ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب15%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138200 / ڈاؤنلوڈ: 4306
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

پندہواں سبق

قرآن معجزہ ہے

جس طرح اللہ نے بندوں کی ہدایت کے لئے توریت ، زبور ، اور انجیل نازل کی۔ اسی طرح قرآن کو بھی قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا۔

قرآن ہمارے نبیؐ پر معجزہ بن کر نازل ہوا ہے۔ جس کو آپ نے اپنی نبوت کے دعوے کی سچائی کے ثبوت میں پیش کیا۔ اور قرآن میں خود خودا نے کہا کہ اگر کسی کو میرے نبیؐ کے دین میں شک ہو تو اسے چاہئیے کہ قرآن کے کسی ایک سورے کا جواب لے آئے۔ اور اگر جواب نہ لا سکے تو یقین کرے کہ ہمارا نبیؐ اور اس کا دین سچا ہے۔ آج تک کوئی بھی قرآن کی ایک آیت کا جواب نہیں لا سکا۔ اور جواب کا نہ آنا قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل ہے۔

سوالات:۔

۱ ۔ قیامت تک کی ہدایت کے لئے کون سی کتاب نازل ہوئی ؟

۲ ۔ قرآن کے معجزہ ہونے کی دلیل کیا ہے ؟

۲۱

سولہواں سبق

آداب تلاوت

قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ان علامتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ج ۔ وقف جائز علامت ہے یہاں پر ٹھہرنا ہے۔

ز ۔ یہ بھی وقف جائز کی علامت ہے مگر ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔

لا ۔ اس علامت پر ٹھہرا نہیں چاہئیے بلکہ بعد سے ملا کر پڑھنا چاہئیے۔

ط ۔ یہ علامت وقف مطلق کی ہے جس سے آگے بڑھ جانا مناسب نہیں ہے۔

م ۔ یہ علامت وقف لازم کی ہے جس سے آگے بڑھنا جائز نہیں ہے۔

قف ۔ یہ ٹھہر جانے کی علامت ہے ۔

ص ۔ یہاں سانس توڑ دینے کی رخصت ہے۔

صلے ۔ یہاں وصل اولیٰ ہے (یعنی) آگے سے ملاکر پڑھنا بہتر ہے۔

۔ یہ علامت جس لفظ کے آگے پیچھے ہوتی ہے اس میں دو میں سے ایک جگہ وقف کیا جاتا ہے ۔

سالات :

۱ ۔ علامت کا لحاظ رکھے بغیر تلاوت قرآن کرنا کیسا ہے ؟

۲ ۔ " ز " اور " ج " کون سے وقف کی علامت ہیں اور دونوں کے حکم میں کیا فرق ہے

۲۲

سترہواں سبق

فرشتے

جس طرح اللہ نے زمین پر مٹی سے انسان کو پیدا کیا ہے اسی طرح نور سے ایک مخلوق پیدا کی ہے جس کا نام فرشتہ ہے۔ فرشتے اپنی خلقت میں معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ یہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی رکوع میں رہتا ہے کوئی سجدہ میں کوئی قیام میں رہتا ہے کوئی تسبیح میں۔

فرشتوں کو اللہ نے مخلتف کاموں کے لئے پیدا کیا ہے کسی کو زمین کا انتظام سپرد کیا ہے ، کسی کو آسمان کا ، کسی کو پانی پر مقرر کیا ہے اور کسی کو ہوا پر۔

ان فرشتوں میں چار فرشتے زیادہ مشہور ہیں

۱ ۔ جبرئیل ۔ جو ہمارے نبیؐ کے پاس قرآن لیکر آیا کرتے تھے۔

۲ ۔ میکائیل ۔ جو بندوں کا رزق ان تک پہنچاتے ہیں ۔

۳ ۔ اسرافیل ۔ جن کے ایک صور پھونکنے پر ساری دنیا فنا ہو جائےگی۔

۴ ۔ عزرائیل ۔ جن کا کام لوگوں کی روح قبض کرنا ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اللہ نے فرشتوں کو کس چیز سے پیدا کیا ان سے کبھی کوئی غلطی ہو سکتی ہے؟

۲ ۔ اس فرشتہ کا نام بتاؤ جو بندوں کو رزق پہنچاتا ہے ۔

۲۳

اٹھارہواں سبق

اسباب خیر و برکت

۱ ۔ قبل غروب چراغ جلانا۔

۲ ۔ گھر میں داخل ہوتے وقت سورہ توحید پڑھنا۔

۳ ۔ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا۔

۴ ۔ یاقوت اور فیروزہ کی انگوٹھی پہننا۔

۵ ۔ صبح سویرے اٹھنا۔

۶ ۔ مسجد میں قبل اذان پہنچنا۔

۷ ۔ باطہارت رہنا۔

۸ ۔ بعد نماز تعقیبات پڑھنا

۹ ۔ عزیزوں کے ساتھ احسان کرنا۔

۱۰ ۔ گھر کو صاف رکھنا۔

۱۱ ۔ مومن کی حاجت روائی کرنا۔

۱۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا۔

۱۳ ۔ موذن کی اذان دھرانا۔

۱۴ ۔ دسترخان پر گرے ہوئے ریزوں کو چن کر ادب سے کھانا۔

۱۵ ۔ رات کو باوضو سونا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب خیر و برکت میں کوئی پانچ اسباب بیان کرو ؟

۲ ۔ فکر معاش میں صبح کو جانا اور اذان دہرانا اسباب برکت میں سے اسباب نحوست میں۔

۲۴

انیسواں سبق

اسباب نحوست

۱ ۔ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔

۲ ۔ کھڑے ہو کر کھانا کھانا۔

۳ ۔ منھ سے چراغ بجھانا۔

۴ ۔ دامن یا آستین سے منھ پوچھنا۔

۵ ۔ حمام میں پیشاب کرنا۔

۶ ۔ مٹی سے ہاتھ دھونا۔

۷ ۔ لہسن ، پیاز کے چھلکے جلانا۔

۸ ۔ قبر پر بیٹھنا۔

۹ ۔ چوکھٹ پر بیٹھنا ۔

۱۰ ۔ دانتوں سے ناخن کاٹنا۔

۱۱ ۔ فقیروں سے بے تو جہی کرنا۔

۱۲ ۔ قلم پر پاؤں رکھنا۔

۱۳ ۔ مکڑی کا جالا گھر میں رکھنا۔

۱۴ ۔ حالت جنابت میں کچھ کھانا ۔

۱۵ ۔ کھڑے ہو کر کنگھی کرنا۔

۱۶ ۔ رات کو کھڑے ہوکر پانی پینا۔

۲۵

۱۷ ۔ کوڑا گھر میں رکھنا۔

۱۸ ۔ کھڑے ہوکر پائجامہ پہننا۔

۱۹ ۔ نماز صبح کے بعد اول طلوع آفتاب سو جانا۔

سوالات :

۱ ۔ اسباب نحوست میں سے کوئی پانچ سبب بیان کرو ؟

۲ ۔ قبر پر بیٹھنا اور باطہارت سونا میں کون اسباب خیر و برکت میں داخل ہے اور کون اسباب نحوست ہیں ؟

۲۶

بیسواں سبق

آداب بندگی

اگر اللہ ہمیں یاد رہے تو ہم کبھی گناہ نہ کریںگے کیوںکہ گناہ سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ جب کوئی اچھا بیٹا اپنے باپ کو ناراض نہیں کرتا تو کوئی سچھا مسلمان اپنے خدا کو کیسے ناراض کر سکتا ہے۔ ایک سچھے مسلمان ہونے کی بنا پر ہمارا فرض ہے کہ ہم گناہوں سے بچیں اور خدا کے احکام بجا لائیں۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خدا کو یاد رکھیں۔ خدا کی یاد سے دل پاک رہتا ہے۔ ہمارے کاموں میں برکت پیدا ہوتٰی ہے اور نحوست دور ہوتی ہے۔اس لئے عادت ڈالو کہ جب :

۱ ۔ کوئی کام شروع کرو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بسم الله ۔۔۔۔کہو

۲ ۔ کوئی کام ختم کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمد الله ۔۔۔۔کہو

۳ ۔ کوئی بری بات دیکھو یا کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔استغفر الله ۔۔۔۔کہو

۴ ۔ کوئی اچھی چیز دیکھو یا اچھا کام کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان الله ۔۔۔۔کہو

۵ ۔ اٹھتے بیٹھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَةَ اِلاَّ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۶ ۔ غم کی خبر سنو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِنَّ لِلهِ وَ اَنَا اِليه راجِعُونَ ۔۔۔۔کہو

۷ ۔ خوشی کی خبر سنو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَا شَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۸ ۔ کوئی وعدہ کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انشَآءَ الله ۔۔۔۔کہو

۹ ۔ جب کسی کو رخصت کرو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فی اَمَانِ الله ۔۔۔۔کہو

۱۰ ۔ جب کوئیٰ نعمت پاؤ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شُکراً الله ۔۔۔۔کہو

۱۱ ۔ جب کوئی بڑا خیال پیدا ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَعُوذُ بِا للهِ ۔۔۔۔کہو

۱۲ ۔ عجیب چیز دیکھو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اَلعَظَمَةُ للهِ ۔۔۔۔کہو

سوالات :

۱ ۔ خدا کو یاد رکھنے کے کیا گائدے ہیں ؟

۲ ۔ یاد رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئیے ؟

۲۷

اکیسواں سبق

آداب زندگی

۱ ۔ حسنؐ اور حسینؐ میرے پھول ہیں ۔ حضرت رسولؐ کریم نے ارشاد فرمایا کہ

" نیک اولاد ایک پھول ہے جو خدا وند عالم نے اپنے بندوں کو مرحمت فرمایا ہے اور دنیا میں میرے پھول حسنؐ و حسینؐ ہیں "۔

۲ ۔ لڑکیاں نیکیاں اور لڑکے نعمت ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادقؐ نے ارشاد فرمایا ہے ۔" لڑکیاں نیکیوں ہیں اور لڑکے نعمتیں ہیں۔ نیکیوں پر تم کو ثواب دیا جائےگا اور نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائےگا۔

۳ ۔ لڑکوں کے نام نبی کے نام پر رکھنا چاہئیے ۔ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ حضرت رسولؐ خدا کا ارشاد ہے کہ " جس شخص کے چار لؑڑکے ہوں اور وہ ایک کا نام بھی میرے نام پر نہ رکھے تو اس نے مجھ پر ظلم کیا "۔

۴ ۔ اذان اور اقامت کے بعد شیطان کا حملہ نہیں ہوتا ۔ حضرت مرسل اعظیمؐ نے ارشاد فرمایا کہ " جب بچہ پیدا ہو تو اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہئیے اس سے بچہ شیطان رجیم کے ا ثر سے محفوظ رہےگا۔

۵ ۔ عقیقہ اور مونڈن کا فرق ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اس کا عقیقہ کرایا جائے۔ اس کا سر منڈوایا جائے اور اس کے بالوں کے برابر صدقہ دیا جائے۔

مونڈن اور عقیقہ الگ الگ کام میں دونوں کا ایک ساتھ ساتویں دن ہونا مستحب ہے۔ اگر ساتویں دن مونڈن نہ ہو تو عقیقہ کیا جائےگا یعنی جانور کو ذبح کیا جائیگا اور بالوں کا منڈوانا ضروری نہیں ہوگا۔

۲۸

۴ ۔ حضرت امیر المومنین علیؐ ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ " جب بچہ تین سال کا ہو جائے تو اس سے سات مرتبہ لااِله اِلاَّ الله کہلایا جائے۔ دو دن کے بعد اس سےمحمد رسول الله کہلایا جائے۔ جب چار سال پورے ہو جائیں تب اس سے کہا جائے کہصلی الله علیٰ محمد و آل محمد کہو، جب پانچ سال کا ہو جائے تو اس کو جنوب اور شمال کی شناخت کرائی جائے اور جب یہ جان لے تو اس کا رخ قبلہ کی طعف موڑو اور اس کو سجدہ کرنے کا حکم دو اوع جب چھہ سال کا ہو جائے تو اس کو رکوع و سجود کی تولیم دو۔ جب سات سال کا ہو جائے تب اس کو ہاتھ اور منھ کا دھونا سکھاؤ۔ جب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ جب عمر نو سال ہو جائے اور وہ تمام آداب وضو سیکھ لے تو اس کو نماز کا حکم دو۔ اور نماز نہ پڑھنے پر بچہ کو مارا بھی جائے جب وہ وضو اور نماز سیکھ لےگا تو خدا اس کے ماں باپ کو بخش دیگا انشا اللہ تعالیٰ "۔

سوالات :

۱ ۔ رسولؐ نے کن لوگوں کو اپنا پھول کہا ہے ؟

۲ ۔ حضرت علیؐ نے تربیت اولاد میں کیا بتایا ہے ؟

۳ ۔ منڈن اور عقیقہ میں کیا فرق ہے ؟

۲۹

بائیسواں سبق

دعا کمیل

تم نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ شب جمعہ میں ایک دعا پڑھتے ہیں جس کا نام دعاء کمیل ہے۔ اس دعا کے بہت سے فائدے ہیں۔ دنیا میں آدمی کی روزی میں برکت ہوتی ہے۔ آخرت میں اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ اس دعا کو دعاء کمیل اس لئے کہتے ہیں کہ یہ حضرت علیؐ نے اپنے شاگرد حضرت کمیل کو بتائی تھی۔ حضرت کمیل کا خاندان بہت شریف تھا۔ وہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ ایک مرتبہ بادشاہ نے کسی بات پر آپ کو ایک طمانچہ مار دیا تھا تو آپ نے ان سے بدلہ لینا چاہا اور وہ تیار بھی ہو گئے لیکن آپ نے معاف کر دیا۔ بادشاہ کے بدلے پر راضی ہو جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کمیل کا رعب بہت تھا اور لوگ ان سے خوف زدہ رہا کرتے تھے ورنہ بادشاہ کہیں کسی کو بدلا بھی دے سکتا ہے۔ حضرت کمیل نے اپنے حق کو معاف کر کے یہ بتا دیا کہ حضرت علیؐ کے چاہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے ذاتی حق کو چھوڑ سکتے ہیں مگر خدا اور رسولؐ کے معاملہ میں کوئی رعایت نہیں کرتے۔

سوالات :

۱ ۔ دعا کمیل کو دعا کمیل کیوں کہتے ہیں ؟

۲ ۔ حضرت کمیل کون تھے ؟

۳ ۔ بادشاہ کا کمیل کے ساتھ کیا براتاؤ تھا ؟

۴ ۔ کمیل کا بادشاہ سے کیا برتاؤ تھا ؟

۳۰

تیئیسواں سبق

مالک ابن نویرہ

یہ رسولؐ اللہ کے صحابی تھے۔ انھیں حضرت نے مسلمانوں سے زکوٰۃ وغیرہ کا مال جمع کرنے کے لئے وکیل بنا دیا تھا۔ یہ رسولؐ اللہ کی وفات تک اپنے عہدے پر باقی رہے لیکن حضرت رسولؐ خدا کے انتقال کے بعد جب مدینہ میں آئے تو دیکھا کہ انھوں نے خلیفہ سے کہا کہ تم اپنی حالت پر باقی رہو اور اس جگہ کو اس کے اہل کے حوالہ کر دو۔ رسولؐ اللہ غدیر خم کے موقع پر حضرت علیؐ کو اپنا جانشین بنا چکے ہیں۔ اب کسی دوسرے کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد زکوٰۃ کا مال ان کو دینے سے انکار کر دیا تو انھوں نے خالد بن ولید کو جو ایک انتہائی جھگڑالو آدمی تھا لشکر کا سردار بنا کر بھیج دیا۔ اس نے مالک کی قوم پر زبردستی حملہ کر دیا اور سب کو قتل کرا دیا۔ اور مسلمانوں کے جان و مال عزت و آبرو کی کوئی پرواہ نہ کی حالانکہ مالک ابن نویرہ قتل ہوتے وقت بھی کلمہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔

سوالات :

۱ ۔ مالک ابن نویرہ کون تھے ؟

۲ ۔ ان کا کیا حکم تھا ؟

۳ ۔ حکومت نے ان پر کیوں چڑھائی کی ؟

۴ ۔ خالد نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟

۵ ۔ مالک حضرت علیؐ کو خلیفہ کیوں مانتے تھے ؟

۳۱

چوبیسواں سبق

تقلید

خدا نے اس دنیا میں کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی ہے اور ہم انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دین کے ان تمام احکام پر عمل کریں جنھیں خدا نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ عمل کرنا علم حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے پہلے ان احکام کا معلوم کرنا ضروری ہے اور یہ ہم انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ قرآن و حدیث سے احکام خدا معلوم کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ علم دین کے جاننے والوں سے احکام دریافت کرے اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے اسی چیز کا نام تقلید ہے۔

تقلید صرف ان احکام میں ہوتی ہے جن کا علم ہر مسلمان کو نہ ہو اور وہ مسلمانوں کے درمیان اتفاقی نہ ہوں۔ ایسے احکام جو اسلام میں انتہائی واضح ہیں جنھیں ہر مسلمان جانتا ہے جیسے نماز ، روزہ کے واجب ہونے کا حکم وغیرہ ان میں تقلید کی ضرورت نہیں ہے تقلید صرف اس عالم کی کی جاتی ہے جو اپنے زمانہ کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتا ہو اس لئے کہ ایسے عالم کے ہوتے ہوئے اس سے کمتری کی تقلید کرنا جائز بھی نہیں ہے اور خلاف عقل بھی اس لئے دیندار باخبر علماء جسے اعلم بتائے اسے اعلم ماننا چاہئیے۔

تقلید کرنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اعلم کے مسائل معلوم کر کے ان پر عمل کرے۔

سوالات :

۱ ۔ تقلید کا کیا مطلب ہے ؟

۲ ۔ کون اعلم ہے ؟

۳۲

پچیسواں سبق

طہارت اور نجاست

ہر چیز پاک ہے جب تک اس کا نجس ہونا معلوم نہ ہو ، کوئی پاک چیز صرف اسی وقت نجس ہوگی جب کوئی نجس چیز اس سے مل جائے اور دونوں میں سے کوئی ایک تر ہو۔ اگر کسی چیز کا پاک ہونا ہمیں پہلے سے معلوم ہو اور بعد میں اس کے نجس ہو جانے کے بارے میں شک پیدا ہو جائے تو اس شک کی وجہ سے وہ چیز نجس نہ سمجھی جائےگی بلکہ پاک ہی سمجھی جائےگی۔ اگر بجائے شک کے اس کی نجاست کا گمان بھی پیدا ہو جائے تب بھی محض گمان کی وجہ سے وہ شے نجس نہ ہوگی اور جب تک نجاست کا پورا یقین نہ ہو پاک ہی رہےگی۔

نجاست معلوم کرنے کے تین طریقے ہیں :۔

اول ۔ ذاتی علم ، یعنی ہم خود اپنی آنکھوں سے کسی چیز کو نجس ہوتے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز نجس ہے۔ ایک عادل کی گواہی کافی نہیں۔ البتہ اگر ایک ہی عادل کی گواہی سے یقین حاصل ہو جائے تو بھی اس یقین پر عمل کیا جائےگا اور اسے نجس سمجھا جائےگا۔

تیسرے ۔ جس شخص کے قبضے میں چیز ہو وہ کہے کہ یہ نجس ہے خواہ وہ مالک ہو یا کرایہ دار ہو ، عاریتہً لیا ہو یا امین ہو۔ قبضہ رکھنے والے کے لئے عادل ہونا ضروری نہیں۔

طہارت کے معلوم کرنے کے بھی تین طریقے ہیں:۔

اوّل ذاتی علم ، یعنی اسے پاک ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

دوسرے ۔ دو عادل گواہی دیں کہ فلاں چیز پاک ہے۔

۳۳

تیسرے ۔ جس کے قبضہ میں وہ شے ہو وہ کہے کہ یہ پاک ہے۔

اگر کسی چیز کے نجس ہونے کا ہمیں پہلے سے علم ہو بعد میں اس شے کے پاک ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تب بھی وہ شے نجس ہی رہےگی۔ البتہ اگر وہ شے اتنے عرصہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رہے جس میں اسکے پاک کر لئے جانے کا امکان ہو تو ہم اس شے کو پاک قرار دے سکتے ہیں۔

اگر کسی شخص کے متعلق شک ہو کہ یہ مسلمان ہے یا کافر تو اس سے کھانے پینے کی چیزیں یا دوسری چیزیں خرید سکتے ہیں۔ خواہ وہ خشک ہو یا تر۔ ان چیزوں کو پاک ہی سمجھا جائےگا۔ چھان بین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر پاک چیز کے نجس ہو جانے کا شک یا گمان پیدا ہو جائے تو کیا کریںگے ؟

۲ ۔ پاک چیز کو نجس کب سمجھیںگے ؟

۳ ۔ علم کے کیا معنی ہیں ؟

۴ ۔ گواہی کے کیا معنی ہیں ؟

۵ ۔ نجس چیز کو پاک کب قرار دیںگے ؟

۶ ۔ جس شخص کا مسلمان ہونا اور نہ ہونا معلوم نہ ہو اس سے کچھ خرید سکتے ہیں یا نہیں ؟

۳۴

چھبیسواں سبق

نجس پاک کے چند مسائل

دودھ ، دہی ، گھی ، روغن زیتون اور اسی قسم کی چیزوں میں جو چیز جمی ہوئی ہو اگر اس میں نجاست گر پرے تو جہاں نجاست گری ہے بس اتنا ہی حصہ نجس ہے باقی پاک ہے لیکن اگر وہ شے بہنے والی ہے تو پوری کی پوری نجس ہو جائے گی۔

اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ یہ چیز جمی ہوئی ہے یا بہنے والی تو اس میں سے ایک چمچہ نکالیں۔ اگر چمچہ کی جگہ فوراً بھر جائے تو بہنے والی سمجھی جائےگی اور اگر چمچہ کی جگہ نہ بھرے یا بہت دیر کے بعد بھرے تو دونوں صورتوں میں جہاں نجاست گری تھی بس اتنی جگہ اور اس کے آس پاس کی جگہ کو نجس سمجھنا چاہئیے اور چمچے سے اتنی مقدار کے نکالنے کے بعد جو باقی رہ جائے وہ پاک ہے۔

نجس چیز کا کھانا پینا حرام ہے بلکہ دوسروں کو بھی نجس کھلانا حرام ہے۔ قر‏آن مجید ، مسجد کا فرش ، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے مقابر کو نجس کرنا حرام ہے۔ اگر یہ جگہیں نجس ہو جائیں تو ان کو فوراً پاک کرنا واجب ہے۔

سوالات :

۱ ۔ اگر جمے ہوئے دودھ یا گھی میں نجاست گر جائے تو کیا سب کا سب نجس ہو جائےگا ؟

۲ ۔ اگر دودھ ، گھی جما ہوا نہیں ہے اور اس میں نجاست گر پڑی ہے تو کیا حکم ہے ؟

۳ ۔ اگر پتہ نہ چل سکے کہ چیز بہنے والی ہے یا نہ بہنے والی تو کیونکہ پتہ چلایا جائے ؟

۴ ۔ نجس کھانے پینے کا کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ کن چیزوں کو نجس کرنا حرام ہے ؟

۳۵

ستائیسواں سبق

بیت الخلاء کے آداب

ہر شخص پر واجب ہے کہ ہر حال میں دوسروں سے اپنی شرمگاہ کو چھپائے اور جب پائخانہ کرنےجائے تب بھی چھپائے۔ دوسروں کی شرمگاہ پر نظر ڈالنا حرام ہے۔

پیشاب کرنے کے بعد پانی ڈالنا واجب ہے۔ بغیر پانی کے پیشاب کی طہارت نہیں ہو سکتی۔ پائخانہ کرنے کے موقع پر اختیار ہے کہ چاہے پانی سے آبدست کرے یا تین پتھر ، کاغذ یا اسی طرح کی کسی چیز سے صاف کر دے۔ مگر جس چیز سے صاف کرے اس کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک پتھر سے نجاست برطرف ہو جائے تو اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے بلکہ تین پتھروں سے صاف کرنا ضروری ہے۔ اگر تین سے برطرف نہ ہو تو جتنے پتھروں سے برطرف ہو اتنے استعمال کرنا واجب ہے ۔

ڈھیلے وغیرہ سے طہارت کرنے میں تین شرطیں سامنے رکھنا چاہئیے :۔

۱ ۔ پائخانہ اپنی جگہ سے آگے نہ پھیلا ہو۔

۲ ۔ کوئی نجاست الگ سے پائخانہ مقام پر نہ لگی ہو ۔

۳ ۔ خون نہ لگا ہو۔ اگر ان تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائےگی تو صرف پانی ہی طہارت ہو سکےگی ڈھیلے وغیرہ سے طہار نہ ہوگی۔

۳۶

جب کوئی شخص پیشاب یا پائخانہ کرنے بیٹھے تو اس پر واجب ہے کہ بیٹھنے کی حالت میں اس کے جسم کا رخ اس طرح ہو کہ قبلہ نہ اس کے سامنے ہو اور نہ اس کی پیٹھ کی طرف۔

سوالات :

۱ ۔ کسی کو ننگا دیکھنا یا کسی کے سامنے ننگا ہونا کیسا ہے ؟

۲ ۔ پیشاب اور پائخانہ کی طہارت میں کیا فرق ہے ؟

۳ ۔ پانی کے علاوہ کن چیزوں سے پائخانہ کی طہارت کی جا سکتی ہے اور ان کے شرائط کیا ہیں ؟

۴ ۔ جب تین سے کم پتھر وغیرہ سے پائخانہ صاف ہو جائے یا تین پتھوں سے پائخانہ صاف نہ ہو تو بتاؤ کہ دونوں ضرورتوں میں کیا حکم ہے ؟

۵ ۔ پائخانہ پیشاب کرتے وقت کیسے بیٹھنا چاہئیے ؟

۳۷

اٹھائیسواں سبق

نجس چیزیں

دس چیزیں ایسی نجس ہیں جو پاک نہیں ہو سکتیں۔ ان کو نجاست کہا جاتا ہے۔

۱ ۔ پیشاب ۔ انسان اور ہر اُس جانور کا پیشاب نجس ہے جس کا گوشت کھانا حرام ہو اور ذبح کرتے وقت اس کی گردن سے خون اچھل کر نکلے۔

۲ ۔ پائخانہ ۔ جس کا پیشاب نجس ہوتا ہے اس کا پائخانہ بھی نجس ہوتا ہے۔

۳ ۔ منی ۔ منی آدمی اور ہر جانور کی نجس ہے چاہے اسکا گوشت حلال ہو یا حرام

۴ ۔ مردار ۔ آدمی اور ہر اس جانور کا مُردہ نجس ہے جس کی رگ سے ذبح کرتے وقت خون اچھل کر نکلے چاہے جانور خود مر گیا ہو یا خلاف شریعت ذبح کیا گیا ہو۔ مسلمان کی لاش غسل دینے کے بعد نجس نہیں رہتی۔

۵ ۔ خون ۔ آدمی اور ہر اُس جانور کا خون نجس ہے جو خون جہندہ رکھتا ہو ۔ مچھلی ، کھٹمل ۔ مچھر کا خون اِس لئے نجس نہیں ہے کہ ان میں اچھلنے والا خون نہیں ہے۔

۶ ۔ ۷ ۔کتا اور سور ۔ خشکی کے کتے اور سور کا سارا جسم نجس ہے ۔ اگر تری کے ساتھ کسی کا بدن یا لباس اس سے مس ہو جائے تو اسے بھی نجس کر دےگا۔

۸ ۔ کافر ۔ ہر وہ شخص نجس ہے جو خدا اور رسولؐ کا منکر ہو یا ایسے مسئلے کا انکار کرے جو اسلام میں واضح اور تمام مسلمانوں میں اتفاقہ ہو جیسے نماز ، روزہ کا واجب ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز ، روزہ کا مذاق اڑانے والا مسلمان کافر ہو جاتا ہے اور کافر نجس ہے بلکہ اس کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

۳۸

۹ ۔ شراب ۔ ہر قسم کی شراب نجس ہے اور اس کا پینا حرام ہے لیکن دوسری نشہ والی چیزیں جیسے بھنگ ، گانجہ ، چرس وغیرہ نجس نہیں ہیں لیکن ان کا کھانا پینا حرام ہے۔

۱۰ ۔ فقاع ۔ جو کی بنائی ہوئی شراب بھی نجس اور حرام ہے لیکن حکیموں کا بنایا ہوا " آب جو " شراب نہیں ہے لہذا پاک ہے۔

سوالات :

۱ ۔ کون کون سے جانور کا مردار نجس ہے ؟

۲ ۔ دریائی کتا اور سور نجس ہے یا نہیں ؟

۳ ۔ نماز کا مذاق اڑانے والا پاک ہے یا نجس ؟

۴ ۔ جوں اور مکھی کا خون نجس ہے یا پاک ؟

۳۹

انیسواں سبق

پانی

پانی دو طرح کا ہوتا ہے :۔

۱ ۔ مضاف پانی ۔ یعنی وہ بہنے والی چیز جسے بغیر کسی قید کے صرف پانی نہ کہہ سکےیں جیسے عرق گلاب ، عرق لیمو وغیرہ ۔ دیکھنے میں عرق گلاب بھی پانی معلوم ہوتا ہے اور عرق لیموں بھی۔ مگر یہ خالص پانی نہیں ہے ۔ مضاف پانی کم ہو یا زیادہ نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے آب مضاف سے نہ تو طہارت ہو سکتی ہے اور نہ وضو یا غسل کیا جا سکتا ہے۔

۲ ۔خالص پانی ۔ جسے ہم بغیر کسی قید کے پانی کہہ سکتے ہیں۔

خالص پانی چار طرح کا ہوتا ہے۔( ۱) ۔ قلیل پانی۔( ۲) ۔ کثیر پانی ۔ ( ۳) ۔ جاری پانی ۔( ۴) ۔ بارش کا پانی۔

قلیل پانی ۔ وہ ٹھہرا پانی ہے جو ایک کڑ سے کم ہو اور جاری نہ ہو۔ یہ پانی نجاست کے ملتے ہی نجس ہو جاتا ہے خواہ اسکا رنگ و بو اور مزہ نہ بدلے قلیل پانی سے طہارت بھی ہو سکتی ہے اور وضو و غسل بھی ہو سکتا ہے۔

کثیر پانی ۔ وہ ٹھہرا ہوا پانی ہے جو ایک کر یا اس سے زیادہ ہو۔

کر پانی ۔ وہ پانی ہے جس کو ناپیں تو تین بالشت لمبا ، تین بالشت چوڑا اور تین بالشت گہرا و۔

یہ اُسی وقت نجس ہوتا ہے جب اس کا رنگ یا بو مزہ نجاست سے مل کر بدل جائے۔

جاری پانی ۔ یعنی وہ پانی جو زمین سے پھوٹ کر نکلے چاہے کڑ بھر ہو یا کرسے کم۔ یہ پانی محض نجاست کے پڑنے سے نجس نہیں ہوتا جب تک نجاست سے مل کر اس کا رنگ یا بو یا مزہ نہ بدل جائے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دسواں جعلی صحابی ربیع بن مطربن ثلج تمیمی

صحابی ، شاعر اور رجز خوان

ربیع بن مطر کی سوانح عمری بیان کرتے ہوئے ابن عساکر لکھتا ہے :

ربیع بن مطر ایک ماہر رزمیہ شاعر تھا ، جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ۔ربیع ،دمشق بیسان اور قادسیہ کی جنگوں کے دوران اسلامی فوج میں حاضر تھا اور اس نے اس سلسلے میں

اشعار کہے ہیں ۔

ابن عساکرمزید لکھتا ہے :

سیف بن عمر سے روایت ہے کہ ربیع بن مطر نے بیسان کی جنگ میں اس طرح اشعار

کہے ہیں :

'' میں نے بیسان کی جنگ میں قلعوں میں مستقر ہوئے لوگوں سے کہا کہ جھوٹے وعدے کسی کام کے نہیں ہوتے ۔

اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہناپسند نہ کریں گے !

اے بیسان !آرام سے ہو اور اکڑو مت !صلح کا انجام بہتر ہے اسے قبول کرو !

اب جب کہ قبول نہیں کرتے ہو اور بیوقوفوں کی طرف سے سراب کے مانند دی گئی امیدوں کی خوش فہمی میں مبتلا ہو چکے ہو تو اسی حالت میں رہو ۔چوں کہ انھوں نے جنگ کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول نہیں کیا ،ہماری اس جنگ ۔ جس سے ہم کبھی منہ نہیں موڑتے، کی بلائیں ان کے سر پر پے در پے نازل ہوئیں ۔

ہم نے ان کا قافیہ ایسے تنگ کر دیا کہ وہ طولانی بد بختیوں ، مصیبتوں اور تاریکیوں سے دو چار ہوئے

۱۸۱

ہم نے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی مگر یہ کہ ہمارے قبیلہ نے اس کے افتخارات کو خصوصی طور پر اپنے لئے ثبت کیا ہو۔

جب وہ بے بس ہوئے تو انھوں نے ہم سے معافی مانگی ،پھر ہم نے آدھے دن کے اندر ہی ان کے بزرگوں اور سرداروں کو بخش دیا۔

سیف کے کہنے کے مطابق ربیع نے طبریہ کی فتح کے سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

ہم ان کی سرحدوں پر قبضہ کرتے ہیں اور ہم ان کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں ۔

وہ ڈرکے مارے اپنے گھروں کے اندر پائے جانے والے ہر سیاہ نقطہ پر تلوار او ر نیزہ سے حملہ کرتے ہیں ۔

ہمارے جوانوں نے بلندیوں سے اترتے ہوئے گروہ گروہ کی صورت میں ان پر حملے کئے اور وہ ڈر پوک ایسے بھاگ رہے تھے جیسے ان پر بجلی گرنے والی ہو ۔

جب ان پر خوف و دحشت طاری ہو گئی تو ہم نے انھیں جھیل کے نزدیک ہونے سے روکا۔

دمشق کی روئداد کو نظم کی صورت میں یوں بیان کرتا ہے :

حمص کے شہر اور رومیوں کے مرغزاروں میں رہائش کرنے والوں سے پوچھ لو کہ انھوں نے ہماری کاری ضرب کو کیسی پائی؟

یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے ان تک پہنچے ۔

ہم نے مر غزاروں میں ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے ، اس حالت میں رومیوں نے اپنے مقتولوں کو چھوڑ کر فرار اختیار کیا ۔

عربی گھوڑے ان کو میدان کار زار سے ایسے لے کے بھاگ رہے تھے کہ اپنی جان کی قسم میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کرسلتا تھا ۔

ان گھوڑوں نے انھیں ان کے مقصد و آرام گاہ حمص تک پہنچادیا ۔

ربیع بن مطر نے قادسیہ کی جنگ ،اسلام کے دلاوروں کی توصیف اور میدان جنگ سے فرار کرنے والے ایرانیوں کی تعقیب کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

جب میدان دشمنوں سے کھچا کھچ بھرا تھا تو ،عاصم بن عمرو ان پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑا

۱۸۲

یا اس مرد مہمان نواز کی طرح ، سبوں کو حیرت میں ڈال کر ہرمزان کی اس شان و شوکت کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ۔

میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ حنظلہ نے نہر میں ایرانیوں پر حملہ کرکے ان کے کشتوں کے پشتے لگادئے ۔

یہی وقت تھا جب سعد وقاص نے بلندآواز میں کہا : جنگ کا حق صرف تمیمیوں نے اد ا کیا ہے ۔

یہی وہ دن تھا جب ہمیں انعام کے طور پر اچھے نسل کے گھوڑے ملے اور ایسے انعام حاصل کرنے میں ہم دوسرے لوگوں پر مقدم تھے ۔

ابن حجر بھی اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ربیع بن مطر کے بارے میں لکھتا ہے :

اس ربیع بن مطر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ۔سیف نے اپنی کتاب فتوح میں دمشق ، قادسیہ اور طبرستان جیسے شہروں کی فتح کے بارے میں اس کے کافی اشعار درج کئے ہیں ۔ منجملہ طبرستان کی فتح کے بارے میں لکھے گئے اس کے اشعار حسب ذیل ہیں :

ہم سرحدوں پر حملہ کرتے ہیں اور انھیں اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں ہم ان لوگوں کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں ۔

چوں کہ ان پر جنگ کا خوف طاری تھا اس لئے ہم نے ان کو جھیل کے نزدیک جانے سے روکا ۔

ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

ابن عساکر بھی کہتا ہے کہ اس ربیع بن مطر نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچاہے ۔

ان دو دانشوروں ابن عساکر اور ابن حجر نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس خیالی شاعراور صحابی کے دمشق ،بیسان اور طبرستان کی جنگوں میں شرکت کرنے کا یقین کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور سیف نے اس کی زبانی اپنے خاندان کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے بارے میں کہے گئے اشعار کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ ہم نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا ہے کہ حقیقت میں خاندان تمیم والے ان قبیلوں میں سے نہیں تھے ،جنھوں نے اپنے وطن عراق سے باہر قدم رکھا ہو اور دیگر قبیلوں کے دوش بدوش شام کی جنگوں میں شرکت کی ہو ۔

ابن عساکر نے اپنی تاریخ (٥٣٥١)میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے

۱۸۳

لکھا ہے :

تمیمیوں کا وطن عراق تھا ،انہوں نے اپنی اسی جائے پیدائش پر ایرانیو ں سے جنگ کی ہے ۔

چونکہ طبری اور ابن عساکر نے فتوحات کی داستانوں میں سیف کے اس افسانوی شاعر و صحابی کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے ،لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ سیف نے ''ربیع ''کو صرف ایک سخن ور شاعر خلق کیا ہے اور اسے ان فتوحات کی شجاعتوں اور دلاوریوں میں شریک قرارنہیں دیا ہے۔

ربیع کے باپ اور دادا کے نام میں غلطی

کتاب ''تجرید ''میں سیف کے شاعر ''ربیع ''کو اس طرح پہچنوا یا گیا ہے

ربیع بن مطرف تمیمی

''تاج العروس ''کے مؤ لف زبیدی نے بھی کتاب ''تجرید ''کی پیروی کرتے ہوئے لفظ ''ربع''کے بارے میں یوں لکھا ہے :

''امیر ''کے وزن پر ''ربیع ''اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے پانچ صحا بیوں کانام تھا

اس کے بعد ایک ایک کرکے ان کے نام لینے کے بعد لکھتا ہے :

...ایک اور ربیع بن مطرف تمیمی شاعر ہے جس نے دمشق کی فتح میں شرکت کی ہے ۔

ابن عساکر کی کتابوں ''اصابہ ''اور ''تہذیب ''میں سیف کا یہ افسانوی شاعر وصحابی اس طرح پہچنوایا گیا ہے :

۱۸۴

ربیع بن مطربن بلخ

ہم نے اس سلسلے میں ابن عساکر کی تاریخ کے قدیمی ترین قلمی نسخہ جو قدیمی ترین منبع ہے جس میں سیف کی احادیث کو مکمل اسناد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کو دیگر تمام مصادر سے صحیح تر جانا ۔اس نسخہ میں سیف کے اس خیالی شاعر کا یوں تعرف ہوا ہے :

ربیع بن مطر بن ثلج(۱)

اس ترتیب اور تسلسل کے ساتھ یہ زیبا و دلچسپ تعرف (اول ''ربیع ''پھر ''مطر ''اور پھر ثلج ) در حقیقت اصلی نام گزار یعنی سیف بن عمر تمیمی کے ادبی ذوق اور کارنامہ کی حکایت ہے ۔

اسی ترتیب سے یہ نام اردو میں حسب ذیل ہے :

بہار ولد بارش ،نواسہ ٔبرف !!

ابن ماکولا اپنی کتاب ''اکمال ''میں لفظ ''ثلج ''کے بارے میں لکھتا ہے :

اور مطر بن ثلج تمیمی وہ ہے جس کا نام سیف نے لیا ہے ۔

پھر تین سطروں کے بعد لکھتا ہے :

میرے خیال میں ربیع بن ثلج تمیمی شاعر مطر کا بھائی ہے ۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ماکولا نے مطر اور ربیع کو دو بھائی اور ثلج تمیمی کے بیٹے تصور کیا ہے ، جب کہ سیف ، جو خود ان کا خالق ہے ان دونوں کو باپ بیٹے کی حیثیت سے پہچنواتا ہے ، جیسا کہ تاریخ بن عساکر میں ربیع بن مطر بن ثلج ذکر ہو ا ہے۔

ربیع بن مطر بن ثلج سے مربوط اس کی زندگی کے حالات اور اس کے اشعار کے بارے میں

____________________

الف ( ربیع: بہار مطر : بارش ثلج: برف

۱۸۵

پایا ،یہی تھا جس کا اوپر ذکر کیا ، چوں کہ ہم نے اس صحابی اور شاعر کا نام ان مصادر کے علاوہ کہیں نہیں پایا ، جنھوں نے سیف بن عمر سے مطالب نقل کئے ہیں اس لئے اسے ہم سیف کے ذہن کی تخلیق اور جعلی جانتے ہیں ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے سیف کے بیان میں ایسا کوئی مطلب نہیں پایا جو ربیع بن مطر کے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی ہونے پر دلالت کرتا ہو !بلکہ احتمال یہ ہے کہ ابن عساکر نے ربیع کے بارے میں سیف سے جو اشعار اور دلاوریاں نقل کی ہیں وہ ہجرت کی دوسری دہائی سے مربوط ہیں اور اس زمانے میں واقع ہوئی جنگوں میں ربیع کی شرکت کی حکایت کرتے ہیں ۔ اس لئے ابن عساکر نے یہ نتیجہ نکلا کہ ربیع بن مطر اس زمانے میں ایک ایسا مرد ہونا چاہئے جو سن و سال کے لحاظ سے اتنا بالغ ہو کہ ان جنگں میں سر گرم طور پر شرکت کر سکے ۔ اس بنا ء پر ربیع رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہوگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی محسوب ہونا چاہئے !!

اس افسانہ کا ماحصل

سیف نے ربیع بن مطر تمیمی کوخلق کرکے:

١۔ عربی ادبیات کے خزانے میں مزید اشعار اور دلاوریوں کا اضافہ کیا ہے ۔

٢۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں ایک اور صحابی و شاعر کا اضافہ کیا ہے ۔

٣۔ آنے والی نسلیں سیف کی باتوں پر تکیہ کر کے اور ربیع کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار کے پیش نظر تصور کریں گی کہ قبیلہ تمیم کے افراد نے اپنے وطن عراق سے دور مشرقی روم کی جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور اس طرح قبیلہ تمیم کے گزشتہ افتخارات میں چند دیگر فخر و مباہات کا اضافہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کا شاعر ربیع کہتا ہے :

اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہنے میں بے دلی

۱۸۶

دکھائیں گے ۔

طبرستان کی جنگ میں ان کی شرکت کے بارے میں شہادت کے طور پر کہتا ہے :

یہ ہم تھے جنھوں نے انھیں شکست دینے کے بعد ان کے لئے (طبریہ) کے جھیل تک پہنچنے میں روکاوٹ ڈالی ۔

یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے ان تک پہنچے ۔

ان کا شاعر فریاد بلند کرتے ہوئے کہتا ہے :

تمام زمانوں میں کوئی ایسا میدان کارزار نہ تھا کہ ہم نے وہاں پر قدم نہ رکھا ہو اور تمام افتخارات اپنے لئے مخصوص نہ کئے ہوں ۔

یہاں تک کہ سپاہ اسلام کے سپہ سالار سعد وقاص کو جوش و خروش میں لاکراس کی زبانی

کہلواتا ہے :

اس قادسیہ کی جنگ میں تلاش و کوشش اور جوش و جذبہ صرف قبیلہ تمیم نے دکھایا ہے !!

افسانہ کے اسناد کی تحقیق

ابن عساکر نے ربیع بن مطر کے بارے میں اپنے مطالب کے اسناد کو سیف بن عمر تک پہنچایا ہے اور ان کے نام لئے ہیں ۔لیکن خود سیف نے اپنے اسناد اور راویوں کو تعرف نہیں کیا ہے جس کے ذریعہ ہم ان کے وجود یا عدم کے بارے میں تحقیق و جستجو کرتے ۔

ربیع کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما

١۔ ابن عساکر نے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں

٢۔ ابن حجر نے سندکے ساتھ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ۔

٣۔ ذہبی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تجرید '' میں ۔

٤۔ زبیدی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں ۔

٥۔ ابن بدران نے کتاب '' تہذیب تاریخ ابن عساکر '' میں ۔

۱۸۷

گیارہواں جعلی صحابی ربعی بن افکل تمیمی

ربعی ، کمانڈر کی حیثیت سے

سیف بن عمر نے ربعی بن افکل کو خاندان عنبر اور قبیلہ بنی عمرو تمیمی سے خلق کیا ہے ۔

ابن حجر ، ربعی کی سوانح حیات کے بارے میں لکھتا ہے :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں لکھا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ کے سپہ سالار اعظم سعد وقاص نے ربعی کو حکم دیا کہ موصل کی جنگ کی کمانڈ سنبھالے ۔ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ اس زمانے میں رواج تھا کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپاہ کی کمانڈ نہیں سونپی جاتی تھی ۔

سیف اپنی کتاب کی امیں جگہ پر لکھتا ہے :

عمر نے حکم دیا تھا کہ عبد اللہ معتم(۱) کی قیادت میں لشکر کے ہراول دستے کی کمانڈ ربعی کو سونپی جائے ۔

____________________

۱) ایسا لگتا ہے کہ یہ عبد اللہ بھی سیف بن عمر کی مخلوقات میں سے ہے عبداللہ معتم کے حالات کے بارے میں کتاب اسد الغابہ ٢٦٢٣، میں تشریح کی گئی ہے ۔

۱۸۸

معلومات کے مطابق ربعی نے فتوحات میں سر گرم طور پر شرکت کی ہے '' ز'' (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ حرف '' ز'' کو ابن حجر وہاں استعمال کرتا ہے جہاں اس نے دوسرے مؤرخین کی بات پر اپنی طرف سے کوئی چیز اضافہ کی ہو

طبری نے ١٦ھ کے حوادث کے ضمن میں '' تکریت '' کی فتح کے موضوع کو بیان کرتے وقت ربعی کے بارے میں سیف کے بیانات کو مفصل طور پر ذکر کیا ہے اور یہاں پر اس کا خلاصہ درج کرتے ہیں :

''کمانڈر انچیف سعد وقاص نے وقت کے خلیفہ عمر کو لکھا کہ موصل کے لوگ '' انطاق '' کے ارد گرد جمع ہوئے ہیں اور اس نے تکریت کے اطراف تک پیش قدمی کرکے وہاں پر مورچہ سنبھالا ہے تاکہ اپنی سر زمین کا دفاع کر سکے عمر نے سعد کو جواب میں لکھا:

''عبد اللہ معتم کو '' انطاق''سے لڑنے کی ماموریت دینا اور ہر اول دستے کی کمانڈ ربعی بن افکل کو سونپنا ۔ جب وہ دشمن کو سامنے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں تو ربعی کو نینوا(۱) اور موصل کے قلعے فتح کرنے کی ماموریت دینا ''

اس کے بعد طبری نے انطاق پر فتح پانے کے سلسلے میں عبد اللہ کی عزیمت ، اس کی جنگوں اور دشمن کو چالیس دن تک اپنے محاصرے میں قرار دینے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

عبد اللہ نے انطاق کی پیروی میں مسلمانوں سے لڑنے والے عربوں کے دوسرے قبیلوں

____________________

۱) ۔نینوا عراق میں شہر موصل کے برابرمیں واقع تھا ۔دریائے دجلہ ان دو شہروں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا ، نینوا کے کھنڈرات اب تک موجود ہیں

۱۸۹

جیسے ایاد ، نمر اور تغلب کے سرداروں سے رابطہ برقرار کیا اور سر انجام ان کو اسلام کی طرف مائل کیا اور بالآخر ان کے درمیان طے پایا کہ اسلام کے سپاہی نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے جب شہر کے مقررہ دروازوں سے حملہ کریں گے تو وہ بھی تکبیر کی آواز سنتے ہی شہر کے اندر انطاق کے محافظوں کے خلاف تلوار چلائیں گے تا کہ آسانی کے ساتھ تکریت فتح ہوجائے ۔

یہ منصوبہ متفقہ طور پر سبوں کی طرف سے منظور کیا گیا اور اس کے مطابق عمل ہوا ،جس کے نتیجہ میں دشمن کی فوج میں ایک فرد بھی زندہ نہ بچ سکی !طبری ،تکریت کی فتح کی تشریح کرنے کے بعد لکھتا ہے :

خلیفہ عمر کے فرمان کے مطابق عبداللہ معتم نے حکم دیا کہ ''ربعی بن افکل ''تازہ مسلمان قبائل تغلب ، ایاد اور نمر جن کے مسلمان ہونے کی ابھی موصل و نینوا کے باشندوں کو اطلاع نہیں ملی تھی کو اپنے ساتھ لے کر موصل و نینوا کے قلعے فتح کرنے کے لئے روانہ ہوجائے ۔مزید حکم دیا کہ اس سے پہلے کہ دشمن مسلمانوں کے ہاتھوں تکریت کی فتح کی خبر کے بارے میں آگاہ ہوں ،ان پر ٹوٹ پڑیں ۔

ابن افکل نے حکم کی تعمیل کی اور اپنی حتمی کامیابی کے لئے تازہ مسلمان قبائل سے طے کرلیا کہ وہ اس علاقے میں یہ افواہ پھیلادیں کہ انطاق کے سپاہیوں نے تکریت میں مسلمانوں پر کامیابی پاکر انھیں شکست دیدی ہے ۔چونکہ یہ لوگ خود انطاق کے سپاہی شمار ہوتے تھے ،اس لئے آسانی کے ساتھ قلعہ کے اندر داخل ہوکر قلعہ کے صد ردروازوں کی حفاظت اپنے ہاتھ میں لے لیں تا کہ اسلام کے سپاہی کسی مزاحمت کے بغیر قلعے کے دروازوں سے داخل ہوجائیں ۔

ربعی کا نقشہ کامیاب ہوا اور دشمن کے قلعے کسی مزاحمت کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھوں

۱۹۰

فتح ہوئے ۔

ربعی نے نینوا ،موصل اور وہاں کے مستحکم قلعوں پر فتح پانے کے بعد موصل کے دوسرے علاقے فتح کرنے کے لئے ان کے اطراف کی طرف روانہ ہوا ۔یہ ربعی بن افکل کے ذریعہ تکریت کی فتح اور موصل و نینوا کے مستحکم قلعوں پر قبضہ کرنے کی داستان کا خلاصہ تھا ،جسے طبری نے سیف سے نقل کرکے بیان کیا ہے ۔

لفظ ''انطاق''اور حموی کی غلط فہمی

جیساکہ اس افسانہ میں سیف کی باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ ''انطاق''دشمن کے لشکر کا کمانڈر تھا ،لیکن حموی نے یہ تصور کیا ہے کہ سیف کا مورد بحث ''انطاق ''تکریت کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے !اس لحا ظ سے ''معجم البلدان''میں لفظ ''انطاق''کے بارے میں لکھا ہے :

''انطاق''تکریت کے نزدیک ایک علاقہ ہے ۔اس کا نام سیف کی کتاب ''فتوح ''میں ١٦ھ کے مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کے ضمن میں آیا ہے اور ربعی بن افکل نے اس کے بارے میں یوں اشعار کہے ہیں :

ہم اپنی تلوارکی تیز دھار سے ہر حملہ آور اور متجاوز کو سز ا دیتے ہیں ۔

جس طرح ہم نے انطاق کو اسی کے ذریعہ سزا دی کہ وہ اپنے کو دوسروں سے الگ کرکے رویا ۔

کتاب '' مراصدالاطلاع ''کے مؤلف نے بھی حموی کی پیروی کرکے لفظ انطاق کے بارے میں لکھا ہے :

کہتے ہیں '' انطاق'' تکریت کے نزدیک ایک علاقہ تھا ۔

ایسا لگتا ہے کہ حموی کی غلط فہمی کا سبب یہ ہے کہ سیف کی حدیث میں آیا ہے :

'' نزولہ علی الانطاق '' اس کا '' انطاق '' میں داخل ہونا۔

۱۹۱

یہاں پر کلمہ داخل ہونا کسی جگہ کے لئے مناسب ہے نہ کسی فرد کے لئے ، اسی طرح ہم نہیں جانتے کہ حموی نے خود سیف سے نقل کئے ہوئے شعر کے آخر ی حصہ پر کیوں توجہ نہیں کی جہاں وہ واضح طور پر کہتا ہے :

انطاق اپنے آپ کو دیگر لوگوں سے جدا کر کے رویا ۔

یہ انسان ہے جو دیگر لوگوں سے جدا ہو کر رو سکتا ہے ، نہ مکان !!

جو کچھ ہم نے اس افسانوی سورما ربعی بن افکل کے بارے میں سیف کی احادیث سے تاریخ طبری میں دیکھا ،یہی تھا جو اوپر ذکر ہوا ۔ اور انہی مطالب کو ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے دانشوروں نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخوں میں درج کیا ہے ۔

جیسا کہ حرملہ بن مریطہ کے افسانہ میں ہم نے ذکر کیا کہ یعقوب حموی کے پاس سیف کی کتاب فتوح کا ایک قلمی نسخہ تھا جسے '' ابن خاضبہ '' نام کے ایک دانشورنے لکھا ہے ۔ حموی نے اس نسخہ پر پورا اعتماد کرکے مقامات اور دیگر جگہوں کے نام براہ راست اسی نسخہ سے نقل کئے ہیں ۔اس لئے کتاب ''معجم البدان '' میں ذکر کئے گئے بعض شہروں قصبوں اور گائوں کے نام سیف کی روایتوں کے علاوہ جغرافیہ کی دوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے یا دوسرے لفظوں میں سیف کے خلق کئے گئے تمام مقامات کے نام کتاب '' معجم البدان '' میں پائے جاتے ہیں ۔

ربعی کے نسب میں غلطی

ایک اور مسئلہ جو یہاں پر قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ تاریخ طبری میں ربعی کانسب '' عنزی '' اور تاریخ ابن کثیرمیں '' غزی'' ذکر ہوا ہے جب کہ ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں '' عنبری '' ثبت ہوا ہے کہ عنبری خود قبیلہ ٔتمیم کا ایک خاندان ہے ۔ ہم نے بھی موخر الذکر نسب کو حقیقت کے قریب تر پایا ، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ سیف پوری طاقت کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ اپنے خیالی اور افسانوی سورمائوں کو اپنے ہی خاندان ،تمیم سے دکھلائے ، چوں کہ عنبری خاندان تمیم کی ایک شاخ ہے ، اس لئے یہ انتخاب یعنی '' عنبری '' افسانہ نگار کی خواہش کے مطابق لگتا ہے نہ کہ '' عنزی'' و '' غزی''

۱۹۲

سیف کی روایتوں کا تاریخ کے حقائق سے موازنہ

مناسب ہے اب ہم موصل،تکریت اور نینوا کی فتح کی حقیقت کے بارے میں دوسرے مؤرخین کے نظریات سے بھی آگاہ ہو جائیں ۔

بلاذری نے موصل و تکریت کی فتح کے بارے میں اس طرح تشریح کی ہے :

عمر بن خطاب نے ٢٠ھمیں عتبہ بن فرقد سلمی کو موصل کی فتح کے لئے مامور کیا ۔

عتبہ نے نینوا کے باشندوں سے جنگ کی اور دریائے دجلہ کے مشرقی حصہ میں واقعہ ان کے ایک قلعہ کوبڑی مشکل سے فتح کیا اور دجلہ کو عبور کرکے دوسرے قلعہ کی طرف چڑھائی کی ۔ اس قلعہ کے باشندے چوں کہ عتبہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اس لئے صلح کی تجویز پیش کرکے جزیہ دینے پر آمادہ ہوئے۔

عتبہ نے ان کی صلح کی درخواست منظور کی اور طے پایا کہ جو بھی قلعہ سے باہر آئے گا امان میں ہوگا اور جہاں چاہے جا سکتا ہے ۔

بلاذری عتبہ کے ذریعہ موصل کے دیہات ،قصبہ اور ابادیوں ،منجملہ تکریت کی فتوحات کا نام لے کر آخر میں لکھتا ہے :

عتبہ بن فرقد نے ''طیرہان '' و '' تکریت'' کو فتح کیا اور قلعہ تکریت کے باشندوں کو امان دی اس بنا پر حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جو شہر فتح ہوا وہ شہر موصل تھا ، اس کے بعد تکریت فتح ہوا ہے ۔ ان دونوں شہروں کافاتح عتبہ بن فرقد سلمی انصاری یمانی قحطانی تھا اور یہ فتح ٢٠ھ میں انجام پائی ہے ۔

لیکن سیف نے تکریت کی فتح کو موصل کی فتح پر مقدم قرار دیا ہے ،اور عبد اللہ معتم عبسی عدنانی کو ان جگہوں کا فاتح بتایا ہے ۔ موصل کا فاتح ربعی بن افکل تمیمی عدنانی مضری بتاتا ہے اور اس کے سپاہیوں کو بھی قبائل عدنان مضری کے افراد بتایا کرتاہے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ موصل اور تکریت عتبہ یمانی قحطانی کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں اور یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ سیف اسے نظر انداز کرکے خاموشی اختیار کرے لہٰذا وہ قبیلۂ مضر کے دو افراد کو خلق کرکے حکومت اور فوجی کمانڈ ان کے ہاتھ سوپنتا ہے، اسلام کے سپاہی بھی قبیلہ مضر یعنی اپنے خاندان سے بتایاہے اور اسی تغیر و تبدل کو خاندانی تعصب کی بناء پر تاریخ اسلام میں درج کرتا ہے۔

۱۹۳

لیکن اس نے ایسے تاریخی حوادث کی تاریخ کو کیوں تبدیل کرکے ٢٠ھ واقع ہوئی فتح کو ١٦ھ میں لکھا ہے ؟ یہ ایک ایسا مطلب ہے جو حائز اہمیت ہے اور اس کاربط اس کے اسلام سے منحرف ہونے کے عقیدہ سے ہے ۔ کیونکہ اگر اس کے زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا اس پر الزام ہے اسلام کی تاریخ میں تشویش پیدا کرنا اس کا اصلی مقصد نہ تھا تو پھر کون سی چیز اس کے لئے تاریخ اسلام میں اس جرم کے مرتکب ہونے کا سبب بن سکتی ہے؟!

اس افسانہ کا ماحصل

ربعی بن افکل تمیمی کو خلق کرکے سیف بن عمر نے حسب ذیل مقاصد حاصل کئے ہیں :

١۔ ایک صحابی سپاہ سالار ، فاتح اور سخن و ر شاعر کو خلق کرکے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں میں ایک اور صحابی کا اضافہ کرکے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں ۔

٢۔ایک نئی جگہ کو خلق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں اسے درج کرایا ہے۔

٣۔خاندان تمیم کے لئے افسانوی جنگیں خلق کرکے اپنے خاندانی تعصبات کی پیاس کو بجھا کر اپنے خاندان کے افتخارات میں اضافہ کیاہے ۔

٤۔زندیقی ہونے کی وجہ سے جس کا الزام اس پر تھا اسلام کے تاریخی واقعات میں ان کے رونما ہونے کی تاریخ میں ردّو بدل کیا ہے ۔

۱۹۴

سیف کے اسناد کی تحقیق

''ربعی بن افکل ''کے سلسلہ میں سیف نے اپنی احدیثوں کے اسناد کے طور پر درج ذیل نام ذکر کئے ہیں :

١۔محمد ، سیف نے اسے ''محمد بن عبد اللہ بن سواد بن نویرہ'' بتایا ہے اور دوسرا مھلب بن عتبہ اسدی ہے ۔ گزشتہ بحثوں میں ہم ان دو راویوں سے مواجہ ہوئے ہیں اور جان لیا ہے کہ حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے خلق کئے ہوئے راوی ہیں ۔

٢۔طلحہ، ممکن ہے سیف کی روایتوں میں یہ نام دو راویوں کی طرف اشارہ ہو۔ ان میں سے ایک ''طلحہ بن اعلم'' ہے اور دوسرا طلحہ بن عبد الرحمن ہے۔

ہم نے طلحہ بن عبد الرحمن کو سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں نہیں پایا ۔ اس لئے یہ نام بھی سیف کے خیالات کی پیدا وار ہے اور اس قسم کا کوئی راوی خارج میں موجود نہیں ہے۔

ہاں طلحہ بن اعلم ، ایک معروف راوی ہے جس کانام سیف کے علاوہ بھی دیگر احادیث میں آیا ہے لیکن سیف کے گزشتہ تجربہ اور اس کے دروغ گو ہونے کے پیش نظر ہم یہ حق نہیں رکھتے کہ سیف کے جھوٹ کے گناہ کو ایسے راویوں کی گردن پر ڈالیں خاص کر جب سیف تنہا فرد ہے جو اس قسم کے جھوٹ کی تہمت ایسے راویوں پر لگا تاہے۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

ان تمام افسانوں کا سرچشمہ سیف ہے ، لیکن اس کے افسانوں کی اشاعت کرنے والے منابع مندرجہ ذیل میں :

١۔طبری ، سند کے ساتھ ، اپنی تاریخ میں ۔

٢۔ ابن حجر ، سند کے ساتھ کتاب ''الاصابہ'' میں ۔

٣۔ ابن اثیر طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں ۔

٤۔ابن کثیر طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں ۔

٥۔ابن خلدون طبری سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں ۔

٦۔حموی ''معجم البلدان'' میں سندکے بغیر۔

٧۔ عبد المؤمن ،حموی سے نقل کرتے ہوئے کتاب ''مراصد الطلاع''میں

۱۹۵

بارہواں جعلی صحابی اُطّ بن ابی اُطّ تمیمی

سیف نے اُط کو قبیلہ سعد بن زید بن مناة تمیمی سے بتایا ہے ۔

ابن حجر کی کتاب '' الاصابہ '' میں اُط بن ابی اط کاتعارف اس طرح کیا گیا ہے :

'' اُط بن ابی اُط خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم سے ہے ۔ اُط خلافت ابو بکر کے زمانے میں خالد بن ولید کا دوست اور کارندہ تھا ۔ عراق میں ایک دریا کا نام اس کے نام پر رکھا گیا ہے !اس دریا کا نام اسی زمانے میں اس کے نام پر رکھا گیا ہے جب خالد بن ولید نے اُط کو اس علاقے کے باشندوں سے خراج وصول کرنے پر مامور کیا تھا!

طبری نے یہی داستان سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کی ہے ۔ ایک جگہ پر اسے '' اُطّ بن سوید '' لکھا ہے ،گویا اُط کے باپ کا نام '' سوید '' تھا ۔

ابن فتحون نے بھی اط کے حالات کو اس عنوان سے لکھا ہے کہ شخصیات کی زندگی کے حالات لکھنے والے اس کا ذکرکرنا بھول گئے ہیں ۔ اور اپنی بات کا آغاز یوں کرتا ہے ۔

میں نے اس کا اُطّ کا نام ایک ایسے شخص کے ہاتھوں لکھا پایا ، جس کے علم و دانش پرمیں مکمل اعتماد کرتا ہوں ۔ اس نے اط کوپہلے حرف پر ضمہ( پیش ) سے لکھا تھا ۔

اُطّ ، دور قستان کا حاکم

طبری نے اط کی داستان کو فتح حیرہ کے بعد والے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی دو روایتوں میں ذکر کیا ہے ۔ پہلی روایت میں اس طرح لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید نے اپنے کارندوں اور کرنیلوں کو ماموریت دی کہ (یہاں تک لکھتا ہے ) اور اط بن ابی اط جو خاندان سعد بن زید اور قبیلہ تمیم کا ایک مرد تھا کو دور قستان کے حاکم کی حیثیت سے ماموریت دی ۔اط نے اس علاقے میں ایک دریا کے کنارے پر پڑا ئو ڈالا ۔ وہ دریا اس دن اط کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

۱۹۶

حموی نے سیف کی روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی کتاب معجم البدان میں لفظ اُط کے سلسلے میں لکھا ہے۔

جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس علاقہ کی دوسری سرزمینوں پر قبضہ کرلیا تو اس نے اپنے کارندوں کو مختلف علاقوں کی ماموریت دی ۔اس کے کارندوں میں سے ایک اط بن ابی اط تھا ۔جو خاندان سعد بن زید بن مناة تمیمی سے تعلق رکھتا تھا ۔اسے دور قستان کی ماموریت دی گئی ۔اط نے اس علاقے میں ایک دریا کے کنارے پڑائو ڈالا۔وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے۔

حموی نے یہاں پر اپنی روایت کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔اس کے اس جملہ اور وہ دریا آج تک اسی کے نام سے معروف ہے ۔سے یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے حموی کے زمانے تک وہ دریا اسی نام ، یعنی دریائے اط کے نام سے موجود تھا اور حموی ذاتی طور پر اس سے آگاہ تھا ۔اس لئے اس بات کو یقین کے ساتھ کہتا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر شہادت دیتا ہے ۔ جب کہ ہر گز ایسا نہیں ہے بلکہ حموی نے سیف کی بات نقل کی ہے نہ کہ خود اس سلسلے میں کچھ کہا ہے ۔

ابن عبد الحق نے بھی ان ہی مطالب کو حموی سے نقل کرکے اپنی کتاب مراصد الاطلاع میں درج کرتے ہوئے لکھا ہے :

دریائے اط ،اط ،خاندان بنی سعد تمیم کا ایک مرد تھا جو خالد بن ولید کا کارندہ تھا۔ اط کو یہ ماموریت اس وقت دی گئی تھی جب خالد بن ولید نے حیرہ اور اس کے اطراف کی سرزمینوں پر قبضہ کیا تھا (یہاں تک لکھا ہے ) اور وہ دریا اس کے نام سے مشہور ہوا ہے ۔

کتاب تاج العروس کے مؤلف نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کرکے لفظ اط کے بارے میں یوں لکھا ہے :

اط بن اط بنی سعد بن مناة تمیمی میں سے ایک مرد ہے جو خالد بن ولید کی طرف سے دور قستان کا ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا اور وہاں پردریائے اط اسی کے نام سے مشہور ہو ا ہے ۔

طبری نے بھی حیرہ کے مختلف مناطق کی تقسیم بندی کے بارے میں خلاصہ کے طور پر یوں بیان کیا ہے :

خالد بن ولید نے حیرہ کے مختلف علاقوں کو اپنے کارندوں اور کرنیلوں کے درمیان تقسیم کیا ، منجملہ جریر کو علاقہ (یہاں تک لکھتا ہے ) اور حکومت اط و سوید کو سونپی ۔

۱۹۷

ابن حجر کی غلط فہمی

یہاں پر ابن حجر ،طبری کے بیان کے پیش نظر ، غلط فہمی کا شکار ہوا ہے اور اط و سوید کو اط بن سوید پڑھ کر سوید کو اط کا باپ تصور کیا ہے ۔

ابن حجر کی یہ غلط فہمی اس کی گزشتہ اسی غلط فہمی کے مانند ہے جہاں اس نے '' حرملہ و سلمی'' کے بجائے '' حرملہ بن سلمی '' پڑھا تھا اور حرملہ بن سلمی کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک صحابی تصور کرکے حرملہ بن مریطہ کے علاوہ حرملہ بن سلمی کے بارے میں بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے اس کی زندگی کے حالات لکھے ہیں ۔

البتہ یہ ممکن ہے کہ ابن حجر کی غلط فہمی کتاب کے مسودہ میں موجود کتابت کی غلطی کے سبب پیش آئی ہو کہ '' اط و سوید '' کے بجائے کاتب نے اط بن سوید لکھ کر بیچار ہ ابن حجر کو اس غلط فہمی سے دو چار کیا ہو۔!بہر حال موضوع جو بھی ہو ، اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔اگر چہ یہ نام بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی صحابیوں کی فہرست میں درج کیا گیا ہے ، جب کہ پورا افسانہ بنیادی طور پر جھوٹ ہے اور یہ اضافات بھی اسی سیف کے افسانوں کی برکت سے وجود میں آئے ہیں ۔ ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء نے بھی ایسے صحابیوں کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

یاقوت حموی ،ابن عبدالحق اور زبیدی نے نے بھی سیف کی ان ہی روایتوں اور افسانوں کے پیش نظر لفظ اط کی تشریح کرتے ہوئے اط کی زندگی کے حالات بیان کئے ہیں اور دریا ئے اط کابھی ذکر کیا ہے ۔ ستم ظریفی کا عالم ہے کہ حقائق سے خاکی ان ہی مطالب نے صدیوں تک علماء و محققین کو اس مسئلے میں الجھاکے رکھا ہے !!

ہم نے اط بن ابی اط اور اس نام کے دریا کے سلسلے میں تحقیق و جستجو کرتے ہوئے اپنے اختیار میں موجود مختلف کتابوں اور متعدد مصادر کی طرف رجوع کیا ، لیکن ہماری تلاش و کوشش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اس قسم کے نام کو ہم نے مذکورہ مصادر میں سے کسی ایک میں نہیں پایا اس لحاظ سے سیف کی روایتوں کو دوسروں کی روایتوں سے موازنہ کرنے کے لئے کوئی چیز ہمارے ہاتھ نہ آئی جس کے ذریعہ اس کی روایتوں کا موازنہ و مقابلہ کرتے !!کیوں کہ سیف کی داستان بالکل جھوٹ اور بیہودہ خیالات پر مبنی ہے ۔

۱۹۸

اس افسانہ کا ماحصل

سیف نے اط نام کے صحابی اور اسی نام کے دریا کو خلق کرکے درج ذیل مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے :

١۔ خاندان تمیم سے ایک اور عظیم صحابی اور لائق کمانڈر خلق کرتا ہے اور ابن فتحون و ابن حجر جیسے علماء اس کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دے کر اس کی زندگی کے حالات کو اپنی کتابوں میں لکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ،

٢۔ سرزمین دور قستان میں ایک دریا کو خلق کرکے اس کا نام دریائے اط رکھتا ہے اور اس طرح حموی و عبد الحق اس دریا کے نام کو اپنی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس طرح خاندان تمیم کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرتا ہے ۔

افسانہ کے اسناد کی پڑتال

افسانہ اط کے سلسلے میں سیف کی حدیث کی سند میں مندرجہ ذیل نام ملتے ہیں :

١۔ ابن ابی مکنف ، مھلب بن عقبہ اسدی اور محمد بن عبد اللہ نویرہ ،ان تینوں کے بارے میں ہم نے گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا ہے کہ یہ سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٢۔ طلحہ ، سیف کی احادیث میں یہ راوی یا طلحہ بن اعلم ہے یا طلحہ بن عبد الرحمن مل ہے ۔جن کا نام سیف کے علاوہ بھی دیگر روایتوں میں ملتا ہے ۔

عبد الرحمن نام کے بھی دو راوی ہیں ۔ ایک یہی مذکورہ عبد الرحمن مل ہے اور دوسرا یزید بن اسید غسانی ہے کہ ہم نے مؤخر الذکر کا نام سیف بن عمر کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا ۔

بہر حال جو بھی ہو ،خواہ ان راویوں کا نام دوسری احادیث میں پایا جاتا ہو یا وہ سیف کے ہی مخصوص راوی ہوں ، ہم سیف کے جھوٹ کا گناہ معروف راویوں کی گردن پرنہیں ڈال سکتے ہیں ، خاص کر جب اس قسم کے افسانے صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہوں اور وہ اکیلا ان افسانوں کا خالق ہو!

۱۹۹

اُطّ کا افسانہ نقل کرنے والے علماء

اط کے افسانہ کا سر چشمہ سیف بن عمر ہے اور درج ذیل منابع میں اس افسانہ کی اشاعت کی گئی ہے :

١۔ طبری نے اط کے افسانہ کو سیف سے نقل کرکے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٢۔ ابن حجر نے طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب الاصابہ میں درج کیا ہے ۔

٣۔ ابن فتحون

٤۔ یاقوت حموی ۔

٥۔ زبیدی نے'' تاریخ العروس '' میں ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371