ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب0%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

ایک سو پچاس جعلی اصحاب

مؤلف: علامہ سید مرتضیٰ عسکری
زمرہ جات:

صفحے: 371
مشاہدے: 115356
ڈاؤنلوڈ: 2881


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 115356 / ڈاؤنلوڈ: 2881
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد 2

مؤلف:
اردو

چنانچہ پہلے سے مرتب کئے گئے نقشہ کے مطابق حرملہ اور سلمی ہرمزان سے نبردآزما ہوتے ہیں ، اسی اثنا میں غالب وکلیب کی مدد بھی انھیں پہنچتی ہے جنھوں نے منصوبہ کے مطابق مناذر و نہرتیری پر قبضہ کر لیا تھا۔

مناذر اور نہر تیری کے زوال کی خبر دشمن کی شکست کا سبب بن جاتی ہے اور ہرمزان فرار کرکے اہواز کے پل سے گزر جاتا ہے اور اپنے اور اسلامی سپاہ کے درمیان پل کو حائل قرار دیتا ہے اور صلح کی درخواست کرتا ہے ،مسلمان کافی قتل عام کرنے اور جنگی غنائم پر قبضہ کرنے کے بعد ہرمزان کی صلح کی درخواست منظور کرتے ہیں ۔

اس فتحیابی کے بعد عتبہ ،حرملہ و سلمی کو مناذر اور نہر تیری کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈسونپتا ہے ۔ اس کے بعدوہ دونوں عتبہ کی اجازت سے اپنے خاندان کی نمائندگی کے طور پر خلیفہ عمر کی خدمت میں حاضر ہو جاتے ہیں اور اپنے خاندان کے ناگفتہ بہ حالات کے بارے میں خلیفہ کو رپورٹ پیش کرتے ہیں خلیفہ حکم دیتا ہے کہ خاندان کسریٰ کی جاگیر انھیں بخش دی جائے ۔

ہرمزان صلح کی قرار داد پر عمل کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے اور کردوں سے مدد طلب کرتا ہے ۔ ''ہرقوص بن زہر'' جو صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھا خلیفہ عمر کے حکم سے ہرمزان سے نبرد آزما ہونے کے لئے مامور ہوتا ہے اور اس طرح مسلمان دوسری بار ہرمزان پر فتح پاتے ہیں اور سوق اہواز پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔ہرمزان شوشتر کی طرف فرار کر جاتا ہے ۔

سیف داستان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

ایر ان کا بادشاہ کسریٰ لوگوں کے قوی جذبات کو ابھارکر انھیں ایرانیوں کے ساتھ جنگ کرنے پر اکساتا ہے اور اہواز کے لوگ بھی بادشاہ کی درخواست منظور کرتے ہیں ۔حرملہ و سلمی ان حالات کی رپورٹ خلیفہ کو دیتے ہیں ۔اس کے نتیجہ میں اسلامی فوج کسریٰ کی فوج سے نبرد آزما ہو کر اس کے منصوبوں کو نقش بر آب کردیتی ہے ۔اور ایک گھمسان کی جنگ کے نتیجہ میں ایرانیوں کو شکست دی جاتی ہے اور مسلمان شوش و شوشتر پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں ،حرملہ اور سلمی جو دونوں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی اور مہاجر تھے اس فتحیابی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔

۱۶۱

وہ مزید کہتا ہے :

نہاوند کی جنگ میں خلیفہ عمر ،حرملہ و سلمی اور اپنے دوسرے فوجی کمانڈ روں کو لکھتے ہیں کہ : سرحدوں کا خیال رکھیں اور وہیں ٹھہریں ۔لیکن ان دو مہاجر و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں نے اس حکم پر اکتفا نہیں کی بلکہ ایرانیوں پر اپنے پے در پے حملوں کے نتیجہ میں کافی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اصفہان اور پارس کے اطراف تک پیش قدمی کی اور نہاوند میں لڑنے والے ایرانیوں کو رسد اور مدد پہنچنے کے راستے کاٹ کر رکھ دئے ۔یہاں پر سیف کے اشعار کو جو اس نے اپنے جعلی صحابی کی زبان پر جاری کئے ہیں نقل کیا گیا ہے ۔

یہ اس افسانہ کاخلاصہ تھا جو سیف بن عمر تمیمی نے اپنے دو جعلی صحابیوں ،حرملہ اور سلمی کے لئے تخلیق کیا ہے اور اپنے خاندان تمیم کے افتخارات میں اضافہ کرنے کی غرض سے اس جھوٹ کو گڑھا ہے وہ اپنے اس خاندانی تعصبات کی بناء پر تما م دنیا کو رسوا و بدنام کرنے لئے تیار ہے ،ایک امت کی تاریخ کی تو بات ہی نہیں !!

سیف کی روایتوں اور تاریخی حقایق کا موازنہ

اب ہم حقیقت کو پانے کے لئے اور ایران پرحملہ کے آغاز کی کیفیت کے سلسلے میں تاریخ کی دوسری کتابوں ،منجملہ تاریخ بلاذری کی طرف رجوع کرتے ہیں :

بلاذری اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھتا ہے :

۱۶۲

خلیفہ عمر ابن خطاب نے خاندان ''نوفل بن عبد مناف'' کے ہم پیمان '' عتبہ بن غزوان '' کو آٹھ سو سپاہیوں کی سر کردگی میں بصرہ کی طرف روانہ کیا ۔عتبہ ایران کی سرزمین میں پیش قدمی کو جاری رکھتے ہوئے خریبہ ( ویرانہ)(۱) کے مقام پر پہنچا اور.....

یہاں تک کہ وہ کہتا ہے :

اس کے بعد عتبہ نے ''ابلہ'' کی طرف کوچ کیا اور وہاں کے لوگوں سے نبرد آزما ہوا۔ایک شدید جنگ کے بعد اس علاقہ پر قبضہ کرکے دشمن کو فرات کی طرف پسپا کردیا۔اسلامی فوج کے ان حملوں کے ہراول دستے کی کمانڈ ''مجاشع بن مسعود'' کے ہاتھ میں تھی۔اس جنگ میں فرات کے اطراف بھی فتح کئے گئے ۔اس کے بعد عتبہ مدائن کی طرف روانہ ہوا۔

مذار کے ''سرحدبان'' نے عتبہ سے جنگ کی دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی ۔سر انجام خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو دشمنوں پر فتح وکامرانی عطاکی۔سرحد بان کے تمام سپاہی یا قتل کئے گئے یا دریا میں غرق ہوگئے ۔خود سرحد بان پکڑا گیا اور عتبہ کے حکم سے اس کا سرتن سے جدا کردیاگیا۔

اس کامیابی کے بعد عتبہ نے صحرائے میشان کی طرف لشکرکشی کی ،کیونکہ ایرانی ایک بڑا لشکر لے کر وہاں پر انتظار کررہے تھے ۔عتبہ دشمن کی فوج کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لئے اور ان کے دلوں

____________________

۱)۔ جنگ کی ابتدا میں '' خریبہ'' ایک آباد شہر تھا۔لیکن مثنی کے مسلسل اور پے در پے حملوں کے نتیجہ میں ویران ہوکر رہ گیاتھا۔بعد میں یہ شہر ''خریبہ''یعنی ویرانہ کے نام سے مشہور ہوا۔شہر بصرہ اسی ویرانہ کے کنارے پر تعمیر کیاگیاہے۔

۱۶۳

میں اسلامی فوج کے حملے کا خوف ڈالنے کے لئے ایک ہراول دستے کے ہمراہ ان پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑا ۔خدائے تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور وہ کامیاب ہوا۔اس اچانک حملہ میں ایرانیوں کے تمام مقامی کسان اور حکمران مارے گئے ۔

عتبہ نے دشمن کو شکست دینے کے بعد فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور تیزی کے ساتھ خود کو شہر''ابرقباد'' پہنچادیا اور اسے بھی فتح کرلیا۔

بلاذری اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ پر لکھتاہے :

١٤ھ میں خلیفہ عمر نے عتبہ کو حکم دیا کہ عراق میں مسلمانوں کے لئے ایک شہر تعمیر کرے ۔عتبہ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ''خریبہ'' کے نزدیک سرزمین بصرہ کا انتخاب کرکے نَے کی لکڑی کے گھر، مسجد،گورنرکی عمارت ،جیل خانہ اور عدالت کی عمارت تعمیر کی۔

عتبہ نے شہر بصرہ کو تعمیر کرنے کے بعد فریضہ حج انجام دینے کی غرض سے مکہ مکرمہ کے لئے رخت سفر باندھا اور اپنی جگہ پر '' مجاشع بن مسعود'' کو جانشین مقرر کیا۔چونکہ اس وقت ''مجاشع بن مسعود'' بصرہ میں موجود نہ تھا،اس لئے اس کے نائب کے طور پر ''مغیرہ ابن شعبہ'' کو بصرہ کی زمام حکومت سونپی گئی۔

چونکہ میشان کامقامی حکمران اسلام سے نافرمانی کرکے کافر ہوگیاتھا ۔اس کئے مغیرہ نے اس سے جنگ کی اور مذکورہ علاقہ کے کسانوں اور حکمرانوں کو قتل کرکے علاقہ میں امن وامان برقرار کیا اور اس کی رپورٹ خلیفہ عمر کوبھیج دی۔

شہر ''ابر قباد'' کے لوگوں نے بھی بغاوت کی ۔مغیرہ نے وہاں پر بھی فوج کشی کی اور جنگ کے ذریعہ دوبارہ اس شہر کو فتح کیا ۔

آخر میں بلاذری لکھتاہے :

عتبہ،فریضہ حج انجام دینے کے بعد بصرہ کی طرف لوٹتے ہوئے راستے میں فوت ہوگیا اور خلیفہ عمر نے بصرہ کی حکومت ''مغیرہ بن شعبہ'' کو سونپی۔

مدائنی لکھتاہے:

ایران کے لوگ میشان،صحرائے میشان ،فرات اور ابرقباد کے تمام علاقوں کو میشان کہتے ہیں

۱۶۴

ایک ''امین ''گورنر!!

بصرہ پر حکومت کے دوران مغیرہ نے خاندان بنی ہلال کی ''ام جمیل '' نامی ایک شوہر دار عورت سے ناجائز تعلقات قائم کئے تھے ۔اس عورت کا شوہر قبیلۂ ثقیف سے تعلق رکھتا تھااور اس کا نام حجاج بن عتیک تھا ۔

چند مسلمان ان دونوں کے اس بھید سے آگاہ ہوئے اور ان کی تاک میں رہے ۔جب یہ خلیفہ کاامین گورنر ''مغیرہ '' ''ام جمیل'' کے پاس چلا گیا ،تو تھوڑی ہی دیر میں تاک میں بیٹھے ہوئے لوگ اچانک اس کے کمرے میں داخل ہو گئے اور ان دونوں کو عریاں ،شرمناک اور رسوائی کے عالم میں رنگے ہاتھوں پکڑا لیا !!

یہ لوگ مدینہ جاکر خلیفہ سے ملے اور روئداد کو جیسے دیکھا تھا من وعن خلیفہ کی خدمت میں بیان کیا ۔ عمر نے مغیرہ کو مدینہ بلایا اور ابو موسیٰ اشعری کو اس کی جگہ پر بصرہ بھیج دیا۔

مغیرہ کی داستان شاہدوں کی خلیفہ کے سامنے شہادت دینا ،خلیفہ کا رد عمل ،اس کا حیرت انگیز فیصلہ اور اس ماجرا کا خاتمہ ایک مفصل اور لمبا قصہ ہے ۔ اس کی تفصیلات آپ کتاب '' عبداللہ ابن سبا کی پہلی جلد کے '' مغیرہ ابن شعبہ کی زنا کاری کے عنوان سے لکھے گئے واقعات میں پڑھ سکتے ہیں ۔

بلاذری کہتا ہے :

ابو موسیٰ اشعری ١٦ھ میں مغیرہ ابن شعبہ کے بعد بصرہ کا گورنر مقرر ہوا ۔اس نے دجلہ کے اطراف میں موجود تمام آبادیوں کی جانچ پڑتال کی اور اسے معلوم ہوا کہ وہاں کے باشندے فرمانبرداری پر آمادہ ہیں ،اس لئے حکم جاری کیا کہ اس علاقہ کی زمینوں کی پیمائش کرکے ان کے لئے خراج کی مقدار معین کی جائے ۔

اہواز کے علاقوں کی فتح کے بارے میں بلاذری نے اس طرح لکھا ہے :

مغیرہ بن شعبہ جب عتبہ بن غزوان کے جانشین کی حیثیت سے بصرہ میں گورنر تھا ،اس نے ١٥ھ کے اواخر اور ١٦ھ کے اوائل میں اہواز پر حملہ کیا اور سوق اہواز کے مقام پروہاں کے مقامی حکمراں '' فیروزان '' سے جنگ کی اور سرانجام ایک رقم حاصل کرکے اس سے صلح کر لی۔

۱۶۵

'' فیروزان'' نے مغیرہ کے جانشین ابوموسیٰ اشعری کی حکومت کے دوران اپنے معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوئے خراج ادا کرنے سے پہلو تہی کی ۔ ابو موسیٰ نے اس سے جنگ کی اور ١٧ھ میں سوق اہواز اور نہرتیری کو فتح کرکے اپنے مقبوضہ علاقوں میں شامل کر لیا۔

بلاذری ،واقدی اور ابو مخنف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :

ابو موسیٰ نے اہواز کی طرف لشکر کشی کی ۔وہ ایران کے مختلف علاقوں کو یکے بعد دیگرے فتح کرتے ہوئے پیش قدمی کرتا جاتا تھا اور ایرانی بھی مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگتے جاتے تھے وہ اس طرح اپنی زمینیں چھوڑ کر پسپائی اختیار کرتے جاتے تھے ۔ اس کے نتیجہ میں ابو موسیٰ اشعری نے اس علاقہ کی تمام زمینوں پر اپنا قبضہ جما لیا ۔اس وقت وہ صرف شوش ،استخر ،مناذر اور رامہرمز کو فتح نہ کر سکا ۔

بعد میں ابو موسیٰ نے مناذر کو اپنے محاصرہ میں لے لیا تھا کہ اسے خلیفہ کا حکم ملا کہ اپنی جگہ پر کسی کو جانشین مقرر کرکے شوش پر حملہ کرے ۔ابو موسیٰ نے خلیفہ کے حکم تعمیل کرتے ہوئے '' ربیع بن زیاد حارثی '' کو اپنی جگہ پر مقرر کرکے شوش پر چڑھائی کی اور جنگ کرکے اس جگہ کو فتح کیا سر انجام ''بڑے اور چھوٹے مناذر '' دونوں کو مسلمانوں نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ابو موسیٰ کے حکم سے عاصم بن قیص نے وہاں کی زمام حکومت سنبھالی ۔ابو موسیٰ نے '' سوق اہواز'' کی حکومت کی باگ ڈور انصار کے ہم پیمان جندب فزاری کے حوالہ کی ۔

شوش پر اس طرح قبضہ کیا کہ ابو موسیٰ نے شوش کا محاصرہ کیا ،محاصرہ کو رفتہ رفتہ تنگ تر کرتا گیا جب محاصرہ میں پھنسے لوگوں کے کھانے پینے کے ذخائر ختم ہوئے ،تومجبور ہوکر انہوں نے عاجزانہ طور پر ابو موسیٰ سے صلح کی درخواست کی ۔ابو موسیٰ نے ان کی صلح کی درخواست اس شرط پرمنظور کی کہ محاصرہ میں پھنسے لوگوں میں سے صرف ایک سو افراد کو امان ملے گی محاصرہ میں پھنسے لوگوں نے مجبور ہوکر اسے قبول کیا ۔جب قلعہ کے دروازے کھولے گئے تو ان میں سے صرف ایک سو آدمی صحیح وسالم بچ کر نکلے اور شوش کے باقی تمام لوگ اور سپاہی قتل عام کردیئے گئے ۔

۱۶۶

ابو موسیٰ نے رامہرمزکے باشندو ں سے آٹھ یانو لاکھ درہم وصول کرنے کے عوض ان سے صلح کی ۔لیکن رامہرمزکے باشندوں نے ابو موسیٰ کی حکومت کے آخری دنوں میں بغاوت کی۔اس بغاوت کو بری طرح کچل دیا گیا وہاں کے باشندے پھر سے اطاعت کرنے پر مجبور ہوئے۔

بلاذری نے شوشتر کی فتح کے بارے میں تفصیل سے حالات درج کئے ہیں ۔جس میں سپہ سالاروں ،کمانڈروں اور میدان کارزار کے ایک ایک جنگجو کے نام تک ذکر کئے ہیں لیکن کہیں پر حرملہ ،سلمی ،کلیب اور غالب کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اور اسی طرح فتح نہاوند میں بھی ان کا کہیں ذکر تک نہیں ہے ۔

اس عالم نے مذکورہ علاقے کے تمام حکام ،فرماں روااورخلیفہ عمر کے کارندوں کے نام درج کئے ہیں ،مثال کے طور پر ''عاصم بن فیض'' مناذرپر ،'' ثمرہ ابن جندب فزارسوق اہواز پر ۔''مجاشع بن مسعود'' بصرہ کی سر زمینوں پر ۔'' حجاج بن عتیک '' فرات پر ،خلیفہ عمر کے اقرباء میں سے '' نعمان بن عدی '' نامی ایک شخص دجلہ کی سرزمینوں پر اور '' ابومریم حنفی '' رامہر مز پر حکومت کرتے تھے ۔

اسی طرح بلاذری نے خلیفہ عمر کے بعض عارض اور دائمی کارندوں کے نام بھی اپنی کتاب میں درج کئے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کی کیفیت اور ان کی فرماں روائی کے تحت علاقوں کے بارے میں مکمل تفصیلات ذکر کئے ہیں ۔لیکن ان میں کہیں بھی سیف کے افسانوی دلاوروں اور سورمائوں کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا !!

لیکن ''بنی عم'' کے بارے میں ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب '' اغانی'' میں انھیں قبیلۂ تمیم سے نسبت دے کر اس طرح لکھا ہے :

وہ حکومت عمر بن خطاب کے زمانے میں بصرہ میں خاندان تمیم سے مل کر اسلام لائے ہیں ۔اس کے بعد انھوں نے دوسرے مسلمانوں کے دوش بدوش مشرکین سے جنگ کی اور اچھی جنگ لڑی ہے اور عرب ان سے یوں کہتے تھے:

اگر چہ تم لوگ عرب نہیں ہو ،لیکن تم ہمارے بھائی ہمارے خاندان کے افراد ،ہمارے دوست اور ہمارے بنی عم ہو ۔

اسی سبب سے مذکورہ قبیلہ کے لوگوں کو '' بنی عم'' کہا جاتا تھا اور انھیں اعراب محسوس کیا جاتا تھا

۱۶۷

نیز کہا جاتا ہے کہ چوں کہ '' جریر'' و '' فرزدق'' دو شاعروں کے درمیان کچھ ان بن ہو گئی اور وہ ایک دوسرے کے خلاف بد گوئی اور ہجو کہنے پر اتر آئے اس لئے ان کے خاندانوں میں بھی ایک دوسرے سے ٹھن گئی ۔اس دوران خاندان بنی عم کے افراد لاٹھی لے کر خاندان فرزدق کی مدد کے لئے آگئے ۔

''جریر''نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :

فرزدق کی،لاٹھی لے کر آنے والے بنی عم کے علاوہ کوئی اور مدد کرنے والا نہیں تھا !!بنی عم والو: دور ہو جائو اہواز اور نہر تیری تمھاری جگہ ہے اور عرب تمھیں نہیں پہچانتے !

کہا جاتا ہے کہ بعض شعراء نے ''بنی ناحیہ'' کی ہجو کر کے انہیں خاندان بنی عم سے تشبیہ دی ہے اور انہیں قریش سے منسوب کر کے طعنہ زنی کرتے ہوئے اس طرح اشعار کہے ہیں :

ہم قریش کے ''بنی سام''کو ''بنی عم'' کے مانند جانتے ہیں ۔

بحث و تحقیق کا نتیجہ

ہم نے دیکھا کہ سیف کہتا ہے ، خالد بن ولید نے حرملہ ، مثنی ، سلمی،اور مذعور کو خط لکھا تا کہ ''ابلّہ'' کے مقام پر اپنی سپاہ کے ساتھ اس سے ملحق ہوجائیں ۔اور کہتا ہے کہ جنہوں نے ایرانیوں سے لڑنے کے لئے پہلی بار ایران کی سرزمین پر قدم رکھا، وہ حرملہ ، سلمی اور دیگر دو تمیمی سردار تھے جو نیک مہاجر اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی محسوب ہوتے تھے، ااوران کے ماتحت چار ہزار فوجی تھے، وہ اطد، جعرانہ اور نعمان میں داخل ہوئے اور ایرانیوں سے جنگ کرتے ہوئے پیش قومی کرکے ورقائ، ہرمزگرد اور فرات باذقلی کو فتح کرلیا۔

۱۶۸

جبکہ بلاذری نے بصرہ اور خوزستان کے تمام سپہ سالاروں اور گورنروں کو اس ترتیب سے جیسے وہ بر سرکار آئے ،بصرہ کے بانی ''عتبہ بن غزوان'' جو آٹھ سو سپاہیوں کے ساتھ وہاں پر آیا تھا سے لے کر اُن کے آخری نفر تک تمام مشخصات اور کو ائف کے ساتھ ایک ایک کر کے نام لیکر ان کا ذکر کیا ہے، ان کی فتوحات اور خدمات کی تشریح کی ہے۔ لیکن سیف کے دوسور ما و صحابیوں کا ان میں کہیں نام ونشان نہیں ملتا!! اس کے علاوہ اطد ، جعرانہ اور نعمان جیسی جگہوں کا بھی کہیں ذکر نہیں ملتا۔

ہم نے دیکھا کہ کتاب ''معجم البلدان'' کے مؤلف ، حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیالی مقامات کا اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اور اپنے مطالب کے ثبوت میں ان کی دلاوریوں کا ذکر بھی شعر کی صورت میں پیش کیا ہے!

عبد المؤمن نے بھی حموی کی تقلید کرتے ہوئے انہی مطالب کو اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں نقل کیا ہے۔

چونکہ حموی کا اعتقاد یہ ہے کہ ''جعرانہ'' نام کی دوجگہیں ہیں ، ان میں سے ایک جگہ حقیقتا ًحجاز میں موجود ہے اور دو سری جگہ جس کا سیف نے پتا دیا ہے وہ خوزستان میں واقع ہے .اس لئے حموی نے اسی اعتقاد سے اس مشترک نام کو اپنی کتاب ''المشترک' میں سیف کی اسی روایت کی سند کے ساتھ درج کیا ہے۔

سیف، مناذر اور تیری نام کے دو علاقوں کو اپنے افسانوی اورخیالی پہلوانوں ، خاندان بنی عم کے غالب اور کلیب کے ذریعہ فتح کرکے ان کی نسبت کو خاندان تمیم تک پہنچاتا ہے ۔ اور سوق اہواز کی فتح کو اپنے ایک دوسرے خیالی و افسانوی سورما اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ''ہرقوص بن زہیر'' سے منسوب کرتا ہے۔ اور آخر خاندان تمیم کے چار نامور سرداروں کو الگ الگ عہدے اس ترتیب سے سونپتا ہے :مناذر اور تیری کی فوجی چھاونیوں کی کمانڈ حرملہ اور سلمی کے حوالہ کرتا ہے اور ان دو علاقوں کی حکومت خاندان بنی العم کے دو سرداروں کلیب اورغالب کے ہاتھوں میں دیتا ہے اور سر انجام حرملہ و سلمی کو نمایندوں کے عنوان سے خلیفہ کی خدمت میں بھیجتا ہے تاکہ تمیمیوں کی ناگفتہ بہ حالت کی تفصیل خلیفہ کے حضور بیان کریں ۔اس کے بعد سیف ادعا کرتا ہے کہ خلیفہ عمر نے حکم دیا کہ خاندان کسریٰ کی جاگیر خاندان تمیم میں تقسیم اور ان کے نام درج کی جائے !اور اس طرح ایرانی بادشاہوں کی جاگیر و جائداد تمیمیوں کو منتقل ہوتی ہے !!

۱۶۹

سیف ،حرملہ و سلمی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو صحابی ،مہاجر ،فہم و فراست کے مالک اور حالات پر تسلط رکھنے والوں کی حیثیت سے پہچنواتا ہے اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے اپنے افسانے کی ایک الگ فصل میں کسریٰ کو بھڑکاتا ہے کہ ایرانیوں کے قومی جذبات مشتعل کرکے ایک منظم فوج آمادہ کرے ساتھ ہی ساتھ اہواز کے باشندوں سے بھی مدد طلب کرے تاکہ اس کے افسانوی دلاور حرملہ اور سلمی اس زبردست خطرہ کا احساس کرکے اس روئیداد کی رپورٹ خلیفہ کو پہنچاکر کسریٰ کے منصوبے کو نقش بر آب کردیں ۔

سیف ،شوش اور شوشترکی جنگوں میں اپنے دو افسانوی اور خیالی کرداروں حرملہ اور سلمی کو اہم کام سونپتے ہوئے مناطق اصفہان اور پارس پر ان کے بے رحمانہ حملوں کی جو تشریح کرتا ہے اور فوجی اہمیت کے دوراستوں پر ان کے تسلط اور نہاوند کی جنگ میں دشمن کی کمک رسانی کے راستے کو کاٹ دینے کی جو توصیف کرتا ہے ۔یہ سب کے سب اس کے افسانے اور خیال بندیاں ہیں ۔

لیکن سیف کے اس قدر جھوٹ اور خیال بندی کے مقابلے میں بلاذری لکھتا ہے :

بصرہ کے گورنر کا جانشین '' مغیرہ بن شعبہ ثقفی'' سوق اہواز کے باشندوں سے صلح کرتا ہے ۔ جب ابو موسیٰ اشعری کی حکومت کے دوران سوق اہواز کے باشندے معاہدے سے پہلو تہی کرتے ہیں تو ابو موسیٰ اشعری ان کے ساتھ سخت جنگ کرتا ہے اور اس جگہ کو نہر تیری تک اپنے قبضے میں کر لیتا ہے ۔

ابو موسیٰ اشعری کا جانشین '' ربیع بن زیاد حارثی '' مناذر کبریٰ پر قبضہ کرتا ہے ۔اس کے بعد ابو موسیٰ اس جگہ کی حکومت '' عاصم بن قیس '' کو اور ''سوق اہواز ''کی حکومت ثمرة ابن جندب فزاری کے حوالہ کرتا ہے ۔

۱۷۰

ہم نے دیکھا کہ بلاذری کی کتاب میں فتح شوش اور شوشتر اور نہاوند کے واقعات کی مفصل تشریح کی گئی ہے نیز دجلہ اور اہواز کے اطراف کے حکام کے نام ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں ،شعرا کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار مقام و منزلت کے مطابق درج کئے گئے ہیں ،لیکن سیف کے افسانوی پہلوانوں کا کہیں نام و نشان دکھائی نہیں دیتا اور تمیم کے جنگجوئوں ،ان کے رزمی اشعار اور ان مقامات و شہروں کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں ملتا جن کا سیف نے نام لیا ہے !کیوں کہ وہ تمام حکمران اور سردار جن کا بلاذری نے نام لیا ہے ،قبائل مازن ،ثقیف ،اشعری ،بنی حارثہ ،بنی سلیم اور فزارہ سے تعلق رکھتے تھے نہ کہ خاندان تمیم اور سیف بن عمر سے !!

اب ،اس کا جواب کہ سیف نے کیوں ایسا کام کیا ہے ؟

جہاں تک ہمیں سیف کی ذہنیت اور مزاج کا علم ہے خاندانی اور مذہبی تعصبات اس کے زندیقی ہونے کے پیش نظر اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے ۔وہ نہیں چاہتا کہ اپنے خاندان کو ان تمام فخر و مباہات سے محروم دیکھے ،لہٰذا وہ ان تمام فتوحات کو براہ راست اپنے قبیلہ یعنی خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے نام ثبت کرتا ہے ۔

وہ ایسے شہر اور قصبوں کی تخلیق کرتا ہے جنھیں تمیمیوں نے فتح کیا ہے ،تمیمیوں کی لڑی ہوئی جنگوں اور ان کی فتوحات کے افسانے تخلیق کرتا ہے حتیٰ اس حد تک دعویٰ کرتا ہے کہ جن فوجیوں نے پہلے بار سرزمین ایران پر قدم رکھے اور ایرانی فوجوں سے نبرد آزما ہوئے تمیمی تھے !!

ان تمام افسانوی افتخارات کو شواہد و دلائل کے ساتھ رزمیہ شعراء کی زبان پر جاری کرکے خاندان تمیم سے منسوب کرتا ہے اور سرانجام ایرانی بادشاہ کی جاگیر کو بھی خلیفہ عمر سے وکالت حاصل کرکے خاندان تمیم کو بخش دیتا ہے ۔اس طرح وہ ان افتخارات کو اپنے قبیلہ کے نام ثبت کرکے ایک امت کی تاریخ کا مذاق اڑاتا ہے !!

۱۷۱

سیف نے خاندان تمیم کے بصرہ میں ہمسایہ اور ہم پیمان ،خاندان '' بنی العم'' کے لئے شجرۂ نسب بھی گڑھ لیا ہے اور اس خاندان کا نام بنی العم رکھنے کے سلسلے میں ایک دلچسپ افسانہ تخلیق کرلیا ہے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں چند اشعار بھی لکھے ہیں ۔اس کے علاوہ کارناموں ،جنگوں ، جنگی منصوبوں اور شجاعتوں کے ایک مجموعہ کو خاندان بنی عم سے منسوب کرتاہے تاکہ اس کی خیال بندی اور افسانہ سازی کی نعمت سے یہ خاندان بھی محروم نہ رہے ۔

سیف کے اتنی زحمتیں اٹھا کر افسانوں کو خلق کرنے کے بعد کیا شاعر عرب '' جریر '' کو یہ کہنا مناسب تھا !!

اے خاندان بنی عم !دور ہو جائو اہوازاور نہر تیری تمھاری جگہ ہے اور عرب تمھیں نہیں جانتے !!

سیف کے افسانوی شعرا

سیف نے ان افسانوں میں خاندان تمیم سے درج ذیل نو شعراء کی تخلیق کی ہے تاکہ وہ قبیلہ تمیم کی عظمت و افتخارات پر داد سخن دیں اور اس قبیلہ کی شہرت کو چار چاند لگائیں ۔یہ ایسے شعراء ہیں جن کا سراغ شعرو ادب کے کسی دیوان میں نہیں ملتا اور ان کے رزمیہ اشعار سیف کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتے :

١۔ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ '' مرة بن مالک تمیمی '' کا بھائی ہے جو اپنے بھائی '' مرة'' کی سرزنش کرتے ہوئے یوں کہتا ہے :

عزیز ''مر'' گویا اندھا ہو چکا تھا جو مال و ثروت کے لالچ میں راہی

۱۷۲

ملک ایرن ہوا

٢۔ اور یہ ''مر'' کا دوسرا بھائی '' یربوع بن مالک '' ہے جوکہتا ہے :

قبیلہ ٔ ''معد'' و ''نزار'' کے سردار اپنے فخر و مباہات کا اظہار کرتے وقت جانتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ '' مضر '' دوسرے قبائل کو روشنی بخشنے والا ہے ۔

یہاں تک کہتا ہے :

اگر عربوں کے افتخارات کی لہریں اپنی خود ستائی میں موجیں ماریں گی تو ہمارے ریوں کے افتخارات کی لہریں سب سے بلند ہوں گی۔

٣۔ ''ایوب بن عصبہ '' نے یہ اشعار کہے ہیں :

ہم قبیلۂ تمیم والے ایسے بادشاہ ہیں جنھوں نے اپنے اسلاف کو عزت بخشی ہے اور ہم نے ہر زمانے میں دوسروں کی عورتوں کو اسیر بنایا ہے۔

٤۔ یہ ''حصین بن نیار حنظلی ''سیف کا جعلی شاعر اور صحابی ہے جو کہتا ہے:

جب ''دلوث'' سے بالاتر ایرانیوں کا ہمارے ایک فوجی دستہ سے آمنا سامنا ہوا تو (ہمارے فوجیوں کے )جوش و خروش کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چکا چوندھ ہوگئیں ۔

٥۔ ''غالب بن کلیب'' یوں کہتا ہے:

ہم ''مناذر'' کی جنگ میں کافی سرگرم تھے جبکہ اسی وقت کلیب اور وائل نے ''تیری'' کے باشندوں کو بے بس کر کے رکھ دیا تھا۔

یہ ہم تھے ، جنھوں نے ''ہرمزان'' اور اس کی فوج پر فتح پائی اور ان کے کھانے پینے کی اشیاء سے بھری آبادیوں پر قبضہ جمایا۔

٦۔ اور یہ ''اسود بن سریع تمیمی'' سیف کا تخلیق کیا ہوا شاعر اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی ہے، جو کہتا ہے:

تیری جان کی قسم! ہمارے رشتہ دار امین تھے اور جو کچھ ان کے حوالے کیا جاتا تھا، اس کا تحفظ کرتے تھے۔

''ہرمزان '' اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر میدانِ کارزار سے فرار کر گیا اور اس نے مجبور ہوکر اہواز کو ترک کردیا۔

٧۔ سیف کا ایک اور جعلی صحابی اور شاعر ''حرقوص بن زہیر'' ہے ، جو کہتا ہے:

۱۷۳

ہم نے ''ہرمزان'' اور اس کے مال و متاع سے بھرے شہروں پر فتح پائی۔

٨۔ سیف کا ایک اور جعلی صحابی و مہاجر ''سلمی بن قین'' کہتا ہے:

کیا آپ کو یہ خبر نہیں ملی کہ ''ورکائ''کے مقام پر ''انوش جان'' پر ہمارے ہاتھوں کیا گزری؟

٩۔ اور یہ سیف کا جعلی مہاجر اور قدیم و مقرب صحابی ''حرملہ بن مریطہ'' ہے جو اس طرح داد سخن دیتا ہے:

'' ہم تمیمیوں نے اپنے سواروں کی تلواروں کی ضرب سے '' میشان '' کے باشندوں کو '' ورکاء '' تک پسپاکر دیا ''

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ''حرملہ بن مریطہ ''جیسا صحابی تخلیق کیا ہے کہ نہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے دیکھا ہے، نہ پہچانا ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب حتی تابعین نے بھی اسے نہیں پہچانتے ۔

سیف نے ''حرملہ بن مریطہ ''کو ایک نیک صحابی و مہاجر کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور اس کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے قصے بیان کئے ہیں تا کہ اس کی باتیں دلوں پر اثر ڈالیں اور اس کے افسانے معتبرکتابوں میں درج کئے جائیں ۔

یہی سبب ہے ،کہ معروف علماء جیسے ،ابن اثیر ،ذہبی اور ابن حجر ،سیف پر اعتماد کرکے اس کی باتوں کی تشریح کرتے ہوئے اپنی معتبر اور قیمتی کتابوں ،اسد الغابہ ،التجرید اور الاصابہ ۔ جو اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی معرفی سے مخصوص ہیں ۔ میں ''حرملہ بن مریطہ ''کی زندگی کے حالات کو درج کئے ہیں اور اسے بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کی فہرست میں قرار دیا ہے ۔

ان علماء نے سیف کی انہی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے ''مثنی بن لاحق ''اور ''حصین بن نیار''جن کی داستان اسی کتاب میں آئے گی اور ''حرقوص بن زہیر ''جس کی داستان بیان کی گئی ،کو بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ۔

''سلمی بن قین ''کی زندگی کے حالات بھی بیان ہو چکے اور اس کے نیک صحابی اور مہاجر ہونے پر تاکید کی گئی ہے ۔ اور''ابن کلبی ''سے روایت کرکے اس کا شجرہ نسب بھی لکھا گیا ہے ،لیکن ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ اس شجرہ نسب کو ابن کلبی نے سیف سے روایت نقل کیاہے یا کسی اور سے !!

۱۷۴

سیف کی ان ہی باتوں پر استناد کرکے ''سمعانی ''اور ''ابن ماکولا''''ایو ب بن عصبہ ''کے بارے میں لکھتے ہیں :

سیف کی کتاب ''فتوح ''میں درج مطالب کے مطابق ''ایوب بن عصبہ''ایک شاعر ہے جس نے نہر تیری میں ''ہرمزان ''سے لڑی گئی جنگ میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے اشعار بھی کہے ہیں ۔

ابن اثیر نے بھی ''سمعانی ''اور ''ابن ماکولا ''کی عین عبارت کو سند کا ذکر کئے بغیر ''اللباب''نامی اپنی دوسری کتاب میں درج کیا ہے ۔اور ایسا لگتا ہے کہ ''ایوب بن عصبہ ''کے حالات لکھتے وقت ابن اثیر کے سامنے سیف کی کتاب موجود تھی ،جیسا کہ ہم نے حموی کے بارے میں پڑھا کہ کتا ب ''معجم ''میں مطالب لکھتے وقت اس کے پاس ''ابن خاضبہ ''کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف کی کتا ب موجود تھی ،اور اسی کتاب پر تکیہ کرتے ہوئے اور اس بات کا واضح طور پر اقرار کریے ہوئے اس کے افسانوں اور مقامات کی تشریح کی ہے۔ کیوں کہ یہ افسانے صرف سیف کے یہاں پائے جاتے ہیں ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے حموی نے سیف کی کتاب ''فتوح ''سے ایسے مطالب اور اشعار بھی نقل کئے ہیں ،جن کے بارے میں طبری نے اپنی تاریخ ''کبیر''میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی کی کتاب ''معجم البلدان ''میں سیف کی ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو تاریخ طبری میں نہیں پائی جاتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ طبری نے ایسی احادیث کو اہم نہ سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیاہے ۔

ساتھ ہی جو کچھ طبری نے سیف کی کتا ب سے نقل کیا ہے ،ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

''زبیدی ''نے اپنی کتاب ''تاج العروس ''میں مادہ ''مرط ''کے بارے میں جو بات لکھی ہے وہ قابل توجہ ہے :

''حرملہ بن مریطہ ''کے بارے میں سیف اپنی کتاب ''فتوح ''میں ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک اصحاب میں سے تھا ۔میں (زبیدی )اضافہ کرتا ہوں کہ حرملہ بنی حنظلہ سے تھا اور مہا جرین میں سے تھا ۔ اور یہ وہی شخص ہے جس نے ''مناذر''کو فتح کیا اور ''سلمی بن قین '' کے ہمراہ نہر تیری کو فتح کرنے میں شرکت کی ہے ۔اس کی داستان لمبی ہے ۔

گویا زبیدی نے اس نکتہ کہ طرف توجہ ہی نہیں کی کہ مریطہ کے بارے میں اس کی باقی روایت کامصدر بھی سیف بن عمر ہے یا کوئی ،جب کہ وہ یہ کہتا ہے کہ: میں اضافہ کرتا ہوں

۱۷۵

حرملہ کے بارے میں سیف کے افادات

ا۔'' اطد'' '' نعمان '' اور '' جعرانہ '' نام کی تین جگہوں کی تخلیق ،تا کہ ان کا نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہوکر محققین کی سر گردانی ا ور حیرت کا سبب بنے ۔

٢۔''حرملہ بن مریطہ ''نام کا ایک صحابی و مہاجر تخلیق کرنا ۔

٣۔ایسے میدان کارزار اور فوجی کیمپوں کی تخلیق جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتے تھے ۔

٤۔ خاندان تمیم کے جنگجوئوں کی طرف سے حیرت انگیز اور حساس جنگی منصوبوں کی تخلیق ۔

٥۔خاندان تمیم کو شہرت بخشنے کے لئے فتوحات اور دلاوریوں پر مشتمل رجز خوانیاں اور رزمیہ اشعار تخلیق کرنا ،اوریہ سب حرملہ سے متعلق افسانہ کی برکت سے ہے ۔

۱۷۶

نواں جعلی صحابی حرملہ بن سلمی تمیمی

ابن حجر کی غلطی کا نتیجہ

جو کچھ ہم نے یہاں تک حرملہ بن مریطہ کے بارے میں کہا ،وہ ایسے مطالب تھے جو سیف کی روایتوں کے متن میں آئے ہیں ۔ یعنی ان ہی روایتوں کے پیش نظر ،پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی سوانح لکھنے والے مؤلفین نے حرملہ بن مریطہ کے حالات زندگی میں بھی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے قلم بند کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیف کی انہی روایتوں کے پیش نظر طد ، نعمان اور بعرانہ جیسی فرضی اور خیالی جگہیں بھی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کی گئی ہیں !

ان حالات کے پیش نظر ابن حجر جیسا دانشور ان مطالب پر اپنی طرف سے بھی کچھ بڑھا کر پیش کرتا ہے ۔ اور ممکن ہے اس کے یہ اضافات اس امر کا نتیجہ ہوں کہ جب ابن حجر سیف کی کتاب ''فتوح'' میں حرملہ و سلمی کا افسانہ پڑھ رہا تھا تو ، یا حرملہ و سلمی کو غلطی سے حرملہ بن سلمی پڑھا ہے یا جو کتاب اس کے ہاتھ میں تھی ، اس میں کتابت کی غلطی سے حرملہ و سلمی کے بجائے حرملہ بن سلمی لکھا گیا ہو اور اس چیز نے ابن حجر کو غلطی سے دو چار کیا ہے !

بہر حال جو بھی ہو ،کوئی فرق نہیں در حقیقت بات یہ ہے کہ ابن حجر نے حرملہ بن سلمی نامی ایک نئے تخلیق شدہ صحابی کے لئے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں جگہ مخصوص کرکے لکھتا ہے :

سیف بن عمر تمیمی اور طبری نے لکھا ہے:

خالد بن ولید نے ١٢ھ میں عراق کی زمام حکومت سنبھالنے کے بعد حکم جاری کیا کہ حرملہ بن سلمی ،مذعور بن عدی اور سلمی بن قین اس سے ملحق ہو جائیں ۔جن کی کمانڈ میں مجموعی طور پر آٹھ ہزار جنگجو تھے ۔

۱۷۷

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ سپہ سالار کا عہدہ صحابی کے علاوہ کسی اور کونہیں سونپا جاتا تھا ۔(ز)

ابن حجر اپنی بات کے آخرمیں حرف ''ز '' اس لئے لایا ہے کہ واضح کرے کہ اس مطلب کو کسی اور مورخ نے ذکر نہیں کیا ہے ،بلکہ یہ حصہ اس کا زیادہ کیا ہو ا ہے ۔

سیف کے افسانوں کی تحقیق

سیف کی روایتوں کے اسناد کی جانچ پڑتال سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ خود ان س داستانوں کا خالق ہے اور مندرجہ ذیل مطالب ہماری اس بات کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں ۔

سیف جب اپنی خاص روش کے تحت کوئی افسانہ لکھتاہے تو اس کے لئے کسی دلاور یا دلاوروں کو خلق کرتا ہے ، پھر کسی گواہ یا کئی گواہوں کو خلق کرتا ہے تاکہ وہ ان دلاوروں کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے شاہد رہیں ، پھر ان تمام مطالب کو ایسے روایوں کی زبانی روایت کرتا ہے جو ایک ددسرے سے سنتے ہیں اوراس طرح اس سلسلہ کو اپنے افسانے کے زمانے سے متصل کرتا ہے !

ہم ان گواہوں کے نام اور اسناد کی جستجو و تحقیق کے سلسلے میں مجبور ہو کر تاریخ اور صحابیوں کے حالات پر مشتمل کتابوں اور انساب کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اتفاق سے کبھی کبھی سیف کے راویوں کے نام سے مشابہ راویوں سے مواجہ ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں ۔

کیا واقعا ًیہ راوی وہی ہے جس کانام سیف نے اپنے افسانے کی سند میں لیا ہے ؟ لیکن یہ شخص سیف سے برسوں پہلے مر چکا ہے لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ سیف نے اسے دیکھا ہو اورکہ اس قسم کے مطالب اس نے سنے ہوں ۔

لیکن اس کا یہ دوسرا راوی بھی سیف کے مرنے کے برسوں بعد پید ا ہوا ہے اس لئے ممکن نہیں ہے سیف نے اسے دیکھا ہو اور اس سے بات کی ہو !!

۱۷۸

اس کے علاوہ دیگر مشابہ و ہمنام راوی بھی کنیت اور القاب کے لحاظ سے سیف کے راویوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ۔

جوکچھ ہم نے کہا یہ اس صورت میں ہے کہ ایسا نام کہیں موجود ہو جس کا مشابہ سیف نے اپنی حدیث کی سند کے عنوان سے ذکر کیا ہو ، اگر ایسا نہ ہو تو کام اور بھی مشکل تر ہو جاتا ہے ، کیوں کہ ایسی صورت میں ہم مذکو رہ مصادر کے علاوہ ادب ، حدیث ،سیرت اور طبقات وغیرہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہوں گے تاکہ تحقیق کرکے ایسے راویوں کے وجود یا عدم کے سلسلے میں اطمینان حاصل کریں ۔

ہم نے سیف کے گزشتہ افسانوں اور احادیث میں مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے راویوں کے طور پر اکثر محمد ،طلحہ ، مھلب ، عمرو ، اور دیگر چند مجہول الہویہ افراد کو پیش کرتا ہے ۔ ان افراد کو پہچاننے کے لئے تحقیق کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ، کیوں کہ یہ محمد کون ہے ؟ اگر سیف کے تصور کے مطابق یہ وہی محمد بن عبداللہ بن سواد نویرہ ہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرکے اس کی روایت کی گئی ٢١٦،احادیث اپنی تاریخ کبیر میں درج کی ہیں ، تو وہ سیف کا خلق کردہ راوی ہے ۔ ہم نے مذکورہ بالا مصادر میں اس کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔

طلحہ ،کیا یہ وہی سیف کے خیالات کی تخلیق طلحہ بن عبدالرحمن ہے یا کوئی اور طلحہ ؟

اور مھلب ،کہ سیف نے اسے مھلب بن عقبہ اسدی کے نام سے پہچنوایا ہے ۔ اس کی روایت کی گئی ٧٠ ،احادیث تاریخ طبری میں موجود ہیں ۔ اس کا نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں کہیں نہیں پایا جاتا۔

و ، عمر کون ہو سکتا ہے؟ کیا یہ وہی عمرو ہے جس کی نحویوں کی زبانی زید کے ہاتھوں پٹائی ہوتی ہے '' ضَرَبَ زَیْد عَمْراً'' یا کوئی اور عمرو ہے ؟

اس افسانہ میں سیف چند دیگر راویوں کا بھی نام لیتا ہے جن کا نام رجال کی کتابوں میں آیا ہے ،جیسے'' عبد اللہ بن مغیرہ عبدی ''اور '' ابوبکر ہذلی ''

۱۷۹

کیا سیف نے ان دو راویوں کو دیکھا ہے اور ان کی باتوں کو سنا ہے ؟ یا یہ کہ صرف ایک افسانہ گڑھا کیا ہے اور ان کو دیکھے بغیر یا اس کے بغیر کہ انھوں نے سیف کو دیکھ کر اس سے کوئی بات کی ہو ، ان سے نسبت دے دی ہے ؟!یہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا ؟

اب جب کہ واضح ہو چکاا کہ سیف کی احادیث صرف اس کے ذہن کی پیدا وار ہیں تو ذرا اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے منابع پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں :

١۔ امام المؤرخین ،محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ١٢،٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔

٢۔ ابن ماکولا نے اپنی کتاب '' اکمال '' میں سند کی ذکر کے ساتھ۔

٣۔ سمعانی نے اپنی کتاب '' انساب'' میں سند کے ساتھ

٤۔ یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں سند کے ساتھ۔ اس بیان کے ساتھ کہ ابن خاضبہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف کی کتاب فتوح اس کے سامنے تھی ۔

درج ذیل دانشوروں نے مذکورہ علماء سے مطالب نقل کئے ہیں :

٥۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں براہ راست سیف بن عمر اور طبری سے نقل کیا ہے

٦۔ ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں کتاب اسد الغابہ سے نقل کیا ہے ۔

٧۔ ابن حجر نے کتاب '' الاصابہ '' میں طبری سے ۔

٨۔ عبدالمؤمن نے کتاب '' مراصد الاطلاع '' میں یاقوت حموی سے ۔

٩۔ ابن اثیر نے کتاب '' اللباب '' میں سمعانی سے ۔

١٠۔ دوبارہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کیا ہے

١١۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں طبری سے ۔

١٢۔ زبیدی نے کتاب '' تاج العروس '' میں روایت کے ایک حصہ کو سند کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

۱۸۰