ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 416
مشاہدے: 174931
ڈاؤنلوڈ: 3031


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174931 / ڈاؤنلوڈ: 3031
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 1

مؤلف:
اردو

اس کے بعد اس نے مامون کو اپنی داستان سنائی۔مامون نے ہنستے ہوئے حکم دیا ''مانی '' کی تصویر لاکر اس کے سامنے رکھی جائے ۔طفیلی نے مانی پر لعنت بھیجی اور اس سے نفرت وبیزاری کااظہار کیا اورکہا: تصویرکو میرے حوالہ کردو تا کہ اس پر نجاست کروں ،خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ مانی کون ہے ؟ یہودی ہے یا مسلمان ؟! ٨

مذکورہ بیانات سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ زندیقیوں سے مراد وہی مانی کے پیرو ہیں ، اگر چہ یہ نام بہت نادر موارد میں اس کے علاوہ بھی استعمال ہوا ہے ۔

یہ واضح ہونے کے بعد کہ زندیقی ،حقیقت میں مانی کے پیرو تھے اور وہی ان کی بنیاد ہے،اب اس کی باری آتی ہے کہ ہم دیکھیں کہ خود''مانی''کون ہے اور اس کادین ،کیسا ہے ؟!!

۴۱

مانی اور اس کادین

مانی کون ہے؟

استخرج مانی من ادیان آراء فلسفیة مختلفة دیناً واحداً عجیباً

''مانی نے مختلف ادیان اور فلسفوں سے ایک نیااور عجیب دین ایجاد کیا''۔

) مؤلف (

''مانی ''ابن ''بتک'' ٢١٦ع میں بابل کے شہروں میں سے ''رہایکی ''نام کے ایک شہر میں پیدا ہواہے۔

مانی ،جس کے پیر ٹیڑھے تھے ،نقاشی میں انتہائی ماہر اور بہترین خطاط تھا۔اس نے خود ایک خط اور بعض مخصوص لغات اور اصطلاحات ایجاد کئے تھے ،پھر اس نے اپنی تمام تالیف بجز ''سابرقان '' جو اس نے فارسی میں لکھی ہے کو اپنے ایجاد کردہ خط میں سریانی زبان میں لکھا ہے ۔

مانی کا باپ،''بتک''پہلے بت پرست تھا،بعد میں دین ''دیصان '' ٩ قبول کیا مانی اسی دین میں پرورش پائی دین ''دیصان '' نے اس کے افکار پر گہرا اثر ڈالا۔

مانی نے چوبیس ٢٤ سال کی عمر میں پیغمبری کا دعویٰ کیا ١٠ اور مختلف ادیان ،جیسے : زردشتی،ماندائید صابئہ ملسان،ہلینیسم (جو کہ اسکندر کے بعد یونان کا فلسفہ اشراق ہے)بودھ مذہب اور گنوسیزم سے کچھ چیزیں لے کر ایک سانچے میں ڈال کر ایک ایسا عجیب معجون تیار کیا جس میں سے ہر ایک اپنی دلخواہ چیز حاصل کرسکتاتھا،جیسے:پرہیزگاری ،دنیاسے کنارہ کشی،گناہوں کااعتراف،نماز وروزہ جیسی عبادات اوراوراد واذکار وغیرہ....

۴۲

اس کے علاوہ ہر موضوع ،جیسے :علم ہیئت ،جغرافیہ،علوم طبیعت ،فزیکس،کمسٹری،حیوانات نباتات اور انسانوں کی شناخت ،فرشتوں ،جنات اور دیگر موجودات کی پیدائش ،دنیا کی عمر اور اس کی انتہا کے وقت کے بارے میں ہر مشکل سوال کا توہماتی طریقے سے،عقل ومنطق اور علمی معیار کے خلاف جواب موجود تھا۔

گنوسیزم جو دین مانی کی بنیادی اجزاء کو تشکیل دیتاہے خود ایک خاص دین تھا ،جو ایران اور قدیم یونان کے درمیانی علاقوں کے باشندوں کے اعتقادات اور دین ہلینیسم کی آمیزش سے وجود میں آیا تھا اور بطور خلاصہ عبارت ہے:

دنیا پر حاکم دو بنیادی اصلوں یعنی خیروشر پر ایمان ۔دنیا کے امور پر الٰہی قدرت رکھنے والے سات سیارات پر ایمان۔اور یہ کہ انسان کی روح اشیاء کے حقائق کو پانے ،ترک دنیا اور ازدواج و آمیزش سے پرہیز کرکے بالاخر شرو نجاست کی دنیا سے نجات پاکر خیر وبلندی کی دنیا کی طرف عروج کرسکتی ہے ۔

۴۳

گنوس بذات خود چند فرقوں میں تقسیم ہوتاہے ،جیسے :گنوس یہودیت اور گنوس مسیحیت ۔ مذہب دیصانیہ ومانی کا پہلا اور اس کے باپ بتک کا دوسرا دین تھا دیصان کے بیٹے کے پیرو اور مرقیونیہ ،مرقیون کے پیرو بھی گنوس مسیحیت کے فرقے ہیں ۔گنوس مسیحیت کے ہر فرقہ کی اپنی ایک مخصوص انجیل ہے ۔اور وہ تمام انجیلوں کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی تردید کرتے ہیں( ۱ )

روسی مستشرق ''بارتولد''کااعتقاد ہے کہ :''بردسان''(١٥٥۔٢٢٢ع)پہلا سریانی مؤلف تھا،اور اوسا کے مقام زندگی بسر کرتاتھا۔اس نے گنستیزم نام کے بت پرستی کے فلسفہ اور نصرانیت کے در میان ایک قسم کا رابطہ اور ہماہنگی پیدا کی ۔اس سلسلہ میں جن عقائد و نظریات کو ''بردسان '' نے پیش کیاہے ،انہوں نے مانی کی مانویت کو بہت متاثر کیاہے ۔

ترکیہ کامؤلف ،محمد فؤاد کوبریلی بھی اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب کے حاشیہ پر لکھتاہے :

''گنوس معرفت ِاسرار کی بلندترین حد ہے''(۲)

مانی کا دین

مانی کا مکتب دنیا کی اساس کو دو اصولوں ''نور وظلمت ''اور تین ادوار ماضی ،حال اور مستقبل پر مبنی جانتاہے ۔

ماضی کے دور میں ،نور وظلمت ایک دوسرے سے جدا لیکن ایک دوسرے کے پہلو بپہلو واقع تھے ۔نور اوپر اور ظلمت نیچے اور ہر ایک کا دامن تین اطراف میں پھیلا ہواتھا۔

نور کی دنیا:نظم وضبط ،خوشبختی اور آرام وسکون جیسی تمام نیکیوں کی سرزمین اور ظلمت کی دنیا :تمام برائیوں ،ناپاکیوں ،تشویش وپریشانیوں ،جنگ ومصیبتوں اور بیماریوں کا مرکز ہے ۔

نور کی دنیا پر ''اھورامزدا''کی حکمرانی اور ظلمت وتاریکی کی دنیا پر فرشتہ یا شیطان نام تاریکی کاخدا یا ''اہریمن''حکومت کرتے تھے ۔

ظلمت کی دنیا پانچ طبقوں :کالے بادلوں ،آگ کے خوف ناک شعلوں ،طوفانوں اور

____________________

۱)۔''مانی ودین او''(٣٤۔٣٦)

۲)۔تاریخ الحضارة الاسلامیة ،تالیف ف۔بارتولد طبع مصر سال ١٩٤٢ ع ص١١۔١٢

۴۴

خطرناک بگولوں ،کیچڑ اور بالکل اندھیرے پن پر مشتمل تھی ،ہر طبقہ کی سر پرستی دیو ،شیر ،عقاب و...کی صورت میں ایک شیطان(۱) کے ہاتھ میں تھی ۔

ظلمت کی دنیا کے پانچ طبقوں کو تشکیل دینے والے پانچ عناصر سونا،تانباو... اور پانچ مزے نمکی وتلخی و... تھے۔اور ہر طبقہ ناپاکیوں ،شیطنتوں ،دیؤوں اوردو پا وچار پا وحشی حیوانوں سے بھرا ہواتھا۔

نور کی دنیا کے پانچ طبقے تھے اور ہر طبقہ میں خدا کے اعضاء میں سے ایک عضو ،جیسے:ہوش ،

تفکرو...جو خداکے مظاہر میں قرار پائے تھے ۔نور کی دنیا کا خداوند ایک بادشاہ کے مانند شاہی محل میں جلوہ افروز اور ظلمت کی دنیا کاخدا سور کی شکل میں ناپاکیوں اور کثافتوں کونگلنے میں مشغول تھا۔

ظلمت کی دنیا میں جھگڑے ،دشمنیاں ،جنگ وگریز ، شیاطین کے ایک دوسرے پر مسلسل حملے ،چیر پھاڑ،مار دھاڑ،شور وشر،حیوانیت،شہوت رانی،اوراس قسم کی دوسری نا پاکیاں اور برائیاں نظر آتی ہیں ۔

نور کادرخت :نور کی دنیا ہمیشہ اپنے آپ کو ظلمت کے درخت سے بچا کے رکھتی تھی تاکہ وہ مشتعل ہوکر اس پر حملہ ور نہ ہوجائے ۔بالاخر ظلمت کی دنیا کی تاریکیوں کی وجہ سے جنگ وجدل کا ماحول اس قدر شدید ہوگیا کہ وہ نور کی دنیا کو تہس نہس کرنے پر تل گئے۔اس جنگ وگریز کے ذریعہ عالم بالا یعنی عالم نور تک پہنچ گئے۔عالم بالا کی نورانیت وصفائی وہ دم بخود ہوگئے لہٰذا اس کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے دیووں اور شیاطین کے لشکرکے ذریعہ عالم نور پر حملہ آور ہوگئے تاکہ اسے فتح کرکے عالم ظلمت میں ضم کرلیں ۔

عالم نور کے فرماں رواکے پاس کسی قسم کاجنگی سازو سامان نہیں تھاکہ شیطانوں کامقابلہ

____________________

۱)۔ در اصل عربی میں ''اراکنہ ''ذکر ہواہے ۔

۴۵

کرسکے اور دوسری طرف وہ اپنے طرفدار خداؤں میں سے کسی کو شیاطین سے لڑنے کے لئے بھیجنا بھی نہیں چاہتاتھا۔مجبور ہوکر عالم ظلمت اور ناپاکیوں سے پیکار کے لئے بذات خود آمادہ ہوا۔اس فیصلہ کے نتیجہ میں اس نے پہلی بار کائنات میں ''نہ نہ '' یاحیات وزندگی مطلق کی ماں کے نام سے اپنی تخلیق کو وجود بخشا اور اس نے بھی اپنے طور پر عالم بالا کے پاک ترین جزو یعنی ازلی انسان کی تخلیق کی

انسان ازلی اپنے فرزندوں :عناصر پنجگانہ ،ہوا،پانی اور روشنی و...کے ہمراہ جن میں سب سے آگے بادشاہ نخشب تھا نیچے اترا اور ناپاکیوں کی دنیامیں ظلمت اور وحشت کے ساتھ نبرد آزما ہوا۔لیکن آخر کار انسان ِازلی نے شکست کھائی اور اس کے بیٹے شیاطین کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور شیاطین نے انھیں نگل لیا۔نور کے ٹکڑوں کو دیو اور شیاطین کے ذریعہ نگل لینے اور ان کے شکم کی تاریکی و ظلمت میں قرار پانے سے نور و ظلمت کی آمیزش وجود میں آئی کہ یہی زمانہ ٔ حال کا دور ہے اس دور کو آزادی کا دور کہا جاتا ہے ،یعنی ظلمت و تاریکی سے نور کی آزادی کا دور عالم نور کے فرماں روانے اپنے اس عمل سے عالم تخلیق میں اپنی پہلی قربانی پیش کی ،اس کی اور اس کے فرزند وں کی یہ قربانی ظلمت کے زندان سے نور کی آزادی کے لئے تھی۔

عالم نور و ظلمت کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا ،نور کی یہ کوشش ہے کہ اپنے ٹکڑوں کو ظلمت کے شکم سے آزادی دلائے اور عالم ظلمت یہ چاہتا ہے کہ نور کے ٹکڑے بدستور اس کی ناپاکیوں کے زندان میں باقی رہیں ۔دوسری طرف نور کے خدا نے فرشتوں اور چھوٹے خدا ئوں کو پیدا کرکے ازلی انسان کی مدد کے لئے بھیجا ۔ازلی انسان نے ان فرشتوں اور چھوٹے خدائوں کی مدد سے خود کو ظلمت و تاریکی کے چنگل سے آزاد کیا ،لیکن اس کے بیٹے تاریکی کے شیاطین کے شکم میں بدستور پھنسے رہے ۔

۴۶

عالم نور نے اپنے نور کے ٹکڑوں کو آزادی دلانے کے لئے اس دنیا کو پیدا کیا ۔اور عالم ظلمت نے بھی نور کے ٹکڑون کو بدستور زندانی بنا کر رکھنے کے لئے ناپاک اوربرے کام انجام دینے شروع کئے اور پہلی بار شیاطین کے سردار وں جنھوں نے ازلی انسان کے بیٹوں کو کھا لیا تھا میں سے دو کو آپس میں ملا دیا اس آمیزش کے نتیجہ میں ابوالبشر آدم پیدا ہوا کہ نور کا ایک بڑا حصہ اس کے اندر قیدی بنا تھا ۔اس کے بعد ان دو شیاطین نے پھر سے آپس میں آمیزش کی اور اس بار حواء (تمام انسانو کی ماں ) اپنے اندر تھوڑے سے نور کے ساتھ پیدا ہوئیں ۔

پھر عالم نور کے خدا نے عیسیٰ کو اپنے ایک چھوٹے خدا کے ہمراہ آدم کی مدد کے لئے بھیجا اور اسے رہبانیت سکھائی تاکہ اپنی ہم جنس مادہ یعنی حوا ء سے پرہیز کرے ۔نر دیو (شیطان) نے جب یہ دیکھا تو اس نے اپنی بیٹی حوا سے آمیزش کی ۔اس سے قابیل پیدا ہو ا قابیل نے اپنی والدہ حواء سے ہمبستری کی تو ہابیل پیدا ہوا ،پھر ایک بار اس سے آمیزش کی اس طرح دو بیٹیوں کو جنم دیا ۔اس تمام زادو ولد کے نتیجہ میں عالم نور کے خدا کے ٹکڑوں کے زندان کے اوپر ایک اور زندان بنتا گیا ۔اس طرح آج تک اور جب تک یہ زادو ولدکا سلسلہ جاری ہے ،نور کا حصہ تاریکی کے پیچیدہ زندانوں میں گرفتار ہوتا رہے گا۔

مانی نے تصورات اور توہمات کے ایک طولانی سلسلہ کے ذریعہ انسان ،نباتات ،حیوانات اور ،جمادات کی تخلیق کی کیفیت کے بارے میں اس طرح تصویر کشی کی ہے ۔ملاحظہ ہو:

خدا نے مومنین کی ارواح کو سورج اور نور کی طرف لے جانے کے لئے چاند کو ایک کشتی بنایا ہے تاکہ ان ارواح کو اوپر اور ان کی اصل جگہ کی طرف لے جائے ،مہینہ کے ابتدائی پندرہ دنوں کے دوران یہ کشتی پہلے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے اور مومنین کی ارواح کو جمع کرتے ہوئے بڑھتے بڑھتے کمال تک پہنچتی ہے ،کیوں کہ اس کشتی کے سورج کی طرف جانے کے راستے میں مسلسل ارواح سوار ہوتی رہتی ہیں ۔نصف ماہ یعنی چودہویں کے چاند کے بعد ارواح مقدس کو حمل کرنے والی یہ کشتی رفتہ رفتہ چھوٹی ہوتی جاتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ سورج کے ساحل پر نورانی بار مسلسل اتر کر عالم نور میں قدم رکھتا ہے اور کشتی رفتہ رفتہ خالی ہوتی جاتی ہے اور ایک کشتی پھر ہلال کی صورت میں دنیا کے ساحل کی طرف لوٹتی ہے ۔ہلال اور چودھویں کے چاند کے اسرار کا یہی مطلب ہے !!

۴۷

مانی و خود''فارقلیط''ہے کی ماموریت ،نسل انسان کی نجات اور انسان اور سائر موجودات عالم میں تناسل کے ذریعہ ظلمت کے شکم سے اجزائے نور کی آزادی کے لئے وجود میں آئی ہے ،یہ مأموریت عیسیٰ کی اس ماموریت کے مانند ہے جس میں وہ عالم ازلی میں آدم کی نجات کے لئے بھیجے گئے تھے ،تاکہ وہ آدم کو تولید مثل اور حوا سے آمیزش انجام دینے سے روکیں ۔مانی اس امر پر مامور ہے کہ نور و ظلمت کے درمیان آمیزش کو ختم کردے ۔اس آمیزش کا دور بارہ ہزار سال ہے ۔اس مدت میں سے ٢٧١ھ تک گیارہ ہزار اور سات سو سال گزر ے ہیں ١١ ،اب صرف تین سو سال باقی بچے ہیں کہ ٥٣١ھ میں تعلیمات مانی پر عمل در آمد ہونے کے بعد عالم وجود اور نور و ظلمت کی آمیزش کا خاتمہ ہو جائے گا ۔اس تاریخ کے بعد زوال کا دور اور مستقبل کا زمانہ ہے ،یہ وہ دور ہے جس میں ہر چیز اپنی اصل کی طرف پلٹے گی ۔

عالم بالا یعنی عالم نور میں خیر و خوبی سے بھری بہشتیں ہیں اور مومنین کی ارواح ،فرشتے اور چھوٹے چھوٹے خدا ،سب کے سب نعمتوں سے مالا مال ہیں اور نچلی دنیا ،یعنی عالم ظلمت و تاریکی میں بدی ،ناپاکی بیماریاں دیو ،شیاطین اور بد کردار افراد کی ارواح ہمیشہ دردناک عذاب و مصیبت میں مبتلا رہیں گی ۔١٢

دین مانی میں تکوین کے بارے میں پائے جانے والے اسرار کایہ ایک خلاصہ تھا ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ کیا تھا۔

۴۸

انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ

مانی ،موسیٰ اور ان کی تورات پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ،گوتم بدھ اور زردشت مشرق میں عیسیٰ جو ماہ سے نہیں ہوئے تھے غرب میں پیغمبری پر مبعوث ہوئے ہیں ۔ خود مانی وہی

'' فارقلیط '' ہے ،جس کے ظہور کے بارے میں عیسیٰ نے انسانی معاشرے کو بشارت دی ہے ،اس نے خود عالم وجود کے مرکز بابل میں ظہور کیا ہے اور مأمور ہے کہ ان پیغمبروں کے مقصد اور دین کو آپس میں جمع کر کے تکمیل تک پہنچائے اور اسے دنیا کی تمام زبانوں میں منتقل کرے ۔١٣

پس چوں کہ وہ خود کو عالم بشریت کی راہنمائی کے لئے مبعوث اور اپنے دین کو تمام ادیان کا جانشین جانتا تھا ،لہٰذا خود اس نے اور اس کے جانشینوں نے اس کے افکار و نظریات کو تمام زبانوں میں ترجمہ کرکے تمام عالم بشریت تک پہنچانے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کو سن کر اس کے دین کی طرف مائل ہو جائیں ۔

اسی لئے اس کے پیرو جس ملت میں تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے ،اسی قوم اور مذہب کی اصطلاحا ت سے استفادہ کرتے تھے اور اسی زبان و اصطلاحات میں ان سے مخاطب ہوتے تھے ۔مثلا اگر ایک یہودی کو زندیقی مذہب کی طرف دعوت دینا چاہتے تو دین یہود کی اصطلاحات کو اپنے مطالب سے منسلک کرتے تھے تاکہ اس یہودی کے لئے ان کے مطالب سمجھنے میں آسانی ہو اور زندیقی مذہب اس کے لئے قابل قبول ہو جائے جیسے مہینوں اور فرشتوں وغیرہ کے نام ان کی ہی اصطلاحوں میں بیان کرتے تھے ۔

۴۹

اس لئے جو کتابیں ایرانیوں کے لئے ترجمہ کی گئی ہیں ،ان میں اصطلاحات ،مہینوں کے نام اور پہلوانوں کے نام دین زردشت کے مطابق استعمال کئے گئے ہیں اور ایرانی افسانے بیان کئے گئے ہیں اسی طرح مسیحیوں کے لئے مسیحی اصطلاحات سے پُر،یونانیوں کے لئے ان کے خدائوں کے نام اور اصطلاحات سے سرشار اور چینیوں کے لئے ان کی اصطلاحات اور بودھ مذہب کی تعلیمات میں بات کرتے تھے۔

اسی طرح جب کسی دین سے کسی خدا یا فرشتے کو شامل کیا جاتا تھا،تو اسے اس کے تمام ملازموں اور غلاموں کے ساتھ اس دین میں داخل کیا جاتا تھا۔اس طرح ان اواخر تک چھوٹے بڑے خدائوں اور مذہب مانی میں شیاطین کو دور کرنے کے لئے پڑھے جانے والے اوراد واذکار ،طلسمات اور منتر جنتر کی تعداد بے شمار حد تک بڑھ گئی تھی ۔

یہی امر اور اس کے علاوہ انسانی فطرت سے واضح تضاد، جیسے: لوگوں کو بچے پیدا کرنے سے منع کرنا اور دنیا کو نابودی کی طرف کھینچنا،اس بات کا سبب بنے کہ یہ مذہب اپنی پیدائش اور رظاہر کے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد نابود ہوگیا۔

۵۰

مانی کی شریعت

مانی کی شریعت میں نماز ،روزہ اور گانا یعنی خوش الحانی سے اذکار وغیرہ کاپڑھنا ،پائے جاتے ہیں ۔اور وہ سال میں ایک بار عید مناتے ہیں ۔

ان کی عبادت گاہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔اس دین میں داخل ہونے کاطریقہ یہ ہے کہ انسان پہلے ازدواج ،شہوت ،گوشت اور شراب سے پرہیز کرکے اپنا امتحان لیتاہے۔اگر اس آزمائش میں کامیاب ہوا تو اس دین کوقبول کرنے کے مرحلہ میں داخل ہوتاہے ۔کوئی شخص حقیقت میں مانی کے دین کوپسند کرتا ہو ،لیکن نفسانی خواہشات پر قابو نا پاسکے ،تو وہ عبادت ورریاضت کواپنے اوپر لازم قرار دینے کے علاوہ دین اور صدیقین کے گروہ کے تحفظ کو اپنے اوپر واجب قرار دیتاہے ۔ایسے افراد کو ''سماعین ''کہاجاتاہے ۔مانی کے اکثر پیرو اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ اس نے ان پر ایک خاص قسم کی نماز اور روزہ واجب کیا ہے ۔''سماعین ''سے بالاتر رتبہ ''صدیقین ''کاہے۔ان کے لئے ایک خاص قسم کی عبادت معین کی گئی ہے اور ان پر صرف سبزی پر مشتمل ایک دن کے کھانے کے علاوہ کھانا حرام قرار دیاگیاہے ۔وہ ایک لباس ایک سال تک استعمال کرتے ہیں ۔ان کے لئے واجب قرار دیا گیاہے کہ ہمیشہ سفر میں رہیں اور وعظ و تبلیغ کرتے رہیں ۔

''صدیقین ''سے بالاتر ''قسیسان''کا گروہ ہے ، ان کی تعداد ٣٦٠ افراد پر مشتمل ہے ۔ان میں بالاتر مقام کے حامل ''اسقف ''ہیں جن کی تعداد ٧٢ افراد تک پہنچتی ہے ،ان کے بعد ''معلم '' درجہ ہے اور اس سے اوپر مانی کاخلیفہ ہے اور ان سب کے بالاتر خود ''مانی''قرار پایاہے ۔ ١٥

۵۱

مانی کاخاتمہ

مانی نے چالیس(۱) سال تک دنیا کے مختلف ممالک ،جیسے ہندوستان ،چین ،اور خراسان کادورہ کیا اوراپنے مذہب کی تبلیغ کی ۔وہ ہر جگہ پر اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کوجانشین مقرر کرتاتھا۔

٣١ سال تک ایران کے فرماں رواؤں اور بادشاہوں نے مانی کی حمایت وتائید کی اور یہی سبب بنا کہ اس کا دین اس زمانے میں تمام دنیا میں پھیلا۔آخر کار ایران کے باد شاہ ہرمز کے بیٹے بہرام نے مانی اور اس کے دین کی مخالفت کی اور مانی کو اپنی سلطنت میں تین سال روپوشی کے بعد گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایا۔

بہرام نے اس مقدمہ کے دوران اس سے کہا:تم نہ جنگ کرتے ہو اور نہ شکار کے لئے جاتے ہو اور نہ کسی بیمار کو شفا بخشتے ہو ،آخر تم کس کام کے ہو؟ مانی نے جواب میں کہا:میں نے تیرے بہت سے خدمت گاروں کو شیاطین،سحر وجادو کے شر سے نجات دلائی ہے اور بہت سے بیماروں کو شفا بخشی ہے اور بہت سے لوگوں کو موت کے چنگل سے نجات دلائی ہے !

کہتے ہیں ،بہرام نے اس سے کہا:تم ،لوگوں کو عالم وجود کی نابودی کی دعوت دیتے ہو لہٰذا یہی بہتر ہے کہ حکم دیدوں کہ اس سے پہلے کہ دنیا نابود ہو تم اپنی آرزو کو پہنچ جاؤاور تمھیں نابود کر دیاجائے۔

____________________

۱)۔ابن ندیم نے کتاب ''الفہرست ''کے صفحہ ٤٥٨میں مانی کی مدت عمل چالیس سال بتائی ہے ،جب کہ مانی نے ٢٤٠ ء میں پیغمبری کادعویٰ کیا اور ٢٧٧ء میں ہلاک ہوا ،اس حساب سے اس کی پیغمبری کے ادعا کازمانہ ٣٨ سال تھا۔

۵۲

اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں اور گردن(۱) زنجیر سے جکڑ کر زندان میں ڈال دیاجائے ۔مانی نے اس حالت میں زندان میں ٢٦ روز تک برداشت کیا اور اس کے

بعد مزید تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔مانی کی وفات کی تاریخ ٢٧٧ء لکھی گئی ہے ۔اور کہاجاتاہے کہ وفات کے وقت اس کی عمر ٦٠ سال تھی۔

مانی کے مرنے کے بعد بہرام کے حکم سے اس کا سر تن سے جدا کیا گیا اور اس کی لاش کو شہر کے دروازے پر لٹکا دیاگیا ۔١٦

دین مانی کا پھیلاؤ

مانی کا مذہب چوتھی صدی عیسوی کے بعد دنیا کے مختلف مسیحی نشین علاقوں ،جیسے اسپین،جنوبی فرانس،اٹلی،بلغارستان اور ارمنستان میں پھیلا ۔چودھویں صدی عیسوی تک ان علاقوں میں اس مذہب کے پیرو دکھائی دیتے تھے۔ ۱۷

یہ مذہب ایران کے مشرقی علاقوں ،ہندوستان ،طخارستان اور بلخ میں پھیلا اور آٹھویں صدی میں مانی کا ایک خلیفہ طخارستان کاحاکم بنا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مانی کا مذہب چین میں پھیلا اور تبلیغات کی آزادی اس کے ہاتھ آگئی۔آٹھویں صدی کے اواخر میں مشرقی چین کے بادشاہ نے مانی مذہب اختیار کیا۔لیکن نویں صدی میں اس کا مخالف ہوگیا۔پھر چودھویں صدی عیسوی تک یہ مذہب وہاں پایاجاتارہا۔

مسعودی نے مروج الذہب میں لکھاہے :

''طاقتور ترین اور منظم ترین حکومت جو ٣٣٢ ھ سے ٩٤٣ھ تک ترکیہ میں اقتدار پر تھی وہ حکومت ''کوشان''تھی اور اس کامذہب مانی تھا۔

____________________

۱)۔لکھا گیاہے کہ جو زنجیر مانی کے ہاتھ پاؤں اور گردن میں ڈالی گئی تھی ،اس کاوزن ،آج کے زمانہ کے مطابق ٢٥ کلوگرام تھا۔

۵۳

اسلامی ممالک میں دین مانی :

اسلامی ملک میں خلفاء میں سب سے پہلے جس نے مانی مذہب کی طرف میلان دکھایاوہ ولید دوم ( ١٢٥ ھ۔ ١٢٦ ھ)تھا ١٨ مروان بن محمد ،معروف بہ جعدی (وفات ١٣٢ھ)مانوی مذہب کاپیرو تھا۔اس کا لقب جعدی اس لئے پڑا کہ اس نے اپنے استاد جعد بن درہم سے تربیت وہدایت پائی تھی۔

جب عباسی خلفاء نے زندیقیوں کو قتل عام کرنے کافیصلہ کیا اور ان کی تلاش وجستجو شروع کی ، تومانوی عراق اور مغربی ایران سے بھاگ کر ایران کے مشرق وشمال اور ترکستان کی طرف ہجرت کرگئے ۔

ابن ندیم لکھتاہے :میں معز الدولہ کی حکومت کے زمانے میں تین سو مانویوں کوجانتاتھا کتاب ''الفہرست ''کی تالیف کے وقت ان میں سے صرف پانچ آدمی باقی بچے تھے ۔اس زمانے میں مانویوں نے سغد،بجنک،اور سمرقند کی طرف ہجرت کی۔ ١٩

اب جب کہ زندقہ وزندیقیوں کی تاریخ کا ایک حصہ ہم نے اہل نظر اور محققین کی خدمت میں پیش کیا،تو مناسب ہے سیف کے زمانے میں ان کی کارکردگی اور فعالیت کا بھی کچھ ذکر کریں تاکہ مانی ومانویوں کے مسئلہ پر ہر جہت سے بحث وتحقیق ہوجائے۔

۵۴

مانویوں کی سرگرمی کازمانہ:

مسعودی نے اپنی کتاب ''مروج الذہب''میں اخبار القاہر اور مھدی عباسی کے سلسلے میں یوں ذکر کیاہے :

جب مانی ،ابن دیصان اور مرقیون کی کتابیں عبد اللہ ابن مقفع اور دیگر لوگوں کے ذریعہ فارسی اور پہلوی زبان سے عربی میں ترجمہ ہوئیں اور اسی طرح اسی زمانے میں ابن ابی العوجائ،حماد عجرد،یحییٰ بن زیاد اور مطیع بن ایاس کے ہاتھوں مذہب مانی ،دیصانیہ اور مرقونیہ کی تائید میں کتابیں تالیف کی گئیں تو ان سرگرمیوں کے نتیجہ میں اس کی حکومت کے زمانے میں مانی کے طرفداروں میں اضافہ ہوا اور ان کے عقائد ونظریات کھل کر سامنے آگئے ۔اس لئے اس نے بھی ان لوگوں کو اور دیگر دین مخالف عناصر کو قتل کرنے میں انتہائی سنجیدہ کوشش کی۔ ٠ ٢

اگلی فصلوں میں ہم ان میں سے چند افراد کاذکر کریں گے۔

مانویوں کے چند نمونے

لعلّی اصادف فی باقی ایامی

زماناًاصیب دلیلا علی هدیٰ

شائد ہم مستقبل میں حقیقت اور ہدایت کا راستہ پاجائیں گے ۔

) عبداللہ ابن المقفع (

١۔ عبداللہ بن مقفع

٢۔ابن ابی العوجا

٣۔ مطیع بن ایاس

٤۔ سیف بن عمر

چوں کہ علم رجال کے علماء نے سیف پر زندیقی ہونے کا الزام لگایا ہے ،لہٰذا ہم اس فصل میں بعض ایسے افراد کا جائزہ لیں گے جن پر اسلام میں زندیقی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے تاکہ سیف کے ساتھ ان کی ہماہنگ سرگرمی کا پتا چلے ۔

۵۵

١۔عبداللہ بن مقفع

عبداللہ بن مقفع (١٠٦ ھ ١٤٢ ھ)٢١عبداللہ بن مقفع عباسی خلیفہ منصور کا ہم عصر تھا اس نے ارسطاطالیس وغیرہ کی کتابیں ،جو منطق میں تھیں منصور کے لئے عربی میں ترجمہ کیں ۔ عبداللہ اسلام میں پہلا شخص تھا جس نے ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ کا کام شروع کیا ۔اس کے علاوہ اس نے کتاب ''کلیلہ ودمنہ '' اور دوسری کتابوں کا فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا ہے اس نے ''الادب الصغیر '' و ''الادب الکبیر '' اور والیتیمہ '' جیسے فصیح و بلیغ رسالہ بھی تحریر کئے ہیں ۔

عبداللہ پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا ،عباسی خلیفہ مھدی کہتا تھا :

''میں نے زندیقیوں کی کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جو عبداللہ مقفع کی خبر نہ دیتی ہو ''

عبداللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں لیکن ہم نے جو کچھ کتاب '' کلیلہ و دمنہ '' میں برزویۂ طبیب کے باب میں مشاہدہ کیا اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہ پائی جو عبداللہ کے زندیقی ہونے پردلالت کرتی ہو محققین کا یہ نظریہ ہے کہ اس کتاب (کلیلہ ودمنہ ) کے برزویہ طبیب کے باب کا خود ابن مقفع کے ہوتھوں برزویہ طبیب کی زبانی لکھا گیا ہے ۔برزویہ طبیب کے باب میں اس طرح آیا ہے:

''میں نے دیکھا کہ لوگوں کے نظریات مختلف ہیں ،اور ان کی خواہشات متناقض ہیں ، ایک طائفہ دوسرے پر حملہ کرتا ہے اور اسے دشمن جانتا ہے عیب نکالتا ہے اس کی بات کی مخالفت کرتا ہے ۔ اور دوسرا طائفہ بھی اس کے ساتھ یہی برتائو کرتا ہے ۔جب میں نے ایسا دیکھا تو سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمسفر نہیں ہو سکتا ....''

۵۶

پھر کہتا ہے '' پھر میں ادیان کی طرف پلٹ گیا ،اور عدل و انصاف کو ان میں تلاش کرنے لگا ،جس کسی کے پیچھے دوڑا اسے اپنے سوال کے جواب میں بے بس پایا ،یا ان کے جواب کو عقل و شعور کے مطابق نہیں پایا تاکہ میری عقل ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتی ۔سوچنے لگا کہ اپنے اسلاف کے دین پر باقی رہوں ،دل نے تائید نہ کی اور اس بات کی اجازت نہ دی کہ اپنی عمر کو ادیان کی جستجو میں صرف کروں ۔دوسری طرف میں نے دیکھا کہ موت نزدیک ہے انتہائی فکر و پریشانی میں پڑا ،چوں کہ تردید اور تذبذب کی وجہ سے خوف و ہراس سے دو چار تھا ،سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ کراہت سے اجتناب کروں اور اسی چیز پر اکتفا کروں جس کی دل گواہی دے کہ یہ تمام ادیان کے مطابق ہے ،لہٰذا کسی کو مارنے اور ضرب لگانے سے ہاتھ کھینچ لیا ...''

اس کے بعد کہتا ہے : میں نے قبول کیا کہ کسی پر ظلم نہ کروں گا ،بعثت انبیاء ،قیامت اور ثواب و عذاب کا انکار نہ کروں گا اور بد کرداروں سے دوری اختیار کروں گا...''

اس کے بعد کہتا ہے :اس حالت میں میرے دل نے آرام و سکون کا احساس کیا اور حتی المقدور اپنے حال ومال میں اصلاح کی کوشش کی ،اس امید سے کہ شائد اپنی عمر کے باقی دنوں میں ایک فرصت ملے اور راہ کی راہنمائی ،قوت نفس اور کام میں ثبات حاصل ہو جائے میں اسی حالت پر باقی رہا اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا۔

مذکورہ نمونہ سے ابن مقفع کا طرز تفکر ہمارے اوپر واضح ہوجاتا ہے دین میں شک ،بظاہر دین زردشت سے اسلام کی طرف مائل ہونے کے باوجود ادیان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے میں تردید، اس کے بعد ادیان میں سے اس حصہ کو قبول کرنا جو تمام ادیان میں مشترک اور مورد تصدیق ہو،جیسے آدم کشی سے پرہیز کسی کواذیت و آزار دینے سے اجتناب اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرنا اور یہ بذات خود ان چیزوں کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے جو زندیقیوں کی کتابوں کی نقل کے مطابق اس کی طرف نسبت دی گئی ہے ،اور شائد سر انجام یہی تذبذب اور پریشانی اس کے لئے زندیقیوں کا دین قبول کرنے کا سبب بنی ہو ،تاکہ فلسفہ تکوین سے اپنے ہر سوال کا جواب حاصل کر سکے ، چاہے دنیا سے رو گردانی اور امور کے بارے میں جانکاری بصورت توہمات ہی کیوں نہ حاصل ہو ۔

یہ سب چیزیں عبداللہ کی فطرت و مزاج سے پوری طرح مربوط ہیں کہ وہ کہتا ہے :

'' شائد زندگی کے باقی دنوں میں کوئی اسی فرصت ہاتھ آئے اور مجھے ایک رہبر ملے''

۵۷

٢۔ابن ابی العوجا

عبد الکریم ابن ابی العوجا ،معن بن زائد ہ شیبانی(۱) کاماموں تھا یہ بصرہ کا ضعیف الاعتقاد ترین فرد اور زندیقی تھا ٢٢ حدیث ،تاریخ اور دینی مناظروں کی بہت ساری کتابوں میں اس کا ذکر آیا ہے من جملہ مجلسی کی بحار الانوار میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے :٢٣

''ابن ابی العوجا ء حسن بصری کے شاگردوں میں سے تھا۔اس نے توحید اور اسلام کی یگانہ بت پرستی سے منہ موڑ لیا تھااعمال حج کا منکر اور اسے بے اعتقادی کی نگاہ سے دیکھنے کے باوجود مکہ گیا ۔چوں کہ وہ بد فطرت اور گستاخ تھا اس لئے علماء میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ ہم نشینی اور گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا تھا ایک دن اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت ابو عبداللہ جعفر ابن محمد الصادق کی خدمت میں پہنچا اور بات کرنے کی اجازت چاہی ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ امان میں ہو حضرت نے اسے اجازت دے دی ۔ابن ابی العوجا ء نے مراسم حج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کب تک اس خرمن کو اپنے پیروں سے کوٹتے رہیں گے ، اس پتھر سے پناہ حاصل کرتے رہیں گے ،اس بلند و محکم گھر کی پوجا کرتے رہیں گے اور رم خوردہ اونٹ کی طرح اس کے گرد گھومتے رہیں گے ؟ جب کہ کسی صاحب نظر عقلمند نے یہ عمل مقرر نہیں

____________________

۱)۔کتاب جمھرة انساب العرب ص٣١٦میں آیا ہے کہ وہ بنی عمرو بن ثعلبہ بن عامر بکری کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔

۵۸

کیا ہے ،چوں کہ آپ کے باپ اس کام کے بانی تھے اور آپ اس کے اسرار سے واقف ہین لہٰذا جواب دیں ''

حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق ں نے جواب میں فرمایا: ''بیشک جسے خدا اس کی اپنی گمراہی پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کی عقل کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں وہ حق کو نا پسنداور بری نظر سے دیکھتا ہے ۔شیطان اس پر غالب آکر اسے ہلاکت و نابودی کے گڑھے میں ایسے پھینک دیتا ہے کہ اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا یہ وہ گھر ہے جس سے خدا ئے تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے تاکہ مناسک حج انجام دینے سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری معلوم ہو جائے اسی لئے انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اسکی تکریم و تعظیم کریں اور اس کے دیدار کے لئے آئیں ۔خدا نے اس جگہ کو پیغمبروں کا مرکز اور نماز گزاروں کا قبلہ قرار دیا ہے اور یہ کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک حصہ ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو اس کی بخشش و عنایتوں پر منتہی ہوتا ہے اور بیشک خدائے تعالیٰ اس کا سزاوار ہے کہ اس کے فرمان کی اطاعت کی جائے''

ابن ابی العوجاء نے کہا: آپ نے اپنی بات میں خدا کانام لے کر غائب کا حوالہ دیا !

حضرت ں نے جواب میں فرمایا:'' افسوس ہو تم پر !جو ہمیشہ اپنی مخلوق کے ہمراہ حاضر اور شاہد اور اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہو وہ کیسے غائب ہو سکتا ہے ؟!وہ اپنے بندوں کی باتوں کو سنتا ہے ان کی حالت کو محسوس کرتاہے اور ان کے اندرونی اسرار کو جانتاہے ''

ابن ابی العوجاء نے کہا:'' اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے ؟ پس جب وہ آسمان پر ہے تو زمین پر کیسے موجود ہو سکتا ہے ؟ اور جب زمین پر ہو تو آسمان پر کیسے ہوسکتاہے؟!

۵۹

حضرت نے فرمایا: '' تم نے اپنے بیان کردہ و صف سے ایک مخلوق کی بات کی ہے کہ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہو جاتا ہے تو اس کی پہلی جگہ خالی ہو جاتی ہے اور دوسری جگہ اس سے پُر ہو جاتی ہے ۔اس وقت وہ نہیں جانتا کہ جس جگہ سے وہ اٹھا تھاوہاں پر اس کے اٹھنے کے بعد کیا گزرا۔لیکن ،عادل اور جزا دینے والے خدا سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور وہ کسی فضا یا جگہ کو پُر نہیں کرتا اور مکان کے لحاظ سے نزدیکی اور دوری اس کے لئے مصداق ومعنی ٰ نہیں رکھتی ''

اس کے علاوہ بیان کیا گیا ہے کہ ابن ابی العوجا نے ،آتش جہنم میں گرفتار لوگوں کے بارے میں خدا کے اس فرمان:''اگر ان کی کھال جل جائے تو ہم ان پر دوسری کھال چڑھادیں گے تاکہ وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں ۔''کے بارے میں سوال کیاکہ : ''دوسری کھال کا کیا قصور ہے؟''(۱)

حضرت نے فرمایا:''افسوس ہوتم پر !دوسری کھال وہی پہلی کھال ہے،جب کہ وہ پہلی کھال نہیں بھی ہے۔''

ابن ابی العوجا نے کہا:''ایک دنیوی مثال سے سمجھا ئیے تاکہ مطلب سمجھنا آسان ہوجائے ''

حضرت نے فرمایا:''کوئی حرج نہیں ،جب کوئی شخص کسی کچی اینٹ کو توڑ کر اس کی مٹی کو دوبارہ قالب میں ڈال کر پھر اس سے اینٹ بناتاہے ،تو یہ دوسری اینٹ وہی پہلی اینٹ ہے جب کہ پہلی اینٹ بھی نہیں ہے ۔'' ٢٤

یہ بھی ذکر کیا گیاہے کہ دوسرے سال ابن ابی العوجاء نے مسجد الحرام میں حضرت

____________________

۱)۔وَکُلَّمٰا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنٰاهُمْ جُلُوداً غَیْرَهٰا لِیَذُوقُوا الْعَذٰابَ (نسائ٥٦)

۶۰