ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب10%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138212 / ڈاؤنلوڈ: 4308
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح ونظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیش کش : معاونت فرہنگی، ادارہ ترجمہ

کمپوزنگ: محمد جواد یعقوبی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہ السلام

طبع اول: ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ئ

تعداد: ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ سید مرتضیٰ عسکری کی گرانقدر کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

تمہید :

* ایک ذمہ دار دانشور کے خطوط

* ایک جامع خلاصہ

* مقدمۂ مولف

۷

ایک ذمہ دار دانشورکے خطوط:

عام اسلام کے خیر خواہ علماء اور دانشوروں نے ہماری تالیفات کے سلسلہ میں کئی شفقت بھرے خطوط لکھے ہیں ان میں سے ایک حلب (شام) کے دنیائے علم و دانش کے شہرت یافتہ عالم ، مرحوم شیخ محمدسعید دحدوح ہیں ۔یہاں پر ہم یاد گار کے طور پر مرحوم کے دو خطوط کا ترجمہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرحوم نے اپنا دوسرا خط ہماری کتاب ''١٥٠جعلی اصحاب '' کی پہلی جلد حاصل کرنے کے بعد ہمیں ارسال کیا تھا۔

(مؤلف)

۸

پہلا خط:

بسمه تعالٰی و له الحمد ،وصلاته و سلامه علی سید نا محمد وعلی آله

میرے دینی بھائی اور ایمانی دوست حجة الاسلام جناب مرتضیٰ عسکری صاحب :

سلام علیکم و رحمة الله و برکاته

آپ کی اتنی محبت و مہربانیاں ،تحقیق و نیک کاموں میں انتھک کوششیں اور سچ اور جھوٹ کو جدا کرکے حقائق کو واضح کرنے کی آپ کی یہ ہمت و ثابت قدمی قابل ستائش ہے ۔

جو امر مجھے آپ سے آپ کی کتابیں اور تالیفات کی درخواست کرنے کا سبب بنا ،وہ حقائق کو پانے کی میری شدید طلب ،صحیح مطالب کی تلاش و جستجو کی نہ بجھنے والی پیاس ، آزاد فکر و اندیشہ کے نتائج کو جاننے کی بے انتہا چاہت اور محققین کے نظریات کو جاننے کی میری انتہائی دلچسپی ہے ،تاکہ اختلافی مسائل کے سلسلے میں ایسے محکم و قوی دلائل و برہان کو پا سکوں جن میں کسی قسم کی چوں و چرا کی گنجائش نہ ہو۔

خدا ئے تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عنایت فرمائے،گزشتہ کئی مہینوں سے میرے ساتھ روا رکھے لطف و محبت کے سلوک کے ضمن میں آپ نے اظہار فرمایا ہے کہ میری مطلوبہ کتاب کے علاوہ تازہ تالیف کی گئی کتاب بھی پوسٹ کرنے کے لئے میں اپنا پتا بھیج دوں (تاکہ اس کے پہنچنے کا اطمینان حاصل ہو سکے ) مہر بانی کرکے اسے میرے درج ذیل پتہ پر ارسال فرمائیں ۔

...میں آپ کی ان محنتوں اور زحمتوں کے لئے پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں اور رحمتوں سے مالا مال دن اور راتوں والے مبارک رمضان کی آمد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں

اپنے چاہنے والے اور بھائی کا سلام و درود قبول فرمایئے۔

محمد سعید دحدوح

سوریہ ۔حلب النوحیہ ،الزقاق المصبنہ

٢٠ شعبان ١٣٩٤ھ مطابق ١٨ستمبر ١٩٧٤ ع

۹

دوسرا خط :

بسم اللّٰه الرّحمٰن الرّحیم

بسمه تعالی و له الحمد ،وصلاته و سلامه علی سید نا محمد وعلی آله و من اتبع هداه

میرے دینی بھائی اور ایمانی دوست جناب سید مرتضیٰ عسکری صاحب :

سلام علیکم و رحمة الله و برکاته

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی تعریف ،تجلیل اور شکر گزاری میں کن الفاظ اور جملات کا سہارا لوں تاکہ جہل و نادانی کی تاریکی سے حقائق کو نکال کر حق و حقیقت کے متلاشیوں کے حوالے کرنے میں آپ کی انتھک کوششوں کے حق کی ادائی ہو سکے ،اور عصر حاضر و مستقبل کی نسلوں کے لئے صدیوں تک مسلم اور ناقابل انکار حقائق کے طور پر قبول کئے گئے مطالب سے پردہ اٹھا کر حقائق کا انکشاف کرنے کی آپ کی قابل تحسین مجاہد توں اور کوششوں کی قدر دانی ہوسکے۔

ہمارے متقدمین علماء نے سیف کی یوں تعریف کی ہے:

''سیف سبوں کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے اور اس کی باتیں بے بھروسہ ہیں ۔''

اور ابن حبان کہتا ہے: سیف پر زندیقیت کا الزام ہے ۔

وہ مزید کہتا ہے :

''اس کی باتیں جھوٹی ہیں ۔''

اس کے باوجود ان میں سے کسی نے یہ جرأت نہیں کی ہے کہ اس کے جھوٹے چہرے سے پردہ چاک کرکے لوگوں میں یہ اعلان کرے کہ اس کی داستانیں افسانوی ہیں اور اس طرح اس کی تخیلاتی مخلوق کی نشاندھی کرے۔ آخر کار آپ جیسے محقق اور ماہر شخص نے آکر عصر حاضر اور آئندہ نسلوں کے لئے اس معنی خیز ضرب المثل کو ثابت کرکے دکھا دیا کہ:''کم ترک الاول للآخر'' ''اسلاف نے آنے والی نسلوں کے لئے کتنے اہم کام چھوڑ رکھے اور ابو العلاء معری کی یہ بات آپ کے حق میں صادق آتی ہے:وانیّ ''لآت بما لم تستطعہ الاوائل'' میں ایک ایسا کام انجام دونگا جسے اسلاف انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے تھے!''

بے شک ، آپ نے اس ناہموار راہ کو ہموار بنادیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے جلائے ہوئے چراغ سے اس راہ کو روشن و منور کردیا ہے اور ایسے متعدد دلائل اور راہنمائیاں فراہم کی ہیں جن سے حق و حقیقت کے متلاشیوں کے لئے اس جھوٹ کو پہچاننے میں مدد ملے گی، جسے لوگ صدیوں سے حقیقت

۱۰

سمجھ بیٹھے تھے اور اس کے عادی ہو چکے تھے، اب آئندہ نسلیں اس بارے میں وسیع النظری ، کے ساتھ حقائق سے آشنا ہوکر بحث و مباحثہ کریں گی۔

یہاں پر میرا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ:

''اسلاف کی بزرگی و احترام اپنی جگہ محفوظ و مسلم ہے۔''

ہمیں اس بات پر تعجب ہے کہ ایک پڑھا لکھا اور محقق شخص ، جس نے قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی سے علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، نے محمد بن عثمان ذہبی کی کتاب ''المغنی فی الضعفاء '' جس میں سیف کو زندیق کہا گیا ہے پر ایک مقدمہ کے ضمن میں لکھا ہے :

''سیف کے زندیقی ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ دستیاب اخبار و روایات اس کے برعکس مطالب کو ثابت کرتے ہیں ۔''

گویا ڈاکٹر صاحب کی نظر میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کی فتوحات کے مجاہدین پر چھوٹے الزامات لگانا اور ان پر ظلم و دہشتگردی کی تہمتیں لگانا کوئی ناروا کام نہیں ہے!!

خدا کے حضور آپ کا یہ کام محترم و معزز قرار پائے! اور پروردگار آپ کے اس اہم کام اور آپ کے نتیجہ خیز افکار و نظریات پر مبنی دیگر تحقیقاتی کاموں کو سہل و آسان فرمائے اور ہم عنقریب دیکھیں کہ علم و دانش کی موجودہ دنیا کا ہر محقق آپ کی گراں قدر اور قابل تحسین زحمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر کے آپ کی شب و روز کی انتہک جدو جہد کی قدر کرے گا۔

درود و سلام ہو ان بلند ہمت افراد پر جنہوں نے آپ کی اس گراں قدر تالیف کی اشاعت میں آپ کا تعاون کرکے ہمیں اس قیمتی تحفے سے نوازا ہے ۔

اُمید ہے اپنی اس تالیف کی باقی جلدیں بھی چھپتے ہی مجھے ارسال کرکے مشکور فرمائیں گے...

اپنے اس عزیز بھائی کا سلام قبول فرمائیے۔

دستخط

محمد سعید دحدوح

٢٧شوال ١٣٩٤ھ ۔١٩٧٤١١١١ئ

۱۱

ایک جامع خلاصہ

چونکہ اس قسم کے علمی مباحث کی گزشتہ بحثوں کا ایک جائزہ لینا قارئین کرام کو مطالب کے سمجھنے اور ہمارے مقصد کو درک کرنے میں مدد دے گا ،اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ یہاں پر لبنان کے معاصر مفکر و دانشور اور قابل قدر استاد جناب رشاد دارغوث کا وہ خلاصہ پیش کریں جو انھوں نے اس کتاب کی پہلی جلد کی ایک مفید و اہم بحث کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے:

کتاب کی شکل و صورت

'' اصول دین کا لج '' بغداد کے پر نسپل جناب استاد عسکری کی کتاب ''١٥٠جعلی اصحاب'' ، شکل و صورت ، مطالب اور موضوع کے لحاظ سے انتہائی گراں بہا و دلکش علمی کتابوں میں سے ایک ہے ،جو ابھی کچھ دنوں پہلے دنیائے علم و دانش میں منظر عام پر آئی ہے ۔مذکورہ کتاب بغداد کے ''اصول دین کالج '' کے پرنسپل جناب مرتضی عسکری کی تالیف ہے اور یہ کتاب بیروت کے ''درارالکتاب پبلیشنز'' کی طرف سے ٤٢٠صفحات پر مشتمل درجہ ذیل صورت میں شائع ہوئی ہے :

اس کے ٧٠ صفحات مختلف فہرستوں پر مشتمل ہیں ۔ان فہرستوں کے مطالعہ سے کتاب میں موجود مختلف مطالب کاآسانی کے ساتھ اندازہ کیاجاسکتاہے ۔جن مصادر واسناد پر کتاب میں تکیہ کیا گیا ہے اوران سے استناد کیاگیاہے وہ اس فہرست میں مشخص کئے گئے ہیں ۔اس طرح اس کتاب میں ذکرکئے گئے قبائل وخاندان کے نام ،معروف حکومتوں کے نام ،ہرمذہب کے پیروؤں اور ہر گروہ کے طرفداروں کے نام حدیث کے راویوں ،شعراء ،مؤلفین نیز،قرآن مجید کی آیات ،پیغمبر اسلام کی احادیث،دلیل وشواہد کے طور پرپیش کئے گئے اشعار ،شہروں کے نام،گاؤں کے نام ،جغرافیائی مقامات اور ممالک ،تاریخی واقعات ،خطوط،عہدناموں اور فرمان ناموں کو اس کتاب میں علمی روش کے تحت اپنی اپنی جگہ پر حروف تہجی کی ترتیب سے منظم اور مرتب فہرست کی صورت میں پیش کیا گیا ہے

۱۲

کتاب کے مطالب

یہ کتاب سیف بن عمر تمیمی کے گڑھے ہوئے ''١٥٠ جعلی اصحاب'' میں سے ٣٩(۱) جعلی اصحاب کے تعارف پر مشتمل ہے،جنھیں سیف نے ذاتی طور پر جعل کرکے ان کے خیالی وجود کو واقعی صورت میں پیش کیاہے ،ان سے حدیث روایت کی ہے اور عظیم تاریخی واقعات کو جو کہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے ،ان سے منسوب کیاہے۔

مؤلف محترم اس تلخ حقیقت تک پہنچنے کے لئے سیف کی زندگی کے مطالعہ کے دوران اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ :سیف پر جھوٹ بولنے اور حدیث گڑھنے میں شہرت رکھنے کے علاوہ زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا۔لیکن ہمارے گزشتہ مصنفین اور مؤلفین نے صرف اس لئے کہ اس نے

''الفتوح الکبیرة'' و''الجمل ومسیرعلی وعائشہ'' نام کی دوکتابیں تالیف کی ہیں ،سیف کونہ صرف ایک نامور واقعہ نگار جاناہے بلکہ اس کی روایتوں اور باتوں کو صدر اسلام کے مہمترین تاریخی اسناد کے طور پر پہچانا ہے۔

____________________

(۱) طبع اول ان ٣٩ صحابیوں میں سے ٢١ افراد خاندان تمیمی کے ذکر ہوئے تھے لیکن دوسری طبع میں ان کی تعداد ٢٣ تک بڑھ گئی ہے۔

۱۳

زندیقیوں کا مسئلہ

اس کے بعد مؤلف ،''زندیق'' اور ''زندیقیت'' کے عام معنی کی تشریح کرتے ہیں پھر اس کے اصلی معنی ومفہوم پر بحث کرتے ہیں اور سیف بن عمر کے زمانے کے چند نامور زندیقیوں جیسے ''ابن مقفع،ابن ابی العوجاء اور مطیع بن ایاس'' کا ذکر کرتاہے۔اور اس سلسلے میں ایک مفصل بحث کے بعد نتیجہ حاصل کرتاہے کہ اس زمانے میں زندیقیت نے ان لوگوں کے درمیان پوری طرح رواج پالیاتھا جو دین مانی اور مانوی گری سے دلوں میں ایمان پیدا کئے بغیر اسلام کی طرف مائل ہوئے تھے ۔اس کے بعد لکھتے ہیں :

''یہ زندیقیوں کے چند نمونے تھے ،جن کا عمل وکردار سیف کے زمانے کے مانویوں کی سرگرمیوں کا مظہر ہے۔ ان میں سے ایک شخص زندیقیوں کی کتابوں کا ترجمہ کرتاہے اور مسلمان معاشرے میں انھیں رائج کرتاہے ۔ دوسرا ،بے باکی اور بے شرمی وبے حیا ئی ،اور کھلم کھلا فسق وفجور ،بد کاری ،بد اخلاقی اور غیر انسانی عادات کا نمونہ ہے اور ان افعال کو مسلمان نوجوانوں میں پھیلاتاہے،اور تیسرا اپنے دو پیشرؤں سے زیادہ سرگرمی ،پشتکار کے ساتھ ہر شہر ودیہات میں ایک عجیب ثابت قدمی سے مسلمانوں کے ایمان وعقائد میں شک وشبہہ اور تشویش پھیلانے میں سرگرم ہو تاہے اور فتنوں وبغاوتوں کو برپاکرنے اور لوگوں کے اسلامی اعتقادات کو سست کرنے کی سر توڑ کوشش کرتاہے اور اپنے دو پیشرو ساتھیوں کی طرح زندیقیوں کے عقائد وافکار کی ترویج میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتاہے حتی جلاد کی تلوار کے نیچے بھی مسلمانوں میں شک وشبہہ پیدا کرنے سے گریز نہیں کرتاہے اور اعتراف کرتاہے کہ اس نے اکیلے ہی چار ہزار احادیث جعل کی ہیں اور انھیں لوگوں میں اس طرح رائج کردیا ہے کہ حلال کوحرام اور حرام کو حلال کردیاہے !!اگر اس شخص ابن ابی العوجاء نے اکے لئے ہی چار ہزار جھوٹی حدیث جعل کی ہیں ....تو سیف نے ہزار ہا ایسی احادیث جعل ہیں جن میں

۱۴

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاک ترین اور با ایمان ترین صحابیوں کو پست ،کمینہ اور بے دین ثابت کرکے ان کے مقابلے میں ظاہری اسلام لانے والوں اور جھوٹ بول کر اسلام کا اظہار کرنے والوں کو پاک دامن ،دین دار اور قابل احترام بناکر پیش کیاہے!اس طرح دنیائے علم وتحقیق کو حق و حقیقت کے خلاف ان دو موضوعوں کے مد مقابل حیرانی و پریشانی سے دوچار کردیاہے۔

وہ اسلام میں خرافات سے بھرے ہوئے افسانے وارد کرنے میں کامیاب ہواہے تا کہ مسلم حقائق کو شک وشبہات کے پردے کے پیچھے مخفی کردے اس طرح وہ مسلمانوں کے عقائد وافکار پر بُرا اور ناپسند اثر ڈالنے اور اس دین الٰہی کے بارے میں غیروں کے افکار کو دھندلا اور مکدر بنانے میں کامیاب ہواہے''

جذبات کو بھڑکانا

سیف کی خراب کاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے جاہلیت کے تعصب کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔وہ قبائل نزار جو زر وزور اور اقتدار وقانون کے مالک تھے اور خلفائے راشدین نیز اموی اور عباسی خلفاء سب کے سب اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے کے بارے میں اپنے تعجب خیز تعصباتی لگاؤکا اظہار کرتاہے ،یہاں پر محترم ودانشور مولف قبائل نزار ومضر اور قبائل قیس ویمانی کے درمیان اسلام سے پہلے کے خشک خاندانی تعصبات اور اپنے تئیں فخرو مباہات کے اظہار نیز دوسرے قبائل کے خلاف دشنام ،توہین اور برا بھلا کہنے اور اسلام کے سائے میں بھی اس تعصب و دشمنی کے استمرار کے سلسلے میں تشریح کرتے ہوئے لکھاہے :

۱۵

''پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی ،وہاں پر اوس وخزرج نامی دو قبیلے رہتے تھے ، دونوں قبیلے یمانی تھے۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے والے جنھوں نے ''مہاجر'' کالقب پایاتھا قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔یہ دو دشمن قبیلے جو آپس میں دیرینہ دشمنی رکھتے تھے ،شہر مدینہ میں اپنی باہم زندگی کے دوران دو بار ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے قرار پائے کہ قریب تھا جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں ۔ پہلی بار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذاتی طور پر مداخلت فرمائی اور ان بھڑکنے والے شعلوں کو جو خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے تھے،اپنی تدبیر،حکمت عملی اور اسلام کی طاقت سے بجھادیا۔دوسری بار جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس خاندانی جذبات اور جاہلیت کے تعصبات نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے مسئلے پر پھر سے سر اٹھایا تو حالات ایسے رونما ہوئے کہ نزدیک تھا خوں ریزی برپا ہو جائے اور تازہ قائم ہوا اسلام نابود ہوجائے ۔یہاں پر خاندانی تعصب ودشمنی کے شعلے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی ـکی فہم وفراست کے نتیجہ میں بجھ گئے''

محترم مؤلف نے بہترین انداز میں تشریح کی ہے کہ بنیادی طور پر تعصب مردود ومنفور اور قابل نفرت ہے اور دنیائے شعرو ادب کے لئے افراط وزیادتی کا سبب ہے لیکن سیف ان میں سے کسی ایک کی طرف توجہ کئے بغیر جو کچھ انجام دیتاہے اپنے تعصب کے بنا پر انجام دیتاتھا۔اسی لئے اس نے شعراء کی ایک جماعت کو خلق کیاہے تاکہ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ قبیلہ مضر،خاص کر خاندان تمیم کے لئے سیف کے جعل کردہ فخرومباہات کا تحفظ کریں ۔اس کے علاوہ اپنے خاندان ''تمیم ومضر'' سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اصحاب جعل کئے ہیں اور ان کے بارے میں ثابت کیاہے کہ وہ اسلام کو قبول کرنے میں پیش قدم ہونے کی وجہ سے صاحب فضیلت واعتبار ہیں ۔مزید یہ کہ خاندان مضر سے ایک گروہ کو فوج کے سپہ سالار اور حدیث کے راویوں کے طور پر جعل کیاہے ۔اس نے قبیلہ مضر اور اپنے خاندان تمیم کے بارے میں اس قدر فضیلت وبرتری پر ہی اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اس نے اپنے تعصب اور احساس برتری کی بناء پر اپنے قبیلہ کے افتخارات کو محکم وپائیدار کرنے کے لئے جنوں سے بھی کام لیا ہے اور ایسے جنات تخلیق کئے ہیں جو تمیم اور مضر کے خاندان کے بہادروں اور دلاوروں کی فضیلتوں کے اشعار کو فضا میں گاتے ہیں تاکہ دنیا والوں کے کانوں تک ان کی فضیلتوں کو پہنچادیں ! اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان مضر سے باہر بھی چند افراد خلق کئے ہیں جو اس کے قبیلے کے خیر خواہ ،طرفدار کی حیثیت سے خاندان تمیم اور مضر کانام روشن کرنے کے لئے ان کے پرچم تلے جنگوں میں شرکت کرتے ہیں تاکہ خاندان تمیم ومضر کے فضل وشرف سے دوسرے درجے کی فضیلت کے مالک بن جائیں ۔

۱۶

علم ولغت کے مصادر میں سیف کا رول

اس طرح ،سیف کی تخلیق کی بناء پر جھوٹے اور افسانوی اصحاب اور تابعین کی ایک بڑی جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب وتابعین کی صف میں شامل ہوجاتی ہے اور یہ لوگ تاریخ اسلا م میں اپنے لئے ایک مقام بنالیتے ہیں !!سرانجام مولف محترم ثابت کرتے ہیں کہ سیف کے اس جھوٹ ،افسانوں ،حقائق میں ترمیم اور مجاز کے منحوس سائے بعد میں اصحاب وتابعین کے حالات کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں پر وسیع پیمانے پر نظر آتے ہیں اور ان میں سیف کے جعل کردہ اصحاب وتابعین مخصوص مقام پر دکھائی دیتے ہیں ،جیسے:

بغوی (وفات ٣١٧ھ )کی ''معجم الصحابہ''

ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ)کی '' اسد الغابہ''

ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) کی '' الاصابہ''

ان کے علاوہ حالات زندگی بیان کرنے والے اور بہت سے مأخذ بھی ہیں ان ہی مقاصد کو فتوحات سے مربوط فوجی سرداروں کے حالات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں مد نظر رکھا گیا ہے ، جیسے:

''طبقات ابوزکریا'' (وفات ٣٣٤ھ )

''تاریخ دمشق '' ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ)

اور دوسری کتابیں ۔

اس حد تک کہ سیف کے جعل کردہ اس قسم کے افسانوی پہلوانوں کے خاندان اور شہرت ، مقامات اور جھوٹے و فرضی کیمپوں کے بارے میں ابہام و اشکالات کو دور کرنے کے لئے مجبور ا کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان پر شرح و تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں یہ افسانے اور جھوٹ ،کا بوس بن کر تاریخ کی گراں سنگ اور معتبر کتابوں ،جیسے : تاریخ طبری ،ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلدون پر چھا گئے ہیں ۔حتیٰ ادب کی کتابیں ،جیسے : اصفہانی کی '' اغانی'' لغت کی کتابیں ،جیسے '' لسان العرب '' ابن منظور اور حدیث کی کتابیں جیسے : ''صحیح ترمذی '' بھی سیف کے تصرف اور اس کے جھوٹ اور افسانوں کے نفوذ سے محفوظ نہیں رہی ہیں ۔

۱۷

خلاصہ:

یہ کہ استاد عسکری نے اپنی کتاب کی اس جلد میں ١٥٠جھوٹے اصحاب میں ٣٩ ،اصحاب (جو برسوں اور صدیوں تک حقیقت اور عینی وجود کے پردے کے پیچھے خود کو مخفی کئے ہوئے تھے اور ان کا وجود ناقابل انکار بن چکا تھا ) کی شناسائی کرکے انھیں تشت از بام کیا ہے ۔ان افسانوی اصحاب میں سے بیس اصحاب خاندان تمیم یعنی سیف کے اقربا ہیں اور مولف نے ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک الگ فصل مخصوص کی ہے ۔اور دقت نظر اور علمی روش کے تحت ان کے بارے میں بحث و تحقیق کی ہے اس کے بعد ان کے بارے میں سیف اور دیگر مورخین کے نظریات کا موازنہ کرکے قطعی اور ناقابل انکار دلائل کے ذریعہ ان میں سے ہر ایک کا افسانوی ،خیالی،و فرضی ہونا ثابت کیا ہے ۔

ہمار ا اعتقاد یہ ہے کہ اس قسم کی موضوعی تحقیق و بحث جو صرف علمی پہلو کی حامل ہے ،اس پر خطر اور نشیب و فراز والی راہ میں جس کا آغاز ،استاد عسکری نے اپنی تحقیق اور اس کتاب کے ذریعہ کیا ہے ،علماے دین اور حقائق کے متلاشیوں کی ہمت و کوشش سے جو اس سلسلے میں دوسروں سے زیادہ سرگرمی دکھانے کے مستحق ہیں گراں قیمت اسلامی آثار کو آلودگیوں سے نہ صرف اعتقادی لحاظ سے بلکہ ہر دو لحاظ سے ،یعنی فقہی و دینی لحاظ سے پاک کرنے کی ضرورت ہے کہ ممکن ہے کہ ان موارد کے پیچھے جھوٹ یا دخل و تصرف دونوں کے کتنے ہی چہرے پوشیدہ اور مخفی ہوں ۔

اس قسم کے حقائق کو رائج اور ایسی سرگرمیوں کا آغاز کرکے استاد عسکری نے اپنی ثمربخش اور نتیجہ خیز کو ششوں کو دنیائے علم و دانش خاص کر عالم اسلام جو تہذیب و تمدن اور دنیا و آخرت کی بھلائی کو وجودمیں لانے والی عظیم طاقت ہے کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔

رشاد دار غوث

۱۸

مقدمۂ مؤلف

اس کتاب کی پہلی جلد ١٣٨٧ھ میں پہلی بار چھپ کر منظر عام پر آگئی ،لیکن اس میں درج کئے گئے اشعار کے بارے میں تحقیق کرنے کی فرصت پیدا نہ ہو سکی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ میں نے مذکورہ اشعار کو بد خط قلمی نسخوں سے نقل کیا تھا کہ غالبا الفاظ اور عبارتوں کے لحاظ سے ان میں بہت سی غلطیاں موجود تھیں ۔

کتاب کی طباعت میں یہ عجلت اور اشعار کے بارے میں عدم تحقیق و دقت اس لئے تھی کہ بغداد میں(۱) '' اصول دین کالج '' کی جو بنیاد ہم نے ڈالی تھی ،انہی دنوں اس کی عملی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں ،اس لئے ہم مجبور تھے کہ ایک علمی کتاب شائع کرکے دیگر اداروں ،کالجوں اور یونیور سٹیوں میں اس کا تعارف کرائیں ۔

اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ کتاب کو اس صورت میں کالج کی مطبوعات میں سے ایک

____________________

۱۔'' اصول دین قومی کالج '' کی بنیاد ١٣٧٤ھ کو بغداد میں ڈالی گئی ۔طالب علموں کو اس کا لج سے علوم قرآن ، حدیث، عربی، ادبیات میں گریجویش کی ڈگری دی جاتی تھی ۔ہم ان دنوں اس کوشش میں تھے کہ اس کالج کے پہلے گروپ کے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی اس کی اسناد کوبغداد یونیورسٹی اور دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں سے رجسڑیشن کرائیں ۔

۱۹

کتاب کے طور پر شائع کرکے منظر عام پر لائیں ۔شعر و شاعری حتیٰ حوادث و واقعات ،جو ایسی رجز خوانیوں اور رزم ناموں کو وجود میں لانے کا سبب بنے تھے ،کے جعلی ثابت ہونے کے بعدان کی عبارتوں اور اشعار کے تلفظ کے بارے میں تحقیق نہ فقط غیر ضروری تھی بلکہ اس سے کتاب کے بنیادی مقصد اور اس کے علمی مطالب کوکوئی ضرر نہیں پہنچتاتھا۔

اس کے علاوہ طے یہ پا یاتھا کہ اس کتاب کی پہلی جلد ،خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے مخصوص ہو۔لیکن ہم نے دروغ بافی کے تنوع اور غیر تمیمی صحابیوں کی تخلیق ثابت کرنے کے لئے یہ مناسب سمجھاکہ کتاب کی آخر میں چند غیر تمیمی افسانوی اصحاب کابھی اضافہ کریں اس طرح اس کتاب کی پہلی جلد (عربی میں )بیروت سے شائع ہوئی۔

اس کتاب کی طباعت کے فوراًبعد اس کاپرجوش استقبال کیاگیا،حتیٰ بعض ناشروں نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کتاب کو دوبارہ آفسٹ پرنٹنگ میں چھاپنے کی اجازت دیدوں ۔میں نے اپنے گزشتہ تجربہ کے پیش نظر انھین اس چیز کی اجازت نہیں دی لیکن میری عدم موافقت کے باوجود یہ کتاب دوبارہ چھاپی گئی اور اس کے ہزاروں نسخے چاہنے والوں تک پہنچے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں ان دنوں زیر بحث اشعار کی تحقیق و تصحیح میں لگا ہوا تھا۔ اس کام سے فراغت پانے کے بعد میں نے اس کتاب کی آخر سے دو غیر تمیمی اصحاب کو حذف کرکے ان کی جگہ پر سیف کے دو دیگر جعلی تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات کا اضافہ کرکے اس کی دوبارہ طباعت کا اقدام کیا ۔اس طرح حقیقت میں اب کہا جاسکتا ہے کہ کتاب ''جعلی اصحاب'' کی پہلی جلد مکمل اور تصحیح شدہ صورت میں ١٣٨٩ھ میں بعداد سے شائع ہو ئی ہے ۔

خدائے تبارک و تعالیٰ اس کام کو جاری رکھنے اور ان عملی مباحث کو مکمل کرنے میں میری مدد فرمائے!۔

مرتضیٰ عسکری

۲۰

پہلا حصہ: بحث کی بنیادیں

* گزشتہ بحثوں پر ایک نظر

* سیف بن عمر کے جھوٹ اور افسانے پھیلنے کے اسباب

* دس اور کتابیں جن میں سیف سے اقوال نقل کئے گئے ہیں

۲۱

گزشتہ بحثوں پر ایک سرسری نظر

ہم نے کتاب ''عبد اللہ ابن سبا '' اور ''ایک سو پچاس جعلی اصحاب '' میں مشاہدہ کیا کہ سیف کی بے بنیاد اور جھوٹی احادیث اور باتوں نے اسلامی معارف اور لغت کی معتبر اور اہم کتابوں میں اس طرح نفوذ کیا کہ ہر محقق عالم کو حیرت و سرگردانی کا سامنا ہوتا ہے۔

ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد میں سیف کے جھوٹ کے پھیلنے کے چند اسباب تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں ۔ یہاں پر ان کی طرف ایک مختصر سا اشارہ کیا جاتا ہے:َ

١۔سیف نے اپنی باتوں کو ہر زمانہ کے حکام اور ہر زمانہ کے اہل اقتدار کے ذوق اور ان کی خواہش و پسند کے مطابق مرتب کیا ہے کہ ہر زمانہ کا حاکم طبقہ اس کی تائید کرتا ہے !

٢۔سیف نے سادہ لو عوام کی کمزوری کا خوب فائدہ اٹھا یا ہے کہ یہ لوگ اپنے اسلاف کے بارے میں حیرت انگیز کارنامے اور ان کی منقبتیں سننے کے مشتاق ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان سادہ لوح اور جلدی یقین کرنے والوں کے لئے اسلاف کی بہادریاں اور کرامتیں خلق کرکے ان کی خواہشیں پوری کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

٣۔ سیف نے ش شعر و رجز خوانیوں کے دلدادوں اور ادبیات کے عاشقوں کو بھی فراموش نہیں کیاہے بلکہ ان کی پسند کے مطابق اشعار کہے ہیں اور رزم نامے و رجز خوانیاں لکھی ہیں اور ان اشعار و رجز خوانیوں سے ان کی محفلوں کو گرمی ورونق بخشی ہے۔

٤۔تاریخ نویسوں ، راویوں ، واقعہ نوسیوں اور جغرافیہ دانوں نے بھی سیف کے حق نما جھوٹ کے دستر خوان سے کافی حد تک فائدہ اٹھا یا ہے اور کبھی واقع نہ ہونے والے تاریخی اسناد ، حوادث اور روئیداد اور ہرگز وجود نہ رکھنے والے مقامات ، دریا اور پہاڑوں سے اپنی کتابوں کے لئے مطالب فراہم کئے ہیں ۔

۲۲

٥۔عیش پرست، ثروتمند اور آرام پسندوں کے لئے بھی سیف کے افسانے اور دروغ بافیاں عیش و عشرت کی محفلوں کی رونق ہیں ۔ سیف نے اس قسم کے لوگوں کی مستانہ شب باشیوں کئے لئے اپنے پر فریب ذہن سے تعجب انگیز شیرین اور مزہ دار داستانیں اور قصے بھی گڑھے ہیں ۔

٦۔ان سب چیزوں کے علاوہ دوسری صدی ہجری کے اس افسانہ گو سیف بن عمر تمیمی کی قسمت نے اس کی ایسی مدد کی ہے کہ وہ عالم اسلام کے مؤلفین میں سر فہرست قرار پیا ہے۔سیف کا زمانے کے لحاظ سے مقد م ہونا اور دیگر علماء و مؤلفین کا مؤخر ہونا سیف کے جھوٹ اور افسانوں کے نقل ہونے کا سبب سے بڑا سبب بنا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ انہی مؤلفین کی اکثریت سیف کو جھوٹا، حدیث گڑھنے والا، حتیٰ زندیق ہونے کا الزام بھی لگاتی ہے۔

سیف کا یہی امتیاز کہ وہ ایک مؤلف تھا اور اس نے دوسری صدی ہجری کی پہلی چوتھائی میں (افسانوی اور حقائق کی ملاوٹ پر مشتمل افسانوی)تاریخ کی دوکتابیں تألیف کی ہیں اس کا سبب بناہے کہ اسلام کے بڑے بڑے مؤلفین نے ، وقت کے اس عیّار کی دھوکہ بازی اور افسانوں سے بھری تحریروں سے خوب استفادہ کیا اپنی گراں قدر اور معتبر کتابوں کو ، حقیقی اسلام کو مسخ کرنے والے اس تخریب کا ر کے افسانوں اور جھوٹ سے آلودہ کربیٹھے ۔

بعض سر فہرست مؤلفین ، جنہوں نے اسلامی تاریخ و لغت کی کتابوں میں سیف بن عمر سے روایتیں نقل کی ہیں ، حسب ذیل ہیں :

١۔ابو مخنف، لوط بن یحییٰ (وفات ١٥٧ھ)

٢۔نصر بن مزاحم بن یحییٰ (وفات ٢٠٨ ھ)

٣۔خلیفہ بن خیاط بن یحییٰ (وفات ٢٤٠ھ)

٤۔بلاذری بن یحییٰ (وفات ٢٧٥ھ)

٥۔طبری بن یحییٰ ( وفات ٣١٠ھ)

۲۳

اس کے علاوہ دسیوں دیگر نامور اور محترم مؤلفین بھی ہیں ۔

یہ اور ان جیسے مؤلفین سبب بنے کہ سیف کی جھوٹی اور افسانوی باتیں اسلام کے اہم اور قابل اعتبار مصادر میں درج ہوگئیں ۔ ہم نے ان میں سے ٦٨ مصادر و مآخذ کی طرف اس کتاب کی پہلی جلد میں اشارہ کیا ہے اور اب ان مصادر میں چند دیگر افراد کا ذیل میں اضافہ کرتے ہیں جنہوں نے سیف بن عمر سے مطالب نقل کئے ہیں :

٦٩۔ابو القاسم ، عبد الرحمان بن محمد اسحاق مندہ (وفات ٤٢٧ھ)، کتاب ''التاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث'' میں ۔

٧٠۔ الصاغی ، حسن بن محمد القرشی ، العدوی العمری (وفات ٦٥٠ھ) کتاب ''در السحابہ، فی بیان مواضع و فیات الصحابہ'' میں ۔

٧١۔عبد الحمید ،ابن ابی الحدید معتزلی (وفات ٦٥٥ ھیا٦٥٦ھ)کتاب''شرح نہج البلاغہ'' میں ۔

٧٢۔مقریزی ،تقی الدین احمد بن علی بن عبد القادر (وفات ٨٤٨ھ )کتاب ''الخطط''میں ۔

مشاہدے کے مطابق سیف بن عمر کے افسانے اور جھوٹ (ہماری دست رس کے مطابق ) ہماری در پیش بحث سے مربوط ،اسلام کی ٧٨معتبر اور گراں سنگ کتابوں میں درج ہوئے ہیں ۔اب ہم محققین محترم کی مزید اطلاع ،معلومات اور راہنمائی کے لئے مواخر الذکر مطالب کے صفحات کے حوالے بھی حسب ذیل ذکر کرتے ہیں :

گزشتہ بحث کے اسناد

١۔تاریخ المستخرج من کتب الناس فی الحدیث عبید بن صخرکے باپ بن لوذان کے حالات زندگی میں

٢۔صاغی کی درالسحابہ ،ص١٤ ،اسعد بن یربوع کے حالات میں

٣۔''شرح نہج البلاغہ '' ابن ابی الحدید معتزلی (١٨٦٤)

٤۔''الخطط مقریزی ''طبع مصر ١٣٢٤ھ صفحات (١٥١١و١٥٦)و(١٤٦٤)

٥۔فتح الباری (٧،٥٨و٥٦)

٦۔تاریخ خلفا سیوطی (٨١و٩٧)

٧۔کنز العمال ( ٣٢٣١١و١٥٥١٢و٢٣٩و١٥و٦٩و٢٣٢)

۲۴

دوسرا حصہ:

جعلی صحابی کو کیسے پہچانا جائے؟

* ایک مختصر تمہید

* سیف کی سوانح حیات اور اس کے زمانے کا ایک جائزہ

* جعلی صحابی کی پہچان

* جعلی اور حقیقی روایتوں کا موازنہ

* سیف کے چند جعلی اصحاب کے نام

۲۵

ایک مختصر تمہید

کتاب '' عبداللہ ا بن سبا'' اور اس کتاب کے مختلف مباحث کی بنیاد اسی پر ہے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ سیف ابن عمر تمیمی ان افسانوں ،پہلوانوں ،اماکن اور اس کی خیالی جگہوں کا جعل کرنے والا ہے ۔اس سلسلے میں ہماری دلیل حسب ذیل ہے :

اسلام اور علماے اسلام کے نزدیک روایت (نقل قول) مختلف علوم ،مانند تاریخ ،فقہ ،تفسیر اور دیگر فنون ادب اور لغت کی بنیاد ہے اور وہ اس کے علاوہ خبر حاصل کرنے کے کسی اور منبع کو نہیں جانتے جب کہ دوسروں نے اپنے معلومات کی تکمیل کے لئے مثال کے طور پر اتفاقا آثار و علائم اور دیگر امور کی طرف بھی رجوع کیا ہے اور ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔

چوں کہ علماے اسلام کا طریقہ یہی رہا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ،اس لئے وہ مورد نظر روایت کو نسل بہ نسل اپنے متقدمین سے حاصل کرتے ہیں تاکہ اس طرح خبر واقع ہونے کے زمانے اور روایت کے مصدر تک پہنچ جائیں ۔ان کے نزدیک خبر کے سر چشمہ تک پہنچنے کی صرف یہی ایک راہ ہے اور وہ اس سے نہیں ہٹتے نہ کسی اور جگہ سے الہام لیتے ہیں ۔

اب اگر ہم مذکورہ علوم کے بارے میں علماے اسلام کی کتابوں کی طر ف رجوع کریں تو جوکچھ انہوں نے روایت کی ہے اس کے بارے میں انہیں مندرجہ ذیل دوگروہوں میں سے کسی ایک میں پاتے ہیں :

ان علماء میں سے ایک گروہ مثلاًطبری ،خطیب بغدادی اور ابن عساکر نے جس خبر وروایت کو اپنی تاریخوں میں ذکر کیا ہے اور اس کی سند کو بھی ثبت ومشخص کیا ہے ۔

علماء کاایک دوسرا گروہ مثلاًمسعودی مروج الذہب میں ،یعقوبی ،ابن اثیر ،اور ابن خلدون نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں ذکر کی گئی روایتوں کی سند کاذکر نہیں کیاہے ۔

۲۶

اب ہم مذکورہ وضاحت کے پیش نظر کہتے ہیں :

اگر کسی متأخر مؤلف کے ہاں ہم دیکھتے ہیں کہ جس روایت کو اس نے ذکر کیا ہے اس کی سند کوذکرنہیں کیاہے ۔حتیٰ یہ بھی معین ومشخص نہیں کیا ہے کہ اس خبر کو اس نے کہاں سے لیا ہے توہم اس مطلب کی تحقیق کرتے ہیں اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہ پاتے ہیں کہ یہی خبر من وعن حالت میں کسی قدیمی عالم کی تحریر میں موجود ہے اور بحث وتحقیق کے بعد معلوم ہوتاہے کہ اس متأخر عالم کی خبر کا سرچشمہ یہی قدیمی عالم مؤلف تھا ۔یہاں پر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ مذکورہ خبر کو فلاں متأخر عالم نے فلاں قدیمی عالم سے نقل کیا ہے ۔

درج ذیل مثال مذکور ہ مطالب کی مکمل وضاحت کرتی ہے :

ہم نے جہاں پر سبائیوں کا افسانہ اپنی کتاب ''عبداللہ ابن سبا''کی پہلی جلد میں ذکرکیا ہے وہیں پر یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اس افسانہ کو گزشتہ تاریخ نویسوں ،مؤلفوں و محققوں حتیٰ مشتشرقین نے بھی اپنے طور پر ایک دوسرے سے نقل کیا ہے ،اور اس داستان میں ان کی سند درج ذیل مصادر میں سے کسی ایک پر منتہی ہوتی ہے :

١۔ تاریخ طبری (وفات ٣١٠ھ )

٢۔ تاریخ دمشق ،ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ )

٣۔التمہید و البیان ،ابن ابی بکر (وفات ٧٤١ھ )

٤۔ تاریخ اسلام ،ذہبی ( وفات ٧٤٨ھ)

ہم جب اس مطلب کا سلسلہ تلاش کرتے ہیں اور سبائیوں کی داستان کی سند کو مذکورہ چار مصادر میں جستجو کرتے ہیں تو نتیجہ کے طور پر متوجہ ہوتے ہیں کہ ان سب نے یہ مطلب صرف سیف بن عمر تمیمی سے لے کر اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے اور اپنی اسناد کے سلسلے کو سیف بن عمر تک پہنچاتے ہیں ۔یہاں پر اس جستجو کے بعد ہم پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان افسانوں کو بیان کرنے والا منفرد شخص سیف ہے اور سبائیوں کی داستان اس پورے آب و تاب کے ساتھ صرف سیف کی ذہنی تخلیق ہے کسی اور نے اس کی روایت نہیں کی ہے ۔

۲۷

سیف کی سوانح حیات اور اس کے زمانے کا ایک جائزہ

یہاں پر ہم سیف کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے اس تحقیق کے دوران متوجہ ہوتے ہیں کہ :

١۔ سیف نے اپنی ادبی سرگرمیوں کا آغاز دوسری صدی ہجری کی ابتدا ئی چوتھائی میں کیا ہے۔یہ وہ صدی تھی جس کے دوران عرب دنیا میں خاندانی تعصب کی دھوم تھی ۔جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں قبیلہ عدنان کے شعرا ء اور سخن ور اور جنوب میں قبیلہ قحطان اپنی مدح و ثنا میں اور دسرے کی ہجو اور انھیں بد نام کرنے میں ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔شمالی ،جنوبیوں کے خلاف اور جنوبی جزیرہ نما کے شمال میں رہنے والوں کو دشنام دیتے اور برا بھلا کہتے تھے اور اپنی فضیلتیں ، عظمتیں اور فخر و مباہات بیان کرتے تھے ۔ان ہی میں سیف ایک عدنانی اور سخت متعصب شخص تھا خاندانی تعصبات کا اظہار کرنے میں اس نے قبیلہ ٔعدنان کے مختلف خاندانوں خاص کر تمیم اور اپنے خاندان ''اسیّد'' کے لئے افسانے اور خیالی سورما جعل کئے ہیں اور اشعار و رزم نامے گڑھ کر دوسروں پر سبقت حاصل کی ہے۔ اس طرح اس نے خاندان عدنا ن کے فخر و مباہات اور شرافت و فضیلتیں تخلیق کی ہیں ، اور قحطانیوں پر بزدلی ، ذلالت ، فتنہ انگیزی اور شرارت کی تہمتیں لگائی ہیں ۔

سبائیوں کے بارے میں سیف کا افسانہ اسی امر کی وضاحت کرتا ہے۔وہ اس افسانہ کو جعل کرکے قبائل عدنان کے بعض سرداروں کے آلودہ دامن کو پاک و صاف کرتا ہے اور بے گناہ قحطانیوں پر فتنہ انگیزی اور دیگر ہزاروں برائیوں کی تہمتیں لگاتا ہے۔

٢۔دوسری جانب ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ عراق ، جو سیف کا اصلی وطن ہے، ان دنوں زندیقیوں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور وہ پوری طاقت کے ساتھ مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے وہ اس سلسلے میں جھوٹی احادیث گھڑ نے اور انھیں پھیلانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے تھے اور اپنے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ہر وسیلہ کا سہارا لیتے تھے۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سیف بھی جھوٹ اور افسانے گڑھ کر، تاریخ اسلام کے ساتھ ظلم و جفا کرنے میں اپنے ہم عقیدہ زندیقیوں سے پیچھے نہیں رہاہے۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ علماے متقدمین نے سیف کو نہ صرف ایک جھوٹا اور غیر قابل اعتماد جانا ہے بلکہ اس پر زندیقی ہو نے کا الزام بھی لگا یا ہے۔ ان تمام تحقیقات کے پیش نظر ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیف بن عمر ہے جس نے سبائیوں کا افسانہ جعل کرکے اسے پھیلادیا ہے۔

۲۸

٣۔ہم نے اپنی کتاب ''عبد اللہ بن سبا'' میں سیف کی روایتوں کو واقعات اور حوادث کے تقدم کی بنیاد پر ، یعنی اسامہ کی ماموریت ، سقیفہ بنی ساعدہ، ارتداد اور فتوح کی جنگوں کے سلسلے میں اس کی روایتوں کا ترتیب سے سیف کے علاوہ دوسرے راویوں کی روایتوں سے موازنہ و مقابلہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ:

علماء نے سیف کی توصیف اور اس کی احادیث کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ صحیح ہے، کیونکہ سیف بن عمر تمیمی کی باتیں بالکل جھوٹ اور افسانہ ہیں یا تہمت و افترا ہیں یا تاریخ اسلام کے حقائق میں تحریف ہیں ۔

اسناد جعل کرنا

سیف اپنے افسانوں کے لئے تاریخ لکھنے والوں کے شیوہ کے مطابق سند جعل کرتا ہے تا کہ اپنے افسانون اور جھوٹ کو سچ اور حقیقی ظاہر کرسکے۔ وہ اپنی بات کو ایسے راویوں کی زبانی دہرا تا ہے جو حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے اور سیف کے علاوہ ان کا نام کہیں نہیں پایا جاتا اور دوسرے علماء نے ان کا نام تک نہیں لیا ہے۔ سیف نے اپنے سور ماؤں کے لئے شجاعتیں اور بہادریاں جعل کی ہیں اور مقامات کو خلق کرکے ان کی دلاوریوں کو ان جگہوں پر واقع ہوتے ہوئے دکھلایاہے۔

۲۹

وہ مؤلفین، جنھوں نے سیف کے خیالی اداکاروں کو درج کیا ہے

یہاں پر ایک ہلا ہم ہادینے والے مطلب سے دوچار ہوتے ہیں ، وہ یہ کہ ہمیں ایسے علماء اور دانشمندوں کا سراغ ملتا ہے جو سیف کے بارے میں مکمل شناخت رکھتے ہیں ، اسے جھوٹا جانتے ہوئے اس پر زندیقی ہونے کا الزام بھی لگاتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے سیف کے ہر جعلی اور افسانوی سور ما کے لئے اپنی رجال کی کتابوں میں سوانح حیات لکھی ہے اور جغرافیہ دانوں نے بھی اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں سیف کے جعلی اور فرضی مقامات ،شہروں اور دریائوں کو درج کیا ہے اور ان علماء کے ثبت کئے گئے مطالب کی سند صرف اور صرف سیف کی جعلی روایتیں ہیں ۔اس طرح سیف کے خیالی مقامات اور شہروں کے نام اسلامی جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو گئے ہیں اور اس کے خیالی اشخاص ،افسانوی سورما ،فرضی راوی ،جعلی سپہ سالار ،خیالی شعراء و سخنور اور اس کے علاوہ خطوط ،تاریخی اسناد کہ جن میں سے کسی ایک کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اور سب کے سب دوسری صدی ہجری کے افسانہ گو سیف کے تخیلات کی پیدا وار ہیں ،کو ان علماء کی کتابوں میں مناسب جگہوں پر واقعی اور ناقبل انکار حقیقت کے طور پر درج کیا گیا ہے !!

یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو سالہا سال زندگی صرف کرنے اور دقت نظر و تحقیق کے بعد جس کا نتیجہ آپ آئندہ بحثوں میں ملاحظہ فرمائیں گے ہمیں حاصل ہو سکے ہیں تاکہ حق و حقیقت کے راہیوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں اور اسلام اور اس کی حقیقی تاریخ کے رخ سے پردہ اٹھا کر اسلام کے حقائق کو دنیا کے لوگوں اور مسلمانوں کے سامنے واضح کر سکیں ۔

۳۰

جعلی صحابی کی پہچان

سیف کے افسانوی صحابی کو پہچاننے کے لئے ضروری ہے کہ ،جب ہم کسی روایت یا خبر کے مطالعہ کے دوران کسی ایسے صحابی سے رو برو ہوتے ہیں جو مشکوک لگے تو ہم سب سے پہلے اس خبر کے اسناد کا اسی کتاب میں دقت سے مطالعہ کرتے ہیں چونکہ ہم نے سیف کو پہلے ہی پہچان لیا ہے اگر اس خبر کی روایت سیف پر منتہی نہ ہو تو مذکورہ صحابی کے بارے میں تحقیق و جستجو سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور اسے سیف کا تخلیق کردہ راوی محسوب نہیں کرتے ۔

لیکن اگر روایت کی سند سیف پر منتہی ہو تو یہاں پر ہماری وسیع تحقیق و جستجو کا آغاز ہو تا ہے اور ہم مختلف مصادر اور متعدد اسلامی مآخذ کی طرف رجوع کرکے تحقیق شروع کرتے ہیں اور سیف کی روایت میں ذکر ہوئے مطالب کو اس موضوع کے سلسلے میں دوسروں کی روایت میں ذکر ہوئے مطالب سے موازنہ ، و مقابلہ کرتے ہیں .یہاں پر اگر مذکورہ مشکوک صحابی کا نام سیف کے علاوہ کسی اور راوی کی روایت میں ملے، تو اس کے بارے میں تحقیق ترک کردیتے ہیں اور اسے جعلی نہیں جانتے۔ لیکن اگر اس صحابی کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں ہوتا تو اس وقت فیصلہ کرتے ہیں کہ:چونکہ یہ مطلب یا اس شخص کانام ، یا اس جگہ کا نام، اور ایسے راویوں کی خصوصیات کو صرف سیف بن عمر نے بیان کیا ہے اور ان کا کسی دوسری جگہ اور کسی ماخذ میں سراغ نہیں ملتا ، اس لئے یہ صحابی ، راوی یا جگہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتے اور بالکل جھوٹ اور سیف بن عمر کے افکار و خیالات کے پیدا وار ہیں اس سلسلے میں درج ذیل مثال پیش کی جاتی ہے:

ایک تمیمی گھرانا

ہمیں مکتب خلفاء کی معتبر کتابوں میں مالک تمیمی نام کے ایک معروف خاندان سے مربوط بہت سی اخبار و روایات نظر آتی ہیں ، ان میں مشہور چہرے اور معروف صحابی بھی نظر آتے ہیں جن میں مالک تمیمی کے بہادر نواسے بھی ہیں ۔ان میں سے ایک کا نام قعقاع اور دوسرے کا نام عاصم ہے یہ دونوں عمرو کے بیٹے تھے۔ اسی طرح ان کے چچیرے بھائی اور مالک تمیمی کے دوسرے نواسے جیسے اسود بن قطبہ اور اس کا بیٹا اور صحابی نافع بن اسود یعنی مالک کا پر پوتا اور اس نامور خاندان یعنی بنی تمیم کے تمام محترم اور نامور افراد نظر آتے ہیں

۳۱

ہم اس خاندان ، خاص کر ان کے غیر معمولی کار ناموں کی وجہ سے ان کے بارے میں مشکوک ہوتے ہیں ۔ اس بناء پر ہم اپنی تحقیق کے مطابق جو کچھ اس خاندان کے ہر فرد کے بارے میں بیان ہواہے، اسے ایک ایک کر کے مختلف اسلامی مصادر سے جمع کرتے ہیں ۔اس کے بعدتمام باسند اور بدون سندروایتوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اور آخر کار متوجہ ہوتے ہیں کہ وہ تمام روایتیں جو قعقاع کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ،سیف سے روایت ہوئی ہیں اور ان کی تعداد ٦٨ تک پہنچتی ہے اوروہ تمام روایتیں جواس کے بھائی عاصم سے مربوط ہیں ،ان کی تعداد ٤٠تک پہنچتی ہے ۔اسود بن قطبہ اور اس کے بیٹے نافع کے بارے میں روایتوں کی تعداد ٢٠تک پہنچتی ہے ،اور یہ سب کی سب صرف سیف بن عمر سے نقل ہوئی ہیں !

قعقاع کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد

اب ان روایتوں کے اسناد کے بارے میں تحقیق کی نوبت آتی ہے جو قعقاع کے بارے میں گویا ہیں ۔ہمیں اس تحقیق میں تیس ایسے راوی کے نام ملتے ہیں جوسیف کی احادیث کے علاوہ دوسروں کی احادیث میں نظرہی نہیں آتے ۔ان روایتوں کے راویوں میں خاص طور پر ایک ایسا راوی بھی ہے جس کانام ،قعقاع سے مربوط سیف کی ٣٨ احادیث میں دہرایا گیا ہے ۔دوسرے راوی کا نام ،١٥احادیث میں ،تیسرے راوی کانام ١٠ احادیث میں اور چھوتے راوی کانام قعقاع سے مربوط سیف کی ٨احادیث میں دہرایاگیاہے۔

ان راویوں میں سے چار کانام قعقاع کے بارے میں سیف کی دو احادیث میں ایک ہی جگہ پر آیا ہے ۔بعض اوقات ایک حدیث میں ان ہی راویوں میں سے ایک سے زائدہ کانام لیاگیا ہے۔ یہ سبب راوی سیف بن عمر تمیمی کے خیا لی اور جعل کردہ ہیں ۔

۳۲

عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد کی تحقیق

عاصم کے بارے میں سیف کی روایتوں کی تحقیق کے دوران ہمیں ا س کے بارہ راویوں کے نام ملتے ہیں ،جن کو ہم سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نہ پاسکے ۔ان راویوں میں سے ایک کانام عاصم کے بارے میں سیف کی ٢٨روایات میں دہرایاگیاہے۔ایک دوسرے راوی کانام ١٦روایات میں دہرایاگیاہے۔لیکن بعض اوقات عاصم کے بارے میں سیف کی ایک ہی روایت میں ایک سے زائد راویوں کانام ذکر کیا گیا ہے۔

مذکورہ نام وخصوصیات کے مالک بارہ راویوں کے علاوہ سیف نے بعض دیگر اسناد مثلاً: ''بنی بکر سے ایک مرد ''یا''بنی سعد سے ایک مرد''یا''شوش کی فتح کے بارے میں خبر دینے والا''جیسے موارد بھی پیش کئے ہیں کہ یہ انتہائی مجہول وبے نام اسناد ہیں ۔

اسود اور اس کے بیٹے کے بارے میں سیف کی روایات کے اسناد

اسود اور اس کے بیٹے نافع کے بارے میں سیف کی روایتوں کے اسناد میں ،عاصم کے سلسلے میں ذکر ہوئے راویوں کے علاوہ ،٩جعلی راوی اور چند مجہول شخصیت راویوں کاذکر کیاگیاہے کہ یہ سب کے سب مجہول اور بے نام ونشان ہیں ۔

خاندان مالک سے مربوط سیف کے روایات کے اسناد کی یہ حالت ہے اور سیف ان ہی کی وساطت سے اپنے سورماؤں اور جعلی صحابیوں کی سرگرمیوں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ،داستان سقیفہ بنی ساعدہ ،جزیرة العرب میں ارتداد اور فتوح کی جنگوں ،خلافت ابوبکر کے زمانے میں عراق وشام کی فتوحات اور نبرد آزمائیوں خلافت عمر وعثمان اور امام علی ـکے دوران حتیٰ معاویہ کے زمانے تک سرزمین عراق،شام اور ایران کی فتوحات کا ذکر کرتا ہے۔

۳۳

سیف اس خاندان کے افراد کے لئے اپنی خیالی اور فرضی جنگوں میں شجاعتیں بیان کرتاہے اور رزمی شعر کہتاہے ،مختلف صوبوں کی حکومتیں انھیں تفویض کرتاہے ،کرامتوں اور غیر معمولی کارناموں کو ان سے نسبت دینے کے علاوہ دیگر ایسے مطالب بیان کرتاہے،جو صرف سیف کے ہاں نظر آتے ہیں ۔دوسری جانب ان روایتوں کی تحقیق اور چھان بین کے بعد جن میں صحابیوں اور بہادروں کا ذکر ہواہے ہم پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام روایتیں جن میں ان دلاوروں کا ذکر آیاہے اور جو بے سند ہیں ، حقیقت میں وہی پہلے درجہ کی سند دار روایتیں ہیں جن کی سندیں سیف پر منتہی ہوتی ہیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں پر ان کی سندیں حذف کردی گئی ہیں !

اس سلسلے میں مزید اطمینان حاصل کرکے قطعی فیصلہ تک پہنچنے کے لئے ہم نے ان سورماؤں کی شجاعتوں اور ان سے مربوط روایتوں کے جعلی اور افسانہ ہونا ثابت کرنے کے لئے مختلف علو م کے موضوعات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے اسلامی منابع ومآخذ کی طرف رجوع کرکے حسب ذیل صورت میں عمیق تحقیق شروع کی :

١۔ ہم نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت ،رفتار وکردار پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جن میں اس زمانے کے گمنام ترین مسلمان شخص کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملاقات اور برتاؤ کو درج کیا گیاہے، مانند :

''سیرہ ابن ہشام''(وفات ٢١٣ھ )

''عیون السیرہ'' ابن سیدہ الناس (وفات ٧٤٣ھ)

اور سیرت کی دوسری کتابیں ۔

لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے جعلی اور افسانوی سورماؤں کا کہیں نام ونشان تک نہیں پایا۔اس طرح سے کہ نہ ان کتابوں میں نہ روایتوں کے اسناد میں اور نہ ان کے متن میں کہیں بھی ان کا نام ذکر نہیں ہواہے۔

٢۔ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مربوط احادیث کی کتابوں کی طرف رجوع کیا،جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چھوٹی سی چھوٹی بات کوبھی درج کیا گیا ہے،مانند:

۳۴

'' مسند طیالسی''(وفات ٢٠٤ھ)

'' مسند احمد''(وفات ٢٤١ھ )

''مسند ابوعوانہ''(وفات ٣١٦ھ)

'' صحیح بخاری''(وفات ٢٥٦ھ)

'' موطأ مالک ''(وفات ١٧٩ھ)

'' سنن ابن ماجہ ''(وفات ٢٧٣ھ )

'' سنن سجستانی''(وفات ٢٧٥ھ)

'' سنن ترمذی''(وفات ٢٧٩ھ)

ان کے علاوہ ہم نے دیگر مسانید اور صحاح میں بھی ڈھونڈا اور جستجو کی ،لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی سیف کے جعلی اصحاب کا کہیں نام ونشان نہ پایااور نہ ان کے متن وسند میں ان کا کہیں سراغ ملا۔

٣۔ ہم نے طبقات کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جن میں اصحاب اور تابعین کے بارے میں ان کی سوانح حیات درج کی گئی ہیں ،مانند:

'' طبقات ابن سعد''(وفات ٢٣٠ھ)

جس میں اصحاب اور تابعین کی ، ان کی جائے پیدائش کے مطابق طبقہ بندی کی گئی ہے۔

'' طبقات خلیفہ بن خیاط''(وفات ٢٤٠ھ)

'' النبلاء ذہبی''(وفات ٧٤٨ھ)

اور اس سلسلے کے دیگر منابع کی طرف بھی رجوع کیا لیکن ان میں بھی کہیں سیف کے مذکورہ سورماؤں میں سے کسی ایک کانام نہیں پایا نہ ان کے متن میں اور نہ سند میں ۔

۳۵

٤۔ اس تحقیق کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے احادیث واخبار سے مربوط راویوں کے تعارف میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا،جیسے:

'' علل احمد حنبل''

'' جرح وتعدیل رازی''(وفات ٣٢٧ھ)

'' تاریخ بخاری''اور اس قسم کی دوسری کتابیں ۔

٥۔ اس کے علاوہ ہم نے مختلف عرب قبیلوں کے شجرہ ٔنسب کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا،مانند:

'' جمہرۂ نسب قریش''از زبیری (وفات ٢٣٦ھ)

'' انساب سمعانی''(وفات ٥٦٢ھ)

٦۔ اسی طرح اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات پر لکھی گئی کتابیں ،مانند:

۔'' اسد الغابہ''اور

''اصابہ '' اور جہاں تک ممکن ہوسکا دیگر مطبوعہ وقلمی نسخوں کا بھی مطالعہ کیا۔

٧۔ اس کے علاوہ اس تحقیق وجستجو میں ہم نے عمومی تاریخوں ۔مانند:

'' تاریخ خلیفہ بن خیاط''(وفات ٢٤٠)

'' تاریخ طبری''(وفات ٣٠١ھ) وغیرہ اور ان کے علاوہ ان عمومی تواریخ کا بھی مطالعہ کیا جن میں تاریخ کے مخصوص واقعات کی تشریح کی گئی ہے ،مانند :

'' صفین ،ابن مزاحم''(وفات ٢١٢ھ)

'' تاریخ دمشق''تالیف ابن عساکر(وفات ٥٧١ھ)

اور دیگر معتبر منابع ومآخذ ۔

٨۔ ہم نے اس تحقیق وجستجو کے دوران ادبی کتابوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ ان سے بھی استفادہ کیا،جیسے :

دورہ ٔکتاب''اغانی اصفہانی ''(وفات ٣٥٦ھ)

۳۶

'' المعارف ابن قتیبہ ''(وفات ٢٧٦ھ)

'' العقد الفرید''ابن عبدربہ(وفات ٣٢٨ھ)

اور اس موضوع سے مربوط دیگر کتابوں کی طرف بھی رجوع کیا۔

اس قدر تحقیق وتلاش وجستجو پر ہم نے ایک عمر صرف کرکے یہ نتیجہ حاصل کیا ہے کہ وہ تمام روایات جن میں اس قسم کے صحابیوں کے نام ذکر ہوئے ہیں ان کی سندیں صرف اور صرف سیف بن عمر تمیمی پر منتہی ہوتی ہیں ۔

سیف کی روایات کے اسناد کی اتنی تحقیق کے علاوہ ہم نے ایسے صحابیوں کے بارے میں روایت کی گئی سیف کی ہر خبر کے متن پر بھی غور وخوض اور تحقیق کی اور اس کا دوسرے اور حقیقی راویوں کی روایت کے متن سے موازنہ و مقابلہ کیا۔اس تحقیق سے مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے ایک حاصل ہوئی :

١۔ یا یہ کہ سیف کی روایت کردہ خبر ،مضمون اور متن کے لحاظ سے بالکل جعلی اور جھوٹی ہے،خواہ یہ اس کا خطبہ اور معجزہ ہوا ،جنگ ہو یا صلح ،اس کا سورما ہو یا ہیرو،مکان ہو یازمان ،اس کے رزمی اشعار ہوں یااس کے اسناد اور راوی ۔اس کا نمونہ اسی کتاب میں ایک افسانوی شخص''طاہر ابوھالہ تمیمی بن خدیجہ'' ،جسے سیف نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منہ بولے بیٹے کے عنوان سے جعل کرنے کے بعد اسے ارتداد کی جنگوں ،جیسے جنگ ''اخابث'' میں شرکت کرتے ہوئے دکھایاہے ۔ ''خبراط بن ابواط تمیمی'' اور اس دریا کانام جو اس سے منسوب کیاگیاہے ۔اور اس طرح کی دوسری روایتیں جو بالکل جعلی اور جھوٹی ہیں اور ان کاکوئی بھی تانابانا حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا ۔

٢۔ یا یہ کہ سیف نے ایک حقیقی واقعہ کی خبر میں کسی نہ کسی صورت میں تحریف کی ہے۔مثلاً کسی واقعہ کے مرکزی کردار یا کرداروں کو بدل کے رکھ دیا ہے اور ہر کار خیر میں کسی یمانی قحطانی صحابی یا تابعین میں سے کسی ایک کے کردار کو بدل کر اسے عدنانی مضر ی خاندان کے کسی فرد سے منسوب کردیا ہے یا بر عکس کسی عدنانی ومضری شخص کے کسی نامناسب اور ناروا کام کو ایک قحطانی فرد سے نسبت دیدی ہے!یازمان ومکان تبدیل کیاہے یا کسی روایت میں تحریف کی کوئی دوسری صورت انجام دی ہے کہ کتاب ''عبد اللہ بن سبا '' اور اسی کتاب (١٥٠ جعلی اصحا۲) کی مختلف جلدوں کا مطالعہ کئے بغیر آسانی کے ساتھ سیف کی تحریف کے اقسام اور تاریخ اسلام کے سلسلہ میں اس کے جرم کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۳۷

جی ہاں !اتنی طولانی بحث وتحقیق کے بعد حتی سیف کی ایک روایت وخبر کو بھی سیف کے علاوہ دوسروں کی صحیح اسناد میں نہ پائے جانے اور ہمارے مورد شک صحابی کے نام یا خبر کے ان میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ اس قسم کے اصحاب سیف کے جعل کردہ ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

جعلی اورحقیقی صحابی میں فرق !

سیف کے جعلی صحابی اور دیگر حقیقی صحابیوں میں فرق یہ ہے کہ :جعلی اور جھوٹے صحابی وہ ہیں ،جن کے نام اور اخبار صرف اور صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ۔جب کہ حقیقی صحابی وہ ہے جس کی خبر ونام مختلف طریقوں اور متعدد اشخاص اور متعدد راویوں اور منابع کے ذریعہ ہمیں دستیاب ہوتے ہیں ۔اس سلسلے میں ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں :

خالد بن ولید ایک ایسی شخصیت ہے جس کا نام اور روایت ایک راوی سے مختص نہیں ہے ، بلکہ جس کسی نے بھی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت اور کردار پرکچھ لکھا ہے اس نے جنگ احد میں مشرکین پر تیر انداز ی کرنے والے ایک ماہر اور معروف تیر انداز کے عنوان سے خالد کانام لیا ہے اور اسے اس جنگ میں فوج کے ایک دستہ کے کمانڈر کی حیثیت سے یاد کیا ہے ۔

جس نے بھی صلح حدیبیہ کے بعد قریش کے بعض افراد کے اسلام قبو ل کرنے کے بارے میں کوئی مطلب بیان کیا ہے ،بیشک اس نے خالد کے اسلام قبول کرنے کا بھی ذکر کیاہے اور اس کانام لیاہے ۔

اور جس نے بنی خدیمہ کے واقعہ اور اس قبیلہ کی جنگ کے بارے میں کوئی بات کہی ہے ،اس نے ناگزیر اس جنگ کے سپہ سالار اور اس قبیلہ کے افراد کو قتل کرنے والے کی حیثیت سے خالد بن ولید کانام لیاہے۔

جس نے مالک نویرہ کے قتل کے درد ناک واقعہ کی روایت کی ہے، بے شک اس نے خالد بن ولید کا نام لیا ہے کہ کس طرح اس نے مالک کے قتل کا حکم صادر کیا اور اسی شب اس کی بیوی کے ساتھ ہمبستری کی!!

اور جس نے مسیلمۂ کذاب کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ کے حالات لکھے ہیں ، بے شک اس نے اس جنگ کے سپہ سالار کی حیثیت سے خالد بن ولید کا نام لیا ہے۔

۳۸

جس نے بھی عراق و شام میں اسلامی فوج کی فتوحات کی تاریخ لکھی ہے، لازمی طور پر اس نے ان جنگوں کے سپہ سالار کی حیثیت سے خالد بن ولید کا نام لیا ہے .اور ان جنگوں میں اس کی مہارتوں کا ذکر کیا ہےان تمام اخبار کے علاوہ دیگر واقعات جو بہر صورت خالد بن ولید سے مربوط ہیں میں خالد بن ولید کا نام سیکڑوں روایات میں مختلف طریق و متعدد راویوں سے نقل ہوا ہے۔

خالد کا ذکر سیرت، حدیث اور طبقات کی ان تمام کتابوں میں آیا ہے جو سیف کے جھوٹ اور افسانوی باتوں سے کسی صورت میں آلودہ نہیں ہوئی ہیں ۔

اس طرح ہم اس صحابی کے بارے میں بحث و تحقیق شروع کرتے ہیں جس کا وجود مشکوک ہوتا ہے اور مذکورہ تمام مراحل کا جائزہ لینے کے بعد اپنی بحث کے آخر میں روایت کے اسناد اور سیف کے متن کو مد نظر رکھتے ہوئے نتیجہ کا اعلان کرتے ہیں

گزشتہ بحث کے پیش نظر اور اس کتاب کے مباحث کی طرف رجوع کرنے کے بعد اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے کہ جن بعض اصحاب اور بہادروں کی طرف ہم نے اشارہ کیا وہ سب کے سب سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق، جعلی اور افسانوی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے۔

لیکن یہی قطعی نتیجہ علمی بحث و تحقیق سے سرو کار نہ رکھنے والے لوگوں کے لئے تعجب اور ناقابل یقین بن گیا ہے۔

اور وہ مثال کے طور پر کہتے ہیں :

''کیا یہ ممکن ہے کہ سیف نے اتنے لوگوں کو جعل کیا ہوگا؟! اور اپنے تخیلات پر مبنی پوری ایک تاریخ لکھ ڈالے؟! انسان اتنے تخیلی افراد اور سور ماؤں کی تخلیق پر حیرت اور تعجب میں پڑجاتا ہے!!''

۳۹

ہم جواب میں کہتے ہیں :

اس میں کیا مشکل ہے ؟جبکہ آپ اس سے ملتی جلتی باتیں ''جرجی زیدان کی داستانوں '' ، ''مقامات حریری ''، ''عنترہ کی داستانوں '' ، ''ایک ہزار اور ایک شب'' اور '' کلیلہ و دمنہ'' جیسی ہزاروں ادبی اور حکمت کی داستانوں میں ہر زبان کے قصہ اور افسانے لکھنے والوں کے ہاں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان جادوئی قلم کے مالک مؤلفوں اور افسانہ نویسوں نے اپنے فکر و نظر کی بناء پر ایسے پر کشش اور دلچسپ افسانوں کے ہیرو اور شاہکار خلق کئے ہیں جو ہرگز وجود نہیں رکھتے تھے؟ کیا مشکل ہے اگر سیف بھی انہی افسانہ نویسوں جیسا ہو؟ اس میں کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہے ، بلکہ تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض مورخین نے سیف کے افسانوں پر اعتماد ، اور یقین کرکے ان کے مقابلے میں مسلّم حقائق بیہودہ جان کر انھیں ترک کیا ہے اور انہی افسانوں کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے!

وہ یہ کہتے ہیں :

یہ کیسے ممکن ہوسکا ہے کہ سیف کے یہ سب افسانے اور خیالی ہیرو بارہ صدیوں سے آج تک علماء اور دانشمندوں کی نظروں سے مخفی اور پوشید ہ رہے ہیں ؟

تو ہم جواب میں کہتے ہیں کہ:

ممکن ہے گزشتہ زمانے میں سیف کے افسانوں پر بحث و تحقیق کرنے کے وسائل موجود نہ ہوں ۔

اور خدائے تعالےٰ نے اس مشکل کو ہمارے ہاتھوں حل کرکے ہمیں یہ توفیق بخشی ہے کہ سیف کے جرائم پر سے پردے اٹھاکر علماء کیلئے راہ ہموار کریں ۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ:

یہ انتہائی بے ادبی اور بے انصافی ہے کہ شیخ طوسی جیسے دانشمند کی اس بناء پر عیب جوئی کی جائے کہ اس نے قعقاع جیسے صحابی کانام اپنی کتاب میں درج کیا ہے!

اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ:

علماء اور دانشوروں کا احترام کرنا ہرگز ان کے نظریات سے اتفاق کرنے پر منحصر نہیں ہے ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371