ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215090 / ڈاؤنلوڈ: 4962
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پندہواں سبق

قرآن معجزہ ہے

جس طرح اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے توریت ، زبور ، اور انجیل نازل کی۔ اسی طرح قرآن کو بھی قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا۔

قرآن ہمارے نبیؐ پر معجزہ بن کر نازل ہوا ہے۔ جس کو آپ نے اپنی نبوت کے دعوے کی سچائی کے ثبوت میں پیش کیا۔ اور قرآن میں خود خودا نے کہا کہ اگر کسی کو میرے نبیؐ کے دین میں شک ہو تو اسے چاہئیے کہ قرآن کے کسی ایک سورے کا جواب لے آئے۔ اور اگر جواب نہ لا سکے تو یقین کرے کہ ہمارا نبیؐ اور اس کا دین سچا ہے۔ آج تک کوئی بھی قرآن کی ایک آیت کا جواب نہیں لا سکا۔ اور جواب کا نہ آنا قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل ہے۔

سوالات:۔

۱ ۔ قیامت تک کی ہدایت کے لئے کون سی کتاب نازل ہوئی ؟

۲ ۔ قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل کیا ہے ؟

۲۱

سولہواں سبق

آداب تلاوت

قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ان علامتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ج ۔ وقف جائز علامت ہے یہاں پر ٹھہرنا ہے۔

ز ۔ یہ بھی وقف جائز کی علامت ہے مگر ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

لا ۔ اس علامت پر ٹھہرا نہیں چاہئیے بلکہ بعد سے ملا کر پڑھنا چاہئیے۔

ط ۔ یہ علامت وقف مطلق کی ہے جس سے آگے بڑھ جانا مناسب نہیں ہے۔

م ۔ یہ علامت وقف لازم کی ہے جس سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے۔

قف ۔ یہ ٹھہر جانے کی علامت ہے ۔

ص ۔ یہاں سانس توڑ دینے کی رخصت ہے۔

صلے ۔ یہاں وصل اولیٰ ہے (یعنی) آگے سے ملاکر پڑھنا بہتر ہے۔

۔ یہ علامت جس لفظ کے آگے پیچھے ہوتی ہے اس میں دو میں سے ایک جگہ وقف کیا جاتا ہے ۔

سالات :

۱ ۔ علامت کا لحاظ رکھے بغیر تلاوت قرآن کرنا کیسا ہے ؟

۲ ۔ " ز " اور " ج " کون سے وقف کی علامت ہیں اور دونوں کے حکم میں کیا فرق ہے

۲۲

سترہواں سبق

فرشتے

جس طرح اللہ نے زمین پر مٹی سے انسان کو پیدا کیا ہے اسی طرح نور سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جس کا نام فرشتہ ہے۔ فرشتے اپنی خلقت میں معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی رکوع میں رہتا ہے کوئی سجدہ میں کوئی قیام میں رہتا ہے کوئی تسبیح میں۔

فرشتوں کو اللہ نے مخلتف کاموں کے لئے پیدا کیا ہے کسی کو زمین کا انتظام سپرد کیا ہے ، کسی کو آسمان کا ، کسی کو پانی پر مقرر کیا ہے اور کسی کو ہوا پر۔

ان فرشتوں میں چار فرشتے زیادہ مشہور ہیں

۱ ۔ جبرئیل ۔ جو ہمارے نبیؐ کے پاس قرآن لیکر آیا کرتے تھے۔

۲ ۔ میکائیل ۔ جو بندوں کا رزق ان تک پہنچاتے ہیں ۔

۳ ۔ اسرافیل ۔ جن کے ایک صور پھونکنے پر ساری دنیا فنا ہو جائےگی۔

۴ ۔ عزرائیل ۔ جن کا کام لوگوں کی روح قبض کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اللہ نے فرشتوں کو کس چیز سے پیدا کیا ان سے کبھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟

۲ ۔ اس فرشتہ کا نام بتاؤ جو بندوں کو رزق پہنچاتا ہے ۔

۲۳

اٹھارہواں سبق

اسباب خیر و برکت

۱ ۔ قبل غروب چراغ جلانا۔

۲ ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت سورہ توحید پڑھنا۔

۳ ۔ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا۔

۴ ۔ یاقوت اور فیروزہ کی انگوٹھی پہننا۔

۵ ۔ صبح سویرے اٹھنا۔

۶ ۔ مسجد میں قبل اذان پہنچنا۔

۷ ۔ باطہارت رہنا۔

۸ ۔ بعد نماز تعقیبات پڑھنا

۹ ۔ عزیزوں کے ساتھ احسان کرنا۔

۱۰ ۔ گھر کو صاف رکھنا۔

۱۱ ۔ مومن کی حاجت روائی کرنا۔

۱۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا۔

۱۳ ۔ موذن کی اذان دھرانا۔

۱۴ ۔ دسترخان پر گرے ہوئے ریزوں کو چن کر ادب سے کھانا۔

۱۵ ۔ رات کو باوضو سونا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب خیر و برکت میں کوئی پانچ اسباب بیان کرو ؟

۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا اور اذان دہرانا اسباب برکت میں سے اسباب نحوست میں۔

۲۴

انیسواں سبق

اسباب نحوست

۱ ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔

۲ ۔ کھڑے ہو کر کھانا کھانا۔

۳ ۔ منھ سے چراغ بجھانا۔

۴ ۔ دامن یا آستین سے منھ پوچھنا۔

۵ ۔ حمام میں پیشاب کرنا۔

۶ ۔ مٹی سے ہاتھ دھونا۔

۷ ۔ لہسن ، پیاز کے چھلکے جلانا۔

۸ ۔ قبر پر بیٹھنا۔

۹ ۔ چوکھٹ پر بیٹھنا ۔

۱۰ ۔ دانتوں سے ناخن کاٹنا۔

۱۱ ۔ فقیروں سے بے تو جہی کرنا۔

۱۲ ۔ قلم پر پاؤں رکھنا۔

۱۳ ۔ مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا۔

۱۴ ۔ حالت جنابت میں کچھ کھانا ۔

۱۵ ۔ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا۔

۱۶ ۔ رات کو کھڑے ہوکر پانی پینا۔

۲۵

۱۷ ۔ کوڑا گھر میں رکھنا۔

۱۸ ۔ کھڑے ہوکر پائجامہ پہننا۔

۱۹ ۔ نماز صبح کے بعد اول طلوع آفتاب سو جانا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب نحوست میں سے کوئی پانچ سبب بیان کرو ؟

۲ ۔ قبر پر بیٹھنا اور باطہارت سونا میں کون اسباب خیر و برکت میں داخل ہے اور کون اسباب نحوست ہیں ؟

۲۶

بیسواں سبق

آداب بندگی

اگر اللہ ہمیں یاد رہے تو ہم کبھی گناہ نہ کریںگے کیوںکہ گناہ سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ جب کوئی اچھا بیٹا اپنے باپ کو ناراض نہیں کرتا تو کوئی سچھا مسلمان اپنے خدا کو کیسے ناراض کر سکتا ہے۔ ایک سچھے مسلمان ہونے کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ہم گناہوں سے بچیں اور خدا کے احکام بجا لائیں۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کو یاد رکھیں۔ خدا کی یاد سے دل پاک رہتا ہے۔ ہمارے کاموں میں برکت پیدا ہوتٰی ہے اور نحوست دور ہوتی ہے۔اس لئے عادت ڈالو کہ جب :

۱ ۔ کوئی کام شروع کرو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسم الله ۔۔۔۔کہو

۲ ۔ کوئی کام ختم کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمد الله ۔۔۔۔کہو

۳ ۔ کوئی بری بات دیکھو یا کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استغفر الله ۔۔۔۔کہو

۴ ۔ کوئی اچھی چیز دیکھو یا اچھا کام کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان الله ۔۔۔۔کہو

۵ ۔ اٹھتے بیٹھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَةَ اِلاَّ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۶ ۔ غم کی خبر سنو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ لِلهِ وَ اَنَا اِليه راجِعُونَ ۔۔۔۔کہو

۷ ۔ خوشی کی خبر سنو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَا شَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۸ ۔ کوئی وعدہ کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انشَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۹ ۔ جب کسی کو رخصت کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فی اَمَانِ الله ۔۔۔۔کہو

۱۰ ۔ جب کوئیٰ نعمت پاؤ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شُکراً الله ۔۔۔۔کہو

۱۱ ۔ جب کوئی بڑا خیال پیدا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَعُوذُ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۱۲ ۔ عجیب چیز دیکھو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَلعَظَمَةُ للهِ ۔۔۔۔کہو

سوالات :

۱ ۔ خدا کو یاد رکھنے کے کیا گائدے ہیں ؟

۲ ۔ یاد رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟

۲۷

اکیسواں سبق

آداب زندگی

۱ ۔ حسنؐ اور حسینؐ میرے پھول ہیں ۔ حضرت رسولؐ کریم نے ارشاد فرمایا کہ

" نیک اولاد ایک پھول ہے جو خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو مرحمت فرمایا ہے اور دنیا میں میرے پھول حسنؐ و حسینؐ ہیں "۔

۲ ۔ لڑکیاں نیکیاں اور لڑکے نعمت ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادقؐ نے ارشاد فرمایا ہے ۔" لڑکیاں نیکیوں ہیں اور لڑکے نعمتیں ہیں۔ نیکیوں پر تم کو ثواب دیا جائےگا اور نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائےگا۔

۳ ۔ لڑکوں کے نام نبی کے نام پر رکھنا چاہئیے ۔ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ حضرت رسولؐ خدا کا ارشاد ہے کہ " جس شخص کے چار لؑڑکے ہوں اور وہ ایک کا نام بھی میرے نام پر نہ رکھے تو اس نے مجھ پر ظلم کیا "۔

۴ ۔ اذان اور اقامت کے بعد شیطان کا حملہ نہیں ہوتا ۔ حضرت مرسل اعظیمؐ نے ارشاد فرمایا کہ " جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہئیے اس سے بچہ شیطان رجیم کے ا ثر سے محفوظ رہےگا۔

۵ ۔ عقیقہ اور مونڈن کا فرق ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اس کا عقیقہ کرایا جائے۔ اس کا سر منڈوایا جائے اور اس کے بالوں کے برابر صدقہ دیا جائے۔

مونڈن اور عقیقہ الگ الگ کام میں دونوں کا ایک ساتھ ساتویں دن ہونا مستحب ہے۔ اگر ساتویں دن مونڈن نہ ہو تو عقیقہ کیا جائےگا یعنی جانور کو ذبح کیا جائیگا اور بالوں کا منڈوانا ضروری نہیں ہوگا۔

۲۸

۴ ۔ حضرت امیر المومنین علیؐ ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ " جب بچہ تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ لااِله اِلاَّ الله کہلایا جائے۔ دو دن کے بعد اس سےمحمد رسول الله کہلایا جائے۔ جب چار سال پورے ہو جائیں تب اس سے کہا جائے کہصلی الله علیٰ محمد و آل محمد کہو، جب پانچ سال کا ہو جائے تو اس کو جنوب اور شمال کی شناخت کرائی جائے اور جب یہ جان لے تو اس کا رخ قبلہ کی طعف موڑو اور اس کو سجدہ کرنے کا حکم دو اوع جب چھہ سال کا ہو جائے تو اس کو رکوع و سجود کی تولیم دو۔ جب سات سال کا ہو جائے تب اس کو ہاتھ اور منھ کا دھونا سکھاؤ۔ جب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ جب عمر نو سال ہو جائے اور وہ تمام آداب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ اور نماز نہ پڑھنے پر بچہ کو مارا بھی جائے جب وہ وضو اور نماز سیکھ لےگا تو خدا اس کے ماں باپ کو بخش دیگا انشا اللہ تعالیٰ "۔

سوالات :

۱ ۔ رسولؐ نے کن لوگوں کو اپنا پھول کہا ہے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے تربیت اولاد میں کیا بتایا ہے ؟

۳ ۔ منڈن اور عقیقہ میں کیا فرق ہے ؟

۲۹

بائیسواں سبق

دعا کمیل

تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ شب جمعہ میں ایک دعا پڑھتے ہیں جس کا نام دعاء کمیل ہے۔ اس دعا کے بہت سے فائدے ہیں۔ دنیا میں آدمی کی روزی میں برکت ہوتی ہے۔ آخرت میں اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اس دعا کو دعاء کمیل اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حضرت علیؐ نے اپنے شاگرد حضرت کمیل کو بتائی تھی۔ حضرت کمیل کا خاندان بہت شریف تھا۔ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے کسی بات پر آپ کو ایک طمانچہ مار دیا تھا تو آپ نے ان سے بدلہ لینا چاہا اور وہ تیار بھی ہو گئے لیکن آپ نے معاف کر دیا۔ بادشاہ کے بدلے پر راضی ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کمیل کا رعب بہت تھا اور لوگ ان سے خوف زدہ رہا کرتے تھے ورنہ بادشاہ کہیں کسی کو بدلا بھی دے سکتا ہے۔ حضرت کمیل نے اپنے حق کو معاف کر کے یہ بتا دیا کہ حضرت علیؐ کے چاہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی حق کو چھوڑ سکتے ہیں مگر خدا اور رسولؐ کے معاملہ میں کوئی رعایت نہیں کرتے۔

سوالات :

۱ ۔ دعا کمیل کو دعا کمیل کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ حضرت کمیل کون تھے ؟

۳ ۔ بادشاہ کا کمیل کے ساتھ کیا براتاؤ تھا ؟

۴ ۔ کمیل کا بادشاہ سے کیا برتاؤ تھا ؟

۳۰

تیئیسواں سبق

مالک ابن نویرہ

یہ رسولؐ اللہ کے صحابی تھے۔ انھیں حضرت نے مسلمانوں سے زکوٰۃ وغیرہ کا مال جمع کرنے کے لئے وکیل بنا دیا تھا۔ یہ رسولؐ اللہ کی وفات تک اپنے عہدے پر باقی رہے لیکن حضرت رسولؐ خدا کے انتقال کے بعد جب مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ انھوں نے خلیفہ سے کہا کہ تم اپنی حالت پر باقی رہو اور اس جگہ کو اس کے اہل کے حوالہ کر دو۔ رسولؐ اللہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؐ کو اپنا جانشین بنا چکے ہیں۔ اب کسی دوسرے کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد زکوٰۃ کا مال ان کو دینے سے انکار کر دیا تو انھوں نے خالد بن ولید کو جو ایک انتہائی جھگڑالو آدمی تھا لشکر کا سردار بنا کر بھیج دیا۔ اس نے مالک کی قوم پر زبردستی حملہ کر دیا اور سب کو قتل کرا دیا۔ اور مسلمانوں کے جان و مال عزت و آبرو کی کوئی پرواہ نہ کی حالانکہ مالک ابن نویرہ قتل ہوتے وقت بھی کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ مالک ابن نویرہ کون تھے ؟

۲ ۔ ان کا کیا حکم تھا ؟

۳ ۔ حکومت نے ان پر کیوں چڑھائی کی ؟

۴ ۔ خالد نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟

۵ ۔ مالک حضرت علیؐ کو خلیفہ کیوں مانتے تھے ؟

۳۱

چوبیسواں سبق

تقلید

خدا نے اس دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی ہے اور ہم انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دین کے ان تمام احکام پر عمل کریں جنھیں خدا نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عمل کرنا علم حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے پہلے ان احکام کا معلوم کرنا ضروری ہے اور یہ ہم انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ قرآن و حدیث سے احکام خدا معلوم کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ علم دین کے جاننے والوں سے احکام دریافت کرے اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے اسی چیز کا نام تقلید ہے۔

تقلید صرف ان احکام میں ہوتی ہے جن کا علم ہر مسلمان کو نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتفاقی نہ ہوں۔ ایسے احکام جو اسلام میں انتہائی واضح ہیں جنھیں ہر مسلمان جانتا ہے جیسے نماز ، روزہ کے واجب ہونے کا حکم وغیرہ ان میں تقلید کی ضرورت نہیں ہے تقلید صرف اس عالم کی کی جاتی ہے جو اپنے زمانہ کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتا ہو اس لئے کہ ایسے عالم کے ہوتے ہوئے اس سے کمتری کی تقلید کرنا جائز بھی نہیں ہے اور خلاف عقل بھی اس لئے دیندار باخبر علماء جسے اعلم بتائے اسے اعلم ماننا چاہئیے۔

تقلید کرنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اعلم کے مسائل معلوم کر کے ان پر عمل کرے۔

سوالات :

۱ ۔ تقلید کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ کون اعلم ہے ؟

۳۲

پچیسواں سبق

طہارت اور نجاست

ہر چیز پاک ہے جب تک اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو ، کوئی پاک چیز صرف اسی وقت نجس ہوگی جب کوئی نجس چیز اس سے مل جائے اور دونوں میں سے کوئی ایک تر ہو۔ اگر کسی چیز کا پاک ہونا ہمیں پہلے سے معلوم ہو اور بعد میں اس کے نجس ہو جانے کے بارے میں شک پیدا ہو جائے تو اس شک کی وجہ سے وہ چیز نجس نہ سمجھی جائےگی بلکہ پاک ہی سمجھی جائےگی۔ اگر بجائے شک کے اس کی نجاست کا گمان بھی پیدا ہو جائے تب بھی محض گمان کی وجہ سے وہ شے نجس نہ ہوگی اور جب تک نجاست کا پورا یقین نہ ہو پاک ہی رہےگی۔

نجاست معلوم کرنے کے تین طریقے ہیں :۔

اول ۔ ذاتی علم ، یعنی ہم خود اپنی آنکھوں سے کسی چیز کو نجس ہوتے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز نجس ہے۔ ایک عادل کی گواہی کافی نہیں۔ البتہ اگر ایک ہی عادل کی گواہی سے یقین حاصل ہو جائے تو بھی اس یقین پر عمل کیا جائےگا اور اسے نجس سمجھا جائےگا۔

تیسرے ۔ جس شخص کے قبضے میں چیز ہو وہ کہے کہ یہ نجس ہے خواہ وہ مالک ہو یا کرایہ دار ہو ، عاریتہً لیا ہو یا امین ہو۔ قبضہ رکھنے والے کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں۔

طہارت کے معلوم کرنے کے بھی تین طریقے ہیں:۔

اوّل ذاتی علم ، یعنی اسے پاک ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز پاک ہے۔

۳۳

تیسرے ۔ جس کے قبضہ میں وہ شے ہو وہ کہے کہ یہ پاک ہے۔

اگر کسی چیز کے نجس ہونے کا ہمیں پہلے سے علم ہو بعد میں اس شے کے پاک ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تب بھی وہ شے نجس ہی رہےگی۔ البتہ اگر وہ شے اتنے عرصہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہے جس میں اسکے پاک کر لئے جانے کا امکان ہو تو ہم اس شے کو پاک قرار دے سکتے ہیں۔

اگر کسی شخص کے متعلق شک ہو کہ یہ مسلمان ہے یا کافر تو اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا دوسری چیزیں خرید سکتے ہیں۔ خواہ وہ خشک ہو یا تر۔ ان چیزوں کو پاک ہی سمجھا جائےگا۔ چھان بین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر پاک چیز کے نجس ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تو کیا کریںگے ؟

۲ ۔ پاک چیز کو نجس کب سمجھیںگے ؟

۳ ۔ علم کے کیا معنی ہیں ؟

۴ ۔ گواہی کے کیا معنی ہیں ؟

۵ ۔ نجس چیز کو پاک کب قرار دیںگے ؟

۶ ۔ جس شخص کا مسلمان ہونا اور نہ ہونا معلوم نہ ہو اس سے کچھ خرید سکتے ہیں یا نہیں ؟

۳۴

چھبیسواں سبق

نجس پاک کے چند مسائل

دودھ ، دہی ، گھی ، روغن زیتون اور اسی قسم کی چیزوں میں جو چیز جمی ہوئی ہو اگر اس میں نجاست گر پرے تو جہاں نجاست گری ہے بس اتنا ہی حصہ نجس ہے باقی پاک ہے لیکن اگر وہ شے بہنے والی ہے تو پوری کی پوری نجس ہو جائے گی۔

اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ یہ چیز جمی ہوئی ہے یا بہنے والی تو اس میں سے ایک چمچہ نکالیں۔ اگر چمچہ کی جگہ فوراً بھر جائے تو بہنے والی سمجھی جائےگی اور اگر چمچہ کی جگہ نہ بھرے یا بہت دیر کے بعد بھرے تو دونوں صورتوں میں جہاں نجاست گری تھی بس اتنی جگہ اور اس کے آس پاس کی جگہ کو نجس سمجھنا چاہئیے اور چمچے سے اتنی مقدار کے نکالنے کے بعد جو باقی رہ جائے وہ پاک ہے۔

نجس چیز کا کھانا پینا حرام ہے بلکہ دوسروں کو بھی نجس کھلانا حرام ہے۔ قر‏آن مجید ، مسجد کا فرش ، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے مقابر کو نجس کرنا حرام ہے۔ اگر یہ جگہیں نجس ہو جائیں تو ان کو فوراً پاک کرنا واجب ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر جمے ہوئے دودھ یا گھی میں نجاست گر جائے تو کیا سب کا سب نجس ہو جائےگا ؟

۲ ۔ اگر دودھ ، گھی جما ہوا نہیں ہے اور اس میں نجاست گر پڑی ہے تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ اگر پتہ نہ چل سکے کہ چیز بہنے والی ہے یا نہ بہنے والی تو کیونکہ پتہ چلایا جائے ؟

۴ ۔ نجس کھانے پینے کا کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ کن چیزوں کو نجس کرنا حرام ہے ؟

۳۵

ستائیسواں سبق

بیت الخلاء کے آداب

ہر شخص پر واجب ہے کہ ہر حال میں دوسروں سے اپنی شرمگاہ کو چھپائے اور جب پائخانہ کرنےجائے تب بھی چھپائے۔ دوسروں کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے۔

پیشاب کرنے کے بعد پانی ڈالنا واجب ہے۔ بغیر پانی کے پیشاب کی طہارت نہیں ہو سکتی۔ پائخانہ کرنے کے موقع پر اختیار ہے کہ چاہے پانی سے آبدست کرے یا تین پتھر ، کاغذ یا اسی طرح کی کسی چیز سے صاف کر دے۔ مگر جس چیز سے صاف کرے اس کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک پتھر سے نجاست برطرف ہو جائے تو اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تین پتھروں سے صاف کرنا ضروری ہے۔ اگر تین سے برطرف نہ ہو تو جتنے پتھروں سے برطرف ہو اتنے استعمال کرنا واجب ہے ۔

ڈھیلے وغیرہ سے طہارت کرنے میں تین شرطیں سامنے رکھنا چاہئیے :۔

۱ ۔ پائخانہ اپنی جگہ سے آگے نہ پھیلا ہو۔

۲ ۔ کوئی نجاست الگ سے پائخانہ مقام پر نہ لگی ہو ۔

۳ ۔ خون نہ لگا ہو۔ اگر ان تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائےگی تو صرف پانی ہی طہارت ہو سکےگی ڈھیلے وغیرہ سے طہار نہ ہوگی۔

۳۶

جب کوئی شخص پیشاب یا پائخانہ کرنے بیٹھے تو اس پر واجب ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں اس کے جسم کا رخ اس طرح ہو کہ قبلہ نہ اس کے سامنے ہو اور نہ اس کی پیٹھ کی طرف۔

سوالات :

۱ ۔ کسی کو ننگا دیکھنا یا کسی کے سامنے ننگا ہونا کیسا ہے ؟

۲ ۔ پیشاب اور پائخانہ کی طہارت میں کیا فرق ہے ؟

۳ ۔ پانی کے علاوہ کن چیزوں سے پائخانہ کی طہارت کی جا سکتی ہے اور ان کے شرائط کیا ہیں ؟

۴ ۔ جب تین سے کم پتھر وغیرہ سے پائخانہ صاف ہو جائے یا تین پتھوں سے پائخانہ صاف نہ ہو تو بتاؤ کہ دونوں ضرورتوں میں کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ پائخانہ پیشاب کرتے وقت کیسے بیٹھنا چاہئیے ؟

۳۷

اٹھائیسواں سبق

نجس چیزیں

دس چیزیں ایسی نجس ہیں جو پاک نہیں ہو سکتیں۔ ان کو نجاست کہا جاتا ہے۔

۱ ۔ پیشاب ۔ انسان اور ہر اُس جانور کا پیشاب نجس ہے جس کا گوشت کھانا حرام ہو اور ذبح کرتے وقت اس کی گردن سے خون اچھل کر نکلے۔

۲ ۔ پائخانہ ۔ جس کا پیشاب نجس ہوتا ہے اس کا پائخانہ بھی نجس ہوتا ہے۔

۳ ۔ منی ۔ منی آدمی اور ہر جانور کی نجس ہے چاہے اسکا گوشت حلال ہو یا حرام

۴ ۔ مردار ۔ آدمی اور ہر اس جانور کا مُردہ نجس ہے جس کی رگ سے ذبح کرتے وقت خون اچھل کر نکلے چاہے جانور خود مر گیا ہو یا خلاف شریعت ذبح کیا گیا ہو۔ مسلمان کی لاش غسل دینے کے بعد نجس نہیں رہتی۔

۵ ۔ خون ۔ آدمی اور ہر اُس جانور کا خون نجس ہے جو خون جہندہ رکھتا ہو ۔ مچھلی ، کھٹمل ۔ مچھر کا خون اِس لئے نجس نہیں ہے کہ ان میں اچھلنے والا خون نہیں ہے۔

۶ ۔ ۷ ۔کتا اور سور ۔ خشکی کے کتے اور سور کا سارا جسم نجس ہے ۔ اگر تری کے ساتھ کسی کا بدن یا لباس اس سے مس ہو جائے تو اسے بھی نجس کر دےگا۔

۸ ۔ کافر ۔ ہر وہ شخص نجس ہے جو خدا اور رسولؐ کا منکر ہو یا ایسے مسئلے کا انکار کرے جو اسلام میں واضح اور تمام مسلمانوں میں اتفاقہ ہو جیسے نماز ، روزہ کا واجب ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز ، روزہ کا مذاق اڑانے والا مسلمان کافر ہو جاتا ہے اور کافر نجس ہے بلکہ اس کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

۳۸

۹ ۔ شراب ۔ ہر قسم کی شراب نجس ہے اور اس کا پینا حرام ہے لیکن دوسری نشہ والی چیزیں جیسے بھنگ ، گانجہ ، چرس وغیرہ نجس نہیں ہیں لیکن ان کا کھانا پینا حرام ہے۔

۱۰ ۔ فقاع ۔ جو کی بنائی ہوئی شراب بھی نجس اور حرام ہے لیکن حکیموں کا بنایا ہوا " آب جو " شراب نہیں ہے لہذا پاک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کون کون سے جانور کا مردار نجس ہے ؟

۲ ۔ دریائی کتا اور سور نجس ہے یا نہیں ؟

۳ ۔ نماز کا مذاق اڑانے والا پاک ہے یا نجس ؟

۴ ۔ جوں اور مکھی کا خون نجس ہے یا پاک ؟

۳۹

انیسواں سبق

پانی

پانی دو طرح کا ہوتا ہے :۔

۱ ۔ مضاف پانی ۔ یعنی وہ بہنے والی چیز جسے بغیر کسی قید کے صرف پانی نہ کہہ سکےیں جیسے عرق گلاب ، عرق لیمو وغیرہ ۔ دیکھنے میں عرق گلاب بھی پانی معلوم ہوتا ہے اور عرق لیموں بھی۔ مگر یہ خالص پانی نہیں ہے ۔ مضاف پانی کم ہو یا زیادہ نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے آب مضاف سے نہ تو طہارت ہو سکتی ہے اور نہ وضو یا غسل کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔خالص پانی ۔ جسے ہم بغیر کسی قید کے پانی کہہ سکتے ہیں۔

خالص پانی چار طرح کا ہوتا ہے۔( ۱) ۔ قلیل پانی۔( ۲) ۔ کثیر پانی ۔ ( ۳) ۔ جاری پانی ۔( ۴) ۔ بارش کا پانی۔

قلیل پانی ۔ وہ ٹھہرا پانی ہے جو ایک کڑ سے کم ہو اور جاری نہ ہو۔ یہ پانی نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے خواہ اسکا رنگ و بو اور مزہ نہ بدلے قلیل پانی سے طہارت بھی ہو سکتی ہے اور وضو و غسل بھی ہو سکتا ہے۔

کثیر پانی ۔ وہ ٹھہرا ہوا پانی ہے جو ایک کر یا اس سے زیادہ ہو۔

کر پانی ۔ وہ پانی ہے جس کو ناپیں تو تین بالشت لمبا ، تین بالشت چوڑا اور تین بالشت گہرا و۔

یہ اُسی وقت نجس ہوتا ہے جب اس کا رنگ یا بو مزہ نجاست سے مل کر بدل جائے۔

جاری پانی ۔ یعنی وہ پانی جو زمین سے پھوٹ کر نکلے چاہے کڑ بھر ہو یا کرسے کم۔ یہ پانی محض نجاست کے پڑنے سے نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست سے مل کر اس کا رنگ یا بو یا مزہ نہ بدل جائے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

قعقاععثمان کے زمانے کی بغاوتوں میں :

١۔'' طبری '' ٢٩٢٨١۔٢٩٣٦و٢٩٥٠و٣٠٥٨،اور طبع مصر ٩٢٥۔٩٣و ٩٦و١٤٨۔

٢۔'' طبری '' ٢٩٥٨١۔٢٩٦٠،اور طبع مصر ١٠٥٥و١٠٦۔

٣۔'' طبری '' ٣٠٠٩١۔٣٠١٣و٣٠٨٨اور طبع مصر ١٢٦٥۔١٢٨و٢ ١٦۔

٤۔'' طبری '' ٣١٤٩١۔٣١٥٠،اور طبع مصر ١٨٨٥۔١٨٩۔

٥۔'' طبری '' ٣١٥٦١۔٣١٥٨۔

٦۔'' طبری '' ٣١٥٦١۔٣٢٢٦،اور طبع مصر ٢٠٠٥۔٢٢٣۔

٧۔''ابن اثیر ''١٧٠٣۔٢١٧و''ابن خلدون''٤٢٥٢ و''ابن کثیر'' ١٦٧٧و٢٤٦و ''روضةالصفا'' ٧٢٠٢۔

٨۔جو کچھ ہم نے طبری سے نقل کیا ہے ١٩٨١۔١٩٩میں ہے ،اور امیرالمومنین کا مکتوب ''نہج البلاغہ'' ١٢٢٣ سے نقل کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ '' الامامة والسیاسة'' ٦٥اور'' ابن اعثم'' ١٧٣سے۔

٩۔اس جواب کو '' العقد الفرید '' ٣١٤٤ میں خود زبیر سے نسبت دی گئی ہے ،لیکن '' زبیر ابن بکار '' نے اسے '' ابن زبیر'' سے نسبت دے دی ہے ۔''تہذیب '' ابن عساکر ٣٦٣٥،اور نہج البلاغہ ١٦٩٢۔

١٠۔ان دو خطبوں کو '' ابن اعثم'' نے ص١٧٤ میں اور شیخ مفید نے '' الجمل '' ١٥٨۔١٥٩ میں نقل کیا ہے ۔

١١۔ '' تاریخ اعثم'' ١٧٥،اورشرح نہج البلاغہ ٣٠٥١۔

١٢۔'' حاکم نیشاپوری '' نے '' المستدرک'' ٣٧١٣ میں ،'' الذہبی'' نے ''تلخیص '' میں اور ''المتقی'' نے '' کنزالعمال'' ٨٥٦میں ۔

١٣۔'' یعقوبی'' و '' مسعودی'' و '' ابن اعثم'' و '' الاغانی'' ١٢٧١٦و '' ابو مخنف'' بروایت ''شرح نہج البلاغہ '' ٤٣٠٢و٨١۔

١٤۔''طبری '' ٢٠٥٥و ''الکنز'' ٨٥٦و '' ابن اثیر'' ١٠٤٣و '' تاریخ اعثم'' و ''ابومخنف'' بروایت '' شرح نہج البلاغہ'' ٤٣١٢۔

١٥۔'' ابن اعثم'' و '' ابو الفرج'' نے ''اغانی'' ١٢٧١٦ میں اور ''یعقوبی''نے و ''شرح نہج البلاغہ'' ٨١٢و٤٣٠۔ابو مخنف کی کتاب '' الجمل'' سے کہ ہم نے اس کی عبارت درج کی ۔

١٦۔ ''شرح نہج البلاغہ'' ٨١٢اور ٨٩١۔ابو مخنف کی '' الجمل'' سے

١٧۔'' تاریخ یعقوبی'' و ''الکنز '' ٨٣٦۔٨٥و'' اغانی''اس کے علاوہ '' احادیث عائشہ'' اسی کتاب کے مولف سے ٦١۔١٨٩

١٨۔'' طبری'' طبع مصر ٢٠٤٥،'' العقد الفرید'' ٣٢٨٤،اور'' یعقوبی''

١٩۔'''' طبری'' طبع مصر ٢٢٥٥،'' ابن اثیر'' ١٠٢٣،اور'' انساب الاشراف''١٦٧١۔

۳۶۱

سند کی تحقیق:

١۔روایت یزید ''طبری ''٢٨٤٩١۔٢٩٤٢میں سنہ ٣٠۔٣٥ ہجری کے حوادث کے ضمن میں آئی ہے اور ''مرد اسدی '' ''طبری''٢٩٤٨١و''جریر'' ٣١٥٨١و٣٢١١ و''صعصعہ ''٣٢١١١و'' مخلد'' ٣٢١٢١و ''الشیخ الضبی ''٣٢١٤١ و قیس ٢٨٩١١و٣٠٣٤ میں ذکر ہوئی ہیں ۔

خاتمہ:

١۔''طبری ''٣٢١٥١ و١٩٢٠١ اور طبع مصر ٢١٨٥

عاصم بن عمرو عراق کی جنگ میں :

١۔ عاصم کے حالات ''الا ستیعاب ''،تاریخ ابن عساکر کے قلمی نسخے ،''التجرید '' ، ''الاصابہ '' میں اور ''مقر '' و ''حیرہ ''کے حوادث کی شرح معجم البلدان ،''طبری''٢٠٢٢١۔٢٠٥٨ اور ''ابن کثیر '' ٤٣٤٣٦میں ۔

''دومة الجندل ''میں :

١۔ ''طبری''٢٠٦٥١۔٢٠٦٨ اور ''الملطاط''کے بارے میں ٢١٨٥١و ٢٢٥٥و ٢٤٨٥ و ٢٩٠٨،ابن کثیر ٣٥٠٦۔

'' لسان و ملطاط''کی تشریح :

٢۔'' طبری '' ٢٤٨٥١،'' تاریخ ابن عساکر'' کے قلمی نسخے میں '' عاصم'' کے حالات ،حموی کی '' المعجم '' اور '' المشترک '' میں '' دومة الجندل '' کی روئیداد ،فتوح البلدان ٨٣،اور ابن عساکر ٤٤٨١ :

۳۶۲

عاصم وخالد کے باہمی تعاون کا خاتمہ :

٣۔'' طبری'' ٢٠٧٤١و٢٠٧٥و٢١١٥ ،اور ابن عساکر ٤٤٧١۔٤٧٠۔

مثنی کے ساتھ:

٤۔ ''طبری '' ٦٤٤۔٦٦، '' فتوح البلدان'' ٣٥٠۔٣٥١، '' تراجم الاماکن'' از حموی اور ''ابن اثیر '' ٣٣٥٢۔

جسر (پل ) کی جنگ:

٥۔'طبری '' ٦٧٤۔٧٧، '' فتوح البلدان'' ٣٥١'' اخبار الطوال'' ١١٣،اور حدیث ''حمزہ'' ''طبری '' ٢٠١٨١و٢١٩٨ میں ۔

سعد کے ساتھ:

٦۔ ''طبری '' ٨٨٤۔١٣٦،''یعقوبی '' ١٤٤٢،معجم البلدان و '' فتوح البلدان'' ٣٥٦۔٣٦٥،اور ''اخبارالطوال'' ١١٩۔١٢٦۔

٧۔ '' طبری''١١٤٤و١٧٠۔١٧٣،'' تاریخ بغداد''از خطیب ،ہاشم کے حالات کے بارے میں ١٩٦١ اور داستان فتح مدائن از فتوح البلدان ٣٦٦ اور کوفہ کی روئیداد از معجم البلدان ٣٢٣٤'' دلائل النبوة''٢٠٨٣۔٢٠٩،'' جمہرة انساب العرب''از'' ابن حزم''٣٧٨،'' ابن اثیر''٣٧٢٢۔ ٣٧٤۔٣٩٨،'' ابن کثیر''٣٧٧۔٤٧۔٦٤اور '' ابن خلدون ''٣١٥٢۔٣٢٨و٣٢٩۔

جنگ قادسیہ میں :

٨۔ '' طبری''٢١٣٤۔٢٢١،'' ابن اثیر''٤١٩٢۔٤٢٠،'' ابن کثیر''٨٣٧،'' ابن خلدون'' ٣٤١٢،''فتوح البلدان''٥٣٧،کتاب '' حموی''اور'' حمیری''میں '' جندی شاپور''کی روئیداد ورق ٢٩٧ عبارت میں تھوڑے اختلاف کے ساتھ ۔

٩۔سیف کی روایت اس سے '' جس نے فتح شوش کی روایت کی ہے'''' طبری''٢٥٢٦١ میں ۔

۳۶۳

سیستان میں :

١٠۔'' طبری''٢٢١٤،٦٥و٥٤و٦٥،'' فتوح البلدان''٥٥٣۔٥٥٦،'' حموی''سیستان کی روئیداد میں ،'' تاریخ ابن خیاط''١٤٤١،'' ابن اثیر ''٤٣٢٢۔٤٣٣،ابن کثیر٨٩٧اور '' ابن خلدون''٣٤٥٢و٣٦٠ و٣٧٣۔

عمرو بن عاصم :

١١۔ '' طبری''٥٩٥وطبع یورپ٢٨٤١١

سند کی تحقیق:

١٢۔'' الجرح والتعدیل''٤ق١٤٨١،'' میزان الاعتدال''٢٠٨٤اور لسان المیزان

١٢١٦۔

١٣۔'' الجرح والتعدیل''٤ق٣٠٢١۔

۳۶۴

اس کتاب میں مذکور شخصیتوں کے نام

(۱)

آدم

ابراہیم

ابن ابی بکر

ابن ابی عزہ قرشی

ابن ابی العوجائ

ابن ابی مکنف

ابن ابی الحدید

ابن اثیر

ابن اسحاق

ابن اعثم

ابن اعرابی

ابن بدران

ابن بدرون

ابن جوزی

ابن حجر

ابن حزم

ابن حنظلیہ

۳۶۵

ابن الحیسمان خزاعی

ابن خاضیہ

ابن خلدون

ابن خلکان

ابن خیاط

ابن دباغ

ابن درید

ابن دیصان

ابن رفیل

ابن سعد

ابن سکن

ابن شاہین

ابن شہاب زہری

ابن صعصعہ

ابن طفیل

ابن عباس

ابن عبد البر

ابن عبد ربہ

ابن عبدون

ابن عدیس

ابن عساکر

۳۶۶

ابن فتحون

ابن فرح

ابن فقیہ

ابن فتیبہ دینوری

ابن قانع

ابن کثیر

ابن کلبی

ابن ماکولا

ابن محراق

ابن مرزبان (حیرہ کے سرحد بان کابیٹا)

ابن مقفع(عبد اللہ مقفع)

ابن مندہ

ابن منظور

ابن ندیم

ابوبجید

ابوبکر (خلیفہ)

ابوبکر خطیب(خطیب بغدادی)

ابوبکر عبداللہ

ابوجعفر محمد بن حسن (شیخ طوسی)

ابوذر غفاری

ابوزکریا

۳۶۷

ابوسفیان

ابوسفیان طلحہ بن عبد الرحمن

ابوالشیخ

ابوالعباس سفاح

ابوعبد اللہ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق ں )

ابوعبید ثقفی

ابوعبیدہ

ابو عثمان نھدی

ابوعثمان یزید

ابوعمر

ابوالفدائ

ابوالفرج (اصفہانی)

ابولیلیٰ فدکی

ابومخنف (لوط بن یحییٰ)

ابومعبد عبسی

ابومفزر تمیمی

ابوموسیٰ

ابوموسیٰ اشعری

ابو نعیم

ابونواس حسن ہانی

ابوہریرہ

ابوالیقظان (عمار)

۳۶۸

اردبیلی(مقدس اردبیلی)

احمد بن حنبل

ارسطاطالیس

ارویٰ دختر عامر

اسحق

اسحاق بن مؤید

اسماء

اسماعیل

اشعث بن قیس کندی

اعبد بن فدکی

اعیسر

اکیدر بن عبد الملک

امام علی ـ

ابو جعفر بن جریر =طبری

ام ذریح عبدیہ

ام شملہ

ام کلثوم

ام محمد

ام مطیع

ام المؤمنین

امیرالمومنین (علی بن ابیطالب ـ)

اندرزگر

۳۶۹

انسان ازلی

انوش جان

اھریمن

اھورامزدا

ایاس بن سلمیٰ

(۲)

بارتولد

بجیر

بخاری

بردسان

برزویہ

بزرگمہر

بطان بن بشر

بکر بن وائل

بکیر بن عبد اللہ

بلاذری

بلال بن ابی بلال بلقینی

بہرام

بہمن

بودا

بیرزان

۳۷۰

(ت)

ترمذی

(ث)

ثعلبہ بن کھلان

(ج)

جابان

جادویہ

جالینوس

جُخدف بن جرعب

جریر بن اشرس

جریر بن عبد اللہ بجلی

جریر بن عطیہ

جعد بن درہم

جعفر بن ابوطالب

جعفر منصور دوانیقی

جھجابن مسعود

جودی بن ربیعہ

جیمس رابسن

۳۷۱

(ح)

حارث بن ایہم

حارث بن مالک

حاکم

حجاج بن یوسف ثقفی

حجر بن عدی

حسان بن ثابت

حسن بصری

حسن بن علی

حکم بن ولید اموی

حماد بن فلان برجمی

حماد عجرد

حمال اسدی

حماد بن زید

حمزہ بن علی بن محفز

حمزہ بن یوسف

حموی

حمیر بن ابی شجار

حمیری

حنظلہ بن زیاد

حوا

حی بن یقظان

۳۷۲

(خ)

خاقان

خالد بن سعید

خالد بن عرفطہ

خالد قسری

خالد بن ملجم

خالدبن ولید

خالد بن یعمر تمیمی

خطیب بغدادی

خلف بن خلیفہ بجلی

خلیفہ بن خیاط

(د)

دار قطنی

داؤد بن علی عباسی

داہر پادشاہ ھندوستان

دعبل

(ذ)

ذو الحاجب

ذہبی

۳۷۳

(ر)

رازی

ربیع بن زیاد

ربیع بن مطر تمیمی

رستم فرخ زاد

رشاطی

رشید

رضی (سید رضی )

رفیل وابن رفیل

روزبہ

روزمھر

(ز)

زاد مھش

زبیدی

زبیر

زردشت

زفر بن حارث

زیاد بن سرجس احمری

زید بن صوحان

۳۷۴

(س)

سجاح

سعد بن ابی وقاص

سرویلیام مویر

سرٹامس آرنالڈ

سعید اموی

سعد بن عبادہ

سلمیٰ

سلمان فارسی

سلیل بن زید

سماک بن خرشہ انصاری

سمعانی

سنان بن وبر جہنی

سیاوش

سید رضی

سہل بن یوسف سلمی

سیف بن عمرتمیمی

سیوطی

۳۷۵

(ش)

شابشتی

شجرة بن اعز

شرحبیل بن حسنہ

شیخ الاسلام

شیخ طوسی

شیخ مفید

شیخ نجدی

(ص)

صعب بن عطیہ

صعصعہ مزنی

صفوان بن معطل

صفی الدین

(ض)

ضحّاک

(ط)

طبری

طلحہ

طلحہ بن اعلم

طوسی(شیخ طوسی)

۳۷۶

(ظ)

ظفر بن دھی

(ع)

عائشہ

عاصم بن عمرو تمیمی

عامر

عامربن مالک

عامر ہلالیہ نخع

عبادہ

عباس(رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا)

عباس بن محمد

عبد الجبار محتسب

عبد الرحمن بُدَیل

عبد الرحمن سیاہ احمری

عبد الرحمن سمرہ

عبد الرحمن عدیس

عبد الرحمن بن ملجم

عبد العزی نمری

عبد الکریم بن ابی العوجاء

عبد اللہ بن ابی سلول

عبد اللہ بجلی

۳۷۷

عبد اللہ بدیل

عبد اللہ بن زبیر

عبد اللہ بن سبا

عبد اللہ بن سعید

عبد اللہ بن عامر بن کریز

عبد اللہ بن عباس

عبد اللہ بن علی بن ابیطالب ـ

عبد اللہ بن مسلم عکلی

عبد اللہ بن معاویہ

عبد الملک

عبد المومن

عبید اللہ بن محفز

عتبہ بن غزوان

عتبہ بن فرقد لیثی

عثمان (خلیفہ)

عثمان بن ولید

عروة بن بارقی

عروة بن زید خیل طائی

عروة بن ولید

عصمة بن حارث

عصمة بن عبد اللہ

۳۷۸

عصمة وائلی

عطیہ

عفیف بن منذر تمیمی

عقبة بن سالم

عقیلی

علاء حضرمی

علقمہ بن علاثہ کلبی

علی بن ابیطالب ـ(امیرالمومنین)

عمار یاسر

عمر بن خطاب (خلیفہ)

عمر کلواذی

عمروبن حریث

عمرو بن ریان

عمرو عاص

عمرو بن عاصم تمیمی

عمرو بن عبید

عمرو بن معدی کرب

عمیر صائدی

عنترة بن شداد

عوف بن زیاد

عیاض بن غنم

عیسیٰ ـ

۳۷۹

(غ)

غافقی

غرقدہ

غصن بن قاسم کنانی

غمربن یزید بن عبدالملک

غندجانی

(ف)

فارقلیط

فضل بن عباس

فیروزان

فیروز

فیروزآبادی

(ق)

قارن بن قریانس

قاہر عباسی

قباد(پادشاہ ساسانی)

قباد خراسانی

قحطان

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416