ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

ایک سو پچاس جعلی اصحاب10%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 371

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 371 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 138201 / ڈاؤنلوڈ: 4306
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۲

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

پانچواں حصہ خاندان تمیم سے

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جعلی کارندے و صحابی رسول خدا کے چھ کارندے :

* ١٣۔سعیر بن خفاف تمیمی

* ١٤۔عوف بن علاء جشمی تمیمی

* ١٥۔اوس بن جذیمہ تمیمی

* ١٦۔سہل بن منجاب تمیمی

* ٧١۔وکیع بن مالک تمیمی

* ١٨۔حصین بن نیار حنظلی تمیمی

مزید دو صحابی

* ١٩۔زرّ بن عبد اللہ فقیمی

* ٢٠۔اسود بن ربیعہ حنظلی

۲۰۱

رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کے چھ جعلی کارندے

چار روایتیں

پہلی روایت

طبری نے سیف بن عمر تمیمی سے اور اس نے صعب عطیہ سے اور اس نے اپنے باپ سے یوں روایت کی ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت تمیم کے مختلف قبائل میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے حسب ذیل تھے :

١۔ زبر قان بن بدر : قبائل رباب ، عوف اور ابناء کے لئے ۔

٢۔ قیس بن عاصم : قبائل مقاعس اور بطون کے لئے ۔

قبیلہ بنی عمرو تمیمی کے لئے حسب ذیل دو آدمی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے تھے :

٣۔ صفوان بن صفوان : قبیلہ بھدی کے لئے ۔

٤۔ سبرة بن عمرو : قبیلہ خضم کے لئے

قبیلہ حنظلہ کے لئے بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے درجہ ذیل دو آدی مامور تھے ۔

٥۔ وکیع بن مالک : قبیلہ بنی مالک کے لئے ۔

٦۔ مالک بن نویرہ : قبیلہ بنی یر بوع کے لئے ۔

اس کے بعد طبری اس حدیث کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے اس طرح اضافہ کرتا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر تمیم کے قبائل میں پہنچی تو صفوان بن صفوان اپنے اور سبرہ کے جمع کئے گئے صدقات کی رقومات کو ابوبکر کے پاس مدینہ لے گیا اور سبرہ وہیں پر رہا ۔

لیکن قیس نے جو کچھ جمع کیا تھا اسے قبائل مقاعس و بطون کے ادا کرنے والے اصلی افراد کو واپس کر دیا اور ابو بکر کو کچھ نہیں بھیجا ۔

۲۰۲

زبرقان نے قیس کے برعکس قبائل رباب ، عوف اور ابناء سے جمع کی گئی اپنی رقومات مدینہ میں ابو بکر کی خدمت میں پیش کیں ۔ چوں کہ اس کی پہلے ہی سے قیس کے ساتھ رقابت تھی اس لئے قیس کی رقومات ادا کرنے سے پہلو تہی کو بہانہ قرار دے کر ایک شعر کے ذریعہ اس کی ہجو گوئی کی اور اس ضمن میں کہا:

میں نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امانت کو پہنچادیا لیکن بعض کا رندوں نے ایک اونٹ بھی نہیں دیا ! سیف کہتا ہے :

رسول خد کی وفات کے بعد قبائل تمیم کے مختلف خاندانوں میں اسلام پر باقی رہنے اور ارتداد کے مسئلہ پر اختلافات رو نما ہوئے ۔ ان میں سے بعض اسلام پر ثابت قدم رہے ۔لیکن بعض شک و شبہ سے دو چار ہو کر سر انجام دین اسلام اور اس کے قوانین سے نا فرمانی کرکے مرتد ہوئے اور اس کے نتیجہ میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے متخاصم ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس طرح :

قبائل عوف و ابناء نے خاندان بنی حشم کے ۔

٧۔ '' عوف بن بلاد'' کی قیادت میں قبائل بطون سے جنگ کی جن کی قیادت

٨۔ سعیر بن خفاف کر رہا تھا ۔

قبائل رباب قبیلہ مقاس سے ، خضم مالک سے اوربہدی ، یربوع سے لڑ رہے تھے قبائل

رباب اور بہدی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نمائندہ

٩۔ حصین بن نیار حنظلی تھا کہ قبیلہ رباب کے افراد بھی اس کی حمایت کرتے تھے ۔حصین بن

نیاران افراد میں سے تھا جو اسلام پر ثابت قدم تھے قبیلہ ضبہ کا قائد

١٠۔ عبد اللہ بن صفوان تھا۔

اور قبیلہ عبد مناة کی قیادت

١١۔ عصمة بن عبیر کے ہاتھ میں تھی ۔

۲۰۳

سیف کہتا ہے :

اسی پکڑ دھکڑ کے دوران جب تمیم کے مختلف قبائل کے مسلمان و مرتد ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو چکے تھے تو ، پیغمبر ی کا دعوی کرنے والی خاتون ''سجاح'' تمیمی نے فرصت کو غنیمت سمجھ کر ان پر حملہ کیا ۔

تمیم کے مختلف قبائل کے درمیان لڑائی جھگڑے اور ان کی بیچارگی کو عفیف بن منذ رتمیمی اس طرح یاد کرتا ہے :

جب خبریں پھیلیں ، کیا تم نے یہ خبر نہیں سنی کہ تمیم کے مختلف قبیلوں پر

کیا مصیبت آن پڑی ؟!

طبری اسی روایت کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے یوں لکھتا ہے :

پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی خاتون '' سجاح '' جو ابوبکر سے جنگ کرنا چاہتی تھی نے مالک نویرہ کے نام ایک خط لکھا اور اسے اپنے جنگ سے منصرف ہونے کے ارادے سے آگاہ کا مالک نے ''سجاح '' کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے ابوبکر سے جنگ نہ کرنے کے اس فیصلے کے مقابلے میں اسے تمیم کے منتشر قبیلوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی '' سجاح '' نے مالک کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے تمیم کے قبیلوں پر چڑھائی کی اور لڑائی جھگڑوں ، قتل و غارت اور اسارت کے بعد سر انجام ان کے درمیان صلح ہوئی ۔ جن معروف اشخصیتوں نے '' سجاح '' سے دوستی اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ان میں وکیع بن مالک بھی تھا ۔

سیف داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

قبائل تمیم سے عہد و پیمان طے پانے کے بعد '' سجاح '' نے مملکت نباج کی طرف رخ کیا ، لیکن اسی دوران بنی عمرو تمیم کے اوس بن خذیمہ نے اپنے ماتحت افراد کے ہمراہ ''سجاح '' اور اس کے پیرئوں پر حملہ کرکے ان میں سے بعض افراد کو اسیر بنا دیا ۔

'' سجاح '' نے مجبور ہو کر اوس سے صلح کی اور طے پایا کہ '' سجاح '' اپنے ساتھیوں کو اوس کی اسارت سے آزاد کرانے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ فورا ًاوس کی سرزمین سے نکل جائے ۔

۲۰۴

دوسری روایت

طبری نے دوسرے روایت میں اسی پہلی روایت کی سند سے بحرین کے باشندوں کے ارتداد کی داستان کو سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے ۔ ٢

'' وکیع بن مالک '' اور '' عمر و عاص '' کی آپس میں رقابت تھی اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے تھے

تیسری روایت

طبری تیسری روایت میں داستان'' بطاح '' کو پہلی اور دوسری روایتوں کے اسناد سے سیف سے نقل کرکے اس طرح لکھتا ہے : ٣

'' سر انجام وکیع کو اپنی برائی کا احساس ہوا اوراچھی طرح دوبارہ اسلام کی طرف پلٹ آیا اور اپنے گزشتہ اعمال کی تلافی کے طور خاندان بنی حنظلہ اور یربوع سے جمع کی گئی صدقہ کی رقومات کو ابوبکر کے نمائندہ خالد بن ولید کی خدمت میں پیش کیا ، جو ان دنوں خلیفہ کی طرف سے قبیلہ تمیم کی بغاوتوں کو کچلنے کے لئے ماموریت پر تھا ۔

اس ملاقات کے دوران خالد نے اپنی گفتگو کے ضمن میں وکیع سے پوچھا:

تم نے کیوں مرتد وں کی دوستی اختیار کرکے ان کا ساتھ دیا ؟

وکیع نے جواب دیا :

'' بنی ضبہ '' کے چند افراد کی گردن پر ہمارا خون تھا ۔ میں بھی انتقام لینے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا ۔ جب میں نے دیکھا کہ بنی تمیم کے قبائل ایک دوسرے کے پیچھے پڑ ے ہیں تو انتقام لینے کے لئے اس فرصت کو غنیمت سمجھا۔

وکیع نے ایک شعر میں اپنے اس اقدام کی توجیہ یوں کی ہے :

تم یہ خیال نہ کرنا کہ میں دین سے خارج ہو کر صدقہ دینے میں رکاوٹ بنا ہوں ! بلکہ حقیقت میں وہی معروف شخص ہوں جس کی شہرت زبان زد خاص

۲۰۵

و عام تھی ۔

میں نے قبیلہ بنی مالک کی حمایت کی اور ایک مدت تک توقف کیا تاکہ میری آنکھیں کھل جائیں ۔

چوں کہ خالد بن ولید نے ہم پر حملہ کیا اورڈرایا ،اس لئے امانتیں اس کے پاس پہنچنے لگیں ۔

چوتھی روایت

طبری نے چوتھی روایت میں مالک بن نویرہ کے قتل کی داستان اپنی مذکورہ اسناد کے مطابق سیف بن عمر سے نقل کرکے اس طرح بیان کی ہے ۔ ٤

جب خالد بن ولید سر زمین بطاح میں داخل ہوا تو اس نے اپنے افراد کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا اور ہر گروہ کو ایک شخص کی قیادت میں مختلف ماموریتوں پر روانہ کیا تاکہ تمیم کے مختلف قبیلوں کے اندر داخل ہو کر گھوم پھر یں اور انھیں ہتھیار ڈالنے کی دعوت دیں ۔ اگر کسی نے نا فرمانی کرکے ان کا مثبت جواب نہ دیا تو اسے قیدی بنا کر خالد بن ولید کے پاس لے آئیں تاکہ وہ ان کے بارے میں خود فیصلہ کرے ۔

خالد کے گشتی سواروں نے اس ماموریت کو انجام دینے کے دوران مالک بن نویرہ ،اور اس کے خاندان کے چند افراد کو پکڑکر قیدی بنالیا ۔لیکن خالد کے ماموروں کے در میاں اس مسئلہ میں اختلاف ہوا کہ کیا مالک اور اس کے ساتھیوں نے اذان کے ساتھ نماز پڑھی یا اذان کے بغیر ۔اسی وجہ سے خالد بن ولید نے اسے جیل میں ڈالنے کا حکم دیا ۔

اتفاق سے اس رات کو کڑاکے کی سردی تھی اور تیز آندھی بھی چل رہی تھی ۔نا قابل برداشت ٹھنڈک تھی اور یہ سردی رات بھر لمحہ بہ لمحہ شدیدتر ہوتی جاتی تھی ۔

خالد بن ولید نے اسیروں کی بہبودی اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکم دیا کہ اس کا منادی فوجیوں میں اعلان کرے :

''ادفئوااسراکم ''''اپنے اسیروں کو گرم حالت میں رکھو !''

۲۰۶

سیف کہتا ہے کہ کنانہ کے لوگوں کے ہاں یہ جملہ ''دثروا الرجل فادفئو ''یعنی مرد کو ڈھانپو اور اسے گرم گرم رکھو ''سر تن سے جدا کرنے کا معنی دیتا ہے!اس لئے خالد بن ولید کے جنگجو سپہ سالار کا حکم سننے کے بعد فوری طور پر اسے عملی جامہ پہنا نے کی فکر میں لگ گئے، کیونکہ وہ اس اعلان سے یہ تصور کر رہے تھے کہ خالد بن ولید نے اسیروں کو قتل کرنے کا حکم جاری کیاہے !لہٰذا ''ضرار بن ازور'' نے اٹھ کر مالک بن نویرہ کا سر تن سے جدا کردیااور دوسرے لوگوں نے بھی مالک کے دیگر ساتھوں کو قتل کرڈالا۔

خالد بن ولید نے جب اسیروں کی فریاد و زاری کی آوازیں سنیں ، اپنے خیمے سے نکل کر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچا لیکن اس وقت دیر ہوچکی تھی اور مالک اور اس کے ساتھی خاک و خون میں تڑپ رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر خالد بن ولید نے کہا:

جب خدائے تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ کوئی کام انجام پائے تو وہ کام انجام پاتا ہے۔

سیف روایت کے آخر میں کہتا ہے:

خالد کے سپاہیوں نے مقتولوں کے سروں کو منجملہ مالک نویرہ کے سر کو ایک دیگ میں ڈالکر اس کے نیچے آگ لگادی!!

لیکن، پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ''سجاح'' کی باقی داستان تاریخ طبری میں سیف سے نقل کرکے اس طرح درج کی گئے ہے:

پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ''سجاح'' اپنے مریدوں کے ہمراہ یمامہ کی طرف روانہ ہوئی اور اس کی خبر پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ جب یہ خبر پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دوسرے شخص ''مسیلمہ'' کو پہنچی تو وہ بہت ڈرگیا اور حفظ ماتقدم کے طور پر متوقع حوادث کے بارے میں تدبیر کی فکر میں لگ گیا۔ اس کے بعد اس نے ''سجاح'' کو کچھ تحفے بھیجے اور اس سے امان کی درخواست کی تا کہ اس کی ملاقات کے لئے آئے ۔''سجاح'' نے مسیلمہ کو امان دی اور ملاقات کی اجازت بھی ۔

مسیلمہ قبیلہ بنی حنیفہ کے اپنے چالیس مریدوں کے ہمراہ ''سجا ح'' کی خدمت میں حاضر ہوا۔

سیف کہتا ہے کہ ''سجاح'' عیسائی تھی۔پھر داستان کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:

پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی ان دو شخصیتوں نے آپس میں گفتگو کی اور گفتگو کے دوران مسیلمہ نے ''سجاح'' سے کہا:

دنیا کی نصف دولت ہماری ہے ، اگر قریش انصاف پسند ہوتے تو باقی نصف ان کی تھی۔ اب جب کہ قریش نے انصاف کی راہ اختیار نہیں کی ہے تو خدائے تعالیٰ نے وہ حصہ قریش سے چھین کر تمھیں عنایت کیاہے!!

۲۰۷

''سجاح'' کو مسیلمہ کی تقسیم پسند آئی اور اسے قبول کیا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ مسیلمہ ہر سال یمامہ کی پیدا وار کا نصف خراج کے طور پر ''سجاح'' کو دے ۔ اس کے علاوہ طے پایا کہ اگلے سال کے خراج کا نصف بھی پیشگی کے طور پر اسی سال ادا کیا جائے۔

اس قسم کے سخت اور مشکل شرط کو قبول کرنے پر مسیلمہ مجبور ہوا اور طے پایا کہ سجاح اگلے سال کا نصف خراج ساتھ لے کر لوٹے اور اپنی طرف سے ایک نمایندہ کو یمامہ میں رکھے تا کہ وہ اگلے سال خراج کا دوسرا حصہ وصول کرے ۔

''سجاح'' نے ایسا ہی کیا اور مسیلمہ سے خراج کا نصف حصہ وصول کرکے اپنی طرف سے وہاں پر ایک نمایندہ مقرر کرکے بین النہرین کی طرف روانہ ہوئی ۔

ابن اثیر نے بھی جہاں پر تمیم اور ''سجاح'' کی بات کرتا ہے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں ۔ اس موضوع پر ابن اثیر کی گفتگو کا آغاز یوں ہو تا ہے:(٥)

قبائل تمیم میں ، ان ہی قبائل میں سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے جن کا رندوں کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مأموریت دی گئی تھی وہ حسب ذیل تھے:

''زبر قان بن بدر، سہل بن منجاب، قیس بن عاصم، صفوان بن صفوان، سبرة بن عمرو، وکیع بن مالک اور مالک بن نویرہ''

جب پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر اس علاقے میں پہنچی تو ''صفوان بن صفوان'' نے قبیلہ بنی عمر سے وصول کئے گئے صدقات پر مشتمل رقومات....... (تا آخر روایت ِسیف)

۲۰۸

مالک بن نویرہ کی داستان کو ابن اثیر نے بھی سیف سے روایت کرکے طبری کی کتاب سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے۔

ابن کثیر نے بھی ''سجاح'' اور قبائل تمیم اور مالک نویرہ کی داستان کو سیف کی اسی روایت کے مطابق طبری سے نقل کرکے درج کیا ہے ۔(٦)

ابن خلدون بھی ''وکیع بن مالک ''کے بارے میں گفتگو کرتے وقت تاریخ طبری سے سیف کی اسی روایت کو نقل کرتا ہے۔

یاقوت حموی نے بھی لفظ ''بطاح'' کی تشریح میں بلاواسطہ سیف کی روایت ، خاص کر اس کی تیسری روایت سے استفادہ کیا ہے اور اس کے شاہد کے طور پر وکیع کا شعر بھی پیش کیا ہے۔

سیف کی ان ہی مذکورہ روایات سے استفادہ کر کے ابن اثیر ، ذہبی ،ابن فتحون اورابن حجر نے سیف کے چھ جعلی اصحاب جن کے نام اوپر بیان ہوئے کے حالات زندگی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں ۔ ان جعلی صحابیوں میں سے ہر ایک کے بارے میں مذکورہ علماء کی باتوں کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

۲۰۹

١٣۔ سعیر بن خفاف

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اسے ''سعیر بن خفاف تمیمی'' بتایا ہے ، جب کہ تاریخ میں طبری میں سیف کی تاکید کی بناء پر ''سعر بن خفاف تمیمی '' ذکر ہوا ہے ۔ ابن حجر نے سیف کے اس جعلی صحابی کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے''سعیر بن خفاف'' ، قبائل تمیم کے ایک قبیلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا ۔ ابوبکر نے بھی اسے اپنے عہدے پر برقرار رکھا ۔ (٧)(ز)

یہ امر پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ ابن حجر کی تحریروں میں حرف ''ز'' اس بات کی علامت ہے کہ یہ مطلب اصحاب کی سوانح لکھنے والے دوسرے مؤلفین کے مطالب کے علاوہ اور اس کا اپنا اضافہ کیا ہوا مطلب ہے۔

١٤۔عوف بن علاء جشمی

ابن حجر نے اس کا نام ''عوف بن خالد جشمی''ذکر کیا ہے، لیکن تاریخ طبری میں سیف کی روایت کے مطابق اس کا نام''عوف بن علاء بن خالد جشمی'' لکھاہے۔

ابن حجر نے اپنی کتا ب ''الاصابہ'' میں اس کی سوانح اس طرح بیان کی ہے:

سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' مین لکھا ہے کہ عوف اُن کارندوں میں سے ہے، جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد اس عہدے پر فائز کیا گیا ہے اور وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی تھا ۔ ابن فتحون نے بھی عوف کا نام ان صحابیوں کے عنوان میں ذکر کیا ہے جو صحابیوں کی سوانح لکھنے والوں کے درج کرنے سے رہ گئے ہیں ۔ (٨)

ہم نے عوف کے بارے میں سیف بن عمر اور دوسروں سے مذکورہ روایت کے علاوہ کوئی خبروایت اور نہ پائی اور نہ ہی اس جعلی صحابی کی جنگوں میں شرکت اور شجاعتوں کے بارے میں کوئی مطلب نہیں پایا، جب کہ سیف اپنے قبیلۂ مضر ، خاص کر تمیم کے افسانوی دلاوروں کے بارے میں اکثر و بیشتر شجاعتیں اور بہادریاں دکھلاتا ہے ۔

۲۱۰

١٥۔اوس بن جذیمہ

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اسے ''اوس بن جذیمہ'' ہجیمی کے نام سے یاد کیا ہے جب کہ تاریخ طبری میں سیف کی روایت کے مطابق ''اوس بن خزیمہ ہجیمی'' ذکر ہوا ہے اور ہجیمی بنی عمرو کا ایک قبیلہ ہے۔ اسی طرح یہ نام بصرہ میں موجود ہجیمیان کے ایک محلہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے ۔ (٩)۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں اوس کی سوانح کے بارے میں یوں ذکر کیا ہے:

سیف اور طبری دونوں نے بیان کیا ہے کہ اوس نے رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دیدار کیا ہے اور قبیلہ بنی تمیم کے افراد کے مرتد ہوتے وقت بدستور اسلام پر ثابت قدم رہاہے ۔ ''سجاح'' پیغمبری کا دعویٰ کرنے کے وقت اوس نے اپنے خاندان کے ایک گروہ کے ساتھ ''سجاح'' کے سپاہیوں پر چڑھائی کی. اس طرح سیف کے اس خیالی سورما اور جعلی صحابی کے نام سے سیف کے خاندان، بنی عمرو تمیمی کے افتخارات میں اضافہ ہوتاہے۔

١٦۔سہل بن منجاب

ابن اثیر نے اپنی کتاب ''اسد الغابہ'' میں لکھا ہے:

جب تمیم کے مختلف قبائل نے اسلام قبول کیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان قبیلوں میں ان کے ہی چند افراد کو اپنے کارندوں کی حیثیت سے ذمہ داری سونپی ۔ قبیلہ کے صدقات کو جمع کرنے کی مأموریت ''سہل بن منجاب'' کو دی ۔ جیسا کہ طبری نے ذکر کیا ہے کہ قیس بن عاصم، سہل بن منجاب ، مالک نویرہ ، زبرقان بدر اور صفوان و غیر ہ قبائل تمیم میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے تھے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں لکھا ہے:

طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ''سہل بن منجاب'' ان کارندوں میں سے تھا جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبائل بنی تمیم میں صدقات جمع کرنے پر مأمور فرمایا تھا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک سہل اس عہد ے پر باقی تھا۔

ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید'' میں لکھا ہے:

کہا جاتا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''سہل کو صدقات جمع کرنے کے لئے مأمور فرمایا تھا۔ (١٠)

۲۱۱

اس مطلب پر ایک تحقیقی نظر:

ہم ، ابن اثیر کی کتاب ''اسد الغابہ '' پر ایک بار پھر نظر ڈالتے ہیں ۔ وہ لکھتا ہے:

تمیم کے مختلف قبائل کے اسلام قبول کرنے کے بعد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان ہی قبائل میں سے ان کے لئے چند کارندوں کو معین فرما کر مختلف قبائل میں ان کو مأموریت دی ۔ جیسے ''قیس بن عاصم'' ، ''سہل '' اور ''مالک''

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے تمیمیوں کو مأموریت دینے کی حدیث طبری کے متعدد نسخوں میں حسب ذیل صورت میں من و عن درج ہوئی ہے:

تمیمیوں کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زندگی میں اپنے چند کارندوں کو معین فرمایا تھا، جن میں سے زبرقان بن بدر کو قبیلۂ رباب ، عوف اور بناء کے لئے مأمور فرمایا تھا۔ جیسا کہ ''سری '' نے ''شعیب ''سے اس نے ''سیف سے اس نے صعب بن عطیہ سے ، اس نے اپنے باپ اور سہم بن منجاب سے روایت کی ہے کہ ''قیس بن عاصم '' قبیلہ ٔمقاعس اور بطون پر مأمور تھا۔

طبری کے بیان سے یوں لگتا ہے کہ ''صعب بن عطیہ '' نے دو آدمیوں سے نقلِ قول کیا ہے کہ جن میں ایک اس کا باپ عطیہ اور دوسرا سہم بن منجاب ہے ۔ لہٰذا منجاب اس حدیث میں خود راوی ہے نہ صحابی!

گویا ان دو معروف دانشو روں ، ابن اثیر و ابن حجر نے طبری کی بات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ صعب نے صرف اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ مقاعس اور بطون کے قبائل پر ''قیس بن عاصم '' اور سہم من منجاب '' نامی دو شخص تمیمیوں کے صدقات جمع کرنے پر مأمور کئے گئے تھے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ان دو دانشوروں کو ہاتھوں میں طبری کے جو نسخے تھے ، ان میں ''سہم بن منجاب ''کا نام ''سہل بن منجاب '' لکھا گیا ہو. اس بناء پر ان دو دانشو روں نے اسی نام کو صحیح قرار دیکر ''سہل بن منجاب'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر درج کر کے تشریح کی ہے۔

۲۱۲

١٧۔ وکیع بن مالک

سیف نے اسے ''وکیع بن مالک تمیمی '' خیا ل کیا ہے اور اس کے نسب کو ''حنظلہ بن مالک '' تک پہنچا یا ہے جو قبائل تمیم کا ایک قبیلہ ہے ۔ (١١)

ذہبی نے اپنی کتاب ''تجرید '' میں وکیع کا تعارف اس طرح کیا ہے:

سیف بن عمر تمیمی لکھتا ہے کہ وکیع بن مالک اور مالک نویرہ ایک ساتھ قبیلہ بنی حنظلہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندے تھے۔

ابن حجر بھی اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں لکھتا ہے:

سیف نے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''وکیع بن مالک '' کو ''مالک نویرہ'' کے ہمراہ بنی حنظلہ اور بنی یربوع کے صدقات جمع کرنے پر مأمور فرمایا ، اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات تک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے اس عہدے پر باقی تھے۔ تاریخ طبری میں ملتاہے کہ وکیع نے سجاح کے ساتھ معاہدہ کیا تھا ، لیکن جب سجاح اپنے خاندان سمیت نابود ہوئی تو وکیع اپنی مأموریت کے علاقے میں صدقات کے طور پر جمع کی گئی رقومات کو اپنے ساتھ لے کر خالد بن ولید کے پاس گیا اور عذر خواہی کے ساتھ اپنا قرض چکا دیا اور معافی مانگ کر احسن طریقے پر پھر سے اسلام کی طرف پلٹ آیا۔

سیف نے مزید کہا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''وکیع دارمی'' کو ''صلصل'' کے ہمراہ عمرو کی مدد کے لئے بھیجا تا کہ وہ مرتدوں پر حملہ کریں ۔

ابن حجر کی تحریر سے واضح ہو تا ہے کہ یہ دانشور ''وکیع دارمی'' کی خبر کو دومنابع ، یعنی سیف کی کتاب سے اور طبری کی تاریخ سے نقل کرتا ہے اور قبائل تمیم میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں کے موضوع ، تمیمیوں کے مرتد ہونے کی خبر اور عمر و عاص کی مدد کے لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے صلصل کے ہمراہ وکیع کی مأموریت کا ذکر کر تا ہے۔

۲۱۳

انشاء اللہ اپنی جگہ پر اس کو تفصیل سے بیان کریں گے۔

اس طرح ابن حجر نے ، اپنی کتاب ''الاصابہ'' میں ''وکیع '' کا کوئی شعر نقل نہیں کیاہے جب کہ طبری و حموی نے اپنی کتابوں میں وکیع کے اشعار کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

اسی طرح اس تمیمی دارمی یعنی ''وکیع بن مالک ''کا اصحاب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فہرست میں قرار پانا، اس کے اشعار اور رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کارندہ کی حیثیت سے اس کی مخصوص مأموریت خاندان تمیم کے افتخارات میں درج ہوئے ہیں ۔

١٨۔ حصین بن نیار حنظلی

سیف نے ''حصین بن نیار حنظلی '' کو بنی حنظلہ سے تصور کیا ہے۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''الاصابہ '' میں حصین کے بارے میں یوں لکھا ہے:

سیف بن عمر ، اور اسی طرح طبری نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ حصین بن نیار رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں میں شمار ہوتا تھا۔ ابن فتحون ١ نے بھی حصین کے حالات کے بارے میں سوانح نویسوں سے یہی سمجھا ہے۔

ابن حجر کہتا ہے کہ : سیف اور طبری نے کہا ہے۔

معلوم ہوتا ہے کہ اس دانشور نے حصین بن نیار کے بارے میں ان مطالب کو ان دو منابع سے نقل کیا ہے۔

ابن حجر نے حصین کی زندگی کے حالات لکھتے ہوئے صرف اسی پر اکتفاء کی ہے کہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کارندہ تھا۔اس کے علاوہ جو دوسری داستانیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اس کے بارے

____________________

١)۔ابوبکر، محمد بن خلف بن سلیمان بن فتحون اندلسی، ملقب بہ ''ابن فتحون'' پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کا ایک دانشور ہے۔ اس کی تألیفات میں سے دو بڑی جلدوں پر مشتمل کتاب ''التذییل ''ہے ۔ اس کتاب میں اس نے ''عبد البر'' کی کتاب ''استیعاب'' کی تشریح و تفسیر لکھی ہے۔ ابن فتحون نے ٥١٩ھ میں اندلس کے شہر مرسیہ میں وفات پائی ۔

۲۱۴

میں ١٤ ھ کے حوادث کے ضمن ذکر کی ہیں قادسیہ کی جنگ میں شرکت اور ہراول دستے کی کمانڈ و غیرہ کو بیان نہیں کیا ہے ۔

اس کے علاوہ ابن حجر نے حموی کی ''معجم البلدان '' میں لفظ ''دلوث '' کے سلسلے میں بیان کی گئی خبر کے بارے میں یوں لکھا ہے :

سیف بن عمر نے ''عبد القیس '' نامی ایک مرد ملقب بہ ''صحار '' سے نقل کر کے کہا ہے کہ میں نے شہر اہواز کے اطراف میں ''ہرمزان'' سے جنگ میں شرکت کرنے والے شخص ''ہرم بن حیاں '' سے ملاقات کی۔ جنگ کا علاقہ ''دلوث '' اور دجیل کے درمیان تھا۔۔۔(یہاں تک کہتا ہے:)

اس منطقہ کو دوسری جگہ پر ''دلث '' پڑھا جاتا تھا ۔ اور حصین بن نیار حنظلی نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا اسے خبر ملی کہ ''مناذر'' کے باشندوں نے ہمارے دل میں لگی آگ کو بجھادیا؟

دلوث سے آگے ہماری فوج کے ایک گروہ کو دیکھ کر ان کی آنکھیں چکا چوند ھ ہوگئیں ۔

اس مطلب کو عبد المؤمن نے حموی سے نقل کر کے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع ''میں درج کیا ہے۔

ابن حجر نے بھی لفظ ''مناذر'' کے بارے میں حموی کی بات پر توجہ نہیں کی ہے جب کہ وہ اپنی معجم میں لکھتا ہے :

اہل علم کا عقیدہ ہے کہ ١٨ھ میں عتبہ نے اپنی سپاہ کے سلمی و حرملہ نام کے دو سرداروں کو مأموریت دی۔۔۔(یہاں تک لکھتا ہے:)

سر انجام مناذر و تیری کو فتح کیا گیا ۔ اس فتح کی داستان طولانی ہے۔

حصین بن نیار نے اس سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :

کیا وہ آگاہ ہوا کہ مناذر کے باشندوں نے ہمارے دل میں لگی آگ کو بجھادیا ؟

۲۱۵

انھوں نے ''دلوث''کے مقام سے آگے ہماری دفوج کی ایک بٹیلین کو دیکھا اور ان کی آنکھیں چکا چوندھ رہ گئیں ۔

ہم نے ان کو نخلستانوں اور دریا ئے دجیل کے درمیان موت کے گھاٹ اتار دیااورانھیں نابود کرکے رکھ دیا ۔

جب تک ہمارے گھوڑوں کے سموں نے انھیں خاک میں ملا کر دفن نہیں کیا ، وہ وہیں پڑے رہے ۔

طبری نے یہ آخری داستان نقل کرکے اس کو مفصل طور پر تشریح وتفسیر کے ساتھ درج کیا ہے۔ لیکن اپنی عادت کے مطابق اس سے مربوط رجز خوانیوں اور اشعار کو حذف کیا ہے ۔(١٢)

اس طرح ان علماء نے سیف کی احادیث پر اعتماد کرکے اس کے خیالات کی مخلوق ، یعنی خاندان تمیم کے ان چھ افراد کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب اور کارندوں کی فہرست میں قرار دے کر رجال اور پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں سے مربوط اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

اب ہم سیف کی احادیث میں ان سے مربوط مطالب کو ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے سیف کی احادیث کے اسناد کی تحقیق کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے افسانوں کا تاریخ کے مسلم حقائق کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں :

اسناد کی تحقیق

سیف کی پہلی حدیث میں خاندان تمیم میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کے بارے میں بحث ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ مذکورہ قبائل میں افراد کے مرتد ہونے ، مالک نویرہ کی داستان اور پیغمبری کا دعویٰ کرنے والی خاتون '' سجاح '' کی داستان پر بحث ہوئی ہے ۔

دوسری حدیث میں بحرین میں ارتداد اور سیف کے جعلی صحابی وکیع بن مالک کے بارے میں بحث ہوئی ہے

تیسری حدیث میں بطاح ، وکیع او ر مالک نویرہ کی داستان کے ایک حصہ کا موضوع زیر بحث قرار پایا ہے

سیف نے مذکورہ تین احادیث کو صعب بن عطیہ بن بلال اور اس کے باپ سے نقل کیا ہے اس میں باپ بیٹے ایک دوسرے کے راوی ہیں ہم نے گزشتہ مباحث میں بیان کیا ، چوں کہ ان کو سیف کے علاو ہ کہیں اور نہیں پایا جا سکتا ہے ، لہٰذا ان کو ہم نے سیف کی مخلوق کی حیثیت سے جعلی راوی کے طور پر پہچان لیا ہے ۔

۲۱۶

چوتھی حدیث ، جو مالک نویرہ کی بقیہ داستان پر مشتمل ہے ،کی سند کے طور پر سیف نے خزیمہ بن شجرہ عقفانی کا ذکر کیا ہے۔ علماے رجال اور نسب شناسوں نے اس کی سوانح کو سیف کی احادیث سے نقل کیا ہے !! دوسرا عثمان بن سوید ہے جس کے نام کو ہم نے سیف کے علاوہ کہیں اور نہ پایا۔

لیکن جہاں پر سیف حصین بن نیار کی بات کرتا ہے اس کی سند کے طور پر چند مجہول الھویہ افراد کا ذکر کرتا ہے !یہ ہے سیف کی احادیث کے اسناد کی حالت ہے !!

تاریخی حقائق

سیف کے افسانوں کا موازنہ کرنے کے لئے ہم ان منابع کی طرف رجوع کرتے ہیں جنھوں نے سیف کی روایت کو نقل نہیں کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ہشام اور طبری نے ابن اسحاق سے نقل کر کے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کے موضوع کے بارے میں اس طرح بیان کیا ہے: ۔ (١٣)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے گورنر ون اور عاملوں کو اسلامی ممالک کے قلمرو میں حسب ذیل ترتیب سے معین فرمایا :

١۔مہاجربن ابی امیہ کو صنعاء ، بھیجااور وہ اسود کی طرف سے اس کے خلاف بغاوت تک وہاں پر اسی عہدے پر فائز تھا ۔

٢۔زیاد بن لبید جس نے بنی بیاضہ کے ساتھ برادری کا معاہدہ کیا تھا کو حضرموت بھیجا اور وہاں کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی

اسے سونپی ۔

٣۔ عدی بن حاتم کو قبائل طے وبنی اسد کے لئے اپنا کا رندہ مقر فرمایا اور اس علاقے کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی ۔

۲۱۷

٤۔مالک بن نویرہ کو بنی حنظلہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری دی ۔

٥۔زبر قان بن بدر کو بنی اسد کے ایک علاقہ کی ذمہ داری دی ۔

٦۔قیس بن عاصم کو بنی اسد کے ایک دوسرے علاقہ کا کارندہ مقرر فرمایا اور اس علاقہ کے صدقات جمع کرنے کی ذمہ داری بھی اسے سونپی ۔

٧۔علاء بن حضر ی کوبحرین کی حکومت سونپی ۔

٨۔حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو صدقات جمع کرنے کے علاوہ نجران کے عیسائیوں سے جزیہ وصول کر کے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچانے پر مأمور فرمایا ۔ چوں کہ اس سال ١٠ھ میں جب ذیقعدہ کا مہینہ آیا تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فریضہ حج انجام دینے کے لئے عزیمت فرمائی....

اس کے بعد طبری اور ابن ہشام نے حضرت علی علیہ السلام کی نجران سے واپسی ، ان کا

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملحق ہو کر فریضہ حج کے لئے جانا ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مکہ سے مدینہ کی طرف واپسی اور اواخر صفر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے واقعات کو سلسلہ وار لکھا ہے ۔

اس حدیث کے مطابق تمیم کے مختلف قبائل میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حسب ذیل تین گماشتے مقرر ہوئے تھے ۔

مالک نویرہ

قیس بن عاصم اور

زبرقان بن بدر

اور سیف نے ان میں اپنی طرف سے مزید آٹھ افراد کا اضافہ کرکے ان کی تعداد گیارہ افراد تک بڑھا دی ہے !

تمیم کے مختلف قبائل کے مرتد ہونے کے موضوع کو ہم نے کسی ایسے معتبر مورخ کے ہاں نہیں پایا جس نے سیف سے روایت نقل نہ کی ہو صرف مالک نویرہ کی داستان اور خالد بن ولید کے ہاتھوں اس کی دلخراش موت کے بارے میں پایا ، جسے طبری ،ابوا لفرج اصفہانی اور وثیمہ وغیرہ جیسے معروف دانشوروں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ ہم نے اس داستان کو طبری کی تاریخ سے حاصل کیا ہے ۔

۲۱۸

مالک نویرہ کی داستان

طبری عبد الرحمن بن ابی بکر سے نقل کرکے مالک کی موت کے بارے میں یوں بیان کرتا ہے : (١٤)

جب خالد سر زمین بطاح میں پہنچا تو اس نے ضراربن ازور کو ایک گروہ کی قیادت سونپ کر جس میں ابو قتادہ اور حارث بن ربعی بھی موجود تھے اس علاقہ کے ایک حصے کے باغیوں اور مرتدوں کی شناسائی کے ئے مامور کیا ۔

ابو قتادہ خود اس ماموریت میں شریک تھا ۔ چوں کہ اس نے خالد کے پاس مالک کے مسلمان ہونے کی شہادت دی تھی ، اور خالد نے اس کی شہادت قبول نہیں کی تھی ، اس لئے اس نے قسم کھائی کہ زندگی بھر خالد کے پرچم تلے کسی بھی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا ۔ ابو قتادہ نے مالک کی داستان کی یوں تعریف کی ہے :

ہم رات کے وقت قبیلہ ٔمالک کے پاس پہنچے اور انھیں زیر نظر قرار دیا ۔ لیکن جب انھوں نے ہمیں اس حالت میں اپنے نزدیک دیکھا تو ڈر گئے اور اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ہم نے یہ دیکھ کر ان سے مخاطب ہوکر کہا:

ہم سب مسلمان ہیں !

انھوں نے کہا

ہم بھی مسلمان ہیں :

ہم نے کہا:

پس تم لوگوں نے کیوں اسلحہ ہاتھ میں لے لیا ہے ؟!

انھوں نے جواب دیا :

تم کیوں مسلح ہو؟

ہم نے کہا:

ہم اسلام کے سپاہی ہیں ۔اگرتم لوگ سچ کہتے ہو تو اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دو !

انھوں نے ہماری تجویز قبول کرتے ہوئے اسلحہ کو زمین پر رکھ دیا اس کے بعد ہم نماز کے لئے اٹھے اور وہ بھی نماز کے لئے اٹھے اور

۲۱۹

گویا خالد اور مالک کے درمیاں ہوئی گفتگو خالد کے لئے مالک کو قتل کرنے کی سند بن گئی تھی،کیوں کہ جب مالک نویرہ کو پکڑ کے خالد کے سامنے حاضر کیا گیا تو اس نے اپنی گفتگو کے ضمن میں خالد سے کہا:

میں یہ گمان نہیں کرتا کہ تمھارے پیشوا پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسی ویسی کوئی بات کہی ہو !!

خالد نے جواب میں کہا:

کیا تم اسے اپنا پیشوا نہیں جانتا ؟ اس کے بعد حکم دیا کہ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا سر تن جدا کردیں !! پھر حکم دیا کہ تن سے جد ا کئے گئے سروں کو دیگ میں ڈال کرجلتی آگ پر رکھ دیں ۔

خالد پر عمر کا غضب ناک ہونا

ٍٍ جب مالک نویرہ کے قتل کی خبر سے عمر ابن خطاب آگاہ ہوا تو اس نے اس موضوع پر ابو بکر سے بات کرتے ہوئے اس سے کہا:

اس دشمن خدا خالد ولید نے ایک بے گناہ مسلمان کا قتل کیا ہے اور ایک وحشی کی طرح اس کی بیوی کی عصمت دری کی ہے ۔

جب خالد مدینہ لوٹا ۔سیدھے مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں چلا گیا ۔ اس وقت اس کے تن پر ایک ایسی قبا تھی جس پر لوہے کے اسلحہ کی علامت کے طور پر زنگ کے دھبے لگے ہوئے تھے ، سر پر جنگجوئوں کی طرح ایسا عمامہ باندھا تھا جس کی تہوں میں چند تیر رکھے گئے تھے ۔ جوں ہی عمر نے خالد کو دیکھا ، غضبناک حالت میں اپنی جگہ سے اٹھ کر زور سے اس کے عمامہ سے تیروں کوکھینچے کر نکالا اور انھیں غصے میں توڑ ڈالا اور بلندآوازسے اس سے مخاطب ہو کر کہا:

مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کر کے ایک حیوان کے مانند اس کی بیوی کی عصمت لوٹتے ہو ؟! خدا کی قسم اس جرم میں تجھے سنگار کروں گا !!...

ہم نے اس مطلب کو طبری سے نقل کیا ہے ۔

۲۲۰

ابن خلکان نے بھی اپنی کتاب '' وفیات الاعیان '' میں مالک نویرہ کے بارے میں لکھا ہے:(١٥)

جب مالک نویرہ کو پکڑ کر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ خالد کے پاس لایا گیا تو خالد کی سپاہ کے دو افراد ابو قتاد انصاری اور عبد اللہ بن عمر نے خالد کے پاس مالک کے مسلمان ہونے کی شہادت دی اور اس کی شفاعت کی لیکن خالد نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان دو صحابیوں کی باتیں بھی اسے پسند نہ آئیں ۔

مالک نویرہ نے جب حالت کو اس طرح بگڑ تے اور خطر ناک ہوتے دیکھا اور احساس کیا کہ اس کی جان خطرے میں ہے تو خالد سے مخاطب ہوکر کہا:

اے خالد ! ہمیں ابوبکر کی خدمت میں بھیج دوکہ وہ ذاتی طور پر ہمارے بارے میں فیصلہ کریں ،کیوں کہ تم نے ایسے افراد کے بارے میں ایسا اقدام کیا ہے جن کا گناہ ہم سے سنگین تر تھا۔

خالد نے جواب میں کہا:

خدا مجھے موت دے ، اگر تجھے قتل نہ کروں !!

اسی وقت مالک کو خالد کے اشارہ پر ضرار کے پاس لے گئے تاکہ وہ اس کا سر تن سے جدا کردے ۔ اس حالت میں مالک کی نظر اپنی بیوی ام تمیم پر پڑی ، جو اپنے زمانے کی خوبصورت ترین عورت تھی ۔ مالک نے خالد کی طرف رخ کرکے کہا: اس عورت نے مجھے مروا دیا ؟!

خالد نے جواب میں کہا:

خدا نے تجھے اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہونے کے جرم میں مارا ہے ۔

مالک نے کہا:

میں مسلمان ہوں ۔

۲۲۱

خالد نے بلندآواز میں کہا:

ضرار !کیوں دیرکررہاہے؟ اس کا سر تن سے جدا کردے !!

ابن خلکان مالک کی داستان کو جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتا ہے :

ابوزہرہ سعدی نے مالک کے سوگ میں چند درد ناک اشعار کے ضمن یوں کہا ہے :(۱)

جن سواروں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہماری سر زمین کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ، ان سے کہہ دو کہ مالک کی شہادت کے بعد مصیبت کی شام ہمارے لئے ختم ہونے والی نہیں ہے۔

خالد نے بڑی بے شرمی سے مالک کی بیوی کی عصمت لوٹ لی ،کیوں کہ وہ بہت پہلے سے اسے للچائی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔

خالد نے عقل کی زمام نفسانی خواہشات کے حوالے کی تھی اور اس میں اتنی مردانگی نہیں تھی کہ اپنے دل کو اس سے کھینچ کر اپنے آپ کو کنٹرول کر سکتا ۔مالک کے قتل ہونے کے بعد خالد اپنی دیرینہ آرزو کو پاسکا۔ لیکن مالک نے اس دن اپنی بیوی کی وجہ سے جان دی اور اس کا سب کچھ لٹ گیا۔

____________________

۱ )۔الاقل لحی اوطأوا بالسنابک

تطاول هذا اللیل من بعد مالک

قضی خالد بغیاً علیه لعرسه

و کان له فیها هوی قبل ذالک

فأمضی هواه خالد غیر عاطف

عنان الهوی عنها ولا متمالک

و اصبح ذا اهل، و اصبح مالک

الیٰ غیر شیء هالکاً فی هو الک

فمن للیتامی والارامل بعده

و من للرجال المعدمین الصعالک

اصیبت تمیم غثها و سمینها

بفارسها المرجو سحب الحوالک

۲۲۲

مالک کے بعد اب اس کے یتیموں ، بیوہ ، بوڑھوں اور بے چاروں کا سہارا اور امید کون بن سکتا ہے؟!

قبائل تمیم کے لوگوں نے مالک جیسے شہسوار کو جو ہر بلا کو ان سے دور کرتا تھا ہاتھ سے دینے کے بعد اپنی قیمتی اور معمولی سبھی چیزوں کوکھودیا۔

دو نر و مادہ پیغمبروں کی حقیقت

طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو شخص ''سجاح'' اور ''مسیلمہ'' کے بارے میں اس طرح لکھا ہے:(١٦)

(سیف کے علاوہ ) دوسروں نے لکھا ہے کہ ''سجاح'' اس علاقے میں پہنچی جو پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ''مسیلمہ '' کے تسلّط میں تھا۔ مسیلمہ نے ڈر کے مارے قلعہ کے اندر پناہ لے کر قلعہ کے در وازے اندر سے محکم طور پر بند کر دئے ۔

''سجاح'' جب قلعہ کے سامنے آپہنچی تو قلعہ کی چھت پر بیٹھے مسیلمہ سے یوں مخاطب ہوئی:

قلعہ سے نیچے اتر آؤ!

(گویا''مسیلمہ'' ،''سجاح'' کی باتوں اور اس کی حرکات و سکنات سے سمجھ گیا تھا کہ اس سنف نازک پر غلبہ پایا جاسکتا ہے ۔ اس لئے) جواب میں بولا:

تم پہلے حکم دوکہ تیرے مرید اور حامی تم سے دور ہو جائیں !

'' سجاح'' نے اس تجویز سے موافقت کی اور حکم دیاکہ اس کے مرید اپنے خیموں میں چلے جائیں ۔

مسیلمہ بھی قعلہ سے باہر آیا اور اپنے مریدوں کو حکم دیتے ہوئے کہا:

ہمارے لئے ایک الگ خیمہ نصب کرو اور اس کے اندر عود و عنبر جلا کر معطر کرو تاکہ اس معطر فضا اور حالات سے متأثر ہوکر '' سجاح'' کی نفسانی اور جنسی خواہشات بھڑ ک اٹھیں ۔

مسیلمہ کے حکم کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔ جب '' سجاح '' نے اس خیمہ کے اندر قدم رکھا تا آخر !

۲۲۳

یہاں پر طبری نے پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو نر و مادہ کے درمیان انجام پائی فتگو کو سجعی سے نقل کرکے درج کیا ہے ، درحقیقت پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے ان دو شخصیتوں کے درمیان گفتگو مسیلمہ کی توقع کے عین مطابق انجام پائی اور یہ گفتگو ایک ایسے حساس مرحلے میں داخل ہوئی کہ سر انجام یہ دونوں ہیجان اور جذبات کے عالم میں انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ عقد کر لیا ۔

طبری ان دونوں کی داستان کو اس طرح خاتمہ بخشتا ہے :

سجاح نے مذکورہ خیمہ میں مسیلمہ کے ساتھ تین دن رات گزارے ۔ اس کے بعد جب خیمہ سے نکل کر اپنے مریدوں کے درمیان پہنچی تو اس کے مریدوں نے اس سے سوال کیا :

اچھابتاؤ !مسیلمہ سے ملاقات کرکے تمھیں کیا ملا ؟

سجاح نے جواب میں کہا:

وہ حق پر تھا ! میں بھی اس پر ایمان لائی ۔ حتیٰ اسے اپنا شوہر بنایا ۔

اس سے پوچھا گیا:

اچھابتاؤ !کیا اس نے کسی چیز کو تیرے لئے مہر قرار دیا ؟

( یہ سوال سن کر جیسے سجاح خواب سے بیدار ہوگئی ہو اور تعجب سے کہتی ہے ) کہا :

نہیں !

انھوں نے اس سے کہا:

تم نے یہ اچھا کام نہیں کیا ہے ، لوٹ کر اس کے پاس جاؤ !تم جیسی خاتون کے لئے مناسب نہیں ہے کہ مہر لئے بغیر شوہر سے جدا ہو جائے !!

۲۲۴

سجاح دوبارہ خیمہ کی طرف گئی اور مسیلمہ جو ابھی خیمہ میں ہی تھا سے جاملی ۔ مسیلمہ اس خیال میں تھا کہ اس کا حریف چلا گیا ہے لیکن جب اس نے اسے واپس لوٹتے دیکھا تو فکر مند ہوا اور اس سے پوچھا :

تم تو چلی گئی تھی ! ماجرا کیا ہے ؟

سجاح نے کہا:

میرا مہر، میرے مہر کا کیا ہوگا ؟! تمھیں مہر کے عنوان سے مجھے کچھ دینا چاہئے مسیلمہ نے سجاح کی مانگ کو سن کر اطمینان کا سانس لیا اور سجاح کے مؤذن سے کہا :

اپنے دوستوں میں جاکر اعلان کرو کہ مسیلمہ بن حبیب نے شام اور صبح کی دو نمازیں ، جنھیں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں پر واجب قرار دیا تھا ، کو سجاح کے مہر کے طور پر تمھیں بخش دیا ہے اور اب انھیں انجام دینے کی تکلیف تم لوگوں سے اٹھا دی جاتی ہے !!

اب ہم دیکھتے ہیں کہ مناذر اور تیری کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں کے علاوہ دوسروں نے کیا کہا ہے ؟

ابن حزم اپنی کتاب '' جوامع السیر '' میں لکھتا ہے :

ابو موسیٰ اشعر ی نے عمر کی خلافت کے دوران صوبہ خوزستان کے بعض علاقوں پر زبردستی اور بعض دیگر علاقوں پر صلح ،معاہدوں اور محبت سے قبضہ جما یا تھا ۔(١٧)

ذہبی کتاب '' تاریخ الاسلام '' میں لکھتا ہے :

١٧ھ میں عمر نے ایک فرمان کے تحت بصرہ کی حکومت ابو موسیٰ اشعری کو سونپی اسے حکم دیا کہ اہواز پرلشکر کشی کرکے اس صوبہ پر قبضہ کرلے ۔ (١٨)

بلاذری نے اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

ابو موسیٰ اشعری نے سوق اہواز اور نہر تیری پر قہر و غلبہ سے قبضہ کرلیا ( یہاں تک لکھتا ہے:) ربیع بن زیاد حارثی کو مناذر میں نمائندہ کی حیثیت سے مقرر کیا اور خود تستر ( شوشتر) کی طرف لشکر کشی کی اور اسے اسی سال موسم بہار میں فتح کیا (١٩)

مناذر اور تیری کے بارے میں فتح کی داستان یہی تھی جو ہم نے بیان کی لیکن دلوث نام کی کسی جگہ کا نام ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملاکہ اس کے بارے میں سیف کی باتوں کا موازنہ کریں کیوں کہ یہ جگہ سیف بن عمر کی خیالی پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

۲۲۵

گزشتہ بحث کا خلاصہ اور موازنہ کا نتیجہ

سیف نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں میں چھ افراد کا اضافہ کیا ہے ۔ اسی کی برکت سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی زندگی کے حالات لکھنے والے علماء نے بھی سیف کے ان چھ جعلی اصحاب اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دے کر سیف سے نقل کر کے ان کی زندگی کے حالات لکھے ہیں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن علماء نے سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا ہے ان کی کتابوں میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قسم کے کارندوں اور گماشتوں کا کہیں نام تک نہیں ملتا ۔

اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف بن عمر نے اپنی احادیث ،ایسے راویوں سے نقل کی ہیں کہ حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے اور ہم انھیں سیف کے جعلی راوی محسوب کرتے ہیں ۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ سیف تنہا فرد ہے جو قادسیہ کی جنگ سے پہلے ایک ہر اول دستے کے کمانڈر کی حیثیت سے حصین نامی ایک صحابی کا نام لیتا ہے ۔اور حموی جیسا دانشور اور جغرافیہ کی کتاب ''معجم البلدان '' کا مؤلف اس فرضی حصین کی فتح مناذر کے بعد سیف کے دو جعلی صحابیوں اور سورما حرملہ اور سلمی کے ذریعہ اسے فتح کرنے کے سلسلے میں لکھی گئی دلاوریوں کو اپنی کتاب میں درج کرتا ہے، جب کہ حقیقت میں مناذر کو ''ربیع حارثی قحطانی'' اور دیگر لوگوں نے فتح کیا ہے۔ چونکہ حموی نے ''دلوث'' کا نام بھی اسی حصین کے اشعار میں دیکھا ہے اس لئے اسے بھی ایک حقیقی جگہ کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے!

سیف نے اپنے قبیلہ مضرو تمیم کی حمایت و طرفداری میں تعصبات پر مبنی اپنے اندرونی جذبات اور احساسات کو جواب دینے اور اپنے دشمنوں ، جیسے قبیلہ ٔیمانی قحطانی کی طعنہ زنی کرنے کے لئے مناذر اور تیری کی حدیث کو گھڑ لیا ہے اور ابو موسیٰ اشعری یمانی قحطانی کو خلیفہ عمر کی طرف سے دئے گئے عہدے و منصب سے محروم کر کے اس عہدے پر ایک عدنانی و مضری جعلی فرد '' عتبہ بن غزوان'' کو فائز کیا ہے ۔

۲۲۶

سیف بن عمر اپنے قبیلہ تمیم کے خیالی اور جعلی پہلوانوں حرملہ اور سلمی کو یمانی قحطانی ''ربیع حارثی'' کی جگہ پر بٹھا تا ہے اور اپنے جعلی و خیالی صحابی و شاعر حصین بن نیار حنظلی سے ان کی مداح اور تعریفیں کراتا ہے تا کہ اپنے خاندان تمیم کے افتخارات کی شہرت کودنیا میں چار چاند لگائے !!

مگر، ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف کے ان تاریخی واقعات کے سال کو بدل کر ١٧ھ کو ١٨ ھ لکھنے کا کو نسی چیز سبب بنی ہے؟ جبکہ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ'' عتبہ بن غزوان'' جسے سیف بن عمر نے ابو موسیٰ اشعری کی جگہ پر بٹھادیا ہے ١٨ ھ سے پہلے فوت ہوچکا تھا اور زندہ نہیں تھا تو کہاں سے خلیفہ ٔعمر سے اپنے لئے حکومت اور سپہ سالاری کا فرمان حاصل کرتا!! مگر یہ کہ ہم یہ بات قبول کریں کہ ایک کہ زندیقی نے جس کا سیف پر الزام تھا اپنے خاص مقاصد کے پیش نظر تاریخ اسلام کی روئداد کی تاریخوں میں تصرّف کر کے ایک امت کی تاریخ کو مشکوک بنا کر اسے بے اعتبار اور نا قابل اعتماد بنانے کی کوشش کی ہے !!

ہم نے دیکھا کہ سیف ، پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے دو افراد سجاح و مسیلمہ کے بارے میں کہتا ہے کہ جب سجاح تمیمی نے مسیلمہ سے جنگ نہ کرنے کے معاہدہ پر دستخط کئے تو پہلے مسیلمہ سے یہ طے پایا کہ یمامہ کی پیدا وار کا نصف ہر سال سجاح کو ادا کرے گا۔ دوسرے اگلے سال کے خراج کا نصف بھی اسی سال ادا کرے گا اور اس طرح مسیلمہ اس قسم کے سنگین شرائط کو قبول کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔سجاح نے قرار کے مطابق جو کچھ وصول کرنا تھا کرلیا اور باقی خراج کو وصول کرنے کے لئے نمائندہ مقرر کر کے مسیلمہ سے مرخص ہوتی ہے!!

سیف اس قسم کا افسانہ گھڑ کر صرف اس فکر میں ہے کہ قبیلۂ تمیم کو فخر و مباہات بخشے ، اس لئے لکھتا ہے کہ سجاح نے اس فوج کشی کے نتیجہ میں یمامہ کی پیدا وار کا نصف حصہ حاصل کیا ! جب کہ دوسروں نے لکھا ہے کہ پیغمبر ی کا دعویٰ کرنے والی اس خاتون کو،اس فوج کشی کے نتیجہ میں جو کچھ میسر ہوا، وہ مسیلمہ جیسا شوہر تھا نہ یمامہ کی پیدا وار ۔ اور جو کچھ اس کے مریدوں نے پایا وہ صبح اور مغرب کی نماز وں کا ساقط ہوناتھا ، اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

۲۲۷

ہاں ، قبیلہ تمیم کے بعض افراد کے مرتد ہونے کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے باوجود کہ بنیا دی طور پر کفر و ارتداد ایک شرم آور امر ہے ۔ لیکن سیف وہ شخص نہیں ہے جسے اسلام کی فکر ہو اور اپنے خاندان کے دامن سے ارتداد کے بد نما داغ کو پاک کرنے کی کوشش کرے، بلکہ وہ صرف اس فکر میں ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے قبیلۂ تمیم کے لئے افتخارات میں اضافہ کرے ۔ اسی لئے قبیلۂ تمیم کے مرتد اور مسلمان افراد کو آپس میں لڑاتا ہے اور کسی بھی اجنبی کو قبیلہ تمیم کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیتا، اسی لئے سیف کی حدیث میں ملتا ہے کہ صرف تمیمی مسلمان ہی اس قبیلہ کے مرتدوں کی تنبیہ کرتے ہیں ،کسی او رکو اس امر کی اجازت نہیں دی جاتی ہے !!

لیکن، مالک نویرہ کی داستان، اگر چہ مالک ایک تمیمی فرد ہے اور قاعدے کے مطابق قبیلہ کے تعصبات کے پیش نظر سیف کی ہمدردیاں اس سے مربوط ہونی چاہئے ، لیکن خالد بن ولید جیسے خاندان مضر کے سپہ سالار، شمشیر باز اور تجربہ کار جنگجو کے مقابلے میں مالک کی حیثیت انتہائی پست و حقیر ہے۔ یہاں پر سیف ضعیف کو طاقتور پر قربان کرنے کے قاعدے کے تحت مالک کو مرتد اور سجاح کے شریک کار اور ساتھی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اور ایک افسانہ کے ذریعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خالد بن ولید کے ایک حکم کے سلسلے میں سرزمین بطاح میں کنانہ کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کی وجہ سے مالک نویرہ کو قتل کیا جاتا ہے۔ اس طرح سیف یہ کوشش کرتا ہے کہ خالد مضری کے دامن کو مالک کے ناحق خون سے پاک و مبرّا ثابت کرے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے اور دوسرے مورخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے:

مالک نویرہ اپنے اسلام اور ایمان کے سلسلے میں دفاع کرنے کے لئے خالد سے گفتگو کرتا ہے، لیکن جب اپنے قتل کئے جانے پر خالد کی ہٹ دھرمی کا احساس کرتا ہے تو اپنی عقل و فراست سے سمجھ لیتا ہے کہ یہ اس کی بیوی کی خوبصورتی اور دلفریب حسن و جمال ہے جس کی وجہ سے خالد اسے قتل کرنے پر تُلا ہوا ہے تا کہ اپنی دیرینہ آرزو اور تمنا کو پہنچ سکے۔

۲۲۸

اسی طرح کہا گیا ہے کہ مالک کے مسلمان ہونے اور نماز گزار ہونے کے سلسلے میں ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر کی گواہی بھی نہ فقط کارگر اور مؤثر ثابت نہیں ہوئی بلکہ خالد کو ان کی باتیں ہرگز پسند نہ آئیں اور یہی امر خالد کے لئے مالک کے قتل میں تعجیل کرنے کا سبب بنا۔بالآخر خالد کے اشارہ پر ضرارنے مالک کے سر تن سے جدا کیا ۔اس کے بعد خالد نے اس کے دیگر ساتھیوں کو قتل کرانے کے بعد حکم دیا کہ ان کے سروں کودیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کی مانند) آگ لگا دیں ۔

لکھا گیا ہے کہ عمر نے جب مالک کے قتل کئے جانے کی خبر سنی تو غضبناک ہوئے اور اس سلسلے میں ابوبکر سے گفتگو کی ۔جب عمر خالد کو جنگی اسلحہ کا کثرت سے استفادہ کرنے کی وجہ سے اس کے لباس پر زنگ کے دھبے لگے خاص حالت میں دیکھتے ہے تو غصہ میں آکر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے عمامہ کو پھاڑکر بلند آواز میں کہتے ہیں :مکاری اور ریا کاری سے ایک مسلمان کو قتل کرڈالتے ہو پھر ایک حیوان کی طرح اس کی بیوی سے اپنا منہ کالا کرتے ہو!! خدا کی قسم میں تجھے سنگسارکروں گا!!

اس کے باوجود سیف بن عمر کو خاندانی اور زندیقی تعصب ،اسلام دشمنی پر مجبور کرتاہے۔اسی لئے وہ مالک کے بارے میں پھوہڑپن سے جھوٹ کے پلندے گھڑ لیتاہے تا کہ ''قائد اعظم'' اور '' اسلام کے سپہ سالار'' ،خالد بن ولید مضری کے دامن کو مالک کے نا حق خون سے پاک کرسکے!!

اگر ہم اس کے باوجود بھی فرضاً یہ مان لیں کہ خالد کا یہ قصد و ارادہ نہ تھا کہ مالک کو قتل کرے بلکہ اتفاق سے یہ حادثہ پیش آیاہے اور کنانہ کے لوگوں نے (جو اصلاً خالد کی سپاہ میں موجود نہ تھے ) غلط فہمی سے اسیروں کو گرم کپڑے دینے کے بجائے تلوار سے ان کے سر تن سے جدا کرکے انھیں راحت کردیاہے اور اس میں خالد کا کوئی قصور نہ تھا پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے مقتولین کے سروں کو دیگ میں رکھ کر اس کے نیچے (چولہے کے مانند) کر آگ لگانے کا حکم کیوں دیا اور اس طرح ان کی بے احترامی کی؟!!

۲۲۹

سجاح کے افسانہ کا نتیجہ

سیف بن عمر،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارندوں ،قبیلہ ٔ تمیم کے افراد کے ارتداد ،خاندان تمیم سے پیغمبری کا دعوی کرنے والی ''سجاح'' اور مالک نویرہ و کے بارے میں داستانیں خلق کرکے اپنے خاندان یعنی قبیلہ تمیم کے لئے حسب ذیل فخرومباہات حاصل کرتاہے:

١۔ خاندان تمیم کی خاتون ''سجاح'' پیغمبری کا دعوی کرتی ہے۔قبیلہ بنی حنیفہ کے اپنے دوسرے شریک اور پیغمبری کے مدعی یعنی مسیلمہ سے یمامہ کی پیداوار کا نصف حصہ بعنوان خراج حاصل کرتی ہے تا کہ اسے آزاد چھوڑدے ۔یہ قبیلہ تمیم کے لئے بذات خود ایک عظیم افتخار ہے کہ اس قبیلہ کے پیغمبری کا دعوی کرنے والے مکار اور دھوکہ باز دوسرے جھوٹے پیغمبروں سے برتری رکھتے ہیں اور ان سے باج حاصل کرتے ہیں !!

قبیلہ تمیم کے افراد کے مرتد ہونے کے موضوع کے بارے میں افسانہ میں ایسا دکھاتا ہے کہ اس قبیلہ کے مسلمانوں نے اس قبیلہ کے مرتد ہوئے افراد کی گوشمالی کرنے کے لئے اٹھ کر ان کی سخت تنبیہ کی ہے اور اس طرح تمیمیوں کے اندرونی مسائل میں کسی اجنبی کو دخل دینے کی اجازت نہیں دی ہے اور یہ خود قبیلہ تمیم کے لئے ایک افتخار ہے کہ اپنے قبیلہ کے ارتداد کے مسئلہ کو خود حل کریں اور کسی اجنبی کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہ دیں ۔

٢۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جزیرہ میں ارتداد کی خبر کو جعل کرکے اس کی اشاعت کرتاہے تا کہ اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک سند مہیا ہوجائے جس کے بناء پر وہ آسانی کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے اور خوف و وحشت کے سائے میں پائیدار ہوا ہے نہ کسی اور کی وجہ سے!؟

٣۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے قبیلہ تمیم سے کارندے اور گماشتے خلق کرتاہے تا کہ وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر حقیقی صحابیوں کی فہرست میں قرار پائیں اور ان کے نام طبقات اور رجال کے موضوع پر لکھی گئی دانشوروں کی کتابوں میں درج ہوجائیں !!

۲۳۰

٤۔ علاقہ اہواز میں ایک جگہ کو خلق کرتاہے تا کہ وہ جغرافیہ کی کتابوں میں درج کی جائے۔

٥۔ چند اشعار لکھ کر انھیں اپنے جعلی اور خیالی دلاوروں کی زبان پر جاری کرتاہے تا کہ عربی ادبیات کے خزانوں کی زینت بن جائیں ۔

٦۔ تاریخ اسلام کے اہم واقعات کے سالوں میں تغیر ایجاد کرتاہے ۔ ہماری نظر میں اس سلسلے میں خاص طور پر اس کا اصل محرک سیف کا زندیقی ہونا ہے کہ جس کا اس پر الزام ہے!

سیف نے جو حدیث'' صعب بن عطیہ'' سے روایت کی ہے اس پر علماء نے بہر صورت اعتماد کیاہے اور اس کے چھ جعلی اصحاب کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قرار دیاہے۔ پھر انھیں اپنی کتابوں میں درج کرکے سیف کی حدیث سے ان کی زندگی کے حالات پر

۲۳۱

روشنی ڈالی ہے۔

اس کے علاوہ ان علماء نے ''صفوان بن صفوان '' کو سیف کی احادیث سے صحابی جان کر علیحدہ طور پر اس کی سوانح عمری لکھی ہے ۔چونکہ ہم نے ''صفوان'' کے بارے میں سیف کے خیالات کی مخلوق ہونے پر یقین نہیں کیا ہے اس لئے اس پر بحث نہیں کی۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما

ان تمام افسانوں کو سیف نے انفرادی طور پر خلق کیاہے اور حسب ذیل دانشوروں نے ان افسانوں کی اشاعت کی ہے :

١۔طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں سند کے ساتھ ۔

٢۔ یاقوت حموی نے ''معجم البلدان'' میں سند کے ساتھ ۔

٣۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٤۔ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٥۔ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کرکے۔

٦۔ ابن فتحون نے اپنی کتاب ''التذییل '' میں اپنے پیش رؤں سے۔

٧۔ کتاب '' اسد الغابہ '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔

٨۔ کتاب '' تجرید '' کے مؤلف نے طبری سے نقل کرکے۔

٩۔ابن حجر نے ''الاصابہ'' میں سیف بن عمر اور طبری سے نقل کرکے ۔

١٠۔''مراصد الاطلاع'' کے مولف نے یاقوت حموی سے نقل کرکے۔

۲۳۲

انیسواں جعلی صحابی زر بن عبد اللہ الفقیمی

دو مہاجر صحابی

زر بن عبد اللہ الفقیمی کا کتاب '' اسد الغابہ'' میں اس طرح تعارفی کیا گیا ہے:

طبری نے لکھا ہے کہ''زر'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور مہاجرین میں سے تھا۔زر خوزستان کی فتح میں مسلمان فوجیوں کے کمانڈروں میں سے ایک کمانڈر تھا ۔وہ اس لشکر کا کمانڈر تھا جس نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں قرار دیا اور سر انجام جندی شاپور صلح ومذا کرہ کے نتیجہ میں فتح ہوا ۔

اسی مطلب کو ذہبی نے خلاصہ کے طور پر ''اسدالغابہ ''سے نقل کرکے اپنی کتاب ''تجرید '' میں درج کیا ہے ۔

زبیدی نے بھی لفظ ''زر''کے بارے میں اپنی کتاب ''تاج العروس ''میں لکھا ہے :

طبری نے کہا ہے کہ ''زربن عبداللہ الفقیمی ''رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی اور فوج کا کمانڈر تھا۔

چونکہ ان تمام کے تمام دانشوروں نے ''زربن عبداللہ''کو طبری سے نقل کرکے اس کی تشریح کی ہے ، اس لئے ہم بھی زر کی روایت کے بارے میں طبری کی طرف رجوع کرتے ہیں تا کہ یہ دیکھ لیں کہ طبری نے اس خبر کو کہاں سے حاصل کیا ہے ۔

زرّ کا نام و نسب

طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :

زرّ بن عبد اللہ ، کلیب فقیمی کا نواسہ اور خاندان تمیم و عدنان سے تعلق رکھتا ہے ۔

طبری نے رامہر مزکی فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے لکھا ہے :''اسود ''و'' زر'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان اصحاب اور مہاجر ین میں سے ہیں جنھوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو درک کیا ہے ،

زر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور پہنچا اور آپ کی خدمت میں عرض کی : خاندان '' فقیم '' کے افراد دن بدن گھٹ رہے ہیں اور اس طرح یہ خاندان نابود ہو رہا ہے جب کہ تمیم کے دوسرے قبیلوں کی آبادی بڑھ رہی ہے ۔ کیا کیا جائے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ہاں ہمارے لئے دعا فرمائیں ؟!

۲۳۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور فرمایا: خدا وند ا !خاندان '' زر'' کو کثرت دے اوران کی تعداد میں ا !!

یہی سبب بنا کہ خاندان زر کی نسل بڑھی اور ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ۔ دوسروں نے بھی سیف کی اسی روایت کو طبری سے استناد کرکے لکھا ہے :

زران افراد میں سے ہے جنھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور میں شرف یاب ہوکر آپ سے گفتگو کرنے کا فخر حاصل کیاہے ۔ اس کے علاوہ وہ مہاجر ین میں سے تھا ۔

طبری فتح '' ابلہ '' کے سلسلے میں ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں لکھتا ہے :

خالد بن ولید نے مال غنیمت کے طور پر حاصل کئے گئے ہاتھی اور دیگر غنائم کے پانچویں حصے کو زر کے ذریعہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ بھیجا ۔ہاتھی کی مدینہ کی گلی کوچوں میں نمائش کی گئی تاکہ لوگ اس کا مشاہدہ کریں ۔عورتیں عظیم الجثہ ہاتھی کو دیکھ کر تعجب میں پڑگئیں اور حیرت کے عالم میں ایک دوسرے سے کہتی تھیں :کیا یہ عظیم الجثہ حیوان خدا کی مخلوق ہے ؟!کیوں کہ وہ ہاتھی کو انسان کی مخلوق تصور کرتی تھیں ۔ابوبکر نے حکم دیا کہ ہاتھی کو ''زر ''کے ساتھ واپس بھیج دیا جائے ۔

طبری اس داستان کے ضمن میں لکھتا ہے :

''ابلہ ''کی فتح کے بارے میں سیف کی یہ داستان تاریخ نویسوں اور واقعہ نگاروں کے بیان کے بر خلاف ہے ۔ کیوں کہ صحیح اخبار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں فتح ہوا ہے نہ خلافت ابوبکر کے زمانہ میں اور یہ فتح و کامرانی عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں ١٤ھ میں حاصل ہو ئی ہے نہ ١٢ھ میں ۔ جب ہم اس زمانہ کی بحث پر پہنچے گیں تو اس جگہ کی فتح کی کیفیت پر بحث کریں گے ۔ ( طبری کی بات کا خاتمہ)

۲۳۴

ایک مختصر موازنہ

١۔ طبری وضاحت کرتا ہے کہ شہر '' ابلہ '' ١٤ھ میں خلافت عمر کے زمانہ میں فتح ہوا ہے نہ کہ ١٢ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانہ میں !

٢۔ اس جنگ کی کمانڈ''عتبہ بن غزوان ''کے ہاتھ میں تھی نہ کہ ''خالد بن ولید ''کے ہاتھ میں ۔ اس فتح وپیروزی کی نوید ''نافع ''نے خلیفہ کو پہنچائی تھی نہ کہ''زر بن عبداللہ فقیمی ''نے!

اس کے علاوہ جوکچھ طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے ١٤ھکے حوادث کے ضمن میں بیان کیا ہے ۔جیسے ''زر''کاموضوع اور جنگی غنائم کاپانچواں حصہ اور مذکورہ ہاتھی وغیرہ ۔سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتوں میں کسی صورت میں نہیں ملتا ۔خاص کر مدینہ کی عورتوں نے اس زمانے میں قرآن مجید کے سورۂ فیل کوکئی بار پڑھاتھا اور ہاتھی و ابرہہ کی لشکرکشی کی داستان اس زمانے میں زبان زد خاص وعام تھی ،کیونکہ یہ حادثہ تاریخ کی ابتدا ء قرار پایا تھا۔ لہٰذا عظیم الجثہ ہاتھی کاوجود ان کے لئے تعجب کا سبب نہیں بن سکتا ۔

سیف نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا اور اس کادعویٰ کیا ہے وہ سب تاریخی حقائق کے بر خلاف ہے ۔ہم نے گزشتہ بحث میں خاص کر''زیاد''کے افسانہ میں اس امر کی طرف اشارہ کیاہے۔

جندی شاپور کی صلح کاافسانہ

طبری نے سیف سے نقل کرکے ١٧ھکے حوادث کے ضمن میں ''شوش''کی فتح کے بارے میں لکھاہے :

''زر''نے اس سال نہاوند کامحاصرہ کیا اور

اس کے بعد ایک دوسری حدیث میں سیف سے نقل کرکے لکھتاہے :

عمر نے ایک تحریری فرمان کے ذریعہ ''زر''کو حکم دیا کہ ''جندی شاپور ''کی طرف لشکرکشی کرے۔''زر''نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جندی شاپور پرچڑھائی کی اور اسے اپنے محاصرہ

۲۳۵

میں لے لیا.....

ایک دوسری حدیث میں ذکر کیا ہے :

صحابی ''ابوسبرہ'' ( ۱) نے حکم دیا کہ '' زر و مقترب ''جندی شاپور پرلشکر کشی کریں اور خود بھی شوش کو فتح کرنے کے بعد اپنا لشکر لے کران کی طرف بڑھااور اس وقت وہاں پہنچا جب زر نے جندی شاپور کو اپنے محاصرہ میں لے لیا تھا ۔

اسی حالت میں کہ جندی شاپور اسلام کے سپاہیوں کے محاصرہ میں تھا اور مسلمان وہاں کے لوگوں سے جنگ میں مصروف تھے ، انھوں نے ایک دن دیکھا کہ اچانک قلعہ کے دروازے کھل گئے

____________________

v ۱)۔ ابو سبرہ بن ابی رہم عامری قرشی نے اسلام کی تمام ابتدائی جنگوں میں شرکت کی ہے '' ابو سبرہ'' نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مکہ میں رہائش اختیار کی اور عثمان کی خلافت کے دوران وہیں پر وفات پائی ۔ '' استیعاب ٨٢٤، اسد الغابہ ٢٠٧٥ اور اصابہ ٨٤٤۔

۲۳۶

اور لوگ خوشی خوشی اور کھلے دل سے عرب جنگجوئوں کا استقبال کرنے لگے اور بازار کے دروازے بھی ان کے لئے کھول دیئے ۔

مسلمانوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا ، تو ایرانیوں نے جواب دیا :

تم لوگوں نے قلعہ کے اندر ایک ایسا تیرے پھینکا جس کے ساتھ امان نامہ تھا ہم نے آپ کے امان نامہ کو قبول کیا ۔

مسلمانوں نے کہا:

ہم نے ایسا کوئی امان نامہ تمھارے پاس نہیں بھیجا ہے !

اس کے بعد تحقیق کرنے لگے تومعلوم ہوا کہ مکنف نامی ایک غلام نے یہ کام کیا تھا ، وہ خود بھی جندی شاپو ر کا باشندہ تھا۔ اس کے بعد ایرانیوں سے کہا: یہ مرد ایک غلام تھا ، اس کے امان نامہ کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ۔ ایرانیوں نے جواب میں کہا :

ہم تمھارے غلام اور آزاد کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دی ہم نے اسے قبول کیا اور ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے اب یہ آپ کا کام ہے ، اگر چاہیں ہو تو خیانت کر سکتے ہیں ؟!

ایرانیوں کے اس قطعی جواب کی وجہ سے مسلمان مجبور ہوئے اوروظیفہ واضح ہونے کے لئے اس سلسلے میں خلیفہ عمر کو خبر دی تاکہ وہ اس سلسلہ میں حکم فرمائیں ، اس دوران ایرنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ عمر نے مکنف کے امان نامہ کو قبول کیا اور اس طرح جندی شاپور کے لوگ مکنف کی پناہ میں آگیا اور مسلمانوں نے ان پر حملہ نہیں کیا !

جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ، اس داستان کو طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے جندی شاپور کی صلح کے بارے میں اپنی تاریخ کبیر میں درج کیا ہے ۔ اور ابن اثیر ،ابن کثیر اور ابن خلدون نے بھی اسے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں روایت کے منبع کا ذکر کئے بغیر درج کیا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب عبد اللہ ابن سبا کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ان دانشوروں نے وہ روایات اور واقعات جو بہر صورت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب سے مربوط ہیں ، بلا واسطہ اور براہ راست طبری سے نقل کئے ہیں اور انھوں نے اس مطلب کی اپنی کتابوں کی ابتدا ء میں وضاحت کی ہے ۔

۲۳۷

حموی اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں جندی شاپور کے سلسلے میں لکھی گئی ایک تشریح کے ضمن میں اسی روایت کو لکھ کر اس کے آخر میں یوں رقم طراز ہے :

عاصم بن عمرو نے ( وہی سورما جس کے حالات اسی کتاب کی پہلی جلد میں لکھے گئے ) مکنف کے اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں :

اپنی جان کی قسم !مکنف کی رشتہ داری صحیح تھی اس نے ہرگز اپنے شہریوں کے ساتھ قطع رحم نہیں کیا !!

اشعار کو اپنی جگہ پر ہم نے آخر تک درج کیا ہے ۔ حموی اپنی بات کی انتہا پر کہتا ہے کہ اس مطلب کو سیف بن عمر نے کہا ہے ۔

اسی داستان کو حمیری نے بھی اپنی کتاب '' الروض لمعطار '' میں درج کیا ہے۔

جندی شاپور کی داستان کے حقائق

جندی شاپور کی صلح کے بارے میں جو داستان سیف بن عمر نے گڑھی ہے اور دوسرے مؤلفین نے بھی اسے نقل کیا ہے ، اس پر بحث ہوئی ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں دوسروں نے کیا کہا ہے:

بلاذری کہتا ہے :

شوشتر کو فتح کرنے کے بعد ابو موسیٰ اشعری نے جندی شاپور کی طرف فوج کشی کی ۔چونکہ جندی شاپور کے باشندے مسلمانوں کے حملے کے بارے میں سخت پریشان اور مضطرب تھے ۔اس لئے انہوں نے قبل ازوقت امان کی در خواست کی اور اپنی اطاعت کا اعلان کیا۔ ابوموسیٰ اشعری نے بھی جندی شاپور کے باشندوں سے معاہدہ کیا کہ جنگ کے بغیرہتھیار ڈالنے کی صورت میں ان کی جان، مال اور آزادی اسلام کی پناہ میں محفوظ ہوں گے ۔

یہ وہ روایت ہے جسے بلاذری نے جندی شاپور کی فتح کے بارے میں اپنی کتاب میں درج کیاہے ۔خلیفہ بن خیاط (وفات ٢٤٠ھ)اور ذہبی (وفات ٧٤٨ھ )نے بھی خلاصہ کے طور پر اسے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔

یاقوت حموی نے بھی دونوں روایتوں کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں درج کیا ہے۔

۲۳۸

ان دو کی روایتوں کا مختصر موازنہ

مورخین نے لکھا ہے کہ جندی شاپور کی صلح کا سبب مسلمانوں کے حملہ سے ایرانیوں کا خوف وحشت تھا ، ئہ یہ مطلب جو سیف کہتا ہے کہ : یہ امان ایک ایر انی الاصل غلام مکنف کی وجہ سے ملا ہے ، اور ا س ا ما ن نامہ کو قبول یا ر د کرنے کے سلسلے میں ا ختلا ف پید ا ہونے پر خلیفہ عمر نے اس کی تائید کی ہے

اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ جندی شاپور کی جنگ میں سپہ سالار اعظم '' ابو موسیٰ اشعری'' یمانی قحطانی تھا نہ جیسا کہ سبرہ قرشی عدنانی ،جسے سیف بن عمر تمیی نے معین کرکے زر اور اسود نامی دو جعلی اصحاب بھی اس کی مدد کے لئے خلق کئے ہیں :

سیف کہتا ہے :

زر بن کلیب اور مقترب کو خلیفہ عمر نے اپنے ایلچی کے طور پر بصرہ کے گورنر نعمان کے پاس بھیجا اور ان کے ذریعہ نعمان کو یہ پیغام دیا :

میں نے تجھے ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے انتخاب و مامور کیا ہے اس سلسلے میں اقدام کرنا ۔

لیکن بلاذری اس سلسلے میں لکھتا ہے:

۲۳۹

خلیفہ عمر نے سائب بن اقرع ثقفی(۱) کے ہاتھ نعمان کے نام ایک خط بھیجا اور اسے ایرانیوں سے جنگ کرنے کی ماموریت دی ۔ اس کے علاوہ حکم دیا کہ جنگی غنائم کی ذمہ داری سائب بن اقرع کو سونپی جائے ۔

زر ،فوجی کمانڈر کی حیثیت سے

سیف نے نہاوند کی جنگ کی روایت کے ضمن میں لکھا ہے:

خلیفہ عمر نے اہواز و فارس میں معین کمانڈرروں سلمی ، حرملہ ، زر بن کلیب اور متقرب وغیرہ کو لکھا کہ ایرانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کو روک لیں اور انھیں مسلمانوں اور امت اسلامیہ کی سر زمین پر نفوذ کرنے کی اجازت نہ دیں ، اور میرے دوسرے فرمان کے پہنچنے تک ایرانیوں کو نہاوند کی جنگ میں مدد پہنچانے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے فارس اور اہواز کی سر حدوں پر چوکس رہیں ۔

خلیفہ کے فرمان کو اس وقت عملی جامہ پہنایا گیا جب مذکورہ چار صحابی اور پہلوان اصفہان اور فارس کی سرحدوں کے نزدیک پہنچ چکے تھے اور اس کے نتیجہ میں وہ نہاوند میں لڑنے والے ایرانی فوجیوں کو رسد اور امداد پہنچانے میں رکاوٹ بنے !!

____________________

الف )۔ سائب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں ایک چھوٹا بچہ تھا ، رسول خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر پھیرکر اس کے حق میں دعا کی تھی ۔ سائب نے عمر کا خط نعمان مقرن کو پہنچادیا اور خود نہاوند کی جنگ میں شرکت کی سائب عمر کی طرف سے اصفہان اور مدائن کا گونر بھی رہا ہے ۔ '' اسد الغابہ ٢٤٩٢''

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371