ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138165 / ڈاؤنلوڈ: 4300
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری

مترجم: سید قلبی حسین رضوی

اصلاح ونظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیش کش : معاونت فرہنگی، ادارہ ترجمہ

کمپوزنگ: محمد جواد یعقوبی

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہ السلام

طبع اول: ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ئ

تعداد: ٣٠٠٠

مطبع : لیلیٰ

۳

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں ، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۴

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۵

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، علامہ سید مرتضیٰ عسکری کی گرانقدر کتاب ایک سو پچاس جعلی اصحاب کو مولانا سید قلبی حسین رضوی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۶

تمہید :

* ایک ذمہ دار دانشور کے خطوط

* ایک جامع خلاصہ

* مقدمۂ مولف

۷

ایک ذمہ دار دانشورکے خطوط:

عام اسلام کے خیر خواہ علماء اور دانشوروں نے ہماری تالیفات کے سلسلہ میں کئی شفقت بھرے خطوط لکھے ہیں ان میں سے ایک حلب (شام) کے دنیائے علم و دانش کے شہرت یافتہ عالم ، مرحوم شیخ محمدسعید دحدوح ہیں ۔یہاں پر ہم یاد گار کے طور پر مرحوم کے دو خطوط کا ترجمہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرحوم نے اپنا دوسرا خط ہماری کتاب ''١٥٠جعلی اصحاب '' کی پہلی جلد حاصل کرنے کے بعد ہمیں ارسال کیا تھا۔

(مؤلف)

۸

پہلا خط:

بسمه تعالٰی و له الحمد ،وصلاته و سلامه علی سید نا محمد وعلی آله

میرے دینی بھائی اور ایمانی دوست حجة الاسلام جناب مرتضیٰ عسکری صاحب :

سلام علیکم و رحمة الله و برکاته

آپ کی اتنی محبت و مہربانیاں ،تحقیق و نیک کاموں میں انتھک کوششیں اور سچ اور جھوٹ کو جدا کرکے حقائق کو واضح کرنے کی آپ کی یہ ہمت و ثابت قدمی قابل ستائش ہے ۔

جو امر مجھے آپ سے آپ کی کتابیں اور تالیفات کی درخواست کرنے کا سبب بنا ،وہ حقائق کو پانے کی میری شدید طلب ،صحیح مطالب کی تلاش و جستجو کی نہ بجھنے والی پیاس ، آزاد فکر و اندیشہ کے نتائج کو جاننے کی بے انتہا چاہت اور محققین کے نظریات کو جاننے کی میری انتہائی دلچسپی ہے ،تاکہ اختلافی مسائل کے سلسلے میں ایسے محکم و قوی دلائل و برہان کو پا سکوں جن میں کسی قسم کی چوں و چرا کی گنجائش نہ ہو۔

خدا ئے تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عنایت فرمائے،گزشتہ کئی مہینوں سے میرے ساتھ روا رکھے لطف و محبت کے سلوک کے ضمن میں آپ نے اظہار فرمایا ہے کہ میری مطلوبہ کتاب کے علاوہ تازہ تالیف کی گئی کتاب بھی پوسٹ کرنے کے لئے میں اپنا پتا بھیج دوں (تاکہ اس کے پہنچنے کا اطمینان حاصل ہو سکے ) مہر بانی کرکے اسے میرے درج ذیل پتہ پر ارسال فرمائیں ۔

...میں آپ کی ان محنتوں اور زحمتوں کے لئے پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں اور رحمتوں سے مالا مال دن اور راتوں والے مبارک رمضان کی آمد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں

اپنے چاہنے والے اور بھائی کا سلام و درود قبول فرمایئے۔

محمد سعید دحدوح

سوریہ ۔حلب النوحیہ ،الزقاق المصبنہ

٢٠ شعبان ١٣٩٤ھ مطابق ١٨ستمبر ١٩٧٤ ع

۹

دوسرا خط :

بسم اللّٰه الرّحمٰن الرّحیم

بسمه تعالی و له الحمد ،وصلاته و سلامه علی سید نا محمد وعلی آله و من اتبع هداه

میرے دینی بھائی اور ایمانی دوست جناب سید مرتضیٰ عسکری صاحب :

سلام علیکم و رحمة الله و برکاته

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی تعریف ،تجلیل اور شکر گزاری میں کن الفاظ اور جملات کا سہارا لوں تاکہ جہل و نادانی کی تاریکی سے حقائق کو نکال کر حق و حقیقت کے متلاشیوں کے حوالے کرنے میں آپ کی انتھک کوششوں کے حق کی ادائی ہو سکے ،اور عصر حاضر و مستقبل کی نسلوں کے لئے صدیوں تک مسلم اور ناقابل انکار حقائق کے طور پر قبول کئے گئے مطالب سے پردہ اٹھا کر حقائق کا انکشاف کرنے کی آپ کی قابل تحسین مجاہد توں اور کوششوں کی قدر دانی ہوسکے۔

ہمارے متقدمین علماء نے سیف کی یوں تعریف کی ہے:

''سیف سبوں کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے اور اس کی باتیں بے بھروسہ ہیں ۔''

اور ابن حبان کہتا ہے: سیف پر زندیقیت کا الزام ہے ۔

وہ مزید کہتا ہے :

''اس کی باتیں جھوٹی ہیں ۔''

اس کے باوجود ان میں سے کسی نے یہ جرأت نہیں کی ہے کہ اس کے جھوٹے چہرے سے پردہ چاک کرکے لوگوں میں یہ اعلان کرے کہ اس کی داستانیں افسانوی ہیں اور اس طرح اس کی تخیلاتی مخلوق کی نشاندھی کرے۔ آخر کار آپ جیسے محقق اور ماہر شخص نے آکر عصر حاضر اور آئندہ نسلوں کے لئے اس معنی خیز ضرب المثل کو ثابت کرکے دکھا دیا کہ:''کم ترک الاول للآخر'' ''اسلاف نے آنے والی نسلوں کے لئے کتنے اہم کام چھوڑ رکھے اور ابو العلاء معری کی یہ بات آپ کے حق میں صادق آتی ہے:وانیّ ''لآت بما لم تستطعہ الاوائل'' میں ایک ایسا کام انجام دونگا جسے اسلاف انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے تھے!''

بے شک ، آپ نے اس ناہموار راہ کو ہموار بنادیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے جلائے ہوئے چراغ سے اس راہ کو روشن و منور کردیا ہے اور ایسے متعدد دلائل اور راہنمائیاں فراہم کی ہیں جن سے حق و حقیقت کے متلاشیوں کے لئے اس جھوٹ کو پہچاننے میں مدد ملے گی، جسے لوگ صدیوں سے حقیقت

۱۰

سمجھ بیٹھے تھے اور اس کے عادی ہو چکے تھے، اب آئندہ نسلیں اس بارے میں وسیع النظری ، کے ساتھ حقائق سے آشنا ہوکر بحث و مباحثہ کریں گی۔

یہاں پر میرا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ:

''اسلاف کی بزرگی و احترام اپنی جگہ محفوظ و مسلم ہے۔''

ہمیں اس بات پر تعجب ہے کہ ایک پڑھا لکھا اور محقق شخص ، جس نے قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی سے علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، نے محمد بن عثمان ذہبی کی کتاب ''المغنی فی الضعفاء '' جس میں سیف کو زندیق کہا گیا ہے پر ایک مقدمہ کے ضمن میں لکھا ہے :

''سیف کے زندیقی ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ دستیاب اخبار و روایات اس کے برعکس مطالب کو ثابت کرتے ہیں ۔''

گویا ڈاکٹر صاحب کی نظر میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صدر اسلام کی فتوحات کے مجاہدین پر چھوٹے الزامات لگانا اور ان پر ظلم و دہشتگردی کی تہمتیں لگانا کوئی ناروا کام نہیں ہے!!

خدا کے حضور آپ کا یہ کام محترم و معزز قرار پائے! اور پروردگار آپ کے اس اہم کام اور آپ کے نتیجہ خیز افکار و نظریات پر مبنی دیگر تحقیقاتی کاموں کو سہل و آسان فرمائے اور ہم عنقریب دیکھیں کہ علم و دانش کی موجودہ دنیا کا ہر محقق آپ کی گراں قدر اور قابل تحسین زحمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر کے آپ کی شب و روز کی انتہک جدو جہد کی قدر کرے گا۔

درود و سلام ہو ان بلند ہمت افراد پر جنہوں نے آپ کی اس گراں قدر تالیف کی اشاعت میں آپ کا تعاون کرکے ہمیں اس قیمتی تحفے سے نوازا ہے ۔

اُمید ہے اپنی اس تالیف کی باقی جلدیں بھی چھپتے ہی مجھے ارسال کرکے مشکور فرمائیں گے...

اپنے اس عزیز بھائی کا سلام قبول فرمائیے۔

دستخط

محمد سعید دحدوح

٢٧شوال ١٣٩٤ھ ۔١٩٧٤١١١١ئ

۱۱

ایک جامع خلاصہ

چونکہ اس قسم کے علمی مباحث کی گزشتہ بحثوں کا ایک جائزہ لینا قارئین کرام کو مطالب کے سمجھنے اور ہمارے مقصد کو درک کرنے میں مدد دے گا ،اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ یہاں پر لبنان کے معاصر مفکر و دانشور اور قابل قدر استاد جناب رشاد دارغوث کا وہ خلاصہ پیش کریں جو انھوں نے اس کتاب کی پہلی جلد کی ایک مفید و اہم بحث کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے:

کتاب کی شکل و صورت

'' اصول دین کا لج '' بغداد کے پر نسپل جناب استاد عسکری کی کتاب ''١٥٠جعلی اصحاب'' ، شکل و صورت ، مطالب اور موضوع کے لحاظ سے انتہائی گراں بہا و دلکش علمی کتابوں میں سے ایک ہے ،جو ابھی کچھ دنوں پہلے دنیائے علم و دانش میں منظر عام پر آئی ہے ۔مذکورہ کتاب بغداد کے ''اصول دین کالج '' کے پرنسپل جناب مرتضی عسکری کی تالیف ہے اور یہ کتاب بیروت کے ''درارالکتاب پبلیشنز'' کی طرف سے ٤٢٠صفحات پر مشتمل درجہ ذیل صورت میں شائع ہوئی ہے :

اس کے ٧٠ صفحات مختلف فہرستوں پر مشتمل ہیں ۔ان فہرستوں کے مطالعہ سے کتاب میں موجود مختلف مطالب کاآسانی کے ساتھ اندازہ کیاجاسکتاہے ۔جن مصادر واسناد پر کتاب میں تکیہ کیا گیا ہے اوران سے استناد کیاگیاہے وہ اس فہرست میں مشخص کئے گئے ہیں ۔اس طرح اس کتاب میں ذکرکئے گئے قبائل وخاندان کے نام ،معروف حکومتوں کے نام ،ہرمذہب کے پیروؤں اور ہر گروہ کے طرفداروں کے نام حدیث کے راویوں ،شعراء ،مؤلفین نیز،قرآن مجید کی آیات ،پیغمبر اسلام کی احادیث،دلیل وشواہد کے طور پرپیش کئے گئے اشعار ،شہروں کے نام،گاؤں کے نام ،جغرافیائی مقامات اور ممالک ،تاریخی واقعات ،خطوط،عہدناموں اور فرمان ناموں کو اس کتاب میں علمی روش کے تحت اپنی اپنی جگہ پر حروف تہجی کی ترتیب سے منظم اور مرتب فہرست کی صورت میں پیش کیا گیا ہے

۱۲

کتاب کے مطالب

یہ کتاب سیف بن عمر تمیمی کے گڑھے ہوئے ''١٥٠ جعلی اصحاب'' میں سے ٣٩(۱) جعلی اصحاب کے تعارف پر مشتمل ہے،جنھیں سیف نے ذاتی طور پر جعل کرکے ان کے خیالی وجود کو واقعی صورت میں پیش کیاہے ،ان سے حدیث روایت کی ہے اور عظیم تاریخی واقعات کو جو کہ حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتے ،ان سے منسوب کیاہے۔

مؤلف محترم اس تلخ حقیقت تک پہنچنے کے لئے سیف کی زندگی کے مطالعہ کے دوران اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ :سیف پر جھوٹ بولنے اور حدیث گڑھنے میں شہرت رکھنے کے علاوہ زندیقی ہونے کا بھی الزام تھا۔لیکن ہمارے گزشتہ مصنفین اور مؤلفین نے صرف اس لئے کہ اس نے

''الفتوح الکبیرة'' و''الجمل ومسیرعلی وعائشہ'' نام کی دوکتابیں تالیف کی ہیں ،سیف کونہ صرف ایک نامور واقعہ نگار جاناہے بلکہ اس کی روایتوں اور باتوں کو صدر اسلام کے مہمترین تاریخی اسناد کے طور پر پہچانا ہے۔

____________________

(۱) طبع اول ان ٣٩ صحابیوں میں سے ٢١ افراد خاندان تمیمی کے ذکر ہوئے تھے لیکن دوسری طبع میں ان کی تعداد ٢٣ تک بڑھ گئی ہے۔

۱۳

زندیقیوں کا مسئلہ

اس کے بعد مؤلف ،''زندیق'' اور ''زندیقیت'' کے عام معنی کی تشریح کرتے ہیں پھر اس کے اصلی معنی ومفہوم پر بحث کرتے ہیں اور سیف بن عمر کے زمانے کے چند نامور زندیقیوں جیسے ''ابن مقفع،ابن ابی العوجاء اور مطیع بن ایاس'' کا ذکر کرتاہے۔اور اس سلسلے میں ایک مفصل بحث کے بعد نتیجہ حاصل کرتاہے کہ اس زمانے میں زندیقیت نے ان لوگوں کے درمیان پوری طرح رواج پالیاتھا جو دین مانی اور مانوی گری سے دلوں میں ایمان پیدا کئے بغیر اسلام کی طرف مائل ہوئے تھے ۔اس کے بعد لکھتے ہیں :

''یہ زندیقیوں کے چند نمونے تھے ،جن کا عمل وکردار سیف کے زمانے کے مانویوں کی سرگرمیوں کا مظہر ہے۔ ان میں سے ایک شخص زندیقیوں کی کتابوں کا ترجمہ کرتاہے اور مسلمان معاشرے میں انھیں رائج کرتاہے ۔ دوسرا ،بے باکی اور بے شرمی وبے حیا ئی ،اور کھلم کھلا فسق وفجور ،بد کاری ،بد اخلاقی اور غیر انسانی عادات کا نمونہ ہے اور ان افعال کو مسلمان نوجوانوں میں پھیلاتاہے،اور تیسرا اپنے دو پیشرؤں سے زیادہ سرگرمی ،پشتکار کے ساتھ ہر شہر ودیہات میں ایک عجیب ثابت قدمی سے مسلمانوں کے ایمان وعقائد میں شک وشبہہ اور تشویش پھیلانے میں سرگرم ہو تاہے اور فتنوں وبغاوتوں کو برپاکرنے اور لوگوں کے اسلامی اعتقادات کو سست کرنے کی سر توڑ کوشش کرتاہے اور اپنے دو پیشرو ساتھیوں کی طرح زندیقیوں کے عقائد وافکار کی ترویج میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتاہے حتی جلاد کی تلوار کے نیچے بھی مسلمانوں میں شک وشبہہ پیدا کرنے سے گریز نہیں کرتاہے اور اعتراف کرتاہے کہ اس نے اکیلے ہی چار ہزار احادیث جعل کی ہیں اور انھیں لوگوں میں اس طرح رائج کردیا ہے کہ حلال کوحرام اور حرام کو حلال کردیاہے !!اگر اس شخص ابن ابی العوجاء نے اکے لئے ہی چار ہزار جھوٹی حدیث جعل کی ہیں ....تو سیف نے ہزار ہا ایسی احادیث جعل ہیں جن میں

۱۴

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاک ترین اور با ایمان ترین صحابیوں کو پست ،کمینہ اور بے دین ثابت کرکے ان کے مقابلے میں ظاہری اسلام لانے والوں اور جھوٹ بول کر اسلام کا اظہار کرنے والوں کو پاک دامن ،دین دار اور قابل احترام بناکر پیش کیاہے!اس طرح دنیائے علم وتحقیق کو حق و حقیقت کے خلاف ان دو موضوعوں کے مد مقابل حیرانی و پریشانی سے دوچار کردیاہے۔

وہ اسلام میں خرافات سے بھرے ہوئے افسانے وارد کرنے میں کامیاب ہواہے تا کہ مسلم حقائق کو شک وشبہات کے پردے کے پیچھے مخفی کردے اس طرح وہ مسلمانوں کے عقائد وافکار پر بُرا اور ناپسند اثر ڈالنے اور اس دین الٰہی کے بارے میں غیروں کے افکار کو دھندلا اور مکدر بنانے میں کامیاب ہواہے''

جذبات کو بھڑکانا

سیف کی خراب کاریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے جاہلیت کے تعصب کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔وہ قبائل نزار جو زر وزور اور اقتدار وقانون کے مالک تھے اور خلفائے راشدین نیز اموی اور عباسی خلفاء سب کے سب اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے کے بارے میں اپنے تعجب خیز تعصباتی لگاؤکا اظہار کرتاہے ،یہاں پر محترم ودانشور مولف قبائل نزار ومضر اور قبائل قیس ویمانی کے درمیان اسلام سے پہلے کے خشک خاندانی تعصبات اور اپنے تئیں فخرو مباہات کے اظہار نیز دوسرے قبائل کے خلاف دشنام ،توہین اور برا بھلا کہنے اور اسلام کے سائے میں بھی اس تعصب و دشمنی کے استمرار کے سلسلے میں تشریح کرتے ہوئے لکھاہے :

۱۵

''پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی ،وہاں پر اوس وخزرج نامی دو قبیلے رہتے تھے ، دونوں قبیلے یمانی تھے۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے والے جنھوں نے ''مہاجر'' کالقب پایاتھا قبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے۔یہ دو دشمن قبیلے جو آپس میں دیرینہ دشمنی رکھتے تھے ،شہر مدینہ میں اپنی باہم زندگی کے دوران دو بار ایک دوسرے کے مقابلے میں ایسے قرار پائے کہ قریب تھا جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں ۔ پہلی بار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذاتی طور پر مداخلت فرمائی اور ان بھڑکنے والے شعلوں کو جو خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والے تھے،اپنی تدبیر،حکمت عملی اور اسلام کی طاقت سے بجھادیا۔دوسری بار جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد اس خاندانی جذبات اور جاہلیت کے تعصبات نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت کے مسئلے پر پھر سے سر اٹھایا تو حالات ایسے رونما ہوئے کہ نزدیک تھا خوں ریزی برپا ہو جائے اور تازہ قائم ہوا اسلام نابود ہوجائے ۔یہاں پر خاندانی تعصب ودشمنی کے شعلے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد حضرت علی ـکی فہم وفراست کے نتیجہ میں بجھ گئے''

محترم مؤلف نے بہترین انداز میں تشریح کی ہے کہ بنیادی طور پر تعصب مردود ومنفور اور قابل نفرت ہے اور دنیائے شعرو ادب کے لئے افراط وزیادتی کا سبب ہے لیکن سیف ان میں سے کسی ایک کی طرف توجہ کئے بغیر جو کچھ انجام دیتاہے اپنے تعصب کے بنا پر انجام دیتاتھا۔اسی لئے اس نے شعراء کی ایک جماعت کو خلق کیاہے تاکہ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ قبیلہ مضر،خاص کر خاندان تمیم کے لئے سیف کے جعل کردہ فخرومباہات کا تحفظ کریں ۔اس کے علاوہ اپنے خاندان ''تمیم ومضر'' سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اصحاب جعل کئے ہیں اور ان کے بارے میں ثابت کیاہے کہ وہ اسلام کو قبول کرنے میں پیش قدم ہونے کی وجہ سے صاحب فضیلت واعتبار ہیں ۔مزید یہ کہ خاندان مضر سے ایک گروہ کو فوج کے سپہ سالار اور حدیث کے راویوں کے طور پر جعل کیاہے ۔اس نے قبیلہ مضر اور اپنے خاندان تمیم کے بارے میں اس قدر فضیلت وبرتری پر ہی اکتفا نہیں کی ہے بلکہ اس نے اپنے تعصب اور احساس برتری کی بناء پر اپنے قبیلہ کے افتخارات کو محکم وپائیدار کرنے کے لئے جنوں سے بھی کام لیا ہے اور ایسے جنات تخلیق کئے ہیں جو تمیم اور مضر کے خاندان کے بہادروں اور دلاوروں کی فضیلتوں کے اشعار کو فضا میں گاتے ہیں تاکہ دنیا والوں کے کانوں تک ان کی فضیلتوں کو پہنچادیں ! اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان مضر سے باہر بھی چند افراد خلق کئے ہیں جو اس کے قبیلے کے خیر خواہ ،طرفدار کی حیثیت سے خاندان تمیم اور مضر کانام روشن کرنے کے لئے ان کے پرچم تلے جنگوں میں شرکت کرتے ہیں تاکہ خاندان تمیم ومضر کے فضل وشرف سے دوسرے درجے کی فضیلت کے مالک بن جائیں ۔

۱۶

علم ولغت کے مصادر میں سیف کا رول

اس طرح ،سیف کی تخلیق کی بناء پر جھوٹے اور افسانوی اصحاب اور تابعین کی ایک بڑی جماعت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب وتابعین کی صف میں شامل ہوجاتی ہے اور یہ لوگ تاریخ اسلا م میں اپنے لئے ایک مقام بنالیتے ہیں !!سرانجام مولف محترم ثابت کرتے ہیں کہ سیف کے اس جھوٹ ،افسانوں ،حقائق میں ترمیم اور مجاز کے منحوس سائے بعد میں اصحاب وتابعین کے حالات کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں پر وسیع پیمانے پر نظر آتے ہیں اور ان میں سیف کے جعل کردہ اصحاب وتابعین مخصوص مقام پر دکھائی دیتے ہیں ،جیسے:

بغوی (وفات ٣١٧ھ )کی ''معجم الصحابہ''

ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ)کی '' اسد الغابہ''

ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) کی '' الاصابہ''

ان کے علاوہ حالات زندگی بیان کرنے والے اور بہت سے مأخذ بھی ہیں ان ہی مقاصد کو فتوحات سے مربوط فوجی سرداروں کے حالات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں مد نظر رکھا گیا ہے ، جیسے:

''طبقات ابوزکریا'' (وفات ٣٣٤ھ )

''تاریخ دمشق '' ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ)

اور دوسری کتابیں ۔

اس حد تک کہ سیف کے جعل کردہ اس قسم کے افسانوی پہلوانوں کے خاندان اور شہرت ، مقامات اور جھوٹے و فرضی کیمپوں کے بارے میں ابہام و اشکالات کو دور کرنے کے لئے مجبور ا کتابیں لکھی گئی ہیں اور ان پر شرح و تفسیر یں بھی لکھی گئی ہیں یہ افسانے اور جھوٹ ،کا بوس بن کر تاریخ کی گراں سنگ اور معتبر کتابوں ،جیسے : تاریخ طبری ،ابن اثیر ،ذہبی ،ابن کثیر اور ابن خلدون پر چھا گئے ہیں ۔حتیٰ ادب کی کتابیں ،جیسے : اصفہانی کی '' اغانی'' لغت کی کتابیں ،جیسے '' لسان العرب '' ابن منظور اور حدیث کی کتابیں جیسے : ''صحیح ترمذی '' بھی سیف کے تصرف اور اس کے جھوٹ اور افسانوں کے نفوذ سے محفوظ نہیں رہی ہیں ۔

۱۷

خلاصہ:

یہ کہ استاد عسکری نے اپنی کتاب کی اس جلد میں ١٥٠جھوٹے اصحاب میں ٣٩ ،اصحاب (جو برسوں اور صدیوں تک حقیقت اور عینی وجود کے پردے کے پیچھے خود کو مخفی کئے ہوئے تھے اور ان کا وجود ناقابل انکار بن چکا تھا ) کی شناسائی کرکے انھیں تشت از بام کیا ہے ۔ان افسانوی اصحاب میں سے بیس اصحاب خاندان تمیم یعنی سیف کے اقربا ہیں اور مولف نے ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک الگ فصل مخصوص کی ہے ۔اور دقت نظر اور علمی روش کے تحت ان کے بارے میں بحث و تحقیق کی ہے اس کے بعد ان کے بارے میں سیف اور دیگر مورخین کے نظریات کا موازنہ کرکے قطعی اور ناقابل انکار دلائل کے ذریعہ ان میں سے ہر ایک کا افسانوی ،خیالی،و فرضی ہونا ثابت کیا ہے ۔

ہمار ا اعتقاد یہ ہے کہ اس قسم کی موضوعی تحقیق و بحث جو صرف علمی پہلو کی حامل ہے ،اس پر خطر اور نشیب و فراز والی راہ میں جس کا آغاز ،استاد عسکری نے اپنی تحقیق اور اس کتاب کے ذریعہ کیا ہے ،علماے دین اور حقائق کے متلاشیوں کی ہمت و کوشش سے جو اس سلسلے میں دوسروں سے زیادہ سرگرمی دکھانے کے مستحق ہیں گراں قیمت اسلامی آثار کو آلودگیوں سے نہ صرف اعتقادی لحاظ سے بلکہ ہر دو لحاظ سے ،یعنی فقہی و دینی لحاظ سے پاک کرنے کی ضرورت ہے کہ ممکن ہے کہ ان موارد کے پیچھے جھوٹ یا دخل و تصرف دونوں کے کتنے ہی چہرے پوشیدہ اور مخفی ہوں ۔

اس قسم کے حقائق کو رائج اور ایسی سرگرمیوں کا آغاز کرکے استاد عسکری نے اپنی ثمربخش اور نتیجہ خیز کو ششوں کو دنیائے علم و دانش خاص کر عالم اسلام جو تہذیب و تمدن اور دنیا و آخرت کی بھلائی کو وجودمیں لانے والی عظیم طاقت ہے کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔

رشاد دار غوث

۱۸

مقدمۂ مؤلف

اس کتاب کی پہلی جلد ١٣٨٧ھ میں پہلی بار چھپ کر منظر عام پر آگئی ،لیکن اس میں درج کئے گئے اشعار کے بارے میں تحقیق کرنے کی فرصت پیدا نہ ہو سکی ۔اس کا سبب یہ تھا کہ میں نے مذکورہ اشعار کو بد خط قلمی نسخوں سے نقل کیا تھا کہ غالبا الفاظ اور عبارتوں کے لحاظ سے ان میں بہت سی غلطیاں موجود تھیں ۔

کتاب کی طباعت میں یہ عجلت اور اشعار کے بارے میں عدم تحقیق و دقت اس لئے تھی کہ بغداد میں(۱) '' اصول دین کالج '' کی جو بنیاد ہم نے ڈالی تھی ،انہی دنوں اس کی عملی سرگرمیاں شروع ہو چکی تھیں ،اس لئے ہم مجبور تھے کہ ایک علمی کتاب شائع کرکے دیگر اداروں ،کالجوں اور یونیور سٹیوں میں اس کا تعارف کرائیں ۔

اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ کتاب کو اس صورت میں کالج کی مطبوعات میں سے ایک

____________________

۱۔'' اصول دین قومی کالج '' کی بنیاد ١٣٧٤ھ کو بغداد میں ڈالی گئی ۔طالب علموں کو اس کا لج سے علوم قرآن ، حدیث، عربی، ادبیات میں گریجویش کی ڈگری دی جاتی تھی ۔ہم ان دنوں اس کوشش میں تھے کہ اس کالج کے پہلے گروپ کے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی اس کی اسناد کوبغداد یونیورسٹی اور دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں سے رجسڑیشن کرائیں ۔

۱۹

کتاب کے طور پر شائع کرکے منظر عام پر لائیں ۔شعر و شاعری حتیٰ حوادث و واقعات ،جو ایسی رجز خوانیوں اور رزم ناموں کو وجود میں لانے کا سبب بنے تھے ،کے جعلی ثابت ہونے کے بعدان کی عبارتوں اور اشعار کے تلفظ کے بارے میں تحقیق نہ فقط غیر ضروری تھی بلکہ اس سے کتاب کے بنیادی مقصد اور اس کے علمی مطالب کوکوئی ضرر نہیں پہنچتاتھا۔

اس کے علاوہ طے یہ پا یاتھا کہ اس کتاب کی پہلی جلد ،خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے مخصوص ہو۔لیکن ہم نے دروغ بافی کے تنوع اور غیر تمیمی صحابیوں کی تخلیق ثابت کرنے کے لئے یہ مناسب سمجھاکہ کتاب کی آخر میں چند غیر تمیمی افسانوی اصحاب کابھی اضافہ کریں اس طرح اس کتاب کی پہلی جلد (عربی میں )بیروت سے شائع ہوئی۔

اس کتاب کی طباعت کے فوراًبعد اس کاپرجوش استقبال کیاگیا،حتیٰ بعض ناشروں نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کتاب کو دوبارہ آفسٹ پرنٹنگ میں چھاپنے کی اجازت دیدوں ۔میں نے اپنے گزشتہ تجربہ کے پیش نظر انھین اس چیز کی اجازت نہیں دی لیکن میری عدم موافقت کے باوجود یہ کتاب دوبارہ چھاپی گئی اور اس کے ہزاروں نسخے چاہنے والوں تک پہنچے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں ان دنوں زیر بحث اشعار کی تحقیق و تصحیح میں لگا ہوا تھا۔ اس کام سے فراغت پانے کے بعد میں نے اس کتاب کی آخر سے دو غیر تمیمی اصحاب کو حذف کرکے ان کی جگہ پر سیف کے دو دیگر جعلی تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات کا اضافہ کرکے اس کی دوبارہ طباعت کا اقدام کیا ۔اس طرح حقیقت میں اب کہا جاسکتا ہے کہ کتاب ''جعلی اصحاب'' کی پہلی جلد مکمل اور تصحیح شدہ صورت میں ١٣٨٩ھ میں بعداد سے شائع ہو ئی ہے ۔

خدائے تبارک و تعالیٰ اس کام کو جاری رکھنے اور ان عملی مباحث کو مکمل کرنے میں میری مدد فرمائے!۔

مرتضیٰ عسکری

۲۰

جگہ جگہ شیعوں کے نام ان کے قبیلوں اور دشمنان اہل بیت کے ناموں کو ذکر کیا ہے، اسی طرح ائمہ اطھار علیہم السلام کی وفات کے تمام سال کو ان کی مختصرحیات طیبہ کے ساتھ بیان کیا ہے خصوصی طور سے دوسری صدی ہجری میں علویوں کے قیام کی بطورمفصل وضاحت کی ہے۔(١)

٢)ائمہ علیہم السلام کی زندگانی

ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے مربوط جو کتابیں ہیں ان میں شیخ مفید کی کتاب الارشاد ، ابن جوزی کی تذکرةالخواص کی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔

کتاب الارشاد مہم ترین شیعوں کا پہلا مآخذ ہے جس میں بارہ اماموں کی زندگی موجود ہے اس اعتبار سے کہ امیرالمومنین کی زندگی کا بعض حصہ رسول اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں تھا،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت کو بھی اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے خصو صاًآنحضرت کی جنگیں ، جنگ تبوک کے علاوہ حضرت علی تمام جنگوں میں موجود تھے، اس کتاب کے بارے میں صرف اتنا ہی کہناکافی ہے کہ تاریخ تشیع اور امام معصوم کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں کوئی بھی محقق اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہے ۔

٣) کتب فتن و حروب

یہ کتاب ان جنگوں کے بیا ن سے مخصوص ہے جو مسلمانوں کی تاریخ نگاری میں کافی

____________________

(١)مروج الذہب ،ج٢،ص٣٢٤ ۔ ٣٢٦ ۔ ٣٥٨۔

۲۱

اہمیت کی حامل ہیں ، ان میں سے قدیم ترین کتاب وقعةالصفین ہے جونصربن مزاحم منقری (متوفی ٢١٢ھ ) کی تالیف ہے۔ جس میں صفین کے واقعہ میں اور جنگ کو بیان کیا گیا ہے، اس کتاب میں حضرت علی اور معاویہ کے درمیان مکاتبات اور حضرت کے خطبات اور مختلف تقریروں کے سلسلہ میں اہم اطلاعات موجود ہیں ، اس کتاب کے مطالب کے درمیان مفید معلومات اصحا ب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضرت علی سے متعلق خیا لات اور عرب کے مختلف قبائل کے درمیان تشیع کے نفوذ کی عکاسی پائی جاتی ہے ۔

کتاب الغارات مؤلف ابراہیم ثقفی کوفی٢٨٣ھ یہ کتاب بھی ایک اہم منابع میں سے ہے جو اسی سلسلے میں لکھی گئی ہے اس کتاب میں امیر المو منین کی خلافت کے زمانے کے حالات بیان کئے گئے ہیں ،اس کتاب میں معاویہ کے کا رندوں اور غارت گروں کے بارے میں کہ جوحضرت علی کی حکومت میں تھے تحقیق کی گئی ہے، اس کتاب سے امیرالمومنین کے دور کے شیعوں کے حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

الجمل یا نصرةالجمل شیخ مفیدکی یہ کتاب ارزش مند منابع میں سے ایک ہے کہ جس میں جنگ جمل کے حالات کی تحقیق کی گئی ہے چونکہ یہ کتاب حضرت علی کی پہلی جنگ جو آپ کی خلافت کے زمانے میں واقع ہوئی ہے اس کے متعلق ہے لہٰذا اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مرتبہ عراق کے لوگوں کے درمیان آپ کے وہاں جانے سے پہلے کیا تھا ۔

۲۲

(٤)کتب رجال و طبقات

علم رجال ان علوم میں سے ہے کہ جن کاربط علم حدیث سے ہے اور اس علم کا استعمال احادیث کی سند سے مربوط ہے، اس علم کے ذریعہ راویان حدیث اور اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حالات زندگی کا پتہ چلتا ہے،رجال شیعہ میں اصحا ب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ ائمہ معصومین کے اصحاب کو بھی مورد بحث قرار دیا گیا ہے ، علم رجال شناسی دوسری صدی ہجری سے شروع ہو ااور آج تک جاری ہے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ا س میں تکامل وترقی ہوتی جارہی ہے ، اہل سنت کی بعض معروف ومعتبر کتابیں اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل ہیں :

(١)الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ، ابن عبدالبرقرطبی ٤٦٣ھ

(٢) اسد الغابہ فی معرفةالصحابہ، ابن اثیر جزری ٦٣٠ھ

(٣) تاریخ بغداد، خطیب بغدادی ٤٦٣ ھ

(٤) ا لاصابہ فی معرفة الصحابہ، ابن حجر عسقلانی

اسی طرح شیعوں کی بھی اہم ترین کتابیں درج ذیل ہیں :

(١)اختیار معرفة الرجال کشی،شیخ طوسی ٤٦٠ھ

(٢)رجال نجاشی(فہرست اسماء مصنفی الشیعة)

(٣)کتاب رجال یا فہرست شیخ طوسی

(٤)رجال برقی،احمد بن محمد بن خالد برقی٢٨٠ھ

(٥)مشیخہ ،شیخ صدوق ٣٨١ھ

۲۳

(٦)معالم العلما ئ،ابن شہر آشوب مازندرانی٥٨٨ ھ

(٧)رجال ابن دائود،تقی الدین حسن بن علی بن دائود حلی٧٠٧ھ

البتہ شیعوں کے درمیان علم رجال نے زیادہ تکامل وارتقاپیدا کیا ہے اور مختلف حصوں میں تقسیم ہوا ہے۔

بعض کتب رجال جیسے اسد الغابہ ،فہرست شیخ ،رجال نجاشی اور معالم العلماء کو حروف کی ترتیب کے لحاظ سے لکھا گیا ہے اور کچھ کتابیں جیسے رجال شیخ اور رجال برقی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم اور ائمہ کے اصحاب کے طبقات حساب سے لکھی گئی ہیں ،علم رجال پر اور بھی کتابیں ہیں جن میں لو گوں کو مختلف طبقات کی بنیاد پر پرکھا گیا ہے ان میں سے اہم کتاب طبقات ابن سعد ہے ۔

(٥) کتب جغرافیہ

کچھ جغرافیائی کتابیں سفر نا موں سے متعلق ہیں ، جن میں اکثر کتابیں تیسری صدی ہجری کے بعد لکھی گئی ہیں چونکہ اس کتاب میں تاریخ تشیّع کی تحقیق شروع کی تین ہجری صدیوں میں ہوئی ہے ،اس بنا پر ان سے بہت زیادہ استفا دہ نہیں کیا گیا ہے،ہاں بعض جغرافیائی کتابیں جن میں سند کی شناخت کرائی گئی ہے اس تحقیق کے منابع میں سے ہیں ، ان کتابوں میں معجم البلدان جامع ہونے کے اعتبار سے زیادہ مورد استفادہ قرار پائی ہے، اگر چہ مؤلف کتاب''یاقوت حموی'' نے شیعوں کے متعلق تعصب سے کام لیا ہے اور کوفہ کے بڑے خاندان کا ذکر کرتے وقت کسی بھی شیعہ عالم اور بڑے شیعہ خاندانوں کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

۲۴

(٦)کتب اخبار

کتب اخبارسے مراداحادیث کی وہ کتابیں نہیں ہیں جن میں حلال و حرام سے گفتگو کی گئی ہے بلکہ ان سے مراد وہ قدیم ترین تاریخی کتابیں ہیں جو تاریخ کی تدوین کے عنوان سے اسلامی دور میں لکھی گئی ہیں کہ ان کتابوں میں تاریخی اخباراور حوادث کو راویوں کے سلسلہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، یعنی تاریخی اخبار کے ضبط ونقل میں اہل حدیث کا طرز اپنایا گیاہے ۔ اس طرح کی تاریخ نگاری کی چند خصوصیات ہیں ،پہلی خصوصیت یہ کہ ایک واقعہ سے متعلق تمام اخبار کو دوسرے واقعہ سے الگ ذکر کیاجاتا ہے وہ تنہا طور پر مکمل ہے اورکسی دوسری خبر اور حادثہ سے ربط نہیں ہے،دوسری خصوصیت یہ کہ اس میں ادبی پہلوئوں کا لحاظ کیا گیاہے یعنی مؤلف کبھی کبھی شعر، داستان مناظرے سے استفادہ کرتا ہے یہ خصوصیت خاص طور پر سے ان اخبار یین کے آثار میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جو ''ایام العرب'' کی روایات سے متاثر تھے ، اسی وجہ سے بعض محققین نے ''خبر '' کی تاریخ نگاری کو زمانۂ جاہلیت کے واقعات کے اسلوب و انداز سے ماخوذ جانا ہے۔تیسری خصوصیت یہ کہ ان میں روایات کی سند کا ذکر ہوتا ہے ۔

۲۵

در حقیقت تاریخ نگاری کا یہ پہلا طرز خصوصاً اسلام کی پہلی دو دصدیوں میں کہ جس میں اکثرتاریخ کے خام موادو مطالب کا پیش کرنا ہوتا تھا اسلامی دور کے مکتوب آثار کا ایک اہم حصہ رہاہے۔اسی طرح سے اخبار کی کتابوں کے درمیان کتاب الاخبارالموفقیات جو زبیر بن بکارکی تالیف کردہ ہے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ،اس کتاب کا لکھنے والا خاندان زبیر سے ہے کہ جس کی اہل بیت سے پرانی دشمنی تھی اس کے علاوہ اس کے ، متوکل عباسی( جو امیر المومنین اور ان کی اولاد کا سخت ترین دشمن تھا) سے اچھے تعلقات تھے اور اس کے بچوں کا استاد بھی تھا۔(١) نیز اس کی جانب سے مکہ میں قا ضی کے عہدے پر فائز تھا(٢) ان سب کے باوجوداس کتاب میں ابوبکر کی خلافت پر اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعتراضات کے بارے میں اہم معلومات ہیں خصوصاً اس میں ان کے وہ اشعاربھی نقل کئے گئے ہیں جو حضرت علی کی جانشینی اور وصایت پر دلالت کرتے ہیں ۔

(٧)کتب نسب

نسب کی کتابوں میں انساب الاشراف بلاذری سب سے زیادہ قابل استفادہ قرار پائی ہے جو نسب کے سلسلہ میں سب سے بہترین ماخذ جانی جاتی ہے ،دوسری طرف اس کتاب کو سوانح حیات کی کتابوں میں بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ علم نسب کے لحاظ سے کتاب جمہرة الانساب العرب جامع ترین کتاب ہے کہ جس میں مختصر وضاحت بھی بعض لوگوں کے بارے میں میں کی گئی ہے ۔

کتاب منتقلہ الطالبیین میں ذریت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور سادات کی مہاجرت سے متعلق تحقیق کی گئی ہے، ان مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے ابتدائی صدیوں میں اسلامی سرزمینوں پر تشیع سے متعلق تحقیق کی جا سکتی ہے۔

____________________

(١)خطیب بغدادی،الحافظ ابی بکر احمد بن علی ،تاریخ بغداد،مطبعة السعادہ،مصر،١٣٤٩ھ ج٨،ص٤٦٧

(٢) ابن ندیم ،الفہرست،بیروت،(بی تا)ص١٦٠

۲۶

(٨)کتب ا حادیث

تاریخ تشیع کے دوسرے منابع میں سے حدیث کی کتابیں ہیں عرف اہل سنت میں حدیث سے مراد قول ،فعل اور تقریر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے ،لیکن شیعوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ائمہ معصومین کو بھی شامل کیا ہے اور شیعہ رسول کے ساتھ ائمہ معصومین کے قول ،فعل اورتقریر کوبھی حجت مانتے ہیں ،اہل سنت کی کتابوں میں صحیح بخاری (١٩٤۔٢٥٦)مسند احمد بن حنبل (١٦٤۔٢٤١) مستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری (ف٤٥٠)صحابہ کے درمیان تشیع اور امیرالمومنین کی حقانیت( جو تشیع کی بنیادہے) کی تحقیق کے لئے بہترین کتابیں ہیں ۔

شیعہ حضرات کی حدیث کی کتابیں جیسے کتب اربعہ :الکافی کلینی(٣٢٩ھ )، من لا یحضرہ الفقیہ صدوق (ف٣٨١ھ) تہذیب الاحکام و استبصارشیخ طوسی (وفات ٣٦٠ھ)اوردوسری کتابیں جیسے امالی ،غررالفوائدو درر القلائدسید مرتضیٰ (٣٥٥۔٤٣٦) الاحتجاج طبرسی( چھٹی صدی )شیعہ احادیث کا عظیم دائرة المعارف (انسائیکلوپیڈیا) بحارالانوار مجلسی (١١١١ھ) وغیرہ کہ جو اہل سنت کی کتابوں پر امتیازی حیثیت رکھتی ہیں ، اس کے علاوہ شیعوں کے فروغ ، ان کے رہائشی علاقے، ان کے اجتماعی روابط اور ائمۂ معصومین کے ساتھ انکے اربتاط کے طریقہ کار کا اندازہ ان کی حدیثوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔

۲۷

(٩)کتب ملل ونحل

اس سلسلہ میں اہم ترین ماخذشہرستانی (٤٧٩ ۔٥٤٨ ) کی کتاب ملل ونحل ہے، یہ کتاب جامعیت اورماخذ کے قدیم ہونے کے اعتبار سے بہترین منابع میں شمار ہوتی ہے بلکہ یہ کتاب محققین اور دانشمندوں کے لئے مرجع ہے اگرچہ مؤلف نے مطالب کو بیان کی میں تعصب سے کام لیا ہے،اس نے کتاب کے مقدمہ میں ٧٣فرقہ والی حدیث کا ذکر کیا ہے اور اہل سنت کو فرقہ ناجیہ قرار دیا ہے حتی الامکان شیعہ فرقوں کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ثابت کرے کہ شیعہ فرقوں کی کثرت شیعوں کے بطلان پر دلیل ہے، شہرستانی نے مختاریہ ،باقریہ ،جعفریہ ،مفضلہ ،نعمانیہ ، ہشامیہ ،یونسیہ جیسے فرقوں کو بھی شیعہ فرقوں میں شمار کیا ہے جب کہ ان فرقوں کا خارج میں کوئی وجود ہی نہیں ہے، جیسا کہ مقریزی نے اپنی کتاب خطط میں کہاہے کہ شیعہ فرقوں کی تعدادتین سو ہے لیکن ان کو بیان کرتے وقت بیس سے زیادہ فرقہ نہیں بیان کرسکا ۔

ملل ونحل کی جملہ قدیم ترین ا ور اہم ترین ، اشعری قمی کی المقالات والفرق او ر نو بختی کی فرق الشیعہ ہے۔ اشعری قمی اور نو بختی کا شمارشیعہ علماء اوردانشوروں میں ہوتاہے جن کا زمانہ تیسری صدی ہجری کا نصف دوم ہے ۔

کتاب'' المقالات و الفرق ''معلومات کے لحاظ سے کافی وسیع ہے اور جامعیت رکھتی ہے لیکن اس کے مطالب پراگندہ ہیں اورمناسب ترتیب کی حامل نہیں ہے۔ بعض محققین کی نظر میں نوبختی کی کتاب فرق الشیعہ حقیقت میں کتاب المقالات والفرق ہی ہے ۔

۲۸

دوسری فصل

شیعوں کے آغاز کی کیفیت

شیعہ:لغت اور قرآن میں

لفظ شیعہ لغت میں مادہ شیع سے ہے جس کے معنی پیچھے پیچھے چلنے اور کامیابی اور شجاعت کے ہیں ۔(١)

اسی طرح اکثر لفظ شیعہ کا اطلاق حضرت علی کی پیروی کرنے والوں اور ان کے دوستوں پر ہوتا ہے۔(٢)

جیساکہ ازہری نے کہا ہے: شیعہ یعنی وہ گروہ جو عترت اور خاندان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتا ہے۔(٣)

ابن خلدون نے کہا ہے : لغت میں شیعہ دوست اور پیروکار کو کہتے ہیں ، لیکن فقہااور

____________________

(١)اس شعر کی طرح:

والخزرجی قلبه مشیع

لیس من الامر الجلیل یفزع

ترجمہ: خزرجی لوگ شجاع اور بہادر ہیں اور بڑے سے بڑا کام انجام دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔ الفراہیدی'الخلیل بن احمد' ترتیب کتاب العین'انتشارات اسوہ'تھران، ج٢،ص٩٦٠

(٢)فیروزہ آبادی'قاموس اللغة'طبع سنگی ص ٣٣٢۔

(٣)الحسینی الواسطی الزبیدی الحنفی،ابو فیض السید مرتضیٰ،تاج العروس ،ج١١ص٢٥٧

۲۹

گذشتہ متکلمین کی نظر میں علی اور ان کی اولاد کی پیروی کرنے والوں پراطلاق ہوتاہے(١) لیکن شہرستانی نے معنا ی شیعہ کے سلسلے میں دائرہ کو تنگ اور محدودکرتے ہوئے کہاہے : شیعہ وہ ہیں جو صرف علی کی پیروی کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ علی کی امامت اور خلافت نص سے ثابت ہے اور کہتے ہیں کہ امامت ان سے خارج نہیں ہو گی مگر ظلم کے ذریعہ ۔(٢)

قرآن میں بھی لفظ شیعہ متعدد مقامات پر پیروی کرنے والوں اور مدد گار کے معنی میں آیا ہے جیسے''انّ من شیعتہ لابراھیم،،(٣) (نوح کی پیروی کرنے والوں میں ابراہیم ہیں )دوسری جگہ ہے ''فاستغاثه الذی من شیعته علی الذی من عدوه ،،(٤) موسیٰ کے شیعوں میں سے ایک شخص نے اپنے دشمن کے خلاف جناب موسیٰ سے نصرت کی درخواست کی ،روایت نبوی میں بھی لفظ شیعہ پیروان اور علی کے دوستوں کے معنی میں ہے(٥) لفظ شیعہ شیعوں کے منابع میں صرف ایک ہی معنی اور مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیعہ، علی اور ان کے گیارہ فرزندوں کی جانشینی کے معتقدہیں جن میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر غیبت صغریٰ تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، جس طرح سے تیسری ہجری کے دوسرے حصہ کے نصف میں مکمل بارہ اماموں پر یقین

____________________

(١)ابن خلدون،عبدالرحمٰن بن محمد،مقدمہ ،دار احیا التراث العربی بیروت ١٤٠٨ھ ص١٩٦

(٢)شہرستانی،الملل والنحل ،منشورات الشریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش،ج١ص١٣١

(٣)سورہ صافات٣٧،٨٣

(٤)سورہ قصص٢٨،١٥

(٥)بعد والی فصل میں اس روایت پر اشارہ کیا جائے گا۔

۳۰

رکھتے تھے ،پہلے دور کے شیعہ جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب تھے و ہ بھی اس بات کے معتقد تھے۔

اس لئے کہ انہوں نے بارہ اماموں کے نام حدیث نبوی سے یاد کئے تھے اگرچہ ستمگار حاکموں کے خوف کی بنا پر کچھ شیعہ ان روایات کو حاصل نہیں کر پائے جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:(من مات لایعرف امامه مات میتة جاهلیة )(١) جو اپنے زمان کے امام کو نہ پہچانے اور مر جائے تو ا س کی موت جاہلیت کی موت ہے۔

اس رو سے ہم دیکھتے ہیں جس وقت امام جعفرصادق ـ کی شہادت واقع ہوئی

____________________

(١)ابن حجر ہیثمی جو اہل سنت کے دانشمندوں میں سے ایک ہیں انہوں نے اس حدیث کوجو بارہ اماموں کے بارے میں آئی ہے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے صحیح ہو نے پر اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہوا ہے، وہ اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے اہل سنت کے علماء اور دانشوروں کے متضاد و متناقض اقوال پیش کرتے ہیں کہ جو اس سلسلہ میں وارد ہوئے ہیں اور آخر میں کسی نتیجہ تک نہیں پہونچتے ہیں ،ان میں سے قاضی عیاض نے کہا :شاید اس سے مراد بارہ خلیفہ ہیں کہ جو اسلام کی خلافت کے زمانہ میں حاکم تھے کہ جو ولیدبن یزید کے زمانہ تک جاری رہا ،بعض دوسروں نے کہا: بارہ سے مراد خلیفہ بر حق ہیں کہ جو قیامت تک حکومت کریں گے جن میں سے چند کا دور گزر چکا ہے جیسے خلفائے راشدین ،امام حسن ،معاویہ عبداللہ بن زبیر ،عمر بن عبد العزیز اور مھدی عباسی، دوسرے اورجو دو با قی ہیں ان میں سے ایک مھدی منتظر ہیں جو اہل بیت میں سے ہوں گے،نیز بعض علما ء نے بارہ ائمہ کی حدیث کی تفسیربارہ اماموں سے کی ہے کہ جو مہدی کے بعد آئیں گے ان میں سے چھ امام حسن کے فرزندوں میں سے اور پانچ امام حسین کے فرزندوں میں سے ہوں گے(الصواعق المحرقہ ، مکتبةقاہرہ، طبع دوم، ١٣٨٥،ص٣٧٧)

۳۱

زرارہ جو کہ بوڑھے تھے انہوں نے اپنے فرزند عبید کو مدینہ بھیجا تاکہ امام صادق کے جانشین کا پتہ لگائیں لیکن اس سے پہلے کہ عبید کوفہ واپس آتے،زرارہ دنیا سے جاچکے تھے، آپ نے موت کے وقت قرآن کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : اے خدا !گواہ رہنا میں گواہی دیتاہوں اس امام کی امامت کی جس کو قرآن میں معین کیا گیا ہے۔(٢)

البتہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا معنی اور مفہوم اپنی اصلی شکل اختیار کرنا ہو گیا اور اس کے حدو د مشخص ہوگئے ،اسی لئے ائمہ اطہار نے باطل فرقوں اور گروہوں کی طرف منسو ب لوگوں کو شیعہ ہونے سے خارج جانا ہے ، چنانچہ شیخ طوسی حمران بن اعین سے نقل کرتے ہیں ، میں نے اما م محمد باقر سے عرض کیا:کیا میں آپ کے واقعی شیعوں میں سے ہوں ؟امام نے فرمایا:ہاں تم دنیااورآخرت دونوں میں ہمارے شیعوں میں سے ہواورہمارے پاس شیعوں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ،مگر یہ کہ وہ ہم سے روگردانی کریں ،پھر وہ کہتے ہیں ، میں نے کہا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا کوئی آپ کا شیعہ ایسا ہے کہ جو آپ کے حق کی معرفت رکھتا ہو اور ایسی صورت میں آپ سے روگردانی بھی کر ے ؟امام نے فرمایا: ہاں حمران تم ان کو نہیں دیکھو گے ۔

حمزہ زیّات جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے سلسلہ میں بحث کی لیکن ہم امام کے مقصد کو نہیں سمجھ سکے لہذاہم نے امام رضاکو خط لکھا اور امام سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو امام نے فرمایا : امام صادق

____________________

(١) کلینی ،اصول کافی ،دارالکتب ا لاسلامیہ طبع پنجم تھران ،١٣٦٣ش،ج١ ص٣٧٧

(٢)شیخ طوسی ، اختیارمعرفةالرجال ،مؤسسہ آل البیت لاحیا ء التراث ،قم ١٤٠٤ ھ، ص،٣٧١

۳۲

کا مقصود، فرقہ واقفیہ تھا(١)

اس بنا پر رجال شیعی میں صرف شیعہ اثنا عشری پر عنوانِ شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے،اورفقہا کبھی کبھی اس کو اصحابنا یا اصحابناالامامیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ لوگ جو صحیح راستہ یعنی راہ تشیع سے منحرف ہوگئے تھے ان کوفطحی ،واقفی ،ناؤوسی وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر ان کا نام شیعوں کی کتب رجال میں آیا بھی ہے توانہوں نے منحرف ہونے سے قبل روایتیں نقل کی ہیں ،چنانچہ اہل سنت کے چند راویوں کے نام اس کتاب میں آئے ہیں جنہوں نے ائمہ اطہار سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن اہل سنت کے دانشمندوں اور علماء رجال نے شیعہ کے معنی کو وسیع قرار دیا ہے اور تمام وہ فرقے جو شیعوں سے ظاہر ہوئے ہیں جیسے غلاة وغیرہ ان پر بھی شیعہ کا اطلاق کیا ہے، اس کے علاوہ اہلبیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوستوں اور محبوں کو بھی شیعہ کہا ہے جب کہ ان میں سے بعض اہل بیت کی امامت اور عصمت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے ،جیسے سفیان ثوری جومفتیان عراق میں سے تھا اور اہلسنت کے مبنیٰ پر فتویٰ دیتاتھا لیکن ابن قتیبہ نے اس کو شیعوں کی فہرست میں شمار کیا ہے۔(۲)

ابن ندیم کہ جو اہل سنت کے چار فقہامیں سے ایکہے شافعیوں ان کے بارے میں یوں کہتا ہے کہ شافعیوں میں تشیع کی شدت تھی(٣) البتہ دوسری ا ور تیسری صدی ہجری میں شیعہ اثناعشری کے بعد شیعوں کی زیادہ تعداد کو زیدیوں نے تشکیل دیا ہے، وہ لوگ اکثر سیاسی معنیٰ

____________________

(١) شیخ طوسی،معرفة الرجال موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، ج٢ص٧٦٣۔

(٢) ابن قتیبہ ،المعارف منشورات شریف الرضی ،قم ،طبع اول ،١٤١٥،١٣٧٣،ص ٦٢٤۔

(٣)ابن ندیم ،ا لفہرست ،دارالمعرفة للطبع والنشر ،بیروت،ص٢٩٥،(کان الشافعی شدیداًفی التشیع)

۳۳

میں شیعہ تھے نہ کہ اعتقادی معنیٰ میں ، اس لئے کہ فقہی اعتبار سے وہ فقہ جعفری کے پیروی نہیں کرتے تھے بلکہ فقہ حنفی کے پیرو تھے،(٢) اصول اعتقادی کے اعتبار سے شہرستانی نقل کرتا ہے، زید ایک مدت تک واصل بن عطا کا شاگرد تھا جس نے مذہب معتزلہ کی بنیاد ڈالی اور اصول مذہب معتزلہ کو زید نے پھیلایا ہے، اس وجہ سے زیدیہ اصول میں معتزلی ہیں اسی باعث یہ مفضول کی امامت کوافضل کے ہوتے ہوئے جائز جانتے ہیں اور شیخین کو برا بھی نہیں کہتے ہیں اور اعتقادات کے اعتبار سے اہل سنت سے نزدیک ہیں ۔(٣)

چنانچہ ابن قتیبہ کہتا ہے: زیدیہ رافضیوں کے تمام فرقوں سے کم تر غلو کرتے ہیں ۔(٤)

اس دلیل کی بنا پر محمد نفس زکیہ کے قیام(جو زیدیوں کے قائدین میں سے ایک تھے) کو بعض اہل سنت فقہاکی تاکید اور رہنمائی حاصل تھی اور واقدی نے نقل کیا ہے، ابوبکر بن ابیسیرہ(٥) ابن عجلان(٦) عبد اللہ بن جعفر(٧) مکتب مدینہ کے بڑے محدثین میں سے تھے اور خود واقدی نے ان سے حدیث نقل کی ہے ،وہ سب محمد نفس زکیہ کے قیام میں شریک تھے ،اسی طرح شہرستانی کہتاہے محمد نفس زکیہ کے شیعوں میں ابوحنیفہ بھی تھے ۔(٨)

____________________

(٢)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص١٤٣

(٣)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص ١٣٨

(٤)ابن قتیبہ ،المعارف ،ص ٦٢٣

(٥)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٧٤ص٢٥١

(٦)گزشتہ حوالہ ص،٥٤

(٧)گزشتہ حوالہ ص،٢٥٦ ٢

(٨ )شہرستانی ،ملل و نحل ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش مج ١ ص١٤٠

۳۴

بصرہ کے معتزلی بھی محمد کے قیام کے موافق تھے اور ابو الفرج اصفہانی کے نقل کے مطابق بصرہ میں معتزلیوں کی ایک جماعت نے جن میں واصل بن عطا اور عمرو بن عبید تھے ان لوگوں نے ان کی بیعت کی تھی(١) اس لحاظ سے زیدیہ صرف سیاسی اعتبار سے شیعوں میں شمار ہوتے تھے اگر چہ وہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت واولویت کے معتقد بھی تھے ۔

آغاز تشیّع

آغاز تشیع کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، جنہیں اجمالی طور پر دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(١) وہ صاحبان قلم اور محققین جن کا کہنا ہے: شیعیت کا آغاز رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ہوا، خود وہ بھی چند گروہ میں تقسیم ہوجاتے ہیں ۔

(الف )پہلے گروہ کا کہنا ہے : شیعیت کا آغاز سقیفہ کے دن ہوا ، جب بزرگ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے کہا :حضرت علی علیہ السلام امامت و خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں ۔(٢)

____________________

(١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص ٢٥٨

(٢)یعقوبی بیان کرتے ہیں :چند بزرگ صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیااور کہا: حضرت علی خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں ، تاریخ یعقوبی، جلد ٢،ص ١٢٤،طبع، منشورات الشریف الرضی قم ١٤١٤ھ

۳۵

(ب)دوسرے گروہ کا کہنا ہے : آغاز تشیع خلافت عثمان کے آخری زمانے سے مربوط ہے اور یہ لوگ اس زمانہ میں ، عبد اللہ بن سبا کے نظریات کے منتشر ہونے کوآغاز تشیع سے مربوط جانتے ہیں ۔(١)

(ج)تیسرا گروہ معتقد ہے کہ شیعیت کا آغاز اس دن سے ہوا جس دن عثمان قتل ہوئے ،اس کے بعد حضرت علی کی پیروی کرنے والے شیعہ حضرات ان لوگوں کے مدمقابل قرار پائے ،جو خون عثمان کا مطالبہ کررہے تھے ، چنانچہ ابن ندیم ر قم طراز ہیں :جب طلحہ و زبیر نے حضرت علی کی مخالفت کی اور وہ انتقام خون عثمان کے علاوہ کسی دوسری چیز پر قانع نہ تھے ، نیز حضرت علی بھی ان سے جنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ حق کے سامنے تسلیم ہوجائیں ،اس دن جن لوگوں نے حضرت علی کی پیروی کی وہ شیعہ کے نام سے مشہور ہوگئے اور حضرت علی بھی خود ان سے فرماتے تھے:یہ میرے شیعہ ہیں ،(٢) نیز ابن عبدربہ اندلسی ر قم طراز ہیں :

''شیعہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی کو عثمان سے افضل قرار دیتے ہیں ۔(٣)

(د)چوتھا گروہ معتقد ہے کہ شیعہ فرقہ روز حکمیت کے بعدسے شہادت حضرت علی تک وجود میں آیا۔(٤)

____________________

(١)مختار اللیثی، سمیرہ ، جہاد الشیعہ ، دار الجیل ، بیروت ، ١٣٩٦ھ، ص :٢٥

(٢)ابن ندیم الفہرست ''دار المعرفة''طبع،بیروت(بی تا) ص٢٤٩

(٣)ابن عبدربہ اندلسی احمد بن محمد ، العقد الفرید ،دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ١٤٠٩ھ ج٢ ص٢٣٠

(٤)بغدادی ، ابو منصور عبد القادر بن طاہر بن محمد ''الفرق بین الفرق'' طبع،قاہرہ،١٣٩٧، ص١٣٤

۳۶

(ھ )پانچواں گروہ آغاز تشیع کو واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین سے مربوط قرار دیتاہے۔(١)

(٢) دوسرا طبقہ ان محققین کا ہے جو معتقد ہیں کہ شیعیت کا ریشہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں پایا جا تا تھا،تمام شیعہ علما بھی اس کے قائل ہیں ۔(٢)

بعض اہل سنت دانشوروں کابھی یہی کہنا ہے ،چنانچہ محمد کردعلی جو اکابرعلمائے اہل سنت سے ہیں ،کہتے ہیں :''رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں بعض صحابہ کرام شیعیان علی کے نام سے مشہور تھے۔(٣)

مذکورہ بالا نظریات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ روز سقیفہ ، خلافت عثمان کا آخری دور،جنگ جمل ، حکمیت اور واقعہ کربلا وغیرہ وہ موارد ہیں جن میں رونما ہونے والے کچھ حادثات تاریخ تشیع میں مؤثر ثابت ہوئے ،چونکہ عبداللہ بن سبا نامی کے وجود کے بارے میں شک و ابہام پایا جاتاہے،لہٰذا ان ادوار میں شیعیت کا تشکیل پا نا بعید ہے ۔

کیونکہ اگر احادیث پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر محققانہ نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی بہت سی احادیث میں لفظ شیعہ حضرت علی کے چاہنے والوں کے لئے استعمال ہوا ہے ،جن میں سے ہم بعض کی طرف اشارہ کررہے ہیں ، نیز یہ تمام احادیث اہل سنت و الجماعت کے نزدیک مقبول ہیں اور منابع احادیث میں ہیں ،جیسا کہ سیوطی جو کہ اہل سنت والجماعت کے مفسروں

____________________

(١)مختار اللیثی، ڈاکٹر سمیرہ '' جہاد الشیعہ '' ٣٥ ۔ نقل از برنا '' رولویس '' اصول الاسماعیلیہ ص٨٤

(٢)دفاع از حقانیت شیعہ، ترجمہ غلام حسن محرمی ، مومنین ، طبع اول ١٣٧٨ ص ٤٨، اورشیعہ در تاریخ،، ترجمہ محمد رضا عطائی ، انتشارات آستانہ قدس رضوی ، طبع دوم ، ١٣٧٥ ، ش ، ص ، ٣٤

(٣)خطط الشام ، مکتبة النوری ، دمشق ، طبع سوم ، ١٤٠٣ ھ ۔ ١٩٨٣ ، ج ٦ ، ص ٢٤٥

۳۷

میں سے ہیں اس آیۂ کریمہ:''اولٰئکٔ هم خیر البریة '' کی تفسیر میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث نقل کرتے ہیں ، منجملہ یہ حدیث کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا : اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ هم خیر البریة '' میں خیرالبریہ سے مراد حضرت علی اور ان کے شیعہ ہیں اور وہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ۔(١)

ر سول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے فرمایا : خداوند کریم نے آپ کے شیعوں کے اور شیعوں کو دوست رکھنے والے افراد کے گناہوں کو بخش دیا ہے ،(٢) نیز پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے فر مایا :آپ اور آپ کے شیعہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے در حالانکہ آپ حوض کوثر سے سیراب ہوں گے اور آپ کے چہرے (نور سے ) سفیدہوں گے اور آپ کے دشمن پیاسے اور طوق و زنجیر میں گرفتا رہوکر میرے پاس آئیں گے(٣) رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک طولانی حدیث میں حضرت علی کے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے فاطمہ! علی اور ان کے شیعہ کل (قیامت میں ) کامیاب(نجات پانے والوں میں ) ہیں ۔(٤)

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

اے علی ! خداوند عالم نے آپ کے اور آپ کے خاندان اور آپ کے شیعوں کو

____________________

(١) الدر المنثور فی التفسیر بالمأ ثور،ج :٦ ،ص :٣٧٩، منشورات مکتبةآیة اللہ مرعشی نجفی ، قم ١٤٠٤ھ

(٢) ابن حجر ھیثمی المکی صواعق محرقہ ،ص ٢٣٢ طبع دوم مکتب قاہرہ، ١٣٨٥

(٣)ابن حجرمجمع الزوائد، نورالدین علی ابن ابی بکر ۔ ج ٩ ، ص ١٧٧ ، دار الفکر ١٤١٤ھ

(٤) المناقب ، ص ٢٠٦ ، اخطب خوارزمی منشورات مکتبةالحیدریہ ، نجف ١٣٨٥

۳۸

دوست رکھنے والوں کے گناہوں کو بخش دیا ہے ۔(١)

نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

اے علی !جب قیامت برپا ہوگی تو میں خدا سے متمسک ہوں گا اورتم میرے دامن سے اورتمہارے فرزندتمہارے دامن سے اورتمہاری اولاد کے چاہنے والے تمہاری اولاد کے دامن سے متمسک ہوں گے۔(٢)

نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا :

تم قیامت میں سب سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہو گے اور (تمہارے) شیعہ نورکے منبر پر ہوں گے ۔(٣)

ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جناب جبرئیل نے خبر دی کہ (حضرت) علی اور ان کے شیعہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنت میں لے جائے جائیں گے ۔(٤)

جناب سلمان فارسی نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا : اے علی !سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنو تاکہ مقرب لوگوں میں قرار پاؤ، حضرت علی نے پوچھا : مقربین کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

____________________

(١) مذکورہ مصدر کے علاوہ، ینابیع المودة ، قندوزی حنفی ، منشورات مؤسسہ اعلمی طبع اول، ١٤١٨ ھ ج ١، ص ٣٠٢

(٢) المناقب ، ص ٢١٠ ، اخطب خوارزمی

(٣) المناقب ، ص ١٥٨، ١٣٨٥ھ

( ٤) مذکورہ مصدر ،ص ٣٢٢ ۔ ٣٢٩ حدیث کے ضمن میں ، فصل ١٩

۳۹

جبرئیل و میکائیل، پھر حضرت علی نے پوچھا :کون سی انگوٹھی ہاتھ میں پہنوں ؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : وہ انگوٹھی جس میں سرخ عقیق ہو ، کیونکہ عقیق وہ پہاڑ ہے ،جس نے خدائے یکتا کی عبودیت ، میری نبوت ، آپ کی وصایت اور آپ کے فرزندوں کی امامت کا اقرار و اعتراف کیا ہے اور آپ کو دوست رکھنے والے اہل جنت ہیں اور آپ کے شیعوں کی جگہ فردوس بریں ہے ،(١) پھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :ستر ہزار (٧٠٠٠٠)افراد میری امت سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ،حضرت علی نے دریافت کیا : وہ کون ہیں ؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:وہ تمہارے شیعہ ہیں اورتم ان کے امام ہو۔(٢)

انس ابن مالک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''جبرئیل نے مجھ سے کہا :خدائے کریم حضرت علی کواسقدر دوست رکھتا ہے کہ ملائکہ کو بھی اتنا دوست نہیں رکھتا ،جتنی تسبیحیں پڑھی جاتی ہیں ، خدائے کریم اتنے ہی فرشتوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ وہ حضرت علی کے دوستوں اور ان کے شیعوں کے لئے تاقیامت استغفار کریں ۔(٣)

جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :خدائے یکتا کی قسم جس نے مجھے پیغمبر بنا کر مبعوث کیاکہ خدا وند عالم کے مقرب بارگاہ

____________________

(١) مذکورہ مصدر ص ٢٣٤

(٢) مذکورہ مصدر ص ٢٣٥

(٣) ینابیع المودة ، القندوزی الحنفی ، شیخ سلمان ،ص ٣٠١

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371