ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب19%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215595 / ڈاؤنلوڈ: 4976
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اس کے بعد اس نے مامون کو اپنی داستان سنائی۔مامون نے ہنستے ہوئے حکم دیا ''مانی '' کی تصویر لاکر اس کے سامنے رکھی جائے ۔طفیلی نے مانی پر لعنت بھیجی اور اس سے نفرت وبیزاری کااظہار کیا اورکہا: تصویرکو میرے حوالہ کردو تا کہ اس پر نجاست کروں ،خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ مانی کون ہے ؟ یہودی ہے یا مسلمان ؟! ٨

مذکورہ بیانات سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ زندیقیوں سے مراد وہی مانی کے پیرو ہیں ، اگر چہ یہ نام بہت نادر موارد میں اس کے علاوہ بھی استعمال ہوا ہے ۔

یہ واضح ہونے کے بعد کہ زندیقی ،حقیقت میں مانی کے پیرو تھے اور وہی ان کی بنیاد ہے،اب اس کی باری آتی ہے کہ ہم دیکھیں کہ خود''مانی''کون ہے اور اس کادین ،کیسا ہے ؟!!

۴۱

مانی اور اس کادین

مانی کون ہے؟

استخرج مانی من ادیان آراء فلسفیة مختلفة دیناً واحداً عجیباً

''مانی نے مختلف ادیان اور فلسفوں سے ایک نیااور عجیب دین ایجاد کیا''۔

) مؤلف (

''مانی ''ابن ''بتک'' ٢١٦ع میں بابل کے شہروں میں سے ''رہایکی ''نام کے ایک شہر میں پیدا ہواہے۔

مانی ،جس کے پیر ٹیڑھے تھے ،نقاشی میں انتہائی ماہر اور بہترین خطاط تھا۔اس نے خود ایک خط اور بعض مخصوص لغات اور اصطلاحات ایجاد کئے تھے ،پھر اس نے اپنی تمام تالیف بجز ''سابرقان '' جو اس نے فارسی میں لکھی ہے کو اپنے ایجاد کردہ خط میں سریانی زبان میں لکھا ہے ۔

مانی کا باپ،''بتک''پہلے بت پرست تھا،بعد میں دین ''دیصان '' ٩ قبول کیا مانی اسی دین میں پرورش پائی دین ''دیصان '' نے اس کے افکار پر گہرا اثر ڈالا۔

مانی نے چوبیس ٢٤ سال کی عمر میں پیغمبری کا دعویٰ کیا ١٠ اور مختلف ادیان ،جیسے : زردشتی،ماندائید صابئہ ملسان،ہلینیسم (جو کہ اسکندر کے بعد یونان کا فلسفہ اشراق ہے)بودھ مذہب اور گنوسیزم سے کچھ چیزیں لے کر ایک سانچے میں ڈال کر ایک ایسا عجیب معجون تیار کیا جس میں سے ہر ایک اپنی دلخواہ چیز حاصل کرسکتاتھا،جیسے:پرہیزگاری ،دنیاسے کنارہ کشی،گناہوں کااعتراف،نماز وروزہ جیسی عبادات اوراوراد واذکار وغیرہ....

۴۲

اس کے علاوہ ہر موضوع ،جیسے :علم ہیئت ،جغرافیہ،علوم طبیعت ،فزیکس،کمسٹری،حیوانات نباتات اور انسانوں کی شناخت ،فرشتوں ،جنات اور دیگر موجودات کی پیدائش ،دنیا کی عمر اور اس کی انتہا کے وقت کے بارے میں ہر مشکل سوال کا توہماتی طریقے سے،عقل ومنطق اور علمی معیار کے خلاف جواب موجود تھا۔

گنوسیزم جو دین مانی کی بنیادی اجزاء کو تشکیل دیتاہے خود ایک خاص دین تھا ،جو ایران اور قدیم یونان کے درمیانی علاقوں کے باشندوں کے اعتقادات اور دین ہلینیسم کی آمیزش سے وجود میں آیا تھا اور بطور خلاصہ عبارت ہے:

دنیا پر حاکم دو بنیادی اصلوں یعنی خیروشر پر ایمان ۔دنیا کے امور پر الٰہی قدرت رکھنے والے سات سیارات پر ایمان۔اور یہ کہ انسان کی روح اشیاء کے حقائق کو پانے ،ترک دنیا اور ازدواج و آمیزش سے پرہیز کرکے بالاخر شرو نجاست کی دنیا سے نجات پاکر خیر وبلندی کی دنیا کی طرف عروج کرسکتی ہے ۔

۴۳

گنوس بذات خود چند فرقوں میں تقسیم ہوتاہے ،جیسے :گنوس یہودیت اور گنوس مسیحیت ۔ مذہب دیصانیہ ومانی کا پہلا اور اس کے باپ بتک کا دوسرا دین تھا دیصان کے بیٹے کے پیرو اور مرقیونیہ ،مرقیون کے پیرو بھی گنوس مسیحیت کے فرقے ہیں ۔گنوس مسیحیت کے ہر فرقہ کی اپنی ایک مخصوص انجیل ہے ۔اور وہ تمام انجیلوں کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی تردید کرتے ہیں( ۱ )

روسی مستشرق ''بارتولد''کااعتقاد ہے کہ :''بردسان''(١٥٥۔٢٢٢ع)پہلا سریانی مؤلف تھا،اور اوسا کے مقام زندگی بسر کرتاتھا۔اس نے گنستیزم نام کے بت پرستی کے فلسفہ اور نصرانیت کے در میان ایک قسم کا رابطہ اور ہماہنگی پیدا کی ۔اس سلسلہ میں جن عقائد و نظریات کو ''بردسان '' نے پیش کیاہے ،انہوں نے مانی کی مانویت کو بہت متاثر کیاہے ۔

ترکیہ کامؤلف ،محمد فؤاد کوبریلی بھی اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب کے حاشیہ پر لکھتاہے :

''گنوس معرفت ِاسرار کی بلندترین حد ہے''(۲)

مانی کا دین

مانی کا مکتب دنیا کی اساس کو دو اصولوں ''نور وظلمت ''اور تین ادوار ماضی ،حال اور مستقبل پر مبنی جانتاہے ۔

ماضی کے دور میں ،نور وظلمت ایک دوسرے سے جدا لیکن ایک دوسرے کے پہلو بپہلو واقع تھے ۔نور اوپر اور ظلمت نیچے اور ہر ایک کا دامن تین اطراف میں پھیلا ہواتھا۔

نور کی دنیا:نظم وضبط ،خوشبختی اور آرام وسکون جیسی تمام نیکیوں کی سرزمین اور ظلمت کی دنیا :تمام برائیوں ،ناپاکیوں ،تشویش وپریشانیوں ،جنگ ومصیبتوں اور بیماریوں کا مرکز ہے ۔

نور کی دنیا پر ''اھورامزدا''کی حکمرانی اور ظلمت وتاریکی کی دنیا پر فرشتہ یا شیطان نام تاریکی کاخدا یا ''اہریمن''حکومت کرتے تھے ۔

ظلمت کی دنیا پانچ طبقوں :کالے بادلوں ،آگ کے خوف ناک شعلوں ،طوفانوں اور

____________________

۱)۔''مانی ودین او''(٣٤۔٣٦)

۲)۔تاریخ الحضارة الاسلامیة ،تالیف ف۔بارتولد طبع مصر سال ١٩٤٢ ع ص١١۔١٢

۴۴

خطرناک بگولوں ،کیچڑ اور بالکل اندھیرے پن پر مشتمل تھی ،ہر طبقہ کی سر پرستی دیو ،شیر ،عقاب و...کی صورت میں ایک شیطان(۱) کے ہاتھ میں تھی ۔

ظلمت کی دنیا کے پانچ طبقوں کو تشکیل دینے والے پانچ عناصر سونا،تانباو... اور پانچ مزے نمکی وتلخی و... تھے۔اور ہر طبقہ ناپاکیوں ،شیطنتوں ،دیؤوں اوردو پا وچار پا وحشی حیوانوں سے بھرا ہواتھا۔

نور کی دنیا کے پانچ طبقے تھے اور ہر طبقہ میں خدا کے اعضاء میں سے ایک عضو ،جیسے:ہوش ،

تفکرو...جو خداکے مظاہر میں قرار پائے تھے ۔نور کی دنیا کا خداوند ایک بادشاہ کے مانند شاہی محل میں جلوہ افروز اور ظلمت کی دنیا کاخدا سور کی شکل میں ناپاکیوں اور کثافتوں کونگلنے میں مشغول تھا۔

ظلمت کی دنیا میں جھگڑے ،دشمنیاں ،جنگ وگریز ، شیاطین کے ایک دوسرے پر مسلسل حملے ،چیر پھاڑ،مار دھاڑ،شور وشر،حیوانیت،شہوت رانی،اوراس قسم کی دوسری نا پاکیاں اور برائیاں نظر آتی ہیں ۔

نور کادرخت :نور کی دنیا ہمیشہ اپنے آپ کو ظلمت کے درخت سے بچا کے رکھتی تھی تاکہ وہ مشتعل ہوکر اس پر حملہ ور نہ ہوجائے ۔بالاخر ظلمت کی دنیا کی تاریکیوں کی وجہ سے جنگ وجدل کا ماحول اس قدر شدید ہوگیا کہ وہ نور کی دنیا کو تہس نہس کرنے پر تل گئے۔اس جنگ وگریز کے ذریعہ عالم بالا یعنی عالم نور تک پہنچ گئے۔عالم بالا کی نورانیت وصفائی وہ دم بخود ہوگئے لہٰذا اس کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے دیووں اور شیاطین کے لشکرکے ذریعہ عالم نور پر حملہ آور ہوگئے تاکہ اسے فتح کرکے عالم ظلمت میں ضم کرلیں ۔

عالم نور کے فرماں رواکے پاس کسی قسم کاجنگی سازو سامان نہیں تھاکہ شیطانوں کامقابلہ

____________________

۱)۔ در اصل عربی میں ''اراکنہ ''ذکر ہواہے ۔

۴۵

کرسکے اور دوسری طرف وہ اپنے طرفدار خداؤں میں سے کسی کو شیاطین سے لڑنے کے لئے بھیجنا بھی نہیں چاہتاتھا۔مجبور ہوکر عالم ظلمت اور ناپاکیوں سے پیکار کے لئے بذات خود آمادہ ہوا۔اس فیصلہ کے نتیجہ میں اس نے پہلی بار کائنات میں ''نہ نہ '' یاحیات وزندگی مطلق کی ماں کے نام سے اپنی تخلیق کو وجود بخشا اور اس نے بھی اپنے طور پر عالم بالا کے پاک ترین جزو یعنی ازلی انسان کی تخلیق کی

انسان ازلی اپنے فرزندوں :عناصر پنجگانہ ،ہوا،پانی اور روشنی و...کے ہمراہ جن میں سب سے آگے بادشاہ نخشب تھا نیچے اترا اور ناپاکیوں کی دنیامیں ظلمت اور وحشت کے ساتھ نبرد آزما ہوا۔لیکن آخر کار انسان ِازلی نے شکست کھائی اور اس کے بیٹے شیاطین کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور شیاطین نے انھیں نگل لیا۔نور کے ٹکڑوں کو دیو اور شیاطین کے ذریعہ نگل لینے اور ان کے شکم کی تاریکی و ظلمت میں قرار پانے سے نور و ظلمت کی آمیزش وجود میں آئی کہ یہی زمانہ ٔ حال کا دور ہے اس دور کو آزادی کا دور کہا جاتا ہے ،یعنی ظلمت و تاریکی سے نور کی آزادی کا دور عالم نور کے فرماں روانے اپنے اس عمل سے عالم تخلیق میں اپنی پہلی قربانی پیش کی ،اس کی اور اس کے فرزند وں کی یہ قربانی ظلمت کے زندان سے نور کی آزادی کے لئے تھی۔

عالم نور و ظلمت کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا ،نور کی یہ کوشش ہے کہ اپنے ٹکڑوں کو ظلمت کے شکم سے آزادی دلائے اور عالم ظلمت یہ چاہتا ہے کہ نور کے ٹکڑے بدستور اس کی ناپاکیوں کے زندان میں باقی رہیں ۔دوسری طرف نور کے خدا نے فرشتوں اور چھوٹے خدا ئوں کو پیدا کرکے ازلی انسان کی مدد کے لئے بھیجا ۔ازلی انسان نے ان فرشتوں اور چھوٹے خدائوں کی مدد سے خود کو ظلمت و تاریکی کے چنگل سے آزاد کیا ،لیکن اس کے بیٹے تاریکی کے شیاطین کے شکم میں بدستور پھنسے رہے ۔

۴۶

عالم نور نے اپنے نور کے ٹکڑوں کو آزادی دلانے کے لئے اس دنیا کو پیدا کیا ۔اور عالم ظلمت نے بھی نور کے ٹکڑون کو بدستور زندانی بنا کر رکھنے کے لئے ناپاک اوربرے کام انجام دینے شروع کئے اور پہلی بار شیاطین کے سردار وں جنھوں نے ازلی انسان کے بیٹوں کو کھا لیا تھا میں سے دو کو آپس میں ملا دیا اس آمیزش کے نتیجہ میں ابوالبشر آدم پیدا ہوا کہ نور کا ایک بڑا حصہ اس کے اندر قیدی بنا تھا ۔اس کے بعد ان دو شیاطین نے پھر سے آپس میں آمیزش کی اور اس بار حواء (تمام انسانو کی ماں ) اپنے اندر تھوڑے سے نور کے ساتھ پیدا ہوئیں ۔

پھر عالم نور کے خدا نے عیسیٰ کو اپنے ایک چھوٹے خدا کے ہمراہ آدم کی مدد کے لئے بھیجا اور اسے رہبانیت سکھائی تاکہ اپنی ہم جنس مادہ یعنی حوا ء سے پرہیز کرے ۔نر دیو (شیطان) نے جب یہ دیکھا تو اس نے اپنی بیٹی حوا سے آمیزش کی ۔اس سے قابیل پیدا ہو ا قابیل نے اپنی والدہ حواء سے ہمبستری کی تو ہابیل پیدا ہوا ،پھر ایک بار اس سے آمیزش کی اس طرح دو بیٹیوں کو جنم دیا ۔اس تمام زادو ولد کے نتیجہ میں عالم نور کے خدا کے ٹکڑوں کے زندان کے اوپر ایک اور زندان بنتا گیا ۔اس طرح آج تک اور جب تک یہ زادو ولدکا سلسلہ جاری ہے ،نور کا حصہ تاریکی کے پیچیدہ زندانوں میں گرفتار ہوتا رہے گا۔

مانی نے تصورات اور توہمات کے ایک طولانی سلسلہ کے ذریعہ انسان ،نباتات ،حیوانات اور ،جمادات کی تخلیق کی کیفیت کے بارے میں اس طرح تصویر کشی کی ہے ۔ملاحظہ ہو:

خدا نے مومنین کی ارواح کو سورج اور نور کی طرف لے جانے کے لئے چاند کو ایک کشتی بنایا ہے تاکہ ان ارواح کو اوپر اور ان کی اصل جگہ کی طرف لے جائے ،مہینہ کے ابتدائی پندرہ دنوں کے دوران یہ کشتی پہلے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے اور مومنین کی ارواح کو جمع کرتے ہوئے بڑھتے بڑھتے کمال تک پہنچتی ہے ،کیوں کہ اس کشتی کے سورج کی طرف جانے کے راستے میں مسلسل ارواح سوار ہوتی رہتی ہیں ۔نصف ماہ یعنی چودہویں کے چاند کے بعد ارواح مقدس کو حمل کرنے والی یہ کشتی رفتہ رفتہ چھوٹی ہوتی جاتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ سورج کے ساحل پر نورانی بار مسلسل اتر کر عالم نور میں قدم رکھتا ہے اور کشتی رفتہ رفتہ خالی ہوتی جاتی ہے اور ایک کشتی پھر ہلال کی صورت میں دنیا کے ساحل کی طرف لوٹتی ہے ۔ہلال اور چودھویں کے چاند کے اسرار کا یہی مطلب ہے !!

۴۷

مانی و خود''فارقلیط''ہے کی ماموریت ،نسل انسان کی نجات اور انسان اور سائر موجودات عالم میں تناسل کے ذریعہ ظلمت کے شکم سے اجزائے نور کی آزادی کے لئے وجود میں آئی ہے ،یہ مأموریت عیسیٰ کی اس ماموریت کے مانند ہے جس میں وہ عالم ازلی میں آدم کی نجات کے لئے بھیجے گئے تھے ،تاکہ وہ آدم کو تولید مثل اور حوا سے آمیزش انجام دینے سے روکیں ۔مانی اس امر پر مامور ہے کہ نور و ظلمت کے درمیان آمیزش کو ختم کردے ۔اس آمیزش کا دور بارہ ہزار سال ہے ۔اس مدت میں سے ٢٧١ھ تک گیارہ ہزار اور سات سو سال گزر ے ہیں ١١ ،اب صرف تین سو سال باقی بچے ہیں کہ ٥٣١ھ میں تعلیمات مانی پر عمل در آمد ہونے کے بعد عالم وجود اور نور و ظلمت کی آمیزش کا خاتمہ ہو جائے گا ۔اس تاریخ کے بعد زوال کا دور اور مستقبل کا زمانہ ہے ،یہ وہ دور ہے جس میں ہر چیز اپنی اصل کی طرف پلٹے گی ۔

عالم بالا یعنی عالم نور میں خیر و خوبی سے بھری بہشتیں ہیں اور مومنین کی ارواح ،فرشتے اور چھوٹے چھوٹے خدا ،سب کے سب نعمتوں سے مالا مال ہیں اور نچلی دنیا ،یعنی عالم ظلمت و تاریکی میں بدی ،ناپاکی بیماریاں دیو ،شیاطین اور بد کردار افراد کی ارواح ہمیشہ دردناک عذاب و مصیبت میں مبتلا رہیں گی ۔١٢

دین مانی میں تکوین کے بارے میں پائے جانے والے اسرار کایہ ایک خلاصہ تھا ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ کیا تھا۔

۴۸

انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ

مانی ،موسیٰ اور ان کی تورات پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ،گوتم بدھ اور زردشت مشرق میں عیسیٰ جو ماہ سے نہیں ہوئے تھے غرب میں پیغمبری پر مبعوث ہوئے ہیں ۔ خود مانی وہی

'' فارقلیط '' ہے ،جس کے ظہور کے بارے میں عیسیٰ نے انسانی معاشرے کو بشارت دی ہے ،اس نے خود عالم وجود کے مرکز بابل میں ظہور کیا ہے اور مأمور ہے کہ ان پیغمبروں کے مقصد اور دین کو آپس میں جمع کر کے تکمیل تک پہنچائے اور اسے دنیا کی تمام زبانوں میں منتقل کرے ۔١٣

پس چوں کہ وہ خود کو عالم بشریت کی راہنمائی کے لئے مبعوث اور اپنے دین کو تمام ادیان کا جانشین جانتا تھا ،لہٰذا خود اس نے اور اس کے جانشینوں نے اس کے افکار و نظریات کو تمام زبانوں میں ترجمہ کرکے تمام عالم بشریت تک پہنچانے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کو سن کر اس کے دین کی طرف مائل ہو جائیں ۔

اسی لئے اس کے پیرو جس ملت میں تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے ،اسی قوم اور مذہب کی اصطلاحا ت سے استفادہ کرتے تھے اور اسی زبان و اصطلاحات میں ان سے مخاطب ہوتے تھے ۔مثلا اگر ایک یہودی کو زندیقی مذہب کی طرف دعوت دینا چاہتے تو دین یہود کی اصطلاحات کو اپنے مطالب سے منسلک کرتے تھے تاکہ اس یہودی کے لئے ان کے مطالب سمجھنے میں آسانی ہو اور زندیقی مذہب اس کے لئے قابل قبول ہو جائے جیسے مہینوں اور فرشتوں وغیرہ کے نام ان کی ہی اصطلاحوں میں بیان کرتے تھے ۔

۴۹

اس لئے جو کتابیں ایرانیوں کے لئے ترجمہ کی گئی ہیں ،ان میں اصطلاحات ،مہینوں کے نام اور پہلوانوں کے نام دین زردشت کے مطابق استعمال کئے گئے ہیں اور ایرانی افسانے بیان کئے گئے ہیں اسی طرح مسیحیوں کے لئے مسیحی اصطلاحات سے پُر،یونانیوں کے لئے ان کے خدائوں کے نام اور اصطلاحات سے سرشار اور چینیوں کے لئے ان کی اصطلاحات اور بودھ مذہب کی تعلیمات میں بات کرتے تھے۔

اسی طرح جب کسی دین سے کسی خدا یا فرشتے کو شامل کیا جاتا تھا،تو اسے اس کے تمام ملازموں اور غلاموں کے ساتھ اس دین میں داخل کیا جاتا تھا۔اس طرح ان اواخر تک چھوٹے بڑے خدائوں اور مذہب مانی میں شیاطین کو دور کرنے کے لئے پڑھے جانے والے اوراد واذکار ،طلسمات اور منتر جنتر کی تعداد بے شمار حد تک بڑھ گئی تھی ۔

یہی امر اور اس کے علاوہ انسانی فطرت سے واضح تضاد، جیسے: لوگوں کو بچے پیدا کرنے سے منع کرنا اور دنیا کو نابودی کی طرف کھینچنا،اس بات کا سبب بنے کہ یہ مذہب اپنی پیدائش اور رظاہر کے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد نابود ہوگیا۔

۵۰

مانی کی شریعت

مانی کی شریعت میں نماز ،روزہ اور گانا یعنی خوش الحانی سے اذکار وغیرہ کاپڑھنا ،پائے جاتے ہیں ۔اور وہ سال میں ایک بار عید مناتے ہیں ۔

ان کی عبادت گاہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔اس دین میں داخل ہونے کاطریقہ یہ ہے کہ انسان پہلے ازدواج ،شہوت ،گوشت اور شراب سے پرہیز کرکے اپنا امتحان لیتاہے۔اگر اس آزمائش میں کامیاب ہوا تو اس دین کوقبول کرنے کے مرحلہ میں داخل ہوتاہے ۔کوئی شخص حقیقت میں مانی کے دین کوپسند کرتا ہو ،لیکن نفسانی خواہشات پر قابو نا پاسکے ،تو وہ عبادت ورریاضت کواپنے اوپر لازم قرار دینے کے علاوہ دین اور صدیقین کے گروہ کے تحفظ کو اپنے اوپر واجب قرار دیتاہے ۔ایسے افراد کو ''سماعین ''کہاجاتاہے ۔مانی کے اکثر پیرو اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ اس نے ان پر ایک خاص قسم کی نماز اور روزہ واجب کیا ہے ۔''سماعین ''سے بالاتر رتبہ ''صدیقین ''کاہے۔ان کے لئے ایک خاص قسم کی عبادت معین کی گئی ہے اور ان پر صرف سبزی پر مشتمل ایک دن کے کھانے کے علاوہ کھانا حرام قرار دیاگیاہے ۔وہ ایک لباس ایک سال تک استعمال کرتے ہیں ۔ان کے لئے واجب قرار دیا گیاہے کہ ہمیشہ سفر میں رہیں اور وعظ و تبلیغ کرتے رہیں ۔

''صدیقین ''سے بالاتر ''قسیسان''کا گروہ ہے ، ان کی تعداد ٣٦٠ افراد پر مشتمل ہے ۔ان میں بالاتر مقام کے حامل ''اسقف ''ہیں جن کی تعداد ٧٢ افراد تک پہنچتی ہے ،ان کے بعد ''معلم '' درجہ ہے اور اس سے اوپر مانی کاخلیفہ ہے اور ان سب کے بالاتر خود ''مانی''قرار پایاہے ۔ ١٥

۵۱

مانی کاخاتمہ

مانی نے چالیس(۱) سال تک دنیا کے مختلف ممالک ،جیسے ہندوستان ،چین ،اور خراسان کادورہ کیا اوراپنے مذہب کی تبلیغ کی ۔وہ ہر جگہ پر اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کوجانشین مقرر کرتاتھا۔

٣١ سال تک ایران کے فرماں رواؤں اور بادشاہوں نے مانی کی حمایت وتائید کی اور یہی سبب بنا کہ اس کا دین اس زمانے میں تمام دنیا میں پھیلا۔آخر کار ایران کے باد شاہ ہرمز کے بیٹے بہرام نے مانی اور اس کے دین کی مخالفت کی اور مانی کو اپنی سلطنت میں تین سال روپوشی کے بعد گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایا۔

بہرام نے اس مقدمہ کے دوران اس سے کہا:تم نہ جنگ کرتے ہو اور نہ شکار کے لئے جاتے ہو اور نہ کسی بیمار کو شفا بخشتے ہو ،آخر تم کس کام کے ہو؟ مانی نے جواب میں کہا:میں نے تیرے بہت سے خدمت گاروں کو شیاطین،سحر وجادو کے شر سے نجات دلائی ہے اور بہت سے بیماروں کو شفا بخشی ہے اور بہت سے لوگوں کو موت کے چنگل سے نجات دلائی ہے !

کہتے ہیں ،بہرام نے اس سے کہا:تم ،لوگوں کو عالم وجود کی نابودی کی دعوت دیتے ہو لہٰذا یہی بہتر ہے کہ حکم دیدوں کہ اس سے پہلے کہ دنیا نابود ہو تم اپنی آرزو کو پہنچ جاؤاور تمھیں نابود کر دیاجائے۔

____________________

۱)۔ابن ندیم نے کتاب ''الفہرست ''کے صفحہ ٤٥٨میں مانی کی مدت عمل چالیس سال بتائی ہے ،جب کہ مانی نے ٢٤٠ ء میں پیغمبری کادعویٰ کیا اور ٢٧٧ء میں ہلاک ہوا ،اس حساب سے اس کی پیغمبری کے ادعا کازمانہ ٣٨ سال تھا۔

۵۲

اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں اور گردن(۱) زنجیر سے جکڑ کر زندان میں ڈال دیاجائے ۔مانی نے اس حالت میں زندان میں ٢٦ روز تک برداشت کیا اور اس کے

بعد مزید تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔مانی کی وفات کی تاریخ ٢٧٧ء لکھی گئی ہے ۔اور کہاجاتاہے کہ وفات کے وقت اس کی عمر ٦٠ سال تھی۔

مانی کے مرنے کے بعد بہرام کے حکم سے اس کا سر تن سے جدا کیا گیا اور اس کی لاش کو شہر کے دروازے پر لٹکا دیاگیا ۔١٦

دین مانی کا پھیلاؤ

مانی کا مذہب چوتھی صدی عیسوی کے بعد دنیا کے مختلف مسیحی نشین علاقوں ،جیسے اسپین،جنوبی فرانس،اٹلی،بلغارستان اور ارمنستان میں پھیلا ۔چودھویں صدی عیسوی تک ان علاقوں میں اس مذہب کے پیرو دکھائی دیتے تھے۔ ۱۷

یہ مذہب ایران کے مشرقی علاقوں ،ہندوستان ،طخارستان اور بلخ میں پھیلا اور آٹھویں صدی میں مانی کا ایک خلیفہ طخارستان کاحاکم بنا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مانی کا مذہب چین میں پھیلا اور تبلیغات کی آزادی اس کے ہاتھ آگئی۔آٹھویں صدی کے اواخر میں مشرقی چین کے بادشاہ نے مانی مذہب اختیار کیا۔لیکن نویں صدی میں اس کا مخالف ہوگیا۔پھر چودھویں صدی عیسوی تک یہ مذہب وہاں پایاجاتارہا۔

مسعودی نے مروج الذہب میں لکھاہے :

''طاقتور ترین اور منظم ترین حکومت جو ٣٣٢ ھ سے ٩٤٣ھ تک ترکیہ میں اقتدار پر تھی وہ حکومت ''کوشان''تھی اور اس کامذہب مانی تھا۔

____________________

۱)۔لکھا گیاہے کہ جو زنجیر مانی کے ہاتھ پاؤں اور گردن میں ڈالی گئی تھی ،اس کاوزن ،آج کے زمانہ کے مطابق ٢٥ کلوگرام تھا۔

۵۳

اسلامی ممالک میں دین مانی :

اسلامی ملک میں خلفاء میں سب سے پہلے جس نے مانی مذہب کی طرف میلان دکھایاوہ ولید دوم ( ١٢٥ ھ۔ ١٢٦ ھ)تھا ١٨ مروان بن محمد ،معروف بہ جعدی (وفات ١٣٢ھ)مانوی مذہب کاپیرو تھا۔اس کا لقب جعدی اس لئے پڑا کہ اس نے اپنے استاد جعد بن درہم سے تربیت وہدایت پائی تھی۔

جب عباسی خلفاء نے زندیقیوں کو قتل عام کرنے کافیصلہ کیا اور ان کی تلاش وجستجو شروع کی ، تومانوی عراق اور مغربی ایران سے بھاگ کر ایران کے مشرق وشمال اور ترکستان کی طرف ہجرت کرگئے ۔

ابن ندیم لکھتاہے :میں معز الدولہ کی حکومت کے زمانے میں تین سو مانویوں کوجانتاتھا کتاب ''الفہرست ''کی تالیف کے وقت ان میں سے صرف پانچ آدمی باقی بچے تھے ۔اس زمانے میں مانویوں نے سغد،بجنک،اور سمرقند کی طرف ہجرت کی۔ ١٩

اب جب کہ زندقہ وزندیقیوں کی تاریخ کا ایک حصہ ہم نے اہل نظر اور محققین کی خدمت میں پیش کیا،تو مناسب ہے سیف کے زمانے میں ان کی کارکردگی اور فعالیت کا بھی کچھ ذکر کریں تاکہ مانی ومانویوں کے مسئلہ پر ہر جہت سے بحث وتحقیق ہوجائے۔

۵۴

مانویوں کی سرگرمی کازمانہ:

مسعودی نے اپنی کتاب ''مروج الذہب''میں اخبار القاہر اور مھدی عباسی کے سلسلے میں یوں ذکر کیاہے :

جب مانی ،ابن دیصان اور مرقیون کی کتابیں عبد اللہ ابن مقفع اور دیگر لوگوں کے ذریعہ فارسی اور پہلوی زبان سے عربی میں ترجمہ ہوئیں اور اسی طرح اسی زمانے میں ابن ابی العوجائ،حماد عجرد،یحییٰ بن زیاد اور مطیع بن ایاس کے ہاتھوں مذہب مانی ،دیصانیہ اور مرقونیہ کی تائید میں کتابیں تالیف کی گئیں تو ان سرگرمیوں کے نتیجہ میں اس کی حکومت کے زمانے میں مانی کے طرفداروں میں اضافہ ہوا اور ان کے عقائد ونظریات کھل کر سامنے آگئے ۔اس لئے اس نے بھی ان لوگوں کو اور دیگر دین مخالف عناصر کو قتل کرنے میں انتہائی سنجیدہ کوشش کی۔ ٠ ٢

اگلی فصلوں میں ہم ان میں سے چند افراد کاذکر کریں گے۔

مانویوں کے چند نمونے

لعلّی اصادف فی باقی ایامی

زماناًاصیب دلیلا علی هدیٰ

شائد ہم مستقبل میں حقیقت اور ہدایت کا راستہ پاجائیں گے ۔

) عبداللہ ابن المقفع (

١۔ عبداللہ بن مقفع

٢۔ابن ابی العوجا

٣۔ مطیع بن ایاس

٤۔ سیف بن عمر

چوں کہ علم رجال کے علماء نے سیف پر زندیقی ہونے کا الزام لگایا ہے ،لہٰذا ہم اس فصل میں بعض ایسے افراد کا جائزہ لیں گے جن پر اسلام میں زندیقی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے تاکہ سیف کے ساتھ ان کی ہماہنگ سرگرمی کا پتا چلے ۔

۵۵

١۔عبداللہ بن مقفع

عبداللہ بن مقفع (١٠٦ ھ ١٤٢ ھ)٢١عبداللہ بن مقفع عباسی خلیفہ منصور کا ہم عصر تھا اس نے ارسطاطالیس وغیرہ کی کتابیں ،جو منطق میں تھیں منصور کے لئے عربی میں ترجمہ کیں ۔ عبداللہ اسلام میں پہلا شخص تھا جس نے ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ کا کام شروع کیا ۔اس کے علاوہ اس نے کتاب ''کلیلہ ودمنہ '' اور دوسری کتابوں کا فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا ہے اس نے ''الادب الصغیر '' و ''الادب الکبیر '' اور والیتیمہ '' جیسے فصیح و بلیغ رسالہ بھی تحریر کئے ہیں ۔

عبداللہ پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا ،عباسی خلیفہ مھدی کہتا تھا :

''میں نے زندیقیوں کی کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جو عبداللہ مقفع کی خبر نہ دیتی ہو ''

عبداللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں لیکن ہم نے جو کچھ کتاب '' کلیلہ و دمنہ '' میں برزویۂ طبیب کے باب میں مشاہدہ کیا اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہ پائی جو عبداللہ کے زندیقی ہونے پردلالت کرتی ہو محققین کا یہ نظریہ ہے کہ اس کتاب (کلیلہ ودمنہ ) کے برزویہ طبیب کے باب کا خود ابن مقفع کے ہوتھوں برزویہ طبیب کی زبانی لکھا گیا ہے ۔برزویہ طبیب کے باب میں اس طرح آیا ہے:

''میں نے دیکھا کہ لوگوں کے نظریات مختلف ہیں ،اور ان کی خواہشات متناقض ہیں ، ایک طائفہ دوسرے پر حملہ کرتا ہے اور اسے دشمن جانتا ہے عیب نکالتا ہے اس کی بات کی مخالفت کرتا ہے ۔ اور دوسرا طائفہ بھی اس کے ساتھ یہی برتائو کرتا ہے ۔جب میں نے ایسا دیکھا تو سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمسفر نہیں ہو سکتا ....''

۵۶

پھر کہتا ہے '' پھر میں ادیان کی طرف پلٹ گیا ،اور عدل و انصاف کو ان میں تلاش کرنے لگا ،جس کسی کے پیچھے دوڑا اسے اپنے سوال کے جواب میں بے بس پایا ،یا ان کے جواب کو عقل و شعور کے مطابق نہیں پایا تاکہ میری عقل ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتی ۔سوچنے لگا کہ اپنے اسلاف کے دین پر باقی رہوں ،دل نے تائید نہ کی اور اس بات کی اجازت نہ دی کہ اپنی عمر کو ادیان کی جستجو میں صرف کروں ۔دوسری طرف میں نے دیکھا کہ موت نزدیک ہے انتہائی فکر و پریشانی میں پڑا ،چوں کہ تردید اور تذبذب کی وجہ سے خوف و ہراس سے دو چار تھا ،سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ کراہت سے اجتناب کروں اور اسی چیز پر اکتفا کروں جس کی دل گواہی دے کہ یہ تمام ادیان کے مطابق ہے ،لہٰذا کسی کو مارنے اور ضرب لگانے سے ہاتھ کھینچ لیا ...''

اس کے بعد کہتا ہے : میں نے قبول کیا کہ کسی پر ظلم نہ کروں گا ،بعثت انبیاء ،قیامت اور ثواب و عذاب کا انکار نہ کروں گا اور بد کرداروں سے دوری اختیار کروں گا...''

اس کے بعد کہتا ہے :اس حالت میں میرے دل نے آرام و سکون کا احساس کیا اور حتی المقدور اپنے حال ومال میں اصلاح کی کوشش کی ،اس امید سے کہ شائد اپنی عمر کے باقی دنوں میں ایک فرصت ملے اور راہ کی راہنمائی ،قوت نفس اور کام میں ثبات حاصل ہو جائے میں اسی حالت پر باقی رہا اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا۔

مذکورہ نمونہ سے ابن مقفع کا طرز تفکر ہمارے اوپر واضح ہوجاتا ہے دین میں شک ،بظاہر دین زردشت سے اسلام کی طرف مائل ہونے کے باوجود ادیان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے میں تردید، اس کے بعد ادیان میں سے اس حصہ کو قبول کرنا جو تمام ادیان میں مشترک اور مورد تصدیق ہو،جیسے آدم کشی سے پرہیز کسی کواذیت و آزار دینے سے اجتناب اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرنا اور یہ بذات خود ان چیزوں کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے جو زندیقیوں کی کتابوں کی نقل کے مطابق اس کی طرف نسبت دی گئی ہے ،اور شائد سر انجام یہی تذبذب اور پریشانی اس کے لئے زندیقیوں کا دین قبول کرنے کا سبب بنی ہو ،تاکہ فلسفہ تکوین سے اپنے ہر سوال کا جواب حاصل کر سکے ، چاہے دنیا سے رو گردانی اور امور کے بارے میں جانکاری بصورت توہمات ہی کیوں نہ حاصل ہو ۔

یہ سب چیزیں عبداللہ کی فطرت و مزاج سے پوری طرح مربوط ہیں کہ وہ کہتا ہے :

'' شائد زندگی کے باقی دنوں میں کوئی اسی فرصت ہاتھ آئے اور مجھے ایک رہبر ملے''

۵۷

٢۔ابن ابی العوجا

عبد الکریم ابن ابی العوجا ،معن بن زائد ہ شیبانی(۱) کاماموں تھا یہ بصرہ کا ضعیف الاعتقاد ترین فرد اور زندیقی تھا ٢٢ حدیث ،تاریخ اور دینی مناظروں کی بہت ساری کتابوں میں اس کا ذکر آیا ہے من جملہ مجلسی کی بحار الانوار میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے :٢٣

''ابن ابی العوجا ء حسن بصری کے شاگردوں میں سے تھا۔اس نے توحید اور اسلام کی یگانہ بت پرستی سے منہ موڑ لیا تھااعمال حج کا منکر اور اسے بے اعتقادی کی نگاہ سے دیکھنے کے باوجود مکہ گیا ۔چوں کہ وہ بد فطرت اور گستاخ تھا اس لئے علماء میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ ہم نشینی اور گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا تھا ایک دن اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت ابو عبداللہ جعفر ابن محمد الصادق کی خدمت میں پہنچا اور بات کرنے کی اجازت چاہی ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ امان میں ہو حضرت نے اسے اجازت دے دی ۔ابن ابی العوجا ء نے مراسم حج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کب تک اس خرمن کو اپنے پیروں سے کوٹتے رہیں گے ، اس پتھر سے پناہ حاصل کرتے رہیں گے ،اس بلند و محکم گھر کی پوجا کرتے رہیں گے اور رم خوردہ اونٹ کی طرح اس کے گرد گھومتے رہیں گے ؟ جب کہ کسی صاحب نظر عقلمند نے یہ عمل مقرر نہیں

____________________

۱)۔کتاب جمھرة انساب العرب ص٣١٦میں آیا ہے کہ وہ بنی عمرو بن ثعلبہ بن عامر بکری کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔

۵۸

کیا ہے ،چوں کہ آپ کے باپ اس کام کے بانی تھے اور آپ اس کے اسرار سے واقف ہین لہٰذا جواب دیں ''

حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق ں نے جواب میں فرمایا: ''بیشک جسے خدا اس کی اپنی گمراہی پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کی عقل کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں وہ حق کو نا پسنداور بری نظر سے دیکھتا ہے ۔شیطان اس پر غالب آکر اسے ہلاکت و نابودی کے گڑھے میں ایسے پھینک دیتا ہے کہ اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا یہ وہ گھر ہے جس سے خدا ئے تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے تاکہ مناسک حج انجام دینے سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری معلوم ہو جائے اسی لئے انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اسکی تکریم و تعظیم کریں اور اس کے دیدار کے لئے آئیں ۔خدا نے اس جگہ کو پیغمبروں کا مرکز اور نماز گزاروں کا قبلہ قرار دیا ہے اور یہ کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک حصہ ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو اس کی بخشش و عنایتوں پر منتہی ہوتا ہے اور بیشک خدائے تعالیٰ اس کا سزاوار ہے کہ اس کے فرمان کی اطاعت کی جائے''

ابن ابی العوجاء نے کہا: آپ نے اپنی بات میں خدا کانام لے کر غائب کا حوالہ دیا !

حضرت ں نے جواب میں فرمایا:'' افسوس ہو تم پر !جو ہمیشہ اپنی مخلوق کے ہمراہ حاضر اور شاہد اور اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہو وہ کیسے غائب ہو سکتا ہے ؟!وہ اپنے بندوں کی باتوں کو سنتا ہے ان کی حالت کو محسوس کرتاہے اور ان کے اندرونی اسرار کو جانتاہے ''

ابن ابی العوجاء نے کہا:'' اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے ؟ پس جب وہ آسمان پر ہے تو زمین پر کیسے موجود ہو سکتا ہے ؟ اور جب زمین پر ہو تو آسمان پر کیسے ہوسکتاہے؟!

۵۹

حضرت نے فرمایا: '' تم نے اپنے بیان کردہ و صف سے ایک مخلوق کی بات کی ہے کہ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہو جاتا ہے تو اس کی پہلی جگہ خالی ہو جاتی ہے اور دوسری جگہ اس سے پُر ہو جاتی ہے ۔اس وقت وہ نہیں جانتا کہ جس جگہ سے وہ اٹھا تھاوہاں پر اس کے اٹھنے کے بعد کیا گزرا۔لیکن ،عادل اور جزا دینے والے خدا سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور وہ کسی فضا یا جگہ کو پُر نہیں کرتا اور مکان کے لحاظ سے نزدیکی اور دوری اس کے لئے مصداق ومعنی ٰ نہیں رکھتی ''

اس کے علاوہ بیان کیا گیا ہے کہ ابن ابی العوجا نے ،آتش جہنم میں گرفتار لوگوں کے بارے میں خدا کے اس فرمان:''اگر ان کی کھال جل جائے تو ہم ان پر دوسری کھال چڑھادیں گے تاکہ وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں ۔''کے بارے میں سوال کیاکہ : ''دوسری کھال کا کیا قصور ہے؟''(۱)

حضرت نے فرمایا:''افسوس ہوتم پر !دوسری کھال وہی پہلی کھال ہے،جب کہ وہ پہلی کھال نہیں بھی ہے۔''

ابن ابی العوجا نے کہا:''ایک دنیوی مثال سے سمجھا ئیے تاکہ مطلب سمجھنا آسان ہوجائے ''

حضرت نے فرمایا:''کوئی حرج نہیں ،جب کوئی شخص کسی کچی اینٹ کو توڑ کر اس کی مٹی کو دوبارہ قالب میں ڈال کر پھر اس سے اینٹ بناتاہے ،تو یہ دوسری اینٹ وہی پہلی اینٹ ہے جب کہ پہلی اینٹ بھی نہیں ہے ۔'' ٢٤

یہ بھی ذکر کیا گیاہے کہ دوسرے سال ابن ابی العوجاء نے مسجد الحرام میں حضرت

____________________

۱)۔وَکُلَّمٰا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنٰاهُمْ جُلُوداً غَیْرَهٰا لِیَذُوقُوا الْعَذٰابَ (نسائ٥٦)

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

۱۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص۶۴۳ _

۲۰_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۵ _۶۸۷_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۲_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۶_

۲۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۴۹ _ '' لا تحلّ الجنّة لعاص''_

۲۴_ جرجى زيدان نے خيبر كے قلعوں كى تصوير اپنى كتاب تاريخ التمدن الاسلامى ميں دى ہے ج ۱ ص ۶۱_

۲۵_ لاعطين الراية غدا رجلا يحبہ اللہ و رسولہ و يحب اللہ و رسولہ كراراً غير فرار لا يرجع حتى يفتح اللہ على يديہ ، بحار الانوار ج ۲۱_۲۸ _

۲۶_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اس كے بعد ميں درد چشم ميں ہرگز مبتلا نہيں ہوا_

۲۷_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴ _۶۵۳_

۲۸_ ارشاد مفيد ص ۶۷_

۲۹_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۵۴_ ۶۵۵_

۳۰_ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۲۶_

۳۱_صحيح بخارى ج ۵ ص ۷۱ ۱ و ج ۵ ص ۲۳ _ تاريخ بخارى ج ۱ ص ۱۱۵ و ج ۴ ص ۱۱۵ _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۱ و ج ۵ ص ۱۹۵ و ج ۷ ص ۱۲۰ _ مسند الحافظ ابى داؤد ص ۳۲۰_مسند امام احمد بن حنبل ج ۱ ص ۹۹ و ج ۲ ص ۳۸۴ سنن ترمذى ج ۵ ص ۶۳۸ _ سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۶۵ _ خصايص ص ۴ _ تاريخ طبرى ج ۲ ص ۳۱۰ _ طبقات ج ۳ ص ۱۵۶ _عقد الفريد ج ۳ ص ۹۴ _ مستدرك حاكم ج ۳ ص ۴۰۵_ معجم الصغيرطبرانى ص ۱۶۳_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۴۳۰_ سنن الكبرى ج ۹ ص ۱۰۷ _ مناقب ابن مغازلى ص ۱۷۶ _ استيعاب در حاشيہ الاصابہ ج ۳ ص ۳۶۶ _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۱_معالم التنزيل ج ۴ ص ۱۵۶ _الشفا قاضى عياض ج ۱ ص ۲۷۲ _ اسد الغابہ ج ۳ ص ۲۵ _ تذكرة الخواص سبط ابن جوزى ص ۱۵_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۴ ص ۲۲۱_ كفاية الطالب باب ۶۲ص ۱۱۶ _ البداية و النہاية ابن كثير ج ۴ ص ۱۸۴_ مجمع الزوائد ج ۹ ص ۱۲۳ _ الاصابة ج ۲ ص ۵۰۲ _ينابيع المودة ص ۴۱_

۱۶۱

نواں سبق

طرفين كے خسارئے كا تخمينہ

اسيروں كيساتھ اچھا برتاؤ

فتح كے وقت در گزر

مال غنيمت

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

مال غنيمت كى تقسيم

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

فدك -- غزوہ وادى القري

تيما -- فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

مكہ كى طرف (عُمرَةُ القضائ)

جنگ موتہ ، عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

گريہ كيوں؟ -- غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب كى شہادت

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

مجاہدين كى واپسي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب كے سوگ ميں

جنگ ذات السلاسل

سوالات

۱۶۲

طرفين كے خسارے كا تخمينہ

آخرى قلعہ كى فتح كے نتيجہ ميں يہوديوں كو شكست اور لشكر اسلام كو فتح حاصل ہوئي اس جنگ ميں يہوديوں كے ۹۳ سے زيادہ بڑے بڑے جنگجو ہلاك ہوئے جبكہ شہداء اسلام كى تعداد۲۰ افراد سے زيادہ نہ تھى _ اس كے علاوہ قلعوں پرحملے كے نتيجے ميں كچھ يہودى ، لشكر اسلام كى اسيرى ميں آئے_

اسيروں كيسا تھ اچّھا برتاؤ

قلعوں ميں سے جب ايك قلعہ فتح ہوا تو حيّ بن اخطب كى بيٹى صفيّہ اور ايك دوسرى عورت اسير ہوئي تو حضرت بلال ان دونوں كو يہوديوں كے مقتولين كى لاشوں كے قريب سے گزار كر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُٹھے اور صفّيہ كے سر پر عباڈال دى اور دونوں عورتوں كے آرام كے لئے لشكر گاہ ميں ايك جگہ معين فرما دى پھر بلال سے سخت لہجہ ميں كہا '' كيا تمہارے دل سے مہرو محبّت ختم ہوگئي ہے كہ تم ان عورتوں كو ان كے عزيزوں كے پاس سے گزار كرلا رہے ہو ؟ '' صفّيہ ''كے دل پر پيغمبر كى محبّت نے بڑا اثر كيا بعد ميں آپ، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى باوفا بيويوں كے زمرہ ميں شامل ہوئيں _(۱)

۱۶۳

فتح كے وقت در گزر

تاريخ كے فاتحين نے جب بھى دشمن پر كاميابى حاصل كى تو شمشير انتقام سے اپنے كينہ كى آگ كو بجھايا اور دشمن كى تباہى ميں بڑى بے رحمى كا ثبوت ديا ليكن خدا رسيدہ افراد نے ہميشہ كاميابى كے موقعہ پر دشمنوں كے ساتھ نہايت لطف و محبّت كا سلوك كيا ہے _ فتح خيبر كے بعد ، خيبر كے جن افراد نے زيادہ مال صرف كر كے جنگ احزاب كى عظيم شورش بر پا كى تھى اور اسلام كو خاتمہ كے دہانہ پر لاكھڑا كيا تھا ان كے سروں پر پيغمبررحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے لطف و عطوفت كا سايہ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہيں اجازت دى كہ سرزمين خيبر ميں اپنے گھروں ميں كام اور حسب سابق كھيتى باڑى ميں مشغول رہيں اس كے بدلے خيبر كى آمدنى كا آدھا حصّہ مسلمانوں كو ديں_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح كے وقت نيزے كى نوك پر اسلام مسلّط نہيں كيا بلكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان كو مذہبى شعائر و رسوم كى ادائيگى كى آزادى مرحمت فرمائي_(۲)

مال غنيمت

فتح خيبر اور يہوديوںكو غير مسلح كرنے كے بعد كافى مقدار ميں ہتھيار ، جنگى سازو سامان ، يہوديوں كے زيورات سے مالامال خزانہ ، كھانے كے برتن ،كپڑے ، بہت سے چوپائے اور كھانے پينے كا بہت زيادہ سامان مال غنيمت كے طور پر لشكر اسلام كے ہاتھ آيا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ ايك شخص جانبازان اسلام كے در ميان اعلان كرے كہ '' ہر مسلمان پر لازم ہے كہ مال غنيمت كو بيت المال ميں لا كر جمع كردے _چاہے وہ ايك سوئي اور دھاگہ ہى كيوں نہ ہو _ اس لئے كہ خيانت ننگ و عار ہے اور قيامت ميں اس كى سزا آگ ہے_(۳)

۱۶۴

پھر عادلانہ تقسيم كے لئے تمام مال غنيمت ايك جگہ جمع ہوا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ اس ميں سے كچھ نقد كى صورت ميں لوگ تبديل كر لائيں _

'' فروہ'' جو مال غنيمت بيچنے كے كام پر مامور كئے گئے تھے ، انہوں نے مال غنيمت ميں سے ايك دستار ،دھوپ سے بچنے كے لئے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى ، فراغت كے بعد دستار اتارے بغيربے خبرى كے عالم ميں اپنے خيمہ ميں چلے گئے وہاں دستار كاخيال آيا تو فوراً خيمہ سے باہر نكلے اور دستار مال غنيمت كے ڈھير پر ركھ دى _ جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو يہ خبر ملى تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ آگ كى دستار تھى جو تم نے اپنے سر پر باندھ ركھى تھى _(۴)

مال غنيمت ميں خيانت كى سزا

سپاہيوں ميں سے '' كَركَرہ'' نامى ايك شخص رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مركب كى نگہبانى پر مامور تھا واپسى كے دوران اسے ايك تير لگا اور وہ مارا گيا_رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لوگوں نے پوچھا كہ كيا ''كركرہ''شہيد ہے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' مال غنيمت ميں سے عبا چرا نے كے جرم ميں اب آگ ميں جل رہا ہے''_

اس موقع پر ايك شخص نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كہا كہ '' ميں نے بغير اجازت كے ايك جوڑا جوتا مال غنيمت سے لے ليا ہے _'' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرما يا '' واپس كردو ورنہ قيامت كے دن آگ كى صورت ميں يہ تمہارے پيروں ميں ہوگا _(۵)

مال غنيمت كى تقسيم

خمس نكالنے كے بعد ، جانبازان اسلام كے در ميان مال غنيمت تقسيم ہوا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے

۱۶۵

ان عورتوں كو جنہوں نے لشكر اسلام كى مدد اور تيمار دارى كى تھى بيش قيمت گلوبند و غيرہ عطا فرمائے_(۶)

ايك شخص كو ايك خرابہ سے دو سو درہم ملے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس نكال ليا اور بقيہ در ہم اس كو ديدئے_(۷)

لشكر اسلام خيبر سے كوچ كرنے ہى والا تھا كہ مہاجرين حبشہ كے سرپرست جعفر ابن ابى طالب حبشہ سے واپس آگئے جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مدينہ ميں نہيں پايا تو خيبر كى طرف چل پڑے _ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر(ع) كى واپسى پر بہت خوش ہوئے سات قدم ان كے استقبال كے لئے بڑھے اور فرمايا سمجھ ميں نہيں آتا كہ كس بات كے لئے زيادہ خوشى مناؤں ؟فتح خيبر كے لئے يا جعفر كى واپسى كے لئے؟''(۸)

خيبر پر حملے كے نتائج

خيبر كا حملہ ، اسلام كے خلاف يہوديوں كى اقتصادى اور جنگى طاقت كى كمى كا باعث بنا_ اس حملے كے دوسرے نتائج ميں سے ايك يہ ہے كہ ، يہوديوں كے اس گروہ كے ہتھيار ڈال دينے كى بدولت مشركين كى فوج ميں خوف و ہراس پھيل گيا اوراسلام كى تحريك مزيد پائيدار ہوگئي_

خيبر ميں لشكر اسلام كى كاميابى كے اسباب

۱_ بہترين جنگى حربوں اور موثر حكمت عملى كا استعمال

۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كى دقيق اور حكيمانہ سپہ سالارى اور لشكر اسلام كا سپہ سالار كے حكم پر مكمل عمل كرنا_

۱۶۶

۳_ جنگى حوالے سے مناسب جگہ پر پڑاؤ

۴_ خيبر كے كامل محاصرے تك لشكر اسلام كى مكمل پوشيدگى _

۵_ دشمن كے حالات كى اطلاع او ر ہر قلعہ ميں لشكر كى تعداد و كيفيت كے بارے ميں مكمل معلومات _

۶_ حضرت على (ع) كى بے امان جنگ '' ايسى جنگ كہ دشمن كے نقصانات ميں سے آدھا نقصان دست زبردست حيدر كرار كى توانائي كا نتيجہ تھا_

فدَك

خيبر سے ايك منزل اور مدينہ سے ۱۴۰ كيلوميٹر دور كچھ يہودى فدك نامى ايك قصبہ ميں رہتے تھے_يہ لوگ خيبر كے يہوديوں كے انجام سے خوفزدہ تھے ا ور خدا نے ان كے دل ميں خوف و دہشت مزيد بڑھاديا _ اس وجہ سے انہوں نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے نمائندہ كے جواب ميں ايك شخص كو معاہدہ صلح كے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معاہدہ كيا كہ آدھا فدك آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حوالہ كريں گے اور اسميں كھيتى كرنے كے ساتھ ساتھ اس كى آمدنى بھى ان كے حوالہ كريں گے _(۹)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فدك فاطمہ زہراء سلام اللہ عليھا كو عطا كرديا _ فدك كى سالانہ آمدنى ، ۲۴۰۰۰درہم تھى جناب فاطمہ(ع) اس آمدنى كا بيشتر حصّہ بے سہارا لوگوں كى امداد اور اجتماعى مصالح ايسے امور خير ميں صرف كرتى تھيں _(۱۰)

غزوہ وادى القري( ۷ ھ ق)

خيبر كى جنگ ختم ہونے كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدينہ سے ۳۵۰ كيلوميٹر دور وادى القرى كى

۱۶۷

طرف روانہ ہوئے جو يہوديوں كا ايك اہم مركز شمار كيا جاتا تھا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس كا محاصرہ كر ليا ، قلعہ چند دنوں تك لشكر اسلام كے محاصرے ميں رہا _ انجام كار فتح و كامرانى كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زمينوں كو انہى كے قبضہ ميں رہنے ديا اوروہى معاہدہ جو خيبر كے يہوديوں سے ہوا تھا ان سے بھى طے پايا_(۱۱)

تَيمائ( ۷ ھ ق)

مسعودى كى تحرير كے مطابق '' تيمائ''(۱۲) كے لوگ يہودى اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمن تھے جب ان لوگوں نے وادى القرى كے فتح ہونے كى خبر سنى تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے صلح كرلى اور جزيہ دينے پر تيار ہوگئے(۱۳) اس طرح سے جزيرة العرب سے يہوديوں كى طرف سے جنگى خطرہ بالكل ہى ختم ہوگيا_

فتح خيبر كے بعد انجام پانے والے سرايا

خيبر كى فتح كے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے ديرينہ دشمن كى طرف سے مطمئن ہوگئے اور مدينہ ميں وہ امن و سكون ہوا جو پہلے كبھى نہ تھا _ماہ صفر سے لے كر ذيقعدہ تك چند مہينوں كى مدّت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف چھ گروہ اطلاعات حاصل كرنے يا ان بكھرے دستوں اور جماعتوں كى تنبيہ و سزا كے لئے روانہ فرمائے جنہوںنے امن و امان ميں رخنہ ڈال ركھا تھا_ ان سرايا كے علاوہ كوئي دوسرا جنگى حملہ وقوع پذير نہيں ہوا_(۱۴)

مكہ كى طرف ( عمرة القضائ)

يكم ذيقعدہ ۷ ھ(بروز جمعرات بمطابق ۳ فرورى سنہ ۶۲۸ئ)

۱۶۸

صلح حديبيہ كے ايك سال بعد صلح نامہ كے مطابق مسلمان عمرہ بجالانے كے لئے تين روز تك مكہ ميں ٹھہر سكتے تھے _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لشكر اسلام كے دو ہزار افراد كے ساتھ عمرہ كے لئے روانہ ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ صلح حديبيہ اور بيعت رضوان ميں شامل تمام افراد موجود تھے سوائے خيبر ميں شہيد يا اس سے قبل وفات پا جانے والے مسلمانوں كے ، البتہ ك۱چھ دوسرے لوگ بھى سفر ميں شريك ہوگئے تھے_

معاہدے كے مطابق چونكہ مسلمان سوائے تلوار كے (جو مسافر كا اسلحہ سمجھا جاتا تھا)اپنے ساتھ زيادہ ہتھيار نہيں ركھ سكتے تھے_ اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ممكنہ خطرے سے بچنے كے لئے لشكر اسلام كے ايك سردار كو دوسو جاں بازوں كے ہمراہ كافى اسلحہ كے ساتھ آگے بھيج ديا تا كہ وہ لو گ '' مرّ الظّہران'' پر مكہ سے ۲۲ كيلوميٹر شمال ميںٹھہريں اور ايك درّہ ميں آمادہ رہيں _

مسلمان ، مكہ كے قريب پہنچے ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناقہ قصوى پر سوار اور عبداللہ ابن رواحہ مہار تھامے ہوئے فخر كے ساتھ رجز پڑھتے جاتے تھے_

دو ہزار مسلمان خاص شان وشوكت كے ساتھ جبكہ ان كى آواز فرط شوق سے لرزرہى تھى '' لبيك اللّہم لبيك'' كى آواز بلند كرتے جارہے تھے_ برسوں بعد ، كعبہ كى زيارت كى توفيق نصيب ہوئي تھي_

قريش نے شہر مكہ خالى كرديا تھا اور پہاڑ كى بلنديوں سے مسلمانوں كى جمعيت كو ديكھنے ميں مشغول تھے_ مسلمانوں كى صدائے لبيك كى پر شكوہ گونج نے ان كے دلوں پر وحشت طارى كردى تھى ، عمرہ ادا كرنے كے بعد احتياطى فوج كى جگہ دوسرے گروہ نے لے لى اور انہوں نے عمرہ كے فرائض انجام ديئے_

۱۶۹

مكہ ميں تين روزہ قيام كى مہلت تمام ہوئي _ قريش نے ايك شخص كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس بھيجا اور مطالبہ كيا كہ جتنى ج ى ہو سكے مكّہ سے نكل جائيں_

اس سفر ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مكّہ كے شمال ميں ۱۲ كيلوميٹر كے فاصلہ پر مقام َسرف ميں جناب ميمونہ سے عقد فرمايا اور اس طرح قريش كے در ميان اپنى حيثيت اور زيادہ مضبوط كرلي_(۱۵)

عمرة القضاء كے بعد ۷ ھ ميں چار دوسرے سرايا بھى پيش آئے_

جنگ موتہ

يكم جمادى الاوّل ۸ ھ بمطابق اگست،ستمبر ۶۲۹ئ

عالمى استكبار سے پہلا مقابلہ

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بادشاہ بُصْرى كے پاس ايك سفير بھيجا سفير رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب شام كى سرحد پر واقع سرزمين ''موتہ ''پر(۱۷) پہنچے تو وہاں كے حاكم نے سفير كو قتل كر ديا _(۱۸) ربيع الاول كے مہينہ ميں پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى طرف سے ۱۶ مبلغين مقام '' ذات اَطلاح'' كے سفر پر مامور كئے گئے وہ بھى اسى سرزمين كے لوگوں كے ہاتھوں قتل كرديئے گئے _ ان ميں سے ايك آدمى زخمى ہوا اور لاشوں كے بيچ گر پڑا اور پھر كسى طرح فرار ہو كر مدينہ پہنچا_(۱۹)

يہ واقعات سبب بنے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موتہ كى طرف ايك لشكر روانہ فرمائيں_

جہاد كا فرمان صادر ہوتے ہى تين ہزار مسلمان جمع ہوگئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے سپہ سالاروں كو مندرجہ ذيل ترتيب كے مطابق معين فر مايا_

۱۷۰

جب تك زيد ابن حارثہ زندہ رہيں وہ تمہارے سپہ سالار ہوں گے اور اگر زيد شہيد ہوگئے تو پھر جعفر ابن ابى طالب(۲۰) او ر ا گر وہ بھى شہيد ہو گئے تو عبداللہ ابن رواحہ اور اگروہ بھى شہيد ہوگئے تو مسلمان اپنے درميان سے خود ہى ايك سالار كا انتخاب كر ليں(۲۱)

گريہ كيوں؟

لشكر كى روانگى كے وقت اہل مدينہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ جانبازان اسلام كو رخصت كرنے كے لئے جمع ہوئے عبداللہ ابن رواحہ گھوڑے پر سوار تھے اور آگے اپنے بيٹے كو سوار كئے ہوئے تھے اور اسى حالت ميں شدّت كے ساتھ گريہ فرمارہے تھے _ لوگوں نے سوچا كہ وہ بيوى اور بيٹے كى محبت اور ان سے جدائي كے غم ميں يا موت كے خوف سے رورہے ہيں عبداللہ ابن رواحہ جب لوگوں كے گمان كى طرف متوجہ ہوئے تو سر اٹھايا اور كہا '' اے لوگوں ، ميرا گريہ زندگى ، بيوي، بيٹے، گھربار اور خاندان كى محبّت ميں نہيں ، ميں شہادت سے نہيں ڈرتا اور نہ ہى اس وجہ سے رورہا ہوں بلكہ ميرے گريہ كا سبب قرآن كى مندرجہ ذيل آيت ہے _

''( و انْ منْكُمْ الاّ وَاردُهَا كَانَ عَلى رَبّكَ حَتْمَاً مَقْضيّاً ثُمَّ نُنَجيَ الَّذينَ اتَّقَوا وَ نَذَرُ الْظَالمينَ فيهَا جثيّاً ) (۲۲)

''تم ميں سے كوئي شخص باقى نہيں رہے گا جز اس كے كہ دوزخ ميں جائے اور يہ تمہارے پروردگا ر كا حتمى حكم ہے _ دوزخ ميں داخل ہونے كے بعد ہم ان افراد كو جو خدا ترس اور

۱۷۱

باتقوا تھے، نجات ديں گے اور ستم گاروں كو چھوڑديںگے تا كہ وہ گھٹنوں كے بل آگ ميں گر پڑيں_

مجھے اطمينان ہے كہ مجھے جہنّم ميں لے جايا جائے گا ليكن يہ كيسے پتہ چلے كہ نجات دى جائے گى _(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں كے ساتھ شہر كے دروازہ تك مجاہدين كو رخصت كيا اور فرمايا ''دفع اللہ عنكم و ردّكم سالمين غانمين'' يعنى خدا تمہارا دفاع كرے اور سلامتى اور غنيمت كے ساتھ واپس پلٹائے ليكن عبداللہ ابن رواحہ نے جواب ميں شعر پڑھا جس كا مطلب تھا_ميں خداوند رحمان سے مغفرت طلب كرتا ہوں اور اس سے شمشير كى ايسى ضربت كا خواہاں ہوں جو ميرى زندگى كو ختم كردے_(۲۴)

خداحافظ كہتے وقت عبداللہ ابن رواحہ نے پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نصيحت كرنے كى خواہش كى ، حضرت نے فرمايا '' جب تم ايسى سرزمين پر پہنچو جہاں اللہ كى عبادت كم ہوتى ہے تو اس جگہ زيادہ سجدے كرو''_عبداللہ نے كہا كچھ اور نصيحت فرمائيں ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدا كو ياد كرو، خدا كى ياد مقصد تك پہنچنے ميںتمہارى مددگار ہے ''(۲۵) _رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كے اميروں كو حكم ديا كہ '' خدا كے نام سے اس كى راہ ميں جنگ كرواور جو خدا كا انكار كرے اس سے لڑو _ دھوكہ بازى نہ كرو، بچوں كو قتل نہ كرو، جب مشركين سے سامنا ہوتو تين چيزوں ميں سے ايك كى دعوت دو اور جب كسى ايك كو قبول كرليں تو ان سے دست بردار ہو جاؤ _ پہلے اسلام كى دعوت دو اگر قبول كرليں تو ان سے جنگ نہ كرو_ دوسرے ان سے مطالبہ كرو كہ اپنى زمين سے چلے جائيں اور ہجرت كريں اگر قبول كرتے ہيں تو ان كے لئے وہى حقوق ہيں جو دوسروں كے لئے ہيں ،اگران دونوں باتوں كے قبول كرنے سے انكار كريں

۱۷۲

تو جزيہ ادا كرنے كى دعوت دو اگر ان تمام باتوں سے سرتابى كريں تو خدا سے مدد مانگو اور ان سے جنگ كرو''(۲۶) _

غير مساوى طاقتوں كى جنگ

لشكر اسلام موتہ كى جانب روانہ ہوا_ جنوب عمان ميں ۲۱۲ كيلوميٹر دور مقام ''معان''پرخبر ملى كہ بادشاہ روم ہرَقُل ايك لاكھ سپاہيوں كو ''بلقائ'' كے علاقہ ميں سرزمين ''مآب'' تك بڑھا لا يا ہے_ اور اس علاقہ كے ايك لاكھ عرب جنگجو روميوں كى مدد كے لئے لشكر روم سے آملے ہيں _

يہ خبر اميران لشكر كے آپس ميں مشورہ كا سبب بنى _ شروع ميں تو ان كا ارادہ تھا كہ اس واقعہ كى خبر پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو دى جائے اور ان سے معلوم كيا جائے كہ كيا كرنا چاہيئےكن عبداللہ ابن رواحہ نے شجاعانہ و حماسہ ساز تقرير كے ذريعے انہيںاس فكر سے بازر كھا_ آپ نے لشكر كو خطاب كرتے ہوئے كہا '' اے لوگوں خدا كى قسم ، جو چيز تمہيں اس وقت ناپسند ہے اسى كو طلب كرنے كے لئے تم نكلے ہو يہ وہى شہادت ہے جس كے شوق ميں تم نے سفر كى زحمت برداشت كى ہے ، ہم نے كبھى بڑے گروہ ، كثير جماعت اور عظيم لشكر كے ذريعہ جنگ نہيں كى ،ہم ايمان كى طاقت سے لڑتے ہيں جس كى بدولت خدا نے ہميں بزرگى دى ہے ، اٹھو اور اپنے راستہ پر چل پڑو ہمارے سامنے (احَدُ الحسنين ) دوا چھے راستے ہيں ، فتح يا شہادت_(۲۷)

عبد اللہ ابن رواحہ كى شعلہ بار تقرير كے بعد لشكر اسلام ٹڈى دل لشكر كى طرف چل پڑا _ اور بلقاء كى سر حد پر روم كا دو لا كھ كا لشكر تين ہزار مجاہدين سے روبرو ہوا _ لشكر اسلام كى بے

۱۷۳

امان جنگ شروع ہوئي اور اللہ والے جو شہادت كو بقاء كاراز سمجھتے تھے، شہادت كے استقبال كے لئے دوڑ پڑے_

لشكر اسلام كے دلير سردار جعفر ابن ابى طالب(ع) كى شہادت

جنگ كے شور و غل ميں جعفر ابن ابى طاب نے پرچم ہاتھ ميں ليا اور مردانہ وار قلب لشكر پر حملہ كرديا اور ان كے نرغہ ميں گھر گئے آپ نے اپنے گھوڑے كو پيچھے چھوڑ ديا تا كہ وہ دشمن كے ہاتھ نہ آسكے اور پيادہ لڑتے رہے(۲۸) جب آپ كا داہنا ہاتھ قلم ہوا تو پرچم كو بائيں ہاتھ ميں سنبھالا يہاں تك كہ آپ كا باياں ہاتھ بھى كٹ گيا اس كے بعد آپ نے پرچم كو سينے سے لگاليا _ يہاں تك كہ شہادت كى سعادت سے مشرف ہوئے خدا نے ان كے كٹے ہوئے ہاتھوں كے بدلے دو پر عنايت كئے تا كہ وہ فرشتوں كے ساتھ جنّت ميں پرواز كريں اس لئے آپ(ع) '' جعفر طيار'' كے لقب سے ملقب ہوئے _(۲۹)

عبداللہ ابن رواحہ اور زيد ابن حارثہ كى شہادت

جناب جعفر كى شہادت كے بعد زيد ابن حارثہ نے پرچم اٹھايا اور لشكر كفر پر حملہ كرديا اور دليرانہ جنگ كے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے _ تيسرے سردار لشكر عبداللہ ابن رواحہ نے پرچم اٹھايا تھوڑى دير تك سوچتے رہے كہ جنگ جارى ركھى جائے يا نہيں ، آخر كار رجز پڑھتے ہوئے سپاہ دشمن پر حملہ آور ہوئے_

اے نفس ، اگر تو ابھى قتل نہيں ہوگا تو بالآخر مرہى جائے گا_كبوتر(فرشتہ) مرگ آن پہنچا ہے _

۱۷۴

جو تيرى آرزو تھى اس كا وقت بھى آگيا ہے _

اگر ان دونوں (جعفر اور زيد)كے راستے پر چلو گے تو نجات پاجاؤگے_

يہ رجز پڑھ كر عبداللہ دليرانہ انداز ميں قلب لشكر پر حملہ آور ہوئے ان كى تلوار كافروں كے سروں پر موت كے شعلے بر سار ہى تھى _ آخر كار عبداللہ بھى اپنے رب سے جا ملے اور انہيں اسى انداز ميں شہادت نصيب ہوئي جو انہوں نے خداوند عالم سے طلب كى تھى كہ ان كے جسم كو گلگوں بناديا جائے_(۳۰)

مجاہدين كى واپسي

عبد اللہ ابن رواحہ كى شہادت كے بعد سپاہيوں كى رائے اور پيش كش سے خالد ابن وليد(۳۱) سردار لشكر بنے _ خالد نے جنگ كو بے نتيجہ ديكھا اور رات تك تھوڑى بہت پراگندہ طور پر جنگ جارى ركھى ، رات كو جب دونوں لشكر جنگ سے رك گئے تو خالد نے لشكر گاہ كے پيچھے بہت سے سپاہيوں كو بھيجا تا كہ صبح كو خوب شور و غل مچاتے ہوئے لشكر سے آمليں _ صبح شور و غل سنكر روميوںنے يقين كر ليا كہ مدينہ سے ايك عظيم امدادى لشكر آن پہنچا ہے _ چونكہ رومى مسلمانوں كى تلوار كى طاقت اور ان كے جذبہ شہادت كوديكھ چكے تھے اس لئے جنگ ميں پس و پيش كرتے ہوئے حملہ كرنے سے باز رہے اور مسلمانوں كے حملہ كا انتظار كرتے رہے اور جب انہوں نے ديكھا كہ خالد كا حملہ كا كوئي ارادہ نہيں ہے تو عملى طور پر جنگ بندى ہو گئي _ خالد نے عقب نشينى كے ذريعہ مسلمانوں كو دشمن كے دولا كھ جنگجوؤں كے چنگل سے بچاليا_

اس جنگ كے نتيجہ ميں ايك طرف مسلمان روميوں كے جنگى حربوں اور طريقہ كار سے

۱۷۵

آگاہ ہوگئے اور دوسرى طرف شہادت كے شيدا لشكر اسلام كا رعب و دبدبہ روم كى مغرور فوج كے دلوں ميں بيٹھ گيا_ لشكر مدينہ واپس آيا لوگ نہايت بر انگيختہ اور غيظ وغضب كے عالم ميں تھے اور سپاہى ملول و خاموش ، لوگ آگے بڑھے اور خاك اٹھا كر سپاہيوں كے چہروں پر ڈالنے اور شور كرنے لگے كہ '' اے فراريو تم لوگ خدا كے راستے سے فرار كرتے ہو؟ سپاہى اپنے گھروں ميں چلے گئے اور ملامت كے خوف سے ايك مدّت تك گھروں سے باہر نہ نكلے _ يہاں تك كہ نماز جماعت ميں بھى نہيں آتے تھے _ پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' يہ لوگ فرارى نہيں ہيں اور انشاء اللہ حملہ كرنے والے ہو جائيں گے''(۳۲) _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعفر ابن ابيطالب(ع) كے سوگ ميں

مسلمانوں كى كيفيت اور خصوصاً جعفر كى موت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بے حد غمگين تھے _ حضرت جعفر كے شہيد ہونے پر آپ نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدّت كے ساتھ گريہ كيا جعفر كے گھر والوں كو تسلّى دينے كے لئے ان كے گھر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ '' ميرے بچے ، عون ومحمد اور عبداللہ كہاں ہيں ؟ جناب جعفر كى بيوى اسمائ، حضرت جعفر كے بيٹوں كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں لائيں ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہيد كے بچوںكو پيار كيا ، گلے لگايا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى آنكھوں سے آنسو نكل كرڈاڑھى پر بہنے لگے _حضرت جعفر كى بيوى نے پوچھا _ '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا ہوں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرے بچوّںكو اس طرح پيار كررہے ہيں جيسے كسى يتيم كو پيار كياجاتا ہے گويا ان كے باپ اس دنيا ميں نہيں رہے ؟''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمايا ، ہاں وہ قتل كرديئےئے ، پھر فرمايا، اے اسماء ايسا نہ ہو كہ تم اپنى زبان سے كوئي ناروا بات نكالو اور سينہ كو بى كرو ميں تمہيں خوشخبرى سناتا ہوں ، خدا نے جعفر كو دو ، ''پَر'' عطا كئے ہيں جن سے وہ بہشت ميں پرواز كرتے ہيں _(۳۳)

۱۷۶

جنگ ذات السّلاسل

جمادى الثانى ۸ ھ ق ستمبر ،اكتوبر ۶۲۹ ئ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اطلاع ملى كہ قبلائل بَليّ اور قضاعة كے كچھ لوگ جمع ہو كر مدينہ پر حملہ كرنے كى فكر ميں ہيں _

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے لشكر تيار ہوا اور اس كى سپہ سالارى عمروبن عاص كے سپرد ہوئي _ اسكى وجہ يہ تھى كہ عمرو كى بڑى ماں (دادى يا ناني) قبيلہ بليّ سے تھى رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چاہا كہ عمرو بن عاص كو سپہ سالارى ديكر اس گروہ كے دلوں كو اسلام كى طرف مائل كيا جائے _ عمروبن عاص اور اس كا لشكر دن ميں كمين گاہ ميں چھپے رہتے اور راتو ں كو سفر كرتے جس وقت دشمن كے قريب پہنچے تو پتہ چلا كہ دشمن كى تعداد زياد ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو عبيدہ جراح كو دو سو فراد كے ايك دستہ كے ساتھ مدد كے لئے بھيجا عمروبن عاص كے لشكر نے ابو عبيدہ كے امدادى لشكر كے ساتھ قبائل بليّ ، عذرہ اور بَلْقين كے تمام رہائشےى علاقہ كا دورہ كيا ليكن دشمن پہلے ہى خبر پا كر علاقہ سے بھاگ چكے تھے _

صرف آخرى مقام پر لشكر اسلام اور لشكر كفر كے در ميان ايك گھنٹہ تك ٹكراؤہوا جس ميں ايك مسلمان زخمى اور دشمن شكست كھا كر فرا كر گئے _(۳۴)(۳۵)

۱۷۷

سوالات

۱_خيبر ميں لشكر كى كاميابى كے اسباب كيا تھے؟

۲_مال غنيمت ميں خيانت كے سلسلہ ميں ايك واقعہ بيان كيجئے_

۳_ فدك كاواقعہ كيا ہے؟

۴_ عمرة القضاء كس مہينہ ميں تھا؟

۵_ روم كى بڑى طاقت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے سپاہيوں نے كيوں جنگ كى ؟

۶_ روانگى كے وقت عبد اللہ ابن رواحہ كيوں رورہے تھے؟

۷_ جعفر ابن ابيطالب'' جعفر طياّر'' كے نام سے كيوں مشہور ہوئے؟

۱۷۸

حوالہ جات

۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۳

۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۷۱ و سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۱ _۳۵۲

۳_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۰

۴_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۱

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳ ص ۳۵۶ _۳۵۷

۷_مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۲

۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۶۸۳_زاد المعاد ج ۳ ص ۳۳۳ _سنن ابى داود (۲۷۴۵ ) صحيح بخارى ج ۷ ص ۳۷۱

۹_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۰۶_

۱۰_پوہشى عميق از زندگانى على (ع) ص ۲۶۱ _۲۶۶

۱۱_تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۷ _۱۶ سے تلخيص _ محمد رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ص۲۸۴_فتوح البلدان ص ۴۷

۱۲_ تيماء ، مدينہ سے آٹھ منزل پر مدينہ اور شام كے راستہ ميں ايك مقام ہے _

۱۳_التنبيہ والاشراف ص ۲۲۴

۱۴_تاريخ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مصنفہ ڈاكٹر آيتى كے مطابق ص ۴۸۶ _۴۸۳_

۱۵_مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۰ _ ۷۳۱ يہاں خلاصہ ذكر كيا گيا ہے_

۱۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۱۷_ يہ سرزمين ا ب شہداء موتہ كى آرام گاہ ہے اور سرزمين اردن ہاشمى ميں واقع ہے_

۱۸_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۵ _ بحارالانوار ج ۲۱_۵۸

۱۹_ طبقات كبرى ج ۲ ص ۱۲۸_مغازى ج ۲ ص ۷۸۲

۲۰_ اگر چہ اہل سنت كى بہت سى تاريخوں ميں يہ بات مرقوم ہے كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لشكر كا پہلا اميرزيد بن حارث كو

۱۷۹

معيّن فر ما يا اور زيد كے قتل ہوجانے كى صورت ميں جعفر بن ابى طالب اور ان كے بعد عبداللہ بن رواحہ ليكن كعب بن مالك كے شہداء موتہ كے بارے ميں مرثيہ سے ثابت ہوتا ہے كہ جعفر لشكر كے پہلے امير تھے_ كعب كہتے ہيں كہ '' اذ يہتدون بجعفر ولوائة قدّام اوّلہم فنعم الاوّل'' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۸_

۲۱_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸ _ بحار الانوار ج ۲۱ ص ۵۵ _

۲۲_ سورہ مريم آيت ۷۱_۷۲_

۲۳_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵ _ اور تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۷

۲۴_'' ولكننّى ا سا ل الرّحمن مغفرة وضَربةً ذا ت فرع: تقذف الزّبداً '' سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۵_

۲۵_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۸_

۲۶_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۵۷بحارالانوار ج ۲۱ ص ۲۱_

۲۷_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۱۷ _ تاريخ طبرى ج ۳ ص ۳۸_

۲۸_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۵۴_

۲۹_ بحارالانوار ج ۲۱ ص ۶۲ _ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۰_

۳۰_ سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۱ _

۳۱_ خالد ابن وليد اور عمرو ابن عاص دونوں آپس ميں دوست اور اسلام كے سخت ترين دشمن تھے مسلمانوں كى پے در پے فتوحات او رعمرة القضاء كے موقع پر ان كى شا ن و شوكت و عظمت ديكھنے كے بعد ان لوگوں نے يہ سمجھ ليا كہ اسلام كى كاميابى اور فتح يقينى ہے _ اس وجہ سے ان دونوں نے يہ الگ الگ طے كيا كہ مسلمان ہوجائيں _ لہذا دونوں ايك دوسرے سے الگ اور بے خبر مدينہ كى طرف چلے اور راستہ ميں اچانك ايك دوسرے سے مل گئے اور پھر مدينہ ميں رسول خدا كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور اسلام قبول كيا _(مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۴۱ _۷۵۰ملاحظہ ہو)_

۳۲_ مغازى واقدى ج ۲ ص ۷۶۵_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416