ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 371
مشاہدے: 115462
ڈاؤنلوڈ: 2886


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115462 / ڈاؤنلوڈ: 2886
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 2

مؤلف:
اردو

علاء نے جوبھی خدمت انجام دی اور جو بھی کام انجام دیا سب ریاکاری اور ظاہرداری پر منبی تھا اور وہ اس میں مخلص نہیں تھا ۔اگر اس میں کوئی کرامت پائی جاتی ہے تو وہ صرف مقام خلافت کے مطیع اور فرماں بردار ہونے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ خلیفہ عمر کی دلی رضامندی اور اجازت کے بغیر ایران پر حملہ کرتا ہے تو بری طرح شکست کھاتا ہے اور اپنی سپاہ سمیت دشمن کے محاصرے میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت میں اس کی نالہ و زاری اور دعائیں اس کے لئے مؤثر ثابت نہیں ہوتیں اور اسے کسی قسم کی مدد نہیں دیتیں ۔ یہاں ''دھنا'' کے معجزہ ، اور خلیج کے پُر تلاطم دریا سے گزر نے کا نام و نشان تک نہیں ہے!

اس داستان کے ضمن میں وہ لکھتا ہے:

عمرنے اپنی دور اندیشی کی بناء پر محاصرہ میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کو دشمن کے چنگل سے بچالیا اور خود سر علا حضرمی یمانی کی تنبیہ کی اور اسے اپنے منصب سے معزول کردیا.

اس کی تفصیل اسی کتاب کی پہلی جلد میں عاصم کے حصہ میں گزری ہے۔

اسناد کی تحقیق

اب ہم دیکھتے ہیں کہ٠ سیف بن عمر نے عفیف کے افسانہ کو کس سے نقل کیا ہے اور اس کی روایات کے راوی کون ہیں ؟!

سیف نے ان تمام مطالب کو دو روایات میں اور ان دونوں روایات کو ایک راوی سے نقل کیا ہے اور یہ راوی ''صعب بن عطیہ بن بلال'' ہے۔

یہاں ہم نے اس راوی اور اس کے باپ ''عطیہ بلال'' کے سلسلے میں راویوں کے حالات پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کرکے تحقیق و جستجو کی لیکن ان کا کوئی نا م و نشان نہیں ملا۔ اس لئے ہم یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس افسانہ کو سیف بن عمر نے خود جعل کیا ہے اور اس کو اپنے ہی تخلیق کئے گئے راویوں سے نسبت دیدی ہے۔

۱۲۱

عفیف کے افسانے کا نتیجہ

سیف نے عفیف نام کے ایک بے باک شاعراور دلاور کو خلق کرکے اپنے لئے درج ذیل مقاصد اور نتائل حاصل کئے ہیں :

١۔قبیلۂ تمیم کے لئے ارتداد کی جنگوں میں فخر و مباہات ثبت کئے ہیں ۔

٢۔ معجزے تخلیق کرکے صحرائے ''دھنا'' کی تپتی ریت پر پانی کے چشمے جاری کرتا ہے، دریا کے پانی کی ما ہیت کو بدل دیتا ہے اور اسلام کے سپاہیوں کے پاؤں کے نیچے دریا کے پانی کو مرطوب ریت کے مانند بنادیتا ہے، ملائکہ کو ان جنگوؤں کی تائید کرنے پر مجبور کرتا ہے تا کہ یہ واقعہ اصحاب کی کرامتوں اور معجزوں کے طور پر ان کے مناقب کی کتابوں میں درج ہوجائے۔

٣۔دعائیں ، تقیریں ، رجز خوانیاں اور خطوط جعل کرتا ہے تا کہ اسلامی ثقافت میں اپنی طرف سے اضافہ کرے۔

٤۔ خاندان قیس کے سردار ''حطم'' کو خاک و خون میں غلطاں کرتا ہے، شہریار ربیعہ کو قیدی بنادیتا ہے اور اس کے بھائی کا سرتن سے جدا کرتا ہے اور ان تمام افتخارات کے تمغوں کو اپنے افسانوی سورما''عفیف'' بن منذر تمیم کے سینے پر لگادیتا ہے تا کہ خاندان ''بنی عمرو تمیمی'' کے افتخارات میں ایک فخر کا اضافہ کرے۔

٥۔ایک ہی نسل کے باپ بیٹے ''عطیہ''و ''صعب'' نام کے دو راویوں کی تخلیق کرتا ہے اور انھیں اپنے خیالی راویوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔

یہ سب نتائج سیف کے بیانات سے حاصل ہوتے ہیں اور افسانہ نگاری میں تو وہ بے مثال ہے ہی۔

۱۲۲

سیف کے افسانوں کی اشاعت کرنے والے:

١۔امام المورخین محمد بن جریر طبری نے ''تاریخ کبیر'' میں ۔

٢۔یاقوت حموی نے ''معجم البلدان'' میں

٣۔حمیری نے ''روض المعطار''میں

٤۔''ابن حجر'' نے ''الاصابہ'' میں ۔

ان چار دانشوروں نے اپنے مطالب کو بلاواسطہ سیف کی کتاب سے نقل کیا ہے۔

٥۔''عبد المؤمن'' نے ''مراصد الاطلاع'' میں ۔ اس نے حموی سے نقل کیا ہے ۔

٦۔٧۔٨۔٩۔ابو الفرج اصفہانی نے '' اغانی'' میں ،ابن اثیر ،ابن خلدون اور دوسرے تاریخ نویسوں نے عفیف کے بارے میں مطالب کو طبری سے نقل کیاہے ۔

۱۲۳

ساتواں جعلی صحابی زیاد بن حنظلہ تمیمی

ابو عمر ابن عبد البر نے اپنی کتاب ''استیعاب '' میں زیاد بن حنظلہ تمیمی کا اس طرح ذکر کیا ہے :

'' وہ (زیاد بن حنظلہ ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا ،لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے '' قیس بن عاصم '' اور '' زبرقان بن بدر'' کے ہمراہ مأموریت دی تھی کہ مسیلمۂ کذاب ،طلیحہ اور اسود کی بغاوت کو سرکوب کرے''

زید ،رسول خدا کا گماشتہ اور کار گزار اور امام علی علیہ السلام کا پیرو کار تھا ۔ اس نے آپ کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں زیاد کے بارے میں ابن عبد البر کی عین عبارت کو درج کیا ہے اور آخر لکھتا ہے :

''ان مطالب کو کتاب '' استیعاب'' کے مؤلف ابو عمر نے '' زیاد بن حنظلہ'' کے حالات بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔ ''

کتاب '' تجرید'' کے مؤلف ذہبی نے بھی زیاد کی زندگی کے حالات خلاصہ کے طور پر ابن اثیر کی کتاب '' اسد الغابہ '' سے نقل کئے ہیں ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں بعض مطالب کو بلا واسطہ سیف کی کتاب سے اور ایک حصہ کو '' استیعاب'' سے لیا ہے ۔وہ زیاد کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

'' زیاد بن حنظلہ تمیمی جو بنی عدی کا ہم پیمان بھی ہے کے بارے میں کتاب '' استیعاب '' کے مؤلف نے یوں ذکر کیا ہے :....''

یہاں پر وہ '' استیعاب'' کے مطالب ذکر کرنے کے بعد خود اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''....اور سیف بن عمر اپنی کتاب''فتوح ''میں زیاد کے بارے میں لکھتا ہے:... اس طرح وہ زیادکی داستان کوبلاواسطہ سیف کی کتاب ''فتوح''سے نقل کرتا ہے۔''

ابن عساکرنے اپنی کتاب ''تاریخ دمشق'' میں زیاد کے بارے میں یوں لکھا ہے :

وہ (زیاد) بنی عبد بن قصی کا ہم پیمان تھااور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا۔زیاد نے جنگ یرموک میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شرکت کی ہے ۔اور اسلامی سپاہ کے ایک فوجی دستہ کی کمانڈاس کے ہاتھو ں میں تھی ۔ اس کے بیٹے حنظلہ بن زیاد اور عاصم بن تمام نے اس سے روایت کی ہے ۔

۱۲۴

ان مطالب کو بیان کرنے کے بعد ابن عساکر نے سیف بن عمر کی روایات سے سند ومأخذ کے ساتھ جو اس صحابی کی تخلیق کا تنہامنبع وسرچشمہ ہے زیا دکی زندگی کے حالات بیان کئے ہیں ۔

زیاد ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

ٍ طبری ١٥ ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں اور مرتدوں کی سرکوبی کے لئے ایک گروہ کو روانہ کیا ۔

اس کے بعد طبری ان اصحاب کا نام لیتا ہے جنھیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا م کے لئے انتخا ب کیا تھا اور اس سلسلے میں لکھتاہے:

....اور خاندان بنی عمرو کے زیاد بن حنظلہ کو قیس بن عاصم اور زبرقان بن بدر کے ہمراہ مأموریت دی ...کہ وہ لوگ ایک دوسرے کی مد د سے پیغمبری کادعویٰ کرنے والوں ،جیسے ،مسیلمہ ، طلیحہ اسود کے خلاف اقدام کریں

کتاب ''استیعاب ''کے مؤلف ابن عبد البراور دیگر مؤلفین ۔جن کانام اوپر ذکر ہوا ۔نے بھی اسی خبر کو سیف سے استناد کرتے ہوئے زیاد کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ کے طور پر شمار کیا ہے ۔

ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں ،جیسے ،ابن ہشام کی ''سیرت ''، مقزیری کی ''امتاع الاسماع''۔ابن سیدہ کی ''عیون الاثر''،ابن حزم کی ''جوامع السیر ''،بلاذری کی ''انساب الاشراف''کی پہلی جلدجو خصوصی طور پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پرمشتمل ہے اور ابن سعد کی ''طبقات ''کی پہلی اور دوسری جلد کی طرف رجوع کیا جن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مربوط مطالب لکھے گئے ہیں ،حتیٰ ان میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خچر ، گھوڑے اور اونٹ تک کاذکر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ان کتابوں میں ان تالا بوں کانام تک ذکر کیا گیا ہے جن سے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی پانی پیا تھا۔ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسواکوں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوتوں تک کا تمام جزئیات اور اوصاف کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔اس کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام ، فرمانوں اور جنگی کاروائیوں کابھی مفصل ذکر کیا گیا ہے ہم نے ان سب کا مطالعہ کیا ،لیکن ہم نے ان کتابوں میں کسی ایک میں زیا د بن حنظلة تمیمی کانا م نہیں پایا۔

حتیٰ ان کے علاوہ ان موضوعات سے مربوط دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جنھوں نے سیف کی کوئی چیز نقل نہیں کی ہے ان میں بھی زیادبن حنظلہ تمیمی نام کے صحابی کا کہیں نام ونشان نہیں پایا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی مأموریت دی ہو یاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاکارگزار رہاہو۔

۱۲۵

زیاد ،ابوبکر کے زمانہ میں

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں یوں ذکر کیاہے:

قبائل ''قیس ''اور ''ذبیان''اُن قبائل میں سے تھے جو مرتدد ہوکر ''ابرق ربذہ''کے مقام پر جمع ہوگئے تھے اور پیغمبر ی کادعویٰ کرنے والے ''طلیحہ ''نے بھی قبیلہ ''ھوزان''کے چند افراد کو اپنے بھائی ''حبال''کی سرکردگی میں ان کی مددکے لئے بھیجا۔

ابوبکر نے مدینہ پران کے متوقع حملہ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے اور بعض افراد ،من جملہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوشہر مدینہ کی گزر گا ہوں کی حفاظت کے لئے مقرر کیا اور بعض افراد کو مرتدوں سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ کیا ۔مؤخر الذکر گروہ نے شکست کھا کرمدینہ تک پسپائی اختیار کی۔

ابوبکر نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے راتوں رات ایک سپاہ کو منظم کیا اور پوپھٹنے سے پہلے سپاہ اسلام نے مرتدوں پر حملہ کیا اور انھیں سنبھلنے کاموقع دینے سے پہلے تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ اسلام کے سپاہیوں نے انہیں شکست دینے کے بعد ان کا پیچھا کیا ۔

زیاد بن حنظلہ نے اس مناسبت سے درج ذیل اشعار کہے ہیں :

اس دن ابوبکر نے ان پر ایسا حملہ کیا جیسے ایک وحشی درندہ اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو سواروں کی کمانڈسونپی جن کے حملہ سے ''حبال''قتل ہوا۔

ہم نے ان کے خلاف جنگ چھیڑی اور انہیں ایسے زمین پر ڈھیر کردیا ،جیسے جنگی سپاہی مال غنیمت پرٹوٹ پڑتے ہیں ۔

جب ابوبکر جنگجوؤں کو میدان کار زار میں لے آئے تو ،مرتدمقابلہ کی تاب نہ لاسکے ۔ہم نے نزدیک ترین پہاڑی سے قبیلۂ بنی عبس پر شبخون مارا اور ''ذبیانیوں ''کی کمر توڑ کر ان کے حملہ کو روک دیا

سیف نے مزید کہا کہ زیاد بن حنظلہ نے ''ابرق ربذہ'' کی جنگ میں اپنے چند اشعار کے ضمن میں اس طرح کہا ہے :

ہم '' ابرق'' کی جنگ میں موجود تھے اور یہ ہی جنگ تھی جس میں '' ذبیانی'' آگ میں جھلس گئے ۔

اور ہم نے ابو بکر صدیق کے ہمراہ جنھوں نے گفتگو کو ترک کیا تھا انھیں موت کا تحفہ دیا۔

۱۲۶

یاقوت حموی نے سیف کے اس افسانہ پر اعتماد کرتے ہوئے '' ابرق ربذہ'' کی تشریح میں اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھاہے :

'' ابرق ربذہ'' ایک جگہ کا نام ہے جہاں پر ابوبکر صدیق کے حامیوں اور مرتد وں کے ایک گروہ کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ہے ۔جیسا کہ سیف کی کتاب میں آیا ہے وہاں پر قبائل ''ذبیان'' سکونت کرتے تھے اور ابوبکر نے ان کے مرتد ہونے کے بعد ان پر حملہ کیا اور انھیں بری طرح شکست دی اور ان کی سرزمینوں کو لشکر اسلام کے گھوڑوں کی چراگاہ بنا دیا یہ وہی جگہ ہے جس کے بارے میں زیاد بن حنظلہ نے اپنے اشعار میں اس طرح اشارہ کیا ہے :

ہم '' ابرق'' کی جنگ میں موجود تھے اور یہ وہی جنگ تھی جس میں ذبیا نیوں تاآخر شعر

۱۲۷

حموی نے اس مطلب کو اپنی کتاب '' المشترک'' میں بھی خلاصہ کے طور پر ذکر کیا ہے اور کہتا ہے :

'' ابرق ربذہ'' کا نام ایک روایت میں آیا ہے اور زیاد بن حنظلہ نے اس کے بارے میں اپنے چند اشعار کے ضمن میں ذکر کیا ہے

اس طرح زیاد کانام '' ارتداد'' کی جنگوں میں سیف بن عمر کے ذریعہ تاریخ طبری میں آیا ہے اور ابن کثیر نے ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

لیکن دوسروں جیسے ،بلاذری نے ارتداد کی جنگ کی خبر کو دوسری صورت میں بیان کیا ہے :

بلاذری یوں لکھتا ہے:

ابوبکر '' ذی القصہ '' کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں سے ایک فوج منظم کرکے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کریں ،اسی اثنا ء میں ''خارجہ بن حصن ''اور ''منظور بن سنان '' ۔جودونوں قبیلۂ فزارہ سے تعلق رکھتے تھے ۔نے مشرکوں کی ایک جماعت کی ہمت افزائی سے اسلام کے سپاہیوں پر حملہ کرکے ایک سخت جنگ شروع کی ۔لیکن آخر کار اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست کھاکر بھاگ کھڑے ہوئے ۔طلحہ بن عبد اللہ نے ان کا پیچھا کیا ااور ان میں سے ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن باقی کفار بھاگنے میں کامیاب ہوگئے ۔

اس کے بعدابوبکر نے ''خالد بن ولید ''کو کمانڈرانچیف منصوب کیا اور ''ثابت بن قیس شماس ''کوانصار کی سرپرستی سونپی۔انہیں حکم دیا کہ طلیحہ اسدی کے ساتھ جنگ کریں ،جس نے پیغمبری کادعویٰ کیا تھا اور قبیلہ فزارہ کے افراد اس کی مدد کے لئے اٹھے تھے ۔

ذہبی نے بھی اس داستان کو تقریباًاسی مفہوم میں بیان کیا ہے ۔لیکن ذہبی اور بلاذری ، دونوں کی کتابوں میں ''ابرق ''اورزیاد بن حنظلہ کا کہیں نام ونشان تک نہیں ملتا۔

اس کے علاوہ ہم نے ان کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جن میں مرتدوں سے ابوبکر کی جنگ کی تفصیلات سیف کی روایتوں سے استفادہ کئے بغیر ،درج ہوئی ہیں ،لیکن ''ابرق ربذہ''،قبائل قیس و ذبیان کے ارتداد اور اسی طرح زیاد بن حنظلہ اور اس کی دلاوریوں کا کہیں نام تک نہیں پایا۔

۱۲۸

بحث وتحقیق کا نتیجہ

''ابرق ربذہ''،نیز قبائل قیس وذبیان جیسے مرتدوں سے ابوبکر کی جنگ اور زیاد بن حنظلہ اور اس کی دلاوریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف کتابوں کے مطالعہ ،بحث و تحقیق اور تلاش وکوشش کا جو نتیجہ ہمیں حاصل ہوا وہ حسب ذیل ہے :

ابن عبد البر کی کتاب ''استیعاب ''میں زیاد بن حنظلہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے ،اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندہ اور گماشتہ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مرتدوں اور پیغمبری کا دعویٰ کرنے والوں سے نبرد آزما ہونے کی اس کی مأموریت کا بھی ذکر کیا گیا ہے ،لیکن اس روایت کی سند کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔

چونکہ ''اسد الغابہ ''اور ''تجرید ''کے مؤلفوں نے روایت کے مصدر کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنے مطالب کتاب ''استیعاب'' سے نقل کئے ہیں ۔اس لئے یہ امر محققین کے لئے اس گمان کاسبب بنا ہے کہ ممکن ہے یہ داستان سیف کے علاوہ اور کسی سے بھی نقل کی گئی ہو۔

اس امر کے پیش نظر کہ یا قوت حموی کی کتاب ''معجم البلدان ''میں لفظ ''ابرق ربذہ ''کی سند سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کی گئی ہے ،اس لئے ایسا لگتا ہے کہ حموی کے زمانہ میں کتاب ''فتوح '' کاسیف بن عمرو سے منسوب ہونا خاص طور پر معروف ومشہور تھا۔لیکن قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ حموی کے بعد صدیوں تک یہ کتاب شہرت کی حامل نہیں رہی ہے اور چونکہ ''ابرق ربذہ '' کی تشریح حموی کی معجم البلدان سے جغرافیہ کی دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہے اس لئے ممکن ہے محققین یہ باور کریں کہ اس قسم کی کوئی جگہ صدر اسلام میں موجود تھی!!!جبکہ ان تمام خبروں اور افسانوں کا مصدر صرف سیف ہے اور کوئی نہیں ۔

سیف کے افسانوں کا نتیجہ

١۔سیف نے زیاد بن حنظلہ تمیمی کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کاصحابی دکھانے کے علاوہ اسے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی بنا کرپیش کیا ہے ۔

٢۔''ابرق ربذہ ''کے نام سے ایک جگہ تخلیق کی ہے تاکہ جغرافیہ کی کتابوں میں اس کا نام درج ہو جائے۔

٣۔اس نے اپنے جعلی صحابی کی زبان سے بہادریوں اور دلاریوں کے قصیدے جاری کہے ہیں تاکہ ادبیات ولغت کی کتابوں کی زینت بنیں اور ادبی آثار کے خزانوں میں اضافہ ہو۔

۱۲۹

٤۔خیالی جنگیں اور فرضی فوجی کیمپ تخلیق کئے ہیں تاکہ اسلام کی تاریخ کے صفحات میں جگہ پائیں ،اس طرح وہ اسلامی معاشرہ کو اپنے آپ میں مشغول رکھے ۔

شام کی فتوحات میں زیاد بن حنظلہ کے اشعار

طبری نے ١٣ھ کی روئد اد اور جنگ یرموک کے واقعات کے ضمن میں اور ابن عساکر نے زیاد بن حنظلہ کی زندگی کے حالات کی تشریح میں سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں اس طرح درج کیا ہے :

اسلامی فوج کے سپہ سالار '' خالد بن ولید'' نے زیاد بن حنظلہ کو سواروں کے ایک دستے کی کمانڈ سونپی۔

اسی طرح طبری نے ١٥ھ کے حوادث اور ہراکلیوس کی دربدری اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے فوج جمع کرنے کے سلسلے میں اس کی ناکامی نیز ابن عساکر و ابن حجر تینوں نے زیاد بن حنظلہ کے حالات کے سلسلے میں اپنی کتابوں میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

جس وقت '' ہراکلیوس '' کے شہر '' رہا'' سے بھاگ رہا تھا اس نے شہر ''رہا'' کے باشندوں سے مدد طلب کی لیکن انھوں نے اسے مدد دینے سے پہلو تہی کی جس کے نتیجہ میں وہ پریشان حالت میں اس شہر سے بھاگ گیا۔

اس واقعہ کے بعد سب سے پہلے جس مسلمان دلاور نے ''رہا'' میں قدم رکھا اور علاقہ کے کتوں کو بھونکنے پر مجبور کیا اور پالتو مرغ خوفزدہ ہو کر اس سے دور بھاگے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور قبیلہ '' عبد بن قصی'' کا ہم پیمان ،زیاد بن حنظلہ تھا۔

ابن عساکرنے اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے کہ زیاد بن حنظلہ نے اس حادثہ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

اگر چاہو تو '' ہرا کلیوس '' سے جہاں بھی ہو جاکر پوچھو!ہم نے اس سے ایسی جنگ کی کہ قبیلوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔

ہم نے اس کے خلاف ایک جرار لشکر بھیجا جو سردی میں نیزہ بازی

۱۳۰

کرتے تھے ۔

ہم اس جنگ میں ہر حملہ و ہجوم میں دشمن کی فوج کو نابود کرنے میں شیرنر جیسے تھے اور رومی لومڑی کے مانند تھے ۔

ہم نے جہاں جہاں انھیں پایا وہیں پر موت کے گھاٹ اتار دیا اور دشمنوں کو پا بہ زنجیر کرکے اپنے ساتھ لے آئے ۔

مندرجہ ذیل اشعار کو بھی سیف بن عمر نے زیاد بن حنظلہ سے نسبت دی ہے :

ہم شہر حمص میں اترے جو ہمارے پیروں تلے ذلیل و خوار ہو گیا تھا اور ہم نے اپنے نیزوں اور تلواروں کے کرتب دکھائے ۔

جب رومی ہمیں دیکھ کر خوف و وحشت میں پڑے تو ان کے شہر کے برج اور پشتے بھی ہماری ہیبت و قدرت سے زمین بوس ہو کر مسمار ہو گئے ۔

وہ سب ذلیل و خوار حالت میں ہمارے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے ۔

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ مندرجہ ذیل اشعار زیاد بن حنظلہ نے کہے ہیں :

ہم نے حمص میں قیصر کے بیٹے کو اپنے حال پر جھوڑدیا ،جب کہ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا ۔

ہم اس گھمسان کی جنگ میں سر بلند تھے اوراسے ایسی حالت میں چھوڑ دیا تاکہ وہ خاک و خون میں تڑپتا رہے ۔

اس کے سپاہی ہماری طاقت کے مقابلے میں اس قدر ذلیل و خوار ہوئے کہ ایک زلزلہ زدہ دیوار کی مانند زمیں پر ڈھیر ہو گئے ۔

ہم نے شہر حمص کو اس وقت ترک کیا جب اسے ہم باشندوں سے خالی کر چکے تھے ۔

سیف بن عمر کہتا ہے کہ زیاد بن حنظلہ نے '' قنسرین'' کی فتح کے سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

اسی شب جب ''میناس ''نے اپنے کمانڈروں کی شدید ملامت کی ہم ''قنسرین '' پر فتح پاکر وہاں کے فرمان روا ہو چکے تھے ۔

جس وقت ہمارے نیزوں اور تیروں کی بارش ہو رہی تھی خاندان '' تنوخ'' ہلاکت سے دو چار تھے ۔

ہماری جنگ تب تک جاری رہی جب تک وہ جزیہ دینے پر مجبور نہ ہوئے ۔یہ ہمارے لئے تعجب خیز بات تھی جب انھوں نے اپنے برج اور پشتوں کو خود مسمار کیا!!

۱۳۱

یہ اشعار بھی کہے ہیں :

جس دن '' میناس'' اپنی سپاہ لے کر ہمارے مقابلے میں آیا ،ہمارے محکم نیزوں نے اسے روک لیا ۔

اس کے سپاہی بیابان میں تتر بتر ہوگئے ،ہمارے دلاوروں اور نیزہ بازوں سے نبردآزمائی کی ۔

جس وقت ہمارے جنگجوئوں نے ''میناس'' کو گھیرلیا ۔اس وقت اس کے سوار سست پڑ چکے تھے ۔

سر انجام ہم نے ''میناس'' کو اس وقت چھوڑا جب وہ خون میں تڑپ رہا تھا اور ہو اکے جھونکے اس کے اور اس کے دوستوں کے چہرے پر صحرا کی ریت ڈال رہے تھے ۔

'' اجنادین '' کی جنگ کے بارے میں زیاد کے اشعار حسب ذیل ہیں :

ہم نے رومیوں کے کمانڈر ''ارطبون'' کو شکست دے دی اور وہ پسپا ہو کر مسجد اقصی تک بھاگ گیا۔

جس رات کو اجنادین کی جنگ کے شعلے ٹھنڈے پڑے ۔زمین پر پڑی لاشوں پر گدھ بیٹھے ہوئے تھے ۔

ہوا کے جھونکوں سے اٹھے ہوئے گرد وغبار کے در میان جب ہم اپنے نیزے ان کی طرف پھینکتے تھے تو ان کے کراہنے کی آوازیں ہمارے کانوں تک

۱۳۲

پہنچی تھیں ۔

اس جنگ کے بعد ہم نے رومیوں کو شام سے بھگا دیا اور دورترین علاقہ تک ان کا تعاقب کیا ۔

رومیوں کے فوجی بھاگ کھڑے ہوئے جب کہ خوف و وحشت سے ان کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی ۔

سر انجام وہ میدان کارزار میں لاشوں کے انبار چھوڑ کر افسوس ناک حالت میں بھاگ گئے ۔

اس نے یہ اشعا ربھی کہے ہیں :

رومیوں پر ہمارے سواروں کے حملہ نے ہمارے دلوں کو آرام و قرار بخشا اور ہمارے درد کی دوا کی ۔

ہمارے سواروں نے ان کے سرداروں کو اپنی بے رحم تلواروں کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور روم تک ان کا پیچھا کرکے انھیں قتل کرتے رہے ۔

ان کے ایک گروہ کا محا صرہ کیا گیا اور میں نے بڑی بے باکی سے ان کی ہر محترم خاتون کے ساتھ ہمبستری کی!!

زیاد بن حنظلہ نے مزید کہا ہے :

مجھے یاد آیا جب روم کی جنگ طولانی ہوئی اسی سال جب ہم ان سے نبرد آزما ہوئے تھے ۔

اس وقت ہم سرزمین حجاز میں تھے اور ہم روم سے راہ کی پستیوں اور بلندیوں کے ساتھ ایک مہینہ کے فاصلے پر تھے ۔

اس وقت ''ارطبون'' رومیوں کی حمایت کررہاتھا اور اس کے مقابل ایک ایسا پہلوان تھا جو اس کا ہم پلہ تھا۔

جب عمر فاروق کو محسوس ہوا کہ شام کو فتح کرنے کا وقت آپہنچا ہے تو وہ ایک خدائی لشکر لے کر روم کی طرف روانہ ہوئے ۔

جب رومیوں نے خطرہ کا احساس کیا اور ان کی ہیبت سے خوفزدہ ہوئے ،تو ان کے حضور پہنچ کر کہا:ہم آپ سے ملحق ہونا چاہتے تھے۔

یہی وقت تھا جب شام نے اپنے تمام خزانوں اور نعمتوں کی انھیں پیش

۱۳۳

کش کی ۔

فاروق نے دنیا کے مشرق ومغرب کے گزرے ہوئے لوگوں کی وراثت ہمیں عطا کی ۔

کتنے ایسے لوگ تھے جن میں اس ثروت کو اٹھا نے کی طاقت موجود نہ یھی اور وہ دوسروں سے اسے اٹھانے میں مدد لیتے تھے۔

مزید اس طرح کے اشعار کہے ہیں :

جب خطوط خلیفہ عمر کو پہنچے ،وہ خلیفہ جو کچھار کے شیر کی مانند قبیلہ کے اونٹوں کی حفاظت کرتاہے ۔

اس وقت شام کے باشندوں میں سختی تھی۔ہر طرف سے پہلوان تلاش کئے جارہے تھے۔

یہ وہی وقت تھا جب عمر نے لوگوں کی دعوت قبول کی اور سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد لے کر ان کی طرف روانہ ہوئے۔

شام نے اپنی وسعت کے ساتھ،خلیفہ کی توقع سے زیادہ ،استقبال کرکے اپنی خوبیاں خلیفہ کے حضور تحفے کے طور پر پیش کیں ۔

خلیفہ نے روم کے قیمتی اور بہترین جزیہ کو اسلام کے سپاہیوں میں عادلانہ طور پر تقسیم کیا۔

زیاد بن حنظلہ کے بارے میں ابن عساکر کے وہ بیانات جو اس نے پورے کے پورے سیف سے نقل کئے ہیں ،یہیں پرختم ہوتے ہیں ۔ساتھ ہی فتح بیت المقدس کے بارے میں موخر الذکر دو معرکوں کو بھی طبری نے سیف سے زیاد بن حنظلہ کی زبانی نقل کیاہے ۔

حموی کی کتاب ''معجم البلدان'' میں لفظ''اجنادین '' کی تشریح میں آیاہے :

اس سلسلے میں زیاد بن حنظلہ نے اپنے اشعار میں یوں کہاہے :

ہم نے رومیوں کے کمانڈر ''ارطبون''..... تا آخر

نیز اس نے لفظ ''داروم '' کے بارے میں لکھا ہے :

مسلمانوں نے ١٣ھ میں اس جگہ پر حملہ کیا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔

زیاد بن حنظلہ نے ایک شعر میں درج ذیل مطلع کے تحت اس کے بارے میں یوں ذکر کیاہے :

۱۳۴

ہمارے سپاہیوں نے سرزمین روم پر جو حملہ کیا ،اس سے میرے دل کا غم دور ہوا اور میرے دردکا علاج ہوگیا۔

جیساکہ ملاحظہ ہوا ،یہ شعر من جملہ ان چھ قصائد میں سے ہے جن کو ابن عساکر نے سیف سے روایت کرکے زیاد کے حالات میں بیان کیاہے اور ہم نے بھی اسے نقل کیاہے ۔یہ سب سیف بن عمر تمیمی کی روایتیں ہیں ۔ان عجیب وغریب افسانوں میں سے ہر ایک کو دوسروں کی روایتوں کے تمام اہم اورمعتبر تاریخی مصادر سے مقابلہ اور موازنہ کرکے یہاں ذکر کرنا بہت مشکل ہے ۔کیونکہ ان سے ہر ایک کے بارے میں مفصل اور الگ بحث کی ضرورت ہے ۔اور یہ اس کتاب کی گنجائش میں نہیں ہے بلکہ اگر ہم ایسا کریں تو یہ کام ہمیں اپنے مقصد سے دور کردے گا ۔لیکن ہم صرف یہ بات بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ان لشکر کشیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں زمان ومکان اور روئداد کی کیفیت ، حوادث میں کلیدی رول ادا کرنے والوں اور ذکر شدہ سپہ سالار وں کے لحاظ سے دوسروں ،جیسے ، بلاذری کے بیان کردہ تاریخی حقائق سے بالکل مغایرت واختلاف رکھتی ہیں ،کیونکہ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ قبیلہ تمیم ۔جو عراق میں رہتاتھا ۔نے مشرکین یا دوسروں سے جنگ کرنے کے سلسلے میں اپنی سرزمین سے آگے شمال اور روم کی سرزمین کی طرف کبھی قدم نہیں بڑھایاہے ۔یہ ایک مسلم حقیقت اور مسئلہ کاایک رخ ہے ۔مسئلہ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ تاریخ کے متون میں سے کسی بھی متن میں مسلمانوں کی جنگوں میں سے کسی جنگ میں سیف کے افسانوی سورمازیاد بن حنظلہ یا سیف کے دوسرے افسانوی دلاوروں کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا اور ان کی زبردست دلاوریوں خود ستائیوں اور خاندان تمیم کے دیگر افتخارات کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔

اس مختصر موازنہ اور مقابلہ سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ سیف بن عمر تمیمی تنہا مولف ہے جو زیاد نام کے ایک صحابی کی تخلیق کرکے اسے مسلمانوں کی جنگوں میں شرکت کرتے ہوئے دکھا تاہے اور اس کی زبردست شجاعتیں بیان کرتاہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایات کا ماحصل

١۔ سیف قبیلہ تمیم سے ''زیاد بن حنظلہ ''نامی ایک مردکی تخلیق کرکے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاصحابی قراردیتاہے

٢۔ زیادکوایسابہادربناکر پیش کرتاہے جو رومیوں کے ساتھ جنگ میں پیش قدم تھا اور وہ پہلادلاور تھاجس نے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا۔

٣۔زیاد کی زبانی شجاعتوں پر مشتمل حماسی قصیدے کہہ کر اپنے قبیلہ یعنی تمیم کے لئے فخرو مباہات کسب کرتاہے اور ان قصیدوں کے دوران دعویٰ کرتا ہے کہ یہ صرف تمیمی ہیں جو ''ہرکول'' اور ''ہراکلیوس'' جیسوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور انھیں ذلیل وخوار کرکے رکھتے ہیں ،ان کی سرزمینوں پر قبضہ جماتے ہیں ۔وہ''حمص'' کو اپنا اکھاڑ بنادیتے ہیں اور روم کے پادشاہ کے بیٹے کو قتل کرتے ہیں ۔ یہ تمیمی ہیں جو''قنسرین'' پر حکمرانی کرتے ہیں ''میناس ''کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور''اجنادین '' میں بیت المقدس کے حاکم ''ارطبون ''کو قتل کرکے رومیوں کی تمام خوبصورت عورتوں کو اپنی بیویاں بنالیتے ہیں !

٤۔ اور آخر کار سیف ان قصیدوں کو اپنے دعووں کے شاہد کے طور پر ادبیات عرب کے خزانوں میں جمع کرادیتاہے۔

زیاد بن حنظلہ ،حاکم کوفہ

طبری ٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے یہ روایت نقل کرتاہے :

عمر نے جب دیکھا کہ ایران کا بادشاہ ''یزدگرد'' ہر سال ایک فوج منظم کرکے مسلمانوں پر حملہ کرتاہے ،تو انھوں نے حکم دیاکہ مسلمان ہر طرف سے ایران کی سرزمین پر حملہ کرکے ایران کی حکومت اور بادشاہ کا تختہ الٹ دیں ۔

عمر کا یہ فرمان اس وقت جاری ہوا،جب اسلام کے ابتدائی مہاجرین میں شمار ہونے والا اور بنی عبد قصی سے دوستی کا معاہدہ منعقد کرنے والا زیاد بن حنظلہ عمر کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا۔کوفہ پر زیاد کی حکومت مختصر مدت کے لئے تھی کیونکہ عمر کی طرف سے ایران پر حملہ کرنے کے لئے لام بندی کا حکم جاری ہونے کے بعد اس نے اصرار کیا کہ اس کا استعفیٰ منظور کیاجائے ۔سر انجام خلیفہ زیاد بن حنظلہ کے بے حد اصرار اور خواہش کی وجہ سے اس کا استعفیٰ منظور کرنے پر مجبور ہوتاہے !

۱۳۶

اس کے علاوہ''سعد وقاص'' کی کوفہ پر حکومت کے دوران بھی وہاں کی قضاوت اور قاضی کا منصب زیاد بن حنظلہ کو سونپا گیا تھا۔

یہی طبری سیف سے روایت کرتاہے کہ خلیفہ عمر نے ٢٢ھ میں ''جزیرہ'' کی حکومت زیاد بن حنظلہ کو سونپی ۔

یہ سب سیف بن عمر کا قول ہے اور اسے طبری نے سیف کانام لے کر اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔

ابو نعیم ،ابن اثیر اور ابن کثیر ،تینوں دانشوروں نے زیاد بن حنظلہ کے حالات ،جیسے ،اس کی حکمرانی اور قاضی مقرر ہونا اور کوفہ اور جزیرہ کی حکمرانی سب کو طبری سے نقل کرکے ایک تاریخی حقیقت کے عنوان سے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے ۔

سیف نے زید کی کوفہ پر حکومت کی بات کو ''مختصر مدت'' کی قید کے ساتھ ذکر کیاہے اور خلیفہ عمر سے اس عہدے سے استعفیٰ دینے کا اصرار بیان کرتاہے تاکہ اپنے لئے فرار کی گنجائش باقی رکھے اور اگر کوئی اس سے سوال کرے کہ کوفہ کے حکمرانوں کی فہرست میں زیاد کا نام کیوں نہیں پایا جاتا؟ تو وہ فوراً جواب میں کہے:کہ اس کی حکومت کازمانہ اس قدر مختصر تھا کہ حکمرانوں کی فہرست میں اس کے ثبت ہونے کی اہمیت نہیں تھی۔

سیف اپنے خاندانی تعصبات کی بناء پر زیاد کی کوفہ پر اسی قدر حکمرانی پر راضی اور مطمئن ہے کیونکہ اسی قدر کوفہ پر اس کا حکومت کرنا خاندان تمیم کے فخرو مباہات میں اضافہ کا سبب بنتاہے !!

خاندانی تعصبات کی بناء پر افسانہ کے لئے اتناہی کافی ہے کہ :اس کا '' زیاد بن حنظلہ'' ایک ایسا صحابی ہو جو مہاجر،دلاور وبے باک شہسوار ،دربار خلافت کا منظور نظر پاک دامن حکمران و فرماں روا عادل پارسا منصف و قاضی اور ایک حماسی سخنور شاعر کہ میدان کارزار میں اس کے نیزے کی نوک سے خون ٹپکتا ہو اور اس کی تلوارکی دھار موت کا پیغام دیتی ہو اور حماسی اشعار کہتے وقت اس کی زبان شعلہ بار ہو۔

۱۳۷

زیاد بن حنظلہ ،امام علی علیہ السلام کی خدمت میں

طبری ٣٦ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

مدینہ کے باشندے یہ جاننا چاہتے تھے کہ حضرت علی ں معاویہ اور اس کے پیرو مسلمانوں سے جنگ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں ؟ کیا وہ جنگ کا اقدام گریں گے ؟یا اس قسم کا اقدام کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ؟ اس کام کے لئے زیاد بن حنظلہ جو حضرت علی ں کے خواص میں شمار ہوتا تھا کو آمادہ کیا گیا کہ حضرت علی ں کے پاس جائے اور ان کا نظریہ معلوم کرکے خبر لائے ۔

زیاد امام ں کی خدمت میں پہنچا اور کچھ دیر امام کی خدمت میں بیٹھا۔امام نے فرمایا:

زیاد ! آمادہ ہو جائو ۔

زیاد نے پوچھا :

کس کام کے لئے ؟

امام ں نے فرمایا : شام کی جنگ کے لئے !

زیاد نے امام ں کے حکم کے جواب میں کہا : صلح و مہربانی جنگ سے بہتر ہے ۔اور یہ شعر پڑھا :

جو مشکل ترین کاموں میں ساز باز نہ کرے ،اسے دانتوں سے کاٹا جائے گا اور پائوں سے پائمال کیا جائے گا!!

امام ں نے جیسے وہ بظاہر زیاد سے مخاطب نہ تھے فرمایا:

اگر تم ہوشیار دل ،تیز تلوار اور عالی دماغ کے مالک ہو تو مصیبتیں تم سے دور ہو جائیں گی ۔

زیاد امام ں کے پاس سے اٹھ کر باہر آیا۔ منتظر لوگوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا اور سوال کیا :

کیا خبر ہے ؟

۱۳۸

زیاد نے جواب میں کہا: لوگ!تلوار!

مدینہ کے لوگ زیاد کا جواب سن کر سمجھ گئے کہ امام کا مقصد کیا ہے اور کیا پیش آنے والا ہے :

طبری اس افسانہ کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :

لوگوں نے شام کی جنگ میں اپنے امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ساتھ دینے سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کی حمایت نہیں کی جب زیاد بن حنظلہ نے یہ حالت دیکھی تو امام کے پاس جاکر بولا :

اگر کوئی آپ کی حمایت نہ کرے اور آپ کا ساتھ نہ دے اور مدد نہ کرے تو ہم ہیں ، ہم آپ کی مدد کریں گے اور آپ کے دشمنوں سے لڑیں گے ۔

طبری نے یہ مطالب سیف سے لئے ہیں اور ابن اثیر نے بھی انھیں طبری سے نقل کیا ہے ۔

کتاب '' استیعاب'' کے مؤلف ابن عبد البر اور دوسرے مؤلفین نے طبری کی پیروی کرتے ہوئے سیف کی اسی روایت پر اعتماد کرکے زیا دبن حنظلہ کو امام علی علیہ السلام کے خواص میں شمار کرایا ہے ،اور شائد سیف کی زیاد سے یہ بات نقل کرنے کے پیش نظر کہ ''(ہم آپ کی یاری اور مدد کے لئے آمادہ ہیں اورآپ کے دشمن سے لڑیں گے)۔لکھا گیا ہے کہ: زیاد نے امام کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے۔

ابن اعثم نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی اسی روایت کا ایک حصہ درج کیا ہے ۔

لیکن ہم نے ان جھوٹ کے پلندوں کو سیف کی روایتوں کے علاوہ تاریخ کے کسی اور مصدر میں نہیں پایا جن میں سیف سے مطلب نقل نہیں کیا گیا ہے اور جمل،صفین اور نہروان کی جنگوں میں زیاد کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا ، حتی امام علی کے اصحاب و شیعوں کے حالات پر مشتمل کتابو ں میں ''مامقانی'' کے علاوہ کہیں اس افسانوی شخص کا نام نہیں ہے '' مامقانی ''نے بھی ''اسد الغابہ'' اور ''استیعاب'' کی تحرویروں کے پیش نظر جہاں پر یہ لکھا گیا ہے کہ ''زیاد امام علی کا خاص صحابی تھا'' بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی کتا ب میں لکھا ہے :

۱۳۹

''میرا خیا ل ہے کہ یہ شخص ایک اچھا شیعہ تھا''

ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ سیف نے زیاد کو امام کے خواص کے طور پر کیو ں ذکر کیا ہے اور قعقاع جیسے بے مثال پہلوان کو امام کی خدمت میں مشغول دکھا یا ہے ؟چونکہ ہم سیف کو جھوٹ اور افسانے گھڑنے کے سلسلہ میں ناپختہ اور ناتجربہ کار نہیں سمجھتے ،اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیف کو زیاد کا افسانہ تخلیق کرنے اور اسے امام علی سے ربط دینے میں یہ مقصد کا ر فرما نہیں تھا کہ شیعوں کو بھی اپنی طرف جذب کرے تا کہ اس کے افسانے ان میں بھی اسی طرح رائج ہوجائیں جیسے اس نے خاص افسانے تخلیق کر کے مکتبِ خلفاء کے پیرؤں کو آمادہ کیا کہ اس کے جھوٹ کو باور کرکے اپنی کتابوں میں درج کریں ؟ یا اس کا کوئی اور بھی مقصد تھا جس سے ہم بے خبر ہیں !

سیف زیاد کو اس حد تک امام کے خواص میں شمار کراتا ہے کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ آپ کے خاص اصحاب جیسے عمار یاسر ، مالک اشتر اور ابن عباس و غیرہ بھی اس کے محتاج نظر آتے ہیں اور اسے معاویہ سے جنگ کے بارے میں امام کی طاقت اور مقصد سے متعلق اطلاع حاصل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔ ایسے جھوٹ کے پل باندھنا صرف سیف کے ہاں پایا جاسکتا ہے!!

زیاد بن حنظلہ اور نقلِ روایت

ابتداء میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ'' ابن عبد البر'' جیسا عالم اپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے :

''لیکن میں نے زیاد بن حنظلہ سے کوئی روایت نہیں دیکھی''۔

ابن اثیر نے بھی ابن عبد البر کے انہی مطالب کو اپنی کتاب ''اسد الغابہ '' میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن عساکر لکھتا ہے :

اس کے بیٹے ''حنظلہ بن زیاد'' اور ''عاص بن تمام'' نے بھی اس سے روایت کی ہے۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں ان ہی مطالب کو لکھا ہے۔

۱۴۰