ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب14%

 ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 416

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 416 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 215431 / ڈاؤنلوڈ: 4971
سائز سائز سائز
 ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کے لئے ہے''

جب جھجاہ اور انصار کے جوانوں کی داستان کو شاعر حسان بن ثابت انصاری نے سنا ،توغصہ میں آکر مھاجرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کنایہ اور مذاق اڑانے کے انداز میں اس (مضمون کا)شعر کہا:

''بیہودہ لوگ عزت وشرافت کے مقام پر پہنچے اور برتری پائی اور فریعہ (حسان کی ماں )کابیٹا تنہا وبیکس رہ گیا''۔ ١

صفوان بن معطل نے جب یہ شعر سنا ،تو مہاجرین میں سے ایک شخص کے پاس جاکر کہا:

''خداکی قسم !حسان کے شعر میں میرے اور تمھارے علاوہ کسی کی طرف اشارہ نہیں تھا،وہ ہمارا دل دکھانا چاہتاتھا۔آؤ!تاکہ اسے تلوار سے سبق دیں ۔اسے مہاجر نے اس سلسلے میں ہر قسم کے اقدام سے پرہیز کیا۔نتیجہ کے طور پر صفوان ننگی تلوار لہراتے اور للکارتے ہوئے تنہا حسان کی طرف بڑھا اور اسے اس کی خاندان کے افراد کے درمیان حملہ کرکے زخمی کردیااور کہا:

''مجھ سے تلوار کا مزا چکھ ،کیونکہ میں شاعر نہیں ہوں کہ تیری ہجو اور بدگوئی کا شعر میں جواب دوں ''

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہاں پر بھی ان دونوں میں صلح وصفائی کرائی اور مسئلہ کو خیریت سے نمٹایا۔ ٢ اور اس طرح مہاجرین قریش اور یمانی انصار کے دوقبیلوں کے در میان فخرو غرور کی بنیادوں پر ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی پہلی لڑائی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حکمت عملی سے ختم ہوئی ۔

۸۱

تعصب کی دوسری علامت

خاندانی تعصب نے دوسری بار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد سر اٹھایا۔یہ ماجرا اس وقت پیش آیا جب قبیلہ اوس وخزرج کے انصار بنی سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنازہ کو تجہیز وتکفین کے بغیرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان میں چھوڑ کر خلافت کے انتخاب میں لگ گئے ۔ قبیلہ خزرج کے رئیس ،سعد بن عبادہ نے انصار سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حکومت خود تم لوگ اپنے ہاتھ میں لے لو''۔انصار نے ایک زبان ہوکر بلند آواز میں کہا:''ہم تمھاری تجویز سے اتفاق رکھتے ہیں ،صحیح کہتے ہو،ہم تمھارے نظریہ اور حکم کی مخالفت نہیں کریں گے''۔

جب یہ لوگ اس سلسلہ میں صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال میں مصروف تھے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے جمع ہونے کی خبر بعض مھاجرین تک پہنچ گئی تو وہ فوراً انصار کے اجتماع میں پہنچے اور تقریر کرتے ہوئے کہا:

''امراء اور حکام مہاجرین میں سے ہوں اور وزرا ء آپ انصار میں سے''۔

انصار میں سے ایک آدمی اٹھا اور کہا:

''اے انصار کی جماعت !تم لوگ خود زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو ،تاکہ لوگ تمھارے سائے میں اور تمھاری حمایت میں آجائیں اور کوئی تم لوگوں سے مخالفت کرنے کی جرأت نہ کرے ۔اور کسی کو یہ طاقت نہ ہو کہ تمھارے حکم کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کرے۔تم لوگ طاقت ،توانائی، لشکراور شأن وشوکت کے مالک ہو،اور طاقتور ،مجاہد ،باتجربہ اور محترم ہو۔لو گ تم سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں تا کہ دیکھ لیں کہ تم لوگ کیا کر تے ہو ۔تم لوگوں میں اختلاف پیدا نہ ہونا چاہئے،ورنہ تباہ ہوجائوگے اور حکومت تمھارے ہاتھوں سے چلی جائے گی ۔مہاجرین کی بات وہی ہے جو تم لوگوں نے سنی ۔اگر وہ لوگ ہمارے ساتھ اتفاق نہ کریں اور ہماری تجویز کو قبول نہ کریں گے تو ہم اپنے لوگوں میں سے ایک آدمی کو حاکم منتخب کریں گے اور وہ بھی اپنوں میں سے ایک حاکم کا انتخاب کریں ۔''

۸۲

اس مہاجر نے یہ تقریر سن کر کہا :

''ایک میان میں ہرگز دو تلواریں نہیں سماسکتی ہیں اور ایک شہر میں دو حاکم امن سے نہیں رہ سکتے ۔اس کے علاوہ خدا کی قسم !عرب آپ لوگوں کی ہرگز اطاعت نہیں کریں گے ،چونکہ ان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا ۔''

انصاری نے اپنے ساتھیوں کی طرف رخ کرکے کہا :

''اے انصار کی جماعت !اپنے ہاتھ محکم رکھو اور مہاجرین کے ہاتھ پر ہر گز بیعت نہ کرو اور اس شخص کی باتوں پر کان نہ دھرو ،کیوں کہ اس طرح حکومت اور فرماں روائی میں تمھارا حق ضائع ہو جائے گا ۔اگر انھوں نے تم لوگوں کی تجویز قبول نہ کی تو انھیں اپنے شہر و دیار سے نکال باہر کرو اور زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو کہ خداکی قسم تم لوگ حکومت اورفرماں روائی کے لئے ان سے لائق و شائستہ ہو''

اس کے بعد مہاجرین کی طرف رخ کرکے کہا :

''خدا کی قسم اگر چاہو تو ہم جنگ کو از سر نوشروع کرنے پر آمادہ ہیں ''

اس مہاجر نے جب انصار کی یہ باتیں سنیں تو جواب میں کہا:

''اس صورت میں خدا تجھے قتل کر دے گا!...''

اور انصاری نے فورا جواب میں کہا :'' خدا تجھے قتل کر دے گا!''

اس تلخ گفتگو کے بعد اس مرد مہاجر نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ ابو بکر کی طرف بڑھا دیا ٣ اس کے بعد حضار بھی اس کی بیعت کے لئے آگے بڑھے ۔(۱)

اس طرح حکومت و ریاست کو ہاتھ میں لینے کی انصار کی کوشش ناکام رہی۔ اس واقعہ کے نتیجہ میں یہ دو قبیلے نزاری اور یمانی ایک دوسرے کے خلاف ہجو و بدگوئی پر اتر آئے ۔قریش میں سے ابن ابی عزہ نے اس بارے میں انصار سے مخاطب ہو کر کہا:

''غلط طریقہ سے خلافت کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے والوں سے کہہ دو !کہ کسی مخلوق سے آج تک ایسی غلطی سرزد نہیں ہوئی ان سے کہہ دو ،کہ خلافت قریش کا حق ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا کی قسم !کہ اس میں تمھارے لئے کوئی بنیاد و اساس موجود نہیں ہے ''

____________________

۱)کیا خلیفہ کے انتخاب میں اتفاق آرا ء اور جمہور کی بیعت اسی کو کہتے ہیں (مترجم)

۸۳

جب یہ بات گروہ انصار تک پہنچی تو انھوں نے اپنے شاعر نعمان بن عجلان سے اس کے جواب میں شعر کہنے کو کہا ،اور اس نے حسب ذیل ( مضمون کے ) شعرکہے:

''قریش سے کہہ دو کہ تمھارے وطن ،مکہ کو فتح کرنے والے ہم تھے ،ہم جنگ حنین کے سورما اور جنگ بدر کے شہسوار ہیں تم نے کہا ہے کہ سعد بن عبادہ کا خلیفہ بننا حرام ہے لیکن (کہا) ابوبکر جس کا نام عتیق ابن عثمان کا خلیفہ بننا جائز اور حلال ہے !!''

گمراہ اور نادان قریش ایک جگہ جمع ہو کر داد سخن دیتے تھے اور برابر کہتے تھے ۔جب یہ خبر حضرت علی علیہ السلام کو پہنچی تو وہ غصہ کی حالت میں مسجد میں پہنچے اور ایک تقریر کے ضمن میں فرمایا:

''قریش کو یہ جاننا چاہئے کہ انصار کو چاہنا ایمان کی علامت ہے اور اس سے دشمنی نفاق کی نشانی ہے ، انھوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا ہے(۱) اور اب تمھاری باری ہے ...''

اس کے بعد اپنے چچا زاد بھائی فضل کی طرف اشارہ کیا کہ شعر کی زبان میں انصار کی حمایت کرے ۔فضل نے حسب ذیل (مضمون کے ) چند شعر کہے:

''انصار تیز تلوار کے مانند ہیں اور جو بھی ان کی تلوار کے نیچے قرار پائے گا وہ ہلاک ہو جائے گا''

اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ پڑھا اور اس کے ضمن میں فرمایا:

''خدا کی قسم انصار جس طرف ہوں میں ان کے ساتھ ہوں ،کیوں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے : ''جہاں کہیں انصار ہوں میں ان کے ساتھ ہوں ''حضار نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا آپ پر رحمت نازل کرے ،اے ابو الحسن !آپ نے صحیح فرمایا''

____________________

۱)۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا مقصود یہ ہے کہ انصارنے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت اور دین اسلام کی مدد کی ۔

۸۴

اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے از سر نو بھڑکنے والے فتنے کے شعلوں کو بجھا دیا اور اپنے چچا زاد بھائی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح حکمت عملی اور عقلمندی سے حالات کو پر سکون کیا ۔٤

یہ پہلا قدم تھا جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ کا اتحاد متفرق ہو کر دو حصوں میں بٹ گیا ۔ان میں سے ایک حصہ مضری خاندان تھا ،جو بنی عباسیوں کے خاتمہ تک خلافت و سلطنت پر قابض رہا اور دوسرا حصہ خاندان یمانی تھا جو ہمیشہ کے لئے خلافت واقتدار سے محروم رکھا گیا۔ان دونوں خاندانوں

کے ساتھ بعض دیگر افراد نے بھی عہد و پیمان باندھ کر اپنے اصلی خاندان اور نسب کو فراموش کرکے خود کو ان ہی خاندانوں میں ضم کر دیا تھا ۔اس کے علاوہ ان خاندانوں میں آزاد ہونے والے غلام بھی مربوطہ خاندان کے غم و شادی میں شریک ہو کر ان کی ایسی طرفداری اور دفاع کرتے تھے جیسے خود ان کی اولاد ہوں ۔دوسری طرف مربوطہ قبیلہ بھی ان کے ساتھ اپنے فرزند وں جیسا سلوک کرتا تھا ۔

عربی ادبیات میں تعصب کا ظہور

مذکورہ دو قبیلوں (مضر و یمانی) میں خود ستائی ،غرور تکبر اور ایک دوسرے کو برا اور کمینہ ثابت کرنے کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوا ۔رزمیہ ،خودستائی اور ہجو و بد گوئی نے عربی ادبیات کی نثر و نظم پر عجیب اثر ڈالا ۔اس سلسلے میں قبیلہ کے اصل نامور شعراء ،جیسے کمیت و دعبل اور اس سے منسوب شعرا ء جیسے ابونواس اور حسن ہانی قابل ذکر ہیں ۔

ایام جاہلیت اور اسلام کے زمانہ میں تمام جزیرہ نمائے عرب میں ان دو قبیلوں کے درمیان خاندان کے سورمائوں اور ان کے نسبتی و قرابتی طرفداروں کی بہادری کو اجاگر کرکے اس پر فخر و مباہات کرنے اور ان کی عظمت اور کارناموں کے گیت گانے کا دور دورہ تھا۔

مسعودی اپنی کتاب '' التنبیہ و الاشراف '' میں لکھتا ہے :(۱)

____________________

۱)۔ملاحظہ ہو کتاب '' التنبیہ و الاشراف '' تالیف مسعودی طبع ١٣٥٧ ھ مصر ص٩٤و٩٥

۸۵

'' معد بن عدنان کا خاندان اپنے آپ کو پارسیوں (ایرانیوں ) کے ساتھ ہم نسل و نسب جاننے کے سبب یمنیوں کے خاندان پر فخر و مباہات کرتا تھا ،جریر بن عطیہ نے اس فخر کو شعر کی صوررت میں حسب ذیل (مضمون میں ) بیان کیا ہے :

''ہمارا جد اعلیٰ ابراہیم خلیل ہے تم ہمارے اس فخر سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ہو اور ہماری یہ قرابت انتہائی فخر و مباہات کا سبب ہے ہم شیر دل اسحٰق کی اولاد ہیں جو میدان کارزارمیں زرہ کے بجائے لباس مرگ زیب تن کرتے تھے اور خود ستائی کے وقت سپہید ،کسریٰ ،ہرمزان اور قیصر پر فخر کرتے ہیں ،ہمارے اور اسحٰق کی اولاد کے اجداد ایک ہیں اور ہم دونوں کا شجرۂ نسب مقدس پیغمبر اور پاک رہبر تک پہنچتا ہے ۔ ہماری اور پارسیوں (ایرانیوں ) کی نسل ایسے اجداد تک پہنچتی ہے کہ ہمیں اس بات پر کسی قسم کی تشویش نہیں ہے کہ دوسرے قبیلے ہم سے جدا ہوجائیں ''

یا اپنے قبیلے کے فخر و مباہات کے بارے میں کہے گئے اشعار میں اسحاق بن سوید عدوی قرشی یوں کہتا ہے :

''اگر قبیلہ قحطان اپنی شرافت و نجابت پر کبھی ناز کرے تو ہمارا فخر و مباہات ان سے بہت بلند ہے ۔کیوں کہ ابتداء میں ہم اپنے چچا زاد بھائیوں ،اسحاق کی اولاد کی حکومت کے دوران ان پر فرمان روائی کرتے تھے اور قحطان ہمیشہ ہمارے خدمت گار اور نوکر تھے ہم اور ایرانی ایک ہی نسل اور ایک باپ سے ہیں اور ایسا افتخار ہوتے ہوئے ہمیں کسی قسم کا خوف و تشویش نہیں ہے کہ کوئی ہم سے جدا ہو جائے ''

یا قبیلہ نزار کا ایک شخص یوں کہتا ہے :

'' اسحاق و اسماعیل کی اولاد نے بہت سے قابل افتخار اور عظیم کا رنامے انجام دیئے ہیں ۔ ایرانی اور نزاری نسل کے شہسوار ایک ہی باپ کی عظیم اصیل اور پاک اولاد ہیں '' ٥

۸۶

مسعودی اپنی کتاب کے صفحہ ٧٦ پر لکھتا ہے :

''یمنی ضحاک کے وجود پر فخر کرتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قبیلہ ازدسے تھا ۔ اسلام میں بھی شعراء نے ضحاک کا نام عزت و احترام سے لیا ہے ، اور ابو نواس حسن ابن ہانی و بنی حکم بن سعد قحطانی کا آزاد کردہ تھا اپنے ایک قصیدہ میں ضحاک کے وجود پر فخر کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نزار ی قبائل کے تمام افراد کو دشنام اور برا بھلا کہتا ہے ۔ ''

یہ وہی قصیدہ ہے جس کی بنا پر نزاری عباسی خلیفہ ہارون رشید نے اس بے احترامی کے جرم میں ابو نواس کو طولانی مدت کے لئے زندان میں ڈلوا دیا تھا حتٰی کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں اس پر حد بھی جاری کی تھی۔

بہر حال ،ابو نواس نے اس قصیدہ میں یمنی اور قحطانی سے منسوب ہونے پر فخر کرتے ہوئے ضحاک کو احترام و عظمت کے ساتھ یاد کیا ہے اور اس سلسلے میں کہتا ہے :

'' ناحط کے محلوں کے مالک ہم ہیں اورصنعا کا خوبصورت شہر ہمارا ہے جس کے محرابوں میں مشک کی مہک پھیلتی ہے ۔ضحاک ہم میں سے ہے جس کی پرستش جنات اور پرندے کرتے تھے اٹھو !اور نزار کی اولاد کو دشنام دو اور ان کی ہجو کرو ۔ان کی کھال اتار دو اور ان کے عیبوں کو طشت از بام کردو''

نزاریون کی ایک جماعت ابونواس کے اس قصیدہ کا جواب دینے پر آمادہ ہوتی ہے ۔ان میں سے قبیلہ نزار کے بنی ربیعہ کا ایک آدمی نزار کے مناقب اور اعزازات بیان کرتے ہوئے یمن و یمنیوں کو برا بھلا کہہ کر ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے عیبوں سے پردہ اٹھا تے ہوئے کہتا ہے :

'' معدو نزار کی ستائش کرو اور ان کی عظمت پر فخر کرو ۔یمنیوں کی حرمت کو تار تار کردو اور قحطان کی اولاد سے کسی صورت میں تشویش نہ کرو..''

۸۷

خاندنی تعصبات کی نبا پر ہونے والی خونیں جنگیں

خاندانی تعصبات ،شعر وشاعری ،فخرو مباہات بیان کرنے ،بہادر یاں جتلانے اور خود ستائی وغیرہ تک ہی محدود نہیں رہے ہیں ،بلکہ تاریخ کے سیاہ صفحات اس امر کے گواہ ہیں کہ بعض اوقات خونیں جنگیں بھی اس بنا پر واقع ہوئی ہیں ۔

امویوں کی خلافت کے آخری دنوں میں یہ تعصبات انتہا کو پہنچے اور سر انجام اس حکومت کی نابودی کا سبب بنے ۔

مسعودی اپنی کتاب ''التنبیہ والاشراف ''میں لکھتا ہے :٦

''جب خلافت ولید بن یزید(۱) کے ہاتھ میں آگئی ،اس نے خاندان نزار کو دربار خلافت میں بلا کر ان کی عزت و احترام کیا ۔انھیں بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کیا اور یمنیوں کو دربار خلافت سے نکال باہر کرکے ان کے سا تھ سرد مہری دکھائی اور ذلیل وخوار کیا ۔خلیفہ کی سرد مہری کاشکار ہونے والے یمنی بزرگ شخصیتوں میں اس خاندان کا سردار ،خالد قسری(۲) بھی تھا،جو ولید کے خلیفہ بننے سے پہلے عراق کا گورنر تھا ۔ولید نے خالد کو عزل کرکے اس کی جگہ پر عراق کے ڈپٹی کمشنر ، یوسف بن عمر ثقفی (ج) کو گورنر کے عہدہ پر مقررکیا ۔یوسف،خالد کو گرفتار کرکے کوفہ

____________________

١لف)۔ولید،عبد الملک کا نواسہ تھا،اس کی ماں ام محمد تھی ،وہ مشہور و معروف شخص حجاج کا بھتیجا تھا ۔ولید، ہشام کی وفات کے روز بدھ کے دن ٦ربیع الاول ١٢٥ھ کو تخت خلافت پر بیٹھا ۔اور جمعرات ١٢٦ھ کو جب جمادی الثانی کے دو دن باقی بچے تھے ،قتل ہوا(جمہرہ انساب العرب ص٨٤ ومروج الذہب )

۲)۔خالد قسری ،عراق، فارس،اہوزاور کرمانشاہ کاگورنر تھا(التنبیہ والاشراف ،مسعودی ص٢٨٠)

ج)۔یوسف ابن عمر ،ہشام کے زمانے میں یمن کا حکمراں تھا،اس کے بعد عراق کاحاکم بنا،اسی لئے ولید نے اسے برقرار رکھا ۔یوسف ولید کے بیٹوں کے ساتھ قتل کیا گیا۔(وفیات الاعیان ابن خلکان ٦٨٦۔١١٠)

۸۸

لے گیا اور وہاں پر اسے جسمانی اذیتیں پہنچاکر قتل کرڈالا۔

ولید نے اس واقعہ اور خالد کی گرفتاری کے بعد ایک قصیدہ کہا اور اس میں یمنیوں کی سرزنش کی اور انھیں دشنام دیانیز نزاریوں کی تعریف و تمجید کی اور خالد قسری کی نزاریوں کے ہاتھوں گرفتار ی کو بھی اپنے لئے ایک افتخار شمار کرتے ہوئے کہا:

'ہم نے سلطنت اور حکومت کو نزاریوں کی پشت پناہی سے مظبوط اور محکم بنادیا اور اس(۱) اگر یمنی باعزت اور قابل قدر خاندان سے ہوتے تو خالد کے نیک کام اتنی جلدی تمام نہ طرح اپنے دشمنوں کی تنبیہ کی یہ خالد ہے جو ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے اگر یمنی مرد ہوتے تو اس کے بچاؤ کے لئے اٹھتے ہم نے ان کے سرداروں اور رئیسوں کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دیا۔

ہوتے وہ اپنے رئیس کو اس طرح قیدی اور عریاں حالت میں نہ چھوڑتے کہ وہ طوق وزنجیر میں بندھا ہوا ہمارے ساتھ چلتا۔ یمنی ہمیشہ ہمارے غلام تھے اور ہم مدام انھیں ذلیل وخوار کرتے تھے''۔ ٧

مسعودی لکھتاہے :

''ولید نے بہت برے ،ناشائستہ اور بیہودہ کام انجام دئے،جس کی وجہ سے لوگ اس سے متنفر اور بیزار ہوگئے ۔یہی چیز باعث بنی کہ اس کے چچا زاد بھائی یزید بن ولید نے ان حالات سے استفادہ کرکے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا اور اس کاتختہ الٹ دیا''۔

____________________

۱)۔ اس کے بعد شعر کے آخرتک طبری کی روایت کے مطابق ہے ،اس کے علاوہ طبری کادعویٰ ہے کہ ان اشعار کو ایک یمنی شاعر نے ولید کی زبانی کہاہے تا کہ یمینیوں کی شورش کا سبب بنیں ۔ابن اثیر نے بھی طبری کے اس نظریہ کی تائید کی ہے۔(طبری ١٧٨١٢ وابن کثیر ١٠٤٥)

۸۹

یزید کی اپنے چچیرے بھائی ولید کے خلاف شورش اور تختہ الٹنے کی سازش میں یمنیوں نے یزید کی بھر پور حمایت اور مدد کی اور خلیفہ کے طور پر اس کی بیعت کی۔(۱)

اس بغاوت میں نہ صرف خود ولید قتل ہوا بلکہ اس کی ولی عہدی کے نامزد دو بیٹے حکم وعثمان بھی مارے گئے ۔ اس کے علاوہ اس کا ایک زبردست اور باوفا طرفدار یعنی یوسف بن عمر بھی دمشق میں قتل کیا گیا۔

اصبغ بن ذوالة الکلبی یمانی(۲) اس واقعہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے :

''خاندان نزار ،خاص کر بنی امیہ وبنی ہاشم کے سرداروں اور بزرگوں کو کون یہ خبر دے کہ ہم نے خالد قسری کے قصاص میں خلیفہ ولید کو قتل کردیا اور اس کے جانشین دو بیٹوں کو بھی بے مصرف غلاموں کی مانند کوڑیوں میں بیچ دیا''۔

خلیفہ ابن خلیفہ بجلی یمانی نے بھی اپنے قصیدہ میں یوں کہاہے:

''ہم نے خلیفہ ولید کو خالد کے قصاص میں دروازہ پر لٹکادیا اور اس کی ناک رگڑ کے رکھدی ، لیکن خدا کے حضور سجدہ کے طور پر نہیں !قبیلہ نزار اور معد کے لوگو!اپنی ذلالت، ناکامی اور پستی کا اعتراف کرو کہ ہم نے تمھارے امیرالمؤمنین کو خالد کے قصاص میں مار ڈالا''۔

مسعودی مروج الذہب میں لکھتاہے: ٨

''شاعر کمیت (ج) نے ایک قصیدہ کہاہے ، جس میں اس نے نزار کی اولاد :مضر ،

____________________

۱)۔یزید شب جمعہ ١٢٦ ھ کو اس وقت خلافت پر پہنچا ،جب جمادی الثانی کے سات دن باقی بچے تھے اور اول ذی الحجہ ١٢٦ ھ کو اس دنیا سے چلاگیا۔یزید کی خلافت کی مدت ٥ مہینے اور دودن تھی ۔(مروج الذہب ١٥٢٣)

۲)۔ اسبغ ان افراد میں سے تھا جس نے ان شورشوں میں خود حصہ لیاتھا۔(طبری ١٥٩٥٢۔١٩٠٢)

ج)۔ کمیت بن یزید اسدی ،خاندان مضر سے تعلق رکھتاتھا۔بنی امیہ کے زمانے میں زندگی بسر کرتاتھا اس نے عباسیوں کی

خلافت کو نہیں دیکھا ہے۔خاندانی تعصبات کی وجہ سے ایک لمحہ بھی اسے یمنیوں کی ہجو گوئی سے نجات نہیں ملی ہے۔صاحب اغانی ،مذکورہ قصیدہ کے بارے میں لکھتاہے :یہ ٣٠٠ ابیات پر مشتمل تھا اور اس میں اس نے یمنی قبیلہ کے کسی ایک خاندان کو بھی اپنی ہجو وبدگوئی سے معاف نہیں کیا ہے۔(اغانی ٢٤٢١٦و ٢٥٦)

۹۰

ربیعہ،ایاد اور انمار کی ستائش کی ہے اور ان کے مناقب ،خوبیوں اور افتخارات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ایسا ظاہر کیا ہے کہ یہ لوگ متعدد جہات سے قحطانیوں اور یمانیوں پر فضیلت رکھتے ہیں اس کے علاوہ اس نے یمنیوں پر رکیک حملے کرکے انھیں گالیاں دی ہیں ''۔

یہ قصیدہ اس امر کا باعث بنا کہ ان دونوں قبیلوں کی دشمنی کی داستانیں زبان زد ہوگئیں ۔اس قصیدہ کے درج ذیل بعض حصوں میں کمیت نے صراحتاً یا کنایتاًحبشہ کی داستان اور یمن پر ان کے تسلط کی طرف اشارہ کیاہے:

''چاند اور آسمان پر موجود ہروہ ستارہ ونورانی نقطہ جس کی طرف ہاتھ اشارہ کرتے ہیں ،ہمارا ہے۔خدا نے نزار کی نام گزاری کرکے انھیں مکہ میں رہائش پزیر کرنے کے دن سے ہی فخرو مباہات کو صرف ہماری قسمت قرار دیاہے۔قوی ہیکل بیگانے کبھی نزار کی بیٹیوں کو اپنے عقد میں نہیں لاسکے ہیں ،گدھے اور گھوڑی کی آمیزش کی طرح نزار کی بیٹیاں ہرگز سرخ وسیاہ فام مردوں سے ہمبستر نہیں ہوئی ہیں ''۔

مسعودی لکھتاہے:

دعبل ابن علی خزاعی(۱) نے ایک طولانی قصیدہ کے ذریعہ کمیت کوجواب دیاہے اور یمنیوں کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے خوب داد سخن د ی ہے،ان کے بادشاہوں اور امیروں کی نیکیاں گنتے ہوئے فخرومباہات کااظہار کیاہے۔اس کے علاوہ کھلم کھلا اور کنایہ کی صورت میں

____________________

۱)۔دعبل خزاعی اور اس کے تعصب کے بارے میں ملاحظہ ہو (اغانی ٦٨٢٠۔١٤٥)

۹۱

نزاریوں کا دل دکھاتے ہوئے کہتاہے :

''زندہ باد ہمارے قبیلوں کے سردار ،زندہ باد !ہمارے شہر۔اگر یہودی تم میں سے ہیں اور اگر تم عجمی ہونے کے سبب ہم پر فخر کرتے ہوتو یہ نہ بھولو کہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو بندر اور سور کی شکل میں مسخ کردیاہے اور ان مسخ شدگان کے آثار سرزمین ایلہ،خلیج اور اقیانوس احمر میں موجود ہیں ،کمیت نے جو کچھ اپنے اشعار میں کہاہے،ہم سے خون کاطالب نہیں تھا،لیکن چونکہ ہم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت کی ہے،اس لئے اس نے ہمارے خلاف ہجو وبدگوئی کی ہے۔خاندان نزار اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ،یعنی انصار پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے پر فخر ومباہات کرتے ہیں ''۔

شاعر کمیت کی بات یمنیوں اور نزاریوں کے درمیان بھر پور انداز میں پھیل گئی اور ہر قبیلہ دوسرے پر اپنے فخرو مباہات جتلاتے ہوئے اپنی بزرگی پر ناز کرتاتھا۔اس طرح لوگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے اور خاندانی تعصبات کی شدت اپنی انتہاء تک پہنچ گئی ۔حتیٰ شہرو دیہات بھی

اس سے محفوظ نہ رہے۔یہ سلسلہ امویوں کے آخری خلیفہ مروان کے زمانہ تک جاری رہا۔

مروان نے اپنے خاندان نزار کو اہمیت دی اور یمنیوں کو نکال باہر کیا اس طرح اس نے خود اپنی سلطنت کو متزلزل کردیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ یمنیوں نے عباسیوں کی دعوت پر لبیک

کہہ کر ان کی مدد کی بنی امیہ کی خلافت سرنگوں ہوگئی اور عباسی اقتدار پر قابض ہوگئے۔اسی خاندانی تعصبات کا نتیجہ تھا کہ معن بن زائدہ(۱) نے اپنے رشتہ داروں ربیعہ ونزارکی طرفداری میں یمن کے لوگوں کوخاک و خوں میں غلطاں کردیا اس طرح ربیعہ

____________________

۱)۔ معن بن زائدہ شیبانی کو امویوں اور عباسیوں کی طرف سے اقتدار ملا،اور خوارج نے آخر کار سگستان (سجستان)میں ١٥١ ھ یا ١٥٢ ھ یا ١٥٨ ھ میں اسے قتل کردیا۔(وفیات الاعیان ٣٣٢٤)

۹۲

ویمنیوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی کاسالہا سال قبل منعقد شدہ عہدو پیمان(۱) ٹوٹ گیا۔اور اسی خاندانی تعصبات کی بنا پر عقبہ بن سالم نے بحرین اور عمان میں معن بن زائدہ کے اقدامات کے شدید رد عمل کے طور پر خاندان عبد القیس اور ربیعہ کے دوسرے قبائل کاقتل عام کیا۔

جو کچھ بیان ہوا یا جوکچھ باقی رہا یہ سب خونین حوادث نزار اور قحطان کے دوقبیلوں کے در میان خاندانی تعصبات کا نتیجہ تھا۔اور سیف نے اسے اچھی طرح درک کیاتھا اور اپنے طور پر اظہار کرنے پر اتر آیاتھا۔

جن حوادث کا ہم نے ذکر کیاا ن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ سبب خونیں جنگیں ،ان بیانات ، شعر گوئی اور قصیدہ گوئی کا نتیجہ تھیں ،جن میں طعنہ زنی ،گالی گلوچ، بے بنیاد نسبتیں ، ایک قبیلہ کادوسرے کے خلاف برا بھلا کہنا اور اپنے فخرو مباہات پر ناز کرناتھااور ان تمام موارد کو ایک لفظ یعنی''خاندانی فخرو مباہات''میں خلاصہ کیا جاسکتاہے۔

حدیث سازی میں تعصب کااثر

اگر کوئی شعروادب کے دیوان کا مطالعہ کرے تو اسے اس قسم کے جذبات کا اظہار اور خاندانی تعصبات کے بے شمار نمونے نظر آئیں گے ۔

قبیلہ نزار و قحطان ایک دوسرے کے خلاف خود ستائی اور فخر و مباہات جتانے میں صرف حقیقی افتخارات یا واقعی ننگ و رسوائیوں کو بیان کرنے اور گننے تک ہی محدود نہیں رہے ،بلکہ اس تعصب نے دونوں قبیلوں کے متعصب لوگوں کو اس قدر اندھا بنا دیا تھا کہ ان میں سے بعض افراد اپنے قبیلہ کے حق

میں تاریخی افسانے گڑھنے پراتر آئے حتی انھوں نے احادیث اور اسلامی روایتیں جعل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔اور بعض افراد ان افسانوں کو جذباتی تقریروں اور اشعار کا روپ دے کر اپنے دشمن قبیلہ کو نیچا دکھاتے تھے ۔

ان خاندانی تعصبات اور فخر و مباہات کے افسانہ نویسوں ،داستان سازوں ،جھوٹ گڑھنے والوں اور ہوائی قلعے بنانے والوں میں سیف بن عمر تمیمی کی حد تک کوئی نہیں پہنچا ہے ۔ہم اگلی فصل میں اس کے جعل کردہ افسانوں اور احادیث اور ان کے اسلام پر اثرات کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱) ۔ سید رضی ،نہج البلاغہ میں ابن کلبی سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علی ں نے ربیعہ اور یمن کے درمیان ایک عہد نامہ مرقوم فرمایا،جس کاآغاز اس طرح کیاتھا:یہ وہ ضوابط ہیں جو یمن کے رہنے والے شہر نشین اورصحرا نشین اور ربیعہ کے رہنے والے شہر نشیں اور صحرا نشین ....(نہج البلاغہ ج٣ رسالہ ٧٤ ص١٤٨)

۹۳

سیف بن عمر ۔حدیث جعل کرنے والا سورما

لم یبلغ احد سیف بن عمر فی وضع الحدیث حدیث گڑھنے میں سیف بن عمر کے برابر کوئی نہیں تھا ۔

(مؤلف)

سیف کی کتابیں

سیف نے '' فتوح ''اور'' جمل ''نام کی دو کتابیں تألیف کی ہیں ۔یہ دونوں کتابیں خرافات ، اور افسانوں پر مشتمل ہیں ۔اس کے باوجود ان کتابوں کے مطالب تاریخ اسلام کی معتبر ترین کتابوں میں قطعی اور حقیقی اسناد کے طور پر نقل کئے گئے ہیں اور آج تک ان سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔

سیف نے ان دو کتابوں میں رزمیہ شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کی ہے ،جنھوں نے ایک زبان ہو کر عام طور پر قبائل مضر کے بارے میں اور خصوصا قبیلہ تمیم کے بارے میں اور ان سے بھی زیادہ عمرو کے خاندان جو خود سیف کا خاندان ہے کے فضائل و مناقب اور عظمتیں بیان کرنے میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دئے ہیں ۔

اس طرح سیف نے اپنے خاندان کی بر تری اور عظمت کو جتانے کے لئے اس خاندان کے اچھے خاصے افراد کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی بنا کر انھیں اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والوں کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ان سب کو خاندان تمیم سے شمار کیا ہے ۔

اس کے علاوہ قبیلۂ تمیم سے چند سپہ سالار جعل کئے ہیں جو سیف کی فرضی جنگوں کی قیادت کرتے ہیں ۔مزید بر آن کچھ ایسے راوی بھی جعل کئے ہیں جو خاندان تمیم کے فرضی سورمائوں اور دلاوروں کے افسانے اور بہادریاں بیان کرتے ہیں ۔

اس نے قبیلہ تمیم کے جعلی پہلوانوں اور جنگی دلاوروں کی فرضی بہادریوں اور افسانوی کارناموں کو '' فتوح'' اور'' جمل '' نامی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔یہ افسانے اور فرضی قصے ایسے مرتب کئے گئے ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کریں ۔

۹۴

سیف نے اپنی داستانوں میں ایسی جنگوں کا ذکر کیا ہے جو ہر گز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسے میدان کا ر زار کا نام لیا ہے کہ جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اس کے علاوہ ایسے شہروں قصبوں اور مقامات کا نام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کوئی وجود ہی نہیں تھا اور اس وقت بھی ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

قبیلہ تمیم کے افسانوی بہادروں کے جنگی کار نامے ،شجاعت و دلیری ،ہوشیاری تجربہ اور کامیابیاں ثابت کرنے کے لئے سیف نے دشمنوں کے مقتولوں کی دہشت انگیز تعداد دکھائی ہے ۔ خاص کر ہزاروں دشمن کے مارے جانے یا ایک ہی معرکہ میں صرف تین دن رات کے اندر دشمنوں کے خون کی ندیاں بہانے کی بات کرتاہے ،جب کہ اس زمانے میں اس جنگ کے پورے علاقہ میں اتنی بڑی تعداد تمام جانداروں کی موجود نہیں تھی ،انسانوں کی تو بات ہی نہیں جو اتنی تعداد میں مارے جاتے یا قیدی بنائے جاتے !سیف نے اپنے افسانوں اور خیالی خونیں جنگوں کے واقع ہونے کی تائید میں فرضی رزمی شاعر وں سے منسوب قصیدے اور اشعار بھی لکھے ہیں جن میں قبائل مضر ،خاص کر خاندان تمیم کے جنگی کارنامے ،فخر و مباہات اور عظمتیں بیان کی گئی ہیں اور دشمنوں کی کمزوری ،نااہلی اور زبوں حالی کو بیان کیا ہے ۔

ان سب کے علاوہ سیف بن عمر تمیمی نے خلفائے وقت کی طرف سے ان جعلی اور فرضی بہادروں کے نام حکم نامے اور خطوط جعل کئے ہیں اور ان حکم ناموں میں انھیں فرضی عہد ے اور ترقیاں عطا کی گئی ہیں ۔اس کے علاوہ ان فرضی سپہ سالاروں اور نام نہاد سرحدی علاقوں کے لوگوں کے درمیان جنگی معاہدے اور امان نامے بھی جعل کئے ہیں جب کہ حقیقت میں نہ اس قسم کی کوئی جنگ واقع ہوئی ہے اور نہ کوئی فتح یابی اور نہ ہی اس قسم کے افراد کا کوئی وجود ملتا ہے جن کے درمیان کسی قسم کا معاہدہ طے پاتا۔

مختصر یہ کہ اس غیر معمولی ذہن والے جھوٹے اور متعصب شخص سیف نے افسانہ سازی اور جھوٹی داستانوں کے علاوہ بے شمار اصحاب ،سورما،راوی ،رزمی شعراء اور ان کے قصیدے جعل کرکے قبیلۂ مضر اور تمیم خاص کراپنے خاندان بنی عمرو کے فضائل و مناقب کا ایک عظیم منشور تیار کیا ہے اور اسے تاریخ کے حوالے کیا ہے اور ایک ہزار سال گزر نے کے بعد اس وقت بھی ان واقعات کو حقیقی اور قطعی اسناد اور تاریخ اسلام کے خصوصی واقعات کے طور پرمانا جاتا ہے ۔

۹۵

مذکورہ مطالب اور سیف کے مقاصد کو بیان کرنے والے اشعار اور قصیدوں کے درج ذیل نمونے قابل غور ہیں :

سیف نے ایک فرضی شاعر قعقاع ابن عمر و تمیمی کی زبانی حسب ذیل (مضمون کے) اشعار بیان کئے ہیں ۔٩

''میں نے اپنے اباو اجداد سے سمندروں کی وسعت کے برابر نیک اعمال اور بزرگی وراثت میں پائی ہے ۔ان میں سے ہر ایک نے عظمت اور بزرگواری کو اپنے والدین سے وراثت میں پایا ہے اور عظمتوں کے عالی درجے اپنے اجداد سے حاصل کئے ہیں اور انھیں بڑھاوا دیا ہے ۔میں ان فخر و مباہات کو ہر گز ضائع ہونے نہیں دوں گا ،میری نسل بھی اگر باقی رہی تو وہ بھی عظمتوں کی بنیاد رکھنے والی ہیں ۔اس لحاظ سے میدان کارزار کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے تھے جو بادشاہوں کی طرح دشمن پر کاری ضرب لگاتے تھے اور ان کے پیچھے لشکر شکن سپاہی ہوتے تھے ۔ہم میدان جنگ کے وہ سورما ہیں جن کے خوف و دہشت سے دشمن کے سپاہی تسلیم ہو جاتے ہیں ''

اس کے علاوہ سیف نے ابی مفزر اسود تمیمی کی زبانی یہ قصیدہ کہا ہے :

'' ہم بنی عمرو کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ،میدان کارزار کے نیزہ باز ،محتاجوں کو کھلانے والے اور مہمان نواز ہیں ''

اور ابو بجید نافع بن اسود تمیمی سے منسوب یہ شعر لکھے ہیں :

'' جب یزدگرد نے فرار کیا ،تو حقیقت میں ہم نے خوف و وحشت کے ہتھیار سے اسے شکست دے دی ''

مزید کہتا ہے :

'' اگر میرے خاندان کے بارے میں پوچھو گے تو ''اسید'' بزرگی و عظمت کا معدن ہے ''

اور ربیع بن مطر تمیمی کی زبانی کہتا ہے :

''اسلام کے سپہ سالار سعد و قاص(۱) کے منادی نے خوش لحن اور سریلی آواز میں ندا دی کہ : بے شک صرف قبیلۂ تمیم کے افراد میدان کار زار کے شہسوار تھے ''

مزید کہتا ہے :

'' قبائل معد اور دیگر قبائل کے حکم یہ نظریہ رکھتے تھے کہ صرف خاندان تمیم کے افراد عجم

____________________

۱)۔ سعد بن ابی وقاص ،قادسیہ کی جنگ کا سپہ سالار تھا سعد نے ٥٤ھ یا ٥٥ ھ میں مدینہ میں وفات پائی اسد الغابہ ٢ ٢٩٠و٢٩٣

۹۶

کے بادشاہوں کے ہم پلہ ہیں ''

سیف بن عمر تمیمی نے خاندان تمیم کی عظمت اور فخر و مباہات کی تبلیغ و تشہیر کے لئے صرف انسانوں کا ہی سہارا نہیں لیا ہے بلکہ ان فخر و مباہات کی تبلیغ میں جنات سے بھی مدد لی ہے اور ایک افسانہ گڑھ کر دعویٰ کیا ہے کہ جنات نے بھی آواز کی لہروں کے ذریعہ چند اشعار کہہ کر خاندان تمیم کی عظمتوں کو تمام عرب زبان لوگوں تک پہنچایا ہے ۔طبری نے اس موضوع کو سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں یوں بیان کیا ہے ۔ ١٠

'' قادسیہ کی جنگ ختم ہونے کے بعد جنات نے اس خبر کو نشر کیا اور لوگوں کو حالات سے آگاہ کیا اور خبر پہنچانے میں انسانوں پر سبقت حاصل کی ''

اس کے بعد لکھتا ہے :

'' اہل یمامہ نے ایک غیبی آواز سنی ۔یہ آواز ان کے سروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے گونجتی ہوئی یوں گویا تھی : '' ہم نے دیکھا کہ فوج بیشتر قبیلہ تمیم کے افراد پر مشتمل تھی اور میدان کارزار میں سب سے زیادہ صبر و تحمل والے وہی تھے ۔تمیم کے بے شمار سپاہیوں نے دشمن کے ایک بڑے لشکر پر ایسی یلغار کی کہ گرد وغبار ہو امیں بلند ہو گیا وہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے ایک بڑے لشکر پر جو شجاعت اور بہادر ی میں کچھار کے شیروں کے مانند اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھے حملہ آور ہوئے ایرانیوں کو جنگ قادسیہ کے میدان کارزار میں کٹھن لمحات کا سامنا کرنا پڑا آخر کار وہ تمیم کے سپاہیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے اور ان کے سامنے اپنی عظمتیں کھو بیٹھے ۔جب وہ قبیلہ ٔتمیم کے بہادروں کے مقابلے میں آتے تو اپنے ہاتھ پائوں کو ان کی تلواروں سے کٹتے دیکھتے رہ گئے ۔ یہ آواز اسی طرح پورے جزیرہ نمائے عرب میں بعض لوگوں کے کانوں تک پہنچی ہے !

۹۷

سیف کے یہ افسانوی فاتح سپہ سالار وں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس فرضی اور افسانوی میدان جنگ میں ان کے اطراف سپاہیوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو ۔ اس لئے سیف نے قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر خاندانوں اور قبیلوں کے بعض طرفدار اور حامی ان کے لئے گڑھ لئے ہیں اور انھیں بھی اس افسانوی جنگ میں کچھ فرضی ذمہ داریاں اور معمولی عہدے عطا کئے ہیں تاکہ اس کے افسانے ہر صورت میں مکمل نظر آئیں اور قبائل مضر ،نزار اور تمیم کی بہادریاں اور نمایاں ہو جائیں اس طرح سیف نے تاریخ اسلام میں ایسے بہت سے صحابی ، تابعین اور راویوں اور لوگوں کے مختلف طبقات کو جعل کیا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں تھا اور وہ سب کے سب سیف کی خیالی تخلیق اور اس کے افسانوی افراد ہیں اور جتنی بھی داستانیں اور اشعار ان سے منسوب کئے ہیں وہ سب کے سب اس زندیق سیف کی خیالی تخلیق ہیں ۔

سیف کی تحریفات

سیف ،سورمائوں کو جعل کرنے اور افسانے گڑھنے کے علاوہ اپنی احساس کمتری کی آگ کو بجھانے کے لئے تاریخ اسلام کے حقیقی واقعات میں تحریف کرنے کا بھی مرتکب ہو اہے ۔یعنی تاریخی واقعات کو اصلی اشخاص کے بجائے غیر مربوط افراد سے منسوب کرکے بیان کرتا ہے ۔اس سلسلے میں درج ذیل نمونے قابل بیان ہیں :

اول ۔حقیقی جنگوں میں جن افراد کے ذریعہ فتح و کامرانی حاصل ہوئی ہے ،سیف نے ان کامیابیوں کو بڑی مہارت اور چالاکی کے ساتھ قبیلہ مضر کے کسی حقیقی فرد کے حق میں درج کیا ہے یا یہ کہ اس فوج کی کمانڈ کو قبیلہ مضر کے کسی افسانوی سپہ سالار اور بہادر کے ہاتھ میں دکھایا ہے تاکہ اس طرح اس فتح و کامرانی کو قبیلہ مضر کے کھاتے میں ڈال سکے ۔

دوم ۔اگر قبیلہ مضر کا کوئی فردیا چند افراد حقیقتا کسی مذموم تاریخی عمل کے مرتکب ہوئے ہوں تو سیف خاندانی تعصب کی بنا پر اس شرمناک اور مذموم فعل کو کسی ایسے شخص کے سر تھوپتا ہے جو قبیلہ مضر سے تعلق نہ رکھتا ہو ۔اس طرح خاندان مضر کے فرد یا افراد کے دامن کو اس قسم کے شرمناک اور مذموم فعل سے پاک کرتا ہے خواہ یہ غیر مضری فرد حقیقت میں وجود رکھتا ہو یا سیف کے ان افسانوی افراد مین سے ہو جنھیں اس نے جعل کیاہے ۔

۹۸

سوم۔اگر قبیلہ مضر کے سردار وں کے درمیان کوئی ناگوار اور مذموم حادثہ پیش آیا ہو اور حادثہ میں دونوں طرف سے قبیلہ مضر کے افراد ملوث ہوں توسیف اپنی ذمہ داری کے مطابق اخبار میں تحریف کرکے افسانہ تراشی کے ذریعہ یا ہر ممکن طریقے سے قبیلہ مضر کو بد نام و رسوا کرنے والے اس ناگوار حادثہ کی پردہ پوشی کرتا ہے ایسے قابل ،مذمت حوادث کے نمونے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے خلافت عائشہ ،طلحہ اور زبیر کی دشمنی اور بغاوت میں دیکھے جا سکتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں ان کے حامیوں نے عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور بالآخر انھیں قتل کر ڈالا ۔یا ایسے نمونے قبیلہ مضر کے مذکورہ تین سرداروں (عائشہ ،طلحہ وزبیر ) کی خلیفہ مسلمین حضرت علی ں جو خودقبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے کے خلاف بغاوت مین دیکھے جا سکتے ہیں ، جو بالآخر جنگ جمل پر ختم ہوئی ۔ سیف نے خاندان مضر کے مذکورہ سرداروں کے دامن کو اس رسوائی اور بدنامی سے پاک کرنے کے لئے بڑی مہارت اور چالاکی سے '' عبداللہ ابن سبا'' نامی ایک نام نہاد شخص کا ایک حیرت انگیز افسانہ جعل کرکے مسلّم تاریخی حقائق کو بالکل الٹ دیا اور مضریوں کے دامن کو پاک کرکے ان سب کے بجائے صرف ایک فرضی شخص '' عبد اللہ ابن سبا '' کو قصور وار ٹھہرایا ہے ۔

سیف '' عبداللہ ابن سبا'' کے حیرت انگیز افسانہ کا منصوبہ مرتب کرتا ہے اور اس افسانہ کے ہیرو جو قطعا غیر مضری ہے کا نام ''ابن سبا''رکھتا ہے اور ایسا تصور پیش کرتا ہے کہ ''ابن سبا''یمن کے شہر صنعا سے اٹھتاہے ۔اسلامی ممالک کے مختلف بڑے شہروں کا دورہ کرتا ہے اور یمنی طرفداروں کو اپنے ساتھ جمع کرکے بالآخر عثمان کے زمانے کی بغاوت اور حضرت علی کے خلاف جنگ جمل برپا کرتا ہے ۔اس طرح سیف ،ان تمام بغاوتوں ،جنگوں اور فتنوں کا ذمہ دار ''عبداللہ ابن سبا''اوراس کے طرفداروں کو ٹھہرا تا ہے جو سب کے سب یمنی ہیں نہ کہ مضری۔

۹۹

سیف اس حیرت انگیز افسانہ گو گڑھنے کے بعد اسے اپنی وزنی اور معتبر کتاب میں درج کرتا ہے اور تمام حوادث اور بد بختیوں کو ''عبداللہ ابن سبا''اور اس کے حامیوں کے سر تھوپتاہے جو سب کے سب اس کے خیالی اور جعلی افراد تھے اور اس نے ان کانام ''سبائی''رکھا تھا ۔اس طرح خاندان مضر کے سرداروں جو حقیقت میں ان واقعات اور حوادث کے ذمہ دار تھے کے دامن کو ہر قسم کی تہمت اور آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے آپ کو اس بڑے غم سے نجات دلاتا ہے جو قبیلہ مضر کے لئے شرمندگی اور ذلت کا سبب تھا۔

سیف،''عبداللہ''کو جعل کرکے اس کا نام ''ابن سبا''رکھتا ہے اور اسے سبائیوں سے نسبت دیتا ہے تا کہ اس کا یمنی ہونا مکمل طور پر ثابت ہوجائے اور اس کے قحطانی ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے ۔ کیا سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان تمام قحطانیوں کا جد اعلیٰ نہیں ہے اور یمن کے تمام قبائل کا شجرہ ٔنسب اس تک نہیں پہنچتا ؟اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص سبائی یا قحطانی ہے تو اسے ایک ایسے شخص سے نسبت دی ہے جو یمنی ہے ،جس طرح اگر اسی شخص کو یمنی کہیں تو ایک ایسی جگہ کی نسبت دیں گے جو سبا اورقحطانیوں کی اولاد کی جائے پیدایش ہے ۔اس وضاحت کے پیش نظر سیف بن عمر ،''عبداللہ ابن سبا ''کے حامیوں اور پیرو کاروں کو بھی سبائی کہتا ہے تا کہ یہ ثابت کرے کہ ''عبداللہ ابن سبا''کے تمام حامی اور پیرو یمنی تھے اور کسی کے لئے شک و شبہ باقی نہ رہے کہ قبیلہ ٔسبا کے افراد ،یمنی اور قحطانی سب کے سب بد فطرت ہیں اور بغاوت و فتنہ انگیزی میں ایک دوسرے کے برابر ہیں اور مثال نہیں رکھتے ۔صاف ظاہرہے کہ سیف نے ایک تیر سے دو کے بجائے کئی شکار کئے ہیں !زندیق ہونے کی وجہ سے اس نے اسلام کو افسا نہ اور تاریخ اسلام کو قصہ اور داستان کا نام دے کر حقائق کی تحریف کی ہے اور واقعات کو توہمات کے پردے میں چھپایا ہے اور اس طرح ملت کے خود غرضوں کو خوش کیا ہے اور تعصب کی بنا پر جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں رہنے والے قبیلہ مضر کے دامن کو ہر رسوائی سے پاک کرنے کے علاوہ یمنیوں کی قدرت و منزلت کو گراکر اس قدر پست و ذلیل کیا ہے کہ تاریخی واقعات کا مطالعہ کرنے والے رہتی دنیا تک سبائیوں ،یمنیوں اور قحطانیوں کو لعنت ملامت کرتے رہیں گے ۔مختصر یہ کہ سیف نے مانی کی تردید لکھ کر تاریخی واقعات سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فرضی اور جعلی سور مائوں کو جعل کیا ہے ۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

گیارہویں فصل(نوجوان وجوان)

۱۶۱

(1) طلاطلم موجوں میں

أَنِ اقذِ فیه فی التَّابُوت فاقذِ فِیه فِی الْیَم --- (سورئه مبارکه طه ، ٢٤)

ترجمہ:

بچے کو صندوق میں رکھ دو اور پھر صندوق کو دریا کے حوالے کردو۔

پیغام:

ظالم اور ستمگر بچوں پر رحم نہیں کرتے اور انہیں بھی اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اگر خدا کی مدد ساتھ ہو تو جناب موسیٰ ـ بچپنے میں ہی طلاطم موجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے مقصد تک پہنچ جاتے ہیں۔

(2) لق و دق صحرا میں

رَبَّنَا اِنّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَتِیْ بِوادٍ غَیْرِ ذی زرعٍ-(سورئه مبارکه ابراهیم، ٣٧)

ترجمہ:

اے صاحبان ایمان جو ہم نے پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاؤ اور دینے والے خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

۱۶۲

پیغام:

جناب ابراہیم ـنے اپنی زوجہ جناب ہاجرہ اور اپنے بیٹے جناب اسماعیل ـ کو مکہ کے تپتے صحراء میں چھوڑدیا خداوند متعال نے ان کی کیا خوب میزبانی کی کہ جناب اسماعیل ـ کے قدم مبارک سے چشمہ جاری ہوگیا جو آج بھی عاشقوں کے لیے قبلہ گاہ ہے۔

(3) عہدہ نبوّت پر

قَالَ اِنّی عَبْدُ اللّٰه اتٰانِی الکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نبیاً-(سورئه مبارکه مریم، ٣٠)

ترجمہ:

بچہ نے آواز دی کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔

پیغام:

اگر خدا چاہے تو بچہ گہواہ میں گفتگو کرسکتا ہے۔

نبوت میں سن وسال کی کوئی قید نہیں اسی طرح دوسری ذمہ داریوں میںبھی جیسا کہ پیغمبر اسلام(ص) نے 18 سالہ نوجوان کو لشکر اسلام کا سپاہ سالار بنایا تھا۔

۱۶۳

(4) سختیوں میں

--- قَالَ یٰا بُشْریٰ هٰذٰا غَلَام ----(سورئه مبارکه یوسف، ١٩)

ترجمہ:

(اور وہاں ایک قافلہ آیا جس کے پانی نکالنے والے نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو) آواز دی ارے واہ یہ تو بچہ ہے۔۔۔

پیغام:

جو نوجوان اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل میں سختیاں برداشت کرتا ہے اس کا مستقبل روشن ہوتا ہے جس طرح جناب یوسف ـنے سختیاں برداشت کی، پہلے کنویں میں ڈال دیئے گئے ، پھر غلام بناکر بھیج دیئے گئے مگر ہرگز خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے۔

(5) آگ میں

قَالُوا حَرَّقُوهُ وَانْصَروا---قُلْنٰا یٰا نٰارُکُونِیْ بَرْداً و سَلَامًا عَلٰی اِبْراهِیْمَ -(سورئه مبارکه انبیاء ، ٦٨، ٦٩)

ترجمہ:

ان لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کو آگ میں جلادو اور اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو۔

تو ہم نے حکم دیا کے اے آگ ابراہیم کے لیے سرد ہوجا اور سلامتی کا سامان بن جا۔

۱۶۴

پیغام:

نوجوانوں کی ایک خاصیت حق پرستی اور خرافات سے مقابلہ کرنا ہے جیسا کہ جناب ابراہیم جوانی میں بت پرستی کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔

نوجوان پاک و پاکیزہ دل رکھنے اور دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے دوسروں کی نسبت جلد ظلم و ستم کے خلاف کھڑے ہوکر اس راہ میں سختیاں برداشت کرتے ہیں ایسے میں خدا کی مدد ان کے ساتھ ہوتی ہے۔

(6) مورد لطف و کرم پروردگار

اِنَّهُمْ فِتْیَةً اٰمِنُوا بِرَبِّهِمْ و ذِدْنٰاهُمْ هُدیٰ-(سورئه مبارکه کهف، ١٣)

ترجمہ:

یہ چند جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اورہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا تھا۔

پیغام:

جوانوں کی ایک خاصیت، ظلم کا خاتمہ اور عدالت کا قیام ہے۔ ان کا خدا پر ایمان انہیں ظلم و ستم کے خلاف جہاد میں تقویت دیتا ہے۔

کیا ہم اصھاب کہف کی طرح باایمان اور پاک و پاکیزہ صفات کے مالک بن سکتے ہیں تاکہ مورد لطف و کرم پروردگار قرار پائیں۔

۱۶۵

(7) مہربان

وَ اِنَّ کُنَّا لَخٰاطِئِیْنَ- قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الیَوْم---(سورئه مبارکه یوسف، ٩١، ٩٢)

ترجمہ:

اور ہم سب خطا کار تھے ۔ یوسف نے کہا آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔

پیغام:

جناب یوسف ـ کے بھائی اُن سے نیکی اور اچھائی کا درس بھی لے سکتے تھے مگر ان کی جسارت نے انہیں جناب یوسف ـ کے قتل پر آمادہ کردیا اسی غرض سے انہوں نے جناب یوسف ـ کو کنویں میں ڈال دیا۔

اور آخر کار جب جناب یوسفـ بادشاہ مصر بنے تو ان کے بھائی ان کے سامنے فریاد کرنے لگے۔ اور اپنے کیے کہ معافی مانگنے لگے یہ جناب یوسفـ کی فراخدلی تھی کہ آپ نے اُن سب کو معاف کردیا۔

(8) صاحب کردار

قَالَ رَبّ السّجْنُ اَحَبُّ الیّ مِمَّا تدعونَنی-(سورئه مبارکه یوسف، ٣٣)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہے ہیں۔

۱۶۶

پیغام:

اگر ایک صاحب کردار نوجوان کے سامنے دو راہیں ہوں تو وہ کون سی راہ کا انتخاب کرے گا۔یقینا وہ صحیح اور درست راہ کا انتخاب کرے گا۔

(9) نافرمان

قَالَ سأوی اِلٰی جَبَلٍ یَعْمِمُنِیْ مِنَ المٰائ----(سورئه مبارکه هود، ٤٣)

ترجمہ:

اُس نے کہا کہ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا۔

پیغام:

اگر کوئی جوان راہ انحراف اختیار کرتا ہے تو گویا اُس نے انبیاء کی نافرمانی کی ہے چاہے وہ جوان نبی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

جوان پاک و پاکیزہ دل کا مالک ہوتا ہے۔ لہٰذا شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ناتجربہ کار جوان کو راہ صحیح سے منحرف کردے۔

۱۶۷

(10) بت شکن

فَجَعَلهُمْ جُذاذًا اِلّا کبیراً لَهُمْ-(سورئه مبارکه انبیائ، ٥٨)

ترجمہ:

پھر ابراہیم نے ان کے بڑے کے علاوہ سب کو چور چور کردیا۔

پیغام:

جوانوں کی ایک خاص بات ان کا حق پرست ہوتاہے جیسا کہ جناب ابراہیم ـنے اپنی جوانی میں بت پرستی سے مقابلہ کرکے حق پرستی کا بول بالا کردیا۔

(11) امین اور دیانت دار

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خزٰائن الارض--- اِنّی حَفِیْظ عَلِیْم-(سورئه مبارکه یوسف ، ٥٥)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو کہ میں محافظ بھی ہوں اور صاحب علم بھی۔

۱۶۸

پیغام:

امانت داری اور ذمہ داری کو صحیح ادا کرنا مدیریت کی دو شرطیں ہیں۔ ایک جوان اپنے دل کی پاکیزگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امانت دار اوراپنے ذہن کی ترو تازگی اور شادابی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہترین طالب علم بن سکتا ہے۔

(12) صابر

یٰا اَبَتِ اِفْعَلْ مٰا تُومَر سَتَجِدُنِی اِنْشَا اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ-(سورئه مبارکه صافات، ١٠٢)

ترجمہ:

بابا آپ کو جو حکم دیا جارہاہے اس پر عمل کریں ، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

پیغام:

جناب اسماعیل ـنے جناب ابراہیم ـکے کہنے کے مطابق یہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہ ہوں۔ تیار ہوگئے اس لیے کہ یہ جانتے تھے جو کچھ پروردگار کی طرف سے ہے حق ہے۔

۱۶۹

(13) حق پرست

وَقَالَ مُوْسیٰ یٰا فِرعَوْنَ اِنّی رَسُول مِن رَبِّ العٰالَمِیْنَ- فَأَرسِلَ مَعِی بنی اسرائیل- (سورئه مبارکه اعراف، ١٠٤، ١٠٥)

ترجمہ:

اور موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ میں رب العالمین کی طرف سے فرستادہ ہوں ۔۔۔ لہٰذا بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو۔

پیغام:

نوجوان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرتا اور اس کے خلاف کھڑا ہوجاتاہے۔ انبیاء کرام کے اہم فرائض میں سے ایک ظلم کے خلاف قیام کرنا تھا جیسا کہ جناب ابراہیم ـ نے نمرور کے خلاف، جناب موسیٰ ـنے فرعون کے خلاف اور جناب داؤد ـ نے جالوت کے خلاف قیام کیا۔

(14) پاک و پاکیزہ

وَ مریم ابنَتَ عِمْرٰان الَّتی أَحْصَنَتْ فَرْجها فَنَفَحْنٰا فِیْهِ مِنْ روحِنٰا ---(سورئه مبارکه تحریم، ١٢)

ترجمہ:

اور مریم بنت عمران کی مثال جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔۔۔

۱۷۰

پیغام:

اگر کوئی مرد یا عورت پاک وپاکیزہ کردار کا مالک ہو تو خدا کی رحمت ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہے۔

(15) مطیع و فرمانبردار

قَالَ معاذ اللّٰه انّه ربّی أحسَنَ مثوٰی ---(سورئه مبارکه یوسف، ٢٣)

ترجمہ:

یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔

پیغام:

جناب یوسف ـ نے خدا کی اطاعت کی لذت کو فعل حرام کی لذت پر ترجیح دی اور شیطان کے فریب میں نہ آئے اس لیے کہ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمام نوجوانوں کو برائی میں مبتلا کردے لیکن صاحب کردار جوان پاک و پاکیزگی کی دائمی لذت کو گناہ کی چند لحظے کی لذت پر ترجیح دیتا ہے۔

(16) طالب علم

قال له موسیٰ هل اتبعک عَلیٰ أن تُعَلِّمَنِ مَمَّا عُلّمْتَ رُشْدا- (سورئه مبارکه کهف، ٦٦)

۱۷۱

ترجمہ:

موسیٰ نے اس بندے سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے اس علم میں سے کچھ تعلیم کریں جو رہنمائی کا علم آپ کو عطا ہوا ہے۔

پیغام:

ہمیں کمال تک پہنچنے کے لیے چاہیے کہ مسلسل تحصیل علم کریں۔

معارف الٰہیہ کے حصول کے لیے اپنے اساتذہ کے سامنے متواضع رہنا چاہیے اور اُن سے سیکھیں۔ وہ علم اہمیت کا حامل ہے جو رشد معنوی کے لیے پیش خیمہ ہو۔

(17) صاحب امتیاز

قَالَ اِنَّ اللّٰه اصطفاه عَلَیکُمْ و زادَه بسطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ---(سورئه مبارکه بقره، ٢٤٧)

ترجمہ:

نبی نے جواب دیا کہ انہیں اللہ نے تمہارے لیے منتخب کیا ہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے۔

پیغام:

ایک جوان کو چاہیئے کہ ورزش کے ذریعہ اپنے آپ کو جسمانی لحاظ سے تندرست و توانا رکھے اور تحصیل علم کے ذریعہ آئندہ پیش آنے والی ذمہ داریوں کے لیے تیار رہے۔

۱۷۲

(18) مبلغ الٰہِی

اِنّی وَجَهَّتُ وَجْهِنی لَلّذِی فَطَر السَّمَاواتِ وَالأرضَ---(سورئه مبارکه انعام، ٧٩)

ترجمہ:

میرا رخ تمام تر اُس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔

پیغام:

جناب ابراہیم ـ نے سورج ، چاند اورستارہ کو دیکھا اور جب وہ غروب ہوگئے تو فرمایا کہ جو غروب ہوجائے وہ میرا خدا نہیں ہوسکتا ہے۔

اس واقعہ سے یہ درس ملتا ہے کہ جو چیز بھی فنا ہونے والی ہو اُس سے دل نہیں لگانا چاہئیے۔

(19) نیک اور محنت کش

قال اِنّی اُرِیْدُ أنْ اُنْکِحَکَ اِحْدی ابنَتَیّ---(سورئه مبارکه قصص، ٢٧)

ترجمہ:

انہوں نے کہا کہ میں ان دونوں میں سے ایک بیٹی کا عقد آپ سے کرنا چاہتا ہوں۔

۱۷۳

پیغام:

جب جناب شعیب ـ نے یہ دیکھا کہ موسی ـ ایک نیک اور محنت کش جوان ہے تو اُن سے اپنی بیٹی کے عقد کے لیے کہا۔ جناب موسی ـ نے ان کی اس فرمائش کو قبول کرتے ہوئے اپنی روزی اور شادی کا مسئلہ حل کرلیا۔

(20) ہدایت یافتہ اور گمراہ

فَتَقَبَّل مِنْ أَحْدِهِمٰا وَلَمْ یُتَقَبَّل مِنَ الاٰخر---(سورئه مبارکه مائده، ٢٧)

ترجمہ:

(جب حضرت آدم کے دونوں فرزندوں نے قربانی دی) ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی۔

پیغام:

جوانی ارادوں اور فیصلوں کا دور ہوتا ہے جو شخص اپنی جوانی میں انحراف کا شکار ہوجائے وہ تباہ ہوجاتا ہے جیسا کہ قابیل نے حسد کیا اور اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرکے تاریخ بشر کا سب سے پہلا قتل کیا ہے۔

(21) فریب کار

وَجاؤا عَلٰی قمیصِهِ بدمٍ کِذْبٍ قَالَ سوّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسَکُم أمْرٰا-(سورئه مبارکه یوسف، ١٨)

۱۷۴

ترجمہ:

اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگا کر لے آئے، یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے۔

پیغام:

جھوٹ اور فریب کاری کا جلد ہی پتہ چل جاتا ہے۔

جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کو دھوکہ دے رہا ہے در حقیقت وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔

۱۷۵

بارہویں فصل (ہمیں ایسا ہونا چاہیے)

۱۷۶

(1)خدا اور رسول کی آواز پر لبیک

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِسْتَجِیْبُوْ اللّٰه وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعٰاکُمْ لِمٰا یُحْیَیکُمْ--- (انفال ٢٤)

ترجمہ:

اے ایمان والو اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمھیں اس أمر کی طرف دعوت دیں جس میں تمھاری زندگی ہے۔

پیغام:

حقیقی ایمان کی پہچان خدا اور رسول کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔ خدا اور رسول ہمیں صحیح زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

(2) شکرگزار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبٰاتِ مٰا رَزَقْنٰا کُم وَشْکُرُوا لِلّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعبُدُونَ-(بقره ١٧٢)

ترجمہ:

اے صاحبان ایمان جو ہم نے پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اسے کھاؤ اور دینے والے خدا کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔

۱۷۷

پیغام:

صاحبان ایمان مادّی نعمتوں سے معنوی پیشرفت کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں، جو شخص اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ تمام نعمتیں خداوند متعال کی طرف سے ہیں وہ کبھی بھی غرور و تکبر کا شکار نہیں ہوتا بلکہ شکر گذاروں میں سے ہوجاتاہے۔

نعمت کا شکر یہ ہے کہ مُنعِم کی راہ میں خرچ کی جائیں۔

حلال چیزیں پاک اور حرام چیزیں ناپاک ہیں۔

(3) شیطان کی اتباع سے پرہیز

یٰاایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا أدْخُلُوا فِی السِّلْم کَافَّةَ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّیطَانِ اِنَّه' لَکُمْ عَدو مُبِیْنِ- (بقره ٢٠٨)

ترجمہ:

ایمان والو۔ تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

پیغام:

صلح وآشتی کے ساتھ زندگی گذارنا ایمان کی علامت ہے ، لڑائی جھگڑا، تفرقہ اور جدائی یہ سب شیطانی کام ہیں جبکہ پیار ومحبت اور وحدت و اتحاد الٰہی عمل ہیں۔

رسالتمآب (ص)سے منقول ہے کہ مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہیں۔ (میزان الحکمہ ج1، ص 391)

۱۷۸

(4)کافروں کی اطاعت سے دوری

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدّوکُمْ علٰی أَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلبوا خاسرین-(آل عمران ١٤٩)

ترجمہ:

اے ایمان والو اگر تم کافروں کی اطاعت کروگے تو یہ تمھیں الٹے پاؤں پلٹا لے جائیں گے، اور پھر تم ہی اُلٹے خسارہ والوں میں ہوجاؤ گے۔

پیغام:

کفر و گمراہی کا خدشہ ہمیشہ موجود ہے، صاحبان ایمان کو شیطانی وسواس سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

(5)دشمن شناس

یٰاایُّهَا الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُوْنِکُمْ لَا یٰالُونَکُم خَبَالاً قَدْ بَدَتِ البغضائُ مِنْ أَفْوٰاهِهِمْ وَمَا تُخْفٰیٰ فِیْ صُدُوْرِهم أَکْبَر- (آل عمران ١١٨)

ترجمہ:

اے ایمان والو خبردار غیروں کو اپنا رازدار نہ بنانا یہ تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہ کرینگے یہ صرف تمھاری مشقت و مصیبت کے خواہش مند ہیں۔ ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو بہت زیادہ ہے۔

۱۷۹

پیغام:

دشمن کو ہماری خوشحالی برداشت نہیں ہے وہ ہمیشہ ہماری مشقت اور مصیبت کا خواہشمند ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے راز دوسروں سے بیان نہ کریں۔

فتنہ و فساد، بربادی، زبردستی یہ سب دشمن کے حربے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایمان ، عقلمندی اور دشمن شناسی کی ضرورت ہے۔

(6) اہل کتاب کی اطاعت سے اجتناب

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ تُطِیْعُوا فَرِیقًا مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الکِتَابَ یَرُدَّوکُمْ بعَدَ اِیْمٰانِکُمْ کَافِرِیْن- (آل عمران ١٠٠)

ترجمہ:

ایمان والو اگر تم نے اہل کتاب کے اس گروہ کی اطاعت کرلی تو یہ تم کو ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹادیں گے۔

پیغام:

غیروں کی اطاعت اور پیروی کا نتیجہ آخرت کی بربادی ہے۔ اور کافروں کی اطاعت، کفر کا پیش خیمہ ہے، لہٰذا ہر ممکن اُن سے دور رہنا چاہیے۔

جب یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور پھوٹ ڈالنا شروع کی تو یہ آیت نازل ہوئی اور صاحبان ایمان کو گمراہ ہونے سے منع کیا کہ یہودی ہر دور میں گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے لیکن تمھارا فرض ہے کہ ہوشیار رہو اور گمراہ نہ ہو۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416