ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215614 / ڈاؤنلوڈ: 4979
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

امام صادق ں سے ملاقات کی ۔حضرت نے اس سے پوچھا:''کون سی چیز تمھارے یہاں آنے کاسبب بنی ہے؟''

اس نے جواب میں کہا:''عادت اور ہم وطنوں کی پیروی ،تاکہ لوگوں کی دیوانگی،سر منڈوانے اور پتھر مارنے سے عبرت حاصل کروں ''۔

حضرت نے فرمایا:''کیا ابھی تک گمراہی اور بغاوت پر باقی ہو؟!''

ابن ابی العوجا امام سے کچھ کہنے کے لئے آگے بڑھا ،حضرت نے اپنی ردا کو اس کے ہاتھ سے کھینچتے ہوئے فرمایا:''لاٰجِدٰالَ فِی الْحَجِّ ''(۱) (حج میں جھگڑا ممنوع ہے)۔

اس کے بعد فرمایا:''اگر وہ بات صحیح ہو جوتم کہتے ہو جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے تو ہم دونوں آخرت میں یکساں ہوں گے ۔لیکن اگر وہ صحیح ہو جو ہم کہتے ہیں جب کہ بیشک یہی صحیح ہے تو ہم آخرت میں کامیاب ہوں گے اور تم ہلاک ونابود ہوگے''۔ ٢٥

ایک اور روایت میں یوں آیا ہے:ایک دفعہ ابن ابی العوجا اور اس کے تین ساتھیوں نے مکہ میں آپس میں ایک منصوبہ بنایا کہ قرآن مجید کی مخالفت کریں ۔ہر ایک نے قرآن مجید کے ایک حصہ کی ذمہ داری لے لی کہ اس کے مثل عبارت بنائیں گے۔

دوسرے سال چاروں آدمی مقام ابراہیم کے پاس جمع ہوئے۔ان میں سے ایک نے کہاکہ''جب میں قرآن مجید کی اس آیت پر پہنچا ،جہاں کہاگیاہے: ی( ٰا أَرْضُ ابْلِعِی مٰائَکِ وَیٰا سَمٰائُ أَقْلِعِی وَغِیضَ الْمٰائُ وَقَضَی الْاَمْرُ ) (۲) ''اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان اپنے پانی کو روک لے اور پانی زمین میں

____________________

۱)۔ بقرہ ١٩٧

۲)۔ ہود٤٤

۶۱

جذب ہو گیااور خدا کا حکم انجام پاگیا''تومیں نے دیکھا کہ یہ ایسا کلام نہیں ہے جس سے مقابلہ کیا جاسکے ، لہٰذا میں نے قرآن سے مقابلہ کرنے کاارادہ ترک کردیا''

دوسرے نے کہا:جب میں اس آیت پر پہنچا: ''( فَلَمّٰا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیّٰاً'' ) (۱) ''پس جب وہ لوگ اس سے مایوس ہوگئے تو اسے چھوڑکر چلے گئے '' تو میں قرآن سے مقابلہ کرنے سے ناامید ہوا۔

وہ یہ باتیں اسرار کے طور پر چپکے چپکے ایک دوسرے سے کررہے تھے کہ اسی اثناء میں حضرت امام صادق ں نے ان کے نزدیک سے گزرتے ہوئے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

( ''قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ أَنْ یَأْتُوا بِمِثْلِ هٰذٰا الْقُرْآنِ لاٰیَأْتُونَ بِمِثْلِهِ ) ''(۲) ''آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے''

انہوں نے سر اٹھاکے حضرت کو دیکھا اور قرآن مجید کی آیت میں حضرت کی زبانی اپنے اسرار فاش ہوتے دیکھ کر انتہائی تعجب وحیرت میں پڑگئے۔ ٢٦

مفضل بن عمر کہتاہے :''میں نے مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ایک شخص کو ابن ابی العوجا سے یہ کہتے ہوئے سنا :''عقلمندوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے ان کی دعوت قبول کی،اور اذان میں ان کا نام خدا کے نام کے ساتھ قرار پایاہے''۔ابن ابی العوجاء نے جواب میں کہا:''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں بات کو مختصر کرو،میری عقل ان کے بارے میں پریشان ہے ۔اور ایسی کسی اصل کو بیان کرو جسے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے ہوں '' ٢٧

____________________

۱)۔یوسف ٨٠

۲)۔بنی اسرائیل٨٨

۶۲

ابن ابی العوجاء کی گفتگو اور مناظروں کے یہ چند نمونے تھے ۔

اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں کتاب ''لسان المیزان''میں آیاہے: ٢٨

''وہ بصرہ کارہنے والاتھا۔دوگانہ پرستی کے عقیدہ سے دوچار ہوا۔بوڑھوں اور جوانوں کو دھوکہ دے کر گمراہ کرتاتھا۔اس لئے عمرو بن عبید نے اسے دھمکایا وہ ان دھمکیوں کی وجہ سے کوفہ کی طرف بھاگ گیا۔کوفہ کے گورنر محمد سلیمان نے اسے پکڑکر قتل کرڈالا اور اس کے جسد کو سولی پر لٹکادیا''۔

اس کی گرفتاری اور قتل کے واقعہ کو طبری نے ١٥٥ہجری کے حوادث کے طور پر یوں بیان کیاہے:

''کوفہ کے گورنر محمد بن سلیمان نے عبد الکریم بن ابی العوجاء کو زندیقی ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا ۔بہت سے لوگوں نے منصور کے پاس جا کر اس کی شفاعت کی ،جس نے بھی اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا اور بات کی وہ خود زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرا ۔منصور نے مجبور ہوکر کوفہ کے گورنر کو لکھا کہ خلیفہ کا قطعی حکم صادر ہونے تک ابن ابی العوجاء کے ساتھ کچھ نہ کرے اور اس کے معاملہ میں دخل نہ دے ،ایسا لگتا ہے کہ ابن ابی العوجاء اپنے طرفداروں کے اقدامات سے با خبر تھا لہٰذا اس نے خلیفہ کے خط کے پہنچنے سے پہلے گورنر سے تین دن کی مہلت مانگی اور ایک لاکھ دینار بطور رشوت دینے کا وعدہ بھی کیا ۔ جب یہ درخواست اور تجویز گورنر کو ملی تو اس نے خلیفہ کا خط پہچنے سے پہلے ہی اس کے قتل کا حکم دے دیا جب ابن ابی العوجاء کو اپنی موت کے بارے میں یقین ہو گیا تو اس نے کہا : خدا کی قسم تم مجھے قتل کر رہے ہو لیکن جان لو کہ میں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں اور انھیں تمھارے درمیان منتشر کر دیا ہے اور ان کے ذریعہ حلال کو حرام ،اور حرام کو حلال کر دیا ہے ۔خدا کی قسم میں نے تم لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ جس دن روزہ رکھتے تھے افطار کرو اور جس دن افطار کرتے تھے روزہ رکھو''٢٩

۶۳

کاش !مجھے معلوم ہوتا کہ جن احادیث کو اس زندیق نے جعل کیا ہے ،کون سی احادیث ہیں ، ان کی روئیداد کیا ہے اور وہ کن کتابوں میں درج کی گئی ہیں ۔اگر اس زندیق نے اپنی زندگی سے نا امید ہوتے وقت اعتراف کیا ہے ،کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ،تو دیگر غیر معروف زندیقیوں کے ذریعہ جعل اور مکتب خلفاء کی مورد اعتماد کتابوں میں درج ہونے والی احادیث کی تعداد کتنی ہوگی؟

٣۔مطیع ابن ایاس

ابو سلمی مطیع ابن ایاس(۱) اموی اور عباسی دور کے شعراء میں سے تھا ۔وہ کوفہ میں پیدا ہوا تھا اور وہیں پرورش پائی تھی۔مطیع ایک ظریف طبع، بد فطرت اور بے حیا شاعرتھا۔ وہ اپنے اشعار میں اپنے باپ کو بے حیائی کے ساتھ بر ابھلا کہہ کر اس کا مضحکہ اڑاتا تھا ، اس لئے اس کے باپ نے اسے ملعون اور عاق کر دیا تھا۔٣٠

مطیع نے اپنی شہرت کے آغاز میں اموی خلیفہ عمر ابن یزید ابن عبد الملک کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی مدح سرائی کی اور اپنے آپ کو اس کے ہاں معزز بناکر دس ہزار درہم کا انعام حاصل کیا.عمر نے اس کا تعارف اپنے بھائی ولید بن عبد الملک سے کرایا۔مطیع نے ولید کے حضوراس کی مدح میں تین شعر پڑھ کر سنائے اور ولید وجد میں آگیا اور اس کی پاداش میں اس نے مطیع کو ایک ہفتہ تک

____________________

۱)۔اس کا باپ ابو قراعہ ،ایاس بن سلمی کنانی ،فلسطین کا رہنے والاتھا ،عبدالملک ابن مروان نے ابو قراعہ کو چند لوگوں کے ہمراہ حجاج بن یوسف ثقفی کی مدد کے لئے کوفہ بھیجا ۔ابو قراعہ نے کوفہ میں ہی رہائش اختیار کی اور وہاں پر ام مطیع سے شادی کی ( ملاحظہ ہو '' اغانی'' ج١٢ص٨٦ ؛اور تاریخ بغداد تالیف خطیب ج٣ص٢٢٣و٢٢٤)

۶۴

اپنی می نوشی کی محفل میں اپنا ہم نشین بنایا.اس کے بعد اس کے لئے بیت المال سے ایک دائمی وظیفہ مقرر کیا. اس طرح اموی خلافت کے دربار میں مطیع نے راہ پائی اور حکومت کے ارکان اور اہل کاروں کا ہمدم بن گیا۔

مطیع،یحییٰ بن زیاد حارثی،(۱) ابن مقفّع اور والبہ آپس میں جگری دوست تھے اور دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے حتیٰ وہ ایک دوسرے کی ہر قسم کی خواہش کو پوری کرنے میں کسی قسم کی دریغ نہیں کرتے تھے۔اور ان سب پر مانوی مذہب کے پیرو کار اور زندیقی ہونے کا الزام تھا۔ ٣١

بنی امیہ کے خاتمہ اور عباسی خلافت کے آغاز میں مطیع، عبد اللہ ابن معاویہ(۲) سے جاملا۔ اس وقت عبد اللہ ایران کے مغربی علاقوں کا حاکم تھا، مطیع اس کا ہمدم اور ہم نشین بن گیا۔عبد اللہ اور اس کی پولیس کے افسر جو ایک دہریہ اور منکر خدا تھا کے ساتھ مطیع کی اس ہم نشینی اور دوستی کے بہت سے قصے موجود ہیں ۔

عباسیوں کی حکومت میں مطیع ، پہلے منصور کے بیٹے جعفر کا ہم نشین بنا. چونکہ منصور نے اپنے بھائی مہدی کی جانشینی کے لئے لوگوں سے بیعت لے لی تھے. اس لئے جعفر اپنے باپ سے ناراض تھا. جشن بیعت کے دن بہت سے مقررین اور شعرا نے اپنے بیانات اور اشعار پڑھ کے داد سخن حاصل کی. مطیع بھی اس محفل میں حاضر تھا، اس نے بھی اس مناسبت سے شعر پڑھے، اپنے اشعار کے اختتام پر مطیع نے منصور کی طرف رخ کرکے کہا: اے امیر المومنین ! فلاں نے فلاں سے ....ہمارے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''مہدی موعود، محمد ابن عبد اللہ ہے کہ اس کی والدہ ہم میں نہیں ہے، وہ روی زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسے وہ ظلم و جور سے بھری

____________________

۱): کہا جاتا ہے کہ یحییٰ ، عباسیوں کے پہلے خلیفہ ابو العباس سفاح کا ماموں زاد بھائی تھا۔ یحییٰ ایک بد کار اور بیہودہ شاعر تھا۔

۲): عبد اللہ بن معاویہ ، جعفر ابن ابیطالب کا بیٹا تھا جو اصفہان ، قم، نہاوند اور ایران کے دیگر مغربی شہروں کا حاکم تھا۔ وہ اور اس کی پولیس کا افسر ، قیس بن عیلان ،لوگوں کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے (اغانی،ج١٢،ص٧٥۔٨٥)

۶۵

ہوگی، اور یہ آپ کا بھائی عباس بن محمد بھی اس بات کا گواہ ہے''.(۱) اس کے فورا بعد عباس کی طرف رخ کرکے کہا: ''میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم نے بھی یہ بات نہیں سنی ہے؟'' عباس نے منصور کے ڈر سے ہاں کہہ دی اس تقریر کے بعد منصور نے لوگوں کو حکم دیا کہ مہدی کی بیعت کریں ۔ جب محفل بر خواست ہوئی تو عباس نے کہا: ''دیکھا تم لوگوں نے کہ اس زندیق نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ اور تہمت باندھی اور صرف اسی پر اکتفا نہین کی بلکہ مجھے بھی گواہی دینے پر مجبور کیا، میں نے ڈرکے مارے گواہی دیدی اور جانتا ہوں جس کسی نے میری گواہی سنی ہوگی ، وہ مجھے جھوٹا سمجھے گا''۔ جب یہ خبر جعفر کو پہنچی تو وہ آگ بگولا ہوگیا. جعفر ایک بے شرم اور شراب خوار شخص تھا۔ ٣٢

چونکہ مطیع کا زندیقی ہونا زبان زد خاص و عام تھا، اس لئے عباسی خلیفہ منصوریہ پسند نہیں کرتاکہ اس کا بیٹاجعفر ، مطیع کا ہمدم اور ہم نشین بنے.لہٰذا ایک دن منصور نے مطیع کو اپنے پاس بلاکر اس سے کہا : کیا تم اس پر تلے ہو کہ اپنی ہم نشینی سے جعفر کو فاسد اور بد کار بناؤاور اسے اپنے مذہب ، یعنی زندیقیت کی تعلیم دو؟! ''

مطیع نے جواب میں کہا: ''نہیں ، خلیفہ !ایسا نہیں ہے.آپ کا فرزند ، جعفر اپنے زعم میں جنیوں کی بیٹی کا عاشق ہوگیا ہے۔ اس لئے اس سے شادی کرنے کے لئے اصرار کر رہا ہے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے تعویض نویسوں اور رمّالوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے اور وہ بھی اس اہم مسئلہ کے لئے سخت کوشش میں ہیں ، اس حساب سے جعفر کے ذہن میں کفر و دین، مذاق و سنجیدگی جیسی چیزوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں رہ گئی ہے کہ میں اسے فاسد بناؤں ''

منصور چند لمحوں کے لئے سوچ میں ڈوب گیا، اس کے بعد بولا:'' اگر یہ بات سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو تو جتنی جلد ہو سکے اس کے پاس واپس جائو اور اپنی ہو شیاری ،نگرانی ،اور ہم نشینی سے جعفر کو

____________________

۲):اس طرح مطیع نے ایک حدیث جعل کی تا کہ ثابت کرے کہ منصور عباسی کا بیٹا محمد ، وہی اسلام کا مہدی موعود ہے.

۶۶

اس سے روکو''٣٣

حماد عجرد اور اس کی معشوقہ نیز یحیٰ بن زیاد اور اس کی معشوقہ کے ساتھ مطیع کی بہت سی داستانیں مشہور ہیں اس کے اکثر اشعار گانے والی عورتوں کے بارے میں ہیں ٣٤ ان میں سے وہ ''جوہر'' نام کی ایک مغنیہ کے بارے میں کہتا ہے:

''نہیں !خدا کی قسم مھدی کو ن ہے وہ تو تیرے ہوتے ہوئے مسند خلافت پر بیٹھے ؟ اگر تو چاہے تو منصور کے بیٹے کو خلافت سے اتار نا تیرے لئے آسان ہے ''

جب مطیع کا یہ شعر خلیفہ عباسی مھدی کو سنایا گیا ،تو اس نے ہنس کر کہا: ''خدا اس پر لعنت کرے ! جتنی جلد ممکن ہو سکے ان دونوں کو آپس میں ملا دو ،اس سے پہلے کہ یہ فاحشہ مجھے تخت خلافت سے اتاردے ''٣٥

کتاب ''اغانی'' کے مؤلف نے مطیع کی بیہودگیوں اور بے حیائیوں کی بہت ساری داستانیں نقل کی ہیں من جملہ یہ کہ :

'' ایک دفعہ یحیٰ،(۱) مطیع اور ان کے دوسرے دوست ایک جگہ جمع ہو کر مسلسل چند روز تک شراب نوشی میں مشغول رہے ۔ایک رات یحیٰ نے اپنے دوستوں سے کہا: افسوس ہو تم پر !ہم نے تین دن سے نماز نہیں پڑھی ہے اٹھو تماز پڑھیں ،مطیع نے محفل میں حاضر مغنیہ سے کہا تو سامنے کھڑی ہو جااور ہماری امامت کر ،یہ عورت صرف ایک نازک باریک اور خوشبو دار اندرونی لباس پہنے ہوئے تھی اور نیچے شلوار بھی نہیں پہنے تھی ان کے سامنے امامت کے لئے کھڑی ہو گئی اور جب وہ سجدے میں گئی ...مطیع نے نماز کو توڑ کر بے حیائی سے بھر پور چند شعر پڑھے ،جن کو سن کر سبوں نے اپنی نماز

____________________

۱)۔یحیٰ بن زیاد حارثی منصور کا ماموں تھا اور بنی الحرث بن کعب میں سے تھا ،اغانی ١٤٥١١۔اور مھدی کی سفارش پر منصور نے اسے اہواز کے علاقوں کا گورنر منصوب کیا تھا۔اغانی ٨٨١٣

۶۷

توڑ دی اور ہنستے ہوئے پھر سے شراب پینے میں مشغول ہو گئے'' ٣٦

مطیع نے ایک تاجر جو کوفہ میں اس کا دوست بن گیا تھا کو فاسد اور گمراہ بنا دیا تھا ۔ ایک دن یہ تاجر مطیع سے ملا اور مطیع نے اس سے کہا : اس کا دستر خوان شراب اور مختلف کھانوں سے پر اور آمادہ ہے اس کے بعد اسے دعوت دی کہ ان کی محفل میں شرکت کرے اس شرط پر کہ خدا کے فرشتوں کو پرا بھلا کہے !چوں کہ اس تاجر کے دل میں تھو.ڑی سی دینداری موجود تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا : خدا تم لوگوں کو اس عیش و عشرت سے محروم کرے !تم نے مجھے ذلت و رسوائی میں پھنسا دیا ہے ۔یہ کہہ کر یہ تاجر مطیع سے دور ہو گیا راستے میں حماد سے اس کی ملاقات ہوئی تاجر نے مطیع کی داستان اسے سنادی ۔حماد نے جواب میں کہا: مطیع نے اچھا کام نہیں کیا ہے جس کا مطیع نے تجھ سے وعدہ کیا تھا میں اس سے دوبرابر نعمتوں سے مالا مال دسترخوان سجا کر تجھے دعوت دیتا ہوں لیکن اس شرط

پر کہ خدا کے پیغمبروں کو دشنام دو کیوں کہ فرشتوں کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ہم انھیں دشنام دیں بلکہ یہ پیغمبر ہیں جنھوں نے ہمیں مشکل اور سخت کام پر مجبور کیا ہے !تاجر اس پر بھی برہم ہوا اور اس پر نفرین کر

۶۸

کے چلا گیا اور یحیٰ بن زیاد کے پاس پہنچا اس سے بھی وہی کچھ سناجو مطیع اور حماد سے سنا تھا اس لئے تاجر نے اس پر بھی لعنت بھیجی ۔

بالآخر تینوں افراد نے اس تاجر کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنی شراب نوشی کی بزم میں کھینچ لیا سب ایک ساتھ بیٹھے ۔شراب پینے میں مشغول ہوئے ۔تاجر نے ظہر وعصر کی نماز پڑھی جب تاجر پر شراب نے پورا اثر کرلیا تو مطیع نے اس سے کہا :فرشتوں کو گالیاں دو ورنہ ہماری بزم سے چلے جاؤ تاجر نے قبول کیا اور فرشتوں کو گالیا دیں ،پھر یحیٰ نے اس سے کہا: پیغمبروں کو گالیاں دو ورنہ یہاں سے چلے جائو اس نے اطاعت کرتے ہوئے پیغمبروں کو بھی گالیاں دیں ۔اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ:اب تمھیں نماز بھی چھوڑنا پڑے گی ورنہ یہاں سے چلے جانا پڑے گا ۔تاجر نے جواب میں کہا : اے حرام زادو !اب میں نماز بھی نہیں پڑھوں گا اور یہاں سے بھی نہیں جائوں گا اس کے بعد جو کچھ اس سے کہا گیا اس نے اسے انجام دیا۔٣٧

ایک دن مطیع نے یحیٰ کو خط لکھا اور اسے دعوت دی کہ اس کی بزم شراب نوشی میں شرکت کرے ۔کہتے ہیں کہ اس روز عرفہ تھا وہ لوگ روز عرفہ اور شب عید صبح ہونے تک شراب پینے میں مشغول رہے ،اور عید قربان کے دن مطیع نے حسب ذیل (مضمون )اشعار پڑھے :

۶۹

'' ہم نے عید قربان کی شب مئے نوشی میں گزاری جب کہ ہمارا ساقی یزید تھا ۔ہم نشینوں اور ہم پیالوں نے آپس میں جنسی فعل انجام دیا اور ایک دوسرے پر اکتفا کی اور...وہ ایک دوسرے کے لئے مشک وعود جیسی خوشبو تھے ''(۱)

بے شرمی اور بے حیائی کے یہ اشعار لوگوں میں منتشر ہوئے اور آخر کار سینہ بہ سینہ عباسی خلیفہ مہدی تک پہنچے ،لیکن اس نے کسی قسم کا رد عمل نہیں دکھایا۔

اسی طرح اس نے درج ذیل اشعار (مضمون ) کے ذریعہ عوف بن زیاد کو اپنی مئے گساری کی بزم میں دعوت دی ہے : اگر فساد و بد کاری چاہتے ہو تو ہمای بزم میں موجود ہے ...''٣٨

ایک سال مطیع اور یحیٰ نے حج پر جانے کا ارادہ کیا اور کاروان کے ساتھ نکلے راستہ میں زرارہ کے کلیسا کے پاس پہنچے تو اپنا ساز و سامان کا روان کے ساتھ آگے بھیج دیا اور خود شراب نوشی کے لئے کلیسا میں داخل ہو گئے تاکہ دوسرے دن کاروان اوراپنے سازوسامان سے جا ملیں گے لیکن وہ مئے

نوشی میں اتنے مست ہوئے کہ ہوش آنے پر پتا چلا کہ حجاج مکہ سے واپس آرہے ہیں !اس لئے حاجیوں کی طرح اپنے سرمنڈواکر اونٹوں پر سوار ہو کر کاروان کے ہمراہ اپنے شہر کی طرف لوٹے۔

اس قضیہ سے متعلق مطیع نے یہ اشعار کہے ہیں :

''تم نے نہیں دیکھا : میں اور یحییٰ حج پر گئے ،وہ حج جس کی انجام دہی بہترین تجارت

____________________

۱)۔ہم نے مطیع سے انتہائی نفرت کے باوجود ان مطالب کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ ان چیزوں کو واضح کئے بغیر سیف کے ماحول اور اس کی سرگرمیوں کو پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔

۷۰

ہے ہم خیر و نیکی کے لئے گھر سے نکلے ،راستہ میں زرارہ کے کلیسا کی طرف سے ہمارا گزر ہوا ۔لوگ حج سے مستفید ہوکر لوٹے اور ہم گناہ و زیان سے لدے ہوئے پلٹے''٣٩

اس کے علاوہ کتاب ''دیرہا'' تالیف الشابشتی ،میں مطیع سے مربوط چند اشعار حسب ذیل (مضمون کے) نقل کئے گئے ہیں :

'' ہم اس میخانے میں پادریوں کے ہم نشین اورمئے خواروں کے رقیب تھے اور زُنار میں بندھا ہوا آہو کا بچہ (کسی نوخیز لڑکے یا لڑکی سے متعلق استعارہ ہے ) ....میں نے اس بزم کے کچھ حالات تم سے کھل کر بیان کئے اور کچھ پردے میں بیان کئے!''

کہتے ہیں کہ مطیع قوم لوط کی بیماری میں مبتلا تھا ،ایک دفعہ اس کے چند رشتہ دار اس کے پاس آئے اور اسے اس نا شائشتہ اور غیر انسانی حرکت پر ملامت کرتے ہوئے کہا: حیف ہو تم پر !کہ قبیلہ میں اس قدر مقام و منزلت اور ادبی میدان میں اس قدر کمال کے حامل ہونے کے باوجود خود کو اس شرمناک اور ناپاک کام میں آلودہ کر رکھا ہے؟! اس نے ان کے جواب میں کہا: تم لوگ بھی ایک بار امتحان کرکے دیکھ لو!پھر اگر تمھارا کہنا صحیح ہو تو خود اس کام سے اجتناب کرکے ثابت کرو!! انھوں نے اس سے نفرت کا اظہار کیا اس کے بعد اس سے منہ موڑ تے ہوئے کہا: لعنت ہو تیرے اس کام، عذر و بہانہ اور ناپاک پیش کش پر ۔(۱) ٤٠

مطیع ،بستر مرگ پر

ہادی عباسی کی خلافت کے تیسرے مہینے میں مطیع فوت ہوگیا اس کے معالج نے بستر مرگ

____________________

۱)۔مطیع کی ان بدکاریوں کے بارے میں اگر مزید تفصیلات معلوم کرنا ہو تو کتاب اغانی ٨٥١٢ ملاحظہ فرمائیں ۔اظہار نفرت کے باوجود ہم ان مطالب کا اس لئے ذکر کرتے ہیں کہ اس قسم کی بدکاریوں سے پردہ اٹھائے بغیر سیف کے زمانہ اورحالات کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۷۱

پر اس سے سوال کیا کہ تمھیں کس چیز کی آرزو ہے ؟ اس نے جواب میں کہا : چاہتا ہوں کہ نہ مروں ۔٤١

مطیع کے پسماندگان میں ایک بیٹی باقی تھی ۔چند زندیقیوں کے ہمراہ اسے ہارون رشید کے پاس لایا گیا ، اس نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا : یہی وہ دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے اور میں نے اس سے منھ موڑ لیا ہے ۔اس کی توبہ قبول کر لی گئی اور اسے گھر بھیج دیا گیا۔٤٢

یہ شاعر اس قدر بے شرمی ،بے حیائی اور بدکاری کے باوجود اموی اورعباسی خلفاء اور ان کے جانشینوں کے مصاحبین اور ہم نشینوں میں شمار ہوتا تھا !خطیب بغدادی اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے : مطیع خلیفۂ عباسی منصور اور اس کے بعد مھدی کے مصاحبین میں سے تھا۔٤٣

کتاب اغانی میں درج ہے کہ مھدی ،مطیع سے اس بات پر بہت راضی اور شکر گزار تھا کہ اس زمانے کے تمام خطیبوں اور شعراء میں وہ تنہا شخص تھا جس نے اس کے بھائی منصور کے سامنے ایک جھوٹی اور جعلی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مھدی وہی مھدی موعود ہے ۔

اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ منصور کی پولیس کے افسر نے اسے رپورٹ دی کہ مطیع پر زندیقی ہونے کا الزام ہے اور خلیفہ کے بیٹے جعفر اور خاندان خلافت کے چند دیگر افراد کے ساتھ اس کی رفت و آمد ہے اور بعید نہیں ہے کہ وہ انھیں گمراہ کر دے ۔منصور کے ولی عہد مھدی نے خلیفہ کے پاس مطیع کی شفاعت کی اور کہا : وہ زندیقی نہیں ہے بلکہ بدکردار ہے ،منصور نے کہا: پس اسے بلا کر حکم دو کہ ان ناشائستہ حرکتوں اور بدکاریوں سے باز آجائے۔

۷۲

جب مطیع مھدی کے پاس حاضر ہوا ،مھدی نے اس سے کہا: اگر میں نہ ہوتا اور تمھارے حق میں گواہی نہ دیتا کہ تم زندیقی نہیں ہو تو تمھاری گردن جلاد کی تلوار کے نیچے ہوتی اس جلسہ کے اختتام پر مھدی کے حکم سے انعام کے طور پر سونے کے دو سو دینار مطیع کو دئے گئے ۔اس کے علاوہ مھدی نے بصرہ کے گورنر کو لکھا کہ مطیع کو کسی عہدہ پر مقرر کرے گورنر نے بصرہ کے زکوٰة کے مسئول کو بر طرف کرکے اس جگہ پر مطیع کو مامور کیا۔٤٤

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی کام یا کسی چیز کے سلسلے میں مھدی مطیع سے ناراض ہوا اور اس کی سر زنش کی ۔مطیع نے جواب میں کہا : جو کچھ میرے بارے میں تمھیں معلوم ہوا ہے اگر وہ صحیح ہو تو میرا عذر ،میری مدد نہیں کرے گا اور اگر جھوٹ اور حقیقت کے خلاف ہو تو یہ بیہودہ گوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی یہ بات مھدی کے ذوق کو بہت پسند آئی اور اس نے کہا: اس طرز سے بات کرنے پر میں نے تجھے بخش دیا اور تیرے اسرار کو فاش نہیں کروں گا۔٤٥

زندیقیوں کے مطابق ضبط نفس اور ترک دنیا اور مطیع کی بے شرمی اور بے حیائی پر مبنی رفتار و کردار کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے ،بلکہ مطیع کو عصر منصور کے مانویوں کے فرقۂ مقلاصیان سے جاننا مناسب اور بجا ہوگا ،کہ ابن ندیم اس فرقہ کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :وہ اس مذہب کے پیرئوں اور دین مانی کی طرف تازہ مائل ہونے والوں کو اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ ہر وہ کام انجام دیں جس کی مذہب ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسی گروہ کے لوگ سرمایہ داروں اور حکام وقت کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے ۔٤٦

شائد مطیع زندیق اور اس جیسے دیگر بے شرم و بے حیا افراد مانی کی مقرر کردہ شریعت کی حد سے تجاوز کر گئے ہوں ،کیوں کہ اس نے معین کیا ہے کہ : جو بھی مانی کے دین میں آنا چاہتا ہو ،اسے شہوت ،گوشت ،شراب اور ازدواج سے پرہیز کرکے اپنے آپ کو آزمانا چاہئے ...اگر اس دین کو قبول کرنے کے اس امتحان میں پاس ہو سکا تو ٹھیک ،ورنہ اگر صرف مانی کے دین کو پسند کرتا ہو اور تمام مذکورہ چیزوں کو ترک نہ کر سکے ،تو مانی کی مقرر کردہ عبادت کی طرف مائل ہو اور صدیقین سے محبت کرکے مانی کے دین میں داخل ہونے کی آمادگی کا موقع اپنے لئے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔٤٧

۷۳

شائد یہ لوگ ،مانی کی طرف سے دی گئی اس دینی اجازت یا چھوٹ کی حد سے گزر کر انسانیت سے گر گئے اور بے شرمی و بے حیائی کے گڑھے میں جا گرے ہیں ۔

مطیع کی زندگی کے حالات پر تحقیق و مطالعہ کے دوران ایک ایسی بات ہمارے سامنے آئی جو اس کے زندیقی ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور وہ داستان حسب ذیل ہے :

''مطیع کے پسماندگان میں صرف ایک بیٹی بچی تھی ۔ اسے چند زندیقیوں کے ہمراہ ہارون رشید کے پاس لایا گیا ۔مطیع کی بیٹی نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اپنے زندیقہ ہونے کا اعتراف کیا اور کہا: یہ وہی دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے ''

خلاصہ

مذکورہ بالاتین افراد اور ان کی رفتاروکردار ،زندیقیوں اور مانی کے پیرؤں کانمونہ تھا،جو سیف بن عمر کے زمانے میں مانویوں کی سرگرمیوں اور ان کے پھلنے پھولنے کا بہترین نقشہ پیش کرتا ہے ۔

ان میں کا پہلا شخص (عبداللہ بن مقفع )مانو یو ں کی کتابو ں کا ترجمہ کرکے مسلمانوں میں شائع کرتا ہے۔

دوسرا آد می (ابن ابی العوجائ)جو مستعد اور تیز طرار ہے.ہر جگہ حاضر نظر آتا ہے ،کبھی مکہ میں امام جعفر صادق کے ساتھ فلسفہ حج پر مناظرہ کرتا ہوا اور حاجیوں کے عقل وشعورپر مذاق اڑاتا نظر آتاہے اور کبھی مدینہ منورہ میں مسجد النبی میںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خداکی توہین کرتا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی بصرہ میں نوجوانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تاکہ انھیں گمراہ کرے ۔اس طرح وہ ہر جگہ مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرنے اور تفرقہ اندازی اور ان کے افکار میں شک وشبہہ پیدا کرنے کی انتھک کوششوں میں مصروف دیکھائی دیتا ہے ۔

۷۴

تیسرا شخص (مطیع بن ایاس ) انتہائی کوشش کرتاہے کہ لاابالی ،بے شرمی وبے حیائی ،فسق و فجور اور بد کاری کواسلامی معاشرہ میں پھیلا کر لوگوں کوتمام اخلاقی وانسانی قوانین پائمال کرنے کی ترغیب دے ۔ان تمام حیوانی صفات کے باوجود عباسی خلیفہ مہدی اس بدکردار کی صرف اس لئے ستائش ،حمایت اور مدد کرتا ہے کہ اس نے اس کی بیعت کے سلسلے میں ایک حدیث جعل کی تھی۔

اس نے اور اس کے دیگر دوساتھیوں نے علم و آگاہی کے ساتھ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی بنیادوں میں جان بوجھ کر دراڑ اور تزلزل پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھا۔بالآخر وہ بصرہ میں اپنے لئے قافیہ تنگ ہوتے دیکھ کر کوفہ کی طرف بھاگ جاتا ہے اور وہاں پر بھی بد کرداریوں کے وجہ سے گرفتار ہوکر زندان میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے بعد سزائے موت سے دوچار ہوتا ہے ۔

ان حالات میں وہ تمام لوگ جو اس کی شفاعت کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں زندیقی عقیدہ رکھنے کے متہم تھے اور انہو ں نے خلیفہ کو مجبور کیا تا کہ وہ کوفہ کے گورنر کے نام اس کو قتل کرنے سے ہاتھ روکنے کا حکم جاری کرے ،اور خلیفہ نے مجبور ہوکر ایسا ہی کیا۔لیکن خلیفہ کے اس حکم کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ہی اسے کیفر کردار تک پہنچادیا جاتاہے ۔جب وہ اپنے سر پر موت کی تلوار منڈ لاتے ہوے دیکھتا ہے اور اسے یقین ہو جا تا ہے کہ اب مرنا ہی ہے تو اس وقت اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے چار ہزار ایسی احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے رکھدیا ہے اور اس طرح لوگوں کو روزہ رکھنے کے دن افطار کرنے اور افطار کرنے کے دن روزہ رکھنے پر مجبور کردیا ہے

۷۵

٤۔سیف بن عمر سب سے خطرناک زندیق

حدیث جعل کرنے والے زندیقیوں کی تعداد صرف اتنی ہی نہیں ہے ، جن کا ہم نے ذکر کیا بلکہ جو زندیقی اس کام میں سرگرم عمل تھے ،وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں ۔ابن جوزی اپنی کتاب ''الموضوعا ت ''میں لکھتا ہے :

''زندیقی دین اسلام کو خراب اور مسخ کرنے کے در پے تھے اور کوشش میں تھے کہ خدا کے بندوں کے دلوں مین شک و شبہہ پیدا کریں ۔لہٰذا انہوں نے دین کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنالیا تھا۔''

اس کے بعد ابن ابی العوجاکی داستان بیان کرتے ہوے آخر میں عباسی خلیفہ مہدی کی زبانی یوں نقل کرتا ہے کہ:

''ایک زندیق نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جو لوگوں میں ہاتھوں ہاتھ پھیل گئی ہیں ۔''

ان ہی زندیقیوں میں سے ایک ،شیخ کی کتاب کواٹھا کے چوری چھپے اس میں موجود احادیث میں تصرف کرکے قلمی خیانت کرتا تھا۔شیخ ان تصرف شدہ احادیث کو۔اس خیال سے کہ صحیح اور درست ہیں شاگردوں میں بیان کرتا تھا ۔اس کے علاوہ حماد ابن زید سے بھی روایت ہے کہ : زندیقیوں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں ۔

یہ قلمی خیانت سرکاری اور دربار خلافت کی مورد اعتبار کتابوں میں انجام پائی ہے ۔ہم آج تک نہیں جانتے کہ یہ احادیث کیا تھیں اور ان کا کیا ہو ا یہ دربار خلافت کی سرکاری کتابوں میں جو قلمی خیانت ہوئی ہے وہ کس قسم کی ہے !!البتہ سیف جس پر زندیق ہونے کا الزام تھا صرف اس کے بارے میں معلوم ہو سکا کہ اس نے بھی ہزاروں احادیث جعل کی ہیں ،ان پر کسی حد تک دست رس ہونے کے باوجود ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی کل تعداد کتنی ہے جب کہ سیکڑوں برس سے یہ احادیث تاریخ اسلام کے مؤثق مصادر و ماخذ کا حصہ شمار ہوتی آئی ہیں ۔

۷۶

سیف نے ان احادیث کو جعل کرکے تاریخ اسلام کو اپنے راستے سے منحرف کرنے اور جھوٹ کو حقیقت کے طور پرپیش کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔

اگر ابن ابی العوجاء نے صرف چار ہزار احادیث جعل کرکے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا ہے ،تو سیف بھی اس سلسلے میں اس سے پیچھے نہیں ہے بلکہ اس نے ہزاروں کی تعداد میں احادیث جعل کی ہیں جن میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مومن ترین صحابیوں کو ذلیل ،کمینہ اور بے شرم و بے حیا بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے مقابلہ میں ظاہری طور پر اسلام لانے والوں اور بد ترین کذابوں کا تعارف متقی، پرہیز گار اور دیندار کے طورپر کرایا گیا ہے وہ اسلام کی تاریخ میں توہمات سے بھرے افسانے درج کرنے میں کامیاب رہا ہے تاکہ ان کے ذریعہ حقائق کو الٹا پیش کرکے مسلمانوں کے عقائد اور غیر مسلموں کے افکار پر اسلام کے بارے میں منفی اثرات ڈالے ۔

اسلامی عقائد کو مخدوش کرنے کے سلسلے میں سیف اپنے مذکورہ زندیقی دوستوں کے قدم بقدم چلتا نظر آتا ہے جہاں مطیع نے حدیث جعل کرکے عباسی خلیفہ مھدی کی حمایت حاصل کی ،وہاں سیف نے بھی خلفاء اور وقت کے خود سر حکام کی حمایت اور پشت پناہی حاصل کرنے کے لئے ان کی تائید میں اور ان کے مخالفین کو کچلنے کے لئے احادیث جعل کیں ،تاکہ ان کی حمایت و حفا ظت کے تحت اپنی جھوٹی اور جعلی حدیث رائج کرسکے اور ان کے رواج کا سلسلہ آج تک جاری ہے !

سیف کے افکار و کردار پر زندقہ کا خاص اثر ہونے کے علاوہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تلا ہوا تھا ،خاندانی اور قبیلہ ای تعصبات بھی اس کے احادیث جعل کرنے میں مؤثر تھے یہ آئندہ کے صفحات میں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر شدید طور پر ان خاندانی تعصبات اور طرفداریوں کے اثر میں تھا ایک ایسے قبیلہ کا تعصب کہ خلفاء راشدین سے لے کر بنی امیہ اور بنی عباس تک تمام حکام وقت اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور سیف نے اپنی جعل کردہ روایتوں کو رواج دینے کے لئے اسی تعصب کی طاقت سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔

سیف اور اس کے ہمعصر لوگوں پر اس قبیلہ ای تعصب کے اثرات کو بخوبی جاننے کے لئے ہم اگلے صفحات میں اس موضوع پر الگ سے ایک فصل میں قدرے تفصیل سے بحث و تحقیق کرنے پر مجبور ہیں ۔

۷۷

یمانی اور نزاری قبیلوں کے درمیان شدیدخاندانی تعصبات

واهج نزارا ًو افرجلد تها واکشف الستر عن مثالبها

اٹھو!اور نزاریوں کو دشنام دو ان کی چمڑی اتار لو اور ان کے عیب فاش کردو!

(یمانی شاعر)

وهتک الستر عن ذو ی یمن اولا د قحطان غیر ها ئبها

اٹھو !اور یمانیوں کی آبرو لوٹ لو اور قحطان کی اولاد سے ہرگز نہ ڈرو!

(نزاری شاعر)

تعصب کی بنیاد اور اس کی علامتیں

یمنی ،یعنی عربستان کے جنوب میں رہنے والے قبیلے ،قحطان ،وازد اور سبا کے نام سے مشہور تھے اور جزیرہ ٔ نمائے عرب کے شمال میں آباد قبیلے ،مضر ،نزاد ،معد اور قیس(۱) کے نام سے معروف تھے اور قریش ان ہی میں سے ایک قبیلہ تھا۔ آغاز اسلام سے اور خاص کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت اور یمانی اور نزار ی خاندانوں کے وہاں جمع ہونے کے بعد سے ہی ان کے افراد کے درمیان فخر و بر تری کے تصادم اور ٹکرائو نظر آتے ہیں ۔

اس تاریخ سے پہلے ، مدینہ میں اوس وخزرج نام کے دو قبیلے سکونت کرتے تھے۔یہ دونوں قبیلے ثعلبہ ابن کہلان سبائی یمانی قحطانی کی نسل سے تھے ۔ان دو خاندان کے درمیان سالہا سال جنگ وجدل ،قتل وغارت،خون ریزی اور برادر کشی کاسلسلہ جاری تھا اور وہ ایک لمحہ بھی ایک دوسرے کی دشمنی سے غافل نہیں رہتے تھے ۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ان دونوں قبیلوں کے درمیان صلح وصفائی کرائی اور چونکہ یہ سب لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت اور مدد کرتے تھے،اس لئے انہوں نے انصار کالقب پایا۔

____________________

۱)۔ان قبائل کے شجرۂ نسب کے بارے میں کتاب '' جمھرہ نساب العرب''٣١٠۔٣١١،اورکتاب اللباب سمعانی ملاحظہ فرمائیں

۷۸

شمالی علاقوں کے نزاری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے کئی گروہ جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مدینہ ہجرت کر کے آئے تھے وہ مہاجر کہلائے ۔اسلام نے مہاجر وانصار کو آپس میں ملایا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی ان دو قبیلوں کے افراد کے درمیان عقد اخوت اور بھائی چارے کے بندھن باندھے۔

تعصب کی پہلی علامت

دونوں قبیلے ایک مدت تک اطمینان وآرام کے ساتھ ایک دوسرے کااحترام کرتے ہوئے آپس میں زندگی بسر کررہے تھے۔یہاں تک کہ بنی المصطلق کی جنگ پیش آئی اور اس کے ساتھ ہی نزاریوں اور یمانیوں کے درمیان خاندانی تعصبات ،خود پرستی اور خود ستائی کا آغاز ہوا۔

مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگ میں جب پانی لانے پر معین افراد ،مریسیع(۱) کے پانی کے منبع پر پہنچے، تو جھجاہ بن مسعور(۲) ،جو عمر کے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھا،پانی پر پہنچنے میں سبقت لینے کی غرض سے دھکّم دھکاّ کرتے ہوئے سنان بن وبر جہنی جو قبیلہ خزرج کا طرفدار تھا سے جھگڑپڑے اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی ۔جھجاہ نے چیختے پکارتے بلند آواز میں مہاجرین کے حق میں نعرے لگائے اور ان سے مدد طلب کی ۔سنان نے بھی انصار کے حق میں نعرے بلند کئے اور ان سے امداد کی درخواست کی۔منافقین کا سردار وسرغنہ،عبد اللہ بن ابی سلول خزرجی،یہ ماجرا دیکھ کر مشتعل ہوا موقع کوغنیمت جان کر وہاں پر موجود اپنے قبیلے کے چند افرادکی طرف رخ کرکے کہنے لگا :''آخر کار انہوں نے اپنا کام کرہی دیا وہ ہم پر دھونس بھی جماتے ہوئے ہم پر اپنے ہی وطن میں بالادستی دکھاتے ہیں ۔خدا کی قسم !ان بے سہارا قریش کے ساتھ ہماری داستان آستین کا سانپ پالنے کے مانند ہے خدا کی قسم !اگر ہم مدینہ لوٹے تو شریف وباعزت لوگ کمینوں اور ذلیل افراد کو اپنے شہر سے باہر نکال دیں گے''۔پھر اپنے طرفداروں کی طرف رخ کرکے کہا:''یہ مصیبت تم لوگوں نے خود اپنے اوپر مسلط کی ہے۔اپنے شہر کو ان کے اختیار میں دیدیاہے اور اپنے مال ومنال کو ان کے درمیان برادرانہ طور پر تقسیم کیاہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے!خدا کی قسم !اگر تم اپنا مال ومنال انھیں بخشنے سے گریز

____________________

۱)۔مدینہ سے ایک دن کی مسافت پر ایک پانی کا سرچشمہ تھا جس کے گرد قبیلہ خزاعہ کے کچھ لوگ زندگی بسر کرتے تھے وہ بنی مصطلق کے نام سے مشہور تھے۔غزوہ بنی مصطلق سنہ ٥یا ٦ ہجری میں واقع ہواہے ۔کتاب ''امتاع الاسماع''ص١٩٥ ملاحظہ ہو۔

۲)۔جھجاہ قبیلہ غفار سے تھا اور اس دن عمر کے پاس بعنوان مزدور کام کررہاتھا ،اسی لئے اس نے مہاجرین سے مدد طلب کی ہے۔ جھجاہ عثمان کے قتل کے بعد فوت ہواہے ۔کتاب ''اسدالغابہ '' ٣٠٩١ ملاحظہ ہو۔

۷۹

کروگے تو یہ لوگ خود بخود تمھارے وطن سے کہیں اور جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ان باتوں کے بارے میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطلاع دی گئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت طلب کی گئی تاکہ عبد اللہ کو قتل کرڈالاجائے۔لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے موافقت نہیں کی بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نرمی ،مہربانی اوحکمت عملی سے مسئلہ کو بخوبی حل کیا۔تدبیر کے طور پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوراً لشکر کو کوچ کرنے کاحکم دیا۔اس دن سپاہی دن رات مسلسل ومتواتر چلتے رہے ۔دوسرے دن جب صبح ہوئی اور سورج چڑھا تو گرمی کی شدت بڑھنے لگی اور سپاہیوں کا گرمی سے دم گھٹنے لگا،قریب تھا کہ سب کے سب تلف ہوجائیں ۔اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رُکنے اور آرام کرنے کاحکم دیا۔ سپاہی اتنے تھک چکے تھے کہ سواری سے اترتے ہی لیٹے اور بے حال ہو کر سوگئے ،اس طرح کسی میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ غرور وتکبر سے بیہودہ گوئی کرے ،اسی وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سورۂ منافقون نازل ہوا جس کی آٹھویں آیت میں فرماتاہے :

( ''یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَجَعْنَا اِلٰی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِه وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ'' ) (منافقون٨)

''یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم صاحبان عزت ،ان ذلیل افراد کو نکال باہر کریں گے،حالانکہ ساری عزت اللہ ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان ایمان

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

سینتالیسواں جعلی صحابی

خزیمہ بن ثابت ، غیر ذی شہادتین

اپنے افسانوں میں کلیدی رول ادا کرنے والوں کو خلق کرنے میں سیف کا ایک خاص طریقہ یہ ہے کہ اپنے خلق کردہ بعض اصحاب کو ایسے صحابیوں کے ہم نام خلق کرتا ہے جو حقیقت میں وجود رکھتے تھے اور صاحب شہرت بھی تھے اس کے بعد وہ اپنے خلق کئے ہوئے ایسے اصحاب کیلئے افسانے اور کارنامے گڑھ لیتا ہے اور تاریخ اسلام میں ان کے کاندھے پر ایسی ذمہ داریاں ڈالتا ہے ، جس سے مؤرخین و محققین اور پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہیں ۔

یہاں ایک حقیقی تاریخی شخصیت جو سیف کا مورد توجہ قرار پایا ہے اور جس کا اس نے ہم نام خلق کیا ہے ، '' خزیمہ بن ثابت انصاری '' ہے۔

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں انصار میں سے قبیلۂ '' اوس '' میں '' خزیمہ بن ثابت '' نام کا ایک شخص تھا جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگ بدر اور اس کے بعد کی جنگوں میں یا جنگ احد اور اس کے بعد کی جنگوں میں شرکت کی ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کیا ہے ۔

خزیمہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے '' ذی الشہادتین '' کا لقب ملا تھا اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے تھا۔ اس افتخار کو پانے کی داستان ، جسے تمام تاریخ نویسوں نے درج کیاہے حسب ذیل ہے :

ذو الشہادتین ، ایک قابل افتخار لقب

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سواء بن قیس محاربی نام کے ایک بدو عرب سے ایک گھوڑا خریدا ۔ چونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے ، اس لئے اعرابی سے فرمایا کہ پیسے وصول کرنے کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ساتھ آئے ۔ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تیزی سے قدم بڑھارہے تھے ، اسلئے اعرابی پیچھے رہ گیا، اسی اثناء میں چندا فراد جو اس اعرابی کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کئے گئے معاملہ سے آگاہ نہ تھے اعرابی کے پاس پہنچ کر گھوڑے کی قیمت کے بارے میں مول تول کرنے لگے ۔ آخر ان میں سے ایک شخص نے زیادہ پیسے دینے کی تجویز دی ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس اعرابی سے کچھ آگے بڑھ چکے تھے ۔ اسی لئے اس ماجرا سے بے خبر تھے ۔ اس کے بعد اعرابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر فریاد بلند کی :

۱۸۱

اگر اس گھوڑے کو خریدنا چاہتے ہو تو خرید لو ، ورنہ میں اسے پیچ دوں گا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رکے اور فرمایا : کیا میں نے اسے تجھ سے نہیں خریدا ہے ؟

سواء نے جواب دیا : نہیں ، خدا کی قسم میں نے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فروخت نہیں کیا ہے !

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا : میں نے اسے تجھ سے خریدلیا ہے اور معاملہ طے پاچکا ہے

لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس بدو عرب کے ارد گرد جمع ہوئے اور ان کی باتوں کو سن رہے تھے۔

اسی اثناء سواء نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مخاطب ہوکر کہا : گواہ لائیں کہ میں نے اس گھوڑے کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھ بیچا ہے !

جو بھی مسلمان وہاں سے گزرہا تھا اور اس موضوع سے آگاہ ہوتا تھا ، اس اعرابی سے کہتا تھا کہ لعنت ہو تم پر! پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔

اسی اثناء میں ' ' خزیمہ بن ثابت '' وہاں پہنچے اور اعرابی کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اختلاف سے آگاہ ہوئے ، اور اس نے سناکہ سواء پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گواہ طلب کررہا ہے اور کہتا ہے :

گواہ لائیں کہ میں نے اس گھوڑے کو آپ کے ہاتھ بیچا ہے :

خزیمہ نے فوراً کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے اس گھوڑے کو بیچ دیا ہے !

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خزیمہ سے مخاطب ہوکر فرمایا : جس معاملے میں حاضر نہ تھے اس کی گواہی کیوں دی؟

خزیمہ نے جواب دیا : جس دین کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے ہیں میں نے اسے قبول کرکے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سچ بولنے والا جانا ہے اور جانتا ہوں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچ کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے !

ایک اور روایت میں خزیمہ کا جواب یوں بیان ہوا ہے: میں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات آسمانوں کے بارے میں جو تمام بشریت کی دست رس سے دور ہے سنی اور اسے قبول کیا ہے، تو کیا اس موضوع کے بارے میں آاپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تصدیق نہ کروں اور اس کے صحیح اور سچ ہونے کی گواہی نہ دوں ؟

۱۸۲

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' آج کے بعد ہر مسئلہ میں خزیمہ کی گواہ دو گواہی کے برابر ہے '' یہی امر سبب بنا کہ اس تاریخ کے بعد خزیمہ '' ذی الشہادتین'' کے نام سے معروف و مشہور ہوئے اور وہ تنہا شخض تھے جن کی گواہی دو مردوں کے برابر شمار ہوتی تھی۔

یہ سلسلہ تب تک جاری رہا کہ خلیفہ عمر نے قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیا ، جو تب تک پراکندہ اوراق ، تختیوں اور کھجور کے درختوں کی چھال پر لکھا ہوا تھا ، اور حکم دیا کہ اصحاب میں سے جس کسی نے بھی جتنی مقدار میں قرآن مجید کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن کر حفظ کیا ہو اسے لے آئے اور اس سلسلے میں احتیاط کی جاتی تھی اور خلیفہ کسی آیت کو تب تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک دومرد اس کے صحیح ہونے کی شہادت نہ دیتے اس موقع پر خزیمہ بن ثابت آیۂ

(وَمِن َ الُموْ مِنِینَ رِجَال صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اﷲعَلَیهِْ ....)

لے کر آئے، اور خلیفہ نے اس کی گواہی پر اکتفا کرکے کہا: تیرے علاوہ کسی اور کی گواہی نہیں چاہتا ہوں ۔

خزیمہ کی '' ذو الشہادتین '' کے نام سے شہرت قبیلہ '' اوس'' کیلئے فخر و مباہات کا سبب بنی، حتی جب قبیلۂ '' اوس'' و '' خزرج '' اپنے اپنے افتخارات گننے پر آتے تھے تو '' اوس'' سر بلندی سے ادعا کرتے تھے کہ ''... اور خزیمہ ہم میں سے ہے جس کی گواہی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے ''

خزیمۂ '' ذو الشہادتین'' نے ٣٧ ھ میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے پرچم تلے صفین کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ۔ تاریخ نویسوں نے ان کی شہادت کے بارے میں یون بیان کیا ہے:

خزیمہ نے علی کے ہمراہ جمل اور صفین کی جنگوں میں مسلح ہوکر شرکت کی اور صفین کی جنگ میں کہتے تھے : میں عمار کے قتل ہونے تک نہیں لڑوں گا۔ میں منتظر دیکھ رہا ہوں کہ عمار کو کون قتل کرتا ہے ، کیونکہ میں نے خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے : عمار کو باغی اور سرکشوں کا ایک گروہ قتل کر ڈالے گا۔

اور جب عمار اسی جنگِ صفین میں معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تو خزیمہ نے کہا: میں نے گمراہوں کو مکمل طور سے پہچان لیا ۔اس کے بعد میدان جنگ میں قدم رکھ کر تب تک امام کی صف میں لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔

۱۸۳

خزیمۂ '' غیر ذی الشہادتین'' کو خلق کرنے میں سیف کا مقصد

'' خزیمہ بن ثابت ذی الشہادتین '' کے معاویہ کا سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہونا خاندان بنی امیہ کیلئے دو جہت سے بری اور معنوی شکست تھی ۔ ایک تو یہ کہ انہیں اس حالت میں قتل کیا گیا کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے '' ذو الشہادتین ''' کا لقب پاچکے تھے اور یہ ان کے لئے ایک بڑا افتخار تھا اور وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے اور قبیلۂ اوس کیلئے فخر و مباہات کا سبب تھے، دوسری جانب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گواہی کہ عمار ایک دین سے منحرف اور سرکش گروہ کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے ، خود خزیمہ کی طرف سے ایک اور گواہی تھی کہ معاویہ اور اس کے حامی دین اسلام سے منحرف ہوکر سرکش و گمراہ ہوئے تھے اور حق امیر المؤمنین علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا۔

سیف جو کہ خاندان بنی امیہ کی طرفداری میں عمار جیسوں کو رسوا و بدنام کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے' ان کے خلاف جھوٹ کے پلندے گڑھتاہے ، تو کیا وہ عمار کی اس فضیلت و منقبت کے مقابلے میں آرام سے بیٹھ سکتا ہے ؟

وہ کیسے اس دوہری معنوی شکست رسوائی کے مقابلے میں خاموش بیٹھ سکتا ہے؟

جو معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں عمار یاسر کے قتل ہونے اور خزیمہ بن ثابت کی گواہی کی وجہ سے خاندان بنی امیہ کو اٹھانی پڑی ہے جبکہ اس نے ہر قیمت پر بنی امیہ کا دفاع کرنے کا مصمم ارادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کاروائی انجام دینے سے گریز نہیں کرتا ؟!

سیف ، جس نے بنی امیہ کی قصیدہ خوانی اور مداحی کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہے ، ہر گز خاندان بنی امیہ کیلئے ایسے نازک اور رسوا کن موقع پر خاموش نہیں بیٹھ سکتا ہے ۔ لہذا وہ مجبور ہوکر اس مسئلہ کے معالجہ کیلئے قدم اٹھاتا ہے اور تاریخ میں دخل و تصرف کرکے ایک اور صحابی خلق کرتا ہے ، اور موضوع کی اصل حقیقت کو بدل دیتا ہے اس طرح اپنے خیال میں بنی امیہ کے دامن میں لگے ننگ و رسوائی کے داغ کو پاک کرتا ہے ۔

۱۸۴

وہ اس سلسلے میں ایک صحابی کو خلق کرکے اس کا نام خزیمہ بن ثابت رکھتا ہے تا کہ اسے اصلی خزیمۂ ذو الشہادتین کی جگہ پر قرار دے اور اسے صفین کی جنگ کے دوران بنی امیہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوتے دکھا کراصلی خزیمۂ کی شہادت اور معاویہ اور اس کے حامیوں کی سر کشی کے بارے میں کوئی گواہ باقی نہ رکھے۔

اس بناوٹی خزیمہ کی داستان کو امام المؤرخیں طبری نے سیف بن عمر سے ، اس نے محمد سے اور اس نے طلحہ سے نقل کرکے یوں درج کیا ہے :

١۔ امیر المؤمنین علی نے جب اپنے بارے میں مدینہ کے باشندوں کے عدم میلان کا احساس کیا توآپ نے ان کے سرداروں اور معروف شخصیتوں کو بلایا اور ایک تقریر کے دوران ان سے مددکرنے کو کہا۔

سیف کہتا ہے : حضاّر میں سے دو معروف شخصیتیں '' ابو الھیثم بن تیہان '' بدری جنگ بدر میں شرکت کرنے والا صحابی اور '' خزیمہ بن ثابت '' اپنی جگہ سے اور امام کی حمایت اور مدد کا اعلان کیا ۔

سیف بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

یہ خزیمہ ، '' خزیمہ ذو الشہادتین '' کے علاوہ ہے کیونکہ '' ذو الشہادتین '' عثمان کی خلافت کے زمانہ میں فوت ہوچکا تھا !!

٢۔ اس کے بعد طبری نے ایک دوسری روایت میں سیف سے ، اس نے محمد سے نقل کیا ہے کہ ۔۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا لقب '' عرزمی '' تھا اس نے عبیدا ﷲ سے اس نے حکم بن عتیبہ سے نقل کرکے یوں لکھا ہے :

حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا : کیا خزیمہ ذو الشہادتین نے جمل کی جنگ میں شرکت کی ہے؟

حکم نے جواب دیا: نہیں ، جس نے جنگِ جمل میں شرکت کی ہے وہ ذو الشہادتین نہیں تھا بلکہ انصار میں سے ایک اور خزیمہ تھا چونکہ ذو الشہادتین عثمان کی خلافت کے دوران فوت ہوچکا تھا !!

سیف ان دو روایتوں کو '' شعبی'' کی دو دوسری جعلی روایتوں سے تقویت بخشتا ہے تا کہ بہر صورت اپنی اس بات کو ثابت کرے کہ خزیمہ ذو الشہادتین خلافت عثمان کے زمانہ میں فوت ہوچکے تھے ۔ توجہ فرمائیے:

۱۸۵

٣۔ سیف بن عمر نے مجالد کے اس قول سے لکھا کو کہ شعبی نے کہا:

قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، جمل کی جنگ میں صرف چھ یا سات افراد ایسے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔

٤۔ سیف ، دوسری روایت میں عمرو بن محمد سے نقل کرکے کہتا ہے کہ شعبی نے کہا ہے کہ :

قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی خد ا نہیں ہے ، جنگِ جمل میں اصحاب بدر میں سے صرف چھ افراد نے شرکت کی ہے۔

میں سیف بن عمرنے عمرو سے کہا : جمل کی جنگ میں اصحاب بدر کی شرکت کرنے والوں کی تعداد کے بارے میں تمہاری اور ''مجادلہ '' کی بات میں اختلاف ہے ؟ عمرو نے جواب میں کہا:نہیں ، ایسا نہیں ہے ، ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، مگر یہ کہ خود شعبی اس امر شک کرتا تھا کہ ابو ایوب انصاری نے اس جنگ میں شرکت کی ہے یا نہیں اس نے شک کیاہے کہ کیا جب ام سلمہ نے اسے جنگ صفین کے بعد امام کی خدمت میں بھیجا ، تو ابو ایوب انصاری امام کی خدمت میں پہنچا ہے یا نہیں ، کیونکہ جب ابو ایوب انصاری امام کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت امام نے نہروان میں قدم رکھا تھا ۔

آخر میں سیف پانچویں روایت کے مطابق ،معاویہ سے جنگ کرنے میں لوگوں کے میلان کے سلسلے میں اپنے جعلی صحابی زیاد بن حنظلہ کے افسانے میں اپنی گزشتہ بات کی تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے :

٥۔ جب زیاد نے معاویہ سے جنگ کے بارے میں لوگوں کے عدم میلان کا مشاہد کیا تو امام کو بے یار و یاور دیکھ کر ، آپ کی خدمت میں پہنچ کر کہا:

اگر لوگ آپ کی مدد کرنے کامیلان نہیں رکھتے ، ہم خوشیکے ساتھ آپ کی مدد کریں گے اور آپ کے سامنے دشمنوں سے جنگ کریں گے ۔

۱۸۶

افسانہ کے مآخذ اور راوی

سیف نے اپنی پہلی روایت کو محمد اور طلحہ سے نقل کیا ہے ۔ سیف کے ان دونوں راویوں محمد و طلحہنے کیسے اور کہاں پر ایک ساتھ بیٹھ کر بات کی ہے ،یہ خود ایک الگ موضوع ہے جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ سیف نے اس محمد کو '' محمد بن عبد اللہ بن سواد نویرہ '' خلق کیا ہے جبکہ طلحہ ، طلحہ بن اعلم حنفی ہے او روہ ایک حقیقی شخصیت ہے ، جو ''رے ''کے '' حبان '' نامی گاؤں کا رہنے والاتھا اور ایک مشہور و معروف راوی تھا ۔ سیف عراق کے شہر کوفہ میں زندگی بسرکرتا تھا ، معلوم نہیں اس نے ''حبان '' میں رہنے والے طلحہ سے کیسے ملاقات کی یا پھر اسے دیکھے بغیر اپنی روایت اس کی زبانی گڑھ لی ہے؟!

دوسری روایت کو سیف نے محمد بن عبید اﷲ بن ابی سلیمان ، معروف بہ عرزمی سے ، اس نے اپنے باپ سے اس نے حکم بن عتیبہ سینقل کیا ۔

عرزمی کو علم حدیث کے علماء اور دانشوروں نے ضعیف جانا ہے اور اس کی روایتوں کو قبول نہیں کرتے۔ کیا معلوم شاید اسے ضعیف جاننے اور اس پر اعتماد نہ کرنے کا سبب یہ ہو کہ سیف نے اپنے جھوٹ اس سے نقل کئے ہیں !

لیکن حکم ، علما، حکم نام کے دو اشخاص کو جانتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کوفہ کا قاضی تھا اور دوسرا مشہور و معروف راوی تھا ۔ لیکن بات یہ ہے کہ کیا سیف نے انھیں دیکھا ہے۔ ان کی روایتیں سنی ہیں اور پھر ان کی زبانی جھوٹ کہلوایا ہے ، یا یہ کہ بن دیکھے 'سنے ان کی زبان سے جھوٹ جاری کیا ہے ؟!

بہر صورت ، سیف نے انھیں دیکھا ہو یا نہیں ، ان کی باتیں سنی ہوں یا نہیں ، موضوع کی ماہیت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، کیونکہ ہم ہرگز سیف کے جھوٹ کے گناہوں کو ایسے راویوں کی گردن پر نہیں ڈالتے ، جبکہ سیف تنہا شخص ہے جس نے ایسی روایتیں ایسے اشخاص سے نقل کی ہیں ۔

سیف نے اپنی پانچویں روایت کو عبد اللہ بن سعید بن ثابت سے نقل کرکے '' ایک شخص'' کے بقول بیان کیاہے جبکہ عبد اللہ بن سعید بن ثابت سیف کے مخلوق راویوں میں سے ہے اور ہم نے اس موضوع کی وضاحت گزشتہ بحثوں میں کی ہے ۔ لیکن وہ گمنام '' مرد'' کون ہے جس سے عبد اللہ نے روایت سنی ہے اور سیف نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ؟ تا کہ ہم اس کو پہچانتے ؟!

۱۸۷

سیف کے افسانے اور تاریخی حقائق

سیف نے مذکورہ پنجگانہ روایتوں میں یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی ہے کہ مدینہ کے باشندوں ، خاص کر مہاجر و انصار نے امام کی سپاہ میں شامل ہونے سے انکار اور جمل و صفین کی جنگوں میں امام کے پرچم تلے لڑنے سے بے دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں اپنے جھوٹ پر تکیہ کرکے قسم کھاتا ہے کہ بدر کے مجاہدوں میں سے چھ یا سات افراد سے زیادہ صفین و جمل کی جنگوں میں امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں شامل نہیں ہوئے ہیں ۔

تعجب کی بات ہے کہ سیف ریا کاری اور مکروفریب سے اپنے جھوٹ کو چھپانے کیلئے امام علی کی جنگوں میں بدر کے مجاہدوں کی شرکت کو چھ یا سات افراد میں محدود کر دیتا ہے اور اپنی چوتھی جعلی روایت میں ابو ایوب انصاری کی داستان کو گڑھ کر اس اختلاف کی توجیہ کرتا ہے !

یہاں پر ہم حقائق کا انکشاف کرنے کیلئے سیف کی روایتوں اور اس کی داستانوں کو دوسروں کے بیان کردہ تاریخی وقائع اور جنگِ جمل و صفین میں ا میر المؤمنین امام علی کے ساتھ رسول خدا کے صحابیوں کے حالات پر حسب ذیل بحث و تحقیق کرنے پر مجبور ہیں :

١۔ بیعت کے موقع پر امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں خزیمہ اور دیگر اصحاب کا نظریہ

اس سلسلے میں '' یعقوبی '' اپنی تاریخ میں یوں لکھتا ہے :

جب علی کی بیعت کی گئی ، انصار میں سے چند افراد نے اٹھ کر تقریر یں کیں اس کے بعد خزیمہ بن ثابت انصاری ذو الشہادتین اٹھے اوریوں بولے :

اے امیر المؤمنین ! آپ کے علاوہ کوئی ہم پر حکومت کی شائستگی نہیں رکھتا اور ہم آپ کے علاوہ کسی کی اطاعت نہیں کریں گے اگر ہمارے ضمیر آپ کے بارے میں انصاف پر مبنی فیصلہ سنادیں تو آپ سب سے پہلے ایمان لائے ہیں اور سب سے زیادہ خدا کا عرفان رکھنے والے ہیں اور تمام مؤمنین میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نزدیک تر ہیں ، جو کچھ سب لوگوں کے پاس ہے آپ اکیلے اس کے مالک ہیں اور جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے دوسرے محروم ہیں

۱۸۸

٢۔ جمل کی جنگ میں خزیمہ اورمدینہ کے باشندوں کا نظریہ :

'' ابن اعثم '' اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھتا ہے :

جب امام علی علیہ السلام عائشہ کے مکہ سے بصرہ کی طرف روانگی سے آگاہ ہوئے تو آپ نے اپنے دوست و احباب کو جمع کرکے ان سے یوں خطاب کیا :

اے لوگو! خدائے تبارک و تعالی نے تمہارے درمیان ایک قرآن ناطق بھیجا ہے جو بھی قرآن مجید سے منہ موڑے اور اسے چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا ۔ بدعت اور مشتبہ چیزیں نابودی اور ہلاکت کے اسباب ہیں اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا مگر خدائے تعالیٰ اسے لغزشوں سے بچاے حکومت الہی کا دامن پکڑلو اور اس کے ماتحت رہو وہ تمہاری نجات و سربلندی کا سبب ہے اس لئے پر اس خدائی حکومت کی اطاعت کرو ۔ اپنے آپ کو اس گروہ سے لڑنے کیلئے آمادہ کرلو جو تمہاری یکجہتی و اتحاد پر نظر جمائے ہے اور تم لوگوں میں اختلاف و افتراق ڈالنا چاہتا ہے اپنے آپ کو آمادہ کرلوتا کہ خدئے تعالی ٰ تمہارے ہاتھوں ان گمراہوں کی اصلاح فرمائے ۔ اور یہ جان لوکہ طلحہ و زیبر نے ایک دوسرے کی مدد کرکے ارادہ کیا ہے کہ میرے رشتہ داروں کو میرے خلاف اکسائیں اور لوگوں کو میری مخالفت پرمجبور کریں ۔ میں ان کی طرف روانہ ہورہا ہوں تا کہ ان سے جنگ کروں یہاں تک کہ خدائے تعالی ہمارے درمیان فیصلہ کردے ۔

والسلام

لوگوں نے بھی اپنی آمادگی کا اعلان کیا

٣۔ خزیمہ جمل کی جنگ میں

''مسعودی '' نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ امیر المؤمنین نے جنگ ِ جمل میں پر چم اپنے بیٹے محمد کے ہاتھ میں دیا اور احکم دیا کہ حملہ کرتے ہوئے آگے بڑے ۔

محمد نے اپنے حملوں میں متوقع جرت و شجاعت نہیں دکھائی ، اس لئے امام ان کے نزدیک تشریف لے گئے اور پرچم کو ان سے لے کر خود دشمن کے قلب پر حملہ کیا ۔

۱۸۹

اس کے بعد اضافہ کرتے ہوئے مسعودی لکھتا ہے :

خزیمہ بن ثابت انصاری ذوالشہادتین امام کی خدمت میں حاضر ہو کر بولے اے امیر المؤمنین ! محمد کی شرمندگی کا سبب نہ بنئے ، پرچم کو اسے سونپئے ۔ امام نے محمد کو بلا کر دوبارہ جنگ کا پرچم ان کے ہاتھ میں دیا۔

٤۔ جنگ جمل میں بدر کے مجاہدوں اور دوسرے اصحاب کی موجودگی:

'' ذہبی '' نے '' سعید بن جبیر '' سے نقل کرکے لکھا ہے جنگ جمل میں آٹھ سو افراد انصار میں سے اور سات سو ایسے اصحاب امام کی خدمت میں سرگرمعمل تھے جنہوں نے بیعت رضوان کو درک کیا تھا۔

اور '' سدی '' سے نقل کرکے مزید لکھتا ہے :

جنگ جمل میں امیر المؤمنین کے ہمراہ ایک سو تیس بدریوں نے شرکت کی ہے ۔

٥۔ صفین کی جنگ کے بارے میں اصحاب کا نظریہ :

'' نصر بن مزاحم '' نے اپنی کتاب '' صفین '' میں لکھا ہے:

جب علی علیہ السلام شام کی طرف عازم ہوئے تا کہ وہاں کے لوگوں سے نبرد آزما ہوں ، اپنے حامی مہاجر و انصار کو بلایا ۔ جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے کھڑے ہوکر خدا کی حمد و ثنا بجالانے کے بعدفرمایا:

آپ لوگ عقلمند ، متواضع ،سنجیدہ ، حق گو اور صحیح کردار کے مالک ہیں اب جبکہ ہم اپنے مشترک دشمن پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں ، ہمیں اپنی آراء اور نظریات سے آگاہ کرئے ۔

امام کی تقریر کے بعد ابو وقاص کا پوتا '' ہاشم بن عتبہ '' اپنی جگہ سے اٹھا اور بہترین صورت میں حمد و ثنا الٰہی بجا لا کر بولا:

۱۹۰

اما بعد ، اے امیر المؤمنین ! میں ان لوگوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں یہ آپ کے اور آپ کے حامیوں کے سخت دشمن ہیں اور مال و دنیا پرست ہیں وہ آپ سے جنگ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے یہ ایسے دنیا پرست ہیں جو کسی بھی قیمت حاصل کی گئی چیزوں سے چشم پوشی نہیں کرتے اور اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہاتھ میں نہیں رکھتے ۔ یہ لوگ نادانوں کو عثمان بن عفان کی خونخواہی کے عنوان سے فریب دیتے ہیں ۔ یہ جھوٹ بولتے ہیں ان کے خون کا انتقام لینا نہیں چاہتے بلکہ اس بہانے سے طاقت و دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔

ہمارے ساتھ ان پر حملہ کیجئے ۔ اگر حق کو قبول کیا تو اس صورت میں گمراہی سے نجات پائیں گے اور اگر اختلاف و افتراق کے علاوہ کسی اور راستہ کو اختیار نہ کیا کہ گمان ہے ایسا ہی کریں گے ۔اور خدا کی قسم میں یہ تصور نہیں کرتا کہ وہ آپ کی بیعت کریں گے کیونکہ ان پر ایک ایسا شخص حکومت کرتا ہے جس کے ہر حکم کی وہ اطاعت کرتے ہیں اور ان کیلئے اس کی نافرمانی کرنا محال ہے !

ہاشم بن عتبہ کے بعد '' عمار یاسر '' اپنی جگہ سے اٹھ کرخدائے تعالیٰ کی حمدو ثنا بجالانے کے بعد بولے :

اے امیر المؤمنین ! اگر ہو سکے تو ایک دن بھی نہ ٹھہرئے اور اس کام کو انجام دیجئے ۔ اس سے پہلے کہ ان بد کرداروں کے فتنہ کی آگ کے شعلے بھڑک اٹھیں اور وہ راستوں ، گزرگاہوں کو بند کرکے تفرقہ و اختلاف ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں ۔ ان پر حملہ کیجئے اور انھیں راہ حق کی طرف ہدایت فرمائیے اگر انہوں نے قبول کیاتو خوشبخت ہوجائیں گے اور اگر ہمارے ساتھ جنگ کرنے کے علاوہ کسی اور راستہ کو اختیار نہ کیاتو ایسی صورت میں ، خدا کی قسم ان کا خون بہانا اور ان سے جنگ کرنا خدائے تعالیٰ کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کا سبب ہوگا جو پروردگار کا ہم پر لطف و کرم ہوگا۔

جب عمار یاسر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو پھر ''قیس بن سعد بن عبادہ'' اپنی جگہ سے اٹھے اور خدا کی حمد و ثنا بجالانے کے بعد بولے :

اے امیر المؤمنین ! آمادہ ہوجائے اور ہمارے ساتھ مشترک دشمن پر حملہ کرنے کیلئے باہر آنے میں کوتاہی اور تاخیر نہ فرمائیے خد اکی قسم میں ان سے جنگ کرنے میں اس سے زیادہ مائل ہوں کہ راہ کی خدا میں ترکوں اور رومیوں سے جہاد کروں کیونکہ دین الہٰی کی نسبت ان کی گستاخی حد سے گزر چکی ہے اور انہوں نے خدا کے نیک بندوں اور مہاجر ، انصار اور صالح تابعین میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ناصر و یاور کو ذلیل و خوار کرکے رکھدیا ہے ۔

۱۹۱

یہ جب کسی کو غصہ کرکے اسے پکڑ لیتے ہیں تو اسے جیل میں ڈال دیتے ہیں یا اسے کوڑے مارتے ہیں اور اس کا بائیکاٹ کرتے ہیں یا شہر و وطن سے جلا وطن کر دیتے ہیں ہمارے مال ومنال کو اپنے لئے حلال جانتے ہیں اور ہمارے ساتھ اپنے غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں ۔

اس کے بعد '' نصر '' لکھتا ہے :

جب '' قیس'' اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو انصار کے بزرگوں میں سے خزیمہ بن ثابت و ابو ایوب انصاری '' اور دیگر لوگوں نے قیس کی ملامت کرتے ہوئے کہا:

تم نے کیوں انصار کے بڑے بوڑھوں کا احترام نہیں کیا اور ان سے پہلے بول اٹھے ؟

قیس نے جواب دیا ؛ مجھے آپ لوگوں کی برتری اور بزرگی کا اعتراف ہے لیکن میرے سینہ میں بھی وہی غصہ و نفرت موجزن ہے جو '' احزاب '' کی یاد کرکے آپ لوگوں کے سینہ میں موجزن ہوتی ہے اس لئے میں صبر نہ کرسکا ۔

یہاں پر انصار کے بزرگوں نے آپس میں طے کیا کہ ایک شخص اٹھے اور انصار کی جماعت کی طرف سے امیر المؤمنین کے جواب کے طور پر کچھ بولے۔ لہذا '' سہل بن حنیف '' کو انتخاب کیا گیا اور ان سے کہا گیا؛ اے سہل ! کھڑے ہوجاؤ اور ہماری طرف سے بات کرو ! سہل اٹھے اور خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں حمد و ثنا بجالانے کے بعد بولے:

اے امیر المؤمنین آپ جس کے ساتھ مہربانی کریں گے ، ہم بھی مہربانی کریں گے اور جس سے جنگ کریں گے ، ہم بھی اس سے لڑیں گے ۔ آپ جو فکر کریں گے ہماری فکر بھی وہی ہے کیوں کہ ہم آپ کے دائیں بازو کے مانند آپ کے اختیار میں ہیں ۔

لیکن ہماری تجویز یہ ہے کہ کوفہ کے باشندوں کے سرداروں کو اس موضوع سے مطلع فرمائیے کیونکہ وہ اس دیار کے باشندے ہیں ۔ انھیں حکم دیجئے تا کہ وہ بھی دشمن کی طرف روانہ ہوں ۔ ان کو فضل ورحمت خدا سے جو اِنہیں عنایت ہوئی ہے ، آگاہ فرمائیے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں اگر آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے تو آپ اپنے مقصد مقصد میں کامیاب ہوں گے ورنہ ہم لوگ تو آپ کے بارے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتے ، جب بھی ہمیں بلائیں گے جان ہتھیلی پر لے کر حاضر ہیں اور جو بھی حکم دیں گے سر آنکھوں پر لیں گے یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ صفین کی جنگ میں امیر المؤمنین کے ہمراہ ستر افراد بدری ، شجرہ میں بیعت کرنے والوں میں سے سات سو افراد کے علاوہ چار سو دوسرے مہاجر و انصار بھی موجودتھے ۔

۱۹۲

مسعودی نے بھی لکھا ہے کہ :

صفین کی جنگ میں عراق کے باشندوں میں سے پچیس ہزار افراد قتل ہوئے جن میں پچیس بدری بھی دکھائی دیتے تھے۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ امیر المؤمنین کی جنگوں کے بارے میں اصحاب کے نظریات اور پالیسی کا ایک نمونہ تھا ۔ اب ہم '' خزیمہ بن ثابت انصاری ذو الشہادتین '' کے صفین کی جنگ میں قتل ہونے کی روداد بیان کرتے ہیں ۔

'' ابن سعد '' اپنی کتاب ''طبقات '' میں '' ذو الشہادتین '' کی زندگی کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے :

جس وقت عمار یاسر صفین کی جنگ میں قتل ہوئے ، خزیمہ بن ثابت اپنے خیمہ میں چلے گئے ، غسل کیا اور جنگی لباس زیب تن کیا، اس پر پانی چھڑکنے کے بعد باہر آئے او رمیدان جنگ میں جاکر اس قدر جنگ کی کہ آخر شہید ہوگئے ۔

'' خطیب بغدادی'' ١ نے بھی اپنی کتاب '' موضح '' میں '' عبد الرحمان بن ابی لیلی '' سے نقل کرکے یوں لکھا ہے :

میں جنگ صفین میں حاضر تھا ۔ میدان کارزار میں میری ایک ایسے شخص کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوئی جو اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھا ، اس کی داڑھی کے بال چہرے پر لگائے نقاب سے نیچے کی طرف باہر آئے تھے۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ لڑرہا تھا اور

____________________

١- حافظ حدیث ، ابو بکر احمد بن علی ملقب بہ خطیب بغدادی ( وفات ٤٦٣ھ ) اس کی تالیفات میں سے ایک '' موضح اوھام الجمع و التفریق' ہے کہ ہم نے اس کتاب کی جلد' ٤' صفحہ: ٢٧٧ طبع حیدر آباد دکن ١٣٨٧ھ کی طرف رجوع کیا ہے۔

۱۹۳

دائیں بائیں تلوار چلارہا تھا اور حملہ کررہا تھا ۔ میں نے اپنے آپ کو اس کے نزدیک پہنچا کر کہا :

اے بوڑھے آدمی ! تم جوانوں کے ساتھ اس طرح بلاخوف لڑرہے ہو اور دائیں بائیں تلوار چلا رہے ہو ؟

اس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا کر کہا ؛ میں '' خزیمہ بن ثابت انصاری'' ہوں ، میں نے خود رسول خدا سے سنا ے کہ وہ فرماتے تھے : علی کے ہمراہ لڑنا اور اس کے دشمنون سے جنگ کرنا۔

' 'نصر بن مزاحم'' اپنی کتاب '' صفین '' میں اس جنگ کی رجز خوانیوں کے ضمن میں لکھتا ہے :

'' خزیمہ بن ثابت '' صفین کی جنگ میں معاویہ کی سپاہ پر حملہ کرتے ہوئے یہ رجز پڑھ رہے تھے :

جنگ شروع ہوئے دو دن گزر گئے ، یہ تیسرا دن ہے ، پیاس کی شدت سے جنگجووں کی زبانیں منہ سے باہر نکل آئی ہیں ۔

آج وہی دن ہے کہ جس دن تلاش وکوشش کرنے والے کو بخوبی معلوم ہوگا کہ امام کے ساتھ عہد و پیمان توڑنے والے کس قدر زندہ رہنے کی امید رکھتے ہیں ؟!

جبکہ یہ لوگ اپنے اسلاف کی میراث لینے والے اور آئندہ کیلئے وراثت چھوڑنے والے ہیں ، یہ علی ہیں جو بھی ان کی اطاعت نہ کرے ، '' ناکثین '' میں سے ہے اور پروردگار کے ہاں گناہگار ہے ۔

اس کے علاوہ جمعرات کے دن کی دلاوریوں اور رجز خوانیوں کے عنوان سے لکھتا ہے : اسی دن ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین'' قتل ہوئے ، اور خزیمہ کی بیٹی '' ضبیعہ '' اپنے باپ کی لاش پر یوں نوحہ خوانی کررہی تھی:

اے میری آنکھوں ! '' احزاب ''کے ہاتھوں مقتول اور فرات کے کنارے خاک پر پڑی ہوئی خزیمہ کی لاش ' پر آنسوؤں کے دریا بہاؤ:

انہوں نے ذو الشہادتین کو بے گناہ اور مظلوم قتل کیا ہے' خدا ان سے اس کا انتقام لے ۔

اسے جوانمردوں کے ایک گروہ کے ساتھ مارا گیا ، جو حق کی آواز پر لبیک کہہ کر آگے بڑھے تھے اور ہرگز آرام سے نہیں بیٹھے تھے۔

یہ لوگ اپنے کامیاب و فریاد رس مولا امام علی کی مدد میں اٹھے تھے اور موت کے لمحہ تک اپنے مولا کی مدد سے دست بردار نہیں ہوئے ۔

۱۹۴

خدائے تعالیٰ '' خزیمہ'' کے قاتلوں پر لعنت فرمائے اور دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کرے ۔

نصر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

امام علی نے صفین کی جنگ سے واپسی پر اپنے ایک خطبہ میں کوفیوں کی معاویہ سے جنگ میں شرکت پر تجلیل کرتے ہوئے بے انتہا حزن و ملال کے ساتھ خزیمہ ذو الشہادتین کو یاد کرتے ہوئے فرمایا:

میرے بھائی ، جن کا خون صفین کے میدان میں زمین پر جاری ہوا ، چونکہ آج وہ زندہ نہیں ہیں جو غم و اندوہ کے عالم کا مشاہدہ کرتے ! ان کو کیا نقصان پہنچا ؟ خدا کی قسم انہوں نے اس خدا کا دیدار کیا جس نے انہیں جزا دی ہے اور انھیں تمام خوف و ہراس سے آزاد کرکے امن کی جگہ پر قرار دیا ہے ۔

کہاں ہیں میرے وہ بھائی جنہوں نے حق کی راہ میں قدم رکھا اور حق کے راستے کا انتخاب کیا؟

کہاں ہے عمار ، کہاں ہے ابن تیہان ١ اور کہاں ہے ذو الشہادتین ؟!

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا وہ امام علی کی جنگوں کے بارے میں مہاجریں و انصار خاص کر خزیمتہ بن ثابت ذو الشہادتین نقطہ نظر کا اظہار تھا ٢

ان حقائق کے باوجود سیف آخر میں تحریف کرتا ہے او وقائع میں دخل و تصرف کے ذریعہ افسانوی کردار خلق کرتا ہے اور اس طرح تاریخ اسلام کو مشکوک کرکے اس کے اعتبار' استحکام اور قدر و منزلت کو گرادیتا ہے ۔

خزیمہ کے افسانہ پر ایک بحث

گزشتہ پانچوں روایتوں میں سیف نے تاریخی حقائق میں تحریف کرکے علماء اور محققین کو

____________________

١۔ ابن تیہان ، ابو الہیثم ، مالک بن تیہان انصاری قبیلۂ اوس میں سے ہیں ۔ ابن تیہان نے بیعت عقبہ کو درک کیا ہے اور جنگِ بدر کے علاوہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دوسری جنگوں میں بھی شرکت کی ہے ۔ ابن تیہان صفین کی جنگ میں امام علی کی حمایت میں لڑے اور اس میں شہید ہوئے۔ (اسد الغابہ ج ٥ ٣١٨) ، خطبہ نمبر ١٨٣ ، نوف بکالی کی روایت کے مطابق اور ' ' شرح نہج البلاغہ '' ابن ابی الحدید معتزلی (١٠.٩٩) ۔

٢۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ فضائل و مناقب امام علی بیان کرنے میں ہماری دلچسپی کا مقصد یہ ہے کہ ہم انصار کے نظریات اور امام کے بارے میں ان کی پالیسی کو بیان کرکے بحث کو طولانی بنارہے ہیں ۔حقیقت میں ہم مجبور تھے تا کہ سیف کی شیطنتوں ، فضائل امام کو پوشیدہ رکھنے ، امام کے ساتھ اس کی دشمنی کی بنا پر وقائع میں تحریف کرنے اور بنی امیہ کے ساتھ اس کی ہمدردیوں سے پردہ اٹھائیں ۔ اسی طرح ہم نے بعد میں ذکر ہونے والے صحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مشہور صحابی جیسے '' ابو دجانہ '' کے امام کی جنگوں میں شرکت کرنے کے مسئلہ کو جس کا سیف مدعی ہے قبول نہیں کیا ہے اور اسے رد کیا ہے۔

۱۹۵

گمراہی اور پریشانی سے دوچار کیا ہے ۔ اس نے تاریخ میں تصرف کرکے ' خزیمہ بن ثابت '' ذو الشہادتین '' کے علاوہ افسانہ کا اس میں اضافہ کیا ہے اور اس طرح آئندہ نسلوں کے تاریخی حقائق سے منحرف ہونے کے اسباب مہیا کئے ہیں ۔

سیف بن عمر تمیمی کے بعد اسلام کے علماء و محققین کی باری آتی ہے ۔ اس سلسلہ میں مکتبِ خلفاء کے پیرو علماء نے کمر ہمت باندھ کر سیف کی افسانوی داستانوں جھوٹ کے پلندوں اور تخلیقات کو مسلم اور ناقابل انکار حقائق کے عنوان سے حدیث، تاریخ ، ادب اور صحابہ کی تشریح میں لکھی گئی اپنی معتبر اور گراں قدر کتابوں میں نقل کیا ہے اور اپنے اس عمل سے سیف کے افسانوں کو حقیقت کا لبادہ اوڑھا کر معتبر مصادر و مآخذمیں داخل کیا ہے اس سلسلے میں خطیب بغدادی جیسے دانشور کی بات قابل غور ہے ۔

خطیب بغدادی اپنی کتاب '' موضح '' میں '' خزیمہ بن ثابت انصاری '' ''غیر ذو الشہادتین '' کے بارے میں لکھتا ہے :

علماء نے اس خزیمہ کا نام سیف کی احادیث سے استفادہ کرکے لکھا ہے منجملہ یہ کہ

یہاں پر سیف کی پہلی اور دوسری روایت کو نقل کرنے کے بعد اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :

بے شک اس سلسلے میں سیف کی روایت غلط اور بے موقع ہے کیونکہ '' خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' نے امام علی کے ساتھ صفین کی جنگ میں شرکت کی ہے اس مطلب کو سیرت لکھنے والے تمام محققین نے ذکر کیا ہے اور اس پر اتفاقِ نظر رکھتے ہیں جب سیف کی بات سبھی علماء کے نقطۂ نظر اور ان کے بیان کے خلاف ہے تو یہ حجت اور اعتبار سے بھی خالی ہے !

مذکورہ مطالب کو لکھنے کے بعد خطیب نے چند ایسی روایات نقل کی ہیں جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ''خزیمہ ٔ ذو الشہادتین '' نے صفین کی جنگ میں امام علیہ السلام کی ہمراہی میں شرکت کی ہے اور اسی جنگ میں شہید ہوئے ہیں ' اس کے بعد لکھتا ہے :

اصحاب میں اس '' ذو الشہادتین '' کے علاوہ کوئی اور نہ تھا جس کا نام ''خزیمہ '' ہو اور اس کے باپ کا نام ''ثابت '' ہو اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

۱۹۶

ابن حجر جیسے عالم نے '' خزیمہ بن ثابت '' کے سلسلے میں د و شرحیں لکھی ہیں ان میں سے ایک ''خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین '' کے عنوان سے جو ایک مشہور و معروف صحابی تھے ۔ اور دوسری سیف کے جعلی خزیمہ کے عنوان سے ۔ابن حجر سیف کے اس جعلی خزیمہ کے بارے میں لکھتا ہے :

اور دوسرا خزیمہ بن ثابت انصاری ہے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں '' حکم بن عتیبہ '' سے نقل کرکے لکھاہے .....( دوسری روایت کے آخر تک )

اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرکے لکھتا ہے :

اس روایت کو سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں لکھا ہے لیکن خطیب بغدادی نے اسے مردود جانا ہے اور کہتا ہے

اور خطیب بغدادی کے بیانات خلاصہ بیان کرنے کے بعد اپنے نقطۂ نظر کو یوں بیان کرتا ہے :

میں ابن حجر کہتا ہوں کہ سیف کا کوئی گناہ نہیں ہے ، بلکہ یہ غلط بیانی اور آفت اس کے راوی '' عزرمی '' کی ہے جس نے اس قسم کی جھوٹی اور ناحق روایت بیان کی ہے ! جی ہاں سیف نے ''جمل '' کی داستان میں لکھا ہے کہ علی نے مدینہ میں تقریر کی اور کہا..... ( گزشتہ پہلی روایت کے آخر تک)

ابن ابی الحدید معتزلی نے اسی سلسلہ میں جو کچھ بیان کیا ہے ہم یہاں پر اسے نقل کرتے ہیں ، وہ لکھتا ہے :

''ابو حیان توحیدی '' ١ نے اپنی کتاب '' بصائر '' میں لکھا ہے کہ خزیمہ بن ثابت جس نے امام علی علیہ السلام کے ہمراہ صفین کی جنگ میں شرکت تھی اور اسی جنگ میں شہید ہو ا تھا ، حقیقت میں خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین نہیں تھا بلکہ انصار میں سے کوئی اور تھا ، جس کا نام بھی خزیمہ بن ثابت تھا ' جبکہ یہ دعویٰ مکمل طورپر غلط اور خطا ہے ، کیونکہ حدیث و انساب کی تمام کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ اصحاب ، انصار، اور غیر انصار میں '' ذو الشہادتین '' کے علاوہ کسی اور کا نام '' خزیمہ بن ثابت '' نہیں تھا ۔ در حقیقت ہوا و ہوس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے ! یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ تاریخ کبیر کے مصنف طبری نے ابو حیان سے پہلے یہی مطالب لکھے ہیں اور ابو حیان نے اپنی غلط بات کو طبری کی کتاب سے نقل کیا ہے ! جبکہ وہ تمام کتابیں جو اصحاب کے ناموں کے بارے میں لکھی گئی طبری اور ابو حیان کی باتوں کے خلاف ثابت کرتی ہیں

____________________

v ١۔ ابو حیان توحیدی ، اس کا نام علی بن محمد توحیدی ہے جس نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں وفات پائی ہے۔ اس کی تالیفات میں سے ایک کتاب '' بصائر القدماء و بشائر الحکما'' ہے ۔

۱۹۷

اس کے علاوہ کیاضرورت ہے کہ '' خزیمہ ، ابن تیہان عمار ...' جیسوں کے ہوتے ہوئے ۔ امیرالمؤمنین کے حامیوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کریں ، کیونکہ اگر لوگ امام کے سلسلہ میں انصاف سے کام لیں اور تعصب کی عینک کو اپنی آنکھوں سے اتار کر صحیح معنوں میں امام کے بارے میں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اگر پوری دنیا بھی آپ کی مخالفت کرکے دشمنی پر اتر آئے اور آپ کے خلاف تلوار کھینچ لے اور امام تن تنہا ہوں ، تو بھی حق علی کے ساتھ ہوگا اور یہ سب لوگ باطل اور ظالم ہوں گے ( ابن ابی الحدید کی بات کا خاتمہ)

ابن ابی الحدید اس امر میں حق پر ہے ۔ وہ ''' خزیمہ ٔ غیر ذو الشہادتین '' کو خلق کرنے کے سبب کے بارے میں کہتا ہے :

'' ہواوہوس کی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے ''

لیکن جو وہ ایک بار ابو حیان کو اور دوسری بار '' طبری '' کو ملزم ٹھہراتا ہے تو ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

اسی طرح ہم ابن حجر کی اس بات سے بھی اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں جو وہ کہتا ہے کہ یہ تمام مشکلات اور آفتیں '' عرزمی '' سے پیدا ہوئی ہیں ۔ جبکہ '' عرزمی'' کا کوئی قصور و گناہ نہیں ہے اور ان تمام آفتوں کا سرچشمہ سیف بن عمر تمیمی ہے یہ وہی ہے جس نے '' خزیمہ غیر ذو الشہادتین '' کے بارے میں دو روایتیں گڑھی ہیں اور انھیں '' حکم '' '' عرزمی '' ، ''محمد '' اور '' طلحہ'' سے نسبت دی ہے !

۱۹۸

سیف تنہا شخص ہے جس نے خزیمہ '' غیر ذوالشہادتین '' کے چہرے کا خا کہ کھینچا ہے اور اسے ایک رول سونپا ہے ۔

سیف تنہا شخص ہے جس نے خزیمہ کا افسانہ اور دیگر افسانے خلق کئے ہیں اور بڑی مہارت سے انھیں تاریخ اسلام کے صفحات میں درج کرایا ہے اور اس طرح علماء اور محققوں کو حیرت اور پریشانی سے دوچار کیا ہے ورنہ سیف کے جھوٹ سے بے خبر بے چارے مشہور راویوں کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟!

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے سیف کی اس جعلی مخلوق کو آسانی سے دریافت نہیں کیا بلکہ اس سلسلے میں بحث و تحقیق میں کافی وقت لگا ہے اور اس پر ہماری ایک عمر صرف ہوئی ہے اور انتھک اور بے وقفہ تلاش اور کوشش کا نتیجہ ہے کیونکہ اس کی اس قسم کی تخلیق ایسی نہیں ہے کہ مثال کے طور پر سیف نے ایک نام کا انتخاب کیا اور اس نام کیلئے ایک افسانہ گڑھ کر اسے اپنے دوسرے افسانوں کی طرح تاریخ اسلام میں درج کرایا ہواور اس طرح اس کے افسانوں سے حقائق کو آسانی کے ساتھ سمجھنا ممکن ہو ۔ بلکہ اس کے بر عکس سیف نے اس قسم کی اپنی تخلیقات اور اپنے افسانوں میں کردار اور رول ادا کرنے والوں کو ایسے چہروں کے ہم نام خلق کیا ہے جو تاریخ میں حقیقتاً موجود تھے اور اتفاق سے مقام و منزلت اور عمومی احترام کے بھی مالک تھے اور یہی امر سبب بنا کہ بعض اوقات ہم دوراہے پر کھڑے ہو کر حیرت اور پریشانی سے دوچار ہوتے رہے ہیں ایسی صورت میں ہم موضوع کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے مجبور ہوتے تھے کہ اپنی تمام توانائیوں کو بروئے کار لائیں ا ور مقصد حاصل ہونے تک آرام سے نہیں بیٹھتے تھے ۔

۱۹۹

بحث کا نتیجہ

سیف نے خزیمہ بن ثابت انصاری غیر ذو الشہادتین کو خلق کرکے اس کا نام دو روایتوں میں لیا ہے اور ان دونوں روایتوں میں سے ہر ایک کیلئے بعض راوی بھی پیش کئے ہیں جس کسی نے بھی ، جیسے طبری ، ابن عساکر اور ابن حجر خزیمۂ غیر ذو الشہادتین کی داستان نقل کی ہے یا اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے روایت کوسیف بن عمر سے نقل کیاہے نہ کہ کسی اور سے اور اس کے بعد دوسرے علماء جیسے '' توحیدی ، ابن اثیر ، ان کثیر اورابن خلدون وغیرہ '' نے خزیمہ غیر ذو الشہادتین کا نام لیتے وقت بلا واسطہ یا با واسطہ روایت کو طبری سے نقل کیا ہے لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب آفتیں صرف و صرف سیف کی وجہ سے ہیں !! ' '

سیف نے اپنی تمام افسانوی شخصیتوں کو دوسری صدی ہجری میں اپنے خاندانی تعصبات ، قدرت اور دولتمندوں کی حمایت ، خاندان بنی امیہ و مضر ( اس کے اپنے خاندان ) کی نوکری اور مداحی و ستائش کی بنیاد پر خلق کیا ہے تا کہ اس طرح اپنے رقیب اور دیرینہ دشمن قبائل جیسے یمانی اور قحطانیوں پر کیچڑ اچھال کر اپنے دل کی بھڑاس نکال سکے ۔ ابھی یہ سکہ کا ایک ہی رخ ہے !

سیف کا پیغمبر خدا کے اصحاب کے نام پر اپنے ہیرؤں کی تخلیق اور ایسے افسانے گڑھنے میں اس کا مذہبی تعصب یعنی زندیقی ہونا بھی کارفرما تھا تاکہ اسلام سے عناد و دشمنی جیساکہ بعض نے اسے اس کا ملزم ٹھہرایا ہے کی بناء پر اسلامی عقائد میں شک و شبہ ایجاد کرے اور علماء کو حقائق سے منحرف کرے ، ان کی تحقیق کی راہ میں رکاوٹیں ڈالے اور اس طرح اسلام کا چہرہ مکمل طور پر مسخ کرکے دنیا والوں کے سامنے پیش کرے۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416