ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138375 / ڈاؤنلوڈ: 4324
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

علاء نے جوبھی خدمت انجام دی اور جو بھی کام انجام دیا سب ریاکاری اور ظاہرداری پر منبی تھا اور وہ اس میں مخلص نہیں تھا ۔اگر اس میں کوئی کرامت پائی جاتی ہے تو وہ صرف مقام خلافت کے مطیع اور فرماں بردار ہونے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ خلیفہ عمر کی دلی رضامندی اور اجازت کے بغیر ایران پر حملہ کرتا ہے تو بری طرح شکست کھاتا ہے اور اپنی سپاہ سمیت دشمن کے محاصرے میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت میں اس کی نالہ و زاری اور دعائیں اس کے لئے مؤثر ثابت نہیں ہوتیں اور اسے کسی قسم کی مدد نہیں دیتیں ۔ یہاں ''دھنا'' کے معجزہ ، اور خلیج کے پُر تلاطم دریا سے گزر نے کا نام و نشان تک نہیں ہے!

اس داستان کے ضمن میں وہ لکھتا ہے:

عمرنے اپنی دور اندیشی کی بناء پر محاصرہ میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کو دشمن کے چنگل سے بچالیا اور خود سر علا حضرمی یمانی کی تنبیہ کی اور اسے اپنے منصب سے معزول کردیا.

اس کی تفصیل اسی کتاب کی پہلی جلد میں عاصم کے حصہ میں گزری ہے۔

اسناد کی تحقیق

اب ہم دیکھتے ہیں کہ٠ سیف بن عمر نے عفیف کے افسانہ کو کس سے نقل کیا ہے اور اس کی روایات کے راوی کون ہیں ؟!

سیف نے ان تمام مطالب کو دو روایات میں اور ان دونوں روایات کو ایک راوی سے نقل کیا ہے اور یہ راوی ''صعب بن عطیہ بن بلال'' ہے۔

یہاں ہم نے اس راوی اور اس کے باپ ''عطیہ بلال'' کے سلسلے میں راویوں کے حالات پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کرکے تحقیق و جستجو کی لیکن ان کا کوئی نا م و نشان نہیں ملا۔ اس لئے ہم یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس افسانہ کو سیف بن عمر نے خود جعل کیا ہے اور اس کو اپنے ہی تخلیق کئے گئے راویوں سے نسبت دیدی ہے۔

۱۲۱

عفیف کے افسانے کا نتیجہ

سیف نے عفیف نام کے ایک بے باک شاعراور دلاور کو خلق کرکے اپنے لئے درج ذیل مقاصد اور نتائل حاصل کئے ہیں :

١۔قبیلۂ تمیم کے لئے ارتداد کی جنگوں میں فخر و مباہات ثبت کئے ہیں ۔

٢۔ معجزے تخلیق کرکے صحرائے ''دھنا'' کی تپتی ریت پر پانی کے چشمے جاری کرتا ہے، دریا کے پانی کی ما ہیت کو بدل دیتا ہے اور اسلام کے سپاہیوں کے پاؤں کے نیچے دریا کے پانی کو مرطوب ریت کے مانند بنادیتا ہے، ملائکہ کو ان جنگوؤں کی تائید کرنے پر مجبور کرتا ہے تا کہ یہ واقعہ اصحاب کی کرامتوں اور معجزوں کے طور پر ان کے مناقب کی کتابوں میں درج ہوجائے۔

٣۔دعائیں ، تقیریں ، رجز خوانیاں اور خطوط جعل کرتا ہے تا کہ اسلامی ثقافت میں اپنی طرف سے اضافہ کرے۔

٤۔ خاندان قیس کے سردار ''حطم'' کو خاک و خون میں غلطاں کرتا ہے، شہریار ربیعہ کو قیدی بنادیتا ہے اور اس کے بھائی کا سرتن سے جدا کرتا ہے اور ان تمام افتخارات کے تمغوں کو اپنے افسانوی سورما''عفیف'' بن منذر تمیم کے سینے پر لگادیتا ہے تا کہ خاندان ''بنی عمرو تمیمی'' کے افتخارات میں ایک فخر کا اضافہ کرے۔

٥۔ایک ہی نسل کے باپ بیٹے ''عطیہ''و ''صعب'' نام کے دو راویوں کی تخلیق کرتا ہے اور انھیں اپنے خیالی راویوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔

یہ سب نتائج سیف کے بیانات سے حاصل ہوتے ہیں اور افسانہ نگاری میں تو وہ بے مثال ہے ہی۔

۱۲۲

سیف کے افسانوں کی اشاعت کرنے والے:

١۔امام المورخین محمد بن جریر طبری نے ''تاریخ کبیر'' میں ۔

٢۔یاقوت حموی نے ''معجم البلدان'' میں

٣۔حمیری نے ''روض المعطار''میں

٤۔''ابن حجر'' نے ''الاصابہ'' میں ۔

ان چار دانشوروں نے اپنے مطالب کو بلاواسطہ سیف کی کتاب سے نقل کیا ہے۔

٥۔''عبد المؤمن'' نے ''مراصد الاطلاع'' میں ۔ اس نے حموی سے نقل کیا ہے ۔

٦۔٧۔٨۔٩۔ابو الفرج اصفہانی نے '' اغانی'' میں ،ابن اثیر ،ابن خلدون اور دوسرے تاریخ نویسوں نے عفیف کے بارے میں مطالب کو طبری سے نقل کیاہے ۔

۱۲۳

ساتواں جعلی صحابی زیاد بن حنظلہ تمیمی

ابو عمر ابن عبد البر نے اپنی کتاب ''استیعاب '' میں زیاد بن حنظلہ تمیمی کا اس طرح ذکر کیا ہے :

'' وہ (زیاد بن حنظلہ ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا ،لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے '' قیس بن عاصم '' اور '' زبرقان بن بدر'' کے ہمراہ مأموریت دی تھی کہ مسیلمۂ کذاب ،طلیحہ اور اسود کی بغاوت کو سرکوب کرے''

زید ،رسول خدا کا گماشتہ اور کار گزار اور امام علی علیہ السلام کا پیرو کار تھا ۔ اس نے آپ کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں زیاد کے بارے میں ابن عبد البر کی عین عبارت کو درج کیا ہے اور آخر لکھتا ہے :

''ان مطالب کو کتاب '' استیعاب'' کے مؤلف ابو عمر نے '' زیاد بن حنظلہ'' کے حالات بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔ ''

کتاب '' تجرید'' کے مؤلف ذہبی نے بھی زیاد کی زندگی کے حالات خلاصہ کے طور پر ابن اثیر کی کتاب '' اسد الغابہ '' سے نقل کئے ہیں ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں بعض مطالب کو بلا واسطہ سیف کی کتاب سے اور ایک حصہ کو '' استیعاب'' سے لیا ہے ۔وہ زیاد کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

'' زیاد بن حنظلہ تمیمی جو بنی عدی کا ہم پیمان بھی ہے کے بارے میں کتاب '' استیعاب '' کے مؤلف نے یوں ذکر کیا ہے :....''

یہاں پر وہ '' استیعاب'' کے مطالب ذکر کرنے کے بعد خود اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''....اور سیف بن عمر اپنی کتاب''فتوح ''میں زیاد کے بارے میں لکھتا ہے:... اس طرح وہ زیادکی داستان کوبلاواسطہ سیف کی کتاب ''فتوح''سے نقل کرتا ہے۔''

ابن عساکرنے اپنی کتاب ''تاریخ دمشق'' میں زیاد کے بارے میں یوں لکھا ہے :

وہ (زیاد) بنی عبد بن قصی کا ہم پیمان تھااور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا۔زیاد نے جنگ یرموک میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شرکت کی ہے ۔اور اسلامی سپاہ کے ایک فوجی دستہ کی کمانڈاس کے ہاتھو ں میں تھی ۔ اس کے بیٹے حنظلہ بن زیاد اور عاصم بن تمام نے اس سے روایت کی ہے ۔

۱۲۴

ان مطالب کو بیان کرنے کے بعد ابن عساکر نے سیف بن عمر کی روایات سے سند ومأخذ کے ساتھ جو اس صحابی کی تخلیق کا تنہامنبع وسرچشمہ ہے زیا دکی زندگی کے حالات بیان کئے ہیں ۔

زیاد ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

ٍ طبری ١٥ ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں اور مرتدوں کی سرکوبی کے لئے ایک گروہ کو روانہ کیا ۔

اس کے بعد طبری ان اصحاب کا نام لیتا ہے جنھیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا م کے لئے انتخا ب کیا تھا اور اس سلسلے میں لکھتاہے:

....اور خاندان بنی عمرو کے زیاد بن حنظلہ کو قیس بن عاصم اور زبرقان بن بدر کے ہمراہ مأموریت دی ...کہ وہ لوگ ایک دوسرے کی مد د سے پیغمبری کادعویٰ کرنے والوں ،جیسے ،مسیلمہ ، طلیحہ اسود کے خلاف اقدام کریں

کتاب ''استیعاب ''کے مؤلف ابن عبد البراور دیگر مؤلفین ۔جن کانام اوپر ذکر ہوا ۔نے بھی اسی خبر کو سیف سے استناد کرتے ہوئے زیاد کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ کے طور پر شمار کیا ہے ۔

ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں ،جیسے ،ابن ہشام کی ''سیرت ''، مقزیری کی ''امتاع الاسماع''۔ابن سیدہ کی ''عیون الاثر''،ابن حزم کی ''جوامع السیر ''،بلاذری کی ''انساب الاشراف''کی پہلی جلدجو خصوصی طور پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پرمشتمل ہے اور ابن سعد کی ''طبقات ''کی پہلی اور دوسری جلد کی طرف رجوع کیا جن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مربوط مطالب لکھے گئے ہیں ،حتیٰ ان میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خچر ، گھوڑے اور اونٹ تک کاذکر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ان کتابوں میں ان تالا بوں کانام تک ذکر کیا گیا ہے جن سے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی پانی پیا تھا۔ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسواکوں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوتوں تک کا تمام جزئیات اور اوصاف کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔اس کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام ، فرمانوں اور جنگی کاروائیوں کابھی مفصل ذکر کیا گیا ہے ہم نے ان سب کا مطالعہ کیا ،لیکن ہم نے ان کتابوں میں کسی ایک میں زیا د بن حنظلة تمیمی کانا م نہیں پایا۔

حتیٰ ان کے علاوہ ان موضوعات سے مربوط دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جنھوں نے سیف کی کوئی چیز نقل نہیں کی ہے ان میں بھی زیادبن حنظلہ تمیمی نام کے صحابی کا کہیں نام ونشان نہیں پایا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی مأموریت دی ہو یاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاکارگزار رہاہو۔

۱۲۵

زیاد ،ابوبکر کے زمانہ میں

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں یوں ذکر کیاہے:

قبائل ''قیس ''اور ''ذبیان''اُن قبائل میں سے تھے جو مرتدد ہوکر ''ابرق ربذہ''کے مقام پر جمع ہوگئے تھے اور پیغمبر ی کادعویٰ کرنے والے ''طلیحہ ''نے بھی قبیلہ ''ھوزان''کے چند افراد کو اپنے بھائی ''حبال''کی سرکردگی میں ان کی مددکے لئے بھیجا۔

ابوبکر نے مدینہ پران کے متوقع حملہ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے اور بعض افراد ،من جملہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوشہر مدینہ کی گزر گا ہوں کی حفاظت کے لئے مقرر کیا اور بعض افراد کو مرتدوں سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ کیا ۔مؤخر الذکر گروہ نے شکست کھا کرمدینہ تک پسپائی اختیار کی۔

ابوبکر نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے راتوں رات ایک سپاہ کو منظم کیا اور پوپھٹنے سے پہلے سپاہ اسلام نے مرتدوں پر حملہ کیا اور انھیں سنبھلنے کاموقع دینے سے پہلے تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ اسلام کے سپاہیوں نے انہیں شکست دینے کے بعد ان کا پیچھا کیا ۔

زیاد بن حنظلہ نے اس مناسبت سے درج ذیل اشعار کہے ہیں :

اس دن ابوبکر نے ان پر ایسا حملہ کیا جیسے ایک وحشی درندہ اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو سواروں کی کمانڈسونپی جن کے حملہ سے ''حبال''قتل ہوا۔

ہم نے ان کے خلاف جنگ چھیڑی اور انہیں ایسے زمین پر ڈھیر کردیا ،جیسے جنگی سپاہی مال غنیمت پرٹوٹ پڑتے ہیں ۔

جب ابوبکر جنگجوؤں کو میدان کار زار میں لے آئے تو ،مرتدمقابلہ کی تاب نہ لاسکے ۔ہم نے نزدیک ترین پہاڑی سے قبیلۂ بنی عبس پر شبخون مارا اور ''ذبیانیوں ''کی کمر توڑ کر ان کے حملہ کو روک دیا

سیف نے مزید کہا کہ زیاد بن حنظلہ نے ''ابرق ربذہ'' کی جنگ میں اپنے چند اشعار کے ضمن میں اس طرح کہا ہے :

ہم '' ابرق'' کی جنگ میں موجود تھے اور یہ ہی جنگ تھی جس میں '' ذبیانی'' آگ میں جھلس گئے ۔

اور ہم نے ابو بکر صدیق کے ہمراہ جنھوں نے گفتگو کو ترک کیا تھا انھیں موت کا تحفہ دیا۔

۱۲۶

یاقوت حموی نے سیف کے اس افسانہ پر اعتماد کرتے ہوئے '' ابرق ربذہ'' کی تشریح میں اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھاہے :

'' ابرق ربذہ'' ایک جگہ کا نام ہے جہاں پر ابوبکر صدیق کے حامیوں اور مرتد وں کے ایک گروہ کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ہے ۔جیسا کہ سیف کی کتاب میں آیا ہے وہاں پر قبائل ''ذبیان'' سکونت کرتے تھے اور ابوبکر نے ان کے مرتد ہونے کے بعد ان پر حملہ کیا اور انھیں بری طرح شکست دی اور ان کی سرزمینوں کو لشکر اسلام کے گھوڑوں کی چراگاہ بنا دیا یہ وہی جگہ ہے جس کے بارے میں زیاد بن حنظلہ نے اپنے اشعار میں اس طرح اشارہ کیا ہے :

ہم '' ابرق'' کی جنگ میں موجود تھے اور یہ وہی جنگ تھی جس میں ذبیا نیوں تاآخر شعر

۱۲۷

حموی نے اس مطلب کو اپنی کتاب '' المشترک'' میں بھی خلاصہ کے طور پر ذکر کیا ہے اور کہتا ہے :

'' ابرق ربذہ'' کا نام ایک روایت میں آیا ہے اور زیاد بن حنظلہ نے اس کے بارے میں اپنے چند اشعار کے ضمن میں ذکر کیا ہے

اس طرح زیاد کانام '' ارتداد'' کی جنگوں میں سیف بن عمر کے ذریعہ تاریخ طبری میں آیا ہے اور ابن کثیر نے ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

لیکن دوسروں جیسے ،بلاذری نے ارتداد کی جنگ کی خبر کو دوسری صورت میں بیان کیا ہے :

بلاذری یوں لکھتا ہے:

ابوبکر '' ذی القصہ '' کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں سے ایک فوج منظم کرکے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کریں ،اسی اثنا ء میں ''خارجہ بن حصن ''اور ''منظور بن سنان '' ۔جودونوں قبیلۂ فزارہ سے تعلق رکھتے تھے ۔نے مشرکوں کی ایک جماعت کی ہمت افزائی سے اسلام کے سپاہیوں پر حملہ کرکے ایک سخت جنگ شروع کی ۔لیکن آخر کار اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست کھاکر بھاگ کھڑے ہوئے ۔طلحہ بن عبد اللہ نے ان کا پیچھا کیا ااور ان میں سے ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن باقی کفار بھاگنے میں کامیاب ہوگئے ۔

اس کے بعدابوبکر نے ''خالد بن ولید ''کو کمانڈرانچیف منصوب کیا اور ''ثابت بن قیس شماس ''کوانصار کی سرپرستی سونپی۔انہیں حکم دیا کہ طلیحہ اسدی کے ساتھ جنگ کریں ،جس نے پیغمبری کادعویٰ کیا تھا اور قبیلہ فزارہ کے افراد اس کی مدد کے لئے اٹھے تھے ۔

ذہبی نے بھی اس داستان کو تقریباًاسی مفہوم میں بیان کیا ہے ۔لیکن ذہبی اور بلاذری ، دونوں کی کتابوں میں ''ابرق ''اورزیاد بن حنظلہ کا کہیں نام ونشان تک نہیں ملتا۔

اس کے علاوہ ہم نے ان کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جن میں مرتدوں سے ابوبکر کی جنگ کی تفصیلات سیف کی روایتوں سے استفادہ کئے بغیر ،درج ہوئی ہیں ،لیکن ''ابرق ربذہ''،قبائل قیس و ذبیان کے ارتداد اور اسی طرح زیاد بن حنظلہ اور اس کی دلاوریوں کا کہیں نام تک نہیں پایا۔

۱۲۸

بحث وتحقیق کا نتیجہ

''ابرق ربذہ''،نیز قبائل قیس وذبیان جیسے مرتدوں سے ابوبکر کی جنگ اور زیاد بن حنظلہ اور اس کی دلاوریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف کتابوں کے مطالعہ ،بحث و تحقیق اور تلاش وکوشش کا جو نتیجہ ہمیں حاصل ہوا وہ حسب ذیل ہے :

ابن عبد البر کی کتاب ''استیعاب ''میں زیاد بن حنظلہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے ،اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندہ اور گماشتہ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مرتدوں اور پیغمبری کا دعویٰ کرنے والوں سے نبرد آزما ہونے کی اس کی مأموریت کا بھی ذکر کیا گیا ہے ،لیکن اس روایت کی سند کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔

چونکہ ''اسد الغابہ ''اور ''تجرید ''کے مؤلفوں نے روایت کے مصدر کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنے مطالب کتاب ''استیعاب'' سے نقل کئے ہیں ۔اس لئے یہ امر محققین کے لئے اس گمان کاسبب بنا ہے کہ ممکن ہے یہ داستان سیف کے علاوہ اور کسی سے بھی نقل کی گئی ہو۔

اس امر کے پیش نظر کہ یا قوت حموی کی کتاب ''معجم البلدان ''میں لفظ ''ابرق ربذہ ''کی سند سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کی گئی ہے ،اس لئے ایسا لگتا ہے کہ حموی کے زمانہ میں کتاب ''فتوح '' کاسیف بن عمرو سے منسوب ہونا خاص طور پر معروف ومشہور تھا۔لیکن قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ حموی کے بعد صدیوں تک یہ کتاب شہرت کی حامل نہیں رہی ہے اور چونکہ ''ابرق ربذہ '' کی تشریح حموی کی معجم البلدان سے جغرافیہ کی دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہے اس لئے ممکن ہے محققین یہ باور کریں کہ اس قسم کی کوئی جگہ صدر اسلام میں موجود تھی!!!جبکہ ان تمام خبروں اور افسانوں کا مصدر صرف سیف ہے اور کوئی نہیں ۔

سیف کے افسانوں کا نتیجہ

١۔سیف نے زیاد بن حنظلہ تمیمی کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کاصحابی دکھانے کے علاوہ اسے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی بنا کرپیش کیا ہے ۔

٢۔''ابرق ربذہ ''کے نام سے ایک جگہ تخلیق کی ہے تاکہ جغرافیہ کی کتابوں میں اس کا نام درج ہو جائے۔

٣۔اس نے اپنے جعلی صحابی کی زبان سے بہادریوں اور دلاریوں کے قصیدے جاری کہے ہیں تاکہ ادبیات ولغت کی کتابوں کی زینت بنیں اور ادبی آثار کے خزانوں میں اضافہ ہو۔

۱۲۹

٤۔خیالی جنگیں اور فرضی فوجی کیمپ تخلیق کئے ہیں تاکہ اسلام کی تاریخ کے صفحات میں جگہ پائیں ،اس طرح وہ اسلامی معاشرہ کو اپنے آپ میں مشغول رکھے ۔

شام کی فتوحات میں زیاد بن حنظلہ کے اشعار

طبری نے ١٣ھ کی روئد اد اور جنگ یرموک کے واقعات کے ضمن میں اور ابن عساکر نے زیاد بن حنظلہ کی زندگی کے حالات کی تشریح میں سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں اس طرح درج کیا ہے :

اسلامی فوج کے سپہ سالار '' خالد بن ولید'' نے زیاد بن حنظلہ کو سواروں کے ایک دستے کی کمانڈ سونپی۔

اسی طرح طبری نے ١٥ھ کے حوادث اور ہراکلیوس کی دربدری اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے فوج جمع کرنے کے سلسلے میں اس کی ناکامی نیز ابن عساکر و ابن حجر تینوں نے زیاد بن حنظلہ کے حالات کے سلسلے میں اپنی کتابوں میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

جس وقت '' ہراکلیوس '' کے شہر '' رہا'' سے بھاگ رہا تھا اس نے شہر ''رہا'' کے باشندوں سے مدد طلب کی لیکن انھوں نے اسے مدد دینے سے پہلو تہی کی جس کے نتیجہ میں وہ پریشان حالت میں اس شہر سے بھاگ گیا۔

اس واقعہ کے بعد سب سے پہلے جس مسلمان دلاور نے ''رہا'' میں قدم رکھا اور علاقہ کے کتوں کو بھونکنے پر مجبور کیا اور پالتو مرغ خوفزدہ ہو کر اس سے دور بھاگے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور قبیلہ '' عبد بن قصی'' کا ہم پیمان ،زیاد بن حنظلہ تھا۔

ابن عساکرنے اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے کہ زیاد بن حنظلہ نے اس حادثہ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

اگر چاہو تو '' ہرا کلیوس '' سے جہاں بھی ہو جاکر پوچھو!ہم نے اس سے ایسی جنگ کی کہ قبیلوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔

ہم نے اس کے خلاف ایک جرار لشکر بھیجا جو سردی میں نیزہ بازی

۱۳۰

کرتے تھے ۔

ہم اس جنگ میں ہر حملہ و ہجوم میں دشمن کی فوج کو نابود کرنے میں شیرنر جیسے تھے اور رومی لومڑی کے مانند تھے ۔

ہم نے جہاں جہاں انھیں پایا وہیں پر موت کے گھاٹ اتار دیا اور دشمنوں کو پا بہ زنجیر کرکے اپنے ساتھ لے آئے ۔

مندرجہ ذیل اشعار کو بھی سیف بن عمر نے زیاد بن حنظلہ سے نسبت دی ہے :

ہم شہر حمص میں اترے جو ہمارے پیروں تلے ذلیل و خوار ہو گیا تھا اور ہم نے اپنے نیزوں اور تلواروں کے کرتب دکھائے ۔

جب رومی ہمیں دیکھ کر خوف و وحشت میں پڑے تو ان کے شہر کے برج اور پشتے بھی ہماری ہیبت و قدرت سے زمین بوس ہو کر مسمار ہو گئے ۔

وہ سب ذلیل و خوار حالت میں ہمارے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے ۔

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ مندرجہ ذیل اشعار زیاد بن حنظلہ نے کہے ہیں :

ہم نے حمص میں قیصر کے بیٹے کو اپنے حال پر جھوڑدیا ،جب کہ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا ۔

ہم اس گھمسان کی جنگ میں سر بلند تھے اوراسے ایسی حالت میں چھوڑ دیا تاکہ وہ خاک و خون میں تڑپتا رہے ۔

اس کے سپاہی ہماری طاقت کے مقابلے میں اس قدر ذلیل و خوار ہوئے کہ ایک زلزلہ زدہ دیوار کی مانند زمیں پر ڈھیر ہو گئے ۔

ہم نے شہر حمص کو اس وقت ترک کیا جب اسے ہم باشندوں سے خالی کر چکے تھے ۔

سیف بن عمر کہتا ہے کہ زیاد بن حنظلہ نے '' قنسرین'' کی فتح کے سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

اسی شب جب ''میناس ''نے اپنے کمانڈروں کی شدید ملامت کی ہم ''قنسرین '' پر فتح پاکر وہاں کے فرمان روا ہو چکے تھے ۔

جس وقت ہمارے نیزوں اور تیروں کی بارش ہو رہی تھی خاندان '' تنوخ'' ہلاکت سے دو چار تھے ۔

ہماری جنگ تب تک جاری رہی جب تک وہ جزیہ دینے پر مجبور نہ ہوئے ۔یہ ہمارے لئے تعجب خیز بات تھی جب انھوں نے اپنے برج اور پشتوں کو خود مسمار کیا!!

۱۳۱

یہ اشعار بھی کہے ہیں :

جس دن '' میناس'' اپنی سپاہ لے کر ہمارے مقابلے میں آیا ،ہمارے محکم نیزوں نے اسے روک لیا ۔

اس کے سپاہی بیابان میں تتر بتر ہوگئے ،ہمارے دلاوروں اور نیزہ بازوں سے نبردآزمائی کی ۔

جس وقت ہمارے جنگجوئوں نے ''میناس'' کو گھیرلیا ۔اس وقت اس کے سوار سست پڑ چکے تھے ۔

سر انجام ہم نے ''میناس'' کو اس وقت چھوڑا جب وہ خون میں تڑپ رہا تھا اور ہو اکے جھونکے اس کے اور اس کے دوستوں کے چہرے پر صحرا کی ریت ڈال رہے تھے ۔

'' اجنادین '' کی جنگ کے بارے میں زیاد کے اشعار حسب ذیل ہیں :

ہم نے رومیوں کے کمانڈر ''ارطبون'' کو شکست دے دی اور وہ پسپا ہو کر مسجد اقصی تک بھاگ گیا۔

جس رات کو اجنادین کی جنگ کے شعلے ٹھنڈے پڑے ۔زمین پر پڑی لاشوں پر گدھ بیٹھے ہوئے تھے ۔

ہوا کے جھونکوں سے اٹھے ہوئے گرد وغبار کے در میان جب ہم اپنے نیزے ان کی طرف پھینکتے تھے تو ان کے کراہنے کی آوازیں ہمارے کانوں تک

۱۳۲

پہنچی تھیں ۔

اس جنگ کے بعد ہم نے رومیوں کو شام سے بھگا دیا اور دورترین علاقہ تک ان کا تعاقب کیا ۔

رومیوں کے فوجی بھاگ کھڑے ہوئے جب کہ خوف و وحشت سے ان کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی ۔

سر انجام وہ میدان کارزار میں لاشوں کے انبار چھوڑ کر افسوس ناک حالت میں بھاگ گئے ۔

اس نے یہ اشعا ربھی کہے ہیں :

رومیوں پر ہمارے سواروں کے حملہ نے ہمارے دلوں کو آرام و قرار بخشا اور ہمارے درد کی دوا کی ۔

ہمارے سواروں نے ان کے سرداروں کو اپنی بے رحم تلواروں کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور روم تک ان کا پیچھا کرکے انھیں قتل کرتے رہے ۔

ان کے ایک گروہ کا محا صرہ کیا گیا اور میں نے بڑی بے باکی سے ان کی ہر محترم خاتون کے ساتھ ہمبستری کی!!

زیاد بن حنظلہ نے مزید کہا ہے :

مجھے یاد آیا جب روم کی جنگ طولانی ہوئی اسی سال جب ہم ان سے نبرد آزما ہوئے تھے ۔

اس وقت ہم سرزمین حجاز میں تھے اور ہم روم سے راہ کی پستیوں اور بلندیوں کے ساتھ ایک مہینہ کے فاصلے پر تھے ۔

اس وقت ''ارطبون'' رومیوں کی حمایت کررہاتھا اور اس کے مقابل ایک ایسا پہلوان تھا جو اس کا ہم پلہ تھا۔

جب عمر فاروق کو محسوس ہوا کہ شام کو فتح کرنے کا وقت آپہنچا ہے تو وہ ایک خدائی لشکر لے کر روم کی طرف روانہ ہوئے ۔

جب رومیوں نے خطرہ کا احساس کیا اور ان کی ہیبت سے خوفزدہ ہوئے ،تو ان کے حضور پہنچ کر کہا:ہم آپ سے ملحق ہونا چاہتے تھے۔

یہی وقت تھا جب شام نے اپنے تمام خزانوں اور نعمتوں کی انھیں پیش

۱۳۳

کش کی ۔

فاروق نے دنیا کے مشرق ومغرب کے گزرے ہوئے لوگوں کی وراثت ہمیں عطا کی ۔

کتنے ایسے لوگ تھے جن میں اس ثروت کو اٹھا نے کی طاقت موجود نہ یھی اور وہ دوسروں سے اسے اٹھانے میں مدد لیتے تھے۔

مزید اس طرح کے اشعار کہے ہیں :

جب خطوط خلیفہ عمر کو پہنچے ،وہ خلیفہ جو کچھار کے شیر کی مانند قبیلہ کے اونٹوں کی حفاظت کرتاہے ۔

اس وقت شام کے باشندوں میں سختی تھی۔ہر طرف سے پہلوان تلاش کئے جارہے تھے۔

یہ وہی وقت تھا جب عمر نے لوگوں کی دعوت قبول کی اور سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد لے کر ان کی طرف روانہ ہوئے۔

شام نے اپنی وسعت کے ساتھ،خلیفہ کی توقع سے زیادہ ،استقبال کرکے اپنی خوبیاں خلیفہ کے حضور تحفے کے طور پر پیش کیں ۔

خلیفہ نے روم کے قیمتی اور بہترین جزیہ کو اسلام کے سپاہیوں میں عادلانہ طور پر تقسیم کیا۔

زیاد بن حنظلہ کے بارے میں ابن عساکر کے وہ بیانات جو اس نے پورے کے پورے سیف سے نقل کئے ہیں ،یہیں پرختم ہوتے ہیں ۔ساتھ ہی فتح بیت المقدس کے بارے میں موخر الذکر دو معرکوں کو بھی طبری نے سیف سے زیاد بن حنظلہ کی زبانی نقل کیاہے ۔

حموی کی کتاب ''معجم البلدان'' میں لفظ''اجنادین '' کی تشریح میں آیاہے :

اس سلسلے میں زیاد بن حنظلہ نے اپنے اشعار میں یوں کہاہے :

ہم نے رومیوں کے کمانڈر ''ارطبون''..... تا آخر

نیز اس نے لفظ ''داروم '' کے بارے میں لکھا ہے :

مسلمانوں نے ١٣ھ میں اس جگہ پر حملہ کیا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔

زیاد بن حنظلہ نے ایک شعر میں درج ذیل مطلع کے تحت اس کے بارے میں یوں ذکر کیاہے :

۱۳۴

ہمارے سپاہیوں نے سرزمین روم پر جو حملہ کیا ،اس سے میرے دل کا غم دور ہوا اور میرے دردکا علاج ہوگیا۔

جیساکہ ملاحظہ ہوا ،یہ شعر من جملہ ان چھ قصائد میں سے ہے جن کو ابن عساکر نے سیف سے روایت کرکے زیاد کے حالات میں بیان کیاہے اور ہم نے بھی اسے نقل کیاہے ۔یہ سب سیف بن عمر تمیمی کی روایتیں ہیں ۔ان عجیب وغریب افسانوں میں سے ہر ایک کو دوسروں کی روایتوں کے تمام اہم اورمعتبر تاریخی مصادر سے مقابلہ اور موازنہ کرکے یہاں ذکر کرنا بہت مشکل ہے ۔کیونکہ ان سے ہر ایک کے بارے میں مفصل اور الگ بحث کی ضرورت ہے ۔اور یہ اس کتاب کی گنجائش میں نہیں ہے بلکہ اگر ہم ایسا کریں تو یہ کام ہمیں اپنے مقصد سے دور کردے گا ۔لیکن ہم صرف یہ بات بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ان لشکر کشیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں زمان ومکان اور روئداد کی کیفیت ، حوادث میں کلیدی رول ادا کرنے والوں اور ذکر شدہ سپہ سالار وں کے لحاظ سے دوسروں ،جیسے ، بلاذری کے بیان کردہ تاریخی حقائق سے بالکل مغایرت واختلاف رکھتی ہیں ،کیونکہ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ قبیلہ تمیم ۔جو عراق میں رہتاتھا ۔نے مشرکین یا دوسروں سے جنگ کرنے کے سلسلے میں اپنی سرزمین سے آگے شمال اور روم کی سرزمین کی طرف کبھی قدم نہیں بڑھایاہے ۔یہ ایک مسلم حقیقت اور مسئلہ کاایک رخ ہے ۔مسئلہ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ تاریخ کے متون میں سے کسی بھی متن میں مسلمانوں کی جنگوں میں سے کسی جنگ میں سیف کے افسانوی سورمازیاد بن حنظلہ یا سیف کے دوسرے افسانوی دلاوروں کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا اور ان کی زبردست دلاوریوں خود ستائیوں اور خاندان تمیم کے دیگر افتخارات کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔

اس مختصر موازنہ اور مقابلہ سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ سیف بن عمر تمیمی تنہا مولف ہے جو زیاد نام کے ایک صحابی کی تخلیق کرکے اسے مسلمانوں کی جنگوں میں شرکت کرتے ہوئے دکھا تاہے اور اس کی زبردست شجاعتیں بیان کرتاہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایات کا ماحصل

١۔ سیف قبیلہ تمیم سے ''زیاد بن حنظلہ ''نامی ایک مردکی تخلیق کرکے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاصحابی قراردیتاہے

٢۔ زیادکوایسابہادربناکر پیش کرتاہے جو رومیوں کے ساتھ جنگ میں پیش قدم تھا اور وہ پہلادلاور تھاجس نے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا۔

٣۔زیاد کی زبانی شجاعتوں پر مشتمل حماسی قصیدے کہہ کر اپنے قبیلہ یعنی تمیم کے لئے فخرو مباہات کسب کرتاہے اور ان قصیدوں کے دوران دعویٰ کرتا ہے کہ یہ صرف تمیمی ہیں جو ''ہرکول'' اور ''ہراکلیوس'' جیسوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور انھیں ذلیل وخوار کرکے رکھتے ہیں ،ان کی سرزمینوں پر قبضہ جماتے ہیں ۔وہ''حمص'' کو اپنا اکھاڑ بنادیتے ہیں اور روم کے پادشاہ کے بیٹے کو قتل کرتے ہیں ۔ یہ تمیمی ہیں جو''قنسرین'' پر حکمرانی کرتے ہیں ''میناس ''کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور''اجنادین '' میں بیت المقدس کے حاکم ''ارطبون ''کو قتل کرکے رومیوں کی تمام خوبصورت عورتوں کو اپنی بیویاں بنالیتے ہیں !

٤۔ اور آخر کار سیف ان قصیدوں کو اپنے دعووں کے شاہد کے طور پر ادبیات عرب کے خزانوں میں جمع کرادیتاہے۔

زیاد بن حنظلہ ،حاکم کوفہ

طبری ٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے یہ روایت نقل کرتاہے :

عمر نے جب دیکھا کہ ایران کا بادشاہ ''یزدگرد'' ہر سال ایک فوج منظم کرکے مسلمانوں پر حملہ کرتاہے ،تو انھوں نے حکم دیاکہ مسلمان ہر طرف سے ایران کی سرزمین پر حملہ کرکے ایران کی حکومت اور بادشاہ کا تختہ الٹ دیں ۔

عمر کا یہ فرمان اس وقت جاری ہوا،جب اسلام کے ابتدائی مہاجرین میں شمار ہونے والا اور بنی عبد قصی سے دوستی کا معاہدہ منعقد کرنے والا زیاد بن حنظلہ عمر کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا۔کوفہ پر زیاد کی حکومت مختصر مدت کے لئے تھی کیونکہ عمر کی طرف سے ایران پر حملہ کرنے کے لئے لام بندی کا حکم جاری ہونے کے بعد اس نے اصرار کیا کہ اس کا استعفیٰ منظور کیاجائے ۔سر انجام خلیفہ زیاد بن حنظلہ کے بے حد اصرار اور خواہش کی وجہ سے اس کا استعفیٰ منظور کرنے پر مجبور ہوتاہے !

۱۳۶

اس کے علاوہ''سعد وقاص'' کی کوفہ پر حکومت کے دوران بھی وہاں کی قضاوت اور قاضی کا منصب زیاد بن حنظلہ کو سونپا گیا تھا۔

یہی طبری سیف سے روایت کرتاہے کہ خلیفہ عمر نے ٢٢ھ میں ''جزیرہ'' کی حکومت زیاد بن حنظلہ کو سونپی ۔

یہ سب سیف بن عمر کا قول ہے اور اسے طبری نے سیف کانام لے کر اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔

ابو نعیم ،ابن اثیر اور ابن کثیر ،تینوں دانشوروں نے زیاد بن حنظلہ کے حالات ،جیسے ،اس کی حکمرانی اور قاضی مقرر ہونا اور کوفہ اور جزیرہ کی حکمرانی سب کو طبری سے نقل کرکے ایک تاریخی حقیقت کے عنوان سے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے ۔

سیف نے زید کی کوفہ پر حکومت کی بات کو ''مختصر مدت'' کی قید کے ساتھ ذکر کیاہے اور خلیفہ عمر سے اس عہدے سے استعفیٰ دینے کا اصرار بیان کرتاہے تاکہ اپنے لئے فرار کی گنجائش باقی رکھے اور اگر کوئی اس سے سوال کرے کہ کوفہ کے حکمرانوں کی فہرست میں زیاد کا نام کیوں نہیں پایا جاتا؟ تو وہ فوراً جواب میں کہے:کہ اس کی حکومت کازمانہ اس قدر مختصر تھا کہ حکمرانوں کی فہرست میں اس کے ثبت ہونے کی اہمیت نہیں تھی۔

سیف اپنے خاندانی تعصبات کی بناء پر زیاد کی کوفہ پر اسی قدر حکمرانی پر راضی اور مطمئن ہے کیونکہ اسی قدر کوفہ پر اس کا حکومت کرنا خاندان تمیم کے فخرو مباہات میں اضافہ کا سبب بنتاہے !!

خاندانی تعصبات کی بناء پر افسانہ کے لئے اتناہی کافی ہے کہ :اس کا '' زیاد بن حنظلہ'' ایک ایسا صحابی ہو جو مہاجر،دلاور وبے باک شہسوار ،دربار خلافت کا منظور نظر پاک دامن حکمران و فرماں روا عادل پارسا منصف و قاضی اور ایک حماسی سخنور شاعر کہ میدان کارزار میں اس کے نیزے کی نوک سے خون ٹپکتا ہو اور اس کی تلوارکی دھار موت کا پیغام دیتی ہو اور حماسی اشعار کہتے وقت اس کی زبان شعلہ بار ہو۔

۱۳۷

زیاد بن حنظلہ ،امام علی علیہ السلام کی خدمت میں

طبری ٣٦ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

مدینہ کے باشندے یہ جاننا چاہتے تھے کہ حضرت علی ں معاویہ اور اس کے پیرو مسلمانوں سے جنگ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں ؟ کیا وہ جنگ کا اقدام گریں گے ؟یا اس قسم کا اقدام کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ؟ اس کام کے لئے زیاد بن حنظلہ جو حضرت علی ں کے خواص میں شمار ہوتا تھا کو آمادہ کیا گیا کہ حضرت علی ں کے پاس جائے اور ان کا نظریہ معلوم کرکے خبر لائے ۔

زیاد امام ں کی خدمت میں پہنچا اور کچھ دیر امام کی خدمت میں بیٹھا۔امام نے فرمایا:

زیاد ! آمادہ ہو جائو ۔

زیاد نے پوچھا :

کس کام کے لئے ؟

امام ں نے فرمایا : شام کی جنگ کے لئے !

زیاد نے امام ں کے حکم کے جواب میں کہا : صلح و مہربانی جنگ سے بہتر ہے ۔اور یہ شعر پڑھا :

جو مشکل ترین کاموں میں ساز باز نہ کرے ،اسے دانتوں سے کاٹا جائے گا اور پائوں سے پائمال کیا جائے گا!!

امام ں نے جیسے وہ بظاہر زیاد سے مخاطب نہ تھے فرمایا:

اگر تم ہوشیار دل ،تیز تلوار اور عالی دماغ کے مالک ہو تو مصیبتیں تم سے دور ہو جائیں گی ۔

زیاد امام ں کے پاس سے اٹھ کر باہر آیا۔ منتظر لوگوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا اور سوال کیا :

کیا خبر ہے ؟

۱۳۸

زیاد نے جواب میں کہا: لوگ!تلوار!

مدینہ کے لوگ زیاد کا جواب سن کر سمجھ گئے کہ امام کا مقصد کیا ہے اور کیا پیش آنے والا ہے :

طبری اس افسانہ کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :

لوگوں نے شام کی جنگ میں اپنے امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ساتھ دینے سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کی حمایت نہیں کی جب زیاد بن حنظلہ نے یہ حالت دیکھی تو امام کے پاس جاکر بولا :

اگر کوئی آپ کی حمایت نہ کرے اور آپ کا ساتھ نہ دے اور مدد نہ کرے تو ہم ہیں ، ہم آپ کی مدد کریں گے اور آپ کے دشمنوں سے لڑیں گے ۔

طبری نے یہ مطالب سیف سے لئے ہیں اور ابن اثیر نے بھی انھیں طبری سے نقل کیا ہے ۔

کتاب '' استیعاب'' کے مؤلف ابن عبد البر اور دوسرے مؤلفین نے طبری کی پیروی کرتے ہوئے سیف کی اسی روایت پر اعتماد کرکے زیا دبن حنظلہ کو امام علی علیہ السلام کے خواص میں شمار کرایا ہے ،اور شائد سیف کی زیاد سے یہ بات نقل کرنے کے پیش نظر کہ ''(ہم آپ کی یاری اور مدد کے لئے آمادہ ہیں اورآپ کے دشمن سے لڑیں گے)۔لکھا گیا ہے کہ: زیاد نے امام کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے۔

ابن اعثم نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی اسی روایت کا ایک حصہ درج کیا ہے ۔

لیکن ہم نے ان جھوٹ کے پلندوں کو سیف کی روایتوں کے علاوہ تاریخ کے کسی اور مصدر میں نہیں پایا جن میں سیف سے مطلب نقل نہیں کیا گیا ہے اور جمل،صفین اور نہروان کی جنگوں میں زیاد کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا ، حتی امام علی کے اصحاب و شیعوں کے حالات پر مشتمل کتابو ں میں ''مامقانی'' کے علاوہ کہیں اس افسانوی شخص کا نام نہیں ہے '' مامقانی ''نے بھی ''اسد الغابہ'' اور ''استیعاب'' کی تحرویروں کے پیش نظر جہاں پر یہ لکھا گیا ہے کہ ''زیاد امام علی کا خاص صحابی تھا'' بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی کتا ب میں لکھا ہے :

۱۳۹

''میرا خیا ل ہے کہ یہ شخص ایک اچھا شیعہ تھا''

ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ سیف نے زیاد کو امام کے خواص کے طور پر کیو ں ذکر کیا ہے اور قعقاع جیسے بے مثال پہلوان کو امام کی خدمت میں مشغول دکھا یا ہے ؟چونکہ ہم سیف کو جھوٹ اور افسانے گھڑنے کے سلسلہ میں ناپختہ اور ناتجربہ کار نہیں سمجھتے ،اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیف کو زیاد کا افسانہ تخلیق کرنے اور اسے امام علی سے ربط دینے میں یہ مقصد کا ر فرما نہیں تھا کہ شیعوں کو بھی اپنی طرف جذب کرے تا کہ اس کے افسانے ان میں بھی اسی طرح رائج ہوجائیں جیسے اس نے خاص افسانے تخلیق کر کے مکتبِ خلفاء کے پیرؤں کو آمادہ کیا کہ اس کے جھوٹ کو باور کرکے اپنی کتابوں میں درج کریں ؟ یا اس کا کوئی اور بھی مقصد تھا جس سے ہم بے خبر ہیں !

سیف زیاد کو اس حد تک امام کے خواص میں شمار کراتا ہے کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ آپ کے خاص اصحاب جیسے عمار یاسر ، مالک اشتر اور ابن عباس و غیرہ بھی اس کے محتاج نظر آتے ہیں اور اسے معاویہ سے جنگ کے بارے میں امام کی طاقت اور مقصد سے متعلق اطلاع حاصل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔ ایسے جھوٹ کے پل باندھنا صرف سیف کے ہاں پایا جاسکتا ہے!!

زیاد بن حنظلہ اور نقلِ روایت

ابتداء میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ'' ابن عبد البر'' جیسا عالم اپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے :

''لیکن میں نے زیاد بن حنظلہ سے کوئی روایت نہیں دیکھی''۔

ابن اثیر نے بھی ابن عبد البر کے انہی مطالب کو اپنی کتاب ''اسد الغابہ '' میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن عساکر لکھتا ہے :

اس کے بیٹے ''حنظلہ بن زیاد'' اور ''عاص بن تمام'' نے بھی اس سے روایت کی ہے۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں ان ہی مطالب کو لکھا ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

كے لحاظ سے ہر طرح كے سازو سامان سے ليس تھا وہ حضرت موسى كے خلاف ہر طرف سے حركت ميں آگيا تھا اس كے نتيجے ميں تمام لوگوں كا ايك ہى نعرہ تھا اور وہ يہ كہ اے موسى تم تو ايك زبردست جادو گر ہو ، كيونكہ موسى كى بات كو رد كرنے كا ان كے پاس اس سے بہتر كوئي جواب نہ تھا جس كے ذريعے لوگوں كے دلوں ميں وہ گھربنانا چاہتے تھے _

ليكن چونكہ خدا كسى قوم پر اس وقت تك اپنا آخرى عذاب نازل نہيں كرتا جب تك كہ اس پر خوب اچھى طرح سے اتمام حجت نہ كرلے اس لئے بعد والى آيت ميں فرمايا گيا ہے كہ ہم نے پہلے طرح طرح كى بلائيں ان پر نازل كيں كہ شايد ان كو ہوش آجائے _(۱)

''پہلے ہم نے ان پر طوفان بھيجا''

اس كے بعد قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:

''اس كے بعد ہم نے ان كى زراعتوں اور درختوں پر ٹڈيوں كو مسلط كرديا_''

روايات ميں وارد ہوا ہے كہ كہ اللہ نے ان پر ٹڈياں اس كثرت سے بھيجيں كہ انھوں نے درختوں كے شاخ و برگ كا بالكل صفايا كرديا، حتى كہ ان كے بدنوں تك كو وہ اتنا آزار پہنچاتى تھيں كہ وہ تكليف سے چيختے چلاتے تھے_

جب بھى ان پر بلا نازل ہوتى تھى تو وہ حضرت موسى عليہ السلام سے فرياد كرتے تھے كہ وہ خدا سے كہہ كر اس بلا كو ہٹواديں طوفان اور ٹڈيوں كے موقع پر بھى انھوں نے جناب موسى عليہ السلام سے يہى خواہش كى ، جس كو موسى عليہ السلام نے قبول كرليا اور يہ دونوں بلائيں برطرف ہوگئيں ، ليكن اس كے بعد پھر وہ اپنى ضد پر اتر آئے جس كے نتيجے ميں تيسرى بلا ''قمّل '' كى ان پر نازل ہوئي_

''قمّل'' سے كيا مراد ہے؟ اس بارے ميں مفسرين كے درميان گفتگو ہوئي ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ

____________________

(۱) سورہ اعراف كى ايت ۱۳۳ ميں ان بلاو ں كا نام ليا گيا ہے

۳۴۱

ايك قسم كى نباتى آفت تھى جو زراعت كو كھاجاتى تھي_

جب يہ آفت بھى ختم ہوئي اور وہ پھر بھى ايمان نہ لائے،تو اللہ نے مينڈك كى نسل كو اس قدر فروغ ديا كہ مينڈك ايك نئي بلا كى صورت ميں ان كى زندگى ميں اخل ہوگئے_

جدھر ديكھتے تھے ہر طرف چھوٹے بڑے مينڈك نظر آتے تھے يہاں تك كہ گھروں كے اندر، كمروں ميں ، بچھونوں ميں ، دسترخوان پر كھانے كے برتنوں ميں مينڈك ہى مينڈك تھے، جس كى وجہ سے ان كى زندگى حرام ہوگئي تھي، ليكن پھر بھى انھوں نے حق كے سامنے اپنا سرنہ جھكايا اور ايمان نہ لائے_

اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط كيا_

بعض مفسرين نے كہا كہ خون سے مراد ''مرض نكسير'' ہے جو ايك وبا كى صورت ميں ان ميں پھيل گيا، ليكن بہت سے مفسرين نے لكھا ہے كہ دريائے نيل لہو رنگ ہوگيا اتنا كہ اس كا پانى مصرف كے لائق نہ رہا_

آخر ميں قرآن فرماتا ہے: '' ان معجزوں اور كھلى نشانيوں كو جو موسى كى حقانيت پر دلالت كرتى تھيں ،ہم نے ان كو دكھلايا ليكن انھوں نے ان كے مقابلہ ميں تكبر سے كام ليا اور حق كو قبول كرنے سے انكار كرديا اور وہ ايك مجرم او رگناہگار قوم تھے_''(۱)

بعض روايات ميں ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بلا ايك ايك سال كے لئے آتى تھى يعنى ايك سال طوفان و سيلاب، دوسرے سال ٹڈيوں كے دَل، تيسرے سال نباتاتى آفت، اسى طرح آخر تك، ليكن ديگر روايات ميں ہے كہ ايك آفت سے دوسرى آفت تك ايك مہينہ سے زيادہ فاصلہ نہ تھا، بہر كيف اس ميں شك نہيں كہ ان آفتوں كے درميان فاصلہ موجود تھا( جيسا كہ قرآن نے لفظ ''مفصلات'' سے تعبير كيا ہے)تاكہ ان كو تفكر كے لئے كافى موقع مل جائے_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ يہ بلائيں صرف فرعون اور فرعون والوں كے دامن گير ہوتى تھيں ، بني

____________________

(۱) سورہ اعراف آيت ۱۳۳

۳۴۲

اسرائيل اس سے محفوظ تھے، بے شك يہ اعجاز ہى تھا ،ليكن اگر نكتہ ذيل پر نظر كى جائے تو ان ميں سے بعض كى علمى توجيہہ بھى كى جاسكتى ہے_

ہميں معلوم ہے كہ مصر جيسى سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دريائے نيل كے كناروں پر آباد تھى اس كے بہترين حصے وہ تھے جو درياسے قريب تھے وہاں پانى بھى فراوان تھا اور زراعت بھى خوب ہوتى تھى ،تجارتى كشتياں وغيرہ بھى دستياب تھيں ، يہ خطے فرعون والوں اور قبطيوں كے قبضے ميں تھے جہاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا ركھے تھے اس كے بر خلاف اسرائيلوں كو دور دراز كے خشك اور كم آب علاقے دئے گئے تھے جہاں وہ زندگى كے يہ سخت دن گذارتے تھے كيونكہ ان كى حيثيت غلاموں جيسى تھي_

بنا بر اين يہ ايك طبيعى امر ہے كہ جب سيلاب اور طوفان آيا تو اس كے نتيجے ميں وہ آبادياں زيادہ متاثر ہوئيں جو دريائے نيل كے دونوں كناروں پر آباد تھيں ، اسى طرح مينڈھك بھى پانى سے پيدا ہوتے ہيں جو قبطيوں كے گھروں كے آس پاس بڑى مقدار ميں موجود تھے، يہى حال خون كا ہے كيونكہ رود نيل كا پانى خون ہو گيا تھا، ٹڈياں اور زرعى آفتيں بھى باغات، كھيتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ كرتى ہيں ، لہذا ان عذابوں سے زيادہ تر نقصان قبطيوں ہى كا ہوتا تھا_

جو كچھ قرآن ميں ذكر ہوا ہے اس كا ذكر موجودہ توريت ميں بھى ملتا ہے، ليكن كسى حد تك فرق كے ساتھ_(۱)

بار بار كى عہد شكنياں

قرآن ميں فرعونيوں كے اس رد عمل كا ذكر كيا گيا ہے جو انہوں نے پروردگار عالم كى عبرت انگيزاور بيدار كنندہ بلائوں كے نزول كے بعد ظاہر كيا،ان تما م قرآنى گفتگو سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ جس وقت وہ بلا كے چنگل ميں گرفتار ہو جاتے تھے،جيسا كہ عام طور سے تباہ كاروں كا دستور ہے،وقتى طور پر خواب غفلت

____________________

(۱)ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا دہم توريت

۳۴۳

سے بيدار ہوجاتے تھے اور فرياد وزارى كرنے لگتے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام سے درخواست كرتے تھے كہ خدا سے ان كى نجات كے لئے دعا كريں _ چونكہ حضرت موسى عليہ السلام ان كے لئے دعا كرتے تھے اور وہ بلا ان كے سروں سے ٹل جاتى تھي،مگر ان كى حالت يہ تھى كہ جونہى وہ بلا سر سے ٹلتى تھى تو وہ تمام چيزوں كو بھول جاتے تھے اور وہ اپنى پہلى نا فرمانى اور سركشى كى حالت پر پلٹ جاتے تھے_

جس وقت ان پر بلا مسلط ہوتى تھى تو كہتے تھے:'' اے موسى ہمارے لئے اپنے خدا سے دعا كرو كہ جو عہد اس نے تم سے كيا ہے اسے پورا كرے اور تمہارى دعا ہمارے حق ميں قبول كرے،اگر تم يہ بلا ہم سے دور كردو تو ہم يہ وعدہ كرتے ہيں كہ ہم خود بھى تم پر ضرور ايمان لائيں گے اور بنى اسرائيل كو بھى يقينا تمہارے ہمرا ہ روانہ كرديں گے''_(۱)

اس كے بعد ان كى پيمان شكنى كا ذكر كيا گيا ہے،ارشاد ہوتا ہے:''جس وقت ہم ان پر سے بلائوں كو تعين شدہ مدت كے بعد ہٹا ديتے تھے تو وہ اپنا وعدہ توڑ ڈالتے تھے''_(۲)

نہ خود ہى ايمان لاتے تھے اور نہ ہى بنى اسرائيل كو اسيرى سے آزاد كرتے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام ان كايك مدت معين كرتے تھے كہ فلا ں وقت يہ بلا بر طرف ہوجائے گى تاكہ ان پر اچھى طرح كھل جائے كہ يہ بلا كوئي اتفاقى حادثہ نہ تھا بلكہ حضرت موسى عليہ السلام كى دعا كى وجہ سے تھا_

موسى عليہ السلام كے پاس سونے كے كنگن كيوں نہيں ؟

حضرت موسى عليہ السلام كى منطق ايك طرف ان كے مختلف معجزات دوسرى طرف مصر كے لوگوں پر نازل ہونيوالى بلائيں جو موسى عليہ السلا م كى دعا كى بركت سے ٹل جاتى تھيں تيسرى طرف،ان سب اسباب نے مجموعى طور پر اس ماحول پر گہرے اثرات ڈالے اور فرعون كے بارے ميں لوگوں كے افكار كو ڈانواں ڈول

____________________

()اعراف آيت ۱۳۴

(۲)سورہ اعراف ايت ۱۳۵

۳۴۴

كرديا اور انھيں پورے مذہبى اور معاشرتى نظام كے بارے ميں سوچنے پر مجبور كرديا_

اس موقع پر فرعون نے دھوكہ دھڑى كے ذريعہ موسى عليہ السلام كا اثر مصرى لوگوں كے ذہن سے ختم كرنے كى كوشش كى اور پست اقدار كا سہارا ليا جو اس ماحول پر حكم فرماتھا، انھيں اقدار كے ذريعہ اپنا اور موسى عليہ السلام كا موازنہ شروع كرديا تا كہ اس طرح لوگوں پر اپنى برترى كو پايہ ثبوت تك پہنچائے، جيسا كہ قرآن پاك فرماتا ہے:

''اور فرعون نے اپنے لوگوں كو پكار كر كہا:اے ميرى قوم آيا مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر ميرى حكومت نہيں ہے اور كيا يہ عظيم دريا ميرے حكم سے نہيں بہہ رہے ہيں اور ميرے محلوں ،كھيتوں اور باغوں سے نہيں گررہے ہيں ؟كيا تم ديكھتے نہيں ہو؟''(۱)

ليكن موسى عليہ السلام كے پاس كيا ہے،كچھ بھى نہيں ، ايك لاٹھى اور ايك اونى لباس اور بس ،تو كيا اس كى شخصيت بڑى ہوگى يا ميري؟ آيا وہ سچ بات كہتا ہے يا ميں ؟اپنى آنكھيں كھولوں اور بات اچھى طرح سمجھنے كى كوشش كرو_ اس طرح فرعون نے مصنوعى اقدار كو لوگوں كے سامنے پيش كيا،بالكل ويسے ہى جيسے عصر جاہليت كے بت پرستوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے مقابلے ميں مال و مقام كو صحيح انسانى اقدار سمجھ ركھا تھا_

لفظ''نادى ''(پكار كر كہا )سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے اپنى مملكت كے مشاہير كى ايك عظيم محفل جمائي اور بلند آواز كے ساتھ ان سب كو مخاطب كرتے ہوئے يہ جملے ادا كيے،يا حكم ديا كہ اس كى اس آواز كو ايك سركارى حكم نامے كے ذريعے پورے ملك ميں بيان كيا جائے_

قرآن آگے چل كر فرماتا ہے كہ فرعون نے كہا:''ميں اس شخص سے برتر ہوں جو ايك پست خاندان اور طبقے سے تعلق ركھتا ہے_اور صاف طور پر بات بھى نہيں كرسكتا''_(۲)

اس طرح سے اس نے اپنے لئے دو بڑے اعزازات(حكومت مصر اور نيل كى مملكت)اور موسى

____________________

(۱)سورہ زخرف آيت ۵۱

(۲)سورہ زخرف آيت ۵۲

۳۴۵

عليہ السلام كے دوكمزور پہلو(فقر اور لكنت زبان) بيان كرديئے_

حالانكہ اس وقت حضرت موسى عليہ السلام كى زبان ميں لكنت نہ تھي_كيونكہ خدا نے ان كى دعا كو قبول فرماليا تھا اور زبان كى لكنت كو دور كرديا تھا كيونكہ موسى عليہ السلام نے مبعوث ہوتے ہى خداسے يہ دعا مانگى تھى كہ _''خدا وندا ميرى زبان كى گرہيں كھول دے''_(۱) اور يقينا ان كى دعا قبول ہوئي اور قرآن بھى اس بات پر گواہ ہے_ بے پناہ دولت،فاخرہ لباس اور چكاچوند كرتے محلات،مظلوم طبقے پر ظلم و ستم كے ذريعے حاصل ہوتے ہيں _ ان كا مالك نہ ہونا صرف عيب كى بات ہى نہيں بلكہ باعث صدافتخار شرافت اور عزت كا سبب بھى ہے_

''مھين''(پست)كى تعبير سے ممكن ہے اس دور كے اجتماعى طبقات كى طرف اشارہ ہو، كيونكہ اس دور ميں بڑے بڑے سرمايہ داروں كا معاشرہ كے بلند طبقوں ميں شمار ہوتا تھا او رمحنت كشوں اور كم آمدنى والے لوگوں كا پست طبقے ميں ،يا پھر ممكن ہے موسى عليہ السلام كى قوم كى طرف اشارہ ہو كيونكہ ان كا تعلق بنى اسرائيل سے تھا اور فرعون كى قبطى قوم اپنے آپ كو سردار اور آقا سمجھتى تھي_ پھر فرعون دو اور بہانوں كا سہارا ليتے ہوئے كہتا ہے:''اسے سونے كے كنگن كيوں نہيں ديئے اور اس كے لئے مددگار كيوں نہيں مقرر كئے تاكہ وہ اس كى تصديق كريں ؟'' اگر خدا نے اسے رسول بنايا ہے تو دوسرے رسول كى طرح طلائي كنگن كيوں نہيں دئے گئے اور اس كے لئے مدد گار كيوں نہيں مقرر كئے گئے_

كہتے ہيں كہ فرعونى قوم كا عقيدہ تھا كہ روساء اور سر براہوں كو ہميشہ طلائي كنگنوں اور سونے كے ہاروں سے مزين ہونا چاہيئےور چونكہ موسى عليہ السلام كے پاس اس قسم كے زيورات نہيں تھے بلكہ ان زيورات كے بجائے وہ چرواہوں والا موٹا سا اونى كرتا زيب تن كئے ہوئے تھے،لہذا ان لوگوں نے اس بات پر تعجب كا اظہار كيا اور يہى حال ان لوگوں كا ہوتا ہے جو انسانى شخصيت كے پركھنے كا معيار سونا،چاندى اور دوسرے زيورات كو سمجھتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ طہ آيت ۲۷

۳۴۶

جناب موسى اورہارون عليہما السلام كے اونى لباس

اس بارے ميں ايك نہايت عمدہ بيان آيا ہے ،امام على بن ابى طالب عليہما السلام فرماتے ہيں :موسى عليہ السلام اپنے بھائي(ہارون) كے ساتھ فرعون كے دربار ميں پہنچے دونوں كے بدن پراونى لباس اور ہاتھوں ميں عصا تھا اس حالت ميں انھوں نے شرط پيش كى كہ اگر فرمان الہى كے سامنے جھك جائے تو اس كى حكومت اور ملك باقى اور اقتدار قائم و برقرار رہے گا،ليكن فرعون نے حاضرين سے كہا:تمہيں ان كى باتوں پر تعجب نہيں ہوتا كہ ميرے ساتھ شرط لگا رہے ہيں كہ ميرے ملك كى بقا اور ميرى عزت كا دوام ان كى مرضى كے ساتھ وابستہ ہے جبكہ ان كا اپنا حال يہ ہے كہ فقر و تنگدستى ان كى حالت اور صورت سے ٹپك رہى ہے(اگر يہ سچ كہتے ہيں تو)خود انھيں طلائي كنگن كيوں نہيں ديئے گئے_

دوسرا بہانہ وہى مشہور بہانہ ہے جو بہت سى گمراہ اور سركش امتيں انبياء كرام عليہم السلام كے سامنے پيش كيا كرتى تھيں ،كبھى تو كہتى تھيں كہ''وہ انسان كيوں ہے اور فرشتہ كيوں نہيں ؟اور كبھى كہتى تھى كہ اگر وہ انسان ہے تو پھر كم از كم اس كے ہمراہ كوئي فرشتہ كيوں نہيں آيا؟''

حالانكہ انسانوں كى طرف بھيجے ہوئے رسولوں كوروح انسانى كا حامل ہونا چاہئے تا كہ وہ ان كى ضرورتوں ،مشكلوں اور مسائل كو محسوس كرسكيں اور انہيں ان كا جواب دے سكيں اور عملى لحاظ سے ان كے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پاسكيں _

چوتھا مرحلہ انقلاب كى تياري

حضرت موسى عليہ السلام ميدان مقابلہ ميں فرعون پر غالب آگئے اور سرخرو اور سرفراز ہوكر ميدان سے باہر آئے اگر چہ فرعون اور اس كے تمام دربارى ان پر ايمان نہ لائے ليكن اس كے چند اہم نتائج ضرور برآمد ہوئے،جن ميں سے ہر ايك اہم كاميابى شمار ہوتا ہے_

۱_بنى اسرائيل كا اپنے رہبر اور پيشوا پر عقيدہ مزيد پختہ ہوگيا اور انھيں مزيد تقويت مل گئي چنانچہ ايك

۳۴۷

دل اور ايك جان ہو كر ان كے گرد جمع ہوگئے كيونكہ انھوں نے سالہا سال كى بدبختى اور دربدر كى ٹھوكريں كھانے كے بعد اب اپنے اندر كسى آسمانى پيغمبر كو ديكھا تھا جو كہ ان كى ہدايت كابھى ضامن تھا اور ان كے انقلاب،آزادى اور كاميابى كا بھى رہبر تھا_

۲_موسى عليہ السلام نے مصريوں اور قبطيوں تك كے درميان ايك اہم مقام حاصل كرليا_ كچھ لوگ ان كى طرف مائل ہوگئے اور جو مائل نہيں ہوئے تھے وہ كم ازكم كم ان كى مخالفت سے ضرور گھبراتے تھے اور جناب موسى عليہ السلام كى صدائے دعوت تمام مصر ميں گونجنے لگي_

۳_سب سے بڑھ كر يہ كہ فرعون عوامى افكار اور اپنى جان كو لاحق خطرے سے بچائو كے لئے اپنے اندر ايسے شخص كے ساتھ مقابلے كى طاقت كھوچكا تھا جس كے ہاتھ ميں اس قسم كا عصا اور منہ ميں اس طرح كى گويا زبان تھي_

مجموعى طور پر يہ امور موسى عليہ السلام كے لئے اس حد تك زمين ہموار كرنے ميں معاون ثابت ہوئے كہ مصريوں كے اندر ان كے پائوں جم گئے اور انھوں نے كھل كر اپنا تبليغى فريضہ انجام ديا اور اتمام حجت كي_

قرآن ميں فرعونيوں كے خلاف بنى اسرائيل كے قيام اور انقلاب كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے_پہلى بات يہ ہے كہ خدا فرماتا ہے:''ہم نے موسى اور اس كے بھائي كى طرف وحى كى كہ سرزمين مصر ميں اپنى قوم كے لئے گھروں كا انتخاب كرو''_(۱)

''اور خصوصيت كے ساتھ ان گھروں كو ايك دوسرے كے قريب اور آمنے سامنے بنائو''_(۲)

پھر روحانى طور پر اپنى خود سازى اور اصلاح كرو''اور نماز قائم كرو_''اس طرح سے اپنے نفس كو پاك اور قوى كرو_(۳)

____________________

(۱)سورہ يونس آيت۸۷

(۲)سورہ يونس آيت۸۷

(۳)سورہ يونس آيت۸۷

۳۴۸

اور اس لئے كہ خوف اور وحشت كے آثار ان كے دل سے نكل جائيں اور وہ روحانى و انقلابى قوت پاليں ''مومنين كوبشارت دو''كاميابى اور خدا كے لطف و رحمت كى بشارت_(۱)

زير بحث آيات كے مجموعى مطالعے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس زمانے ميں بنى اسرائيل منتشر،شكست خوردہ،وابستہ،طفيلي،آلودہ اور خوف زدہ گروہ كى شكل ميں تھے،نہ ان كے پاس گھر تھے نہ كوئي مركز تھا،نہ ان كے پاس معنوى اصلاح كا كوئي پروگرام تھا اور نہ ہى ان ميں اس قدر شجاعت،عزم اور حوصلہ تھا جو شكست دينے والے انقلاب كے لئے ضرورى ہوتا ہے_لہذا حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي حضرت ہارون عليہ السلام كو حكم ملاكہ وہ بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے خصوصاً روحانى حوالے سے چند امور پر مشتمل پروگرام شروع كريں _

۱_مكان تعمير كريں اور اپنے مكانات فرعونيوں سے الگ بنائيں _ اس ميں متعدد فائدے تھے_

ايك يہ كہ سرزمين مصر ميں ان كے مكانات ہوں گے تو وہ اس كا دفاع زيادہ لگائو سے كريں گے_

دوسرا يہ كہ قبطيوں كے گھروں ميں طفيلى زندگى گزارنے كے بجائے وہ اپنى ايك مستقل زندگى شروع كرسكيں گے_

تيسرا يہ كہ انكے معاملات اور تدابير كے راز دشمنوں كے ہاتھ نہيں لگيں گے_

۲_اپنے گھر ايك دوسرے كے آمنے سامنے اور قريب قريب بنائيں ،بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے يہ ايك موثر كام تھا اس طرح سے وہ اجتماعى مسائل پر مل كر غور فكر كرسكتے تھے اور مذہبيمراسم كے حوالے سے جمع ہوكر اپنى آزادى كے لئے ضرورى پروگرام بنا سكتے تھے_

۳_عبادت كى طرف متوجہ ہوں ،خصوصاً نماز كى طرف كہ جو انسان كو بندوں كى بندگى سے جدا كرتى ہے اور اس كا تعلق تمام قدرتوں كے خالق سے قائم كرديتى ہے_ اس كے دل اور روح كو گناہ كى آلودگى سے

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۸۷

۳۴۹

پاك كرتى ہے اپنے آپ پر بھروسہ كرنے كا احساس زندہ كرتى ہے اورقدرت پروردگار كا سہارا لے كر انسانى جسم ميں ايك تازہ روح پھونك ديتى ہے_

۴_ايك رہبر كے طور پر حضرت موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى روحوں ميں موجود طويل غلامى اور ذلت كے دور كا خوف ووحشت نكال باہر پھينكيں اور حتمى فتح ونصرت،كاميابى اور پروردگار كے لطف وكرم كى بشارت دے كر مومنين كے ارادے كو مضبوط كريں اور ان ميں شہامت و شجاعت كى پرورش كريں _

اس روش كو كئي سال گزر گئے اور اس دوران ميں موسى عليہ السلام نے اپنے منطقى دلائل كے ساتھ ساتھ انھيں كئي معجزے بھى دكھائے _

ہم نے انھيں باہر نكال ديا

جب موسى عليہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت كرچكے اور مومنين ومنكرين كى صفيں ايك دوسرے سے جدا ہوگئيں تو موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كے كوچ كرنے كا حكم دے ديا گيا، چنانچہ قرآن نے اس كى اسطرح منظر كشى كى _

سب سے پہلے فرمايا گياہے:''ہم نے موسى پر وحى كى كہ راتوں رات ميرے بندوں كو(مصر سے باہر)نكال كرلے جائو،كيونكہ وہ تمہارا پيچھا كرنے والے ہيں ''_(۱)

موسى عليہ السلام نے اس حكم كى تعميل كى اور دشمن كى نگاہوں سے بچ كر بنى اسرائيل كو ايك جگہ اكٹھا كرنے كے بعد كوچ كا حكم ديا اور حكم خدا كے مطابق رات كو خصوصى طور پر منتخب كيا تاكہ يہ منصوبہ صحيح صورت ميں تكميل كو پہنچے_

ليكن ظاہر ہے كہ اتنى بڑى تعداد كى روانگى ايسى چيز نہيں تھى جو زيادہ دير تك چھپى رہ جاتي_ جاسوسوں

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۵۲

۳۵۰

نے جلد ہى اس كى رپورٹ فرعون كو دے دى اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے:'' فرعون نے اپنے كارندے مختلف شہروں ميں روانہ كرديئے تا كہ فوج جمع كريں ''_(۱)

البتہ اس زمانے كے حالات كے مطابق فرعون كا پيغام تمام شہروں ميں پہنچانے كے لئے كافى وقت كى ضرورت تھى ليكن نزديك كے شہروں ميں يہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئي اور پہلے سے تيار شدہ لشكر فوراً حركت ميں آگئے اور مقدمة الجيش اور حملہ آور لشكر كى تشكيل كى گئي اور دوسرے لشكر بھى آہستہ آہستہ ان سے آملتے رہے_

ساتھ ہى لوگوں كے حوصلے بلند ركھنے اور نفسياتى اثر قائم ركھنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ اس بات كا اعلان كرديا جائے كہ''وہ تو ايك چھوٹا سا گروہ ہے''_(۲) (تعداد كے لحاظ سے بھى كم اور طاقت كے لحاظ سے بھى كم)_

لہذا اس چھوٹے سے كمزور گروہ كے مقابلے ميں ہم كامياب ہوجائيں گے گھبرانے كى كوئي بات نہيں _كيونكہ طاقت اور قوت ہمارے پاس زيادہ ہے لہذا فتح بھى ہمارى ہى ہوگي_

فرعون نے يہ بھى كہا:'' آخر ہم كس حد تك برداشت كريں اور كب تك ان سركش غلاموں كے ساتھ نرمى كا برتائو كرتے رہيں ؟انھوں نے تو ہميں غصہ دلايا ہے''_(۳)

آخر كل مصر كے كھيتوں كى كون آبپاشى كرے گا؟ہمارے گھر كون بنائے گا؟اس وسيع و عريض مملكت كا كون لوگ بوجھ اٹھائيں گے؟اور ہمارى نوكرى كون كرے گا؟

اس كے علاوہ'' ہميں ان لوگوں كى سازشو ں سے خطرہ ہے(خواہ وہ يہاں رہيں يا كہيں اور چلے جائيں )اور ہم ان سے مقابلہ كے لئے مكمل طور پر آمادہ اور اچھى طرح ہوشيار ہيں ''_(۴)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۳

(۲)سورہ شعراء آيت ۵۴

(۳)سورہ شعراء آيت۵۵

(۴)سورہ شعراء آيت ۵۶

۳۵۱

پھر قرآن پاك فرعونيوں كے انجام كا ذكر كرتا ہے اور اجمالى طور پر ان كى حكومت كے زوال اور بنى اسرائيل كے اقتدار كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے:''ہم نے انھيں سر سبز باغات اور پانى سے لبريز چشموں سے باہر نكال ديا''_(۱) خزانوں ،خوبصورت محلات اور آرام و آسائش كے مقامات سے بھى نكال ديا_

ہاں ہاں ہم نے ايسا ہى كيا اور بنى اسرائيل كو بغير كسى مشقت كے يہ سب كچھ دےديا اور انھيں فرعون والوں كا وارث بناديا_(۲)(۳)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۵۷تا۵۹

(۲)سورہ شعراء ايت ۵۹

(۳)آيا بنى اسرائيل نے مصر ميں حكومت كى ہے؟

خدا وند عالم قران مجيد ميں فرماتا ہے كہ ہم نے بنى اسرائيل كو فرعون والوں كا وارث بنايا_ اسى تعبير كى بناء پر بعض مفسرين كى يہ رائے ہے كہ بنى اسرائيل كے افراد مصر كى طرف واپس لوٹ آئے اور زمام حكومت و اقتدار اپنے قبضے ميں لے كر مدتوں وہاں حكومت كرتے رہے_

آيات بالا كا ظاہرى مفہوم بھى اسى تفسير سے مناسبت ركھتا ہے_

جبكہ بعض مفسرين كى رائے يہ ہے كہ وہ لوگ فرعونيوں كى ہلاكت كے بعد مقدس سرزمينوں كى طرف چلے گئے البتہ كچھ عرصے كے بعد مصر واپس آگئے اور وہاں پر اپنى حكومت تشكيل دي_ تفسير كے اسى حصے كے ساتھ موجودہ توريت كى فصول بھى مطابقت ركھتى ہيں _

بعض دوسرے مفسرين كا خيال ہے كہ بنى اسرائيل دوحصوں ميں بٹ گئے_ايك گروہ مصر ميں رہ گيا اور وہيں پر حكومت كى اور ايك گروہ موسى عليہ السلام كے ساتھ سر زمين مقدس كى طرف روانہ ہو گيا_ يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ بنى اسرائيل كے وارث ہونے سے مراد يہ ہے كہ انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كے بعد اور جناب حضرت سليمان عليہ السلام كے زمانے ميں مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر حكومت كي_ ليكن اگر اس بات پر غور كيا جائے كہ حضرت موسى عليہ السلام چونكہ انقلابى پيغمبر تھے لہذا يہ بات بالكل بعيد نظر آتى ہے كہ وہ ايسى سر زمين كو كلى طور پر خير باد كہہ كر چلے جائيں جس كى حكومت مكمل طور پر انھيں كے قبضہ اور اختيارميں آچكى ہو اور وہ وہاں كے بارے ميں كسى قسم كا فيصلہ كئے بغير بيابانوں كى طرف چل ديں خصوصاً جب كہ لاكھوں بنى اسرائيلى عرصہ دراز سے وہاں پر مقيم بھى تھے اور وہاں كے ماحول سے اچھى طرح واقف بھى تھے_ بنابريں يہ كيفيت دوحال سے خالى نہيں يا تو تمام بنى اسرائيلى مصر ميں واپس لوٹ آئے اور حكومت تشكيل دي،يا كچھ لوگ جناب موسى عليہ السلام كے حكم كے مطابق وہيں رہ گئے تھے اور حكومت چلاتے رہے اس كے علاوہ فرعون او رفرعون والوں كے باہر نكال دينے او ربنى اسرائيل كو ان كا وارث بنادينے كا اور كوئي واضح مفہوم نہيں ہوگا_

۳۵۲

فرعونيوں كا درناك انجام

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام اور فرعون كى داستان كا آخرى حصہ پيش كيا گيا ہے كہ فرعون اور فرعون والے كيونكر غرق ہوئے اور بنى اسرائيل نے كس طرح نجات پائي؟ جيسا كہ ہم گزشتہ ميں پڑھ چكے ہيں كہ فرعون نے اپنے كارندوں كو مصر كے مختلف شہروں ميں بھيج ديا تاكہ وہ بڑى تعداد ميں لشكر اور افرادى قوت جمع كرسكيں چنانچہ انھوں نے ايسا ہى كيا اور مفسرين كى تصريح كے مطابق فرعون نے چھ لاكھ كا لشكر مقدمہ الجيش كى صورت ميں بھيج ديا اور خود دس لاكھ كے لشكر كے ساتھ ان كے پيچھے پيچھے چل ديا _

سارى رات بڑى تيزى كے ساتھ چلتے رہے اورطلوع آفتاب كے ساتھ ہى انھوں نے موسى عليہ السلام كے لشكر كو پاليا، چنانچہ اس سلسلے كى پہلى آيت ميں فرمايا گيا ہے : فرعونيووں نے ان كا تعاقب كيا اور طلوع آفتاب كے وقت انھيں پاليا_

''جب دونوں گروہوں كا آمناسامنا ہوا تو موسى عليہ السلام كے ساتھى كہنے لگے اب تو ہم فرعون والوں كے نرغے ميں آگئے ہيں اور بچ نكلنے كى كوئي راہ نظر نہيں آتى ''_(۱)

ہمارے سامنے دريا اور اس كى ٹھاٹھيں مارتى موجيں ہيں ، ہمارے پيچھے خونخوارمسلح لشكر كا ٹھاٹھيں مارتا سمندر ہے لشكر بھى ايسے لوگوں كا ہے جو ہم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے ہيں ، جنھوں نے اپنى خونخوارى كا ثبوت ايك طويل عرصے تك ہمارے معصوم بچوں كو قتل كركے ديا ہے اور خود فرعون بھى بہت بڑا مغرور،ظالم اور خونخوار شخص ہے لہذا وہ فوراً ہمارا محاصرہ كركے ہميں موت كے گھاٹ اتارديں گے ياقيدى بنا كر تشدد كے ذريعے ہميں واپس لے جائيں گے قرائن سے بھى ايسا ہى معلوم ہورہا تھا _

____________________

(۱) سورہ شعراء آيت۶۱

۳۵۳

اپنے عصا كو دريا پر ماردو

اس مقام پر بنى اسرائيل پر كرب و بے چينى كى حالت طارى ہوگئي اور ان كا ايك ايك لمحہ كرب واضطراب ميں گزر نے لگا يہ لمحات ان كے لئے زبردست تلخ تھے شايد بہت سے لوگوں كا ايما ن بھى متزلزل ہوچكا تھا اور بڑى حدتك ان كے حوصلے پست ہوچكے تھے _

ليكن جناب موسى عليہ السلام حسب سابق نہايت ہى مطمئن اور پر سكون تھے انھيں يقين تھا كہ بنى اسرائيل كى نجات اورسركش فرعونيوں كى تباہى كے بارے ميں خدا كا فيصلہ اٹل ہے اور وعدہ يقينى ہے _

لہذا انھوں نے مكمل اطمينان اور بھرپور اعتمادكے ساتھ بنى اسرائيل كى وحشت زدہ قوم كى طرف منہ كركے كہا: ''ايسى كوئي بات نہيں وہ ہم پر كبھى غالب نہيں آسكيں گے كيونكہ ميرا خدا ميرے ساتھ ہے اور وہ بہت جلدى مجھے ہدايت كرے گا ''_(۱)

اسى موقع پر شايد بعض لوگوں نے موسى كى باتو ں كو سن تو ليا ليكن انھيں پھر بھى يقين نہيں آرہا تھا اور وہ اسى طرح زندگى كے آخرى لمحات كے انتظار ميں تھے كہ خدا كا آخرى حكم صادر ہوا، قرآن كہتا ہے :'' ہم نے فوراً موسى كى طرف وحى بھيجى كہ اپنے عصا كودريا پرمارو''_(۲)

وہى عصاجو ايك دن تو ڈرانے كى علامت تھا اور آج رحمت اور نجات كى نشانى _

موسى عليہ السلام نے تعميل حكم كى اور عصا فوراًدرياپر دے مارا تو اچانك ايك عجيب وغريب منظر ديكھنے ميں آيا جس سے بنى اسرائيل كى آنكھيں چمك اٹھيں اور ان كے دلو ں ميں مسرت كى ايك لہردوڑگئي، ناگہانى طور پر دريا پھٹ گيا، پانى كے كئي ٹكڑے بن گئے اور ہر ٹكڑا ايك عظيم پہاڑ كى مانند بن گيا اور ان كے درميان ميں راستے بن گئے_(۳)

بہرحال جس كا فرمان ہر چيز پر جارى اور نافذ ہے اگر پانى ميں طغيانى آتى ہے تو اس كے حكم سے اور

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت ۶۲

(۲)سورہ شعراء آيت۶۳

(۳)سورہ شعراء آيت ۶۳

۳۵۴

اگر طوفانوں ميں حركت آتى ہے تو اس كے امر سے ، وہ خدا كہ :

نقش ہستى نقشى ازايوان

اوست آب وبادوخاك سرگردان اوست

اسى نے دريا كى موجوں كو حكم ديا امواج دريا نے اس حكم كو فورا ًقبول كياايك دوسرے پر جمع پرہوگئيں اور ان كے درميان كئي راستے بن گئے اور بنى اسرائيل كے ہر گروہ نے ايك ايك راستہ اختيار كرليا _

فرعون اور اس كے ساتھى يہ منظر ديكھ كر حيران وششد ررہ گئے،اس قدر واضح اور آشكار معجزہ ديكھنے كے باوجود تكبر اور غرور كى سوارى سے نہيں اترے، انھوں نے موسى عليہ السلام اور بنى اسرائيل كا تعاقب جارى ركھا اور اپنے آخرى انجام كى طرف آگے بڑھتے رہے جيسا كہ قرآن فرماتاہے :''اور وہاں پر دوسرے لوگوں كو بھى ہم نے نزديك كرديا''_

اس طرح فرعونى لشكر دريائي راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں كے پيچھے دوڑتے رہے جنھوں نے اب اس غلامى كى زنجيريں توڑدى تھيں ليكن انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ يہ ان كى زندگى كے آخرى لمحات ہيں اور ابھى عذاب كا حكم جارى ہونے والا ہے _

قرآن كہتا ہے :''ہم نے موسى اور ان تمام لوگوں كو نجات دى جوان كے ساتھ تھے _''(۱)

ٹھيك اس وقت جبكہ بنى اسرائيل كا آخرى فرددريا سے نكل رہا تھا اور فرعونى لشكر كا آخرى فرد اس ميں داخل ہورہاتھا ہم نے پانى كو حكم ديا كہ اپنى پہلى حالت پر لوٹ ا،اچانك موجيں ٹھاٹھيں مارنے لگيں اور فرغون اور اس كے لشكر كو گھاس پھونس اور تنكوں كى طرح بہاكرلے گئيں اور صفحہ ہستى سے ان كانام ونشان تك مٹاديا _

قرآن نے ايك مختصرسى عبارت كے ساتھ يہ ماجرايوں بيان كيا ہے : پھر ہم نے دوسروں كو غرق كرديا_''(۲)

____________________

(۱)سورہ شعراء آيت۶۵

(۲)سورہ شعراء آيت ۶۶

۳۵۵

اے فرعون تيرا بدن لوگوں كے لئے عبرتناك ہوگا

بہر كيف يہ معاملہ چل رہا تھا '' يہاں تك كہ فرعون غرقاب ہونے لگا اور وہ عظيم دريائے نيل كى موجوں ميں تنكے كى طرح غوطے كھانے لگا تو اس وقت غرور وتكبر اور جہالت وبے خبرى كے پردے اس كى آنكھوں سے ہٹ گئے اور فطرى نور توحيد چمكنے لگا وہ پكاراٹھا :'' ميں ايمان لے آيا كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں كہ جس پر بنى اسرائيل ايمان لائے ہيں ''_(۱)

كہنے لگا كہ نہ صرف ميں اپنے دل سے ايمان لايا ہوں '' بلكہ عملى طور پر بھى ايسے توانا پروردگار كے سامنے سرتسليم خم كرتا ہوں ''_(۲)

درحقيقت جب حضرت موسى كى پيشين گوئياں يكے بعد ديگرے وقوع پذير ہوئيں اور فرعون اس عظيم پيغمبر كى گفتگو كى صداقت سے آگاہ ہوا اور اس كى قدر ت نمائي كامشاہدہ كيا تو اس نے مجبوراً اظہار ايمان كيا، اسے اميد تھى كہ جيسے ''بنى اسرائيل كے خدا'' نے انھيں كوہ پيكر موجوں سے سے نجات بخشى ہے اسے بھى نجات دے گا، لہذا وہ كہنے لگاميں اسى بنى اسرائيل كے خدا پر ايمان لايا ہوں ، ليكن ظاہر ہے كہ ايسا ايمان جو نزول بلا اور موت كے چنگل ميں گرفتار ہونے كے وقت ظاہر كيا جائے، در حقيقت ايك قسم كا اضطرارى ايمان ہے، جس كا اظہار سب مجرم اور گناہگار كرتے ہيں ، ايسے ايمان كى كوئي قدر و قيمت نہيں ہوتي، اور نہ يہ حسن نيت اور صدق گفتار كى دليل ہوسكتا ہے_

اسى بنا پر خدا وندعالم نے اسے مخاطب كرتے ہوئے فرمايا:'' تو اب ايمان لايا ہے حالانكہ اس سے پہلے تو نافرمانى اورطغيان كرنے والوں ، مفسدين فى الارض اور تباہ كاروں كى صف ميں تھا''(۳)

''ليكن آج ہم تيرے بدن كو موجوں سے بچاليں گے تاكہ تو آنے والوں كے لئے درس عبرت ہو، برسراقتدار مستكبرين كے لئے، تمام ظالموں اور مفسدوں كےلئے اور مستضعف گروہوں كے لئے بھى ''

____________________

(۱)سورہ يونس آيت ۹۰

(۲)سورہ يونس آيت ۹۰

(۳)سورہ يونس آيت ۹۰

۳۵۶

يہ كہ''بدن سے مراد يہاں كيا ہے ،اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے ان ميں سے اكثر كا نظريہ ہے كہ اس سے مراد فرعون كا بے جان جسم ہے كيونكہ اس ماحول كے لوگوں كے ذہن ميں فرعون كى اس قدر عظمت تھى كہ اگر اس كے بدن كو پانى سے باہرنہ اچھالاجاتاتو بہت سے لوگ يقين ہى نہ كرتے كہ اس كا غرق ہونا بھى ممكن ہے اور ہوسكتا تھا كہ اس ماجرے كے بعد فرعون كى زندگى كے بارے ميں افسانے تراش لئے جاتے _

يہ امر جاذب توجہ ہے كہ لغت ميں لفظ '' بدن'' جيسا كہ راغب نے مفردات ميں كہا ہے '' جسد عظيم'' كے معنى ميں ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ بہت سے خوشحال لوگوں كى طرح كہ جنكى بڑى زرق برق افسانوى زندگى تھى وہ بڑا سخت اور چاك وچوبند تھا مگر بعض دوسرے افراد نے كہاہے كہ''بدن'' كا ايك معني'' زرہ'' بھى ہے يہ اس طرف اشارہ ہے كہ خدا نے فرعون كو اس زريں زرہ سميت پانى سے باہر نكالاكہ جو اس كے بدن پر تھى تاكہ اس كے ذريعے پہچاناجائے اور كسى قسم كا شك وشبہ باقى نہ رہے _

اب بھى مصر اور برطانيہ كے عجائب گھروں ميں فرعونيوں كے موميائي بد ن موجود ہيں كيا ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كے ہم عصر فرعون كا بدن بھى ہے كہ جسے بعد ميں حفاظت كے لئے مومياليا گيا ہويا نہيں ؟ اس سلسلے ميں كوئي صحيح دليل ہمارے پاس نہيں ہے _

بنى اسرائيل كى گذرگاہ

قرآن مجيد ميں بارہا اس بات كو دہرايا گيا ہے كہ موسى عليہ السلام نے خدا كے حكم سے بنى اسرائيل كو'' بحر'' عبور كروايا اورچند مقامات پر''يم'' كا لفظ بھى ايا ہے _

اب سوال يہ ہے كہ يہاں پر ''يم'''' بحر'' اور '' يم'' سے كيا مراد ہے آيايہ نيل ( NILE RIYER ) جيسے وسيع وعريض دريا كى طرف اشارہ ہے كہ سرزمين مصر كى تمام آبادى جس سے سيراب ہوتى تھى يا بحيرہ احمريعنى بحر قلزم ( RID SEA )كى طرف اشارہ ہے _

۳۵۷

موجودہ تو ريت اور بعض مفسرين كے انداز گفتگو سے معلوم ہوتاہے كہ بحيرہ احمر كى طرف اشارہ ہے ليكن ايسے قرائن موجود ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد نيل كا عظيم ووسيع دريا ہے _

حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كى فرمائش

قرآن ميں بنى اسرائيل كى سرگزشت كے ايك اور اہم حصہ كى طرف اشارہ كيا گيا ہے يہ واقعہ فرعونيوں پر ان كى فتحيابى كے بعد ہوا، اس واقعہ سے بت پرستى كى جانب ان كى توجہ ظاہر ہوتى ہے _

واقعہ يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے جھگڑے سے نكل چكے تو ايك اور داخلى مصيبت شروع ہوگئي جو بنى اسرائيل كے جاہل ، سركش اور فرعون اور فرعونيوں كے ساتھ جنگ كرنے سے بدر جہا سخت اور سنگين تر تھى اور ہر داخلى كشمكش كا يہى حال ہواكرتا ہے _قرآن ميں فرماياگيا ہے:'' ہم نے بنى اسرائيل كو دريا (نيل) كے اس پار لگا ديا :''

ليكن '' انہوں نے راستے ميں ايك قوم كو ديكھا جو اپنے بتوں كے گرد خضوع اور انكسارى كے ساتھ اكٹھا تھے'' _(۱) امت موسى عليہ السلام كے جاہل افراد يہ منظر ديكھ كر اس قدر متاثر ہوئے كہ فوراً حضرت موسى كے پاس آئے اور '' وہ كہنے لگے اے موسى ہمارے واسطے بھى بالكل ويسا ہى معبود بنادو جيسا معبود ان لوگوں كا ہے''_(۲) حضرت موسى عليہ السلام ان كى اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراض ہوئے ، آپ نے ان لوگوں سے كہا: ''تم لوگ جاہل وبے خبر قوم ہو''_(۳)

بنى اسرائيل ميں ناشكر گزار افراد كى كثرت تھي،باوجود يكہ انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے اتنے معجزے ديكھے، قدرت كے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان كا دشمن فرعون نابود ہوا ابھى كچھ عرصہ بھى نہيں گذرا تھا، وہ غرق كرديا گيا اور وہ سلامتى كے ساتھ دريا كو عبور كرگئے ليكن انہوں نے ان تمام باتوں كو يكسر بھلاديا اور حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كا سوال كربيٹھے_

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۳۸

(۳)سورہ اعراف ۱۳۸

۳۵۸

ايك يہودى كو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام كا جواب

نہج البلاغہ ميں ہے كہ ايك مرتبہ ايك يہودى نے حضرت اميرالمو منين عليہ السلام كے سامنے مسلمانوں پر اعتراض كيا:

''ابھى تمہارے نبى دفن بھى نہ ہونے پائے تھے كہ تم لوگوں نے اختلاف كرديا ''_

حضرت على عليہ السلام نے اس كے جواب ميں فرمايا :

ہم نے ان فرامين واقوال كے بارے ميں اختلاف كيا ہے جو پيغمبر سے ہم تك پہنچے ہيں ، پيغمبريا ان كى نبوت سے متعلق ہم نے كوئي اختلاف نہيں كيا (چہ جائيكہ الوہيت كے متعلق ہم نے كوئي بات كہى ہو)ليكن تم (يہودي) ابھى تمہارے پير دريا كے پانى سے خشك نہيں ہونے پائے تھے كہ تم نے اپنے نبى (حضرت موسى عليہ السلام) سے يہ كہہ ديا كہ ہمارے لئے ايك ايسا ہى معبود بنادو جس طرح كہ ان كے متعدد معبود ہيں ، اور اس نبى نے تمہارے جواب ميں تم سے كہا تھا كہ تم ايك ايسا گروہ ہوجو جہل كے دريا ميں غوطہ زن ہے _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى بات كى تكميل كے لئے بنى اسرائيل سے كہا: ''اس بت پرست گروہ كو جو تم ديكھ رہے ہو ان كا انجام ہلاكت ہے اور ان كاہر كام باطل وبے بنيادہے ''_(۱)

اس كے بعد مزيد تاكيد كے لئے فرمايا گيا ہے : ''آيا خدائے برحق كے علاوہ تمہارے لئے كوئي دوسرا معبود بنالوں ، وہى خدا جس نے اہل جہان (ہمعصر لوگوں )پر تم كو فضيلت دى ''_(۲)

اس كے بعد خداوند كريم اپنى نعمتوں ميں سے ايك بڑى نعمت كا ذكر فرماتا ہے جو اس نے بنى اسرائيل كوعطا فرمائي تھى تاكہ اس عظيم نعمت كا تصور كركے ان ميں شكر گزارارى كا جذبہ بيدار ہواور انہيں يہ احساس ہوكہ پرستش اور سجدے كا مستحق صرف خدائے يكتا ويگانہ ہے، اور اس بت كى كوئي دليل نہيں پائي جاتى كہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ہيں ان كے سامنے سر تعظيم جھكايا جائے _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۳۹

(۲)سورہ اعراف۱۴۰

۳۵۹

پہلے ارشاد ہوتا ہے :'' ياد كرو اس وقت كو جب كہ ہم نے تمہيں فرعون كے گروہ كے شرسے نجات ديدي، وہ لوگ تم كو مسلسل عذاب ديتے چلے آرہے تھے ''_(۱)

اس كے بعد اس عذاب وايزارسانى كى تفصيل يوں بيان فرماتاہے:وہ تمہارے بيٹوں كو تو قتل كرديتے تھے اور تمہارى عورتوں لڑكيوں كو (خدمت اور كنيزى كے لئے ) زندہ چھوڑديتے تھے'' _(۲)

بنى اسرائيل سر زمين مقدس كى طرف

قران ميں اس كے بعد سرزمين مقدس ميں بنى اسرائيل كے ورود كے بارے ميں يوں بيان كيا گيا ہے:'' موسى عليہ السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ تم سرزمين مقدس ميں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر كيا ہے_داخل ہوجائو، اس سلسلے ميں مشكلات سے نہ ڈرو، فدا كارى سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حكم سے پيٹھ پھيرى تو خسارے ميں رہوگے ''_(۳)

ارض مقدسہ سے كيا مراد ہے اس، اس سلسلے ميں مفسرين نے بہت كچھ كہا ہے، بعض بيت المقدس كہتے ہيں كچھ اردن يا فلسطين كانام ليتے ہيں اور بعض سرزمين طور سمجھتے ہيں ، ليكن بعيد نہيں كہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس ميں تمام مذكورہ علاقے شامل ہيں _

كيونكہ تاريخ شاہد ہے كہ يہ سارا علاقہ انبياء الہى كا گہوراہ، عظيم اديان كے ظہور كى زمين اور طول تاريخ ميں توحيد، خدا پرستى اور تعليمات انبياء كى نشرواشاعت كا مركزرہاہے_

لہذا اسے سرزمين مقدس كہاگيا ہے اگرچہ بعض اوقات خاص بيت المقدس كو بھى ارض مقدس كہاجاتاہے_

بنى اسرائيل نے اس حكم پر حضرت موسى عليہ السلام كو وہى جواب ديا جو ايسے موقع پر كمزور، بزدل اور جاہل لوگ ديا كرتے ہيں _

____________________

(۱)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۲)سورہ اعراف آيت ۱۴۱

(۳)سورہ مائدہ آيت۲۱

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371