ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب10%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138178 / ڈاؤنلوڈ: 4301
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ہم نے نہ ''عاص بن تمام '' سے زیاد کے بارے میں کوئی روایت پائی اور نہ خود ''عاص'' کو رجال و روات کے حالات میں لکھی گئی کتابوں میں سے کسی ایک میں پایا۔

لیکن زیاد کے بیٹے حنظلہ کا اگر چہ مصادر اور رجال کی کتا بوں میں کہیں نام نہیں ملتا پھر بھی ہم نے اس سے مربوط سیف کی جعل کردہ دو روایتیں پائیں جو سند اور متن کے جملوں کی ترتیب کی رو سے سیف کی تحریر کی شہادت دیتی ہیں ۔

ابن عساکر نے ''زیاد بن حنظلہ'' کی روایت کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے پہلی روایت بیان کی ہے تا کہ اس سے اپنی بات کی دلیل کے طور پر پیش کرے ۔ ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے یہ روایت اس طرح بیان کی ہے:

سیف بن عمر نے عبد اللہ سے اس نے حنظلہ بن زیاد سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ جب ابوبکر بیمار تھے توخالد بن ولید نے عراق سے شام کی طرف فوج کشی کی...تا آخر

دوسری روایت کو طبری فتح ''ابلّہ'' کی داستان کے بعد اور ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر سے نقل کر کے یوں بیان کیاہے:

سیف بن عمر نے محمد نویرہ سے اس نے حنظلہ بن زیاد سے اور اس نے اپنے باپ زیاد بن حنظلہ سے روایت کی ہے کہ خالد بن ولید نے وہاں کی فتح کی نوید ایک ہاتھی اور مال غنیمت کے پانچویں حصے کے ساتھ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجی۔

شہر مدینہ کی گلی کوچوں میں ہاتھی کی نمائش کی گئی ۔کم علم عورتیں ہاتھی کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کہتی تھیں : کیا خدا نے ایسی عجیب و غریب مخلوق کو پیدا کیا ہے ؟!وہ تصور کرتی تھیں کہ یہ موجود انسان کی مخلوق ہے ۔ اس کے بعد ابوبکر کے حکم سے ہاتھی کو واپس بھیج دیا گیا۔

۱۴۱

اس روایت کے بعد طبری کہتا ہے :

فتح '' ابلہ '' کی یہ داستان ان مطالب کے بر خلاف ہے جو تاریخ نویسوں اور علماء نے اس سلسلے میں بیان کی ہیں یا صحیح روایتوں میں ذکر ہوئی ہیں ۔سیف کے ان مطالب کا حقیقی واقعہ اور فتح ''ابلہ'' کی اصل داستان سے مغایرت اور ناموافق ہونے کے سلسلے میں طبری کے واضح اعتراف کے علاوہ ہاتھی کے افسانہ نے سیف کے جھوٹ کو اور بھی ننگا کرکے رکھ دیا ہے ۔کیوں کہ ہاتھی کا موضوع اور مکہ و خانہ خدا پر ابرہہ کے حملہ میں ہاتھی کی یاد ابھی لوگوں کی ذہنوں میں موجود تھی اس لئے یہ ایسا امر نہیں تھا کہ مدینہ کی عورتیں ہاتھی کو دیکھ کر تعجب اور حیرت میں پڑتیں اور وہ اس عظیم الجثہ حیوان کو دیکھ کر چہ میگوئیاں کرتیں !اور اسے بشر کی تخلیق جانتیں ۔ہاتھی کا موضوع اور مکہ پر قبل از اسلام ہاتھیوں کے ساتھ ابرہہ کا حملہ ایک تاریخی واقعہ تھا اور لوگ حوادث و واقعات کو اسی واقعہ کے حوالہ سے یاد کرتے تھے اور انھیں اسی واقعہ کے قبل یابعد یعنی عام الفیل سے حساب کرتے تھے ۔اس کے علاوہ مدینہ کی عورتوں نے بارہا قرآن مجید میں سورہ فیل کو پڑھا یا سنا تھا یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے حیوان سے ناآشنا ہوں ۔اس کے باوجود سیف نے ایسا افسانہ گڑھ کے لوگوں کا مذاق اڑایا ہے !

سیف سے کسی نے یہ نہیں پوچھا ہے اور خود اس نے بھی یہ نہیں بتایا ہے کہ مدینہ سے واپس کئے جانے کے بعد ہاتھی پر کیا گزری اور تقدیر نے اسے کہاں پہنچایا !؟لیکن قوی احتمال یہ ہے کہ سیف نے اس ہاتھی کے تعجب انگیز افسانہ کو گڑھ کے اور اسے خالد بن ولید مضری کی طرف سے جنگی غنائم کے طور پر مضری خلیفہ کی خدمت میں بھیج کر اپنے خاندانی تعصبات کے مد نظر افتخارات حاصل کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے اور ہاتھی کے بارے میں اس کے بعد کوئی فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہے ۔اس لئے بیچارے ہاتھی کو خدا کی امان پر چھوڑ دیا ہے تاکہ جہاں چاہے چلا جائے ۔

۱۴۲

ہم نے سیف کے اس قسم کے افسانے گڑھنے کے محرک کی طرف گزشتہ بحثوں میں مکرر اشارہ کیا ہے اور یہاں اس کی تکرار کو ضروری نہیں سمجھتے ۔

اس طرح جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی صحابی کے لئے دو روایتیں جعل کی ہیں اور اس کے لئے حنظلہ نام کا ایک بیٹا بھی تخلیق کیا ہے تاکہ اس کی یہ روایتیں اس کی زبانی دہرائی جائیں ۔

افسانہ کا ماحصل

١۔ زیاد بن حنظلہ سے اس کے بیٹے حنظلہ کی زبانی دو روایتیں بیان کرائی ہیں تاکہ حدیث کی کتابوں کی زینت بنیں ۔

٢۔ افسانوی زیاد کے لئے ایک بیٹا ثابت کیا ہے تاکہ اسے خاندان تمیم کے تابعین میں قرار دے اور ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء سیف کے جھوٹ کو سچ سمجھ کر اپنی کتابوں میں لکھیں کہ حنظلہ نے اپنے باپ زیاد سے اس طرح روایت کی ہے ۔

خلاصہ

آخر کار سیف بن عمر ایک مہاجر ،دلاور ،نامور سپہ سالار ،رزمیہ شاعر ،احادیث کا راوی اور حضرت امام علی علیہ السلام کی خدمت میں ایک با نفوذ '' زیاد بن حنظلہ '' نامی ایک صحابی کوخلق کرکے اپنے خاندان تمیم کو چار چاند لگا کر ناز کرتا ہے !

اس کے لئے ایک بیٹا بھی خلق کرتا ہے اور اس کا نام حنظلہ رکھتا ہے تاکہ ایک معروف صحابی باپ کے بعد وہ تابعین میں ایک پارسا شخص اور راوی کی حیثیت سے اپنے باپ کا جانشین بن سکے اور خاندان سیف کے افتخارات کو آگے بڑھا ئے اور خاندان تمیم،زیاد اور حنظلہ نام کے ان باپ بیٹوں اور حنظلہ تمیمی جیسے ان کے جد کے وجود کے سبب دوسرے قبیلوں خاص کر قحطانی یمانیوں پر افتخار کرے۔

۱۴۳

ان افسانوں کا سر چشمہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ زیاد اور اس کے بیٹے حنظلہ کے حالات اور جو کچھ ہم نے ان کے بارے میں پڑھا ہے سب کا سر چشمہ افسانہ گو سیف ہے۔اور مندرجہ ذیل مصادر میں ان افسانوں کا ذکر کیا گیا ہے :

١۔ طبری نے اپنی ''تاریخ کبیر'' میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٢۔ ابو نعیم نے '' تاریخ اصفہان'' میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٣۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٤۔ حموی نے اپنی '' معجم البلدان '' میں ایک جگہ پر سند کے ذکر کے ساتھ اور دوسری جگہ پر سند کا ذکر کئے بغیر۔

٥۔ ابن اثیر نے اپنے مطلب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے

٦۔ ابن کثیر نے مطلب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے ۔

٧۔ ابن عبد البر نے سیف کی احادیث کا ایک خلاصہ سند کے ذکر کے بغیر '' استیعاب'' میں درج کیا ہے ۔

٨۔ کتاب '' اسد الغابہ'' کے مؤلف نے ''استیعاب'' سے یہ مطلب نقل کیا ہے ۔

٩۔ کتاب '' تجرید'' کے مؤلف نے اس کو '' اسد الغابہ'' اور ''استیعاب '' سے نقل کیا ہے ۔

١٠۔ کتاب '' تنقیح المقال '' کے مؤلف نے '' اسد الغابہ '' اور ''استیعاب'' سے نقل کیا ہے ۔

١١۔ کتاب '' تہذیب '' کے مؤلف نے ابن عساکر کی تاریخ سے ایک خلاصہ نقل کیا ہے ۔

۱۴۴

افسانہ کی تحقیق

زیاد بن حنظلہ کے بارے میں سیف کی حدیث کی سند کے طور پر سہل بن یوسف،ابو عثمان یزید اورمحمد جسے محمد بن عبداللہ نویرہ کہا ہے ،کے نام لئے گئے ہیں ۔اسی طرح مہلب ،جسے ابن عقبہ اسدی کہا ہے اور عبد اللہ بن سعید ثابت کا نام لیا ہے ہم نے سیف کے افسانوی سورما قعقاع اور عاصم کے افسانوں کے دوران گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا ہے ک یہ سب راوی سیف کی خیالی تخلیق ہیں اور حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے ،سیف کی روایتوں کے علاوہ ان کو کہیں اور نہیں پا یا جا سکتا ۔

سیف زیاد کے بارے میں اپنی روایتوں کی سندکے طورپر''ابوزہراء قشیری'' نام کے ایک دوسرے راوی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے پیش کرتاہے کہ اس کا بھی خارج میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ہم سیف کی باتوں کے پیش نظر اس کے حالات پر بھی بحث وتحقیق کریں گے۔

اسی طرح ''عبادہ'' اور ''خالد'' نام کے دو راویوں کا نام بھی لیتاہے ۔چونکہ ان کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں ،اس لئے ان کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں رجال کی کتابوں میں تحقیق نہیں کی جاسکتی ہے ۔

پھر بھی سیف اپنی احادیث میں بعض راویوں کا اس طرح نام لیتاہے :''خاندان قشیر کے ایک شخص سے''!یا'' ایک مرد سے'' !۔ قارئین کرام سے سوال کیا جاسکتاہے کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہوسکتے ہیں ؟!

سیف نے دیگر موارد کی طرح اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے آخر چند ایسے راویوں کا بھی نام لیا ہے جو حقیقت میں وجود رکھتے ہیں لیکن چوں کہ سیف ایک جھوٹا شخص ہے اور اس کی روایتیں کسی بھی ایسے مؤرخ کے ہاں جس نے اس سے روایتوں کو نقل نہیں کیا ہے نہیں پائی جاتیں اس لئے ہم اس کے جھوٹ کے گناہوں کو ان حقیقی راویوں کے سر نہیں تھوپتے ۔

۱۴۵

آٹھواں جعلی صحابی حرملہ بن مریطہ تمیمی

شجر ۂ نسب اور خیالی مقامات

سیف بن عمر نے حرملہ کا شجرئہ نسب اس صورت میں تصور کیا ہے :

حرملہ بن مریطہ ،حنظلی ،قبیلہ ٔ عدوی اور خاندان بنی مالک بن حنظلہ تمیمی سے ہے ۔یہ قبیلہ اس کے جد ،جس کا نام '' عدویہ '' تھا ،سے معروف ہے ،جو بنی عدو رباب سے تھا۔

حرملہ ،سیف کی روایتوں میں

جعلی صحابی ،حرملہ کو ہم مندرجہ ذیل مصادر میں پاتے ہیں :

کتاب ''اسدالغابہ'' جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات اور ان کے تعارف سے مخصوص ہے میں اس طرح آیا ہے :

۱۴۶

سیف بن عمر اپنی کتاب '' فتوح'' میں حرملہ کے بارے میں لکھتا ہے :

حرملہ بن مریطہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک صحابیوں میں تھا ۔

تاریخ طبری میں آیا ہے کہ ''حرملہ '' ''عتبہ بن غزوان '' کے ساتھ بصرہ میں تھا اور عتبہ نے اسے ایرانیوں سے جنگ کے لئے '' میشان ''(۱) بھیجا ۔

ذہبی نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں حرملہ کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک اصحاب میں سے شمار کیا ہے ۔

ابن حجر کی کتاب ''الاصابہ'' میں طبری سے نقل کرتے ہوئے اس طرح لکھا گیا ہے :

حرملہ عتبہ کے ہمراہ تاآخر

طبری کی سیف سے روایتیں نقل کرنے اور کتاب '' فتوح'' میں سیف کی درج شدہ روایتوں کے پیش نظر ابن اثیر ،ذہبی اور ابن حجر جیسے علماء میں سے ہر ایک نے حرملہ کے صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونے کے عنوان سے اس کی زندگی کے حالات جدا جدا درج کئے ہیں ۔

ذیل میں ہم طبری کا بیان پیش کرتے ہیں :

طبری نے ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر سے نقل کرکے کچھ مطالب لکھے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

جب خلیفہ ابو بکر کی طرف سے خالد بن ولید کو عراق کی حکمرانی کا فرمان پہنچا تو اس نے حرملہ ،

سلمی ،مثنی اور مذعور(۲) جن میں سے ہر ایک کے ماتحت دو ہزار سپاہی تھے کے نام ایک خط لکھا ،اور ان سے کہا کہ (آج کے ) بصرہ کے نزدیک عراق کی سرحد پر واقع '' ابلہ'' کے مقام پر اس

____________________

۱)۔ حموی اپنی کتاب معجم البلدان میں لکھتا ہے کہ '' میشان '' ایک وسیع سرزمین کا نام ہے جو بصرہ و واسط کے درمیان تھی اور وہاں پرخرمے کے بہت سے درخت نخلستان تھے۔

۲)۔ حرملہ سیف کا جعلی صحابی ہے جس کی تحقیق میں ہمیں در پیش ہے ۔سلمی کو سیف نے'' قین'' کا بیٹا بتایا ہے کیا وہ بھی سیف کا جعل کردہ ہے ،اس میں ہمیں شک و شبہہ ہے ۔

مثنی کو سیف نے '' لاحق عجلی'' کا بیٹا بتایا ہے ۔ہم نے اس کے حالات اسی کتاب میں بیان کئے ہیں ۔ مذعورکانام سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں بھی آیا ہے لیکن سیف نے حقیقی مذعور سے غلط فائدہ اٹھاکر اپنے جھوٹ کو اس سے نسبت دی ہے ۔

۱۴۷

سے ملحق ہو جائیں ۔

چاروں سرداروں نے اطاعت کی اور اپنے ما تحت ٨ ہزار سپاہیوں کو لے کر '' ابلہ '' کی طرف روانہ ہوئے ۔خالد بھی دس ہزار جنگجو لے کر ''ابلہ'' کے مقام پر ان کے ساتھ ملحق ہو گیا۔

ابن اثیر اور ابن خلدون نے بھی انہی مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ،لیکن ان میں سے کسی ایک نے اس فوج کشی کے مقصد اور نتیجہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے اور اس موضوع کو ١٧ھ تک فراموش کردیا ہے ،جب اس سال دوبارہ ان سرداروں کا نام لیا گیا ہے ۔ کچھ معلوم نہیں کہ اس پانچ سال کی مدت کے دوران یہ ١٨ہزار سپاہی اور پانچ سپاہ سالار کہاں تھے اور کون سی ذمہ داری انجام دے رہے تھے ؟!

ہم نے اپنی جستجو اور تلاش کے دوران صرف حموی کو پایا جس نے ہمارے اس سوال کا کسی حد تک جواب دیا ہے ۔اس نے لفظ '' ورکائ'' کی تشریح میں یوں لکھا ہے :

سیف نے کہا ہے کہ سب سے پہلے سوار ،جنھوں نے سر زمین ایران پر قدم رکھے ،دو نامور صحابی ،حرملہ بن مریط اور سلمی بن القین تھے ،کہ دونوں مہاجر و رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک صحابی شمار ہوتے تھے ۔

ان دو صحابیوں میں سے ہر ایک اپنے ماتحت قبائل تمیم و رباب کے چار ہزار سپاہیوں کے ہمراہ اطد ،نعمان اور جعرانہ کے علاقوں میں داخل ہوئے اور ''ورکاء '' کے مقام پر '' انوشجان'' اور ''فیومان '' سے ان کا آمنا سامنا ہوا ۔ یہاں پر واقع ہونے والی جنگ میں انھوں نے ایرانی کمانڈر وں کو شکست دی اور ''ورکائ'' پر قبضہ جمالیا اور '' ہرمزگرد '' کو ''فرات بادگلی'' تک فتح کیا ۔سلمی نے اس موضوع کو حسب ذیل اشعار میں بیان کیا ہے :

خبریں جو پھیل رہی ہیں کیا تم نے ان کو نہیں سنا کہ ''ورکائ'' میں '' انو شجان'' پر کیا گزری ؟

'' انو شجان'' کے سر پر وہی بلا نازل ہوئی جو سر زمین ''طف'' میں قتل کئے گئے ''فیومان'' پر نازل ہوئی تھی۔

۱۴۸

حرملہ نے بھی اسی سلسلے میں کہا ہے :

ہم نے ''میشان '' کے باشندوں کو اپنی تلواروں کی ضرب سے ''ورکائ'' تک پسپا کردیا ۔یہ کارنامہ ہمارے سواروں کا تھا۔

اس دن جب پہاڑوں کو بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ،ہم نے ان کے مال و ثروت کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا ۔

لہٰذا حموی کے کہنے اور سیف کی روایتوں کے مطابق اس مدت کے دوران کچھ جنگیں لڑی گئی ہیں اور کچھ قتل عام ہوئے ہیں کہ طبری نے ان کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے ۔

حموی لفظ '' نعمان'' نامی چند جگہوں کا نام لینے کے بعد ''نعمان '' کے بارے میں لکھتا ہے :

منجملہ ،کوفہ کا ''نعمان'' صحرا کا علاقہ ہے ،سیف کہتا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے سرزمین عراق پر قدم رکھا وہ حرملہ بن مریط اور سلمی بن قین تھے جنھوں نے '' اطد'' و ''جعرانہ'' میں داخل ہونے کے بعد ''ورکائ'' پر اپنا قبضہ جما یا۔

اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے کلمہ '' نعمان '' کو صرف سیف کی حدیث میں دیکھا ہے اور اس جگہ کے وجود پر تصدیق کرتے ہوئے اس کی گواہی میں سیف کا قول نقل کیا ہے ۔

حجاز کے '' جعرانہ'' کی تشریح کے بعد لفظ ''جعرانہ'' پر حموی کی بات من عن حسب ذیل ہے :

سیف بن عمر اپنی کتاب'' فتوح '' جس کا ''ابن خاضبہ'' کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ میرے پاس موجود ہے میں اس طرح لکھتا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے جنگ کرنے کے لئے ایران کی سر زمین پر قدم رکھا، حرملہ بن مریط اور سلمی بن قین تھے کہ اطد و

یہاں وہ '' ورکائ'' کے بارے میں ذکر کئے گئے مطالب کو آخر تک نقل کرتا ہے ۔

۱۴۹

حموی ،مشابہ و مشترک نام کے مقامات سے مخصوص اپنی ایک دوسری کتاب '' المشترک '' میں لفظ '' جعرانہ'' کے بارے میں لکھتا ہے :

اس نام کی دو جگہیں معروف ہیں ،ان میں سے ایک جگہ طائف و مکہ کے درمیان '' جعرانہ'' کے نام سے ہے اور دوسری جگہ وہ ہے جس کے بارے میں سیف بن عمر نے ایک روایت کے ضمن میں کہا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے ایرانیوں سے جنگ کے لئے عراق کی سر زمین پر قدم رکھا وہ حرملہ بن مریط اور

اس کے علاوہ اسی کتاب میں لفظ '' نعمان'' کے سلسلے میں لکھتا ہے :

چھ جگہوں کو نعمان کہا جاتا ہے.....

یہاں تک کہ وہ لکھتا ہے :

''نعمان '' ایک جگہ ہے جس کے بارے میں سیف بن عمر نے ایک روایت کے ضمن میں نام لے کر کہا ہے :

سب سے پہلے جنھوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے عراق کی سرزمین پر قدم رکھا حرملہ بن مریطہ و......

'' صفی الدین '' نے بھی جغرافیہ کی کتاب '' مراصد الاطلاع'' میں لکھاہے :

اطد (دو فتح کے ساتھ ) کوفہ کے نزدیک صحرا کی طرف ایک جگہ ہے ۔اسلام کے سپاہیوں نے ایرانیوں سے جنگ کے لئے سب سے پہلے اس سرزمین پر قدم رکھا۔

اور لفظ '' جعرانہ '' کے بارے میں بھی حموی کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے۔

چوں کہ سیف کے بیانات میں '' ہرمزگرد '' کا نام آیا ہے ،اس لئے حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس نام کی جگہ کے وجود پر یقین کرکے اپنی کتاب میں خصوصی طور پر اس کا اس طرح ذکر کیا ہے :

گویا سر زمین عراق میں '' ہرمزگرد '' نام کی ایک جگہ تھی ۔مسلمانوں کی فتوحات کے دنوں وہاں پر ایرانیوں اور عربوں کے درمیان ایک جنگ لڑی گئی ہے جو مسلمانوں کی فتح اور اس جگہ پر مسلمانوں کے ہاتھوں قبضہ کئے جانے پر تمام ہوئی ہے

'' صفی الدین '' بھی اسی مطلب کو اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع '' میں خلاصہ کے طور پر لکھتا ہے :

''ہرمزگرد '' عراق میں ایک علاقہ تھا ۔

جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا یہ سیف کے بیانات تھے جن کے بارے میں طبری نے کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

۱۵۰

حرملہ بن مریطہ،ایران پر حملہ کے وقت

١٧ھ کے حوادث اور '' اہواز،مناذراور نہر تیری '' شہروں کی فتح کے ضمن میں سیف کی روایت سے نقل کرکے تاریخ طبری میں سیف کے دو جعلی صحابی اور کمانڈر حرملہ و سلمی کے نام اس طرح لئے گئے ہیں :

بصرہ کے اطراف میں موجود قصبوں اور گائوں پر '' ہرمز ان '' نے کئی بار حملے کئے بالآخر بصرہ کے گورنر عتبہ بن غزوان نے عراق کے سپہ سالار سعد بن وقاص سے مدد طلب کی۔سعد نے عتبہ کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی اور ہرمزان کے شر سے نجات دلانے کے لئے حرملہ بن مریط اور سلمی بن القین کا انتخاب کیا ۔یہ دونوں قبیلہ ادویہ اور خاندان حنظلہ تمیمی سے تعلق رکھتے تھے اور مہاجر وں میں سے اور نیک محسوب ہوتے تھے حرملہ اور سلمی نے علاقہ میشان ، دشت میشان اور مناذر کے آس پاس پڑائو ڈلا اور قبیلہ '' بنی عم '' یعنی مالک کے بیٹوں سے مدد طلب کی ۔

یہاں پر طبری سیف سے ایک اور افسانہ نقل کرتے ہوئے مذکورہ خاندان کو خاندان '' بنی عم'' کہنے کا سبب بیان کرتا ہے :

سیف کہتا ہے :

'' مرة بن مالک بن حنظلہ '' جسے '' عمّی '' کہتے تھے اور قبیلہ ٔ بنی عم اس کی اولاد ہیں خاندان ''معد کے بے نام و نشان اور غیر معروف گروہ نے آکر ان کے نزدیک پڑائو ڈالا۔

'' مرة'' اس گروہ کے ساتھ ایران چلا گیا اور اس نے ایرانیوں کی مدد کا اعلان کیا ۔مرہ کا یہ کام اس کے بھائی کے لئے مشکل گزرا اور اس نے چند اشعار میں اس کی اس طرح سرزنش کی ہے :

مرہ نے جو کام انجام دیا ،وہ اندھا اور بہرہ ہو چکا تھا اور اس نے اپنے خاندان کی فریاد نہیں سنی۔

وہ ہمارے خاندان کی سرزمین سے چلا گیا اور ملک وبرتری پانے کے لئے ایران چلا گیا ۔ اسی وجہ سے ''مرہ '' کو '' عمی'' یعنی اندھا کہا جاتا تھا اور اور یہی نام اس کے بیٹوں پر باقی رہا ۔یربوع بن مالک اس سلسلے میں کہتا ہے :

قبائل ''معد '' جانتے ہیں کہ اپنی ذات پر فخر کرنے کے دن ہم اس قسم کی تابندگی کے مستحق تھے ہم ایرانی صحرا نشینوں کو بھگا کر سر بلندی حاصل

۱۵۱

کر چکے ہیں ۔

اگر اس وقت عربوں کے افتخارات کا دریا موجیں مارے تو ہم ان سب دریائوں سے سربلند و سرفراز ہیں ۔

امریٔ القیس کے نواسہ ایوب بن عصبہ نے بھی یوں اشعار کہے ہیں :

ہم نے شرف و فضیلت حاصل کرنے میں قبائل عرب پر سبقت حاصل کی ہے اور ہم نے جان بوجھ کر یہ کام انجام دیا ہے ۔

ہم ایسے بادشاہ تھے جنھوں نے اپنے اسلاف کو سربلندی عطا کی ہے اور ہر زمانہ کے بادشاہوں کی بیویوں کو اسیر کیا ہے ۔

طبری نے سیف کے اپنے افسانہ کو جاری رکھتے ہوئے حرملہ و سلمی کے قبیلہ بنی عم سے مدد طلب کرنے کے سلسلہ میں لکھا ہے :

خاندان تمیم کے '' غالب وائلی '' اور کلیب وائلی کلبی نام کے دوسرداروں نے حرملہ اور سلمی کو مثبت جواب دیا اور ان کے پاس گئے اور ایک گفتگو کے ضمن میں ان سے کہا:

چوں کہ آپ عرب اور ہمارے خاندان سے ہیں اس لئے ہم آپ کی مدد سے انکار نہیں کر سکتے !

دوسری طرف ایرانیوں نے خاندان بنی عم پر مکمل اعتماد کر رکھا تھا اور تصور نہیں کرتے تھے کہ وہ کبھی ان کے دشمنوں یعنی عربوں سے رابطہ قائم کرکے کوئی سازش کریں گے ،کیوں کہ وہ ایران میں سکونت اختیار کر چکے تھے اور خوزستان کے علاقہ کو اپنا وطن جانتے تھے !

خاندان '' بنی عم'' کے سرداروں نے ایرانیوں کے اپنے بارے میں اس حسن ظن سے فائدہ اٹھا کر حرملہ اور سلمی کو تجویز دی کہ فلاں دن اور فلاں علامت سے '' ہرمزان '' پر حملہ کریں اور اسی دن ہم میں سے ایک '' مناذر'' پر اور دوسرا '' نہرتیری'' پر حملہ کرے گا اور اس طرح دشمن کو شکست دیتے ہوئے آپ لوگوں سے آملیں گے اور ہرمزان کو پیچھے سے کمزور بنادیں گے۔

اس جنگی نقشہ کو مرتب کرنے کے بعد ''غالب ''اور ''کلیب ''اپنے قبیلہ ''بنی عم''میں آگئے اور اپنے منصوبہ سے قبیلہ والوں کو آگاہ کیا اور اس سلسلے میں ان کی موافقت ومنظور ی حاصل کی۔

۱۵۲

جب وعدے کی رات آپہنچی تو دوسرے دن صبح ہوتے ہی حرملہ اور سلمی نے اپنی فوج کو منظم کیا اور ہر مزان پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوئے اور ایک سخت جنگ کا آغاز کیا۔

اسی دوران ''کلیب''اور ''غالب''،''نہرتیری ''اور ''مناذر'' پر قبضہ کرکے ''حرملہ'' اور ''سلمی'' کی مدد کے لئے آگئے ۔جب ''مناذر'' اور ''نہرتیری'' کے ہاتھ سے چلے جانے کی خبر ''ہرمزان'' اور اس کے سپاہیوں کو پہنچی تو وہ جنگ میں یأس و ناامید ی سے دو چار ہوئے اور شکست کھا کر پسپائی اختیار کی ۔اسلامی فوج نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کے سپاہیوں کا ایسا قتل عام کیا کہ ان کے کشتوں کے پشتے لگ گئے اور کافی مقدار میں مال غنیمت حاصل کیا۔

''ہرمزان '' میدان جنگ سے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا اور اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اہواز کے پل سے عبور کر گیا اس نے دریاکو اپنے اور مسلمانوں کے درمیان پناہ قرار دے کر مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی ۔مسلمانوں نے اس کی یہ درخواست منظور کی اور '' ہرمزان'' اور'' حرملہ ''و ''سلمی'' کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اور اس پر طرفین نے دستخط کئے اس طرح اس معاہدہ کے مطابق دریائے کارون کے ساحل تک کا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔

ان مطالب کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور ابن اثیر و ابن خلدون نے بھی طبری سے نقل کرکے انھیں اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

حموی اپنی کتاب معجم البلدان میں لفظ '' مناذر'' کے سلسلے میں لکھا ہے :

''مناذر '' کا نام سیف کی کتاب ''فتوح'' اور ''خوارج'' دونوں میں آیا ہے ۔مؤرخین کے مطابق داستان اس طرح ہے :

١٨ھ میں جب '' عتبہ بن غزوان'' بصرہ کا گورنر تھا ،اس نے '' سلمی بن القین '' اور ''حرملہ بن مریطہ'' نامی دونامور سپہ سالاروں کو مأموریت دی کہ میشان اور صحرائے میشان پر لشکر کشی کریں اور مناذر و تیری کو اپنے قبضہ میں لے لیں ۔یہ دونوں شخص مہاجر ین و اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمرے میں تھے اور خاندان عدویہ بنی حنظلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ان کی داستان طولانی ہے ۔

۱۵۳

''حصین بن نیار حنظلی'' نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا میری معشوقہ کو معلوم ہے کہ سرزمین مناذر کے مردوں کو موت کے گھاٹ اتار نے کے بعد ہمارا دل ٹھنڈا ہو اہے ؟

انھوں نے ''دلوث'' کے علاقہ کی بلندی سے ہماری فوج کے ایک سوار دستہ کو دیکھا اور اس کی شأن و شوکت کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چکا چوندھ ہو گئیں ۔

ہم نے ان سب کو نخلستانوں میں اور دریائے دجلہ کے کنارے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔

وہ یہاں پر صور اسرافیل بجنے تک رہیں گے ،چوں کہ ہمارے گھوڑوں کے سموں نے اس سرزمین کو ہموار بنادیا ہے ۔

یہی عالم حموی لفظ ''تیری'' کے سلسلے میں لکھتا ہے :

''تیری'' ایک شہر کا نام ہے جسے فتح کرنے کے لئے ١٨ھمیں ''عتبہ بن غزوان'' کی طرف سے ''حرملہ بن مریطہ'' اور'' سلمی بن قین '' مأمور کئے گئے تھے ۔اور اسے انھوں نے اسی سال فتح کیا '' غالب بن کلیب '' نے اس سلسلے میں درج ذیل اشعار لکھے ہیں :

جس دن کلیب نے '' تیری'' کے لوگوں کو ذلیل و خوار کیا ہم مناذر کی جنگ میں جان ٹوڑ کوشش کر رہے تھے ۔

ہم نے ''ہرمزان'' اور اس کے لشکر جرار کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور ان کی آبادیوں کی طرف حملہ کیا جو کھانے پینے کی چیزوں سے بھری تھیں ۔

جی ہاں !سیف نے یہ اشعار غالب تمیمی کی زبان پر جاری کئے ہیں تاکہ ایران کے دو شہر وں کی فتح کا افتخار قبیلہ تمیم کے نام ثبت کرے ،جب کہ طبری نے سیف کی روایتوں کو نقل کرتے وقت اپنی روش کے مطابق ان اشعار کو درج نہیں کیا ہے ۔

۱۵۴

دربار خلیفہ میں حاضری ،اور اہواز کا زوال

طبری نے سیف بن عمر سے روایت کی ہے کہ ان فتوحات کے بعد '' عتبہ بن غزوان'' نے مناذر کی فوجی چھاونی کی کمانڈ '' سلمی بن قین'' کو سونپی اور اس شہر کی حکمرانی '' غالب'' کے سپرد کی ۔ اس کے علاوہ ''تیری'' کی فوجی چھاونی کی کمانڈ ''حرملہ بن مریط'' کے حوالہ کی اور شہر '' تیری'' کی زمام حکومت کلیب کے ہاتھ میں دی ۔

طبری نے سیف کی زبانی اس تخلیق کردہ شہر تیری اور مناذر کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈ اور شہروں کی حکومت کے عہد ے اس کے افسانوی اور فرضی افراد میں تقسیم کرنے کا ذکر کرتے ہوئے سیف کے افسانے کو اس طرح آگے بیان کیا ہے :

''بنی العم'' کے بعض خاندان خوزستان سے ہجرت کرکے بصرہ اور اس کے اطراف میں رہائش اختیار کرتے ہیں ۔انہی دنوں بصرہ کا گورنر عتبہ بن غزوان ان مہاجرین کے ایک گروہ کو قبیلہ ''بنی العم'' کی نمایندگی کی حیثیت سے انتخاب کرکے خلیفہ عمر کی خدمت میں روانہ کرتا ہے ۔سلمی اور حرملہ بھی اس وفد کے ارکان تھے ۔عتبہ بن غزوان نے پہلے ہی ان سے کہا تھا کہ خلیفہ کے حضور جانے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کریں اور اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر کریں تاکہ آپ لوگوں کی عدم موجودگی میں آپ لوگوں کے زیر حکومت علاقوں کی سرپرستی کا کام ٹھپ نہ ہو جائے ۔

یہاں پر طبری سیف سے نقل کرتے ہوئے پھر اس بات کی تکرار و تاکید کرتا ہے کہ یہ دو سپہ سالار حرملہ و سلمی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی تھے ۔

۱۵۵

طبری اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

نمائندوں کا وفد خلیفہ عمر کے حضور پہنچا۔ اسی ملاقات میں قبیلہ ''بنی العم'' کے افراد نے اس قبیلہ کی بد حالی کی ایک مفصل رپورٹ خلیفہ کی خدمت میں پیش کی اور خلیفہ نے بھی ان کے ناگفتہ بہ حالات کو سد ھار نے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے بادشاہوں کی سرکاری زمینوں کو قبیلہ ''بنی العم''میں تقسیم کردیا جائے۔

طبری اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے:

ہرمزان نے صلح نامہ کے عہد و پیمان کو توڑ کر جنگ کے لئے کردوں سے مدد طلب کی اور ایک بڑا لشکر آراستہ کیا۔

حرملہ اور سلمی نے اس صورت حال کے بارے میں قبل از وقت اطلاع حاصل کرکے اس کی رپورٹ عتبہ کو دیدی۔عتبہ نے بھی ان حالات کے بارے میں خلیفہ کی خدمت میں رپورٹ بھیجی۔

خلیفہ عمر نے ''ہرمزان'' کی گوشمالی کرنے اور علاقہ میں امن و امان برقرار کرنے کے لئے ''حرقوص بن زہیر سعدی'' جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا کو ایک سپاہ کی کمانڈ سونپ کر مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا اور خاص طور پر تاکید کی، کہ ان شہروں کو آزاد کرنے کے بعد ''حرقوص'' خود ان شہروں کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لے!!

''حرقوص '' نے حرملہ، سلمی، کلیب اور غالب کی حمایت اور مدد سے اہواز کی طرف لشکر کشی کی اور ''سوق اہواز ''کے مقام پر ''ہرمزان '' سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور وہیں پر جنگ چھڑگئی۔

سر انجام ''ہرمزان'' نے اس جنگ میں شکست کھا کر ''رامہرمز'' کی طرف پسپائی اختیار کی ۔ ''حر قوص'' نے اہواز پر قبضہ کیا اور اسی جگہ کو اپنی فوجی کمانڈ کا صدر مقام قرار دیا۔ ان کے فوجی دستوں نے اس علاقہ کے تمام مناطق کو ''تستر'' (شوشتر) تک اپنے قبضے میں لے لیا۔ حرقوض نے فتح ہوئے شہروں کے باشندوں پر ٹیکس معین کیا اور اپنے نمایندے مقرر کئے اور غنائم کے پانچویں حصہ کو فتوحات کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ کے ساتھ خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا۔

۱۵۶

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی ''اسعد بن سریع '' نے اس سلسلے میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :

تیری جان کی قسم !ہمارے خاندان والوں کو جو بھی ذمہ داری سونپی گئی، انہوں نے اسے قبول کر کے امانتداری کا ثبوت دیاہے۔

انھوں نے اپنے پر ور دگار کی فرمانبرداری کی ہے جب کہ دوسروں نے نافرمانی کر کے اس کے احکام کی تعمیل نہیں کی۔

مجوسیوں جنھیں کتاب یا کوئی فرمان برائیوں سے دور نہیں رکھتا تھا کا ہمارے سواروں کے ایک گروہ سے سامنا ہوا، اور اس گروہ نے انھیں ذلیل و خوار کرکے رکھدیا ۔

''ہرمزان'' ہمارے ساتھ جنگ میں اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر فرار کر گیا اور ہمارے سپاہیوں نے اس کا پیچھا کیا ۔

وہ اپنی سرگرمیوں کے مرکز اہواز کو چھوڑ کر بھاگ گیا جب کہ بہار نے وہاں ابھی قدم رکھے تھے۔

اور '' حرقوص بن زہیر سعدی '' نے بھی اس سلسلہ میں کہا ہے :

ہم نے خزانوں سے بھری سرزمینوں پر قبضہ کیا اور ''ہرمزان'' پر فتح پائی۔

اس کے خشکی والے اور آبی علاقوں کو فتح کیا اور اس کے مال و متاع اور نایاب میوؤں پر بھی قبضہ کرلیا۔

وہ ایک وسیع سمندر کا مالک تھا جس کے دونوں طرف پر تلاطم دریا بہہ رہے تھے۔

سیف کی یہی باتیں سبب بنی ہیں کہ اس کے ذہن کی پیدا وار ''حرقوص'' بھی اس کے دوسرے جعلی صحابیوں کی طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار پائے اور علماء اس کی زندگی کے حالات پر تفصیلات لکھیں !

ملاحظہ ہو ابن اثیر اس کے بارے میں کیا لکھتا ہے:

طبری نے اس (حرقوص) کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے:

۱۵۷

خوزستان کے گورنر ہرمزان نے اپنے عہد و پیمان کی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے نافرمانی اور گناہ کی راہ اختیار کی اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاری کی۔ سلمی اور حرملہ نے حالات اورحقائق کے بارے میں عتبہ کو رپورٹ دی اور

یہاں تک کہ لکھتا ہے :

وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں سے تھا۔

ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید'' میں اور ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں ابن اثیر کی پیروی کرتے ہوئے ''حرقوص'' کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں میں شمار کیا ہے۔

ہم ایک بار پھر طبری کی بات پر توجہ کرتے ہیں اور سیف کے دو جعلی اور جھوٹے صحابی ''حرملہ'' و ''سلمی'' کی سرنوشت سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ''رامہرمز'' اور ''تستر''کی فتح اور ١٧ ھ کے حوادث کے ضمن میں اس طرح لکھا ہے:

ساسانی بادشاہ ''یزد گرد ''نے ایرانوں کے قوی جذبات کو بھڑکاکر ان سے اپنے حق میں مدد حاصل کرنے کے لئے ملک کے اطراف واکناف میں خطوط بھیجے ۔

سلمی اور حرملہ نے یزد گرد کے ان اقدامات اور سرگر میوں کے بارے میں خلیفہ اور بصرہ کے مسلمانوں کو رپورٹ بھیجی ۔خلیفہ عمر نے کوفہ کے گورنر سعد بن وقاص کو حکم دیا کہ ''نعمان ''کی قیادت میں ایک عظیم سپاہ تشکیل دے کر مسلمانوں کی مدد کے لئے روانہ کرے ۔سعد نے حکم کی تعمیل کی اور ''نعمان'' ایک عظیم سپاہ لے کرایران کی طرف روانہ ہو ااور اس نے '' سوق اہواز'' میں پڑائو ڈالا ۔اس کے بعد حرقوص ،سلمی اور حرملہ کو وہاں پر معین کرکے خود '' اربک'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر ہرمزان سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس کے ساتھ ایک گھمسان کی جنگ ہوئی سر انجام ہرمزان نے اس جنگ میں شکست کھانے کے بعد ''رامہرمز '' سے بھاگ کر '' تستر'' تک پسپائی اختیار کی ۔نعمان نے حرقوص، حرملہ اور سلمی کے ہمراہ اس کا پیچھا کیا اور تستر (شوشتر) کے اطراف میں اس کے نزدیک پہنچے اور

۱۵۸

پھر طبری ، ٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں مزید لکھتا ہے :

جس زمانے میں خلیفہ عمر نے فرمان جاری کیا کہ ''نعمان '' ایک سپاہ لے کر ایران پر لشکر کشی کرے ۔اور ساتھ ہی ایک خط کے ذریعہ سلمی بن قین ،حرملہ بن مریط اور دیگر فوجی سرداروں کوجو پارس و اہواز کے درمیان فوجی کیمپ بنائے ہوئے تھے حکم دیا کہ اپنی حکمرانی کے تحت لوگوں اور علاقوں کو آگاہ و آمادہ کریں کہ وہ مسلمانوں پر ایرانیوں کے حملوں کو روکیں اور اس امر کی تاکید کی کہ اس کے دوسرے حکم کے پہنچنے تک پارس و اہواز کے علاقوں کی سرحدوں کا پورا خیال رکھتے ہوئے مسلسل حفاظت کرتے رہیں ۔

یہ حکم اس امر کا سبب بنا کہ نہاوند میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں کو مزید کمک اور مدد پہنچنے میں قطعی طور پر رکاوٹ پڑ گئی اس موضوع کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے اور دوسرے مورخین ،جیسے ابن اثیر اور ابن خلدون نے اس سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

۱۵۹

بحث کا خلاصہ

سیف کے کہنے کے مطابق خالد بن ولید عراق کا گورنر بن جاتا ہے اور حرملہ ،سلمی اور مذعور کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے ماتحت فوجیوں کے ساتھ '' ابلہ '' کے مقام پر اس سے ملحق ہو جائیں ۔ان میں سے ہر ایک کی کمانڈ میں دو ہزار سپاہی تھے اور دونوں خالد کی دعوت قبول کرتے ہیں ۔حرملہ اور سلمی نیک اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی تھے ،وہ پہلے افراد تھے جنھوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے سب سے پہلے ایران کی سر زمین پر قدم رکھے اور ہر ایک نے اپنی کمانڈ میں خاندان تمیم و رباب کے چار ہزار سپاہی لے کر اطد ،نعمان اور جعرانہ کے علاقہ میں پڑائو ڈالا اور '' انوشہ جان '' اور'' فیومان'' کی کمانڈ میں موجود ایرانی فوج سے نبرد آزما ہوئے اور انھیں شکست دے کر '' ورکائ'' کو '' فرات باذقلی '' تک اپنے قبضہ میں لے لیا ''حرملہ'' و ''سلمی '' نے اس سلسلے میں رزمیہ اشعار کہے ہیں ۔

اس کے بعد سیف کے کہنے کے مطابق چوں کہ '' ہرمزان '' بصرہ کے اطراف میں حملہ کرتا ہے اس لئے '' عتبہ بن غزوان'' سلمی اور حرملہ کو اس کے ساتھ مقابلہ کے لئے انتخاب کرتا ہے اور انھیں حکم دیتا ہے کہ '' میشان '' کے نزدیک اس طرح اپنا کیمپ لگائیں کہ صحرائے میشان کو اپنے اور مناذر کے درمیان قرار دیں ۔وہ مزید حکم دیتا ہے کہ یہاں پر دو نوں سردار اور خاندان بنی عم سے ایک شخص دشمن کے حملہ کو روکنے میں اسلامی فوج کی مدد کریں ۔اس کے بعد سیف کہتا ہے کہ خاندان بنی عم کے افراد جو '' مرة بن مالک حنظلہ '' سے تعلق رکھتے ہیں ،اس لئے '' بنی عم '' کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان سے منہ موڑ کر ایران کی طرف مہاجرت کر گئے تھے اور انھوں نے ایرانیوں کی مدد کی تھی اور ایرانی ان پر کافی اعتماد کرتے تھے ۔

بہر حال ،غالب اور کلیب قبیلۂ بنی عم کے اس وقت سردار تھے ،یہ دونوں حرملہ کے پاس آکر اس سے کہتے ہیں : تم ہمارے خاندان سے ہو اور ممکن نہیں ہے کہ ہم تمھاری مدد نہ کریں ۔طے یہ پاتا ہے کہ ان میں سے ایک مناذر و نہرتیری پر حملہ کرکے ہرمزان کو پیچھے سے کمزور کرے اور سلمی و حرملہ بھی صحرائے میشان کی طرف حملہ کرکے ہرمزان سے بنرد آزما ہو جائیں ۔

اس کے بعد غالب اور کلیب اپنے قبیلے کی طرف لوٹتے ہیں اور اپنے خاندان والوں کو روئداد سے آگاہ کرتے ہیں اور ان سے اس نقشہ پر عملی جامہ پہنانے کی منظوری لیتے ہیں ۔

۱۶۰

چنانچہ پہلے سے مرتب کئے گئے نقشہ کے مطابق حرملہ اور سلمی ہرمزان سے نبردآزما ہوتے ہیں ، اسی اثنا میں غالب وکلیب کی مدد بھی انھیں پہنچتی ہے جنھوں نے منصوبہ کے مطابق مناذر و نہرتیری پر قبضہ کر لیا تھا۔

مناذر اور نہر تیری کے زوال کی خبر دشمن کی شکست کا سبب بن جاتی ہے اور ہرمزان فرار کرکے اہواز کے پل سے گزر جاتا ہے اور اپنے اور اسلامی سپاہ کے درمیان پل کو حائل قرار دیتا ہے اور صلح کی درخواست کرتا ہے ،مسلمان کافی قتل عام کرنے اور جنگی غنائم پر قبضہ کرنے کے بعد ہرمزان کی صلح کی درخواست منظور کرتے ہیں ۔

اس فتحیابی کے بعد عتبہ ،حرملہ و سلمی کو مناذر اور نہر تیری کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈسونپتا ہے ۔ اس کے بعدوہ دونوں عتبہ کی اجازت سے اپنے خاندان کی نمائندگی کے طور پر خلیفہ عمر کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں اور اپنے خاندان کے ناگفتہ بہ حالات کے بارے میں خلیفہ کو رپورٹ پیش کرتے ہیں خلیفہ حکم دیتا ہے کہ خاندان کسریٰ کی جاگیر انھیں بخش دی جائے ۔

ہرمزان صلح کی قرار داد پر عمل کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے اور کردوں سے مدد طلب کرتا ہے ۔ ''ہرقوص بن زہر'' جو صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا خلیفہ عمر کے حکم سے ہرمزان سے نبرد آزما ہونے کے لئے مامور ہوتا ہے اور اس طرح مسلمان دوسری بار ہرمزان پر فتح پاتے ہیں اور سوق اہواز پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔ہرمزان شوشتر کی طرف فرار کر جاتا ہے ۔

سیف داستان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

ایر ان کا بادشاہ کسریٰ لوگوں کے قوی جذبات کو ابھارکر انھیں ایرانیوں کے ساتھ جنگ کرنے پر اکساتا ہے اور اہواز کے لوگ بھی بادشاہ کی درخواست منظور کرتے ہیں ۔حرملہ و سلمی ان حالات کی رپورٹ خلیفہ کو دیتے ہیں ۔اس کے نتیجہ میں اسلامی فوج کسریٰ کی فوج سے نبرد آزما ہو کر اس کے منصوبوں کو نقش بر آب کردیتی ہے ۔اور ایک گھمسان کی جنگ کے نتیجہ میں ایرانیوں کو شکست دی جاتی ہے اور مسلمان شوش و شوشتر پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں ،حرملہ اور سلمی جو دونوں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور مہاجر تھے اس فتحیابی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔

۱۶۱

وہ مزید کہتا ہے :

نہاوند کی جنگ میں خلیفہ عمر ،حرملہ و سلمی اور اپنے دوسرے فوجی کمانڈ روں کو لکھتے ہیں کہ : سرحدوں کا خیال رکھیں اور وہیں ٹھہریں ۔لیکن ان دو مہاجر و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں نے اس حکم پر اکتفا نہیں کی بلکہ ایرانیوں پر اپنے پے در پے حملوں کے نتیجہ میں کافی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اصفہان اور پارس کے اطراف تک پیش قدمی کی اور نہاوند میں لڑنے والے ایرانیوں کو رسد اور مدد پہنچنے کے راستے کاٹ کر رکھ دئے ۔یہاں پر سیف کے اشعار کو جو اس نے اپنے جعلی صحابی کی زبان پر جاری کئے ہیں نقل کیا گیا ہے ۔

یہ اس افسانہ کاخلاصہ تھا جو سیف بن عمر تمیمی نے اپنے دو جعلی صحابیوں ،حرملہ اور سلمی کے لئے تخلیق کیا ہے اور اپنے خاندان تمیم کے افتخارات میں اضافہ کرنے کی غرض سے اس جھوٹ کو گڑھا ہے وہ اپنے اس خاندانی تعصبات کی بناء پر تما م دنیا کو رسوا و بدنام کرنے لئے تیار ہے ،ایک امت کی تاریخ کی تو بات ہی نہیں !!

سیف کی روایتوں اور تاریخی حقایق کا موازنہ

اب ہم حقیقت کو پانے کے لئے اور ایران پرحملہ کے آغاز کی کیفیت کے سلسلے میں تاریخ کی دوسری کتابوں ،منجملہ تاریخ بلاذری کی طرف رجوع کرتے ہیں :

بلاذری اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھتا ہے :

۱۶۲

خلیفہ عمر ابن خطاب نے خاندان ''نوفل بن عبد مناف'' کے ہم پیمان '' عتبہ بن غزوان '' کو آٹھ سو سپاہیوں کی سر کردگی میں بصرہ کی طرف روانہ کیا ۔عتبہ ایران کی سرزمین میں پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے خریبہ ( ویرانہ)(۱) کے مقام پر پہنچا اور.....

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

اس کے بعد عتبہ نے ''ابلہ'' کی طرف کوچ کیا اور وہاں کے لوگوں سے نبرد آزما ہوا۔ایک شدید جنگ کے بعد اس علاقہ پر قبضہ کرکے دشمن کو فرات کی طرف پسپا کردیا۔اسلامی فوج کے ان حملوں کے ہراول دستے کی کمانڈ ''مجاشع بن مسعود'' کے ہاتھ میں تھی۔اس جنگ میں فرات کے اطراف بھی فتح کئے گئے ۔اس کے بعد عتبہ مدائن کی طرف روانہ ہوا۔

مذار کے ''سرحدبان'' نے عتبہ سے جنگ کی دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ۔سر انجام خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو دشمنوں پر فتح وکامرانی عطاکی۔سرحد بان کے تمام سپاہی یا قتل کئے گئے یا دریا میں غرق ہوگئے ۔خود سرحد بان پکڑا گیا اور عتبہ کے حکم سے اس کا سرتن سے جدا کردیاگیا۔

اس کامیابی کے بعد عتبہ نے صحرائے میشان کی طرف لشکرکشی کی ،کیونکہ ایرانی ایک بڑا لشکر لے کر وہاں پر انتظار کررہے تھے ۔عتبہ دشمن کی فوج کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لئے اور ان کے دلوں

____________________

۱)۔ جنگ کی ابتدا میں '' خریبہ'' ایک آباد شہر تھا۔لیکن مثنی کے مسلسل اور پے در پے حملوں کے نتیجہ میں ویران ہوکر رہ گیاتھا۔بعد میں یہ شہر ''خریبہ''یعنی ویرانہ کے نام سے مشہور ہوا۔شہر بصرہ اسی ویرانہ کے کنارے پر تعمیر کیاگیاہے۔

۱۶۳

میں اسلامی فوج کے حملے کا خوف ڈالنے کے لئے ایک ہراول دستے کے ہمراہ ان پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑا ۔خدائے تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور وہ کامیاب ہوا۔اس اچانک حملہ میں ایرانیوں کے تمام مقامی کسان اور حکمران مارے گئے ۔

عتبہ نے دشمن کو شکست دینے کے بعد فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور تیزی کے ساتھ خود کو شہر''ابرقباد'' پہنچادیا اور اسے بھی فتح کرلیا۔

بلاذری اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ پر لکھتاہے :

١٤ھ میں خلیفہ عمر نے عتبہ کو حکم دیا کہ عراق میں مسلمانوں کے لئے ایک شہر تعمیر کرے ۔عتبہ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ''خریبہ'' کے نزدیک سرزمین بصرہ کا انتخاب کرکے نَے کی لکڑی کے گھر، مسجد،گورنرکی عمارت ،جیل خانہ اور عدالت کی عمارت تعمیر کی۔

عتبہ نے شہر بصرہ کو تعمیر کرنے کے بعد فریضہ حج انجام دینے کی غرض سے مکہ مکرمہ کے لئے رخت سفر باندھا اور اپنی جگہ پر '' مجاشع بن مسعود'' کو جانشین مقرر کیا۔چونکہ اس وقت ''مجاشع بن مسعود'' بصرہ میں موجود نہ تھا،اس لئے اس کے نائب کے طور پر ''مغیرہ ابن شعبہ'' کو بصرہ کی زمام حکومت سونپی گئی۔

چونکہ میشان کامقامی حکمران اسلام سے نافرمانی کرکے کافر ہوگیاتھا ۔اس کئے مغیرہ نے اس سے جنگ کی اور مذکورہ علاقہ کے کسانوں اور حکمرانوں کو قتل کرکے علاقہ میں امن وامان برقرار کیا اور اس کی رپورٹ خلیفہ عمر کوبھیج دی۔

شہر ''ابر قباد'' کے لوگوں نے بھی بغاوت کی ۔مغیرہ نے وہاں پر بھی فوج کشی کی اور جنگ کے ذریعہ دوبارہ اس شہر کو فتح کیا ۔

آخر میں بلاذری لکھتاہے :

عتبہ،فریضہ حج انجام دینے کے بعد بصرہ کی طرف لوٹتے ہوئے راستے میں فوت ہوگیا اور خلیفہ عمر نے بصرہ کی حکومت ''مغیرہ بن شعبہ'' کو سونپی۔

مدائنی لکھتاہے:

ایران کے لوگ میشان،صحرائے میشان ،فرات اور ابرقباد کے تمام علاقوں کو میشان کہتے ہیں

۱۶۴

ایک ''امین ''گورنر!!

بصرہ پر حکومت کے دوران مغیرہ نے خاندان بنی ہلال کی ''ام جمیل '' نامی ایک شوہر دار عورت سے ناجائز تعلقات قائم کئے تھے ۔اس عورت کا شوہر قبیلۂ ثقیف سے تعلق رکھتا تھااور اس کا نام حجاج بن عتیک تھا ۔

چند مسلمان ان دونوں کے اس بھید سے آگاہ ہوئے اور ان کی تاک میں رہے ۔جب یہ خلیفہ کاامین گورنر ''مغیرہ '' ''ام جمیل'' کے پاس چلا گیا ،تو تھوڑی ہی دیر میں تاک میں بیٹھے ہوئے لوگ اچانک اس کے کمرے میں داخل ہو گئے اور ان دونوں کو عریاں ،شرمناک اور رسوائی کے عالم میں رنگے ہاتھوں پکڑا لیا !!

یہ لوگ مدینہ جاکر خلیفہ سے ملے اور روئداد کو جیسے دیکھا تھا من وعن خلیفہ کی خدمت میں بیان کیا ۔ عمر نے مغیرہ کو مدینہ بلایا اور ابو موسیٰ اشعری کو اس کی جگہ پر بصرہ بھیج دیا۔

مغیرہ کی داستان شاہدوں کی خلیفہ کے سامنے شہادت دینا ،خلیفہ کا رد عمل ،اس کا حیرت انگیز فیصلہ اور اس ماجرا کا خاتمہ ایک مفصل اور لمبا قصہ ہے ۔ اس کی تفصیلات آپ کتاب '' عبداللہ ابن سبا کی پہلی جلد کے '' مغیرہ ابن شعبہ کی زنا کاری کے عنوان سے لکھے گئے واقعات میں پڑھ سکتے ہیں ۔

بلاذری کہتا ہے :

ابو موسیٰ اشعری ١٦ھ میں مغیرہ ابن شعبہ کے بعد بصرہ کا گورنر مقرر ہوا ۔اس نے دجلہ کے اطراف میں موجود تمام آبادیوں کی جانچ پڑتال کی اور اسے معلوم ہوا کہ وہاں کے باشندے فرمانبرداری پر آمادہ ہیں ،اس لئے حکم جاری کیا کہ اس علاقہ کی زمینوں کی پیمائش کرکے ان کے لئے خراج کی مقدار معین کی جائے ۔

اہواز کے علاقوں کی فتح کے بارے میں بلاذری نے اس طرح لکھا ہے :

مغیرہ بن شعبہ جب عتبہ بن غزوان کے جانشین کی حیثیت سے بصرہ میں گورنر تھا ،اس نے ١٥ھ کے اواخر اور ١٦ھ کے اوائل میں اہواز پر حملہ کیا اور سوق اہواز کے مقام پروہاں کے مقامی حکمراں '' فیروزان '' سے جنگ کی اور سرانجام ایک رقم حاصل کرکے اس سے صلح کر لی۔

۱۶۵

'' فیروزان'' نے مغیرہ کے جانشین ابوموسیٰ اشعری کی حکومت کے دوران اپنے معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوئے خراج ادا کرنے سے پہلو تہی کی ۔ ابو موسیٰ نے اس سے جنگ کی اور ١٧ھ میں سوق اہواز اور نہرتیری کو فتح کرکے اپنے مقبوضہ علاقوں میں شامل کر لیا۔

بلاذری ،واقدی اور ابو مخنف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :

ابو موسیٰ نے اہواز کی طرف لشکر کشی کی ۔وہ ایران کے مختلف علاقوں کو یکے بعد دیگرے فتح کرتے ہوئے پیش قدمی کرتا جاتا تھا اور ایرانی بھی مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگتے جاتے تھے وہ اس طرح اپنی زمینیں چھوڑ کر پسپائی اختیار کرتے جاتے تھے ۔ اس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ اشعری نے اس علاقہ کی تمام زمینوں پر اپنا قبضہ جما لیا ۔اس وقت وہ صرف شوش ،استخر ،مناذر اور رامہرمز کو فتح نہ کر سکا ۔

بعد میں ابو موسیٰ نے مناذر کو اپنے محاصرہ میں لے لیا تھا کہ اسے خلیفہ کا حکم ملا کہ اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر کرکے شوش پر حملہ کرے ۔ابو موسیٰ نے خلیفہ کے حکم تعمیل کرتے ہوئے '' ربیع بن زیاد حارثی '' کو اپنی جگہ پر مقرر کرکے شوش پر چڑھائی کی اور جنگ کرکے اس جگہ کو فتح کیا سر انجام ''بڑے اور چھوٹے مناذر '' دونوں کو مسلمانوں نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ابو موسیٰ کے حکم سے عاصم بن قیص نے وہاں کی زمام حکومت سنبھالی ۔ابو موسیٰ نے '' سوق اہواز'' کی حکومت کی باگ ڈور انصار کے ہم پیمان جندب فزاری کے حوالہ کی ۔

شوش پر اس طرح قبضہ کیا کہ ابو موسیٰ نے شوش کا محاصرہ کیا ،محاصرہ کو رفتہ رفتہ تنگ تر کرتا گیا جب محاصرہ میں پھنسے لوگوں کے کھانے پینے کے ذخائر ختم ہوئے ،تومجبور ہوکر انہوں نے عاجزانہ طور پر ابو موسیٰ سے صلح کی درخواست کی ۔ابو موسیٰ نے ان کی صلح کی درخواست اس شرط پرمنظور کی کہ محاصرہ میں پھنسے لوگوں میں سے صرف ایک سو افراد کو امان ملے گی محاصرہ میں پھنسے لوگوں نے مجبور ہوکر اسے قبول کیا ۔جب قلعہ کے دروازے کھولے گئے تو ان میں سے صرف ایک سو آدمی صحیح وسالم بچ کر نکلے اور شوش کے باقی تمام لوگ اور سپاہی قتل عام کردیئے گئے ۔

۱۶۶

ابو موسیٰ نے رامہرمزکے باشندو ں سے آٹھ یانو لاکھ درہم وصول کرنے کے عوض ان سے صلح کی ۔لیکن رامہرمزکے باشندوں نے ابو موسیٰ کی حکومت کے آخری دنوں میں بغاوت کی۔اس بغاوت کو بری طرح کچل دیا گیا وہاں کے باشندے پھر سے اطاعت کرنے پر مجبور ہوئے۔

بلاذری نے شوشتر کی فتح کے بارے میں تفصیل سے حالات درج کئے ہیں ۔جس میں سپہ سالاروں ،کمانڈروں اور میدان کارزار کے ایک ایک جنگجو کے نام تک ذکر کئے ہیں لیکن کہیں پر حرملہ ،سلمی ،کلیب اور غالب کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اور اسی طرح فتح نہاوند میں بھی ان کا کہیں ذکر تک نہیں ہے ۔

اس عالم نے مذکورہ علاقے کے تمام حکام ،فرماں روااورخلیفہ عمر کے کارندوں کے نام درج کئے ہیں ،مثال کے طور پر ''عاصم بن فیض'' مناذرپر ،'' ثمرہ ابن جندب فزارسوق اہواز پر ۔''مجاشع بن مسعود'' بصرہ کی سر زمینوں پر ۔'' حجاج بن عتیک '' فرات پر ،خلیفہ عمر کے اقرباء میں سے '' نعمان بن عدی '' نامی ایک شخص دجلہ کی سرزمینوں پر اور '' ابومریم حنفی '' رامہر مز پر حکومت کرتے تھے ۔

اسی طرح بلاذری نے خلیفہ عمر کے بعض عارض اور دائمی کارندوں کے نام بھی اپنی کتاب میں درج کئے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کی کیفیت اور ان کی فرماں روائی کے تحت علاقوں کے بارے میں مکمل تفصیلات ذکر کئے ہیں ۔لیکن ان میں کہیں بھی سیف کے افسانوی دلاوروں اور سورمائوں کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا !!

لیکن ''بنی عم'' کے بارے میں ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب '' اغانی'' میں انھیں قبیلۂ تمیم سے نسبت دے کر اس طرح لکھا ہے :

وہ حکومت عمر بن خطاب کے زمانے میں بصرہ میں خاندان تمیم سے مل کر اسلام لائے ہیں ۔اس کے بعد انھوں نے دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش مشرکین سے جنگ کی اور اچھی جنگ لڑی ہے اور عرب ان سے یوں کہتے تھے:

اگر چہ تم لوگ عرب نہیں ہو ،لیکن تم ہمارے بھائی ہمارے خاندان کے افراد ،ہمارے دوست اور ہمارے بنی عم ہو ۔

اسی سبب سے مذکورہ قبیلہ کے لوگوں کو '' بنی عم'' کہا جاتا تھا اور انھیں اعراب محسوس کیا جاتا تھا

۱۶۷

نیز کہا جاتا ہے کہ چوں کہ '' جریر'' و '' فرزدق'' دو شاعروں کے درمیان کچھ ان بن ہو گئی اور وہ ایک دوسرے کے خلاف بد گوئی اور ہجو کہنے پر اتر آئے اس لئے ان کے خاندانوں میں بھی ایک دوسرے سے ٹھن گئی ۔اس دوران خاندان بنی عم کے افراد لاٹھی لے کر خاندان فرزدق کی مدد کے لئے آگئے ۔

''جریر''نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

فرزدق کی،لاٹھی لے کر آنے والے بنی عم کے علاوہ کوئی اور مدد کرنے والا نہیں تھا !!بنی عم والو: دور ہو جائو اہواز اور نہر تیری تمھاری جگہ ہے اور عرب تمھیں نہیں پہچانتے !

کہا جاتا ہے کہ بعض شعراء نے ''بنی ناحیہ'' کی ہجو کر کے انہیں خاندان بنی عم سے تشبیہ دی ہے اور انہیں قریش سے منسوب کر کے طعنہ زنی کرتے ہوئے اس طرح اشعار کہے ہیں :

ہم قریش کے ''بنی سام''کو ''بنی عم'' کے مانند جانتے ہیں ۔

بحث و تحقیق کا نتیجہ

ہم نے دیکھا کہ سیف کہتا ہے ، خالد بن ولید نے حرملہ ، مثنی ، سلمی،اور مذعور کو خط لکھا تا کہ ''ابلّہ'' کے مقام پر اپنی سپاہ کے ساتھ اس سے ملحق ہوجائیں ۔اور کہتا ہے کہ جنہوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے پہلی بار ایران کی سرزمین پر قدم رکھا، وہ حرملہ ، سلمی اور دیگر دو تمیمی سردار تھے جو نیک مہاجر اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی محسوب ہوتے تھے، ااوران کے ماتحت چار ہزار فوجی تھے، وہ اطد، جعرانہ اور نعمان میں داخل ہوئے اور ایرانیوں سے جنگ کرتے ہوئے پیش قومی کرکے ورقائ، ہرمزگرد اور فرات باذقلی کو فتح کرلیا۔

۱۶۸

جبکہ بلاذری نے بصرہ اور خوزستان کے تمام سپہ سالاروں اور گورنروں کو اس ترتیب سے جیسے وہ بر سرکار آئے ،بصرہ کے بانی ''عتبہ بن غزوان'' جو آٹھ سو سپاہیوں کے ساتھ وہاں پر آیا تھا سے لے کر اُن کے آخری نفر تک تمام مشخصات اور کو ائف کے ساتھ ایک ایک کر کے نام لیکر ان کا ذکر کیا ہے، ان کی فتوحات اور خدمات کی تشریح کی ہے۔ لیکن سیف کے دوسور ما و صحابیوں کا ان میں کہیں نام ونشان نہیں ملتا!! اس کے علاوہ اطد ، جعرانہ اور نعمان جیسی جگہوں کا بھی کہیں ذکر نہیں ملتا۔

ہم نے دیکھا کہ کتاب ''معجم البلدان'' کے مؤلف ، حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیالی مقامات کا اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اور اپنے مطالب کے ثبوت میں ان کی دلاوریوں کا ذکر بھی شعر کی صورت میں پیش کیا ہے!

عبد المؤمن نے بھی حموی کی تقلید کرتے ہوئے انہی مطالب کو اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں نقل کیا ہے۔

چونکہ حموی کا اعتقاد یہ ہے کہ ''جعرانہ'' نام کی دوجگہیں ہیں ، ان میں سے ایک جگہ حقیقتا ًحجاز میں موجود ہے اور دو سری جگہ جس کا سیف نے پتا دیا ہے وہ خوزستان میں واقع ہے .اس لئے حموی نے اسی اعتقاد سے اس مشترک نام کو اپنی کتاب ''المشترک' میں سیف کی اسی روایت کی سند کے ساتھ درج کیا ہے۔

سیف، مناذر اور تیری نام کے دو علاقوں کو اپنے افسانوی اورخیالی پہلوانوں ، خاندان بنی عم کے غالب اور کلیب کے ذریعہ فتح کرکے ان کی نسبت کو خاندان تمیم تک پہنچاتا ہے ۔ اور سوق اہواز کی فتح کو اپنے ایک دوسرے خیالی و افسانوی سورما اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ''ہرقوص بن زہیر'' سے منسوب کرتا ہے۔ اور آخر خاندان تمیم کے چار نامور سرداروں کو الگ الگ عہدے اس ترتیب سے سونپتا ہے :مناذر اور تیری کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈ حرملہ اور سلمی کے حوالہ کرتا ہے اور ان دو علاقوں کی حکومت خاندان بنی العم کے دو سرداروں کلیب اورغالب کے ہاتھوں میں دیتا ہے اور سر انجام حرملہ و سلمی کو نمایندوں کے عنوان سے خلیفہ کی خدمت میں بھیجتا ہے تاکہ تمیمیوں کی ناگفتہ بہ حالت کی تفصیل خلیفہ کے حضور بیان کریں ۔اس کے بعد سیف ادعا کرتا ہے کہ خلیفہ عمر نے حکم دیا کہ خاندان کسریٰ کی جاگیر خاندان تمیم میں تقسیم اور ان کے نام درج کی جائے !اور اس طرح ایرانی بادشاہوں کی جاگیر و جائداد تمیمیوں کو منتقل ہوتی ہے !!

۱۶۹

سیف ،حرملہ و سلمی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو صحابی ،مہاجر ،فہم و فراست کے مالک اور حالات پر تسلط رکھنے والوں کی حیثیت سے پہچنواتا ہے اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے اپنے افسانے کی ایک الگ فصل میں کسریٰ کو بھڑکاتا ہے کہ ایرانیوں کے قومی جذبات مشتعل کرکے ایک منظم فوج آمادہ کرے ساتھ ہی ساتھ اہواز کے باشندوں سے بھی مدد طلب کرے تاکہ اس کے افسانوی دلاور حرملہ اور سلمی اس زبردست خطرہ کا احساس کرکے اس روئیداد کی رپورٹ خلیفہ کو پہنچاکر کسریٰ کے منصوبے کو نقش بر آب کردیں ۔

سیف ،شوش اور شوشترکی جنگوں میں اپنے دو افسانوی اور خیالی کرداروں حرملہ اور سلمی کو اہم کام سونپتے ہوئے مناطق اصفہان اور پارس پر ان کے بے رحمانہ حملوں کی جو تشریح کرتا ہے اور فوجی اہمیت کے دوراستوں پر ان کے تسلط اور نہاوند کی جنگ میں دشمن کی کمک رسانی کے راستے کو کاٹ دینے کی جو توصیف کرتا ہے ۔یہ سب کے سب اس کے افسانے اور خیال بندیاں ہیں ۔

لیکن سیف کے اس قدر جھوٹ اور خیال بندی کے مقابلے میں بلاذری لکھتا ہے :

بصرہ کے گورنر کا جانشین '' مغیرہ بن شعبہ ثقفی'' سوق اہواز کے باشندوں سے صلح کرتا ہے ۔ جب ابو موسیٰ اشعری کی حکومت کے دوران سوق اہواز کے باشندے معاہدے سے پہلو تہی کرتے ہیں تو ابو موسیٰ اشعری ان کے ساتھ سخت جنگ کرتا ہے اور اس جگہ کو نہر تیری تک اپنے قبضے میں کر لیتا ہے ۔

ابو موسیٰ اشعری کا جانشین '' ربیع بن زیاد حارثی '' مناذر کبریٰ پر قبضہ کرتا ہے ۔اس کے بعد ابو موسیٰ اس جگہ کی حکومت '' عاصم بن قیس '' کو اور ''سوق اہواز ''کی حکومت ثمرة ابن جندب فزاری کے حوالہ کرتا ہے ۔

۱۷۰

ہم نے دیکھا کہ بلاذری کی کتاب میں فتح شوش اور شوشتر اور نہاوند کے واقعات کی مفصل تشریح کی گئی ہے نیز دجلہ اور اہواز کے اطراف کے حکام کے نام ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں ،شعرا کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار مقام و منزلت کے مطابق درج کئے گئے ہیں ،لیکن سیف کے افسانوی پہلوانوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہیں دیتا اور تمیم کے جنگجوئوں ،ان کے رزمی اشعار اور ان مقامات و شہروں کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں ملتا جن کا سیف نے نام لیا ہے !کیوں کہ وہ تمام حکمران اور سردار جن کا بلاذری نے نام لیا ہے ،قبائل مازن ،ثقیف ،اشعری ،بنی حارثہ ،بنی سلیم اور فزارہ سے تعلق رکھتے تھے نہ کہ خاندان تمیم اور سیف بن عمر سے !!

اب ،اس کا جواب کہ سیف نے کیوں ایسا کام کیا ہے ؟

جہاں تک ہمیں سیف کی ذہنیت اور مزاج کا علم ہے خاندانی اور مذہبی تعصبات اس کے زندیقی ہونے کے پیش نظر اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے ۔وہ نہیں چاہتا کہ اپنے خاندان کو ان تمام فخر و مباہات سے محروم دیکھے ،لہٰذا وہ ان تمام فتوحات کو براہ راست اپنے قبیلہ یعنی خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے نام ثبت کرتا ہے ۔

وہ ایسے شہر اور قصبوں کی تخلیق کرتا ہے جنھیں تمیمیوں نے فتح کیا ہے ،تمیمیوں کی لڑی ہوئی جنگوں اور ان کی فتوحات کے افسانے تخلیق کرتا ہے حتیٰ اس حد تک دعویٰ کرتا ہے کہ جن فوجیوں نے پہلے بار سرزمین ایران پر قدم رکھے اور ایرانی فوجوں سے نبرد آزما ہوئے تمیمی تھے !!

ان تمام افسانوی افتخارات کو شواہد و دلائل کے ساتھ رزمیہ شعراء کی زبان پر جاری کرکے خاندان تمیم سے منسوب کرتا ہے اور سرانجام ایرانی بادشاہ کی جاگیر کو بھی خلیفہ عمر سے وکالت حاصل کرکے خاندان تمیم کو بخش دیتا ہے ۔اس طرح وہ ان افتخارات کو اپنے قبیلہ کے نام ثبت کرکے ایک امت کی تاریخ کا مذاق اڑاتا ہے !!

۱۷۱

سیف نے خاندان تمیم کے بصرہ میں ہمسایہ اور ہم پیمان ،خاندان '' بنی العم'' کے لئے شجرۂ نسب بھی گڑھ لیا ہے اور اس خاندان کا نام بنی العم رکھنے کے سلسلے میں ایک دلچسپ افسانہ تخلیق کرلیا ہے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں چند اشعار بھی لکھے ہیں ۔اس کے علاوہ کارناموں ،جنگوں ، جنگی منصوبوں اور شجاعتوں کے ایک مجموعہ کو خاندان بنی عم سے منسوب کرتاہے تاکہ اس کی خیال بندی اور افسانہ سازی کی نعمت سے یہ خاندان بھی محروم نہ رہے ۔

سیف کے اتنی زحمتیں اٹھا کر افسانوں کو خلق کرنے کے بعد کیا شاعر عرب '' جریر '' کو یہ کہنا مناسب تھا !!

اے خاندان بنی عم !دور ہو جائو اہوازاور نہر تیری تمھاری جگہ ہے اور عرب تمھیں نہیں جانتے !!

سیف کے افسانوی شعرا

سیف نے ان افسانوں میں خاندان تمیم سے درج ذیل نو شعراء کی تخلیق کی ہے تاکہ وہ قبیلہ تمیم کی عظمت و افتخارات پر داد سخن دیں اور اس قبیلہ کی شہرت کو چار چاند لگائیں ۔یہ ایسے شعراء ہیں جن کا سراغ شعرو ادب کے کسی دیوان میں نہیں ملتا اور ان کے رزمیہ اشعار سیف کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتے :

١۔ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ '' مرة بن مالک تمیمی '' کا بھائی ہے جو اپنے بھائی '' مرة'' کی سرزنش کرتے ہوئے یوں کہتا ہے :

عزیز ''مر'' گویا اندھا ہو چکا تھا جو مال و ثروت کے لالچ میں راہی

۱۷۲

ملک ایرن ہوا

٢۔ اور یہ ''مر'' کا دوسرا بھائی '' یربوع بن مالک '' ہے جوکہتا ہے :

قبیلہ ٔ ''معد'' و ''نزار'' کے سردار اپنے فخر و مباہات کا اظہار کرتے وقت جانتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ '' مضر '' دوسرے قبائل کو روشنی بخشنے والا ہے ۔

یہاں تک کہتا ہے :

اگر عربوں کے افتخارات کی لہریں اپنی خود ستائی میں موجیں ماریں گی تو ہمارے ریوں کے افتخارات کی لہریں سب سے بلند ہوں گی۔

٣۔ ''ایوب بن عصبہ '' نے یہ اشعار کہے ہیں :

ہم قبیلۂ تمیم والے ایسے بادشاہ ہیں جنھوں نے اپنے اسلاف کو عزت بخشی ہے اور ہم نے ہر زمانے میں دوسروں کی عورتوں کو اسیر بنایا ہے۔

٤۔ یہ ''حصین بن نیار حنظلی ''سیف کا جعلی شاعر اور صحابی ہے جو کہتا ہے:

جب ''دلوث'' سے بالاتر ایرانیوں کا ہمارے ایک فوجی دستہ سے آمنا سامنا ہوا تو (ہمارے فوجیوں کے )جوش و خروش کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چکا چوندھ ہوگئیں ۔

٥۔ ''غالب بن کلیب'' یوں کہتا ہے:

ہم ''مناذر'' کی جنگ میں کافی سرگرم تھے جبکہ اسی وقت کلیب اور وائل نے ''تیری'' کے باشندوں کو بے بس کر کے رکھ دیا تھا۔

یہ ہم تھے ، جنھوں نے ''ہرمزان'' اور اس کی فوج پر فتح پائی اور ان کے کھانے پینے کی اشیاء سے بھری آبادیوں پر قبضہ جمایا۔

٦۔ اور یہ ''اسود بن سریع تمیمی'' سیف کا تخلیق کیا ہوا شاعر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہے، جو کہتا ہے:

تیری جان کی قسم! ہمارے رشتہ دار امین تھے اور جو کچھ ان کے حوالے کیا جاتا تھا، اس کا تحفظ کرتے تھے۔

''ہرمزان '' اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر میدانِ کارزار سے فرار کر گیا اور اس نے مجبور ہوکر اہواز کو ترک کردیا۔

٧۔ سیف کا ایک اور جعلی صحابی اور شاعر ''حرقوص بن زہیر'' ہے ، جو کہتا ہے:

۱۷۳

ہم نے ''ہرمزان'' اور اس کے مال و متاع سے بھرے شہروں پر فتح پائی۔

٨۔ سیف کا ایک اور جعلی صحابی و مہاجر ''سلمی بن قین'' کہتا ہے:

کیا آپ کو یہ خبر نہیں ملی کہ ''ورکائ''کے مقام پر ''انوش جان'' پر ہمارے ہاتھوں کیا گزری؟

٩۔ اور یہ سیف کا جعلی مہاجر اور قدیم و مقرب صحابی ''حرملہ بن مریطہ'' ہے جو اس طرح داد سخن دیتا ہے:

'' ہم تمیمیوں نے اپنے سواروں کی تلواروں کی ضرب سے '' میشان '' کے باشندوں کو '' ورکاء '' تک پسپاکر دیا ''

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ''حرملہ بن مریطہ ''جیسا صحابی تخلیق کیا ہے کہ نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے دیکھا ہے، نہ پہچانا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب حتی تابعین نے بھی اسے نہیں پہچانتے ۔

سیف نے ''حرملہ بن مریطہ ''کو ایک نیک صحابی و مہاجر کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور اس کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے قصے بیان کئے ہیں تا کہ اس کی باتیں دلوں پر اثر ڈالیں اور اس کے افسانے معتبرکتابوں میں درج کئے جائیں ۔

یہی سبب ہے ،کہ معروف علماء جیسے ،ابن اثیر ،ذہبی اور ابن حجر ،سیف پر اعتماد کرکے اس کی باتوں کی تشریح کرتے ہوئے اپنی معتبر اور قیمتی کتابوں ،اسد الغابہ ،التجرید اور الاصابہ ۔ جو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معرفی سے مخصوص ہیں ۔ میں ''حرملہ بن مریطہ ''کی زندگی کے حالات کو درج کئے ہیں اور اسے بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

ان علماء نے سیف کی انہی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''مثنی بن لاحق ''اور ''حصین بن نیار''جن کی داستان اسی کتاب میں آئے گی اور ''حرقوص بن زہیر ''جس کی داستان بیان کی گئی ،کو بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ۔

''سلمی بن قین ''کی زندگی کے حالات بھی بیان ہو چکے اور اس کے نیک صحابی اور مہاجر ہونے پر تاکید کی گئی ہے ۔ اور''ابن کلبی ''سے روایت کرکے اس کا شجرہ نسب بھی لکھا گیا ہے ،لیکن ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ اس شجرہ نسب کو ابن کلبی نے سیف سے روایت نقل کیاہے یا کسی اور سے !!

۱۷۴

سیف کی ان ہی باتوں پر استناد کرکے ''سمعانی ''اور ''ابن ماکولا''''ایو ب بن عصبہ ''کے بارے میں لکھتے ہیں :

سیف کی کتاب ''فتوح ''میں درج مطالب کے مطابق ''ایوب بن عصبہ''ایک شاعر ہے جس نے نہر تیری میں ''ہرمزان ''سے لڑی گئی جنگ میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے اشعار بھی کہے ہیں ۔

ابن اثیر نے بھی ''سمعانی ''اور ''ابن ماکولا ''کی عین عبارت کو سند کا ذکر کئے بغیر ''اللباب''نامی اپنی دوسری کتاب میں درج کیا ہے ۔اور ایسا لگتا ہے کہ ''ایوب بن عصبہ ''کے حالات لکھتے وقت ابن اثیر کے سامنے سیف کی کتاب موجود تھی ،جیسا کہ ہم نے حموی کے بارے میں پڑھا کہ کتا ب ''معجم ''میں مطالب لکھتے وقت اس کے پاس ''ابن خاضبہ ''کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف کی کتا ب موجود تھی ،اور اسی کتاب پر تکیہ کرتے ہوئے اور اس بات کا واضح طور پر اقرار کریے ہوئے اس کے افسانوں اور مقامات کی تشریح کی ہے۔ کیوں کہ یہ افسانے صرف سیف کے یہاں پائے جاتے ہیں ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے حموی نے سیف کی کتاب ''فتوح ''سے ایسے مطالب اور اشعار بھی نقل کئے ہیں ،جن کے بارے میں طبری نے اپنی تاریخ ''کبیر''میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی کی کتاب ''معجم البلدان ''میں سیف کی ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو تاریخ طبری میں نہیں پائی جاتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ طبری نے ایسی احادیث کو اہم نہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیاہے ۔

ساتھ ہی جو کچھ طبری نے سیف کی کتا ب سے نقل کیا ہے ،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

''زبیدی ''نے اپنی کتاب ''تاج العروس ''میں مادہ ''مرط ''کے بارے میں جو بات لکھی ہے وہ قابل توجہ ہے :

''حرملہ بن مریطہ ''کے بارے میں سیف اپنی کتاب ''فتوح ''میں ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک اصحاب میں سے تھا ۔میں (زبیدی )اضافہ کرتا ہوں کہ حرملہ بنی حنظلہ سے تھا اور مہا جرین میں سے تھا ۔ اور یہ وہی شخص ہے جس نے ''مناذر''کو فتح کیا اور ''سلمی بن قین '' کے ہمراہ نہر تیری کو فتح کرنے میں شرکت کی ہے ۔اس کی داستان لمبی ہے ۔

گویا زبیدی نے اس نکتہ کہ طرف توجہ ہی نہیں کی کہ مریطہ کے بارے میں اس کی باقی روایت کامصدر بھی سیف بن عمر ہے یا کوئی ،جب کہ وہ یہ کہتا ہے کہ: میں اضافہ کرتا ہوں

۱۷۵

حرملہ کے بارے میں سیف کے افادات

ا۔'' اطد'' '' نعمان '' اور '' جعرانہ '' نام کی تین جگہوں کی تخلیق ،تا کہ ان کا نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہوکر محققین کی سر گردانی ا ور حیرت کا سبب بنے ۔

٢۔''حرملہ بن مریطہ ''نام کا ایک صحابی و مہاجر تخلیق کرنا ۔

٣۔ایسے میدان کارزار اور فوجی کیمپوں کی تخلیق جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے تھے ۔

٤۔ خاندان تمیم کے جنگجوئوں کی طرف سے حیرت انگیز اور حساس جنگی منصوبوں کی تخلیق ۔

٥۔خاندان تمیم کو شہرت بخشنے کے لئے فتوحات اور دلاوریوں پر مشتمل رجز خوانیاں اور رزمیہ اشعار تخلیق کرنا ،اوریہ سب حرملہ سے متعلق افسانہ کی برکت سے ہے ۔

۱۷۶

نواں جعلی صحابی حرملہ بن سلمی تمیمی

ابن حجر کی غلطی کا نتیجہ

جو کچھ ہم نے یہاں تک حرملہ بن مریطہ کے بارے میں کہا ،وہ ایسے مطالب تھے جو سیف کی روایتوں کے متن میں آئے ہیں ۔ یعنی ان ہی روایتوں کے پیش نظر ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی سوانح لکھنے والے مؤلفین نے حرملہ بن مریطہ کے حالات زندگی میں بھی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے قلم بند کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیف کی انہی روایتوں کے پیش نظر طد ، نعمان اور بعرانہ جیسی فرضی اور خیالی جگہیں بھی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کی گئی ہیں !

ان حالات کے پیش نظر ابن حجر جیسا دانشور ان مطالب پر اپنی طرف سے بھی کچھ بڑھا کر پیش کرتا ہے ۔ اور ممکن ہے اس کے یہ اضافات اس امر کا نتیجہ ہوں کہ جب ابن حجر سیف کی کتاب ''فتوح'' میں حرملہ و سلمی کا افسانہ پڑھ رہا تھا تو ، یا حرملہ و سلمی کو غلطی سے حرملہ بن سلمی پڑھا ہے یا جو کتاب اس کے ہاتھ میں تھی ، اس میں کتابت کی غلطی سے حرملہ و سلمی کے بجائے حرملہ بن سلمی لکھا گیا ہو اور اس چیز نے ابن حجر کو غلطی سے دو چار کیا ہے !

بہر حال جو بھی ہو ،کوئی فرق نہیں در حقیقت بات یہ ہے کہ ابن حجر نے حرملہ بن سلمی نامی ایک نئے تخلیق شدہ صحابی کے لئے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں جگہ مخصوص کرکے لکھتا ہے :

سیف بن عمر تمیمی اور طبری نے لکھا ہے:

خالد بن ولید نے ١٢ھ میں عراق کی زمام حکومت سنبھالنے کے بعد حکم جاری کیا کہ حرملہ بن سلمی ،مذعور بن عدی اور سلمی بن قین اس سے ملحق ہو جائیں ۔جن کی کمانڈ میں مجموعی طور پر آٹھ ہزار جنگجو تھے ۔

۱۷۷

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ سپہ سالار کا عہدہ صحابی کے علاوہ کسی اور کونہیں سونپا جاتا تھا ۔(ز)

ابن حجر اپنی بات کے آخرمیں حرف ''ز '' اس لئے لایا ہے کہ واضح کرے کہ اس مطلب کو کسی اور مورخ نے ذکر نہیں کیا ہے ،بلکہ یہ حصہ اس کا زیادہ کیا ہو ا ہے ۔

سیف کے افسانوں کی تحقیق

سیف کی روایتوں کے اسناد کی جانچ پڑتال سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ خود ان س داستانوں کا خالق ہے اور مندرجہ ذیل مطالب ہماری اس بات کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں ۔

سیف جب اپنی خاص روش کے تحت کوئی افسانہ لکھتاہے تو اس کے لئے کسی دلاور یا دلاوروں کو خلق کرتا ہے ، پھر کسی گواہ یا کئی گواہوں کو خلق کرتا ہے تاکہ وہ ان دلاوروں کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے شاہد رہیں ، پھر ان تمام مطالب کو ایسے روایوں کی زبانی روایت کرتا ہے جو ایک ددسرے سے سنتے ہیں اوراس طرح اس سلسلہ کو اپنے افسانے کے زمانے سے متصل کرتا ہے !

ہم ان گواہوں کے نام اور اسناد کی جستجو و تحقیق کے سلسلے میں مجبور ہو کر تاریخ اور صحابیوں کے حالات پر مشتمل کتابوں اور انساب کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اتفاق سے کبھی کبھی سیف کے راویوں کے نام سے مشابہ راویوں سے مواجہ ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں ۔

کیا واقعا ًیہ راوی وہی ہے جس کانام سیف نے اپنے افسانے کی سند میں لیا ہے ؟ لیکن یہ شخص سیف سے برسوں پہلے مر چکا ہے لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ سیف نے اسے دیکھا ہو اورکہ اس قسم کے مطالب اس نے سنے ہوں ۔

لیکن اس کا یہ دوسرا راوی بھی سیف کے مرنے کے برسوں بعد پید ا ہوا ہے اس لئے ممکن نہیں ہے سیف نے اسے دیکھا ہو اور اس سے بات کی ہو !!

۱۷۸

اس کے علاوہ دیگر مشابہ و ہمنام راوی بھی کنیت اور القاب کے لحاظ سے سیف کے راویوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ۔

جوکچھ ہم نے کہا یہ اس صورت میں ہے کہ ایسا نام کہیں موجود ہو جس کا مشابہ سیف نے اپنی حدیث کی سند کے عنوان سے ذکر کیا ہو ، اگر ایسا نہ ہو تو کام اور بھی مشکل تر ہو جاتا ہے ، کیوں کہ ایسی صورت میں ہم مذکو رہ مصادر کے علاوہ ادب ، حدیث ،سیرت اور طبقات وغیرہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہوں گے تاکہ تحقیق کرکے ایسے راویوں کے وجود یا عدم کے سلسلے میں اطمینان حاصل کریں ۔

ہم نے سیف کے گزشتہ افسانوں اور احادیث میں مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے راویوں کے طور پر اکثر محمد ،طلحہ ، مھلب ، عمرو ، اور دیگر چند مجہول الہویہ افراد کو پیش کرتا ہے ۔ ان افراد کو پہچاننے کے لئے تحقیق کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ، کیوں کہ یہ محمد کون ہے ؟ اگر سیف کے تصور کے مطابق یہ وہی محمد بن عبداللہ بن سواد نویرہ ہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرکے اس کی روایت کی گئی ٢١٦،احادیث اپنی تاریخ کبیر میں درج کی ہیں ، تو وہ سیف کا خلق کردہ راوی ہے ۔ ہم نے مذکورہ بالا مصادر میں اس کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔

طلحہ ،کیا یہ وہی سیف کے خیالات کی تخلیق طلحہ بن عبدالرحمن ہے یا کوئی اور طلحہ ؟

اور مھلب ،کہ سیف نے اسے مھلب بن عقبہ اسدی کے نام سے پہچنوایا ہے ۔ اس کی روایت کی گئی ٧٠ ،احادیث تاریخ طبری میں موجود ہیں ۔ اس کا نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں کہیں نہیں پایا جاتا۔

و ، عمر کون ہو سکتا ہے؟ کیا یہ وہی عمرو ہے جس کی نحویوں کی زبانی زید کے ہاتھوں پٹائی ہوتی ہے '' ضَرَبَ زَیْد عَمْراً'' یا کوئی اور عمرو ہے ؟

اس افسانہ میں سیف چند دیگر راویوں کا بھی نام لیتا ہے جن کا نام رجال کی کتابوں میں آیا ہے ،جیسے'' عبد اللہ بن مغیرہ عبدی ''اور '' ابوبکر ہذلی ''

۱۷۹

کیا سیف نے ان دو راویوں کو دیکھا ہے اور ان کی باتوں کو سنا ہے ؟ یا یہ کہ صرف ایک افسانہ گڑھا کیا ہے اور ان کو دیکھے بغیر یا اس کے بغیر کہ انھوں نے سیف کو دیکھ کر اس سے کوئی بات کی ہو ، ان سے نسبت دے دی ہے ؟!یہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا ؟

اب جب کہ واضح ہو چکاا کہ سیف کی احادیث صرف اس کے ذہن کی پیدا وار ہیں تو ذرا اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے منابع پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں :

١۔ امام المؤرخین ،محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ١٢،٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٢۔ ابن ماکولا نے اپنی کتاب '' اکمال '' میں سند کی ذکر کے ساتھ۔

٣۔ سمعانی نے اپنی کتاب '' انساب'' میں سند کے ساتھ

٤۔ یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں سند کے ساتھ۔ اس بیان کے ساتھ کہ ابن خاضبہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف کی کتاب فتوح اس کے سامنے تھی ۔

درج ذیل دانشوروں نے مذکورہ علماء سے مطالب نقل کئے ہیں :

٥۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں براہ راست سیف بن عمر اور طبری سے نقل کیا ہے

٦۔ ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں کتاب اسد الغابہ سے نقل کیا ہے ۔

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' الاصابہ '' میں طبری سے ۔

٨۔ عبدالمؤمن نے کتاب '' مراصد الاطلاع '' میں یاقوت حموی سے ۔

٩۔ ابن اثیر نے کتاب '' اللباب '' میں سمعانی سے ۔

١٠۔ دوبارہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کیا ہے

١١۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں طبری سے ۔

١٢۔ زبیدی نے کتاب '' تاج العروس '' میں روایت کے ایک حصہ کو سند کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371