ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 371
مشاہدے: 129342
ڈاؤنلوڈ: 3801


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 129342 / ڈاؤنلوڈ: 3801
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 2

مؤلف:
اردو

ہم نے نہ ''عاص بن تمام '' سے زیاد کے بارے میں کوئی روایت پائی اور نہ خود ''عاص'' کو رجال و روات کے حالات میں لکھی گئی کتابوں میں سے کسی ایک میں پایا۔

لیکن زیاد کے بیٹے حنظلہ کا اگر چہ مصادر اور رجال کی کتا بوں میں کہیں نام نہیں ملتا پھر بھی ہم نے اس سے مربوط سیف کی جعل کردہ دو روایتیں پائیں جو سند اور متن کے جملوں کی ترتیب کی رو سے سیف کی تحریر کی شہادت دیتی ہیں ۔

ابن عساکر نے ''زیاد بن حنظلہ'' کی روایت کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے پہلی روایت بیان کی ہے تا کہ اس سے اپنی بات کی دلیل کے طور پر پیش کرے ۔ ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے یہ روایت اس طرح بیان کی ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ سے اس نے حنظلہ بن زیاد سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ جب ابوبکر بیمار تھے توخالد بن ولید نے عراق سے شام کی طرف فوج کشی کی...تا آخر

دوسری روایت کو طبری فتح ''ابلّہ'' کی داستان کے بعد اور ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر سے نقل کر کے یوں بیان کیاہے:

سیف بن عمر نے محمد نویرہ سے اس نے حنظلہ بن زیاد سے اور اس نے اپنے باپ زیاد بن حنظلہ سے روایت کی ہے کہ خالد بن ولید نے وہاں کی فتح کی نوید ایک ہاتھی اور مال غنیمت کے پانچویں حصے کے ساتھ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجی۔

شہر مدینہ کی گلی کوچوں میں ہاتھی کی نمائش کی گئی ۔کم علم عورتیں ہاتھی کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہتی تھیں : کیا خدا نے ایسی عجیب و غریب مخلوق کو پیدا کیا ہے ؟!وہ تصور کرتی تھیں کہ یہ موجود انسان کی مخلوق ہے ۔ اس کے بعد ابوبکر کے حکم سے ہاتھی کو واپس بھیج دیا گیا۔

۱۴۱

اس روایت کے بعد طبری کہتا ہے :

فتح '' ابلہ '' کی یہ داستان ان مطالب کے بر خلاف ہے جو تاریخ نویسوں اور علماء نے اس سلسلے میں بیان کی ہیں یا صحیح روایتوں میں ذکر ہوئی ہیں ۔سیف کے ان مطالب کا حقیقی واقعہ اور فتح ''ابلہ'' کی اصل داستان سے مغایرت اور ناموافق ہونے کے سلسلے میں طبری کے واضح اعتراف کے علاوہ ہاتھی کے افسانہ نے سیف کے جھوٹ کو اور بھی ننگا کرکے رکھ دیا ہے ۔کیوں کہ ہاتھی کا موضوع اور مکہ و خانہ خدا پر ابرہہ کے حملہ میں ہاتھی کی یاد ابھی لوگوں کی ذہنوں میں موجود تھی اس لئے یہ ایسا امر نہیں تھا کہ مدینہ کی عورتیں ہاتھی کو دیکھ کر تعجب اور حیرت میں پڑتیں اور وہ اس عظیم الجثہ حیوان کو دیکھ کر چہ میگوئیاں کرتیں !اور اسے بشر کی تخلیق جانتیں ۔ہاتھی کا موضوع اور مکہ پر قبل از اسلام ہاتھیوں کے ساتھ ابرہہ کا حملہ ایک تاریخی واقعہ تھا اور لوگ حوادث و واقعات کو اسی واقعہ کے حوالہ سے یاد کرتے تھے اور انھیں اسی واقعہ کے قبل یابعد یعنی عام الفیل سے حساب کرتے تھے ۔اس کے علاوہ مدینہ کی عورتوں نے بارہا قرآن مجید میں سورہ فیل کو پڑھا یا سنا تھا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے حیوان سے ناآشنا ہوں ۔اس کے باوجود سیف نے ایسا افسانہ گڑھ کے لوگوں کا مذاق اڑایا ہے !

سیف سے کسی نے یہ نہیں پوچھا ہے اور خود اس نے بھی یہ نہیں بتایا ہے کہ مدینہ سے واپس کئے جانے کے بعد ہاتھی پر کیا گزری اور تقدیر نے اسے کہاں پہنچایا !؟لیکن قوی احتمال یہ ہے کہ سیف نے اس ہاتھی کے تعجب انگیز افسانہ کو گڑھ کے اور اسے خالد بن ولید مضری کی طرف سے جنگی غنائم کے طور پر مضری خلیفہ کی خدمت میں بھیج کر اپنے خاندانی تعصبات کے مد نظر افتخارات حاصل کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے اور ہاتھی کے بارے میں اس کے بعد کوئی فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہے ۔اس لئے بیچارے ہاتھی کو خدا کی امان پر چھوڑ دیا ہے تاکہ جہاں چاہے چلا جائے ۔

۱۴۲

ہم نے سیف کے اس قسم کے افسانے گڑھنے کے محرک کی طرف گزشتہ بحثوں میں مکرر اشارہ کیا ہے اور یہاں اس کی تکرار کو ضروری نہیں سمجھتے ۔

اس طرح جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی صحابی کے لئے دو روایتیں جعل کی ہیں اور اس کے لئے حنظلہ نام کا ایک بیٹا بھی تخلیق کیا ہے تاکہ اس کی یہ روایتیں اس کی زبانی دہرائی جائیں ۔

افسانہ کا ماحصل

١۔ زیاد بن حنظلہ سے اس کے بیٹے حنظلہ کی زبانی دو روایتیں بیان کرائی ہیں تاکہ حدیث کی کتابوں کی زینت بنیں ۔

٢۔ افسانوی زیاد کے لئے ایک بیٹا ثابت کیا ہے تاکہ اسے خاندان تمیم کے تابعین میں قرار دے اور ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء سیف کے جھوٹ کو سچ سمجھ کر اپنی کتابوں میں لکھیں کہ حنظلہ نے اپنے باپ زیاد سے اس طرح روایت کی ہے ۔

خلاصہ

آخر کار سیف بن عمر ایک مہاجر ،دلاور ،نامور سپہ سالار ،رزمیہ شاعر ،احادیث کا راوی اور حضرت امام علی علیہ السلام کی خدمت میں ایک با نفوذ '' زیاد بن حنظلہ '' نامی ایک صحابی کوخلق کرکے اپنے خاندان تمیم کو چار چاند لگا کر ناز کرتا ہے !

اس کے لئے ایک بیٹا بھی خلق کرتا ہے اور اس کا نام حنظلہ رکھتا ہے تاکہ ایک معروف صحابی باپ کے بعد وہ تابعین میں ایک پارسا شخص اور راوی کی حیثیت سے اپنے باپ کا جانشین بن سکے اور خاندان سیف کے افتخارات کو آگے بڑھا ئے اور خاندان تمیم،زیاد اور حنظلہ نام کے ان باپ بیٹوں اور حنظلہ تمیمی جیسے ان کے جد کے وجود کے سبب دوسرے قبیلوں خاص کر قحطانی یمانیوں پر افتخار کرے۔

۱۴۳

ان افسانوں کا سر چشمہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ زیاد اور اس کے بیٹے حنظلہ کے حالات اور جو کچھ ہم نے ان کے بارے میں پڑھا ہے سب کا سر چشمہ افسانہ گو سیف ہے۔اور مندرجہ ذیل مصادر میں ان افسانوں کا ذکر کیا گیا ہے :

١۔ طبری نے اپنی ''تاریخ کبیر'' میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٢۔ ابو نعیم نے '' تاریخ اصفہان'' میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٣۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٤۔ حموی نے اپنی '' معجم البلدان '' میں ایک جگہ پر سند کے ذکر کے ساتھ اور دوسری جگہ پر سند کا ذکر کئے بغیر۔

٥۔ ابن اثیر نے اپنے مطلب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے

٦۔ ابن کثیر نے مطلب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے ۔

٧۔ ابن عبد البر نے سیف کی احادیث کا ایک خلاصہ سند کے ذکر کے بغیر '' استیعاب'' میں درج کیا ہے ۔

٨۔ کتاب '' اسد الغابہ'' کے مؤلف نے ''استیعاب'' سے یہ مطلب نقل کیا ہے ۔

٩۔ کتاب '' تجرید'' کے مؤلف نے اس کو '' اسد الغابہ'' اور ''استیعاب '' سے نقل کیا ہے ۔

١٠۔ کتاب '' تنقیح المقال '' کے مؤلف نے '' اسد الغابہ '' اور ''استیعاب'' سے نقل کیا ہے ۔

١١۔ کتاب '' تہذیب '' کے مؤلف نے ابن عساکر کی تاریخ سے ایک خلاصہ نقل کیا ہے ۔

۱۴۴

افسانہ کی تحقیق

زیاد بن حنظلہ کے بارے میں سیف کی حدیث کی سند کے طور پر سہل بن یوسف،ابو عثمان یزید اورمحمد جسے محمد بن عبداللہ نویرہ کہا ہے ،کے نام لئے گئے ہیں ۔اسی طرح مہلب ،جسے ابن عقبہ اسدی کہا ہے اور عبد اللہ بن سعید ثابت کا نام لیا ہے ہم نے سیف کے افسانوی سورما قعقاع اور عاصم کے افسانوں کے دوران گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا ہے ک یہ سب راوی سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ،سیف کی روایتوں کے علاوہ ان کو کہیں اور نہیں پا یا جا سکتا ۔

سیف زیاد کے بارے میں اپنی روایتوں کی سندکے طورپر''ابوزہراء قشیری'' نام کے ایک دوسرے راوی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے پیش کرتاہے کہ اس کا بھی خارج میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ہم سیف کی باتوں کے پیش نظر اس کے حالات پر بھی بحث وتحقیق کریں گے۔

اسی طرح ''عبادہ'' اور ''خالد'' نام کے دو راویوں کا نام بھی لیتاہے ۔چونکہ ان کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں ،اس لئے ان کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں رجال کی کتابوں میں تحقیق نہیں کی جاسکتی ہے ۔

پھر بھی سیف اپنی احادیث میں بعض راویوں کا اس طرح نام لیتاہے :''خاندان قشیر کے ایک شخص سے''!یا'' ایک مرد سے'' !۔ قارئین کرام سے سوال کیا جاسکتاہے کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہوسکتے ہیں ؟!

سیف نے دیگر موارد کی طرح اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے آخر چند ایسے راویوں کا بھی نام لیا ہے جو حقیقت میں وجود رکھتے ہیں لیکن چوں کہ سیف ایک جھوٹا شخص ہے اور اس کی روایتیں کسی بھی ایسے مؤرخ کے ہاں جس نے اس سے روایتوں کو نقل نہیں کیا ہے نہیں پائی جاتیں اس لئے ہم اس کے جھوٹ کے گناہوں کو ان حقیقی راویوں کے سر نہیں تھوپتے ۔

۱۴۵

آٹھواں جعلی صحابی حرملہ بن مریطہ تمیمی

شجر ۂ نسب اور خیالی مقامات

سیف بن عمر نے حرملہ کا شجرئہ نسب اس صورت میں تصور کیا ہے :

حرملہ بن مریطہ ،حنظلی ،قبیلہ ٔ عدوی اور خاندان بنی مالک بن حنظلہ تمیمی سے ہے ۔یہ قبیلہ اس کے جد ،جس کا نام '' عدویہ '' تھا ،سے معروف ہے ،جو بنی عدو رباب سے تھا۔

حرملہ ،سیف کی روایتوں میں

جعلی صحابی ،حرملہ کو ہم مندرجہ ذیل مصادر میں پاتے ہیں :

کتاب ''اسدالغابہ'' جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات اور ان کے تعارف سے مخصوص ہے میں اس طرح آیا ہے :

۱۴۶

سیف بن عمر اپنی کتاب '' فتوح'' میں حرملہ کے بارے میں لکھتا ہے :

حرملہ بن مریطہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک صحابیوں میں تھا ۔

تاریخ طبری میں آیا ہے کہ ''حرملہ '' ''عتبہ بن غزوان '' کے ساتھ بصرہ میں تھا اور عتبہ نے اسے ایرانیوں سے جنگ کے لئے '' میشان ''(۱) بھیجا ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں حرملہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک اصحاب میں سے شمار کیا ہے ۔

ابن حجر کی کتاب ''الاصابہ'' میں طبری سے نقل کرتے ہوئے اس طرح لکھا گیا ہے :

حرملہ عتبہ کے ہمراہ تاآخر

طبری کی سیف سے روایتیں نقل کرنے اور کتاب '' فتوح'' میں سیف کی درج شدہ روایتوں کے پیش نظر ابن اثیر ،ذہبی اور ابن حجر جیسے علماء میں سے ہر ایک نے حرملہ کے صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونے کے عنوان سے اس کی زندگی کے حالات جدا جدا درج کئے ہیں ۔

ذیل میں ہم طبری کا بیان پیش کرتے ہیں :

طبری نے ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

جب خلیفہ ابو بکر کی طرف سے خالد بن ولید کو عراق کی حکمرانی کا فرمان پہنچا تو اس نے حرملہ ،

سلمی ،مثنی اور مذعور(۲) جن میں سے ہر ایک کے ماتحت دو ہزار سپاہی تھے کے نام ایک خط لکھا ،اور ان سے کہا کہ (آج کے ) بصرہ کے نزدیک عراق کی سرحد پر واقع '' ابلہ'' کے مقام پر اس

____________________

۱)۔ حموی اپنی کتاب معجم البلدان میں لکھتا ہے کہ '' میشان '' ایک وسیع سرزمین کا نام ہے جو بصرہ و واسط کے درمیان تھی اور وہاں پرخرمے کے بہت سے درخت نخلستان تھے۔

۲)۔ حرملہ سیف کا جعلی صحابی ہے جس کی تحقیق میں ہمیں در پیش ہے ۔سلمی کو سیف نے'' قین'' کا بیٹا بتایا ہے کیا وہ بھی سیف کا جعل کردہ ہے ،اس میں ہمیں شک و شبہہ ہے ۔

مثنی کو سیف نے '' لاحق عجلی'' کا بیٹا بتایا ہے ۔ہم نے اس کے حالات اسی کتاب میں بیان کئے ہیں ۔ مذعورکانام سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں بھی آیا ہے لیکن سیف نے حقیقی مذعور سے غلط فائدہ اٹھاکر اپنے جھوٹ کو اس سے نسبت دی ہے ۔

۱۴۷

سے ملحق ہو جائیں ۔

چاروں سرداروں نے اطاعت کی اور اپنے ما تحت ٨ ہزار سپاہیوں کو لے کر '' ابلہ '' کی طرف روانہ ہوئے ۔خالد بھی دس ہزار جنگجو لے کر ''ابلہ'' کے مقام پر ان کے ساتھ ملحق ہو گیا۔

ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی انہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ،لیکن ان میں سے کسی ایک نے اس فوج کشی کے مقصد اور نتیجہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے اور اس موضوع کو ١٧ھ تک فراموش کردیا ہے ،جب اس سال دوبارہ ان سرداروں کا نام لیا گیا ہے ۔ کچھ معلوم نہیں کہ اس پانچ سال کی مدت کے دوران یہ ١٨ہزار سپاہی اور پانچ سپاہ سالار کہاں تھے اور کون سی ذمہ داری انجام دے رہے تھے ؟!

ہم نے اپنی جستجو اور تلاش کے دوران صرف حموی کو پایا جس نے ہمارے اس سوال کا کسی حد تک جواب دیا ہے ۔اس نے لفظ '' ورکائ'' کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

سیف نے کہا ہے کہ سب سے پہلے سوار ،جنھوں نے سر زمین ایران پر قدم رکھے ،دو نامور صحابی ،حرملہ بن مریط اور سلمی بن القین تھے ،کہ دونوں مہاجر و رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک صحابی شمار ہوتے تھے ۔

ان دو صحابیوں میں سے ہر ایک اپنے ماتحت قبائل تمیم و رباب کے چار ہزار سپاہیوں کے ہمراہ اطد ،نعمان اور جعرانہ کے علاقوں میں داخل ہوئے اور ''ورکاء '' کے مقام پر '' انوشجان'' اور ''فیومان '' سے ان کا آمنا سامنا ہوا ۔ یہاں پر واقع ہونے والی جنگ میں انھوں نے ایرانی کمانڈر وں کو شکست دی اور ''ورکائ'' پر قبضہ جمالیا اور '' ہرمزگرد '' کو ''فرات بادگلی'' تک فتح کیا ۔سلمی نے اس موضوع کو حسب ذیل اشعار میں بیان کیا ہے :

خبریں جو پھیل رہی ہیں کیا تم نے ان کو نہیں سنا کہ ''ورکائ'' میں '' انو شجان'' پر کیا گزری ؟

'' انو شجان'' کے سر پر وہی بلا نازل ہوئی جو سر زمین ''طف'' میں قتل کئے گئے ''فیومان'' پر نازل ہوئی تھی۔

۱۴۸

حرملہ نے بھی اسی سلسلے میں کہا ہے :

ہم نے ''میشان '' کے باشندوں کو اپنی تلواروں کی ضرب سے ''ورکائ'' تک پسپا کردیا ۔یہ کارنامہ ہمارے سواروں کا تھا۔

اس دن جب پہاڑوں کو بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ،ہم نے ان کے مال و ثروت کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا ۔

لہٰذا حموی کے کہنے اور سیف کی روایتوں کے مطابق اس مدت کے دوران کچھ جنگیں لڑی گئی ہیں اور کچھ قتل عام ہوئے ہیں کہ طبری نے ان کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔

حموی لفظ '' نعمان'' نامی چند جگہوں کا نام لینے کے بعد ''نعمان '' کے بارے میں لکھتا ہے :

منجملہ ،کوفہ کا ''نعمان'' صحرا کا علاقہ ہے ،سیف کہتا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے سرزمین عراق پر قدم رکھا وہ حرملہ بن مریط اور سلمی بن قین تھے جنھوں نے '' اطد'' و ''جعرانہ'' میں داخل ہونے کے بعد ''ورکائ'' پر اپنا قبضہ جما یا۔

اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے کلمہ '' نعمان '' کو صرف سیف کی حدیث میں دیکھا ہے اور اس جگہ کے وجود پر تصدیق کرتے ہوئے اس کی گواہی میں سیف کا قول نقل کیا ہے ۔

حجاز کے '' جعرانہ'' کی تشریح کے بعد لفظ ''جعرانہ'' پر حموی کی بات من عن حسب ذیل ہے :

سیف بن عمر اپنی کتاب'' فتوح '' جس کا ''ابن خاضبہ'' کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ میرے پاس موجود ہے میں اس طرح لکھتا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے جنگ کرنے کے لئے ایران کی سر زمین پر قدم رکھا، حرملہ بن مریط اور سلمی بن قین تھے کہ اطد و

یہاں وہ '' ورکائ'' کے بارے میں ذکر کئے گئے مطالب کو آخر تک نقل کرتا ہے ۔

۱۴۹

حموی ،مشابہ و مشترک نام کے مقامات سے مخصوص اپنی ایک دوسری کتاب '' المشترک '' میں لفظ '' جعرانہ'' کے بارے میں لکھتا ہے :

اس نام کی دو جگہیں معروف ہیں ،ان میں سے ایک جگہ طائف و مکہ کے درمیان '' جعرانہ'' کے نام سے ہے اور دوسری جگہ وہ ہے جس کے بارے میں سیف بن عمر نے ایک روایت کے ضمن میں کہا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے ایرانیوں سے جنگ کے لئے عراق کی سر زمین پر قدم رکھا وہ حرملہ بن مریط اور

اس کے علاوہ اسی کتاب میں لفظ '' نعمان'' کے سلسلے میں لکھتا ہے :

چھ جگہوں کو نعمان کہا جاتا ہے.....

یہاں تک کہ وہ لکھتا ہے :

''نعمان '' ایک جگہ ہے جس کے بارے میں سیف بن عمر نے ایک روایت کے ضمن میں نام لے کر کہا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے عراق کی سرزمین پر قدم رکھا حرملہ بن مریطہ و......

'' صفی الدین '' نے بھی جغرافیہ کی کتاب '' مراصد الاطلاع'' میں لکھاہے :

اطد (دو فتح کے ساتھ ) کوفہ کے نزدیک صحرا کی طرف ایک جگہ ہے ۔اسلام کے سپاہیوں نے ایرانیوں سے جنگ کے لئے سب سے پہلے اس سرزمین پر قدم رکھا۔

اور لفظ '' جعرانہ '' کے بارے میں بھی حموی کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے۔

چوں کہ سیف کے بیانات میں '' ہرمزگرد '' کا نام آیا ہے ،اس لئے حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس نام کی جگہ کے وجود پر یقین کرکے اپنی کتاب میں خصوصی طور پر اس کا اس طرح ذکر کیا ہے :

گویا سر زمین عراق میں '' ہرمزگرد '' نام کی ایک جگہ تھی ۔مسلمانوں کی فتوحات کے دنوں وہاں پر ایرانیوں اور عربوں کے درمیان ایک جنگ لڑی گئی ہے جو مسلمانوں کی فتح اور اس جگہ پر مسلمانوں کے ہاتھوں قبضہ کئے جانے پر تمام ہوئی ہے

'' صفی الدین '' بھی اسی مطلب کو اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع '' میں خلاصہ کے طور پر لکھتا ہے :

''ہرمزگرد '' عراق میں ایک علاقہ تھا ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا یہ سیف کے بیانات تھے جن کے بارے میں طبری نے کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

۱۵۰

حرملہ بن مریطہ،ایران پر حملہ کے وقت

١٧ھ کے حوادث اور '' اہواز،مناذراور نہر تیری '' شہروں کی فتح کے ضمن میں سیف کی روایت سے نقل کرکے تاریخ طبری میں سیف کے دو جعلی صحابی اور کمانڈر حرملہ و سلمی کے نام اس طرح لئے گئے ہیں :

بصرہ کے اطراف میں موجود قصبوں اور گائوں پر '' ہرمز ان '' نے کئی بار حملے کئے بالآخر بصرہ کے گورنر عتبہ بن غزوان نے عراق کے سپہ سالار سعد بن وقاص سے مدد طلب کی۔سعد نے عتبہ کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی اور ہرمزان کے شر سے نجات دلانے کے لئے حرملہ بن مریط اور سلمی بن القین کا انتخاب کیا ۔یہ دونوں قبیلہ ادویہ اور خاندان حنظلہ تمیمی سے تعلق رکھتے تھے اور مہاجر وں میں سے اور نیک محسوب ہوتے تھے حرملہ اور سلمی نے علاقہ میشان ، دشت میشان اور مناذر کے آس پاس پڑائو ڈلا اور قبیلہ '' بنی عم '' یعنی مالک کے بیٹوں سے مدد طلب کی ۔

یہاں پر طبری سیف سے ایک اور افسانہ نقل کرتے ہوئے مذکورہ خاندان کو خاندان '' بنی عم'' کہنے کا سبب بیان کرتا ہے :

سیف کہتا ہے :

'' مرة بن مالک بن حنظلہ '' جسے '' عمّی '' کہتے تھے اور قبیلہ ٔ بنی عم اس کی اولاد ہیں خاندان ''معد کے بے نام و نشان اور غیر معروف گروہ نے آکر ان کے نزدیک پڑائو ڈالا۔

'' مرة'' اس گروہ کے ساتھ ایران چلا گیا اور اس نے ایرانیوں کی مدد کا اعلان کیا ۔مرہ کا یہ کام اس کے بھائی کے لئے مشکل گزرا اور اس نے چند اشعار میں اس کی اس طرح سرزنش کی ہے :

مرہ نے جو کام انجام دیا ،وہ اندھا اور بہرہ ہو چکا تھا اور اس نے اپنے خاندان کی فریاد نہیں سنی۔

وہ ہمارے خاندان کی سرزمین سے چلا گیا اور ملک وبرتری پانے کے لئے ایران چلا گیا ۔ اسی وجہ سے ''مرہ '' کو '' عمی'' یعنی اندھا کہا جاتا تھا اور اور یہی نام اس کے بیٹوں پر باقی رہا ۔یربوع بن مالک اس سلسلے میں کہتا ہے :

قبائل ''معد '' جانتے ہیں کہ اپنی ذات پر فخر کرنے کے دن ہم اس قسم کی تابندگی کے مستحق تھے ہم ایرانی صحرا نشینوں کو بھگا کر سر بلندی حاصل

۱۵۱

کر چکے ہیں ۔

اگر اس وقت عربوں کے افتخارات کا دریا موجیں مارے تو ہم ان سب دریائوں سے سربلند و سرفراز ہیں ۔

امریٔ القیس کے نواسہ ایوب بن عصبہ نے بھی یوں اشعار کہے ہیں :

ہم نے شرف و فضیلت حاصل کرنے میں قبائل عرب پر سبقت حاصل کی ہے اور ہم نے جان بوجھ کر یہ کام انجام دیا ہے ۔

ہم ایسے بادشاہ تھے جنھوں نے اپنے اسلاف کو سربلندی عطا کی ہے اور ہر زمانہ کے بادشاہوں کی بیویوں کو اسیر کیا ہے ۔

طبری نے سیف کے اپنے افسانہ کو جاری رکھتے ہوئے حرملہ و سلمی کے قبیلہ بنی عم سے مدد طلب کرنے کے سلسلہ میں لکھا ہے :

خاندان تمیم کے '' غالب وائلی '' اور کلیب وائلی کلبی نام کے دوسرداروں نے حرملہ اور سلمی کو مثبت جواب دیا اور ان کے پاس گئے اور ایک گفتگو کے ضمن میں ان سے کہا:

چوں کہ آپ عرب اور ہمارے خاندان سے ہیں اس لئے ہم آپ کی مدد سے انکار نہیں کر سکتے !

دوسری طرف ایرانیوں نے خاندان بنی عم پر مکمل اعتماد کر رکھا تھا اور تصور نہیں کرتے تھے کہ وہ کبھی ان کے دشمنوں یعنی عربوں سے رابطہ قائم کرکے کوئی سازش کریں گے ،کیوں کہ وہ ایران میں سکونت اختیار کر چکے تھے اور خوزستان کے علاقہ کو اپنا وطن جانتے تھے !

خاندان '' بنی عم'' کے سرداروں نے ایرانیوں کے اپنے بارے میں اس حسن ظن سے فائدہ اٹھا کر حرملہ اور سلمی کو تجویز دی کہ فلاں دن اور فلاں علامت سے '' ہرمزان '' پر حملہ کریں اور اسی دن ہم میں سے ایک '' مناذر'' پر اور دوسرا '' نہرتیری'' پر حملہ کرے گا اور اس طرح دشمن کو شکست دیتے ہوئے آپ لوگوں سے آملیں گے اور ہرمزان کو پیچھے سے کمزور بنادیں گے۔

اس جنگی نقشہ کو مرتب کرنے کے بعد ''غالب ''اور ''کلیب ''اپنے قبیلہ ''بنی عم''میں آگئے اور اپنے منصوبہ سے قبیلہ والوں کو آگاہ کیا اور اس سلسلے میں ان کی موافقت ومنظور ی حاصل کی۔

۱۵۲

جب وعدے کی رات آپہنچی تو دوسرے دن صبح ہوتے ہی حرملہ اور سلمی نے اپنی فوج کو منظم کیا اور ہر مزان پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوئے اور ایک سخت جنگ کا آغاز کیا۔

اسی دوران ''کلیب''اور ''غالب''،''نہرتیری ''اور ''مناذر'' پر قبضہ کرکے ''حرملہ'' اور ''سلمی'' کی مدد کے لئے آگئے ۔جب ''مناذر'' اور ''نہرتیری'' کے ہاتھ سے چلے جانے کی خبر ''ہرمزان'' اور اس کے سپاہیوں کو پہنچی تو وہ جنگ میں یأس و ناامید ی سے دو چار ہوئے اور شکست کھا کر پسپائی اختیار کی ۔اسلامی فوج نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کے سپاہیوں کا ایسا قتل عام کیا کہ ان کے کشتوں کے پشتے لگ گئے اور کافی مقدار میں مال غنیمت حاصل کیا۔

''ہرمزان '' میدان جنگ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا اور اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اہواز کے پل سے عبور کر گیا اس نے دریاکو اپنے اور مسلمانوں کے درمیان پناہ قرار دے کر مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی ۔مسلمانوں نے اس کی یہ درخواست منظور کی اور '' ہرمزان'' اور'' حرملہ ''و ''سلمی'' کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اور اس پر طرفین نے دستخط کئے اس طرح اس معاہدہ کے مطابق دریائے کارون کے ساحل تک کا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔

ان مطالب کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور ابن اثیر و ابن خلدون نے بھی طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

حموی اپنی کتاب معجم البلدان میں لفظ '' مناذر'' کے سلسلے میں لکھا ہے :

''مناذر '' کا نام سیف کی کتاب ''فتوح'' اور ''خوارج'' دونوں میں آیا ہے ۔مؤرخین کے مطابق داستان اس طرح ہے :

١٨ھ میں جب '' عتبہ بن غزوان'' بصرہ کا گورنر تھا ،اس نے '' سلمی بن القین '' اور ''حرملہ بن مریطہ'' نامی دونامور سپہ سالاروں کو مأموریت دی کہ میشان اور صحرائے میشان پر لشکر کشی کریں اور مناذر و تیری کو اپنے قبضہ میں لے لیں ۔یہ دونوں شخص مہاجر ین و اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمرے میں تھے اور خاندان عدویہ بنی حنظلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کی داستان طولانی ہے ۔

۱۵۳

''حصین بن نیار حنظلی'' نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا میری معشوقہ کو معلوم ہے کہ سرزمین مناذر کے مردوں کو موت کے گھاٹ اتار نے کے بعد ہمارا دل ٹھنڈا ہو اہے ؟

انھوں نے ''دلوث'' کے علاقہ کی بلندی سے ہماری فوج کے ایک سوار دستہ کو دیکھا اور اس کی شأن و شوکت کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چکا چوندھ ہو گئیں ۔

ہم نے ان سب کو نخلستانوں میں اور دریائے دجلہ کے کنارے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

وہ یہاں پر صور اسرافیل بجنے تک رہیں گے ،چوں کہ ہمارے گھوڑوں کے سموں نے اس سرزمین کو ہموار بنادیا ہے ۔

یہی عالم حموی لفظ ''تیری'' کے سلسلے میں لکھتا ہے :

''تیری'' ایک شہر کا نام ہے جسے فتح کرنے کے لئے ١٨ھمیں ''عتبہ بن غزوان'' کی طرف سے ''حرملہ بن مریطہ'' اور'' سلمی بن قین '' مأمور کئے گئے تھے ۔اور اسے انھوں نے اسی سال فتح کیا '' غالب بن کلیب '' نے اس سلسلے میں درج ذیل اشعار لکھے ہیں :

جس دن کلیب نے '' تیری'' کے لوگوں کو ذلیل و خوار کیا ہم مناذر کی جنگ میں جان ٹوڑ کوشش کر رہے تھے ۔

ہم نے ''ہرمزان'' اور اس کے لشکر جرار کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور ان کی آبادیوں کی طرف حملہ کیا جو کھانے پینے کی چیزوں سے بھری تھیں ۔

جی ہاں !سیف نے یہ اشعار غالب تمیمی کی زبان پر جاری کئے ہیں تاکہ ایران کے دو شہر وں کی فتح کا افتخار قبیلہ تمیم کے نام ثبت کرے ،جب کہ طبری نے سیف کی روایتوں کو نقل کرتے وقت اپنی روش کے مطابق ان اشعار کو درج نہیں کیا ہے ۔

۱۵۴

دربار خلیفہ میں حاضری ،اور اہواز کا زوال

طبری نے سیف بن عمر سے روایت کی ہے کہ ان فتوحات کے بعد '' عتبہ بن غزوان'' نے مناذر کی فوجی چھاونی کی کمانڈ '' سلمی بن قین'' کو سونپی اور اس شہر کی حکمرانی '' غالب'' کے سپرد کی ۔ اس کے علاوہ ''تیری'' کی فوجی چھاونی کی کمانڈ ''حرملہ بن مریط'' کے حوالہ کی اور شہر '' تیری'' کی زمام حکومت کلیب کے ہاتھ میں دی ۔

طبری نے سیف کی زبانی اس تخلیق کردہ شہر تیری اور مناذر کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈ اور شہروں کی حکومت کے عہد ے اس کے افسانوی اور فرضی افراد میں تقسیم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے سیف کے افسانے کو اس طرح آگے بیان کیا ہے :

''بنی العم'' کے بعض خاندان خوزستان سے ہجرت کرکے بصرہ اور اس کے اطراف میں رہائش اختیار کرتے ہیں ۔انہی دنوں بصرہ کا گورنر عتبہ بن غزوان ان مہاجرین کے ایک گروہ کو قبیلہ ''بنی العم'' کی نمایندگی کی حیثیت سے انتخاب کرکے خلیفہ عمر کی خدمت میں روانہ کرتا ہے ۔سلمی اور حرملہ بھی اس وفد کے ارکان تھے ۔عتبہ بن غزوان نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ خلیفہ کے حضور جانے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کریں اور اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر کریں تاکہ آپ لوگوں کی عدم موجودگی میں آپ لوگوں کے زیر حکومت علاقوں کی سرپرستی کا کام ٹھپ نہ ہو جائے ۔

یہاں پر طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے پھر اس بات کی تکرار و تاکید کرتا ہے کہ یہ دو سپہ سالار حرملہ و سلمی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی تھے ۔

۱۵۵

طبری اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

نمائندوں کا وفد خلیفہ عمر کے حضور پہنچا۔ اسی ملاقات میں قبیلہ ''بنی العم'' کے افراد نے اس قبیلہ کی بد حالی کی ایک مفصل رپورٹ خلیفہ کی خدمت میں پیش کی اور خلیفہ نے بھی ان کے ناگفتہ بہ حالات کو سد ھار نے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے بادشاہوں کی سرکاری زمینوں کو قبیلہ ''بنی العم''میں تقسیم کردیا جائے۔

طبری اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے:

ہرمزان نے صلح نامہ کے عہد و پیمان کو توڑ کر جنگ کے لئے کردوں سے مدد طلب کی اور ایک بڑا لشکر آراستہ کیا۔

حرملہ اور سلمی نے اس صورت حال کے بارے میں قبل از وقت اطلاع حاصل کرکے اس کی رپورٹ عتبہ کو دیدی۔عتبہ نے بھی ان حالات کے بارے میں خلیفہ کی خدمت میں رپورٹ بھیجی۔

خلیفہ عمر نے ''ہرمزان'' کی گوشمالی کرنے اور علاقہ میں امن و امان برقرار کرنے کے لئے ''حرقوص بن زہیر سعدی'' جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا کو ایک سپاہ کی کمانڈ سونپ کر مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا اور خاص طور پر تاکید کی، کہ ان شہروں کو آزاد کرنے کے بعد ''حرقوص'' خود ان شہروں کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے!!

''حرقوص '' نے حرملہ، سلمی، کلیب اور غالب کی حمایت اور مدد سے اہواز کی طرف لشکر کشی کی اور ''سوق اہواز ''کے مقام پر ''ہرمزان '' سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور وہیں پر جنگ چھڑگئی۔

سر انجام ''ہرمزان'' نے اس جنگ میں شکست کھا کر ''رامہرمز'' کی طرف پسپائی اختیار کی ۔ ''حر قوص'' نے اہواز پر قبضہ کیا اور اسی جگہ کو اپنی فوجی کمانڈ کا صدر مقام قرار دیا۔ ان کے فوجی دستوں نے اس علاقہ کے تمام مناطق کو ''تستر'' (شوشتر) تک اپنے قبضے میں لے لیا۔ حرقوض نے فتح ہوئے شہروں کے باشندوں پر ٹیکس معین کیا اور اپنے نمایندے مقرر کئے اور غنائم کے پانچویں حصہ کو فتوحات کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ کے ساتھ خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا۔

۱۵۶

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی ''اسعد بن سریع '' نے اس سلسلے میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

تیری جان کی قسم !ہمارے خاندان والوں کو جو بھی ذمہ داری سونپی گئی، انہوں نے اسے قبول کر کے امانتداری کا ثبوت دیاہے۔

انھوں نے اپنے پر ور دگار کی فرمانبرداری کی ہے جب کہ دوسروں نے نافرمانی کر کے اس کے احکام کی تعمیل نہیں کی۔

مجوسیوں جنھیں کتاب یا کوئی فرمان برائیوں سے دور نہیں رکھتا تھا کا ہمارے سواروں کے ایک گروہ سے سامنا ہوا، اور اس گروہ نے انھیں ذلیل و خوار کرکے رکھدیا ۔

''ہرمزان'' ہمارے ساتھ جنگ میں اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر فرار کر گیا اور ہمارے سپاہیوں نے اس کا پیچھا کیا ۔

وہ اپنی سرگرمیوں کے مرکز اہواز کو چھوڑ کر بھاگ گیا جب کہ بہار نے وہاں ابھی قدم رکھے تھے۔

اور '' حرقوص بن زہیر سعدی '' نے بھی اس سلسلہ میں کہا ہے :

ہم نے خزانوں سے بھری سرزمینوں پر قبضہ کیا اور ''ہرمزان'' پر فتح پائی۔

اس کے خشکی والے اور آبی علاقوں کو فتح کیا اور اس کے مال و متاع اور نایاب میوؤں پر بھی قبضہ کرلیا۔

وہ ایک وسیع سمندر کا مالک تھا جس کے دونوں طرف پر تلاطم دریا بہہ رہے تھے۔

سیف کی یہی باتیں سبب بنی ہیں کہ اس کے ذہن کی پیدا وار ''حرقوص'' بھی اس کے دوسرے جعلی صحابیوں کی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار پائے اور علماء اس کی زندگی کے حالات پر تفصیلات لکھیں !

ملاحظہ ہو ابن اثیر اس کے بارے میں کیا لکھتا ہے:

طبری نے اس (حرقوص) کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے:

۱۵۷

خوزستان کے گورنر ہرمزان نے اپنے عہد و پیمان کی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے نافرمانی اور گناہ کی راہ اختیار کی اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کی۔ سلمی اور حرملہ نے حالات اورحقائق کے بارے میں عتبہ کو رپورٹ دی اور

یہاں تک کہ لکھتا ہے :

وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا۔

ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید'' میں اور ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں ابن اثیر کی پیروی کرتے ہوئے ''حرقوص'' کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں شمار کیا ہے۔

ہم ایک بار پھر طبری کی بات پر توجہ کرتے ہیں اور سیف کے دو جعلی اور جھوٹے صحابی ''حرملہ'' و ''سلمی'' کی سرنوشت سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ''رامہرمز'' اور ''تستر''کی فتح اور ١٧ ھ کے حوادث کے ضمن میں اس طرح لکھا ہے:

ساسانی بادشاہ ''یزد گرد ''نے ایرانوں کے قوی جذبات کو بھڑکاکر ان سے اپنے حق میں مدد حاصل کرنے کے لئے ملک کے اطراف واکناف میں خطوط بھیجے ۔

سلمی اور حرملہ نے یزد گرد کے ان اقدامات اور سرگر میوں کے بارے میں خلیفہ اور بصرہ کے مسلمانوں کو رپورٹ بھیجی ۔خلیفہ عمر نے کوفہ کے گورنر سعد بن وقاص کو حکم دیا کہ ''نعمان ''کی قیادت میں ایک عظیم سپاہ تشکیل دے کر مسلمانوں کی مدد کے لئے روانہ کرے ۔سعد نے حکم کی تعمیل کی اور ''نعمان'' ایک عظیم سپاہ لے کرایران کی طرف روانہ ہو ااور اس نے '' سوق اہواز'' میں پڑائو ڈالا ۔اس کے بعد حرقوص ،سلمی اور حرملہ کو وہاں پر معین کرکے خود '' اربک'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر ہرمزان سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس کے ساتھ ایک گھمسان کی جنگ ہوئی سر انجام ہرمزان نے اس جنگ میں شکست کھانے کے بعد ''رامہرمز '' سے بھاگ کر '' تستر'' تک پسپائی اختیار کی ۔نعمان نے حرقوص، حرملہ اور سلمی کے ہمراہ اس کا پیچھا کیا اور تستر (شوشتر) کے اطراف میں اس کے نزدیک پہنچے اور

۱۵۸

پھر طبری ، ٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں مزید لکھتا ہے :

جس زمانے میں خلیفہ عمر نے فرمان جاری کیا کہ ''نعمان '' ایک سپاہ لے کر ایران پر لشکر کشی کرے ۔اور ساتھ ہی ایک خط کے ذریعہ سلمی بن قین ،حرملہ بن مریط اور دیگر فوجی سرداروں کوجو پارس و اہواز کے درمیان فوجی کیمپ بنائے ہوئے تھے حکم دیا کہ اپنی حکمرانی کے تحت لوگوں اور علاقوں کو آگاہ و آمادہ کریں کہ وہ مسلمانوں پر ایرانیوں کے حملوں کو روکیں اور اس امر کی تاکید کی کہ اس کے دوسرے حکم کے پہنچنے تک پارس و اہواز کے علاقوں کی سرحدوں کا پورا خیال رکھتے ہوئے مسلسل حفاظت کرتے رہیں ۔

یہ حکم اس امر کا سبب بنا کہ نہاوند میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں کو مزید کمک اور مدد پہنچنے میں قطعی طور پر رکاوٹ پڑ گئی اس موضوع کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے اور دوسرے مورخین ،جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے اس سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۱۵۹

بحث کا خلاصہ

سیف کے کہنے کے مطابق خالد بن ولید عراق کا گورنر بن جاتا ہے اور حرملہ ،سلمی اور مذعور کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے ماتحت فوجیوں کے ساتھ '' ابلہ '' کے مقام پر اس سے ملحق ہو جائیں ۔ان میں سے ہر ایک کی کمانڈ میں دو ہزار سپاہی تھے اور دونوں خالد کی دعوت قبول کرتے ہیں ۔حرملہ اور سلمی نیک اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی تھے ،وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے سب سے پہلے ایران کی سر زمین پر قدم رکھے اور ہر ایک نے اپنی کمانڈ میں خاندان تمیم و رباب کے چار ہزار سپاہی لے کر اطد ،نعمان اور جعرانہ کے علاقہ میں پڑائو ڈالا اور '' انوشہ جان '' اور'' فیومان'' کی کمانڈ میں موجود ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوئے اور انھیں شکست دے کر '' ورکائ'' کو '' فرات باذقلی '' تک اپنے قبضہ میں لے لیا ''حرملہ'' و ''سلمی '' نے اس سلسلے میں رزمیہ اشعار کہے ہیں ۔

اس کے بعد سیف کے کہنے کے مطابق چوں کہ '' ہرمزان '' بصرہ کے اطراف میں حملہ کرتا ہے اس لئے '' عتبہ بن غزوان'' سلمی اور حرملہ کو اس کے ساتھ مقابلہ کے لئے انتخاب کرتا ہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ '' میشان '' کے نزدیک اس طرح اپنا کیمپ لگائیں کہ صحرائے میشان کو اپنے اور مناذر کے درمیان قرار دیں ۔وہ مزید حکم دیتا ہے کہ یہاں پر دو نوں سردار اور خاندان بنی عم سے ایک شخص دشمن کے حملہ کو روکنے میں اسلامی فوج کی مدد کریں ۔اس کے بعد سیف کہتا ہے کہ خاندان بنی عم کے افراد جو '' مرة بن مالک حنظلہ '' سے تعلق رکھتے ہیں ،اس لئے '' بنی عم '' کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان سے منہ موڑ کر ایران کی طرف مہاجرت کر گئے تھے اور انھوں نے ایرانیوں کی مدد کی تھی اور ایرانی ان پر کافی اعتماد کرتے تھے ۔

بہر حال ،غالب اور کلیب قبیلۂ بنی عم کے اس وقت سردار تھے ،یہ دونوں حرملہ کے پاس آکر اس سے کہتے ہیں : تم ہمارے خاندان سے ہو اور ممکن نہیں ہے کہ ہم تمھاری مدد نہ کریں ۔طے یہ پاتا ہے کہ ان میں سے ایک مناذر و نہرتیری پر حملہ کرکے ہرمزان کو پیچھے سے کمزور کرے اور سلمی و حرملہ بھی صحرائے میشان کی طرف حملہ کرکے ہرمزان سے بنرد آزما ہو جائیں ۔

اس کے بعد غالب اور کلیب اپنے قبیلے کی طرف لوٹتے ہیں اور اپنے خاندان والوں کو روئداد سے آگاہ کرتے ہیں اور ان سے اس نقشہ پر عملی جامہ پہنانے کی منظوری لیتے ہیں ۔

۱۶۰