ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 371
مشاہدے: 115344
ڈاؤنلوڈ: 2880


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115344 / ڈاؤنلوڈ: 2880
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 2

مؤلف:
اردو

چھٹا جعلی صحابی عفیف بن منذر تمیمی

عفیف اور قبائل تمیم کے ارتداد کا موضوع

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں سیف کی کتاب ''فتوح '' سے نقل کرتے ہوئے عفیف بن منذر تمیمی کے حالات میں یوں لکھا ہے :

سیف نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ عفیف بن منذر ،قبیلہ '' بنی عمر و بن تمیم'' کا ایک فرد ہے ۔

طبری نے بھی عفیف کی داستان کو سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے .من جملہ ''تمیم '' و ''سباح''سے مربوط خبر جسے سیف نے صعب بن بلال سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کو یوں بیان کیا ہے:

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبائل تمیم کے افراد میں اختلاف و افتراق پیدا ہوا۔ ان میں سے کچھ لوگ اسلام پر باقی اور ثابت قدم رہے اور بعض نے مرتد ہوکر اسلام سے منہ موڑلیا۔ یہ امر قبائل تمیم کے آپسی جھگڑے کا سبب بنا۔ عفیف بن منذر تمیمی نے اس واقعہ کے بارے میں یوں کہا ہے:

خبر پھیلنے کے باوجود تمھیں خبر نہ ہوئی کہ خاندان تمیم کے بزرگوں پر کیا گزری؟

تمیم کے بعض سردار جو عظیم افراد اور شہرت کے مالک تھے ، ایک دوسرے کے ساتھ جنگ پر اتر آئے.

۱۰۱

بے پناہوں کو پناہ دینے والے ہی بیچارے ہوکر بیابانوں میں دربدر ہوگئے۔

زمین سے پانی کا ابلنا

طبری ، بحرین کے باشندوں کے مرتد ہونے کی خبر کو مذکورہ طریقے یعنی ''صعب بن عطیہ'' سے نقل کرکے لکھتا ہے:

ابوبکر نے ''علاء بن حضرمی'' کو سرزمین تمیم سے گزر کر بحرین کے لوگوں سے نبرد آزمائی کے لئے بھیجا۔ علاء اپنے سپاہیوں کے ہمراہ تمیم کی زمینوں کے ''دھنا '' نامی ریگستان جہاں پر ریت سات ٹیلے ہیں سے گزرا۔

جب علاء اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس تپتے اور خشک ریگستان کے بیچ میں پہنچا تو اس نے رات کو وہاں پر ٹھہرنے کا حکم دیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ پڑاؤڈالا لیکن اسی حالت میں اچانک ان کے اونٹ رم کر گئے اور تمام بار اور سازو سامان لے کر بھاگ گئے ۔ اس طرح علاء اور اس کے سپاہیوں کو اس تپتے اور خشک ریگستان میں توشہ اور پانی سے محروم ہونا پڑا۔

اس حادثہ کی وجہ سے کہرام مچا ور ان پر ایسا غم و اندوہ چھا گیا کہ خدا کے علاوہ کوئی ان کے حال سے آگاہ نہ تھا ۔ وہ سب مرنے کے لئے آمادہ ہوکر ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے !

علاء کو جب اپنے ساتھیوں کی حالت معلوم ہوئی تو اس نے ان کو اپنے پاس بلاکر کہا: یہ کیسا غم و اندوہ تم لوگوں پر طاری ہوگیا ہے؟

انہوں نے جواب میں کہا؛ یہ ملامت کا موقع نہیں ، تم خود آگاہ ہوکہ ، ابھی صبح ہے اور آفتاب کی تمازت شروع نہیں ہوئی ہے ۔ ہمارے بارے میں اب یہاں پر ایک داستان کے سوا کچھ باقی بچنے والا نہیں ہے!!

علاء نے جواب میں کہا: نہ ڈرو! کیا تم لوگ مسلمان نہیں ہو، کیا تم لوگوں نے خدا کی راہ میں قدم نہیں رکھا ہے، کیاتم لوگ دین خدا کی نصرت کرنے کے لئے نہیں اٹھے ہو؟

۱۰۲

انہوں نے جواب میں کہا: جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔

علاء نے کہا: اب جب کہ ایسا ہے تو میں تمھیں نوید دیتا ہوں کہ ہمت کرو، خدا کی قسم ! پروردگار تم جیسوں کو ہرگز اس حالت میں نہیں رکھے گا.

صبح ہوئی ، علاء کے منادی نے صبح کی اذان دی۔

راوی کہتا ہے :

علاء نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ، جب کہ ہم میں بعض لوگوں نے پانی نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہو کر تیمم کیا تھا اور بعض دیگر رات کے ہی وضو پر باقی تھے۔

علاء نماز پڑھنے کے بعد دو زانو بیٹھا ، لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی، علاء نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے ، سپاہیوں نے بھی ایسا ہی کرتے ہوئے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے۔

یہ حالت جاری تھی کہ سورج کی کرنوں کے سبب دور سے ایک سراب نظر آیا۔ علاء نے کہا: ایک آدمی جائے اور ہمارے لئے خبر لائے۔

سپاہیوں میں سے ایک آدمی اٹھ کے سراب کی طرف گیااور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بولا: سراب ہے اور پانی کی کوئی خبر نہیں ہے۔

علاء نے پھر سے دعا کی۔ پھر ایک سراب نمایاں ہوا۔ پہلے کی طرح پھر سے ایک آدمی جا کرنا اُمیدی کے ساتھ واپس لوٹا۔

علاء نے دعاجاری رکھی ۔ تیسری بار پانی کی لہر یں دکھائی دینے لگیں اس دفعہ جانے والا آدمی پانی کی خوشخبری لے کر آیا!!

سب پانی کی طر ف دوڑ پڑے ، ہم نے پانی پیا نہائے دھوئے۔

ابھی پوری طرح سورج نہیں چڑھا تھا کہ صحرا میں ہمارے اونٹ نظر آئے اور دوڑتے ہوئے آکر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے ہم سے ہر ایک نے اپنے اونٹ کو صحیح و سالم بار کے سمیت حاصل کیا!!

۱۰۳

اس حیر ت انگیز واقعہ کے بعد ہم نے اپنے اونٹوں کو بھی پانی پلا یاا ور مشکیں پانی سے بھر کے وہاں سے روانہ ہوگئے۔

راوی آگے ،کہتا ہے:

''ابو ہریرہ '' سفر میں میرے ساتھ تھا، جب ہم تھوڑا آگے چلے اور پانی کا تالاب ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا تو ابوہریرہ نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا : کیا تم اس سرزمین اور تالاب کو پہنچانتے ہو؟

میں نے کہا: اس جگہ سے میرے برابر کوئی اور آشنا نہیں ہے ۔

ابو ہریرہ نے کہا : جب ایسا ہے تو آؤمیرے ساتھ ہم تالاب کے پاس جاتے ہیں

میں ابو ہریرہ کے ساتھ تالاب کی طرف لوٹا ، لیکن انتہائی حیرت کے عالم میں نہ ہم نے وہاں پر پانی دیکھا اور نہ تالاب کا کوئی نام و نشان تھا۔

میں نے ابو ہریرہ سے کہا: خدا کی قسم یہاں پر پانی کا نام و نشان موجود نہ ہونے کے باوجود یہ اسی تالاب کی جگہ ہے ۔ اگر چہ اس سے پہلے بھی یہاں پر کوئی تالاب نہ تھا۔

اُس وقت ہماری نظر پانی سے بھر ے ایک لوٹے پر پڑی جو زمین کے ایک کونے میں پڑا تھا۔

ابو ہریرہ نے کہا: صحیح ہے ، اور خدا کی قسم یہ وہی تالاب والی جگہ ہے۔میں نے خاص طور پر اپنے لوٹے کو پانی سے بھر کے تالاب کے کنار ے پر رکھ دیا تھا تا کہ تالاب کی جگہ کو تلاش کرنے میں مشکل پیش نہ آئے!!

راوی کہتا ہے:

ہم نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف واپس پلٹ گئے۔

۱۰۴

سیف اس داستان کے ضمن میں کہتا ہے:

علاء اپنے سپاہیوں کے ساتھ چلتے ہوئے ''ہجر'' نام کی جگہ پر پہنچا۔ دونوں لشکروں نے ایکدوسرے کے مقابل مورچے سنھبالے۔ مشرکین کی فوج کی کمانڈ ''شریح بن ضیعہ'' نے سنھبالی تھی، وہ قبیلہ ''قیس'' کا سردا ر تھا اور اس کا اصلی نام ''حطم'' تھا۔ دشمن کے سپاہی آزادی کے ساتھ نقل و حرکت کرتے تھے۔ لیکن رات کو اسلام کے سپاہیوں کو اطلاع ملی کہ مشرکین شراب پی کر مست ہوگئے ہیں اوراپنے آپ سے بے خبر پڑے ہیں ۔ انھوں نے اس فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان پر اچانک تلواروں سے حملہ کردیا ۔اسی حالت میں خاندان بنی عمرو تمیم کے ایک دلاور ''عفیف بن منذر'' نے تلوار کی ایک ضرب سے ''حطم'' کی ایک ٹانک کاٹ کر اسے چھوڑ دیا تا کہ وہ اسی درد کے مارے جان دیدے۔

اس برق رفتار حملے میں ''عفیف'' کے چند بھائی اور رشتہ داروں نے بھی اس کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور اس شب کی گیرودار میں مارے گئے۔اس جنگ میں اسلام کے ایک نامور دلاور ''قیس بن عاصم ''نے ''ابجر'' کی ٹانک پر تلوار سے وار کرکے اسے کاٹ دیا ۔ ''عفیف'' نے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اشار کہے ہیں :

اگر ٹوٹی ہوئی ٹانک ٹھیک بھی ہوجائے گی، عر ق النساء تو ہرگز ٹھیک نہیں ہوگا۔ تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم قبیلہ بنی عمرو اور رباب کے بہادروں نے دشمن کے حامیوں کو کیسے تہس نہس کرکے رکھدیا؟!

اسی داستان کو جاری رکھتے ہوئے سیف کہتا ہے:

عفیف بن منذر ''حیرہ'' کے بادشاہ نعمان بن منذر کے بھائی ''غرور بن سواد'' کو اسیر بنا لیا۔ خاندان رباب کا خاندان تمیم کے ساتھ دوستی کا معاہدہ تھا اس طرح سے کہ '' غرور'' کا باپ ان کا بھانجہ محسوب ہوتا تھا ،لہٰذا انھوں نے عفیف کے پاس شفاعت کی تاکہ اسے قتل کرنے سے صرف نظر کرے ۔ ''عفیف''نے دوستوں کی شفاعت قبول کی اور اس طرح '' غرور'' قبیلہ رباب کی پناہ میں آگیا ۔لیکن '' غرور'' کے '' منذربن سوید'' نامی سوتیلے بھائی کا سر تن سے جدا کردیا گیا!

دوسرے دن صبح سویرے علاء نے مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے میدان کار زار کے دلاوروں کو بھی انعامات بانٹے اس طرح عفیف کے حصہ میں بھی انعام کے طور پر ایک لباس آیا،

۱۰۵

اسلام کے سپاہیوں کا پانی پر چلنا!

طبری نے اس افسانہ کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

مشرکوں نے اپنے منتشر شدہ سپاہیوں کو ''دارین'' کے مقام پر جمع کیا ۔ان کے اور سپاہ اسلام کے درمیان ایک عظیم دریا تھا تیز رفتار کشتیوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے میں ایک دن اور ایک رات کا وقت لگتا تھا ،علاء نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے اپنے سپاہیوں کو اپنے پاس بلاکر ان سے خطاب کیا:

خدائے تعالیٰ نے شیاطین کے گروہوں کو تم لوگوں کے لئے ایک جگہ جمع کیاہے اور تم لوگوں کے لئے ان کے ساتھ اس دریا میں جنگ کرنا مقرر فرمایا ہے ۔ریگستان کے تعجب آور معجزہ اور ''دھنا'' کی ریت کی کرامت کے ذریعہ خدا نے تم لوگوں کو اس دریا سے عبور کرنے کی ہمت دی ہے ،اب دشمنوں کی طرف آگے بڑھو اور سب لوگ دریا میں کود پڑو اور کسی خوف کے بغیر ان پر ٹوٹ پڑو ،خدا ئے تعالیٰ ان سب کو ایک جگہ پر تم لوگوں سے چنگل میں پھنسا دے گا! سپاہیوں نے علاء کے جواب میں ایک آواز ہوکر کہا: خدا کی قسم ،ہم قبول کرتے ہیں کہ ''دھنا'' کے معجزہ کے بعد ہم ہر گز خوف اور ڈر سے دو چار نہیں ہوئے ۔

علاء حضرمی نے اپنے سرداروں اور سپاہیوں کا جواب سننے کے بعد دریا کی طرف قدم بڑھا یا اور سپاہی بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے اور دریا کے کنارے پر پہنچے ،یہاں پر سوار ،پیادہ ، گھوڑے ، خچر ، اونٹ اورگدھے سب دریا میں اتر گئے ۔

علاء اور اس کے ساتھی پانی پر قدم رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھتے جاتے تھے :

اے بخشنے والے مہربان ،اے برد بار سخی ،اے بے مثال بے نیاز ،اے ہمیشہ زندہ ،اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے حیّ وقیوم ،اے خدا کہ تیرے سوا کوئی پروردگار نہیں ہے اور اے ہمارے پروردگار !!

سیف کہتا ہے :

اسلام کے سپاہی اس دعا کو پڑھنے کے بعد خدا کی مدد سے صحیح و سالم اس وسیع و عریض دریا کو عبور کرگئے ۔اس وسیع اور عمیق دریا کا پانی اسلام کے سپاہیوں اور ان کے مرکبوں کے پیروں کے تلے ایسا تھا گویا وہ مرطوب ریت پر چل رہے تھے اور ان کے پیر تھوڑے سے تر ہوتے تھے کیوں کہ دریا کا پانی ان کے اونٹوں کے سموں تک پہنچتا تھا !

۱۰۶

علاء اور اس کے سپاہیوں نے ایک ایسے دریا کو عبور کیا جس کی مسافت کو ساحل سے ''دارین'' تک طے کرنے کے لئے کشتی کے ذریعہ ایک دن ایک رات سے زائد وقت لگتا تھا ۔وہ اس مسافت کو پانی کے اوپر چل کر طے کر گئے اور اپنے دشمنوں کے پاس پہنچ کر ان پر تلوار سے حملہ آور ہوئے اور ان کے ایسے کشتوں کے پشتے لگادئے کہ ان میں سے ایک مرد بھی زندہ نہ بچ سکا !

اس حملہ اور قتل عام کے بعد ان کے بچوں اور عورتوں کو اسیر بنایا گیا اور بہت سا مال و متاع غنیمت کے طور پر حاصل کیا گیا ۔اس کے بعد مال غنیمت لے کر وہ لوگ اسی راہ سے واپس ہوگئے ،جہاں سے آئے تھے ۔

عفیف بن منذر نے اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں :

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے لئے دریا کو کیسے مطیع اور آرام کر دیا اور کفار پر بڑی مصیبت نازل کی ۔

ہم نے بھی اسی خدا سے دعا مانگی جس نے موسیٰ کے لئے دریا میں شگاف ڈال دیا تھا اور اس نے بھی ہمارے لئے حیرت انگیز راہ مقرر فرمادی ۔

سیف اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

''ہجر '' نامی جگہ کا رہنے والا ایک راہب جو مسلمانوں کا ہمسفر تھا،یہ سب معجزہ اور کرامتیں دیکھ کر مسلمان ہو گیا ،جب اس سے اسلام لانے کا سبب پوچھا گیا تو اس نے جواب میں کہا:

تین چیزوں نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی اور مجھے ڈر لگا کہ اگر کفر پر باقی رہوں تو خدائے تعالیٰ مجھے مسخ کر ڈالے گا!

اول صحرا کے قلب اور '' دھنا'' کے ریگستان میں آب زلال کا پیدا ہونا ۔دوسرا اسلام کے سپاہیوں کے پیروں کے نیچے دریا کے پانی کا سخت ہو جانا اور تیسرا سبب ملائکہ کی وہ دعا ہے جسے میں نے صبح کے وقت فضا میں سنا ہے ۔

راہب سے پوچھا گیا کہ فرشتے اپنی دعا میں کیا کہتے تھے ؟

۱۰۷

راہب نے جواب دیا : فرشتے یہ دعا مانگ رہے تھے :

اے خدا !تو رحمان و رحیم ہے ،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ،تو ایسا پروردگار ہے کہ تجھ سے قبل کوئی خدا نہ تھا ،وہ ایسا پائیدار خدا ہے کہ کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے ،زندہ ہے کہ اس کے لئے ہرگز موت و نابودی نہیں ہے ،آشکار اور مخفیوں کا خدا ،وہ خدا جو ہر روز نئے نئے جلوے دکھاکر دنیا والوں کے سامنے جلوہ افروز ہوتا ہے ،اے خدا تو ہر چیز سے آگاہ ہے !یہی امر تھا کہ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ لوگ حق پر ہیں اور فرشتے ان کی مدد کے لئے مأمور کئے گئے ہیں

سیف اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

اس واقعہ کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اس تازہ مسلمان راہب کے سامنے بیٹھ کر یہ حیرت انگیز داستان اس سے سنتے تھے ۔

علاء نے مشرکین کے ساتھ اپنی جنگ کی فتحیابی کی اطلاع خلیفہ کو دیتے ہوئے ایک خط میں یوں لکھا :

اما بعد ،خدائے تبارک و تعالیٰ نے '' دھنا '' کے ریگستان میں ہمارے لئے آب زلال کے چشمے جاری کئے اور اپنی قدرت نمائی سے ہماری بصیرت کی آنکھوں کو کھول دیا ۔ہم اس کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں اور اس کی عظمت والی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرتے ہیں ،آپ بھی خداسے اس کے سپاہیوں اور اس کے دین کی نصرت کرنے والوں کے لئے مدد کی دعا کیجئے ۔

ابوبکر نے خدا کا شکر ادا کیا اور علاء کے لئے دعا کرتے ہوئے کہا:

جہاں تک معلوم ہوا ہے ،عرب ،سرزمین ''دھنا'' کے بارے میں قصہ سناتے ہوئے کہتے ہیں ،جب لقمان سے اس سر زمین پر پانی کے لئے ایک کنواں کھودنے کی اجازت چاہی گئی تو لقمان نے جواب دیا کہ وہاں پر بالٹی اور رسی ہر گز پانی تک نہیں پہنچیں گے اور پانی پیدا نہیں ہوگا۔

۱۰۸

اب جب کہ ایسی سر زمین سے آب زلال ابل گیا ہے تو یہ بذات خود اس معجزہ اور آیات آسمانی کی عظمت کی علامت ہے جس کی مثال گزشتہ امتوں میں کہیں نہیں ملتی پس خدا وند ا !محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حرمت و عظمت کو محفوظ فرما!

یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے جعلی صحابی عفیف تمیمی کے حالات میں اپنی تاریخ کے اندر درج کیا ہے ،اور ابو الفرج اصفہانی نے بھی اس داستان کو اس سے نقل کرکے اپنی کتاب '' اغانی'' (٤٥٤۔٤٧) میں درج کیا ہے ۔

ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے اسی داستان کو '' حطم و بحرین'' کے ارتداد کی خبر میں طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی کتابوں میں ثبت کیا ہے ۔

لیکن ابن حجر نے اپنی کتاب '' اصابہ'' میں جہاں وہ عفیف بن منذر تمیمی کی بات کرتا ہے ان مطالب کو سیف کی کتاب '' فتوح '' سے نقل کرکے اس کی صراحت کی ہے ۔

حموی نے بھی لفظ ''دارین '' کے سلسلے میں اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں سیف کی اسی روایت سے استناد کرکے لکھا ہے :

سیف کی کتاب میں آیا ہے کہ مسلمانوں نے پانی کی سطح پر قدم رکھ کر دارین کی طرف قدم بڑھائے

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ :

'' عفیف بن منذر'' نے اس واقعہ میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے لئے دریا کو کیسا مطیع بنایا...تاآخر

''عبد المؤمن نے'' بھی لفظ ''دارین'' کے بارے میں اپنے مطالب کو حموی سے نقل کرکے اپنی کتاب '' مرا صد الاطلاع '' میں درج کیا ہے ۔

حمیری نے بھی اپنی کتاب '' الروض المطار'' میں انہی مطالب کو ذکر کیا ہے اور ان کے آخر میں عفیف کے نام کے بجائے یوں لکھا ہے :

اسلامی فوج کے ایک سپاہی نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر اس نے وہی گزشتہ دو شعر ذکر کئے ہیں جو اس سے پہلے بیان ہوئے ،نہ روایت کے ماخذ کی طرف اشارہ کیا ہے اور نہ شاعر کا نام لیا ہے ۔

۱۰۹

بحث کا خلاصہ

جو کچھ اب تک بیان ہو ا ، اس سے صحابی اور تمیمی شاعر''عفیف بن منذر '' کے بارے میں سیف کی روایت کی مندرجہ ذیل تین بنیادی باتوں کی وضاحت ہوتی ہے :

١۔قبیلہ تمیم کے بعض افراد کا مرتد ہونا اور بعض دیگر کا دوسروں کو دخل اندازی کی اجازت دئے بغیر اسلام پر ثابت قدم رہنا،مذکورہ قبیلہ کے افراد کا ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونا اور اس سلسلے میں ''عفیف بن منذر '' کا اشعار کہنا۔

٢۔''ہجر '' کے مقام پر خاندان'' قیس'' کے سردار ''حطم'' کا مرتد ہونا اور سپاہ اسلام کی اس کے ساتھ جنگ ،عفیف کا تلوار کی ایک کاری ضرب سے '' حطم'' کی ایک ٹانگ کاٹ دینا اور ''حیرہ'' کے بادشاہ '' نعمان منذر'' کے بھائی ''غرور بن سوید'' کو اسیر بنانا اور اس کے سوتیلے بھائی کا سر تن سے جدا کرنا ،اسلامی فوج کے سپہ سالار '' علاء حضرمی ''کا ''عفیف'' کو دیگر سپاہیوں کے ساتھ انعام و اکرام سے نوازنا۔

٣۔'' دھنا '' کے ریگستان میں اسلام کے سپاہیوں کے لئے آب زلال کا چشمہ ابلنا ، جنگ دارین کی طرف جاتے ہوئے دریا کے پانی کی کیفیت بدل کر علاء اور اسلام کے سپاہیوں کے پائوں تلے پانی کا سخت ہو جانا اور اس سلسلے میں عفیف کا اشعار کہنا۔

۱۱۰

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

بہتر ہے کہ یہاں پر ہم قبائل تمیم، قیس اور بحرین کے ارتداد کے موضوع کے بارے میں دوسرے مورخین کی زبان سے بھی کچھ سنیں ۔

''بلاذری '' نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں قبیلۂ تمیم کے ارتداد کی خبر دوصفحوں میں بیان کی ہے۔ اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

''خالدبن ولید '' نے ''طلیحہ'' کی جنگ سے فارغ ہونے کے بعد قبائل تمیم کی سرزمینوں میں '' بعوضہ'' کے مقام پر پڑاؤڈالا۔ یہاں پر اس نے اپنے بعض فوجی دستوں کو مخالفین کی سر کوبی اورا نھیں پکڑلانے کے لئے علاقے کے اطراف میں بھیج دیا۔

ایک گشتی گروہ نے ''مالک نویرہ'' کو سرزمین ''بطاح'' میں پکڑ اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر خالد بن ولید کے پاس لایا۔ خالد نے اس کے قتل کا حکم دیا، جس کی داستان مشہور ہے۔

اس کے علاوہ سیف کی دیگر روایتوں اور افسانوں کے بارے میں بلاذری کی کتاب میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔

لیکن سرزمین ''ہجر'' میں ''حطم '' کے ارتداد اور ''بحرین'' و ''دارین'' میں ابن منذر کی داستان کے بارے میں بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یوں ذکر کیا ہے:

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارگزار ''منذر بن ساوی عبدی'' رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد بحرین میں فوت ہوا، تو ایک طرف قبیلہ قیس کے ایک گروہ نے ''حطم'' کی قیادت میں اور دوسری جانب قبیلۂ ''ربیعہ'' کے چند افراد نے ''نعمان بن منذر'' کی اولاد میں سے ''منذر'' نام اور ''غرور'' کے عنوان سے معروف اس کے بیٹے کی قیادت میں بحرین میں بغاوت کی اور مرتد ہوگئے۔ ''حطم'' اپنے قبیلہ کے افراد سمیت ''ربیعہ'' کے ساتھ جاملا۔ علاء حضر می بھی ان سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔

۱۱۱

علاء اور بحرینی مرتدوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔ سرانجام باغیوں نے مقابلے کی تاب نہ لاکر قلعہ'' جواثا''میں پناہ لی اور وہاں اپنے آپ کو چھپالیا۔علاء نے رات گئے تک قلعہ کو تہس نہس کرکے رکھدیا ایک شدید جنگ کے بعد قلعہ فتح ہوا اور علاء نے اس پر قبضہ کرلیا۔

یہ جنگ ١٢ھ میں ابوبکر کی خلافت کے دوران واقع ہوئی۔ اسی جنگ کی گیرودار کے دوران، مجوسیوں کی ایک جماعت کے افراد جزیہ دینے سے انکار کرکے بحرین کے ایک قصبہ ''زارہ'' میں قبیلہ تمیم کے بعض افراد سے جاملے تھے۔ علاء نے اپنے سپاہیوں کے ہمرا ہ ان کو بھی اپنے محاصرہ میں لے لیا اوران کا قافیہ تنگ کردیا۔ خلیفہ عمر کی خلافت کے اوائل میں ''زارہ'' کے باشندوں نے اس سے صلح کی اور قصبہ ''زارہ'' کے مال و متاع اور اثاثہ کا ایک تہائی حصہ اسے دیدیا۔علاء نے بھی ان سے محاصرہ اٹھا لیا اور اس سلسلے میں ایک معاہدہ لکھا گیا۔(اس معاہدہ میں ''دارین'' کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔)

''دارین'' کوفتح کرنے کے لئے علاء حضرمی نے خلافتِ عمر کے زمانے میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ ''کرازنکری''نام کے ایک شخص کی راہنمائی میں کم عمق والے حصہ سے خلیج کو عبور کیا اور مشرکین پر تین جانب سے تکبیر بلند کرتے ہوئے حملہ کیا۔ مشرکین نے علاء اور اس کے سپاہیوں کے ساتھ سخت جنگ کی ، لیکن سرانجام شکست کھا کرہتیار ڈالنے پر مجبور ہوئے۔

کلاعی نے بحرین کے باشندوں کے ارتداد اور علاء کی جنگی کاروائیوں کے بارے میں لکھا ہے:

۱۱۲

جب بحرین میں واقع قصبہ ''ہجر'' کے باشندے مرتد ہوگئے تو قبیلۂ عبد القیس کے سردار ''جارود'' نے اپنے خاندان کے افراد کو جمع کرکے ایک دلچسپ اور موثر تقریر کی اور پند و نصائح کے ذریعہ حتی الامکان کوشش کی کہ وہ اسلام سے منہ موڑ کر مرتد نہ ہو ں .اس قبیلہ ''عبد القیس '' کا کوئی بھی فرد مرتدنہیں ہوا۔

لیکن قبیلہ ''بکر بن وائل'' کے لوگ''منذر بن نعمان'' جو ''غرور'' کے نام سے مشہور تھا کو اپنا پادشاہ انتخاب کرنا چاہتے تھے۔ غرور فرار کرکے ایران کے بادشاہ کے ہاں پناہ لے چکاتھا۔ ایران کے بادشاہ کسریٰ نے جب یہ خبر سنی تو ان کے قبیلہ کے سردار اور بزرگوں کو جمع کرکے اسی ''منذر'' جسے ''مخارق'' بھی کہا جاتا تھا کو ان کے اوپر بادشاہ مقرر کیا اور بحرین کی طرف روانہ کیا تا کہ اس جگہ پر قبضہ کرلیں ور بجر بن جابر عجلی(۱) کو حکم دیا کہ فوج کے ایک تجربہ کار سوار دستہ کے ہمراہ فوراً ابن نعمان کی مدد کے لئے جائے۔

''منذر'' اپنی ماتحت فوج کے ساتھ روانہ ہوا اور بحرین میں ''شقر '' کے مقام پر پڑاؤڈالا۔ جو بحرین میں ایک مضبوط قلعہ تھا۔

جب یہ خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی تو اس نے '' علاء حضرمی '' کو سولہ سواروں کے ہمراہ منذر کی سرکوبی کے لئے مامور کیا اور اسے حکم دیا کہ قبیلہ ٔ ''عبد القیس '' کے افراد سے ''منذر '' کو کچلنے میں مدد حاصل کرے ۔

____________________

۱)۔'' بجر بن وائل '' قبیلہ بکر بن وائل سے ہے ۔ملاحظہ ہو : جمہرة النساب عرب ( ٣١٠۔ ٣١٤)

۱۱۳

علاء اپنی ماموریت انجام دینے کے لئے روانہ ہوا یمامہ کی با اثر شخصیت اور فرماں روا ''ثمامہ اثال حنفی ''(۱) نے قبیلہ '' بنی سحیم '' کے چند افراد اس کی مدد کے لئے مقرر کر دئے ۔

علاء اپنے لئے فراہم کی گئی فوج کے ساتھ ''مخارق '' (نعمان بن منذر) کی طرف بڑھا ۔ اس کے ساتھ سخت جنگ کی اور اس کے بہت سے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس دوران قبیلہ ''عبدالقیس '' کے سردار'' جارود'' نے بھی ''خط'' کے علاوہ ۔ سیف بحرین۔ سے علاء کی مدد کے لئے چند منظم فوجی دستے محاذ جنگ کی طرف روانہ کئے ۔

'' منذر '' نے جب یہ حالت دیکھی تو ''حطم بن شریح'' نے ''خط'' کے ذریعہ مرزبان کے پاس پیغام بھیجا اور اس سے علاء کے خلاف لڑنے میں مدد طلب کی ،مرزبان نے بھی ایرانی نسل افراد پر

مشتمل ایک فوج کو منذر کی مدد کے لئے روانہ کیا اور '' جارود '' کو قیدی بنا لیا۔

''حطم ''اور''ابجر بن جابر عجلی''اپنے تحت افرادکے ہمراہ منذر کی مدد کے لئے پہنچ گئے اور ایک شدید جنگ کے نتیجہ میں علاء کا''جواثا'' کے قلعہ میں محاصرہ کرکے اس کا قافیہ تنگ کردیا۔

اس پیش آنے والی مصیبت اور سختی کے بارے میں قبیلہ بنی عامر صعصعہ کے ایک شخص عبداللہ حذف(۲) نے حسب ذیل اشعار کہے ہیں :

لوگو!ابوبکر اور تمام اہل مدینہ کو پیغام پہنچائو اور ان سے کہو : کیا تم لوگ ''جواثا '' کے محاصرہ میں پھنسے اس چھوٹے گروہ کی فکر میں ہو؟ یہ ان کا بے گناہ خون ہے جو ہرگڑھے میں جا ری ہے اور آفتاب کی کرنوں کی طرح آنکھوں کو

____________________

۱)۔'' ثمامہ'' و '' ھوذہ'' یمامہ کے د دباد شاہ تھے ہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں خط لکھا تھا اور انھیں اسلام کی دعوت دی تھی ،ثمامہ اسلام قبول کرکے اس پر ثابت قدم رہا ۔جب بنی حنیفہ کے افراد نے بغاوت کی اور '' مسیلمہ'' کذاب سے جاملے تو ثمامہ نے ان سے منہ موڑ لیا اور بحرین چلا گیا ۔ ملاحظہ ہو کتاب ''اصابہ'' و ''تاریخ زرہ''

۲)۔'' عبداللہ '' حذف کے حالات کے بارے میں جمہرہ انساب عرب (٢٧٣۔ ٢٧٥) ملاحظہ ہو

۱۱۴

چکاچوند ھکررہا ہے ۔

ان حالات کے باوجود ہم نے خدا پر توکل کیا ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ خدا پر توکل کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں ،

علاء اور اس کے ساتھی بدستور محاصرہ میں پھنسے تھے ایک رات اچانک دشمن کے کیمپ سے شور وغل کی آواز بلند ہوئی عبداللہ حذف کو مامور کیا گیا کہ دشمن کے کیمپ میں جا کر معلوم کرے کہ اس شور و غل کا سبب کیا ہے ۔

عبداللہ نے ایک رسی کے ذریعہ اپنے آپ کو قلعہ کی بلندی سے نیچے پہنچا یا اور ہر طرف دشمن کی ٹوہ لینا شروع کی اس شور و ہنگامہ کا سبب جاننے کے بعد اس نے '' ابجرعجلی '' کے خیمہ میں قدم رکھا ۔ عبداللہ کی والدہ قبیلہ '' بنی عجل'' سے تعلق رکھتی تھی ،اس لئے '' ابجر '' کا رشتہ دار ہوتا تھا ۔جوں ہی ''ابجر''نے عبداللہ کو دیکھا تو چیخ کر اس سے پوچھا:

کس لئے آیا ہے ؟ خدا تجھے اندھا بنا دے !

عبد اللہ نے جواب دیا:

ماموں جان !بھوک ، مصیبت ، محاصرے کی سختی اور ہزاروں دوسری بدبختیوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ میں اپنے قبیلہ کے پاس جانا چاہتا ہوں اور تمہاری مدد کا محتاج ہوں

ابجر نے کہا:

میں قسم کھاتا ہوں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو!پھر بھی میں تمہاری مدد کروں گا۔

اس کے بعد عبد اللہ کو کچھ توشۂ راہ اور ایک جوڑا جوتے دیکر کیمپ سے باہرلے گیا تاکہ اسے روانہ کر دے ۔جب یہ لوگ کیمپ سے ذرا دور پہنچے تو '' ابجر'' نے عبداللہ سے کہا:

جائو خدا کی قسم تم آج رات میرے لئے بہت برے بھانجے تھے !

عبداللہ نے منذر کی سپاہ سے دور ہونے کے لئے قلعہ کا رخ نہیں کیا بلکہ مخالف سمت میں روانہ ہوا ۔لیکن جوں ہی اسے اطمینان ہو گیا کہ وہ '' ابجر '' کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے تو فورا مڑ کر اپنے قلعہ کے پاس آپہنچا اور اسی رسی کے ذریعہ قلعہ کی دیوار پرچڑھ کر قلعہ کے اندر چلا گیا اور پوری تفصیل یوں بیان کی :

۱۱۵

ایک شراب فروش تاجر دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں آیا تھا ۔تمام سپاہیوں نے اس سے شراب خرید کر پی ہے اور مست و مدہوش ہوکر عقل و ہوش کھو بیٹھے ہیں اور بے عقلی کے عالم میں یہ شور وغل مچارہے ہیں ۔

عبداللہ کی رپورٹ سننے کے بعد مسلمان ننگی تلوار لے کر قلعہ سے باہر آئے اور بجلی کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے ۔

''حطم '' مستی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھا اور رکاب میں پائوں رکھ کر بلند آواز سے بولا:

ہے کوئی جو مجھے سوار کرے ؟!

عبداللہ نے جب ''حطم '' کی فریاد سنی تو اس کے جواب میں کہا:

میں ہوں !

اس کے بعد اس کے سر پر تلوار مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اس شبخون میں ''ابجر'' کی ٹانگ بھی کٹ گئی جس کے سبب وہ مرگیا۔

صبح سویرے غنیمت میں حاصل کیاہوا تمام مال و متاع مسلمانوں نے قلعہ ''جواثا'' کے اندر لے جاکر علاء کے سامنے رکھ دیا۔

علاء یوں ہی مشرکین کا پیجھا کرتا رہا اور وہ بھی بھاگتے ہوئے شہر کے دروازے تک پہنچ گئے مسلمانوں کے دبائو نے مشرکین کا قافیہ تنگ کر دیا تھا سرانجام ابن منذر نے علاء سے جنگ ترک کرکے صلح کی درخواست کی ۔علاء نے یہ درخواست اس شرط پر منظور کی کہ اس شہر کے اندر موجود اثاثے کی ایک تہائی اس کے حوالے کی جائے اور شہر کے باہر جو بھی ہے وہ بدستور مسلمانوں کے پاس رہے ۔علاء نے اس فتح کے بعد بہت سا مال و متاع مدینہ بھیج دیا ۔'' منذر نعمان'' جسے '' مخارق'' کہتے تھے ،جان بچا کر شام بھاگ گیا۔ وہاں پر خدا نے اس کے دل کو نورایمان سے منور کیا اور اس نے اسلام قبول کیا ۔اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے آپ کو سرزنش کرتے ہوئے کہتا تھا : میں ''غرور'' نہیں بلکہ مغرور ہوں ۔

۱۱۶

فتح پانے کے بعد علاء علاقہ ''خط'' کی طرف واپس ہوا اور اس نے ساحل پر پڑائو ڈالا ۔ وہ دارین تک پہنچنے کی فکر میں تھا کہ اسی دوران ایک عیسائی شخص اس کی خدمت میں حاضر ہو ااور اس سے مخاطب ہو کر بولا:

اگر میں تمھارے سپاہیوں کو پانی کی کم گہری جگہ کی طرف راہنمائی کر دوں تو مجھے کیا دوگے ؟

چوں کہ علاء کے لئے یہ تجویز خلاف توقع تھی ،اس لئے فورا جواب میں کہا:

جو چاہو گے !

عیسائی نے کہا :

تم سے اور تمھارے سپاہیوں سے '' دارین '' میں ایک خاندان کے لئے امان چاہتا ہوں ۔

علاء نے جواب میں کہا:

میں قبول کرتا ہوں ،وہ تیرے اور تیری خدمات کے پیش نظر امان میں ہوں گے ۔

اس توافق کے نتیجہ میں علاء اور اس کے سوار اس عیسائی کی راہنمائی سے دریا عبور کرکے ''دارین'' پہنچ گئے ۔

علاء نے قہر و غلبہ سے '' دارین '' پر قبضہ کیا اور وہاں کے باشندوں کو قیدی بنا لیا اور غنیمت کے طور پر بہت سا مال و متاع اپنے ساتھ لے کر اپنے کیمپ کی طرف لوٹا۔

بحرین کے باشندے جب '' دارین '' کی سر نوشت سے آگاہ ہوئے اور علاء کی فتحیابی کا مشاہدہ کیا ،تو انھوں نے بھی تجویز پیش کی کہ '' ہجر '' کے باشندوں کی طرح صلح کا معاہدہ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔

ہم نے سیف کی روایتوں کا دیگر مورخین کی روایتوں سے موازنہ کیا اور اس سلسلے میں ''کلاعی'' کی تمام روایتوں کو اور ''بلاذری'' کی روایتوں کا خلاصہ بیان کیا لیکن ان میں عفیف اور اس کے اشعار ،شجاعتوں اور رجز خوانیوں اور قبیلہ تمیم کی دلاوریوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

۱۱۷

سیف بن عمر کے یہاں '' غرور'' کا نام رکھنے اور اس کے شجرہ نسب کے بارے میں بھی دوسرے مولفین کے ساتھ اختلاف ملتا ہے ۔کیوں کہ سیف نے غرور کو منذر کے سوتیلے بھائی کے طور پر ذکر کیا ہے جب کہ دوسرے لکھتے ہیں کہ اس کا اصلی نام منذر بن نعمان تھا اور اس کا کوئی بھائی نہیں تھا

سیف تنہا فرد ہے جو لکھتا ہے کہ عفیف نے تلوار کی ایک ضرب سے ''حطم'' کی ٹانگ کاٹ دی اور''غروربن سوید'' کو قیدی بنا لیا اور خاندان رباب نے اس کی شفاعت کی جس کے نتیجہ میں عفیف نے '' غرور '' کو ان کے احترام میں بخش دیالیکن '''غرور'' کے بھائی ''منذر'' کا سر تن سے جدا کردیا۔

سیف تنہا شخص ہے جس نے ''دارین''کی فتح کو خلافت ابوبکر کے زمانے میں واقع ہونا لکھا ہے اور اس کی بڑے آب وتاب سے تشریح کی ہے ،اس میں کرامتوں اور غیر معمولی واقعات کی ملاوٹ کی ہے جب کہ دوسروں کا اعتقاد یہ ہے کہ ''دارین '' کو''کرازنکری'' نامی ایک عیسائی کی مدد اور راہنمائی سے خلیج کے کم عمق والی جگہ سے عبور کرکے فتح کیاگیا ہے اور یہ فتحیابی خلیفہ عمر کے زمانے میں واقع ہوئی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہم نے ''علاء حضرمی '' کے کرامات کے افسانہ کا سرچشمہ ''ابوہریرہ'' کی روایات میں پایا ،جہاں پر وہ کہتاہے :

علاء نے بحرین جاتے ہوئے ''دھنا'' کے صحرا میں دعا کی اور خدا ئے تعالیٰ نے اس تپتی سرزمین پر ان کے لئے پانی کے چشمے جاری کئے!جب وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے اور کچھ فاصلہ چلنے کے بعد ان میں سے ایک آدمی کو یاد آیا کہ وہ اپنی چیز وہاں چھوڑ آیا ہے تو وہ دوبارہ اس جگہ کی طرف لوٹا اور وہاں پر اپنی چیز تو پائی لیکن پانی کا کہیں نام و نشان نہ دیکھا ۔

ابو ہریرہ نے مزید کہا ہے :

میں نے دارین کی جنگ میں دیکھا کہ علاء اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دریا سے عبور کرگیا۔

ایک اور روایت میں کہتا ہے:

۱۱۸

علاء اور اس کے سپاہی دریا کو عبور کر گئے جب کہ کسی کے اونٹ کا پائوں یا کسی چار پا حیوان کا سم تک تر نہیں ہوا تھا!!

یہ تھے صدر اسلام کے ایک راوی ابو ہریرہ کے بیانات جب کہ بلاذری تاکید کرتا ہے کہ ''کرازنکری'' نے اہنمائی کرکے علاء اور اس کے سپاہیوں کو ایک کم عمق والی جگہ سے دریا عبور کرایا اور دارین کی طرف راہنمائی کی ۔

یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ابو ہریرہ اور دیگر لوگوں کے بیانات میں بھی عفیف کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا ہے ۔

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ

ہم دیکھتے ہیں کہ سیف بن عمر کی نظر میں اس کے خاندان کے افراد کے مرتد ہو جانے اور اسلام سے منھ موڑ لینے کی ،ان کے مفاخر اور میدان جنگ میں ان کی شجاعتوں اور دلاوریوں کو ثابت کرنے کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

چوں کہ تمیم کے بعض قبائل کے ارتداد کا مسئلہ نا قابل انکار حد تک واضح تھا، اس لئے سیف اپنے تعصب کی بناء پر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسی موضوع سے اپنے قبیلہ کے حق میں استفادہ کرے، اس لئے اپنے خاندان کے افراد کے مرتد ہوجانے کا اعتراف کرتے ہوئے مسئلہ کو ایسے پیش کرتا ہے کہ اسی خاندان کے مسلمان اور ثابت قدم افراد تھے جو اپنے خاندان میں اسلام کے قوانین سے سرکشی کرنے والوں اور مرتد ہونے والوں کی خود تنبیہ اور گوش مالی کرتے تھے اور دوسرے قبائل اپنے معاملات میں دخل دینے اور ارتداد کے مسئلہ کو حل کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

سیف''ہجر''میں ''حطم'' اور قبیلۂ قیس کے ارتداد کے بار ے میں بھی قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنے میں نہیں چوکتا، جیسا کہ ہم نے دیکھا وہ اپنے خیالی کردار ''عفیف'' کو مأمور کرتا ہے کہ قبیلہ قیس کے سردار ''حطم'' کی ٹانگ کو تلوار کی ایک ضرب سے کاٹ ڈالے ، شاہزادہ ربیعہ کو قیدی بنالے ، ''غرور'' کے بھائی''منذر'' کا سرتن سے جدا کرے اور ''غرور ''کو آزاد کرکے قبائل رباب پر احسان کرے۔

اس نے ''عفیف'' کو ایک ایسا بے باک بہادر اور دلاور بناکر پیش کیا کہ سپہ سالار نے اس پر مہربان ہوکر اسے انعام واکرام سے نوازا۔

۱۱۹

سیف،تاریخ کے حزانے سے چند افسانوی افراد کے لئے شجاعت پر مبنی بے بنیاد سخاوت کا اظہار کرتے وقت اپنے ہم معاہدہ قبیلۂ ''رباب'' کو فراموش نہیں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قبیلہ رباب کی شفاعت اور مداخلت سے غرور کو قتل نہیں کیا گیا اور اسے بخش دیا گیا کیونکہ غرور قبیلہ رباب کا بھانجا تھا، بہر صورت اپنے ہم معاہد کا احترام واجب ہے!توجہ فرمائیے کہ وہ عفیف کی زبانی درج ذیل اشعار میں کس طرح خاندان رباب کا نام لیتا ہے:

کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم تمیم کے سرداروں اور رباب کے بزرگوں نے کس طرح دشمن کے ہم پیمانوں کو تہس نہس کیا ذلیل و خوار کرکے رکھدیا۔

یعنی سیف نے اس مسئلہ کو ایسے پیش کیا ہے کہ قبیلہ رباب کو یہ حق تھا کہ وہ عفیف سے ''غرور'' کی آزادی کی اُمید رکھیں ۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ علاء اور اس کے سپاہیوں کے لئے ''دھنا '' کے صحراء میں بیٹھے اورشفاف پانی کے چشمے جاری ہونے کا افسانہ ابوہریرہ کی روایت کی وجہ سے دست بدست پھیلاہے۔ سیف نے خاص موقع شناسی کے پیش نظر فرصت سے فائدہ اٹھاکر اس روایت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، روایت میں ابوہریرہ کی خالی چھوڑی گئی جگہوں کو پر کرکے اور داستان میں دست اندازی کرکے اسے زیبا اور پرکشش بنادیا ہے اور اسے ایک قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب ''فتوح'' میں درج کیا ہے۔

لیکن ابوہریرہ کی روایت میں اپنے دیرینہ دشمن علاء جیسے ایک قحطانی یمانی شخص کے لئے کرامت اور غیر معمولی کارنامے دیکھ کر تاریخ میں مداخلت اور ہیر پھیر کرکے ابوہریرہ کے اس جھوٹے با افتخار میڈل کو بھی علاء کے سینہ سے نوچ کر پھینک دیتا ہے۔ملاحظہ فرمایئے سیف اپنے افسانہ کے ضمن میں فتوحات اور لشکر کشی میں علاء کی ''سعد وقاص مضر می '' اسے حاسدانہ دیکھا دیکھی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:

۱۲۰