ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب9%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215408 / ڈاؤنلوڈ: 4970
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کے لئے ہے''

جب جھجاہ اور انصار کے جوانوں کی داستان کو شاعر حسان بن ثابت انصاری نے سنا ،توغصہ میں آکر مھاجرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کنایہ اور مذاق اڑانے کے انداز میں اس (مضمون کا)شعر کہا:

''بیہودہ لوگ عزت وشرافت کے مقام پر پہنچے اور برتری پائی اور فریعہ (حسان کی ماں )کابیٹا تنہا وبیکس رہ گیا''۔ ١

صفوان بن معطل نے جب یہ شعر سنا ،تو مہاجرین میں سے ایک شخص کے پاس جاکر کہا:

''خداکی قسم !حسان کے شعر میں میرے اور تمھارے علاوہ کسی کی طرف اشارہ نہیں تھا،وہ ہمارا دل دکھانا چاہتاتھا۔آؤ!تاکہ اسے تلوار سے سبق دیں ۔اسے مہاجر نے اس سلسلے میں ہر قسم کے اقدام سے پرہیز کیا۔نتیجہ کے طور پر صفوان ننگی تلوار لہراتے اور للکارتے ہوئے تنہا حسان کی طرف بڑھا اور اسے اس کی خاندان کے افراد کے درمیان حملہ کرکے زخمی کردیااور کہا:

''مجھ سے تلوار کا مزا چکھ ،کیونکہ میں شاعر نہیں ہوں کہ تیری ہجو اور بدگوئی کا شعر میں جواب دوں ''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہاں پر بھی ان دونوں میں صلح وصفائی کرائی اور مسئلہ کو خیریت سے نمٹایا۔ ٢ اور اس طرح مہاجرین قریش اور یمانی انصار کے دوقبیلوں کے در میان فخرو غرور کی بنیادوں پر ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی پہلی لڑائی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حکمت عملی سے ختم ہوئی ۔

۸۱

تعصب کی دوسری علامت

خاندانی تعصب نے دوسری بار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد سر اٹھایا۔یہ ماجرا اس وقت پیش آیا جب قبیلہ اوس وخزرج کے انصار بنی سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنازہ کو تجہیز وتکفین کے بغیرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان میں چھوڑ کر خلافت کے انتخاب میں لگ گئے ۔ قبیلہ خزرج کے رئیس ،سعد بن عبادہ نے انصار سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حکومت خود تم لوگ اپنے ہاتھ میں لے لو''۔انصار نے ایک زبان ہوکر بلند آواز میں کہا:''ہم تمھاری تجویز سے اتفاق رکھتے ہیں ،صحیح کہتے ہو،ہم تمھارے نظریہ اور حکم کی مخالفت نہیں کریں گے''۔

جب یہ لوگ اس سلسلہ میں صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال میں مصروف تھے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے جمع ہونے کی خبر بعض مھاجرین تک پہنچ گئی تو وہ فوراً انصار کے اجتماع میں پہنچے اور تقریر کرتے ہوئے کہا:

''امراء اور حکام مہاجرین میں سے ہوں اور وزرا ء آپ انصار میں سے''۔

انصار میں سے ایک آدمی اٹھا اور کہا:

''اے انصار کی جماعت !تم لوگ خود زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو ،تاکہ لوگ تمھارے سائے میں اور تمھاری حمایت میں آجائیں اور کوئی تم لوگوں سے مخالفت کرنے کی جرأت نہ کرے ۔اور کسی کو یہ طاقت نہ ہو کہ تمھارے حکم کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کرے۔تم لوگ طاقت ،توانائی، لشکراور شأن وشوکت کے مالک ہو،اور طاقتور ،مجاہد ،باتجربہ اور محترم ہو۔لو گ تم سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں تا کہ دیکھ لیں کہ تم لوگ کیا کر تے ہو ۔تم لوگوں میں اختلاف پیدا نہ ہونا چاہئے،ورنہ تباہ ہوجائوگے اور حکومت تمھارے ہاتھوں سے چلی جائے گی ۔مہاجرین کی بات وہی ہے جو تم لوگوں نے سنی ۔اگر وہ لوگ ہمارے ساتھ اتفاق نہ کریں اور ہماری تجویز کو قبول نہ کریں گے تو ہم اپنے لوگوں میں سے ایک آدمی کو حاکم منتخب کریں گے اور وہ بھی اپنوں میں سے ایک حاکم کا انتخاب کریں ۔''

۸۲

اس مہاجر نے یہ تقریر سن کر کہا :

''ایک میان میں ہرگز دو تلواریں نہیں سماسکتی ہیں اور ایک شہر میں دو حاکم امن سے نہیں رہ سکتے ۔اس کے علاوہ خدا کی قسم !عرب آپ لوگوں کی ہرگز اطاعت نہیں کریں گے ،چونکہ ان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا ۔''

انصاری نے اپنے ساتھیوں کی طرف رخ کرکے کہا :

''اے انصار کی جماعت !اپنے ہاتھ محکم رکھو اور مہاجرین کے ہاتھ پر ہر گز بیعت نہ کرو اور اس شخص کی باتوں پر کان نہ دھرو ،کیوں کہ اس طرح حکومت اور فرماں روائی میں تمھارا حق ضائع ہو جائے گا ۔اگر انھوں نے تم لوگوں کی تجویز قبول نہ کی تو انھیں اپنے شہر و دیار سے نکال باہر کرو اور زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو کہ خداکی قسم تم لوگ حکومت اورفرماں روائی کے لئے ان سے لائق و شائستہ ہو''

اس کے بعد مہاجرین کی طرف رخ کرکے کہا :

''خدا کی قسم اگر چاہو تو ہم جنگ کو از سر نوشروع کرنے پر آمادہ ہیں ''

اس مہاجر نے جب انصار کی یہ باتیں سنیں تو جواب میں کہا:

''اس صورت میں خدا تجھے قتل کر دے گا!...''

اور انصاری نے فورا جواب میں کہا :'' خدا تجھے قتل کر دے گا!''

اس تلخ گفتگو کے بعد اس مرد مہاجر نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ ابو بکر کی طرف بڑھا دیا ٣ اس کے بعد حضار بھی اس کی بیعت کے لئے آگے بڑھے ۔(۱)

اس طرح حکومت و ریاست کو ہاتھ میں لینے کی انصار کی کوشش ناکام رہی۔ اس واقعہ کے نتیجہ میں یہ دو قبیلے نزاری اور یمانی ایک دوسرے کے خلاف ہجو و بدگوئی پر اتر آئے ۔قریش میں سے ابن ابی عزہ نے اس بارے میں انصار سے مخاطب ہو کر کہا:

''غلط طریقہ سے خلافت کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے والوں سے کہہ دو !کہ کسی مخلوق سے آج تک ایسی غلطی سرزد نہیں ہوئی ان سے کہہ دو ،کہ خلافت قریش کا حق ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا کی قسم !کہ اس میں تمھارے لئے کوئی بنیاد و اساس موجود نہیں ہے ''

____________________

۱)کیا خلیفہ کے انتخاب میں اتفاق آرا ء اور جمہور کی بیعت اسی کو کہتے ہیں (مترجم)

۸۳

جب یہ بات گروہ انصار تک پہنچی تو انھوں نے اپنے شاعر نعمان بن عجلان سے اس کے جواب میں شعر کہنے کو کہا ،اور اس نے حسب ذیل ( مضمون کے ) شعرکہے:

''قریش سے کہہ دو کہ تمھارے وطن ،مکہ کو فتح کرنے والے ہم تھے ،ہم جنگ حنین کے سورما اور جنگ بدر کے شہسوار ہیں تم نے کہا ہے کہ سعد بن عبادہ کا خلیفہ بننا حرام ہے لیکن (کہا) ابوبکر جس کا نام عتیق ابن عثمان کا خلیفہ بننا جائز اور حلال ہے !!''

گمراہ اور نادان قریش ایک جگہ جمع ہو کر داد سخن دیتے تھے اور برابر کہتے تھے ۔جب یہ خبر حضرت علی علیہ السلام کو پہنچی تو وہ غصہ کی حالت میں مسجد میں پہنچے اور ایک تقریر کے ضمن میں فرمایا:

''قریش کو یہ جاننا چاہئے کہ انصار کو چاہنا ایمان کی علامت ہے اور اس سے دشمنی نفاق کی نشانی ہے ، انھوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا ہے(۱) اور اب تمھاری باری ہے ...''

اس کے بعد اپنے چچا زاد بھائی فضل کی طرف اشارہ کیا کہ شعر کی زبان میں انصار کی حمایت کرے ۔فضل نے حسب ذیل (مضمون کے ) چند شعر کہے:

''انصار تیز تلوار کے مانند ہیں اور جو بھی ان کی تلوار کے نیچے قرار پائے گا وہ ہلاک ہو جائے گا''

اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ پڑھا اور اس کے ضمن میں فرمایا:

''خدا کی قسم انصار جس طرف ہوں میں ان کے ساتھ ہوں ،کیوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے : ''جہاں کہیں انصار ہوں میں ان کے ساتھ ہوں ''حضار نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا آپ پر رحمت نازل کرے ،اے ابو الحسن !آپ نے صحیح فرمایا''

____________________

۱)۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا مقصود یہ ہے کہ انصارنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت اور دین اسلام کی مدد کی ۔

۸۴

اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے از سر نو بھڑکنے والے فتنے کے شعلوں کو بجھا دیا اور اپنے چچا زاد بھائی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح حکمت عملی اور عقلمندی سے حالات کو پر سکون کیا ۔٤

یہ پہلا قدم تھا جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ کا اتحاد متفرق ہو کر دو حصوں میں بٹ گیا ۔ان میں سے ایک حصہ مضری خاندان تھا ،جو بنی عباسیوں کے خاتمہ تک خلافت و سلطنت پر قابض رہا اور دوسرا حصہ خاندان یمانی تھا جو ہمیشہ کے لئے خلافت واقتدار سے محروم رکھا گیا۔ان دونوں خاندانوں

کے ساتھ بعض دیگر افراد نے بھی عہد و پیمان باندھ کر اپنے اصلی خاندان اور نسب کو فراموش کرکے خود کو ان ہی خاندانوں میں ضم کر دیا تھا ۔اس کے علاوہ ان خاندانوں میں آزاد ہونے والے غلام بھی مربوطہ خاندان کے غم و شادی میں شریک ہو کر ان کی ایسی طرفداری اور دفاع کرتے تھے جیسے خود ان کی اولاد ہوں ۔دوسری طرف مربوطہ قبیلہ بھی ان کے ساتھ اپنے فرزند وں جیسا سلوک کرتا تھا ۔

عربی ادبیات میں تعصب کا ظہور

مذکورہ دو قبیلوں (مضر و یمانی) میں خود ستائی ،غرور تکبر اور ایک دوسرے کو برا اور کمینہ ثابت کرنے کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوا ۔رزمیہ ،خودستائی اور ہجو و بد گوئی نے عربی ادبیات کی نثر و نظم پر عجیب اثر ڈالا ۔اس سلسلے میں قبیلہ کے اصل نامور شعراء ،جیسے کمیت و دعبل اور اس سے منسوب شعرا ء جیسے ابونواس اور حسن ہانی قابل ذکر ہیں ۔

ایام جاہلیت اور اسلام کے زمانہ میں تمام جزیرہ نمائے عرب میں ان دو قبیلوں کے درمیان خاندان کے سورمائوں اور ان کے نسبتی و قرابتی طرفداروں کی بہادری کو اجاگر کرکے اس پر فخر و مباہات کرنے اور ان کی عظمت اور کارناموں کے گیت گانے کا دور دورہ تھا۔

مسعودی اپنی کتاب '' التنبیہ و الاشراف '' میں لکھتا ہے :(۱)

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو کتاب '' التنبیہ و الاشراف '' تالیف مسعودی طبع ١٣٥٧ ھ مصر ص٩٤و٩٥

۸۵

'' معد بن عدنان کا خاندان اپنے آپ کو پارسیوں (ایرانیوں ) کے ساتھ ہم نسل و نسب جاننے کے سبب یمنیوں کے خاندان پر فخر و مباہات کرتا تھا ،جریر بن عطیہ نے اس فخر کو شعر کی صوررت میں حسب ذیل (مضمون میں ) بیان کیا ہے :

''ہمارا جد اعلیٰ ابراہیم خلیل ہے تم ہمارے اس فخر سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ہو اور ہماری یہ قرابت انتہائی فخر و مباہات کا سبب ہے ہم شیر دل اسحٰق کی اولاد ہیں جو میدان کارزارمیں زرہ کے بجائے لباس مرگ زیب تن کرتے تھے اور خود ستائی کے وقت سپہید ،کسریٰ ،ہرمزان اور قیصر پر فخر کرتے ہیں ،ہمارے اور اسحٰق کی اولاد کے اجداد ایک ہیں اور ہم دونوں کا شجرۂ نسب مقدس پیغمبر اور پاک رہبر تک پہنچتا ہے ۔ ہماری اور پارسیوں (ایرانیوں ) کی نسل ایسے اجداد تک پہنچتی ہے کہ ہمیں اس بات پر کسی قسم کی تشویش نہیں ہے کہ دوسرے قبیلے ہم سے جدا ہوجائیں ''

یا اپنے قبیلے کے فخر و مباہات کے بارے میں کہے گئے اشعار میں اسحاق بن سوید عدوی قرشی یوں کہتا ہے :

''اگر قبیلہ قحطان اپنی شرافت و نجابت پر کبھی ناز کرے تو ہمارا فخر و مباہات ان سے بہت بلند ہے ۔کیوں کہ ابتداء میں ہم اپنے چچا زاد بھائیوں ،اسحاق کی اولاد کی حکومت کے دوران ان پر فرمان روائی کرتے تھے اور قحطان ہمیشہ ہمارے خدمت گار اور نوکر تھے ہم اور ایرانی ایک ہی نسل اور ایک باپ سے ہیں اور ایسا افتخار ہوتے ہوئے ہمیں کسی قسم کا خوف و تشویش نہیں ہے کہ کوئی ہم سے جدا ہو جائے ''

یا قبیلہ نزار کا ایک شخص یوں کہتا ہے :

'' اسحاق و اسماعیل کی اولاد نے بہت سے قابل افتخار اور عظیم کا رنامے انجام دیئے ہیں ۔ ایرانی اور نزاری نسل کے شہسوار ایک ہی باپ کی عظیم اصیل اور پاک اولاد ہیں '' ٥

۸۶

مسعودی اپنی کتاب کے صفحہ ٧٦ پر لکھتا ہے :

''یمنی ضحاک کے وجود پر فخر کرتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قبیلہ ازدسے تھا ۔ اسلام میں بھی شعراء نے ضحاک کا نام عزت و احترام سے لیا ہے ، اور ابو نواس حسن ابن ہانی و بنی حکم بن سعد قحطانی کا آزاد کردہ تھا اپنے ایک قصیدہ میں ضحاک کے وجود پر فخر کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نزار ی قبائل کے تمام افراد کو دشنام اور برا بھلا کہتا ہے ۔ ''

یہ وہی قصیدہ ہے جس کی بنا پر نزاری عباسی خلیفہ ہارون رشید نے اس بے احترامی کے جرم میں ابو نواس کو طولانی مدت کے لئے زندان میں ڈلوا دیا تھا حتٰی کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں اس پر حد بھی جاری کی تھی۔

بہر حال ،ابو نواس نے اس قصیدہ میں یمنی اور قحطانی سے منسوب ہونے پر فخر کرتے ہوئے ضحاک کو احترام و عظمت کے ساتھ یاد کیا ہے اور اس سلسلے میں کہتا ہے :

'' ناحط کے محلوں کے مالک ہم ہیں اورصنعا کا خوبصورت شہر ہمارا ہے جس کے محرابوں میں مشک کی مہک پھیلتی ہے ۔ضحاک ہم میں سے ہے جس کی پرستش جنات اور پرندے کرتے تھے اٹھو !اور نزار کی اولاد کو دشنام دو اور ان کی ہجو کرو ۔ان کی کھال اتار دو اور ان کے عیبوں کو طشت از بام کردو''

نزاریون کی ایک جماعت ابونواس کے اس قصیدہ کا جواب دینے پر آمادہ ہوتی ہے ۔ان میں سے قبیلہ نزار کے بنی ربیعہ کا ایک آدمی نزار کے مناقب اور اعزازات بیان کرتے ہوئے یمن و یمنیوں کو برا بھلا کہہ کر ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے عیبوں سے پردہ اٹھا تے ہوئے کہتا ہے :

'' معدو نزار کی ستائش کرو اور ان کی عظمت پر فخر کرو ۔یمنیوں کی حرمت کو تار تار کردو اور قحطان کی اولاد سے کسی صورت میں تشویش نہ کرو..''

۸۷

خاندنی تعصبات کی نبا پر ہونے والی خونیں جنگیں

خاندانی تعصبات ،شعر وشاعری ،فخرو مباہات بیان کرنے ،بہادر یاں جتلانے اور خود ستائی وغیرہ تک ہی محدود نہیں رہے ہیں ،بلکہ تاریخ کے سیاہ صفحات اس امر کے گواہ ہیں کہ بعض اوقات خونیں جنگیں بھی اس بنا پر واقع ہوئی ہیں ۔

امویوں کی خلافت کے آخری دنوں میں یہ تعصبات انتہا کو پہنچے اور سر انجام اس حکومت کی نابودی کا سبب بنے ۔

مسعودی اپنی کتاب ''التنبیہ والاشراف ''میں لکھتا ہے :٦

''جب خلافت ولید بن یزید(۱) کے ہاتھ میں آگئی ،اس نے خاندان نزار کو دربار خلافت میں بلا کر ان کی عزت و احترام کیا ۔انھیں بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کیا اور یمنیوں کو دربار خلافت سے نکال باہر کرکے ان کے سا تھ سرد مہری دکھائی اور ذلیل وخوار کیا ۔خلیفہ کی سرد مہری کاشکار ہونے والے یمنی بزرگ شخصیتوں میں اس خاندان کا سردار ،خالد قسری(۲) بھی تھا،جو ولید کے خلیفہ بننے سے پہلے عراق کا گورنر تھا ۔ولید نے خالد کو عزل کرکے اس کی جگہ پر عراق کے ڈپٹی کمشنر ، یوسف بن عمر ثقفی (ج) کو گورنر کے عہدہ پر مقررکیا ۔یوسف،خالد کو گرفتار کرکے کوفہ

____________________

١لف)۔ولید،عبد الملک کا نواسہ تھا،اس کی ماں ام محمد تھی ،وہ مشہور و معروف شخص حجاج کا بھتیجا تھا ۔ولید، ہشام کی وفات کے روز بدھ کے دن ٦ربیع الاول ١٢٥ھ کو تخت خلافت پر بیٹھا ۔اور جمعرات ١٢٦ھ کو جب جمادی الثانی کے دو دن باقی بچے تھے ،قتل ہوا(جمہرہ انساب العرب ص٨٤ ومروج الذہب )

۲)۔خالد قسری ،عراق، فارس،اہوزاور کرمانشاہ کاگورنر تھا(التنبیہ والاشراف ،مسعودی ص٢٨٠)

ج)۔یوسف ابن عمر ،ہشام کے زمانے میں یمن کا حکمراں تھا،اس کے بعد عراق کاحاکم بنا،اسی لئے ولید نے اسے برقرار رکھا ۔یوسف ولید کے بیٹوں کے ساتھ قتل کیا گیا۔(وفیات الاعیان ابن خلکان ٦٨٦۔١١٠)

۸۸

لے گیا اور وہاں پر اسے جسمانی اذیتیں پہنچاکر قتل کرڈالا۔

ولید نے اس واقعہ اور خالد کی گرفتاری کے بعد ایک قصیدہ کہا اور اس میں یمنیوں کی سرزنش کی اور انھیں دشنام دیانیز نزاریوں کی تعریف و تمجید کی اور خالد قسری کی نزاریوں کے ہاتھوں گرفتار ی کو بھی اپنے لئے ایک افتخار شمار کرتے ہوئے کہا:

'ہم نے سلطنت اور حکومت کو نزاریوں کی پشت پناہی سے مظبوط اور محکم بنادیا اور اس(۱) اگر یمنی باعزت اور قابل قدر خاندان سے ہوتے تو خالد کے نیک کام اتنی جلدی تمام نہ طرح اپنے دشمنوں کی تنبیہ کی یہ خالد ہے جو ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے اگر یمنی مرد ہوتے تو اس کے بچاؤ کے لئے اٹھتے ہم نے ان کے سرداروں اور رئیسوں کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دیا۔

ہوتے وہ اپنے رئیس کو اس طرح قیدی اور عریاں حالت میں نہ چھوڑتے کہ وہ طوق وزنجیر میں بندھا ہوا ہمارے ساتھ چلتا۔ یمنی ہمیشہ ہمارے غلام تھے اور ہم مدام انھیں ذلیل وخوار کرتے تھے''۔ ٧

مسعودی لکھتاہے :

''ولید نے بہت برے ،ناشائستہ اور بیہودہ کام انجام دئے،جس کی وجہ سے لوگ اس سے متنفر اور بیزار ہوگئے ۔یہی چیز باعث بنی کہ اس کے چچا زاد بھائی یزید بن ولید نے ان حالات سے استفادہ کرکے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا اور اس کاتختہ الٹ دیا''۔

____________________

۱)۔ اس کے بعد شعر کے آخرتک طبری کی روایت کے مطابق ہے ،اس کے علاوہ طبری کادعویٰ ہے کہ ان اشعار کو ایک یمنی شاعر نے ولید کی زبانی کہاہے تا کہ یمینیوں کی شورش کا سبب بنیں ۔ابن اثیر نے بھی طبری کے اس نظریہ کی تائید کی ہے۔(طبری ١٧٨١٢ وابن کثیر ١٠٤٥)

۸۹

یزید کی اپنے چچیرے بھائی ولید کے خلاف شورش اور تختہ الٹنے کی سازش میں یمنیوں نے یزید کی بھر پور حمایت اور مدد کی اور خلیفہ کے طور پر اس کی بیعت کی۔(۱)

اس بغاوت میں نہ صرف خود ولید قتل ہوا بلکہ اس کی ولی عہدی کے نامزد دو بیٹے حکم وعثمان بھی مارے گئے ۔ اس کے علاوہ اس کا ایک زبردست اور باوفا طرفدار یعنی یوسف بن عمر بھی دمشق میں قتل کیا گیا۔

اصبغ بن ذوالة الکلبی یمانی(۲) اس واقعہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے :

''خاندان نزار ،خاص کر بنی امیہ وبنی ہاشم کے سرداروں اور بزرگوں کو کون یہ خبر دے کہ ہم نے خالد قسری کے قصاص میں خلیفہ ولید کو قتل کردیا اور اس کے جانشین دو بیٹوں کو بھی بے مصرف غلاموں کی مانند کوڑیوں میں بیچ دیا''۔

خلیفہ ابن خلیفہ بجلی یمانی نے بھی اپنے قصیدہ میں یوں کہاہے:

''ہم نے خلیفہ ولید کو خالد کے قصاص میں دروازہ پر لٹکادیا اور اس کی ناک رگڑ کے رکھدی ، لیکن خدا کے حضور سجدہ کے طور پر نہیں !قبیلہ نزار اور معد کے لوگو!اپنی ذلالت، ناکامی اور پستی کا اعتراف کرو کہ ہم نے تمھارے امیرالمؤمنین کو خالد کے قصاص میں مار ڈالا''۔

مسعودی مروج الذہب میں لکھتاہے: ٨

''شاعر کمیت (ج) نے ایک قصیدہ کہاہے ، جس میں اس نے نزار کی اولاد :مضر ،

____________________

۱)۔یزید شب جمعہ ١٢٦ ھ کو اس وقت خلافت پر پہنچا ،جب جمادی الثانی کے سات دن باقی بچے تھے اور اول ذی الحجہ ١٢٦ ھ کو اس دنیا سے چلاگیا۔یزید کی خلافت کی مدت ٥ مہینے اور دودن تھی ۔(مروج الذہب ١٥٢٣)

۲)۔ اسبغ ان افراد میں سے تھا جس نے ان شورشوں میں خود حصہ لیاتھا۔(طبری ١٥٩٥٢۔١٩٠٢)

ج)۔ کمیت بن یزید اسدی ،خاندان مضر سے تعلق رکھتاتھا۔بنی امیہ کے زمانے میں زندگی بسر کرتاتھا اس نے عباسیوں کی

خلافت کو نہیں دیکھا ہے۔خاندانی تعصبات کی وجہ سے ایک لمحہ بھی اسے یمنیوں کی ہجو گوئی سے نجات نہیں ملی ہے۔صاحب اغانی ،مذکورہ قصیدہ کے بارے میں لکھتاہے :یہ ٣٠٠ ابیات پر مشتمل تھا اور اس میں اس نے یمنی قبیلہ کے کسی ایک خاندان کو بھی اپنی ہجو وبدگوئی سے معاف نہیں کیا ہے۔(اغانی ٢٤٢١٦و ٢٥٦)

۹۰

ربیعہ،ایاد اور انمار کی ستائش کی ہے اور ان کے مناقب ،خوبیوں اور افتخارات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ایسا ظاہر کیا ہے کہ یہ لوگ متعدد جہات سے قحطانیوں اور یمانیوں پر فضیلت رکھتے ہیں اس کے علاوہ اس نے یمنیوں پر رکیک حملے کرکے انھیں گالیاں دی ہیں ''۔

یہ قصیدہ اس امر کا باعث بنا کہ ان دونوں قبیلوں کی دشمنی کی داستانیں زبان زد ہوگئیں ۔اس قصیدہ کے درج ذیل بعض حصوں میں کمیت نے صراحتاً یا کنایتاًحبشہ کی داستان اور یمن پر ان کے تسلط کی طرف اشارہ کیاہے:

''چاند اور آسمان پر موجود ہروہ ستارہ ونورانی نقطہ جس کی طرف ہاتھ اشارہ کرتے ہیں ،ہمارا ہے۔خدا نے نزار کی نام گزاری کرکے انھیں مکہ میں رہائش پزیر کرنے کے دن سے ہی فخرو مباہات کو صرف ہماری قسمت قرار دیاہے۔قوی ہیکل بیگانے کبھی نزار کی بیٹیوں کو اپنے عقد میں نہیں لاسکے ہیں ،گدھے اور گھوڑی کی آمیزش کی طرح نزار کی بیٹیاں ہرگز سرخ وسیاہ فام مردوں سے ہمبستر نہیں ہوئی ہیں ''۔

مسعودی لکھتاہے:

دعبل ابن علی خزاعی(۱) نے ایک طولانی قصیدہ کے ذریعہ کمیت کوجواب دیاہے اور یمنیوں کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے خوب داد سخن د ی ہے،ان کے بادشاہوں اور امیروں کی نیکیاں گنتے ہوئے فخرومباہات کااظہار کیاہے۔اس کے علاوہ کھلم کھلا اور کنایہ کی صورت میں

____________________

۱)۔دعبل خزاعی اور اس کے تعصب کے بارے میں ملاحظہ ہو (اغانی ٦٨٢٠۔١٤٥)

۹۱

نزاریوں کا دل دکھاتے ہوئے کہتاہے :

''زندہ باد ہمارے قبیلوں کے سردار ،زندہ باد !ہمارے شہر۔اگر یہودی تم میں سے ہیں اور اگر تم عجمی ہونے کے سبب ہم پر فخر کرتے ہوتو یہ نہ بھولو کہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو بندر اور سور کی شکل میں مسخ کردیاہے اور ان مسخ شدگان کے آثار سرزمین ایلہ،خلیج اور اقیانوس احمر میں موجود ہیں ،کمیت نے جو کچھ اپنے اشعار میں کہاہے،ہم سے خون کاطالب نہیں تھا،لیکن چونکہ ہم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کی ہے،اس لئے اس نے ہمارے خلاف ہجو وبدگوئی کی ہے۔خاندان نزار اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ،یعنی انصار پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے پر فخر ومباہات کرتے ہیں ''۔

شاعر کمیت کی بات یمنیوں اور نزاریوں کے درمیان بھر پور انداز میں پھیل گئی اور ہر قبیلہ دوسرے پر اپنے فخرو مباہات جتلاتے ہوئے اپنی بزرگی پر ناز کرتاتھا۔اس طرح لوگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے اور خاندانی تعصبات کی شدت اپنی انتہاء تک پہنچ گئی ۔حتیٰ شہرو دیہات بھی

اس سے محفوظ نہ رہے۔یہ سلسلہ امویوں کے آخری خلیفہ مروان کے زمانہ تک جاری رہا۔

مروان نے اپنے خاندان نزار کو اہمیت دی اور یمنیوں کو نکال باہر کیا اس طرح اس نے خود اپنی سلطنت کو متزلزل کردیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ یمنیوں نے عباسیوں کی دعوت پر لبیک

کہہ کر ان کی مدد کی بنی امیہ کی خلافت سرنگوں ہوگئی اور عباسی اقتدار پر قابض ہوگئے۔اسی خاندانی تعصبات کا نتیجہ تھا کہ معن بن زائدہ(۱) نے اپنے رشتہ داروں ربیعہ ونزارکی طرفداری میں یمن کے لوگوں کوخاک و خوں میں غلطاں کردیا اس طرح ربیعہ

____________________

۱)۔ معن بن زائدہ شیبانی کو امویوں اور عباسیوں کی طرف سے اقتدار ملا،اور خوارج نے آخر کار سگستان (سجستان)میں ١٥١ ھ یا ١٥٢ ھ یا ١٥٨ ھ میں اسے قتل کردیا۔(وفیات الاعیان ٣٣٢٤)

۹۲

ویمنیوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی کاسالہا سال قبل منعقد شدہ عہدو پیمان(۱) ٹوٹ گیا۔اور اسی خاندانی تعصبات کی بنا پر عقبہ بن سالم نے بحرین اور عمان میں معن بن زائدہ کے اقدامات کے شدید رد عمل کے طور پر خاندان عبد القیس اور ربیعہ کے دوسرے قبائل کاقتل عام کیا۔

جو کچھ بیان ہوا یا جوکچھ باقی رہا یہ سب خونین حوادث نزار اور قحطان کے دوقبیلوں کے در میان خاندانی تعصبات کا نتیجہ تھا۔اور سیف نے اسے اچھی طرح درک کیاتھا اور اپنے طور پر اظہار کرنے پر اتر آیاتھا۔

جن حوادث کا ہم نے ذکر کیاا ن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ سبب خونیں جنگیں ،ان بیانات ، شعر گوئی اور قصیدہ گوئی کا نتیجہ تھیں ،جن میں طعنہ زنی ،گالی گلوچ، بے بنیاد نسبتیں ، ایک قبیلہ کادوسرے کے خلاف برا بھلا کہنا اور اپنے فخرو مباہات پر ناز کرناتھااور ان تمام موارد کو ایک لفظ یعنی''خاندانی فخرو مباہات''میں خلاصہ کیا جاسکتاہے۔

حدیث سازی میں تعصب کااثر

اگر کوئی شعروادب کے دیوان کا مطالعہ کرے تو اسے اس قسم کے جذبات کا اظہار اور خاندانی تعصبات کے بے شمار نمونے نظر آئیں گے ۔

قبیلہ نزار و قحطان ایک دوسرے کے خلاف خود ستائی اور فخر و مباہات جتانے میں صرف حقیقی افتخارات یا واقعی ننگ و رسوائیوں کو بیان کرنے اور گننے تک ہی محدود نہیں رہے ،بلکہ اس تعصب نے دونوں قبیلوں کے متعصب لوگوں کو اس قدر اندھا بنا دیا تھا کہ ان میں سے بعض افراد اپنے قبیلہ کے حق

میں تاریخی افسانے گڑھنے پراتر آئے حتی انھوں نے احادیث اور اسلامی روایتیں جعل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔اور بعض افراد ان افسانوں کو جذباتی تقریروں اور اشعار کا روپ دے کر اپنے دشمن قبیلہ کو نیچا دکھاتے تھے ۔

ان خاندانی تعصبات اور فخر و مباہات کے افسانہ نویسوں ،داستان سازوں ،جھوٹ گڑھنے والوں اور ہوائی قلعے بنانے والوں میں سیف بن عمر تمیمی کی حد تک کوئی نہیں پہنچا ہے ۔ہم اگلی فصل میں اس کے جعل کردہ افسانوں اور احادیث اور ان کے اسلام پر اثرات کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱) ۔ سید رضی ،نہج البلاغہ میں ابن کلبی سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علی ں نے ربیعہ اور یمن کے درمیان ایک عہد نامہ مرقوم فرمایا،جس کاآغاز اس طرح کیاتھا:یہ وہ ضوابط ہیں جو یمن کے رہنے والے شہر نشین اورصحرا نشین اور ربیعہ کے رہنے والے شہر نشیں اور صحرا نشین ....(نہج البلاغہ ج٣ رسالہ ٧٤ ص١٤٨)

۹۳

سیف بن عمر ۔حدیث جعل کرنے والا سورما

لم یبلغ احد سیف بن عمر فی وضع الحدیث حدیث گڑھنے میں سیف بن عمر کے برابر کوئی نہیں تھا ۔

(مؤلف)

سیف کی کتابیں

سیف نے '' فتوح ''اور'' جمل ''نام کی دو کتابیں تألیف کی ہیں ۔یہ دونوں کتابیں خرافات ، اور افسانوں پر مشتمل ہیں ۔اس کے باوجود ان کتابوں کے مطالب تاریخ اسلام کی معتبر ترین کتابوں میں قطعی اور حقیقی اسناد کے طور پر نقل کئے گئے ہیں اور آج تک ان سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔

سیف نے ان دو کتابوں میں رزمیہ شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کی ہے ،جنھوں نے ایک زبان ہو کر عام طور پر قبائل مضر کے بارے میں اور خصوصا قبیلہ تمیم کے بارے میں اور ان سے بھی زیادہ عمرو کے خاندان جو خود سیف کا خاندان ہے کے فضائل و مناقب اور عظمتیں بیان کرنے میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دئے ہیں ۔

اس طرح سیف نے اپنے خاندان کی بر تری اور عظمت کو جتانے کے لئے اس خاندان کے اچھے خاصے افراد کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی بنا کر انھیں اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والوں کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ان سب کو خاندان تمیم سے شمار کیا ہے ۔

اس کے علاوہ قبیلۂ تمیم سے چند سپہ سالار جعل کئے ہیں جو سیف کی فرضی جنگوں کی قیادت کرتے ہیں ۔مزید بر آن کچھ ایسے راوی بھی جعل کئے ہیں جو خاندان تمیم کے فرضی سورمائوں اور دلاوروں کے افسانے اور بہادریاں بیان کرتے ہیں ۔

اس نے قبیلہ تمیم کے جعلی پہلوانوں اور جنگی دلاوروں کی فرضی بہادریوں اور افسانوی کارناموں کو '' فتوح'' اور'' جمل '' نامی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔یہ افسانے اور فرضی قصے ایسے مرتب کئے گئے ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کریں ۔

۹۴

سیف نے اپنی داستانوں میں ایسی جنگوں کا ذکر کیا ہے جو ہر گز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسے میدان کا ر زار کا نام لیا ہے کہ جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اس کے علاوہ ایسے شہروں قصبوں اور مقامات کا نام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کوئی وجود ہی نہیں تھا اور اس وقت بھی ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

قبیلہ تمیم کے افسانوی بہادروں کے جنگی کار نامے ،شجاعت و دلیری ،ہوشیاری تجربہ اور کامیابیاں ثابت کرنے کے لئے سیف نے دشمنوں کے مقتولوں کی دہشت انگیز تعداد دکھائی ہے ۔ خاص کر ہزاروں دشمن کے مارے جانے یا ایک ہی معرکہ میں صرف تین دن رات کے اندر دشمنوں کے خون کی ندیاں بہانے کی بات کرتاہے ،جب کہ اس زمانے میں اس جنگ کے پورے علاقہ میں اتنی بڑی تعداد تمام جانداروں کی موجود نہیں تھی ،انسانوں کی تو بات ہی نہیں جو اتنی تعداد میں مارے جاتے یا قیدی بنائے جاتے !سیف نے اپنے افسانوں اور خیالی خونیں جنگوں کے واقع ہونے کی تائید میں فرضی رزمی شاعر وں سے منسوب قصیدے اور اشعار بھی لکھے ہیں جن میں قبائل مضر ،خاص کر خاندان تمیم کے جنگی کارنامے ،فخر و مباہات اور عظمتیں بیان کی گئی ہیں اور دشمنوں کی کمزوری ،نااہلی اور زبوں حالی کو بیان کیا ہے ۔

ان سب کے علاوہ سیف بن عمر تمیمی نے خلفائے وقت کی طرف سے ان جعلی اور فرضی بہادروں کے نام حکم نامے اور خطوط جعل کئے ہیں اور ان حکم ناموں میں انھیں فرضی عہد ے اور ترقیاں عطا کی گئی ہیں ۔اس کے علاوہ ان فرضی سپہ سالاروں اور نام نہاد سرحدی علاقوں کے لوگوں کے درمیان جنگی معاہدے اور امان نامے بھی جعل کئے ہیں جب کہ حقیقت میں نہ اس قسم کی کوئی جنگ واقع ہوئی ہے اور نہ کوئی فتح یابی اور نہ ہی اس قسم کے افراد کا کوئی وجود ملتا ہے جن کے درمیان کسی قسم کا معاہدہ طے پاتا۔

مختصر یہ کہ اس غیر معمولی ذہن والے جھوٹے اور متعصب شخص سیف نے افسانہ سازی اور جھوٹی داستانوں کے علاوہ بے شمار اصحاب ،سورما،راوی ،رزمی شعراء اور ان کے قصیدے جعل کرکے قبیلۂ مضر اور تمیم خاص کراپنے خاندان بنی عمرو کے فضائل و مناقب کا ایک عظیم منشور تیار کیا ہے اور اسے تاریخ کے حوالے کیا ہے اور ایک ہزار سال گزر نے کے بعد اس وقت بھی ان واقعات کو حقیقی اور قطعی اسناد اور تاریخ اسلام کے خصوصی واقعات کے طور پرمانا جاتا ہے ۔

۹۵

مذکورہ مطالب اور سیف کے مقاصد کو بیان کرنے والے اشعار اور قصیدوں کے درج ذیل نمونے قابل غور ہیں :

سیف نے ایک فرضی شاعر قعقاع ابن عمر و تمیمی کی زبانی حسب ذیل (مضمون کے) اشعار بیان کئے ہیں ۔٩

''میں نے اپنے اباو اجداد سے سمندروں کی وسعت کے برابر نیک اعمال اور بزرگی وراثت میں پائی ہے ۔ان میں سے ہر ایک نے عظمت اور بزرگواری کو اپنے والدین سے وراثت میں پایا ہے اور عظمتوں کے عالی درجے اپنے اجداد سے حاصل کئے ہیں اور انھیں بڑھاوا دیا ہے ۔میں ان فخر و مباہات کو ہر گز ضائع ہونے نہیں دوں گا ،میری نسل بھی اگر باقی رہی تو وہ بھی عظمتوں کی بنیاد رکھنے والی ہیں ۔اس لحاظ سے میدان کارزار کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے تھے جو بادشاہوں کی طرح دشمن پر کاری ضرب لگاتے تھے اور ان کے پیچھے لشکر شکن سپاہی ہوتے تھے ۔ہم میدان جنگ کے وہ سورما ہیں جن کے خوف و دہشت سے دشمن کے سپاہی تسلیم ہو جاتے ہیں ''

اس کے علاوہ سیف نے ابی مفزر اسود تمیمی کی زبانی یہ قصیدہ کہا ہے :

'' ہم بنی عمرو کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ،میدان کارزار کے نیزہ باز ،محتاجوں کو کھلانے والے اور مہمان نواز ہیں ''

اور ابو بجید نافع بن اسود تمیمی سے منسوب یہ شعر لکھے ہیں :

'' جب یزدگرد نے فرار کیا ،تو حقیقت میں ہم نے خوف و وحشت کے ہتھیار سے اسے شکست دے دی ''

مزید کہتا ہے :

'' اگر میرے خاندان کے بارے میں پوچھو گے تو ''اسید'' بزرگی و عظمت کا معدن ہے ''

اور ربیع بن مطر تمیمی کی زبانی کہتا ہے :

''اسلام کے سپہ سالار سعد و قاص(۱) کے منادی نے خوش لحن اور سریلی آواز میں ندا دی کہ : بے شک صرف قبیلۂ تمیم کے افراد میدان کار زار کے شہسوار تھے ''

مزید کہتا ہے :

'' قبائل معد اور دیگر قبائل کے حکم یہ نظریہ رکھتے تھے کہ صرف خاندان تمیم کے افراد عجم

____________________

۱)۔ سعد بن ابی وقاص ،قادسیہ کی جنگ کا سپہ سالار تھا سعد نے ٥٤ھ یا ٥٥ ھ میں مدینہ میں وفات پائی اسد الغابہ ٢ ٢٩٠و٢٩٣

۹۶

کے بادشاہوں کے ہم پلہ ہیں ''

سیف بن عمر تمیمی نے خاندان تمیم کی عظمت اور فخر و مباہات کی تبلیغ و تشہیر کے لئے صرف انسانوں کا ہی سہارا نہیں لیا ہے بلکہ ان فخر و مباہات کی تبلیغ میں جنات سے بھی مدد لی ہے اور ایک افسانہ گڑھ کر دعویٰ کیا ہے کہ جنات نے بھی آواز کی لہروں کے ذریعہ چند اشعار کہہ کر خاندان تمیم کی عظمتوں کو تمام عرب زبان لوگوں تک پہنچایا ہے ۔طبری نے اس موضوع کو سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں یوں بیان کیا ہے ۔ ١٠

'' قادسیہ کی جنگ ختم ہونے کے بعد جنات نے اس خبر کو نشر کیا اور لوگوں کو حالات سے آگاہ کیا اور خبر پہنچانے میں انسانوں پر سبقت حاصل کی ''

اس کے بعد لکھتا ہے :

'' اہل یمامہ نے ایک غیبی آواز سنی ۔یہ آواز ان کے سروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے گونجتی ہوئی یوں گویا تھی : '' ہم نے دیکھا کہ فوج بیشتر قبیلہ تمیم کے افراد پر مشتمل تھی اور میدان کارزار میں سب سے زیادہ صبر و تحمل والے وہی تھے ۔تمیم کے بے شمار سپاہیوں نے دشمن کے ایک بڑے لشکر پر ایسی یلغار کی کہ گرد وغبار ہو امیں بلند ہو گیا وہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے ایک بڑے لشکر پر جو شجاعت اور بہادر ی میں کچھار کے شیروں کے مانند اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھے حملہ آور ہوئے ایرانیوں کو جنگ قادسیہ کے میدان کارزار میں کٹھن لمحات کا سامنا کرنا پڑا آخر کار وہ تمیم کے سپاہیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے اور ان کے سامنے اپنی عظمتیں کھو بیٹھے ۔جب وہ قبیلہ ٔتمیم کے بہادروں کے مقابلے میں آتے تو اپنے ہاتھ پائوں کو ان کی تلواروں سے کٹتے دیکھتے رہ گئے ۔ یہ آواز اسی طرح پورے جزیرہ نمائے عرب میں بعض لوگوں کے کانوں تک پہنچی ہے !

۹۷

سیف کے یہ افسانوی فاتح سپہ سالار وں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس فرضی اور افسانوی میدان جنگ میں ان کے اطراف سپاہیوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو ۔ اس لئے سیف نے قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر خاندانوں اور قبیلوں کے بعض طرفدار اور حامی ان کے لئے گڑھ لئے ہیں اور انھیں بھی اس افسانوی جنگ میں کچھ فرضی ذمہ داریاں اور معمولی عہدے عطا کئے ہیں تاکہ اس کے افسانے ہر صورت میں مکمل نظر آئیں اور قبائل مضر ،نزار اور تمیم کی بہادریاں اور نمایاں ہو جائیں اس طرح سیف نے تاریخ اسلام میں ایسے بہت سے صحابی ، تابعین اور راویوں اور لوگوں کے مختلف طبقات کو جعل کیا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں تھا اور وہ سب کے سب سیف کی خیالی تخلیق اور اس کے افسانوی افراد ہیں اور جتنی بھی داستانیں اور اشعار ان سے منسوب کئے ہیں وہ سب کے سب اس زندیق سیف کی خیالی تخلیق ہیں ۔

سیف کی تحریفات

سیف ،سورمائوں کو جعل کرنے اور افسانے گڑھنے کے علاوہ اپنی احساس کمتری کی آگ کو بجھانے کے لئے تاریخ اسلام کے حقیقی واقعات میں تحریف کرنے کا بھی مرتکب ہو اہے ۔یعنی تاریخی واقعات کو اصلی اشخاص کے بجائے غیر مربوط افراد سے منسوب کرکے بیان کرتا ہے ۔اس سلسلے میں درج ذیل نمونے قابل بیان ہیں :

اول ۔حقیقی جنگوں میں جن افراد کے ذریعہ فتح و کامرانی حاصل ہوئی ہے ،سیف نے ان کامیابیوں کو بڑی مہارت اور چالاکی کے ساتھ قبیلہ مضر کے کسی حقیقی فرد کے حق میں درج کیا ہے یا یہ کہ اس فوج کی کمانڈ کو قبیلہ مضر کے کسی افسانوی سپہ سالار اور بہادر کے ہاتھ میں دکھایا ہے تاکہ اس طرح اس فتح و کامرانی کو قبیلہ مضر کے کھاتے میں ڈال سکے ۔

دوم ۔اگر قبیلہ مضر کا کوئی فردیا چند افراد حقیقتا کسی مذموم تاریخی عمل کے مرتکب ہوئے ہوں تو سیف خاندانی تعصب کی بنا پر اس شرمناک اور مذموم فعل کو کسی ایسے شخص کے سر تھوپتا ہے جو قبیلہ مضر سے تعلق نہ رکھتا ہو ۔اس طرح خاندان مضر کے فرد یا افراد کے دامن کو اس قسم کے شرمناک اور مذموم فعل سے پاک کرتا ہے خواہ یہ غیر مضری فرد حقیقت میں وجود رکھتا ہو یا سیف کے ان افسانوی افراد مین سے ہو جنھیں اس نے جعل کیاہے ۔

۹۸

سوم۔اگر قبیلہ مضر کے سردار وں کے درمیان کوئی ناگوار اور مذموم حادثہ پیش آیا ہو اور حادثہ میں دونوں طرف سے قبیلہ مضر کے افراد ملوث ہوں توسیف اپنی ذمہ داری کے مطابق اخبار میں تحریف کرکے افسانہ تراشی کے ذریعہ یا ہر ممکن طریقے سے قبیلہ مضر کو بد نام و رسوا کرنے والے اس ناگوار حادثہ کی پردہ پوشی کرتا ہے ایسے قابل ،مذمت حوادث کے نمونے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے خلافت عائشہ ،طلحہ اور زبیر کی دشمنی اور بغاوت میں دیکھے جا سکتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں ان کے حامیوں نے عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور بالآخر انھیں قتل کر ڈالا ۔یا ایسے نمونے قبیلہ مضر کے مذکورہ تین سرداروں (عائشہ ،طلحہ وزبیر ) کی خلیفہ مسلمین حضرت علی ں جو خودقبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے کے خلاف بغاوت مین دیکھے جا سکتے ہیں ، جو بالآخر جنگ جمل پر ختم ہوئی ۔ سیف نے خاندان مضر کے مذکورہ سرداروں کے دامن کو اس رسوائی اور بدنامی سے پاک کرنے کے لئے بڑی مہارت اور چالاکی سے '' عبداللہ ابن سبا'' نامی ایک نام نہاد شخص کا ایک حیرت انگیز افسانہ جعل کرکے مسلّم تاریخی حقائق کو بالکل الٹ دیا اور مضریوں کے دامن کو پاک کرکے ان سب کے بجائے صرف ایک فرضی شخص '' عبد اللہ ابن سبا '' کو قصور وار ٹھہرایا ہے ۔

سیف '' عبداللہ ابن سبا'' کے حیرت انگیز افسانہ کا منصوبہ مرتب کرتا ہے اور اس افسانہ کے ہیرو جو قطعا غیر مضری ہے کا نام ''ابن سبا''رکھتا ہے اور ایسا تصور پیش کرتا ہے کہ ''ابن سبا''یمن کے شہر صنعا سے اٹھتاہے ۔اسلامی ممالک کے مختلف بڑے شہروں کا دورہ کرتا ہے اور یمنی طرفداروں کو اپنے ساتھ جمع کرکے بالآخر عثمان کے زمانے کی بغاوت اور حضرت علی کے خلاف جنگ جمل برپا کرتا ہے ۔اس طرح سیف ،ان تمام بغاوتوں ،جنگوں اور فتنوں کا ذمہ دار ''عبداللہ ابن سبا''اوراس کے طرفداروں کو ٹھہرا تا ہے جو سب کے سب یمنی ہیں نہ کہ مضری۔

۹۹

سیف اس حیرت انگیز افسانہ گو گڑھنے کے بعد اسے اپنی وزنی اور معتبر کتاب میں درج کرتا ہے اور تمام حوادث اور بد بختیوں کو ''عبداللہ ابن سبا''اور اس کے حامیوں کے سر تھوپتاہے جو سب کے سب اس کے خیالی اور جعلی افراد تھے اور اس نے ان کانام ''سبائی''رکھا تھا ۔اس طرح خاندان مضر کے سرداروں جو حقیقت میں ان واقعات اور حوادث کے ذمہ دار تھے کے دامن کو ہر قسم کی تہمت اور آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے آپ کو اس بڑے غم سے نجات دلاتا ہے جو قبیلہ مضر کے لئے شرمندگی اور ذلت کا سبب تھا۔

سیف،''عبداللہ''کو جعل کرکے اس کا نام ''ابن سبا''رکھتا ہے اور اسے سبائیوں سے نسبت دیتا ہے تا کہ اس کا یمنی ہونا مکمل طور پر ثابت ہوجائے اور اس کے قحطانی ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے ۔ کیا سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان تمام قحطانیوں کا جد اعلیٰ نہیں ہے اور یمن کے تمام قبائل کا شجرہ ٔنسب اس تک نہیں پہنچتا ؟اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص سبائی یا قحطانی ہے تو اسے ایک ایسے شخص سے نسبت دی ہے جو یمنی ہے ،جس طرح اگر اسی شخص کو یمنی کہیں تو ایک ایسی جگہ کی نسبت دیں گے جو سبا اورقحطانیوں کی اولاد کی جائے پیدایش ہے ۔اس وضاحت کے پیش نظر سیف بن عمر ،''عبداللہ ابن سبا ''کے حامیوں اور پیرو کاروں کو بھی سبائی کہتا ہے تا کہ یہ ثابت کرے کہ ''عبداللہ ابن سبا''کے تمام حامی اور پیرو یمنی تھے اور کسی کے لئے شک و شبہ باقی نہ رہے کہ قبیلہ ٔسبا کے افراد ،یمنی اور قحطانی سب کے سب بد فطرت ہیں اور بغاوت و فتنہ انگیزی میں ایک دوسرے کے برابر ہیں اور مثال نہیں رکھتے ۔صاف ظاہرہے کہ سیف نے ایک تیر سے دو کے بجائے کئی شکار کئے ہیں !زندیق ہونے کی وجہ سے اس نے اسلام کو افسا نہ اور تاریخ اسلام کو قصہ اور داستان کا نام دے کر حقائق کی تحریف کی ہے اور واقعات کو توہمات کے پردے میں چھپایا ہے اور اس طرح ملت کے خود غرضوں کو خوش کیا ہے اور تعصب کی بنا پر جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں رہنے والے قبیلہ مضر کے دامن کو ہر رسوائی سے پاک کرنے کے علاوہ یمنیوں کی قدرت و منزلت کو گراکر اس قدر پست و ذلیل کیا ہے کہ تاریخی واقعات کا مطالعہ کرنے والے رہتی دنیا تک سبائیوں ،یمنیوں اور قحطانیوں کو لعنت ملامت کرتے رہیں گے ۔مختصر یہ کہ سیف نے مانی کی تردید لکھ کر تاریخی واقعات سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فرضی اور جعلی سور مائوں کو جعل کیا ہے ۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تاريخ كے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ان ميں سے كچھ افراد اگرچہ وہ تعداد ميں بہت كم تھے ، ليكن قدر وقيمت كے لحاظ سے بہت تھے ،ان پر ايمان لے آئے تھے اور نسبتاًكچھ آمادگى كا سامان دوسروں كے لئے بھى پيدا ہوگيا تھا _

ابراہيم (ع) كو جلا ديا جائے

اگرچہ ابراہيم(ع) كے عملى ومنطقى استدلالات كے ذريعے سب كے سب بت پرست مغلوب ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنے دل ميں اس شكست كا اعتراف بھى كرليا تھا _

ليكن تعصب اور شديد ہٹ دھرمى حق كو قبول كرنے ميں ركاوٹ بن گئي لہذا اس ميں كوئي تعجب كى بات نہيں ہے كہ انہوں نے ابراہيم كے بارے ميں بہت ہى سخت اور خطرناك قسم كا ارادہ كرليا اور وہ لوگ ابراہيم(ع) كو بدترين صورت ميں قتل كرنا چاہتے تھے انہوں نے پروگرام بنايا كہ انہيں جلاكر راكھ كرديا جائے _

عام طور پر طاقت اور منطق كے درميا ن معكوسى رابطہ ہوتا ہے ، جس قدر انسان ميں طاقت اور قدرت زيادہ ہوتى جاتى ہے ، اتنى ہى اس كى منطق كمزور ہوتى جاتى ہے سوائے مردان حق كے كہ وہ جتنا زيادہ قوى اور طاقتور ہوتے ہيں ، اتناہى زيادہ متواضع اور منطقى ہوجاتے ہيں _

جو لوگ طاقت كى زبان سے بات كرتے ہيں جب وہ منطق كے ذريعے كسى نتيجے پر نہ پہنچ سكيں تو فورا ًاپنى طاقت وقدرت كا سہارالے ليتے ہيں حضرت ابراہيم كے بارے ميں ٹھيك يہى طرز عمل اختيار كيا گيا جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

'' ان لوگوں نے (چيخ كر)كہا: اسے جلادواور اپنے خدائوں كى مدد كرو ، اگر تم سے كوئي كام ہوسكتا ہے_''(۱)

طاقتور صاحبان اقتداربے خبر عوام كو مشتعل كرنے كے لئے عام طور پر ان كى نفسياتى كمزوريوں سے

____________________

(۱) سورہ انبياء آيت ۶۸

۱۲۱

فائدہ اٹھاتے ہيں كيونكہ وہ نفسيات كو پہچانتے ہيں اور اپنا كام كرنا خوب جانتے ہيں _

جيساكہ انہوں نے اس قصہ ميں كيا اور ايسے نعرے لگائے اور ان كى غيرت كو للكارا: يہ تمہارے خدا ہيں ، تمہارے مقدسات خطرے ميں پڑگئے ہيں ، تمہارے بزرگوں كى سنت كو پائوں تلے روند ڈالاگيا ہے ، تمہارى غيرت وحميت كہاں چلى گئي ؟ تم اس قدرضعيف حال كيوں ہوگئے ہو؟ اپنے خدائوں كى مدد كيوں نہيں كرتے ؟ابراہيم كو جلادو اور اپنے خدائوں كى مدد كرو، اگر كچھ كام تم سے ہوسكتا ہے اور بدن ميں توانائي اورجان ہے ،ديكھو: سب لوگ اپنے مقدسات كا دفاع كرتے ہيں ، تمہارا تو سب كچھ خطرے ميں پڑگيا ہے_

خلاصہ يہ كہ انہوں نے اس قسم كى بہت سى فضول اور مہمل باتيں كيں اور لوگوں كو ابراہيم كے خلاف بھڑكايا اس طرح سے كہ لكڑيوں كے چند گٹھوں كى بجائے كہ جو كئي افرادكے جلانے كے لئے كافى ہوتے ہيں ، لكڑيوں كے ہزارہا گٹھے ايك دوسرے پر ركھ كر لكڑيوں كا ايك پہاڑ بناديا اور اس كے بعد آگ كا ايك طوفان اٹھ كھڑاہوا تاكہ اس عمل كے ذريعہ سے اپنا انتقام بھى اچھى طرح سے لے سكيں اور بتوں كا وہ خيالى رعب ودبدبہ اور عظمت بھي، جس كو ابراہيم (ع) كے طرز عمل سے سخت نقصان پہنچاتھا، كسى حدتك بحال ہوسكے _

تاريخ دانوں نے اس مقام پر بہت سے مطالب تحرير كيے ہيں كہ جن ميں سے كوئي بھى بعيدنظر نہيں آتا _

فرشتوں كى فرياد

سب لوگ چاليس دن تك لكڑياں جمع كرنے ميں لگے رہے اور ہر طرف سے بہت سى خشك لكڑياں لالا كر جمع كرتے رہے اور نوبت يہاں تك پہنچ گئي تھى كہ وہ عورتيں تك بھى كہ جن كاكام گھر ميں بيٹھ كر چرخا كاتنا تھا، وہ اس كى آمدنى سے لكڑيوں كا گٹھالے كر اس ميں ڈلواتى تھيں اور وہ لوگ كہ جو قريب مرگ ہوتے تھے ، اپنے مال ميں سے لكڑياں خريد نے كى وصيت كرتے تھے اور حاجت منداپنى حاجتوں كے پورے ہونے كے لئے يہ منت مانتے تھے كہ اگران كى حاجت پورى ہوگئي ، تو اتنى مقدار لكڑيوں كا اضافہ كريں گے _

يہى وجہ تھى كہ جب ان لكڑيوں ميں مختلف اطراف سے آگ لگائي گئي تو اس كے شعلے اتنے بلند

۱۲۲

ہوگئے تھے كہ پرندے اس علاقے سے نہيں گزر سكتے تھے _

يہ بات واضح ہے كہ اس قسم كى آگ كے تو قريب بھى نہيں جايا جاسكتا چہ جائيكہ ابراہيم عليہ السلام كو لے جاكر اس ميں پھينكيں مجبوراً منجنيق سے كام ليا گيا حضرت ابراہيم كو اس كے اندار بٹھاكر بڑى تيزى كے ساتھ آگ كے اس دريا ميں پھينك ديا گيا _

ان روايات ميں كہ جو شيعہ اور سنى فرقوں كى طرف سے نقل ہوئي ہيں ، يہ بيان ہواہے كہ:

''جس وقت حضرت ابراہيم(ع) كو منجنيق كے اوپر بٹھايا گيا اور انہيں آگ ميں پھينكاجانے لگا تو آسمان، زمين اور فرشتوں نے فرياد بلند كى اور بارگاہ خداوندى ميں درخواست كى كہ توحيد كے اس علمبرداراور حريت پسندوں كے ليڈركوبچالے _''

اس وقت جبرئيل، حضرت ابراہيم كے پاس آئے اور ان سے كہا :

كيا تمہارى كوئي حاجت ہے كہ ميں تمہارى مدد كروں ؟

ابراہيم عليہ السلام نے مختصر سا جواب ديا : تجھ سے حاجت ؟نہيں ، نہيں ،(ميں تو اسى ذات سے حاجت ركھتا ہوں كہ جو سب سے بے نياز اور سب پر مہربان ہے )

تواس موقع پر جبرئيل نے كہا : تو پھر تم اپنى حاجت خداسے طلب كرو _

انہوں نے جواب ميں كہا : ''ميرے لئے يہى كافى ہے كہ وہ ميرى حالت سے آگاہ ہے ''_

ايك حديث ميں امام باقر عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ اس موقع پر حضرت ابراہيم نے خداسے اس طرح رازونياز كيا:

''يااحد يا احد ياصمد يا صمد يا من لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفواًاحد توكلت على اللّه _''

اے اكيلے: اے اكيلے اے بے نياز اے بے نياز اے وہ كہ جس نے كسى كو نہيں جنا اور نہ جو جنا گيا اور جس كا كوئي ہم پلہ نہيں : ميں اللہ پر ہى بھرسہ ركھتا ہوں _

۱۲۳

آگ گلزار ہوگئي

بہرحال لوگوں كے شوروغل ہو اور جوش وخروش كے اس عالم ميں حضرت ابراہيم(ع) آگ كے شعلوں كے اندر پھينك ديئے گئے لوگوں نے خوشى سے اس طرح لغرے لگائے گويا بتوں كو توڑنے والا ہميشہ كے لئے نابود اور خاكستر ہوگيا _

ليكن وہ خدا كہ جس كے فرمان كے سامنے تمام چيزيں سرخم كيے ہوئے ہيں _ جلانے كى صلاحيت اسى نے آگ ميں ركھى ہے اور مائوں كے دل ميں محبت بھى اسى نے ڈالى ہے اس نے ارادہ كرليا كہ يہ خالص بندئہ مومن آگ كے اس دريا ميں صحيح وسالم رہے تاكہ اس كے افتخاراور اعزاز كى سندوں ميں ايك اور سند كا اضافہ ہوجائے _

جيسا كہ قرآن اس مقام پر كہتا ہے :''ہم نے آگ سے كہا :اے آگ : ابراہيم پر سلامتى كے ساتھ ٹھنڈى ہوجا_''(۱)

مشہور يہ كہ آگ اس قدر ٹھنڈى ہوگئي كہ ابراہيم كے دانت ٹھنڈك كى شدت سے بجنے لگے اور بعض مفسرين كے قول كے مطابق تو اگر''سلاماً'' كى تعبير ساتھ نہ ہوتى تو آگ اس قدر سرد ہوجاتى كہ ابراہيم كى جان سردى سے خطرے ميں پڑجاتى _ مشہور روايت ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ نمرود كى آگ خوبصورت گلستان ميں تبديل ہوگئي _يہاں تك كہ بعض نے تو كہا ہے كہ جس دن ابراہيم آگ ميں رہے ، ان كى زندگى كے دنوں ميں سب سے بہترين راحت وآرام كا دن تھا ؟(۲)

____________________

(۱)سورہ انبياء آيت ۶۹

(۲) آگ نے حضرت ابراہيم كو كيوں نہ جلايا ؟، مفسيرين كے درميان بہت اختلاف ہے ليكن اجمالاً بات يہ ہے كہ بينش توحيد ى كو مد نظر ركھتے ہوئے كسى سبب سے بھى خدا كے حكم كے بغير كوئي كام نہيں ہوسكتا ايك دن وہ ابراہيم كے ہاتھ ميں موجود چھرى سے كہتا ہے: نہ كاٹ اور دوسرے دن آگ سے كہتا : نہ جلا اور ايك دن پانى كوجو سبب حيات ہے حكم ديتا ہے كہ فرعون اور فرعونيوں كو غرق كردے

۱۲۴

يہ بات كہنے كى ضرورت نہيں ہے كہ ابراہيم كے آگ ميں صحيح وسالم رہ جانے سے صورت حال بالكل بدل گئي خوشى اورمسرت كا شور وغل ختم ہوگيا، تعجب سے منہ كھلے كے كھلے رہ گئے كچھ لوگ ايك دوسرے كے كان ميں رونماہونے والى اس عجيب چيزكے بارے ميں باتيں كررہے تھے ابراہيم (ع) اور اس كے خدا كى عظمت كا ورد زبانوں پر جارى ہوگيا نمرود كا اقتدار خطرے ميں پڑگيا ليكن پھر بھى تعصب اور ہٹ دھرمى حق كو قبول كرنے ميں پورى طرح حائل ہوگئي اگرچہ كچھ بيداردل اس واقعہ سے بہرہ ور بھى ہوئے اور ابراہيم كے خدا كے بارے ميں ان كے ايمان ميں زيادتى اور اضافہ ہوا ، مگريہ لوگ اقليت ميں تھے _

بہادرنوجوان

حضرت ابراہيم كو جب آگ ميں ڈالاگيا تو ان كى عمر سولہ سال سے زيادہ نہيں تھى اوربعض نے اس وقت ان كا سن ۲۶ سال كا ذكر كيا ہے _

بہرحال وہ جوانى كى عمر ميں تھے اور باوجود اس كے كہ ظاہرى طور پر ان كا كوئي ياردمددگار نہيں تھا، اپنے زمانے كے اس عظيم طاغوت كے ساتھ پنجہ آزمائي كى كہ جو دوسرے طاغوتوں كا سرپرست تھا، آپ تن تنہا جہالت ، خرافات اور شرك كے خلاف جنگ كرنے كے لئے نكل كھڑے ہوئے اور ماحول كے تمام خيالى مقدسات كا مذاق اڑايا اور لوگوں كے غصے اور انتقام سے ذرا بھى نہ گھبرائے كيونكہ ان كا دل عشق خدا سے معمور تھا اور ان كا اس پاك ذات پر ہى توكل اور بھروسہ تھا _

ہاں : ايمان ايسى ہى چيز ہے كہ يہ جہاں پيدا ہوجاتاہے وہاں جرا ت وشجاعت پيدا كرديتا ہے اور جس ميں يہ موجود ہو، اسے شكت نہيں ہوسكتى _

ابراہيم عليہ السلام اور نمرود

حضرت ابراہيم(ع) كو جب آگ ميں ڈالا گيا، نمرود كو يقين ہوگياتھا كہ ابراہيم مٹى بھر خاك ميں تبديل ہوگئے ہيں ليكن جب اس نے غور سے ديكھا تو معلوم ہوا كہ وہ زندہ ہيں تو اپنے ارد گرد بيٹھے ہوئے لوگوں سے

۱۲۵

كہنے لگا مجھے تو ابراہيم زندہ دكھائي دے رہا ہے شايد مجھے اشتباہ ہورہا ہے وہ ايك بلند مقام پر چڑھ گيا اور خوب غور سے ديكھا تو اسے معلوم ہوا كہ معاملہ تو اسى طرح ہے _

نمرودنے پكار كركہا : اے ابراہيم(ع) : واقعاً تيرا خدا عظيم ہے اور اس قدر قدرت ركھتا ہے كہ اس نے تيرے اور آگ كے درميان ايك ركاوٹ پيدا كردى اب جبكہ يہ بات ہے تو ميں چاہتاہوں كہ اس كى قدرت اور عظمت كى وجہ سے اس كے لئے قربانى كروں (اور اس نے چار ہزار قربانياں اس مقصد كے لئے تياركيں ) ليكن ابراہيم نے اس سے كہا : تجھ سے كسى قسم كى قربانى او ر كارخير قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ توپہلے ايمان لے آئے _

نمرودنے جواب ميں كہا :'' اس صورت ميں تو ميرى حكومت ختم ہوجائے گى اور ميں يہ بات گوارا نہيں كرسكتا _''

بہرحال يہى حادثات اس بات كا سبب بن گئے كہ كچھ آگاہ اور بيدار دل لوگ ابراہيم كے خدا پر ايمان لے آئے يا ان كے ايمان ميں اضافہ ہوگيا (اور شايد يہى واقعہ اس بات كا سبب بناكہ نمرود ابراہيم كے مقابلہ ميں كسى سخت رد عمل كا اظہار نہ كرے اور صرف ان كو سرزمين بابل سے جلاوطن كرنے پر قناعت كرے _)

نمرود سے گفتگو

سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم(ع) كے مد مقابل اس اجتماع ميں كون تھا اور كون آپ(ع) سے حجت بازى كررہا تھا؟

اس كا جواب يہ ہے كہ قرآن ميں اس كے نام كى صراحت نہيں ہے ليكن فرمايا گيا ہے:

اس غرور و تكبر كے باعث جو اس ميں نشہ حكومت كى وجہ سے پيدا ہوچكا تھا وہ ابراہيم(ع) سے حجت بازى كرنے لگا_

ليكن حضرت على عليہ السلام سے منقول درمنثور كى ايك حديث ميں اور اسى طرح تواريخ ميں اس كا نام ''نمرود بن كنعان''بيان كيا گيا ہے_

۱۲۶

يہاں پر اس مباحثے كا وقت نہيں بتايا گيا_ليكن قرائن سے اندازا ہوتا ہے كہ يہ واقعہ حضرت ابراہيم(ع) كى بت شكنى اور آگ كى بھٹى سے نجات كے بعد كا ہے كيونكہ يہ مسلم ہے كہ آگ ميں ڈالے جانے سے قبل اس گفتگو كا سوال ہى پيدا نہيں ہوتا تھا،اور اصولى طور پر بت پرست آپ كو ايسے مباحثے كا حق نہ دے سكتے تھے وہ حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسا مجرم اور گنہ گار سمجھتے تھے جسے ضرورى تھا كہ جتنى جلدى ہوسكے اپنے اعمال اور خدايان مقدس كے خلاف قيام كى سزا ملے_وہ تو انہوں نے بت شكنى كے اقدام كا صرف سبب پوچھا تھا اور اس كے بعد انتہائي غصے اور سختى سے انہيں آگ ميں جلانے كا حكم صادر ہوا تھا ليكن جب آپ(ع) حيرت انگيز طريقے سے آگ سے نجات پاگئے تو پھر اصطلاحى الفاظ ميں ''نمرود كے حضور رسائي ہوئي''اور پھر بحث و مباحثے كے ليے بيٹھ سكے_

بہر حال نمرود اپنى حكومت كى وجہ سے بادہ غرور سے سرمست تھا لہذا حضرت ابراہيم(ع) سے پوچھنے لگا تيرا خدا كون ہے_ حضرت ابراہيم(ع) نے كہا: ''وہى جو زندہ كرتا اور مارتا ہے''،حقيقت ميں آپ(ع) نے عظيم ترين شاہكار قدرت كو دليل كے طور پر پيش كيا_ مبداء جہان ہستى كے علم و قدرت كى واضح نشانى يہى قانون موت وحيات ہے ليكن اس نے مكر و فريب كى راہ اختيار كى اور مغالطہ پيدا كرنے كى كوشش كرنے لگا_ لوگوں اور اپنے حمايتيوں كو غافل ركھنے لے لئے كہا وہ تو ميں زندہ كرتا اور مارتا ہوں اور موت و حيات كا قانون ميرے ہاتھ ميں ہے_

قرآن ميں اس كے جملے كے بعد واضح نہيں ہے كہ اس نے اپنے پيدا كئے گئے مغالطے كى تائيد كے لئے كس طرح عملى اقدام كيا ليكن احاديث و تواريخ ميں آيا ہے كہ اس نے فوراًدو قيديوں كو حاضر كرنے كا حكم ديا_قيدى لائے گئے تو اس نے فرمان جارى كيا كہ ايك كو آزاد كردو اور دوسرے كو قتل كردو_ پھر كہنے لگا:تم نے ديكھا كہ موت و حيات كس طرح ميرے قبضے ميں ہے_

يہ امر قابل توجہ ہے كہ حضرت ابراہيم(ع) كى موت و حيات سے متعلق دليل ہر لحاظ سے قوى تھى ليكن دشمن شادہ لوح لوگوں كو جھل دے سكتا تھا لہذا حضرت ابراہيم عليہ السلام نے دوسرا استدلال پيش فرمايا كہ خدا

۱۲۷

آفتاب كو افق مشرق سے نكالتا ہے اگر جہاں ہستى كى حكومت تيرے ہاتھ ميں ہے تو تو اسے مغرب سے نكال كر دكھا_

يہاں دشمن خاموش،مبہوت اور عاجز ہوگيا_ اس ميں سكت نہ رہى كہ اس زندہ منطق كے بارے ميں كوئي بات كرسكے_ ايسے ہٹ دھرم دشمنوں كو لاجواب كرنے كايہ بہترين طريقہ ہے_

يہ مسلم ہے كہ موت و حيات كا مسئلہ كئي جہات سے آسمان اور گردش شمس و قمرى كى نسبت پروردگار عالم كے علم و قدرت پر زيادہ گواہى ديتاہے_ اسى بنا_ پر حضرت ابراہيم(ع) نے پہلے وہى مسئلہ پيش كيا اور يہ فطرى امر ہے كہ اگر صاحب فكر اور روشن ضمير افراد اس مجلس ميں ہوں گے تو وہ اسى دليل سے مطمئن ہوگئے ہوں گے كيونكہ ہر شخص اچھى طرح جانتا ہے كہ ايك قيدى كو آزاد كرنا اور دوسرے كو قتل كردينا يہ طبيعى اور حقيقى موت و حيات سے بالكل ربط نہيں ركھتا، ليكن جو لوگ كم عقل تھے اور اس دور كے ظالم حكمران كے پيدا كردہ مغالطے سے متا ثر ہوسكتے تھے ان كى فكر راہ حق سے منحرف ہوسكتى تھى لہذا آپ(ع) نے دوسرا استدلال پيش كيا اور سورج كے طلوع و غروب كا مسئلہ پيش كيا تا كہ حق ہر دو طرح كے افراد كے سامنے واضح ہوجائے_

اس بات كى توجہ كرنا مناسب ہے كہ قرآنى گفتگو سے يہ بات اچھى واضح ہوتى ہے كہ وہ ظالم اپنے بارے ميں الوہيت كا مدعى تھا، يہى نہيں كہ وہ اپنى پرستش كرواتا تھابلكہ اپنے آپ كو عالم ہستى كا پيدا كرنے والابھى بتاتا تھا، يعنى اپنے آپ كو ''معبود'' بھى سمجھتا تھا اور ''خالق'' بھي_

بت پرستوں كى سرزمين سے ابراہيم كى ہجرت

ابراہيم(ع) كے آگ ميں ڈالے جانے كے واقعہ اور اس خطرناك مرحلہ سے ان كى معجزانہ نجات نے نمرودكے اركان حكومت كو لرزہ براندام كرديا،نمرود تو بالكل حواس باختہ ہوگيا كيونكہ اب وہ ابراہيم كو ايك فتنہ كھڑا كرنے والا اور نفاق ڈالنے والا جوان نہيں كہہ سكتا تھا كيونكہ ابراہيم اب ايك خدائي رہبر اور بہادر رہبر كى حيثيت سے پہچانا جاتاتھا اس نے ديكھاكہ ابراہيم اس كے تمام ترطاقت ووسائل كے باوجود اس كے خلاف جنگ كى ہمت ركھتا ہے اس نے سوچا كہ اگر ابراہيم ان حالات ميں اس شہراور اس ملك ميں رہا تو اپنى باتوں

۱۲۸

،قوى منطق اور بے نظير شجاعت كے ساتھ ،مسلمہ طور پر اس جابر، خود سراور خود غرض حكومت كےلئے ايك خطرے كا مركز بن سكتا ہے لہذا اس نے فيصلہ كيا كہ ابراہيم كو ہر حالت ميں اس سرزمين سے چلا جانا چاہئے_

دوسرى طرف ابرہيم حقيقت ميں اپنى رسالت كا كام اس سرزمين ميں انجام دے چكے تھے وہ حكومت كى بنيادوں پر يكے بعد ديگرے چكنا چوركرنے والى ضربيں لگا چكے تھے اس سرزمين ميں ايمان وآگاہى كا بيج بوچكے تھے اب صرف ايك مدت كى ضرورت تھى كہ جس سے يہ بيج آہستہ آہستہ بار آور ہواور بت پرستى كى بساط الٹ جائے _

اب ان كے لئے بھى مفيد يہى تھا كہ يہاں سے كسى دوسرى سرزمين كى طرف چلے جائيں اور اپنى رسالت كے كام كو وہاں بھى عملى شكل ديں لہذا انہوں نے يہ ارادہ كرليا كہ لوط (جو آپ كے بھتيجے تھے )اور اپنى بيوى سارہ اور احتمالاً مومنين كے ايك چھوٹے سے گروہ كو ساتھ لے كر اس سرزمين سے شام كى طرف ہجرت كرجائيں _

جيسا كہ قرآن كہتا ہے : ہم نے ابراہيم اور لوط كو ايسى سرزمين كى طرف نجات دى كہ جسے ہم نے سارے جہان والوں كے لئے بركتوں والا بنايا تھا_''(۱)

اگرچہ قرآن ميں اس سرزمين كانام صراحت كے ساتھ بيان نہيں ہوا ہے ليكن سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت( سبحان الذي_____باركناحوله _) پر توجہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد ہى شام كى سرزمين ہے جوظاہرى اعتبار سے بھى پر بركت ، زرخيز اور سرسبز وشاداب ہے اور معنوى لحاظ سے بھى ،كيونكہ وہ انبيا كى پرور ش كا مركز تھى _

ابراہيم (ع) نے يہ ہجرت خود اپنے آپ كى تھى يا نمرود كى حكومت نے انہيں جلاوطن كيا يا يہ دونوں ہى صورتيں واقع ہوئيں ، اس بارے ميں تفاسيروروايات ميں مختلف باتيں بيان كى گئي ہيں ان كا مجموعى مفہوم يہي

____________________

(۱)سورہ انبياء آيت ۷۱

۱۲۹

ہے كہ ايك طرف تو نمرود اور اس كے اركان حكومت ابراہيم(ع) كو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے،لہذا انھوں نے انھيں اس سرزمين سے نكلنے پر مجبور كرديا اور دوسرى طرف ابرہيم(ع) بھى اس سرزمين ميں اپنى رسالت كے كام تقريباً مكمل كرچكے تھے اور اب كسى دوسرے علاقے ميں جانے كے خواہاں تھے كہ دعوت توحيد كو وہاں بھى پھيلائيں خصوصاً بابل ميں باقى رہنے سے ممكن تھا كہ آپ كى جان چلى جاتى اور آپ كى عالمى دعوت نامكمل رہ جاتى _

يہ بات قابل توجہ ہے كہ امام صادق عليہ السلام سے ايك روايت ميں يہ بيان ہوا كہ جس وقت نمرود نے يہ ارادہ كيا كہ ابراہيم كو اس سرزمين سے جلاوطن كردے تو اس نے يہ حكم ديا كہ ابراہيم كى بھيڑيں اور ان كا سارا مال ضبط كرليا جائے اور وہ اكيلاہى يہاں سے باہر جائے حضرت ابراہيم نے ان سے كہا يہ ميرى عمربھر كى كمائي ہے اگر تم ميرا مال لينا چاہتے ہو تو ميرى اس عمر كو جو ميں نے اس سرزمين ميں گزارى ہے مجھے واپس دے دو لہذا طے يہ پايا كہ حكومت كے قاضيوں ميں سے ايك اس بارے ميں فيصلہ دے ،قاضى نے حكم ديا كہ ابراہيم (ع) كا مال لے ليا جائے اور جو عمر انہوں نے اس سرزمين ميں خرچ كى ہے وہ انہيں واپس كردى جائے _

جس وقت نمرود اس واقعے سے آگاہ ہوا تو اس نے بہادر قاضى كے حقيقى مفہوم كو سمجھ ليا اور حكم ديا كہ ابراہيم كا مال اور اس كى بھيڑيں اسے واپس كردى جائيں تاكہ وہ انہيں ساتھ لے جائے اور كہا: مجھے ڈر ہے كہ اگر وہ يہاں رہ گيا تو وہ تمہارے دين وآئين كو خراب كردے گا اور تمہارے خدائوں كو نقصان پہنچائے گا ''_

كس طرح مردوں كو زندہ كرے گا ؟

ايك دن حضرت ابراہيم(ع) دريا كے كنارے سے گزررہے تھے _ آپ نے دريا كے كنارے ايك مردار پڑاہوا ديكھا، اس كا كچھ حصہ دريا كے انداراور كچھ باہر تھا دريا اور خشكى كے جانور دونوں طرف سے اسے كھارہے تھے بلكہ كھاتے كھاتے ايك دوسرے سے لڑنے لگتے تھے ،اس منظر نے حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسے مسئلہ كى فكر ميں ڈال ديا جس كى كيفيت سب تفصيل سے جاننا چاہتے ہيں اور وہ ہے موت كے بعد مردوں كے زندہ ہونے كى كيفيت ابراہيم(ع) سوچنے لگے كہ اگر ايسا ہى انسانى جسم كے ساتھ ہو اور انسان كا بدن جانوروں كے

۱۳۰

بدن كا جزء بن جائے تو قيامت ميں اٹھنے كا معاملہ كيسے عمل ميں آئے گا جب كہ وہاں انسان كو اسى بدن كے ساتھ اٹھنا ہے _

حضرت ابراہيم(ع) نے كہا : خدايا مجھے دكھا كہ تو مردوں كو كيسے زندہ كرے گا؟اللہ تعالى نے فرمايا : كيا تم اس بات پر ايمان نہيں ركھتے؟ انہوں نے كہا: ايمان تو ركھتا ہوں ليكن چاہتاہوں دل كو تسلى ہوجائے _

خدا متعال نے حكم ديا : چار پرندے لے لو اور ان كا گوشت ايك دوسرے سے ملادو پھر اس سارے گوشت كے كئي حصے كردو اور ہر حصہ كو ايك پہاڑپر ركھ دو اس كے بعد ان پرندوں كو پكار و تاكہ ميدان حشر كا منظر ديكھ سكو _ انہوں نے ايسا ہى كيا تو انتہائي حيرت كے ساتھ ديكھا كہ پرندوں كے اجزاء مختلف مقامات سے جمع ہوكر ان كے پاس آگئے ہيں اور ان كى ايك نئي زندگى كا آغاز ہوگيا ہے _

اس سلسلہ ميں قرآن كہتا ہے :

''اس وقت (كو ياد كرو)جب ابراہيم نے كہا : خدايا : مجھے دكھا دے تو كيسے مردوں كو زندہ كرتا ہے ،فرمايا : كيا تم ايمان نہيں لائے _ كہنے لگے : كيوں نہيں ، ميں چاہتاہوں ميرے دل كو اطمينان ہوجائے فرمايا : يہ بات ہے تو چار پرندے انتخاب كرلو (ذبح كرنے كے بعد ) انہيں ٹكڑے ٹكڑے كرلو (پھر ان كے گوشت كو آپس ميں ملادو ) پھر ہر پہاڑپر ايك حصہ ركھ دو ، پھر انہيں پكارو ، وہ تيزى سے تمہارے پاس آئےں گے، اور جان لوكہ خدا غالب اور حكيم ہے ''_(۱) (وہ مردوں كے اجزائے بدن كو بھى جانتا ہے اور انہيں جمع كرنے كى طاقت بھى ركھتا ہے _)

چندا ہم نكات

۱_ چار پرندے : اس ميں شك نہيں كہ مذكورہ چار پرندے مختلف قسم كے پرندوں ميں سے تھے كيونكہ اس كے بغير حضرت ابراہيم كا مقصد پورا نہيں ہوسكتاہے _ اس كے لئے ضرورى تھا كہ ہرايك كے اجزاء اس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آيت ۲۵۹

۱۳۱

كے اصلى بدن ميں واپس آئيں اوريہ مختلف قسم كے ہونے كى صورت ميں ہى ظاہر ہوسكتا تھا _ مشہور روايت كے مطابق وہ چار پرندے اس طرح تھے مور، مرغ ،كبوتر اور كوا جو كہ كئي پہلوئوں سے ايك دوسرے سے بہت مختلف ہيں _

بعض ان پرندوں كو انسانوں كى مختلف صفات اور جذبات كا مظہر سمجھتے ہيں _

مور: خود نمائي، زيبائش اور تكبركا مظہر ہے _

مرغ : شديد جنسى ميلانات كا مظہرہے_

كبوتر : لہوولعب اور كھيل كود كا مظہر ہے _

كوا: لمبى چوڑى آرزئوں اور تمنائوں كا مظہر ہے _

۲_ پہاڑوں كى تعداد : جن پہاڑوں پر حضرت ابراہيم عليہ السلام نے پرندوں كے اجزاركھے تھے ان كى تعدا كى صراحت قرآن حكيم ميں نہيں ہے ليكن روايات اہل بيت ميں يہ تعداد دس بتائي گئي ہے _(۱)

۳_ واقعہ كب رونماہوا : جب حضرت ابراہيم بابل ميں تھے يا جب شام چلے آئے تھے ،يوں لگتا ہے ،يہ شام ميں آنے كے بعد كا واقعہ ہے كيونكہ سرزمين بابل ميں پہاڑنہيں ہيں _

اسماعيل (ع) اور ہاجرہ(ع) كو منتقل كرنے كا حكم

سالہا گذرگئے كہ جناب ابراہيم(ع) نے اس صالح فرزند كے انتظار اور خواہش ميں زندگى بسركرتے رہے، انھوں نے عرض كيا:'' پروردگارا: مجھے ايك فرزند صالح عطا فرما_''(۲)

آخر كار خدا نے ان كى دعا قبول كرلي، پہلے انھيں اسماعيل(ع) اور پھر اسحاق(ع) مرحمت فرمايا كہ جن ميں سے ہر ايك بزرگ پيغمبر اور صاحب منزلت تھے_

____________________

(۱)اسى لئے بعض روايات ميں آيا ہے كہ اگر كوئي شخص وصيت كرجائے كہ اس كے مال كا ايك جزء فلاں سلسلے ميں صرف كرنا اور اس كى مقدار معين نہ كرجائے تو مال كا دسواں حصہ دينا كافى ہے _

(۲)سورہ صافات آيت ۱۰۰

۱۳۲

آپ نے اپنى كنيزہاجرہ كو اپنى بيوى بناليا تھا _ اس سے انہيں اسماعيل جيسا بيٹا نصيب ہوا آپ كى پہلى بيوى سارہ نے ان سے حسد كيا يہى حسد سبب بنا كہ آپ ہاجرہ اور اپنے شيرخوار بچے كو حكم خدا سے فلسطين سے لے كر مكہ كى جلتى ہوئي سنگلاخ پہاڑوں كى سرزمين ميں لے گئے يہ وہ علاقہ تھا جہاں پانى كى ايك بوند بھى دستياب نہ تھى آپ(ع) حكم خدا سے ايك عظيم امتحان سے گزرتے ہوئے انہيں وہاں چھوڑ كر واپس فلسطين آگئے _

وہاں چشمہ زمزم پيدا ہوا اس اثنا ميں جرہم قبيلہ ادھر سے گزرا اس نے جناب ہاجرہ سے وہاں قيام كى اجازت چاہى __گويا واقعات كا ايك طولانى سلسلہ ہے كہ جو اس علاقے كى آبادى كا باعث بنا_

حضرت ابراہيم (ع) نے خدا سے دعا كى تھى كہ اس جگہ كو آباد اور پر بركت شہر بنادے اور لوگوں كے دل ميرى اولاد كى طرف مائل كردے ان كى اولاد وہاں پھلنے پھولنے لگى تھى _(۱)

يہ بات جاذب نظر ہے كہ بعض مو رخين نے نقل كيا ہے كہ جب حضرت ابراہيم ہاجرہ اور شير خوار اسماعيل كو مكہ ميں چھوڑ كر واپس جانا چاہتے تھے تو جناب ہاجرہ نے فرياد كي: اے ابراہيم(ع) آپ كو كس نے حكم ديا ہے كہ ہميں ايسى جگہ پر چھوڑ جائيں كہ جہاں نہ كوئي سبزہ ہے ، نہ دودھ دينے والا كوئي جانور،يہاں تك كہ يہاں پانى كا ايك گھونٹ بھى نہيں ہے آپ پھر بھى ہميں بغير زادو توشہ اور مونس ومدد گار كے چھوڑے جارہے ہيں _

حضرت ابراہيم(ع) نے مختصر سا جواب ديا : ميرے پروردگار نے مجھے يہى حكم ديا ہے _

ہاجرہ نے يہ سنا تو كہنے لگيں : اگر ايسا ہے تو پھر خدا ہرگز ہميں يونہى نہيں چھوڑے گا _

ابراہيم(ع) نے حكم خدا كى اطاعت كى اور انہيں سرزمين مكہ ميں لے گئے جو ايسى خشك اور بے آب وگياہ تھى كہ وہاں كسى پرندے كا بھى نام ونشان نہ تھا جب ابراہيم انہيں چھوڑ كر تنہا واپس ہولئے تو ان كى اہليہ رونے لگيں كہ ايك عورت اور ايك شيرخوار بچہ اس بے آب وگياہ بيابان ميں كيا كريں گے_

اس خاتون كے گرم آنسو اور ادھر بچے كا نالہ ودزارى اس منظرنے ابراہيم(ع) كا دل ہلاكے ركھ ديا _

____________________

(۱)سورہ ابراہيم ايت ۳۷ تا ۴۱

۱۳۳

انہوں نے بارگاہ الہى ميں ہاتھ اٹھائے اور عرض كيا:

خدا وندا: ميں تيرے حكم پر اپنى بيوى اور بچے كو اس جلادينے والے بے آب وگياہ بيابان ميں تنہا چھوڑ رہا ہوں ، تاكہ تيرا نام بلند اور تيرا گھر آباد ہو_

يہ كہہ كر غم واندوہ اور شديد محبت كے عالم ميں الوداع ہوئے _

زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ ماں كے پاس آب وغذا كا جو توشہ تھا ختم ہوگيا اور اس كى چھاتى كا دودھ بھى خشك ہوگيا شير خوار بچے كى بے تابى اور تضرع وزارى نے ماں كو ايسا مضطرب كرديا كہ وہ اپنى پياس بھول گئي وہ پانى كى تلاش ميں اٹھ كھڑى ہوئي، پہلے كوہ صفا كے قريب گئي تو پانى كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا، سراب كى چمك نے اسے كوہ مروہ كى طرف كھينچا تو وہ اس كى طرف دوڑى ليكن وہاں بھى پانى نہ ملا، وہاں ويسى چمك صفاپر دكھائي دى تو پلٹ كر آئي، زندگى كى بقاء اور موت سے مقابلہ كے لئے اس نے سات چكر لگائے، آخر شيرخوار بچہ زندگى كى آخرى سانسيں لينے لگا كہ اچانك اس كے پائوں كے پاس انتہائي تعجب خيز طريقہ سے زمزم كا چشمہ ابلنے لگا، ماں اور بچے نے پانى پيا اور موت جو يقينى ہوگئي تھى اس سے بچ نكلے_

زمزم كا پانى گويا آب حيات تھا، ہر طرف سے پرندے اس چشمہ كى طرف آنے لگے، قافلوں نے پرندوں كى پروازديكھى تو اپنے رُخ كو اس طرف موڑديا اور ظاہراً ايك چھوٹے سے خاندان كى فداكارى كے صلے ميں ايك عظيم مركز وجود ميں آگيا_

آج خانہ خدا كے پاس اس خاتون اور اس كے فرزند اسماعيل (ع) كا مسكن ہے، ہر سال تقريباً ۲۰ / لاكھ افراد اطراف عالم سے آتے ہيں ان كى ذمہ دارى ہے كہ اس مسكن كو جسے مقام اسماعيل كہتے ہيں اپنے طواف ميں شامل كريں گويا اس خاتون اور اس كے بيٹے كے مدفن كو كعبہ كا جز ء سمجھيں _

اسماعيل (ع) قربان گاہ ميں

اسماعيل كا سن ۱۳ /سال كا تھا كہ حضرت ابراہيم نے ايك عجيب اور حيرت انگيز خواب ديكھا ،يہ خواب اس عظيم الشان پيغمبر كے لئے ايك اور آزمائش كو بيان كرتا تھا _ انھوں نے خواب ديكھا كہ انھيں خدا كى طرف

۱۳۴

سے يہ حكم ديا گيا ہے كہ وہ اپنے اكلوتے بيٹے كو اپنے ہاتھ سے قربانى كريں اور اسے ذبح كرديں _

ابراہيم(ع) وحشت زدہ خواب سے بيدار ہوئے ،وہ جانتے تھے كہ پيغمبروں كے خواب حقيقت اور شيطانى وسو سوں سے دور ہوتے ہيں ليكن اس كے باوجود دو راتوں ميں بھى يہى خواب ديكھا جو اس امر كے لازم ہونے اور اسے جلد انجام دينے كے لئے تاكيد تھى _

كہتے ہيں كہ پہلى مرتبہ '' شب ترويہ'' (آٹھ ذى الحجہ كى رات ) يہ خواب ديكھا اور '' عرفہ '' اور '' عيد قربان '' (نويں اور دسويں ذى الحجہ ) كى راتوں ميں خواب كا تكرار ہوا _ لہذا اب ان كے لئے ذراسا بھى شك باقى نہ رہا كہ يہ خدا كا قطعى فرمان ہے _

ابراہيم(ع) جو بار ہا امتحان خداوندى كى گرم بھٹى سے سرفراز ہو كر باہر آچكے تھے،اس دفعہ بھى چاہئے كہ بحر عشق ميں كود پڑيں اور خداوند عالم كے فرمان كے سامنے سرجھكاديں ،اور اس فرزند كو جس كے انتظار ميں عمر كا ايك حصہ گذارديا تھا اور اب وہ ايك آبرومند نوجوان تھا، اسے اپنے ہاتھ سے ذبح كرديں _

ليكن ضرورى ہے كہ ہر چيز سے پہلے اپنے فرزند كو اس كام كے لئے آمادہ كريں ، لہذا اس كى طرف رخ كركے فرمايا :'' ميرے بيٹے : ميں نے خواب ديكھا ہے كہ ميں تجھے ذبح كررہاہوں ، اب تم ديكھو: تمہارى اس بارے ميں كيا رائے ہے ''؟(۱)

بيٹا بھى تو ايثار پيشہ باپ كے وجود كا ايك حصہ تھا اور جس نے صبرو استقامت اور ايمان كا درس اپنى چھوٹى سى عمر ميں اسى كے مكتب ميں پڑھا تھا ، اس نے خوشى خوشى خلوص دل كے ساتھ اس فرمان الہى كا استقبال كيا اور صراحت اور قاطيعت كے ساتھ كہا:

''اباجان : جو حكم آپ كو ديا گيا ہے اس كى تعميل كيجئے''_(۲)

ميرى طرف سے بالكل مطمئن رہئے_ '' انشاء اللہ آپ مجھے صابرين ميں سے پائيں گے ''_(۳)

____________________

(۱)سورہ صافات آيت۱۰۲

(۲) سورہ صافات آيت ۱۰۲

(۳)سورہ صافات آيت۱۰۲

۱۳۵

باپ اور بيٹے كى يہ باتيں كس قدر معنى خيز ہيں اور كتنى باريكياں ان ميں چھپى ہوئي ہيں _

ايك طرف تو باپ، ۱۳/ سالہ بيٹے كے سامنے اسے ذبح كرنے كى بات بڑى صراحت كے ساتھ كرتا ہے اور اس سے اس كى رائے معلوم كرتا ہے اس كے لئے مستقل شخصيت اور ارادے كى آزادى كا قائل ہوتا ہے ، وہ ہرگز اپنے بيٹے كو دھوكے ميں ركھنا نہيں چاہتا اور اسے اندھيرے ميں ركھتے ہوئے امتحان كے اس عظيم ميدان ميں آنے كى دعوت نہيں ديتا وہ چاہتا ہے كہ بيٹا بھى اس عظيم امتحان ميں پورے دل كے ساتھ شركت كرے اور باپ كى طرح تسليم ورضا كا مزہ چكھے _

دوسرى طرف بيٹا بھى يہ چاہتا ہے كہ باپ اپنے عزم وارادہ ميں پكااور مضبوط رہے، يہ نہيں كہتا كہ مجھے ذبح كريں بلكہ كہتا ہے : جوآپ كو حكم ديا گيا ہے اسے بجالائيں ميں اس كے امرو فرمان كے سامنے سر تسليم خم ہوں ،خصوصاً باپ كو '' يا ابت '' (ابا جان :) كہہ كر مخاطب كرتا ہے ،تاكہ اس بات كى نشاندہى كردے كہ اس مسئلے پر جذبات فرزندو پدر كاسوئي كى نوك كے برابر بھى اثر نہيں ، كيونكہ فرمان خدا ہر چيز پر حاكم ہے _

اور تيسرى طرف سے پروردگار كى بارگاہ ميں مراتب اداب كى اعلى ترين طريقے سے پاسدارى كرتا ہے ،ہرگز اپنے ايمان اور عزم وارادہ كى قوت پر بھروسہ نہيں كرتا ، بلكہ خدا كى مشيت اور اس كے ارادہ پر تكيہ كرتاہے اور اس عبادت كے ساتھ اس سے پامردى اور استقامت كى توفيق چاہتاہے _

اس طرح سے باپ بھى اور بيٹا بھى اس عظيم آزمائش كے پہلے مرحلے كو مكمل كاميابى كے ساتھ گزارديتے ہيں _

شيطانى وسوسہ

شيطان نے بہت ہاتھ پائوں مارے كہ كوئي ايسا كام كرے كہ حضرت ابراہيم(ع) اس ميدان سے كامياب ہوكر نہ نكليں ، كبھى وہ (اسمعيل كي) ماں ہاجرہ كے پاس آيا اور ان سے كہا:كيا تمھيں معلوم ہے كہ ابراہيم نے كيا ارادہ كيا ہے ؟ وہ چاہتاہے كہ آج اپنے بيٹے كو ذبح كردے_

ہاجرہ نے كہا: دورہوجا ، محال اور نہ ہونے والى بات نہ كر، كيونكہ وہ تو بہت مہربان ہے اپنے بيٹے كو

۱۳۶

كيسے ذبح كرسكتا ہے ؟ اصولاً كيا دنيا ميں كوئي ايسا انسان پيدا ہوسكتا ہے جو اپنے بيٹے كو اپنے ہاتھ سے ذبح كردے ؟

شيطان نے اپنے وسوسہ كو جارى ركھتے ہوئے كہا: اس كا دعوى ہے كہ خدانے اسے حكم ديا ہے _ ہاجرہ نے كہا : اگر خدا نے اسے حكم ديا ہے تو پھر اسے اطاعت كرنا چاہيے، اور سوائے رضاو تسليم كے كوئي دوسرى راہ نہيں ہے _

پھر شيطان ان كے بيٹے اسماعيل(ع) كے پاس آيا،اور انھيں ورغلانے لگا ،ان سے بھى اسے كچھ حاصل نہ ہوسكا، كيونكہ اس نے اسماعيل (ع) كو تسليم ورضا كا پيكر پايا _

آخرميں حضرت ابراہيم (ع) كے پاس آيا اور ان سے كہا: ابراہيم(ع) : جو خواب تم نے ديكھا ہے وہ شيطانى خواب ہے، تم شيطان كى اطاعت نہ كرو _

ابراہيم (ع) نے نور ايمان اور نبوت كے پر تو ميں اسے پہچان ليا : چلاكر كہا: ''دورہوجااے دشمن خدا _''

ايك حديث ميں منقول ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) پہلے'' مشعرالحرام'' ميں آئے تاكہ بيٹے كى قربانى ديں ، تو شيطان ان كے پيچھے دوڑا _ وہ'' جمرہ اولى '' كے پاس آئے شيطان كو ديكھا ، اس كو سات پتھر مارے، اس كے بعد وہاں سے جمرہ دوم پر ائے وہاں شيطان كو ديكھا تو دوبارہ سات پتھراسے مارے يہاں تك كہ '' جمرہ عقبہ '' ميں آئے تو سات اور پتھراسے مارے _(اور اسے ہميشہ ہميشہ كے لئے اپنے سے مايوس كرديا)_

ميرى والدہ كو سلام كہنا

اس دوران كيا كيا حالات پيش آئے، قرآن نے انھيں تشريح كے ساتھ بيان نہيں كيا اور صرف اس عجيب ماجرے كے نہايت حساس پہلو ذكركئے ہيں _

بعض نے لكھا ہے كہ فدا كار بيٹے نے اس بنا پر كہ باپ كى اس ماموريت كى انجام دہى ميں مدد كرے اور ماں كے رنج واندوہ ميں كمى كرے جس وقت وہ اسے سرزمين '' منى ''كے خشك اور جلاڈالنے والے گرم

۱۳۷

پہاڑوں كے درميان ، قربان گاہ ميں لائے توباپ سے كہا: اباجان :رسى كو مضبوطى كے ساتھ باندھ ديجئے، تاكہ ميں فرمان خداوندى كے اجراء كے وقت ہاتھ پائوں نہ ہلا سكوں ،مجھے ڈرہے كہ كہيں اس سے ميرے اجر ميں كمى واقع نہ ہوجائے _

اباجان :چھرى تيزكر ليجيے اور تيزى كے ساتھ ميرے گلے پر چلايئےاكہ اسے برداشت كرنا مجھ پر بھى (اور آپ پر بھى ) زيادہ آسان ہوجائے_

اباجان : ميرا كرتا پہلے ہى ميرے بدن سے اتار ليجئے تاكہ وہ خون آلودنہ ہو، كيونكہ مجھے خوف ہے كہ كہيں ميرى ماں اسے ديكھے تو دامن صبر اس كے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے_

پھر مزيد كہا: ميرا سلام ميرى ماں كو پہنچاديجئے گا اور اگر كوئي امر مانع نہ ہو تو ميرا كرتا اس كے لئے لے جايئےا جو اسكى تسلى خاطر اور تسكين كا باعث بنے گا كيونكہ وہ اس سے بيٹے كى خوشبوسونگھے گى اور جس وقت دل بے قرار ہوگا تو اسے اپنى آغوش ميں لے لے گى اس طرح يہ اس كے درددل ميں تخفيف كا باعث ہوگا _

باپ بيٹے ايك دوسرے سے مل كررونے لگے

آخروہ حساس لمحے آن پہنچے جب فرمان الہى كى تعميل ہونا تھى حضرت ابراہيم(ع) نے جب بيٹے كے مقام تسليم كو ديكھا، اسے اپنى آغوش ميں لے ليا، اس كے ر خساروں كے بوسے لئے اوراس گھڑى دونوں رونے لگے _ ايسا گريہ تھا كہ ان كے جذبات اور لقائے خدا كےلئے ان كا شوق ظاہر ہوتا تھا _

قرآن مختصر اور معنى خيز عبارت ميں صرف اتنى سى بات كہتا ہے : ''جب دونوں آمادہ وتيار ہوگئے اور (باپ ) ابراہيم (ع) نے بيٹے كو ماتھے كے بل لٹايا''(۱)

قرآن يہاں پھر اختصار كے ساتھ گزرگيا ہے اور سننے والے كو اجازت ديتا ہے كہ وہ اپنے احساسات كى موجوں كى ساتھ قصے كو سمجھے _

____________________

(۱) سورہ صافات آيت ۱۰۳

۱۳۸

بعض نے كہا ہے كہ '' تلہ للجبين ''_سے مراد يہ تھى كہ پيشانى خود اس كى فرمائش پر زمين پر ركھى كہ مبادان كى نگاہ بيٹے كے چہرے پر پڑے اور پدرى جذبات جوش ميں آجائيں اور فرمان خدا كے اجراء ميں مانع ہوجائيں _

بہرحال حضرت ابراہيم نے بيٹے كے چہرے كو خاك پر ركھا اور چھرى كو حركت دى اور تيزى اور طاقت كے ساتھ اسے بيٹے كے گلے پر پھير ديا جب كہ ان كى روح ہيجان ميں تھى اور صرف عشق خداہى انھيں اپنى راہ ميں كسى شك كے بغير آگے بڑھا رہاتھا _

ليكن تيزدھار چھرى نے بيٹے كے لطيف ونازك گلے پر معمولى سا بھى اثر نہ كيا _

حضرت ابراہيم(ع) حيرت ميں ڈوب گئے ،دوبارہ چھرى كو چلايا ، ليكن پھر بھى وہ كار گر ثابت نہ ہوئي ، ہاں : خليل تو كہتے ہيں كہ ''كاٹ'' ليكن خدا وند جليل يہ حكم دے رہا ہے كہ ''نہ كاٹ '' اور چھرى تو صرف اسى كى فرمانبردارہے _

يہ وہ منزل ہے كہ جہاں قرآن ايك مختصر اور معنى خيز جملے كے ساتھ انتظار كو ختم كرتے ہوئے كہتا ہے:'' اس وقت ہم نے ندادى (اور پكار كر كہا ) كہ اے ابراہيم : خواب ميں جو حكم تمھيں ديا گيا تھا وہ تم نے پورا كرديا ،ہم نيكو كاروں كو اسى طرح جزا ديا كرتے ہيں _ ''(۱)

ہم ہى انھيں امتحان ميں كاميابى كى توفيق ديتے ہيں اور ہم ايسا بھى نہيں ہونے ديں گے كہ ان كا فرزند دل بندان كے ہاتھ ہى سے چلاجائے ہاں : جو شخص سرتاپا ہمارے حكم كے سامنے سر تسليم خم كئے ہوئے ہے اوراس نے نيكى كو اعلى حد تك پہنچا ديا ہے ، اس كى اس كے سوااور كوئي جزا نہيں ہوگى _

اس كے بعد مزيد كہتا ہے :'' بے شك يہ اہم اور آشكار امتحان ہے _''(۲)

بيٹے كو اپنے ہاتھ سے ذبح كرنا ، وہ بھى نيك اور لائق بيٹا ،اس باپ كے لئے جس نے ايك عمر ايسے

____________________

(۱)سورہ صافات آيات ۱۰۴

(۲) سورہ صافات آيات ۱۰۶

۱۳۹

فرزند كے انتظار ميں گذارى ہو، آسان كام نہيں ہے _ ايسے فرزندكى ياد كس طرح دل سے نكال سكتا تھا ؟اس سے بھى بالا تر يہ كہ وہ انتہائي تسليم ورضا كے ساتھ ماتھے پرشكن لائے بغير ايسے فرمان كى تعميل كے لئے آگے بڑھے اور اس كے تمام مقدمات كو آخرى مرحلے تك انجام دے ، اس طور پر كہ روحانى اور عملى آمادگى كے لحاظ سے كوئي كسرباقى نہ چھوڑے _

اس سے بھى بڑھ كر عجيب، اس فرمان كے آگے اس نوجوان كى اطاعت شعارى كى انتہا ،وہ خوشى خوشى ، اطمينان قلب كے ساتھ پروردگار كے لطف سے ، اس كے ارادے كے سامنے ، سرتسليم خم كرتے ہوئے ، ذبح كے استقبال كےلئے آگے بڑھا _

جبرئيل (ع) كى فرياد تكبير

جس وقت يہ كام انجام پاچكا تو جبرئيل نے (تعجب كرتے ہوئے )پكاركر كہا '' اللّہ اكبر'''' اللّہ اكبر'' ابراہيم(ع) كے فرزندنے كہا : ''لااله الااللّه و اللّه اكبر ''_اور عظيم فداكار باپ نے بھى كہا '' اللّہ اكبر واللّہ الحمد '' _

اور يہ ان تكبيروں كے مشابہ ہے جو ہم عيد قربان كے دن پڑھتے ہيں _

ہم جانتے ہيں كہ اسلامى روايات ميں عيد الاضحى كے بارے ميں جو احكام آئے ہيں ان ميں كچھ مخصوص تكبيريں ہيں جو تمام مسلمان پڑھتے ہيں چاہے وہ مراسم حج ميں شريك ہوں اوريا منى ميں موجود ہوں اور چاہے دوسرے مقامات پر ہوں _ فرق اتنا ہے كہ جو منى ميں ہيں وہ ان نمازوں كے بعد پڑھتے ہيں جن سے پہلى عيد كے دن كى نماز ظہر ہے اور جو منى ميں نہيں ہوتے وہ ان نمازوں كے بعد تكرار كرتے ہيں اور ان تكبيرات كى صورت اس طرح ہے :

''اللّه اكبر، اللّه اكبر، لااله الاللّه ، اللّه اكبر ، اللّه اكبر، وللّه الحمد، اللّه اكبر على ماهدانا ''_

جس وقت ہم اس حكم كا اس حديث كے ساتھ موازنہ كركے ديكھتے ہيں ، جسے ہم پہلے نقل كرچكے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416