ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 214961 / ڈاؤنلوڈ: 4957
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بستر میں پر چھا گیا ہے۔ بخدا میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لیے کہ:

1. وہ (مرکز ) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔

2. تم امر حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں ۔

3. وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔

4. وہ اپنے شہروں میں امن برقرار رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔

میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤ ، تو ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لےجائے گا۔

امام اس حد تک ان سے خوف محسوس کر رہے ہیں کہ ایک لکڑی کا پیالہ بھی انہیں دیتے ہوئے امن محسوس نہیں کرتے ہیں۔ چہ جائے کہ ان کی اطاعت اور پیروی پر اعتماد کریں۔ یہ مظلومیت امام علی علیہ السلام کی انتہاء ہے۔ اس کے بعد آپ اللہ کے حضور اس طرح شکوہ کرتے ہیں:

اللَّهُمَّ إِنِّي قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّونِي وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُونِي فَإَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيراً مِنْهُمْ وَ إَبْدِلْهُمْ بِي شَرّاً مِنِّي اللَّهُمَّ مِثْ قُلُوبَهُمْ كَمَا يُمَاثُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ إَمَا وَ اللَّهِ لَوَدِدْتُ إَنَّ لِي بِكُمْ إَلْفَ فَارِسٍ مِنْ بَنِي فِرَاسِ بْنِ غَنْم‏: هُنَالِكَ لَوْ دَعَوْتَ‏ إَتَاكَ‏ مِنْهُمْ‏ ****** فَوَارِسُ مِثْلُ إَرْمِيَةِ الْحَمِيم

۲۱

اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے۔ وہ مجھ سے اکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر او رمیرے بدلے میں انہیں کوئی اور برا حاکم دے۔ خدا یا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس نبی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے بیان کیا) اگر تم کسی وقت انہیں پکارو، تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روئی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں۔(16)

امت کے درمیان امام کا وجود چکی میں کیل کی طرح ہےکہ لوگ اس کے ارد گرد نظم و نسق کے ساتھ رہتے ہیں ان میں کوئی بھی اگر اپنی گردش سے منحرف ہو جائے تو اس کا بنیادی ڈھانچہ منہدم ہو جائے گا۔ امام فرماتے ہیں:

وَ إِنَّمَا إَنَا قُطْبُ الرَّحَى‏تَدُورُ عَلَيَّ وَ إَنَا بِمَكَانِي فَإِذَا فَارَقْتُهُ‏ اسْتَحَارَ مَدَارُهَا وَ اضْطَرَبَ ثِفَالُهَا هَذَا لَعَمْرُ اللَّهِ الرَّإيُ السُّوءُ

میں چکی کے اندر کا وہ قطب ہوں جس کے گرد چکی گھومتی ہے جب تک میں اپنی جگہ پر ٹھہرا رہوں اور اگر میں نے اپنا مقام چھوڑ دیا ، تو اس کے گھومنے کا دائرہ متزلزل ہو جائے گا۔ خدا کی قسم یہ بہت برا مشورہ ہے ۔

امام اور رہبر کی اطاعت اور پیروی امت کو گرداب حوادث میں حیران اور سرگردان ہونے سے بچاتی ہےتاکہ اپنے زمانے اور اس کے حوادث سے انسان امان میں رہیں اور ٹیڑھے راستے پر جانے سے خود کو بچا کے رکھ سکیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے قوم حضرت موسی علیہ السلام کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے حیرانی اور پریشانی کی گرداب میں پھنس گئے۔ امام فرماتے ہیں:

-------------

(16)- ترجمہ مفتی جعفر ص 136 و 137 خ 25

۲۲

لَكِنَّكُمْ تِهتُمْ مَتَاهَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ لَعَمْرِي لَيُضَعَّفَنَ‏ لَكُمُ‏ التِّيهُ‏ مِنْ بَعْدِي إَضْعَافاً بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَ قَطَعْتُمُ الْإَدْنَى وَ وَصَلْتُمُ الْإَبْعَدَ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ إِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِيَ لَكُمْ سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُولِ وَ كُفِيتُمْ مَئُونَةَ الِاعْتِسَافِ وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْإَعْنَاق‏

تم بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے اور اپنی جان کی قسم میرے بعدتمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے ۔ یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔ (17)

-----------------

(17)- ترجمہ مفتی جعفر ص 390 خ159

۲۳

ج- رہبر اور عوام کے ایک دوسرے پر حقوق

کسی بھی معاشرے میں امام اور امت کے ایک دوسرے کے اوپر حقوق ہیں، کہ ان کی رعایت کرنے سے وہ معاشرہ ترقی، کمال اور ہمیشہ کی سعادت اور خوشبختی حاصل کر لے گا۔ان حقوق کی دو قسم ہیں: ایک وہ حقوق ہیں جو امام اور رہبر کی نسبت لوگوں کے گردنوں پر ہیں۔ دوسرے وہ حقوق جو معاشرے میں رہنے والوں کی نسبت امام اور رہبر کی گردن پر ہیں یہ امام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی سعادت کی طرف رہنمائی کرے۔ ایک جگہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

إَيُّهَا النَّاسُ إِنَ‏ لِي‏ عَلَيكُمْ‏ حَقّاً وَ لَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ فَإَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ: 1- فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ 2-وَ تَوْفِيرُ فَيئِكُمْ عَلَيكُمْ 3- وَ تَعْلِيمُكُمْ كَيلَا تَجْهَلُوا 4- وَ تَإدِيبُكُمْ كَيمَا تَعْلَمُوا

وَ إَمَّا حَقِّي عَلَيكُمْ 1- فَالْوَفَاءُ بِالْبَيعَةِ2- وَ النَّصِيحَةُ فِي الْمَشْهَدِ وَ الْمَغِيبِ 3- وَ الْإِجَابَةُ حِينَ إَدْعُوكُمْ 4- وَ الطَّاعَةُ حِينَ آمُرُكُم‏

اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ 1- میں تمہاری خیر خواہی کو پیش نظر رکھوں2- اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں، 3- تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو4- اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں جس پر تم عمل کرو ۔

اور میرا تم پر یہ حق ہے کہ 1- بیعت کی ذمہ داریوں کو پوا کرو2- اور سامنے اور پس پشت خیر خواہی کرو۔ 3- جب بلاؤں تو میری صدا پر لبیک کہو،4- اور جب کوئی حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو۔(18)

---------------

(18)- ترجمہ مفتی جعفر ص 158 خ 34

۲۴

ہر چیز سے پہلے جس کی اہمیت زیادہ ہے وہ لوگوں کا امام کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرنا ہے۔ اسی اطاعت کے چھاؤں میں سماج میں نظم و نسق برقرار رہے گا، معاشرہ دشمنوں کی کھلے اور چھپے حملوں سے محفوظ رہے گا۔ فرمان امام علیہ السلام کے آخری دونوں جملے اسی مطلب کو بیان کر رہے ہیں۔ یہی بے چون و چرا اطاعت معاشرے کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ معاشرے کی نشو ونما کرے گا۔ اور یہی اطاعت معاشرے کو دشمنوں کی شر سے محفوظ رکھنے کی ضامن ہے۔اسی اطاعت کے سائے میں دشمنوں کے منحوس عزائم سے پردہ اٹھ جائے گا اور ان کے نقشوں کا شکست فاش ہوگا۔

دوسری جانب اس اطاعت اور پیروی ہی کی برکت سے معاشرہ ترقی کرے گا۔ لوگوں کے لیے ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔ علمی چوٹیاں سر ہوں گی۔ انسانوں کا تزکیہ بھی اسی اطاعت کے اندر ہے؛ وہی تزکیہ جس کے انجام دہی پر انبیاء علیہم السلام مامور تھے اور اہداف نبوت و رسالت میں سے ایک یہی تھا:

﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ﴾

وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔(21)

واضح ہے کہ تعلیم او رتزکیہ اہداف رسالت میں سے دو اہم ہدف ہیں کہ جو آیت میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ امام علی علیہ السلام کا وہ فرمان جس میں آپ امام کے اوپر لوگوں کے حقوق کو بیان فرما رہے ہیں ٹھیک اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ لوگوں کو تعلیم سکھانے اور ان کی تربیت کرنے کے علاوہ تزکیہ بھی امام پر ضروری ہے۔

--------------

(21)- سورہ جمعہ : 2

۲۵

اس بنا پر امام اور رہبر کی اطاعت کرنا حقیقت میں ان دو اہم اہداف کی حفاظت کرنا ہے:

الامامة نظاما للامة و الطاعة تعظيما للامامة

امامت امت کا نظام درست رکھنے کے لیے ہے اور اطاعت کو امامت کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔(22)

ان تمام باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کسی معاشرے کے لیے امام اور رہبرکا ہونا دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے۔ اس اہم منصب میں کسی قسم کا شبہہ ایجاد کرنامعاشرے کو تباہی اور بربادی کی کھائی میں دھکیل دینے کا سبب بن سکتا ہے؛ لہذا رہبر کو طاقتور بنانا ہر ایک کی ذمہ داری ہے اوربغیر چون و چرا رہبر اور امام کی اطاعت کے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو گا۔ اگر معاشرے اس اہم ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام رہا تو تباہی کی کنویں میں گر نا یقینی ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرہ اس مشکل میں پھنس گیا ۔ اسلامی معاشرہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس کا علاج سالوں بعد بھی ممکن نہ ہو سکا۔

2- اختلاف اور انتشار کا شکار ہونا

اختلاف و انتشار حکومتوں کی بربادی کا ایک اہم سبب ہے۔ اگر لوگوں کے دل کسی بھی سیاسی اور پارٹی رجحان کے با وجود ایک ہو جائیں، زبان پر ایک ہی نعرہ رہے، سب کے ہاتھ ایک ہی مقصد کے لیے اٹھیں ، تو وہاں یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ بنیادی پیشرفت ہوگی اور حکومتی نظام کو بدلا جا سکے گا۔

------------

(22)- حلوانی، حسین بن محمد بن حسن بن نصر، نزہة الناظر و تنبیہ الخاطر ص46

۲۶

اسلام ابتداء ہی سے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتا چلا آیا ہے۔قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے:

﴿وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِاللَّهِ جَمِيعاً وَ لاَ تَفَرَّقُو وَ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً وَ كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (23)

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، اس طرح اللہ اپنی آیات کھول کر تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔(24)

-------------

(23)- سورہ آل عمران : 103

(24)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں : جب یہ حکم آتا ہے کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تو فوراً ذہنوں میں ایک خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب آنے والا ہے، غرق ہونے کا خطرہ ہے، کوئی طوفان آنے والا ہے کہ اس امت کی کشتی کا شیرازہ بکھرنے والا ہے، کوئی آندھی آنے والی ہے جو اس انجمن کو منتشر کر دے۔ اللہ کی رسی کو تھام لو،وَّلَا تَفَرَّقُوْا سے پتہ چلا کہ فرقہ پرستی کس قسم کا سیلاب ہے، کس قدر خطرناک طوفان اور کتنی مہلک آندھی ہے۔ چنانچہ رسولِ اسلامؐ کے بعد سے آج تک ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ اپنے مسلک سے ذرا اختلاف رکھنے والوں کو کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ دین سے زیادہ انہیں مسلک عزیز ہے اور دوسروں کو زیر کرنے کی خاطر اپنے دین تک سے ہاتھ دھونے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔

۲۷

خدا نے سختی کے ساتھ اختلاف اور انتشار سے منع کیا ہے:

﴿وَ لاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَ اخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَ إُولئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو واضح دلائل آجانے کے بعد بٹ گئے اور اختلاف کا شکار ہوئے اور ایسے لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہو گا ۔(25)

قرآن کریم اتحاد ، اتفاق اور دلوں کے ایک ہونے کو کامیابی اور سعادت کی کنجی کے طور پر بیان کر رہا ہے:

﴿يَا إَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صَابِرُوا وَ رَابِطُوا وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾

اے ایمان والو!صبرسے کام لو استقامت کا مظاہرہ کرو، مورچہ بند رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو۔ (26 و 27)

----------------

(25)- سورہ آل عمران : 105

(26)- سورہ آل عمران : 200

(27)- شیخ محسن نجفی فرماتے ہیں: صبر و تحمل ہر تحریک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لیکن امت مسلمہ نے ایک جامع نظام حیات کی تحریک چلانی ہے۔ یہ راستہ خون کی ندیوں، مخالف آندھیوں، مصائب کے پہاڑوں اور دوستوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہے۔ ساتھ دینے والوں کی قلت، دشمنوں کی کثرت، قریبیوں کی بے وفائی اور دشمنوں کی چالاکی، ساتھیوں کی سہل انگاری اور مدمقابل کی نیرنگی جیسے کٹھن مراحل طے کرنا پڑتے ہیں، لہٰذا اس کے اراکین کے صبر و تحمل کا دائرہ بھی جامع اور وسیع ہونا چاہیے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لیے بھی صبر درکار ہے۔ بھوک اور ناداری میں بھی مال حرام سے اجتناب، غیظ و غضب، جذبۂ انتقام اور قوت کے باوجود تجاوز اور ظلم سے پرہیز اور دیگر ہر قسم کی خواہشات کا مقابلہ بھی صبر و تحمل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کی بنیاد بھی صبر ہے۔جب تک صبر و حوصلہ نہ ہو اطاعت رب کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ ہو گا۔

۲۸

اختلاف، انتشار، فرقہ واریت، پارٹی بازی، دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف دشمنی اور کینہ توزی مومنوں کی طاقت کو نابود کرنے والی ہیں؛ اسی لیے مومنین کو سفارش کی جارہی ہے کہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہو جائیں، خدا اور اس کے رسول کے اوامر کو بے چون چرا مان لیں:

﴿وَ إَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو، بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(28 و 29)

امام علی علیہ السلام کوفہ والوں کی شکست کے اسباب میں سے ایک سبب ان کے درمیان اختلاف، پارٹی بازی،فرقہ واریت اور انتشار کو قرار دے رہے ہیں:

---------------

(28)- سورہ انفال : 46

(29)- اطاعت اور تعمیل حکم۔ دوسرے لفظوں میں تنظیم اور ڈسپلن کو جنگی حکمت عملی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جیساکہ تمام عسکری قوانین میں اس بات کو اولیت دی جاتی ہے۔ باہمی نزاع سے احتراز کرنا۔ اگرچہ ہر معاشرے کو اتحاد کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے تاہم اس کی ضرورت جنگ میں زیادہ ہوتی ہے ۔ باہمی نزاع اطاعت اور قیادت کے فقدان کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ (بلاغ القرآن - شیخ محسن علی نجفی)

۲۹

إَلَا وَ إِنَّكُمْ قَدْ نَفَضْتُمْ إَيدِيَكُمْ‏ مِنْ‏ حَبْلِ‏ الطَّاعَةِ وَ ثَلَمْتُمْ حِصْنَ اللَّهِ الْمَضْرُوبَ عَلَيكُمْ بِإَحْكَامِ الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ قَدِ امْتَنَ‏ عَلَى جَمَاعَةِ هَذِهِ الْإُمَّةِ فِيمَا عَقَدَ بَينَهُمْ مِنْ حَبْلِ هَذِهِ الْإُلْفَةِ الَّتِي يَنْتَقِلُونَ فِي ظِلِّهَا وَ يَإوُونَ إِلَى كَنَفِهَا بِنِعْمَةٍ لَا يَعْرِفُ إَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ لَهَا قِيمَةً لِإَنَّهَا إَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَنٍ وَ إَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَرٍ وَ اعْلَمُوا إَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ إَعْرَاباً وَ بَعْدَ الْمُوَالاةِ إَحْزَابا مَا تَتَعَلَّقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا بِاسْمِهِ وَ لَا تَعْرِفُونَ مِنَ الْإِيمَانِ إِلَّا رَسْمَه‏

دیکھو تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا اور زمانہ جاہلیت کے طور و طریقوں سے اپنے گرچ گچھے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا۔ خدا وند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا کہ جس کی قدر و قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا؛ کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہوئی) قیمت سے گراں تر اور ہر شرف و بلندی دے بالا تر ہے۔ اور وہ یہ کہ ان کے درمیان انس و یکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں او رجس کے کنار (عاطفیت) میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد پھر صحرائی بدو اور باہمی دوستی کے بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو۔ اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ (30)

--------------

(30)- ترجمہ مفتی جعفر ص 466 خ 190 خطبہ قاصعہ۔

۳۰

امام علیہ السلام نے اپنے اس نورانی کلام میں امت مسلمہ اور کوفہ والوں کی انحراف اور نابودی کے بعض اسباب و عوامل کی طرف اشارہ فرمایا:

1. امام اور رہبر کی اطاعت نہ کرنا۔

2. جاہلیت کے طور طریقوں کو زندہ کرنا اور اسلامی اقدار کو پامال کرنا۔

3. برادری اور یکجہتی کی نعمت کو کھو دینا۔

4. پارٹی بازی اور فرقہ واریت کو فروغ دینا۔

5. اسلام کے اقدار کو نابود کر کےصرف نام کو باقی رکھنا۔

ان علتوں میں ہر ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعجب کا مقام وہ ہے جہاں اہل حق اپنے حق اور حقانیت کی دفاع میں انتشار اور اختلاف کے شکار ہیں جبکہ باطل والے اپنے باطل کی حمایت میں متحد ہیں۔یہ غم بہت ہی دردناک ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے زبان سے کئی مرتبہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے سنا گیا ہے:

فَيَا عَجَباً عَجَباً وَ اللَّهِ‏ يُمِيتُ‏ الْقَلْبَ‏ وَ يَجْلِبُ الْهَمَّ مِنَ اجْتِمَاعِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عَلَى بَاطِلِهِمْ وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ فَقُبْحاً لَكُمْ وَ تَرَحاً حِينَ صِرْتُمْ غَرَضاً يُرْمَى يُغَارُ

العجب ثم العجب خدا کی قسم ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہارے جمعیت کا حق سے منتشر ہوجانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو۔

بسر بن ارطات کے یمن پر غلبہ پانے کی خبریں سننے کے بعد آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ : میں جانتا تھا کہ شامی تم پر غالب آئیں گے؛ کیونکہ وہ اپنے باطل کی حمایت پر متحد ہیں جبکہ تم اپنے حق کی دفاع میں اختلاف او رانتشار کا شکار ہو۔(31)

------------

(31)- ترجمہ مفتی خ 25

۳۱

اس بنا پر کامیابی اور فتح کی علت لوگوں کا کم یا زیادہ ہونا نہیں ہے بلکہ مقصد اور ہدف کے راہ میں یکجہت اور متحد ہونا ہے۔ امام ایک جگہ فرماتے ہیں:

وَ الْعَرَبُ‏ الْيَوْمَ‏ وَ إِنْ‏ كَانُوا قَلِيلًا فَهُمْ كَثِيرُونَ بِالْإِسْلَامِ عَزِيزُونَ بِالاجْتِمَاعِ فَكُنْ قُطْباً وَ اسْتَدِرِ الرَّحَى بِالْعَرَب‏ وَ إَصْلِهِمْ دُونَكَ نَارَ الْحَرْب‏

آج عرب والے اگر چہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں ا وراتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں تم اپنے مقام کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرف کا نظم و نسق بر قرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔(32)

خدا نے ایمان کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کر دیاجو کسی کی بس کی بات نہیں تھی اپنے رسول سے فرما رہا ہے:

﴿وَ إَلَّفَ بَينَ قُلُوبِهِمْ لَوْ إَنْفَقْتَ مَا فِي الْإَرْضِ جَمِيعاً مَا إَلَّفْتَ بَينَ قُلُوبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللَّهَ إَلَّفَ بَينَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾

اور اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی ہے، اگر آپ روئے زمین کی ساری دولت خرچ کرتے تو بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن اللہ نے ان (کے دلوں) کو جوڑ دیا، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔ (33)

--------------------

(32)- ترجمہ مفتی جعفر ص 340 خ 144

(33)- سورہ مبارکہ انفال : 63

۳۲

اتحاد و یکجہتی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کو عطا کیا ہے، اور مسلمانوں کو بھی چاہیئے کہ اس نعمت کی قدر کریں اور کسی بھی قیمت پر اسے ہاتھ سے جانے نہ دیں:

﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَإَزِيدَنَّكُمْ وَ لَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾

اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں ضرور زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (34 و 35)

3- دنیا داری

دنیا اور اس کی تجلیات و تجملات کی طرف رخ کرنا، دولت جمع کرنا ان عوامل و اسباب میں سےایک ہے جو کسی بھی حکومت کی نابودی اور مٹ جانے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا پرستی یا سیکولرازم دو قسم کے بنیادی اور کلیدی افراد کے پاس پائی جاتی ہے:

الف : کمیونٹی رہنماؤں اور سیاستدانوں کی دنیا طلبی

اگر معاشرے کے رہنما او رحکمراں طبقہ دنیا پرستی میں مبتلا ہوگئے تو سماج میں رہنے والے اور رہنما کے درمیان ایک خلیج ایجاد ہو جائے گا؛ اس وقت معاشرے کے کمزور طبقہ ان کو اپنے سے الگ سمجھیں گے اور اس کی حمایت اور مدد سے ہاتھ اٹھا لیں گے، دوسری طرف سے یہ منحوس صفت ایسے لوگوں کو وجود میں لائے گی جو کبھی بھی معاشرے کے کمزور طبقہ کی مصیبت اور درد کو نہیں سمجھیں گے۔

---------------

(34)- سورہ مبارکہ ابراہیم : 7

(35)- شکر کی صورت میں زیادہ کے وعدے کو تاکیدی لفظوں لام اور نون تاکید کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شکر کی صورت میں اضافہ و فراوانی اللہ کا ایک لازمی قانون ہے، جو خود اپنی جگہ ایک رحمت ہے۔ جبکہ نا شکری کی صورت میں عذاب کے لیے تاکیدی الفاظ اختیار نہیں فرمائے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کفرانِ نعمت کی صورت میں عذاب ایک لازمی قانون نہیں ہے اور یہاں عفو کے لیے گنجائش ہے۔ اسی لیےلَاَزِيْدَنَّكُمْ فرمایا،لاعذبنکم نہیں فرمایا۔ نعمتوں پر شکر کرنا ایک صحیح طرز فکر، متوازن سوچ اور اعلیٰ قدروں کا مالک ہونے کی دلیل ہے۔ ایسے لوگ نعمتوں کی قدر دانی کرتے ہیں۔ شیخ محسن علی نجفی؛ بلاغ القرآن۔

۳۳

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، حضرت علیہ السلام اور باقی ائمہ علیہم السلام کا دنیا داری سے بچ کر غریبوں مسکینوں اور فقیروں کے ساتھ رہنا تنگدستی اور پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ کمزور اور ناتوان لوگوں کی مصائب کو سمجھنے کے لیے تھا۔ قرآن کریم کبھی کسی قوم کے لالچی حکمران کو "ملاء " کہ کر خطاب کر رہا ہے اور انہیں طغیان گری اور کفر و نفاق کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے:

﴿و قَالَ الْمَلَإُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَ إَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هٰذَا إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَإكُلُ مِمَّا تَإكُلُونَ مِنْهُ وَ يَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ﴾

اور ان کی قوم کے کافر سرداروں نے جو آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور جنہیں ہم نے دنیاوی زندگی میں آسائش فراہم کررکھی تھی کہا : یہ تو بس تم جیسا بشر ہے، وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔(36)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حضور فریاد کر رہے ہیں:

﴿ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَإَهُ زِينَةً وَ إَمْوَالاً فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَى إَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلاَ يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْإَلِيمَ﴾

اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے پروردگارا! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟ پروردگارا ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔ (37)

---------------

(36)- سورہ مومنون : 33

(37)- سورہ مبارکہ یونس :88

۳۴

دوسرا لفظ جسے قرآن نے دنیا پرست رہنماؤں کے لیے استعمال کیا وہ "مترف یعنی عیاش" اور اس کے دیگر مشتقات ہیں۔ جیسے :سورہ سبأ آیت 34 اور 35 میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ مَا إَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلاَّ قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا إُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ وَ قَالُوا نَحْنُ إَكثَرُ إَمْوَالاً وَ إَوْلاَداً وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾

اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگریہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور کہتے تھے: ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔

اسی طرح سورہ اسراء آیت نمبر 16 میں خدا ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ إِذَا إَرَدْنَا إَنْ نُهلِكَ قَرْيَةً إَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيراً﴾

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔(38)

امام علی علیہ السلام بھی اپنے گورنروں اور والیوں سمیت تمام کارکنوں کو عیاشی، دنیا پرستی، سیکولرازم اور اشرافیت سے نہی فرماتے تھے، اور ان کاموں میں ہمیشہ ان کے اوپر نگراں رہتے تھے ۔ اپنے کسی والی -عثمان بن حنیف - کے نام خط میں لکھتے ہیں :

----------------

(38)- شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں: قرآن کے مطابق ہر قوم کی تباہی اس کے مراعات یافتہ طبقہ مترفین کی طرف سے آتی ہے، وہ تمام تر وسائل اور سہولیات کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اور محروم طبقہ کے حقوق کو پامال کرتے ہیں۔ یہاں سے بقائے باہمی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور قومیں ہلاکت کا شکار ہو تی ہیں۔

۳۵

إَمَّا بَعْدُ يَا ابْنَ حُنَيفٍ فَقَدْ بَلَغَنِي‏ إَنَ‏ رَجُلًا مِنْ‏ فِتْيَةِ إَهلِ‏ الْبَصْرَةِ دَعَاكَ إِلَى مَإدُبَةٍ فَإَسْرَعْتَ إِلَيهَا تُسْتَطَابُ لَكَ الْإَلْوَانُ وَ تُنْقَلُ إِلَيكَ الْجِفَانُوَ مَا ظَنَنْتُ إَنَّكَ تُجِيبُ إِلَى طَعَامِ قَوْمٍ عَائِلُهُمْ مَجْفُوٌّ وَ غَنِيُّهُمْ مَدْعُوٌّ فَانْظُرْ إِلَى مَا تَقْضَمُهُ‏ مِنْ هَذَا الْمَقْضَم فَمَا اشْتَبَهَ عَلَيكَ عِلْمُهُ فَالْفِظْهُ وَ مَا إَيقَنْتَ بِطِيبِ وُجُوهِهِ فَنَلْ مِنْه‏

اے ابن حنیف! مجھے یہ اطلاع ملی ہے بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے اور بڑے بڑے پیالے تمہاری طرف بڑھائے جا رہے تھے۔ مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے یہاں سے فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں۔ جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو، اور جس کے متعلق شبہ بھی اسے چھوڑدیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔(39)

اس کے بعد امام علیہ السلام اپنی پاک سیرت کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے، اور جس کے نور علم سے کسب ضیاء کرتا ہے۔ دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس دنیا کے ساز و سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارے بس کی یہ بات نہیں۔ لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری سعی و کوشش، پاکدامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو۔ خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا او رنہ اس کی مال و متاع میںسے انبارجمع کر رکھے ہیں، اور نہ ان کپڑوں کے بدلے میں (جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے۔(40)

--------------

(39)- ترجمہ مفتی جعفر ص 361 مکتوب 45

(40)- ایضا ص 362

۳۶

اس کے بعد امام فرماتے ہیں:

اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گیہوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہوسکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنالیں، اور حرص مجھےاچھے اچھے کھانوں کے چن لینے کی دعوت دے جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں کہ جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو، اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔ کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا ہوں؟ در آنحالیکہ میرے گرد و پیش بھوک اور پیا سے جگر تڑپتے ہوں یا میں ویسا ہو جاؤن جیسے کہنے والے نے کہا کہ تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں، کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے مگر میں زمانہ کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کے بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں! میں اس لیے پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہوں۔ اس بندھے ہوئے مغلوب چوپایہ کی طرح جسے صرف پنے چارے ہی کی فکر لگی رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے، وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیش نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں؟ یا بیکار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ کمراہی کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکے جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں؟(41)

------------------

(41)- ایضا ص 363

۳۷

امام علیہ السلام کے اس نورانی کلام میں غور و فکر کرنا اسلامی معاشرے کے حکمرانوں کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مولا کی پیروی کرتے ہوئے دنیا کی زیب و زینت اور تجملات سے پرہیز کریں، ان لوگوں کی بھی فکر کریں جن کے پاس کھانے کے لیے روٹی کا ایک نوالہ بھی نہیں ہے؛ اس صورت میں حکمرانوں کی انسانی جذبہ میں طوفان آئے گا اور معاشرے کی مشکلات کو حل کرنے کی فکر میں پڑیں گے۔ اسی خط میں امام علیہ السلام دنیا کی مکر اور دھوکہ بازی کو بھی بیان کرتے ہیں اور اپنے حکمرانوں سے فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کے حالات پر غور و فکر کریں جوزمین کےاندر دفن ہو چکے ہیں اور اپنی دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ اس کے بعد امام علیہ السلام دنیا داری سے دور رہنے کی سخت تاکید کرتے ہیں اور دنیا پرستوں کو وارننگ دیتے ہیں۔ ساتھ ہی دنیا میں اپنی حالت کو بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح آپ ؑ نے دنیا کی مہار کو اپنے ہاتھ میں لیا نہ کہ اپنی مہار کو دنیا کے ہاتھ میں دیا۔ اور آخر میں عثمان بن حنیف کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَاتَّقِ اللَّهَ يَا ابْنَ حُنَيفٍ وَ لْتَكفُفْ إَقْرَاصُكَ لِيَكُونَ مِنَ النَّارِ خَلَاصُك‏

پس اللہ سے ڈرو اے ابن حنیف!اور اپنی روٹی کے نوالوں پر بس کرو تا کہ تو دوزخ کی آگ سے بچ سکے۔

دنیا کی زینتوں کی طرف دل لبھاناذاتی نقصانات اور برے اثرات کے علاوہ سماج میں اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جو انسان دنیا پرست بن جائے وہ خود کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ معاشرہ کو بھی تباہ و بربادی کے کنویں میں دھکیل دے گا، امام علیہ السلام مالک اشتر کے عہد نامہ میں لکھتے ہیں:

۳۸

فَإِنَّ الْعُمْرَانَ مُحْتَمِلٌ مَا حَمَّلْتَه‏ وَ إِنَّمَا يُؤْتَى‏ خَرَابُ‏ الْإَرْضِ‏ مِنْ إِعْوَازِ إَهلِهَا وَ إِنَّمَا يُعْوِزُ إَهلُهَا لِإِشْرَافِ إَنْفُسِ الْوُلَاةِ عَلَى الْجَمْعِ وَ سُوءِ ظَنِّهِمْ بِالْبَقَاءِ وَ قِلَّةِ انْتِفَاعِهِمْ بِالْعِبَرِ

کیونکہ ملک آباد ہے تو جیسا بوجھ اس پر لا دوگے، وہ اٹھالے گا اور زمین کی تباہی تو اس سے آتی ہے کہ کاشتکاروں کے ہاتھ تنگ ہو جائیں اور ان کی تنگ دستی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ حکام مال و دولت کو سمیٹنے پر تل جاتے ہیں اور انہیں اپنے اقتدار کے ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور عبرتوں سے بہت کم فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔(42)

امام علیہ السلام اپنی پوری حکومت کے کے دوران دنیا کی مذمت اور آپ کے دنیا سے تعلق کے علاوہ اپنے گورنروں او رحکمرانوں کو بھی دنیا کی زینتوں او ررنگینیوں سے دور رہنے کی تاکید فرماتے تھے، اور انہیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طرز زندگی کی یاد دہانی فرماتے تھے۔(43)

----------------

(42)- ترجمہ مفتی جعفر ص 459 مکتوب 53

(43)- ایضا ص 373 خ 159

۳۹

ب: سماج میں رہنے والے عام لوگوں کی دنیا پرستی

یہ بات واضح ہے کہ صرف حکمرانوں، گورنروں اور صاحب اقتدار لوگوں کی دنیا کی طرف رغبت اور تمایل مذموم نہیں ہے بلکہ اس مشکل میں اگر امت مسلمہ بھی پڑ جائے تو بھی حکومتیں ہی نابود اور برباد ہوں گی۔

حضرت علی علیہ السلام خطبہ 131 میں لوگ اور معاشرے کی تباہی کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ تَعَادَيْتُمْ‏ فِي‏ كَسْبِ‏ الْأَمْوَالِ‏

اور مال کے کمانے پر ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہو۔(44)

اگر کوئی امت دنیا پرستی میں مبتلاء ہونے کے بعد متزلزل ہو جائے اور پر معنی بلندیوں کو سر کرنے کے بجائے ذلت و پستی کے گہرائی کھائی میں گر پڑے تو آپ ع کی نظر میں وہ امت کبھی بھی فلاح و سعادت حاصل نہیں کر سکے گی:

فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ تَغَيَّرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ‏ عَنْ‏ كَثِيرٍ مِنْ حَظِّهِمْ فَمَالُوا مَعَ الدُّنْيَا وَ نَطَقُوا بِالْهَوَى وَ إِنِّي نَزَلْتُ مِنْ هَذَا الْإَمْرِ مَنْزِلًا مُعْجِبا اجْتَمَعَ بِهِ إَقْوَامٌ إَعْجَبَتْهُمْ إَنْفُسُهُمْ وَ إَنَا إُدَاوِي مِنْهُمْ قَرْحاً إَخَافُ إَنْ يَكُونَ عَلَقاً

کتنے ہی لوگ ہیں جو آخرت کی بہت سی سعادتوں سے محروم ہو کر رہ گئے ۔ وہ دنیا کے ساتھ ہو لیے۔ خواہش نفسانی سے بولنے لگے۔ میں اس معاملے میں ایک حیرت و استعجاب کی منزل میں ہوں کہ جہان ایسے لوگ اکھٹے ہوں گے جو خود بینی، اور خود پسندی میں مبتلا ہیں۔ میں ان کے زخم کا مداوا تو کر رہا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ منجمد خون کی صورت اختیار کر کے لا علاج نہ ہوئے۔ (45)

----------------

(44)- ترجمہ مفتی جعفر ص 325 خ 131

(45)- ترجمہ مفتی جعفر ص 695 مکتوب 78۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

امام صادق ں سے ملاقات کی ۔حضرت نے اس سے پوچھا:''کون سی چیز تمھارے یہاں آنے کاسبب بنی ہے؟''

اس نے جواب میں کہا:''عادت اور ہم وطنوں کی پیروی ،تاکہ لوگوں کی دیوانگی،سر منڈوانے اور پتھر مارنے سے عبرت حاصل کروں ''۔

حضرت نے فرمایا:''کیا ابھی تک گمراہی اور بغاوت پر باقی ہو؟!''

ابن ابی العوجا امام سے کچھ کہنے کے لئے آگے بڑھا ،حضرت نے اپنی ردا کو اس کے ہاتھ سے کھینچتے ہوئے فرمایا:''لاٰجِدٰالَ فِی الْحَجِّ ''(۱) (حج میں جھگڑا ممنوع ہے)۔

اس کے بعد فرمایا:''اگر وہ بات صحیح ہو جوتم کہتے ہو جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے تو ہم دونوں آخرت میں یکساں ہوں گے ۔لیکن اگر وہ صحیح ہو جو ہم کہتے ہیں جب کہ بیشک یہی صحیح ہے تو ہم آخرت میں کامیاب ہوں گے اور تم ہلاک ونابود ہوگے''۔ ٢٥

ایک اور روایت میں یوں آیا ہے:ایک دفعہ ابن ابی العوجا اور اس کے تین ساتھیوں نے مکہ میں آپس میں ایک منصوبہ بنایا کہ قرآن مجید کی مخالفت کریں ۔ہر ایک نے قرآن مجید کے ایک حصہ کی ذمہ داری لے لی کہ اس کے مثل عبارت بنائیں گے۔

دوسرے سال چاروں آدمی مقام ابراہیم کے پاس جمع ہوئے۔ان میں سے ایک نے کہاکہ''جب میں قرآن مجید کی اس آیت پر پہنچا ،جہاں کہاگیاہے: ی( ٰا أَرْضُ ابْلِعِی مٰائَکِ وَیٰا سَمٰائُ أَقْلِعِی وَغِیضَ الْمٰائُ وَقَضَی الْاَمْرُ ) (۲) ''اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان اپنے پانی کو روک لے اور پانی زمین میں

____________________

۱)۔ بقرہ ١٩٧

۲)۔ ہود٤٤

۶۱

جذب ہو گیااور خدا کا حکم انجام پاگیا''تومیں نے دیکھا کہ یہ ایسا کلام نہیں ہے جس سے مقابلہ کیا جاسکے ، لہٰذا میں نے قرآن سے مقابلہ کرنے کاارادہ ترک کردیا''

دوسرے نے کہا:جب میں اس آیت پر پہنچا: ''( فَلَمّٰا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیّٰاً'' ) (۱) ''پس جب وہ لوگ اس سے مایوس ہوگئے تو اسے چھوڑکر چلے گئے '' تو میں قرآن سے مقابلہ کرنے سے ناامید ہوا۔

وہ یہ باتیں اسرار کے طور پر چپکے چپکے ایک دوسرے سے کررہے تھے کہ اسی اثناء میں حضرت امام صادق ں نے ان کے نزدیک سے گزرتے ہوئے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

( ''قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ أَنْ یَأْتُوا بِمِثْلِ هٰذٰا الْقُرْآنِ لاٰیَأْتُونَ بِمِثْلِهِ ) ''(۲) ''آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے''

انہوں نے سر اٹھاکے حضرت کو دیکھا اور قرآن مجید کی آیت میں حضرت کی زبانی اپنے اسرار فاش ہوتے دیکھ کر انتہائی تعجب وحیرت میں پڑگئے۔ ٢٦

مفضل بن عمر کہتاہے :''میں نے مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ایک شخص کو ابن ابی العوجا سے یہ کہتے ہوئے سنا :''عقلمندوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے ان کی دعوت قبول کی،اور اذان میں ان کا نام خدا کے نام کے ساتھ قرار پایاہے''۔ابن ابی العوجاء نے جواب میں کہا:''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں بات کو مختصر کرو،میری عقل ان کے بارے میں پریشان ہے ۔اور ایسی کسی اصل کو بیان کرو جسے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لائے ہوں '' ٢٧

____________________

۱)۔یوسف ٨٠

۲)۔بنی اسرائیل٨٨

۶۲

ابن ابی العوجاء کی گفتگو اور مناظروں کے یہ چند نمونے تھے ۔

اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں کتاب ''لسان المیزان''میں آیاہے: ٢٨

''وہ بصرہ کارہنے والاتھا۔دوگانہ پرستی کے عقیدہ سے دوچار ہوا۔بوڑھوں اور جوانوں کو دھوکہ دے کر گمراہ کرتاتھا۔اس لئے عمرو بن عبید نے اسے دھمکایا وہ ان دھمکیوں کی وجہ سے کوفہ کی طرف بھاگ گیا۔کوفہ کے گورنر محمد سلیمان نے اسے پکڑکر قتل کرڈالا اور اس کے جسد کو سولی پر لٹکادیا''۔

اس کی گرفتاری اور قتل کے واقعہ کو طبری نے ١٥٥ہجری کے حوادث کے طور پر یوں بیان کیاہے:

''کوفہ کے گورنر محمد بن سلیمان نے عبد الکریم بن ابی العوجاء کو زندیقی ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا ۔بہت سے لوگوں نے منصور کے پاس جا کر اس کی شفاعت کی ،جس نے بھی اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا اور بات کی وہ خود زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرا ۔منصور نے مجبور ہوکر کوفہ کے گورنر کو لکھا کہ خلیفہ کا قطعی حکم صادر ہونے تک ابن ابی العوجاء کے ساتھ کچھ نہ کرے اور اس کے معاملہ میں دخل نہ دے ،ایسا لگتا ہے کہ ابن ابی العوجاء اپنے طرفداروں کے اقدامات سے با خبر تھا لہٰذا اس نے خلیفہ کے خط کے پہنچنے سے پہلے گورنر سے تین دن کی مہلت مانگی اور ایک لاکھ دینار بطور رشوت دینے کا وعدہ بھی کیا ۔ جب یہ درخواست اور تجویز گورنر کو ملی تو اس نے خلیفہ کا خط پہچنے سے پہلے ہی اس کے قتل کا حکم دے دیا جب ابن ابی العوجاء کو اپنی موت کے بارے میں یقین ہو گیا تو اس نے کہا : خدا کی قسم تم مجھے قتل کر رہے ہو لیکن جان لو کہ میں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں اور انھیں تمھارے درمیان منتشر کر دیا ہے اور ان کے ذریعہ حلال کو حرام ،اور حرام کو حلال کر دیا ہے ۔خدا کی قسم میں نے تم لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ جس دن روزہ رکھتے تھے افطار کرو اور جس دن افطار کرتے تھے روزہ رکھو''٢٩

۶۳

کاش !مجھے معلوم ہوتا کہ جن احادیث کو اس زندیق نے جعل کیا ہے ،کون سی احادیث ہیں ، ان کی روئیداد کیا ہے اور وہ کن کتابوں میں درج کی گئی ہیں ۔اگر اس زندیق نے اپنی زندگی سے نا امید ہوتے وقت اعتراف کیا ہے ،کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ،تو دیگر غیر معروف زندیقیوں کے ذریعہ جعل اور مکتب خلفاء کی مورد اعتماد کتابوں میں درج ہونے والی احادیث کی تعداد کتنی ہوگی؟

٣۔مطیع ابن ایاس

ابو سلمی مطیع ابن ایاس(۱) اموی اور عباسی دور کے شعراء میں سے تھا ۔وہ کوفہ میں پیدا ہوا تھا اور وہیں پرورش پائی تھی۔مطیع ایک ظریف طبع، بد فطرت اور بے حیا شاعرتھا۔ وہ اپنے اشعار میں اپنے باپ کو بے حیائی کے ساتھ بر ابھلا کہہ کر اس کا مضحکہ اڑاتا تھا ، اس لئے اس کے باپ نے اسے ملعون اور عاق کر دیا تھا۔٣٠

مطیع نے اپنی شہرت کے آغاز میں اموی خلیفہ عمر ابن یزید ابن عبد الملک کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی مدح سرائی کی اور اپنے آپ کو اس کے ہاں معزز بناکر دس ہزار درہم کا انعام حاصل کیا.عمر نے اس کا تعارف اپنے بھائی ولید بن عبد الملک سے کرایا۔مطیع نے ولید کے حضوراس کی مدح میں تین شعر پڑھ کر سنائے اور ولید وجد میں آگیا اور اس کی پاداش میں اس نے مطیع کو ایک ہفتہ تک

____________________

۱)۔اس کا باپ ابو قراعہ ،ایاس بن سلمی کنانی ،فلسطین کا رہنے والاتھا ،عبدالملک ابن مروان نے ابو قراعہ کو چند لوگوں کے ہمراہ حجاج بن یوسف ثقفی کی مدد کے لئے کوفہ بھیجا ۔ابو قراعہ نے کوفہ میں ہی رہائش اختیار کی اور وہاں پر ام مطیع سے شادی کی ( ملاحظہ ہو '' اغانی'' ج١٢ص٨٦ ؛اور تاریخ بغداد تالیف خطیب ج٣ص٢٢٣و٢٢٤)

۶۴

اپنی می نوشی کی محفل میں اپنا ہم نشین بنایا.اس کے بعد اس کے لئے بیت المال سے ایک دائمی وظیفہ مقرر کیا. اس طرح اموی خلافت کے دربار میں مطیع نے راہ پائی اور حکومت کے ارکان اور اہل کاروں کا ہمدم بن گیا۔

مطیع،یحییٰ بن زیاد حارثی،(۱) ابن مقفّع اور والبہ آپس میں جگری دوست تھے اور دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے حتیٰ وہ ایک دوسرے کی ہر قسم کی خواہش کو پوری کرنے میں کسی قسم کی دریغ نہیں کرتے تھے۔اور ان سب پر مانوی مذہب کے پیرو کار اور زندیقی ہونے کا الزام تھا۔ ٣١

بنی امیہ کے خاتمہ اور عباسی خلافت کے آغاز میں مطیع، عبد اللہ ابن معاویہ(۲) سے جاملا۔ اس وقت عبد اللہ ایران کے مغربی علاقوں کا حاکم تھا، مطیع اس کا ہمدم اور ہم نشین بن گیا۔عبد اللہ اور اس کی پولیس کے افسر جو ایک دہریہ اور منکر خدا تھا کے ساتھ مطیع کی اس ہم نشینی اور دوستی کے بہت سے قصے موجود ہیں ۔

عباسیوں کی حکومت میں مطیع ، پہلے منصور کے بیٹے جعفر کا ہم نشین بنا. چونکہ منصور نے اپنے بھائی مہدی کی جانشینی کے لئے لوگوں سے بیعت لے لی تھے. اس لئے جعفر اپنے باپ سے ناراض تھا. جشن بیعت کے دن بہت سے مقررین اور شعرا نے اپنے بیانات اور اشعار پڑھ کے داد سخن حاصل کی. مطیع بھی اس محفل میں حاضر تھا، اس نے بھی اس مناسبت سے شعر پڑھے، اپنے اشعار کے اختتام پر مطیع نے منصور کی طرف رخ کرکے کہا: اے امیر المومنین ! فلاں نے فلاں سے ....ہمارے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''مہدی موعود، محمد ابن عبد اللہ ہے کہ اس کی والدہ ہم میں نہیں ہے، وہ روی زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسے وہ ظلم و جور سے بھری

____________________

۱): کہا جاتا ہے کہ یحییٰ ، عباسیوں کے پہلے خلیفہ ابو العباس سفاح کا ماموں زاد بھائی تھا۔ یحییٰ ایک بد کار اور بیہودہ شاعر تھا۔

۲): عبد اللہ بن معاویہ ، جعفر ابن ابیطالب کا بیٹا تھا جو اصفہان ، قم، نہاوند اور ایران کے دیگر مغربی شہروں کا حاکم تھا۔ وہ اور اس کی پولیس کا افسر ، قیس بن عیلان ،لوگوں کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے (اغانی،ج١٢،ص٧٥۔٨٥)

۶۵

ہوگی، اور یہ آپ کا بھائی عباس بن محمد بھی اس بات کا گواہ ہے''.(۱) اس کے فورا بعد عباس کی طرف رخ کرکے کہا: ''میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم نے بھی یہ بات نہیں سنی ہے؟'' عباس نے منصور کے ڈر سے ہاں کہہ دی اس تقریر کے بعد منصور نے لوگوں کو حکم دیا کہ مہدی کی بیعت کریں ۔ جب محفل بر خواست ہوئی تو عباس نے کہا: ''دیکھا تم لوگوں نے کہ اس زندیق نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جھوٹ اور تہمت باندھی اور صرف اسی پر اکتفا نہین کی بلکہ مجھے بھی گواہی دینے پر مجبور کیا، میں نے ڈرکے مارے گواہی دیدی اور جانتا ہوں جس کسی نے میری گواہی سنی ہوگی ، وہ مجھے جھوٹا سمجھے گا''۔ جب یہ خبر جعفر کو پہنچی تو وہ آگ بگولا ہوگیا. جعفر ایک بے شرم اور شراب خوار شخص تھا۔ ٣٢

چونکہ مطیع کا زندیقی ہونا زبان زد خاص و عام تھا، اس لئے عباسی خلیفہ منصوریہ پسند نہیں کرتاکہ اس کا بیٹاجعفر ، مطیع کا ہمدم اور ہم نشین بنے.لہٰذا ایک دن منصور نے مطیع کو اپنے پاس بلاکر اس سے کہا : کیا تم اس پر تلے ہو کہ اپنی ہم نشینی سے جعفر کو فاسد اور بد کار بناؤاور اسے اپنے مذہب ، یعنی زندیقیت کی تعلیم دو؟! ''

مطیع نے جواب میں کہا: ''نہیں ، خلیفہ !ایسا نہیں ہے.آپ کا فرزند ، جعفر اپنے زعم میں جنیوں کی بیٹی کا عاشق ہوگیا ہے۔ اس لئے اس سے شادی کرنے کے لئے اصرار کر رہا ہے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے تعویض نویسوں اور رمّالوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے اور وہ بھی اس اہم مسئلہ کے لئے سخت کوشش میں ہیں ، اس حساب سے جعفر کے ذہن میں کفر و دین، مذاق و سنجیدگی جیسی چیزوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں رہ گئی ہے کہ میں اسے فاسد بناؤں ''

منصور چند لمحوں کے لئے سوچ میں ڈوب گیا، اس کے بعد بولا:'' اگر یہ بات سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو تو جتنی جلد ہو سکے اس کے پاس واپس جائو اور اپنی ہو شیاری ،نگرانی ،اور ہم نشینی سے جعفر کو

____________________

۲):اس طرح مطیع نے ایک حدیث جعل کی تا کہ ثابت کرے کہ منصور عباسی کا بیٹا محمد ، وہی اسلام کا مہدی موعود ہے.

۶۶

اس سے روکو''٣٣

حماد عجرد اور اس کی معشوقہ نیز یحیٰ بن زیاد اور اس کی معشوقہ کے ساتھ مطیع کی بہت سی داستانیں مشہور ہیں اس کے اکثر اشعار گانے والی عورتوں کے بارے میں ہیں ٣٤ ان میں سے وہ ''جوہر'' نام کی ایک مغنیہ کے بارے میں کہتا ہے:

''نہیں !خدا کی قسم مھدی کو ن ہے وہ تو تیرے ہوتے ہوئے مسند خلافت پر بیٹھے ؟ اگر تو چاہے تو منصور کے بیٹے کو خلافت سے اتار نا تیرے لئے آسان ہے ''

جب مطیع کا یہ شعر خلیفہ عباسی مھدی کو سنایا گیا ،تو اس نے ہنس کر کہا: ''خدا اس پر لعنت کرے ! جتنی جلد ممکن ہو سکے ان دونوں کو آپس میں ملا دو ،اس سے پہلے کہ یہ فاحشہ مجھے تخت خلافت سے اتاردے ''٣٥

کتاب ''اغانی'' کے مؤلف نے مطیع کی بیہودگیوں اور بے حیائیوں کی بہت ساری داستانیں نقل کی ہیں من جملہ یہ کہ :

'' ایک دفعہ یحیٰ،(۱) مطیع اور ان کے دوسرے دوست ایک جگہ جمع ہو کر مسلسل چند روز تک شراب نوشی میں مشغول رہے ۔ایک رات یحیٰ نے اپنے دوستوں سے کہا: افسوس ہو تم پر !ہم نے تین دن سے نماز نہیں پڑھی ہے اٹھو تماز پڑھیں ،مطیع نے محفل میں حاضر مغنیہ سے کہا تو سامنے کھڑی ہو جااور ہماری امامت کر ،یہ عورت صرف ایک نازک باریک اور خوشبو دار اندرونی لباس پہنے ہوئے تھی اور نیچے شلوار بھی نہیں پہنے تھی ان کے سامنے امامت کے لئے کھڑی ہو گئی اور جب وہ سجدے میں گئی ...مطیع نے نماز کو توڑ کر بے حیائی سے بھر پور چند شعر پڑھے ،جن کو سن کر سبوں نے اپنی نماز

____________________

۱)۔یحیٰ بن زیاد حارثی منصور کا ماموں تھا اور بنی الحرث بن کعب میں سے تھا ،اغانی ١٤٥١١۔اور مھدی کی سفارش پر منصور نے اسے اہواز کے علاقوں کا گورنر منصوب کیا تھا۔اغانی ٨٨١٣

۶۷

توڑ دی اور ہنستے ہوئے پھر سے شراب پینے میں مشغول ہو گئے'' ٣٦

مطیع نے ایک تاجر جو کوفہ میں اس کا دوست بن گیا تھا کو فاسد اور گمراہ بنا دیا تھا ۔ ایک دن یہ تاجر مطیع سے ملا اور مطیع نے اس سے کہا : اس کا دستر خوان شراب اور مختلف کھانوں سے پر اور آمادہ ہے اس کے بعد اسے دعوت دی کہ ان کی محفل میں شرکت کرے اس شرط پر کہ خدا کے فرشتوں کو پرا بھلا کہے !چوں کہ اس تاجر کے دل میں تھو.ڑی سی دینداری موجود تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا : خدا تم لوگوں کو اس عیش و عشرت سے محروم کرے !تم نے مجھے ذلت و رسوائی میں پھنسا دیا ہے ۔یہ کہہ کر یہ تاجر مطیع سے دور ہو گیا راستے میں حماد سے اس کی ملاقات ہوئی تاجر نے مطیع کی داستان اسے سنادی ۔حماد نے جواب میں کہا: مطیع نے اچھا کام نہیں کیا ہے جس کا مطیع نے تجھ سے وعدہ کیا تھا میں اس سے دوبرابر نعمتوں سے مالا مال دسترخوان سجا کر تجھے دعوت دیتا ہوں لیکن اس شرط

پر کہ خدا کے پیغمبروں کو دشنام دو کیوں کہ فرشتوں کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ہم انھیں دشنام دیں بلکہ یہ پیغمبر ہیں جنھوں نے ہمیں مشکل اور سخت کام پر مجبور کیا ہے !تاجر اس پر بھی برہم ہوا اور اس پر نفرین کر

۶۸

کے چلا گیا اور یحیٰ بن زیاد کے پاس پہنچا اس سے بھی وہی کچھ سناجو مطیع اور حماد سے سنا تھا اس لئے تاجر نے اس پر بھی لعنت بھیجی ۔

بالآخر تینوں افراد نے اس تاجر کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنی شراب نوشی کی بزم میں کھینچ لیا سب ایک ساتھ بیٹھے ۔شراب پینے میں مشغول ہوئے ۔تاجر نے ظہر وعصر کی نماز پڑھی جب تاجر پر شراب نے پورا اثر کرلیا تو مطیع نے اس سے کہا :فرشتوں کو گالیاں دو ورنہ ہماری بزم سے چلے جاؤ تاجر نے قبول کیا اور فرشتوں کو گالیا دیں ،پھر یحیٰ نے اس سے کہا: پیغمبروں کو گالیاں دو ورنہ یہاں سے چلے جائو اس نے اطاعت کرتے ہوئے پیغمبروں کو بھی گالیاں دیں ۔اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ:اب تمھیں نماز بھی چھوڑنا پڑے گی ورنہ یہاں سے چلے جانا پڑے گا ۔تاجر نے جواب میں کہا : اے حرام زادو !اب میں نماز بھی نہیں پڑھوں گا اور یہاں سے بھی نہیں جائوں گا اس کے بعد جو کچھ اس سے کہا گیا اس نے اسے انجام دیا۔٣٧

ایک دن مطیع نے یحیٰ کو خط لکھا اور اسے دعوت دی کہ اس کی بزم شراب نوشی میں شرکت کرے ۔کہتے ہیں کہ اس روز عرفہ تھا وہ لوگ روز عرفہ اور شب عید صبح ہونے تک شراب پینے میں مشغول رہے ،اور عید قربان کے دن مطیع نے حسب ذیل (مضمون )اشعار پڑھے :

۶۹

'' ہم نے عید قربان کی شب مئے نوشی میں گزاری جب کہ ہمارا ساقی یزید تھا ۔ہم نشینوں اور ہم پیالوں نے آپس میں جنسی فعل انجام دیا اور ایک دوسرے پر اکتفا کی اور...وہ ایک دوسرے کے لئے مشک وعود جیسی خوشبو تھے ''(۱)

بے شرمی اور بے حیائی کے یہ اشعار لوگوں میں منتشر ہوئے اور آخر کار سینہ بہ سینہ عباسی خلیفہ مہدی تک پہنچے ،لیکن اس نے کسی قسم کا رد عمل نہیں دکھایا۔

اسی طرح اس نے درج ذیل اشعار (مضمون ) کے ذریعہ عوف بن زیاد کو اپنی مئے گساری کی بزم میں دعوت دی ہے : اگر فساد و بد کاری چاہتے ہو تو ہمای بزم میں موجود ہے ...''٣٨

ایک سال مطیع اور یحیٰ نے حج پر جانے کا ارادہ کیا اور کاروان کے ساتھ نکلے راستہ میں زرارہ کے کلیسا کے پاس پہنچے تو اپنا ساز و سامان کا روان کے ساتھ آگے بھیج دیا اور خود شراب نوشی کے لئے کلیسا میں داخل ہو گئے تاکہ دوسرے دن کاروان اوراپنے سازوسامان سے جا ملیں گے لیکن وہ مئے

نوشی میں اتنے مست ہوئے کہ ہوش آنے پر پتا چلا کہ حجاج مکہ سے واپس آرہے ہیں !اس لئے حاجیوں کی طرح اپنے سرمنڈواکر اونٹوں پر سوار ہو کر کاروان کے ہمراہ اپنے شہر کی طرف لوٹے۔

اس قضیہ سے متعلق مطیع نے یہ اشعار کہے ہیں :

''تم نے نہیں دیکھا : میں اور یحییٰ حج پر گئے ،وہ حج جس کی انجام دہی بہترین تجارت

____________________

۱)۔ہم نے مطیع سے انتہائی نفرت کے باوجود ان مطالب کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ ان چیزوں کو واضح کئے بغیر سیف کے ماحول اور اس کی سرگرمیوں کو پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔

۷۰

ہے ہم خیر و نیکی کے لئے گھر سے نکلے ،راستہ میں زرارہ کے کلیسا کی طرف سے ہمارا گزر ہوا ۔لوگ حج سے مستفید ہوکر لوٹے اور ہم گناہ و زیان سے لدے ہوئے پلٹے''٣٩

اس کے علاوہ کتاب ''دیرہا'' تالیف الشابشتی ،میں مطیع سے مربوط چند اشعار حسب ذیل (مضمون کے) نقل کئے گئے ہیں :

'' ہم اس میخانے میں پادریوں کے ہم نشین اورمئے خواروں کے رقیب تھے اور زُنار میں بندھا ہوا آہو کا بچہ (کسی نوخیز لڑکے یا لڑکی سے متعلق استعارہ ہے ) ....میں نے اس بزم کے کچھ حالات تم سے کھل کر بیان کئے اور کچھ پردے میں بیان کئے!''

کہتے ہیں کہ مطیع قوم لوط کی بیماری میں مبتلا تھا ،ایک دفعہ اس کے چند رشتہ دار اس کے پاس آئے اور اسے اس نا شائشتہ اور غیر انسانی حرکت پر ملامت کرتے ہوئے کہا: حیف ہو تم پر !کہ قبیلہ میں اس قدر مقام و منزلت اور ادبی میدان میں اس قدر کمال کے حامل ہونے کے باوجود خود کو اس شرمناک اور ناپاک کام میں آلودہ کر رکھا ہے؟! اس نے ان کے جواب میں کہا: تم لوگ بھی ایک بار امتحان کرکے دیکھ لو!پھر اگر تمھارا کہنا صحیح ہو تو خود اس کام سے اجتناب کرکے ثابت کرو!! انھوں نے اس سے نفرت کا اظہار کیا اس کے بعد اس سے منہ موڑ تے ہوئے کہا: لعنت ہو تیرے اس کام، عذر و بہانہ اور ناپاک پیش کش پر ۔(۱) ٤٠

مطیع ،بستر مرگ پر

ہادی عباسی کی خلافت کے تیسرے مہینے میں مطیع فوت ہوگیا اس کے معالج نے بستر مرگ

____________________

۱)۔مطیع کی ان بدکاریوں کے بارے میں اگر مزید تفصیلات معلوم کرنا ہو تو کتاب اغانی ٨٥١٢ ملاحظہ فرمائیں ۔اظہار نفرت کے باوجود ہم ان مطالب کا اس لئے ذکر کرتے ہیں کہ اس قسم کی بدکاریوں سے پردہ اٹھائے بغیر سیف کے زمانہ اورحالات کا ادراک کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۷۱

پر اس سے سوال کیا کہ تمھیں کس چیز کی آرزو ہے ؟ اس نے جواب میں کہا : چاہتا ہوں کہ نہ مروں ۔٤١

مطیع کے پسماندگان میں ایک بیٹی باقی تھی ۔چند زندیقیوں کے ہمراہ اسے ہارون رشید کے پاس لایا گیا ، اس نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا : یہی وہ دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے اور میں نے اس سے منھ موڑ لیا ہے ۔اس کی توبہ قبول کر لی گئی اور اسے گھر بھیج دیا گیا۔٤٢

یہ شاعر اس قدر بے شرمی ،بے حیائی اور بدکاری کے باوجود اموی اورعباسی خلفاء اور ان کے جانشینوں کے مصاحبین اور ہم نشینوں میں شمار ہوتا تھا !خطیب بغدادی اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے : مطیع خلیفۂ عباسی منصور اور اس کے بعد مھدی کے مصاحبین میں سے تھا۔٤٣

کتاب اغانی میں درج ہے کہ مھدی ،مطیع سے اس بات پر بہت راضی اور شکر گزار تھا کہ اس زمانے کے تمام خطیبوں اور شعراء میں وہ تنہا شخص تھا جس نے اس کے بھائی منصور کے سامنے ایک جھوٹی اور جعلی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مھدی وہی مھدی موعود ہے ۔

اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ منصور کی پولیس کے افسر نے اسے رپورٹ دی کہ مطیع پر زندیقی ہونے کا الزام ہے اور خلیفہ کے بیٹے جعفر اور خاندان خلافت کے چند دیگر افراد کے ساتھ اس کی رفت و آمد ہے اور بعید نہیں ہے کہ وہ انھیں گمراہ کر دے ۔منصور کے ولی عہد مھدی نے خلیفہ کے پاس مطیع کی شفاعت کی اور کہا : وہ زندیقی نہیں ہے بلکہ بدکردار ہے ،منصور نے کہا: پس اسے بلا کر حکم دو کہ ان ناشائستہ حرکتوں اور بدکاریوں سے باز آجائے۔

۷۲

جب مطیع مھدی کے پاس حاضر ہوا ،مھدی نے اس سے کہا: اگر میں نہ ہوتا اور تمھارے حق میں گواہی نہ دیتا کہ تم زندیقی نہیں ہو تو تمھاری گردن جلاد کی تلوار کے نیچے ہوتی اس جلسہ کے اختتام پر مھدی کے حکم سے انعام کے طور پر سونے کے دو سو دینار مطیع کو دئے گئے ۔اس کے علاوہ مھدی نے بصرہ کے گورنر کو لکھا کہ مطیع کو کسی عہدہ پر مقرر کرے گورنر نے بصرہ کے زکوٰة کے مسئول کو بر طرف کرکے اس جگہ پر مطیع کو مامور کیا۔٤٤

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی کام یا کسی چیز کے سلسلے میں مھدی مطیع سے ناراض ہوا اور اس کی سر زنش کی ۔مطیع نے جواب میں کہا : جو کچھ میرے بارے میں تمھیں معلوم ہوا ہے اگر وہ صحیح ہو تو میرا عذر ،میری مدد نہیں کرے گا اور اگر جھوٹ اور حقیقت کے خلاف ہو تو یہ بیہودہ گوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی یہ بات مھدی کے ذوق کو بہت پسند آئی اور اس نے کہا: اس طرز سے بات کرنے پر میں نے تجھے بخش دیا اور تیرے اسرار کو فاش نہیں کروں گا۔٤٥

زندیقیوں کے مطابق ضبط نفس اور ترک دنیا اور مطیع کی بے شرمی اور بے حیائی پر مبنی رفتار و کردار کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے ،بلکہ مطیع کو عصر منصور کے مانویوں کے فرقۂ مقلاصیان سے جاننا مناسب اور بجا ہوگا ،کہ ابن ندیم اس فرقہ کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :وہ اس مذہب کے پیرئوں اور دین مانی کی طرف تازہ مائل ہونے والوں کو اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ ہر وہ کام انجام دیں جس کی مذہب ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسی گروہ کے لوگ سرمایہ داروں اور حکام وقت کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے ۔٤٦

شائد مطیع زندیق اور اس جیسے دیگر بے شرم و بے حیا افراد مانی کی مقرر کردہ شریعت کی حد سے تجاوز کر گئے ہوں ،کیوں کہ اس نے معین کیا ہے کہ : جو بھی مانی کے دین میں آنا چاہتا ہو ،اسے شہوت ،گوشت ،شراب اور ازدواج سے پرہیز کرکے اپنے آپ کو آزمانا چاہئے ...اگر اس دین کو قبول کرنے کے اس امتحان میں پاس ہو سکا تو ٹھیک ،ورنہ اگر صرف مانی کے دین کو پسند کرتا ہو اور تمام مذکورہ چیزوں کو ترک نہ کر سکے ،تو مانی کی مقرر کردہ عبادت کی طرف مائل ہو اور صدیقین سے محبت کرکے مانی کے دین میں داخل ہونے کی آمادگی کا موقع اپنے لئے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔٤٧

۷۳

شائد یہ لوگ ،مانی کی طرف سے دی گئی اس دینی اجازت یا چھوٹ کی حد سے گزر کر انسانیت سے گر گئے اور بے شرمی و بے حیائی کے گڑھے میں جا گرے ہیں ۔

مطیع کی زندگی کے حالات پر تحقیق و مطالعہ کے دوران ایک ایسی بات ہمارے سامنے آئی جو اس کے زندیقی ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور وہ داستان حسب ذیل ہے :

''مطیع کے پسماندگان میں صرف ایک بیٹی بچی تھی ۔ اسے چند زندیقیوں کے ہمراہ ہارون رشید کے پاس لایا گیا ۔مطیع کی بیٹی نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اپنے زندیقہ ہونے کا اعتراف کیا اور کہا: یہ وہی دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے ''

خلاصہ

مذکورہ بالاتین افراد اور ان کی رفتاروکردار ،زندیقیوں اور مانی کے پیرؤں کانمونہ تھا،جو سیف بن عمر کے زمانے میں مانویوں کی سرگرمیوں اور ان کے پھلنے پھولنے کا بہترین نقشہ پیش کرتا ہے ۔

ان میں کا پہلا شخص (عبداللہ بن مقفع )مانو یو ں کی کتابو ں کا ترجمہ کرکے مسلمانوں میں شائع کرتا ہے۔

دوسرا آد می (ابن ابی العوجائ)جو مستعد اور تیز طرار ہے.ہر جگہ حاضر نظر آتا ہے ،کبھی مکہ میں امام جعفر صادق کے ساتھ فلسفہ حج پر مناظرہ کرتا ہوا اور حاجیوں کے عقل وشعورپر مذاق اڑاتا نظر آتاہے اور کبھی مدینہ منورہ میں مسجد النبی میںصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خداکی توہین کرتا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی بصرہ میں نوجوانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تاکہ انھیں گمراہ کرے ۔اس طرح وہ ہر جگہ مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرنے اور تفرقہ اندازی اور ان کے افکار میں شک وشبہہ پیدا کرنے کی انتھک کوششوں میں مصروف دیکھائی دیتا ہے ۔

۷۴

تیسرا شخص (مطیع بن ایاس ) انتہائی کوشش کرتاہے کہ لاابالی ،بے شرمی وبے حیائی ،فسق و فجور اور بد کاری کواسلامی معاشرہ میں پھیلا کر لوگوں کوتمام اخلاقی وانسانی قوانین پائمال کرنے کی ترغیب دے ۔ان تمام حیوانی صفات کے باوجود عباسی خلیفہ مہدی اس بدکردار کی صرف اس لئے ستائش ،حمایت اور مدد کرتا ہے کہ اس نے اس کی بیعت کے سلسلے میں ایک حدیث جعل کی تھی۔

اس نے اور اس کے دیگر دوساتھیوں نے علم و آگاہی کے ساتھ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی بنیادوں میں جان بوجھ کر دراڑ اور تزلزل پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھا۔بالآخر وہ بصرہ میں اپنے لئے قافیہ تنگ ہوتے دیکھ کر کوفہ کی طرف بھاگ جاتا ہے اور وہاں پر بھی بد کرداریوں کے وجہ سے گرفتار ہوکر زندان میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے بعد سزائے موت سے دوچار ہوتا ہے ۔

ان حالات میں وہ تمام لوگ جو اس کی شفاعت کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں زندیقی عقیدہ رکھنے کے متہم تھے اور انہو ں نے خلیفہ کو مجبور کیا تا کہ وہ کوفہ کے گورنر کے نام اس کو قتل کرنے سے ہاتھ روکنے کا حکم جاری کرے ،اور خلیفہ نے مجبور ہوکر ایسا ہی کیا۔لیکن خلیفہ کے اس حکم کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ہی اسے کیفر کردار تک پہنچادیا جاتاہے ۔جب وہ اپنے سر پر موت کی تلوار منڈ لاتے ہوے دیکھتا ہے اور اسے یقین ہو جا تا ہے کہ اب مرنا ہی ہے تو اس وقت اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے چار ہزار ایسی احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے رکھدیا ہے اور اس طرح لوگوں کو روزہ رکھنے کے دن افطار کرنے اور افطار کرنے کے دن روزہ رکھنے پر مجبور کردیا ہے

۷۵

٤۔سیف بن عمر سب سے خطرناک زندیق

حدیث جعل کرنے والے زندیقیوں کی تعداد صرف اتنی ہی نہیں ہے ، جن کا ہم نے ذکر کیا بلکہ جو زندیقی اس کام میں سرگرم عمل تھے ،وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں ۔ابن جوزی اپنی کتاب ''الموضوعا ت ''میں لکھتا ہے :

''زندیقی دین اسلام کو خراب اور مسخ کرنے کے در پے تھے اور کوشش میں تھے کہ خدا کے بندوں کے دلوں مین شک و شبہہ پیدا کریں ۔لہٰذا انہوں نے دین کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنالیا تھا۔''

اس کے بعد ابن ابی العوجاکی داستان بیان کرتے ہوے آخر میں عباسی خلیفہ مہدی کی زبانی یوں نقل کرتا ہے کہ:

''ایک زندیق نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جو لوگوں میں ہاتھوں ہاتھ پھیل گئی ہیں ۔''

ان ہی زندیقیوں میں سے ایک ،شیخ کی کتاب کواٹھا کے چوری چھپے اس میں موجود احادیث میں تصرف کرکے قلمی خیانت کرتا تھا۔شیخ ان تصرف شدہ احادیث کو۔اس خیال سے کہ صحیح اور درست ہیں شاگردوں میں بیان کرتا تھا ۔اس کے علاوہ حماد ابن زید سے بھی روایت ہے کہ : زندیقیوں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں ۔

یہ قلمی خیانت سرکاری اور دربار خلافت کی مورد اعتبار کتابوں میں انجام پائی ہے ۔ہم آج تک نہیں جانتے کہ یہ احادیث کیا تھیں اور ان کا کیا ہو ا یہ دربار خلافت کی سرکاری کتابوں میں جو قلمی خیانت ہوئی ہے وہ کس قسم کی ہے !!البتہ سیف جس پر زندیق ہونے کا الزام تھا صرف اس کے بارے میں معلوم ہو سکا کہ اس نے بھی ہزاروں احادیث جعل کی ہیں ،ان پر کسی حد تک دست رس ہونے کے باوجود ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی کل تعداد کتنی ہے جب کہ سیکڑوں برس سے یہ احادیث تاریخ اسلام کے مؤثق مصادر و ماخذ کا حصہ شمار ہوتی آئی ہیں ۔

۷۶

سیف نے ان احادیث کو جعل کرکے تاریخ اسلام کو اپنے راستے سے منحرف کرنے اور جھوٹ کو حقیقت کے طور پرپیش کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔

اگر ابن ابی العوجاء نے صرف چار ہزار احادیث جعل کرکے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا ہے ،تو سیف بھی اس سلسلے میں اس سے پیچھے نہیں ہے بلکہ اس نے ہزاروں کی تعداد میں احادیث جعل کی ہیں جن میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مومن ترین صحابیوں کو ذلیل ،کمینہ اور بے شرم و بے حیا بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے مقابلہ میں ظاہری طور پر اسلام لانے والوں اور بد ترین کذابوں کا تعارف متقی، پرہیز گار اور دیندار کے طورپر کرایا گیا ہے وہ اسلام کی تاریخ میں توہمات سے بھرے افسانے درج کرنے میں کامیاب رہا ہے تاکہ ان کے ذریعہ حقائق کو الٹا پیش کرکے مسلمانوں کے عقائد اور غیر مسلموں کے افکار پر اسلام کے بارے میں منفی اثرات ڈالے ۔

اسلامی عقائد کو مخدوش کرنے کے سلسلے میں سیف اپنے مذکورہ زندیقی دوستوں کے قدم بقدم چلتا نظر آتا ہے جہاں مطیع نے حدیث جعل کرکے عباسی خلیفہ مھدی کی حمایت حاصل کی ،وہاں سیف نے بھی خلفاء اور وقت کے خود سر حکام کی حمایت اور پشت پناہی حاصل کرنے کے لئے ان کی تائید میں اور ان کے مخالفین کو کچلنے کے لئے احادیث جعل کیں ،تاکہ ان کی حمایت و حفا ظت کے تحت اپنی جھوٹی اور جعلی حدیث رائج کرسکے اور ان کے رواج کا سلسلہ آج تک جاری ہے !

سیف کے افکار و کردار پر زندقہ کا خاص اثر ہونے کے علاوہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تلا ہوا تھا ،خاندانی اور قبیلہ ای تعصبات بھی اس کے احادیث جعل کرنے میں مؤثر تھے یہ آئندہ کے صفحات میں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر شدید طور پر ان خاندانی تعصبات اور طرفداریوں کے اثر میں تھا ایک ایسے قبیلہ کا تعصب کہ خلفاء راشدین سے لے کر بنی امیہ اور بنی عباس تک تمام حکام وقت اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور سیف نے اپنی جعل کردہ روایتوں کو رواج دینے کے لئے اسی تعصب کی طاقت سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔

سیف اور اس کے ہمعصر لوگوں پر اس قبیلہ ای تعصب کے اثرات کو بخوبی جاننے کے لئے ہم اگلے صفحات میں اس موضوع پر الگ سے ایک فصل میں قدرے تفصیل سے بحث و تحقیق کرنے پر مجبور ہیں ۔

۷۷

یمانی اور نزاری قبیلوں کے درمیان شدیدخاندانی تعصبات

واهج نزارا ًو افرجلد تها واکشف الستر عن مثالبها

اٹھو!اور نزاریوں کو دشنام دو ان کی چمڑی اتار لو اور ان کے عیب فاش کردو!

(یمانی شاعر)

وهتک الستر عن ذو ی یمن اولا د قحطان غیر ها ئبها

اٹھو !اور یمانیوں کی آبرو لوٹ لو اور قحطان کی اولاد سے ہرگز نہ ڈرو!

(نزاری شاعر)

تعصب کی بنیاد اور اس کی علامتیں

یمنی ،یعنی عربستان کے جنوب میں رہنے والے قبیلے ،قحطان ،وازد اور سبا کے نام سے مشہور تھے اور جزیرہ ٔ نمائے عرب کے شمال میں آباد قبیلے ،مضر ،نزاد ،معد اور قیس(۱) کے نام سے معروف تھے اور قریش ان ہی میں سے ایک قبیلہ تھا۔ آغاز اسلام سے اور خاص کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت اور یمانی اور نزار ی خاندانوں کے وہاں جمع ہونے کے بعد سے ہی ان کے افراد کے درمیان فخر و بر تری کے تصادم اور ٹکرائو نظر آتے ہیں ۔

اس تاریخ سے پہلے ، مدینہ میں اوس وخزرج نام کے دو قبیلے سکونت کرتے تھے۔یہ دونوں قبیلے ثعلبہ ابن کہلان سبائی یمانی قحطانی کی نسل سے تھے ۔ان دو خاندان کے درمیان سالہا سال جنگ وجدل ،قتل وغارت،خون ریزی اور برادر کشی کاسلسلہ جاری تھا اور وہ ایک لمحہ بھی ایک دوسرے کی دشمنی سے غافل نہیں رہتے تھے ۔پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ان دونوں قبیلوں کے درمیان صلح وصفائی کرائی اور چونکہ یہ سب لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت اور مدد کرتے تھے،اس لئے انہوں نے انصار کالقب پایا۔

____________________

۱)۔ان قبائل کے شجرۂ نسب کے بارے میں کتاب '' جمھرہ نساب العرب''٣١٠۔٣١١،اورکتاب اللباب سمعانی ملاحظہ فرمائیں

۷۸

شمالی علاقوں کے نزاری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے کئی گروہ جو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ مدینہ ہجرت کر کے آئے تھے وہ مہاجر کہلائے ۔اسلام نے مہاجر وانصار کو آپس میں ملایا اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی ان دو قبیلوں کے افراد کے درمیان عقد اخوت اور بھائی چارے کے بندھن باندھے۔

تعصب کی پہلی علامت

دونوں قبیلے ایک مدت تک اطمینان وآرام کے ساتھ ایک دوسرے کااحترام کرتے ہوئے آپس میں زندگی بسر کررہے تھے۔یہاں تک کہ بنی المصطلق کی جنگ پیش آئی اور اس کے ساتھ ہی نزاریوں اور یمانیوں کے درمیان خاندانی تعصبات ،خود پرستی اور خود ستائی کا آغاز ہوا۔

مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگ میں جب پانی لانے پر معین افراد ،مریسیع(۱) کے پانی کے منبع پر پہنچے، تو جھجاہ بن مسعور(۲) ،جو عمر کے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھا،پانی پر پہنچنے میں سبقت لینے کی غرض سے دھکّم دھکاّ کرتے ہوئے سنان بن وبر جہنی جو قبیلہ خزرج کا طرفدار تھا سے جھگڑپڑے اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی ۔جھجاہ نے چیختے پکارتے بلند آواز میں مہاجرین کے حق میں نعرے لگائے اور ان سے مدد طلب کی ۔سنان نے بھی انصار کے حق میں نعرے بلند کئے اور ان سے امداد کی درخواست کی۔منافقین کا سردار وسرغنہ،عبد اللہ بن ابی سلول خزرجی،یہ ماجرا دیکھ کر مشتعل ہوا موقع کوغنیمت جان کر وہاں پر موجود اپنے قبیلے کے چند افرادکی طرف رخ کرکے کہنے لگا :''آخر کار انہوں نے اپنا کام کرہی دیا وہ ہم پر دھونس بھی جماتے ہوئے ہم پر اپنے ہی وطن میں بالادستی دکھاتے ہیں ۔خدا کی قسم !ان بے سہارا قریش کے ساتھ ہماری داستان آستین کا سانپ پالنے کے مانند ہے خدا کی قسم !اگر ہم مدینہ لوٹے تو شریف وباعزت لوگ کمینوں اور ذلیل افراد کو اپنے شہر سے باہر نکال دیں گے''۔پھر اپنے طرفداروں کی طرف رخ کرکے کہا:''یہ مصیبت تم لوگوں نے خود اپنے اوپر مسلط کی ہے۔اپنے شہر کو ان کے اختیار میں دیدیاہے اور اپنے مال ومنال کو ان کے درمیان برادرانہ طور پر تقسیم کیاہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے!خدا کی قسم !اگر تم اپنا مال ومنال انھیں بخشنے سے گریز

____________________

۱)۔مدینہ سے ایک دن کی مسافت پر ایک پانی کا سرچشمہ تھا جس کے گرد قبیلہ خزاعہ کے کچھ لوگ زندگی بسر کرتے تھے وہ بنی مصطلق کے نام سے مشہور تھے۔غزوہ بنی مصطلق سنہ ٥یا ٦ ہجری میں واقع ہواہے ۔کتاب ''امتاع الاسماع''ص١٩٥ ملاحظہ ہو۔

۲)۔جھجاہ قبیلہ غفار سے تھا اور اس دن عمر کے پاس بعنوان مزدور کام کررہاتھا ،اسی لئے اس نے مہاجرین سے مدد طلب کی ہے۔ جھجاہ عثمان کے قتل کے بعد فوت ہواہے ۔کتاب ''اسدالغابہ '' ٣٠٩١ ملاحظہ ہو۔

۷۹

کروگے تو یہ لوگ خود بخود تمھارے وطن سے کہیں اور جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ان باتوں کے بارے میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطلاع دی گئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجازت طلب کی گئی تاکہ عبد اللہ کو قتل کرڈالاجائے۔لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے موافقت نہیں کی بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نرمی ،مہربانی اوحکمت عملی سے مسئلہ کو بخوبی حل کیا۔تدبیر کے طور پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوراً لشکر کو کوچ کرنے کاحکم دیا۔اس دن سپاہی دن رات مسلسل ومتواتر چلتے رہے ۔دوسرے دن جب صبح ہوئی اور سورج چڑھا تو گرمی کی شدت بڑھنے لگی اور سپاہیوں کا گرمی سے دم گھٹنے لگا،قریب تھا کہ سب کے سب تلف ہوجائیں ۔اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے رُکنے اور آرام کرنے کاحکم دیا۔ سپاہی اتنے تھک چکے تھے کہ سواری سے اترتے ہی لیٹے اور بے حال ہو کر سوگئے ،اس طرح کسی میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ غرور وتکبر سے بیہودہ گوئی کرے ،اسی وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سورۂ منافقون نازل ہوا جس کی آٹھویں آیت میں فرماتاہے :

( ''یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَجَعْنَا اِلٰی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِه وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ'' ) (منافقون٨)

''یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم صاحبان عزت ،ان ذلیل افراد کو نکال باہر کریں گے،حالانکہ ساری عزت اللہ ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صاحبان ایمان

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416