ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138319 / ڈاؤنلوڈ: 4320
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بِجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ >(۱)

لیکن کوفہ کا حاکم ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

یا ایک اور شخص ،” مروان حکم “(۲) جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ طائف جلا وطن کیا تھا ، بعد میں ایک حاکم واقع ہونے کی وجہ سے عزت وا حترام کا مستحق بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

قریش کے بزرگوں اور حکمراں ، فرماں روا اور امراء طبقے کے ایسے لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کی عزت و احترام محفوظ رہے اورہم ان کی شخصیت کی حرمت کے محافظ بنیں ، لیکن اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متقی و پرہیزگار تہی دست صحابی ” ابو ذر غفاری“ یا باتقویٰ اور خدا ترس صحابی ” سمیہ “ نامی کنیز کے بیٹے ”عمار یاسر “ یا ” عبدا لرحمان بن عدیس بلوی “ نامی نیک و پارسا صحابی جو اصحاب بیعت شجرہ میں سے تھے اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :

لَقَد رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَافِی قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً >(۳)

یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابی جیسے ، ” صوحان عبدی “ کے بیٹے زید اور ”صعصعہ“ اور ان جیسے دسیوں صحابی اور تابعین جو ریاست و حکومت کے عہدہ دار نہ تھے اور قریش کے سرداروں میں سے بھی نہ تھے ، انھیں اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان کی ملامت اور طعنہ زنی کی جائے اور یمن کے صنعا سے ایک یہودی کو خلق کرکے اس خیالی اور جعلی شخص کو فرضی طور پر ان مقدس اشخاص میں قرار دیگر صاحبان قدرت اور حکومت سے ان کو ٹکرایا جائے اور

____________________

۱۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ، ایسا نہ ہو کہ ایسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ کہ جس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ( حجرات /۶۰)

۲۔ اسی کتاب کی فصل ” پیدائش افسانہ شیبہ “ اور دیگر فصلو ں میں اس کے حالات کے بارے میں دی گئی تشریح کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔ یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلو ں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انھی ں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ( فتح / ۱۸)

۲۱

اس طرح سیف کی جعلی روایتیں شہرت پاکر رائج ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین اور تحقیق نہیں ہوتی ہے ۔

اس قسم کی داستانوں اور افسانوں (جنھیں جعل کرنے والوں نے صاحبان قدرت و حکومت کے دفاع اور ان کے مخالفوں کی سرکوبی کےلئے گڑھ لیا ہے) کی اشاعت ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض افسانے اس حد تک مسلم تاریخی حقائق میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ہے اور بعض دانشورحضرات اس کے تحفظ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔

جبکہ یہ اس حالت میں ہے کہ جسے انہوں نے دین کا نام دیا ہے وہ حکمراں طبقے اور ان سے مربوط افراد کی عزت و احترام کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

لیکن اصحاب و تابعین سے مربوط وہ لوگ جو مجبور ہوکر قدرت و حکومت سے دور رہ کر کمزور واقع ہوئے ہیں ، ان دانشوروں کی نظروں میں قابل اہمیت و موردتوجہ قرار نہیں پائے ہیں ، کیونکہ انہوں نے صاحبان قدرت و دولت کی پیروی نہیں کی ہے بلکہان کے موافق نہیں تھے ۔

یہاں پر میں ایک بار پھر خداوند عالم کو شاہد قرار دیکر کہتا ہوں کہ جس چیز نے مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے کی ترغیب دی، وہ یہ ہے کہ مجھے بچپنے ہی سے اسلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران کے اصحاب کے متعلق جاننے و پہچاننے کی دلچسپی تھی اور میں نے اپنی اکثر زندگی اسی راہ میں گزاری ہے ، تب جاکر اس زمانے کے وقائع اور روئدادوں کو پہچاننے اور ان کی طرف بڑھنے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو شائع کیا ہے اور اس امید میں بیٹھا ہوں کہ محققین اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس چھان بین کو دقیق اور مضبوط تر صورت میں انجام دیں گے، میں اس کتاب کے قارئین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے تئیں میری محبت اور وفاداری ان سے کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں تظاہر کرتے ہیں ، البتہ اس سلسلہ میں اصحاب کے وہ افراد جن کا تاریخ میں اسلام کی نسبت نفاق اور دو رخی ثابت ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ میں احترام اور ان کی پرستش میں فرق کا قائل ہوں ، کیونکہ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ان دانشوروں نے اصحاب کی عزت و احترام کو تقدیس و ستائش کی اس حد تک آگے بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض افراد اپنے شائستہ اسلاف کی (خدا کی پنا ہو) غیر شعوری طور پر پرستش کرنے لگے ہیں ، خداوند ہمیں ، ان کو اور تمام مسلمانوں کو اس غلطی سے نجات دے ۔

۲۲

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر خدا کو دیکھا ہے اور اس دیدار کے دوران اگر ایک لمحہ(۱) کےلئے بھی مسلمان ہوگیا ہے ، وہ صحابی ہے اور ان کے اعتقاد کے مطابق صحابی فرشتہ جیسا ہے جس کی فطرت میں خواہشات اور غریزے کا دخل نہیں ہوتا ، لہذا وہ جب اس کے برعکس کچھ سنتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور اس طرز تفکر کی وجہ سے یہ لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں فی الحال ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

آخر کلام میں امید رکھتا ہوں کہ باریک بین اور تیز فہم حضرات ، اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں چھپے ہوئے میرے اس جملہ کو پڑھ لیں :

” جو لوگ تاریخ میں لکھی گئی چیزوں کو بوڑھی عورتوں کے خرافات اور بیہودگیوں کی نسبت تعصب کے مانند اعتقاد رکھتے ہیں ، وہ اس کتاب کو نہ پڑھیں “

اس کے علاوہ بھی چندتنقید یں ہوئی ہیں ، مثلاً اعتراض کیا گیا ہے کہ کیوں اس کتاب کا نام ” عبدا للہ بن سبا“ رکھا گیا ہے جبکہ اس میں ”عبدا للہ بن سبا “ کی بہ نسبت دوسری داستانیں زیادہ ہیں ؟

اس سوال کا ہم نے اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں جواب دیدیا ہے اور اس کے علاوہ کتاب کے سرورق پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ اور دیگر تاریخی داستانوں پر مشتمل ہے مزید ہم نے پہلی طباعت کے مقدمہ میں کہا ہے :

____________________

۱۔ کتاب الاصابہ، ( ۱/۱۰) الفصل الاول ” فی تعریف الصحابی “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۳

” قارئین کرام جلدی ہی سمجھ لیں گے کہ یہ کتاب صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کی داستان سے مربوط نہیں ہے بلکہ بحث کا دامن اس سے وسیع تر ہے “

ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے باوجود تنقید کرنے والوں کےلئے یہ مطلب کیونکر پوشیدہ رہ گیا ؟!

ضمناً ہم نے کتاب کے آخر میں مصر کے معاصر دانشور جناب ڈاکٹر احسان عباس کی عالمانہ تنقید اور ان کے سوالات درج کرنے کے بعد ان کا جواب لکھا ہے ۔

و مَا توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب

اس تحریر کو میں نے ذی الحجة ۱۳۸۷ ھ ء عید قربان کے دن منی کے خیمون میں مکمل کیا ہے خداوند عالم مسلمانوں کےلئے ایسی عیدیں باربار لائے اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احکام الہی کو انجام دینے میں تلاش و جستجو کریں تا کہ خداوندعالم ان کی حالت کو بدل دے ۔

اِن َّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (۱)

صدق الله العلیّ العظیم

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے رعد/ ۱۱

۲۴

مباحث پر ایک نظر

کتاب کی دوسری طباعت پر مصنف کا مقدمہ

میں نے حدیث اور تاریخ اسلام کی چھان بین اور تحقیق کے دوران حاصل شدہ نتیجہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور فیصلہ کرچکا ہوں کہ ہر حصے میں اپنی تحقیق کے نتائج کو براہ راست شائع کروں ، یہ چار حصے حسب ذیل ہیں :

اول : حدیث و تاریخ پر اثر ڈالنے والے تین بنیادی اسباب کی تحقیق۔

الف۔پوجا اور پرستش کی حد تک بزرگوں کی ستائش کا اثر

ب۔وقت کے حکام کا حدیث اور تاریخ پر اثر

ج۔حدیث اور تاریخ پر مذہبی تعصب کا اثر

اس بحث میں مذکورہ تین مؤثر کی وجہ سے حدیث اور تاریخ میں پیدا شدہ تحریف اور تبدیلیوں پر چھان بین ہوئی ہے لیکن آج تک اسے نشر کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے۔

دوم : ام المؤمنین عائشہ کی احادیث

یہ بحث دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ، اس کا پہلا حصہ حضرت عائشہ کی حالات زندگی سے متعلق ہے، جو عربی زبان میں ۳۱۴ صفحات پرمشتمل ۱۳۸۰ ء ھ میں تھران میں شائع ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ام المؤمنین کی احادیث کے تجزیہ و تحلیل پر مشتمل ہے یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے ۔

سوم : صحابہ کی احادیث

اس حصہ میں بعض اصحاب کی احادیث ، جن میں ابو ہریرہ کی احادیث اہم تھیں ، جمع کی گئی ہیں اور میں اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن جب میں نے آیت اللہ سید عبدا لحسین شرف الدین کی کتاب ” ابو ہریرہ“ دیکھی تو اسے اس سلسلے میں کافی سمجھ کر اپنی کتاب کو شائع کرنے سےمنصرف ہوگیا۔

چہارم : سیف کی احادیث:

اس حصہ میں سیف بن عمیر کی روایتوں کی چھان بین کی گئی ہے جن میں اس نے ۱۱ ھء سے ۳۷ ھ ء تک کے تاریخی وقائع نقل کئے ہیں ۔

۲۵

سیف نے پہلے سقیفہ ، پھر مرتدوں سے جنگ اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے دوران مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں لکھا ہے اور آخر میں اسلامی شہروں میں حضرت عثمان کی حکومت اور بنی امیہ کے خلاف بغاوتوں کو عثمان کے قتل تک کے واقعات کی وضاحت کی ہے پھر امیر المؤمنین کی بیعت اور جنگ جمل کی بات کی ہے ، اور ان وقائع میں بنی امیہ کی بدکرداریوں کی پردہ پوشی کرنے کےلئے عبد الله بن سبا اور سبائیوں کا افسانہ گڑھ لیا ہے ، اس طرح ان تمام وقائع کو بنی امیہ اور قریش کے تمام اشراف کے حق میں خاتمہ بخشتا ہے ۔

میں نے اس حصہ میں سیف کے چند افسانوں کو تاریخ کی ترتیب سے درج کرکے ” احادیث سیف“ کے عنوان سے طباعت کےلئے آمادہ کیا ،مرحوم شیخ راضی آل یاسین کو میر ی تصنیف کے بارے میں اطلاع ملی اور انہوں نے فرمایا کہ : سیف بن عمیر ناشناختہ ہے لہذا ” احادیث سیف “ کا عنوان جذابیت نہیں رکھتا ہے ، چونکہ سیف کا سب سے بڑا افسانہ ” عبد اللہ بن سبا “ اور سبائی ہے ، لہذا بہتر ہے اس کتاب کا نام ”’ عبدا للہ بن سبا “ رکھا جائے ، اس لئے اس کتاب کا نام بدل کر ” عبدا للہ ابن سبا “ رکھا اور اسے طباعت کے لئے پیش کیا ۔

اس کتاب کی طباعت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سیف کے افسانوں کے بہت سے سورما پیغمبر خدا کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں لہذا اس کتاب کی پہلی جلد کے آخر میں اس کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں اصحاب پیغمبر کے بارے میں حالات درج کئے گئے منابع اور کتابوں کی تحقیق کی، اور مطالعہ کرنے لگا اس تحقیق کے نتیجہ میں ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تالیف کی اور طباعت کے حوالے کی ۔ لہذا سیف کی احادیث کے بارے میں بحث تین حصوں میں انجام پائی :

۱ ۔ عبدا للہ بن سبا اور چند دیگر افسانے ۔

۲ ۔ عبدا لله بن سبا اورسبائیوں کا افسانہ۔

۳ ۔ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ۔

پہلے حصہ میں سیف کی پندرہ قسم کی روایتوں کی حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عثمان کی خلافت تک ان کے واقع ہونے کے سالوں کی ترتیب سے چھان بین کی گئی ہے ۔ یہ حصہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کی پہلی جلد پر مشتمل ہے ، جس میں درج ذیل دو موضوعات پر بحث کی گئی ہے:

۲۶

۱ ۔ اسامہ کا لشکر

۲ ۔ سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت

اس کتاب کی دوسری جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلام میں ارتداد ۔

۴ ۔ مالک بن نویرہ کی داستان۔

۵ ۔ علاء حضرمی کی داستان۔

۶ ۔ حواب کی سرزمین اور وہاں کے کتے۔

۷ ۔ نسلِ زیاد کی اصلاح۔

۸ ۔ مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان ۔

۹ ۔ ابو محجن کی شراب نوشی ۔

۱۰ ۔ سیف کے ایام ۔

۱۱ ۔ شوریٰ اور عثمان کی بیعت ۔

۱۲ ۔ ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان۔

۱۳ ۔ تاریخ کے سالوں میں سیف کی دخل اندازی۔

۱۴ ۔ سیف کے افسانوی شہر

۱۵ ۔ خاتمہ

کتاب کی اس جلد کو عربی متن کے ساتھ مطابقت کرنے کے بعد اس میں روایتوں کے مآخذ کی چھان بین اور جعلی اصحاب کو مشخص کرنے کے سلسلے میں چند اہم حصوں کا اضافہ کرکے طباعت کےلئے پیش کیا گیا ۔ خدائے تعالی سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی دوسری جلد اور کتاب ” ۱۵۰ جعلی اصحاب“ کو طبع کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

سید مرتضی عسکری

تہران جمعہ ۱۴/ ۴/ ۱۳۸۶ ھ

۲۷

آغاز بحث

پہلی طباعت کا مقدمہ

میں ۱۳۶۹ ھء میں حدیث و تاریخ کے بارے میں چند موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر تحقیق و مطالعہ کررہا تھا، منابع و مآخذ کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے حدیث اور تاریخ کی قدیمی ، مشہور اور معتبر ترین کتابوں میں موجود بعض روایتوں کے صحیح ہونے میں شک کیا، اس کے بعد میں نے شک وشبہہ پیدا کرنے والی راویتوں کو جمع کرکے انھیں دوسری روایتوں سے موازنہ کیا اس موازنہ نے مجھے ایک ایسی حقیقت کی راہنمائی کی جو فراموشی کی سپرد ہوچکی تھی اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر زمانے کے حوادث کی شکار ہوچکی تھی ۔

جب اس قسم کی روایتوں کی تعداد قابل توجہ حد تک بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کرگئی تو میں نے اخلاقی طور پر اس ذمہ داری کا احساس کیا کہ اس ناشناختہ حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھاؤں ۔

اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں لکھی گئی یادداشتوں کو چند فصلوں میں تقسیم کیا اور انھیں ”احادیث سیف “ کا نام دیا، میرے اس کام سے ” کتاب صلح حسن “ کے مؤلف جناب شیخ راضی یاسین طاب ثراہ آگاہ ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بحث کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا نام ” عبد اللہ بن سبا “ رکھوں ، اور میں نے بھی ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔

۲۸

میری تحقیق کا یہ کام سات سال تک یوں ہی پڑا رہا اور اس دوران گنے چنے چند دانشوروں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی اورآگاہ نہ ہو ا، جس چیز نے مجھے اس مدت کے دوران اس کتاب کی طباعت سے روکا ، وہ یہ تھا کہ میں اس امر سے ڈرتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ، کیونکہ احادیث اور روایات کا یہ مجموعہ ان واقعات کے بارے میں تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۳۷ ھ ء تک گزرے ہیں ،اس مدت کے بارے میں لکھی گئی تاریخ، عام مسلمانوں کےلئے امر واقعی کے طور پر ثبت ہوچکی تھی اور ان کے اعتقادات کے مطابق اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زمانے کے بارے میں لکھی گئی تاریخ ان کے دینی عقائد کا جزہے اور پسماندگان کو کسی قسم کے چون، چرا کے بغیر اسے قبول کرنا چاہئے ۔

یہ مباحث ، تاریخ کی بہت سی ایسی بنیادوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں ، جنھیں تاریخ دانوں نے بنیاد قرار دیگر ناقابل تغیر سمجھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ مباحث اسلام کی بہت سی تاریخی داستانو ں کو غلط ثابت کرتے ہیں اور بہت سے قابل اعتماد منابع و مآخذکے ضعیف ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔(۱)

قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ بحث ” عبد اللہ بن سبا“ اور اس کے افسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دامن کافی وسیع اور عمیق تر ہے ۔

____________________

۱۔اس لئے ” پیرزال “ کے مانند تاریخ میں لکھے گئے خرافات و توہمات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے حضرات کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔

۲۹

اس سبب اور چندد یگر اسباب کی بنا پر اس کتاب کو شائع کرنے کے سلسلے میں میرے دل میں خوف پیدا ہوا تھا ، لیکن جب میں نے اس موضوع کے ایک حصہ کو تاریخ پر تحقیقاتی کام انجام دینے والے دو عالیمقام دانشوروں کی تحریروں میں پایا تو میرے حوصلے بڑھ گئے اور میں نے ان مباحث کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ان مباحث میں قدیمی ترین تاریخی منابع و مآخذسے استفادہ کیا ہے اور پانچویں صدی کے بعد والے کسی شخص سے کوئی بات نقل نہیں کی ہے مگر یہ کہ پانچویں صدی کے بعد نقل کی گئی کسی بات کی بنیاد متقدمین سے مربوط ہو اور صرف اس کی شرح و تفصیل اس کے بعد والوں کسی نے کی ہو۔

ولله الحمد و منہ التوفیق

بغداد ۱۵ رمضان ۱۳۷۵ ھ

مرتضی عسکری

۳۰

پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ

افسانہ کی پیدائش

افسانہ کے روایوں کا سلسلہ

سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔

عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش

هٰذه هی اسطورة ابن سَبا بإیجاز

یہ افسانہ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔

ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں (اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ

یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور

سبائی کون ہیں ؟

ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں ؟

۳۱

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے

صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔

مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا)رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔

اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔

۳۲

اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔

کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔

اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں

۱ ۔ ابوذر

۲ ۔ عمار بن یاسر

۳ ۔ عبد الرحمان بن عدیس

۴ ۔ صعصعہ بن صوحان

۵ ۔ محمد بن ابی حذیفہ

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔

۷ ۔ مالک اشتر

۳۳

۱ابوذر

ان کا نام جندب بن جنادہ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔

اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔

ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:

مَا اظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر

آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے(۱)

____________________

۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۳۴

۲ عمار بن یاسر

ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔

عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے(۱) ۔

انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

۱۔”ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشه

۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۵

۳ محمد بن ابی حذیفہ

ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ،

۳۶

محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا(۱)

۴ عبد الرحمان بن عدیس بلوی

وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا(۲)

۵ محمد بن ابی بکر

ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ

____________________

۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔

۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کری ں ۔

۳۷

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔

حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا(۱)

۶ صعصعہ بن سوہان عبدی

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی(۲)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں ، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو

۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۳۸

۷ مالک اشتر

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے

تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم (بحر احمر) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے(۱) یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!

اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔

____________________

۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور

افسانہ عبدا للہ بن سبا کے راوی

اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں هذه القصة

دس صدیو ں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔

” مولف“

۳۹

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میں ا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں ! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

علاء نے جوبھی خدمت انجام دی اور جو بھی کام انجام دیا سب ریاکاری اور ظاہرداری پر منبی تھا اور وہ اس میں مخلص نہیں تھا ۔اگر اس میں کوئی کرامت پائی جاتی ہے تو وہ صرف مقام خلافت کے مطیع اور فرماں بردار ہونے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ خلیفہ عمر کی دلی رضامندی اور اجازت کے بغیر ایران پر حملہ کرتا ہے تو بری طرح شکست کھاتا ہے اور اپنی سپاہ سمیت دشمن کے محاصرے میں پھنس جاتا ہے۔ اس حالت میں اس کی نالہ و زاری اور دعائیں اس کے لئے مؤثر ثابت نہیں ہوتیں اور اسے کسی قسم کی مدد نہیں دیتیں ۔ یہاں ''دھنا'' کے معجزہ ، اور خلیج کے پُر تلاطم دریا سے گزر نے کا نام و نشان تک نہیں ہے!

اس داستان کے ضمن میں وہ لکھتا ہے:

عمرنے اپنی دور اندیشی کی بناء پر محاصرہ میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کو دشمن کے چنگل سے بچالیا اور خود سر علا حضرمی یمانی کی تنبیہ کی اور اسے اپنے منصب سے معزول کردیا.

اس کی تفصیل اسی کتاب کی پہلی جلد میں عاصم کے حصہ میں گزری ہے۔

اسناد کی تحقیق

اب ہم دیکھتے ہیں کہ٠ سیف بن عمر نے عفیف کے افسانہ کو کس سے نقل کیا ہے اور اس کی روایات کے راوی کون ہیں ؟!

سیف نے ان تمام مطالب کو دو روایات میں اور ان دونوں روایات کو ایک راوی سے نقل کیا ہے اور یہ راوی ''صعب بن عطیہ بن بلال'' ہے۔

یہاں ہم نے اس راوی اور اس کے باپ ''عطیہ بلال'' کے سلسلے میں راویوں کے حالات پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کرکے تحقیق و جستجو کی لیکن ان کا کوئی نا م و نشان نہیں ملا۔ اس لئے ہم یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس افسانہ کو سیف بن عمر نے خود جعل کیا ہے اور اس کو اپنے ہی تخلیق کئے گئے راویوں سے نسبت دیدی ہے۔

۱۲۱

عفیف کے افسانے کا نتیجہ

سیف نے عفیف نام کے ایک بے باک شاعراور دلاور کو خلق کرکے اپنے لئے درج ذیل مقاصد اور نتائل حاصل کئے ہیں :

١۔قبیلۂ تمیم کے لئے ارتداد کی جنگوں میں فخر و مباہات ثبت کئے ہیں ۔

٢۔ معجزے تخلیق کرکے صحرائے ''دھنا'' کی تپتی ریت پر پانی کے چشمے جاری کرتا ہے، دریا کے پانی کی ما ہیت کو بدل دیتا ہے اور اسلام کے سپاہیوں کے پاؤں کے نیچے دریا کے پانی کو مرطوب ریت کے مانند بنادیتا ہے، ملائکہ کو ان جنگوؤں کی تائید کرنے پر مجبور کرتا ہے تا کہ یہ واقعہ اصحاب کی کرامتوں اور معجزوں کے طور پر ان کے مناقب کی کتابوں میں درج ہوجائے۔

٣۔دعائیں ، تقیریں ، رجز خوانیاں اور خطوط جعل کرتا ہے تا کہ اسلامی ثقافت میں اپنی طرف سے اضافہ کرے۔

٤۔ خاندان قیس کے سردار ''حطم'' کو خاک و خون میں غلطاں کرتا ہے، شہریار ربیعہ کو قیدی بنادیتا ہے اور اس کے بھائی کا سرتن سے جدا کرتا ہے اور ان تمام افتخارات کے تمغوں کو اپنے افسانوی سورما''عفیف'' بن منذر تمیم کے سینے پر لگادیتا ہے تا کہ خاندان ''بنی عمرو تمیمی'' کے افتخارات میں ایک فخر کا اضافہ کرے۔

٥۔ایک ہی نسل کے باپ بیٹے ''عطیہ''و ''صعب'' نام کے دو راویوں کی تخلیق کرتا ہے اور انھیں اپنے خیالی راویوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے۔

یہ سب نتائج سیف کے بیانات سے حاصل ہوتے ہیں اور افسانہ نگاری میں تو وہ بے مثال ہے ہی۔

۱۲۲

سیف کے افسانوں کی اشاعت کرنے والے:

١۔امام المورخین محمد بن جریر طبری نے ''تاریخ کبیر'' میں ۔

٢۔یاقوت حموی نے ''معجم البلدان'' میں

٣۔حمیری نے ''روض المعطار''میں

٤۔''ابن حجر'' نے ''الاصابہ'' میں ۔

ان چار دانشوروں نے اپنے مطالب کو بلاواسطہ سیف کی کتاب سے نقل کیا ہے۔

٥۔''عبد المؤمن'' نے ''مراصد الاطلاع'' میں ۔ اس نے حموی سے نقل کیا ہے ۔

٦۔٧۔٨۔٩۔ابو الفرج اصفہانی نے '' اغانی'' میں ،ابن اثیر ،ابن خلدون اور دوسرے تاریخ نویسوں نے عفیف کے بارے میں مطالب کو طبری سے نقل کیاہے ۔

۱۲۳

ساتواں جعلی صحابی زیاد بن حنظلہ تمیمی

ابو عمر ابن عبد البر نے اپنی کتاب ''استیعاب '' میں زیاد بن حنظلہ تمیمی کا اس طرح ذکر کیا ہے :

'' وہ (زیاد بن حنظلہ ) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا ،لیکن مجھے اس کی کسی روایت کا سراغ نہ ملا ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے '' قیس بن عاصم '' اور '' زبرقان بن بدر'' کے ہمراہ مأموریت دی تھی کہ مسیلمۂ کذاب ،طلیحہ اور اسود کی بغاوت کو سرکوب کرے''

زید ،رسول خدا کا گماشتہ اور کار گزار اور امام علی علیہ السلام کا پیرو کار تھا ۔ اس نے آپ کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں زیاد کے بارے میں ابن عبد البر کی عین عبارت کو درج کیا ہے اور آخر لکھتا ہے :

''ان مطالب کو کتاب '' استیعاب'' کے مؤلف ابو عمر نے '' زیاد بن حنظلہ'' کے حالات بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے ۔ ''

کتاب '' تجرید'' کے مؤلف ذہبی نے بھی زیاد کی زندگی کے حالات خلاصہ کے طور پر ابن اثیر کی کتاب '' اسد الغابہ '' سے نقل کئے ہیں ۔

ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں بعض مطالب کو بلا واسطہ سیف کی کتاب سے اور ایک حصہ کو '' استیعاب'' سے لیا ہے ۔وہ زیاد کے بارے میں یوں لکھتا ہے :

'' زیاد بن حنظلہ تمیمی جو بنی عدی کا ہم پیمان بھی ہے کے بارے میں کتاب '' استیعاب '' کے مؤلف نے یوں ذکر کیا ہے :....''

یہاں پر وہ '' استیعاب'' کے مطالب ذکر کرنے کے بعد خود اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''....اور سیف بن عمر اپنی کتاب''فتوح ''میں زیاد کے بارے میں لکھتا ہے:... اس طرح وہ زیادکی داستان کوبلاواسطہ سیف کی کتاب ''فتوح''سے نقل کرتا ہے۔''

ابن عساکرنے اپنی کتاب ''تاریخ دمشق'' میں زیاد کے بارے میں یوں لکھا ہے :

وہ (زیاد) بنی عبد بن قصی کا ہم پیمان تھااور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا۔زیاد نے جنگ یرموک میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ شرکت کی ہے ۔اور اسلامی سپاہ کے ایک فوجی دستہ کی کمانڈاس کے ہاتھو ں میں تھی ۔ اس کے بیٹے حنظلہ بن زیاد اور عاصم بن تمام نے اس سے روایت کی ہے ۔

۱۲۴

ان مطالب کو بیان کرنے کے بعد ابن عساکر نے سیف بن عمر کی روایات سے سند ومأخذ کے ساتھ جو اس صحابی کی تخلیق کا تنہامنبع وسرچشمہ ہے زیا دکی زندگی کے حالات بیان کئے ہیں ۔

زیاد ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں

ٍ طبری ١٥ ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں اور مرتدوں کی سرکوبی کے لئے ایک گروہ کو روانہ کیا ۔

اس کے بعد طبری ان اصحاب کا نام لیتا ہے جنھیں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا م کے لئے انتخا ب کیا تھا اور اس سلسلے میں لکھتاہے:

....اور خاندان بنی عمرو کے زیاد بن حنظلہ کو قیس بن عاصم اور زبرقان بن بدر کے ہمراہ مأموریت دی ...کہ وہ لوگ ایک دوسرے کی مد د سے پیغمبری کادعویٰ کرنے والوں ،جیسے ،مسیلمہ ، طلیحہ اسود کے خلاف اقدام کریں

کتاب ''استیعاب ''کے مؤلف ابن عبد البراور دیگر مؤلفین ۔جن کانام اوپر ذکر ہوا ۔نے بھی اسی خبر کو سیف سے استناد کرتے ہوئے زیاد کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتہ کے طور پر شمار کیا ہے ۔

ہم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پر لکھی گئی کتابوں ،جیسے ،ابن ہشام کی ''سیرت ''، مقزیری کی ''امتاع الاسماع''۔ابن سیدہ کی ''عیون الاثر''،ابن حزم کی ''جوامع السیر ''،بلاذری کی ''انساب الاشراف''کی پہلی جلدجو خصوصی طور پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت پرمشتمل ہے اور ابن سعد کی ''طبقات ''کی پہلی اور دوسری جلد کی طرف رجوع کیا جن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت سے مربوط مطالب لکھے گئے ہیں ،حتیٰ ان میں پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خچر ، گھوڑے اور اونٹ تک کاذکر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ان کتابوں میں ان تالا بوں کانام تک ذکر کیا گیا ہے جن سے پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کبھی پانی پیا تھا۔ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسواکوں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جوتوں تک کا تمام جزئیات اور اوصاف کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔اس کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام ، فرمانوں اور جنگی کاروائیوں کابھی مفصل ذکر کیا گیا ہے ہم نے ان سب کا مطالعہ کیا ،لیکن ہم نے ان کتابوں میں کسی ایک میں زیا د بن حنظلة تمیمی کانا م نہیں پایا۔

حتیٰ ان کے علاوہ ان موضوعات سے مربوط دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جنھوں نے سیف کی کوئی چیز نقل نہیں کی ہے ان میں بھی زیادبن حنظلہ تمیمی نام کے صحابی کا کہیں نام ونشان نہیں پایا جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی مأموریت دی ہو یاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاکارگزار رہاہو۔

۱۲۵

زیاد ،ابوبکر کے زمانہ میں

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں یوں ذکر کیاہے:

قبائل ''قیس ''اور ''ذبیان''اُن قبائل میں سے تھے جو مرتدد ہوکر ''ابرق ربذہ''کے مقام پر جمع ہوگئے تھے اور پیغمبر ی کادعویٰ کرنے والے ''طلیحہ ''نے بھی قبیلہ ''ھوزان''کے چند افراد کو اپنے بھائی ''حبال''کی سرکردگی میں ان کی مددکے لئے بھیجا۔

ابوبکر نے مدینہ پران کے متوقع حملہ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے اور بعض افراد ،من جملہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کوشہر مدینہ کی گزر گا ہوں کی حفاظت کے لئے مقرر کیا اور بعض افراد کو مرتدوں سے مقابلہ کرنے کے لئے روانہ کیا ۔مؤخر الذکر گروہ نے شکست کھا کرمدینہ تک پسپائی اختیار کی۔

ابوبکر نے جب یہ حالت دیکھی تو اس نے راتوں رات ایک سپاہ کو منظم کیا اور پوپھٹنے سے پہلے سپاہ اسلام نے مرتدوں پر حملہ کیا اور انھیں سنبھلنے کاموقع دینے سے پہلے تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔ اسلام کے سپاہیوں نے انہیں شکست دینے کے بعد ان کا پیچھا کیا ۔

زیاد بن حنظلہ نے اس مناسبت سے درج ذیل اشعار کہے ہیں :

اس دن ابوبکر نے ان پر ایسا حملہ کیا جیسے ایک وحشی درندہ اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو سواروں کی کمانڈسونپی جن کے حملہ سے ''حبال''قتل ہوا۔

ہم نے ان کے خلاف جنگ چھیڑی اور انہیں ایسے زمین پر ڈھیر کردیا ،جیسے جنگی سپاہی مال غنیمت پرٹوٹ پڑتے ہیں ۔

جب ابوبکر جنگجوؤں کو میدان کار زار میں لے آئے تو ،مرتدمقابلہ کی تاب نہ لاسکے ۔ہم نے نزدیک ترین پہاڑی سے قبیلۂ بنی عبس پر شبخون مارا اور ''ذبیانیوں ''کی کمر توڑ کر ان کے حملہ کو روک دیا

سیف نے مزید کہا کہ زیاد بن حنظلہ نے ''ابرق ربذہ'' کی جنگ میں اپنے چند اشعار کے ضمن میں اس طرح کہا ہے :

ہم '' ابرق'' کی جنگ میں موجود تھے اور یہ ہی جنگ تھی جس میں '' ذبیانی'' آگ میں جھلس گئے ۔

اور ہم نے ابو بکر صدیق کے ہمراہ جنھوں نے گفتگو کو ترک کیا تھا انھیں موت کا تحفہ دیا۔

۱۲۶

یاقوت حموی نے سیف کے اس افسانہ پر اعتماد کرتے ہوئے '' ابرق ربذہ'' کی تشریح میں اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھاہے :

'' ابرق ربذہ'' ایک جگہ کا نام ہے جہاں پر ابوبکر صدیق کے حامیوں اور مرتد وں کے ایک گروہ کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ہے ۔جیسا کہ سیف کی کتاب میں آیا ہے وہاں پر قبائل ''ذبیان'' سکونت کرتے تھے اور ابوبکر نے ان کے مرتد ہونے کے بعد ان پر حملہ کیا اور انھیں بری طرح شکست دی اور ان کی سرزمینوں کو لشکر اسلام کے گھوڑوں کی چراگاہ بنا دیا یہ وہی جگہ ہے جس کے بارے میں زیاد بن حنظلہ نے اپنے اشعار میں اس طرح اشارہ کیا ہے :

ہم '' ابرق'' کی جنگ میں موجود تھے اور یہ وہی جنگ تھی جس میں ذبیا نیوں تاآخر شعر

۱۲۷

حموی نے اس مطلب کو اپنی کتاب '' المشترک'' میں بھی خلاصہ کے طور پر ذکر کیا ہے اور کہتا ہے :

'' ابرق ربذہ'' کا نام ایک روایت میں آیا ہے اور زیاد بن حنظلہ نے اس کے بارے میں اپنے چند اشعار کے ضمن میں ذکر کیا ہے

اس طرح زیاد کانام '' ارتداد'' کی جنگوں میں سیف بن عمر کے ذریعہ تاریخ طبری میں آیا ہے اور ابن کثیر نے ان ہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

لیکن دوسروں جیسے ،بلاذری نے ارتداد کی جنگ کی خبر کو دوسری صورت میں بیان کیا ہے :

بلاذری یوں لکھتا ہے:

ابوبکر '' ذی القصہ '' کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں سے ایک فوج منظم کرکے مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کریں ،اسی اثنا ء میں ''خارجہ بن حصن ''اور ''منظور بن سنان '' ۔جودونوں قبیلۂ فزارہ سے تعلق رکھتے تھے ۔نے مشرکوں کی ایک جماعت کی ہمت افزائی سے اسلام کے سپاہیوں پر حملہ کرکے ایک سخت جنگ شروع کی ۔لیکن آخر کار اسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں شکست کھاکر بھاگ کھڑے ہوئے ۔طلحہ بن عبد اللہ نے ان کا پیچھا کیا ااور ان میں سے ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن باقی کفار بھاگنے میں کامیاب ہوگئے ۔

اس کے بعدابوبکر نے ''خالد بن ولید ''کو کمانڈرانچیف منصوب کیا اور ''ثابت بن قیس شماس ''کوانصار کی سرپرستی سونپی۔انہیں حکم دیا کہ طلیحہ اسدی کے ساتھ جنگ کریں ،جس نے پیغمبری کادعویٰ کیا تھا اور قبیلہ فزارہ کے افراد اس کی مدد کے لئے اٹھے تھے ۔

ذہبی نے بھی اس داستان کو تقریباًاسی مفہوم میں بیان کیا ہے ۔لیکن ذہبی اور بلاذری ، دونوں کی کتابوں میں ''ابرق ''اورزیاد بن حنظلہ کا کہیں نام ونشان تک نہیں ملتا۔

اس کے علاوہ ہم نے ان کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جن میں مرتدوں سے ابوبکر کی جنگ کی تفصیلات سیف کی روایتوں سے استفادہ کئے بغیر ،درج ہوئی ہیں ،لیکن ''ابرق ربذہ''،قبائل قیس و ذبیان کے ارتداد اور اسی طرح زیاد بن حنظلہ اور اس کی دلاوریوں کا کہیں نام تک نہیں پایا۔

۱۲۸

بحث وتحقیق کا نتیجہ

''ابرق ربذہ''،نیز قبائل قیس وذبیان جیسے مرتدوں سے ابوبکر کی جنگ اور زیاد بن حنظلہ اور اس کی دلاوریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف کتابوں کے مطالعہ ،بحث و تحقیق اور تلاش وکوشش کا جو نتیجہ ہمیں حاصل ہوا وہ حسب ذیل ہے :

ابن عبد البر کی کتاب ''استیعاب ''میں زیاد بن حنظلہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی فہرست میں شمار کیا گیا ہے ،اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندہ اور گماشتہ کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مرتدوں اور پیغمبری کا دعویٰ کرنے والوں سے نبرد آزما ہونے کی اس کی مأموریت کا بھی ذکر کیا گیا ہے ،لیکن اس روایت کی سند کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔

چونکہ ''اسد الغابہ ''اور ''تجرید ''کے مؤلفوں نے روایت کے مصدر کی طرف اشارہ کئے بغیر اپنے مطالب کتاب ''استیعاب'' سے نقل کئے ہیں ۔اس لئے یہ امر محققین کے لئے اس گمان کاسبب بنا ہے کہ ممکن ہے یہ داستان سیف کے علاوہ اور کسی سے بھی نقل کی گئی ہو۔

اس امر کے پیش نظر کہ یا قوت حموی کی کتاب ''معجم البلدان ''میں لفظ ''ابرق ربذہ ''کی سند سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کی گئی ہے ،اس لئے ایسا لگتا ہے کہ حموی کے زمانہ میں کتاب ''فتوح '' کاسیف بن عمرو سے منسوب ہونا خاص طور پر معروف ومشہور تھا۔لیکن قرائن سے معلوم ہوتاہے کہ حموی کے بعد صدیوں تک یہ کتاب شہرت کی حامل نہیں رہی ہے اور چونکہ ''ابرق ربذہ '' کی تشریح حموی کی معجم البلدان سے جغرافیہ کی دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہے اس لئے ممکن ہے محققین یہ باور کریں کہ اس قسم کی کوئی جگہ صدر اسلام میں موجود تھی!!!جبکہ ان تمام خبروں اور افسانوں کا مصدر صرف سیف ہے اور کوئی نہیں ۔

سیف کے افسانوں کا نتیجہ

١۔سیف نے زیاد بن حنظلہ تمیمی کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کاصحابی دکھانے کے علاوہ اسے رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ بھی بنا کرپیش کیا ہے ۔

٢۔''ابرق ربذہ ''کے نام سے ایک جگہ تخلیق کی ہے تاکہ جغرافیہ کی کتابوں میں اس کا نام درج ہو جائے۔

٣۔اس نے اپنے جعلی صحابی کی زبان سے بہادریوں اور دلاریوں کے قصیدے جاری کہے ہیں تاکہ ادبیات ولغت کی کتابوں کی زینت بنیں اور ادبی آثار کے خزانوں میں اضافہ ہو۔

۱۲۹

٤۔خیالی جنگیں اور فرضی فوجی کیمپ تخلیق کئے ہیں تاکہ اسلام کی تاریخ کے صفحات میں جگہ پائیں ،اس طرح وہ اسلامی معاشرہ کو اپنے آپ میں مشغول رکھے ۔

شام کی فتوحات میں زیاد بن حنظلہ کے اشعار

طبری نے ١٣ھ کی روئد اد اور جنگ یرموک کے واقعات کے ضمن میں اور ابن عساکر نے زیاد بن حنظلہ کی زندگی کے حالات کی تشریح میں سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں اس طرح درج کیا ہے :

اسلامی فوج کے سپہ سالار '' خالد بن ولید'' نے زیاد بن حنظلہ کو سواروں کے ایک دستے کی کمانڈ سونپی۔

اسی طرح طبری نے ١٥ھ کے حوادث اور ہراکلیوس کی دربدری اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے فوج جمع کرنے کے سلسلے میں اس کی ناکامی نیز ابن عساکر و ابن حجر تینوں نے زیاد بن حنظلہ کے حالات کے سلسلے میں اپنی کتابوں میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :

جس وقت '' ہراکلیوس '' کے شہر '' رہا'' سے بھاگ رہا تھا اس نے شہر ''رہا'' کے باشندوں سے مدد طلب کی لیکن انھوں نے اسے مدد دینے سے پہلو تہی کی جس کے نتیجہ میں وہ پریشان حالت میں اس شہر سے بھاگ گیا۔

اس واقعہ کے بعد سب سے پہلے جس مسلمان دلاور نے ''رہا'' میں قدم رکھا اور علاقہ کے کتوں کو بھونکنے پر مجبور کیا اور پالتو مرغ خوفزدہ ہو کر اس سے دور بھاگے وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور قبیلہ '' عبد بن قصی'' کا ہم پیمان ،زیاد بن حنظلہ تھا۔

ابن عساکرنے اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے اضافہ کیا ہے کہ زیاد بن حنظلہ نے اس حادثہ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

اگر چاہو تو '' ہرا کلیوس '' سے جہاں بھی ہو جاکر پوچھو!ہم نے اس سے ایسی جنگ کی کہ قبیلوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔

ہم نے اس کے خلاف ایک جرار لشکر بھیجا جو سردی میں نیزہ بازی

۱۳۰

کرتے تھے ۔

ہم اس جنگ میں ہر حملہ و ہجوم میں دشمن کی فوج کو نابود کرنے میں شیرنر جیسے تھے اور رومی لومڑی کے مانند تھے ۔

ہم نے جہاں جہاں انھیں پایا وہیں پر موت کے گھاٹ اتار دیا اور دشمنوں کو پا بہ زنجیر کرکے اپنے ساتھ لے آئے ۔

مندرجہ ذیل اشعار کو بھی سیف بن عمر نے زیاد بن حنظلہ سے نسبت دی ہے :

ہم شہر حمص میں اترے جو ہمارے پیروں تلے ذلیل و خوار ہو گیا تھا اور ہم نے اپنے نیزوں اور تلواروں کے کرتب دکھائے ۔

جب رومی ہمیں دیکھ کر خوف و وحشت میں پڑے تو ان کے شہر کے برج اور پشتے بھی ہماری ہیبت و قدرت سے زمین بوس ہو کر مسمار ہو گئے ۔

وہ سب ذلیل و خوار حالت میں ہمارے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے تھے ۔

سیف بن عمر نے کہا ہے کہ مندرجہ ذیل اشعار زیاد بن حنظلہ نے کہے ہیں :

ہم نے حمص میں قیصر کے بیٹے کو اپنے حال پر جھوڑدیا ،جب کہ اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا ۔

ہم اس گھمسان کی جنگ میں سر بلند تھے اوراسے ایسی حالت میں چھوڑ دیا تاکہ وہ خاک و خون میں تڑپتا رہے ۔

اس کے سپاہی ہماری طاقت کے مقابلے میں اس قدر ذلیل و خوار ہوئے کہ ایک زلزلہ زدہ دیوار کی مانند زمیں پر ڈھیر ہو گئے ۔

ہم نے شہر حمص کو اس وقت ترک کیا جب اسے ہم باشندوں سے خالی کر چکے تھے ۔

سیف بن عمر کہتا ہے کہ زیاد بن حنظلہ نے '' قنسرین'' کی فتح کے سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

اسی شب جب ''میناس ''نے اپنے کمانڈروں کی شدید ملامت کی ہم ''قنسرین '' پر فتح پاکر وہاں کے فرمان روا ہو چکے تھے ۔

جس وقت ہمارے نیزوں اور تیروں کی بارش ہو رہی تھی خاندان '' تنوخ'' ہلاکت سے دو چار تھے ۔

ہماری جنگ تب تک جاری رہی جب تک وہ جزیہ دینے پر مجبور نہ ہوئے ۔یہ ہمارے لئے تعجب خیز بات تھی جب انھوں نے اپنے برج اور پشتوں کو خود مسمار کیا!!

۱۳۱

یہ اشعار بھی کہے ہیں :

جس دن '' میناس'' اپنی سپاہ لے کر ہمارے مقابلے میں آیا ،ہمارے محکم نیزوں نے اسے روک لیا ۔

اس کے سپاہی بیابان میں تتر بتر ہوگئے ،ہمارے دلاوروں اور نیزہ بازوں سے نبردآزمائی کی ۔

جس وقت ہمارے جنگجوئوں نے ''میناس'' کو گھیرلیا ۔اس وقت اس کے سوار سست پڑ چکے تھے ۔

سر انجام ہم نے ''میناس'' کو اس وقت چھوڑا جب وہ خون میں تڑپ رہا تھا اور ہو اکے جھونکے اس کے اور اس کے دوستوں کے چہرے پر صحرا کی ریت ڈال رہے تھے ۔

'' اجنادین '' کی جنگ کے بارے میں زیاد کے اشعار حسب ذیل ہیں :

ہم نے رومیوں کے کمانڈر ''ارطبون'' کو شکست دے دی اور وہ پسپا ہو کر مسجد اقصی تک بھاگ گیا۔

جس رات کو اجنادین کی جنگ کے شعلے ٹھنڈے پڑے ۔زمین پر پڑی لاشوں پر گدھ بیٹھے ہوئے تھے ۔

ہوا کے جھونکوں سے اٹھے ہوئے گرد وغبار کے در میان جب ہم اپنے نیزے ان کی طرف پھینکتے تھے تو ان کے کراہنے کی آوازیں ہمارے کانوں تک

۱۳۲

پہنچی تھیں ۔

اس جنگ کے بعد ہم نے رومیوں کو شام سے بھگا دیا اور دورترین علاقہ تک ان کا تعاقب کیا ۔

رومیوں کے فوجی بھاگ کھڑے ہوئے جب کہ خوف و وحشت سے ان کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی ۔

سر انجام وہ میدان کارزار میں لاشوں کے انبار چھوڑ کر افسوس ناک حالت میں بھاگ گئے ۔

اس نے یہ اشعا ربھی کہے ہیں :

رومیوں پر ہمارے سواروں کے حملہ نے ہمارے دلوں کو آرام و قرار بخشا اور ہمارے درد کی دوا کی ۔

ہمارے سواروں نے ان کے سرداروں کو اپنی بے رحم تلواروں کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور روم تک ان کا پیچھا کرکے انھیں قتل کرتے رہے ۔

ان کے ایک گروہ کا محا صرہ کیا گیا اور میں نے بڑی بے باکی سے ان کی ہر محترم خاتون کے ساتھ ہمبستری کی!!

زیاد بن حنظلہ نے مزید کہا ہے :

مجھے یاد آیا جب روم کی جنگ طولانی ہوئی اسی سال جب ہم ان سے نبرد آزما ہوئے تھے ۔

اس وقت ہم سرزمین حجاز میں تھے اور ہم روم سے راہ کی پستیوں اور بلندیوں کے ساتھ ایک مہینہ کے فاصلے پر تھے ۔

اس وقت ''ارطبون'' رومیوں کی حمایت کررہاتھا اور اس کے مقابل ایک ایسا پہلوان تھا جو اس کا ہم پلہ تھا۔

جب عمر فاروق کو محسوس ہوا کہ شام کو فتح کرنے کا وقت آپہنچا ہے تو وہ ایک خدائی لشکر لے کر روم کی طرف روانہ ہوئے ۔

جب رومیوں نے خطرہ کا احساس کیا اور ان کی ہیبت سے خوفزدہ ہوئے ،تو ان کے حضور پہنچ کر کہا:ہم آپ سے ملحق ہونا چاہتے تھے۔

یہی وقت تھا جب شام نے اپنے تمام خزانوں اور نعمتوں کی انھیں پیش

۱۳۳

کش کی ۔

فاروق نے دنیا کے مشرق ومغرب کے گزرے ہوئے لوگوں کی وراثت ہمیں عطا کی ۔

کتنے ایسے لوگ تھے جن میں اس ثروت کو اٹھا نے کی طاقت موجود نہ یھی اور وہ دوسروں سے اسے اٹھانے میں مدد لیتے تھے۔

مزید اس طرح کے اشعار کہے ہیں :

جب خطوط خلیفہ عمر کو پہنچے ،وہ خلیفہ جو کچھار کے شیر کی مانند قبیلہ کے اونٹوں کی حفاظت کرتاہے ۔

اس وقت شام کے باشندوں میں سختی تھی۔ہر طرف سے پہلوان تلاش کئے جارہے تھے۔

یہ وہی وقت تھا جب عمر نے لوگوں کی دعوت قبول کی اور سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد لے کر ان کی طرف روانہ ہوئے۔

شام نے اپنی وسعت کے ساتھ،خلیفہ کی توقع سے زیادہ ،استقبال کرکے اپنی خوبیاں خلیفہ کے حضور تحفے کے طور پر پیش کیں ۔

خلیفہ نے روم کے قیمتی اور بہترین جزیہ کو اسلام کے سپاہیوں میں عادلانہ طور پر تقسیم کیا۔

زیاد بن حنظلہ کے بارے میں ابن عساکر کے وہ بیانات جو اس نے پورے کے پورے سیف سے نقل کئے ہیں ،یہیں پرختم ہوتے ہیں ۔ساتھ ہی فتح بیت المقدس کے بارے میں موخر الذکر دو معرکوں کو بھی طبری نے سیف سے زیاد بن حنظلہ کی زبانی نقل کیاہے ۔

حموی کی کتاب ''معجم البلدان'' میں لفظ''اجنادین '' کی تشریح میں آیاہے :

اس سلسلے میں زیاد بن حنظلہ نے اپنے اشعار میں یوں کہاہے :

ہم نے رومیوں کے کمانڈر ''ارطبون''..... تا آخر

نیز اس نے لفظ ''داروم '' کے بارے میں لکھا ہے :

مسلمانوں نے ١٣ھ میں اس جگہ پر حملہ کیا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔

زیاد بن حنظلہ نے ایک شعر میں درج ذیل مطلع کے تحت اس کے بارے میں یوں ذکر کیاہے :

۱۳۴

ہمارے سپاہیوں نے سرزمین روم پر جو حملہ کیا ،اس سے میرے دل کا غم دور ہوا اور میرے دردکا علاج ہوگیا۔

جیساکہ ملاحظہ ہوا ،یہ شعر من جملہ ان چھ قصائد میں سے ہے جن کو ابن عساکر نے سیف سے روایت کرکے زیاد کے حالات میں بیان کیاہے اور ہم نے بھی اسے نقل کیاہے ۔یہ سب سیف بن عمر تمیمی کی روایتیں ہیں ۔ان عجیب وغریب افسانوں میں سے ہر ایک کو دوسروں کی روایتوں کے تمام اہم اورمعتبر تاریخی مصادر سے مقابلہ اور موازنہ کرکے یہاں ذکر کرنا بہت مشکل ہے ۔کیونکہ ان سے ہر ایک کے بارے میں مفصل اور الگ بحث کی ضرورت ہے ۔اور یہ اس کتاب کی گنجائش میں نہیں ہے بلکہ اگر ہم ایسا کریں تو یہ کام ہمیں اپنے مقصد سے دور کردے گا ۔لیکن ہم صرف یہ بات بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ان لشکر کشیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں زمان ومکان اور روئداد کی کیفیت ، حوادث میں کلیدی رول ادا کرنے والوں اور ذکر شدہ سپہ سالار وں کے لحاظ سے دوسروں ،جیسے ، بلاذری کے بیان کردہ تاریخی حقائق سے بالکل مغایرت واختلاف رکھتی ہیں ،کیونکہ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ قبیلہ تمیم ۔جو عراق میں رہتاتھا ۔نے مشرکین یا دوسروں سے جنگ کرنے کے سلسلے میں اپنی سرزمین سے آگے شمال اور روم کی سرزمین کی طرف کبھی قدم نہیں بڑھایاہے ۔یہ ایک مسلم حقیقت اور مسئلہ کاایک رخ ہے ۔مسئلہ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ تاریخ کے متون میں سے کسی بھی متن میں مسلمانوں کی جنگوں میں سے کسی جنگ میں سیف کے افسانوی سورمازیاد بن حنظلہ یا سیف کے دوسرے افسانوی دلاوروں کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا اور ان کی زبردست دلاوریوں خود ستائیوں اور خاندان تمیم کے دیگر افتخارات کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔

اس مختصر موازنہ اور مقابلہ سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ سیف بن عمر تمیمی تنہا مولف ہے جو زیاد نام کے ایک صحابی کی تخلیق کرکے اسے مسلمانوں کی جنگوں میں شرکت کرتے ہوئے دکھا تاہے اور اس کی زبردست شجاعتیں بیان کرتاہے ۔

۱۳۵

سیف کی روایات کا ماحصل

١۔ سیف قبیلہ تمیم سے ''زیاد بن حنظلہ ''نامی ایک مردکی تخلیق کرکے اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاصحابی قراردیتاہے

٢۔ زیادکوایسابہادربناکر پیش کرتاہے جو رومیوں کے ساتھ جنگ میں پیش قدم تھا اور وہ پہلادلاور تھاجس نے سرزمین ''رہا''پر قدم رکھا۔

٣۔زیاد کی زبانی شجاعتوں پر مشتمل حماسی قصیدے کہہ کر اپنے قبیلہ یعنی تمیم کے لئے فخرو مباہات کسب کرتاہے اور ان قصیدوں کے دوران دعویٰ کرتا ہے کہ یہ صرف تمیمی ہیں جو ''ہرکول'' اور ''ہراکلیوس'' جیسوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور انھیں ذلیل وخوار کرکے رکھتے ہیں ،ان کی سرزمینوں پر قبضہ جماتے ہیں ۔وہ''حمص'' کو اپنا اکھاڑ بنادیتے ہیں اور روم کے پادشاہ کے بیٹے کو قتل کرتے ہیں ۔ یہ تمیمی ہیں جو''قنسرین'' پر حکمرانی کرتے ہیں ''میناس ''کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اور''اجنادین '' میں بیت المقدس کے حاکم ''ارطبون ''کو قتل کرکے رومیوں کی تمام خوبصورت عورتوں کو اپنی بیویاں بنالیتے ہیں !

٤۔ اور آخر کار سیف ان قصیدوں کو اپنے دعووں کے شاہد کے طور پر ادبیات عرب کے خزانوں میں جمع کرادیتاہے۔

زیاد بن حنظلہ ،حاکم کوفہ

طبری ٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے یہ روایت نقل کرتاہے :

عمر نے جب دیکھا کہ ایران کا بادشاہ ''یزدگرد'' ہر سال ایک فوج منظم کرکے مسلمانوں پر حملہ کرتاہے ،تو انھوں نے حکم دیاکہ مسلمان ہر طرف سے ایران کی سرزمین پر حملہ کرکے ایران کی حکومت اور بادشاہ کا تختہ الٹ دیں ۔

عمر کا یہ فرمان اس وقت جاری ہوا،جب اسلام کے ابتدائی مہاجرین میں شمار ہونے والا اور بنی عبد قصی سے دوستی کا معاہدہ منعقد کرنے والا زیاد بن حنظلہ عمر کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا۔کوفہ پر زیاد کی حکومت مختصر مدت کے لئے تھی کیونکہ عمر کی طرف سے ایران پر حملہ کرنے کے لئے لام بندی کا حکم جاری ہونے کے بعد اس نے اصرار کیا کہ اس کا استعفیٰ منظور کیاجائے ۔سر انجام خلیفہ زیاد بن حنظلہ کے بے حد اصرار اور خواہش کی وجہ سے اس کا استعفیٰ منظور کرنے پر مجبور ہوتاہے !

۱۳۶

اس کے علاوہ''سعد وقاص'' کی کوفہ پر حکومت کے دوران بھی وہاں کی قضاوت اور قاضی کا منصب زیاد بن حنظلہ کو سونپا گیا تھا۔

یہی طبری سیف سے روایت کرتاہے کہ خلیفہ عمر نے ٢٢ھ میں ''جزیرہ'' کی حکومت زیاد بن حنظلہ کو سونپی ۔

یہ سب سیف بن عمر کا قول ہے اور اسے طبری نے سیف کانام لے کر اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔

ابو نعیم ،ابن اثیر اور ابن کثیر ،تینوں دانشوروں نے زیاد بن حنظلہ کے حالات ،جیسے ،اس کی حکمرانی اور قاضی مقرر ہونا اور کوفہ اور جزیرہ کی حکمرانی سب کو طبری سے نقل کرکے ایک تاریخی حقیقت کے عنوان سے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے ۔

سیف نے زید کی کوفہ پر حکومت کی بات کو ''مختصر مدت'' کی قید کے ساتھ ذکر کیاہے اور خلیفہ عمر سے اس عہدے سے استعفیٰ دینے کا اصرار بیان کرتاہے تاکہ اپنے لئے فرار کی گنجائش باقی رکھے اور اگر کوئی اس سے سوال کرے کہ کوفہ کے حکمرانوں کی فہرست میں زیاد کا نام کیوں نہیں پایا جاتا؟ تو وہ فوراً جواب میں کہے:کہ اس کی حکومت کازمانہ اس قدر مختصر تھا کہ حکمرانوں کی فہرست میں اس کے ثبت ہونے کی اہمیت نہیں تھی۔

سیف اپنے خاندانی تعصبات کی بناء پر زیاد کی کوفہ پر اسی قدر حکمرانی پر راضی اور مطمئن ہے کیونکہ اسی قدر کوفہ پر اس کا حکومت کرنا خاندان تمیم کے فخرو مباہات میں اضافہ کا سبب بنتاہے !!

خاندانی تعصبات کی بناء پر افسانہ کے لئے اتناہی کافی ہے کہ :اس کا '' زیاد بن حنظلہ'' ایک ایسا صحابی ہو جو مہاجر،دلاور وبے باک شہسوار ،دربار خلافت کا منظور نظر پاک دامن حکمران و فرماں روا عادل پارسا منصف و قاضی اور ایک حماسی سخنور شاعر کہ میدان کارزار میں اس کے نیزے کی نوک سے خون ٹپکتا ہو اور اس کی تلوارکی دھار موت کا پیغام دیتی ہو اور حماسی اشعار کہتے وقت اس کی زبان شعلہ بار ہو۔

۱۳۷

زیاد بن حنظلہ ،امام علی علیہ السلام کی خدمت میں

طبری ٣٦ھ کے حوادث کے ضمن میں روایت کرتا ہے :

مدینہ کے باشندے یہ جاننا چاہتے تھے کہ حضرت علی ں معاویہ اور اس کے پیرو مسلمانوں سے جنگ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں ؟ کیا وہ جنگ کا اقدام گریں گے ؟یا اس قسم کا اقدام کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ؟ اس کام کے لئے زیاد بن حنظلہ جو حضرت علی ں کے خواص میں شمار ہوتا تھا کو آمادہ کیا گیا کہ حضرت علی ں کے پاس جائے اور ان کا نظریہ معلوم کرکے خبر لائے ۔

زیاد امام ں کی خدمت میں پہنچا اور کچھ دیر امام کی خدمت میں بیٹھا۔امام نے فرمایا:

زیاد ! آمادہ ہو جائو ۔

زیاد نے پوچھا :

کس کام کے لئے ؟

امام ں نے فرمایا : شام کی جنگ کے لئے !

زیاد نے امام ں کے حکم کے جواب میں کہا : صلح و مہربانی جنگ سے بہتر ہے ۔اور یہ شعر پڑھا :

جو مشکل ترین کاموں میں ساز باز نہ کرے ،اسے دانتوں سے کاٹا جائے گا اور پائوں سے پائمال کیا جائے گا!!

امام ں نے جیسے وہ بظاہر زیاد سے مخاطب نہ تھے فرمایا:

اگر تم ہوشیار دل ،تیز تلوار اور عالی دماغ کے مالک ہو تو مصیبتیں تم سے دور ہو جائیں گی ۔

زیاد امام ں کے پاس سے اٹھ کر باہر آیا۔ منتظر لوگوں نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا اور سوال کیا :

کیا خبر ہے ؟

۱۳۸

زیاد نے جواب میں کہا: لوگ!تلوار!

مدینہ کے لوگ زیاد کا جواب سن کر سمجھ گئے کہ امام کا مقصد کیا ہے اور کیا پیش آنے والا ہے :

طبری اس افسانہ کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے لکھتا ہے :

لوگوں نے شام کی جنگ میں اپنے امام علی بن ابیطالب علیہ السلام کا ساتھ دینے سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کی حمایت نہیں کی جب زیاد بن حنظلہ نے یہ حالت دیکھی تو امام کے پاس جاکر بولا :

اگر کوئی آپ کی حمایت نہ کرے اور آپ کا ساتھ نہ دے اور مدد نہ کرے تو ہم ہیں ، ہم آپ کی مدد کریں گے اور آپ کے دشمنوں سے لڑیں گے ۔

طبری نے یہ مطالب سیف سے لئے ہیں اور ابن اثیر نے بھی انھیں طبری سے نقل کیا ہے ۔

کتاب '' استیعاب'' کے مؤلف ابن عبد البر اور دوسرے مؤلفین نے طبری کی پیروی کرتے ہوئے سیف کی اسی روایت پر اعتماد کرکے زیا دبن حنظلہ کو امام علی علیہ السلام کے خواص میں شمار کرایا ہے ،اور شائد سیف کی زیاد سے یہ بات نقل کرنے کے پیش نظر کہ ''(ہم آپ کی یاری اور مدد کے لئے آمادہ ہیں اورآپ کے دشمن سے لڑیں گے)۔لکھا گیا ہے کہ: زیاد نے امام کی تمام جنگوں میں شرکت کی ہے۔

ابن اعثم نے بھی اپنی تاریخ میں سیف کی اسی روایت کا ایک حصہ درج کیا ہے ۔

لیکن ہم نے ان جھوٹ کے پلندوں کو سیف کی روایتوں کے علاوہ تاریخ کے کسی اور مصدر میں نہیں پایا جن میں سیف سے مطلب نقل نہیں کیا گیا ہے اور جمل،صفین اور نہروان کی جنگوں میں زیاد کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا ، حتی امام علی کے اصحاب و شیعوں کے حالات پر مشتمل کتابو ں میں ''مامقانی'' کے علاوہ کہیں اس افسانوی شخص کا نام نہیں ہے '' مامقانی ''نے بھی ''اسد الغابہ'' اور ''استیعاب'' کی تحرویروں کے پیش نظر جہاں پر یہ لکھا گیا ہے کہ ''زیاد امام علی کا خاص صحابی تھا'' بڑی احتیاط کے ساتھ اپنی کتا ب میں لکھا ہے :

۱۳۹

''میرا خیا ل ہے کہ یہ شخص ایک اچھا شیعہ تھا''

ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ سیف نے زیاد کو امام کے خواص کے طور پر کیو ں ذکر کیا ہے اور قعقاع جیسے بے مثال پہلوان کو امام کی خدمت میں مشغول دکھا یا ہے ؟چونکہ ہم سیف کو جھوٹ اور افسانے گھڑنے کے سلسلہ میں ناپختہ اور ناتجربہ کار نہیں سمجھتے ،اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیف کو زیاد کا افسانہ تخلیق کرنے اور اسے امام علی سے ربط دینے میں یہ مقصد کا ر فرما نہیں تھا کہ شیعوں کو بھی اپنی طرف جذب کرے تا کہ اس کے افسانے ان میں بھی اسی طرح رائج ہوجائیں جیسے اس نے خاص افسانے تخلیق کر کے مکتبِ خلفاء کے پیرؤں کو آمادہ کیا کہ اس کے جھوٹ کو باور کرکے اپنی کتابوں میں درج کریں ؟ یا اس کا کوئی اور بھی مقصد تھا جس سے ہم بے خبر ہیں !

سیف زیاد کو اس حد تک امام کے خواص میں شمار کراتا ہے کہ نہ صرف عام لوگ بلکہ آپ کے خاص اصحاب جیسے عمار یاسر ، مالک اشتر اور ابن عباس و غیرہ بھی اس کے محتاج نظر آتے ہیں اور اسے معاویہ سے جنگ کے بارے میں امام کی طاقت اور مقصد سے متعلق اطلاع حاصل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔ ایسے جھوٹ کے پل باندھنا صرف سیف کے ہاں پایا جاسکتا ہے!!

زیاد بن حنظلہ اور نقلِ روایت

ابتداء میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ'' ابن عبد البر'' جیسا عالم اپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے :

''لیکن میں نے زیاد بن حنظلہ سے کوئی روایت نہیں دیکھی''۔

ابن اثیر نے بھی ابن عبد البر کے انہی مطالب کو اپنی کتاب ''اسد الغابہ '' میں درج کیا ہے ۔

لیکن ابن عساکر لکھتا ہے :

اس کے بیٹے ''حنظلہ بن زیاد'' اور ''عاص بن تمام'' نے بھی اس سے روایت کی ہے۔

ابن حجر نے بھی اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں ان ہی مطالب کو لکھا ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371