ۔(۱)

____________________

(۱)طوسی ، خواجہ نصیر الدین ؛ اوصاف الاشراف ۔

۲۶۱

خلاصہ فصل

۱۔ انسان کی تمام جستجو وتلاش کمالات کو حاصل کرنے اور سعادت کو پانے کے لئے ہے۔

۲۔ وہ مادی مکاتب جو معنوی اور غیر فطری امور کے منکرہیںدنیاوی فکر رکھتے ہیں نیز کمال وسعادت اور اس کے راہ حصول کے معانی ومفاہیم کو مادی امور میں منحصر جانتے ہیں.

۳۔ہرموجودکا کمال منجملہ انسان، اس کے اندر موجودہ صلاحیتوں کا فعلیت پانا نیز اس کا ظاہر وآشکار ہوناہے

۴۔ قرآن مجید انسان کے کمال نہائی کو فوز(کامیابی)فلاح(نجات)اور سعادت (خوشبختی ) جیسے کلمات سے تعبیرکرتا ہے.اور کمال نہائی کے مصداق کو قرب الٰہی بتاتاہے

۵۔ اچھے لوگوں کے لئے مقام قرب الہی ایمان کے ساتھ ساتھتقویٰ اور شائستہ اختیاری عمل ہی کے ذریعہ ممکن ہے.

۶۔ قرب الہی جس انسان کا کمال نہائی اور مقصود ہے خود اپنے اندر درجات کا حامل ہے حتی کہ انسان کا سب سے چھوٹا اختیاری عمل اگر ضروری شرائط کے ہمراہ ہو تو انسان کو ایک حد تک خدا سے قریب کردیتا ہے.اس لئے اپنے اعمال کی کیفیت ومقدار کی بنیاد پر لوگوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں .جس قدر انسان کا ایمان کامل ہوگا اسی اعتبار سے اس کا تقرب الہی زیادہ ہوگا اور ایمان کامل اورتوحید خالص، قرب الہی کے آخری مرتبہ سے مربوط ہے۔

۲۶۲

تمرین

۱۔صاحب کمال ہونے اور کمال سے لذت اندوز ہونے کے درمیان کیا فرق ہے ؟

۲۔ انسان کی انسانیت اور اس کی حیوانیت کے درمیان کون سا رابطہ برقرار ہے؟

۳۔کمال نہائی کے حاصل ہونے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔آیات وروایات کی زبان میں اعمال نیک کو عمل صالح کیوں کہا گیا ہے؟

۵۔ اسلام کی نظر میں انسان کامل کی خصوصیات کیا ہیں؟

۶۔اگرہرعمل کااعتبار نیت سے وابستہ ہے تو اس شخص کے اعمال جو دینی واجبات کو خلوص نیت کے ساتھ لیکن غلط انجام دیتا ہے کیوں قبول نہیں کیا جاتا ہے؟

۲۶۳

مزید مطالعہ کے لئے

۔ آذر بائجانی ، مسعود (۱۳۷۵) ''انسان کامل از دیدگاہ اسلام و روان شناسی '' مجلۂ حوزہ و دانشگاہ ، سال نہم ، شمارہ پیاپی۔

۔بدوی ، عبد الرحمٰن (۱۳۷۶) الانسان الکامل فی الاسلام ؛ کویت : وکالة المطبوعات ۔

۔جبلی ، عبد الکریم ؛ ( ۱۳۲۸)الانسان الکامل فی معرفة الاوایل و الاواخر؛ قاہرہ : المطبعة الازہریة المصریة ۔

۔جوادی آملی ، عبد اللہ (۱۳۷۲) تفسیر موضوعی قرآن ، ج۶، تہران : رجائ۔

۔حسن زادہ آملی ، حسن (۱۳۷۲) انسان کامل از دیدگاہ نہج البلاغہ ؛ قم : قیام ۔

۔زیادہ ، معن ، (۱۳۸۶)الموسوعة الفلسفیة العربیة ؛ بیروت : معھد الانماء العربی ۔

۔ سادات ، محمد علی ، (۱۳۶۴)اخلاق اسلامی ، تہران : سمت۔

۔سبحانی ، جعفر (۱۳۷۱) سیمای انسان کامل در قرآن ؛ قم : دفتر تبلیغات اسلامی ۔

۔شولٹس ، ڈوال ( بی تا) روان شناسی کمال ؛ ترجمہ ، گیتی خوشدل ، تہران : نشر نو ۔

۔محمد تقی مصباح ( بی تا) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ در راہ حق ۔

۔ مطہری ، مرتضی ( ۱۳۷۱) انسان کامل ؛ تہران : صدرا۔

۔نصری ، عبد اللہ؛ سیمای انسان کامل از دیدگاہ مکاتب ؛ تہران : انتشارات دانشگاہ علامہ طباطبائی۔

۲۶۴

ملحقات

ناٹالی ٹربوویک، انسان کے نہائی ہدف اور اس کے راہ حصول کے سلسلہ میں علماء علوم تجربی کے نظریات کو جو کہ صرف دنیاوی نقطہ نگاہ سے ہیں اس طرح بیان کرتا ہے۔

مغربی انسان شناسی کے اعتبار سے کمال نہائی

انسان کو بہتر مستقبل بنانے کیلئے کیا کرنا چاہیئے ؟انسان کی ترقی کے آخری اہداف کیا ہیں ؟ فرایڈ کے ماننے والے کہتے ہیں : انسان کا مستقبل تاریک ہے ، انسان کی خود پسند فطرت اس کے مشکلات کی جڑ ہے اور اس فطرت کی موجودہ جڑ وں کو پہچاننا اور اس کی اصلاح کرنا راہ تکامل(۱) کے بغیر دشوار نظر آتا ہے، فرایڈ کا دعویٰ ہے کہ زندگی کے نیک تقاضوں کو پورا کرنا ( جیسے جنسی مسائل) اور برے تقاضوں کو کمزور بنانا ( جیسے لڑائی جھگڑے وغیرہ ) شاید انسان کی مدد کرسکتا ہے جب کہ فرایڈ خود ان اصول پر عمل پیرا نہیں تھا ۔

ڈاکٹر فرایڈ کے نئے ماننے والے (مارکس، فروم ):انسان کی خطائیں معاشرے کے منفی آثار کا سر چشمہ ہیں لہٰذا اگر سماج اور معاشرہ کو اس طرح بدل دیا جائے کہ انسان کا قوی پہلو مضبوط اور ضعیف پہلو نابود ہوجائے تو انسان کی قسمت بہتر ہو سکتی ہے ، انسان کی پیشرفت کا آخری مقصد ایسے معاشرے کی ایجاد ہے جو تمام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کریں ۔

مارکسیزم مذہب کے پیروی کرنے والے ( مارکس ، فروم ) : جن کا مقصدایسے اجتماعی شوسیالیزم کا وجود میں لانا تھا جس میں معاشرے کے تمام افراد ، ایجادات اور محصولات میں شریک

____________________

(۱) Evolution

۲۶۵

ہوں، جب کہ انسان کی مشکلوں کے لئے راہ حل اور آخری ہدف اس کی ترقی ہے، معاشرے کے افراد اس وقت اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوشنود پائیں گے جب سب کے سب اجتماعی طور پر اہداف کو پانے کے لئے ایک دوسرے کے مددگار ہوں ۔

فعالیت اور کردار کو محور قرار دینے والے افراد مثلا ا سکینر کا کہنا ہے: انسان کی ترقی کا آخری ہدف ، نوع بشر کی بقاء ہے اور جو چیز بھی اس ہدف میں مددگار ہوتی ہے وہ مطلوب و بہتر ہے ۔ اس بقا کے لئے ماحول بنانا ، بنیادی اصول میں سے ہے ، اوروہ ماحول جو تقاضے کے تحت بنائے جاتے ہیں وہ معاشرے کو مضبوط بنا سکتے ہیں نیز اس میں بقاکا احتمال زیادہ رہتا ہے (جیسے زندگی کی بہتری ، صلح ، معاشرہ پر کنٹرول وغیرہ )

نظریہ تجربیات کے حامی ( ہابز) کا کہنا ہے : انسان کے رفتار و کردار کو کنٹرول اور پیشن گوئی کے لئے تجربیات سے استفادہ کرنا اس کی ترقی کی راہ میں بہترین معاون ہے ۔

سود خوری کرنے والے ( بنٹام ، میل ) کا کہنا ہے : معاشرے کوچاہیئے کہ افراد کے اعمال و رفتار کو کنٹرول کرے اس طرح کہ سب سے زیادہ فائدہ عوام کی کثیر تعداد کو ملے ۔

انسان محوری کا عقیدہ رکھنے والے ( مازلو، روجر ) :مازلو کے مطابق ہر شخص میں ایک فطری خواہش ہے جو اس کو کامیابی و کامرانی کی طرف رہنمائی کرتی ہے لیکن یہ اندرونی قوت اتنی نازک و لطیف ہے جو متعارض ماحول کے دباؤسے بڑی سادگی سے متروک یا اس سے پہلو تہی کرلیتی ہے ۔ اسی بنا پر انسان کی زندگی کو بہتر بنانے کی کلید، معاشرے کو پہچاننے اور پوشیدہ قوتوں کی ہلکی جھلک، انسان کی تشویق میں مضمر ہے ۔

۲۶۶

روجر کا کہنا ہے :جملہ افراد دوسروں کی بے قید و شرط تائید کے محتاج ہیں تاکہ خود کو ایک فرد کے عنوان سے قبول کریں اور اس کے بعد اپنی انتہائی صلاحیت کے مطابق ترقی و پیش رفت کریں ، اسی لئے تائید کی میزان ِ افزائش انسان کی وضعیت کے بہتر بنانے کی کلید ہے اور ہر انسان کی اپنی شخصیت سازی ہی اس کی ترقی کا ہدف ہے ۔

انسان گرائی کا عقیدہ رکھنے والے ( می، فرینکل )کے مطابق :

می:کا کہنا ہے کہ دور حاضر کے انسان کو جاننا چاہیئے کہ جب تک وہ صاحب ارادہ ہے اپنے اعمال کے لئے مواقع کی شناخت کرناچاہیئے اوراپنے حسِ ارادہ کو حاصل کرکے اپنی وضعیت بہتر بنانی چاہیئے ۔

فرینکل کہتا ہے کہ : ہروہ انسان جو کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے یا کسی کے واسطے زندگی گذارنا چاہتا ہے ،اس کو چاہیئے کہ وہ اس کی حیات کو اہمیت دے ۔ یہ معنی اور نظریہ ہر ارادہ کرنے والے کو ایک مبنیٰ فراہم کراتا ہے اور انسان کو مایوسی اور تنہائی سے نجات دلاتا ہے ۔

خدا کا یقین رکھنے والے( ببر ، ٹلیچ ، فورنیر) :کا کہنا ہے کہ ہمارا خدا اور اس کے بندے سے دوگانہ رابطہ ہمارے آزادانہ افعال کے لئے ہدایت کا سر چشمہ ہے اور انسانی ترقی کا پیش خیمہ ہے ۔

۲۶۷

دسویں فصل :

دنیا وآخرت کا رابطہ

اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :

۱۔ قرآن مجید میں کلمہ دنیا وآخرت کے استعمالات میں سے تیں موارد بیان کریں؟

۲۔دنیا وآخرت کے باری میں مختلف نظریات کی تجزیہ وتحلیل کریں؟

۳۔ رابطہ دنیا وآخرت کے مہم نکات کو ذکر کریں؟

۴۔ آخرت میں دنیاوی حالت سے مربوط افراد کے چار دستوں کانام ذکر کریں؟

۲۶۸

گذشتہ فصلوں میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان مادی اور حیوانی حصہ میں منحصر نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دنیا اس کی دنیاوی زندگی میں منحصر ہے.انسان ایک دائمی مخلوق ہے جو اپنے اختیاری تلاش سے اپنی دائمی سعادت یا بد بختی کے اسباب فراہم کرتی ہے اوروہ سعادت وبد بختی محدود دنیا میں سمانے کی ظرفیت نہیں رکھتی ہے. دنیا ایک مزرعہ کی طرح ہے جس میں انسان جو کچھ بو تا ہے عالم آخرت میں وہی حاصل کرتاہے اس فصل میں ہم کوشش کریں گے کہ ان دو عالم کا رابطہ اور دنیا میں انسان کی جستجو کا کردار ، آخرت میں اس کی سعادت وبد بختی کی نسبت کو واضح کریں ،ہم قرآن مجید کی آیتوں کی روشنی میں اس رابطہ کے غلط مفہوم ومصادیق کومشخص اورجدا کرتے ہوئے اس کی صحیح وواضح تصویر آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

قرآن مجید میں کلمہ ٔدنیا کے مختلف استعمالات

چونکہ قرآن مجید میں لفظ دنیا وآخرت کا مختلف ومتعدد استعمال ہوا ہے.لہٰذا ہم دنیا وآخرت کے رابطے کو بیان کرنے سے پہلے ان لفظوںکے مراد کو واضح کرنا چاہتے ہیں.قرآن میں دنیا وآخرت سے مراد کبھی انسان کی زندگی کا ظرف ہے جیسے( فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۱) ان لوگوں (مرتد افراد)کا انجام دیا ہوا سب کچھ دنیا و آخرت میں اکارت ہے ۔

____________________

(۱)بقرہ ۲۱۷۔

۲۶۹

ان دو لفظوںکے دوسرے استعمال میں دنیا وآخرت کی نعمتوں کا ارادہ ہواہے.جیسے( بَل تُؤثِرُونَ الحَیَاةَ الدُّنیَا ٭ وَ الآخِرَةُ خَیر وَ أَبقَیٰ ) (۱) مگر تم لوگ تو دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور دیر پا ہے ۔

ان دولفظوں کا تیسرا استعمال کہ جس سے مراد دنیاوآخرت میں انسان کا طریقۂ زندگی ہے، اور جو چیز اس بحث میں ملحوظ ہے وہ ان دو لفظوں کا دوسرا اور تیسرا استعمال ہے یعنی اس بحث میں ہم یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں کہ طریقۂ رفتار وکردارنیز اس دنیا میں زندگی گذارنے کی کیفیت کاآخرت کی زندگی اور کیفیت سے کیا رابطہ ہے۔؟

اس سلسلہ میں تجزیہ وتحلیل کرنا اس جہت سے ضروری ہے کہ موت کے بعد کے عالم پر صرف اعتقاد رکھنا ہمارے اس دنیا میں اختیاری کردارورفتار پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اسی وقت فائدہ مند ہے جب دنیا میں انسان کی رفتار وکردار اور اس کے طریقۂ زندگی اور آخرت میں اس کی زندگی کی کیفیت کے درمیان ایک مخصوص رابطہ کے معتقد ہوں .مثال کے طور پر اگر کوئی معتقد ہو کہ انسان کی زندگی کا ایک مرحلہ دنیا میں ہے جو موت کے آجانے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور آخرت میں زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے جو اس کی دنیاوی زندگی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتا ہے تو صرف اس جدید حیات کا عقیدہ اس کے رفتار وکردار پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ان مراحل کے درمیان کوئی رابطہ ہے یا نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کس طرح کا رابطہ ہے؟

دنیا و آخرت کے روابط کے بارے میں پائے جانے والے نظریات کا تجزیہ

ان لوگوں کے نظریہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے جو آخرت کی زندگی کو مادی زندگی کا دوسرا حصہ سمجھتے ہیں اسی لئے وہ اپنے مرنے والوں کے قبروں میں مادی امکانات مثال کے طور پر کھانا

____________________

(۱)سورہ اعلی ۱۶ و ۱۷ ۔

۲۷۰

اور دوسرے اسباب زینت رکھنے کے قائل ہیں،تاریخ انسانیت میں دنیا وآخرت کے درمیان تین طرح کے رابطے انسانوں کی طرف سے بیان ہوئے ہیں.

پہلا نظریہ یہ ہے کہ انسا ن اور دنیا وآخرت کے درمیان ایک مثبت اور مستقیم رابطہ ہے جو لوگ دنیا میں اچھی زندگی سے آراستہ ہیںوہ آخرت میں بھی اچھی زندگی سے ہم کنار ہوں گے ۔قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتاہے :

( وَ دَخَلَ جَنَّتَهُ وَ هُوَ ظَالِم لِّنَفسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هٰذِهِ أَبَداً٭وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّدِدتُّ لَیٰ رَبِّی لَأَجِدَنَّ خَیراً مِنهَا مُنقَلَباً )

وہ کہ جس نے اپنے اوپر ظلم کر رکھا تھا جب اپنے باغ میں داخل ہوا تو یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے تو اس کا گمان بھی نہیں تھا کہ کبھی یہ باغ اجڑ جائے گا اور میں تو یہ بھی خیال نہیں کرتا تھاکہ قیامت برپاہوگی اور جب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جاؤں گا تو یقینا اس سے کہیں اچھی جگہ پاؤں گا ۔(۱)

سورہ فصلت کی ۵۰ویں آیہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں :

( وَ لَئِن أَذَقنَاهُ رَحمَةً مِنَّا مِن بَعدِ ضَرَّائَ مَسَّتهُ لَیَقُولَنَّ هٰذَا لِی وَ مَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَ لَئِن رُّجِعتُ ِلَیٰ رَبِّی ِنَّ لِی عِندَهُ لَلحُسنَیٰ )

اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہونچ جانے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو یقینی کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ہی ہے اور میں نہیں خیال کرتا کہ کبھی قیامت برپا ہوگی اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف پلٹایا بھی جاؤں تو بھی میرے لئییقینا اس کے یہاں بھلائی ہے ۔

____________________

(۱)سورہ کہف ۳۵و۳۶۔

۲۷۱

بعض لوگوں نے بھی اس آیہ شریفہ( و َمَن کَانَ فِی هٰذِهِ أَعمَیٰ فَهُوَ فِی الآخِرَةِ أَعمَیٰ وَ أَضَلُّ سَبِیلاً ) ''اور جو شخص اس دنیامیں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہ راست سے بھٹکا ہوا ہوگا''(۱) کو دلیل بنا کر کہا ہے کہ: قرآن نے بھی اس مستقیم ومثبت رابطہ کو صحیح قرار دیا ہے کہ جو انسان اس دنیا میں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے تلاش نہیںکرتا ہے اور مادی نعمتوں کو حاصل نہیں کرپاتا ہے وہ آخرت میں بھی آخرت کی نعمتوںسے محروم رہے گا.

بعض لوگوں نے اس رابطے کے برعکس نظریہ ذکر کیا ہے ان لوگوںکاکہنا ہے کہ ہر قسم کی اس دنیا میں لطف اندوزی اور عیش پرستی، آخرت میں غم واندوہ کا باعث ہے اور اس دنیا میں ہر طرح کی محرومیت،آخرت میں آسودگی اور خوشبختی کاپیش خیمہ ہے،یہ لوگ شاید یہ خیال کرتے ہیںکہ ہم دو زندگی اور ایک روزی و نعمت کے مالک ہیں اور اگر اس دنیا میں اس سے بہرہ مند ہوئے تو آخرت میں محروم ہوں گے اور اگریہاں محروم رہے تو اس دنیا میں حاصل کرلیں گے۔

یہ نظریہ بعض معاد کا اعتقاد رکھنے والوں کی طرف سے مورد تائید ہے اور وہ اس آیہ سے استدلال کرتے ہیں:

( أَذهَبتُم طَیِّبَاتِکُم فِی حَیَاتِکُمُ الدُّنیَا وَ استَمتَعتُم بِهَا فَالیَومَ تُجزَونَ عَذَابَ الهُونِ ) (۲)

تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں خوب مزے اڑا چکے اور اس میں خوب چین کر چکے تو آج (قیامت کے روز) تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا ۔

دو نوں مذکورہ نظریہ قرآن سے سازگار نہیں ہے اسی لئے قرآن مجید نے سینکڑوں آیات میں اس مسئلہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

____________________

(۱)سورہ اسرائ۷۲۔

(۲)سورہ احقاق ۲۰۔

۲۷۲

پہلے نظریہ کے غلط اور باطل ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ قرآن نے ایسے لوگوں کو یاد کیا ہے جو دنیا میں فراوانی نعمت سے ہمکنار تھے لیکن کافر ہونے کی وجہ سے اہل جہنم اور عذاب الہی سے دوچار ہیں. جیسے ولید بن مغیرہ ،ثروت مند اور عرب کا چالاک نیز پیغمبر اکرم کے سب سے بڑے دشمنون میں سے تھا اوریہ آیہ اس کے لئے نازل ہوئی ہے.

( ذَرنِی وَ مَن خَلَقتُ وَحِیداً٭وَ جَعَلتُ لَهُ مَالاً مَمدُوداً٭وَ بَنِینَ شُهُوداً٭وَ مَهَّدتُّ لَهُ تَمهِیداً٭ثُمَّ یَطمَعُ أَن أَزِیدَ ٭ کَلاّ ِنَّهُ کَانَ لِآیَاتِنَا عَنِیداً٭ سَأُرهِقُهُ صَعُوداً ) (۱)

مجھے اس شخص کے ساتھ چھوڑ دو کہ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال دیا اور نظر کے سامنے رہنے والے بیٹے اور اسے ہر طرح کے سامان میں وسعت دی پھر اس پر بھی وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اور بڑھاؤں یہ ہرگز نہ ہوگا یہ تو میری آیتوں کا دشمن تھا تو میں عنقریب اسے سخت عذاب میں مبتلا کروں گا ۔

قارون کی دولت اور اس کی بے انتہا ثروت ، دنیاوی سزا میں گرفتارہونا اور اس کی آخرت کی بد بختی بھی ایک دوسرا واضح نمونہ ہے جو سورہ قصص کی ۷۶ویں آیہ اور سورہ عنکبوت کی ۳۹ویں آیہ میں مذکور ہے.دوسری طرف قرآن مجید صالح لوگوں کے بارے گفتگو کر تا ہے جو دنیا میں وقار وعزت اور نعمتوں سے محروم تھے لیکن عالم آخرت میں ،جنت میں ہیںجیسیصدر اسلام کے مسلمین جن کی توصیف میں فرماتاہے :

( لِلفُقَرَائِ المُهَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخرِجُوا مِن دِیَارِهِم وَ أَموَالِهِم یَبتَغُونَ فَضلاً مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضوَاناً وَ یَنصُرُونَ اللّٰهَ وَ رَسُولَهُ أُولٰئِکَ هُمُ )

____________________

(۱)سورہ مدثر ۱۱تا۱۷۔

۲۷۳

( الصَّادِقُونَ٭...فَأُولٰئِکَ هُمُ المُفلِحُونَ ) (۱)

ان مفلس مہاجروں کا حصہ ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے خدا کے فضل و خوشنودی کے طلبگار ہیں اور خدا کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایماندار ہیں ...تو ایسے ہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے ۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ آخرت میں شقاوت وسعادت کا معیار ایمان اور عمل صالح نیز کفر اور غیر شائستہ اعمال ہیں، دنیاوی شان و شوکت اور اموال سے مزین ہونا اور نہ ہونانہیں ہے۔

( وَ مَن أَعرَضَ عَن ذِکرِی فَِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکاً وَ نَحشُرُهُ یَومَ القِیَامَةِ أعمَیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرتَنِی أَعمَیٰ وَ قَد کُنتُ بَصِیراً ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتکَ آیاتُنَا فَنَسِیتَهَا وَ کَذٰلِکَ الیَومَ تُنسَیٰ ) (۲)

جو بھی میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کے لئے سخت و ناگوار زندگی کا سامنا ہے اور اس کو ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے ، تب وہ کہے گا الٰہی میں تو آنکھ والا تھا تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا خدا فرمائے گاجس طرح سے ہماری آیتیں تمہارے پاس پہونچیں تو تم نے انھیں بھلادیااور اسی طرح آج ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے ۔

یہ آیہ دلالت کرتی ہے کہ نامطلوب دنیاوی زندگی اگر کفر وگناہ کے زیر اثر ہو تو ہوسکتا ہے کہ آخرت کی بد بختی کے ہمراہ ہو. لیکن بری زندگی خود معلول ہے علت نہیں ہے جو گناہ و کفراور مطلوبہ نتائج (ایک دنیاوی امر دوسرا اخروی )کاحامل ہے،دوسرے نظریہ کے بطلان پر بھی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں جیسے:

( قُل مَن حَرَّمَ زِینَةَ اللّٰهِ الَّتِی أَخرَجَ لِعِبَادِهِ وَ الطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزقِ قُل هِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الحَیَاةِ الدُّنیَا خَالِصَةً یَومَ القِیامَةِ )

____________________

(۱)سورہ حشر ۸و۹۔ (۲) طہ۱۲۴تا۱۲۶۔

۲۷۴

(اے پیامبر کہدو) کہ جو زینت اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطہ پیدا کی ہیں کس نے حرام قرار دیں تم خود کہدوکہ سب پاکیزہ چیزیں قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگی میں ایمان لائے ۔(۱)

حضرت سلیمان جن کو قرآن مجید نے صالح اور خدا کے مقرب بندوں میں شمار کیا ہے اورجو دنیاوی عظیم امکانات کے حامل تھے اس کے باوجود ان امکانات نے ان کی اخروی سعادت کو کوئی نقصان نہیں پہونچایا ہے۔

آیہ( أَذهَبتُم طَیِّبَاتکُم ) بھی ان کافروں سے مربوط ہے جنہوں نے دنیا وی عیش و آرام کو کفر اور انکار خدا نیز سرکشی اور عصیان کے بدلے میں خریدا ہے جیسا کہ ابتداء آیہ میں وارد ہوا ہے:( وَقِیلَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا... ) جن آیات میں ایمان اورعمل صالح اوراخروی سعادت کے درمیان نیزکفر وگناہ اوراخروی بد بختی کے درمیان رابطہ اتنا زیادہ ہے کہ جس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے اور یہ مطلب مسلم بھی ہے بلکہ اسلام وقرآن کی ضروریات میں سے ہے۔

رابطۂ دنیا وآخرت کی حقیقت

ایمان اورعمل صالح کا اخروی سعادت سے رابطہ اور کفر وگناہ کا اخروی شقاوت سے لگاؤایک طرح سے صرف اعتباری رابطہ نہیں ہے جسے دوسرے اعتبارات کے ذریعہ تبدیل کیا جاسکتا ہو اور ان کے درمیان کوئی تکوینی و حقیقی رابطہ نہ ہو اور ان آیات میں وضعی واعتباری روابط پر دلالت کرنے والی تعبیروں سے مراد، رابطہ کا وضعی واعتباری ہونا نہیں ہے بلکہ یہ تعبیریں انسانوں کی تفہیم اور تقریب ذہن کے لئے استعمال ہوئی ہیں جیسے تجارت(۲) ، خرید وفروش(۳) سزا(۴) جزا(۵) اور اس کے مثل ، بہت سی آیات کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے جو بیان کرتی ہیں کہ انسان نے جو کچھ

____________________

(۱)سورہ اعراف ۳۲۔

(۲) (یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا هَل أَدُلُّکُم عَلَیٰ تِجَارَةٍ تُنجِیکُم مِّن عَذَابٍ أَلِیمٍ )(صف ۱۰ )

( اے صاحبان ایمان! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتادوں جو تم کو درد ناک عذاب سے نجات دے ) (۳)(إنَّ اللّهَ اشتَرَیٰ مِنَ المُؤمِنِینَ أَنفُسَهُم وَ أَموَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ )(توبہ ۱۱۱) (اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لئے ہیں کہ ان کے لئے بہشت ہے )

(۴)(وَ ذٰلِکَ جَزَائُ مَن تَزَکَّیٰ )(طہ۷۶)(اور جس نے اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اس کا یہی (جنت)صلہ ہے )

(۵)(فَنِعمَ أَجرُ العَامِلِینَ )(زمر۷۴) (جنہوں نے راہ خدا میں سعی و کوشش کی ان کے لئے کیاخوب مزدوری ہے )

۲۷۵

بھی انجام دیا ہے وہ دیکھے گا اور اس کی جزا وہی عمل ہے.

اچھے لوگوں کی جزا کاان کے اچھے کاموںسے رابطہ بھی صرف فضل ورحمت کی بنا پر نہیں ہے کہ جس میں ان کے نیک عمل کی شائستگی اور استحقاق ثواب کا لحاظ نہ کیا گیا ہو کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو عدل وانصاف ، اپنے اعمال کے مشاہدہ اور یہ کہ عمل کے مطابق ہی ہر انسان کی جزا ہے جیسی آیات سے قطعاً سازگار نہیں ہے ۔

مذکورہ رابطہ کو ایک انرجی کا مادہ میں تبدیل ہونے کی طرح سمجھنا صحیح نہیں ہے اور موجودہ انرجی اور آخرت کی نعمتوںکے درمیان مناسبت کا نہ ہونااور ایک انرجی کا اچھے اور برے فعل میں استعمال کا امکان نیز وہ بنیادی کردار جو آیات میں عمل ونیت کے اچھے اور برے ہونے سے دیاگیا ہے اس نظریہ کے باطل ہونے کی دلیل ہے.

گذشتہ مطالب کی روشنی میں ایمان وعمل صالح کا سعادت اور کفر وگناہ کا اخروی بد بختی سے ایک حقیقی رابطہ ہے اس طرح کہ آخرت میں انسان کے اعمالملکوتی شکل میں ظاہر ہوںگے اور وہی ملکوتی وجود، آخرت کی جزا اور سزا نیز عین عمل قرار پائے گا۔

منجملہ وہ آیات جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں:

( وَ مَا تُقَدِّمُوا لِأنفُسِکُم مِن خَیرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّٰهِ ) (۱)

اور جو کچھ بھلائی اپنے لئے پہلے سے بھیج دوگے اس کو موجود پاؤ گے۔

( یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت مِن خَیرٍ مُّحضَراً وَ مَا عَمِلَت مِنٍ

) ____________________

(۱)سورہ بقرہ۱۱۰ ۔

۲۷۶

سُوء تَوَدُّ لَو أَنَّ بَینَهَا وَ بَینَهُ أَمَداً بَعِیداً) (۱)

اس دن ہر شخص جو کچھ اس نے نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ دراز ہوجاتا

( فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَهُ٭وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَهُ )

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہے اسے بھی دیکھ لے گا ۔(۲)

( إِنَّمَا تُجزَونَ مَا کُنتُم تَعمَلُونَ ) (۳)

بس تم کو انھیں کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے ۔

( إِنَّ الَّذِینَ یَأکُلُونَ أَموَالَ الیَتَامَیٰ ظُلماً ِنَّمَا یَأکُلُونَ فِی بُطُونِهِم نَاراً )

بے شک جو لوگ یتیم کے اموال کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے شکم میں آگ کھارہے ہیں۔(۴)

دنیا اور آخرت کے رابطہ میں دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں لوگ فقط اپنا نتیجۂ اعمال دیکھیںگے اور کوئی کسی کے نتائج اعمال سے سوء استفادہ نہیں کرسکے گا اور نہ ہی کسی کے برے اعمال کی سزا قبول کر سکے گا۔

( أَلا تَزِرُ وَازِرَة وِزرَ أُخرَیٰ وَ أَن لَّیسَ لِلِإنسَانِ ِلا مَا سَعَیٰ )

کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔(۵)

دوسرا نکتہ یہ ہے کے آخرت میں لوگ اپنی دنیاوی حالت کے اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ہونگے

____________________

(۱)سورہ آل عمران ۳۰۔

(۲)سورہ زلزال ۷،۸۔

(۳)طور ۱۶ ۔

(۴)سورہ نساء ۱۰ ۔

(۵)سورہ نجم ۳۸،۳۹۔

۲۷۷

الف)وہ لوگ جو دنیا وآخرت کی نعمتوں سے فیض یاب ہیں۔

( وآتَینَاهُ أَجرَهُ فِی الدُّنیَا وَ ِنَّهُ فِی الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ )

اور ہم نے ابراہیم کو دنیا میں بھی اچھا بدلہ عطا کیا اور وہ تو آخرت میں بھی یقینی نیکو کاروںمیں سے ہیں۔(۱)

ب)وہ لوگ جودنیا وآخرت میں محروم ہیں۔

( خَسِرَ الدُّنیَا وَ الآخِرَةَ ذٰلِکَ هُوَ الخُسرَانُ المُبِینُ )

اس نے دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھایا صریحی گھاٹا۔(۲)

ج)وہ لوگ جو دنیا میں محروم اور آخرت میں بہرہ مند ہیں.

د) وہ لوگ جو آخرت میں محروم اور دنیا میں بہرہ مندہیں.

آخری دو گروہ کے نمونے بحث کے دوران گذرچکے ہیں ۔ دنیا وآخرت کے رابطے (ایمان وعمل صالح ہمراہ سعادت اور کفر وگناہ ہمراہ شقاوت )میں آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآنی نظریہ کے مطابق انسان کاایمان اورعمل صالح اس کے گذشتہ آثار کفر کو ختم کردیتا ہے اور عمر کے آخری حصہ میں کفر اختیار کرناگذشتہ ایمان وعمل صالح کو برباد کردیتا ہے۔( کہ جس کو حبط عمل سے تعبیر کیا گیا ہے )

( وَ مَن یُؤمِن بِاللّٰهِ وَ یَعمَل صَالِحاً یُکَفِّر عَنهُ سَیِّئَاتِهِ ) ۔(۳)

اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے اور عمل صالح انجام دیتا ہے وہ اپنی برائیوںکو محو کردیتا ہے

( وَ مَن یَرتَدِد مِنکُم عَن دِینِهِ فَیَمُت وَ هُوَ کَافِر فَأُولٰئِکَ حَبِطَت أَعمَالُهُم فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ ) (۴)

____________________

(۱)سورہ عنکبوت ۲۷۔

(۲)سورہ حج ۱۱۔

(۳)سورہ تغابن ۹۔

(۴)سورہ بقرہ ۲۱۷۔

۲۷۸

اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرگیا اور کفر کی حالت میں دنیا سے گیا ،

اس نے اپنے دنیا و آخرت کے تمام اعمال برباد کردیئے ۔

دوسری طرف اگر چہ اچھا یابرا کام دوسرے اچھے یابرے فعل کے اثر کو ختم نہیں کرتاہے .لیکن بعض اچھے افعال ،بعض برے افعال کے اثر کو ختم کردیتے ہیں اور بعض برے افعال بعض اچھے افعال کے آثار کو ختم کردیتے ہیں مثال کے طور پر احسان جتانا، نقصان پہونچانا، مالی انفاق(صدقات) کے اثر کو ختم کردیتا ہے.

( لا تُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنِّ وَ الأذَیٰ ) (۱)

اپنی خیرات کو احسان جتانے اور ایذا دینے کی وجہ سے اکارت نہ کرو۔

اور صبح وشام اور کچھ رات گئے نماز قائم کرنا بعض برے افعال کے آثار کو ختم کردیتا ہے قرآن مجید فرماتاہے:

( وَ أَقِمِ الصَّلَٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفاً مِّنَ اللَّیلِ إنَّ الحَسَنَاتِ یُذهِبنَ السَّیِّئَاتِ )

دن کے دونوں طرف اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کروکیونکہ نیکیاں بیشک گناہوں کو دور کریتی ہیں۔(۲)

شفاعت بھی ایک علت وسبب ہے جو انسان کے حقیقی کمال وسعادت کے حصول میں موثر ہے.(۳)

____________________

(۱)سورہ بقرہ ۲۶۴۔

(۲)ھود۱۱۴۔

(۳) قرآن مجید کی آیات میں ایمان اور عمل صالح ، ایمان اور تقویٰ، ہجرت اور اذیتوں کا برداشت کرنا، جہادنیز کبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنا ، پوشیدہ طور پر صدقہ دینا ، احسان کرنا ، توبۂ نصوح اور نماز کے لئے دن کے ابتدا اور آخر میں نیزرات گئے قیام کرنا منجملہ ان امور میں سے ہیں جن کو بعض گناہوں کے آثار کو محو کرنے کی علت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے ۔ملاحظہ ہو: محمد ۲؛مائدہ ۱۲؛ عنکبوت ۷؛ مائدہ ۶۵؛ آل عمران ۱۹۵؛ نساء ۳۱؛ بقرہ۲۷۱ ؛انفال ۲۹؛ زمر۳۵؛ تحریم ۸؛ ھود ۱۴۴۔اچھے اور برے اعمال کا ایک دوسرے میں اثرانداز ہونے کی مقدار اور اقسام کی تعیین کو وحی اور ائمہ معصومین کی گفتگو کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیئے اور اس سلسلہ میں کوئی عام قاعدہ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

۲۷۹

اچھے اور برے اعمال ،حبط و تکفیر ہونے کے علاوہ اس دنیا میں انسان کی توفیقات اور سلب توفیقات ، خوشی اور ناخوشی میں موثر ہیں ، مثال کے طور پر دوسروں پر احسان کرنا خصوصاً والدین اور عزیزو اقربا پر احسان کرنا آفتوں اور بلاؤں کے دفع اور طول عمر کا سبب ہوتا ہے اور بزرگوں کی بے احترامی کرنا توفیقات کے سلب ہونے کا موجب ہوتا ہے ۔ لیکن ان آثار کا مرتب ہونا اعمال کے پوری طرح سے جزا و سزا کے دریافت ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ حقیقی جزا و سزا کا مقام جہان اخروی ہے ۔

(۴) شفاعت کے کردار اور اس کے شرائط کے حامل ہونے کی آگاہی اور اس سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہات اور ان کے جوابات سے مطلع ہونے کے لئے ملحقات کی طرف مراجعہ کریں ۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416